50 Results For Hadith (Musnad Ahmad ) Book ()
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3046

۔ (۳۰۴۶) عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (یَعْنِی ابْنَ مَسْعُوْدٍ) ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَیْسَ مِنَّا مَنْ شَقَّ الْجُیُوْبَ، وَلَطَمَ الْخُدُوْدَ، وَدَعٰی بَدَعْوَی الْجَاہِلِیَّۃِ)) (مسند احمد: ۴۱۱۱)
سیّدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنا گریبان چاک کرے،رخسار پیٹے اور جاہلیت والی پکار پکارے، وہ ہم میں سے نہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3047

۔ (۳۰۴۷)(وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) بِلَفْظِ: ((لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الخُدُوْدَ، أَوْ شَقَّ الْجُیُوْبَ، أَوْ دَعَا بِدَعْوَی الْجَاہِلِیَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۴۳۶۱)
(دوسری سند)جو شخص رخسار پیٹے، یا گریبان چاک کرے یا جاہلیت کی پکار پکارے، وہ ہم میں سے نہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3048

۔ (۳۰۴۸) عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَا رَجَعَ مِنْ أُحُدٍ سَمِعَ نِسَائَ الْأَنْصَارِ یَبْکِینَ عَلٰی أَزْوَاجِہِنَّ، فَقَالَ: ((لٰکِنْ حَمْزَہُ لَا بَوَاکِیَ لَہُ۔)) فَبَلَغَ ذَالِکَ نِسَائَ الْأَنْصَارِ فَجِئْنَ یَبْکِیْنَ عَلٰی حَمْزَہَ ۔ قَالَ: فَانْتَبَہَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ اللَّیْلِ فَسَمِعَہُنَّ وَہُنَّ بَیْکِیْنَ فَقَالَ: ((وَیَحَہُنَّ، لَمْ یَزَلْنَ یَبْکِیْنَ مُنْذُ اللَّیْلَۃِ مُرُوْہُنَّ فَلْیَرْجِعْنَ وَلَا یَبْکِیْنَ عَلٰی ہَالِکٍ بَعْدَ الْیَوْمِ۔)) (مسند احمد: ۵۵۶۳)
سیّدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب احد سے واپس ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انصاری خواتین کی آواز سنی، جو اپنے شوہروں کی شہادت پر رو رہی تھیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لیکن حمزہ، اس کے لیے تو رونے والیاں کوئی نہیں ہیں۔ جب یہ بات انصاری خواتین کو پہنچی تو وہ آئیں اور سیّدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر رونے لگیں۔ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رات کو بیدار ہوئے اور ان کو روتے ہوئے سنا تو فرمایا: ان پر افسوس ہے، یہ رات سے روتی رہیں، ان سے کہو کہ لوٹ جائیں اور آج کے بعد کوئی کسی فوت ہونے والے پر نہ روئیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3049

۔ (۳۰۴۹) عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَوْسٍ قَالَ: أُغْمِیَ عَلٰی أَبِی مَوْسَی الأَشْعَرِی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌فَبَکَوْا عَلَیْہِ، فَقَالَ: إِنِّی بَرِیْئٌ مِمَّنْ بَرِیَٔ مِنْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ فَسَأَلُوْا عَنْ ذَالِکَ اِمْرَأَتَہُ، فَقَالَتْ: مَنْ حَلَقَ أَوْ خَرَقَ أَوْ سَلَقَ۔ (مسند احمد: ۱۹۷۶۸)
یزید بن اوس کہتے ہیں:سیّدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر بے ہوشی طاری ہو گئی، جب لوگ رونے لگے تو انہوں نے کہا: جس آدمی سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے براء ت کا اظہار کیا ، میں بھی اس سے بری ہوں۔ لوگوں نے ان کی بیوی سے پوچھا کہ (رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کن لوگوں سے براء ت کا اظہار کیا)۔ اس نے کہا: جو مصیبت کے وقت سرمنڈائے، یا دامن پھاڑے یا ممنوعہ الفاظ کہتے ہوئے بلند آواز میں روئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3050

۔ (۳۰۵۰) عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ قَالَ: أُغْمِی عَلٰی أَبِی مَوْسٰی فَبَکُوْا عَلَیْہِ، فَأَفَاقَ فَقَالَ: إِنِّیْ أَبْرَأُ إِلَیْکُمْ مِمَّنْ بَرِیَٔ مِنْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِمَّنْ حَلَقَ أَوْ خَرَقَ أَوْ سَلَقَ۔ (مسند احمد: ۱۹۷۶۹)
صفوان بن محرز کہتے ہیں:سیّدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر بے ہوشی طاری ہوئی، لوگ رونے لگے۔ جب ان کو افاقہ ہوا تو انھوں نے کہا: جس آدمی سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے براء ت کا اظہار کیا، میں بھی اس سے بری ہوں، یعنی اس سے جو (مصیبت کے وقت) سرمنڈائے یا کپڑے پھاڑے یا بلند آواز سے واویلا کرے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3051

۔ (۳۰۵۱) عَنْ أُمِّ عَطِیْۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: لَمَا نَزَلَتْ ہٰذِہِ الآیَۃُ {یُبَایِعْنَکَ عَلٰی أَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا …اِلٰی قَوْلِہٖ… وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِی مَعْرُوْفٍ} قَالَتْ: کَانَ مِنْہُ النِّیَاحَۃُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِلَّا آلَ فُلَانِ وَإِنَّہُمْ قَدْ کَانُوْا أسْعَدُوْنِیْ فِیْ الْجَاھِلِیَّۃِ فَـلَا بُدَّ لِیْ مِنْ أَنْ اُسْعِدَہُمْ۔ قَالَتْ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِلَّا آلَ فُلَانٍ۔)) (مسند احمد: ۲۱۰۷۷)
سیدہ ام عطیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی:{ ٰٓیاَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا جَآئَکَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰٓی اَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَھُنَّ وَلَا یَاْتِیْنَ بِبُھْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ اَیْدِیْھِنَّ وَاَرْجُلِھِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ} (سورۂ ممتحنہ: ۱۲) یعنی: اے نبی! جب اہل ایمان خواتین آپ کے پاس آئیں تو وہ ان باتوں کی بیعت کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی، چوری نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، اپنی اولادوں کو قتل نہیں کریں گی اور کسی پر بہتان طرازی نہیں کریں گی اور کسی معروف کام میں آپ کی حکم عدولی نہیں کریں گی۔ ان معروف کاموں میں سے ایک نوحہ بھی تھا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! فلاں خاندان والوں نے دورِ جاہلیت میں نوحہ کرنے میں میرا ساتھ دیا تھا۔ اب میرے لیے ضروری ہے کہ میں بھی ان کا ساتھ دوں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (ٹھیک ہے) مگر فلاں خاندان والے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3052

۔ (۳۰۵۲) عَنْ حَفْصَہَ بِنْتِ سِیْرِیْنَ عَنْ أُمِّ عَطِیَّہَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: بَایَعْنَا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَخَذَ عَلَیْنَا فِیْمَا أَخَذَ أَنْ لَّا نَنُوْحَ، فَقَالَتِ امْرَأَ ۃٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: إِنَّ آلَ فُلَانٍ أَسْعَدُوْنِیْ فِیْ الْجَاہِلِیَّۃِ وَفِیْہِمْ مَأْتَمٌ فَـلَا أُٔبَایِعُکَ حَتّٰی أُسْعِدَہُمْ کَمَا أَسْعَدُوْنِیْ فَقَالَ: فَکَأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَافَقَہَا عَلٰی ذَالِکَ فَذَہَبَتْ فَأَسْعَدَتْہُمْ ثُمَّ رَجَعَتْ فَبَایَعَتِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَقَالَتْ أُمُّ عَطِیَّۃَ فَمَاوَفَتِ امْرَأَۃٌ مِنَّا غَیْرُ تِلْکَ، وَغَیْرُ أُمِّ سُلَیْمٍ بِنْتِ مِلْحَانَ۔ (مسند احمد: ۲۷۸۵۰)
سیدہ ام عطیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جن امور پر ہم سے بیعت لی، ان میں سے ایک چیز یہ تھی کہ ہم نوحہ نہ کریں، لیکن اتنے میں ایک انصاری عورت نے کہا: فلاں خاندان والوں نے دورِ جاہلیت میں نوحہ کے سلسلے میں میرا تعاون کیا، اب ان کے ہاں ایک مرگ ہو چکی ہے، اس لیے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت اس وقت تک نہیں کروں گی جب تک ان کے تعاون کی طرح ان کی مدد نہ کر آؤں۔ پس وہ چلی گئی، پھر واپس کر آ کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی۔ام عطیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں:ہم میں بیعت کرنے والی کسی ایک خاتون نے بھی وفا نہیں کی، ما سوائے اِس عورت اور ام سلیم بنت ملحان کے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3053

۔ (۳۰۵۳) عَنْ حَفْصَۃَ عَنْ أُمِّ عَطِیَّہَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: کَانَ تَعْنِی رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَخَذَ عَلَیْنَا فِی الْبَیْعَۃِ أَنْ لَا نَنُوْحَ فَمَا وَفَتِ أمْرَأَۃٌ مِنَّا، غَیْرُ خَمْسٍ أُمُّ سُلَیْمٍ وَامْرَأَۃُ مُعَاذٍ وَابْنَۃُ أَبِی سَبْرَۃَ، وَامْرَأَۃٌ أُخْرٰی۔ (مسند احمد: ۲۷۸۴۸)
سیدہ ام عطیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم سے بیعت لیتے وقت اس بات کا عہد لیا تھا کہ ہم نوحہ بھی نہیں کریں گی۔ ہم میں سے صرف ان پانچ عورتوں نے اس عہد کو پورا کیا تھا: ام سلیم، زوجۂ معاذ، بنت ِ ابو سبرہ اور ایک اور خاتون۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3054

۔ (۳۰۵۴) عَنْ عَمْرَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: لَمَا جَائَ نَعْیُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ وَ زَیْدِ بْنِ حَارَثَۃَ وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ رَوَاحَۃَ، جَلَسَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُعْرَفُ فِی وَجْہِہِ الْحُزْنُ، قَالَتْ عَائِشَۃُ: وَأَنَا أَطَّلِعُ مِنْ شَقِّ الْبَابِ، فَأَتَاہُ رَجُلٌ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّ نِسَائَ جَعْفَرٍ فَذَکَرَ مِنْ بُکَائِہِنَّ فَأَمَرَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یَنْھَاہُنَّ فَذَہَبَ الرَّجَلُ، ثُمَّ جَائَ فَقَالَ: قَدْ نَہَیْتُہُنَّ وَإِنَّہُنَّ لَمْ یُطِعْنَہُ حَتّٰی کَانَ فِی الثَّالِثَۃِ، فَزَعَمَتْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اُحْثُوْا فِی وُجُوْہِہِنَّ التَّرَابَ۔)) فقَالَتْ عَائِشَۃُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا : قُلْتُ: أَرْغَمَ اللّٰہُ بِأَنْفِکَ، وَاللّٰہِ مَا أَنْتَ بِفَاعِلٍ مَا قَالَ لَکَ وَلَا تَرَکْتَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۴۸۱۷)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: جب سیّدنا جعفر بن ابی طالب، سیّدنازید بن حارثہ اور سیّدنا عبد اللہ بن رواحہ کی شہادت کی خبر آئی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیٹھ گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرہ پر غم کے آثار نمایاں تھے۔ میں دروازے کے سوراخ سے دیکھ رہی تھی کہ ایک آدمی نے آ کر کہا:اے اللہ کے رسول! جعفر کے خاندان کی عورتیں رو رہی ہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا کہ ان کو روکے۔ وہ گیا اور پھر واپس آ کر کہنے لگا: میں نے انہیں منع تو کیا ہے، لیکن انھوں نے میری بات نہیں مانی، تیسری مرتبہ پھر ایسا ہی ہوا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم پھر ان کے مونہوں میں مٹی ڈال دو۔ میں نے کہا: اللہ تیری ناک خاک آلود کرے! اللہ کی قسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تجھے جو حکم دیا، نہ تو تو نے اس پر عمل کیا اور نہ تو نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو چھوا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3055

۔ (۳۰۵۵) عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: لَمَا مَاتَ أَبُوْ سَلَمَۃَ قُلْتُ: غَرِیْبٌ وَمَاتَ بَأَرْضِ غُرْبَۃٍ، فَأَفَضْتُ بُکَائً فَجَائَ تِ امْرَأَۃٌ تُرِیْدُ أَنْ تُسْعِدَنِی مِنَ الصَّعِیْدِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ: ((تُرِیدِیْنَ أَنْ تُدْخِلِی الشَّیْطَانَ بَیْتًا قَدْ أَخْرَجَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ مِنْہُ۔)) قَالَتْ: فَلَمْ أَبْکِ عَلَیْہِ۔ (مسند احمد: ۲۷۰۰۵)
سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: جب سیّدنا ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا انتقال ہوا تو میں نے کہا: پردیسی تھا اور پردیس میں فوت ہو گیا، پس میں رو پڑی۔ (مدینہ کی) بالائی بستیوں سے ایک خاتون آئی، اس کا ارادہ تھا کہ (نوحہ کرنے میں) میری مدد کرے گی، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جس گھر سے شیطان کونکال دیا ہے تم دوبارہ اس کو وہاں داخل کرنا چاہتی ہو۔ پس یہ سن کر میں نہ روئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3056

۔ (۳۰۵۶) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا تُصَلِّی الْمَلَائِکَۃُ عَلٰی ناَئِحَۃٍ وَلَا عَلٰی مُرِنَّۃٍ۔)) (مسند احمد: ۸۷۳۱)
سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فرشتے نوحہ کرنے والی اور بلند آواز سے رونے والی عورت کے لیے رحمت کی دعا نہیں کرتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3057

۔ (۳۰۵۷) عَنْ أَبِی سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم النَّائِحَۃَ وَالْمُسْتَمِعَۃَ۔ (مسند احمد: ۱۱۶۴۵)
سیّدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نوحہ کرنے والی اور نوحہ سننے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3058

۔ (۳۰۵۸) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((شُعْبَتَانِ مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیِّۃِ لَا یَتْرُکُہُمَا النَّاسُ أَبَدًا: النِّیاحَۃُ وَالطَّعْنُ فِی النَّسَبِ۔)) (مسند احمد: ۹۵۷۱)
سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دورِ جاہلیت کے دو کام ہیں، لوگ ان کو کبھی بھی نہیں چھوڑیں گے: نوحہ کرنا اور نسب پر طعن کرنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3059

۔ (۳۰۵۹) عَنْ أَبِی مَالِکِ الأَشْعَرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَرْبَعٌ مِنَ الْجَاہِلِیَّۃِ لَا یُتْرَکْنَ، اَلْفَخْرُ فِی الْأَحْسَابِ، وَالطَّعْنُ فِی الْأَنْسَابِ، وَالْاِسْتِسْقَائُ بِالنُّجُوْمِ، وَالنِّیاحَۃُ، وَالنَّائِحَۃُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِہَا تُقَامُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَعَلَیْہَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ أَوْ دِرْعٌ مِنْ جَرَبٍ۔)) (مسند احمد: ۲۳۲۹۱)
سیّدنا ابو مالک اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چار امورِ جاہلیت ہیں،لیکن ان کو چھوڑا نہیں جائے گا: حسب پر فخر کرنا، نسب پر طعن کرنا، تاروں کے ذریعہ بارش طلب کرنا اورنوحہ کرنا۔ نوحہ کرنے والی عورت اگر وفات سے پہلے توبہ نہیں کر لیتی تو اسے اس حال میں قیامت کے دن کھڑا کیا جائے گا کہ اس پر تارکول یا خارش کی قمیص ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3060

۔ (۳۰۶۰)( وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِنَّ فِی أُمَّتِی أَرْبَعًا مِنَ الْجَاہِلِیَّۃِ لَیْسُوا بِتَارِکِیْھِنَّ: اَلْفَخْرُ بِالْأَحْسَابِ، وَالطَّعْنُ فِی الْأَنْسَابِ والْإِسْتِسْقَائُ بِالنُّجُوْمِ وَالنِّیَاحَۃُ عَلَی الْمَیِّتِ، فَإِنَّ النَّائِحَۃَ إِنْ لَمْ تَتُبْ قَبْلَ أَنْ تَمُوْتَ فَإِنَّہَا تَقُوْمُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَیْھَا سَرَابِیْلُ مِنْ قَطِرَانٍ، ثُمَّ یُعْلٰی عَلَیْہَا دِرْعٌ مِنْ لَہَبِ النَّارِ۔)) (مسند احمد: ۲۳۲۹۲)
(دوسری سند)آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت میں جاہلیت کے چار کام ایسے ہیں، جنہیں وہ ترک نہیں کریں گے:حسب پر فخر کرنا، نسب پرطعن کرنا، تاروں کے ذریعہ بارش طلب کرنا اور میت پر نوحہ کرنا۔ نیز فرمایا: اگر نوحہ کرنے والی عورت نے مرنے سے پہلے توبہ نہ کی تو قیامت کے دن اس طرح کھڑی ہو گی کہ اس پر تارکول کرے کرتے ہوں گے پھر ان پر آگ کے شعلوں کی قمیص چڑھا دی جائے گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3061

۔ (۳۰۶۱) عَنْ یَحْیَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ حَاطِبٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: مَرَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِقَبْرٍ فَقَالَ: ((إِنَّ ہٰذَا لَیُعَذَّبُ الآنَ بِبُکَائِ أَہْلِہِ عَلَیْہِ۔)) فَقَالَتْ عَائِشَۃُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا : غَفَرَ اللّٰہُ لِأَبِی عَبْدِ الرَّحْمٰنِ إِنَّہُ وَہِلَ، إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَقُوْلُ: {وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ أُخْرٰی} إِنَّمَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ ہٰذَا لَیُعَذَّبُ الْآنَ وَأَہْلُہُ یَبْکُوْنَ عَلَیْہِ۔)) (مسند احمد: ۴۸۶۵)
سیّدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے اورفرمایا: اس میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے اب عذاب ہو رہا ہے۔ یہ سن کر سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اللہ تعالیٰ ابو عبد الرحمن کو معاف فرمائے، انہیں غلطی لگ گئی ہے، اللہ تعالیٰ کا تو ارشاد یہ ہے: {وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ أُخْرٰی} (سورۂ انعام: ۱۶۴) یعنی: کوئی کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو یہ فرمایا تھا: بیشک اس میت کو اب عذاب دیا جا رہا ہے اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3062

۔ (۳۰۶۲) عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: قِیْلَ لَہَا: إِنَّ ابْنَ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یَرْفَعُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ الْمَیِّتَ یُعَذَّبُ بِبُکَائِ الْحَیِّ۔)) قَالَتْ: وَہِلَ أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، إِنَّمَا قَالَ: ((إِنَّ أَہْلَ الْمَیِّتِ یَبْکُونَ عَلَیْہِ وَإِنَّہُ لَیُعَذَّبُ بِجُرْمِہِ۔)) (مسند احمد: ۲۴۸۰۶)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ کسی نے ان سے کہا کہ سیّدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ میت کو زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا: ابوعبد الرحمن کو غلطی لگ گئی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو یوں فرمایا تھا کہ: میت کے لواحقین اس پر رو رہے ہیں، جبکہ اسے اپنے گناہوں کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3063

۔ (۳۰۶۳)(وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ قَالَ: حَدَّثَنِی أَبِی أَنَّ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ لَہُ: یَا ابْنَ اُخْتِیْ، إِنَّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ تَعْنِی ابْنَ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما أَخْطَأَ سَمْعُہُ؟ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَکَرَ رَجُلًا یُعَذَّبُ فِی قَبْرِہِ بِعَمَلِہِ وَأَہْلُہُ یَبْکُوْنَ عَلَیْہِ وَإِنَّہَا وَاللّٰہِ مَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ أُخْرٰی۔ (مسند احمد: ۲۵۱۴۴)
(دوسری سند)سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عروہ سے کہا: میرے بھانجے! ابو عبد الرحمن یعنی ابن عمر کو سننے میں غلطی لگی ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو ایک آدمی کا ذکر کیا تھا، جسے اس کے اعمال کے جرم میں عذاب ہو رہا تھا اور اس کے اہل و عیال اس پر رو رہے تھے۔ اللہ کی قسم ہے کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے نفس کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3064

۔ (۳۰۶۴) عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِی بَکْرٍٍعَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَمْرَۃَ أَنَّہَا أَخْبَرَتْہُ أَنَّہَا سَمِعَتْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا وَذَکَرَ لَہَا أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما یَقُوْلُ: إِنَّ الْمَیِّتَ لَیُعَذَّبُ بِبُکَائِ الْحَیِّ۔ فَقَالَتْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا : یَغْفِرُ اللّٰہُ لِأَبِی عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، أَمَا إِنَّہُ لَمْ یَکْذِبْ وَلَٰکِنَّہُ نَسِیَ أَوْ أَخْطَأَ، إِنَّمَا مَرَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی یَہُوْدِیَّۃٍ یُبْکٰی عَلَیْہَا فَقَالَ: ((إِنَّہُمْ لَیَبْکُوْنَ عَلَیْہَا وَإِنَّہَا لَتُعَذَّبُ فِی قَبْرِہَا)) (مسند احمد: ۲۶۵ ۲۵)
عمرہ کہتی ہیں کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے سامنے یہ ذکر ہواکہ سیّدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کہتے ہیں کہ میت کو زندگان کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اللہ تعالیٰ ابو عبد الرحمن کو معاف کرے، وہ جھوٹ نہیں بول رہے، یوں لگتا ہے کہ وہ بھول گئے ہیں یا ان سے غلطی ہو گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا گزر ایک ایسی یہودی عورت کے پاس سے ہوا تھا کہ جس کے گھر والے اس پر رو رہے تھے، اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: یہ لوگ رو رہے ہیں اور اسے قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3065

۔ (۳۰۶۵) عَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ نِیْحَ عَلَیْہِ فَإِنَّہُ یُعَذَّبُ بِمَا نِیْحَ عَلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)) (مسند احمد: ۵۲۶۲)
سیّدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس پر نوحہ کیا گیا تو اس کو نوحہ کی وجہ سے قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3066

۔ (۳۰۶۶) عَنْ أَبِی الرَّبِیْعِ قَالَ: کُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌فِیْ جَنَازَۃٍ فَسَمِعَ صَوْتَ إِنْسَانٍ یَصِیْحُ فَبَعَثَ إِلَیْہِ فَأَسْکَتَہُ، فَقُلْتُ: یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ! لِمْ أَسْکَتَّہُ؟ قَالَ: إِنَّہُ یَتَاَذّٰی بِہِ الْمَیِّتُ حَتّٰی یَدْخُلَ قَبْرَہُ۔ الْحَدِیْثِ۔ (مسند احمد: ۶۱۹۵)
ابوربیع کہتے ہیں: میں ایک جنازہ میں سیّدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ تھا، جب انہوں نے ایک رونے والے کی آواز سنی تو اس کی طرف ایک آدمی کوبھیج کر اسے خاموش کرایا۔ میں نے کہا: اے ابو عبد الرحمن! آپ نے اسے خاموش کیوں کرا دیا ہے؟انھوں نے کہا: جب تک میت کو قبر میں داخل نہ کر دیا جائے تو اسے اس رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3067

۔ (۳۰۶۷) عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کَانَ الْکَافِرُ مِنْ کُفَّارِ قُرَیْشٍ یَمُوْتُ فَیَبْکِیْہِ أَہْلُہُ،فَیَقُوْلُوْنَ: اَلْمُطْعِمُ الْجِفَانِ، الْمُقَاتِلُ الَّذِیْ، فَیَزِیْدُہُ اللّٰہُ عَذَابًا بِمَا یَقُوْلُوْنَ)) (مسند احمد: ۲۴۸۷۷)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کفار قریش میں سے جب کوئی کافر مرتا تو اس کے گھر والے اس پر روتے ہوئے کہتے:لوگوں کو بہت کھلانے والا، لڑنے والا جو…، توان باتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کو مزید عذاب دیتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3068

۔ (۳۰۶۸) وَعَنْہَا أَیْضًا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ إِنَّہُمْ لَیَبْکُوْنَ عَلَیْہِ، وَإِنَّہُ لَیُعَذَّبُ فِی قَبْرِہِ بِذَنْبِہِ۔)) (مسند احمد: ۲۵۰۰۰)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے قبر میں اپنے گناہوں کی وجہ سے عذاب دیا جا رہا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3069

۔ (۳۰۶۹) عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَلْمَیِّتُ یُعَذَّبُ فِی قَبْرِہِ بِالنِّیَاحَۃِ عَلَیْہِ۔)) (مسند احمد: ۱۸۰)
سیّدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میت پر نوحہ کیے جانے کی وجہ سے اس کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3070

۔ (۳۰۷۰) عَنْ أَنَسَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌لَمَا عَوَّلَتْ عَلَیْہِ حَفْصَۃُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فَقَالَ: یَا حَفْصَۃُ! أَمَا سَمِعْتِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اَلْمُعَوَّلُ عَلَیْہِ یُعَذَّبُ؟)) قَالَ: وَعَوَّلَ صُہَیْبٌ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فَقَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: یَا صُہَیْبُ! أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْمُعَوَّلَ عَلَیْہِ یُعَذَّبُ۔ (مسند احمد: ۲۶۸)
سیّدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ،سیّدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر بلند آواز سے روئیں تو انھوں نے کہا: اے حفصہ! کیا تو نے نہیں سنا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کو عذاب دیا جاتا ہے، جس پربلند آواز سے رویا جاتا ہے۔ پھر سیّدنا صہیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بلند آواز سے روئے، اس پر سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: صہیب! کیا تم نہیں جانتے کہ جس پر بلند آواز سے رویا جاتا ہے، اس کو عذاب دیا جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3071

۔ (۳۰۷۱)عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: قَالَ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: أَرْسِلُوْا إِلَیَّ طَبِیْبًا یَنْظُرُ إِلٰی جُرْحِی ہٰذَا، قَالَ: فَأَرْسَلُوْا إِلٰی طَبِیْبٍ مِنْ الْعَرَبِ فَسَقٰی عُمَرَ نَبِیْذًا، فَشُبِّہَ النَّبِیْذُ بِالدَّمِ حِیْنَ خَرَجَ مِنَ الطَّعْنَۃِ الَّتِی تَحْتَ السُّرَّۃِ، قَالَ: فَدَعَوْتُ طَبِیْبًا آخَرَ مِنَ الْأَنْصَارِ مِنْ بَنِی مُعَاوِیَۃَ، فسَقَاَہُ لَبَنًا فَخَرَجَ اللَّبَنُ مِنَ الطَّعْنَۃِ صَلْدًا أَبْیَضَ، فَقَالَ لَہُ الطَّبِیْبُ: یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! اِعْہَدْ، فَقَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: صَدَقَنِیْ أَخُوْ بَنِی مُعَاوِیَۃَ ، وَلَوْ قُلْتَ غَیْرَ ذَالِکَ کَذَّبْتُکَ، قَالَ: فَبَکٰی عَلَیْہِ الْقَوْمُ حَیْنَ سَمِعُوْا ذَالِکَ، فَقَالَ: لَا تَبْکُوْا عَلَیْنَا، مَنْ کَانَ بَاکِیًا فَلْیَخْرُجْ، أَلَمْ تَسْمَعُوْا مَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یُعَذَّبُ الْمَیِّتُ بِبُکَائِ أَہْلِہِ عَلَیْہِ۔)) فَمِنْ أَجْلِ ذَالِکَ کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ لَا یُقِرُّ أَنْ یُبْکٰی عِنْدَہُ عَلٰی ہَالِکٍ مِنْ وَلَدِہِ وَلَا غَیْرِہِمْ۔ (مسند احمد: ۲۹۴)
سیّدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کسی طبیب کو بلائو،وہ میرے زخم کا معائنہ کرے، چنانچہ ایک عربی طبیب کو بلوایا گیا۔ اس نے سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو نبیذ پلایا، جب وہ ناف کے نیچے والے زخم سے (خون آمیز نبیذ کی صورت میں) خارج ہو گیا، تو نبیذ خون کے مشابہ ہوگیا۔ سیّدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: پھر میں بنی معاویہ کے انصار میں سے ایک دوسرا طبیب بلایا۔ اس نے آ کر سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دودھ پلایا، لیکن وہ تو زخم کے راستے سے صاف سفیددودھ ہی نکل آیا۔ طبیب نے کہا: امیر المومنین! وصیت کر لو، (آپ فوت ہونے والے ہیں)۔ یہ سن کر سیّدناعمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: بنو معایہ کا یہ بھائی سچ کہہ رہا ہے، اگر تم کوئی اور بات کرتے تو میں اس کو غلط سمجھتا۔ یہ بات سن کر لوگ رو پڑے۔ جس پر سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ہمارے اوپر نہ روئوو، جو رونا چاہتا ہے وہ باہر چلا جائے۔ کیا تم لوگوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا یہ ارشاد نہیں سنا کہ میت کو اس کے اہل و عیال کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیّدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میت کے پاس رونے نہیں دیتے تھے۔ رونے والی ان کی اولاد ہو یا کوئی اور۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3072

۔ (۳۰۷۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِی أَبِی ثَنَا إِسْمَاعِیْلَ حَدَّثَنَا أَیُّوْبُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ، قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ وَنَحْنُ نَنْتَظِرُ جَنَازَۃَ أُٔمِّ أَبَانَ ابْنَۃِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَعِنْدَہُ عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، فَجَائَ ابْنُ عَبَّاسَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یَقُوْدُہُ قَائِدُہُ، قَالَ: فَأُرَاہُ أَخْبَرَہُ بِمَکَانِ ابْنِ عُمَرَ، فَجَائَ حَتّٰی جَلَسَ إِلٰی جَنْبِی وَکُنْتُ بَیْنَہُمَا، فَإِذَا صَوْتٌ مِنَ الدَّارِ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: إِنَّ الْمَیِّتَ یُعَذَّبُ بِبُکَائِ أَہْلِہِ عَلَیْہِ۔)) فَأَرْسَلَہَا عَبْدُ اللّٰہِ مُرْسَلَۃً۔ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: کُنَّا مَعَ أَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ عُمَرَ، حَتَّی إِذَا کُنَّا بَالْبَیْدَائِ إِذَا ہُوَ بِرَجُلٍ نَازِلٍ فِی ظِلِّ شَجَرَۃٍ، فَقَالَ لِیْ: اِنْطَلِقْ فَاعْلَمْ مَنْ ذَالِکَ، فَانْطَلَقْتُ فَإِذَا ہُوَ صُہَیْبٌ، فَرَجَعْتُ إِلَیْہِ، فَقُلْتُ: إِنَّکَ أَمَرْتَنِی أَنْ أَعْلَمَ لَکَ مَنْ ذَالِکَ، وَإِنَّہُ صُہَیْبٌ فَقَالَ: مُرُوْہُ فَلْیَلْحَقْ بِنَا، فَقُلْتُ: إِنَّ مَعَہُ أَہْلَہُ؟ قَالَ: وَإِنْ کَانَ مَعَہُ أَہْلُہُ، وَرَبُّمَا قَالَ أَیُّوْبُ مَرَّۃً: فَلْیَلْحَقْ بِنَا، فَلَمَّا بَلَغْنَا الْمَدِیْنَۃَ لَمْ یَلْبَثْ أَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنْ أُصِیْبَ، فَجَائَ صُہَیْبٌ فَقَالَ: وَا أَخَاہُ وَا صَاحِبَاہُ، فَقَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: أَلَمْ تَعْلَمْ أَوْ لَمْ تَسْمَعْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِنَّ الْمَیِّتَ لَیُعََذَّبُ بِبَعْضِ بُکَائِ أَہْلِہِ عَلَیْہِ۔)) فَأَمَّا عَبْدُ اللّٰہِ فَأَرْسَلَہَا مُرْسَلَۃً وَأَمَّا عُمَرُ فَقَالَ بِبَعْضِ بُکَائِ فَأَتَیْتُ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فَذَکَرْتُ لَہَا قَوْلَ عُمَرَ، فَقَالَتْ: لَا وَاللّٰہِ! مَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِنَّ الْمَیِّتَ یُعَذَّبُ بِبُکَائِ أَحَدٍ وَلٰکِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِنَّ الْکَافِرَ لَیَزِیْدُہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ بِبُکَائِ أَہْلِہِ عَذَابًا، وَإِنَّ اللّٰہَ لَہُوَ أَضْحَکَ وَأَبْکٰی، {وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ أَخْرٰی} قَالَ أَیُوْبُ: وَقَالَ ابْنُ أَبِی مُلَیْکَۃَ: حَدَّثَنِی الْقَاسِمُ، قَالَ: لَمَّا بَلَغَ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَوْلُ عُمَرَ وَابْنِ عُمَرَE قَالَتْ: إِنَّکُمْ لَتُحَدِّثُوْنِی عَنْ غَیْرِ کَاذِبَیْنِ وَلَا مُکَذَّبَیْنِ وَلٰکِنَّ السَّمَعَ یُخْطِیئُ۔ (مسند احمد: ۲۸۸)
عبد اللہ بن ابی ملیکہ کہتے ہیں:میں سیّدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ تھا، ہم سیّدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیٹی ام ابان کے جنازہ کا انتظار کر رہے تھے، وہاں پر عمرو بن عثمان بھی موجود تھے، اتنے میں سیّدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بھی تشریف لے آئے،جبکہ ایک آدمی ان کی رہنمائی کر رہا تھا (کیونکہ وہ نابینا ہو چکے تھے)، میرا خیال ہے کہ اس آدمی نے انہیں سیّدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے متعلق بتلایا، پس وہ آ کر میرے پہلو میں بیٹھ گئے، جبکہ میں ان دونوںکے درمیان آگیا۔ جب گھر سے رونے کی آواز سنائی دی تو سیّدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: میت کو اس کے اہل و عیال کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ سیّدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس حدیث کو مطلق طور پر بیان کیا اور (یہودی کے ساتھ خاص نہیں کیا)۔ یہ سن کر سیّدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ہم امیر المومنین سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہمراہ تھے، جب ہم بیداء مقام میں پہنچے تو درخت کے سائے میں ایک آدمی بیٹھا دکھائی دیا، امیر المومنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے کہا: دیکھ کر آئو، یہ آدمی کون ہے؟ میں نے جا کر دیکھا تو وہ سیّدنا صہیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔ میں نے واپس آ کر عرض کیا کہ آپ نے مجھے حکم دیا تھا کہ یہ پتہ کرکے آئوں وہ آدمی کون ہے تو وہ سیّدنا صہیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں۔ امیر المومنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ان سے جا کر کہو کہ ہمارے ساتھمل جائیں۔ میں نے کہا: ان کے ہمراہ ان کے اہل خانہ بھی ہیں۔آپ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگرچہ ان کے ساتھ اہل خانہ بھی ہوں، بس وہ ہمارے ساتھ مل جائیں۔ جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تھے تو امیر المومنین پر حملہ کر دیا گیا (اور آپ زخمی ہو گئے)۔ سیّدنا صہیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور کہا: ہائے میرے بھائی! ہائے میرے دوست! یہ سن کر سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیا آپ نے نہیں سنا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ہے کہ میت کو اس کے بعض اہل و عیال کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ سیّدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس حدیث کو مطلق طور پر بیان کیا اور سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بعض اہل و عیال کی قید لگائی۔ سیّدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کہتے ہیں: پھر میں سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس گیا اور سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث ان کو بیان کی، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس طرح نہیں فرمایا کہ میت کو کسی کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو یوں فرمایا تھا: بیشک اللہ تعالیٰ کافر کو اس کے اہل و عیال کے رونے کی وجہ سے مزید عذاب دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ہنساتا اور رلاتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ قاسم نے کہا: جب سید عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا تک سیّدنا عمر اور سیّدنا ابن عمر کی بات پہنچی تو انھوں نے کہا: بیشک تم مجھے ایسے لوگوں سے بیان کر رہے ہو جو نہ خود جھوٹ ہیں اور نہ ان کو جھٹلایا گیا ہے، اصل بات یہ ہے کہ سننے میں غلطی ہو جاتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3073

۔ (۳۰۷۳) عَنْ عَلِیِّ بْنِ رَبِیَعَۃ الْأَسْدِیِّ قَالَ: مَاتَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ یُقَالُ لَہُ قَرَظَۃُ بْنُ کَعْبٍ فَنِیْحَ عَلَیْہِ (وَفِی رِوَیَۃٍ إِنَّ أَوَّلَ مَنْ نِیْحَ عَلَیْہِ بَالْکُوْفَۃِ قَرَظَۃُ بْنُ کَعْبٍ الْأَنْصَارِیُّ) فَخَرَجَ الْمُغِیْرَۃُ بْنُ شُعْبَۃُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فَصَعِدَ الْمِنْیَرَ فَحَمِدَ اللّٰہِ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ: مَا بَالُ النَّوْحِ فِی الْأِسْلَامِ، أَمَا إِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((إِنَّ کَذِبًا عَلَیَّ لَیْسَ کَکذِبٍ عَلٰی أَحَدٍ، أَلَا وَمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ متُعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔)) أَلَا وَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((مَنْ یُنَحْ عَلَیْہِ یُعَذَّبْ بِمَا نِیْحَ بِہِ عَلَیْہِ۔)) (مسند احمد: ۱۸۳۲۰)
علی بن ربیعہ اسدی کہتے ہیں: قرظہ بن کعب نامی ایک انصاری آدمی فوت ہو گیا اور اس پر نوحہ کیا جانے لگا، ایک روایت میں ہے کہ کوفہ میں سب سے پہلے قرظہ بن کعب انصاری پر نوحہ کیا گیا، سیّدنامغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ منبر پر تشریف لائے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد کہا: اسلام میں نوحہ کا کیا کام؟ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: مجھ پر جھوٹ بولنا، یہ عام آدمی پر جھوٹ بولنے کی طرح نہیں ہے، خبردار!جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سے تیار کر لے۔ اور میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا: جس پر نوحہ کیا گیا تو اسے اس وجہ سے عذاب دیا جائے گاکہ اس پر نوحہ کیا گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3074

۔ (۳۰۷۴) عَنْ أَسِیْدِ بْنِ أَبِی أَسِیْدٍ عَنْ مُوْسَی بْنِ أَبِی مُوْسَی اْلأَشْعَرِیّ عَنْ أَبِیْہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَلْمَیِّتُ یُعَذَّبُ بِبُکَائِ الْحَیِّ عَلَیْہِ، إِذَا قَالَتِ النَّائِحَۃُ وَاعَضُدَاہُ، وَانَاصِرَہُ، وَاکَاسِیَاہُ، جُبِذَ الْمَیِّتُ وَقِیْلَ لَہُ: أَنْتَ عَضُدُہَا، أَنْتَ نَاصِرُہَا، أَنْتَ کَاسِیْہَا۔)) فَقُلْتُ: سُبْحَانَ اللّٰہِ! یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ أُخْرٰی} فَقَالَ: وَیْحَکَ أُحَدِّثُکَ عَنْ أَبِی مُوْسٰی عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَتَقُوْلُ ہٰذَا؟ فَأَیُّنَا کَذَبَ؟ فَوَاللّٰہِ! مَا کَذَبْتُ عَلٰی أَبِی مَوْسٰی، وَلَا کَذَبَ أَبُوْ مُوْسٰی عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۹۹۵۴)
سیّدنا ابو موسی اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میت کو زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے، جب نوحہ کرنے والی کہتی ہے: ہائے میرے بازو! ہائے میرے مدد گار! ہائے مجھے کپڑے پہنانے والے! تو فرشتے میت کو جھنجوڑتے اور کہتے ہیں:تو اس کا بازو تھا؟ تو اس کا مدد گار تھا؟ تو اس کو کپڑے پہناتا تھا؟ اسید کہتے ہیں: میں نے (تعجب کرتے ہوئے) کہا: سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے: {وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ أُخْرٰی} (سورۂ نعام:۱۶۴) یعنی: کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ لیکن موسی بن ابی موسیٰ نے کہا: تو ہلاک ہو جائے، میں تجھے سیّدنا ابو موسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے واسطے سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تو اس طرح کہتا ہے؟ ہم میں سے کس نے جھوٹ بولا؟ اللہ کی قسم! میں نے سیّدنا ابو موسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر جھوٹ نہیں بولا اور نہ ابو موسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر جھوٹ بولا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3075

۔ (۳۰۷۵) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: لَمَّا مَاتَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُوْنٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَتْ امْرَأَۃٌ: ہَنِیْئًا لَکَ الْجَنَّۃُ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُوْنٍ! وَفِی رِوَایَۃٍ قَالَتِ امْرَأَتُہُ: ہَنِیْئًا لَکَ یَا بْنَ مَظْعُوْنٍ! بِالْجَنَّۃِ، فَنَظَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَیْہَا نَظَرَۃَ غَضَبٍ، فَقَالَ: ((وَمَا یُدْرِیْکِ؟)) قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَارِسُکَ وَصَاحِبُکَ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَمَا أَدْرِی مَا یُفْعَلُ بِی (وَفِی رِوَایَۃٍ وَلَا بِہِ)۔)) فَأَشْفَقَ النَّاسُ عَلٰی عُثْمَانَ، فَلَمَّا مَا تَتْ زَیْنَبُ (وَفِی رِوَایَۃٍ: رُقَیَّۃُ) ابْنَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : قَالَ رَسُوْلُ اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اِلْحَقِیْ بِسَلَفِنَا الصَّالِحِ الْخَیِّرِ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُوْنٍ۔)) فَبَکَتِ النِّسَائُ، فَجَعَلَ عُمَرُ یَضْرِبُہُنَّ بِسَوْطِہِ فَأَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِیَدِہِ وَقَالَ: ((مَہْلًا یَاعُمَرُ!)) ثُمَّ قَالَ: ((اِبْکِیْنَ وَإِیَّاکُنَّ وَنَعِیْقَ الشَّیْطَانِ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّہُ مَہُمَا کَانَ مِنَ الْعَیْنِ وَالْقَلْبِ فَمِنَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَمِنَ الرَّحْمَۃِ، وَمَا کَانَ مِنَ الْیَدِ وَاللِّسَانِ فَمِنَ الشَّیْطَانِ۔)) (مسند احمد: ۲۱۲۷)
سیّدناعبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب سیّدنا عثمان بن مظعون ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا انتقال ہوا تو ایک عورت نے کہا: اے عثمان بن مظعون! آپ کو جنت مبارک ہو۔دوسری روایت میں ہے: ان کی بیوی نے کہا: اے ابن مظعون! آپ کو جنت کی مبارک ہو۔ یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی طرف غصے سے دیکھا اور فرمایا: ((آپ کو کیسے معلوم ہوا؟)) اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ آپ کے شہ سوار اورصحابی ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا، جبکہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ ایک روایت میں ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا ہو گا اور اس کے ساتھ کیا ہو گا۔ یہ سن کر لوگ سیّدنا عثمان بن مظعون ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں فکر مند ہو گئے۔جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صاحبزادی سیدہ زینب یاسیدہ رقیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کا انتقال ہوا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ہمارے پیش رو صالح اور نیک سیرت فرد عثمان بن مظعون کو جا ملو۔ پس عورتیں رونے لگیں اور سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے انہیں کوڑے سے مارنا شروع کر دیا، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کا ہاتھ روک لیا اور فرمایا: عمر ٹھہر جاؤ۔ پھر فرمایا: روؤ روؤ، البتہ شیطانی چیخ و پکار سے بچنا۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو رونا آنکھ اور دل سے ہو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور جذبۂ رحمت کی بنا پر ہوتا ہے، اور جو ہاتھ اور زبان سے ہو وہ شیطان کی طرف سے ہوتاہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3076

۔ (۳۰۷۶) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌فِی قِصَّۃِ مَوْتِ إِبْرَاہِیْمَ بْنِ النَّبِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: فَجَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَعَا الصَّبِیَّ فَضَمَّہُ إِلَیْہِ، قَالَ أَنَسٌ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: فَلَقَدْ رَأَیْتُہُ بَیْنَ یَدَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یَکِیْدُ بِنَفْسِہِ، قَالَ: فَدَمَعَتْ عَیْنَا رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((تَدْمَعُ الْعَیْنُ وَیَحْزَنُ الْقَلْبُ، وَلَا نَقُوْلُ إِلَّا مَا یُرْضِی رَبَّنَا عَزَّوَجَلَّ وَاللّٰہِ! إِنَّا بِکَ یَا إِبْرَاہِیْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ۔)) (مسند احمد: ۱۳۰۴۵)
(دوسری سند) اس میں پس وہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ کے بعد یہ اضافہ ہے: پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبر کے کنارے بیٹھ گئے اور سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پہلو میں بیٹھ کر رونے لگیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ساتھ شفقت کرتے ہوئے ان کی آنکھوں کو اپنے کپڑے سے پونچھنے لگے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3077

۔ (۳۰۷۷) وَعَنْہُ أَیْضًا أَنَّ فَاطِمَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بَکَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ: یَا أَبَتَاہُ مِنْ رَبِّہِ مَا أَدْنَاہُ، یَا أَبْتَاہُ إِلٰی جِبْرِیْلَ أَنْعَاہُ، یَا أَبْتَاہُ جَنَّۃُ الْفِرْدُوْسِ مَأْوَاہُ۔ (مسند احمد: ۱۳۰۶۲)
سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بیٹے سیّدنا ابراہیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی وفات کا قصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں تشریف لائے اوربچے کو بلوایا، پھراسے اپنے سینہ سے لگا لیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ اس وقت حالت ِ نزع میں تھے، اتنے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں اور دل غمگین ہو رہا ہے، لیکن ہم بات صرف وہی کہیں گے جو ہمارے رب کو راضی کرے گی، اے ابراہیم! اللہ کی قسم! ہم تیری وجہ سے یقینا غمگین ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3078

۔ (۳۰۷۸) عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عِیْسٰی عَنْ جَبْرِ بْنِ عَتِیْکٍ عَنْ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی مَیِّتٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَأَہْلُہٗ یَبْکُوْنَ، فَقُلْتُ: أَتَبْکُوْنَ وَہٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ: ((دَعْہُنَّ یَبْکِیْنَ مَا دَامَ عِنْدَہُنَّ، فَإِذَا وَجَبَتْ فَـلَا یَبْکِیْنَ)) فَقَالَ جَابِرٌ: فَحَدَّثْتُ بِہِ عُمَرَ بْنَ حُمَیْدٍ الْقُرَشِیَّ فَقَالَ: مَاذَا وَجَبَتْ؟ قَالَ: إِذَا أُدْخِلَ قَبْرَہُ۔ (مسند احمد: ۲۴۱۵۲)
سیّدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات پر روئیں اور کہا: اے ابا جان! آپ اپنے ربّ کے کتنے قریب ہو گئے ہیں، اے ابا جان! میں جبریل کو آپ کی وفات کی خبر دیتی ہوں۔ اے با جان! جنت الفردوس آپ کا ٹھکانہ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3079

۔ (۳۰۷۹) عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائِ بْنِ عَلْقَمَۃَ أَنَّہُ کَانَ جَالِسًا مَعَ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فِی السُّوْقِ وَمَعَہُ سَلَمَۃُ بْنُ اْلأَزْرَقِ إِلٰی جَنْبِہِ فَمُرَّ بِجَنَازَۃِ یَتْبَعُہَا بُکَائٌ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما : لَوْ تَرَکَ أَہْلُ ہٰذَا الْمَیِّتِ الْبُکَائَ لَکَانَ خَیْرًا لِمَیِّتِہِمْ، فَقَالَ سَلَمَۃُ بْنُ الْأَزْرَقِ: تَقُوْلُ ذَالِکَ یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ!؟ قَالَ: نَعَمْ، أَقُوْلُہُ، قَالَ: إِنِّی سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ وَمَاتَ مَیِّتٌ مِنْ أَہْلِ مَرْوَانَ فَاجْتَمَعَ النِّسَائُ یَبْکِیْنَ َعَلَیْہِ، فَقَالَ مَرْوَانُ: قُمْ یَا عَبْدَ الْمَلِکِ! فَانْہَہُنَّ أَنْ یَبْکِیْنَ، فَقَالَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: دَعْہُنَّ فَإِنَّہُ مَاتَ مَیِّتٌ مِنْ آلِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاجْتَمَعَ النِّسَائُ یَبْکِیْنَ عَلَیْہِ، فَقَامَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ یَنْہَاہُنَّ وَیَطْرُدُہُنَّ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((دَعْہُنَّ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ! فَإِنَّ الْعَیْنَ دَامِعَۃٌ’ وَالْفُؤَادَ مُصَابٌ،وَإِنَّ الْعَہْدَ حَدِیْثٌ)) فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: أَنْتَ سَمِعْتَ ہٰذَا مِنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: یَأْثُرُہُ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَاللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَعْلَمُ۔ (مسند احمد: ۵۸۸۹)
محمد بن عمرو کہتے ہیں: میں بازار میں سیّدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ بیٹھا ہواتھا، ان کے پہلو میں سلمہ بن ازرق بھی موجود تھے، ایک جنازہ گزرا، اس کے ساتھ لوگ روتے جا رہے تھے، سیّدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر اس میت والے یہ لواحقین رونا ترک کر دیں تو اس میت کے حق میں بہتر ہو گا۔ سلمہ بن ازرق نے کہا: ابو عبد الرحمن! آپ یہ بات کہہ رہے ہیں؟انہوں نے فرمایا: جی ہاں، میں کہہ رہا ہوں۔ سلمہ بن ازرق نے کہا: میں نے سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سنا، جبکہ مروان کے اہل میں سے کوئی فوت ہو گیا تھا، عورتیں جمع ہو کر رونے لگیں، مروان نے کہا: عبد الملک! اٹھو اور جا کر ان عورتوں کو رونے سے منع کرو۔ سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: انہیں رونے دو، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ایک رشتہ دار فوت ہو گیا تھا، عورتیں جمع ہو کر اس پر رونے لگیں، سیّدناعمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ انہیں روکنے اور ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے لیے اٹھے، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابن خطاب، انہیں چھوڑو، آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں، دل غمگین ہیں اور مصیبت کا وقت بھی قریب ہے۔ سیّدناابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیا آپ نے یہ حدیث سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے خود سنی ہے؟اس نے کہا: جی ہاں۔ انھوں نے کہا: کیا وہ اسے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بیان کرتے تھے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔یہ سن کر انھوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3080

۔ (۳۰۸۰) عَنْ إِبْرَہِیْمَ الْہَجَرِیِّ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِی أَوْفٰی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَۃِ، فَمَاتَتْ ابْنَۃٌ لَہُ وَکَانَ یَتْبَعُ جَنَازَتَہَا عَلٰی بَغْلَۃٍ خَلْفَہَا، فَجَعَلَ النِّسَائُ یَبْکِیْنَ، فَقَالَ: لَا تَرْثِیَنَّ، فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَہٰی عَنِ الْمَرَاثِی، فَتُفِیْضُ إِحْدَاکُنَّ مِنْ عَبَرَاتِہَا مَا شَائَ تْ، کَبَّرَ عَلَیْہَا أَرْبَعًا ثُمَّ قَامَ بَعْدَ الرَّابِعَۃِ قَدْرَ مَا بَیْنَ التَّکْبِیْرَتَیْنِ یَدْعُوْ، ثُمَّ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَصْنَعُ فِی الْجَنَازَۃِ ہٰکَذَا۔ (مسند احمد: ۱۹۳۵۳)
سیّدنا عبد اللہ بن ابی اوفیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ،جو بیعت ِ رضوان کرنے والے صحابہ میں سے تھے، کی بیٹی کاانتقال ہو گیا۔ وہ ایک خچر پر سوار جنازہ کے پیچھے جا رہے تھے، اتنے میں عورتیں رونے لگیں، انہوں نے کہا: مرثیے مت کہو، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مرثیوں سے منع فرمایا ہے۔ البتہ جس قدر چاہو آنسو بہا سکتی ہو۔ پھر انہوں نے نماز جنازہ میں چار تکبیرات کہیں، چوتھی تکبیر کے بعد بھی دو تکبیروں کے درمیان وقفہ کے برابر کھڑے ہو کر دعائیں کرتے رہے۔ پھر کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی جنازہ ایسے ہی کیا کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3081

۔ (۳۰۸۱) عَنْ ابْنِ عَبَّاسَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: جَائَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی بَعْضِ بَنَاتِہِ، وَہِیَ فِی السَّوْقِ، فَأَخَذَہَا وَوَضَعَہَا فِی حِجْرِہِ حَتّٰی قُبِضَتْ فَدَمَعَتْ عَیْنَاہُ فَبَکَتْ أُمُّ أَیْمَنَ، فَقِیْلَ لَہَا: أَتَبْکِیْنَ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ: أَلَا أَبْکِی وَرَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَبْکِی، قَالَ: ((إِنِّی لَمْ أَبْکِ، وَہٰذِہِ رَحْمَۃٌ إِنَّ الْمُؤْمِنَ تَخْرُجُ نَفْسُہُ مِنْ بَیْنِ جَنْبَیْہِ وَہُوَ یَحْمُد اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ (وَفِی لَفْظٍ) إِنَّ الْمُؤْمِنَ بِکُلِّ خَیْرٍ عَلٰی کُلِّ حَالٍ، إِنَّ نَفْسَہُ تَخْرُجُ مِنْ بَیْنِ جَنْبَیْہِ وَہُوَ یَحَمَدُ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ)) (مسند احمد: ۲۴۱۲)
سیّدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی ایک صاحب زادی کے ہاں تشریف لائے، جبکہ وہ عالَمِ نزع میں تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو پکڑا اور اپنی گود میں رکھا، اس وقت اس کی روح پرواز کر گئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آنکھوں سے آنسو آ گئے، سیدہ ام ایمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بھی رونے لگیں، ان سے کسی نے کہا: تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہوتے ہوئے رو رہی ہیں؟ انہوں نے کہا: میں کیوں نہ روؤں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی تو رو رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تونہیں رو رہا، یہ تو رحمت ہے۔ مومن کی روح اس کے پہلوئوں سے نکل رہی ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کر رہا ہوتا ہے۔ ایک روایت میں ہے: مومن ہر حال میں ہر قسم کی بھلائی پرہوتاہے، جب اس کی روح اس کے پہلوئوں سے نکل رہی ہوتی ہے تو وہ اس حال میں بھی اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کر رہا ہوتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3082

۔ (۳۰۸۲) عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: أَرْسَلَتْ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْضُ بَنَاتِہِ أَنْ صَبِیًّا لَہَا ابْنًا أَوْ ابْنَۃً، قَدِ احْتُضِرَتْ فَاشْہَدْنَا، قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَیْہَا یَقْرَأُ السَّلَامَ ، وَیَقُوْلُ: ((إِنَّ لِلّٰہَ مَا أَخَذَ وَمَا أَعْطٰی وَکُلُّ شَیْئٍ عِنْدَہُ إِلٰی أَجَلٍ مُسَمًّی، فَلْتَصْبِرْوَ لْتَحْتَسِبْ)) فَأَرْسَلَتْ تُقْسِمُ عَلَیْہِ، فَقَامَ وَقُمْنَا فَرُفِعَ الصَّبِیُّ إِلٰی حِجْرِ أَوْ فِی حِجْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَنَفْسُہُ تَقَعْقَعُ، وَفِی الْقَوْمِ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ وَ أُبَیٌّ أَحْسِبُ، فَفَاضَتْ عَیْنَا رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ لَہُ سَعْدٌ: مَا ہٰذَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!؟ قَالَ: ((إِنَّ ہٰذِہِ رَحْمَۃٌ یَضَعُہَا اللّٰہُ فِی قُلُوْبِ مَنْ یَشَائُ مِنْ عِبَادِہِ وَإِنَّمَا یَرْحَمُ اللّٰہُ مِنْ عِبَادِہِ الرَّحْمَائُ)) (مسند احمد: ۲۲۱۱۹)
سیّدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صاحب زادی (سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ) نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اطلاع بھجوائی کہ اس کا بیٹا یا بیٹی نزع کے عالَم میں ہے، لہٰذا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس تشریف لائیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جواباً اپنی بیٹی کو سلام بھجوایا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ جو لے لے اور جو دے دے، سب کچھ اسی کا ہے اور اس کے پاس ہر چیز کا وقت مقرر ہے، پس چاہیے کہ وہ صبر کرے اور اجر کی امید رکھے۔ لیکن اس دفعہ بیٹی نے قسم دے کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دوبارہ بلوایا۔ سو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اٹھے اورہم بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ چل پڑے۔ بچے کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی گود میں رکھ دیا گیا،اس وقت اس کی روح پرواز کر رہی تھی۔ لوگوں میں سیّدنا سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ موجود تھے اور میرا خیال ہے کہ سیّدنا ابی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تھے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آنکھیں بہہ پڑیں، سیّدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ کیا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ رحمت ہے، جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہتا ہے، رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے مہربان بندوں پر رحم کرتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3083

۔ (۳۰۸۳)(وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: أُتِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِأُمَیْمَۃَ ابْنَۃِ زَیْنَبَ وَنَفْسُہَا تَقَعْقَعُ، کَأَنَّہَا فِی شَنٍّ، فَقَالَ: ((لِلّٰہِ مَا أَخَذَ وَلِلّٰہِ مَا أَعْطٰی وَکُلٌّ إِلٰی أَجَلٍ مُسَمًّی۔))قَالَ: فَدَمَعَتْ عَیْنَاہُ، فَقَالَ لَہُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَتَبْکِی؟ أَوْلَمْ تَنْہَ عَنِ الْبُکَائِ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّمَا ہِیَ رَحْمَۃٌ جَعَلَہَا اللّٰہُ فِی قُلُوْبِ عِبَادِہِ وَإِنَّمَا یَرْحَمُ اللّٰہُ مِنْ عِبَادِہِ الرُّحَمَائَ۔)) (مسند احمد: ۲۲۱۴۲)
(دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سیدہ امیمہ بنت زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو لایا گیا، وہ عالَم نزع میں تھیں اورپرانے مشکیزے کی طرح لگ رہی تھیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ جو لے لے اور جو دے دے، سب اسی کا ہے اور ہر چیز کا ایک وقت ِ مقرر ہے۔ یہ کہتے ہی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، سیّدنا سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ رو رہے ہیں؟ کیا آپ نے رونے سے منع نہیں فرمایا تھا؟رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ رحمت ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں ڈال رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ رحم کرنے والے بندوں پر ہی رحم فرماتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3084

۔ (۳۰۸۴)(وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَالِثٍ) قَالَ: أَرْسَلَتِ ابْنَۃُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِنَّ ابْنِی یُقْبَضُ، فَأْتِنَا،…۔ فَذَکَرَ الْحَدِیْثَ بِنَحْوِ مَا تَقَدَّمَ۔ (مسند احمد: ۲۲۱۳۲)
(تیسری سند)رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صاحب زادی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پیغام بھیجا کہ اس کابیٹا فوت ہو رہا ہے، لہٰذا آپ تشریف لائیں، …۔ الحدیث۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3085

۔ (۳۰۸۵) عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا أَنَّ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ لَمَّا مَاتَ حَضَرَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَبُوْ بَکْرٍ وَ عُمَرُ قَالَتْ: فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ! إِنِّی لأَعْرِفُ بُکَائَ عُمَرَ مِنْ بُکَائِ أَبِی بَکْرٍ وَأَنَا فِی حُجْرَتِی، وَکَانُوْا کمَا قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {رُحْمَائُ بَیْنَہُمْ}۔ (مسند احمد: ۲۵۶۱۰)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ جب سیّدنا سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا انتقال ہوا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیّدناابوبکر اور سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما وہاں تشریف لائے، سیدہ کہتی ہیں:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جان ہے! میں ابوبکر اور عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کے رونے کی آواز علیحدہ علیحدہ پہچان رہی تھی، حالانکہ میں اپنے حجرے میں تھی،وہ صحابہ آپس میں ایسے ہی تھے، جیسے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے: {رُحْمَآئُ بَیْنَہُمْ} (سورۂ فتح: ۲۹) یعنی: وہ آپس میں رحم دل تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3086

۔ (۳۰۸۶) عَنْ بِلَالٍ الْعَبَسِیِّ عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّہُ کَانَ إِذَا مَاتَ لَہُ مَیِّتٌ قَالَ: لَا تُؤْذِنُوْا بِہِ أَحْدًا، إِنِّی أَخَافُ أَنْ یَکُوْنَ نَعْیًا، إِنِّی سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَنْہٰی عَنِ النَّعْیِ۔ (مسند احمد: ۲۳۸۴۸)
جب سیّدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا کوئی آدمی فوت ہوتا تو وہ کہتے: کسی کو اس کے فوت ہونے کی اطلاع نہ دو، مجھے خطرہ ہے کہ کہیں یہ خبر دینا اطلاع کرنے کی ممنوعہ صورت نہ بن جائے اور میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا ہے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کسی کے مرنے کی اطلاع دینے سے منع فرمایا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3087

۔ (۳۰۸۷)(وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ حُذَیْفَہَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنِ النَّعْیِ۔ (مسند احمد: ۲۳۶۵۹)
(دوسری سند)سیّدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کسی کے مرنے کی اطلاع نشر کرنے سے منع فرمایا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3088

۔ (۳۰۸۸) عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ قَالَ: سُئِلَ جَابِرٌ عَمَّا یُدْعٰی لِلْمَیِّتِ؟ فَقَالَ: مَا أَبَاحَ لَنَا فِیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَا أَبُوْ بَکْرٍ وَلَا عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ۔ (مسند احمد: ۱۴۹۰۷)
ابوزبیرکہتے ہیں: سیّدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے میت کے لیے دی جانے والی پکار کے بارے میں پوچھا گیا، انھوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اور سیّدنا ابوبکر اور سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے ہمیں اس کی اجازت نہیں دی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3089

۔ (۳۰۸۹) عَنْ زَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ عَلَی الْمِنْبَرِ: ((لَا یَحِلُّ لِأِمْرَأَۃٍ تُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلٰی مَیِّتٍ فَوْقَ ثَـلَاثِ لَیَالٍ إِلَّا عَلٰی زَوْجٍ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا۔)) (مسند احمد: ۲۷۲۹۰)
زوجۂ رسول سیدہ زینب بنت جحش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو منبر پر فرماتے سناکہ جس عورت کا اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان ہے، اس کے لیے کسی میت پر تین دنوں سے زیادہ سوگ منانا حلال نہیں ہے، ماسوائے خاوند کے، کہ اس کے لیے چار ماہ دس دن (سوگ ہے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3090

۔ (۳۰۹۰) عَنْ زَیْنَبَ بِنْتِ اُمِّ سَلَمَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَتْ: تُوُفِّیَ حَمِیْمٌ لِأُمِّ حَبِیْبَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فَدَعَتْ بِصُفْرَۃٍ، فَمَسَحَتْ بِذِرَاعَیْہَا وَقَالَتْ: اِنَّمَا أَصْنَعُ ہٰذَا لِشَیْئٍ سَمِعْتُ (وَفِی رِوَایَۃٍ: لِأَنَّ) رَسُوْل اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا یَحِلَّ لِأَمْرَأَۃٍ مُسْلِمَۃٍ تُؤْمِنْ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ أَنْ تُحِدُّ فَوْقَ ثَـلَاثٍ إِلَّا عَلٰی زَوْجِہَا أَرْبَعَۃً وَعَشْرًا۔)) (مسند احمد: ۲۷۳۰۲)
سیدہ زینب بنت ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: سیدہ ام حبیبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا ایک رشتہ دار فوت ہو گیا، انہوں نے خوشبو منگوا کر بازوئوں پر لگائی اور کہا:میں نے خاص وجہ کی بناپر ایسے کیا اور وہ یہ کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس عورت کا اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان ہے، اس کے لیے کسی میت پر تین دنوں سے زیادہ سوگ منانا حلال نہیں ہے، ماسوائے خاوند کے، کہ اس کے لیے چار ماہ دس دن (سوگ ہے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3091

۔ (۳۰۹۱) عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا یَحِلُّ لِأِمْرَأَۃٍ تُؤْمِنُ باِللّٰہِ وَالْیَوْمِ اْلآخِرِ أَنْ تُحِدُّ عَلٰی مَیِّتٍ فَوْقَ ثَـلَاثٍ، إِلَّا عَلٰی زَوْجٍ۔)) (مسند احمد: ۲۶۹۸۶)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو عورت اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے، اس کے لیے کسی میت پر تین دنوں سے زیادہ سوگ منانا حلال نہیں ہے، ماسوائے خاوند کے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3092

۔ (۳۰۹۲) وَعَنْ حَفْصَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا مِثْلُہُ (وَزَادَتْ بَعْدَ ’’إِلَّا عَلٰی زَوْجٍ‘‘: ((فَإِنَّہَا تُحِدُّ عَلَیْہِ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا)) (مسند احمد: ۲۶۹۸۵)
سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے، البتہ إِلَّا زَوْجٍ کے الفاظ کے بعد یہ الفاظ ہیں: پس وہ اس پر چار ماہ دس دن سوگ منائے گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3093

۔ (۳۰۹۳) عَنْ أُمِّ عَطِیَّۃَ الْأَنْصَارِیَّۃِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا تُحِدَّ الْمَرْأَۃُ فَوْقَ ثَـلَاثٍ إِلَّا عَلٰی زَوْجٍ فَإِنَّہَا تُحِدُّ عَلَیْہِ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا، وَلَا تَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوْغًا إِلَّا عَصْبًا، وَلَا تَکْتَحِلُ وَلَا تَمَسُّ طِیْبًا إِلَّا عِنْدَ طُہْرِہَا، فَإِذَا طَہُرَتْ مِنْ حَیْضِہَا نُبَذَۃً مِنْ قُسْطِ وَ أَظْفَارٍ)) (مسند احمد: ۲۱۰۷۵)
سیدہ ام عطیہ انصاریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کوئی عورت کسی میت پر تین دنوں سے زیادہ سوگ نہ منائے، سوائے خاوند پر، اس پر چار ماہ دس دن سوگ منائے گی، اس دوران وہ رنگے ہوئے کپڑے نہ پہنے،لیکن رنگے ہوئے سوت کا کپڑا پہن سکتی ہے، سرمہ نہ لگائے، خوشبو استعمال نہ کرے، مگر جب ایام حیض سے پاک ہو تو تب تھوڑی سی قسط یا اظفار کی خوشبو استعمال کر لے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3094

۔ (۳۰۹۴) عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ عُمِیْسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: دَخَلَ عَلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْیَوْمَ الثَّالِثَ مِنْ قَتْلِ جَعْفَرٍ، فَقَالَ: ((لَا تُحِدِّیْ بَعْدَ یَوْمِکِ ہٰذَا)) (مسند احمد: ۲۷۶۲۳)
سیدہ اسما بنت عمیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: سیّدنا جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت کے تیسرے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: آج کے بعد سوگ نہ کرنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 3095

۔ (۳۰۹۵)(وَعَنْہَا مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَتْ: لَمَّا أُصِیْبَ جَعْفَرٌ أَتَانَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((قُومِیْ اِلْبَسِیْ، ثَوْبَ الْحِدَادِ، ثَـلَاثًا، ثُمَّ اصْنَعِی مَا شِئْتِ۔)) قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ وَحَدَّثَنَا ابْنُ بَکَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَہَ مِثْلَہُ (مسند احمد: ۲۸۰۱۵)
(دوسری سند)وہ کہتی ہیں: جب سیّدنا جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا سانحہ پیش آیا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے اور فرمایا، اٹھو! تین دن کے لیے سوگ کا لباس پہن لو، اس کے بعد جو چاہو کرنا۔

Icon this is notification panel