52 Results For Hadith (Musnad Ahmad ) Book ()
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3356

۔ (۳۳۵۶) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَقْبَلُ الصَّدَقَاتِ وَیَأْخُذُہَا بِیَمِیْنِہِ فَیُرَبِّیْہَا لِأَحَدِکُمْ کَمَا یُرَبِّیْ أَحَدُکُمْ مُہْرَہُ أَوْ فَلُوَّہُ أَوْ فَصِیْلَہُ حَتّٰی إِنَّ اللُّقْمَۃَ لَتَصِیْرُ مِثْلَ جَبَلِ أُحُدٍ، قَالَ وَکِیْعٌ فِی حَدِیْثِہِ: وَتَصْدِیْقُ ذَالِکَ فِی کِتَابِ اللّٰہِ {وَہُوَ الَّذِی یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہِ وَیَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ} {وَیَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبَا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ۔} (مسند احمد: ۱۰۰۹۰)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ صدقات کو قبول کرتا ہے اور ان کو دائیں ہاتھ میں وصول کرتا ہے، پھر وہ ان کو یوں بڑھاتا رہتا ہے، جیسے تم میں سے کوئی گھوڑی، اونٹنی یا گائے کے بچے کی پرورش کرتا ہے،یہاں تک کہ ایک لقمہ احد پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔ وکیع نے اپنی روایت میں کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اس فرمان کی تصدیق قرآن مجید کی ان آیات سے ہوتی ہے: اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کے صدقات کو پکڑ لیتا ہے۔ (سورۂ توبہ:۱۰۴) اور اللہ سود کو ختم کرنا اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ (سورۂ بقرۃ:۲۸۶)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3357

۔ (۳۳۵۷) وَعَنْہُ أَیْضًا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَا مِنْ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ مِنْ طَیِّبٍ، وَلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا طَیِّبًا وَلاَ یَصْعَدُ إِلَی السَّمَائِ إِلَّا طَیِّبٌ إِلَّا وَہُوَ یَضَعُہَا فِی یَدِ الرَّحْمٰنِ أَوْ فِی کَفِّ الرَّحْمٰنِ فَیُرَبِّیہَا لَہُ کَمَا یُرَبِّیْ أَحْدُکُمْ فَلُوَّہُ أَوْ فَصِیْلَہُ حَتّٰی إِنَّ التَّمْرَۃَ لَتَکُوْنُ مِثْلَ الْجَبْلِ الْعَظِیْمٍ۔)) (مسند احمد: ۹۴۱۳)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو مومن حلال اور پاکیزہ کمائی میں سے صدقہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی صرف پاکیزہ ہی کو قبول فرماتا ہے اور آسمان کی طرف بھی صرف یہی حلال کمائی چڑھتی ہے، بہرحال اللہ تعالیٰ اس (صدقہ کو) اپنے ہاتھ میں لے کر یوں بڑھاتا رہتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی گھوڑی، یا گائے کے بچے کو پالتا ہے، یہاں تک کہ ایک کھجور بہت بڑے پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3358

۔ (۳۳۵۸) وَعَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَحْوَہُ۔ (مسند احمد: ۲۶۵۰۳)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اسی قسم کی حدیث بیان کی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3359

۔ (۳۳۵۹) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَثَلُ الْبَخِیْلِ وَالْمُتَصَدِّقِ مَثَلُ رَجُلَیْنِ عَلَیْہِمَا جُبَّتَانِ مِنْ حَدِیْدٍ قَدِ اضْطُرَّتْ أَیْدِیْہِمَا إِلٰی تَرَاقِیْہِمَا، فَکُلَّمَا ہَمَّ الْمُتَصَدِّقُ بِصَدَقَۃٍ اتَّسَعَتْ عَلَیْہِ حَتّٰی تُعَفِّیَ أَثَرَہُ، وَکُلَّمَا ہَمَّ الْبَخِیْلُ بِصَدَقَۃٍ انْقَبَضَتْ عَلَیْہِ کُلُّ حَلْقَۃٍ مِنْہَا إِلٰی صَاحِبَتِہَا وَتَقَلَّصَتْ عَلَیْہِ۔۔)) قَالَ فَسَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((فَیَجْہَدُ أَنْ یُوَسِّعَہَا فَلاَ تَتَّسِعُ۔)) (مسند احمد: ۹۰۴۵)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بخل کرنے والے اور صدقہ کرنے والے کی مثال ان دو آدمیوں کی سی ہے جن پر لوہے کے دو جُبّے ہوں اور ان کے ہاتھ ہنسلی کی ہڈیوں تک باندھ دیئے گئے ہوں، جب صدقہ کرنے والا صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا جبہ اس حد تک کھل کر وسیع ہو جاتا ہے کہ اس کے پاؤں کے نشان مٹانے لگ جاتا ہے، لیکن جب بخیل آدمی صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے جبہ کا ایک ایک حلقہ سکڑ کر اس کے اوپر بری طرح تنگ ہو جاتا ہے۔ پھر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: پھر وہ اپنے جبہ کو کھلا کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے مگر وہ وسیع نہیں ہوتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3360

۔ (۳۳۶۰) عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا طَلَعَتْ شَمْسٌ قَطُّ إلِاَّ بُعِثَ بِجَنْبَتَیْہَا مَلَکَانِ یُنَادِیَانِ یُسْمِعَانِ أَہْلَ اْلأَرْضِ إِلَّا الثَّقَلَیْنِ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ! ہَلُمُّوْا إِلٰی رَبِّکُمْ فَإِنَّ مَاقَلَّ وَکَفٰی خَیْرٌ مِمَّا کَثُرَ وَ أَلْہٰی وَلَاآبَتْ شَمْسٌ قَطُّ إِلَّا بُعِثَ بِجَنْبَتَیْہَا مَلَکَانِ یُنَادِیَانِ یُسْمِعَانِ أَہْلَ الْأَرْضِ إلِاَّ الثَّقَلَیْنِ: اَللّٰہُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا وَأَعْطِ مُمْسِکًا مَالاً تَلَفًا۔)) (مسند احمد: ۲۲۰۶۴)
سیدنا ابودرداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کے دونوں پہلوئوں میں دو فرشتے بھیجے جاتے ہیں، وہ جن و انس کے علاوہ روئے زمین کی ہر چیز کو سناتے ہوئے اعلان کرتے ہیں: لوگو! اپنے پروردگار کی طرف آجائو، بے شک کم مقدار اور کفایت کرنے والی چیز اس سے بہتر ہے جو زیادہ تو ہو مگر غافل کر دے، اسی طرح جب سورج غروب ہوتا ہے تو اس وقت بھی دو فرشتے اس کے دونوں پہلوئوں میں بھیجے جاتے ہیں اور جن وانس کے علاوہ باقی اہل زمین کو سناتے ہوئے یہ اعلان کرتے ہیں: اے اللہ! اپنی راہ میں خرچ کرنے والے کو اس کا نعم البدل عطا فرما اور بخیل کے مال کو تلف کردے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3361

۔ (۳۳۶۱) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: یَا ابْنَ آدَمَ! اَنْفِقْ اُنْفِقْ عَلَیْکَ، وَقَالَ: یَمِیْنُ اللّٰہِ مَلْأٰی سَحَّائُ، لَایَغِیْضُہَا شَیْئٌ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ۔)) (مسند احمد: ۷۲۹۶)
سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیان کیا کہ: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ابن آدم! تو (میری راہ میں) خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا اور ہمیشہ عطا کرنے والا ہے اور رات اور دن میں (خرچ کی جانے والی) کوئی چیز اس میں کمی نہیں کر سکتی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3362

۔ (۳۳۶۲) وَعَنْہُ أَیْضًا عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((بَیْنَمَا رَجُلٌ بِفَلَاۃٍ مِنَ الْأَرْضِ فَسَمِعَ صَوْتًا فِی سَحَابَۃٍ: اِسْقِ حَدِیْقَۃَ فُلَانٍ، فَتَنَحّٰی ذَالِکَ السَّحَابُ فَأَفْرَغَ مَائَہُ فِی حَرَّۃٍ، فَانْتَہٰی إِلٰی الْحَرَّۃِ، فَإِذَا ہُوَ فِی أَذْنَابِ شِرَاجٍ، وَإِذَا شَرْجَۃٌ مِنْ تِلْکَ الشِّرَاجِ قَدِ اسْتَوْعَبَتْ ذَالِکَ الْمَائَ کُلَّہُ، فَتَبِعَ الْمَائَ فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِی حَدِیْقَتِہِ یُحَوِّلُ الْمَائَ بِمِسْحَاتِہِ، فَقَالَ لَہُ: یَا عَبْدَ اللّٰہِ! مَا اسْمُکَ؟ قَالَ: فُلَانٌ بِالْاِسْمِ الَّذِی سَمِعَ فِی السَّحَابَۃِ، فَقَالَ لَہُ: یَا عَبْدَ اللّٰہِ! لِمَ تَسْأَلُنِیْ عَنِ اسْمِی؟ قَالَ: إِنِّیْ سَمِعْتُ صَوْتًا فِی السَّحَابِ الَّذِی ہٰذَا مَاؤُہٗ،یَقُوْلُ: اِسْقِ حَدِیْقَۃَ فُلَانٍ لِاِسْمِکَ، فَمَا تَصْنَعُ فِیْھَا؟ قَالَ: أَمَّا اِذَا قُلْتَ ھٰذَا، فَإِنِّی أَنْظُرُ إِلٰی مَا خَرَجَ مِنْہَا فَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثِہِ وَآکلُ أَنَا وَعِیَالِی ثُلُثَہُ وَأَرُدُّ فِیْہَا ثَلُثَہُ۔)) (مسند احمد: ۷۹۲۸)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک آدمی ایک جنگل میں تھا کہ اس نے بادل میں یہ آواز سنی: (بادل!) فلاں آدمی کے باغ کو سیراب کر۔ وہ بادل ایک طرف کو چل پڑا اور جا کر ایک پختہ زمین پر برسا، جب یہ آدمی وہاں پہنچا تو وہ کیا دیکھتا ہے کہ سارا پانی جمع ہو کر مختلف نالیوں سے ہوتا ہوا ایک بڑے نالے کی صورت بن گیا۔ یہ آدمی پانی کے ساتھ ساتھ چل پڑا، آگے جا کر دیکھا کہ ایک آدمی اپنے باغ میں کھڑا اپنی کَسّی سے پودوں کو پانی لگا رہا ہے۔ اس نے پوچھا: اللہ کے بندے! تیرا نام کیا ہے؟ اس نے وہی نام بتایا جو اس نے بادل میں سنا تھا۔ باغ والے نے کہا: اللہ کے بندے! تو میرا نام کیوں پوچھتا ہے؟ اس نے کہا: جس بادل کا یہ پانی ہے، میں نے اس میں آواز سنی تھی، تمہارا نام لے کر کہا گیا کہ جا کر اس کے باغ کو سیراب کر۔ لہٰذا اب آپ یہ بتائیں کہ آپ کونسا کوئی خاص کام کرتے ہیں؟ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت آپ کو حاصل رہتی ہے؟ باغ والے نے کہا: آپ نے پوچھ ہی لیا ہے تو سنو! میں اس باغ کی کل آمدنی میں سے ایک تہائی اللہ کی راہ میں صدقہ کر دیتا ہوں، ایک تہائی میں اور میرے اہل وعیال کھا لیتے ہیں اور ایک تہائی اسی باغ پر خرچ کرتا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3363

۔ (۳۳۶۳) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌أَنَّہُ قَالَ: أَتٰی رَجُلٌ مِنْ بَنِی تَمِیْمٍ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنِّیْ ذُوْمَالٍ کَثِیْرٍ وَذُوْ أَہْلٍ وَوَلَدٍ وَحَاضِرَۃٍ، فَاَخْبِرْنِی کَیْفَ اُنْفِقُ وَکَیْفَ أَصْنَعُ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((تُخْرِجُ الزَّکَاۃَ مِنْ مَالِکَ،فَإِنَّہَا طُہْرَۃٌ تُطَہِّرُکَ، وَتَصِلُ أَقْرِبَائَکَ وَتَعْرِفُ حَقَّ السَّائِلِ وَالْجَارِ وَالْمِسْکِیْنِ۔)) فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَقْلِلْ لِیْ۔ قَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَآتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہُ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًاَ)) قَالَ: حَسْبِی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِذَا أَدَّیْتُ الزَّکَاۃَ إِلٰی رَسُوْلِکَ فَقَدْ بَرِئْتُ مِنْہَا إِلٰی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((نَعَمْ إِذَا أَدَّیْتَہَا إِلٰی رَسُوْلِیْ فَقَدْ بَرِئْتَ مِنْھَا، فَلَکَ أَجْرُہَا وَإِثْمُہَا عَلٰی مَنْ بَدَّلَہَا۔)) (مسند احمد: ۱۲۴۲۱)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: بنو تمیم کا ایک آدمی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں کافی مال دار ہوں اور میرا خاندان بھی بڑا ہے، بچے بھی ہیں اور میرے ہاں مہمان بھی بکثرت آتے ہیں، اب آپ مجھے بتائیں کہ میں مال کیسے خرچ کروں یا کیا کروں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنے مال کی زکوۃ ادا کیا کر، یہ پاکیزہ عمل تجھے پاک کر دے گا، اسی طرح اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کیا کر اور تجھے سائل، پڑوسی اور مسکین کے حق کی بھی معرفت ہونی چاہیے۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! ان باتوں کو میرے لیے ذرا اختصار کے ساتھ واضح کرو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنے رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں کو ان کے حقوق ادا کر اور فضول خرچی سے بچ۔ یہ سن کر اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ میرے لیے کافی ہے کہ جب میں آپ کے قاصد کو زکوۃ ادا کردوں تو کیا میں اللہ اور رسول کے ہاں اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو جائوں گا؟رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، جب تو میرے قاصد کو زکوۃ ادا کردے گا تو تو اس سے بری ہو جائے گا اور تجھے اس کا اجر مل جا ئے گا، ہاں جو اس کو (ناجائز انداز میں) تبدیل کر دے گا تو اس کا گناہ اسی پر ہی ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3364

۔ (۳۳۶۴) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَا بَعَثَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌إِلٰی الْیَمَنِ، قَالَ: ((إِنَّکَ تَأْتِیْ قَوْمًا أَہْلَ کِتَابٍ، فَادْعُہُمْ إِلٰی شَہَادَۃِ أَنْ لَّااِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَإِنْ ہُمْ أَطَاعُوْکَ لِذَالِکَ فَأَعْلِمْہُمْ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اِفْتَرَضَ عَلَیْہِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِی کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ فَإِنْ ہُمْ أَطَاعُوْکَ لِذَالِکَ، فَأَعْلِمْہُمْ أَنَّ اللّٰہَ افْتَرَضَ عَلَیْہِمْ صَدَقَۃً فِی أَمْوَالِہِمْ تُؤْخَذُ مِنْ اَغْنِیَائِہِمْ، وَتُرَدُّ فِی فُقُرَائِہِمْ فَإِنْ ہُمْ أَطَاعُوَکَ لِذَالِکَ فَإِیَّاکَ وَکَرَائِمَ أَمْوَالِہِمْ ، وَاتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ فَإِنَّہَا لَیْسَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ حِجَابٌ)) (مسند احمد: ۲۰۷۱)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو ان سے فرمایا: تم اہل کتاب لوگوں کے ہاں جا رہے ہو، تم سب سے پہلے ان کویہ دعوت دینا کہ وہ یہ شہادت دیں کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات تسلیم کر لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان کے مالوں پر زکوۃ بھی فرض کی ہے جو ان کے مالدار وں سے لے کر ان کے فقیروں میں تقسیم کی جائے گی۔ اگر وہ تمہاری یہ بات بھی تسلیم کر لیں تو (زکوۃ لیتے وقت) ان کے قیمتی مال سے بچنا اورمظلوم کی بددعا سے بھی بچ کر رہنا، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3365

۔ (۳۳۶۵) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَا إِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ، فَإِذَا قَالُوْہَا عَصَمُوْا مِنِّی دِمَائَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ، وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللّٰہِ۔)) قَالَ: فَلَمَّا قَامَ أَبُوْ بَکْرٍ، وَارْتَدَّ مَنِ ارْتَدَّ، أَرَادَ أَبُوْ بَکْرٍ قِتَالَہُمْ، قَالَ عُمَرُ: کَیْفَ تُقَاتِلُ ہٰؤُلَائِ الْقَوْمَ وَہُمْ یُصَلُّوْنَ؟ قَالَ: فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: وَاللّٰہِ! لَأُقَاتِلَنَّ قَوْمًا ارْتَدُّوْا عَنِ الزَّکَاۃِ وَاللّٰہِ! لَوْ مَنَعُوْنِیْ عَنَاقًا مِمَّا فَرَضَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ لَقَاتَلْتُہُمْ۔ قَالَ عُمَرُ: فَلَمَّا رَأَیْتُ اللّٰہَ شَرَحَ صَدْرَ أَبِی بَکْرٍ لِقِتَالِہِمْ عَرَفْتُ أَنَّہُ الْحَقُّ۔ (مسند احمد: ۱۰۸۵۲) (۳۳۶۶) عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ قَالَ: لَمَّا ارْتَدَّ أَہْلُ الرِّدَّۃِ فِی زَمَانِ أَبِی بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: کَیْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ یَا أَبَا بَکْرٍ! وَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، فَإِذَا قَالُوْا لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ عَصَمُوْا مِنِّی دِمَائَ ہُمْ وَأَمْوَالَہِمْ إِلَّا بِحَقِّہَا وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللّٰہِ۔)) فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: وَاللّٰہِ! لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ، فَإِنَّ الزَّکَاۃَ حَقُّ الْمَالِ وَاللّٰہِ! لَوْ مَنَعُوْنِی عَنَاقًا کَانُوْا یُؤَدُّوْنَہَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَقَاتَلْتُہُمْ عَلَیْہَا، قَالَ عُمَر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: فَوَاللّٰہِ! مَا ہُوَ إِلَّا أَنْ رَأَیْتُ أَنَّ اللّٰہَ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِی بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ لِلْقِتَالِ فَعَرَفْتُ أَنَّہُ الْحَقُّ۔ (مسند احمد: ۲۳۹)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا۔ مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک وہ لَا إِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ کا اعتراف نہ کر لیں، جب وہ اس کا اعتراف کر لیں گے تو وہ اپنے خون اور مال مجھ سے محفوظ کر لیں گے اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہو گا۔ جب سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے خلافت سنبھالی اور مرتدّ ہونے والے مرتد ہو گئے تو سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے قتال کا ارادہ کیا۔ لیکن سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جو لوگ نماز پڑھتے ہیں، آپ ان سے کیسے قتال کریں گے؟ لیکن سیدناابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں ان لوگوں سے ضرور قتال کروں گا جو زکوۃ ادا کرنے سے انکاری ہیں۔اللہ کی قسم ہے،اگر ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی فرض کی ہوئی ایک بکری بھی نہ دی تو میں ان سے لڑوں گا۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جب میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے (زکوۃ کے اِن انکاریوں سے) لڑنے کے لیے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا سینہ کھول دیا ہے تو میں جان گیا کہ یہی حق ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3366

۔ (۳۳۶۶) عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ قَالَ: لَمَّا ارْتَدَّ أَہْلُ الرِّدَّۃِ فِی زَمَانِ أَبِی بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: کَیْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ یَا أَبَا بَکْرٍ! وَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، فَإِذَا قَالُوْا لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ عَصَمُوْا مِنِّی دِمَائَ ہُمْ وَأَمْوَالَہِمْ إِلَّا بِحَقِّہَا وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللّٰہِ۔)) فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: وَاللّٰہِ! لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ، فَإِنَّ الزَّکَاۃَ حَقُّ الْمَالِ وَاللّٰہِ! لَوْ مَنَعُوْنِی عَنَاقًا کَانُوْا یُؤَدُّوْنَہَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَقَاتَلْتُہُمْ عَلَیْہَا، قَالَ عُمَر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: فَوَاللّٰہِ! مَا ہُوَ إِلَّا أَنْ رَأَیْتُ أَنَّ اللّٰہَ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِی بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ لِلْقِتَالِ فَعَرَفْتُ أَنَّہُ الْحَقُّ۔ (مسند احمد: ۲۳۹)
عبید اللہ بن عبداللہ کہتے ہیں: جب سیدناابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے عہد ِ خلافت میں لوگ مرتدّ ہو گئے تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے ابوبکر! بھلا آپ ان لوگوں سے قتال کیسے کر سکتے ہیں، جب کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو فرمایا تھا کہ مجھے اس وقت تک لوگوں سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے، جب تک وہ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ نہ کہہ دیں، اور جب وہ یہ کلمہ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ پڑھ لیں گے تو اپنے خون اور مال مجھ سے محفوظ کر لیں گے، مگر حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہو گا۔ لیکن سیدناابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! جو لوگ نماز اور زکوۃ میں فرق کریں گے، میں ان سے ضرور لڑوں گا، بے شک زکوۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم ہے، اگر ان لوگوں نے ایک بکری روک لی، جو یہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ادا کیا کرتے تھے، تو میں اس وجہ سے ان سے لڑوں گا۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے فوراً پتہ چل گیا کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا سینہ قتال کے لیے کھولا ہے، پس میں نے یہ جان لیا کہ یہی بات برحق ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3367

۔ (۳۳۶۷) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَا مِنْ صَاحِبِ کَنْزٍ، لَا یُؤَدِّی زَکَاتَہُ إِلَّا جِیْئَ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَبِکَنْزِہِ فَیُحْمٰی عَلَیْہِ صَفَائِحُ فِی نَارِجَہَنَّمَ فَیُکْوٰی بِہَا جَبِیْنُہُ وَظَہْرُہُ حَتّٰی یَحْکَمَ اللّٰہُ بَیْنَ عِبَادِہِ فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ، ثُمَّ یَرٰی سَبِیْلَہُ إِمَّا إِلَی الْجَنَّۃِ وَإِمَّا إِلَی النَّارِ، وَمَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ لایُؤَدِّی زَکَاتَہَا إِلاَّجِیْئَ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَبِإِبِلِہِ کَأَوْفَرِ مَا کَانَتْ عَلَیْہِ، فَیُبْطَحُ لَہَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ کُلَّمَا مَضٰی أُخْرَاہَا رُدَّ عَلَیْہِ أُوْلَاہَا حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰہَ بَیْنَ عِبَادِہِ فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ، ثُمَّ یَرٰی سَبِیْلَہُ إِمَّا إِلَی الْجَنَّۃِ وَاِمَّا اِلَی النَّارِ،وَمَا مِنْ صَاحِبِ غَنَمٍ لاَ یُؤَدِّیْ زَکَاتَہَا إِلاَّجِیْ ئَ بِہِ وَبِغَنَمِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَأَوْفَرِ مَا کَانَتْ فَیُبْطَحُ لَہَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَطَؤُہُ بِأَظْلَافِہَا، وَتَنْطَحُہُ بِقُرُوْنِہَا کُلَّمَا مَضَتْ أُخْرَاہَا رُدَّتْ عَلَیْہِ أُوْلَاہَا حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰہُ بَیْنَ عِبَادِہِ فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ، ثُمَّ یَرٰی سَبِیْلَہُ إِمَّا إِلَی الْجَنَّۃِ وَإِمَّا إِلَی النَّارِ۔)) قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَالْخَیْلُ؟ قَالَ: ((اَلْخَیْلُ مَعْقُوْدٌ بِنَوَاصِیْہَا الْخَیْرُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَالْخَیْلُ ثَلَاثَۃٌ، وَہِیَ لِرَجُلٍ أَجْرٌ، وَہِیَ لِرَجُلٍ سِتْرٌ، وَہِیَ عَلٰی رَجُلٍ وِزْرٌ (فَأَمَّا الَّذِی ہِیَ لَہُ أَجْرٌ) الَّذِی یَتَّخِذُہَا وَیَحْبِسُہَا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ، فَمَا غَیَّبَتْ فِی بَطُوْنِہَا فَہُوَ لَہُ أَجْرٌ، وَإِنِ اسْتَنَّتْ مِنْہُ شَرَفًا أَوْشَرَفَیْنِ کَانَ لَہُ فِی کُلِّ خُطْوَہٍ خَطَاہَا أَجْرٌ، وَلَوْ عَرَضَ لَہُ نَہْرٌ فَسَقَاہَا مِنْہُ کَانَ لَہُ بِکُلِّ قَطْرَۃٍ غَیِّبَتْہُ فِی بُطُوْنِہَا أَجْرٌ،حَتّٰی ذَکَرَ الْأَجْرَ فِی أَرْوَاثِہَا وَأَبْوَالِہَا، (وَأَمَّا الَّذِی ہِیَ لَہُ سِتْرٌ) فَرَجُلٌ یَتَّخِذُہَا تَعَفُّفًا وَتَجَمُّلًا وَتَکَرُّمًا وََلَا یَنْسٰی حَقَّہَا فِی ظُہُوْرِہَا وَبُطُوْنِہَا فِی عُسْرِہَا وَیُسْرِہَا (وَأَمَّا الَّذِی عَلَیْہِ وِزْرٌ) فَرَجُلٌ یَتَّخِذُہَا أَشَرًا وَرِئَائَ النَّاسِ وَبَذَخًا عَلَیْہِمْ۔)) قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَالْحُمُرُ؟ قَالَ: ((مَا اُنْزِلَ عَلَیَّ فِیْہَا شَیْئٌ إِلَّا ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہٗ۔ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہٗ۔})) (مسند احمد: ۸۹۶۵)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خزانے کامالک، جو اس کی زکوۃ ادا نہیں کرتا، اسے قیامت کے دن خزانے سمیت لایا جائے گا اور اس کے خزانے کو تختیوں کی شکل دے کر جہنم کی آگ پر خوب گرم کیا جائے گا، پھر اس سے اس کی پیشانی، پہلو اور پیٹھ کو داغا جاتا رہے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کرنے سے فارغ ہو جائے گا، تمہارے حساب کے مطابق یہ پچاس ہزار سال کے برابر دن ہو گا، اس کے بعد وہ بندہ اپنا راستہ دیکھے گا کہ وہ جنت کی طرف ہے یا جہنم کی طرف۔ اسی طرح جو کوئی اونٹوں کا مالک ہو اور وہ ان کی زکوۃ ادا نہ کرے تو اسے قیامت کے دن اونٹوں سمیت لایا جائے گا، جبکہ وہ اونٹ بھی خوب موٹے تازے ہوں گے، پھر اس مالک کو ایک وسیع چٹیل میدان میں لٹا کر اونٹ اس کے اوپر سے گزارے جائیں گے، جب آخری اونٹ گزر جائے گا تو پہلے اونٹ کو دوبارہ لایا جائے گا۔اس کے ساتھ یہ سلوک اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کرنے سے فارغ نہ ہو جائے،وہ دن تمہارے حساب کے مطابق پچاس ہزار برس کا ہو گا، اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ اس کا راستہ جنت کی طرف ہے یا جہنم کی طرف۔ اسی طرح جو آدمی بکریوں کا مالک ہو اور وہ ان کی زکوۃ ادا نہ کرتا ہو تو اسے بھی قیامت کے دن بکریوں سمیت لایا جائے گا، جبکہ وہ بکریاں خوب موٹی تازی ہوں گی۔ اس آدمی کو وسیع چٹیل میدان میں لٹا دیا جائے گا اور وہ بکریاں اپنے کھروں سے اسے روندیں گی اور سینگوں سے ماریں گی، جب آخری بکری گزر جائے گی تو پہلی بکری کو دوبارہ لایا جائے گا اور اس کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتارہے گا، تاآنکہ اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلے کرنے سے فارغ ہوجائے، وہ دن تمہارے اعداد و شمار کے مطابق پچاس ہزار سالوں کے برابر ہوگا، اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ اس کا راستہ جنت کی طرف ہے یا جہنم کی طرف۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! گھوڑوں کا کیا حکم ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت تک گھوڑوں کی پیشانی میں خیر وبرکت رکھ دی گئی ہے، (دراصل) گھوڑے تین قسم کے ہوتے ہیں: ایک (اپنے مالک کے لیے) اجرو ثواب، ایک پردہ پوشی اور ایک گناہ کا سبب ہوتا ہے، جو اجر وثواب کا ذریعہ ہوتا ہے، وہ وہ گھوڑا ہوتا ہے کہ جس کو اس کا مالک جہاد فی سبیل اللہ کی غرض سے پالتا ہے، ایساگھوڑا اپنے پیٹ میں جو کچھ ڈالے گا، وہ اس کے مالک کے لیے اجر ہو گا، جب وہ ایک دو ٹیلوں تک چلے گا تو اس کے ہر ہر قدم کے بدلے مالک کو اجر ملے گا اور اگر اس کے سامنے نہر آجاتی اور وہ اس سے پانی پی لیتا ہے تو ہر قطرہ، جو وہ اپنے پیٹ میں داخل کرتا ہے، اس کے عوض اس کو اجر ملے گا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے پیشاب اور لید کی وجہ سے بھی اجر کا ذکر کیا۔ جو گھوڑا آدمی کے لیے پردہ پوشی کا ذریعہ ہے، یہ وہ گھوڑا ہے کہ جس کو پالنے کا سبب یہ ہے کہ ضرورت کے وقت کسی سے مانگنا نہ پڑے اور اس سے اسے زینت وجمال اور عزت حاصل ہو، ہاں یہ بات ہے کہ ایسا مالک اپنے گھوڑے کی پشت اور پیٹ کے حق سے غافل نہ ہو، رہا اس گھوڑے کا مسئلہ جو اپنے مالک کے لیے گناہ کا سبب بنتا ہے تو وہ وہ ہوتاہے کہ جس کا مالک فخر، تکبر اور لوگوں کے سامنے ریاکاری کرنے کے لیے اسے پالتا ہے۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! گدھوں کا کیا حکم ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کے متعلق مجھ پر کوئی حکم نازل نہیں کیا گیا، البتہ ایک آیت ہے جو بے مثال اور (ہر خیر کو) شامل ہے، یعنی: {فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہٗ۔ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہٗ} (سورۂ زلزال:۸) یعنی: جو کوئی ایک ذرہ برابرنیکی کرے گا، وہ اسے دیکھ لے گا اور جو کوئی ذرہ برابر گناہ کرے گا تو وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3368

۔ (۳۳۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِی أَبِی ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ ثَنَا سَعِیْدٌ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَبِی عُمَرَ الْغُدَانِیِّ قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ جَالِسًا فَمَرَّ رَجُلٌ مِنْ بَنِی عَامِرِ ابْنِ صَعْصَعَۃَ، فَقِیْلَ لَہُ: ہَذَا أَکْثَرُ عَامِرِیٍّ مَالاً، فَقَالَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: رُدُّوْہُ إِلَیَّ فَرَدُّوْہُ عَلَیْہِ، فَقَالَ نُبِّئْتُ أَنَّکَ ذُوْمَالٍ کَثِیْرٍ؟ فَقَالَ الْعَامِرِیُّ: وَاللّٰہِ! إِنَّ لِیْ مِائۃَ حُمْرٍ وَمِائَۃَ أُدْمٍ، حَتّٰی عَدَّ مِنْ أَلَوانِ الإِبِلِ وَأَفَنََانِ الرَّقِیْقِ وَرِبَاطِ الْخَیْلِ، فَقَالَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: إِیَّاکَ وَأَخْفَافَ الإِبِلِ وَأَظْلَافَ الْغَنَمِ، یُرَدِّدُ ذَالِکَ عَلَیْہِ حَتّٰی جَعَلَ لَوْنُ الْعَامِرِیِّ یَتَغَیَّرُ أَوْ یَتَلَوَّنُ، فَقَالَ: مَا ذَاکَ یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ!؟ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((مَنْ کَانَتْ لَہُ إِبِلٌ لَا یُعْطِیْ حَقَّہَا (فَذَکَرَ مِثْلَ الْحَدِیْثِ الْمُتَقَدِّمِ ثُمَّ قَالَ) وَإِذَا کَانَتْ لَہُ بَقَرٌ لاَ یُعْطِیْ حَقَّھَا فِی نَجْدَتِہَا وَرِسْلِہَا فَإِنَّہَا تَأْتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَأَغَذِّ مَا کَانَتْ وَأَکْبَرِہِ وَأَسْمَنِہِ وَأَسَرِّہُ، ثُمَّ یُبْطَحُ لَہَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَطَؤُہٗ فِیْہِ کُلُّ ذَاتِ ظِلْفٍ بِظِلْفِہَا وَتَنْطَحُہُ کُلُّ ذَاتٍ قَرْنٍ بِقَرْنِہَا، إِذَا جَاوَزَتْہُ أُخْرَاہَا أُعِیْدَتْ عَلَیْہِ أُوْلَاہَا فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ أَلْفَ سَنَۃٍ حََتّٰی یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ یَرٰی سَبِیْلَہُ، وَإِذَا کَانَتْ لَہُ غَنَمٌ، (فَذَکَرَ نَحْوَالْحَدِیْثِ الْمُتَقَدِّمِ ثُمَّ قَالَ) فَقَالَ الْعَامِرِیُّ: وَمَا حَقُّ الْإِبِلِ یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ!؟ قَالَ أَنْ تُعْطِیَ الْکَرِیْمَۃَ وَتَمْنَحَ الْغَزِیْرَۃَ وَتُفْقِرَالظَّہْرَ، وَتَسْقِیَ اللَّبَنَ وَتُطْرِقَ الْفَحْلَ۔ (مسند احمد: ۱۰۳۵۵)
ابوعمر غدانی کہتے ہیں: میں سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، وہاں سے بنو عامر بن صعصعہ کے ایک آدمی کا گزر ہوا، اس کے بارے میں ان کو بتایا گیا کہ یہ اپنے قبیلہ کا امیر ترین آدمی ہے، سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اسے میرے پاس بلائو، لوگوں نے اسے بلایا، سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس سے کہا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم کافی مالدار ہو؟ عامری نے کہا: جی ہاں، اللہ کی قسم! میرے پاس ایک سو گدھے اور ایک سو سفید رنگ کے اونٹ ہیں، پھر اس نے مختلف قسم کے اونٹوں، غلاموں اور گھوڑوں کا ذکر کیا۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسے کہا: تم ذرا اونٹوں کے پائوں اور بکریوں کے کھروں سے بچ کر رہنا۔ آپ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اتنی بار یہ بات دوہرائی کہ اس عامری کا رنگ بدلنا شروع ہو گیا، بالآخر اس نے کہا: اے ابوہریرہ! بھلا آپ کی اس بات کا مطلب کیا ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس آدمی کے پاس اونٹ ہوں اور وہ ان کا حق ادا نہ کرے، … … (پھر گزشتہ حدیث کی طرح کی حدیث ذکر کی) اورجس کے پاس گائیں ہوں اور وہ تنگدستی و خوشحالی میں ان کا حق ادا نہ کرے تو وہ قیامت کے دن خوب ہوشیار بن کر اور خوب موٹی تازی ہو کر آئیں گی، پھر ان کے لیے ایک چٹیل میدان تشکیل دیا جائے گا (اس مالک کو وہاں لٹا دیا جائے گا)، وہ گائیں اسے اپنے کھروں سے روندیں گی اور سینگوں سے ماریں گی، جب آخری گائے گزر جائے گی تو پہلی کو دوبارہ لایا جائے گا، (یہ سزا اس وقت تک ہوتی رہے گی) جب تک لوگوں کے درمیان فیصلہ نہ کر دیا جائے، جبکہ اس دن کی مقدار ایک ہزار سال کے برابر ہو گی، پھر دیکھا جائے گا کہ اس کا راستہ (جنت کی طرف ہے یا جہنم کی طرف)۔ اور جس کے پاس بکریاں ہوں، … …(گزشتہ حدیث کی مانند حدیث ذکر کی)عامری نے کہا:اے ابوہریرہ! اونٹوں کا حق کیا ہے؟ انھوں نے کہا: اونٹوں کا حق یہ ہے کہ زکوۃ ادا کرتے وقت بہترین اونٹ ادا کرو، دودھ والا جانور کسی کو عاریۃً دے دیا کرو، ضرورت مند کو سواری کے لیے اونٹ دیا کرو، اسی طرح دودھ بھی لوگوں کو پلایا کرو اور جفتی کے لیے بھی عاریۃً نر اونٹ دے دیا کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3369

۔ (۳۳۶۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِی أَبِی ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالاَ ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ أَخْبَرَنِی أَبُوْ الزُّبَیْرِ أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما یَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ لَا یَفْعَلُ فِیْہَا حَقَّہَا (فَذَکَرَ نَحْوَ مَا تَقَدَّمَ فِی الإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ ثُمَّ قَالَ) وَلَا صَاحِبِ کَنْزٍ لاَ یَفْعَلُ فِیْہِ حَقَّہُ إِلَّا جَائَ کَنْزُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شُجَاعًا أَقْرَعَ، یَتْبَعُہُ فَاغِرًا فَاہُ۔ فَإِذَا رَآہُ فَرَّ مِنْہُ فَیُنَادِیْہِ رَبُّہُ خُذْ کَنْزَکَ الَّذِی خَبَّأْتَہُ فَأَنَا عَنْہُ أَغْنٰی مِنْکَ، فَإِذَا رَأٰی أَنَّہُ لَا بُدَّ لَہُ مِنْہُ سَلَکَ یَدَہُ فِی فِیْہِ فَقَضِمَہَاقَضْمَ الْفَحْلِ۔)) قَالَ أَبُوْ الزُّبَیْرِ: وَسَمِعْتُ عُبَیْدَ بْنِ عُمَیْرٍ، قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ فِی حَدِیْثِہِ: قَالَ رَجُلٌ: یاَ رَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا حَقُّ الإِبِلِ؟ قَالَ: ((حَلْبُہَا عَلَی الْمَائِ، وَإِعَارَۃُ دَلْوِہَا، وَإِعَارَۃُ فَحْلِہَا وَمَنِیْحَتُہَا، وَحَمْلٌ عَلَیْہَا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ۔)) قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ فِیْہَا کُلِّہَا وَقَعَدَ لَہَا، وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ فِیْہِ، قَالَ أَبُوْ الزَّبِیْرِ سَمِعْتُ عُبَیْدَ بْنَ عُمَیْرٍ یَقُوْلُ ہٰذَا الْقَوْلَ، ثُمَّ سَأَلْنَا جَابِرًا الأَنْصَارِیَّ عَنْ ذَالِکَ فَقَالَ مِثْلَ قَوْلِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ۔ (مسند احمد: ۱۴۴۹۶)
سیدناجابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو اونٹوں کا مالک ہو اور ان کا حق ادا نہ کرتا ہو، … (اونٹ، گائے اور بکری کی زکوۃ کے بارے میں جو تفصیل گزر چکی ہے، وہی یہاں ذکر کی، پھر فرمایا:) جو خزانے کا مالک ہو اور اس میں سے اس کا حق ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے دن اس کا خزانہ ایک گنجے سانپ کی صورت میں منہ کھولے ہوئے آئے گا اور اپنے مالک کا پیچھا کرے گا، مالک اسے دیکھ کربھاگنا شروع کر دے گا، لیکن اس کا رب اسے آواز دے گا: یہ تیرا وہی خزانہ ہے جسے تو نے سنبھال سنبھال کر رکھا تھا، اسے
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3370

۔ (۳۳۷۰) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ آتَاہُ اللّٰہُ مَالًا فَلَمْ یُؤَدِّ زَکَاتَہُ مُثِّلَ لَہُ مَالُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَہُ زَبِبْبَتَانِ، یَأْخُذُ بِلِہْزِمَتَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، ثُمَّ یَقُوْلُ: أَنَا مَالُکَ أَنَا کَنْزُکَ)) ثُمَّ تَلَا ہٰذِہِ الآیَۃَ: {وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا آتَاہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ۔الخ الآیَۃ}۔ (مسند احمد: ۸۶۴۶)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ نے جس آدمی کو مال دیا ہو اور وہ اس کی زکوۃ ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے دن اس کے لیے اس کے مال کو گنجے سانپ کی شکل دی جائے گی،اس (کی آنکھوں) پر دو سیاہ نقطے ہوں گے، وہ قیامت کے دن اپنے مالک کے جبڑوں کو پکڑ کر کہے گامیں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا آتَاہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَ خَیْرًا لَّھُمْ بَلْ ھُوَ شَرٌّلَّھُمْ سُیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ} (سورۂ آل عمران۱۸۰) یعنی اور جو لوگ اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے بخل کرتے ہیں وہ اسے اپنے حق میں اچھا نہ سمجھیں، وہ تو ان کے حق میں بہت ہی برا ہے، وہ جس مال میں بخل کرتے ہیں قیامت کے دن اسی کو اس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا، زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے اور تم جو کچھ کرتے ہو وہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3371

۔ (۳۳۷۱) وَعَنْہُ أَیْضًا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یَکُوْنُ کَنْزُ أَحَدِہِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شُجَاعًا أَقْرَعَ ذَا زَبِیْبَتَیْنِ یَتْبَعُ صَاحِبَہُ وَہُوَ یَتَعَوَّذُ مِنْہُ، وَلَایَزَالُ یَتْبَعُہُ حَتّٰی یُلْقِمَہُ إِصْبَعَہُ۔)) (مسند احمد: ۸۹۲۰)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدمی کا خزانہ قیامت کے دن دو سیاہ نقطوں والے گنجے سانپ کی شکل اختیار کر لے گا، پھر وہ اپنے مالک کا پیچھا کرے گااور وہ اس سے بچنے کی کوشش کرے گا، لیکن وہ سانپ اس کا پیچھا کرتا رہے گا یہاں تک کہ وہ اپنی انگلی اس کے منہ میں ڈال دے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3372

۔ (۳۳۷۲) عَنْ بَہْزِ بْنِ حَکِیْمٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((لَا یَأْتِیْ رَجُلٌ مَوْلَاہُ فَیَسْأَلُہُ مِنْ فَضْلٍ ہُوَ عِنْدَہُ فَیَمْنَعُہُ إِلَّا دُعِیَ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شُجَاعٌ یَتَلَمَّظُ فَضْلُہُ الَّذِی مَنَعَہُ (وَفِی رِوَایَۃٍ:) مَا مِنْ مَوْلًی یَأْتِیْ مَوْلًی لَہُ فَیَسْأَلُہُ مِنْ فَضْلٍ عِنْدَہُ فَیَمْنَعُہُ إِلَّا جَعَلَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ شُجَاعًا یَنْہَسُہُ قَبْلَ الْقَضَائِ۔)) (مسند احمد: ۲۰۲۸۵)
سیدنا معاویہ بن حیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: جو آدمی اپنے رشتہ دار کے پاس آکر اس سے ایسی چیز کا سوال کرتا ہے جو اس کی ضرورت سے زائد ہو، لیکن وہ اسے نہ دے تو قیامت کے دن اس مالک کے لیے ایک سانپ بلایا جائے گا جو اپنی زبان کو ہلاتا ہوگا، یہ (سانپ) اسی کا زائد مال ہو گا، جو اس نے مانگنے والے کو نہیں دیا تھا۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: جو رشتہ دار اپنے کسی رشتہ دار سے زائد چیز کا سوال کرتا ہے اور وہ اسے نہیں دیتا تو اللہ تعالیٰ ایسے مال کو اس کے لیے سانپ بنا دے گا، جو قیامت کے دن فیصلہ مکمل ہونے تک اسے ڈستا رہے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3373

۔ (۳۳۷۳) عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا یَمْنَعُ عَبْدٌ زَکَاۃَ مَالِہِ إِلَّا جُعِلَ شُجَاعٌ أَقْرَعُ یَتْبَعُہُ یَفِرُّ مِنْہُ وَہُوَ یَتْبَعُہُ، فَیَقُوْلُ: أَنَا کَنْزُکَ۔)) ثُمَّ قَرَأَ عَبْدُ اللّٰہِ مِصْدَاقَہُ فِی کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ: {سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔} قَالَ سُفْیَانُ، مَرَّۃً یُطَوَّقُہُ فِی عُنُقِہِ۔ (مسند احمد: ۳۵۷۷)
سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اپنے مال کی زکوۃ ادا نہیں کرتا، قیامت کے دن اس کے مال کو گنجے سانپ کی شکل دی جائے گی اور وہ اپنے مالک کا پیچھا کرے گا، یہ اس سے بچنے کے لیے بھاگے گا، لیکن وہ سانپ یہ کہتے ہوئے اس کا پیچھا کرتا رہے گا: میں تیرا خزانہ ہوں۔ پھر سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کتاب اللہ سے اس حدیث کی مصداق آیت تلاوت کی: {سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔} (سورۂ آل عمران، ۱۸۰) یعنی: یہ لوگ جو بخل کرتے رہے، عنقریب قیامت کے دن ان کی گردنوں میں اس کا طوق پہنا دیا جائے گا۔ امام سفیان نے ایک دفعہ کہا: ان کی گردن میں طوق پہنایا جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3374

۔ (۳۳۷۴) عَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ الَّذِی لَا یُؤَدِّیْ زَکَاۃَ مَالِہِ یُمَثِّلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لَہُ مَالَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَہُ زَبِیْبَتَانِ ، ثُمَّ یَلْزَمُہُ یُطَوِّقُہُ یَقُوْلُ أَنَا کَنْزُکَ أَنَا کَنْزُکَ۔)) (مسند احمد: ۵۷۲۹)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اپنے مال کی زکوۃ ادا نہیںکرتا،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے مال کو دو نقطوں والے گنجے سانپ کی شکل دے دے گا، وہ سانپ اس آدمی کے ساتھ ساتھ رہے گا، بلکہ اس کے گلے کا طوق بن جائے گا اور وہ کہے گا: میں تیرا خزانہ ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3375

۔ (۳۳۷۵) عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِیْنَۃَ وَأَنَا اُرِیْدُ الْعَطَائَ مِنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌فَجَلَسْتُ إِلٰی حَلْقۃٍ مِنْ حِلَقِ قُرَیْشٍ فَجَائَ رَجُلٌ عَلَیْہِ أَسْمَالٌ لَہُ قَدْ لَفَّ ثَوْبًا عَلٰی رَأْسِہِ قَالَ: بَشِّرِ الْکَنَّازِیْنَ بِکَیٍّ فِی الْجِبَاہِ وَبِکَیٍّ فِی الظُّہُوْرِ وَبِکَیٍّ فِی الْجُنُوْبِ، ثُمَّ تَنَحّٰی إِلٰی سَارِیَۃٍ فَصَلّٰی خَلْفَہَا رَکْعَتَیْنِ فَقُلْتُ: مَنْ ہٰذَا؟ فَقِیْلَ: ہٰذَا أَبُوْ ذَرٍّ( ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) فَقُلْتُ: مَا شَیْئٌ سَمِعْتُکَ تُنَادِی بِہِ؟ قَالَ: مَا قُلْتُ لَہُمْ إِلَّا شَیْئًا سَمِعُوْہُ مِنْ نَبِیِّہِم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَرْحَمُکَ اللّٰہُ، إِنِّی کُنْتُ آخَذُ الْعَطَائَ مِنْ عُمَرَ فَمَا تَرٰی، قَالَ خُذْہُ فَإِنَّ فِیْہِ الْیَوْمَ مَعُوْنَۃً وَیُوْشِکُ أَنْ یَکُوْنَ دَیْنًا، فَإِذَا کَانَ دَیْنًا فَارْفُضْہُ(وَفِی لَفْظٍ) فَإِذَا کَانَ ثَمَنًا لِدِیْنِکَ فَدَعْہُ۔ (مسند احمد: ۲۱۸۱۷)
احنف بن قیس کہتے ہیں: میں مدینہ منورہ آیا، میں سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے عطیہ لینا چاہتا تھا۔ میں قریش کے ایک حلقہ میں جا بیٹھا، پراگندہ لباس والا ایک آدمی وہاں آیا، اس نے سر پر ایک کپڑا لپیٹا ہوا تھا، وہ یوں کہنے لگا: خزانے جمع کرنے والوں کو یہ بشارت دے دو کہ ان کی پیشانی، پشت اور پہلو آگ سے داغے جائیں گے۔ پھر وہ علیحدہ ہوا اور ایک ستون کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ بتایا گیا: یہ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں۔ پس میں ان کے پاس گیا اور کہا: یہ جو کچھ تم کہہ رہے تھے، اس کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا: جی میںنے تو صرف وہ بات کی ہے جو ان لوگوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی تھی۔ میں نے کہا: اللہ تم پر رحمت کرے، میں سیدناعمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے عطیہ لیا کرتا تھا، اس کے بارے میں تمہاراکیا خیال ہے؟ انھوں نے کہا: لے لیا کرو، آج کل تو اس کی شکل تعاون کی ہے، لیکن قریب ہے کہ یہ قرضہ بن جائے گا، جب یہ صورت پیدا ہو جائے تو ترک کر دینا۔ (ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:) جب ایسا مال تمہارے دین کی قیمت بن جائے تو اسے ترک کر دینا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3376

۔ (۳۳۷۶) عَنْ أَبِی ذَرٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ فِیْ ظِلِّ الْکَعْبَۃِ، فَقَالَ: ((ہُمُ الْأَخْسَرُوْنَ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ! ہُمُ الأَخْسَرُوْنَ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ!)) فَأَخَذَنِیْ غَمٌّ وَجَعَلْتُ أَتَنَفَّسُ، قَالَ: قُلْتُ: ہٰذَا شَیْئٌ حَدَثَ فِیَّ! قَالَ: قُلْتُ: مَنْ ہُمْ فَدَاکَ أَبِیْ وَ أُمِّیْ: قَالَ: ((اَلْأَکْثَرُوْنَ، إِلَّا مَنْ قَالَ فِی عِبَادِ اللّٰہِ ہٰکَذَا وَہٰکَذَا وَہٰکَذَا وَقَلِیْلٌ مَا ہُمْ، مَا مِنْ رَجُلٍ یَمُوْتُ فَیَتْرُکُ غَنَمًا أَوْ إِبِلًا أَوْ بَقَرًا لَمْ یُؤَدِّ زَکَاتَہُ، إِلَّا جَائَ تْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْظَمَ مَا تَکُوْنُ وَأَسْمَنَ حَتّٰی تَطَأَہُ بِأَظْلَافِہَا وَتَنْطَحَہُ بِقُرُوْنِہَا حَتّٰی یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ، ثُمَّ تَعُوْدُ أُوْلاَہَا عَلٰی اُخْرَاھَا۔)) وَفِیْ رِوَایَۃٍ: ((کُلَّمَا نَفَدَتْ اُخْرَاھَا عَادَتْ عَلَیْہِ اُوْلَاھَا۔)) (مسند احمد: ۲۱۶۷۸)
سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس وقت کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمانے لگے: ربِّ کعبہ کی قسم! وہی بہت زیادہ خسارے والے ہیں، ربِّ کعبہ کی قسم! وہی خسارے میں ہیں۔ مجھے شدید غم نے دبوچ لیا اور اور میں ٹھنڈی آہیں بھرنے لگا، ( میں دل میں ہی کہنے لگا کہ) کیا میرے اندر کوئی خرابی آگئی ہے، جس کی وجہ سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ کچھ فرما رہے ہیں، اس لیے میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر نثار ہوں، کون لوگ خسارے میں ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زیادہ مال والے، ماسوائے ان لوگوں کے جو (صدقہ کرتے ہوئے) مال کو اِدھر اُدھر لٹا دیتے ہیں، لیکن ایسے لوگ تھوڑے ہیں، جو شخص بکریاں، اونٹ اور گائے وغیرہ اس حالت میں چھوڑ کر مرتا ہے کہ وہ ان کی زکوۃ ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے دن یہ جانور خوب موٹے تازے ہو کر آئیں گے اور اپنے مالک کو اپنے پائوں، کھروں سے روندیں گے اور اپنے سینگوں سے اس کو ماریں گے، یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا، آخری جانور کے گزرنے کے بعد پھر پہلے کو دوبارہ لایا جائے گا۔ ایک روایت میں ہے: جب آخری جانور گزر جائے گا تو پہلے کو لوٹا لیا جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3377

۔ (۳۳۷۷) عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ: سَمِعْتُ قَبِیْصَۃَ بْنَ ہُلْبٍ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیْہِ سَمِعَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: وَذَکَرَ الصَّدَقَۃَ قَالَ: ((لاَ یَجِیْئَنَّ أَحَدُکُمْ بِشَاۃٍ لَہَا یُعَارٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۲۳۱۷)
سیدنا ہُلب طائی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زکوۃ پر مشتمل ایک حدیث بیان، اس میں یہ فرمایا تھا کہ: تم میں سے کوئی آدمی قیامت کے دن اس حال میں نہ آئے کہ اس کے ساتھ اس کی بکری ہو، جو ممیا رہی ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3378

۔ (۳۳۷۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیْدَ یَعْنِی الْوَاسِطِیَ عَنْ سُفْیَانَ یَعْنِی بْنَ حُسَیْنٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِیْہِ (عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا) قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ کَتَبَ الصَّدَقَۃَ وَلَمْ یُخْرِجْہَا، اِلٰی عُمَّالِہِ حَتّٰی تُوُفِّیَ، قَالَ فَأَخْرَجَہَا أَبُوْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِنْ بَعْدِہِ فَعَمِلَ بِہَا حَتّٰی تُوُفِّیَ، ثُمَّ أَخْرَجَہَا عُمَرُ مِنْ بَعْدِہِ فَعَمِلَ بِہَا، قَالَ فَلَقَدْ ہَلَکَ عُمَرُ یَوْمَ ہَلَکَ وَإِنَّ ذَالِکَ لَمَقْرُوْنٌ بِوَصِیَّتِہِ، فَقَالَ کَانَ فِیْہَا فِی الإِبِلِ فِی کُلِّ خَمْسٍ شَاۃٌ، حَتّٰی تَنْتَہِیَ إِلٰی أَرْبَعٍ وَعِشْرِیْنَ، فَإِذَا بَلَغَتْ إِلٰی خَمْسٍ وَعِشْرِیْنَ فَفِیْہَا بِنْتُ مَخَاضٍ، إِلٰی خَمْسٍ وَثَلاَثِیْنَ، فَإِنْ لَمْ تَکُنْ ابْنَۃُ مَخَاضٍ فَأبْنُ لَبُوْنٍ، فَإِذَا زَادَتْ عَلٰی خَمْسٍ وَثَلَاثِیْنَ فَفِیْہَا ابْنَۃُ لَبُوْنٍ، إِلٰی خَمْسٍ وَأَرْبَعِیْنَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃٌ فَفِیْہَا حِقَّہٌ، إِلٰی سِتِّیْنَ فَإِذَا زَادَتْ فَفِیْہَا حِقَّتَانِ إِلٰی عِشْرِیْنَ وَمَائَۃٍ، فَإِذَا کَثُرَتْ الإِبِلَ فَفِی کُلِّ خَمْسِیْنَ حِقَّہٌ، وَفِی کُلِّ أَرْبَعِیْنَ ابْنَۃُ لَبُوْنَ، (وَفِی الْغَنَمِ) مِنْ أَرْبَعِیْنَ شَاۃٌ إِلٰی عِشْرِیْنَ وَمَائَۃٍ، فَإِذَا زَادَتْ بَعْدُ فَلَیْسَ فِیْہَا شَیْئٌ حَتّٰی تَبلْغُ َأَرْبَعَمِائَہٍ، فَإِذَا کَثُرَتِ الْغَنَمُ فَفِی کُلِّ مِائَۃٍ شَاۃٌ، وَکَذَالِکَ لَا یُفَرَّقُ بَیْنَ مُجْتَمِعٍ وَلَا یُجْمَعُ بَیْنَ مُتَفَرِّقٍ مَخَافَۃَ الصَّدَقَۃِ، وَمَا کَانَ مِنْ خَلِیْطَیْنِ فَہُمَا یَتَرَاجَعَانِ بِالسَّوْیَّۃِ، لَا تُؤْخَذُ ہَرِمَۃٌ۔ وَلَا ذَاتُ عَیْبٍ مِنَ الْغَنَمِ۔ (مسند احمد: ۴۶۳۴)
ٔٔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زکوۃ کے احکام تحریر کروائے، لیکن ابھی تک ان کو عاملین کی طرف نہیں بھیجاتھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انتقال فرما گئے، پھر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے وہ تحریر عمال کی طرف بھجوائی اور ان کی وفات تک اس پر عمل ہوتا رہا، ان کے بعد سیدناعمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی وہی تحریر اپنے عمال کو بھجوائی اور اس پر عمل ہوتا رہا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت کے وقت وہ تحریر ان کی وصیت کے ساتھ موجود تھی، سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کہتے ہیں: اس میں یہ تفصیل لکھی ہوئی تھی: چوبیس اونٹوں تک ہر پانچ اونٹ میں ایک بکری بطور زکوۃ مقرر ہے، جب پچیس اونٹ ہو جائیں تو ایک بنت ِ مخاض فرض ہے، اگر بنت ِ مخاض نہ ہو تو ابن لبون دیا جا سکتا ہے، زکوۃ کی یہ مقدار پینتیس اونٹوں تک ہے، جب چھتیس ہو جائیں تو پینتالیس اونٹوں تک بنت ِ لبون واجب ہے، پھر چھیالیس سے ساٹھ تک حِقّہ ہے، اس سے بڑھ جائیں تو پچھتر تک جذعہ ہے، جب اونٹ اس مقدار سے بھی بڑھ جائیں تو نوے (۹۰) تک دو عدد بنت ِ لبون ہوں گی۔ اس کے بعد اکانوے سے ایک سو بیس تک تین حقّے واجب ہیں اور جب اونٹ اس سے بھی زائد ہوں تو ہر پچاس پرایک حقّہ اور ہر چالیس میں ایک بنت ِ لبون بطور زکوۃ فرض ہے۔ رہا مسئلہ بکریوں کی زکوۃ کا تو (۴۰) سے (۱۲۰) بکریوں تک ایک بکری اور (۱۲۱) سے (۲۰۰)تک دو بکریاں بطورِ زکوۃ فرض ہیں، اگر وہ اس سے زیادہ ہو جائیں تو (۳۰۰) تک تین بکریاں اور اس کے بعد (۴۰۰) ہو جائیں تو چار بکریاں ہیں۔ اس سے بھی زیادہ بکریاں ہوں تو ہر (۱۰۰) میں ایک بکری۔زکوۃ سے بچنے کے لیے ایک ریوڑ کو الگ الگ یا الگ الگ ریوڑوں کو اکٹھا نہ کیا جائے۔ اگر ایک سے زائد شرکاء کی بکریوں میں سے زکوۃ واجب ہو گئی تو وہ آپس میں برابر برابر تقسیم کر لیں گے۔ زکوۃ میں کوئی بوڑھی یا عیب والی بکری نہ لی جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3379

۔ (۳۳۷۹) عَنْ طَارِقٍ قَالَ: خَطَبَنَا عَلِیٌ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقَالَ: مَا عِنْدَنَا شَیْئٌ مِنَ الْوَحْیِ أَوْ قَالَ کِتَابٌ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَّا مَا فِی کِتَابِ اللّٰہِ، وَہٰذِہِ الصَّحِیْفَۃِ، الْمَقْرُوْنَہِ بِسَیْفِی، وَعَلَیْہِ سَیْفٌ حِلْیَتُہُ حَدِیْدٌ، وَفِیْہَا فَرَائِضُ الصَّدَقَاتِ۔ (مسند احمد: ۷۹۸)
طارق کہتے ہیں:سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہمیں خطبہ دیا اور اس میں یہ بھی کہا:ہمارے پاس کوئی مخصوص وحی یا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کوئی الگ تحریرنہیں ہے، ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس صحیفہ والی ہدایات دی گئی ہیں، جو صحیفہ میری تلوار کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ اس وقت سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس ایک تلوار تھی اور اس کا زیور لوہے کا تھا، اس میں زکوۃ کا نصاب تحریر تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3380

۔ (۳۳۸۰) (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یَقُوْلُ: مَا عِنْدَنَا کِتَابٌ نَقْرَؤُہُ عَلَیْکُمْ إِلَّا مَا فِی الْقُرْآنِ وَمَا ہٰذِہِ الصَّحِیْفَۃِ، صَحِیْفَۃٌ کَانَتْ فِی قِرَابِ سَیْفٍ کَانَ عَلَیْہِ، حِلْیَتُہُ حَدِیْدٌ، أَخَذْتُہَا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْہَا فَرَائِضُ الصَّدَقَۃِ۔ (مسند احمد: ۸۷۴)
(دوسری سند) طارق کہتے ہیں: میں نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا:ہمارے پاس کوئی علیحدہ تحریر نہیں ہے جو ہم تم لوگوں پر پڑھیں، ما سوائے قرآن اور اس صحیفہ کے، اس وقت وہ صحیفہ ان کی تلوار کے میان میں تھا، جس کا زیور لوہے کا تھا،میں نے یہ صحیفہ خود رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے لیا تھا، اس میں زکوۃ کا نصاب تحریر کیا گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3381

۔ (۳۳۸۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا أَبُوْ کَامِلٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ قَالَ: أَخَذْتُ ہَذَا الْکِتَابَ مِنْ ثُمَامَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ کَتَبَ لَہُمْ: أَنَّ ہٰذِہِ فَرَائِضُ الصَّدَقَۃِ الَّتِی فَرَضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ الَّتِی أَمَرَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ بِہَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَمَنْ سُئِلَہَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ عَلٰی وَجْہِہَا فَلْیُعْطِہَا، وَمَنْ سُئِلَ فَوْقَ ذَالِکَ فَلَا یُعْطِہِ۔ فِیْمَا دُوْنَ خَمْسٍ وَعِشْرِیْنَ مِنَ الْاِبِلِ، فَفِی کُلِّ خَمْسِ ذَوْدٍ شَاۃٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِیْنَ فَفِیْہَا ابْنَۃُ مَخَاضٍ اِلی خِمْسٍ وَّ ثَلَاثِیْنَ، فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ اِبْنَۃُ مَخَاضٍ فَابْنُ لَبُوْنٍ ذَکَرٌ، فَإِذَا بَلَغْتْ سِتَّۃً وَثَلاثِیْنَ فَفِیْہَا ابْنَۃُ لَبُوْنٍ إِلٰی خَمْسٍ وَأَرْبَعِیْنَ ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتَّۃً وَأَرْبَعِیْنَ فَفِیْہَا حِقَّہٌ طَرُوْقَۃَ الْفَحْلِ إِلٰی سِتَّیْنَ،فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدٰی وَسِتِّیْنَ فَفِیْہَا جَذَعَۃٌ إِلٰی خَمْسٍ وَسَبْعِیْنَ، فَإِذَا بَلَغْتْ سِتَّۃً وَسَبْعِیْنَ فَفِیْہَا ابْنَتَا لَبُوْنٍ إِلٰی تِسْعِیْنَ، فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدٰی وَتِسْعِیْنَ فَفِیْہَا حِقَّتَانِ طَرُوْقَتَا الْفَحْلِ إِلٰی عِشْرِیْنَ وَمَائَۃٍ، فَإِنْ زَادَتْ عَلٰی عِشْرِیْنَ وَمَائَۃٍ فَفِی کُلِّ أَرْبَعِیْنَ ابْنَۃُ لَبُوْنٍ، وَفِی کُلِّ خَمْسیْنَ حِقَّہٌ، فَإِذَا تَبَایَنَ أَسْنَانُ الإِبِلِ فِی فَرَائِضِ الصَّدَقَاتِ، فَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَہُ صَدَقَۃُ الْجَذَعَۃِ وَلَیْسَ عِنْدَہُ جَذَعَۃٌ وَعِنْدَہُ حِقَّہٌ، فَإِنَّہَا تُقْبَلُ مِنْہُ وَیَجْعَلُ مَعَہَا َشَاتَیْنِ إِنْ اسْتَیْسَرَتَا لَہُ أَوْ عِشْرِیْنَ دِرْہَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَہُ صَدَقَۃُ الْحِقَّۃِ وَلَیْسَتْ عِنْدَہُ إِلَّا جَذَعَۃٌ فَإِنَّہَا تُقْبَلُ مِنْہُ وَیُعْطِیْہِ الْمُصَدِّقُ عِشْرِیْنَ دِرْہَمًا أَوْ شَاتِیْنِ، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَہُ صَدَقَۃُ ابْنَۃِ لَبُوْنٍ وَلَیْسَتْ عِنْدَہُ ابْنَۃُ لَبُوْنٍ وَعِنْدَہُ ابْنَۃُ مَخَاضٍ فَإِنَّہَا تُقْبَلُ مِنْہُ وَیَجْعَلُ مَعَہَا شَاتَیْنِ إِنَّ اسْتَیْسَرَنَا لَہُ أَوْ عِشْرِیْنَ دِرْہَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَہُ صَدَقَۃُ بِنْتِ مَخَاضٍ وَلَیْسَ عِنْدَہُ إِلَّا ابْنُ لَبُوْنٍ ذَکَرٌ فَإِنَّہُ یُقْبَلُ مِنْہُ وَلَیْسَ مَعَہُ شَیْئٌ وَمَنْ لَمْ یَکُنْ عِنْدَہُ إِلَّا أَرْبَعٌ مِنَ الإِبِلِ فَلَیْسَ فِیْہَا شَیْئٌ إِلَّا أَنْ یَشَائَ رَبُّھَا وَفِی الْغَنَمِ فِی سَائِمَتِہَا، إِذَا کَانَتْ أَرْبَعِیْنَ فَفِیْہَا شَاۃٌ إِلٰی عِشْرِیْنَ وَمَائِۃٍ فَإِنْ زَادَتْ فَفِیْہَا شَاتَانِ إِلٰی مِائَتَیْنِ فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃٌ فَفِیْھَا ثَلَاثُ شِیَاہٍ إِلٰی ثَلَاثِمِائَۃِ، فَإِذَا زَادَتْ فَفِی کُلِّ مِائَۃٍ شَاۃٌ وَلَا تُؤْخَذُ فِی الصَّدَقَۃِ ہَرِمَۃٌ وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ، وَلَا تَیْسٌ إِلَّا أَنْ یَشَائُ الْمُتَصَدِّقُ وَلَا یُجْمَعُ بَیْنَ مُتَفَرِّقٍ وَلاَ یُفَرَّقُ بَیْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْیَۃَ الصَّدَقَۃِ، وَمَا کَانَ مِنْ خَلِیْطَیْنِ فَإِنَّہُمَا یَتَرَاجَعَانِ بَیْنَہُمَا بِالسَّوِیَّۃِ ، وَإِذَا کَانَتْ سَائِمَۃُ الرَّجُلِ نَاقِصَۃً مِنْ أَرْبَعِیْنَ شَاۃً وَاحِدَۃً فَلَیْسَ فِیْہَا شَیْئٌ اِلَّا اَنْ یَشَائَ رَبُّہَا وَفِی الرِّقَۃِ رُبْعُ الْعُشُوْرِ، فَإِذَا لَمْ یَکُنِ الْمَالُ اِلَّا تِسْعِیْنَ وَمَائَۃَ دِرْہَمٍ فَلَیْسَ فِیْہَا شَیْئٌ إِلَّا أَنْ یَشَائَ رَبُّہَا)) (مسند احمد: ۷۲)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان (بحرین والوں) کی طرف یہ تحریر لکھ کر بھیجی: یہ زکوۃ کا وہ نصاب ہے جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسلمانوں پر فرض کیا اور جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا ہے، جس مسلمان سے اس کے مطابق زکوۃ وصول کی جائے، وہ ادا کرے اور جس سے اس سے زائد کا مطالبہ کیا جائے، وہ نہ دے۔ (تفصیل یہ ہے:) اونٹوں کی تعداد (۲۵) سے کم ہو تو ہر پانچ اونٹوں پر ایک بکری ہے۔ (۲۵) سے (۳۵) تک ایک بنت ِ مخاض یا ابن لبون ، (۳۶) سے (۴۵) تک بنت ِ لبون،(۴۶) سے (۶۰) تک نر کی جفتی کے قابل حِقّہ،(۶۱) سے (۶۵) تک جذعہ، (۷۶) سے (۹۰) تک دو عدد بنت ِ لبون اور (۹۱)سے (۱۲۰) تک دو عدد حقّے ہیں۔ جب اونٹوں کی تعداد اس سے بڑھ جائے تو ہر (۴۰) پر ایک بنت ِ لبون اور ہر (۵۰) پر ایک حقّہ زکوۃ ہو گی اور اگر زکوۃ کے اس سلسلے میں اونٹوں کی عمریں مختلف ہو جائیں، یعنی جس نے زکوۃ میں جذعہ ادا کرنی ہو، لیکن اس کے پاس جذعہ نہ ہو، البتہ حِقّہ ہو تو اس سے وہی لیا جائے گا اور اس کے ساتھ اگر میسر ہو تو دو بکریاں دے دے یا بیس درہم، اسی طرح اگر کسی نے زکوۃ میں حقّہ ادا کرنا ہو، لیکن اس کے پاس جذعہ ہو تو وہی اس سے قبول کر لی جائے گی، لیکن زکوۃ وصول کرنے والا نمائندہ بیس درہم یا دو بکریاں اسے واپس کرے گا، اور جس پر حِقّہ کی زکوۃ ہو، لیکن اس کے پاس یہ اونٹنی نہ ہو، بلکہ بنت لبون ہو تو اس سے وہی لے لی جائے گی، لیکن (اس کمی کو پورا کرنے کے لیے) اگر میسر ہو تو دو بکریاں دینا پڑیں گی، نہیں تو بیس درہم، اسی طرح جس پر بنت ِ لبون کی زکوۃ پڑ جائے، لیکن اس کے پاس حِقّہ ہو تو وہی اس سے لے لیا جائے گا، لیکن زکوۃ وصول کنندہ اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس کرے گا، اسی طرح جس نے زکوۃ میں بنت لبون ادا کرنی ہو، لیکن اس کے پاس یہ اونٹنی نہ ہو، بلکہ بنت ِ مخاض ہو تو اس سے یہی لے لی جائے گی، لیکن اسے اس کے ساتھ اگر میسر ہوں تو بکریاں، وگرنہ بیس درہم دینا پڑیں گے، اور جس نے زکوۃ میں بنت ِ مخاض ادا کرنی ہو، لیکن اس کے پاس یہ اونٹنی نہ ہو، بلکہ ابن لبون ہو تو اس سے وہی قبول کیا جائے گا، لیکن اس کے ساتھ مزید کوئی چیز نہیں لی جائے گی۔ اور جس کے پاس صرف چار اونٹ ہوں تو اس پر زکوۃ نہیں ہے، ہاں اگر وہ از خود (بطورِ نفل) کچھ دینا چاہے تو (ٹھیک ہے)۔ چرنے والی بکریوں کا نصابِ زکوۃ یہ ہے: (۴۰) سے (۱۲۰) تک ایک بکری، (۱۲۱) سے (۲۰۰) تک دو بکریاں اور (۲۰۰) سے (۳۰۰) تک تین بکریاںزکوۃ لی جائے گی، اس کے بعد ہر (۱۰۰) میں ایک بکری وصول کی جائے گی۔زکوۃ میں بوڑھی، کانی یا نر جانور نہیں لیا جائے گا، اگر مالک چاہے تو نر جانور بھی دے سکتا ہے، زکوۃ سے بچنے کے لیے نہ الگ الگ ریوڑوں کو اکٹھا کیا جا سکتا اور نہ اکٹھے ریوڑ کو علیحدہ علیحدہ کیا جا سکتا ہے، اگر کسی (ریوڑ میں) دو آدمیوں کا اشتراک ہو تو وہ (ادا شدہ زکوۃ) کو برابر تقسیم کریں گے، اگر چرنے والی بکریوں کی تعداد چالیس سے ایک بھی کم ہو تو ان پر زکوۃ واجب نہیں ہو گی، ہاں اگر مالک (از خود بطورِ نفل) دینا چاہے تو اس کی مرضی ہے۔ چاندی میں چالیسواں حصہ بطور زکوۃ واجب ہے، اگر چاندی (۱۹۰) درہم ہو، تو اس میں زکوۃ واجب نہیں ہو گی، ہاں اگر مالک از خود بطور نفل دینا چاہے تو اس کی مرضی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3382

۔
سیدنا ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: پانچ اوقیوں سے کم چاندی پر کوئی زکوۃ نہیں، پانچ اونٹوں سے کم پر زکوۃ نہیں اور پانچ وسق سے کم کھجور پر کوئی زکوۃ نہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3383

۔ (۳۳۸۳) عَنْ قَزْعَۃَ وَقَدْ سَأَلَ أَبَا سَعِیْدٍ الْخُدْرِیَّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنْ أَشْیَائَ قَالَ وَسَأَلْتُہُ عَنِ الزَّکَاۃِ (لَا أَدْرِی أَرَفَعَہُ إِلٰی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَمْ لَا) فِی مَائَتَیْ دِرْہَمٍ خَمْسَۃُ دَرَاہِمَ، وَفِی أَرْبَعِیْنَ شَاۃً شَاۃٌ إِلٰی عِشْرِیْنَ وَمِائَۃٍ فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَۃٌ فَفِیْہَا شَاتَانِ إِلٰی مِائَیْتَنِْ فَإِذَا زَادَتْ فَفِیْہَا ثَلَاثُ شِیَاہٍ إِلٰی ثَلَاثِمِائَۃٍ، فَإِذَا زَادَتْ فَفِی کُلِّ مِائَۃٍ شَاۃٌ،وَفِی الإِبِلِ فِی خَمْسٍ شَاۃٌ وَفِی عَشْرٍ شَاتَانِ وَفِی خَمْسَ عَشْرَۃَ ثَلَاثُ شِیَاہٍ، وَفِی عِشْرِیْنَ أَرْبَعُ شِیَاہٍ ،وَفِی خَمْسٍ وَعِشْرِیْنَ ابْنَۃُ مَخَاضٍ إِلٰی خَمْسٍ وَثَلَاثِیْنَ’ فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃٌ فَفِیْہَا ابْنَۃُ لَبُوْنٍ إِلٰی خَمْسٍ وَأَرْبَعِیْنَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃٌ فَفِیْہَا حِقَّۃٌ إِلٰی سِتِّیْنَ ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃٌ فَفِیْہَا جَذَعَۃٌ إِلٰی خَمْسٍ وَسَبْعِیْنَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃٌ فَفِیْھَا اِبْنَتَا لَبُوْنٍ إِلٰی تِسْعِیْنَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃٌ فَفِیْہَا حِقَّتَانِ إِلٰی عِشْرِیْنَ وَمِائَۃٍ فَإِذَا زَادَتْ فَفِی کُلِّ خَمْسِیْنَ حِقَّۃٌ، وَفِی کُلِّ أَرْبَعِیْنَ بِنْتُ لَبُوْنٍ۔ (مسند احمد: ۱۱۳۲۷)
قزعہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مختلف اشیاء میں زکوۃ کے بارے میں دریافت کیا، انہوں نے جواب تو دیا، لیکن مجھے یہ یاد نہیں کہ انہوں نے اس جواب کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف منسوب کیا تھا یا نہیں، بہرحال انھوں نے کہا: (۲۰۰)درہم چاندی میں پانچ درہم اور بکریوں میں (۴۰)سے (۱۲۰) تک ایک بکری زکوۃ ہے، (۱۲۰) سے ایک بھی بڑھ جائے تو (۲۰۰) تک دو بکریاں، (۲۰۰) سے زائد بکریاں ہو جائیں تو (۳۰۰) تک تین بکریاں اور اس کے بعد ہر (۱۰۰) میں ایک بکری زکوۃ ہو گی۔پانچ اونٹوں میں ایک بکری، دس میں دو، پندرہ میں تین، بیس میں چار بکریاں، (۲۵) سے (۳۵) تک ایک بنت ِ مخاض، (۳۶) سے (۴۵) تک ایک بنت ِ لبون، (۴۶) سے (۶۰) تک ایک حِقّہ، (۶۱) سے (۷۵) تک ایک جذعہ، (۷۶) سے (۹۰) تک دو عدد بنت ِ لبون اور (۹۱) سے (۱۲۰) تک دو عدد حِقّے زکوۃ ہو گی، اس کے بعد ہر (۵۰) میں ایک عدد حقّہ اور ہر (۴۰) میں ایک بنت ِ لبون کی زکوۃ فرض ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3384

۔ (۳۳۸۴) عَنْ بَہْزِ بْنِ حَکِیْمٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ (مُعَاوِیَۃَ بْنِ حَیْدَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) قَالَ: سَمِعْتُ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((فِی کُلِّ إِبِلٍ سَائِمَۃٍ فِی کُلِّ أَرْبَعِیْنَ ابْنَۃُ لَبُوْنٍ لاَ تُفَرَّقُ إِبِلٌ عَنْ حِسَابِہَا، مَنْ أَعْطَاہَا مُؤْتَجِرًا فَلَہُ اَجْرُہَا وَمَنْ مَنَعَہَا فَإِنَّا آخِذُوْہَا مِنْہُ وَشَطْرَ إِبِلِہِ، عَزْمَۃً مِنْ عَزَمَاتِ رَبَّنَا عَزَّوَجَلَّ،لاَیحَلُّ لِآلِ مُحَمَّدٍ مِنْہَا شَیْئٌ۔)) (مسند احمد: ۲۰۲۶۵)
سیدنامعاویہ بن حیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چرنے والے چالیس اونٹوں میں ایک بنت ِ لبون کی زکوۃ ہو گی، (زکوۃ سے بچنے کے لیے مشترک) اونٹوں کو الگ الگ نہیں کیا جائے گا، جو آدمی اجر وثواب کی نیت سے زکوۃ دے گا، اسے اس کا اجر ملے گا اور جو یہ ادا نہیں کرے گا، تو ہم خود اس سے (جبراً) وصول کریں گے اور (بطورِ جرمانہ) اس کے اونٹوں میں سے کچھ اونٹ بھی لیں گے، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے واجب حقوق میں سے ہے اور آلِ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے اس میں سے کچھ لینا حلال نہیں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3385

۔ (۳۳۸۵) عَنْ أَبِی ذَرٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ فِی الْاِبِلِ صَدَقَتُہَا، وَفِی الْغَنَمِ صَدَقَتُہَا، وَفِی الْبَقَرِ صَدَقَتُہَا، وَفِی الْبُرِّ صَدَقَتُہُ)) (مسند احمد: ۲۱۸۹۰)
سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اونٹوں میں زکوۃ ہے، بکریوں میں زکوۃ ہے، گایوں میں زکوۃ ہے اور گندم میں بھی زکوۃ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3386

۔ (۳۳۸۶) عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: بَعَثَنِیَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی الْیَمَنِ وَأَمَرَنِیْ أَنْ آخُذَ مِنْ کُلِّ حَالِمٍ دِیْنَارًا أَوْ عِدْلَہُ مَعَافِرَ وَأَمَرَنِی أَنْ آخُذَ مِنْ کُلِّ أَرْبَعِیْنَ بَقَرَۃً مُسِنَّۃً وَمِنْ کُلِّ ثَلَاثَیْنِ بَقَرَۃً تَبِیْعًا حَوْلِیًّا، وَأَمَرَنِی فِیْمَا سَقَتِ السَّمَائُ الْعُشْرُ وَمَا سُقِیَ بِالدَّوَالِی نِصْفُ الْعُشْرِ۔ (مسند احمد: ۲۲۳۸۷)
سیدنا معاذبن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یمن کی طرف عامل بنا کر بھیجا اورمجھے حکم دیا کہ میں ہر بالغ ذمِّی سے ایک دینار یا اس کے برابر معافری کپڑا (بطورِ جزیہ) وصول کروں اور ہر چالیس گائیوں پر دو دانتا اور ہر تیس پر ایک سال کا بچھڑا یا بچھڑی بطورِ زکوۃ وصول کروں اور جن کھیتوں کو بارش کے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے، ان کی پیدا وار کا دسواں حصہ اور جن کو ڈول یا رہٹ کے ذریعے سیراب کیا جاتا ہے، ان کی پیداوار کا بیسواں حصہ زکوۃ لوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3387

۔ (۳۳۸۷) عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ بَعَثَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُصَدِّقُ أَہْلَ الْیَمَنِ وَأَمَرَنِی أَنْ آخُذَ مِنَ الْبَقَرِ مِنْ کُلِّ ثَلَاثِیْنَ تَبِیْعًا (قَالَ ہَارُوْنَ: وَالتَّبِیْعُ الْجَذَعُ أَوْ الْجَذَعَۃُ) وَمِنْ کُلِّ أَرْبَعِیْنَ مُسِنَّۃً، قَالَ: فَعَرَضُوْا عَلَیَّ أَنْ آخَذُ مِنَ الأَرْبَعِیْنَ، قَالَ ہَارُوْنَ: مَا بَیْن الأَرْبَعِیْنَ وَالْخَمْسِیْنَ وَمَا بَیْنَ السِّتِّیْنََ وَالسَّبْعِیْنَ وَمَا بَیْنَ الثَّمَانِیْنَ وَالتِّسْعِیْنَ، فَأَبَیْتُ ذَاکَ، وَقُلْتُ لَہُمْ: حَتّٰی أَسَأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ ذَالِکَ فَقَدِمْتُ، فَأَخْبَرْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاَمَرَنِی أَنْ آخُذَ مِنْ کُلِّ ثَلَاثِیْنَ تَبِیْعًا، وَمِنْ کُلِّ أَرْبَعِیْنَ مُسِنَّۃً وَمِنَ السِّتِّیْنَ تَبِیْعَیْنِ، وَمِنْ السَّبْعِیْنَ مُسِنَّۃً وَتَبِیْعًا وَمِنَ الثَّمَانِیْنَ مُسِنَّتَیْنِ، وَمِنَ التِّسْعِیْنَ ثَلَاثَۃَ أَتْبَاعٍ، وَمِنَ الْمِائَۃِ مُسِنَّۃً وَتَبِبْعَیْنِ وَمِنَ الْعَشَرَۃِ وَالْمَائَۃِ مُسِنَّتَیْنِ وَتَبِیْعًا، وَمِنَ الْعِشْرِیْنَ وَمِائَۃٍ ثَلَاثَ مُسِنَّاتٍ أَوْ أَرْبَعَۃَ أَتْبَاعٍ قَالَ وَأَمَرَنِی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ لَاآخُذَ فِیْمَا بَیْنَ ذَالِکَ، وَقَالَ ہَارُوْنَ فِیْمَا بَیْنَ ذَالِکَ شَیْئًا إِلَّا أَنْ یَبْلُغَ مُسَنَّۃً أَوْ جَذَعًا، وَزَعَمَ أَنَّ الْأَوْقَاصَ لاَ فَرِیْضَۃَ فِیْہَا۔ (مسند احمد: ۲۲۴۳۴)
سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے اہلِ یمن سے زکوۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا اور حکم دیا کہ ہر (۳۰) گائے پر ایک سالہ بچھڑا یا بچھڑی اور ہر (۴۰) پر دو دانتا وصول کروں،ان لوگوں نے میرے سامنے تجویز پیش کی کہ میں ہر چالیس کے حساب سے زکوۃ وصول کروں، ہارون راوی کہتے ہیں: یعنی چالیس اور پچاس کے درمیان اور ساٹھ اور ستر کے درمیان اور اسی اور نوے کے درمیان۔ لیکن میں نے ان کی تجویز تسلیم کرنے سے انکار کیا اور کہاکہ جب تک میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت نہ کرلوں، از خود میں کوئی فیصلہ نہیں کروں گا۔ پس میں آیا اور ساری بات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر (۳۰) پر ایک سالہ اور ہر (۴۰) پر دو دانتا، ہر (۶۰) پر ایک سالہ دو جانور، ہر (۷۰) پر ایک جانور دو دانتا اور ایک جانور ایک سالہ، ہر (۸۰) پر دو عدد دو دانتے،ہر (۹۰) پر تین عدد ایک سالہ، ہر (۱۰۰) پر ایک عدد دو دانتا اور دو عدد ایک سالہ، (۱۱۰)پر دو عدد دو دانتے اور ایک عدد ایک سالہ ، اور (۱۲۰) پر تین عدد دو دانتے یا چار عدد ایک سالہ جانور وصول کروں۔سیدنامعاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یہ حکم بھی دیا کہ میں ان ہر دو نصابوں کی درمیان والی مقدار کی زکوۃ وصول نہ کروں۔ہارون کہتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ جس مقدار پر ایک سالہ یا دو دانتا جانور واجب ہو، وہ وصول کر لوں اور درمیان والی مقدار جسے عربی میں وَقَص کہتے ہیں اس پر زکوۃ فرض نہیں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3388

۔ (۳۳۸۸) حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرِو (بْنِ دِیْنَارٍ) عَنْ طَاوُسٍ أُتِیَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ بِوَقْصِ الْبَقَرِ وَالْعَسَلِ، فَقَالَ: لَمْ یَأْمُرْنِیَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْھَا بِشَیْئٍ۔ قَالَ سُفْیَانُ: الأَوْقَاصُ مَا دُوْنَ الثَّلَاثِیْنَ۔ (مسند احمد: ۲۲۳۶۹)
طائووس کہتے ہیں: سیدنامعاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں گائے اور شہد کا وقص زکوۃ کے لیے پیش کیا گیا، لیکن انھوں نے کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے اس کے بارے میں کوئی حکم نہیں دیا۔ سفیان کہتے ہیں: (بچ جانے والی گائیوں کی) کی تیس سے کم مقدار وقص ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3389

۔ (۳۳۸۹) عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ عَنْ أَبِیْہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کَتَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی صَدَقَۃِ الْبَقَرِ إِذَا بَلَغَ الْبَقَرُ ثَلَاثَیْنَ فِیْہَا تَبِیْعٌ مِنَ الْبَقَرِ جَذَعٌ أَوْ جَذَعَۃٌ حَتَّی تَبْلُغَ أَرْبَعْیِنَ فَإِذَا بَلَغَتْ أَرْبَعِیْنَ فَفِیْہَا بَقَرَۃٌ مُسِنَّۃٌ، فَإِذَا کَثُرَتْ فَفِی کُلِّ أَرْبَعِیْنَ مِنَ الْبَقَرِۃ بَقَرَۃٌ مُسِنَّۃٌ۔ (مسند احمد: ۳۹۰۵)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے گائے کی زکوۃ کے بارے میں یہ لکھوایا کہ جب وہ تیس ہو جائیں تو ان میں ایک سال کا بچھڑا یا بچھڑی فرض ہو گی اور جب ان کی تعداد چالیس ہو جائے تو ان میں دو دانتا جانور فرض ہو جائے گا، جب تعداد اس سے بھی بڑھ جائے تو ہر چالیس گائیوں میں ایک دو دانتا جانور ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3390

۔ (۳۳۹۰) عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: بَعَثَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُصَدِّقًا عَلٰی بَلِیٍّ وَعُذْرَۃَ، وَجَمِیْعِ بَنِی سَعْدِ بْنِ ہُذَیْمِ ابْنِ قُضَاعَۃَ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: مِنْ قُضَاعَۃَ) قَالَ: فَصَدَّقْتُہُمْ حَتّٰی مَرَرْتُ بِآخِرِ رَجُلٍ مِنْہُمْ، وَکَانَ مَنْزِلُہُ وَبَلَدُہُ مِنْ أَقْرَبِ مَنَازِلِہِمْ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْمَدِیْنَۃِ، قَالَ: فَلَمَّا جَمَعَ إِلَیَّ مَالَہُ لَمْ أَجِدْ عَلَیْہِ فِیْہَا إِلَّا ابْنَۃَ مَخَاضٍ یَعْنِی فَأَخْبَرْتُہُ أَنَّہَا صَدَقَتُہُ، قَالَ: فَقَالَ: ذَاکَ مَا لَا لَبَنَ فِیْہِ وَلَا ظَہْرَ، وَأَیْمُ اللّٰہِ، مَا قَامَ فِی مَالِی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَا رَسُوْلٌ لَہُ قَطُّ قَبْلَکَ، وَمَا کُنْتُ لِأُقْرِضَ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَاَلٰی مِنْ مَالِی مَا لَا لَبَنَ فِیْہِ وَلَا ظَہْرَ وَلٰکِنْ ہٰذِہِ نَاقَۃٌ فَتِیَّۃٌ سَمِیْنَۃٌ فَخُذْہَا، قَالَ: قُلْتُ لَہُ: مَا أَنَا بِآخِذٍ مَا لَمْ أُوْمَرْ بِہِ، فَہٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْکَ قَرِیْبٌ فَإِنْ أَحْبَبْتَ أَنْ تَأْتِیَہُ فَتَعْرِضَ عَلَیْہِ مَا عَرَضْتَ عَلَیَّ فَافْعَلْ، فَإِنْ قَبِلَہُ مِنْکَ قَبِلَہُ، وَإِنْ رَدَّہُ عَلَیْکَ رَدَّہُ، قَالَ فَاِنِّیْ فَاعِلٌ، قَالَ فَخَرَجَ مَعِی وَخَرَجَ بِالنَّاقَۃِ التَّیِ عَرَضَ عَلَیَّ حَتّٰی قَدِمْنَا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہُ! أَتَانِی رَسُوْلُکَ لِیَأْخُذَ مِنِّی صَدَقَۃَ مَالِی، وَأَیْمُ اللّٰہِ! مَا قَامَ فِی مَالِی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَا رَسُوْلٌ لَہٗ قَطُّ فَجَمَعْتُ لَہُ مَالِی فَزَعَمَ أَنْ عَلَیَّ فِیْہِ ابْنَۃَ مَخَاضٍ وَذَالِکَ مَا لَا لَبَنَ فِیْہِ وَلَا ظَہْرَ، وَقَدْ عَرَضْتُ عَلَیْہِ نَاقَۃً فَتِیَّۃً سَمِیْنَۃً لِیَأْخُذُہَا فَأَبٰی عَلَیَّ ذَالِکَ وَقَالَ: ہَا ہِیَ ہَذِہِ قَدْ جِئْتُکَ بِہَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! خُذْہَا، قَالَ: فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ذَالِکَ الَّذِی عَلَیْکَ، فَإِنْ تَطَوَّعْتَ بِخَیْرٍ قَبِلْنَاہُ مِنْکَ وَآجَرَکَ اللّٰہُ فِیْہِ۔)) قَالَ: فَہَا ہِیَ ذِہْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَدْ جِئْتُکَ بِہَا فَخُذْہَا، قَالَ: فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِقَبْضِہَا وَ دَعَا لَہُ فِی مَالِہِ بِالْبَرَکَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۱۶۰۳)
سیدناابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بلی، عذرۃ، بنو سعد بن ہذیم بن قضاعہ کے قبائل کی طرف زکوۃ کی وصولی کے لیے بھیجا، میں ان لوگوں سے زکوۃ وصول کی اورجب میں سب سے آخری آدمی کے پاس پہنچا، وہ مدینہ منورہ اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب ترین رہائش پذیر تھا، وہ اپنے جانور جمع کر کے میرے پاس لایا تو میں نے دیکھا کہ اس مال پر ایک سالہ اونٹنی کی زکوۃ فرض ہوتی ہے، لیکن جب میں نے اسے یہ مقدار بتائی تو وہ کہنے لگا کہ یہ جانور تو نہ دودھ والا ہے اور نہ سواری کے قابل، اللہ کی قسم! صورتحال یہ ہے کہ آج سے قبل نہ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے مال میں تشریف لائے اور نہ آپ کا کوئی قاصد۔ اب میں اللہ تعالیٰ کو ایسا جانور بطورِ قرضہ نہیں دوں گا، جو نہ دودھ دیتا ہو اور نہ سواری کے قابل ہو، البتہ یہ ایک جوان اور موٹی تازی اونٹنی ہے، تم یہ لے جاؤ، میں نے کہا: میں وہ چیز نہیں لوں گا جس کے لینے کا مجھے حکم نہیں دیا گیا، یہ اللہ کے رسول تمہارے قریب ہی ہیں، اگر تم چاہو تو جو جانور مجھے دینا چاہتے ہو خود جا کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پیش کر دو، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مرضی ہے وہ اس کو قبول کر لیں یا واپس کر دیں۔ اس نے کہا: ٹھیک ہے۔پس وہ اونٹنی ساتھ لے کر میرے ساتھ روانہ ہوا، جب ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تو اس نے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ کا یہ نمائندہ میرے مال کی زکوۃ وصول کرنے کے لیے میرے پاس آیا، اللہ کی قسم! اس سے پہلے نہ اللہ کے رسول میرے مال میں تشریف لائے اور نہ آپ کا کوئی قاصد، میں نے سارے جانور جمع کر کے اس قاصد کے سامنے پیش کر دیئے۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس مال پر ایک سالہ اونٹنی کی زکوۃ واجب ہوتی ہے، چونکہ یہ جانور دودھ والا تھا نہ سواری کے قابل، اس لیے میں نے اس کی خدمت میں ایک موٹی تازی اور جوان اونٹنی پیش کی، تاکہ یہ اسے قبول کر لے، لیکن اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا، اے اللہ کے رسول! اب میں خود اسے لے کر آ گیا ہوں، آپ اسے قبول فرمائیں۔ یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم پر واجب تو یہی (ایک سال) ہی ہے، ہاں اگر تم خوشی سے اس سے عمدہ دینا چاہو تو ہم قبول کر لیں گے اور اللہ تمہیں اس کا اجر دے گا، اس نے کہا:اے اللہ کے رسول! یہ وہ بہتر اونٹنی حاضر ہے، میں اسے اپنے ساتھ لے کر آیا ہوں، آپ اسے قبول فرمائیں، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے لے لینے کا حکم دیا اور اس کے مال میں برکت کی دعا کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3391

۔ (۳۳۹۰) عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: بَعَثَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُصَدِّقًا عَلٰی بَلِیٍّ وَعُذْرَۃَ، وَجَمِیْعِ بَنِی سَعْدِ بْنِ ہُذَیْمِ ابْنِ قُضَاعَۃَ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: مِنْ قُضَاعَۃَ) قَالَ: فَصَدَّقْتُہُمْ حَتّٰی مَرَرْتُ بِآخِرِ رَجُلٍ مِنْہُمْ، وَکَانَ مَنْزِلُہُ وَبَلَدُہُ مِنْ أَقْرَبِ مَنَازِلِہِمْ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْمَدِیْنَۃِ، قَالَ: فَلَمَّا جَمَعَ إِلَیَّ مَالَہُ لَمْ أَجِدْ عَلَیْہِ فِیْہَا إِلَّا ابْنَۃَ مَخَاضٍ یَعْنِی فَأَخْبَرْتُہُ أَنَّہَا صَدَقَتُہُ، قَالَ: فَقَالَ: ذَاکَ مَا لَا لَبَنَ فِیْہِ وَلَا ظَہْرَ، وَأَیْمُ اللّٰہِ، مَا قَامَ فِی مَالِی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَا رَسُوْلٌ لَہُ قَطُّ قَبْلَکَ، وَمَا کُنْتُ لِأُقْرِضَ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَاَلٰی مِنْ مَالِی مَا لَا لَبَنَ فِیْہِ وَلَا ظَہْرَ وَلٰکِنْ ہٰذِہِ نَاقَۃٌ فَتِیَّۃٌ سَمِیْنَۃٌ فَخُذْہَا، قَالَ: قُلْتُ لَہُ: مَا أَنَا بِآخِذٍ مَا لَمْ أُوْمَرْ بِہِ، فَہٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْکَ قَرِیْبٌ فَإِنْ أَحْبَبْتَ أَنْ تَأْتِیَہُ فَتَعْرِضَ عَلَیْہِ مَا عَرَضْتَ عَلَیَّ فَافْعَلْ، فَإِنْ قَبِلَہُ مِنْکَ قَبِلَہُ، وَإِنْ رَدَّہُ عَلَیْکَ رَدَّہُ، قَالَ فَاِنِّیْ فَاعِلٌ، قَالَ فَخَرَجَ مَعِی وَخَرَجَ بِالنَّاقَۃِ التَّیِ عَرَضَ عَلَیَّ حَتّٰی قَدِمْنَا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہُ! أَتَانِی رَسُوْلُکَ لِیَأْخُذَ مِنِّی صَدَقَۃَ مَالِی، وَأَیْمُ اللّٰہِ! مَا قَامَ فِی مَالِی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَا رَسُوْلٌ لَہٗ قَطُّ فَجَمَعْتُ لَہُ مَالِی فَزَعَمَ أَنْ عَلَیَّ فِیْہِ ابْنَۃَ مَخَاضٍ وَذَالِکَ مَا لَا لَبَنَ فِیْہِ وَلَا ظَہْرَ، وَقَدْ عَرَضْتُ عَلَیْہِ نَاقَۃً فَتِیَّۃً سَمِیْنَۃً لِیَأْخُذُہَا فَأَبٰی عَلَیَّ ذَالِکَ وَقَالَ: ہَا ہِیَ ہَذِہِ قَدْ جِئْتُکَ بِہَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! خُذْہَا، قَالَ: فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ذَالِکَ الَّذِی عَلَیْکَ، فَإِنْ تَطَوَّعْتَ بِخَیْرٍ قَبِلْنَاہُ مِنْکَ وَآجَرَکَ اللّٰہُ فِیْہِ۔)) قَالَ: فَہَا ہِیَ ذِہْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَدْ جِئْتُکَ بِہَا فَخُذْہَا، قَالَ: فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِقَبْضِہَا وَ دَعَا لَہُ فِی مَالِہِ بِالْبَرَکَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۱۶۰۳)
سیدناسوید بن غفلہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا زکوۃ وصول کرنے والا عامل ہمارے پاس آیا، میں اس کے پاس گیا، وہ یہ کہنے لگا: میری ذمہ داری ہے کہ میں دودھ پیتا جانور نہ لوں، (دوسری بات یہ ہے کہ) زکوۃ سے بچنے کے لیے نہ الگ الگ ریوڑوں کو اکٹھا کیا جائے اور نہ اکٹھے ریوڑ کو الگ الگ کیا جائے، اتنے میں ایک آدمی ان کے ہاں بلند کوہان والی شاندار اونٹنی لے کر آیا،لیکن انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3392

۔ (۳۳۹۲) عَنِ الصُّنَابِحِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: رَاٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی إِبِلِ الصَّدَقَۃِ نَاقَۃً مُسِنَّۃً، فَغَضِبَ وَقَالَ: ((مَا ہٰذِہِ؟)) فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنِّی ارْتَجَعْتُہَا بِبَعِیْرَیْنِ مِنْ حَاشِیَۃِ الصَّدَقَۃِ، فَسَکَتَ۔ (مسند احمد: ۱۹۲۷۶)
سیدنا صنابحی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صدقہ کے اونٹوں میں ایک بیش قیمت اونٹنی دیکھی تو غصے میں آ کر فرمایا: یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے صدقہ کے دو کم تر اونٹ دے کر ان کے عوض یہ لی ہے۔ یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش رہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3393

۔ (۳۳۹۳) عَنْ قُرَّۃَ بنِ دُعْمُوْصٍ النُّمَیْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِیْنَۃَ فَأَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَحَوْلَہُ النَّاسُ فَجَعَلْتُ أُرِیْدُ أَدْنُوْ مِنْہُ فَلَمْ أَسْتَطِعْ فَنَادَیْتُہُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!اِسْتَغْفِرْ لِلْغُلَامِ النُّمَیْرِی، فَقَالَ: ((غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ۔)) قَالَ وَبَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الضَّحَّاکَ بْنَ قَیْسٍ سَاعِیًا، فَلَمَّا رَجَعَ رَجَعَ بِإِبِلٍ جُلَّۃٍ، فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَتَیْتَ ہِلَالَ بْنَ عَامِرَ بْنَ رَبِیْعَۃَ فَاَخَذْتَ جُلَّۃَ أَمْوَالِہِمْ۔)) قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنِّی سَمِعْتُکَ تَذْکُرُ الْغَزْوَ فَأَحْبَبْتُ أَنْ آتِیَکَ بِإِبِلٍ تَرْکَبُہَا وَتَحْمِلُ عَلَیْہَا،فَقَالَ: ((وَاللّٰہِ! لَلَّذِیْ تَرَکْتَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنَ الَّذِی اَخَذْتَ، اُرْدُدْہَا وَخُذْ مِنْ حَوَاشِی أَمْوَالِہِمْ صَدَقَاتِہِمْ۔)) قَالَ فَسَمِعْتُ الْمُسْلِمِیْنَ یَسَمُّوْنَ تِلْکَ الإِبِلَ الْمَسَانَّ الْمُجَاہِدَاتِ۔ (مسند احمد: ۲۰۹۶۹)
سیدناقرۃ بن دعموص نمیری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں مدینہ منورہ آیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت بہت سے لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے۔ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب جانا چاہتا تھا، لیکن اتنی ہمت نہیں ہوئی، اس لیے میں نے (ذرا فاصلے سے ہی) آواز دی: اے اللہ کے رسول! نمیری نوجوان کے حق میں مغفرت کی دعا فرمادیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تمہاری بخشش فرمائے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ضحاک بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو زکوۃ کی وصولی کے لیے نمائندہ بنا کر بھیجا تھا، وہ تو بڑا ہی قیمتی اونٹ لے کر آگئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: تم ہلال بن عامر اور عامر بن ربیعہ کے قبائل میں زکوۃ کی وصولی کے لیے گئے تھے، تم تو ان کا بڑا قیمتی مال لے آئے ہو۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک غزوہ کی تیاری کرتے ہوئے سنا تھا، اس لیے میں نے اس قسم کے اونٹ وصول کیے ہیں تاکہ وہ آپ کی سواری اور بار برداری کے کام آسکیں۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! ان اونٹوں کی نسبت مجھے وہ اونٹ زیادہ پسند ہیں، جنہیں تم چھوڑ آئے ہو، یہ واپس کر کے ان کے کم تر اونٹوں میں سے زکوۃ وصول کر کے لاؤ۔ سیدناقرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے مسلمانوں کو سنا وہ ان قوی عمر والے اونٹوں کو جہادی اونٹ کہا کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3394

۔ (۳۳۹۴) عَنْ مُسِلِم بْنِ شُعْبَۃَ أَنَّ عَلْقَمَۃَ اسْتَعْمَلَ أَبَاہُ عَلٰی عِرَافَۃِ قَوْمِہِ، قَالَ مُسْلِمٌ: فَبَعَثَنِی اَبِیْ إِلٰی مَصْدَقَہِ فِی طَائِفَۃٍ مِنْ قَوْمِی، قَالَ: فَخَرَجْتُ حَتّٰی آتِی شَیْخًا، یُقَالُ لَہُ سَعْرٌ، فِی شِعْبٍ مِنَ الشِّعَابِ، فَقُلْتُ: إِنَّ أَبِی بَعَثَنِی إِلَیْکَ لِتُعْطِیَنِی صَدَقَہَ غَنَمِکَ، فَقَالَ: أَیِ ابْنَ أَخِی وَأَیَّ نَحْوٍ تَأْخُذُوْنَ؟ فَقُلْتُ: نَأْخُذُ أَفْضَلَ مَا نَجِدَ، فَقَالَ الشَّیْخُ إِنِّی لَفِی شُعَیْبٍ مِنْ ہٰذِہِ الشِّعَابِ فِی غَنَمٍ لِی إِذْ جَائَ نِی رَجُلَانِ مُرْتَدِفَانِ بَعِیْرًا فَقَالَا: إِنَّا رَسُولَا رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعَثَنَا إِلَیْکَ لِتُؤْتِیَنَا صَدَقَۃَ غَنَمِکَ، قُلْتُ: وَمَا ہِیَ؟ قَالَا: شَاۃٌ’ فَعَمَدْتُّ إِلٰی شَاۃٍ قَدْ عَلِمْتُ مَکَانَہَا مُمْتَلِئَۃً مَخْضًا وَشَحْمًا، فَأَخْرَجْتُہَا إِلَیْہَا، فَقَالَا: ہٰذِہِ شَافِعٌ، وَقَدْ نَہَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ نَأْخُذُ شَافِعًا وَالشَّافِعُ الَّتِی فِی بَطْنِہَا وَلَدُہَا، قَالَ: فَقُلْتُ: فَأَیَّ شَیْئٍ تَأْخُذَانِ؟ قَالَا: عَنَاقًا، أَوْجَذَعَۃً أَوْ ثَنِیَّۃً، قَالَ فَأَخْرَجَ لَہُمَا عَنَاقًا، قَالَ: فَقَالَا: اِدْفَعْہَا إِلَیْنَا فَتَنَاوَلَاہَا وَجَعَلَاہَا مَعَہُمَا عَلٰی بَعِیْرِہِمَا۔ (مسند احمد: ۱۵۵۰۵)
مسلم بن شعبہ کہتے ہیں: علقمہ نے ان کے والد (شعبہ) کو ان کی قوم پر عامل مقرر کیا، پھر میرے والد نے مجھے میری قوم کے ایک حصہ پر زکوۃ کی وصولی کے لیے روانہ کیا، میں ایک بزرگ کے ہاں پہنچا، اس کو سِعْر کہتے تھے، وہ ایک گھاٹی میں مقیم تھا، میں نے اسے کہا: میرے والد نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے، تاکہ آپ اپنی بکریوں کی زکوۃ مجھے جمع کرادیں۔ انہوں نے کہا: بھتیجے! تم بطور زکوۃ کس قسم کا جانور قبول کرو گے؟ میں نے کہا: ہم سب سے افضل اور بہترین جانور لیں گے۔ پھر اس نے کہا: میں انہی گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں مقیم تھا کہ دو شتر سوار میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نمائندے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ ہمیں اپنی بکریوں کی زکوۃ جمع کرادیں۔ میں نے پوچھا: کتنی زکوۃ جی؟ انہوں نے کہا: ایک بکری۔ میں نے ایک ایسی بکری نکالی، جو دودھ اور چربی سے بھری ہوئی تھی، لیکن انہوں نے کہا: یہ تو حاملہ ہے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں ایسا جانور لینے سے منع فرمایا ہے۔ میں نے کہا: تو پھر آپ کیسی بکری لیں گے؟ انہوں نے کہا: عَنَاق یا جَذَعہ یا ثَنِیّہ دے دو، جب میں نے عَنَاق بکری نکالی تو انھوں نے کہا: یہ ہمیں دے دو، پس انھوں نے وہ وصول کی اور اپنے ساتھ اونٹ پر رکھ کر چلے گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3395

۔ (۳۳۹۵) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَیْسَ عَلَی الْمُسْلِمِ فِی فَرَسِہِ وَلَا عَبْدِہِ صَدَقَۃٌ۔)) (مسند احمد: ۷۲۹۳)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مسلمان پر گھوڑے اور غلام کی زکوۃ فرض نہیں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3396

۔ (۳۳۹۶) وَعَنْہُ أَیْضًا عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ قَالَ: ((لَیْسَ فِی الْعَبْدِ صَدَقَۃٌ إِلَّا صَدَقَۃَ الْفِطْرِ۔)) (مسند احمد: ۹۴۳۶)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: غلام کی زکوۃ فرض نہیں ہے، البتہ (مالک پر اس کا) صدقۂ فطر فرض ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3397

۔ (۳۳۹۷) عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَحُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یَأْخُذُ مِنَ الْخَیْلِ وَالرَّقِیْقِ صَدَقَۃً۔ (مسند احمد: ۱۱۳)
سیدنا عمر بن خطاب اور سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کا بیان ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے گھوڑوں اور غلاموں کی زکوۃ وصول نہیں کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3398

۔ (۳۳۹۸) عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ، أَنَّہُ حَجَّ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌فَأَتَاہُ اَشْرَافُ أَہْلِ الشَّامِ فَقَالُوْا: یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! إِنَّا أَصَبْنَا رَقِیْقًا وَدَوَابَّ فَخُذْ مِنْ أَمْوَالِنَا صَدَقَۃً تُطَہِّرُنَا بِہَا وَتَکُوْنُ لَنَا زَکَاۃً، فَقَالَ: ہٰذَا شَیْئٌ لَمْ یَفْعَلُہُ اللَّذَانِ قَبْلِی وَلٰکِنِ انْتَظِرُوْا حَتّٰي أَسْأَلَ الْمُسْلِمِیْنَ۔ (مسند احمد: ۲۱۸)
حارثہ بن مضرب کہتے ہیں: میں نے سیدناعمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معیت میں حج کیا، اہل شام کے معزز لوگ آئے اور انھوں نے کہا: اے امیر المومنین! ہم غلاموں اور جانوروں کے مالک بنے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ ہم سے ہمارے ان مالوں کی زکوۃ وصول کریں تاکہ ہمارے مال پاک ہو جائیں اور یہ چیز ہمارے لیے باعث ِ تزکیہ ہو۔ لیکن آپ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مجھ سے پہلے والی دو شخصیات(رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) نے یہ عمل نہیں کیا، لیکن تم انتظار کرو تاکہ میں دوسرے مسلمانوں سے اس بارے میں مشورہ کر لوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3399

۔ (۳۳۹۹) (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: جَائَ نَاسٌ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ إِلٰی عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌فَقَالُوْا: إِنَّا قَدْ أَصَبْنَا أَمْوَالاً وَخَیْلًا وَرَقِیْقًا نُحِبُّ أَنْ یَکُوْنَ لَنَا فِیْہَا زَکَاۃٌ وَطَہُوْرٌ، قَالَ: مَا فَعَلَہُ صَاحِبَایَ قَبْلِی فَأَفْعَلُہُ وَاسْتَشَارَ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَفِیْہِمْ عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌فَقَالَ عَلِیٌّ: ہُوَ حَسَنٌ، إِنْ لَمْ یَکُنْ جِزْیَۃً رَاتِبَۃً یُؤْخَذُوْنَ بِہَا مِنْ بَعْدِکَ۔ (مسند احمد: ۸۲)
(دوسری سند) حارثہ کا بیان ہے کہ شام کے کچھ لوگ عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں آئے۔ انہوں نے کہا: ہمیں کچھ اموال، گھوڑے اور غلام دستیاب ہوئے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کی زکوۃ ادا کریں تاکہ ہمارے اموال پاک ہو جائیں۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مجھ سے پہلے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ عمل نہیں کیا، پھر انہوں نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا، ان میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی موجود تھے، انہوں نے کہا: (ان سے قبول کر لینا) اچھی بات ہے، بشرطیکہ اس کو اس طرح مقرر نہ کر دیا جائے کہ بعد والے لوگوں سے بھی لیا جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3400

۔ (۳۴۰۰)عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((قَدْ عَفَوْتُ لَکُمْ عَنِ الْخَیْلِ وَالرَّقِیْقِ وَلَا صَدَقَۃَ فِیْہِمَا۔)) (مسند احمد: ۱۲۶۷)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تم سے گھوڑوں اور غلاموں کی زکوۃ معاف کرتا ہوں، ان میں کوئی زکوۃ نہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3401

۔ (۳۴۰۱) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنِ الْحَمِیْرِ فِیْہَا زَکَاۃٌ؟ فَقَالَ: ((مَا جَائَ فِیْہَا شَیْئٌ إِلَّا ہٰذِہِ الآیَۃُ الْفَاذَّۃُ {فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہُ۔ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَاَل ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہُ}۔)) (مسند احمد: ۹۴۷۰)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ پوچھا گیا کہ آیا گدھوں پر زکوۃ ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس بارے میںمجھ پر کوئی چیز نازل نہیں ہوئی، ما سوائے اس ایک جامع آیت کے: {فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہٗ۔ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہٗ۔}(سورۂ زلزال۔۸) یعنی: جو کوئی ایک ذرہ برابرنیکی کرے گا، وہ اس کا بدلہ پالے گا اور جو کوئی ذرہ برابر گناہ کرے وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3402

۔ (۳۴۰۲) عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((قَدْ عَفَوْتُ لَکُمْ عَنِ الْخَیْلِ وَالرَّقِیْقِ فَہَاتُوْاصَدَقَۃَ الرِّقَۃِ مِنْ کُلِّ أَرْبَعِیْنَ دِرْہَمًا دِرْہَمًا وَلَیْسَ فِی تِسْعِیْنَ وَمِائَۃٍ شَیْئٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ مَائَتَیْنِ فَفِیْہَا خَمْسَۃُ دَرَاہِمَ۔)) (مسند احمد: ۷۱۱)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے تم سے گھوڑوں اور غلاموں کی زکوۃ معاف کر دی ہے،البتہ تم چاندی کے ہر چالیس درہموں میں سے ایک درہم بطور زکوۃ ادا کیا کرو،اگر چاندی ایک سو نوے درہم ہو تو اس میں کوئی زکوۃ نہیں ہے، جب وہ دو سو درہم ہو جائے تو اس میں پانچ درہم زکوۃ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3403

۔ (۳۴۰۳)(وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((قَدْ عَفَوْتُ لَکُمْ عَنِ الْخَیْلِ وَالرَّقِیْقِ وَلَیْسَ فِیْمَا دُوْنَ مِائَتَیْنِ زَکَاۃٌ۔)) (مسند احمد: ۹۱۳)
(دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے تم سے گھوڑوں اور غلاموں کی زکوۃ معاف کر دی ہے، اور دو سو درہم سے کم (چاندی) میں بھی کوئی زکوۃ نہیں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3404

۔ (۳۴۰۴) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا صَدَقَۃَ فِیْمَا دُوْنَ خَمْسِ اَوَاقٍ وَلَا فِیْمَا دُوْنَ خَمْسَۃِ أَوْسُقٍ، وَلَا فِیْمَا دُوْنَ خَمْسِ ذَوْدٍ۔)) (مسند احمد: ۱۴۲۰۹)
سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پانچ اوقیوں سے کم چاندی پر کوئی زکوۃ نہیں، پانچ وسق سے کم فصل پر کوئی زکوۃ نہیںاور پانچ اونٹوں سے کم پر زکوۃ نہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3405

۔ (۳۴۰۵)وَعَنْ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِثْلُہُ۔ (مسند احمد: ۵۶۷۰)
سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3406

۔ (۳۴۰۶) عَنْ أَبِی سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((لَا صَدَقَۃَ فِیْمَا دُوْنَ خَمْسَۃِ أَوْسُقٍ مِنَ التَّمْرِ وَلَا فِیْمَا دُوْنَ خَمْسِ اَوَاقٍ مِنَ الْوَرِقِ وَلَا فِیْمَا دُوْنَ خَمْسٍ مِنَ الإِبِلِ)) (مسند احمد: ۱۱۸۴۱)
سیدنا ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: پانچ وسق سے کم کھجوروں پر کوئی زکوۃ نہیں، چاندی کے پانچ اوقیوں سے کم پر کوئی زکوۃ نہیں اور پانچ اونٹوں سے کم پر کوئی زکوۃ نہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3407

۔ (۳۴۰۷)عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فِی کِتَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الَّذِی جَمَعَ فِیْہِ فَرَائِضَ الصَّدَقَۃِ، قَالَ: ((وَفِی الرِّقَۃِ رُبُعُ الْعُشُوْرِ، فَإِذَا لَمْ یَکُنْ الْمَالُ إِلَّا تِسْعِیْنَ وَمَائَۃَ دِرْہَمٍ فَلَیْسَ فِیْہَا شَیْئٌ إِلَّا أَنْ یَشَائَ رَبُّہَا۔)) (مسند احمد: ۷۲)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تحریر، جو نصاب ِ زکوۃ پر مشتمل تھی، میں یہ بھی تھا: چاندی میں چالیسواں حصہ زکوۃ فرض ہے، اگر چاندی ایک سو نوے درہم ہو تو اس میں زکوۃ فرض نہیں، ہاں اگر اس کا مالک چاہے تو ٹھیک ہے۔

Icon this is notification panel