47 Results For Hadith (Musnad Ahmad ) Book ()
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3250

۔ (۳۲۵۰) عَنْ جَرِیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْبَجَلِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ رَجُلًا جَائَ فَدَخَلَ فِی الإِسْلَامِ، فَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُعَلِّمُہُ الإِسْلَامَ وَہُوَ فِی مَسِیْرِہِ فَدَخَلَ خُفُّ بَعِیْرِہِ فِی جُحْرِ یَرْبُوْعٍ فَوَقَصَہُ بَعِیْرُہُ فَمَاتَ، فَأَتٰی عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((عَمِلَ قَلِیْلًا وَأُجِرَ کَثِیْرًا، قَالَہَا حَمَّادٌ، ثَـلَاثًا، اَللَّحْدُ لَنَا وَالشَّقُّ لِغَیْرِنَا۔)) (مسند احمد: ۱۹۳۷۱)
سیّدنا جریر بن عبداللہ بَجَلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے آکر اسلام قبول کیا، ایک سفر کے دوران رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسے اسلام کی تعلیم دیتے رہے، چلتے چلتے اس کے اونٹ کا پائوں ایک قسم کے چھوٹے چوہے کے بل پر جا پڑا، جس کہ وجہ سے وہ اونٹ سے گر کر فوت ہو گیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی میت کے پاس آئے اور فرمایاـ: اس نے عمل تو تھوڑا کیا، لیکن ثواب بہت زیادہ پا لیا۔)) حماد راوی نے یہ جملہ تین دفعہ دہرایا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : لحد ہمارے لیے ہے اور شق دوسروں کے لیے ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3251

۔ (۳۲۵۱)(وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) بِنَحْوِہِ وَفِیْہِ: فَجَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی جَلَسَ عَلٰی شَفِیْرِ الْقَبْرِ، قَالَ: فَقَالَ: ((اِلْحَدُوْا، وَلَا تَشُقُّوْا، فَاِنَّ اللَّحْدَ لَنَا وَالشَّقَّ لِغَیْرِنَا)) (مسند احمد: ۱۹۳۹۰)
(دوسری سند) اس میں ہے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اور قبر کے کنارے پر بیٹھ گئے اور فرمایا: بغلی قبر بنائو، شق نہ بناؤ، کیونکہ لحد ہمارے لیے ہے اور شق دوسروں کے لیے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3252

۔ (۳۲۵۲) (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَالِثٍ) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَللَّحْدُ لَنَا وَالشَّقُّ لِأَہْلِ الْکِتَابِ)) (مسند احمد: ۱۹۴۲۶)
۔ (تیسر ی سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لحد ہمارے لیے ہے اور شق اہل کتاب کے لیے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3253

۔ (۳۲۵۳) عَنْ ہِشَامِ بْنِ عَامِرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: جَائَ تِ الْأَنْصَارُ إِلٰی رَسُوِْل اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ أُحُدٍ فَقَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَصَابَنَا قَرْحٌ وَجَہْدٌ، فَکَیْفَ تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: ((اِحْفِرُوْا وَأَوْسِعُوْا (زَادَ فِی رِوَایَۃٍ: وَأَعْمِقُوْا) وَاجْعَلُوْا الرَّجُلَیْنِ وَالثَّلَاثَۃَ فِی الْقَبْرِ۔)) قَالُوْا: فَأَیُّہُمْ نُقَدِّمُ؟ قَالَ: ((أَکْثَرَہُمْ قُرْآنًا۔)) قَالَ: فَقُدِّمَ أَبِی عَامِرٌ بَیْنَ یَدَی رَجُلٍ أَوْ اثْنَیْنِ۔ (مسند احمد: ۱۶۳۶۷)
سیّدنا ہشام بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: غزوہ احد والے دن انصاری صحابہ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! ہم بہت زخمی اور تھکے ہوئے ہیں، (اب ان شہداء کی تدفین کے بارے میں ) آپ ہمیں کیا حکم دیں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قبریں کھودو اور ان کو وسیع اور گہرا کرو، اور دو دو اور تین تین آدمی ایک ایک قبر میں دفنا دو۔ انھوں نے کہا: ہم ان میں سے کس کو مقدم کر کے رکھیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جسے زیادہ قرآن یاد ہو۔ ہشام کہتے ہیں: چنانچہ میرے والدعامر کو ایک یا دو آدمیوں سے آگے رکھا گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3254

۔ (۳۲۵۴)(وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: قُتِلَ أَبِی یَوْمَ أُحُدٍ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِحْفِرُوْا و أَوسِعُوْا وَأَحْسِنُوْا، وَادْفِنُوْا الَاثْنِیْنِ وَالثَـلَاثَۃَ فِی الْقَبْرِ، وَقَدِّمُوْا أَکْثَرَہُمْ قُرْآنًا (وَفِی رِوَایَۃٍ أَکْثَرَہُمْ أَخَذًا لِلْقُرْآنِ) وَکَانَ أَبِی ثَالِثَ ثَـلَاثَۃٍ وَکَانَ أَکْثَرَہُمْ قُرْآنًا فَقُدِّمَ۔ (مسند احمد: ۱۶۳۶۹)
(دوسری سند) سیّدنا ہشام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میرے والد غزوہ احد والے دن شہید ہو گئے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قبریں کھودو، وسیع کرو اور ان کو اچھا بناؤ اور دو دو، تین تین افراد کو ایک ایک قبر میں دفن کرو اور جس کو زیادہ قرآن یاد ہو، اسے آگے کی طرف رکھو۔ میرے باپ تین افراد میں سے تیسرے تھے، چونکہ ان کو قرآن زیادہ یاد تھا، اس لیے ان کو مقدم کر کے رکھا گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3255

۔ (۳۲۵۵) عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی جَنَازَۃِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَأنَا غَلَامٌ مَعَ أَبِی فجَلَسَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی حَفِیْرَۃِ الْقَبْرِ فَجَعَلَ یُوْصِی الْحَافِرَ وَیَقُوْلُ: ((أَوْسِعْ مِنْ قِبْلِ الرَّأْسِ وَ أَوْسِعْ مِنْ قِبَلِ الرِّجْلَیْنِ لَرُبَّ عِذْقٍ لَہُ فِی الْجَنَّۃِ)) (مسند احمد: ۲۳۸۵۹)
ایک انصاری صحابی بیان کرتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک انصاری کے جنازہ میں نکلے، میں چھوٹا لڑکا تھا اور اپنے والد کے ہمراہ گیا تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبر کے گڑھے کے قریب بیٹھ گئے اور قبر بنانے والے سے فرمانے لگے: سر کی طرف سے قبر کو کھلا کرو، پائوں کی طرف وسیع کرو، جنت میں اس میت کے لیے کھجور کے بہت سے خوشے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3256

۔ (۳۲۵۶) عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّہُ قَالَ: اِلْحَدُوْا لِیْ لَحْدًا وَانْصِبُوْا عَلَیَّ اللَّبِنَ نَصْبًا کَمَا صُنِعَ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۴۵۰)
سیّدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم لوگ میرے لیے لحد بنانا اور میرے اوپر اسی طرح کچی اینٹیں رکھ دینا،جس طرح رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ کیا گیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3257

۔ (۳۲۵۷) عَنْ أَبِی أُماَمَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: لَمَّا وُضِعَتْ أُمُّ کُلْثُوْمٍ بْنَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فِی الْقَبْرِ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : {مِنْہَا خَلَقْنَاکُمْ وَفِیْہَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً أُخْرٰی} قَالَ: ثُمَّ لَا أَدْرِی أَقَالَ بِاسْمِ اللّٰہِ، وَفِی سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ أَمْ لَا، فَلَمَّا بُنِیَ عَلَیْہَا لَحْدُہَا طَفِقَ یَطْرَحُ اِلَیْہِمُ الْجَبُوْبَ، وَیَقُوْلُ: ((سُدُّوْا خِلَالَ اللَّبِنِ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((أَمَا إِنَّ ہٰذَا لَیْسَ بِشَیْئٍ وَلَکِنَّہُ یَطِیْبُ بِنَفْسِ الْحَیِّ۔)) (مسند احمد: ۲۲۵۴۰)
سیّدناابوامامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیٹی سیدہ ام کلثوم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو قبر میں رکھا گیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت پڑھی {مِنْہَا خَلَقْنَاکُمْ …… تَارَۃً أُخْرٰی} (سورۂ طہ، ۵۵) (ہم نے تمہیں اسی مٹی سے پیدا کیا اور اسی میں تم کو لوٹائیں گے اور پھر اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے) سیّدنا ابوامامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں یہ نہیں جانتا کہ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ دعا پڑھی تھی یا نہیں: بِاسْمِ اللّٰہِ، وَفِی سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ۔ (اللہ کے نام کے ساتھ،اللہ کی راہ میں اور اللہ کے رسول کے طریقے کے مطابق دفن کرتے ہیں)۔ جب لحد کی چنائی کر دی گئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کی طرف گارا پھینکا اور فرمایا: اس سے اینٹوں کے شگافوں کو پر کر دو۔ پھر فرمایا: یہ کوئی ضروری چیز نہیں ہے، بس زندہ لوگوں کا نفس ذرا مطمئن ہو جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3258

۔ (۳۲۵۸) عَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِذَا وَضَعْتُمْ مَوْتَاکُمْ فِی الْقَبْرِ، فَقُوْلُوْا: بِاسْمِ اللّٰہِ وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۴۸۱۲)
سیّدنا عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم اپنے فوت شدگان کو قبر میں اتارو تو یہ دعا پڑھا کرو: بِاسْمِ اللّٰہِ وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ۔ (اللہ کے نام کے ساتھ اور اس کے رسول کے طریقے پر)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3259

۔ (۳۲۵۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِی أَبِی ثَنَا ہُشَیْمٌ أَنَا خَالِدٌ عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ شَہِدَ جَنَازَۃَ رَجُلِ مِنْ الْأَنْصَارِ، قَالَ: فَأَظْہَرُوْا الْاِسْتِغْفَارَ، فَلَمْ یُنْکِرْ ذَالِکَ أَنَسٌ، قَالَ ہُشَیْمٌ: قَالَ خَالِدٌ فِی حَدِیْثِہٖ: وَأَدْخَلُوْہُ مِنْ قِبَلِ رِجْلِ الْقَبْرِ، وَقَالَ ہُشَیْمٌ مَرَّۃً: إِنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ مَاتَ بِالْبَصْرَۃِ فَشَہَِدَہُ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ فَأَظْہَرُوْا لَہُ الَاسْتَغْفَارَ۔ (مسند احمد: ۴۰۸۰)
ابن سیرین کہتے ہیں کہ سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک انصاری آدمی کے جنازہ میں شریک تھے، لوگوں نے اس کے حق میں بلند آواز سے دعائے مغفرت کی اور سیّدناانس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان پر کوئی انکار نہیں کیا۔ خالد راوی نے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے کہا: انہوں نے میت کو قبر کے پاؤں کی طرف سے اتارا تھا۔ اور ہشیم راوی نے ایک مرتبہ اس حدیث کو یوں بیان کیا: بصرہ میں ایک انصاری آدمی فوت ہو گیا تھا، سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی اس کے جنازہ میں شریک تھے، لوگوں نے میت کے حق میں بآواز بلند دعائے مغفرت کی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3260

۔ (۳۲۶۰) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: شَہِدْنَا ابْنَۃً لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَالِسٌ عَلَی الْقَبْرِ، فَرَأَیْتُ عَیْنَیْہِ تَدْمَعَانِ، ثُمَّ قَالَ: ((ہَلْ مِنْکُمْ مِنْ رَجُلٍ لَمْ یُقَارِفِ اللَّیْلَۃَ؟)) قَالَ سُرَیْجٌ: یَعْنِی: ذَنْبًا، فَقَالَ أَبُوْ طَلْحَۃَ: أَنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((فَانْزِلَ۔)) قَالَ: فَنَزَلَ فِی قَبْرِہَا۔ (مسند احمد: ۱۳۴۱۶)
سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ایک صاحب زادی کے جنازہ میں شریک تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبر کے پاس تشریف فرما تھے اور میں نے دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم میں کوئی ایسا آدمی ہے، جس نے اِس رات کو (اپنی بیوی سے)ہم بستری نہ کی ہو؟ سریج نے کہا: اس کا معنی گناہ ہے، سیّدنا ابوطلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر اترو۔ پس وہ ان کی قبر میں اترے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3261

۔ (۳۲۶۱) وَعَنْہُ أَیْضًا أَنَّ رُقَیَّۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا لَمَّا مَاتَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا یَدْخُلِ الْقَبْرَ رَجُلٌ قَارَفَ أَہْلَہُ۔)) فَلَمْ یَدْخُلْ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ الْقَبْرَ۔ (مسند احمد: ۱۳۴۳۱)
سیّدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیٹی سیدہ رقیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا انتقال ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے آج رات اپنی بیوی سے ہم بستری کی ہو وہ قبر میں داخل نہ ہو۔ پس سیّدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ قبر میں داخل نہ ہوئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3262

۔ (۳۲۶۲) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ تَبِعَ جَنَازَۃً فَحَمَلَ مِنْ عُلُوِّہَا،وَحَثَا فِی قَبْرِہَا، وَقَعَدْ حَتّٰی یُؤْذَنَ لَہُ آبَ بِقِیْرَاطَیْنِ مِنَ الأَجْرِ، کُلُّ قِیْرَاطٍ مِثْلُ أُحُدٍ۔)) (مسند احمد: ۱۰۸۸۷)
سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص میت کی چارپائی اٹھانے کے وقت سے اس کے ساتھ رہتاہے اور قبر میں مٹی بھی ڈالتا ہے اور اس وقت تک ساتھ رہتا ہے کہ دفن کے بعد اسے واپسی کی اجازت دے دی جاتی ہے تو وہ اجر کے دو قیراط لے کر واپس ہوتا ہے اور ہر قیراط احد پہاڑ کے برابر ہوتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3263

۔ (۳۲۶۳) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: تُوُفِّیَ رَجُلٌ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ بَنِی عُذْرَۃَ فَقُبِرَ لَیْلًا، فَنَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یُقْبَرَ الرَّجُلُ لَیْلًا حَتّٰی یُصَلّٰی عَلَیْہِ إِلَّا أَنْ یَضْطَرُّوْا إِلٰی ذَالِکَ۔ (مسند احمد: ۱۵۳۶۱)
سیّدنا جابربن عبداللہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میں بنو عذرہ خاندان کا ایک آدمی رات کو فوت ہوا اور اسے رات کو ہی دفن کر دیا گیا، تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رات کو دفن کرنے سے منع فرما دیا، جب تک اس کی نماز جنازہ ادا نہ کر لی جائے، الا یہ کہ لوگ (رات کو دفن) کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3264

۔ (۳۲۶۴) عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: مَا عَلِمْنَا بِدَفْنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی سَمِعْتُ صَوْتَ الْمَسَاحِی مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ لَیْلَۃَ الْأَرْبِعَائِ، قَالَ مُحَمَّدٌ، وَالْمَسَاحِی الْمَرُوْرُ۔ (مسند احمد: ۲۴۸۳۷)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: ہمیں تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دفن ہو جانے کا اس وقت علم ہوا کہ جب نے بدھ والی رات کے آخری حصے میں بیلچوں وغیرہ کی آوازیں سنیں۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں: اَلْمَسَاحِیْ کا معنی بیلچہ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3265

۔ (۳۲۶۵) عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ الجْہُنَیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: ثَـلَاثُ سَاعَاتٍ کَانَ یَنْہَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ نُصَلِّیَ فِیْہَا أَوْ أَنْ نَقْبُرَ فِیْہِنَّ مَوْتَانَا: حِیْنَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بِازِغَۃً حَتّٰی تَرْتَفِعَ، وَحِیْنَ یَقُوْمُ قَائِمُ الظَّہِیْرَۃِ حَتّٰی تَمِیْلَ الشَّمْس، وَحِیْنَ تَضَیَّفُ لِلْغُرُوْبِ حَتّٰی تَغْرُبَ۔ (مسند احمد: ۱۷۵۱۲)
سیّدناعقبہ بن عامر جھنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں ان تین اوقات میں نماز پڑھنے اور مردوں کو دفن کرنے سے منع فرمایا: (۱) جب سورج طلوع ہو رہا ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ بلند ہو جائے، (۲) جب دوپہر کے وقت کھڑا ہو جانے والا کھڑا ہو جائے، یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، اور (۳) جب سورج غروب ہونے کے لیے جھک جائے، یہاں تک کہ وہ غروب ہو جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3266

۔ (۳۲۶۶) عَنْ أَبِی مُحَمَّدٍ عَنْ الْہُذَلِیِّ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی جَنَازَۃِ، فَقَالَ: ((أَیُّکُمْ یَنْطَلِقُ إِلَی الْمَدِیْنَۃِ، فَـلَا یَدَعُ بِہَا وَثَنَا إِلَّأکَسَرَہُ وَلَا قَبْرًا إِلَّا سَوَّاہُ وَلَا صُوْرَۃً إِلَّا لَطَخَہَا؟)) فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَانْطَلَقَ فَہَابَ أَہْلَ الْمَدِیْنَۃِ فَرَجَعَ، فَقَالَ عَلِیٌّ: أَنَا أَنْطَلِقُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: فَانْطَلَقَ، ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! لَمْ أَدَعْ بِہَا وَثَنَا إِلَّا کَسَرْتُہُ وَلَا قَبْرًا إِلَّا سَوَّیْتُہُ، وَلَا صُوْرَۃً اِلَّا لَطَخْتُہَا، ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ عَادَ لِصَنْعَۃِ شَیْئٍ مِنْ ہٰذَا فَقَدْ کَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((لَاتَکُوْنَنَّ فَتَّانًا وَلَا مُخْتَالاً وَلَا تَاجِرًا اِلَّا تَاجِرَ خَیْرٍ، فَإِنَّ أُوْلٰئِکَ ہُمُ الْمَسْبُوْقُوْنَ بِالْعَمَلِ۔)) (مسند احمد: ۶۵۷)
ابومحمد ہذلی، سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک جنازہ میں شریک تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے وہ کون ہے جو مدینہ جائے اور وہاں جا کر ہر بت کو توڑ دے، ہر قبر کو برابر کر دے اور ہر تصویر کو مسخ کر دے؟ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں یہ کام کروں گا، پھر وہ چلا تو گیا، لیکن مدینہ والوں سے ڈر کر واپس آگیا۔ سیّدناعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اس کام کے لیے جاتا ہوں، پھر وہ چلے گئے اور واپس آ کر کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے ہر بت کو توڑ ڈالا، ہر قبر کو برابر کر دیا اور ہر تصویر کو مسخ کر دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے دوبارہ اس قسم کا کوئی کام کیا تو اس نے اس دین کا انکار کر دیا جو محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر نازل ہوا۔، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم فتنہ باز اور متکبر نہ بننا اور تاجر بھی نہ بننا، الا یہ کہ خیر کا تاجر ہو، کیونکہ یہ لوگ (اچھے) عمل میں پیچھے رہ جائیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3267

۔ (۳۲۶۷) (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعَثَ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ أَنْ یُسَوِّیَ کُلَّ قَبْرِ وَأَنْ یَلْطَخَ کُلَّ صَنَمٍ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنِّی اَکْرَہُ أَنْ اَدْخُلَ بُیُوْتَ قَوْمِی، قَالَ: فَأَرْسَلَنِیْ، فَلَمَّا جِئْتُ، قَالَ: ((یَا عَلِیُّ! لَاتَکُوْنَنَّ فَتَّانًا، وَلَامُخْتَالًا وَلَا تَاجِرًا إِلَّا تَاجِرَ خَیْرٍ فَإِنَّ أُوْلٰئِکَ مُسَوِّفُوْنَ اَوْ مَسْبُوْقُوْنَ فِی الْعَمَلِ)) (مسند احمد: ۱۱۷۶)
سیّدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہر قبر کو برابر کرنے اور ہر بت کو توڑ ڈالنے کے لیے ایک انصاری کو بھیجا، لیکن اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اپنی قوم کے گھروں کے اندر داخل ہونے کو ناپسند کرتا ہوں۔ اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بلا بھیجا، جب میں آ یا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علی! تم فتنہ باز اورمتکبر نہ بننا اور نہ ہی تاجر بننا، الایہ کہ خیر کا تاجر ہو، یہ لوگ عمل میں ٹال مٹول کرنے والے ہیں یا دوسروں سے پیچھے رہ جائیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3268

۔ (۳۲۶۸) عَنْ جَرِیْرِ بْنِ حَیَّانَ عَنْ أَبِیْہِ اَنَّ عَلِیًا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ لأَبِیْہِ: لَأَبْعَثَنَّکَ فِیْ مَا بَعَثَنِی فِیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ أُسَوِّیَ کُلَّ قَبْرٍ وَأَنْ أَطْمِسَ کُلَّ صَنَمٍ۔ (مسند احمد: ۸۸۹)
جنابِ حیان کہتے ہیں: سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے کہا: میں تمہیں ایک ایسے کام کے لیے بھیجوں گا کہ جس کے لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بھیجا تھا، اور وہ یہ تھا کہ میں ہر قبر کو برابر کر دوں اور ہر بت کو توڑ ڈالوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3269

۔ (۳۲۶۹) عَنْ ثُمَامَۃَ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ فََضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ الْأَنْصَارِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌إِلٰی أَرْضِ الرُّوْمِ، وَکَانَ عَامِلًا لِمُعَاوِیَۃَ عَلَی الدَّرْبِ، فَأُصِیْبَ ابْنُ عَمٍّ لَنَا، فَصَلّٰی عَلَیْہِ فَضَالَۃُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ وَقَامَ عَلٰی حُفْرَتِہِ، حَتّٰی وَارَاہُ فَلَمَّا سَوَّیْنَا عَلَیْہِ حُفْرَتَہُ، قَالَ: أَخِفُّوْا عَنْہُ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَأْمُرُنَا بِتَسْوِیَۃِ الْقُبُوْرِ۔ (مسند احمد: ۲۴۴۳۱)
ثمامہ ہمدانی کہتے ہیں: ہم سیّدنافضالہ بن عبید انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہمراہ روم کی طرف نکلے، وہ وہاں سیّدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف سے درب کے حاکم تھے، ہوا یوں کہ ہمارا ایک چچا زاد بھائی فوت ہو گیا، سیّدنا فضالہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس وقت تک اس کی قبر پر کھڑے رہے تاآنکہ اس کو دفن کر دیا، جب ہم نے (مٹی ڈال کر) اس کا گڑھا برابر کرنے لگے تو انھوں نے کہا: ذرا مٹی کم ڈالو، کیونکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں قبر کو زمین کے برابر کرنے کا حکم دیا کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3270

۔ (۳۲۷۰) (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: غَزَوْنَا أَرْضَ الرُّوْمِ وَعَلٰی ذَالِکَ الْجَیْشِ فَضَالَۃُ بْنُ عُبَیْدٍالْأَنْصَارِیُّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَذَکَرَ الْحَدِیْثَ، فَقَالَ فَضَالَۃُ: خَفِّفُوْا فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَأْمُرُ بِتَسْوِیَۃِ الْقُبُوْرِ۔ (مسند احمد: ۲۴۴۳۳)
(دوسری سند) ثمامہ کہتے ہیں: ہم نے روم کے علاقے والوں سے جہاد کیا، اس لشکر کے امیر سیّدنا فضالہ بن عبید انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے،… سارا واقعہ بیان کیا…، سیّدنا فضالہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مٹی تھوڑی ڈالو، کیونکہ میںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ حکم دیتے ہوئے سنا تھا کہ قبروں کو زمین کے برابر کر دیا جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3271

۔ (۳۲۷۱)(وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَالِتٍ) عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِی حَبِیْبٍ اَنَّ أَبَا عَلِیٍّ الْھَمْدَانِیَّ أَخْبَرَہُ أَنَّہُ رَاٰی فَضَالَۃَ بْنَ عُبَیْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَمَرَ بَقُبُوْرِ الْمُسْلِمِیْنَ فَسُوِّیَتْ بِأَرْضِ الرُّوْمِ وَقَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: سَوُّوْا قُبُوْرَکُمْ بِالْأَرْضِ۔ (مسند احمد: ۲۴۴۵۹)
(تیسری سند) ابو علی ثمامہ ہمدانی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سیّدنا فضالہ بن عبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا کہ وہ مسلمانوں کی قبروں کو زمین کے برابر کر دینے کا حکم دیتے تھے، چنانچہ روم کے علاقے میں مسلمانوں کی قبروں کو زمین کے برابر کر دیا گیا۔ پھر انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ تم اپنی قبروں کو زمین کے برابر کر دیا کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3272

۔ (۳۲۷۲) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: سَمِعْتُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَنْہَی أَنْ یُقْعَدَ عَلَی الْقَبْرِ وَأَنْ یُقَصَّصَ أَوْ یُنْبٰی عَلَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۴۱۹۵)
سیّدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو قبر پر بیٹھنے، اسے چونا گچ کرنے اور اس پر عمارت بنانے سے منع کرتے ہوئے سنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3273

۔ (۳۲۷۳) عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یُبْنَی عَلَی الْقَبْرِ وَأَنْ یُجَصَّصَ۔ (مسند احمد: ۲۷۰۹۰)
سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قبر پر عمارت بنانے اور اسے چونا گچ کرنے سے منع فرمایا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3274

۔ (۳۲۷۴) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یَرْفَعَہُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَأَنْ یَجْلِسَ أَحَدُکُمْ عَلٰی جَمْرَۃٍ فَتُحْرِقَ ثِیَابَہُ حَتّٰی تُفْضِیَ إِلٰی جِلْدِہِ خَیْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ یَجْلِسَ عَلٰی قَبْرٍ۔ (وَفِی لَفْظٍ) خَیْرٌ مِنْ أَنْ یَطَأَ عَلٰی قَبْرِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ۔)) (مسند احمد: ۸۰۹۳)
سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگرتم میں سے کوئی آدمی آگ کے انگارے پر بیٹھ جائے اور وہ اس کے کپڑے جلا کر اس کے چمڑے تک جا پہنچے، تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی قبر پر بیٹھے۔ ایک روایت میں ہے: یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی مسلمان کی قبر کو روندے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3275

۔ (۳۲۷۵) عَنْ أَبِی مَرْثَدٍ الْغَنَوِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((لَا تُصَلُّوْا إِلَی الْقُبُوْرِ وَلَا تَجْلِسُوْا عَلَیْہَا (وَفِی لَفْظٍ) لَا تَجْلِسُوْا عَلَی الْقُبُوْرِ وَلَا تُصَلُّوْا عَلَیْہَا۔)) (مسند احمد: ۱۷۳۴۷)
سیّدناابومرثد غنوی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قبروں کی طرف رخ کر کے نہ نماز پڑھو اورنہ ان پر بیٹھو۔ ایک روایت میںہے: نہ تم قبروں پر بیٹھا کرو اور نہ ان پر نماز پڑھا کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3276

۔ (۳۲۷۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِی عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنَا دَاوُدُ بْنُ قَیْسٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِیْدٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ عَنْ عَمْرَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((کَسْرُ عَظْمِ الْمَیِّتِ کَکَسْرِہِ وَہُوَ حَیٌّ)) قَالَ: یَرَوْنَ أَنَّہُ فِی الإِثْمِ، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَطْنُّہُ قَوْلَ دَاوُدَ۔ (مسند احمد: ۲۵۸۷۰)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میت کی ہڈی کو توڑنا ایسے ہی ہے، جیسے زندہ کی ہڈی توڑی جائے۔ اہل علم کا خیال ہے کہ (اس حدیث کا تعلق ہڈی توڑنے) کے گناہ سے ہے، عبد الرزاق نے کہا: میرا خیال ہے کہ یہ دائود بن قیس کا قول ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3277

۔ (۳۲۷۷)(وَعَنْہَا مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ کَسْرَ عَظْمِ الْمُؤْمِنِ مَیِّتًا مِثْلُ کَسْرِہِ حَیًّا۔)) (مسند احمد: ۲۴۸۱۲)
(دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فوت شدہ مومن کی ہڈی توڑنا ایسے ہی ہے جیسے زندگی میں اس کی ہڈی توڑی جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3278

۔ (۳۲۷۸) عَنْ بَشِیْرِ بْنِ الْخَصَاصِیَۃِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، بَشِیْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: کُنْتُ أُمَاشِی رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آخِذًا بِیَدِہِ فَقَالَ لِی: ((یَا ابْنَ الْخَصَاصِیَۃِ! مَا أَصْبَحْتَ تَنْقِمُ عَلٰی اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَیٰ، أَصْبَحْتَ تُمَاشِیْ رَسُوْلَہُ)) قَالَ أَحْسَبُہُ قَالَ آخِذًا بِیَدِہِ، قَالَ: قُلْتُ: مَا أَصْبَحْتُ أَنْقِمُ عَلَی اللّٰہِ شَیْئًا، قَدْ أَعْطَانِیَ اللّٰہُ تَبَارِکْ وَتَعَالٰی کُلَّ خَیْرِ، قَالَ: فَأَتَیْنَا عَلٰی قُبُوْرِ الْمُشْرِکِیْنَ، فَقَالَ: لَقَدْ سَبَقَ ہٰؤُلَائِ خَیْرًا کَثِیْرًا)) ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ أَتَیْنَا عَلٰی قُبُوْرِ الْمُسْلِمِیْنَ، فَقَالَ: ((لَقَدْ أَدْرَکَ ہٰؤُلَائِ خَیْرًا کَثِیْرًا)) ثَـلَاثَ مَرَّتٍ یَقُوْلُہَا، قَالَ: فَبَصُرَ بِرَجُلٍ یَمْشِی بَیْنَ الْمَقَابِرِ فِیْ نَعْلَیْہِ، فَقَالَ: ((وَیْحَکَ، یَا صَاحِبَ السِّبْتِیَّتَیْنِ! أَلْقِ سِبْتِیَِّتَیْکَ)) مَرَّتَیْنِ أَوْثَـلَاثًا۔ فَنَظَرَ الرَّجُلُ، فَلَمَّا رَأٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَلَعَ نَعْلَیْہِ۔ (مسند احمد: ۲۱۰۶۸)
سیّدنا بشیر بن خصاصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا رکھا ہوا نام بشیر، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ پکڑے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: خصاصیہ کے بیٹے! تم اللہ تعالیٰ پر کسی چیز کا عیب لگاتے ہو، حالانکہ تم اس کے رسول کے ساتھ چل رہے ہو اور تم نے ان کا ہاتھ بھی تھام رکھا ہے؟ میں نے کہا: میں اللہ تعالیٰ پر کس چیز کا عیب لگا سکتا ہوں، جبکہ اس نے تو مجھے ہر قسم کی خیر عطا کر رکھی ہے۔ اتنے میں ہم مشرکوں کی قبروں تک جا پہنچے، ان کو دیکھ کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ لوگ بڑی بھلائی کو (پیچھے چھوڑ کر) آگے نکل گئے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بات تین بار ارشاد فرمائی، اس کے بعد ہم مسلمانوں کی قبروں کے پاس پہنچ گئے، ان کو دیکھ کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین بار فرمایا: ان لوگوں نے (اسلام قبول کر کے) بہت زیادہ بھلائی پائی ہے۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک آدمی کو جوتوں سمیت قبروں میں چلتے ہوئے دیکھا اور اسے فرمایا: اے سبتی جوتوں والے! تو ہلاک ہو جائے! اپنے جوتوں کو اتار دے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو یا تین بار یہ بات ارشاد فرمائی، جب اس آدمی نے دیکھا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر اس کی نظر پڑھی تو اس نے اپنے جوتے اتار دیئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3279

۔ (۳۲۷۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِی أَبِی ثَنَا وَکِیْعٌ عَنْ سُفْیَانَ عَنِ السُّدِّیِّ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ سُفْیَانَ یَرْفَعُہُ، قَالَ: ((إِنَّ الْمَیِّتَ لَیَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِہِمْ، إِذَا وَلَّوْا عَنْہُ مُدْبِرِیْنَ)) (مسند احمد: ۹۷۴۰)
سیّدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب لوگ میت کو دفن کے بعد واپس جاتے ہیں تو میت ان لوگوں کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3280

۔ (۳۲۸۰) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِی قَبْرِہِ وَتَوَلّٰی عَنْہُ أَصْحَابُہٗ حَتَّی إِنَّہُ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِہِمْ أَتَاہُ مَلَکَانِ فَیُقْعِدَانِہِ…۔)) الَحْدِیْثَ۔ (مسند احمد: ۱۲۲۹۶)
سیّدناانس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب بندے کو قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے دوست اسے چھوڑ کر واپس جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے، پھر اس کے پاس دو فرشتے آکر اسے بٹھا دیتے ہیں…۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3281

۔ (۳۲۸۱) عَنْ ثَابِتٍ (البُنَانِیِّ) قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا یَعْنِی بْنَ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یَقُوْلُ لِامْرَأَۃٍ مِنْ أَہْلِہِ: أَتَعْرِفِیْنَ فُلَانَۃَ؟ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ مَرَّ بِہَا وَہِیَ تَبْکِی عَلٰی قَبْرٍ، فَقَالَ لَہَا: ((اِتَّقِی اللّٰہَ وَاصْبِرِیْ۔)) فَقَالَتْ لَہُ إِلَیْکَ عَنِّیْ، فَإِنَّکَ لَا تُبَالِی بِمُصِیْبَتِی، قَالَ: وَلَمْ تَکُنْ عَرَفَتْہُ، فَقِیْلَ لَہَا: إِنَّہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ، فَأَخَذَہَا مِثْلُ الْمَوْتِ ، فَجَاَئَ تْ إِلٰی بَابِہِ فَلَمْ تَجِدْ عَلَیْہِ بَوَّابًا، فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ! إِنِّی لَمْ أَعْرِفْکَ، فَقَالَ: ((إِنَّ الصَّبْرَ عِنْدَ أَوَّلِ صَدَمَۃٍ۔)) (مسند احمد: ۱۲۴۸۵)
ثابت بنانی کہتے ہیں: سیّدناانس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے اہل خانہ کی ایک خاتون سے کہا: کیا تم فلاں عورت کو جانتی ہو؟رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پاس سے گزرے، جبکہ وہ ایک قبر پر رو رہی تھی، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: اللہ سے ڈرو اور صبرکرو۔ اس نے آگے سے کہا: تم مجھ سے دور ہو جاؤ، تمہیں میری مصیبت کی کیا پرواہ ہے۔دراصل یہ خاتون آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پہچانتی نہیں تھی، بعد میں اسے بتلایا گیا کہ یہ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تھے، یہ سن کر اس پر موت کی گھبراہٹ سی طاری ہوگئی اور وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دروازے پر پہنچ گئی اور وہاں کوئی دربان نہ پایا، پھر اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یوں عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بے شک صبر تو وہ ہوتا ہے جو صدمہ کے شروع میں کیا جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3282

۔ (۳۲۸۲) عَنِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَا مِنْ مُسْلِمٍ وَلَا مُسْلِمَۃٍ یُصَابُ بِمُصِیْبَۃٍ فَیَذْکُرُہَا وَإِنْ طَالَ عَہْدُہَا،قَالَ عُبَادَۃُ: قَدُمَ عَہْدُہَا، فَیُحْدِثُ لِذَالِکَ اسْتِرْجَاعًا إِلَّا جَدَّدَ اللّٰہُ لَہُ عِنْدَ ذَالِکَ فَأَعْطَاہُ مِثْلَ أَجْرِہَا یَوْمَ أُصِیْبَ بِہَا۔)) (مسند احمد: ۱۷۳۴)
سیّدنا حسین بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کسی مسلمان مردو زن کو کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے اور پھر وہ بعد میں اسے یاد کر کے از سرِ نو إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھتا ہے، اگرچہ اس صدمے کو لمبا عرصہ گزر چکا ہو، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس چیز کی تجدید کر کے اسے اتنا اجر عطا کرتا ہے، جتنا صدمے والے دن دیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3283

۔ (۳۲۸۳) عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ زَوْجِ النَّبِی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((مَا مِنْ عَبْدٍ تُصِیْبُہُ مُصَیْبَۃٌ فَیَقُوْلُ إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، اَللّٰہُمَّ أْجُرْنِیْ فِی مُصِیْبَتِی (وَفِی رِوَایَۃٍ: اَللّٰہُمَّ عِنْدَکَ أَحْتَسِبُ مُصِیْبَتِی، فَأْجُرْنِی فِیْہَا) وَاخْلُفْ لِیْ خَیْرًا مِنْہَا إِلَّا أَجَرَہُ اللّٰہُ فِی مُصَیْبَتِہِ وَخَلَفَ لَہُ خَیْرًا مِنْہَا۔)) قَالَتْ: فَلَمَّا تُوُفِّیَ أَبُوْ سَلَمَۃَ، قُلْتُ: مَنْ خَیْرٌ مِنْ أَبِی سَلَمَۃَ صَاحِبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَتْ: فَعَزَمَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لِیْ، فَقُلْتُہَا: اَللّٰہُمَّ أْجُرْنِیْ فِی مُصِیْبَتِیْ وَاخْلُفْ لِی خَیْرًا مِنْہَا، قَالَتْ: فَتَزَوَّجْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۷۱۷۰)
زوجۂ رسول سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یوں فرماتے سنا : جس آدمی کو کوئی مصیبت پہنچے اور وہ یہ دعا پڑھے: إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، اَللّٰہُمَّ عِنْدَکَ أَحْتَسِبُ مُصِیْبَتِی، فَأْجُرْنِی فِیْہَا وَاخْلُفْ لِیْ خَیْرًا مِنْہَا۔ (بیشک ہم سب اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، اے اللہ ! میں تیرے ہاں اپنی مصیبت پر ثواب طلب کرتا ہوں، پس تو مجھے اس میں اجر دے اور اس کا بہترین متبادل عطا فرما) تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی مصیبت میں اجر دیتا ہے اور نعم البدل عطا کرتا ہے۔ ہوا یوں کہ جب میرے شوہر سیّدنا ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فوت ہو گئے تو میں نے کہا کہ ابو سلمہ سے بہتر کون ہو گا، جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابی تھے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے مجھے ہمت دی اور میں یہ دعا پڑھتی رہی: اَللّٰہُمَّ أْجُرْنِیْ فِی مُصِیْبَتِیْ وَاخْلُفْ لِی خَیْرًا مِنْہَا۔ (اے اللہ!تو مجھے اس مصیبت میں اجر دے اور اس کا بہترین متبادل عطا فرما۔) تو (اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ) میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے شادی کر لی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3284

۔ (۳۲۸۴) عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: أَرْسَلَتْ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْضُ بَنَاتِہِ أَنَّ صَبِیًّا لَہَا اِبْنًا أَوْ اِبْنَۃً قَدْ احْتُضِرَتْ فَاشْہَدْنَا، قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَیْہَا یَقْرَأُ لسَّلَامَ وَیَقُوْلُ: ((إِنَّ لِلّٰہِ مَا أَخَذَ وَمَا أَعْطٰی (وَفِی لَفْظٍ: لِلّٰہِ مَا أَخَذَ وَلِلّٰہِ مَا أَعْطٰی) وَکُلُّ شَیْئٍ عِنْدَہُ إِلٰی أَجَلٍ مُسَمًّی، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ۔)) (مسند احمد: ۲۲۱۱۹)
سیّدنااسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ایک صاحبزادی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ پیغام بھیجا کہ اس کا بیٹا یا بیٹی موت کے قریب جا پہنچا ہے، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ہاں تشریف لائیں۔ لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو سلام بھیجا اور (تسلی دینے کے لیے) فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہے جو اس نے لے لیا اور اس کے لیے ہے جو اس نے دیا اور اس کے ہاں ہر چیز کا وقت مقرر ہے، پس (میرے بیٹی) صبر کرے اور اس پر اجر کی امید رکھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3285

۔ (۳۲۸۵) عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: لَمَا جَائَ نَعْیُ جَعْفَرٍ حِیْنَ قُتِلَ،قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِصْنَعُوْا ِلآلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا، فَقَدْ أَتَاہُمْ أَمْرٌ یَشْغَلُہُمْ أَوْ أَتَاہُمْ مَا یَشْغَلُہُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۷۵۱)
سیّدناعبداللہ بن جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کہتے ہیں کہ جب سیّدناجعفر بن ابی طالب کی شہادت کی اطلاع آئی تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آلِ جعفر کے لیے کھانا تیار کرو، کیونکہ ان کے پاس ایسی خبر آئی ہے، جس نے انہیں مشغول کر دیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3286

۔ (۳۲۸۶) عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ عُمِیْسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فِی قِصَّۃِ مَوْتِ زَوْجِہَا جَعْفَرِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لأَہْلِہِ: ((لَاتُغْفِلُوْا آلَ جَعْفَرٍ مِنْ أَنْ تَصْنَعُوْا لَہُمْ طَعَامًا فَإِنَّہُمْ قَدْ شُغِلُوْا بِأَمْرِ صَاحِبِہِمْ۔)) (مسند احمد: ۲۷۶۲۶)
سیدہ اسماء بنت عمیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اپنے شوہر سیّدناجعفر بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے اہل خانہ سے فرمایا: آلِ جعفر کے لیے کھانا تیار کرنے میں غفلت نہ برتو، کیونکہ وہ اپنے سربراہ (کی شہادت) کہ وجہ سے مصروف ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3287

۔ (۳۲۸۷) عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا أَنَّہَاکَانَتْ إِذَا مَاتَ الْمَیِّتُ مِنْ أَہْلِہَا، فَاجْتَمَعَ النِّسَائُ، ثُمَّ تَفَرَّقْنَ إِلَّا أَہْلَہَا وَخَاصَّتَہَا، أَمَرَتْ بِبُرْمَۃٍ مِنْ تَلْبِیْنَۃٍ فَطُبِخَتْ، ثُمَّ صُنِعَ ثَرِیْدٌ، فَصُبَّتِ ِالتَّلْبِیْنَۃُ عَلَیْہَا، ثُمَّ قَالَتْ: کُلْنَ مِنْہَا فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((التَّلْبِیْنَہُ مُجِمَّۃٌ لِفُؤَادِ الْمَرِیْضٍ، تَذْہَبُ بِبَعْضِ الْحُزْنِ۔)) (مسند احمد: ۲۵۷۳۴)
عروہ کہتے ہیں: جب سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے خاندان میں سے کوئی فوت ہوتا اور عورتیں جمع ہوتیں اور پھر ان کے چلے جانے کے بعد خاص خاص عورتیں باقی رہ جاتے تو وہ حکم دیتیں کی ہنڈیا میں تلبینہ پکایا جائے، پس وہ تیار کیا جاتا، پھر ثرید بنا کر اس پر تلبینہ ڈال دیا جاتا، پھر وہ کہتیں: عورتو! اس سے کھاؤ، کیونکہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تلبینہ مریض کے دل کو سکون پہنچاتا ہے اور کسی حد تک غم کو بھی ہلکا کرتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3288

۔ (۳۲۸۸) عَنْ جَرِیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْبَجَلِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کُنَّا نَعُدُّ الْاِجْتَمِاعَ إِلٰی أَہْلِ الْمَیِّتِ وَصَنِیْعَۃِ الطَّعَامِ بَعْدَ دَفْنِہِ مِنَ النِّیَاحَۃِ۔ (مسند احمد: ۶۹۰۵)
سیّدناجریر بن عبداللہ بجلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:ہم تدفین کے بعد میت کے لواحقین کے ہاں لوگوں کے جمع ہونے کو اور کھانا تیار کرنے کو نوحہ شمار کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3289

۔ (۳۲۸۹) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ أَخَا بَنِی سَاعِدَۃَ تُوُفِّیْتْ أُمُّہُ، وَہُوَ غَائِبٌ عَنْہَا، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! إِنَّ أُمِّیْ تُوُفِّیَتْ وَأَنَا غَائِبٌ عَنْہَا، فَہَلْ یَنْفَعُہَا إِنْ تَصَدَّقْتُ بِشَیْئٍ عَنْہَا؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَ: فَإِنِّیْ أُشْہِدُکَ أَنَّ حَائِطِی الْمِخْرَفَ(وَفِی لَفْظٍ: الْمِخْرَافَ) صَدَقَۃٌ عَلَیْہَا۔ (مسند احمد: ۳۵۰۸)
سیّدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ بنو ساعدہ کے بھائی سیّدناسعد بن عبادہ ساعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی والدہ کا انتقال ہو گیا، جبکہ وہ موجود نہیں تھے،بعد میں انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھتے ہوئے کہا:اے اللہ کے رسول! میری عدم موجودگی میں میری ماں فوت ہو گئی ہے،اب اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اسے فائدہ ہوگا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا جی ہاں۔ تو انہوں نے کہا:میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا مخرف (یا مخراف) نامی باغ اس کے لیے صدقہ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3290

۔ (۳۲۹۰) عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : إِنَّ أُمِّی اُفْتُلِتَتْ نَفْسُہَا وَأَظُنُّہَا لَوْ تَکَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، فَہَلْ لَہَا أَجْرٌ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْہَا؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) (مسند احمد: ۲۴۷۵۵)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کہا کہ: میری والدہ اچانک فوت ہو گئی ہے، میرا خیال ہے کہ وہ بات کر سکتی تو صدقہ کرتی، تو اب اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اسے ثواب ملے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3291

۔ (۳۲۹۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہ حَدَّثَنِیْ أَبِی ثَنَا حَجَاجٌ قَالَ سَمِعْتُ شُعْبَۃَ یُحَدِّثُ عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ سَمِعْتُ الْحَسَنَ یُحَدِّثُ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنْ أُمَّہُ مَاتَتْ فَقَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : إِنَّ أُمِّیْ مَاتَتْ أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْہَا؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَ: فَأَیُّ الصَّدَقَۃِ اَفْضَلُ؟ قَالَ: ((سَقْیُ الْمَائِ۔)) قَالَ: فَتِلْکَ سِقَایَۃُ آلِ سَعْدٍ بِالْمَدِیْنَۃِ۔ قَالَ شُعْبَۃُ: فَقُلْتُ لِقَتَادَۃَ: مَنْ یَقُوْلُ ’’تِلْکَ سِقَایَۃُ آلِ سَعْدٍ‘‘؟ قَالَ: الْحَسَنُ۔ (مسند احمد: ۲۴۳۴۶)
حسن کہتے ہیں کہ سیّدنا سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی والدہ کا انتقال ہو گیا،انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا: میری والدہ فوت ہو گئی ہے، کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ انہوں نے کہا: تو پھر کونسا صدق افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پانی پلانا۔ اس نے کہا: مدینہ میںیہ آل سعد کی سبیل ہے۔ شعبہ کہتے ہیں: میں نے قتادہ سے پوچھا کہ مدینہ میں یہ آل سعد کی سبیل ہے کے الفاظ کہنے والا راوی کون ہے۔ انھوں نے کہا: حسن ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3292

۔ (۳۲۹۲) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّہُ أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقاَل: إِنَّ أُمِّی مَاتَتْ وَعَلَیْہَا نَذْرٌ، أَفَیُجْزِیُٔ عَنْہَا أَنْ أُعْتِقَ عَنْہَا؟ قَالَ: ((أَعْتِقْ عَنْ أُمِّکَ۔)) (مسند احمد: ۲۴۳۴۷)
سیّدنا سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور کہا: میری والدہ فوت ہو گئی ہے، جبکہ ان پر ایک نذر بھی تھی، اب اگر میں ان کی طرف سے غلام آزاد کروں تو ان کو کفایت کرے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنی ماں کی طرف سے آزاد کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3293

۔ (۳۲۹۳) عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ الْعَاصَ بْنَ وَائِلٍ نَذَرَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ أَنْ یَنْحَرَ مِائَۃَ بَدَنَۃٍ، وَإِنَّ ہِشَامَ بْنَ الْعَاصِ نَحْرَ حِصَّتَہُ خَمْسِیْنَ بَدَنَۃً، وَأَنَّ عَمْرًوا سَأَلَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ ذَالِکَ فَقَالَ: ((أَمَّا أَبُوْکَ فَلَوْ کَانَ أَقَرَّ بِالتَّوْحِیْدِ فَصُمْتَ وَتَصَدَّقْتَ عَنْہُ نَفَعَہُ ذَالِکَ۔)) (مسند احمد: ۶۷۰۴)
سیّدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ عاص بن وائل نے جاہلیت میں سو اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی تھی، (پھر وہ مر گیا اوراس کے ایک بیٹے) ہشام بن عاص نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ ذبح کر دیئے، لیکن سیّدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا اورآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تمہارے باپ نے توحید کا اقرار کیا ہوتا اور پھر تم اس کی طرف سے روزے رکھتے اور صدقہ کرتے تو اسے اس کا فائدہ ہوتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3294

۔ (۳۲۹۴) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : إِنَّ أَبِی مَاتَ وَتَرَکَ مَالاً وَلَمْ یُوْصِ، فَہَلْ یُکَفِّرُ عَنْہُ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْہُ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) (مسند احمد: ۸۸۲۸)
سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: میرے والد فوت ہو گئے ہیں اور انھوں نے مال تو چھوڑا ہے، لیکن کوئی وصیت نہیں کی، تو کیاان کی طرف سے میرا صدقہ کرناان کے گناہوں کا کفارہ بن سکتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3295

۔ (۳۲۹۵) عَنْ عُقْبَہَ بْنِ عَامِرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ غُلَامًا أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (وَفِی لَفْظٍ: سَأَلَ رَجُلٌ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّ أُمِّیْ مَاتَتْ وَتَرکَتْ حُلِیًّا أَفَأَتَصَدَّقُ بِہِ عَنْہَا؟ قَالَ: ((أُمُّکَ أَمْرَتْکَ بِذَالِکَ؟)) قَالَ: لَا۔ قَالَ: ((فَأَمْسِکْ عَلَیْکَ حُلِیَّ أُمِّکَ۔)) (مسند احمد: ۱۷۵۷۳)
سیّدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور یہ سوال کیا: میری والدہ کچھ زیورات چھوڑ کر فوت ہو گئی ہیں، تو کیا میں یہ زیورات ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تمہاری والدہ نے تمہیں اس طرح کرنے کا حکم دیا تھا؟ اس نے کہا: جی نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر اپنی ماں کے زیورات کو اپنے پاس ہی رکھو (اور صدقہ نہ کر)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3296

۔ (۳۲۹۶) عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یٰسٓ قَلْبُ الْقُرْآنِ، لَا یَقْرَؤُہَا رَجُلٌ یُرِیْدُ اللّٰہَ تَعَالٰی وَالدَّارَ الآخِرَۃَ إِلَّا غُفِرَ لَہُ وَاقْرَئُ وہَا عَلٰی مَوْتَاکُمْ)) (مسند احمد: ۲۰۵۶۶)
سیّدنا معقل بن یسار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سورۂ یس، قرآن کریم کا دل ہے، جو آدمی اللہ تعالیٰ اور آخرت کے گھر کا ارادہ کرتے ہوئے اس کی تلاوت کرتا ہے، اسے بخش دیا جاتا ہے، اور اپنے قریب الموت لوگوں پر بھی اس سورت کی تلاوت کیا کرو۔

Icon this is notification panel