۔ (۴۳۱۶) عَنْ نَافِعٍ قَالَ: کَانَ ابْنُ عُمَرَ رضی اللہ عنہما إِذَا دَخَلَ أَدْنَی الْحَرَمِ أَمْسَکَ عَنِ التَّلْبِیَۃِ، فَإِذَا انْتَہٰی إِلٰی ذِی طُوًی بَاتَ فِیْہِ حَتّٰییُصْبِحَ، ثُمَّ یُصَلِّی الْغَدَاۃَ وَیَغْتَسِلُ، وَیُحَدِّثُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَیَفْعَلُہُ، ثُمَّ یَدْخُلُ مَکَّۃَ ضُحًی فَیَأْتِی الْبَیْتَ ضُحًی فَیَأْتِیْ الْبَیْتَ فَیَسْتَلِمُ الْحَجَرَ، وَیَقُوْلُ: بِاسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ، ثُمَّ یَرْمُلُ ثَلَاثَۃَ أَشْوَاطٍ، یَمْشِی مَا بَیْنَ الرُّکْنَیْنِ، فَإِذَا أَتٰی عَلَی الْحَجَرِ اسْتَلَمَہُ وَکبَرَّ، أَرْبَعَۃَ أَطْوَافٍ مَشْیًا ثُمَّ یَأْتِی الْمَقَامَ فَیُصَلِّی رَکْعَتَیْن ثُمَّ یَرْجِعُ إِلَی الْحَجَرِ فَیَسْتَلِمُہُ، ثُمَّ یَخْرُجُ إِلَی الصَّفَا مِنَ الْبَابِ الْأَعْظَمِ فَیَقُوْمُ عَلَیْہِ فَیُکَبِّرُ سَبْعَ مِرَارٍ، ثَلَاثًا یُکَبِّرُ ثُمَّ یَقُوْلُ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ
وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ (مسند احمد: ۴۶۲۸)
۔ نافع بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب حرم کے قریب پہنچتے تو تلبیہ پکار نا بند کردیتے اور جب ذی طوی میں پہنچتے تو رات وہاں بسر کرتے، جب صبح ہوجاتی تو نمازِ فجر کے بعد غسل کرتے اور بیان کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے ہی کیا کرتے تھے، اس کے بعد چاشت کے وقت مکہ میں داخلہ ہوتے، بیت اللہ میں جاکر حجر اسود کو استلام کرتے اور کہتے: بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ، پھر طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کرتے اور رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان عام رفتا ر سے چلتے، جب حجر اسود کے قریب آتے تو اس کا استلام کرتے اور اَاللّٰہُ اَکْبَرُ کہتے۔ باقی چارچکروں میں عام رفتار سے چلتے، بعد ازاں مقامِ ابراہیم کے پاس آکر دو رکعت اداکرتے، اس کے بعد پھر حجر اسود کے پاس آکر اس کا استلام کرتے، پھر بڑے دروازے کے راستہ سے صفا کی طرف جاتے، اس کے اوپر کھڑے ہوکر سات دفعہ تکبیر کہتے، ان میں سے تین بار اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہتے اور یہ دعا پڑھتے: لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ،لَہُالمُلْکُوَلَہُالْحَمْدُ،وَھُوَعَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیرٌ۔