129 Results For Hadith (Musnad Ahmad ) Book ()
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 104

۔ (۱۰۴)۔عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؓ قَالَ: قِیْلَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : أَیُّ الْأَدْیَانِ أَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ؟ قَالَ: (( الْحَنِیْفِیَّۃُ السَّمْحَۃُ۔)) (مسند أحمد: ۲۱۰۷)
سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ کسی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے یہ سوال کیا: کون سا دین اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندیدہ ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: حضرت ابراہیم ؑکی ملت، جو کہ سہولت والی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 105

۔ (۱۰۵)۔عَنْ غَاضِرَۃَ بْنِ عُرْوَۃَ الفُقَیْمِیِّ حَدَّثَنِیْ أَبِیْ عُرْوَۃُ (ؓ) قَالَ: کُنَّا نَنْتَظِرُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَخَرَجَ رَجِلًا یَقْطُرُ رَأسُہُ مِنْ وُضُوْئٍ أَوْ غُسْلٍ فَصَلّٰی فَلَمَّا قَضَی الصَّلَاۃَ جَعَلَ النَّاسُ یَسْأَلُوْنَہُ، یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَعَلَیْنَا حَرَجٌ فِی کَذَا؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ دِیْنَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فِی یُسْرٍ ۔)) ثَلَاثًا یَقُوْلُہَا۔ (مسند أحمد: ۲۰۹۴۵)
سیدنا عروہؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کا انتظار کر رہے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ تشریف لائے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے بالوں میں کنگھی کی ہوئی تھی اور وضو یا غسل کی وجہ سے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے نماز پڑھائی، جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے سوال کرنے لگے کہ اے اللہ کے رسول! کیا اس طرح کرنے میں ہم پر کوئی حرج ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ کا دین آسانی والا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے تین دفعہ یہ جملہ ارشاد فرمایا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 106

۔ (۱۰۶)۔عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ ؓ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((لَا یَبْقٰی عَلٰی ظَہْرِ الْأَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَہُ اللّٰہُ کَلِمَۃَ الْاِسْلَامِ بِعِزِّ عَزِیْزٍ أَوْ ذُلِّ ذَلِیْلٍ، إِمَّا یُعِزُّہُمُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فَیَجْعَلُہُمْ مِنْ أَہْلِہَا أَوْ یُذِلُّہُمْ فَیَدِیْنُوْنَ لَہَا۔)) (مسند أحمد: ۲۴۳۱۵)
سیدنا مقداد بن اسودؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: روئے زمین پر اینٹوں والا گھر بچے گا نہ خیمے والا، مگر اللہ تعالیٰ اس میں کلمۂ اسلام کو داخل کر دیں گے، یہ عزت والے کی عزت کے ساتھ ہو گا یا ذلت والے کی ذلت کے ساتھ ہو گا، اس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو اس طرح عزت دے گا کہ ان کو اہل اسلام بنا دے گا اور بعض لوگوں کو اس طرح ذلیل کرے گا کہ وہ بھی (بالآخر) اس کے مطیع ہو جائیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 107

۔ (۱۰۷)۔عَنْ سُلَیْمِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ تَمِیْمٍ الدَّارِیِّ ؓ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((لَیَبْلُغَنَّ ھٰذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ الَّلیْلُ وَالنَّہَارُ، وَلَا یَتْرُکُ اللّٰہُ بَیْتَ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَہُ اللّٰہُ ھٰذَا الدِّیْنَ بِعِزِّ عَزِیْزٍ أَوْ بِذُلِّ ذَلِیْلٍ، عِزٍّا یُعِزُّ اللّٰہُ بِہِ الْاِسْلَامَ أَوْ ذُلًّا یُذِلُّ اللّٰہُ بِہِ الْکُفْرَ۔)) وَکَانَ تَمِیْمٌ الدَّارِیُّ یَقُوْلُ: قَدْ عَرَفْتُ ذَالِکَ فِی أَہْلِ بَیْتِیْ لَقَدْ أَصَابَ مَنْ أَسْلَمَ مِنْہُمُ الْخَیْرَ وَ الشَّرَفَ وَالْعِزَّ وَلَقَدْ أَصَابَ مَنْ کَانَ مِنْہُمْ کَافِرًا الذُّلَّ وَالصِّغَارَ وَ الْجِزْیَۃَ۔ (مسند أحمد: ۱۷۰۸۲)
سیدنا تمیم داریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: یہ دین وہاں تک پہنچ جائے گا، جہاں تک دن رات پہنچے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ اینٹوں والے یا خیمے والے کسی گھر کو نہیں چھوڑے گا، مگر عزت والوں کی عزت کے ساتھ اور ذلت والوں کی ذلت کے ساتھ اس میں اس دین کو داخل کر دے گا، عزت اس طرح کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا کرے گا اور ذلت اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کفر کو ذلیل کر دے گا۔ سیدنا تمیم داریؓ کہتے ہیں: میں نے (عزت و ذلت والے اس معاملے کو) اپنے گھر والوں میں دیکھ لیا، ہم میں سے مشرف باسلام ہونے والوں نے خیر، شرف اور عزت کو پا لیا اور ہم میں سے جو لوگ کافر رہے، ذلت و حقارت اور جزیہ ان کا مقدر بنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 108

۔ (۱۰۸)۔عَنْ أَبِی بَکْرَۃَؓ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ قَالَ: ((إِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَ تَعَالَی سَیُؤَیِّدُ ھٰذَا الدِّیْنَ بِأَقْوَامٍ لَا خَلَاقَ لَہُمْ۔)) (مسند أحمد: ۲۰۷۲۸)
سیدنا ابوبکرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ذریعے اس دین کی مدد کرے گا، جن کا دین میں کوئی حصہ نہیں ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 109

۔ (۱۰۹)۔عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ؓ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِنَّ اللّٰہَ یُؤَیِّدُ ھٰذَا الدِّیْنَ بِالرَّجُلِ الْفَاجِرِ۔)) (مسند أحمد: ۸۰۷۶)
سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ فاجر آدمی کے ذریعے اس دین کی مدد کرتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 110

۔ (۱۱۰)۔عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ؓ قَالَ: کَانَ الرَّجُلُ یَأْتِی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِشَیْئٍ یُعْطَاہُ مِنَ الدُّنْیَا فَـلَا یُمْسِیْ حَتَّی یَکُوْنَ الْاِسْلَامُ أَحَبَّ إِلَیْہِ وَ أَعَزَّ عَلَیْہِ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا۔ (مسند أحمد: ۱۲۰۷۳)
سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں: ایک آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس دنیوی چیز کے لیے آتا تھا اور وہ اسے دے دی جاتی تھی، لیکن ابھی تک شام نہیں ہوتی تھی کہ دنیا و ما فیہا کی بہ نسبت اسے اسلام سب سے زیادہ محبوب اور پیارا بن چکا ہوتا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 111

۔ (۱۱۱)۔وَ عَنْہُ أَیْضًا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یَکُنْ یُسْئَلُ شَیْئًا عَلٰی الْاِسْلَامِ إِلَّا أَعْطَاہُ، قَالَ: فَأَتَاہُ رَجُلٌ فَسَأَلَہُ فَأَمَرَ لَہُ بِشَائٍ کَثِیْرٍ بَیْنَ جَبَلَتَیْنِ مِنْ شَائِ الصَّدَقَۃِ، قَالَ: فَرَجَعَ اِلٰی قَوْمِہِ فَقَالَ: یَاقَوْمِ! أَسْلِمُوْا فَإِنَّ مُحَمَّدًا یُعْطِی عَطَائً مَا یَخْشَی الْفَاقَۃَ۔ (مسند أحمد: ۱۲۰۷۴)
سیدنا انس ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے اسلام پر جو چیز بھی مانگ لی جاتی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ وہ دے دیتے تھے، ایک دفعہ ایک آدمی آیا اور اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے کوئی سوال کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اس کو بہت ساری بھیڑ بکریاں دینے کا حکم دیا، یہ زکوۃ کی بکریاں تھیں اور دو پہاڑوں کے درمیان والی گھاٹی ان سے بھر جاتی تھی۔ وہ بندہ اپنی قوم کی طرف لوٹا اور ان سے کہا: اے میری قوم! اسلام قبول کر لو، کیونکہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اس طرح کثرت سے دیتے ہیں کہ ان کو فاقے کا ڈر بھی نہیں ہوتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 112

۔ (۱۱۲)۔وَ عَنْہُ أَیْضًا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لِرُجُلٍ: ((أَسْلِمْ۔)) قَالَ: أَجِدُنِیْ کَارِہًا، قَالَ: ((أَسْلِمْ وَ إِنْ کُنْتَ کَارِہًا۔)) (مسند أحمد: ۱۲۰۸۴)
سیدنا انسؓ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ایک آدمی سے فرمایا: تو مسلمان ہو جا۔ اس نے کہا: میں اپنے آپ کو اسلام کو ناپسند کرنے والا پاتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تو مسلمان ہو جا، اگرچہ تو اس کو ناپسند کر رہا ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 113

۔ (۱۱۳)۔عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْہُمْ أَنَّہُ أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَسْلَمَ عَلٰی أَنَّہُ لَا یُصَلِّی إِلَّا صَلَاتَیْنِ فَقَبِلَ مِنْہُ ذَالِکَ۔ (مسند أحمد: ۲۳۴۶۸)
نصر بن علی اپنی قوم کے ایک آدمی سے بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آیا اور اس شرط پر مسلمان ہوا کہ وہ صرف دو نمازیں ادا کرے گا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اس کی یہ شرط قبول کر لی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 114

۔ (۱۱۴)۔عَنْ تَمِیْمٍ الدَّارِیِّ ؓ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا السُّنَّۃُ فِی الرَّجُلِ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ (وَفِی رِوَایَۃٍ: مِنْ أَہْلِ الْکُفْرِ) یُسْلِمُ عَلٰی یَدَیْ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ؟ قَالَ: ((ہُوَ أَوْلَی النَّاسِ بِمَحْیَاہُ وَ مَمَاتِہِ۔)) (مسند أحمد: ۱۷۰۷۲)
سیدنا تمیم داریؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر اہل کِتَابُ یا اہل کفر میں سے کوئی آدمی کسی مسلمان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرتا ہے تو اس کے بارے میں کیا سنت ہو گی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: وہ اس کی زندگی اور موت میں اس کا سب سے زیادہ مستحق ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 115

۔ (۱۱۵)۔عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَؓ قَالَ: إِنِّی لَتَحْتَ رَاحِلَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْ مَ الْفَتْحِ فَقَالَ قَوْلًا حَسَنًا جَمِیْلًا وَکَانَ فِیْمَا قَالَ: ((مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ فَلَہُ أَجْرُہُ مَرَّتَیْنِ وَلَہُ مَا لَنَا وَ عَلَیْہِ مَا عَلَیْنَا وَمَنْ أَسْلَمَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ فَلَہُ أَجْرُہُ وَلَہُ مَا لَنَا وَ عَلَیْہِ مَا عَلَیْنَا۔)) (مسند أحمد: ۲۲۵۸۹)
سیدنا ابو امامہؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں فتح مکہ والے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی سواری کے نیچے کھڑا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ بڑی خوبصورت اور حسین باتیں ارشاد فرمائیں تھیں، ایک بات یہ بھی تھی: اہل کِتَابُ میں سے جو آدمی مسلمان ہو گا، اس کے دو اجر ہوں گے اور پھر جو حق ہمارا ہے، وہ اس کا بھی ہو گا اور جو ذمہ داری ہم پر ہے، وہ اس پر بھی ہو گی۔ اور جو آدمی مشرکوں میں سے مسلمان ہو گا تو اس کو اس کا اجر ملے گا اور پھر جو حق ہمارا ہے، وہ اس کا بھی ہو گا اور جو ذمہ داری ہم پر ہے، وہ اس پر بھی ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 116

۔ (۱۱۶)۔عَنْ أَبِیْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّ ؓ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ کَانَتْ لَہُ أَمَۃٌ فَعَلَّمَہَا فَأَحْسَنَ تَعْلِیْمَہَا وَ أَدَّبَہَا فَأَحْسَنَ تَأْدِیْبَہَا وَ أَعْتَقَہَا فَتَزَوَّجَہَا فَلَہُ أَجْرَانِ، وَعَبْدٌ أَدَّی حَقَّ اللّٰہِ وَ حَقَّ مَوَالِیْہِ وَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ آمَنَ بِمَا جَائَ بِہِ عِیْسٰی وَمَا جَائَ بِہِ مُحَمَّدٌ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَہُ أَجْرَانِ۔)) (مسند أحمد: ۱۹۷۶۱)
سیدنا ابو موسی اشعریؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جو آدمی اپنی لونڈی کو تعلیم دے اور اچھی تعلیم دے اور اس کی اخلاقی تربیت کرے اور اچھی تربیت کرے اور پھر اس کو آزاد کر کے اس سے شادی کرے تو اس کو دو اجر ملیں گے، (اسی طرح اس کے لیے دو اجر ہیں) جو غلام اللہ تعالیٰ کا حق بھی ادا کرے اور اپنے آقا کا بھی اور اہل کتاب کا وہ آدمی جو پہلے حضرت عیسی ؑکی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لایا اور پھر محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لایا، اس کے لیے بھی دو اجر ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 117

۔ (۱۱۷)۔عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ؓ قَالَ: لَمَّا أَلْقَی اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فِی قَلْبِیَ الْاِسْلَامَ قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِیُبَایِعَنِیْ فَبَسَطَ یَدَہُ إِلَیَّ فَقُلْتُ: لَا أُبَایِعُکَ حَتّٰی یُغْفَرَ لِیْ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِیْ، قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((یَا عَمْرُو! أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْہِجْرَۃَ تَجُبُّ مَا قَبْلَہَا مِنَ الذُّنُوْبِ، یَا عَمْرُو! أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْاسْلَامَ یَجُبُّ مَا قَبْلَہُ مِنَ الذُّنُوْبِ۔)) (مسند أحمد: ۱۷۹۸۱)
سیدنا عمرو بن عاصؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کا خیال ڈال دیا تو میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس بیعت کرنے کے لیے آیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اپنا ہاتھ میری طرف پھیلادیا، لیکن اس وقت میں نے کہا: میں اس وقت تک آپ کی بیعت نہیں کروں گا، جب تک میرے سابقہ گناہ بخش نہیں دیئے جاتے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: عمرو! کیا تو نہیں جانتا کہ ہجرت پہلے والے گناہوں کو ختم کر دیتی ہے، عمرو! کیا تجھے یہ علم نہیں ہے کہ اسلام بھی پہلے والے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 118

۔ (۱۱۸)۔عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ ؓ قَالَ: أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَجُلٌ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِذَا أَحْسَنْتُ فِی الْاِسْلَامِ أُؤَاخَذُ بِمَا عَمِلْتُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ؟ قَالَ: ((إِذَا أَحْسَنْتَ فِی الْاِسْلَامِ لَمْ تُؤَاخَذْ بِمَا عَمِلْتَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ وَ إِذَا أَسَأْتَ فِی الْاِسْلَامِ أُخِذْتَ بِالْأَوَّلِ وَالآخِرِ۔)) (مسند أحمد: ۳۵۹۶)
سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! اگر میں (اسلام قبول کر کے)اس دین میں نیکیاں کرتا رہوں تو کیا جاہلیت والی میری برائیوں کی وجہ سے میرا محاسبہ ہو گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جب تو بظاہر اور بباطن اسلام قبول کرے گا تو جاہلیت میں جو کچھ کیا ہو گا، اس کی بنا پر تیرا مؤاخذہ نہیں ہو گا، لیکن اگرتو بظاہر اسلام قبول کرے گا، نہ کہ بباطن تو اگلی پچھلی یعنی ہر برائی پر مؤاخذہ کیا جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 119

۔ (۱۱۹)۔عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ یَزِیْدَ الْجُعْفِیِّؓ قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا وَ أَخِیْ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّ أُمَّنَا مُلَیْکَۃَ کَانَتْ تَصِلُ الرَّحِمَ وَ تَقْرِی الضَّیْفَ وَ تَفْعَلُ وَ تَفْعَلُ ہَلَکَتْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ فَہَلْ ذَالِکَ نَافِعُہَا شَیْئًا؟ قَالَ: ((لَا۔)) قَالَ: قُلْنَا: فَإِنَّہَا کَانَتْ وَأَدَتْ أُخْتًا لَنَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ فَہَلْ ذَالِکَ نَافِعُہَا شَیْئًا؟ قَالَ: (( الْوَائِدَۃُ وَالْمَوْئُ وْدَۃُ فِی النَّارِ إِلَّا أَنْ تُدْرِکَ الْوَائِدَۃُ الْاِسْلَامَ فَیَعْفُوَ اللّٰہُ عَنْہَا۔)) (مسند أحمد: ۱۶۰۱۹)
سیدنا سلمہ بن یزید جعفیؓ کہتے ہیں: میں اور میرا بھائی، ہم دونوں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس گئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! ہماری اماں جان مُلیکہ صلہ رحمی کرتی تھی، مہمانوں کی میزبانی کرتی تھی اور اس قسم کی کئی نیکیاں کرتی تھی، لیکن دورِ جاہلیت میں ہی فوت ہو گئی ہے، تو کیا یہ اعمال اسے فائدہ دیں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: نہیں۔ ہم نے کہا: اس نے دورِ جاہلیت میں ہی ہماری ایک بہن کو زندہ درگور کر دیا تھا، تو یہ چیز اس کو نفع دے گی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: زندہ دوگور کرنے والی اور زندہ درگور ہونے والی، دونوں جہنمی ہیں، الا یہ کہ درگور کرنے والی اسلام کو پا لے اور اس طرح اللہ تعالیٰ اس کو معاف کر دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 120

۔ (۱۲۰)۔عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ الطَّائِیِّؓ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّ أَبِیْ کَانَ یَصِلُ الرَّحِمَ وَ یَفْعَلُ وَ یَفْعَلُ، فَہَلْ لَہُ فِی ذَالِکَ یَعْنِیْ مِنْ أَجْرِہِ؟ قَالَ: ((إنَّ أَبَاکَ طَلَبَ أَمْرًا فَأَصَابَہُ۔)) (مسند أحمد: ۱۹۶۰۵)
سیدنا عدی بن حاتمؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرا باپ صلہ رحمی کرتا تھا اور اس کے علاوہ بھی کئی نیک کام کرتا تھا، تو اس کو ان کا اجر ملے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک تیرا باپ (شہرت اور تعریف کی صورت میں) جس چیز کا طلبگار تھا، وہ اس کو مل گئی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 121

۔ (۱۲۱)۔عَنْ حَکِیْمٍ بْنِ حِزَامٍؓ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَرَأَیْتَ أُمُوْرًا کُنْتُ أَتَحَنَّثُ بِہَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ مِنْ عَتَاقَۃٍ وَ صِلَۃِ رَحِمٍ ہَلْ لِیْ فِیْہَا أَجْرٌ؟ فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَسْلَمْتَ عَلٰی مَا أَسْلَفْتَ مِنْ خَیْرٍ۔)) (مسند أحمد: ۱۵۳۹۲)
سیدنا حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! غلاموں کی آزادی اور صلہ رحمی جیسے ان امور کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، جو میں دورِ جاہلیت میں عبادت کے طور پر کرتا تھا، کیا مجھے ان کا اجر ملے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تو جو امورِ خیر سرانجام دے چکا ہے، اس سمیت مسلمان ہوا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 122

۔ (۱۲۲)۔عَنْ عَمْرٍو بْنِ عَبَسَۃَؓ قَالَ: جَائَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَیْخٌ کَبِیْرٌ یَدَّعِمُ عَلٰی عَصًا لَہُ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّ لِی غَدَرَاتٍ وَ فَجَرَاتٍ فَہَلْ یُغْفَرُ لِی؟ قَالَ: ((أَلَسْتَ تَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللّٰہُ؟)) قَالَ: بَلٰی! وَ أَشْہَدُ أَنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ، قَالَ: ((قَدْ غُفِرَ لَکَ غَدَرَاتُکَ وَفَجَرَاتُکَ۔)) (مسند أحمد: ۱۹۶۵۲)
سیدنا عمرو بن عبسہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک بوڑھا آدمی لاٹھی کے سہارے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! بیشک میں نے دھوکے، خیانتیں اور برائیاں کی تھیں، کیا پھر بھی مجھے بخش دیا جائے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: کیا تو یہ شہادت نہیں دے رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے؟ اس نے کہا: کیوں نہیں، بلکہ میں تو یہ گواہی بھی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تیرے دھوکوں، خیانتوں اور برائیوں کو بخش دیا گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 123

۔ (۱۲۳)۔عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَؓ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، فَإِذَا قَالُوْہَا عَصَمُوْا دِمَائَہُمْ وَ اَمْوَالَہُمْ إِلَّا بِحَقِّہَا وَ حِسَابُہُمْ عَلَی اللّٰہِ تَعَالٰی۔)) قَالَ: فَلَمَّا کَانَتِ الرَّدَّۃُ، قَالَ عُمَرُ لِأَبِیْ بَکْرٍؓ: تُقَاتِلُہُمْ وَ قَدْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ کَذَا وَ کَذَا، قَالَ: فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍؓ: نُقَاتِلُہُمْ وَ اللّٰہِ، لَا أُفَرِّقُ بَیْنَ الصَّلَاۃِ وَ الزَّّکَاۃِ وَ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَہُمَا، قَالَ: فَقَاتَلْنَا مَعَہُ فَرَأَیْنَا ذَالِکَ رَشَدًا۔ (مسند أحمد: ۶۷)
سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب تک لوگ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا اقرار نہیں کریں، میں ان سے لڑتا رہوں، جب وہ یہ کلمہ کہہ لیں گے تو اپنے خون اور مال بچا لیں گے، مگر ان کے حق کے ساتھ، اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہو گا۔ جب سیدنا ابو بکر ؓ کے زمانے میں زکاۃ کے انکار کا سلسلہ شروع ہوا اور (سیدنا ابو بکر ؓ نے ایسے لوگوں سے لڑنا چاہا تو) سیدنا عمر ؓ نے ان سے کہا: آپ ان لوگوں سے کیسے قتال کریں گے، جب کہ میں نے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو اس طرح ارشاد فرماتے ہوئے سنا تھا (کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے بعد مال اور خون محفوظ ہو جاتے ہیں)، لیکن سیدنا ابو بکرؓ نے کہا: اللہ کی قسم! ہم ایسے لوگوں سے لڑیں گے، میں نماز اور زکوۃ میں کوئی فرق نہیں کرتا اور میں اس سے لڑوں گا جو ان کے درمیان فرق کرے گا۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا: پھر ہم نے سیدنا ابو بکر ؓ کے ساتھ مل کر ایسے لوگوں سے قتال کیا اور ہمیں یہ سمجھ آ گئی تھی کہ یہی معاملہ ہدایت والا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 124

۔ (۱۲۴)۔وَ عَنْہُ فِی أُخْرَی قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَقُوْلُوا لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ یُقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَ یُؤْتُواالزَّکَاۃَ ثُمَّ قَدْ حَرُمَ عَلَیَّ دِمَائُہُمْ وَ أَمْوَالُہُمْ وَ حِسَابُہُمْ عَلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔)) (مسند أحمد: ۱۰۸۳۴)
۔ (دوسری روایت) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے قتال کرتا رہوں، جب تک ایسا نہ ہوجائے کہ وہ لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ کہیں، نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں، اس طرح سے ان کے خون اور مال مجھ پر حرام ہو جائیں گے اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 125

۔ (۱۲۵)۔عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَشْہَدُوْا أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ، فَإِذَا شَہِدُوْا وَاسْتَقْبَلُوْا قِبْلَتَنَا وَ أَکَلُوْا ذَبِیْحَتَنَا وَ صَلَّوْا صَلَاتَنَا فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَیْنَا دِمَائُہُمْ وَ أَمْوَالُہُمْ إِلَّا بِحَقِّہَا، لَہُمْ مَا لِلْمُسْلِمِیْنَ وَ عَلَیْہِمْ مَا عَلَیْہِمْ۔)) (مسند أحمد: ۱۳۳۸۱)
سیدنا انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: مجھے اس وقت تک لوگوں سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے، جب تک وہ یہ اقرار نہ کر لیں کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اس کے رسول ہیں، جب وہ یہ گواہی دیں گے اور ہمارے قبلے کی طرف رخ کریں گے اور ہمارا ذبیحہ کھائیں گے اور ہمارے والی نماز پڑھیں گے تو ان کے خون اور مال ہم پر حرام ہو جائیں گے، مگر ان کے حق کے ساتھ اور ان کو وہی حقوق ہوں گے، جو دوسرے مسلمانوں کے ہیں اور ان پر وہی ذمہ داریاں ہوں گی، جو دوسرے مسلمانوں پر ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 126

۔ (۱۲۶)۔حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ أَبِیْ ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: ثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ النُّعْمَانِ قَالَ: سَمِعْتُ أُوَیْسًا (یَعْنِی بْنَ أَبِی أُوَیْسٍ الثَّقَفِیِّؓ) یَقُوْلُ: أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ فِی وَفْدِ ثَقِیْفٍ فَکُنَّا فِی قُبَّۃٍ فَقَامَ مَنْ کَانَ فِیْہَا غَیْرِیْ وَ غَیْرَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم، فَجَائَ رَجُلٌ فَسَارَّہُ فَقَالَ: اذْہَبْ فَاقْتُلْہُ، (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَلَمَّا وَلَّی الرَّجُلُ دَعَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) ثُمَّ قَالَ: ((أَلَیْسَ یَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ۔)) قَالَ: بَلٰی! وَلٰکِنَّہُ یَقُوْلُہَا تَعَوُّذًا، فَقَالَ: ((رُدُّوْہُ۔)) (وَفِی رِوَایَۃٍ: اذْہَبُوْا فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُ) ثُمَّ قَالَ: ((أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَقُوْلُو ا لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّّٰہُ، فَاِذَا قَالُوْہَا حَرُمَتْ عَلَیَّ دِمَائُہُمْ وَ أَمْوَالُہُمْ إِلَّا بِحَقِّہَا، فَقُلْتُ لِشُعْبَۃَ: أَلَیْسَ فِی الْحَدِیْثِ ثُمَّ قَالَ: أَلَیْسَ یَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ أَنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ؟ قَالَ شُعبَۃُ: أَظُنُّہَا مَعَہَا وَلَا أَدْرِیْ۔ (مسند أحمد: ۱۶۲۶۰)
سیدنا اویس بن ابو ایس ثقفی ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں ثقیف کے وفد میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آیا، ہم ایک قبّہ میں تھے، ہوا یوں کہ میرے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے علاوہ سارے لوگ چلے گئے، اتنے میں ایک آدمی آیا اور اس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے کوئی سرگوشی کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تو پھر جاؤ اور اس کو قتل کر دو۔ ایک روایت میں ہے: جب وہ بندہ جانے لگا تورسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اسے بلایا اور پوچھا: کیا وہ لَا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی گواہی دیتا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، لیکن وہ یہ کلمہ تو محض بچنے کے لیے کہتا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس کو چھوڑ دو۔ ایک روایت میں ہے: جاؤ اور اس کو جانے دو۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: مجھے اس وقت تک لوگوں سے قتال کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جب تک وہ لَا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ نہیں کہہ دیتے، جب وہ یہ کلمہ کہہ دیتے ہیں تو ان کے خون اورمال مجھ پر حرام ہو جاتے ہیں، مگر ان کے حق کے ساتھ۔ میں (محمد بن جعفر) نے امام شعبہ سے کہا: کیا حدیث کے الفاظ اس طرح نہیں تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے پوچھا کہ کیا وہ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ أَ نِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ کی گواہی دیتا ہے۔ انھوں نے کہا: میرا خیال ہے کہ یہ الفاظ بھی تھے، لیکن اب مجھے یاد نہیں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 127

۔ (۱۲۷)۔عَنْ أَبِیْ مَالِکٍ الْأَشْجَعِیِّ عَنْ أَبِیْہِ (طَارِقِ بْنِ أَشْیَمَ ؓ) أَنَّہٗ سَمِعَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یَقُوْلُ لِقَوْمٍ: ((مَنْ وَحَّدَ اللّٰہَ وَ کَفَرَ بِمَا یُعْبَدُ مِنْ دُوْنِہٖ حَرَّمَ اللّٰہُ مَالَہٗ وَدَمَہٗ وَ حِسَابُہٗ عَلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔)) (مسند أحمد: ۲۷۷۵۵)
سیدنا طارق بن اشیم ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے لوگوں کے بارے میں فرمایا: جو آدمی اللہ تعالیٰ کو یکتا و یگانہ قرار دے گا اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ جن کی پوجاپاٹ کی جاتی ہے، ان سب کا انکار کر دے گا، تو اللہ تعالیٰ اس کے مال اور خون کو حرام قرار دے گا اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 128

۔ (۱۲۸)۔عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ؓ قَالَ: اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اِبْتَعَثَ نَبِیَّہٗ لِاِدْخَالِ رَجُلٍ اِلَی الْجَنَّۃِ فَدَخَلَ الْکَنِیْسَۃَ فَاِذَا ہُوَ بِیَہُوْدَ وَاِذَا یَہُوْدِیٌّ یَقْرَأُ عَلَیْہِمُ التَّوْرَاۃَ، فَلَمَّا أَتَوْا عَلٰی صِفَۃِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَمْسَکُوْا، وَفِیْ نَاحِیَتِہَا رَجُلٌ مَرِیْضٌ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((مَا لَکُمْ أَمْسَکْتُمْ؟)) قَالَ الْمَرِیْضُ: اِنَّہُمْ أَتَوْا عَلٰی صِفَۃِ نَبِیٍّ فَأَمْسَکُوْا،ثُمَّ جَائَ الْمَرِیْضُ یَحْبُوْ حَتّٰی أَخَذَ التَّوْرَاۃَ فَقَرَأَ حَتّٰی أَتٰی عَلٰی صِفَۃِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَ أُمَّتِہٖ فَقَالَ: ہٰذِہٖ صِفَتُکَ وَ صِفَۃُ أُمَّتِکَ أَشْہَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ أَنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ، ثُمَّ مَاتَ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِاَصْحَابِہٖ : ((لُوْا أَخَاکُمْ۔)) (مسند أحمد: ۳۹۵۱)
سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ایک بندے کو جنت میں داخل کرنے کے لیے بھی بھیجا ہے، بات یہ ہے کہ وہ (نبی) گرجا گھر میں داخل ہوا، وہاں یہودی لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور ایک یہودی ان پر تورات پڑھ رہا تھا، جب وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی صفات تک پہنچے تو رک گئے، کونے میں ایک بیمار آدمی بیٹھا ہوا تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ان سے کہا: تم کیوں رک گئے ہو؟ اس مریض آدمی نے کہا: آگے ایک نبی کا ذکر ہے، اس لیے یہ رک گئے ہیں، پھر وہ مریض گھسٹتا ہوا آگے کو بڑھا، یہاں تک تورات پکڑ لی اور اس کو پڑھنا شروع کر دیا، یہاں تک نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اور آپ کی امت کی صفات بھی پڑھ دیں اور پھر اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ آپ کی اور آپ کی امت کی صفات ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے اور آپ اس کے رسول ہیں، پھر وہ آدمی فوت ہو گیا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اپنے صحابہ سے فرمایا: اپنے بھائی کو سنبھالو (اور اس کی تجہیزو تکفین کا انتظام وانصرام کرو)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 129

۔ (۱۲۹)۔عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ الْخِیَارِ أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ حَدَّثَہٗ أَنَّہٗ أَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ وَہُوَ فِیْ مَجْلِسٍ فَسَارَّہٗ یَسْتَأْذِنُہٗ فِیْ قَتْلِ رَجُلٍ مِنَ الْمُنَافِقِیْنَ، فَجَہَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((أَلَیْسَ یَشْہَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ؟)) قَالَ الْأَنْصَارِیُّ: بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَلَا شَہَادَۃَ لَہٗ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَلَیْسَ یَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ؟)) قَالَ: بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((أَلَیْسَ یُصَلِّیْ۔)) قَالَ: بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَلَا صَلَاۃَ لَہٗ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أُولٰئِکَ الَّذِیْنَ نَہَانِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ۔)) (مسند أحمد: ۲۴۰۷۰)
عبید اللہ بن عدی بن خیار کہتے ہیں کہ ایک انصاری آدمی نے اس کو بیان کیا کہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آیا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ایک مجلس میں تھے، پس اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے کوئی سرگوشی کی، دراصل وہ ایک آدمی کو قتل کرنے کی اجازت لے رہا تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے بآواز بلند فرمایا: کیا وہ یہ گواہی نہیں دیتا کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے؟ اس انصاری نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! لیکن اس کی کوئی شہادت نہیں ہے، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے پھر فرمایا: کیا وہ یہ گواہی نہیں دیتا کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌، اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں؟ اس نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول!، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: کیا وہ نماز نہیں پڑھتا؟ اس نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! لیکن اس کی کوئی نماز نہیں ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسے لوگوں (کو قتل کرنے) سے منع کر دیا ہے ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 130

۔ (۱۳۰)۔(وَ عَنْہُ أَیْضًا)۔عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَدِیٍّ الْأَنْصَارِیِّؓ حَدَّثَہٗ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَمَا ہُوَ جَالِسٌ اِذْ جَائَ ہٗ رَجُلٌ یَعْنِیْ یَسْتَأْذِنُہٗ أَیْ یُسَارُّہٗ فَذَکَرَ مَعْنَاہُ۔ (مسند أحمد: ۲۴۰۷۱)
۔ (دوسری روایت) اس عبیداللہ بن عدی بن خیار یہ بھی مروی ہے کہ عبداللہ بن عدی انصاری نے اسے بیان کیا کہ ایک دفعہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے اجازت طلب کی، یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے سرگوشی کی، باقی روایت مذکورہ بالا کی طرح ہی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 131

۔ (۱۳۱)۔عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍؓأَنَّ عِتْبَانَ اشْتَکٰی عَیْنُہٗ فَبَعَثَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَذَکَرَ لَہٗ مَا أَصَابَہٗ، قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! تَعَالَ صَلِّ فِیْ بَیْتِیَ حَتّٰی أَتَّخِذَہٗ مُصَلًّی، قَالَ: فَجَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَنْ شَائَ اللّٰہُ مِنْ أَصْحَابِہٖ فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُصَلِّیْ وَ أَصْحَابُہٗ یَتَحَدَّثُوْنَ بَیْنَہُمْ فَجَعَلُوْا یَذْکُرُوْنَ مَا یَلْقَوْنَ مِنَ الْمُنَافِقِیْنَ فَأَسْنَدُوْا عُظْمَ ذٰلِکَ اِلٰی مَالِکِ بْنِ دُخَیْشِمٍ، فَانْصَرَفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ: ((أَلَیْسَ یَشْہَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ أَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ؟)) فَقَالَ قَائِلٌ: بَلٰی وَمَا ہُوَ فِیْ قَلْبِہٖ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ شَہِدَ أَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ أَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَلَنْ تَطْعَمَہُ النَّارُ، أَوْ قَالَ: لَنْ یَّدْخُلَ النَّارَ۔)) (مسند أحمد: ۱۲۴۱۱)
سیدنا انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ سیدناعتبان ؓکی آنکھ میں تکلیف ہو گئی، انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی طرف لاحق ہونے والی تکلیف کا پیغام بھیجا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ تشریف لائیں، میرے گھر میں ایک مقام پرنماز پڑھیں، تاکہ میں اس کو جائے نماز بنا سکوں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اور اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق چند صحابہ تشریف لائے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور صحابہ گفتگو میں مصروف ہو گئے، پھر وہ منافقوں کی طرف سے ہونے والی تکالیف کا ذکر کرنے لگے اور اس کا بڑا سبب مالک بن دخیشم کو قرار دیا، اتنے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ فارغ ہوئے اور فرمایا: کیا وہ یہ گواہی نہیں دیتا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں؟ ایک آدمی نے جواب دیا: جی کیوں نہیں، وہ یہ گواہی تو دیتا ہے، لیکن اس کے دل میں اس کے مطابق عقیدہ نہیں ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جس بندے نے یہ شہادت دی کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے اور میں اس کا رسول ہوں، تو ہرگز آگ اس کو نہیں کھائے گی یا (فرمایا) وہ ہرگز آگ میں داخل نہیں ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 132

۔ (۱۳۲)۔عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِؓأَنَّہٗ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَرَأَیْتَ اِنْ لَقِیْتُ رَجُلًا مِنَ الْکُفَّارِ فَقَاتَلَنِیْ فَاخْتَلَفْنَا ضَرْبَتَیْنِ فَضَرَبَ اِحْدٰی یَدَیَّ بِالسَّیْفِ فَقَطَعَہَا ثُمَّ لَاذَ مِنِّیْ بِشَجَرَۃٍ فَقَالَ: أَسْلَمْتُ لِلّٰہِ، أُقَاتِلُہٗ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: أَقْتُلُہٗ أَمْ أَدَعُہٗ بَعْدَ أَنْ قَالَہَا) فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا تَقْتُلْہُ فَاِنْ قَتَلْتَہٗ فَاِنَّہٗ بِمَنْزِلَتِکَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَہٗ وَ أَنْتَ بِمَنْزِلَتِہٖ قَبْلَ أَنْ یَقُوْلَ کَلِمَتَہٗ الَّتِیْ قَالَ۔)) (مسند أحمد: ۲۴۳۳۲)
سیدنا مقداد بن اسود ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: اے اللہ کے رسول! اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ ایک کافر آدمی سے میرا ٹاکرا ہو جائے، وہ مجھ سے لڑ پڑے، ہم دونوں ایک دوسرے کو ایک ایک ضرب لگائیں، لیکن وہ میرے ہاتھ کو تلوار سے ایسی ضرب لگائے کہ اس کو کاٹ دیے اور پھر مجھ سے پناہ طلب کرنے کے لیے ایک درخت کی اوٹ میں جا کر یہ کہنے لگ جائے: میں اللہ کے لیے مسلمان ہو گیا ہوں، اے اللہ کے رسول! اب کیا میں اس سے لڑائی کروں؟ ایک روایت میں ہے: یہ بات کہنے کے بعد کیا میں اس کو قتل کر دوں یا چھوڑ دوں۔رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تو اس کو قتل نہ کر، اگر تو نے اس کو قتل کر دیا تو اِس قتل سے پہلے اسلام والی جو تیری حالت تھی، وہ اس میں آ جائے گا اور اِس قبولیت ِ اسلام والی بات سے پہلے جو اُس کی حالت تھی، تو اُس میں چلا جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 133

۔ (۱۳۳)۔عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ! لَا یَسْمَعُ بِیْ أَحَدٌ مِنْ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ یَہُوْدِیٌّ وَلَا نَصْرَانِیٌّ وَمَاتَ وَلَمْ یُؤْمِنْ بِالَّذِی أُرْسِلْتُ بِہٖ اِلَّا کَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ۔)) (مسند أحمد: ۸۱۸۸)
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس امت کا جو یہودی اور عیسائی میرے بارے میں سنے گا اور پھر اس چیز پر ایمان نہیں لائے گا، جس کے ساتھ مجھے مبعوث کیا گیا ہے، تو وہ جہنمیوں میں سے ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 134

۔ (۱۳۴)۔عَنْ أَبِیْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّ ؓ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَحْوُہُ وَ فِیْہِ ((لَمْ یَدْخُلِ الْجَنَّۃَ)) بَدْلَ قَوْلِہِ ((اِلَّا کَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ۔)) (مسند أحمد: ۱۹۷۶۵)
سیدنا ابو موسی اشعریؓ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے اسی قسم کی حدیث بیان کی ہے، البتہ اس میں وہ جہنمیوں میں سے ہو گا کی بجائے یہ الفاظ ہیں: وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 135

۔ (۱۳۵)۔عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((لَو آمَنَ بِیْ عَشَرَۃٌ مَنْ أَحْبَارِ الْیَہُوْدِ لَآمَنَ بِیْ کُلُّ یَہُودِیٍّ عَلٰی وَجْہِ الْأَرْضِ۔)) قَالَ کَعْبٌ: اِثْنَا عَشَرَ مِصْدَاقُہُمْ فِی سُوْرَۃِ الْمَائِدَۃِ۔ (مسند أحمد: ۹۳۷۷)
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اگر یہودیوں کے دس علماء مجھ پر ایمان لے آئیں تو روئے زمین پر موجود ہر یہودی مجھ پر ایمان لے آئے گا۔ سیدنا کعب ؓ نے کہا: بارہ کا مصداق سورۂ مائدہ میں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 136

۔ (۱۳۶)۔عَنْ رَبَاحِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ حُوَیْطِبٍ قَالَ: حَدَّثَتْنِیْ جَدَّتِیْ أَنَّہَا سَمِعَتْ أَبَاہَا یَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَّا وُضُوْئَ لَہٗ، وَلَا وُضُوْئَ لِمَنْ لَمْ یَذْکُرِ اللّٰہَ تَعَالٰی، وَلَا یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْ بِیْ، وَلَا یُؤْمِنُ بِیْ مَنْ لَّا یُحِبُّ الْأَنْصَارَ۔)) (مسند أحمد: ۲۷۶۸۸)
رباح بن عبد الرحمن سے مروی ہے کہ ان کی دادی نے اپنے باپ (سیدنا سعید بن زیدؓ) سے سنا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جس آدمی کا وضو نہیں اس کی کوئی نماز نہیں اور جس آدمی نے اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کیا، اس کا کوئی وضو نہیں اور جو شخص مجھ (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌) پر ایمان نہیں لایا، وہ اللہ تعالیٰ پرایمان نہیں لا سکے گا اور جس بندے نے انصار سے محبت نہ کی، وہ مجھ پر ایمان نہیں لا سکے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 137

۔ (۱۳۷)۔عَنْ أَبِیْ مُحَیْرِیْزٍ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِیْ جُمْعَۃَ رَجُلٍ مِنَ الصَّحَابَۃِ ؓحَدِّثْنَا حَدِیْثًا سَمِعْتَہٗ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم، قَالَ؛ نَعَمْ أُحَدِّثُکُمْ حَدِیْثًا جَیِّدًا، تَغَدَّیْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَعَنَا أَبُوْ عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ہَلْ أَحَدٌ خَیْرٌ مِنَّا؟ أَسْلَمْنَا مَعَکَ وَجَاہَدْنَا مَعَکَ، قَالَ: ((نَعَمْ قَوْمٌ یَکُوْنُوْنَ مِنْ بَعْدِکُمْ یُؤْمِنُوْنَ بِیْ وَلَمْ یَرَوْنِیْ۔)) (مسند أحمد: ۱۷۱۰۲)
ابو محیریز کہتے ہیں: میں نے ایک صحابی ابو جمعہ ؓ سے کہا: آپ ہمیں ایسی حدیث بیان کریں، جو آپ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے سنی ہو، انھوں نے کہا: جی ہاں، میں تم لوگوں کو بڑی عمدہ حدیث بیان کرتا ہوں، ایک دفعہ ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ساتھ صبح کا کھانا کھایا، ہمارے ساتھ سیدنا ابو عبیدہ بن جراح بھی تھے، انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا کوئی ہم سے بھی بہتر ہو سکتا ہے ؟ ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ساتھ مشرف باسلام ہوئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ساتھ مل کر جہاد کیا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جی ہاں، وہ لوگ بہتر ہیں، جو تمہارے بعد آئیں گے اور بِن دیکھے مجھ پر ایمان لے آئیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 138

۔ (۱۳۸)۔عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍؓقَال: قَال رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَدِدْتُّ أَنِّیْ لَقِیْتُ اِخْوَانِیْ۔)) قَالَ: فَقَالَ أَصْحَابُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : نَحْنُ اِخْوَانُکَ، قَالَ: (( أَنْتُمْ أَصْحَابِیْ وَلٰکِنْ اِخْوَانِیَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِیْ وَلَمْ یَرَوْنِیْ۔)) (مسند أحمد: ۱۲۶۰۷)
سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ اپنے بھائیوں کو ملوں۔ صحابۂ کرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہم ‌ نے کہا: ہم آپ کے بھائی ہی ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تم تو میرے ساتھی ہو، میرے بھائی تو وہ ہے، جو بِن دیکھے مجھ پر ایمان لائیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 139

۔ (۱۳۹)۔عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((طُوْبٰی لِمَنْ رَأنِیْ وَ آمَنَ بِیْ وَ طُوْبٰی لِمَنْ آمَنَ بِیْ وَلَمْ یَرَنِیْ سَبْعَ مَرَّاتٍ۔)) (مسند أحمد: ۲۲۶۳۳)
سیدناابو امامہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس آدمی کے لیے خوشخبری ہے، جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا اور جو آدمی مجھ پر ایمان لایا، جب کہ اس نے مجھے دیکھا ہی نہیں، اس کے لیے سات دفعہ خوشخبری ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 140

۔ (۱۴۰)۔عَنْ أَنَسٍ بْنِ مَالِکٍؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((طُوْبٗی لِمَنْ آمَنَ بِیْ وَ رَآنِیْ مَرَّۃً وَ طُوْبٰی لِمَنْ آمَنَ بِی وَلَمْ یَرَنِیْ سَبْعَ مَرَّاتٍ۔)) (مسند أحمد: ۱۲۶۰۶)
سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس شخص کے لیے ایک دفعہ خوشخبری ہے، جو مجھ پر ایمان لایا اور میرا دیدار کیا، لیکن جو آدمی بِن دیکھے مجھ پر ایمان لایا، اس کے لیے سات دفعہ خوشخبری ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 141

۔ (۱۴۱)۔عَنْ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْجُہَنِیِّؓ قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم طَلَعَ رَاکِبَانِ فَلَمَّا رَآہُمَا قَالَ: ((کِنْدِیَّانِ مَذْحِجِیَّانِ۔)) حَتَّی أَتَیَاہُ فَاِذَا رِجَالٌ مِنْ مَذْحِجٍ۔ قَالَ: فَدَنَا اِلَیْہِ أَحَدُہُمَا لِیُبَایِعَہُ قَالَ: فَلَمَّا أَخَذَ بِیَدِہِ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَرَأَیْتَ مَنْ رَآکَ فَآمَنَ بِکَ وَصَدَّقَکَ وَاتَّبَعَکَ مَا ذَا لَہُ؟ قَالَ: ((طُوْبٰی لَہُ۔)) قَالَ: فَمَسَحَ عَلٰی یَدِہٖ فَانْصَرَفَ، ثُمَّ أَقْبَلَ الْآخَرُ حَتَّی أَخَذَ بِیَدِہِ لِیُبَایِعَہُ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَرَأَیْتَ مَنْ آمَنَ بِکَ وَصَدَّقَکَ وَاتَّبَعَکَ وَلَمْ یَرَکَ قَالَ: ((طُوْبٰی لَہُ، ثُمَّ طُوْبٰی لَہُ، ثُمَّ طُوْبٰی لَہُ۔)) قَالَ: فَمَسَحَ عَلٰی یَدِہِ فَانْصَرَفَ۔ (مسند أحمد: ۱۷۵۲۳)
سیدنا ابو عبد الرحمن جہنیؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک طرف سے دو سوار نمودار ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ان کو دیکھ کر فرمایا: یہ دو کندی مذحجی آدمی ہیں۔ جب وہ دونوں پہنچ گئے تو معلوم ہوا کہ واقعی ان کا تعلق مذحج قبیلے سے ہے، پھر ان میں سے ایک بیعت کرنے کے لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے قریب ہوا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کا ہاتھ پکڑ کر کہا: اے اللہ کے رسول! جو آدمی آپ کا دیدار کرتا ہے، آپ پر ایمان لاتا ہے، آپ کی تصدیق کرتا ہے اور آپ کی پیروی کرتاہے، اس کے لیے اجر میں کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس کے لیے خوشخبری ہے۔ پھر اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے مبارک ہاتھ پر اپنا ہاتھ پھیرا اور پیچھے ہٹ گیا، پھر دوسرا بندہ آگے آیا اور بیعت کرنے کے لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کا ہاتھ پکڑا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کا کیا خیال ہے کہ جو آپ پر ایمان لاتا ہے، آپ کی تصدیق کرتا ہے اور آپ کی پیروی کرتا ہے، لیکن وہ آپ کو دیکھ نہیں پاتا تو اس کے لیے کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس کے لیے خوشخبری ہے، پھر اس کے لیے خوشخبری ہے، پھر اس کے لیے خوشخبری ہے۔ پھراس نے بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے مبارک ہاتھ پر اپنا ہاتھ پھیرا اور پیچھے ہٹ گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 142

۔ (۱۴۲)۔عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ جُبَیْرٍبْنِ نُفَیْرٍ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ: جَلَسْنَا اِلَی الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ ؓ یَوْمًا، فَمَرَّ بِیْ رَجُلٌ فَقَالَ: طُوْبٰی لِہَاتَیْنِ الْعَیْنَیْنِ الَّلتَیْنِ رَأَتَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاللّٰہِ! لَوَدِدْنَا أَنَّنَا رَأَیْنَا مَا رَأَیْتَ وَ شَہِدْنَا مَا شَہِدْتَّ فَاسْتُغْضِبَ، فَجَعَلْتُ أَعْجَبُ، مَا قَالَ اِلَّا خَیْرًا،ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَیْہِ فَقَالَ: مَا یَحْمِلُ الرَّجُلَ عَلٰی أَنْ یَّتَمَنّٰی مَحْضَرًا غَیَّبَہُ اللّٰہُ عَنْہُ لَا یَدْرِی لَوْ شَہِدَہُ کَیْفَ یَکُوْنُ فِیْہِ، وَاللّٰہِ لَقَدْ حَضَرَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَقْوَامٌ أَکَبَّہُمُ اللّٰہُ عَلٰی مَنَاخِرِہِمْ فِیْ جَہَنَّمَ لَمْ یُجِیْبُوْہُ وَلَمْ یُصَدِّقُوْہُ، أَوَلَا تَحْمَدُوْنَ اللّٰہَ اِذْ أَخْرَجَکُمْ لَا تَعْرِفُوْنَ اِلَّا رَبَّکُمْ مُصَدِّقِیْنَ لِمَا جَائَ بِہِ نَبِیُّکُمْ قَدْ کُفِیْتُمُ الْبَلَائَ بِغَیْرِکُمْ، وَاللّٰہِ! لَقَدْ بَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی أَشَدِّ حَالٍ بَعَثَ عَلَیْہَا نَبِیًّا مِنَ الْأَنْبِیَائِ فِی فَتْرَۃٍ وَجَاہِلِیَّۃٍ مَا یَرَوْنَ أَنَّ دِیْنًا أَفْضَلُ مِنْ عِبَادَۃِ الْأَوْثَانِ فَجَائَ بِفُرْقَانٍ فَرَقَ بِہِ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ وَ فَرَّقَ بَیْنَ الْوَالِدِ وَوَلَدِہِ حَتَّی اِنْ کَانَ الرَّجُلُ لَیَرٰی وَالِدَہُ وَوَلَدَہُ وَأَخَاہُ کَافِرًا وَقَدْ فَتَحَ اللّٰہُ قُفْلَ قَلْبِہِ لِلْاِیْمَانِ یَعْلَمُ أَنَّہُ اِنْ ہَلَکَ دَخَلَ النَّارَ فَـلَا تَقِرُّ عَیْنُہُ وَہُوَ یَعْلَمُ أَنَّ حَبِیْبَہُ فِی النَّارِ وَ أَنَّہَا الَّتِیْ قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃَ أَعْیُنٍ}۔ (مسند أحمد: ۲۴۳۱۱)
جبیر بن نفیر کہتے ہے: ہم ایک دن سیدنا مقداد بن اسودؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اسی اثنا میں ایک آدمی کا گزر ہوا اور اس نے سیدنا مقداد ؓ کو دیکھ کر کہا: خوشخبری ہے ان دو آنکھوں کے لیے، جنھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کا دیدار کیا، اللہ کی قسم! ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہم نے بھی وہ کچھ دیکھا ہوتا جو تم نے دیکھا اور ہم نے بھی ان چیزوں کا مشاہدہ کیا ہوتا، جن کا تم نے مشاہدہ کیا۔ یہ سن کر سیدنا مقداد ؓغصے میں آگئے، مجھے بڑا تعجب ہونے لگا کہ اس بندے نے بات تو خیر والی ہی کی تھی، اتنے میں وہ اس پر متوجہ ہو کر کہنے لگے: کون سی چیز بندے کو اس خیال پر آمادہ کر دیتی ہے کہ وہ تمنا کرنے لگتا ہے کہ ایسی جگہ پر حاضر ہوا ہوتا، جہاں سے اللہ تعالیٰ نے اسے غائب رکھا، وہ نہیں جانتا کہ اگر وہ اس مقام پر موجود ہوتا تو اس کی کیفیت کیا ہوتی، اللہ کی قسم ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس ایسے لوگ بھی موجود تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جن کو نتھنوں کے بل جہنم میں گرا دیا، ان لوگوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی بات کو قبول نہیں کیا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی تصدیق نہیں کی تھی، کیا تم اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کی تعریف نہیں کرتے کہ جب اس نے تم کو پیدا کیا تو تمہاری حالت یہ تھی کہ صرف اپنے ربّ کو پہچانتے تھے اور اپنے نبی کی لائی ہوئی شریعت کی تصدیق کرنے والے تھے، تم سے پہلے والے لوگوں نے تمہیں آزمائشوں سے کفایت کیا۔ اللہ کی قسم! جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو مبعوث کیا تھا تو اس وقت بڑے سخت حالات تھے، فترت اور جاہلیت کا ایسا دور تھا کہ جس میں مشرک لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ بت پرستی والا دین سب سے بہتر ہے، اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ایسا فرقان لے کر آئے، جس نے حق و باطل کے مابین فرق کیا اور باپ اور اس کی اولاد میں اس طرح فرق کیا کہ ایک آدمی دیکھ رہا ہوتا کہ اس کے والدین، اولاد اور بھائی کافر ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے دل کا تالہ ایمان کے لیے کھول دیا ہے، اس کو یہ علم ہو جاتا تھا کہ اگر وہ اس دین کو قبول کیے بغیر مر گیا تو وہ جہنم میں داخل ہو جائے گا اور اس طرح اس کی آنکھ کبھی بھی ٹھنڈی نہیں ہو گی، جب کہ اسے یہ سمجھ ہوتی تھی کہ اس کا پیارا جہنم میں جا رہا ہے، یہی چیز ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃَ أَعْیُنٍ} … اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما۔ (سورۂ فرقان: ۷۴)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 143

۔ (۱۴۳)۔عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَؓ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَمَرَ بِلَالًا فَنَادٰی فِی النَّاسِ أَنَّہُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ اِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَۃٌ۔ (مسند أحمد: ۸۰۷۶)
سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے سیدنا بلال ؓ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں اس بات کی منادی کرے کہ جنت میں صرف اور صرف مسلمان جان داخل ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 144

۔ (۱۴۴، ۱۴۵)۔عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ قَالَ: سَأَلْتُ جَابِرًا (یَعْنِی بْنَ عَبْدِ اللّٰہِؓ) عَنِ الْقَتِیْلِ الَّذِیْ قُتِلَ فَأَذَّنَ فِیْہِ سُحَیْمٌ؟ قَالَ: کُنَّا بِحُنَیْنٍ فَأَمَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سُحَیْمًا أَنْ یُؤَذِّنَ فِی النَّاسِ أَنَّہُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ (وَفِی رِوَایَۃٍ: أَ لَا لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ) اِلَّا مُؤْمِنٌ۔ (مسند أحمد: ۱۴۸۲۳)
ابو زبیر کہتے ہیں: میں نے سیدنا جابر بن عبد اللہ ؓ سے اس مقتول کے بارے میں سوال کیا کہ جس کے بارے میں سیدنا سحیم نے اعلان کیا تھا؟ انھوں نے کہا: ہم حنین میں تھے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے سیدنا سحیم ؓ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں یہ اعلان کر دے کہ صرف اور صرف جنت میں مومن داخل ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 145

۔ (۱۴۴، ۱۴۵)۔عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ قَالَ: سَأَلْتُ جَابِرًا (یَعْنِی بْنَ عَبْدِ اللّٰہِؓ) عَنِ الْقَتِیْلِ الَّذِیْ قُتِلَ فَأَذَّنَ فِیْہِ سُحَیْمٌ؟ قَالَ: کُنَّا بِحُنَیْنٍ فَأَمَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سُحَیْمًا أَنْ یُؤَذِّنَ فِی النَّاسِ أَنَّہُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ (وَفِی رِوَایَۃٍ: أَ لَا لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ) اِلَّا مُؤْمِنٌ۔ (مسند أحمد: ۱۴۸۲۳)
ابو زبیر کہتے ہیں: میں نے سیدنا جابر بن عبد اللہ ؓ سے اس مقتول کے بارے میں سوال کیا کہ جس کے بارے میں سیدنا سحیم نے اعلان کیا تھا؟ انھوں نے کہا: ہم حنین میں تھے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے سیدنا سحیم ؓ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں یہ اعلان کر دے کہ صرف اور صرف جنت میں مومن داخل ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 146

۔ (۱۴۴، ۱۴۵)۔عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ قَالَ: سَأَلْتُ جَابِرًا (یَعْنِی بْنَ عَبْدِ اللّٰہِؓ) عَنِ الْقَتِیْلِ الَّذِیْ قُتِلَ فَأَذَّنَ فِیْہِ سُحَیْمٌ؟ قَالَ: کُنَّا بِحُنَیْنٍ فَأَمَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سُحَیْمًا أَنْ یُؤَذِّنَ فِی النَّاسِ أَنَّہُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ (وَفِی رِوَایَۃٍ: أَ لَا لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ) اِلَّا مُؤْمِنٌ۔ (مسند أحمد: ۱۴۸۲۳)
سیدنا محمود بن لبیدؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ اپنے مؤمن بندے کو دنیا (اور اس کے مال و اسباب) سے بچاتا ہے، حالانکہ وہ اس سے محبت کرتا ہے، اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ جیسے تم اپنے بیمار آدمی پر ڈرتے ہوئے اور اس کو کھانے پینے سے بچاتے ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 147

۔ (۱۴۷)۔عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرَیِّ ؓ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَلْمُؤْمِنُوْنَ فِی الدُّنْیَا عَلٰی ثَلَاثَۃِ أَجْزَائٍ، الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاہَدُوْا بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنْفُسِہِمْ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَ الَّذِیْ یَاْمَنُہُ النَّاسُ عَلٰی أَمْوَالِہِمْ وَ أَنْفُسِہِمْ ،ثُمَّ الَّذِیْ اِذَا أَشْرَفَ عَلٰی طَمَعٍ تَرَکَہُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔)) (مسند أحمد: ۱۱۰۶۵)
سیدنا ابو سعیدخدریؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: دنیا میں مومنوں کی تین اقسام ہیں: (۱) وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور پھر کسی شک میں نہ پڑے اور اللہ کے راستے میں مال و جان سے جہاد کیا، (۲) وہ آدمی کہ جس کے بارے میں دوسرے لوگوں کو اپنے مالوں اور جانوں پر امن رہتا ہے اور (۳)پھر وہ آدمی جو حرص پر جھانکتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے لیے اسے ترک کر دیتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 148

۔ (۱۴۸)۔عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: اِنَّ الْمُؤْمِنَ غِرٌّ کَرِیْمٌ وَ اِنَّ الْفَاجِرَ خَبٌّ لَئِیْمٌ۔ (مسند أحمد: ۹۱۰۷)
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌نے فرمایا: مومن بھولا بھالا اور بزرگی والا ہوتاہے اور فاجر آدمی مکار، (دغاباز) اور کمینہ ( اور رذیل) ہوتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 149

۔ (۱۴۹)۔وَعَنْہُ أَیْضًا عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: اَلْمُؤْمِنُ عِنْدِیْ بِمَنْزِلَۃِ کُلِّ خَیْرٍ یَحْمَدُنِیْ وَ أَنَا أَنْزِ عُ نَفْسَہُ مِنْ بَیْنِ جَنْبَیْہِ۔)) (مسند أحمد: ۸۷۱۶)
سیدنا ابوہریرہؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:میرے نزدیک مومن ہر قسم کی خیروبھلائی کی منزلت پر ہے، میں اس کے پہلوؤں سے اس کی جان کو کھینچ رہا ہوتا ہوں اور وہ اس وقت بھی میری تعریف کر رہا ہوتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 150

۔ (۱۵۰)۔وَ عَنْہُ فِیْ أُخْرٰی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ: ((اِنَّ الْمُؤْمِنَ لَیُنْضِی شَیَاطِیْنَہُ کَمَا یُنْضِی أَحَدُکُمْ بَعِیْرَہُ فِی السَّفَرِ۔)) (مسند أحمد: ۸۹۲۷)
سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک مؤمن اپنے شیطانوں کو اس طرح تھکا دیتا ہے، جیسے تم میں سے کوئی اپنے اونٹ کو سفر میں تھکا دیتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 151

۔ (۱۵۱)۔عَنْ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ: ((أَ لَا أُخْبِرُکُمْ بِالْمُؤْمِنِ، مَنْ أَمِنَہُ النَّاسُ عَلٰی أَمْوَالِہِمْ وَ أَنْفُسِہِمْ وَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہِ وَ یَدِہِ، وَالْمُجَاہِدُ مَنْ جَاہَدَ نَفْسَہُ فِی طَاعَۃِاللّٰہِ وَالْمُہَاجِرُ مَنْ ہَجَرَ الْخَطَایَا وَ الذُّنُوْبَ۔)) (مسند أحمد: ۲۴۴۵۸)
سیدنا فضالہ بن عبیدؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: کیا میں تم کو مؤمن کے بارے میں نہ بتلا دوں، مؤمن وہ ہے کہ لوگ اپنے مالوں اور جانوں کے معاملے میں جس سے امن میں رہیں ،مسلمان وہ ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، مجاہد وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے میں اپنے نفس سے جہاد کرے اور مہاجر وہ ہے جو خطاؤں اور گناہوں کو ترک کر دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 152

۔ (۱۵۲)۔عَنْ مُوْسَی بْنِ عَلِیٍّ سَمِعْتُ أَبِیْ یَقُوْلُ: سَمِعْتُ عَبْدَاللّٰہِ بْنَ عَمْرٍو بْنِ الْعَاصِ یَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((تَدْرُوْنَ مَاالْمُسْلِمُ؟)) قَالُوا: اَللّٰہُ وَ رَسُوْلُہْ أَعْلَمُ،قَالَ: ((مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہِ وَ یَدِہِ۔)) قَالَ: ((تَدْرُوْنَ مَنِ الْمُؤْمِنُ؟)) قَالُوْا: اَللّٰہُ وَ رَسُوْلُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: ((مَنْ أَمِنَہُ الْمُؤْمِنُوْنَ عَلٰی أَنْفُسِہِمْ وَ أَمْوَالِہِمْ وَالْمُہَاجِرُ مَنْ ہَجَرَ السُّوْئَ فَاجْتَنَبَہُ۔)) (مسند أحمد: ۷۰۱۷)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مسلمان کون ہے؟ انھوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: وہ مسلمان ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مؤمن کون ہوتا ہے؟ انھوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: مؤمن وہ ہے کہ دوسرے مؤمن اپنی جانوں اور مالوں کے سلسلے میںجس سے امن میں رہیں اور مہاجر وہ ہے جو برائی کو چھوڑ دے اور اس سے اجتناب کرے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 153

۔ (۱۵۲)۔عَنْ مُوْسَی بْنِ عَلِیٍّ سَمِعْتُ أَبِیْ یَقُوْلُ: سَمِعْتُ عَبْدَاللّٰہِ بْنَ عَمْرٍو بْنِ الْعَاصِ یَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((تَدْرُوْنَ مَاالْمُسْلِمُ؟)) قَالُوا: اَللّٰہُ وَ رَسُوْلُہْ أَعْلَمُ،قَالَ: ((مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہِ وَ یَدِہِ۔)) قَالَ: ((تَدْرُوْنَ مَنِ الْمُؤْمِنُ؟)) قَالُوْا: اَللّٰہُ وَ رَسُوْلُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: ((مَنْ أَمِنَہُ الْمُؤْمِنُوْنَ عَلٰی أَنْفُسِہِمْ وَ أَمْوَالِہِمْ وَالْمُہَاجِرُ مَنْ ہَجَرَ السُّوْئَ فَاجْتَنَبَہُ۔)) (مسند أحمد: ۷۰۱۷)
اور اس سے ایک اور روایت میں ہے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: مسلمان وہ ہے کہ دوسرے مسلمان جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ان امور کو چھوڑ دے، جن سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 154

۔ (۱۵۴)۔عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ؓ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَلْمُؤْمِنُ مَأْلَفٌ، وَلَا خَیْرَ فِیْمَنْ لَا یَأْ لَفُ وَلَا یُؤْلَفُ۔)) (مسند أحمد: ۹۱۸۷)
سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: مؤمن ایسا وجود ہے، جس میں مانوسیت پائی جاتی ہے اور اس شخص میں کوئی خیر نہیں ہے، جو نہ کسی سے انس کرتا ہے اور نہ اس سے مانوس ہوا جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 155

۔ (۱۵۵)۔ عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَؓ قَالَ: أَخَذَ بِیَدِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ لِیْ: ((یَا أَبَا أُمَامَۃَ! اِنَّ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ مَنْ یَلِیْنُ لِیْ قَلْبُہُ۔)) (مسند أحمد: ۲۲۶۵۵)
سیدنا ابوامامہؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے فرمایا: ابو امامہ! بیشک بعض مؤمن ایسے ہیں کہ ان کے دل میرے لیے (بہت) نرم ہو جاتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 156

۔ (۱۵۶)۔عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو بْنِ الْعَاصِؓ قَالَ: جَائَ رَجُلٌ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنِّی أَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَـلَاأَجِدُ قَلْبِیْ یَعْقِلُ عَلَیْہِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ قَلْبَکَ حُشِیَ الْاِیْمَانَ وَ اِنَّ الْاِیْمَانَ یُعْطَی الْعَبْدَ قَبْلَ الْقُرْآنِ۔)) (مسند أحمد: ۶۶۰۴)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں قرآن کی تلاوت تو کرتا ہوں، لیکن میں دیکھتا ہوں کہ میرا دل اس کو سمجھ نہیں پا رہا؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک تیرا دل ایمان سے بھرا ہوا ہے اور بندہ قرآن سے پہلے ایمان دیا جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 157

۔ (۱۵۷)۔عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَؓ قَالَ: جَائَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنِّی أُحَدِّثُ نَفْسِیْ بِالْحَدِیْثِ، لَأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَائِ أَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ أَنْ أَتَکَلَّمَ بِہِ، قَالَ: ((ذَالِکَ صَرِیْحُ الْاِیْمَانِ۔)) (مسند أحمد: ۹۱۴۵)
سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آیااور کہا: اے اللہ کے رسول! میرے نفس میں بعض باتیں تو ایسی آ جاتی ہیں کہ مجھے آسمان سے گرنا اس سے زیادہ پسند لگتا ہے کہ میں ان کے ساتھ کلام کروں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: یہ تو صریح ایمان کی علامت ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 158

۔ (۱۵۸)۔ (وَ عَنْہُ بِلَفْظٍ آخَرَ)۔قَالَ: قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّا نَجِدُ فِی أَنْفُسِنَا مَا یَسُرُّنَا نَتَکَلَّمُ بِہِ وَ اِنَّ لَنَا مَا طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ، قَالَ: ((أَوَجَدْتُّمْ ذَالِکَ؟)) قَالُوا: نَعَم، قَالَ: ((ذَاکَ صَرِیْحُ الْاِیْمَانِ۔)) (مسند أحمد: ۹۶۹۲)
ان سے ان الفاظ کے ساتھ بھی روایت مروی ہے لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم اپنے نفسوں میں ایسے خیالات محسوس کرتے ہیں کہ اگر ہمیں دنیا کی وہ تمام چیزیں دے دی جائیں، جن پر سورج طلوع ہوتا ہے تو پھر بھی ہمیں یہ بات خوش نہیں کرے گی کہ ہم ان کے ساتھ گفتگو کریں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے پوچھا: کیا تم نے اس چیز کو محسوس کر لیا ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: یہ صریح ایمان کی علامت ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 159

۔ (۱۵۹)۔وَ أَیْضًا عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا یَقُلْ أَحَدُکُمْ لِلْعِنَبِ الْکَرْمَ، اِنَّمَا الْکَرْمُ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ۔)) (مسند أحمد: ۸۱۷۵)
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: کوئی آدمی انگوروں کو کَرْم نہ کہا کرے، بیشک کرم تو مسلمان آدمی ہوتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 160

۔ (۱۶۰)۔ (وَ عَنْہُ فِیْ أُخْرٰی)۔ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((یَقُوْلُوْنَ الْکَرْمَ، وَ اِنَّمَا الْکَرْمُ قَلْبُ الْمُؤْمِنِ۔)) (مسند أحمد: ۷۲۵۶)
ان سے مروی ایک اور روایت میں ہے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: لوگ انگوروں کو کرم کہہ دیتے ہیں، حالانکہ کرم تو صرف مومن کا دل ہوتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 161

۔ (۱۶۱)۔عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو بْنِ الْعَاصِ ؓ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ! اِنَّ مَثَلَ الْمُؤْمِنِ لَکَمَثَلِ الْقِطْعَۃِ مِنَ الذَّہَبِ، نَفَخَ عَلَیْہَا صَاحِبُہَا فَلَمْ تَغَیَّرْ وَلَمْ تَنْقُصْ، وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ! اِنَّ مَثَلَ الْمُؤْمِنِ لَکَمَثَلِ النَّحْلَۃِ أَکَلَتْ طَیِّبًا وَوَضَعَتْ طَیِّبًا وَوَقَعَتْ فَلَمْ تَکْسِرْ وَلَمْ تُفْسِدْ۔)) (مسند أحمد: ۶۸۷۲)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو فرماتے ہوئے سنا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌) کی جان ہے! بیشک مؤمن کی مثال سونے کی ٹکڑے کی طرح ہے، جب مالک (اسے بھٹی میں ڈال کر) اس پر پھونک مارتا ہے تو نہ وہ تبدیل ہوتا ہے اور نہ کم ہوتا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌) کی جان ہے! بیشک مؤمن کی مثال شہد کی مکھی کی طرح ہے، جو (پھول جیسی) پاکیز ہ چیز کھاتی ہے، (شہد جیسی) پاکیزہ چیز نکالتی ہے اور جب وہ کسی چیز پر بیٹھتی ہے تو وہ اسے نہ توڑتی ہے، نہ خراب کرتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 162

۔ (۱۶۲)۔عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِؓ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَثَلُ الْمُؤْمِنِ کَمَثَلِ السُّنْبُلَۃِ تَخِرُّ مَرَّۃً وَ تَسْتَقِیْمُ مَرَّۃً، وَ مَثَلُ الْکَافِرِ کَمَثَلِ الْأَرْزِ (وَفِی رِوَایَۃٍ: الْأَرْزَۃِ) لَا یَزَالُ مُسْتَقِیْمًا حَتَّی یَخِرَّ وَلَا یَشْعُرُ۔)) (مسند أحمد: ۱۴۸۲۰)
سیدنا جابر بن عبد اللہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: مؤمن کی مثال گندم کے پودے کی طرح ہے، جو کبھی گر جاتا ہے اور کبھی کھڑا ہو جاتا ہے اور کافر کی مثال صنوبر کے درخت کی سی ہے، جو ہمیشہ سیدھا کھڑا ہی رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ گر جاتا ہے، جبکہ اسے کوئی شعور ہی نہیں ہوتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 163

۔ (۱۶۳)۔عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ؓ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ قَالَ: ((مَثَلُ الْمُؤْمِنِ کَمَثَلِ الْفَرَسِ عَلٰی آخِیَّتِہِ یَجُوْلُ ثُمَّّ یَرْجِعُ عَلٰی آخِیَّتِہِ، وَاِنَّ الْمُؤْمِنَ یَسْہُوْ ثُمَّ یَرْجِعُ اِلَی الْاِیْمَانِ۔)) (مسند أحمد: ۱۱۳۵۵)
سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ نبی ٔکریم نے فرمایا: مؤمن کی مثال اس گھوڑے کی طرح ہے، جو حلقہ دار رسی کے ساتھ بندھا ہوا ہو، وہ گھومتا ہے، لیکن بالآخر اپنی رسی کی طرف لوٹ آتا ہے، بیشک مؤمن بھول جاتا ہے، لیکن پھر ایمان کی طرف لوٹ آتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 164

۔ (۱۶۴)۔عَنْ أَبِیْ ذَرٍّؓ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ قَالَ: ((اَلْاِسْلَامُ ذَلُوْلٌ لَا یَرْکَبُ اِلَّا ذَلُوْلًا۔)) (مسند أحمد: ۲۱۶۱۶)
سیدنا ابو ذرؓ سے مروی ہے کہ نبی ٔکریم نے فرمایا: اسلام سہولت والا ہے اور یہ سہولت والے کو ہی نصیب ہوتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 165

۔ (۱۶۵)۔عَنْ سَعْدٍ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍؓ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یَقُوْلُ: ((اِنَّ الْاِیْمَانَ بَدَأَ غَرِیْبًا وَسَیَعُوْدُ کَمَا بَدَأَ، فَطُوْبٰی یَوْمَئِذٍ لِلْغُرَبَائِ اِذَا فَسَدَ الزَّمَانُ، وَالَّذِیْ نَفْسُ أَبِی الْقَاسِمِ بِیَدِہِ لَیَأْرِزَنَّ الْاِیْمَانُ بَیْنَ ہَذَیْنِ الْمَسْجِدَیْنِ کَمَاتَأْرِزُ الْحَیَّۃُ فِی جُحْرِہَا۔)) (مسند أحمد: ۱۶۰۴)
سیدنا سعد بن ابی وقاص ؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو فرماتے ہوئے سنا: بیشک اجنبیت کی حالت میں اسلام کا ظہور شروع ہوا تھا اور عنقریب یہ ایسے ہی ہو جائے، جیسے ابتداء کے وقت تھا، بہرحال اُس وقت کے اجنبیت والوں کے لیے خوشخبری ہے، جبکہ باقی زمانے میں فساد آ چکا ہو گا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو القاسم کی جان ہے! ایمان ان دومسجدوں کی طرف اس طرح پناہ لے گا، جیسے سانپ اپنے بل کی طرف پناہ پکڑتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 166

۔ (۱۶۶)۔عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَنَّۃَؓ أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((بَدَاَ الْاِسْلَامُ غَرِیْبًا ثُمَّ یَعُوْدُ غَرِیْبًا کَمَا بَدَا، فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَائِ۔)) قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَمَنِ الْغُرَبَائُ؟ قَالَ: ((اَلَّذِیْنَ یُصْلِحُوْنَ اِذَا فَسَدَ النَّاسُ وَالَّذِی نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَیَنْحَازَنَّ الاِیْمَانُ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ کَمَا یَحُوْزُ السَّیْلُ، وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَیَأْرِزَنَّ الْاِسْلَامُ اِلَی مَا بَیْنَ الْمَسْجِدَیْنِ کَمَا تَأْرِزُ الْحَیَّۃُ اِلَی جُحْرِہَا۔)) (مسند أحمد: ۱۶۸۱۰)
سیدنا عبد الرحمن بن سَنَّہ سے مروی ہے کہ نبی ٔکریم نے فرمایا: بیشک اجنبیت کی حالت میں اسلام کی ابتدا ہوئی تھی اور عنقریب یہ ایسے ہی اجنبیت والا ہو جائے گا، جیسے ابتداء کے وقت تھا، بہرحال (اسلام والے) نامانوس لوگوں کے لیے خوشخبری ہے۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! نامانوس سے کون لوگ مراد ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جب لوگوں میں فساد آ جائے تو وہ اصلاح کرتے ہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ایمان، مدینہ منورہ کی طرف سیلاب (کے نچلی جگہ کی طرف آگے بڑھنے) کی طرح پناہ لے گا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اسلام ان دو مسجدوں کی طر ف اس طرح پناہ لے گا، جیسے سانپ اپنے بل کی طرف پناہ لیتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 167

۔ (۱۶۷)۔عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَؓ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((اِنَّ الدِّیْنَ بَدَأَ غَرِیْبًا وَ سَیَعُوْدُ غَرِیْبًا کَمَا بَدَأَ فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَائِ۔)) (مسند أحمد: ۹۰۴۲)
سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: دین اپنی ابتداء کے وقت بھی نامانوس تھا اور عنقریب یہ نامانوس ہو جائے گا، پس اس کو اپنانے والے نامانوس لوگوں کے لیے خوشخبری ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 168

۔ (۱۶۸)۔عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍؓ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (بِلَفْظِ) اِنَّ الْاِسْلَامَ فَذَکَرَ مِثْلَہُ وَزَادَ، وَقِیْلَ: وَمَنِ الْغُرَبَائُ؟ قَالَ: ((اَلنُّزَّاعُ مِنَ الْقَبَائِلِ۔)) (مسند أحمد: ۳۷۸۴)
سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے یہی حدیث دین کے بجائے اسلام کے لفظ کے ساتھ بیان کی ہے اور اس میں یہ الفاظ زیادہ ہیں: کسی نے کہا: نامانوس کون لوگ ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: قبیلوں (اور رشتہ داروں) سے دور ہو جانے والے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 169

۔ (۱۶۹)۔عَنْ عَلْقَمَۃَ الْمُزَنِیِّ قَالَ: حَدَّثَنِیْ رَجُلٌ قَالَ: کُنْتُ فِی مَجْلِسِ عُمَرَبْنِ الْخَطَّابِ بِالْمَدِیْنَۃِ فَقَالَ لِرَجُلٍ مِنَ الْقَوْمِ: یَا فُلَانُ! کَیْفَ سَمِعْتَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَنْعَتُ الْاِسْلَامَ؟ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِنَّ الْاِسْلَامَ بَدَأَ جَذْعًا، ثُمَّ ثَنِیًّا، ثُمَّ رَبَاعِیًّا، ثُمَّ سُدَاسِیًّا، ثُمَّ بَازِلًا۔)) فَقَالَ عُمَرُ: فَمَا بَعْدَ الْبُزُوْلِ اِلَّا النُّقْصَانُ۔ (مسند أحمد: ۱۵۸۹۵)
علقمہ مزنی کہتے ہیں: مجھے ایک بندے نے بیان کرتے ہوئے کہا: میں مدینہ منورہ میں سیدنا عمر بن خطابؓکی مجلس میں تھا، انھوں نے ایک شخص سے کہا: اے فلاں! تو نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو کیا فرماتے ہوئے سنا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اسلام کی کیفیت بیان کر رہے تھے؟ اس نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: بیشک اسلام کی ابتدا(پانچویں سال میں داخل ہونے والے) نوجوان اونٹ کی طرح ہوئی، پھر وہ چھٹے سال میں داخل ہونے والے اونٹ کی طرح قوی ہو گا، پھر وہ ساتویں سال میں داخل ہونے والے اونٹ کی طرح طاقت ور بنے گا، پھر آٹھویں سال میں داخل ہونے والے اور پھر نویں سال میں داخل ہونے والے اونٹ کی طرح طاقت حاصل کرے گا۔ یہ سن کر سیدنا عمرؓ نے کہا: اونٹ کی عمر کے نویں کے بعد تو کمزوری شروع ہو جاتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 170

۔ (۱۷۰)۔عَنْ کُرْزِ بْنِ عَلْقَمَۃَ الْخُزَاعِیِّؓ قَالَ: قَالَ أَعْرَابِیٌ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ہَلْ لِلْاِسْلَامِ مُنْتَہًی؟ قَالَ: ((نَعَمْ، أَیُّمَا أَہْلِ بَیْتٍ مِنَ الْعَرَبِ أَوِ الْعَجَمِ أَرَادَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ بِہِمْ خَیْرًا أَدْخَلَ عَلَیْہِمُ الْاِسْلَامَ۔)) قَالَ: ثُمَّ مَاذَا؟ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((ثُمَّ تَقَعُ فِتَنٌ کَأَنَّہَا الظُّلَلُ، قَالَ الْأَعْرَابِیُّ: کَلَّا، (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: کَلَّا وَاللّٰہِ اِنْ شَائَ اللّٰہُ) قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((بَلٰی وَالَّذِی نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَتَعُوْدُنَّ فِیْہَا أَسَاوِدَ صُبًّا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ۔)) (مسند أحمد: ۱۶۰۱۲)
سیدنا کرز بن علقمہ خزاعیؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک بدّو نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اسلام کی کوئی انتہا بھی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جی ہاں، عرب و عجم کے جس گھر والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ خیر و بھلائی کا ارادہ کرے گا، ان پر اسلام کو داخل کر دے گا۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! پھر کیا ہو گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: پھر سایوں (یعنی پہاڑوں اور بادلوں) کی طرح فتنے رونما ہو جائیں گے۔ اس نے کہا: ہر گز نہیں، اللہ کی قسم! اگر اللہ نے چاہا تو ایسے ہر گز نہیں ہو گا۔ لیکن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: کیوں نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم خبیث ترین بڑے سانپ کی طرح ہو کر ایک دوسرے کی گردنیں مارنے کے لیے جھپٹ پڑو گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 171

۔ (۱۷۱)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ بِنَحْوِہِ)۔ وَفِیْہِ بَعْدَ قَوْلِہِ ((یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ)) وَقَرَأَ عَلٰی سُفْیَانَ قَالَ الزُّہْرِیُّ: أَسَاوِدَ صُبًّا، قَالَ سُفْیَانُ: الْحَیَّۃُ السَّوْدَائُ تَنْصَبُّ أَیْ تَرْتَفِعُ۔ (مسند أحمد: ۱۶۰۱۲)
۔ (دوسری سند) اس میں تم ایک دوسرے کی گردنیں مارو گے کے بعد یہ الفاظ ہیں: امام زہری نے امام سفیان پر یہ الفاظ پڑے: أَسَاوِدَ صُبًّا ، اور امام سفیان نے کہا: بڑا اور کالا سانپ جو بلند ہوتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 172

۔ (۱۷۲)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَالِثٍ بِنَحْوِہِ)۔وَ زَادَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَأَفْضَلُ النَّاسِ یَوْمَئِذٍ مُؤْمِنٌ مُعْتَزِلٌ فِی شَعْبٍ مِنَ الشِّعَابِ یَتَّقِیْ رَبَّہُ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی وَیَدَعُ النَّاسَ مِنْ شَرِّہِ۔)) (مسند أحمد: ۱۶۰۱۴)
۔ (تیسری سند) اسی طرح کی روایت ہے، البتہ یہ الفاظ زیادہ ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس وقت لوگوں میں سب سے زیادہ فضیلت والا شخص وہ مؤمن ہو گا، جو کسی گھاٹی میں الگ تھلگ ہو جائے گا اور اپنے ربّ سے ڈرے گا اور لوگوں کو اپنے شرّ سے محفوظ کر دے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 173

۔ (۱۷۲)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَالِثٍ بِنَحْوِہِ)۔وَ زَادَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَأَفْضَلُ النَّاسِ یَوْمَئِذٍ مُؤْمِنٌ مُعْتَزِلٌ فِی شَعْبٍ مِنَ الشِّعَابِ یَتَّقِیْ رَبَّہُ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی وَیَدَعُ النَّاسَ مِنْ شَرِّہِ۔)) (مسند أحمد: ۱۶۰۱۴)
سیدنا ابو امامہ باہلیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اسلام کے کنڈوں یعنی اسلام کے احکام کو ایک ایک کر کے گرایا جاتا رہے گا، جب ایک کنڈا گر جائے گا تو لوگ اگلے کنڈے کے درپے ہو جائیں گے، سب سے پہلے جس حکم کو توڑا جائے گا، وہ عدل ہو گا اور سب سے آخر میں نماز کو منہدم کر دیا جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 174

۔ (۱۷۴)۔عَنِ ابْنِ فَیْرُوْزٍ الدَّیْلَمِیِّ عَنْ أَبِیْہِ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَیُنْقَضَنَّ الْاِسْلَامُ عُرْوَۃً عُرْوَۃً کَمَا یُنْقَضُ الْحَبْلُ قُوَّۃً قُوَّۃً۔)) (مسند أحمد: ۱۸۲۰۲)
سیدنا فیروز دیلمیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اسلام کے کنڈوں یعنی احکام کو ایک ایک کر کے گرا دیا جائے گا، بالکل ایسے ہی جیسے ایک ایک لڑی کرتے کرتے رسی کو توڑ دیا جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 175

۔ (۱۷۵)۔عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُسْرٍؓ قَالَ: لَقَدْ سَمِعْتُ حَدِیْثًا مُنْذُ زَمَانٍ اِذَا کُنْتَ فِی قَوْمٍ عِشْرِیْنَ رَجُلًا أَوْ أَقَلَّ أَوْ أَکْثَرَ فَتَصَفَّحْتَ فِی وُجُوْہِہِمْ فَلَمْ تَرَ فِیْہِمْ رَجُلًا یُہَابُ فِی اللّٰہِ فَاعْلَمْ أَنَّ الْأَمْرَ قَدْ رَقَّ۔ (مسند أحمد: ۱۷۸۳۱)
سیدنا عبد اللہ بن بسرؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں : کافی عرصہ ہو گیا ہے کہ میں نے ایک بات سنی تھی، جب تو بیس یا اس سے کم یا زیادہ لوگوں میں ہو اور پھر ان کے چہروں کو غور سے دیکھے، اگر ان میں تجھے ایک چہرہ بھی ایسا نہ لگے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے جس کی تعظیم و تکریم کی جاتی ہو، تو جان لینا کہ ایمان کمزور پڑ چکا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 176

۔ (۱۷۶)۔عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ ؓ قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَدِیْثَیْنِ قَدْ رَأَیْتُ أَحَدَہُمَا وَ أَنَا أَنْتَظِرُ الْآخَرَ، حَدَّثَنَا أَنَّ الْأَمَانَۃَ نَزَلَتْ فِی جَذْرِ قُلُوْبِ الرِّجَالِ ثُمَّ نَزَلَ الْقُرْآنُ فَعَلِمُوْا مِنَ الْقُرْآنِ وَ عَلِمُوْا مِنَ السُّنَّۃِ،ثُمَّ حَدَّثَنَا عَنْ رَفْعِ الْأَمَانَۃِ فَقَالَ: ((یَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَۃَ فَتُقْبَضُ الْأَمَانَۃُ مِنْ قَلْبِہِ فَیَظَلُّ أَثَرُہَا مِثْلَ أَثَرِ الْوَکْتِ فَتُقْبَضُ الْأَمَانَۃُ مِنْ قَلْبِہِ فَیَظَلُّ أَثَرُہَا مِثْلَ أَثَرِ الْمَجْلِ کَجَمْرٍ دَحْرَجْتَہُ عَلٰی رِجْلِکَ فَتَرَاہُ مُنْتَبِرًا وَلَیْسَ فِیْہِ شَیْئٌ۔)) قَالَ: ثُمَّ أَخَذَ حَصًا فَدَحْرَجَہُ عَلٰی رِجْلِہِ قَالَ: ((فَیُصْبِحُ النَّاسُ یَتَبَایَعُوْنَ لَا یَکَادُ أَحَدٌ یُؤَدِّی الْأَمَانَۃَ حَتَّی یُقَالَ: اِنَّ فِیْ بَنِیْ فُـلَانٍ رَجُلًا أَمِیْنًا حَتّٰی یُقَالَ لِلرَّجُلِ:مَا أَجْلَدَہُ وَ أَظْرَفَہُ وَ أَعْقَلَہُ وَمَا فِیْ قَلْبِہِ حَبَّۃٌ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ اِیْمَانٍ۔)) وَلَقَدْ أَتٰی عَلَیَّ زَمَانٌ وَمَا أُبَالِیْ أَیَّکُمْ بَایَعْتُ، لَئِنْ کَانَ مُسْلِمًا لَیَرُدَّنَّہُ عَلَیَّ دِیْنُہُ وَلَئِنْ کَانَ نَصْرَانِیًّا أَوْ یَہُوْدِیًّا لَیَرُدَّنَّہُ عَلَیَّ سَاعِیْہِ، فَأَمَّا الْیَوْمَ فَمَا کُنْتُ لِأُبَایِعَ مِنْکُمْ اِلَّا فُلَانًاوَ فُلَانًا۔ (مسند أحمد: ۲۳۶۴۴)
سیدنا حذیفہ بن یمانؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ہمیں دو حدیثیں بیان کی، میں نے ایک کا مصداق تو دیکھ لیا ہے اور دوسرے کا انتظار کر رہا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ہمیں بیان کیا تھا کہ امانت لوگوں کے دلوں کی اصل میں داخل ہوئی، پھر قرآن نازل ہوا، لوگوں نے قرآن مجید اور سنت کی تعلیم حاصل کی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ہمیں اس امانت کے اٹھ جانے کے بارے میں بتلاتے ہوئے فرمایا: آدمی سوئے گا اور اس کے دل سے یہ امانت کھینچ لی جائے گی اور ہلکے سے نشان اور دھبّے کی طرح اس کا اثر باقی رہ جائے گا، پھر جب اس کے دل سے رہی سہی امانت کو اٹھا لیا جائے گا تو چھالے اور آبلے کی طرح اس کا اثر باقی رہ جائے گا، بالکل ایسے ہی جیسے تو انگارے کو اپنے پاؤں پر لڑھکائے اور پھر تو اس کے نتیجے میں ورم کے نشان دیکھے، جب کہ اس میں کوئی چیز بھی نہیں ہوتی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے وضاحت کرنے کے لیے ایک کنکری کو اپنے پاؤں پر لڑھکایا، پھر فرمایا: پھر لوگ خریدو فروخت تو کریںگے، لیکن کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہو گا، جوامانت ادا کرے گا، حتی کہ لوگ کہیں گے: بنو فلاں میں ایک امانت دار آدمی ہے، (لیکن یہ شہادت بھی اس طرح کی ہو گی کہ) لوگ ایک آدمی کی تعریف کرتے ہوئے کہیں گے: وہ کس قدر باہمت و با استقلال ہے، وہ کیسا زیرک اور خوش اسلوب آدمی ہے، وہ کتنا عقل مند شخص ہے، جبکہ اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان نہیں ہو گا۔ پھر سیدنا حذیفہؓ نے کہا: ایک زمانہ ایسا تھا کہ مجھے کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی کہ میں کس سے سودا کر رہا ہوں، اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کا دین اس کو میری امانت لوٹانے پر مجبور کرتا اور اگر وہ عیسائی یا یہودی ہوتا تو اس سے جزیہ وصول کرنے والا میرا حق لوٹا دیتا تھا، لیکن یہ زمانہ، تو اس میں میں صرف اور صرف فلاں فلاں آدمی سے لین دین کروں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 177

۔ (۱۷۷)۔عَنْ عَبْدِاللّٰہِ (یَعْنِی ابْنَ مَسْعُوْدٍ ؓ) عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: تَدُوْرُ رَحَی الْاِسْلَامِ بِخَمْسٍ (وَفِی رِوَایَۃٍ: عَلٰی رَأْسِ خَمْسٍ) وَ ثَلَاثِیْنَ أَوْ سِتٍّ وَ ثَلَاثِیْنَ أَوْ سَبْعٍ وَ ثَلَاثِیْنَ فَاِنْ یَہْلِکُوْا فَسَبِیْلُ مَنْ قَدْ ہَلَکَ وَاِنْ یَقُمْ لَہُمْ دِیْنُہُمْ یَقُمْ لَہُمْ سَبْعِیْنَ عَامًا، قَالَ: قُلْتُ: أَمِمَّا مَضٰی أَمْ مِمَّا بَقِیَ؟ قَالَ: مِمَّا بَقِیَ۔ (مسند أحمد: ۳۷۳۰)
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: پینتیس یا چھتیس یا سینتیس سالوں کے بعد اسلام کی چکی گھومے گی، اس کے بعد اگر وہ (گمراہ رہ کر) ہلاک ہوئے تو وہ پہلے ہلاک ہونے والوں کی طرح ہوں گے اور اگر ان کے لیے اُن کا دین قائم رہا تو وہ ستر سال تک قائم رہے گا۔ میں نے کہااور ایک روایت کے مطابق سیدنا عمرؓ نے کہا: اے اللہ کے نبی! ماضی سمیت یا مستقل ستر سال؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: مستقل ستر سال۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 178

۔ (۱۷۸)۔ (وَعَنْہُ أَیْضًا مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ)۔عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِثْلُہُ اِلَّا أَنَّہُ قَالَ: فَقَالَ لَہُ عُمَرُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا مَضٰی أَمْ مَا بَقِیَ؟ (مسند احمد)
۔ (دوسری سند) اسی طرح کی حدیث ہے، البتہ اس میں ہے: سیدنا عمرؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ماضی مستقل یا مستقل اتنا عرصہ ہے
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 179

۔ (۱۷۹)۔ (وَ عَنْہُ أَیْضًا مِنْ طَرِیْقٍ ثَالِثٍ)۔قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ رَحَی الْاِسْلَامِ سَتَزُوْلُ بِخَمْسٍ وَ ثَلَاثِیْنَ أَوْ سِتٍّ وَ ثَلَاثِیْنَ أَوْ سَبْعٍ وَ ثَلَاثِیْنَ، فَاِنْ یَہْلِکُوْا فَکَسَبِیْلِ مَنْ ہَلَکَ وَ اِنْ یَقُمْ لَہُمْ دِیْنُہُمْ یَقُمْ لَہُمْ سَبْعِیْنَ عَامًا، قَالَ عُمَرُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَبِمَا مَضَی أَمْ بِمَا بَقِیَ؟ قَالَ: بَلْ بِمَا بَقِیَ۔ (مسند أحمد: ۳۷۰۷)
۔ (تیسری سند)رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌نے فرمایا: پینتیس یا چھتیس یا سینتیس سالوں کے بعد اسلام کی چکی گھومے گی ،اس کے بعد اگر وہ (گمراہ رہ کر) ہلاک ہوئے تو وہ پہلے ہلاک ہونے والوں کی طرح ہوں گے اور اگر دین قائم رہا تو وہ ستر سال تک قائم رہے گا۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ماضی سمیت یا مستقل ستر سال ؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: مستقل ستر سال۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 180

۔ (۱۷۹)۔ (وَ عَنْہُ أَیْضًا مِنْ طَرِیْقٍ ثَالِثٍ)۔قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ رَحَی الْاِسْلَامِ سَتَزُوْلُ بِخَمْسٍ وَ ثَلَاثِیْنَ أَوْ سِتٍّ وَ ثَلَاثِیْنَ أَوْ سَبْعٍ وَ ثَلَاثِیْنَ، فَاِنْ یَہْلِکُوْا فَکَسَبِیْلِ مَنْ ہَلَکَ وَ اِنْ یَقُمْ لَہُمْ دِیْنُہُمْ یَقُمْ لَہُمْ سَبْعِیْنَ عَامًا، قَالَ عُمَرُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَبِمَا مَضَی أَمْ بِمَا بَقِیَ؟ قَالَ: بَلْ بِمَا بَقِیَ۔ (مسند أحمد: ۳۷۰۷)
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے تقدیر کا اندازہ لگا لیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 181

۔ (۱۸۱)۔وَعَنْہُ أَیْضًا قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ خَلَقَ خَلْقَہُ فِی ظُلْمَۃٍ ثُمَّ أَلْقٰی عَلَیْہِمْ مِنْ نُّوْرِہِ یَوْمَئِذٍ،فَمَنْ أَصَابَہُ مِنْ نُوْرِہِ یَوْمَئِذٍ اہْتَدَی وَمَنْ أَخْطَأَہُ ضَلَّ، فَلِذٰلِکَ أَقُوْلُ: جَفَّ الْقَلَمُ عَلٰی عِلْمِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔)) (مسند أحمد: ۶۶۴۴)
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کیا، پھر اسی دن پر اپنا نور ڈالا، جس شخص تک اس دن وہ نور پہنچ گیا، وہ ہدایت پا گیا اور جس سے تجاوز کر گیا، وہ گمراہ ہو گیا، اسی لیے میں کہتا ہوں: اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق قلم خشک ہو گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 182

۔ (۱۸۲)۔عَنْ طَائُ وْسٍ بْنِ الْیَمَانِیِّ قَالَ: أَدْرَکْتُ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُوْنَ: کُلُّ شَیْئٍ بِقَدَرٍ، قَالَ: وَسَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَؓ یَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : کُلُّ شَیْئٍ بِقَدَرٍ حَتَّی الْعَجْزُ وَالْکَیْسُ۔ (مسند أحمد: ۵۸۹۳)
طاوس یمانی کہتے ہیں: جتنے صحابۂ کرام سے میری ملا قات ہوئی، وہ سب کہتے تھے: ہر چیز تقدیر کے ساتھ معلق ہے اور میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ سے سنا، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ہر چیز تقدیر کے ساتھ معلق ہے، حتی کہ بے بسی و لاچارگی اور عقل و دانش بھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 183

۔ (۱۸۳)۔عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ ؓ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((خَلَقَ اللّٰہُ آَدَمَ حِیْنَ خَلَقَہُ فَضَرَبَ کَتِفَہُ الْیُمْنَی فَأَخْرَجَ ذُرِّیَّۃً بَیْضَائَ کَأَنَّہُمُ الذَّرُّ وَ ضَرَبَ کَتِفَہُ الْیُسْرَی فَأَخْرَجَ ذُرِّیَّۃً سَوْدَائَ کَأَنَّہُمْ الْحُمَمُ، فَقَالَ لِلَّذِیْ فِی یَمِیْنِہِ: اِلَی الْجَنَّۃِ وَلَا أُبَالِیْ وَ قَالَ لِلَّذِی فِی کَفِّہِ الْیُسْرٰی: اِلَی النَّارِ وَلَا أُبَالِیْ۔)) (مسند أحمد: ۲۸۰۳۶)
سیدنا ابودرداءؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے آدمؑکو پیدا کیا تو اس کے دائیں کندھے پر ضرب لگائی اور وہاں سے سفید رنگ کی اولاد نکالی، وہ چھوٹی چیونٹیوں کی جسامت کی تھی، پھر بائیں کندھے پر ضرب لگائے اور کوئلوں کی طرح سیاہ اولاد نکالی، پھر دائیں طرف والی اولاد کے بارے میں کہا: یہ جنت میں جائیں گے اور میں کوئی پرواہ نہیں کرتا اور بائیں کندھے سے نکلنے والے اولاد کے بارے میں کہا: یہ جہنم میں جائیں گے اور میں بے پرواہ ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 184

۔ (۱۸۴)۔عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَؓ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ الزَّمَانَ الطَّوِیْلَ بِأَعْمَالِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ثُمَّ یَخْتِمُ اللّٰہُ لَہُ بِأَعْمَالِ أَہْلِ النَّارِ فَیَجْعَلُہُ مِنْ أَہْلِ النَّارِ، وَاِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ الزَّمَانَ الطَّوِیْلَ بِأَعْمَالِ أَہْلِ النَّارِ ثُمَّ یَخْتِمُ اللّٰہُ لَہُ عَمَلَہُ بِأَعْمَالِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فَیَجْعَلُہُ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ۔)) (مسند أحمد: ۱۰۲۹۱)
سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک آدمی عرصۂ دراز تک جنتی لوگوں والے اعمال کرتا رہتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ جہنمی لوگوں والے اعمال کے ساتھ اس کی زندگی کا اختتام کرتا ہے اور اس طرح اس کو آگ والوں میں سے بنا دیتا ہے، دوسری طرف ایک آدمی کافی عرصے تک آگ والے لوگوں کے اعمال کرتا رہتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ جنتی لوگوں کے افعال کے ساتھ اس کی زندگی کا اختتام کرتا ہے اور اس طرح اس کو اہل جنت میں سے بنا دیتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 185

۔ (۱۸۵)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍؓ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا عَلَیْکُمْ أَنْ لَّا تُعْجَبُوْا بِأَحَدٍ حَتّٰی تَنْظُرُوْا بِمَ یُخْتَمُ لَہُ، فَاِنَّ الْعَامِلَ یَعْمَلُ زَمَانًا طَوِیْلًا مِنْ عُمُرِہِ أَوْ بُرْہَۃً مِنْ دَہْرِہِ بِعَمَلٍ صَالِحٍ لَوْ مَاتَ عَلَیْہِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ، ثُمَّ یَتَحَوَّلُ فَیَعْمَلُ عَمَلًا سَیِّئًا، وَاِنَّ الْعَبْدَ لَیَعْمَلُ الْبُرْہَۃَ مِنْ دَہْرِہِ بِعَمَلٍ سَیِّئٍ لَوْ مَاتَ عَلَیْہِ دَخَلَ النَّارَ ثُمَّ یَتَحَوَّلُ فَیَعْمَلُ عَمَلًا صَالِحًا، وَاِذَا أَرَادَ اللّٰہُ بِعَبْدٍ خَیْرًا اِسْتَعْمَلَہُ قَبْلَ مَوْتِہِ)) قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَکَیْفَ یَسْتَعْمِلُہُ؟ قَالَ: ((یُوَفِّقُہُ لِعَمَلٍ صَالِحٍ ثُمَّ یَقْبِضُہُ عَلَیْہِ)) (مسند أحمد: ۱۲۲۳۸)
سیدنا انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تم پر اس چیز میں کوئی حرج نہیں ہے کہ تم (کسی کے اچھے عمل کی وجہ سے)اس پر خوش نہ کیے جاؤ، یہاں تک کہ تم دیکھ لو کہ کس عمل پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ عمل کرنے والا اپنی عمر کے طویل حصے میں یا کچھ زمانے میں ایسے نیک عمل کرتا ہے کہ اگر ان پر اس کی موت واقع ہو جائے تو وہ جنت میں داخل ہو گا،لیکن ہوتا یوں ہے کہ وہ اپنی روٹین تبدیل کر لیتا ہے اور برے عمل شروع کر دیتا ہے، اسی طرح ایک آدمی کچھ عرصہ تک ایسے برے عمل کرتا رہتا ہے کہ اگر اسی حالت میں اس کی موت واقع ہو جائے تو وہ جہنم میں داخل ہو جائے گا، لیکن پھر وہ بدل جاتا ہے اور نیک عمل شروع کر دیتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو اس کی موت سے پہلے استعمال کر لیتا ہے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ اس کو کیسے استعمال کرتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس کو نیک عمل کی توفیق دے دیتا ہے اور پھر اس کو اس (اچھے عمل) پر موت دے دیتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 186

۔ (۱۸۶)۔عَنْ عَائِشَۃَؓ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ وَ اِنَّہُ لَمَکْتُوْبٌ مِنْ أَہْلِ النَّارِ فَاِذَا کَانَ قَبْلَ مَوْتِہِ تَحَوَّلَ فَعَمِلَ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ فَمَاتَ فَدَخَلَ النَّارَ، وَاِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ وَ اِنَّہٗ لَمَکْتُوْبٌ فِی الْکِتَابِ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فَاِذَا کَانَ قَبْلَ مَوْتِہِ تَحَوَّلَ فَعَمِلَ بِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فَمَاتَ فَدَخَلَہَا)) (مسند أحمد: ۲۵۲۶۹)
سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک ایک آدمی جنتی لوگوں والے عمل کر رہا ہوتا ہے، جبکہ وہ جہنمی لوگوں میں لکھا ہوا ہوتا ہے، جب اس کی موت سے پہلے کا وقت ہوتا ہے تو اس کی حالت تبدیل ہو جاتی ہے اور وہ جہنمی لوگوں والے عمل شروع کردیتا ہے اور اسی حالت پر مرجاتا ہے اور جہنم میں داخل ہو جاتا ہے اور دوسری طرف ایک آدمی جہنمی لوگوں والے عمل کررہا ہوتا ہے، جبکہ وہ جنتی لوگوں میں لکھا ہوا ہوتا ہے، جب اس کی موت سے پہلے کا وقت ہوتا ہے تو وہ پہلی حالت سے منتقل ہو جاتا ہے اور اہل جنت کے عمل شروع کر دیتا ہے اور اسی حالت پر مر کر جنت میں داخل ہو جاتاہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 187

۔ (۱۸۷)۔عَنْ أَبِیْ نَضْرَۃَ قَالَ: مَرِضَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَخَلَ عَلَیْہِ أَصْحَابُہُ یَعُوْدُوْنَہُ فَبَکبٰی، فَقِیْلَ لَہُ مَا یُبْکِیْکَ یَا عَبْدَاللّٰہِ؟ أَلَمْ یَقُلْ لَکَ رَسُوْلُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((خُذْ مِنْ شَارِبِکَ ثُمَّ أَقِرَّہُ حَتَّی تَلْقَانِیْ)) قَالَ: بَلٰی، وَلَکِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی قَبَضَ قَبْضَۃً بِیَمِیْنِہِ فقَالَ: ہٰذِہِ لِہٰذِہِ وَلَا أُبَالِیْ وَ قَبَضَ قَبْضَۃً أُخْرٰی یَعْنِیْ بِیِدِہِ الْأُخْرٰی فَقَالَ: ہٰذِہِ لِہٰذِہِ وَلَا أُبَالِیْ۔)) فَـلَا أَدْرِیْ فِیْ أَیِّ الْقَبْضَتَیْنِ أَنَا۔ (مسند أحمد:۱۷۷۳۷)
ابو نضرہ کہتے ہیں: ایک صحابی بیمار ہوا، جب اس کے ساتھی اس کی تیمارداری کرنے کے لیے اس کے پاس گئے تو وہ رونے لگ گیا، کسی نے اس سے کہا: اللہ کے بندے! تو کیوں رو رہا ہے؟ کیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے تجھے یہ نہیں فرمایا تھا کہ اپنی مونچھوں کو کاٹ دے، پھر اسی حالت پر برقرار رہنا، یہاں تک کہ مجھے آ ملے۔ ؟ اس نے کہا: جی کیوں نہیں، ایسے ہی ہوا تھا، لیکن میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا تھا: بیشک اللہ تعالیٰ نے دائیں ہاتھ سے مٹھی بھری اور کہا: یہ جنت کے لیے ہیں اور میں بے پروا ہوں، پھر دوسرے ہاتھ سے ایک مٹھی بھری اور کہا: یہ جہنم کے لیے ہیں اور مجھے کوئی پروا نہیں ہے۔ اب میں یہ نہیں جانتا کہ میں کون سی مٹھی میں تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 188

۔ (۱۸۸)۔ عَنْ مُعَاذٍ بْنِ جَبَلٍؓ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِنَحْوِہِ وَفِیْہِ: ((فَقَبَضَ بِیَدَیْہِ قَبْضَتَیْنِ فقَالَ: ہٰذِہِ فِی الْجَنّۃِ وَلَا أُبَالِیْ وَ ہٰذِہِ فِی النَّارِ وَلَا أُبَالِیْ۔)) (مسند أحمد: ۲۲۴۲۷)
سیدنا معاذ بن جبل ؓ نے بھی نبی ٔکریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے اسی قسم کی حدیث بیان کی ہے، البتہ اس میں ہے: پس اللہ تعالیٰ نے دونوں ہاتھوں سے دو مٹھیاں بھریں اور کہا: یہ جنت میں جائیں گے اور میں بے پروا ہوں اور یہ جہنم میں جائیں گے اور مجھے کوئی پروا نہیں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 189

۔ (۱۸۹)۔عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ قَالَ: مَا رَأَیْتُ شَیْئًا أَشْبَہَ بِاللَّمَمِ مِمَّا قَالَ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ کَتَبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ حَظَّہُ مِنَ الزِّنَا أَدْرَکَہُ لَا مَحَالَۃَ، وَزِنَا الْعَیْنِ النَّظْرُ وَزِنَا اللِّسَانِ النُّطْقُ وَ النَّفْسُ تَمَنّٰی وَ تَشْتَہِیْ وَ الْفَرْجُ یُصَدِّقُ ذٰلِکَ أَوْ یُکَذِّبُہُ۔)) (مسند أحمد: ۷۷۰۵)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ کہتے ہے: میں نے کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی، جو صغیرہ گناہوں سے زیادہ ملتی جلتی ہو، اس چیز کی بہ نسبت، جس کو سیدنا ابو ہریرہؓ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کے ہر بیٹے پر اس کا زنا کا حصہ لکھ دیا ہے، وہ اس کو لا محالہ طور پر پا لے گا، آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے اور نفس تمنا کرتا ہے اور چاہتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 190

۔ (۱۹۰)۔حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِیْ أَبِیْ ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ ابْنِ أَبِیْ خُزَامَۃَ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَقَالَ سُفْیَانُ مَرَّۃً: سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَرَأَیْتَ دَوَائً نَتَدَاوٰی بِہِ وَرُقًی نَسْتَرْقِیْ بِہَا وَ تُقًی نَتَّقِیْہَا تَرُدُّ مِنْ قَدْرِاللّٰہِ شَیْئًا؟ قَالَ: ((اِنَّہَا مِنْ قَدْرِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی۔)) (مسند أحمد: ۱۵۵۵۱)
سیدنا ابو خزامہؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ جو ہم دوا کے ذریعے علاج کرتے ہیں، دم کرواتے ہیں، بچاؤ استعمال کرتے ہیں، ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، کیا یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں سے کسی چیز کو ردّ کرتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: یہ چیزیں بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں سے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 191

۔ (۱۹۱)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ أَنَّہُ رَکِبَ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمًا فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((یَا غُلَامُ! اِنِّیْ مُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ(یَنْفَعُکَ اللّٰہُ ِبہِنَّ) اِحْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ، اِحْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ تُجَاہَکَ، وَاِذَا سَأَلْتَ فَاسْئَلِ اللّٰہَ، وَاِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللّٰہِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِاجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَنْفَعُوْکَ لَمْ یَنْفَعُوْکَ اِلَّا بِشَیْئٍ قَدْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکَ، وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَضُرُّوْکَ لَمْ یَضُرُّوْکَ اِلَّا بِشَیْئٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ، رُفِعَتِ الْاَقْلَامُ وَ جَفَّتِ الصُّحُفُ۔)) (مسند أحمد: ۲۶۶۹)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ وہ ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پیچھے سوار تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ان کو فرمایا: اولڑکے! میں تجھے چند کلمات سکھانے والا ہوں، اللہ تعالیٰ تجھے ان کے ذریعے نفع دے گا، تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت کر، وہ تیری حفاظت کرے گا، تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت کر، اس کو اپنے سامنے پائے گا، جب بھی تو سوال کرے تو اللہ تعالیٰ سے سوال کر اور جب بھی تو مدد طلب کرے تو اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کر، اور جان لے کہ اگر پوری امت تجھے کوئی فائدہ دینے کے لیے جمع ہو جائے تو وہ تجھے کوئی نفع نہیں دیں سکے گی، مگر وہی جو اللہ تعالیٰ نے تیرے حق میں لکھ دیا ہے، اسی طرح اگر پوری امت تجھے کوئی نقصان دینے کے لیے جمع ہو جائے تو وہ تجھے کوئی نقصان نہیں دے سکے گی،مگر وہی جو اللہ تعالیٰ نے تیرے حق میں لکھ دیا، قلمیں اٹھا لی گئیں ہیں اور صحیفے خشک ہو گئے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 192

۔ (۱۹۲) (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ): بِنَحْوِہِ وَفِیْہِ زَیَادَۃُ: ((تَعَرَّفْ اِلَی اللّٰہِ فِی الرَّخَائِ یَعْرِفْکَ فِی الشِّدَّۃِ (وَفِیْہِ أَیْضًا) فَلَوْ أَنَّ الْخَلْقَ کُلَّہُمْ جَمِیْعًا أَرَادُوْا أَنْ یَنْفَعُوْکَ بِشَیْئٍ لَمْ یَکْتُبْہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ لَمْ یَقْدِرُوْا عَلَیْہِ، وَاِنْ أَرَادُوْا أَنْ یَضُرُّوْکَ بِشَیْئٍ لَمْ یَکْتُبْہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ لَمْ یَقْدِرُوْا عَلَیْہِ، وَاعْلَمْ أَنَّ فِی الصَّبْرِ عَلٰی مَا تَکْرَہُ خَیْرًا کَثِیْرًا وَ أَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ وَ أَنَّ الْفَرْجَ مَعَ الْکَرْبِ وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۔)) (مسند أحمد: ۲۸۰۳)
۔ (دوسری سند) اسی طرح کی روایت ہے، البتہ اس میں ان الفاظ کی زیادتی ہے: تو خوشحالی میں اللہ تعالیٰ کو پہنچان کے رکھ، وہ تنگ دستی میں تجھے پہنچان لے گا، پس اگر ساری مخلوق تجھے کسی ایسی چیز کا فائدہ دینے کا ارادہ کر لے، جو اللہ تعالیٰ نے تیرے حق میں نہیں لکھی تو (وہ جو… مرضی کر لیں، بہرحال) ان کو یہ قدرت نہیں ہو گی، اسی طرح اگر وہ تجھے ایسا نقصان دینے پر تُل جائیں، جو اللہ تعالیٰ نے تیرے نصیبے میں نہیں لکھا، تو وہ ایسا کرنے کی طاقت بھی نہیں رکھیں گے، تو جان لے کہ ناپسندیدہ چیزوں پر صبر کرنے میں بڑی خیر ہے اور مدد صبر کے ساتھ، کشادگی تنگی کے ساتھ اور آسانی مشکل کے ساتھ ہوتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 193

۔ (۱۹۲) (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ): بِنَحْوِہِ وَفِیْہِ زَیَادَۃُ: ((تَعَرَّفْ اِلَی اللّٰہِ فِی الرَّخَائِ یَعْرِفْکَ فِی الشِّدَّۃِ (وَفِیْہِ أَیْضًا) فَلَوْ أَنَّ الْخَلْقَ کُلَّہُمْ جَمِیْعًا أَرَادُوْا أَنْ یَنْفَعُوْکَ بِشَیْئٍ لَمْ یَکْتُبْہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ لَمْ یَقْدِرُوْا عَلَیْہِ، وَاِنْ أَرَادُوْا أَنْ یَضُرُّوْکَ بِشَیْئٍ لَمْ یَکْتُبْہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ لَمْ یَقْدِرُوْا عَلَیْہِ، وَاعْلَمْ أَنَّ فِی الصَّبْرِ عَلٰی مَا تَکْرَہُ خَیْرًا کَثِیْرًا وَ أَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ وَ أَنَّ الْفَرْجَ مَعَ الْکَرْبِ وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۔)) (مسند أحمد: ۲۸۰۳)
سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: آدمؑ اور موسیؑ کا جھگڑا ہونے لگا، موسیؑ نے کہا: اے آدم! تم ہمارے باپ ہو ، تم نے ہمیں ناکام کیا اور جنت سے نکال دیا، ایک روایت میں ہے: تم وہ آدم ہو کہ جس کو اس کی غلطی نے جنت سے نکال دیا؟ آدمؑ نے کہا: اے موسی! تم وہی ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام اور اپنی رسالت کے ساتھ منتخب فرمایا اور تمہارے لیے اپنے ہاتھ سے تورات لکھی، اب کیا تم مجھے ایسی چیز پر ملامت کرتے ہو، جو اللہ تعالیٰ نے میری تخلیق سے چالیس برس پہلے میرے حق میں لکھ دی تھی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس طرح آدمؑ، موسیؑ پر غالب آ گئے، آدمؑ، موسیٰؑ پر غالب آ گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 194

۔ (۱۹۴)۔عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((مِنْ سَعَادَۃِ ابْنِ آدَمَ اسْتَخَارَتُہُ اللّٰہَ، وَمِنْ سَعَادَۃِ ابْنِ آدَمَ رِضَاہُ بِمَا قَضَاہُ اللّٰہُ، وَمِنْ شِقْوَۃِ ابْنِ آدَمَ تَرْکُہُ اسْتِخَارَۃَ اللّٰہِ، وَمِنْ شِقْوَۃِ ابْنِ آدَمَ سَخَطُہُ بِمَا قَضَاہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔)) (مسند أحمد: ۱۴۴۴)
سیدنا سعد بن ابو وقاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: یہ ابن آدم کی سعادت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرے اور یہ بھی ابن آدم کی خوش بختی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی ہو جائے اور یہ ابن آدم کی بدبختی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے خیر طلب نہ کرے اور اس میں بھی اس کی شقاوت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر ناراض ہو جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 195

۔ (۱۹۵)۔عَنْ صُہَیْبٍ بْنِ سِنَانٍؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((عَجِبْتُ مِنْ قَضَائِ اللّٰہِ لِلْمُؤْمِنِ،اِنَّ أَمْرَ الْمُؤْمِنِ کُلَّہُ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذٰلِکَ اِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، اِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّائُ، فَشَکَرَ کَانَ خَیْرًا لَہُ، وَاِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّائُ فَصَبَرَ کَانَ خَیْرًا لَہُ۔)) (مسند أحمد: ۲۴۴۲۰)
سیدنا صہیب بن سنانؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مؤمن کے حق میں جو فیصلہ کیا، مجھے اس پر تعجب ہے، بیشک مؤمن کا سارے کا سارا معاملہ خیر والا ہے اور یہ (اعزاز) صرف مؤمن کے لیے ہے، اگر اسے کوئی خوشی پہنچتی ہے اور وہ شکر ادا کرتا ہے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور وہ صبر کرتا ہے تو اس میں بھی اس کے لیے بہتری ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 196

۔ (۱۹۶)۔عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((عَجَبًا لِلْمُؤْمِنِ لَا یَقْضِی اللّٰہُ شَیْئًا اِلَّا کَانَ خَیْرًا لَہُ۔)) (مسند أحمد: ۲۰۵۴۹)
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: مؤمن پر تعجب ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جو فیصلہ کر دے، اس میں اس کے لیے خیر ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 197

۔ (۱۹۷)۔عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍؓ قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ الصَّادِقُ الْمُصَدَّقُ: ((اِنَّ أَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہُ فِیْ بَطْنِ أُمِّہِ فِیْ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًا ثُمَّ یَکُوْنُ عَلَقَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یُرْسَلُ اِلَیْہِ الْمَلَکُ فَیَنْفَخُ فِیْہِ الرُّوْحَ وَیُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ کَلِمَاتٍ، رِزْقُہُ وَأَجَلُہُ وَعَمَلُہُ وَشَقِیٌّ أَمْ سَعِیْدٌ، فَوَالَّذِیْ لَا اِلٰہَ غَیْرُہُ اِنَّ أَحَدَکُمْ لَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ حَتّٰی مَا یَکُوْنُ بَیْنَہُ وَ بَیْنَہَا اِلَّا ذِرَاعٌ فَیَسْبِقُ عَلَیْہِ الْکِتَابُ فَیُخْتَمُ لَہُ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ فَیَدْخُلُہَا، وَ اِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ حَتّٰی مَا یَکُوْنُ بَیْنَہُ وَ بَیْنَہَا اِلَّا ذِرَاعٌ فَیَسْبِقُ عَلَیْہِ الْکِتَابُ فَیُخْتَمُ لَہُ بِعَمَلِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ فَیَدْخُلُہَا۔)) (مسند أحمد: ۳۶۲۴)
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌، جوکہ صادق و مصدوق ہیں، نے ہم کو بیان کیا اور فرمایا: بیشک تمہاری تخلیق اس طرح ہوتی ہے کہ ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں تک نطفہ ہی رکھا جاتا ہے، پھر چالیس دن تک خون کا لوتھڑا رکھا جاتا ہے، پھر چالیس دن تک گوشت کا ٹکڑا رکھا جاتا ہے، پھر اس کی طرف فرشتے کو بھیجا جاتا ہے اور وہ اس میں روح پھونکتا ہے اور چار کلمات کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس کے رزق، موت اور عمل اور اس کے بدبخت یا خوش بخت ہونے کا، پس اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں! بیشک تم میں سے ایک آدمی جنتی لوگوں والے عمل کرتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے مابین صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے، لیکن کتابِ تقدیر اس پر سبقت لے جاتی ہے اور اس کی زندگی کا خاتمہ جہنمی لوگوں کے اعمال پر ہوتا ہے، پس وہ جہنم میں داخل ہو جاتا ہے، اسی طرح ایک آدمی جہنمی لوگوںکے اعمال کرتا رہتا ہے، حتی کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے، لیکن کتابِ تقدیر اس پر غالب آ جاتی ہے اور اس کی زندگی کا خاتمہ اہل جنت کے اعمال پر کر دیا جاتا ہے، سو وہ جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 198

۔ (۱۹۸)۔عَنْ جَابِرِبْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((اِذَا اسْتَقَرَّتِ النُّطْفَۃُ فِی الرَّحِمِ أَرْبَعِیْنَ یَوْماً أَوْ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً بَعَثَ اللّٰہُ اِلَیْہِ مَلَکًا فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ! مَا رِزْقُہُ؟ فَیُقَالُ لَہُ، فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ! مَا أَجَلُہُ؟ فَیُقَالُ لَہُ، فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ! ذَکَرٌ أَمْ أُنْثٰی؟ فَیُعْلَمُ، فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ! شَقِیٌّ أَمْ سَعِیْدٌ؟ فَیُعْلَمُ۔)) (مسند أحمد: ۱۵۳۴۲)
سیدنا جابر بن عبد اللہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جب نطفہ رحم میں چالیس دن یا راتیں ٹھہر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایک فرشتے کو بھیجتے ہیں، پس وہ پوچھتا ہے: اے میرے ربّ! اس کا رزق کیا ہے؟ پس اسے جواب دیا جاتا ہے، پھر وہ پوچھتا ہے: اے میرے ربّ! اس کی موت کب ہو گی؟ پس اس کو بتلا دیا جاتا ہے، پھر وہ سوال کرتاہے: اے میرے ربّ! یہ مذکر ہو گا یا مؤنث؟ سو اس کو بتلا دیا جاتا ہے، پھر وہ کہتا ہے: اے میرے ربّ! یہ بدبخت ہو گا یا خوش بخت؟ پھر یہ بھی اس کو بتلا دیا جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 199

۔ (۱۹۹)۔حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِیْ أَبِیْ ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ أَبِیْ الطُّفَیْلِ عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ أُسَیْدٍ الْغِفَارِیِّؓ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَوْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((یَدْخُلُ الْمَلَکُ عَلَی النُّطْفَۃِ بَعْدَ مَا تَسْتَقِرُّ فِی الرَّحِمِ بِأَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً، (وَقَالَ سُفْیَان مَرَّۃً: أَوْ خَمْسَۃً وَ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً) فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ! مَاذَا، أَشَقِیٌّ أَمْ سَعِیْدٌ؟ أَذَکَرٌ أَمْ أُنْثٰی؟ فَیَقُوْلُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فَیُکْتَبَانِ، فَیَقُوْلُ: مَا ذَا؟أَذَکَرٌ أَمْ أُنْثٰی؟ فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فَیُکْتَبَانِ، فَیُکْتَبُ عَمَلُہُ وَ أَثَرُہُ وَمَصِیْبَتُہُ وَرِزْقُہُ، ثُمَّ تُطْوَی الصَّحِیْفَۃُ فَـلَا یُزَادُ عَلَی مَا فِیْہَا وَلَا یُنْقَصُ۔)) (مسند أحمد: ۱۶۲۴۱)
سیدنا حذیفہ بن اسید غفاریؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جب نطفہ رحم میں چالیس یا پینتالیس راتیں ٹھہر جاتا ہے تو اس پر ایک فرشتہ داخل ہوتا ہے اور وہ سوال کرتا ہے: اے میرے ربّ! کیا حکم ہے، بدبخت ہے یا خوش بخت؟ مذکر ہے یا مؤنث؟ پس اللہ تعالیٰ اس کو بتلا دیتا ہے اور یہ دونوں چیزیں لکھ لی جاتی ہیں، پھر وہ کہتا ہے: کیا حکم ہے، مذکر ہے یا مؤنث؟ پس اللہ تعالیٰ اس کو بتلاتا ہے اور یہ چیزیں بھی لکھ دی جاتی ہیں، پھر اس کا عمل ، عمر، مصیبت اور رزق لکھا جاتا ہے اور صحیفے کو لپیٹ لیا جاتا ہے اور اس میں زیادتی کی جا سکتی ہے نہ کمی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 200

۔ (۲۰۰)۔عَنْ أَبِیْ الدَّرْدَائِؓ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((فَرَغَ اللّٰہُ اِلٰی کُلِّ عَبْدٍ مِنْ خَمْسٍ، مِنْ أَجَلِہِ وَ رِزْقِہِ وَأَثَرِہِ وَ شَقِیٍّ أَمْ سَعِیْدٍ۔)) (مسند أحمد: ۲۲۰۶۶)
سیدنا ابو درداءؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہر بندے سے پانچ چیزوں سے فارغ ہو گیا ہے، اس کی موت، رزق، عمر اور بدبختی یا خوش بختی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 201

۔ (۲۰۱)۔عَنْ یَحْیَی بْنِ یَعْمَرَ قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ(ؓ): اِنَّا نُسَافِرُ فِی الْآفَاقِ فَنَلْقٰی قَوْمًا یَقُوْلُوْنَ لَا قَدَرَ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: اِذَا لَقِیْتُمُوْہُمْ فَأَخْبِرُوْہُمْ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ مِنْہُمْ بِرِیْئٌ وَأَنَّہُمْ مِنْہُ بُرَائُ ثَـلَاثًا، ثُمَّ أَنْشَأَ یُحَدِّثُ، بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَائَ رَجُلٌ، فَذَکَرَ مِنْ ہَیْئَتِہِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((أُدْنُہُ۔)) فَدَنَا، فَقَالَ: ((أدْنُہُ۔)) فَدَنَا، فَقَالَ: ((أدْنُہُ۔)) فَدَنَا حَتَّی کَادَ رُکْبَتَاہُ تَمَسَّانِ رُکْبَتَیْہِ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَخْبِرْنِیْ مَا الْاِیْمَانُ أَوْ عَنِ الْاِیْمَانِ؟ قَالَ: ((تُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَ تُؤْمِنُ بِالْقَدْرِ۔)) قَالَ سُفْیَانُ: أَرَاہُ قَالَ: ((بِخَیْرِہِ وَ شَرِّہِ۔)) قَالَ: فَمَا الْاِسْلَامُ؟ قَالَ: ((اِقَامُ الصَّلٰوۃِ وَ اِیْتَائُ الزَّکَاۃِ وَحَجُّ الْبَیْتِ وَصِیَامُ شَہْرِ رَمَضَانَ وَ غُسْلٌ مِنَ الْجَنَابَۃِ۔)) کُلَّ ذٰلِکَ قََالَ: صَدَقْتَ صَدَقْتَ، قَالَ الْقَوْمُ: مَا رَأَیْنَا رَجُلًا أَشَدَّ تَوْقِیْرًا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ ہٰذَا، کَأَنَّہُ یُعْلِّمُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم، ثُمَّ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِحْسَانِ، قَالَ: ((أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ۔)) أَوْ ((تَعْبُدُہُ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَا تَرَاہُ فَاِنَّہُ یَرَاکَ۔)) کُلَّ ذٰلِکَ نَقُوْلُ: مَا رَاَیْنَا رَجُلًا أَشَدَّ تَوْقِیْرًا لِرُسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ ہٰذَا، فَیَقُوْلُ: صَدَقْتَ صَدَقْتَ،قَالَ: أَخْبِرْنِیْ عَنِ السَّاعَۃِ، قَالَ: ((مَا الْمَسْئُوْلُ عَنْہَا بِأَعْلَمَ بِہَامِنَ السَّائِلِ۔))، قَالَ: فَقَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ ذَاکَ مِرَارًا، مَا رَأَیْنَا رَجُلًا أَشَدَّ تَوْقِیْرًا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ ہٰذَا، ثُمَّ وَلّٰی، قَالَ سُفْیَانُ: فَبَلَغَنِیْ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((الْتَمِسُوْہُ۔)) فَلَمْ یَجِدُوْہُ،قَالَ: ((ہٰذَا جِبْرِیْلُ جَائَکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْنَکُمْ، مَا أَتَانِیْ فِیْ صُوْرَۃٍ اِلَّا عَرَفْتُہُ غَیْرَ ہٰذِہِ الصُّوْرَۃِ۔)) (مسند أحمد: ۳۷۴)
یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابن عمر ؓ سے کہا: ہم لوگ مختلف علاقوں کا سفر کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کو ملتے ہیں جو کہتے ہیں کہ کوئی تقدیر نہیں ہے، سیدنا ابن عمر ؓ نے کہا: اب جب تم ان کو ملو تو ان کو یہ بتلا دینا کہ عبد اللہ بن عمر ان سے اور وہ اِن سے بری ہیں، انھوں نے تین دفعہ یہ بات کہی، پھر انھوں نے یہ حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آیا، پھر اس کی حالت بیان کی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اس سے فرمایا: قریب ہو جا۔ پس وہ قریب ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے پھر فرمایا: مزید قریب ہو جا۔ وہ اور قریب ہو گیا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اور قریب ہو جاؤ۔ پس وہ اتنا قریب ہو گیا کہ اس کے گھٹنے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے گھٹنوں کو مسّ کرنے لگے، پھر اس بندے نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے بتلائیں کہ ایمان کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ تعالی، فرشتوں، کتابوں، رسولوں، آخرت کے دن اور تقدیر، وہ خیر والی ہو یا شرّ والی، پر ایمان لاؤ۔ اس نے کہا: اسلام کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور غسلِ جنابت کرنا اسلام ہے۔ ہر دفعہ اس نے جواب میں کہا: آپ سچ فرما رہے ہیں، آپ سچ فرما رہے ہیں۔ لوگوں نے کہا: ہم نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا کہ جو اس سے زیادہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی توقیر کرنے والا ہو، لیکن ایسے لگتا ہے کہ یہ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو تعلیم دے رہا ہے، بہرحال اس نے پھر کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے احسان کے بارے میں بتلائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کر گویا کہ تو اس کو دیکھ رہا ہے اور اگر تو اس کو نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے۔ ہر دفعہ ہم کہتے: ہم نے ایسا آدمی نہیں دیکھا جو اس سے زیادہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی توقیر کرنے والا ہو، پھر اس نے کہا: آپ سچ فرما رہے ہیں، آپ سچ فرما رہے ہیں، اچھا اب مجھے قیامت کے بارے میں بتلائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس کے بارے میں تو مسئول، سائل سے زیادہ جاننے والا نہیں ہے۔ اس نے کہا: آپ سچ کہہ رہے ہیں، اس نے کئی دفعہ یہ بات کہی، ہم نے اس شخص کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی سب سے زیادہ عزت کرنے والا پایا، پھر وہ چلا گیا۔ سفیان کہتے ہیں: مجھے یہ بات بھی موصول ہوئی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس کو تلاش کرو۔ لیکن صحابہ اس کو تلاش نہ کر سکے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: یہ جبریلؑ تھے، وہ تم لوگوں کو دین کی تعلیم دینے کے لیے آئے تھے، پہلے تو جس صورت میں آتے تھے، میں اِن کو پہچان لیتا تھا، ما سوائے اس صورت کے، (آج میں اِن کو نہیں پہچان سکا)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 202

۔ (۲۰۲)(وَ عَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ)۔ قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: اِنَّ عِنْدَنَا رِجَالًا یَزْعُمُوْنَ أَنَّ الْأَمْرَ بِأَیْدِیْہِمْ فَاِنْ شَائُ وْا عَمِلُوْا وَاِنْ شَائُ وْا لَمْ یَعْمَلُوْا، فَقَالَ: أَخْبِرْہُمْ أَنِّیْ مِنْہُمْ بَرِیْئٌ وَأَنَّہُمْ مِنِّیْ بُرَائُ، ثُمَّ قَالَ: جَائَ جِبْرِیْلُ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! مَاالْاِسْلَامُ؟ فقَالَ: ((تَعْبُدُ اللّٰہَ لَا تُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا وَتُقِیْمُ الصَّلَاۃَ وَ تُؤْتِی الزَّکَاۃَ وَتَصُوْمُ رَمَضَانَ وَتَحُجُّ الْبَیْتَ۔)) قَالَ: فَاِذَا فَعَلْتُ ذٰلِکَ فَأَنَا مُسْلِمٌ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَمَا الْاِحْسَانُ؟ قَالَ: ((تَخْشَی اللّٰہَ تَعَالٰی کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَا تَکُ تَرَاہُ فَاِنَّہُ یَرَاکَ۔))، قَالَ: فَاِذَا فَعَلْتُ ذٰلِکَ فَأَنَا مُحْسِنٌ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَمَا الْاِیْمَانُ؟ قَالَ: ((تُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ مَـلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْبَعْثِ مِنْ بَعْدِ الَمَوْتِ وَالْجَنَّۃِ وَالنَّارِ وَالْقَدْرِ کُلِّہِ۔)) قَالَ: فَاِذَا فَعَلْتُ ذٰلِکَ فَأَنَا مُؤْمِنٌ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَ: صَدَقْتَ۔(مسند أحمد: ۵۸۵۶)
۔ (دوسری سند)یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ سے کہا: ہمارے ہاں ایسے لوگ بھی ہیں، جن کا خیال یہ ہے کہ معاملہ ان کے اختیار میں ہے، پس اگر وہ چاہیں تو عمل کرلیں اور چاہیں تو نہ کریں، آگے سے سیدنا ابن عمرؓ نے کہا: ان کو یہ اطلاع دے دوکہ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں۔ پھر انھوں نے کہا: جبرائیلؑ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آئے اور کہا: اے محمد! اسلام کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکاۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو۔ انھوں نے کہا: جب میں یہ امور سر انجام دوں گا تو میں مسلمان ہو جاؤں گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جی ہاں۔ انھوں نے کہا: آپ سچ فرما رہے ہیں۔ پھر انھوں نے پوچھا: احسان کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے اس طرح ڈرو کہ گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو، پس اگر تم نہیں دیکھ رہے تو وہ تو تم کو دیکھ رہا ہے۔ انھوں نے کہا: پس جب میں اس طرح کروں گا، تو کیا میں صاحب ِ احسان ہو جاؤں گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جی ہاں۔ انھوں نے کہا: آپ سچ فرما رہے ہیں، پھر انھوں نے کہا: اچھا یہ بتائیں کہ ایمان کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تم اللہ تعالی، اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں، موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے، جنت، جہنم اور ساری تقدیر پر ایمان لاؤ۔ انھوں نے کہا: پس جب میں اس طرح کروں گا تو میں مؤمن بن جاؤں گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جی ہاں۔ انھوں نے کہا: آپ سچ فرما رہے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 203

۔ (۲۰۳) زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ: وَکَانَ جِبْرِیْلُ یَأْتِی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ صُوْرَۃِ دِحْیَۃَ۔ (مسند أحمد: ۵۸۵۷)
ایک روایت میں یہ زائد بات ہے: اور جبریل، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس سیدنا دحیہؓکی شکل میں آتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 204

۔ (۲۰۴) (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَالِثٍ) عَنِ ابْنِ عُمَرَؓ أَنَّ جِبْرِیْلَ قَالَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: مَا الْاِیْمَانُ؟ قَالَ: ((أَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَ مَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَبِالْقَدْرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ۔)) فَقَالَ لَہُ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَتَعَجَّبْنَا مِنْہُ یَسْأَلُہُ وَیُصَدِّقُہُ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ذَاکَ جِبْرِیْلُ أَتَاکُمْ یُعَلِّمُکُمْ مَعَالِمَ دِیْنِکُمْ۔)) (مسند أحمد: ۱۹۱)
۔ (تیسری سند) سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ جبریلؑ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے کہا: ایمان کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالی، اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں، آخرت کے دن اور اچھی اور بری تقدیر پر تمہارا ایمان لانا۔ یہ سن کر حضرت جبریل ؑنے کہا: آپ سچ کہہ رہے ہیں، ہمیں اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ یہ سوال بھی کرتا ہے اور تصدیق بھی کرتا ہے، پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: یہ جبرائیلؑ تھے جو تم کو دین کی نشانیوں کی تعلیم دینے آئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 205

۔ (۲۰۵) (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ رَابِعٍ)۔أَیْ عَنْ یَحْیٰی بْنِ یَعْمَرَ وَ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ الْحِمْیَرِیِّ قَالَ: لَقِیْنَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ (ؓ) فَذَکَرْنَا الْقَدْرَ وَمَا یَقُوْلُوْنَ فِیْہِ، فَقَالَ لَنَا: اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَیْھِمْ فَقُوْلُوْا: اِنَّ ابْنَ عُمَرَ بَرِیْئٌ وَأَنْتُمْ مِنْہُ بُرَائُ ثَلَاثَ مِرَارٍ، ثُمَّ قَالَ: أَخْبَرَنِیْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِؓ أَنَّہُمْ بَیْنَمَاہُمْ جُلُوْسٌ أَوْ قُعُوْدٌ عِنْدَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَائَ ہُ رَجُلٌ یَمْشِیْ حَسَنُ الْوَجْہِ حَسَنُ الشَّعْرِ عَلَیْہِ ثِیَابٌ بِیْضٌ، فَنَظَرَ الْقَوْمُ بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضٍ مَا نَعْرِفُ ہٰذَا وَ مَا ہٰذَا بِصَاحِبِ سَفَرٍ، ثُمَّ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! آتِیْکَ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) فَجَائَ فَوَضَعَ رُکْبَتَیْہِ عِنْدَ رُکْبَتَیْہِ وَ یَدَیْہِ عَلَی فَخَذَیْہِ،(وَسَاقَ الْحَدِیْثَ بِنَحْوِ مَا تَقَدَّمَ فِی الْبَابِ الثَّانِیْ مِنْ کِتَابِ الْاِیْمَانِ وَ فِیْہِ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ بَعْدَ أَنْ ذَہَبَ السَّائِلُ) عَلَیَّ بِالرَّجُلِ، فَطَلَبُوْہُ فَلَمْ یَرَوْا شَیْئًا، فَمَکَثَ یَوْمَیْنِ أَوْ ثَلَاثَۃً، ثُمَّ قَالَ: ((یَا ابْنَ الْخَطَّابِ! أَتَدْرِیْ مَنِ السَّائِلُ عَنْ کَذَا وَ کَذَا؟۔)) قَالَ: اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: ((ذَاکَ جِبْرِیْلُ جَائَ کُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْنَکُمْ۔)) قَالَ: وَسَأَلَہُ رَجُلٌ مِنْ جُہَیْنَۃَ أَوْ مُزَیْنَۃَ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فِیْمَا نَعْمَلُ، أَفِیْ شَیْئٍ قَدْ خَلَا أَوْ مَضٰی أَوْ فِیْ شَیْئٍ یُسْتَأْنَفُ الْآنَ؟ قَالَ: ((فِیْ شَیْئٍ قَدْ خَلَا أَوْ مَضٰی۔)) فَقَالَ رَجُلٌ أَوْ بَعْضُ الْقَوْمِ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فِیْمَا نَعْمَلُ؟ قَالَ: ((أَھْلُ الْجَنَّۃِ مُیَسَّرُوْنَ لِعَمَلِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ وَ أَہْلُ النَّارِ مُیَسَّرُوْنَ لِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ۔)) قَالَ یَحْیٰی: قَالَ ہُوَ ہٰکَذَا یَعْنِیْ کَمَا قَرَأْتَ عَلَیَّ۔ (مسند أحمد: ۱۸۴)
۔ (چوتھی سند)یحییٰ بن یعمر اور حمید حِمْیری کہتے ہیں: ہم سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کو ملے اور تقدیر کے موضوع پر بات کی اور لوگوں کا نظریہ بھی ذکر کیا، انھوں نے ہمیںکہا: جب تم ان لوگوںکی طرف لوٹو تو ان کو تین بار کہنا کہ ابن عمر تم سے اور تم اس سے بری ہو پھر انھوں نے کہا: سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے مجھے بیان کیا کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اسی اثناء میں ایک آدمی پیدل چلتے ہوئے آ گیا، وہ خوبصورت چہرے والا اور خوبصورت بالوں والا تھا، اس نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے، لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر کہنے لگے کہ نہ تو ہم اس آدمی کو جانتے ہیں اور نہ یہ مسافر لگ رہا ہے، پھر اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں آپ کے پاس آ سکتا ہوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جی ہاں۔ پس وہ آیا اور اپنے گھٹنے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے گھٹنوںکے پاس رکھ دیئے اور اپنے ہاتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی رانوں پر رکھ دیئے، (پھر کتاب الایمان کے دوسرے باب میں مذکورہ حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور اس میں ہے کہ سائل کے چلے جانے کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس بندے کو میرے پاس لاؤ۔ لوگ اس کو تلاش کرنے کے لیے نکلے، لیکن ان کو کوئی چیز نظر ہی نہ آئی، پھر وہ دو یا تین دن ٹھہرے رہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اے ابن خطاب! کیا تم جانتے ہو کہ فلاں فلاں چیز کے بارے میں سوال کرنے والا کون تھا؟ انھوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: یہ جبریلؑ تھے، جو تم کو دین کی تعلیم دینے آئے تھے۔ پھر جہینہ یا مزینہ قبیلے کے ایک آدمی نے سوال کرتے ہوئے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کس چیز کے مطابق عمل کر رہے ہیں؟ کیا اس چیز کے مطابق جو گزر چکی ہے، یا اس چیز کے مطابق جو از سرِ نو ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس چیز کے مطابق جو گزر چکی ہے۔ اس آدمی نے یا کسی اور شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر عمل کس چیز میں ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جنتیوں کے لیے اہلِ جنت کے عمل کو آسان کر دیا جاتا ہے اور جہنمیوں کے لیے اہلِ جہنم کے عمل کو آسان کر دیا جاتا ہے۔ یحییٰ نے کہا: وہ اسی طرح ہی ہے، یعنی جس طرح تم نے مجھے بیان کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 206

۔ (۲۰۶)۔عَنِ ابْنِ الدَّیْلَمِیِّ قَالَ: لَقِیْتُ أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍؓ فَقُلْتُ: یَا أَبَا الْمُنْذِرِ! اِنَّہُ قَدْ وَقَعَ فِیْ نَفْسِیْ شَیْئٌ مِنْ ہٰذَا الْقَدْرِ فَحَدِّثْنِیْ بِشَیْئٍ لَعَلَّہُ یَذْہَبُ مِنْ قَلْبِیْ، قَالَ: لَوْ أَنَّ اللّٰہَ عَذَّبَ أَہْلَ سَمٰوَاتِہِ وَ أَہْلَ أَرْضِہِ لَعَذَّبَھُمْ وَھُوَ غَیْرُ ظَالِمٍ لَہُمْ، وَلَوْ رَحِمَہُمْ کَانَتْ رَحْمَتُہُ لَہُمْ خَیْرًا مِنْ أَعْمَالِہِمْ، وَلَوْ أَنْفَقْتَ جَبَلَ أُحُدٍ ذَہَبًا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ مَا قَبِلَہُ اللّٰہُ مِنْکَ حَتَّی تُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ وَ تَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ، وَمَا أَخْطَأَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیْبَکَ وَلَوْ مِتَّ عَلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ لَدَخَلْتَ النَّارَ، قَالَ: فَأَتَیْتُ حُذَیْفَۃَ فَقَالَ لِیْ مِثْلَ ذٰلِکَ، وَأَتَیْتُ ابْنَ مَسْعُوْدٍ فقَالَ لِیْ مِثْلَ ذٰلِکَ وَ اَتَیْتُ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَحَدَّثَنِیْ عَنِ النَّبِیِّ مِثْلَ ذٰلِکَ۔ (مسند أحمد: ۲۱۹۲۲)
ابن دیلمی کہتے ہیں: میں سیدنا ابی بن کعب ؓ کو ملا اور کہا: اے ابو منذر! تقدیر کے بارے میں میرے دل میں وسوسہ سا پیدا ہونے لگا ہے، کوئی ایسی چیز بیان کرو کہ جس سے میرے دل کی یہ کیفیت ختم ہو جائے۔ انھوںنے کہا: اگر اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین والوںکو عذاب دینا چاہے تو وہ عذاب دے دے، جبکہ وہ ان کے حق میں ظالم نہیں ہو گا اور ان سب پر رحم کر دے تو اس کی رحمت ان کے لیے ان کے اعمال سے بہتر ہو گی اور اگر تو احد پہاڑ کے بقدر سونا اللہ کے راستے میں خرچ کر دے تو وہ اس کو تجھ سے اس وقت تک قبول نہیں کرے گا، جب تک تو تقدیر پر ایمان نہیں لائے گا اور یہ نہیں جان لے گا کہ جس چیز کے بارے میں یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ وہ تجھے پہنچ کر رہے گی تو وہ تجھ سے تجاوز نہیں کرے گی اور جس چیز کے بارے میں یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ وہ تجھ سے تجاوز کر جائے گی تو وہ تجھ تک نہیں پہنچ پائے گی، اگر تو (تقدیر کے بارے میں) اس عقیدے پر نہ مرا تو تو جہنم میں داخل ہو گا۔ پھر میں سیدنا حذیفہ ؓ کے پاس آیا، انھوں نے بھی مجھے اسی قسم کی بات بیان کر دی، پھر میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود ؓ کے پاس آیا، انھوں نے بھی اسی قسم کی بات کہہ دی، پھر میں سیدنا زید بن ثابت ؓ کے پاس آیا اور انھوں نے بھی مجھے اس قسم کی بات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے حوالے سے بیان کر دی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 207

۔ (۲۰۷)۔عَنْ أَبِیْ الدَّرْدَائِؓ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لِکُلِّ شَیْئٍ حَقِیْقَۃٌ، وَمَا بَلَغَ عَبْدٌ حَقِیْقَۃَ الْاِیْمَانِ حَتَّی یَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَہُ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَہُ وَمَا أَخْطَاَہُ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیْبَہُ۔)) (مسند أحمد: ۲۸۰۳۸)
سیدنا ابو درداءؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌نے فرمایا: ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے اور آدمی ایمان کی حقیقت کو اس وقت تک نہیں پا سکتا جب تک اسے اس چیز کا (پختہ) علم نہ ہو جائے کہ جو چیز (اللہ کی تقدیر کے فیصلے کے مطابق) اسے لاحق ہونی ہے وہ اس سے تجاوز نہیں کر سکتی اور جس چیز نے اس سے تجاوز کرنا ہے وہ اسے لاحق نہیں ہو سکتی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 208

۔ (۲۰۸)۔عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الْوَلِیْدِ بْنِ عُبَادَۃَ حَدَّثَنِیْ أَبِیْ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی عُبَادَۃَ (یَعْنِی بْنَ الصَّامِتِؓ) وَھُوَ مَرِیْضٌ أَتَخَایَلُ فِیْہِ الْمَوْتَ فَقُلْتُ: یَا أَبَتَاہُ! أَوْصِنِیْ وَاجْتَہِدْ لِیْ فَقَالَ: أَجْلِسُوْنِیْ، قَالَ: یَا بُنَیَّ! اِنَّکَ لَنْ تَطْعَمَ طَعْمَ الْاِیْمَانِ وَلَمْ تَبْلُغْ حَقِیْقَۃَ الْعِلْمِ بِاللّٰہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی حَتَّی تُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہِ وَ شَرِّہِ، قَالَ: قُلْتُ: یَا أَبَتَاہُ! فَکَیْفَ لِیْ أَنْ أَعْلَمَ مَا خَیْرُ الْقَدْرِ وَ شَرُّہُ؟ قَالَ: تَعْلَمُ أَنَّ مَا أَخْطَأَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیْبَکَ وَمَا أَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ، یَا بُنَیَّ! اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِنَّ اَوَّلَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی الْقَلْمُ، ثُمَّ قَالَ: اکْتُبْ! فَجَرَی فِیْ تِلْکَ السَّاعَۃِ بِمَا ہُوَ کَائِنٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔)) یَا بُنَیَّ! اِنْ مِتَّ وَلَسْتَ عَلَی ذٰلِکَ دَخَلْتَ النَّارَ۔ (مسند أحمد: ۲۳۰۸۱)
ولید بن عبادہ کہتے ہیں: میں سیدنا عبادہ بن صامت ؓ کے پاس گیا، جبکہ وہ بیمار تھے اور میرا خیال تھا کہ اس بیماری میں ان کی موت واقع ہو جائے گی، پس میں نے کہا: ابا جان! کوئی وصیت کر دو اور میرے لیے کوشش کرو۔ انھوں نے کہا: مجھے بٹھاؤ، پھر انھوں نے کہا: میرے پیارے بیٹے! تو اس وقت تک نہ ایمان کا ذائقہ نہیں چکھ سکتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کی حقیقت کو پہنچ سکتا ہے، جب تک تو اچھی اور بری تقدیر پر ایمان نہیںلائے گا۔ میں نے کہا: ابا جان! میں یہ کیسے جان سکتا ہوں کہ اچھی اور بری تقدیر کیا ہے؟ انھوں نے کہا: جان لے کہ جو چیز تجھ سے تجاوز کر جانے والی ہے، وہ تجھے لاحق نہیں ہو سکتی اور جو چیز تجھے لاحق ہونے والی ہے، وہ تجھ سے تجاوز نہیں کر سکتی۔ اے میرے پیارے بیٹے! میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: بیشک اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو سب سے پہلے پیدا کیا، وہ قلم ہے، پھر اس نے اسے کہا: تو لکھ، پس وہ چل پڑی اور قیامت تک وقوع پذیر ہونے والے امور لکھ دیئے۔ اے میرے بیٹے! اگر تو اس عقیدے کے بغیر مر گیا تو تو جہنم میں داخل ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 209

۔ (۲۰۹)۔عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِؓ أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! أَیُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: ((اَلْاِیْمَانُ بِاللّٰہِ وَ تَصْدِیْقٌ بِہِ وَجِہَادٌ فِیْ سَبِیْلِہِ۔)) قَالَ: أُرِیْدُ أَہْوَنَ مِنْ ذٰلِکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((السَّمَاحَۃُ وَالصَّبْرُ۔)) قَالَ: أُرِیْدُ أَہْوَنَ مِنْ ذٰلِکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((لَا تَتَّہِمِ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فِیْ شَیْئٍ قَضٰی لَکَ بِہِ۔)) (مسند أحمد: ۲۳۰۹۴)
سیدنا عبادہ بن صامت ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے نبی! کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، اس کی تصدیق کرنا اور اس کے راستے میں جہاد کرنا۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرا ارادہ تو اس سے آسان عمل کا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: صبر وسماحت۔ لیکن اس نے پھر کہا: اے اللہ کے رسول! میرا ارادہ تو اس سے ہلکے عمل کا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تو پھر اللہ تعالیٰ تیرے بارے میں جو فیصلہ کر دے، اس میں اس کو متّہم نہ ٹھہرانا، (یعنی اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی ہو جانا)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 210

۔ (۲۱۰)۔عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عن أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا یُؤْمِنُ الْمَرْئُ حَتَّی یُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہِ وَ شَرِّہِ۔)) قَالَ أَبُوْ حَازِمٍ: لَعَنَ اللّٰہُ دِیْنًا أَنَا أَکْبَرُ مِنْہُ، یَعْنِی الْتَکْذِیْبَ بِالْقَدْرِ۔ (مسند أحمد: ۶۷۰۳)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بندہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک اچھی اور بری تقدیر پر ایمان نہیں لاتا۔ ابو حازم نے کہا: اللہ تعالیٰ اس دین پر لعنت کرے کہ میں جس سے بڑا ہوں، ان کی مراد تقدیر کو جھٹلانے پر (ردّ کرنا ہے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 211

۔ (۲۱۱)۔عن أَبِیْ بَکْرٍ الصِّدِّیْقِؓ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! الْعَمَلُ عَلَی مَا فُرِ غَ مِنْہُ أَوْ عَلَی أَمْرٍ مُؤْتَنَفٍ؟ قَالَ: ((بَلْ عَلَی أَمْرٍ قَدْ فُرِ غَ مِنْہُ۔)) قَالَ: قُلْتُ: فَفِیْمَ الْعَمَلُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((کُلٌّ مُیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَہُ۔)) (مسند أحمد: ۱۹)
سیدنا ابو بکر صدیق ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! عمل اس چیز کے مطابق ہے، جس سے فارغ ہوا جا چکا ہے یا اس کے مطابق ہے، جو ازسرِ نو ہو رہی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس معاملے کے مطابق ہے، جس سے فارغ ہوا جا چکا ہے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر عمل کس چیز میں ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ہر ایک کے لیے وہ عمل آسان کر دیا گیا ہے، جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 212

۔ (۲۱۲)۔عَنْ عُمَرَبْنِ الْخَطَّابِ ؓ قَالَ: سَأَلَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَجُلٌ مِنْ جُہَیْنَۃَ أَوْ مُزَیْنَۃَ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فِیْمَا نَعْمَلُ، أَفِیْ شَیْئٍ قَدْ خَلَا أَوْ مَضٰی أَوْ فِیْ شَیْئٍ یُسْتَأْنَفُ الْآنَ؟ قَالَ: ((فِیْ شَیْئٍ قَدْ خَلَا أَوْ مَضٰی۔)) فَقَالَ رَجُلٌ أَوْ بَعْضُ الْقَوْمِ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فِیْمَا نَعْمَلُ؟ قَالَ: ((أَھْلُ الْجَنَّۃِ مُیَسَّرُوْنَ لِعَمَلِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ وَ أَہْلُ النَّارِ مُیَسَّرُوْنَ لِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ۔)) (مسند أحمد: ۱۸۴)
سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے کہ جہینہ یا مزینہ قبیلے کے ایک آدمی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے سوال کرتے ہوئے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کس چیز کے مطابق عمل کر رہے ہیں؟ کیا اس (تقدیر) کے مطابق جو گزر چکی ہے، یا اس چیز کے مطابق جو از سرِ نو ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس چیز کے مطابق جو گزر چکی ہے۔ اس آدمی نے یا کسی اور شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر عمل کی کیا حقیقت ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جنتیوں کے لیے اہلِ جنت کے عمل کو آسان کر دیا جاتا ہے اور جہنمیوں کے لیے اہلِ جہنم کے عمل کو آسان کر دیا جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 213

۔ (۲۱۳)۔عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِؓ أَنَّ سُرَاقَۃَ بْنَ مَالِکِ بْنِ جُعْشَمٍؓ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فِیْمَ الْعَمَلُ؟ أَفِیْ شَیْئٍ قَدْ فُرِ غَ مِنْہُ أَوْ فِیْ شَیْئٍ نَسْتَأْنِفُہُ؟ فَقَالَ: ((بَلْ فِیْ شَیْئٍ قَدْ فُرِ غَ مِنْہُ۔)) قَالَ: فَفِیْمَ الْعَمَلُ اِذًا؟ قَالَ: ((اِعْمَلُوْا! فَکُلٌ مُیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَہُ۔)) (مسند أحمد: ۱۴۳۰۸)
سیدنا جابر بن عبد اللہ ؓ سے مروی ہے کہ سیدنا سراقہ بن جعشم ؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کس چیز کے مطابق عمل کر رہے ہیں؟ کیا اس (تقدیر) کے مطابق جس سے فارغ ہوا جا چکا ہے، یا اس چیز کے مطابق جو ہم از سرِ نو کرتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس چیز کے مطابق جس سے فارغ ہوا جا چکا ہے۔ انھوں نے کہا: تو پھر عمل کاہے کا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: عمل کرو، ہر ایک کو جس عمل کے لیے پیدا کیا گیا ہے، وہ اس کے لیے آسان کر دیا گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 214

۔ (۲۱۴)۔ عن أَبِیْ الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ(یَعْنِی ابْنَ عَبْدِ اللّٰہِؓ) أَنَّہُ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَنَعْمَلُ لِأَمْرٍ قَدْ فُرِ غَ مِنْہُ أَمْ لِأَمْرٍ نَأْتَنِفُہُ؟ قَالَ: ((لِأَمْرٍ قَدْ فُرِ غَ مِنْہُ۔)) فَقَالَ سُرَاقَۃُ: فَفِیْمَ الْعَمَلُ اِذًا؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((کُلُّ عَامِلٍ مُیَسَّرٌ لِعَمَلِہِ۔)) (مسند أحمد: ۱۴۶۵۴)
سیدنا جابر بن عبد اللہ ؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم اس چیز کے مطابق عمل کر رہے ہیں، جس سے فارغ ہو ا جا چکا ہے، یا اس چیز کے مطابق جو از سرِ نو ہم کر رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس چیز کے مطابق جس سے فارغ ہوا جا چکا ہے۔ سیدنا سراقہ ؓ نے کہا: تو پھر عمل کی کیا حقیقت ہے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ہر عامل کے لیے اس کا عمل آسان کر دیا گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 215

۔ (۲۱۵)۔ عَنْ أَبِیْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ السُّلَمِیِّ عَنْ عَلِیٍّؓ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ذَاتَ یَوْمٍ جَالِسًا وَفِیْ یَدِہِ عُوْدٌ یَنْکُتُ بِہِ، قَالَ: فَرَفَعَ رَأْسَہُ فَقَالَ: ((مَامِنْکُمْ مِنْ نَفْسٍ اِلَّا وَقَدْ عُلِمَ مَنْزِلُہَا مِنَ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ۔)) قَالَ: فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَلِمَ نَعْمَلُ؟ قَالَ: ((اِعْمَلُوْا!فَکُلٌّ مُیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَہُ۔)) {أَمَّا مَنْ أَعْطٰی وَاتَّقٰی وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْیُسْرٰی، وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی وَکَذَّبَ بِالحُسْنٰی فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْعُسْرٰی} (مسند أحمد: ۶۲۱)
سیدنا علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ہاتھ میں لکڑی تھی، آپ اس سے زمین کو کرید رہے تھے، اتنے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے سر مبارک اٹھایا اور فرمایا: تم میں سے ہر ایک کی منزل کا علم ہو چکا ہے کہ وہ جنت ہے یا جہنم۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر ہم عمل کیوں کر رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تم عمل کرو، ہر ایک کو جس عمل کے لیے پیدا کیا گیا ہے، وہ اس کے لیے آسان کر دیا گیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: جس نے (اللہ کی راہ میں) دیا اور (اپنے ربّ سے) ڈرا اور نیک بات کی تصدیق کی۔ تو ہم بھی اس کو آسان راستے کی سہولت دیں گے۔ لیکن جس نے بخیلی کی اور بے پرواہی برتی اور نیک بات کی تکذیب کی۔ تو ہم بھی اسی کے لیے اس کی تنگی و مشکل کے سامان میسر کر دیں گے۔ (سورۂ لیل: ۵ تا۱۰)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 216

۔ (۲۱۶) (وَ عَنْہُ فِیْ أُخْرٰی)۔عَنْ عَلِیٍّ (ؓ) قَالَ: کُنَّا مَعَ جَنَازَۃٍ فِیْ بَقِیْعِ الْغَرْقَدِ فَأَتَانَارَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَلَسَ وَجَلَسْنَا حَوْلَہُ وَمَعَہُ مِخْصَرَۃٌ یَنْکُتُ بِہَا، ثُمَّ رَفَعَ بَصَرَہُ فَقَالَ: ((مَا مِنْکُمْ مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوْسَۃٍ اِلَّا وَقَدْ کُتِبَ مََقْعَدُہَا مِنَ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ، اِلَّا قَدْ کُتِبَتْ شَقِیَّۃً أَوْ سَعِیْدَۃً۔)) فَقَالَ الْقَوْمُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَفَلَا نَمْکُثُ عَلَی کِتَابِنَا وَ نَدَعُ الْعَمَلَ، فَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ السَّعَادَۃِ فَسَیَصِیْرُ اِلَی السَّعَادَۃِ، وَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الشِّقْوَۃِ فَسَیَصِیْرُ اِلیَ الشِّقْوَۃِ؟ فقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((اِعْمَلُوْا! فَکُلٌّ مُیَسَّرٌ، أَمَّا مَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الشِّقْوَۃِ فَاِنَّہُ مُیَسَّرٌ لِعَمَلِ الشِّقْوَۃِ، وَأَمَّا مَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ السَّعَادَۃِ فَاِنَّہُ مُیَسَّرٌ لِعَمَلِ السَّعَادَۃِ۔)) ثُمَّ قَرَأَ: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطٰی وَاتَّقٰی} اِلٰی قَوْلِہِ {فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْعُسْرٰی}۔ (مسند أحمد: ۱۰۶۷)
۔ (دوسری روایت)سیدنا علی ؓ کہتے ہیں: ہم بقیع غرقد میں ایک جنازے کے ساتھ تھے، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ہمارے پاس تشریف لائے اور بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ارد گرد بیٹھ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس ایک چھڑی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اس سے زمین کو کرید، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اپنی نگاہ اوپر اٹھائی اور فرمایا: تم میں سے ہر ایک کا جنت اور جہنم کی صورت میںٹھکانہ لکھا جا چکا ہے اور یہ بھی لکھا جا چکا ہے کہ وہ خوش بخت ہے یا بد بخت۔ لوگوں نے کہا: کیا ہم اپنی کتاب پر اعتماد کر کے عمل ترک نہ کر دیں، کیونکہ جو خوش بختوں میں سے ہو گا، وہ خوش بختی تک رسائی حاصل کرلے گا اور جو بدبختوں میں سے ہو گا، وہ بدبختی تک پہنچ جائے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: عمل کرو، ہر ایک کو آسان کر دیا گیا ہے، جو بد بختوں میں سے ہے، اس کے لیے بدبختی کے عمل آسان کر دیئے گئے ہیں اور جو خوش بختوںمیں سے ہے، اس کے لیے خوش بختی کے عمل آسان کر دیئے گئے ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے یہ آیات تلاوت کیں: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطٰی وَاتَّقٰی۔ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی۔ فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْیُسْرٰی ۔ وَاَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی ۔ وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی۔ فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْعُسْرٰی ۔} … جس نے دیا (اللہ کی راہ میں) اور ڈرا (اپنے ربّ سے)، اور نیک بات کی تصدیق کی، تو ہم بھی اس کو آسان راستے کی سہولت دیں گے، لیکن جس نے بخیلی کی اور بے پرواہی برتی، اور نیک بات کی تکذیب کی، تو ہم بھی اس کے لیے تنگی و مشکل کے سامان میسر کر دیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 217

۔ (۲۱۷)۔عَنِ ابْنِ عُمَرَؓ قَالَ: قَالَ عُمَرُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَرَأَیْتَ مَا نَعْمَلُ فِیْہِ، أَفِیْ أَمْرٍ قَدْ فُرِ غَ مِنْہُ أَوْ مُبْتَدَأٍ أَوْ مُبْتَدَعٍ؟ قَالَ: ((فِیْمَا قَدْ فُرِ غَ مِنْہُ، فَاعْمَلْ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ! فَاِنَّ کُلًّا مُیَسَّرٌ، أَمَّا مَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ السَّعَادَۃِ فَاِنَّہُ یَعْمَلُ لِلسَّعَادَۃِ، وَأَمَّا مَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الشَّقَائِ فَاِنَّہُ یَعْمَلُ لِلشَّقَائِ۔)) (مسند أحمد: ۱۹۶)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر ؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم جو عمل کر رہے ہیں، ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، کیا یہ اس (تقدیر) کے مطابق ہیں، جس کا فیصلہ کیا جا چکا ہے، یا اب ان کی ابتداء ہو رہی ہے اور ان کو ایجاد کیا جا رہا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: یہ اس (تقدیر)کے مطابق ہے، جس کا فیصلہ کیا جا چکا ہے، اے ابن خطاب! عمل کر، پس ہر ایک کو آسان کر دیا گیا ہے، پس جو شخص خوش بختوں میں سے ہو، وہ خوش بختی کے لیے عمل کرتا ہے اور جو بد بختوںمیں سے ہو، وہ بد بختی کے لیے عمل کرتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 218

۔ (۲۱۸)۔عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرِوبْنِ الْعَاصِؓ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: خَرَجَ عَلَیْنَارَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَفِیْ یَدِہِ کِتَابَانِ فَقَالَ: ((أَتَدْرُوْنَ مَا ہٰذَانِ الْکِتَابَانِ؟۔)) قَالَ: قُلْنَا: لَا اِلَّا أَنْ تُخْبِرَنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ لِلَّذِیْ فِیْ یَدِہِ الْیُمْنٰی: ((ھٰذَا کِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی بِأَسْمَائِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ وَ أَسْمَائِ آبَائِ ہِمْ وَ قَبَائِلِہِمْ، ثُمَّ أُجْمِلَ عَلٰی آخِرِہِمْ لَا یُزَادُ فِیْھِمْ وَلَا یُنْقَصُ مِنْہُمْ أَبَدًا۔)) ثُمَّ قَالَ لِلَّذِیْ فِیْ یَسَارِہِ: ((ھٰذَا کِتَابُ أَہْلِ النَّارِ بِأَسْمَائِ ہِمْ وَ أَسْمَائِ آبَائِہِمْ وَقَبَائِلِہِمْ ثُمَّ أُجْمِلَ عَلٰی آخِرِہِمْ لَا یُزْادُ فِیْھِمْ وَلَا یُنْقَصُ مِنْہُمْ أَبَدًا۔))فقَالَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: فَلِاَیِّ شَیْئٍ اِذَنْ نَعْمَلُ اِنْ کَانَ ھٰذَا أَمْرٌ قَدْ فُرِ غَ مِنْہُ؟ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((سَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا! فَاِنَّ صَاحِبَ الْجَنَّۃِ یُخْتَمُ لَہُ بِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ وَ اِنْ عَمِلَ أَیَّ عَمَلٍ، وَاِنَّ صَاحِبَ النَّارِ لَیُخْتَمُ لَہُ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ وَاِنْ عَمِلَ أَیَّ عَمَلٍ۔)) ثُمَّ قَالَ بِیَدِہِ فَقَبَضَہَا، ثُمَّ قَالَ: ((فَرَغَ رَبُّکُمْ عَزَّوَجَلَّ مِنَ الْعِبَادِ۔)) ثُمَّ قَالَ بِالْیُمْنٰی فَنَبَذَہَا فَقَالَ: ((فَرِیْقٌ فِیْ الْجَنَّۃِ۔)) وَ نَبَذَ بِالْیُسْرٰی فَقَالَ: ((فَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ۔)) (مسند أحمد: ۶۵۶۳)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ہمارے پاس تشریف لائے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ہاتھ مبارک میں دو کتابیں تھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سی دو کتابیں ہیں؟ ہم نے کہا: جی نہیں، اے اللہ کے رسول! الّا یہ کہ آپ ہمیں بتا دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے دائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا: یہ کتاب ربّ العالمین کی طرف سے ہے، اس میں اہل جنت اور ان کے آباء اور قبائل کے نام ہیں اور اخیر پر ان کی میزان جوڑ دی گئی ہے (ٹوٹل)نہ ان میں بیشی ہو سکتی ہے، نہ کمی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے بائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں کہا: یہ جہنمیوں کی کتاب ہے، اس میں ان کے نام اور ان کے آباء اور قبائل کے نام ہیں اور اخیر پر ان کی میزان جوڑ دی گئی، اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔ صحابہ نے کہا: اگر اس معاملے سے اس قدر فارغ ہوا جا چکا ہے تو پھر ہم کس چیز کے لیے عمل کریں؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: راہِ صواب پر چلتے رہو اور میانہ روی اختیار کرو، بیشک جنتی آدمی کا اختتام جنت والوں کے عمل کے ساتھ ہو گا، اگرچہ وہ جون سا مرضی عمل کرتا رہے اور جہنمی آدمی کا اختتام اہلِ جہنم کے عمل کے ساتھ ہو گا، اگرچہ وہ جو مرضی عمل کرتا رہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اپنے ہاتھ کو بند کیا اور فرمایا: تمہارا ربّ اپنے بندوں سے فارغ ہو گیا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے دائیں سے اس کتاب کو پھینکا اور فرمایا: ایک فریق جنت میں جائے گا۔ پھر بائیں ہاتھ سے کتاب کو پھینکا اور فرمایا: ایک فریق جہنم میں جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 219

۔ (۲۱۹)۔عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ قَتَادَۃَ السُّلَمِیِّؓ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِنَّ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ ثُمَّ أَخَذَ الْخَلْقَ مِنْ ظَہْرِہِ وَقَالَ: ہٰؤُلَائِ فِی الْجَنَّۃِ وَلَا أُبَالِیْ وَ ہٰؤُلَائِ فِی النَّارِ وَلَا أُبَالِیْ۔)) قَالَ: فَقَالَ قَائِلٌ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَعَلٰی مَاذَا نَعْمَلُ؟ قَالَ: ((عَلَی مَوَاقِعِ الْقَدْرِ۔)) (مسند أحمد: ۱۷۸۱۰)
سیدنا عبد الرحمن بن قتادہ سلمی ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو پیدا کیا، پھر ان کی پیٹھ سے ان کی اولاد کو نکالا اور فرمایا: یہ جنت کے لئے ہیں اور میں بے پروا ہوں اور یہ جہنم کے لئے ہیں او رمیں کوئی پروا نہیں کرتا۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کس چیز کے مطابق عمل کریں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تقدیر کے مطابق۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 220

۔ (۲۲۰)۔عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍؓ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ سُئِلَ أَوْ قِیْلَ لَہُ: أَیُعْرَفُ أَہْلُ النَّارِ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ؟ فَقَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَ: فَلِمَ یَعْمَلُ الْعَامِلُوْنَ؟ قَالَ: ((یَعْمَلُ کُلٌّ لِمَا خُلِقَ لَہُ أَوْ لِمَا یُسِّرَ لَہُ۔)) (مسند أحمد: ۲۰۰۷۳)
سیدنا عمران بن حصین ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے یہ سوال کیا گیا ہے کہ کیا جہنمیوں کو جنتیوں سے پہچان لیا گیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جی ہاں۔ انھوں نے کہا: تو پھر عمل کرنے والے عمل کیوں کر رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ہر کوئی وہی عمل کر رہا ہے، جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا یا جو اس کے لیے آسان کر دیا گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 221

۔ (۲۲۱)۔عَنْ أَبِیْ الْأَسْوَدِ الدِّیْلِیِّ قَالَ: غَدَوْتُ عَلَی عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍؓ یَوْمًا مِنَ الْأَیَامٍ فَقَالَ: یَا أَبَاالْأَسْوَدِ! فَذَکَرَ الْحَدِیْثَ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ جُہَیْنَۃَ أَوْ مِنْ مُزَیْنَۃَ أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَرَأَیْتَ مَا یَعْمَلُ النَّاسُ الْیَوْمَ وَیَکْدَحُوْنَ فِیْہِ،شَیْئٌ قُضِیَ عَلَیْہِمْ أَوْمَضٰی عَلَیْہِمْ فِیْ قَدْرٍ قَدْ سَبَقَ أَوْ فِیْمَا یُسْتَقْبَلُوْنَ مِمَّا أَتَاہُمْ بِہِ نَبِیُّہُمْ وَاتُّخِذَتْ عَلَیْہِمْ حُجَّۃٌ؟ قَالَ: ((بَلْ شَیْئٌ قُضِیَ عَلَیْہِمْ وَمَضٰی عَلَیْہِمْ۔)) قَالَ: فَلِمَ یَعْمَلُوْنَ اِذًا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((مَنْ کَانَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ خَلَقَہُ لِوَاحِدَۃٍ مِنَ الْمَنْزِلَتَیْنِ یُہَیِّئُہُ لِعَمَلِہَا، وَتَصْدِیْقُ ذٰلِکَ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ: {فَأَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَ تَقْوَاہَا} (مسند أحمد: ۲۰۱۷۸)
ابو اسود دیلی کہتے ہیں: میں ایک دن صبح صبح سیدنا عمران بن حصین ؓ کے پاس گیا ، انھوں نے کہا: اے ابو اسود، پھر پوری حدیث ذکر کی، اس میں ہے: بیشک جہینہ یا مزینہ قبیلے کا ایک آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آجکل لوگ اپنے نبی کی لائی تعلیمات پر جو عمل اور محنت کر رہے ہیں اور جن کے ذریعے ان پر حجت قائم ہو چکی ہے، کیا یہ ایسی چیز ہے کہ جس کا تقدیر میں فیصلہ ہو چکا ہے، یا یہ از سرِ نو ہو رہا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: یہ ایسی چیز ہے کہ جس کا فیصلہ ہو چکا ہے اور جو اِن لوگوں پر جاری ہو چکی ہے۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر لوگ عمل کیوں کر رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو دو منزلوں میں سے ایک کے لیے پیدا کیا ہے تو وہ اس کو اس کے عمل کے لیے تیار بھی کر تا ہے، اس بات کی تصدیق اللہ تعالیٰ کی کتاب کی اس آیت میں ہے: پھر سمجھ دی اس کو بدکاری کی اور بچ کر نکلنے کی۔ (سورۂ شمس: ۸)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 222

۔ (۲۲۲)۔عن أَبِیْ الدَّرْدَائِؓ قَالَ: قَالَوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَرَأَیْتَ مَا نَعْمَلُ، أَمْرٌ قَدْ فُرِغَ مِنْہُ أَمْ أَمْرٌ نَسْتَأْنِفُہُ؟ قَالَ: ((بَلْ أَمْرٌ قَدْ فُرِغَ مِنْہُ۔)) قَالُوْا: فَکَیْفَ بِالْعَمَلِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((کُلُّ امْرِیئٍ مُہَیَّأٌ لِمَا خُلِقَ لَہُ۔)) (مسند أحمد: ۲۸۰۳۵)
سیدنا ابو درداءؓ سے مروی ہے کہ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم لوگ جو عمل کر رہے ہیں، ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، کیا یہ ایسی چیز ہے، جس (کا فیصلہ کر کے) اس سے فارغ ہو اجا چکا ہے، یا از سرِ نو ہو رہا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: یہ ایسی چیز ہے کہ جس سے فارغ ہوا جا چکا ہے۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر عمل کرنے کی کیا حقیقت ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ہر بندے کو اس چیز کے لیے تیار کر دیا جاتا ہے، جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 223

۔ (۲۲۳)۔عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَؓ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لِکُلِّ أُمَّۃٍ مَجُوْسٌ وَمَجُوْسُ أُمَّتِیَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لَا قَدَرَ، اِنْ مَرِضُوْا فَلَاتَعُوْدُوْہُمْ وَاِنْ مَاتُوْا فَلَا تَشْہَدُوْہُمْ۔)) (مسند أحمد: ۵۵۸۴)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ہر امت میں مجوسی ہوتے ہیں اور میری امت کے مجوسی لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ کوئی تقدیر نہیں ہے، اگر یہ لوگ بیمار پڑ جائیں تو ان کی تیمارداری نہ کرنا اور اگر یہ مر جائیں تو ان کے جنازوں میں حاضر نہیں ہونا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 224

۔ (۲۲۴) (وَعَنْہُ بِلَفْظٍ آخَرَ)۔عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ لِکُلِّ أُمَّۃٍ مَجُوْسًا وَاِنَّ مَجُوْسَ أُمَّتِی الْمُکُذِّبُوْنَ بِالْقَدَرِ، فَاِنْ مَاتُوْا فَلَا تَشْہَدُوْہُمْ وَاِنْ مَرِضُوْا فَلَا تَعُوْدُوْہُمْ۔)) (مسند أحمد: ۶۰۷۷)
۔ (دوسری روایت) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک ہر امت میں مجوسی ہوتے ہیں اور میری امت کے مجوسی وہ لوگ ہیں، جو تقدیر کو جھٹلانے والے ہیں، پس اگر یہ لوگ مر جائیں تو ان کے جنازوںمیں حاضر نہیں ہونا اور اگر یہ بیمار ہو جائیں تو ان کی تیمارداری نہیں کرنی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 225

۔ (۲۲۵)۔وَعَنْہُ اَیْضًا قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((سَیَکُوْنُ فِیْ ھٰذِہِ الْأُمَّۃِ مَسْخٌ، أَلَا وَذَاکَ فِی الْمُکَذِّبِیْنَ بِالْقَدَرِ وَالزِّنْدِیْقِیَّۃِ۔)) (مسند أحمد: ۵۸۶۷)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: عنقریب میری امت میں بھی مسخ ہو گا (یعنی شکلیں بگڑ جائیں گی)، خبردار! ایسے تقدیر کو جھٹلانے والوں اور زندیقوں میں ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 226

۔ (۲۲۶)۔عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((اِنَّ لِکُلِّ أُمَّۃٍ مَجُوْسًا، وَمَجُوْسُ ھٰذِہِ الْأُمَّۃِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لَا قَدَرَ، فَمَنْ مَرِضَ مِنْہُمْ فَلَا تَعُوْدُوْہُمْ وَمَنْ مَاتَ مِنْہُمْ فَلَا تَشْہَدُوْہُ، وَہُمْ شِیْعَۃُ الدَّجَّالِ، حَقًّا عَلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ أَنْ یُلْحِقَہُمْ بِہِ۔)) (مسند أحمد: ۲۳۸۴۹)
سیدنا حذیفہ بن یمان ؓ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ’بیشک ہر امت میں مجوسی ہوتے ہیں اور اس امت کے مجوسی وہ لوگ ہیں، جو یہ کہتے ہیں کہ کوئی تقدیر نہیں ہے، اگر ان میں سے کوئی بیمار پڑ جائے تو اس کی تیمارداری نہیں کرنی اور اگر کوئی مر جائے تو اس کے جنازے میں حاضر نہیں ہونا، یہ لوگ دجال کے پیروکار ہوں گے اور اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ اِن کو اُسی کے ساتھ ملا دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 227

۔ (۲۲۷)۔عَنْ أَبِیْ الدَّرْدَائِ ؓ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ عَاقٌّ وَلَا مُدْمِنُ خَمْرٍ وَلَا مُکَذِّبٌ بِقَدَرٍ۔)) (مسند أحمد: ۲۸۰۳۲)
سیدنا ابو درداء ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: نافرمان و بد سلوک، ہمیشہ شراب پینے والا اور تقدیر کو جھٹلانے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 228

۔ (۲۲۸)۔عَنْ عَمْروٍ بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ: خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ یَوْمٍ وَالنَّاسُ یَتَکَلَّمُوْنَ فِی الْقَدَرِ، قَالَ: وَکَأَنَّمَا تَفَقَّأَ فِیْ وَجْہِہِ حَبُّ الرُّمَّانِ مِنَ الْغَضَبِ، قَالَ: فَقَالَ لَہُمْ: ((مَا لَکُمْ تَضْرِبُوْنَ کِتَابَ اللّٰہِ بَعْضَہُ بِبَعْضٍ، بِھٰذَا ہَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ۔)) قَالَ: فَمَا غَبَطْتُّ نَفْسِیْ بِمَجْلِسٍ فِیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ أَشْہَدْہُ بِمَا غَبَطْتُ نَفْسِیْ بِذٰلِکَ الْمَجْلِسِ، أَنِّی لَمْ أَشْہَدْہُ۔ (مسند أحمد: ۶۶۶۸)
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ایک دن باہر تشریف لائے اور لوگ تقدیر کے موضوع پر گفتگو کر رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو اتنا غصہ آیا کہ یوں لگا کہ انار کا دانہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے چہرے پر پھٹ گیا ہے (یعنی غصے سے چہرہ سرخ ہو گیا)، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تمہیں کیا ہو گیا ہے، اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ایک حصے کو دوسرے سے ٹکرا رہے ہو، اسی وجہ سے تم سے پہلے والے لوگ ہلاک ہو گئے۔ سیدنا عبد اللہ نے کہا: جس مجلس میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ہوتے تھے، اس میں حاضر نہ ہونے کا اتنا رشک کبھی نہیں ہوا تھا، جو اس مجلس کے بارے میں ہوا کہ کاش میں اس میں موجود نہ ہوتا (تاکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے غصے کا مصداق بننے سے بچ جاتا)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 229

۔ (۲۲۹)۔عَنْ عُمَرَؓ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((لَا تُجَالِسُوْا أَہْلَ الْقَدَرِ وَلَا تُفَاتِحُوْہُمْ۔)) وَقَالَ أَبُوْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ مَرَّۃً: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند أحمد: ۲۰۶)
سیدنا عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: نہ تم اہلِ قدر (یعنی تقدیر کو جھٹلانے والوں) کی مجلس اختیار کرو اور نہ ان کو حاکم بناؤ (یا ان سے بحث مباحثہ نہ کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 230

۔ (۲۳۰)۔عَنْ نَافِعٍ قَالَ: کَانَ لِابْنِ عُمَرَ (ؓ) صَدِیْقٌ مِنْ أَھْلِ الشَّامِ یُکَاتِبُہُ، فَکَتَبَ اِلَیْہِ مَرَّۃً عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ أَنَّہُ بَلَغَنِیْ تَکَلَّمْتَ فِیْ شَیْئٍ مِنَ الْقَدَرِ فَاِیَّاکَ أَنْ تَکْتُبَ اِلَیَّ، فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((سَیَکُوْنُ فِیْ أُمَّتِیْ أَقْوَامٌ یُکَذِّبُوْنَ بِالْقَدْرِ۔)) (مسند أحمد: ۵۶۳۹)
نافع کہتے ہیں: سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓکا شام میں ایک دوست تھا، وہ اِن کو خط لکھتا رہتا تھا، ایک دفعہ سیدنا عبد اللہ ؓ نے ان کی طرف یہ بات لکھی: مجھے تمہارے بارے میں یہ بات موصول ہوئی ہے کہ تم نے تقدیر کے مسئلے پر کچھ (ناجائز) گفتگو کی ہے، اس لیے اب مجھے خط لکھنے سے گریز کرنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: میری امت میں ایسے لوگ بھی ہوں گے، جو تقدیر کو جھٹلائیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 231

۔ (۲۳۱)۔عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدٍ الْمَکِّیِّ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قِیْلَ لِابْنِ عَبَّاسٍؓ: اِنَّ رَجُلًا قَدِمَ عَلَیْنَا یُکَذِّبُ بِالْقَدَرِ، فَقَالَ: دُلُّوْنِیْ عَلَیْہِ، وَھُوَ یَوْمَئِذٍ قَدْ عَمِیَ، قَالُوْا: وَمَا تَصْنَعُ بِہِ یَا ابْنَ عَبَّاسٍ؟ قَالَ: وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَئِنِ اسْتَمْکَنْتُ مِنْہُ لَأَعَضَّنَّ أَنْفَہُ حَتَّی أَقْطَعَہُ وَلَئِنْ وَقَعَتْ رَقَبَتُہُ فِیْ یَدَیَّ لَأَدُقَّنَّہَا، فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((کَأَنِّیْ بِنِسَائِ بَنِیْ فِہْرٍ یَطُفْنَ بِالْخَزْرَجِ تَصْطَفِقُ أَلْیَاتُہُنَّ مُشْرِکَاتٍ۔)) ھٰذَا أَوَّلُ شِرْکِ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ، وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَیَنْتَہِیَنَّ بِھِمْ سُوْئُ رَأْیِہِمْ حَتّٰی یُخْرِجُوْا اللّٰہَ مِنْ أَنْ یَکُوْنَ قَدَّرَ خَیْرًا، کَمَا أَخْرَجُوْہُ مِنْ أَنْ یَکُوْنَ قَدَّرَ شَرًّا۔ (مسند أحمد: ۳۰۵۴)
محمد بن عبید مکی کہتے ہیں کہ کسی نے سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ سے کہا: ہمارے پاس ایک آدمی آیا ہے، وہ تقدیر کو جھٹلاتا ہے، انھوں نے کہا: مجھے اس کے پاس لے جاؤ، وہ اس وقت نابینا ہو چکے تھے، لوگوں نے کہا: اے ابن عباس! آپ اس کو کیا کریں گے؟ انھوں نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر میں نے اس پر قابو پا لیا تو اس کے ناک پر کاٹوں گا، یہاں تک کہ اس کو کاٹ دوں گا اور اگر میرے ہاتھوں میں اس کی گردن آ گئی تو اس کو توڑ دوں گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: گویا کہ میں بنو فہر کی ان خواتین کو دیکھ رہا ہوں، جو خزرج کا طواف کر رہی ہیں اور ان کے سرین حرکت کر رہے ہیں اور وہ مشرک ہیں۔ یہ اس امت کا پہلا شرک ہو گا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ان لوگوں کی یہ گھٹیا رائے اِن کو اس مقام تک پہنچا دے گی کہ یہ اللہ تعالیٰ کو اس چیز سے بھی نکال دیں کہ اس نے خیر کو مقدّر کیا ہے، جیسا کہ انھوں نے اُس کو اس چیز سے سے نکال دیا کہ اس نے شرّ کو مقدّر کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 232

۔ (۲۳۲)۔عَنِ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ: أَنَا رَأَیْتُ غَیْلَانَ یَعْنِیْ الْقَدَرِیَّ مَصْلُوْبًا عَلَی بَابِ دِمَشْقَ۔ (مسند أحمد: ۵۸۸۱)
ابن عون کہتے ہیں: میں نے غَیلان قدری کو دیکھا تھا، اس حال میں کہ اس کو بابِ دمشق پر پھانسی دی ہوئی تھی۔

Icon this is notification panel