157 Results For Hadith (Musnad Ahmad ) Book ()
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13185

۔ (۱۳۱۸۵)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((اَلَا اُخْبِرُکُمْ بِاَھْلِ النَّارِ وَاَھْلِ الْجَنَّۃِ، اَمَّا اَھْلُ الْجَنَّۃِ فَکُلُّ ضَعِیْفٍ مُتَضَعَّفٍ اَشْعَثَ ذِیْ طِمْرَیْنِ لَوْ اَقْسَمَ عَلٰی اللّٰہ لَاَبَرَّہُ، وَاَمَّا اَھْلُ النَّارِ فَکُلُّ جَعْظَرِیٍّ جَوَّاظٍ جَمَّاعٍ مَنَّاعٍ ذِیْ تَبَعٍ۔)) (مسند احمد: ۱۲۵۰۴)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں بتلانہ دوں کہ جہنم والے کو ن ہیں اور جنت والے کون ہیں؟ ہر وہ آدمی جو دنیوی طور پر کمزور ہو، جسے لوگ کمزور سمجھتے ہوں، پراگندہ اور غبار آلودہ ہو اور دو بوسیدہ سی چادریں پہن رکھی ہوں،یہ لوگ جنتی ہیں، ان کا اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ مقام ہے کہ اگر ان میں سے کوئی اللہ تعالیٰ پر قسم اٹھادے تو وہ ان کی قسم کو ضرور پورا کر دیتا ہے اور سخت مزاج، بد اخلاق، متکبر، مال و دولت جمع کرنے والا و بخیل اور موٹا تازہ آدمی (جو از راہِ تکبر) لوگوں سے آگے آگے چلنا پسند کرتا ہو، وہ جہنمی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13186

۔ (۱۳۱۸۶)۔ وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَھْلُ النَّارِ کُلُّ جَعْظَرِیٍّ جَوَّاظٍ مُسْتَکْبِرٍ جَمَّاعٍ مَنَّاعٍ وَاَھْلُ الْجَنَّۃِ الضُّعَفَائُ الْمَغْلُوْبُوْنَ۔)) (مسند احمد: ۷۰۱۰)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر وہ آدمی جو بد مزاج ،متکبر ، مال و دولت جمع کرنے والا اور بخیل ہو، وہ جہنمی ہے۔اور جو لوگ دنیوی لحاظ سے کمزور اور مغلوب سمجھے جاتے ہوں، وہ جنتی ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13187

۔ (۱۳۱۸۷)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَلَا اُنَبِّئُکُمْ بِأَھْلِ الْجَنَّۃِ؟ ھُمُ الضُّعَفَائُ الْمَظْلُوْمُوْنَ، اَلَا اُنَبِّئُکُمْ بِاَھْلِ النَّارِ؟ کُلُّ شَدِیْدٍ جَعْظَرِیٍّ۔)) (مسند احمد: ۸۸۰۷)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں بتلا نہ دوں کہ کون لوگ جنتی ہیں؟ جو دنیوی لحاظ سے کمزور اور مظلوم ہوں ۔ اورکیامیں تمہیں یہ بھی بتلا نہ دوں کہ جہنمی لوگ کون ہیں؟ ہر وہ آدمی جو سخت مزاج اور بد مزاج ہو، وہ جہنمی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13188

۔ (۱۳۱۸۸)۔ وَعَنْ سُرَاقَۃَ بْنِ مَالِکِ بْنِ جُعْشَمِ نِ الْمُدْلِجِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لَہُ: ((یَا سُرَاقَۃُ! اَلَا اُخْبِرُکَ بِاَھْلِ الْجَنَّۃِ وَاَھْلِ النَّارِ؟)) قَالَ: بَلٰییَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((اَمَّا اَھْلُ النَّارِفَکُلُّ جَعْظَرِیٍّ جَوَّاظٍ مُسْتَکْبِرٍ وَاَمَّا اَھْلُ الْجَنَّۃِ الضُّعَفَائُ الْمَغْلُوْبُوْنَ۔)) (مسند احمد: ۱۷۷۲۸)
سیدنا سراقہ بن مالک بن جعشم مدلجی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: سراقہ ! کیا میں تم کو بتلا نہ دوں کہ کون لوگ جتنی ہیں اور کون لوگ جہنمی ہیں؟ انھوں نے کہا: جی ضرور، اے اللہ کے رسول !آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر بد اخلاق ، بد مزاج اور متکبر آدمی جہنمی ہے اور جو لوگ دنیوی لحاظ سے کمزور اور مغلوب ہوں، وہ جنتی ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13189

۔ (۱۳۱۸۹)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنِّیْ لَاَعْلَمُ اَوَّلَ ثَلَاثَۃٍیَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ: اَلشَّہِیْدُ وَعَبْدٌ اَدّٰی حَقَّ اللّٰہِ وَحَقَّ مَوَالِیْہِ وَفَقِیْرٌ عَفِیْفٌ مَُتَعَفِّفٌ، وَاِنِّیْ لَاَعْلَمُ اَوَّلَ ثَلَاثٍ یَدْخُلُوْنَ النَّارَ: سُلْطَانٌ مُتَسَلِّطٌ، وَذُوْ ثَرْوَۃٍ مِنْ مَالٍ لَایُؤَدِّیْ حَقَّہُ، وَفَقِیْرٌ فَخُوْرٌ۔)) (مسند احمد: ۱۰۲۰۸)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں سب سے پہلے جانے والے تین قسم کے لوگوں کو میں جانتا ہوں: شہید ، وہ غلام جو اللہ کے حقوق اور اپنے مالکوں کے حقوق صحیح طو رپر ادا کرتا ہو اور وہ پاکدامن فقیر جو دست ِ سوال دراز کرنے سے بچتا ہے، اور میں جہنم میں سب سے پہلے جانے والے تین قسم کے لوگوں کو (بھی) جانتا ہوں: وہ بادشاہ جو زبردستی لوگوں پر حکمرانی کرے، مال دار جو مال کے حقوق کو پورا نہ کرے اور غریب آدمی جو متکبر ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13190

۔ (۱۳۱۹۰)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَمَّا اَھْلُ النَّارِالَّذِیْنَ ھُمْ اَھْلُہَا لَایَمُوْتُوْنَ وَلاَ یَحْیَوْنَ وَاَمَّا اُنَاسٌ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِہِمُ الرَّحْمَۃَ فَیُمِیْتُہُمْ فِی النَّارِ فَیَدْخُلُ عَلَیْہِمُ الشُّفَعَائُ فَیَاْخُذُ الرَّجُلُ اَنْصَارَہُ فَیَبُثُّہُمْ اَوْ قَالَ: فَیَنْبُتُوْنَ عَلٰی نَہْرِ الْحَیَائِ اَوْ قَالَ: الْحَیَوَانِ اَوْقَالَ: اَلْحَیَاۃِ اَوْ قَالَ: نَہْرِ الْجَنَّۃِ فَیَنْبُتُوْنَ نَبَاتَ الْحَبَّۃِ فِیْ حَمِیْلِ السَّیْلِ۔)) قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَمَا تَرَوْنَ الشَّجَرَۃَ تَکُوْنُ خَضْرَائَ ثُمَّ تَکُوْنُ صَفْرَائَ اَوْ قَالَ تَکُوْنُ صَفْرَائَ ثُمَّ تَکُوْنُ خَضْرَائَ۔)) قَالَ: فَقَالَ بَعْضُہُمْ: کَاَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ بِالْبَادِیَۃِ۔ (مسند احمد: ۱۱۰۲۹)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ اہل جہنم، جنہوں نے جہنم میں ہی رہنا ہو گا، وہ وہاں نہ مریں گے اور نہ جی سکیں گے، اور اللہ تعالیٰ جن جہنمیوں پر رحم کرنا چاہتا ہو گا، وہ انہیں جہنم میں موت دے دے گا، پھر سفارش کرنے والے ان کے پاس پہنچیں گے اوران کے مدد گار ان کو لے جائیں گے اور ان کو نَہْرُ الْحَیَائِ یا نَھْرُ الْحَیَوَانِ یا نَھْرُ الْحَیَاۃِ یا نَہْرُ الْجَنَّۃِ میں ڈال دیں گے اور اس میں وہ اس طرح اگیں گے، جیسے جیسے سیلاب کی جھاگ میں دانہ اگتا ہے۔ کیا تم نے دیکھا نہیں درخت سبز ہوتے ہیں پھر زرد ہو جاتے ہیں، یا وہ زرد ہوتے ہیں اور سبز ہو جاتے ہیں۔ یہ سن کر صحابہ نے ایک دوسرے سے کہا: ایسے لگتا ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو دیہات میں رہتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13191

۔ (۱۳۱۹۱)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِحْتَجَّتِ الْجَنَّۃُ وَالنَّارُ، فَقَالَتِ الْجَنَّۃُ: یَارَبِّ! مَالِیْ لَایَدْخُلُنِیْ اِلَّا فُقَرَائُ النَّاسِ وَسَقَطُہُمْ، وَقَالَتِ النَّارُ: مَالِیْ لَایَدْخُلُنِیْ اِلَّا الْجَبَّارُوْنَ وَالْمُتَکِّبُرُوْنَ، فَقَالَ لِلنَّارِ: اَنْتِ عَذَابِیْ اُصِیْبُ بِکِ مَنْ اَشَائُ، وَقَالَ لِلْجَنَّۃِ: اَنْتِ رَحْمَتِیْ اُصِیْبُ بِکِ مَنْ اَشَائُ وَلِکُلِّ وَاحِدَۃٍ مِنْکُمَا مِلْؤُھَا ، فَاَمَّا الْجَنَّۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ یُنْشِیئُ لَھَا مَا یَشَائُ وَاَمَّا النَّارُ فَیُلْقَوْنَ فِیْہَا وَتَقُوْلُ: ھَلْ مِنْ مَزِیْدٍ حَتّٰییَضَعَ قَدَمَہُ فِیْہَا فَہُنَالِکَ تَمْتَلِی ئُ وَیُزْوٰی بَعْضُہَا اِلٰی بَعْضٍ وَتَقُوْلُ قَطْ قَطْ قَطْ۔)) (مسند احمد: ۷۷۰۴)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت اور جہنم کا کچھ تکرار ہوا، جنت نے کہا: اے میرے ربّ! میرا بھی کیا حال ہے کہ میرے اندر صرف فقیر اور مفلس قسم کے لوگ آئیں گے، اور جہنم نے کہا: میرا بھی کیا حال ہے کہ میرے اندر صرف ظالم اور متکبر قسم کے لوگ داخل ہوں گے، اللہ تعالیٰ نے آگ سے فرمایا: تو میرا عذاب ہے، میں جن بندوں کے بارے چاہوں گا، تجھے ان پر مسلط کر د وں گا، اور اس نے جنت سے فرمایا: تو میری رحمت ہے، میں جس کے بارے میں چاہوں گا، تیرے ذریعے اس پر مہربانی کروں گا، میں نے تم میں سے ہر ایک کو بھرنا ہے۔ رہا مسئلہ جنت کا تو اس کے لیے تو اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق نئی مخلوق بھی پیدا کرے گا، لیکن جہنم کا معاملہ یہ ہو گا کہ لوگوں کو تو جہنم میں ڈال دیا جائے گا، لیکن جہنم ابھی تک یہ کہہ رہی ہو گی کہ کیا کوئی مزید افراد ہیں، بالآخر اللہ تعالیٰ اپنا قدم اس میں رکھے گا اور اس طرح وہ بھر جائے گی اور اس کا بعض حصہ بعض کی طرف سکڑ جائے گا۔ اور وہ کہہ اٹھے گی کہ بس بس، کافی ہیں، کافی ہیںـ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13192

۔ (۱۳۱۹۲)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِفْتَخَرَتِ الْجَنَّۃُ وَالنَّارُ، فَقَالَتِ النَّارُ: یَارَبِّیَدْخُلُنِی الْجَبَابِرَۃُ وَالْمُتَکَبِّرُوْنَ وَالْمُلُوْکُ وَالْاَشْرَافُ، وَقَالَتِ الْجَنَّۃُ: اَیْ رَبِّ یَدْخُلُنِی الضُّعَفَائُ وَالْفُقَرَائُ وَالْمَسَاکِیْنُ، فَیَقُوْلُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی لِلنَّارِ: اَنْتِ عَذَابِیْ اُصِیْبُ بِکَ مَنْ اَشَائُ، وَقَالَ لِلْجَنَّۃِ: اَنْتِ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ وَلِکُلٍّ مِنْکُمَا مِلْؤُھَا، فَیُلْقٰی فِی النَّارِ اَھْلُہَا فَتَقُوْلُ: ھَلْ مِنْ مَزِیْدٍ قَالَ: وَیُلْقٰی فِیْہَا وَتَقُوْلُ ھَلْ مِنْ مَزِیْدٍ، وَیُلْقٰی فِیْہَا فَتَقُوْلُ: ھَلْ مِنْ مَزِیْدٍ، حَتّٰییَاْتِیَہَا تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ فَیَضَعُ قَدَمَہُ عَلَیْہَا فَتُزْوٰی فَتَقُوْلُ: قَدِیْ قَدِیْ وَاَمَّا الْجَنَّۃُ، فَیَبْقٰی فِیْہَا اَھْلُہَا مَاشَائَ اللّٰہُ اَنْ یَّبْقٰی فَیُنْشِیئُ اللّٰہُ لَھَا خَلْقًا مَایَشَائُ۔)) (مسند احمد: ۱۱۱۱۵)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت اور جہنم نے ایک دوسرے پر برتری کا اظہار کیا، جہنم نے کہا: اے میرے ربّ! ! میرے اندر ظالم ، جابر، متکبر ، حکمران اور سردار قسم کے لوگ داخل ہوں گے، اور جنت نے کہا: اے میرے ربّ ! میرے اندر کمزور ، فقیر اور مسکین قسم کے لو گ داخل ہوں گے، اللہ تعالیٰ نے جہنم سے کہا: تو میرا عذاب ہے، میں جن لوگوں کو عذاب سے دوچار کرنا چاہوں گا، تجھے ان پر مسلط کروں گا، اور اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا: تو میری رحمت ہے، جو ہر چیز سے وسیع ہے، اور تم دونوں کو بھر دیاجائے گا، اہل جہنم کو جہنم میں ڈالا جائے گا، لیکن جہنم مزید افراد کا مطالبہ کرے گی، پھر لوگوںکو اس میں ڈالا جائے گے، لیکن یہی کہے گی کیا مزید ہیں، پھر لوگوں کو اس میں ڈالا جائے گا، لیکن وہ کہے گی کہ کیا مزید ہیں (ابھی تک گنجائش باقی ہے)، یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم رکھے گا تو وہ سکڑ جائے گی اور اس کے کنارے ایک دوسرے سے مل جائیں گے اور وہ کہے گی: بس بس۔ رہا مسئلہ جنت کا تو اس میں مزید افراد کی گنجائش بچ جائے گی، اس لیے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جتنی چاہے گا، نئی مخلوق پیدا کرے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13193

۔ (۱۳۱۹۳)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((حُفَّتِ الْجَنَّۃُ بِالْمَکَارِہٖوَحُفَّتِالنَّارُبِالشَّہَوَاتِ۔)) (مسنداحمد: ۷۵۲۱)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت کو ناپسندیدہ امور کے ساتھ اور جہنم کو لذت والے امور کے ساتھ گھیرا گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13194

۔ (۱۳۱۹۴)۔ وَعَنْ اَنَسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِثْلَہُ۔ (مسند احمد: ۱۲۵۸۷)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اسی قسم کی حدیث بیان کی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13195

۔ (۱۳۱۹۵)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : لَمَّا خَلَقَ اللّٰہُ الْجَنَّۃَ وَالنَّارَ، اَرْسَلَ جِبْرِیْلَ قَالَ: اُنْظُرْ اِلَیْہَا وِاِلٰی مَا اَعْدَدْتُّ لِاَھْلِہَا فِیْہَا فَجَائَ فَنَظَرَ اِلَیْہَا وَاِلٰی مَا اَعَدَّ اللّٰہُ لِاَھْلِہَا فِیْہَا فَرَجَعَ اِلَیْہِ، قَالَ: وَعِزَّتِکَ! لَا یَسْمَعُ بِہَا اَحَدٌ اِلَّا دَخَلَہَا، فَاَمَرَ بِہَا فَحُجِبَتْ بِالْمَکَارِہِ قَالَ: اِرْجِعْ اِلَیْہَافَانْظُرْ اِلَیْہَا وَاِلٰی مَا اَعْدَدْتُّ لِاَھْلِہَا فِیْہَا، قَالَ: فَرَجَعَ اِلَیْہَا وَاِذَا ھِیَ قَدْ حُجِبَتْ بِالْمَکَارِہٖ،فَرَجَعَاِلَیْہِ، فَقَالَ: وَعِزَّتِکَ! قَدْ خَشِیْتُ اَنْ لَا یَدْخُلُہَا اَحَدٌ، قَالَ: اِذْھَبْ اِلَی النَّارِ فَانْظُرْ اِلَیْہَا وَاِلٰی مَااَعْدَدْتُّ لِاَھْلِہَا فِیْہَا، فَاِذَا ھِیَیَرْکَبُ بَعْضُہَا بَعْضًا، فَرَجَعَ قَالَ: وَعِزَّتِکَ لَقَدْ خَشِیْتُ اَنْ لَّا یَسْمَعَ بِہَا اَحَدٌ فَیَدْخُلُہَا فَاَمَرَ بِہَا فَحُفَّتْ بِالشَّہَوَاتِ، فَقَالَ: وَعِزَّتِکَ لَقَدْ خَشِیْتُ اَنْ لَّا یَنْجُوَ مِنْہَا اَحَدٌ اِلَّا دَخَلَہَا۔)) (مسند احمد: ۸۳۷۹)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے جنت اور جہنم کو پیدا کیا تو جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا اور اس سے کہا: جنت کو اور اس میں اہل جنت کے لیے تیار کردہ چیزوں کو دیکھو، انھوں نے جنت میں آکر اسے دیکھا اور وہاں اللہ تعالیٰ نے اہل ِ جنت کے لیے جو کچھ تیار کیا ہے، اسے بھی دیکھا اور اللہ تعالیٰ کی طرف واپس آکر کہا: تیری عزت کی قسم! اس کے بارے میں تو جو بھی سنے گا، وہ اس میں داخل ہو گا۔ اُدھر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا اور جنت کے ارد گرد ناپسندیدہ کاموں کی باڑ لگا دی گئی، اور ان کو دوبارہ حکم دیا کہ اب جا کر جنت کو دیکھواور ان چیزوں کو دیکھو جو میں نے اپنے بندوں کے لیے جنت میں تیار کی ہیں، جبرائیل علیہ السلام جنت کی طرف گئے اور اس کے ارد گرد انسانوں کے ناپسندیدہ کاموں کی باڑ لگی ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف واپس جا کر کہا: تیری عزت کی قسم! مجھے تو اندیشہ ہے کہ ایک آدمی بھی جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو حکم دیا کہ جاؤ اور جہنم اور اس میں اہل جہنم کے لیے تیار کردہ چیزوں کو دیکھ کر آؤ، انہوں نے جا کر دیکھا کہ جہنم کے بعض حصے بعض حصوں پر چڑھ رہے ہیں، وہ واپس چلے گئے اور جا کر کہا: تیری عزت کی قسم! میں سمجھتا ہوں کہ جو کوئی بھی ا س جہنم کے بارے میں سنے گا، وہ اس میں داخل نہیں ہو گا، اُدھر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا اور جہنم کے ارد گرد شہوات یعنی انسانوں کے پسندیدہ کاموں کی باڑ لگا دی گئی، جبرائیل علیہ السلام نے ان کو دیکھ کر کہا: تیری عزت کی قسم! مجھے تو لگتا ہے کہ کوئی آدمی بھی اس سے بچ نہیں سکے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13196

۔ (۱۳۱۹۶)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کُلُّ اَھْلِ النَّارِ یَرٰی مَقْعَدَہُ مِنَ الْجَنَّۃِ فَیَقُوْلُ: لَوْ اَنَّ اللّٰہَ ھَدَانِیْ، فَیَکُوْنُ عَلَیْہِمْ حَسْرَۃً، قَالَ: وَکُلُّ اَھْلِ الْجَنَّۃِیَرٰی مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ، فَیَقُوْلُ: لَوْلَا اَنَّ اللّٰہَ ھَدَانِیْ، قَالَ: فَیَکُوْنُ لَہُ شُکْرًا۔)) (مسند احمد: ۱۰۶۶۰)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر جہنمی جنت میں اپنی جگہ کو دیکھے گا اور کہے گا: کاش کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت دی ہوتی، اس طرح سے یہ چیز اس کے لیے باعث ِ حسرت ہوگی، اور ہر جتنی جہنم میں اپنی جگہ دیکھے گا اور کہے گا: اگر اللہ تعالیٰ مجھے ہدایت نہ دی ہوتی تو میں اس مقام میں ہوتا، اس طرح سے یہ چیز اس کے لیے مزید شکر کا باعث بنے گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13197

۔ (۱۳۱۹۷)۔ وَعَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یُوْتٰی بِالرَّجُلِ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ فَیَقُوْلُ لَہُ: یَا ابْنَ آدَمَ کَیْفَ وَجَدْتَّ مَنْزِلَکَ؟ فَیَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ خَیْرَ مَنْزِلٍ، فَیَقُوْلُ: سَلْ وَتَمَنَّ، فَیَقُوْلُ: مَا اَسْاَلُ وَاَتَمَنّٰی اِلَّا اَنْ تَرُدَّنِیْ اِلَی الدُّنْیَا فَاُقْتَلَ فِیْ سَبِیْلِکَ عَشْرَ مَرَّاتٍ لِمَا یَرٰی مِنْ فَضْلِ الشَّہَادَۃِ، وَیُوْتٰی بِالرَّجُلِ مِنْ اَھْلِ النَّارِ فَیَقُوْلُ لَہُ: اِبْنَ اٰدَمَ کَیْفَ وَجَدْتَّ مَنْزِلَکَ؟ فَیَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ! شَرَّ مَنْزِلٍ، فَیَقُوْلُ: اَتَفْتَدِیْ مِنْہُ بِطِلَاعِ الْاَرْضِ ذَھَبًا؟ فَیَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ! نَعَمْ، فَیَقُوْلُ:کَذَبْتَ قَدْ سَاَلْتُکَ اَقَلَّ مِنْ ذٰلِکَ وَاَیْسَرَ فَلَمْ تَفْعَلْ، فَیُرَدُّ اِلَی النَّارِ۔)) (مسند احمد: ۱۳۱۹۴)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک جنتی آدمی کو لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: ابن آدم! تم نے اپنے ٹھکانے کو کیسا پایا؟ وہ کہے گا: اے میرے ربّ! ! بہترین ٹھکانہ، اللہ تعالیٰ کہے گا: مزید سوال کرو اورمزید تمنا کرو۔ وہ کہے گا:میں کوئی سوال نہیں کرتا اور میں کوئی تمنا نہیں کرتا، مگر یہ کہ تو مجھے دنیا میں واپس لوٹا دے تاکہ میں دس دفعہ تیرے راستے میں شہید ہو سکوں، اس کی اس بات کی وجہ شہادت کی فضیلت ہو گی، پھر ایک جہنمی آدمی کو لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اسے پوچھے گا: آدم کے بیٹے! کیسا پایا تو نے اپنے ٹھکانے کو؟ وہ کہے گا: اے میرے ربّ! بدترین جگہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اگر روئے زمین کے برابر تیرے پاس سونا ہوتو کیا تو اس جگہ سے بچنے کے لیے وہ دے دے گا؟ وہ کہے گا: جی ہاں، میرے ربّ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹ بول رہا ہے، میں نے تو تجھ سے اس سے کم اور آسان بات کامطالبہ کیا تھا لیکن تو نے تو وہ بھی نہیں کیا تھا، پھر اسے جہنم کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13198

۔ (۱۳۱۹۸)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یُوْتٰی بِاَنْعَمِ اَھْلِ الدُّنْیَا مِنْ اَھْلِ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُصْبَغُ فِی النَّارِ صَبْغَۃً ثُمَّ یُقَالُ لَہُ: یَا ابْنَ آدَمَ! ھَلْ رَاَیْتَ خَیْرًا قَطُّ؟ ھَلْ مَرَّ بِکَ نَعِیْمٌ قَطُّ؟ فَیَقُوْلُ: لَا، وَاللّٰہِ! یَارَبِّ! وَیَوْتٰی بِاَشَدِّ النَّاسِ فِی الدُّنْیَا مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ وَیُصْبَغُ فِی الْجَنَّۃِ صَبْغَۃً فَیُقَالُ لَہُ: ابْنَ آدَمَ ھَلْ رَأَیْتَ بُوْسًا قَطُّ؟ ھَلْ مَرَّ بِکَ شِدَّۃٌ قَطُّ؟ فَیَقُوْلُ: لَا وَاللّٰہِ! یَارَبِّ! مَا مَرَّ بِیْ بُؤْسٌ قَطُّ وَلَا رَاَیْتُ شِدَّۃً قَطُّ۔)) (مسند احمد: ۱۳۱۴۳)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسو ل اللہ تعالیٰ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن ایک جہنمی کو لایا جائے گا، جو دنیا میں سب سے زیادہ خوش حال تھا، اسے جہنم میں ایک غوطہ دیا جائے گا اور پھر اس سے کہا جائے گا: اے ابن آدم! کیا تو نے کبھی کوئی اچھائی دیکھی ہے؟ کیا کبھی تو نے کوئی نعمت استعمال کی؟ وہ کہے گا: جی نہیں، اللہ کی قسم! اے میرے ربّ! اسی طرح ایک جنتی آدمی کو بلایا جائے گا، جو دنیا میں سب سے زیادہ دکھوں اور شدتوں والا تھا، اسے جنت میں ایک چکر دیا جائے گا، اس کے بعد اس سے پوچھا جائے گا: اے ابن آدم! کیا تو نے کبھی کوئی تکلیف دیکھی ہے؟ کیا کبھی تجھے کوئی پریشانی آئی ہے؟ وہ کہے گا: جی نہیں، اللہ کی قسم! اے میرے رب! نہ مجھے کوئی تکلیف آئی ہے اور نہ کبھی کوئی پریشانی دیکھی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13199

۔ (۱۳۱۹۹)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا اَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیْلٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ بَیْنَا نَحْنُ صُفُوْفًا خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الظُّہْرِ اَوِ الْعَصْرِ اِذْ رَاَیْنَاہُیَتَنَاوَلُ شَیْئًا بَیْنَیَدَیْہِ وَھُوَ فِی الصَّلاَۃِ لِیَاْخُذَہُ ثُمَّ تَنَاوَلَہُ لِیَاْخُذَہُ ثُمَّ حِیْلَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُ ثُمَّ تَاَخَّرَ وَتَاَخَّرْنَا ثُمَّ تَاَخَّرَ الثَّانِیَۃَ وَتَاَخَّرْنَا، فَلَمَّا سَلَّمَ، قَالَ اُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ ( ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌): یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! رَاَیْنَاکَ الْیَوْمَ تَصْنَعُ فِی صَلَاتِکَ شَیْئًا لَمْ تَکُنْ تَصْنَعُہُ؟ قَالَ: ((اِنَّہُ عُرِضَتْ عَلَیَّ الْجَنَّۃُ بِمَا فِیْہَا مِنَ الزَّھْرَۃِ فَتَنَاوَلَتُ قِطَفًا مِنْ عِنَبِہَا ِلآتِیَکُمْ بِہٖوَلَوْاَخَذْتُہُلَاَکَلَمِنْہُمَنْبَیْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ، لَایَنْتَقِصُوْنَہُ فَحِیْلَ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُ، وَعُرِضَتْ عَلَیَّ النَّارُ فَلَمَّا وَجَدْتُّ حَرَّ شُعَاعِہَا تَاَخَّرْتُ وَاَکْثَرُ مَنْ رَاَیْتُ فِیْہَا النِّسَائُ اللَّاتِیْ اِنِ ائْتُمِنَّ اَفْشَیْنَ وَاِنْ سَاَلْنَ اَحْفَیْنَ۔)) قَالَ اَبِیْ: قَالَ زَکَرِیَّا بْنُ عَدِیٍّ: اَلْحَفْنَ وَاِنْ اُعْطِیْنَ لَمْ یَشْکُرْنَ، وَرَاَیْتُ فِیْہَا لُحَیَّ بْنَ عَمْرٍو یَجُرُّ قُصْبَہُ وَاَشْبَہُ مَنْ رَاَیْتُ بِہٖمَعْبَدُبْنُاَکْثَمَ۔)) قَالَمَعْبَدٌ: اَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ! یُخْشٰی عَلَیَّ مِنْ شُبْہِہٖفَاِنَّہُوَالِدٌقَالَ: ((لَا،اَنْتَمُوْمِنٌوَھُوَ کَافِرٌ وَھُوَ اَوَّلُ مَنْ جَمَعَ الْعَرَبَ عَلَی الْاَصْنَامِ۔)) (مسند احمد: ۲۱۵۷۰)
سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ظہر یا عصر کی نماز کی بات ہے، ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اقتدا میں صفیں بنائے یہ نماز ادا کر رہے تھے، ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز کے دوران اپنے سامنے کسی چیز کو بار بار پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اور اس کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی، پھر آپ پیچھے کو ہٹے اور ہم بھی پیچھے ہٹ گئے، آپ دوبارہ پیچھے کو ہوئے،ہم بھی پیچھے ہوگئے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز سے سلام پھیرا تو سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آج ہم نے آپ کو نماز کے دوران ایسا عمل کرتے دیکھا ہے کہ آپ اس سے قبل تو نماز میں ایسا کوئی عمل نہیں کرتے تھے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے سامنے جنت اپنی نعمتوں سمیت پیش کی گئی، میں نے اس کے انگوروں کا گچھا توڑنا چاہا تاکہ تمہیں دکھاؤں، اور اگر میںاس کو پکڑ لیتا اورزمین و آسمان کے درمیان موجود تمام مخلوقات اسے کھاتیں، تب بھی اس میں کوئی کمی نہ ہوتی، لیکن پھر میرے اور اس کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی، اسی طرح میرے سامنے جہنم کوپیش کیا گیا، جب میں نے اس کی شعاعوں کی حرارت محسوس کی تومیںپیچھے کو ہٹا، میںنے اس میں زیادہ تعداد ان عورتوں کی دیکھی کہ جنہیں جب کسی چیز کا امین بنایا جاتا ہے تو وہ اسے راز نہیں رکھتیں، اسی طرح جب سوال کرتی ہیں تو خوب اصرار کرتی ہیں، اور جب انہیں کوئی چیز دے دی جاتی ہے تو وہ خیانت کرتی ہیں، اور میںنے جہنم میں لحی بن عمرو کو دیکھا، وہ اپنی انتڑیوں کو گھسیٹ رہا تھا،اس کی شکل معبد بن اکثم کے مشابہ تھی۔ یہ سن کر سیدنا معبد بن اکثم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس کی اس مشابہت سے ڈر لگ رہا ہے، کیونکہ آخر وہ نسبی طور پر والد بنتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، (اس کا تجھے کوئی نقصان نہیں ہو گا، کیونکہ) تم مومن ہو اور وہ کافر تھا، بلکہ یہ وہی شخص ہے جو عربوں کو سب سے پہلے بت پرستی کی طرف لے گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13200

۔ (۱۳۲۰۰)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا اسْتَجَارَ عَبْدٌ مِّنَ النَّارِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ اِلَّا قَالَتِ النَّارُ: اَلّٰلہُمَّ اَجِرْہُ مِنِّیْ وَلَا یَسْاَلُ الْجَنَّۃَ اِلَّاقَالَتِ الْجَنَّۃُ: اَلّٰلہُمَّ اَدْخِلْہُ اِیَّایَ۔)) (مسند احمد: ۱۲۱۹۴)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی تین مرتبہ جہنم سے پناہ مانگتا ہے، تو جہنم کہتی ہے: اے اللہ! اس کو مجھ سے دور رکھنا، اسی طرح جوآدمی اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرتا ہے، توجنت کہتی ہے: اے اللہ! اس بندے کو میرے اندر داخل کرنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13201

۔ (۱۳۲۰۱)۔ وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَلْجَنَّۃُ اَقْرَبُ اِلٰی اَحَدِکُمْ مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہٖوَالنَّارُمِثْلُذٰلِکَ۔)) (مسند احمد: ۳۹۲۳)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت تمہارے جوتے کے تسمے سے زیادہ تمہارے قریب ہے اور جہنم بھی اسی طرح ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13202

۔ (۱۳۲۰۲)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : وَعَمْرٌو عَنْ یَحْیٰی بْنِ جَعْدَۃَ: ((اِنَّ نَارَکُمْ ہٰذِہٖجُزْئٌمِنْسَبْعِیْنَ جُزْئً ا مِنْ نَارِ جَہَنَّمَ وَضُرِبَتْ بِالْبَحْرِ مَرَّتَیْنِ وَلَوْلَا ذٰلِکَ مَاجَعَلَ اللّٰہُ فِیْہَا مَنْفَعَۃً لِاَحَدٍ۔)) (مسند احمد: ۷۳۲۳)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہاری یہ دنیا والی آگ، جہنم کی آگ کا سترواں حصہ ہے، جہنم کی آگ کو دو دفعہ سمندر پر ما رکر ہلکا اور ٹھنڈا کیا گیا، اور اگر ایسا نہ کیا جاتا تو کوئی آدمی بھی اس سے فائدہ نہ اٹھا سکتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13203

۔ (۱۳۲۰۲)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : وَعَمْرٌو عَنْ یَحْیٰی بْنِ جَعْدَۃَ: ((اِنَّ نَارَکُمْ ہٰذِہٖجُزْئٌمِنْسَبْعِیْنَ جُزْئً ا مِنْ نَارِ جَہَنَّمَ وَضُرِبَتْ بِالْبَحْرِ مَرَّتَیْنِ وَلَوْلَا ذٰلِکَ مَاجَعَلَ اللّٰہُ فِیْہَا مَنْفَعَۃً لِاَحَدٍ۔)) (مسند احمد: ۷۳۲۳)
سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دنیا کی یہ آگ جہنم کی آگ کا (۱۰۰) واں حصہ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13204

۔ (۱۳۲۰۴)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((نَارُکُمْ ہٰذِہٖمَایُوْقِدُ بَنُوْ آدَمَ جُزْئٌ وَاحِدٌ مِنْ سَبْعِیْنَ جُزْئً ا مِنْ حَرِّ جَہَنَّمَ۔)) قَالُوْا: وَاللّٰہِ! اِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃًیَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((فَاِنَّہَا فُضِّلَتْ عَلَیْہَا بِتِسْعٍ وَسِتِّیْنَ جُزْئً ا کُلُّہُنَّ مِثْلُ حَرِّھَا۔)) (مسند احمد: ۸۱۱۱)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہاری یہ آگ، جسے انسان جلاتے ہیں، جہنم کی آگ کا سترواں حصہ ہے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! لوگوں کو عذاب دینے کے لیے تو یہی آگ کافی تھی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بہرحال جہنم کی آگ اِس آگ کی بہ نسبت مزید انہتر گنا تیز ہے، ہر ایک کی حرارت اس کی طرح ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13205

۔ (۱۳۲۰۵)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِشْتَکَتِ النَّارُ اِلٰی رَبِّہَا فَقَالَتْ: رَبِّ اَکَلَ بَعْضِیْ بَعْضًا، فَنَفِّسْنِیْ، فَاَذِنَ لَھَا فِیْ کُلِّ عَامٍ بِنَفَسَیْنَ، وَفِیْ رِوَایَۃٍ: نَفَسٍ فِی الشِّتَائِ وَنَفَسٍ فِی الصَّیْفِ، فَاَشَدُّ مَا تَجِدُوْنَ مِنَ الْبَرْدِ مِنْ زَمْہَرِیْرِ جَہَنَّمَ وَاَشَدُّ مَا تَجِدُوْنَ مِنَ الْحَرِّ مِنْ حَرِّ جَہَنَّمَ،وَفِیْ رِوَایَۃٍ: مِنْ فَیْحِ جَہَنَّمَ۔)) (مسند احمد: ۷۷۰۸)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم نے اپنے ربّ سے شکایت کرتے ہوئے کہا: اے میرے رب! میرا بعض حصہ بعض حصے کو کھا رہا ہے، لہذا مجھے سانس لینے کی اجازت دو، اللہ تعالیٰ نے اس کو ہر ایک سال میں دو مرتبہ سانس لینے کی اجازت دی، ایک سانس سردیوں میں اور ایک سانس گرمیوں میں، یہ جو تم شدید ٹھنڈک محسوس کرتے ہو، وہ جہنم کی سخت سردی کا اثر ہوتا ہے اور جو تم شدید گرمی محسوس کرتے ہو، وہ جہنم کی گرمی کا یا بھاپ کا اثر ہوتاہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13206

۔ (۱۳۲۰۶)۔ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَوْ اَنَّ رَصَّاصَۃً مِثْلَ ہٰذِہٖ،وَاَشَارَاِلٰی مِثْلِ جُمْجُمَۃٍ، اُرْسِلَتْ مِنَ السَّمَائِ اِلَی الْاَرْضِ وَھِیَ مَسِیْرَۃُ خَمْسِمِائَۃِ سَنَۃٍ، لَبَلَغَتِ الْاَرْضَ قَبْلَ اللَّیْلِ،وَلَوْ اَنَّہَا اُرْسِلَتْ مِنْ رَاْسِ السِّلْسِلَۃِ لَسَارَتْ اَرْبَعِیْنَ خَرِیْفًا اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ قَبْلَ اَنْ تَبْلُغَ اَصْلَہَا اَوْ قَعْرَھَا۔)) (مسند احمد: ۶۸۵۶)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زمین و آسمان کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے، اس کے باوجود اگر ایک بڑے پیالے یا کھوپڑی کے برابر پتھر آسمان سے زمین کی طرف گرایا جائے تو وہ رات ہونے سے پہلے پہلے زمین پر پہنچ جائے گا،لیکن اگر اسے زنجیر کے ایک سرے سے نیچے کی طرف گرایا جائے تو وہ اس کی اصل یا تہہ تک پہنچنے سے پہلے چالیس برسوں تک چلتا رہے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13207

۔ (۱۳۲۰۷)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ کُنَّا عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمًا فَسَمِعْنَا وَجَبَۃً فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَتَدْرُوْنَ مَا ہٰذَا؟)) قُلْنَا: اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ، قَالَ: ((ہٰذَا حَجَرٌ، اُرْسِلَ فِیْ جَہَنَّمَ مُنْذُ سَبْعِیْنَ خَرِیْفًا فَالْآنَ اِنْتَہٰی اِلٰی قَعْرِھَا۔)) (مسند احمد: ۸۸۲۶)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ہم نے کسی چیز کے گرنے کی دھمک سنی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: کیا تم جانتے ہویہ کس چیز کی آواز ہے؟ ہم نے کہا: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا: یہ ایک پتھر کی آواز ہے، جسے آج سے ستر سال پہلے جہنم کے اندر ڈالا گیا تھا، وہ اب اس کی تہہ تک پہنچا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13208

۔ (۱۳۲۰۸)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((وَیْلٌ وَادٍ فِیْ جَہَنَّمَ یَہْوِیْ فِیْہِ الْکَافِرُ اَرْبَعِیْنَ خَرِیْفًا قَبْلَ اَنْ یَّبْلُغَ قَعْرَہُ، وَالصَّعُوْدُ جَبَلٌمِنْ نَّارٍیَصْعَدُ فِیْہِ سَبْعِیْنَ خَرِیْفًا،یَہْوِیْ بِہٖکَذٰلِکَفِیْہِ اَبَدًا۔)) (مسند احمد: ۱۱۷۳۵)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم کی ایک وادی کا نام ویل ہے، اس کی تہہ تک پہنچنے سے پہلے کافر اس میں چالیس برس گرتا رہے گا، اسی طرح جہنم میں آگے کے ایک پہاڑ کا نام صَعُوْد ہے۔ اس پر چڑھنے والا ستر سال میں اس پر چڑھتا ہے،پھر وہ اتنے ہی عرصے میں اس سے نیچے گرتا رہتا ہے، اور اس کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ یہی ہوتا رہے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13209

۔ (۱۳۲۰۹)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَوْ اَنَّ مِقْمَعًا مِنْ حَدِیْدٍ وُضِعَ فِی الْاَرْضِ فَاجْتَمَعَ لَہُ الثَّقَلَانِ مَا اَقَلُّوْہُ مِنَ الْاَرْضِ۔)) (مسند احمد: ۱۱۲۵۳)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر لوہے کا ایک گرز زمین پر رکھ دیا جائے اورتمام جن و انس اسے اٹھانے کے لیے جمع ہو جائیں، تو پھر بھی وہ اس کو نہیں اٹھا سکیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13210

۔ (۱۳۲۱۰)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَوْ ضُرِبَ الْجَبَلُ بِقَمْعٍ مِنْ حَدِیْدٍ لَتَفَتَّتَ ثُمَّ عَادَ کَمَا کَانَ، وَلَوْ اَنَّ دَلْوًا مِنْ غَسَقٍ یُہْرَاقُ فِی الدُّنْیَا لَاَنْتَنَ اَھْلُ الدُّنْیَا۔)) (مسند احمد: ۱۱۸۰۸)
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر لوہے کے گرز کو کسی پہاڑ پر مارا جائے تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہوجائے، وہ دوبارہ اپنی اصل حالت میں لوٹ آئے گا اور اگر جہنمیوں کی پیپ اور خون سے بھرا ہوا ایک ڈول دنیا میں بہا دیا جائے تو ساری دنیا والے بد بو کی اذیت سے بے چین ہوجائیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13211

۔ (۱۳۲۱۱)۔ وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ جُزْئِ نِ الزُّبَیْدِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ فِی النَّارِ حَیَّاتٍ کَاَمْثَالِ اَعْنُقِ الْبُخْتِ تَلْسَعُ اِحْدَاھُنَّ اللَّسْعَۃَ فَیَجِدُ حَمْوَتَہَا اَرْبَعِیْنَ خَرِیْفًا، وَاِنَّ فِی النَّارِ عَقَارِبَ کَاَمْثَالِ الْبِغَالِ الْمُوْکَفَۃِ تَلْسَعُ اِحْدَاھُنَّ اللَّسْعَۃَ فَیَجِدُ حَمْوَتَہَا اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً۔)) (مسند احمد: ۱۷۸۶۴)
سیدنا عبد اللہ بن جزء زبیدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم میں بختی اونٹوں کی گردنوں جیسے بڑے بڑے سانپ ہیں، جب ان میں سے ایک سانپ ایک دفعہ ڈسے گا تو آدمی چالیس سال تک اس کی زہر کی شدت محسوس کرے گا اور جہنم میں پالان والے خچروں کی جسامت کے بچھو ہوں گے، جب ان میں سے کوئی بچھو ڈسے گا تو آدمی چالیس سال تک اس کی تکلیف محسوس کرے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13212

۔ (۱۳۲۱۲)۔ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: اَتَدْرِیْ مَا سِعَۃُ جَہَنَّمَ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: اَجَلْ وَاللّٰہِ! مَا نَدْرِیْ، اِنَّ بَیْنَ شَحْمَۃِ اُذُنِ اَحَدِھِمْ وَبَیْنَ عَاتِقِہٖمَسِیْرَۃَ سَبْعِیْنَ خَرِیْفًا تَجْرِیْ فِیْہَا اَوْدِیَۃُ الْقَیْحِ وَالدَّمِ، قُلْتُ: اَنْہَارًا؟ قَالَ: لَا، بَلْ اَوْدِیَۃً، ثُمَّ قَالَ: اَتَرَوْنَ مَا سِعَۃُ جَہَنَّمَ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ:اَجَلْ وَاللّٰہِ! مَا نَدْرِیْ، حَدَّثَتْنِیْ عَائِشَۃُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اَنَّہَا سَاَلَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ قَوْلِہٖ {وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّمٰوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہٖ} فَاَیْنَ النَّاسُ یَوْمَئِذٍیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!؟ قَالَ: ((ھُمْ عَلٰی جَسْرِ جَہَنَّمَ۔)) (مسند احمد: ۲۵۳۶۸)
مجاہد سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے پوچھا: آیا تم جانتے ہو کہ جہنم کی وسعت کتنی ہے؟ میںنے کہا: جی نہیں، انھوں نے کہا: واقعی ہم یہ نہیں جانتے، بہرحال (وہ اس قدر وسیع ضرور ہے کہ) ایک جہنمی کے کان کی لو اورکندھے کے درمیان ستر برس کی مسافت ہوگی، اس میں پیپ اور خون کی وادیاں بہتی ہوں گی۔ میںنے کہا: پیپ اور خون کی نہریں؟ انھوں نے کہا: نہریں نہیں، وادیاں وادیاں،پھر انھوں نے کہا: کیا جانتے ہو جہنم کس قدر فراخ ہوگی؟ میںنے کہا: جی نہیں، انھوں نے کہا: واقعی ہم نہیں جانتے کہ وہ کس قدر فراخ ہے؟ البتہ سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے مجھے بیان کیا تھا کہ انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں پوچھا تھا: {وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّمٰوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہٖ} (اور قیامت کے دن ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور سارے آسمان بھی اس کے دائیں ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے) (سورۂ زمر: ۶۷) اے اللہ کے رسول ! اس تبدیلی کے وقت لوگ کہاں ہوں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ جہنم کے پل صراط پر ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13213

۔ (۱۳۲۱۳)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((لَسُرَادِقُ النَّارِ اَرْبَعُ جُدُرٍ کَثِفُ کُلِّ جِدَارٍ مِثْلُ مَسِیْرَۃِ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً۔)) (مسند احمد: ۱۱۲۵۴)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم کو چاروں طرف سے گھیرنے والی دیواریں چار ہیں، ہر دیوار کی موٹائی چالیس برس کی مسافت کے برابر ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13214

۔ (۱۳۲۱۴)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَخْرُجُ عُنُقٌ مِنَ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَہُ عَیْنَانِیَبْصُرُ بِہِمَا وَآذَانٌ یَسْمَعُ بِہِمَا وَلِسَانٌ یَنْطِقُ بِہٖفَیَقُوْلُ: اِنِّیْ وُکِّلْتُ بِثَلَاثَۃٍ: بِکُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ، وَبِکُلِّ مَنِ ادَّعٰی مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا آخَرَ، وَالْمُصَوِّرِیْنَ۔)) (مسند احمد: ۸۴۱۱)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن جہنم سے ایک گردن نکلے گی، اس کی دو آنکھیں ہوں گی، جن سے وہ دیکھتی ہوگی، اس کے کان ہوں گے جن سے وہ سنتی ہو گی اور اس کی ایک زبان بھی ہوگی، جس سے وہ بولتی ہو گی، وہ کہے گی: مجھے تین قسم کے لوگوں پر مسلط کیا گیا ہے: ایک وہ جو ظالم اور سرکش ہو ، دوسرا وہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کے معبود ہونے کا دعویٰ کرے اور تیسرا تصاویر بنانے والا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13215

۔ (۱۳۲۱۵)۔ وَعَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا تَزَالُ جَہَنَّمُ تَقُوْلُ: ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ قَالَ: فَیُدْلِیْ فِیْہَا رَبُّ الْعَالَمِیْنَ قَدَمَہُ قَالَ: فَیَنْزَوِیْ بَعْضُہَا اِلٰی بَعْضٍ وَتَقُوْلُ: قَطْ قَطْ بِعِزِّتِکَ، وَلَا یَزَالُ فِی الْجَنَّۃِ فَضْلٌ حَتّٰییُنْشِیئَ اللّٰہُ لَھَا خَلْقًا آخَرَ فَیُسْکِنَہُ فِیْ فُضُوْلِ الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۲۴۰۷)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم مزید افراد کامطالبہ کرتی رہے گی، بالآخر اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم ڈالے گا، اس طرح اس کے کنارے آپس میں مل جائیں گے اور وہ کہے گی: تیری عزت کی قسم! بس بس، لیکن جنت میں تمام اہل جنت کے بعد جگہ خالی رہ جائے گی، اسے بھرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نئی مخلوق پیدا کرکے اسے جنت کے خالی حصوں میں ٹھہرائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13216

۔ (۱۳۲۱۵)۔ وَعَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا تَزَالُ جَہَنَّمُ تَقُوْلُ: ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ قَالَ: فَیُدْلِیْ فِیْہَا رَبُّ الْعَالَمِیْنَ قَدَمَہُ قَالَ: فَیَنْزَوِیْ بَعْضُہَا اِلٰی بَعْضٍ وَتَقُوْلُ: قَطْ قَطْ بِعِزِّتِکَ، وَلَا یَزَالُ فِی الْجَنَّۃِ فَضْلٌ حَتّٰییُنْشِیئَ اللّٰہُ لَھَا خَلْقًا آخَرَ فَیُسْکِنَہُ فِیْ فُضُوْلِ الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۲۴۰۷)
(دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمام جہنمیوں کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا، لیکن جہنم کہے گی : کیا مزید افراد ہیں، بالآخرجب اللہ تعالیٰ اپنا قدم یا ٹانگ اس میںرکھے گا تو وہ کہے گی: بس بس۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13217

۔ (۱۳۲۱۷)۔ عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِم نِ الطَّائِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَال: قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِتَّقُوا النَّارَ)) قَالَ: شَاحَ بِوَجْہِہٖحَتّٰی ظَنَنَّا اَنَّہ یَنْظُرُ اِلَیْہَا ثُمَّ قَالَ: ((اِتَّقُوا النَّارَ)) وَاَشَاحَ بِوَجْہِہٖقَالَ: قَالَ: مَرَّتَیْنِ اَوْثَلاثًا ((اِتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشَقِّ تَمْرَۃٍ فَاِنْ لَمْ تَجِدُوْا فَبِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ۔)) (مسند احمد: ۱۹۶۰۶)
سیدنا عدی بن حاتم طائی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم سے بچو اس کے ساتھ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے چہرے سے ناگواری کا اظہار کیا، ہمیں یوں محسوس ہوا کہ گویا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسے دیکھ رہے ہیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم سے بچنے کے اسباب پیدا کرو۔ ساتھ ہی آپ نے اپنے چہرے سے ناگواری کا اظہار فرمایا، دو تین مرتبہ ایسے ہوا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم سے بچو، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے ہی ہو اور اگر کسی کو وہ بھی نہ ملے تو اچھی بات کے ذریعے ہی سہی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13218

۔ (۱۳۲۱۸)۔ وَعَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یَخْطُبُ وَعَلَیْہِ خَمِیْصَۃٌ لَہُ، فَقَالَ: لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : یَخْطُبُ وَھُوَ یَقُوْلُ: ((اَنْذَرْتُکُمُ النَّارَ۔)) فَلَوْ اَنَّ رَجُلًا مَوْضِعَ کَذَا وَکَذَا سَمِعَ صَوْتَہُ۔ (مسند احمد: ۱۸۵۵۰)
سماک بن حرب کہتے ہیں: میںنے سیدنا نعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سنا کہ وہ خطبہ دے رہے تھے اور انھوں نے اپنے اوپر ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی، انھوں نے کہا: میںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو خطبہ کے دوران یہ فرماتے ہوئے سنا: میں تمہیں جہنم سے خبردار کر چکا ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بات اس قدر بلند آواز سے فرمائی کہ اگر کوئی آدمی فلاں جگہ پر بھی ہوتا تو وہ بھی سن لیتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13219

۔ (۱۳۲۱۹)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ بِنَحْوِہٖ) وَفِیْہِ بَعْدَ قَوْلِہٖ ((اَنْذَرْتُکُمُالنَّارَ)) قَالَ: حَتّٰی لَوْ اَنَّ رَجُلاً کَانَ بِالسُّوْقِ لَسَمِعَہُ مِنْ مَقَامِیْ ہٰذَا، قَالَ حَتّٰی وَقَعَتْ خَمِیْصَۃٌ کَانَتْ عَلٰی عَاتِقِہٖعِنْدَرِجْلَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۸۵۸۸)
۔ (دوسری سند) اس میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فرمان میں تمہیں جہنم سے خبردار کر چکا ہوں کے بعد انھوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی یہ بات اس قدر بلند آواز سے تھی کہ اگر کوئی آدمی بازار میں ہوتا تو وہ میری اس جگہ سے وہ آواز سن لیتا۔ سماک کہتے ہیں: سیدنا نعمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی یہ بات اس قدر بلند آواز سے کہی کہ ان کی چادر کندھوں سے گر کر ان کے پاؤں میں جاگری۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13220

۔ (۱۳۲۲۰)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَالِثٍ بِنَحْوِہٖ) وَفِیْہِ: حَتّٰی لَوْ کَانَ رَجُلٌ کَانَ فِیْ اَقْصٰی السُّوْقِ سَمِعَہُ وَسَمِعَ اَھْلُ السُّوْقِ صَوْتَہُ وَھُوَ عَلٰی الْمِنْبَرِ۔ (مسند احمد: ۱۸۵۸۹)
۔ (تیسری سند) اس میں یوں ہے: اگر کوئی آدمی بازار کے پرلے کنارے میں بھی ہوتا تو وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آواز کو سن لیتا،بلکہ بازار والے سارے لوگ وہ آواز سن لیتے، جبکہ اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13221

۔ (۱۳۲۲۱)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا عَفَّانُ ثَنَا ھَمَّامٌ ثَنَا قَتَادَۃُ ثَنَا الْعَلَائُ بْنُ زِیَادٍ الْعَدَوِیُّ حَدَّثَنِیْیَزِیْدُ اَخُوْ مُطَرِّفٍ قَالَ: وَحَدَّثَنِیْ عُقْبَۃُ کُلُّ ھٰوُلَائِ یَقُوْلُ: حَدَّثَنِیْ مُطَرِّفٌ اَنَّ عِیَاضَ بْنَ حِمَارٍ ( ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) حَدَّثَہُ اَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: فِیْ خُطْبَتِہٖ: ((اِنَّاللّٰہَعَزَّوَجَلَّاَمَرَنِیْ اَنْ اُعَلِّمَکُمْ مَاجَہِلْتُمْ۔)) فَذَکَرَ اَھْلَ النَّارِ وَعَدَّ مِنْہُمُ الضَّعِیْفَ الَّّذِیْ لاَ زَبْرَ لَہُ، الذَّیْنَ ھُمْ فِیْکُمْ تَبَعٌ لَا یَبْتَغُوْنَ اَھْلاً وَلَا مَالًا، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِمُطَرِّفٍ: یَا اَبَا عَبْدِاللّٰہِ! اَمِنَ الْمَوَالِیْ ھُوَ اَمْ مِنَ الْعَرَبِ؟ قَالَ: ھُوَ التَّابِعَۃُیَکُوْنُ لِلرَّجُلِ یُصِیْبُ مِنْ خَدَمِہٖسَفَاحًاغَیْرَ نِکَاحٍ۔ (مسند احمد: ۱۸۵۳۰)
سیدنا عیاض بن حمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دوران ِ خطبہ یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں ان امور کی تعلیم دوں جو تم نہیں جانتے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اہل ِ جہنم کا تذکرہ کیا اور ان میں ایسے لوگوں کا بھی ذکر کیا جو کمزور ہوتے ہیں او رعقل سے عاری ہیں (یعنی جو آدمی ان کو پناہ دیتا ہے، اس سے خیانت کرتے ہیں اور اس کی حرمت تک کا خیال نہیں رکھتے) ، یہ وہ لوگ ہیں جو تمہارے پیرو ہو کر رہتے ہیں اور وہ اہل و مال کے متلاشی نہیں ہوتے۔ عقبہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے مطرف (حدیث کے راوی) سے کہا اے ابو عبداللہ! یہ لوگ غلاموں میں سے ہیں یا عربوں میں سے؟ انھوں نے کہا: وہ آدمی کے تابع ہوتے ہیں، لیکن اس کی لونڈیوں سے زنا کرتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13222

۔ (۱۳۲۲۲)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ عَنْ نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((یَخْرُجُ عُنُقٌ مِنَ النَّارِ یَتَکَلَّمُیَقُوْلُ: وُکِّلْتُ الْیَوْمَ بِثَلَاثَۃٍ،بِکُلِّ جَبَّارٍ، وَبِمَنْ جَعَلَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا آخَرَ،َ وَبِمَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ، فَیَنْطَوِیْ عَلَیْہِمْ فَیَقْذِفُہُمْ فِیْ غَمَرَاتِ جَہَنَّمَ۔)) (مسند احمد: ۱۱۳۷۴)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم سے ایک گردن نکلے گی اور وہ کہے گی: آج تین قسم کے لوگوں کو میرے سپرد کر دیا گیا ہے، ایک وہ جو ظالم و سرکش ہو، دوسرا وہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا اورتیسرا وہ جس نے کسی جان کو ناحق قتل کیا، پھر وہ اس قسم کے لوگوں کو لپیٹ کر جہنم کی گہرائیوں میں پھینک دے گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13223

۔ (۱۳۲۲۳)۔ وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ عِنْدَ ذِکْرِ اَھْلِ النَّارِ: ((کُلُّ جَعْظَرِیٍّ جَوَّاظٍ مُسْتَکْبِرٍ جَمَّاعٍ مَنَّاعٍ۔)) (مسند احمد: ۶۵۸۰)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اہل ِ جہنم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ہر بدمزاج (و بدخلق)،اکڑ کر چلنے والا، متکبر، بہت زیادہ مال جمع کرنے والا اور بہت زیادہ بخل کرنے والا یہ سب جہنمی لوگ ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13224

۔ (۱۳۲۲۴)۔ وَعَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ لَیْلٰی عَنْ اَبِیْ لَیْلٰی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقْرَأُ بِصَلاَۃٍ لَیْسَتْ بِفَرِیْضَۃٍ فَمَرَّ بِذِکْرِ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ فَقَالَ: ((اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ النَّارِ وَیْحٌ اَوْوَیْلٌ لِاَھْلِ النَّارِ۔)) (مسند احمد: ۱۹۲۶۵)
سیدنا ابو لیلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سنا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک نماز میں قراء ت کر رہے تھے، جبکہ وہ نماز فرض نہیں تھی، جب آپ جنت اور جہنم کے ذکرکے پاس سے گزرے تو آپ نے یہ دعا کی: اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ النَّارِ وَیْحٌ اَوْوَیْلٌ لِاَھْلِ النَّارِ۔ (میں جہنم سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں، اہل جہنم کے لیے ہلاکت ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13225

۔ (۱۳۲۲۵)۔ وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یَعْظُمُ اَھْلُ النَّارِ فِی النَّارِ حَتّٰی اِنَّ بَیْنَ شَحْمَۃِ اُذُنِ اَحَدِھِمْ اِلٰی عَاتِقِہٖمَسِیْرَۃَ سَبْعِمِائَۃِ عَامٍ، وَاِنَّ غِلَظَ جِلْدِہٖسَبْعُوْنَذِرَاعًاوَاِنَّضِرْسَہُ مِثْلُ اُحُدٍ۔)) (مسند احمد: ۴۸۰۰)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم میں اہل ِ جہنم کے جسم اتنے بڑے ہوجائیں گے کہ ان کے کانوں اور کندھوں کے درمیان سات سو برس کی مسافت کے برابر فاصلہ ہوگا اور ان کی جلد کی موٹائی ستر ہاتھ اور ان کی ایک ایک داڑھ اُحد پہاڑ کے برابر ہوگی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13226

۔ (۱۳۲۲۶)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ضِرْسُ الْکَافِرِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِثْلُ اُحُدٍ وَعَرَضُ جِلْدِہٖسَبْعُوْنَذِرَاعًاوَفَخِذُہُمِثْلُوَرِقَانِوَمَقْعَدُہُمِنَالنَّارِمِثْلُمَابَیْنِیْ وَبَیْنَ الرَّبَذَۃِ۔)) (مسند احمد: ۸۳۲۷)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ تعالیٰ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن کافر کی داڑھ احد پہاڑ کے برابر ہوگی، اس کی جلد کی موٹائی ستر ہاتھ ہوگی، اس کی ران و رقان پہاڑ کے برابر ہو گی اوراس کے سرین یہاں سے ربذہ مقام تک مسافت جتنے بڑے ہو جائیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13227

۔ (۱۳۲۲۷)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَحْوَہُ وَفِیْہِ: ((وَفَخِذُہُ مِثْلُ الْبَیْضَائِ وَمَقْعَدُہُ مِنَ النَّارِ کَمَا بَیْنَ قَدِیْدٍ اِلٰی مَکَّۃَ وَکَثَافَۃُ جِلْدِہٖاِثْنَانِوَاَرْبَعُوْنَذِرَاعًابِذِرَاعِالْجَبَّارِ۔)) (مسند احمد: ۱۰۹۴۴)
۔ (دوسری سند) اس میں ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنمی کی ران بیضاء پہاڑ کے برابر، اس کے سرین اتنے برے ہو جائیں گے کہ جیسے قدید سے مکہ تک کی مسافت ہے اور اس کی جلد کی موٹائی کسی بڑے آدمی کے ہاتھ کے حساب سے بیالیس ہاتھ ہو جائے گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13228

۔ (۱۳۲۲۸)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَقْعَدُ الْکَافِرِ فِی النَّارِ مَسِیْرَۃُ ثَلَاثَۃُ اَیَّامٍ، وَکُلُّ ضِرْسٍ مِثْلُ اُحُدٍ، وَفَخِذُہُ مِثْلُ وَرِقَانِ، وَجِلْدُہُ سِوٰی لَحْمِہٖوَعِظَامِہٖاَرْبَعُوْنَذِرَاعًا۔)) (مسند احمد: ۱۱۲۵۲)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم میں کافر کے سرین تین دنوں کے سفر کے برابر ہوجائیں گے،اس کی ہر داڑھ احد پہاڑ کے برابر ہو جائے گی، اس کی ران ورقان پہاڑ کے برابر ہو جائے گی اور اس کی جلد کی موٹائی چالیس ہاتھ ہو گی، جبکہ گوشت اور ہڈیاں اس کے علاوہ ہوں گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13229

۔ (۱۳۲۲۹)۔ عَنْ مُجَاہِدٍ اَنَّ النَّاسَ کَانُوْا یَطُوْفُوْنَ بِالْبَیْتِ وَابْنُ عَبَّاسٍ جَالِسٌ مَعَہُ مِحْجَنٌ، فَقَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (({یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖوَلَاتَمُوْتُنَّاِلَّاوَاَنْتُمْمُّسْلِمُوْنَ} لَوْاَنَّقَطْرَۃً مِّنَ الزَّقُّوْمِ قُطِرَتْ لَاَمَرَّتْ عَلٰی اَھْلِ الْاَرْضِ عَیْشَہُمْ، کَیْفَ مَنْ لَیْسَ لَھُمْ طَعَامٌ اِلَّا الزَّقُّوْمُ۔)) (مسند احمد: ۲۷۳۵)
مجاہد سے روایت ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خمد دار چھڑی لیے بیٹھے تھے، جبکہ لوگ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے، انھوں نے کہا: کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: {یٰـــٓـــاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ} (اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہ آئے مگر اس حالت میں کہ تم اسلام پر قائم دائم ہو۔) (سورۂ آل عمران:۱۰۲) اور اگر جہنم کے زقوم کا ایک قطرہ زمین پر ٹپکا دیا جائے تو وہ روئے زمین پر بسنے والوں کی زندگی کو کڑوا کر دے گا، (ذرا سوچو کہ) ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جن کی خوراک ہی زقوم ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13230

۔ (۱۳۲۳۰)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَوْ اَنَّ دَلْوًا مِنْ غَسَّاقٍ یُہْرَاقُ فِی الدُّنْیَا لَاَنْتَنَ اَھْلَ الدُّنْیَا۔)) (مسند احمد: ۱۱۲۴۹)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر جہنم میں سے پیپ کا ایک ڈول دنیا میں بہادیا جائے تو تمام دنیا والوں کو اپنی بد بو سے بے چین اور بدبودار کر دے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13231

۔ (۱۳۲۳۱)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ الْحَمِیْمَ لَیُصَبُّ عَلٰی رُؤُوْ سِہِمْ فَیَنْفُذُ الْجُمْجُمَۃَ حَتّٰییَخْلُصَ اِلٰی جَوْفِہٖفَیَسْلُتُ مَا فِیْ جَوْفِہٖحَتّٰییَمْرُقَ مِنْ قَدَمَیْہِ۔)) (مسند احمد: ۸۸۵۱)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم کا کھولتا ہوا پانی جہنمیوں کے سروں پر ڈالا جائے گا، وہ کھوپڑی کے اندر سے ہوتا ہوا ان کے پیٹ میں جا پہنچے گا، پھر ان کے پیٹ کے اندر والے اعضاء کو کاٹ اور جلا کر ان کے قدموں کے نیچے سے جا نکلے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13232

۔ (۱۳۲۳۲)۔ وَعَنْ اَبِیْ اِسْحٰقَ قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یَخْطُبُ وَھُوَ یَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِنَّ اَھْوَنَ اَھْلِ النَّارِ عَذَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ رَجُلٌ یُجْعَلُ فِی اَخْمَصِ قَدَمَیْہِ نَعْلَانِ مِنْ نَّارٍ یَغْلِیْ مِنْہُمَا دِمَاغُہُ۔)) (مسند احمد: ۱۸۶۰۳)
سیدنانعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک خطبے میں کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جہنم میں سب سے کم عذاب والا آدمی وہ ہے کہ جس کے پاؤں میں آگ کے دو جوتے پہنا دیئے جائیں گے، جن کی حرارت سے اس کا دماغ کھولنے لگے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13233

۔ (۱۳۲۳۳)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَھْوَنُ اَھْلِ النَّارِ عَذَابًا رَجُلٌ عَلَیْہِ نَعْلَانِ یَغْلِیْ مِنْہُمَا دِمَاغُہُ۔)) (مسند احمد: ۹۵۷۳)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے فرمایا: جہنم میں سب سے کم اور ہلکے عذاب والا آدمی وہ ہوگا جسے آگ کے جوتے پہنائے جائیں گے اور ان کی وجہ سے اس کا دماغ کھولنے لگے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13234

۔ (۱۳۲۳۴)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ: ((اَھْوَنُ اَھْلِ النَّارِ عَذَابًا رَجُلٌ فِیْ رِجْلَیْہِ نَعْلَانِ یَغْلِیْ مِنْہُمَا دِمَاغُہُ، وَمِنْہُمْ فِی النَّارِ اِلٰی کَعْبَیْہِ مَعَ اِجْرَائِ الْعَذَابِ، وَمِنْہُمْ مَنْ فِی النَّارِ اِلٰی رُکْبَتَیْہِ مَعَ اِجْرَائِ الْعَذَابِ وَمِنْہُمْ مَنْ ھُوَ فِی النَّارِ اِلٰی صَدْرِہٖمَعَاِجْرَائِالْعَذَابِ،وَمِنْہُمْمَنْقَدِاغْتُمِرَفِی النَّارِ۔)) قَالَ عَفَّانٌ: (اَحَدُ الرُّوَاۃِ) ((مَعَ اِجْرَا ئِ الْعَذَابِ قَدِ اغْتُمِرَ۔)) (مسند احمد: ۱۱۱۱۶)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنمیوں میں سب سے کم عذاب والا آدمی وہ ہوگا، جسے آگ کے جوتے پہنائے جائیں گے، ان کی وجہ سے اس کا دماغ کھولنے لگے گا، بعض جہنمی ایسے ہوں گے کہ ان کے ٹخنوں تک آگ ہوگی اور اس کے ساتھ ان کو مزید عذاب بھی دیاجائے گا، بعض کے گھٹنوں تک آگ ہو گی اور اس کے ساتھ اور عذاب بھی دیا جائے گا، بعض کے سینہ تک آگ ہوگی اور اس کے سا تھ ان کو مزید عذاب بھی دیا جائے گا اور بعض تو ایسے ہوں گے کہ مکمل طور پر آگ میںڈوبے ہوئے ہوں گے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کو مزید عذاب بھی دیا جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13235

۔ (۱۳۲۳۵)۔ وَعَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّہٗسَمِعَنَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِنَّ مِنْہُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی کَعْبَیْہِ، وَمِنْہُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی رُکْبَتَیْہِ، وَمِنْہُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی حُجْزَتِہٖ،وَمِنْہُمْمَنْتَاْخُذُہُالنَّارُاِلٰی تَرْقُوْتِہٖ۔)) (مسنداحمد: ۲۰۳۶۳)
سیدنا سمرہ بن جندب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بعض جہنمیوں کے ٹخنوں تک ، بعض کے گھٹنوں تک، بعض کی کمر تک اور بعض کے سینہ تک آگ ہوگی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13236

۔ (۱۳۲۳۶)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یُنْصَبُ لِلْکَافِرِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِقْدَارُ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ کَمَا لَمْ یَعْمَلْ فِی الدُّنْیَا، وَاِنَّ الْکَافِرَ یَرٰی جَہَنَّمَ وَیَظُنُّ اَنَّہَا مُوَاقِعَتُہُ مِنْ مَسِیْرَۃِ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً۔)) (مسند احمد: ۱۱۷۳۷)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کافر کے لیے قیامت کے دن پچاس ہزار سال کی مدت مقرر کی جائے گی، جیسا کہ اس نے دنیا میں عمل نہیں کیا تھا اور کافر جہنم کو دیکھ رہا ہوگا اور اسے یہ خیال آ رہا ہو گا کہ جہنم اسے چالیس برس کی مسافت سے بھی اپنی طرف کھینچ لے گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13237

۔ (۱۳۲۳۷)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ وَعَفَّانُ قَالَا: ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَوَّلُ مَنْ یُّکْسٰی حُلَّۃً مِنَ النَّارِ اِبْلِیْسُ فَیَضَعُہَا عَلٰی حَاجِبِہٖوَیَسْحَبُہَا مِنْ خَلْفِہِ وَذُرِّیُّتُہُ مِنْ بَعْدِہٖوَھُوَیُنَادِیْ: وَا ثُبُوْرَاہ وَیُنَادُوْنَ: یَاثُبُوْرَھُمْ۔)) قَالَ عَبْدُ الصَّمَدُ: قَالَھَا: مَرَّتَیْنِ ((حَتّٰییَقِفُوْا عَلٰی النَّارِ فَیَقُوْلُ: یَاثُبُوْرَاہ وَیَقُوْلُوْنَ: یَا ثُبُوْرَھُمْ، فَیُقَالُ لَھُمْ: { لَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًا کَثِیْرًا}۔)) قَالَ عَفَّانٌ: وَذُرِّیَّتُہُ خَلْفَہُ وَھُمْ یَقُوْلُوْنَیَا ثُبُوْرَھُمْ قَالَ عَفَّانٌٌ: حَاجِبَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۲۵۶۴)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سب سے پہلے ابلیس کو آگ کا لباس پہنایا جائے گا، وہ اسے اپنی پلکوں پر رکھ کر پیچھے کو کھینچے گا، اس کے بعد اس کی اولاد کو بھی ایسا ہی لباس پہنایا جائے گا، ابلیس کہے گا: ہائے میری ہلاکت، اور اس کی اولاد کہے گی: ہائے ہماری ہلاکت۔ دو دفعہ یہ بات ارشاد فرمائی، یہاں تک کہ وہ آگ پر کھڑے ہو جائیں گے، پھر ابلیس کہے گا: ہائے میری ہلاکت، اور اس کی اولاد کہے گی: ہائے ہماری ہلاکت، اس وقت ان سے کہا جائے گا: { لَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًا کَثِیْرًا} (آج تم ایک ہلاکت کو مت پکارو، بلکہ بہت ساری ہلاکتوں کو پکارو)(سورۂ فرقان: ۱۴)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13238

۔ (۱۳۲۳۸)۔ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنِّیْ لَاَعْرِفَ آخِرَ اَھْلِ النَّارِ خُرُوْجًا مِّنَ النَّارِ، رَجُلٌ یَخْرُجُ مِنْہَا زَحْفًا فَیُقَالُ لَہُ: اِنْطَلِقْ فَادْخُلِ الْجَنَّۃَ، قَالَ: فَیَذْھَبُیَدْخُلُ فَیَجِدُ النَّاسَ، قَدْ اَخَذُوا الْمَنَازِلَ، قَالَ: فَیَرْجِعُ، فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّّ! قَدْ اَخَذَ النَّاسُ الْمَنَازِلَ، قَالَ: فَیُقَالُ لَہُ: اَتَذْکُرُ الزَّمَانَ الَّذِیْ کُنْتَ فِیْہِ؟ قَالَ: فَیَقُوْلُ: نَعَمْ، قَالَ: فَیُقَالُ لَہُ: تَمَنَّہْ، فَیَتَمَنّٰی فَیُقَالُ: اِنَّ لَکَ الَّذِیْ تَمَنَّیْتَ وَعَشَرَۃَ اَضْعَافِ الدُّنْیَا قَالَ: فَیَقُوْلُ: اَتَسْخَرُ وَاَنْتَ الْمَلِکُ۔)) قَالَ: فَلَقَدْ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ضَحِکَ حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہُ۔ (مسند احمد: ۳۵۹۵)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی سب سے آخر میں جہنم سے رہا ہو کر آئے گا، میں اسے پہچانتا ہوں، وہ آدمی گھسٹ کر وہاں سے نکلے گا، اس سے کہا جائے گا: جا اورجنت میں داخل ہو جا، لیکن جب وہ جنت میں داخل ہو گا تو وہ دیکھے گا کہ سب لوگ اپنے مقامات میں سکونت پذیر ہیں (اور کوئی جگہ باقی نہیں رہی)، اس لیے وہ واپس آ جائے گا اور کہے گا: اے میرے رب! جنت میں تو لوگ اپنی اپنی منزلوں میں رہ رہے ہیں۔ اس سے کہا جائے گا: کیا تجھے دنیا والا زمانہ یاد ہے، جس میں تو رہتا تھا؟ وہ کہے گا: جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سے کہاجائے گا: تو تمنا کر، چنانچہ وہ تمنا کرے گا پھراسے کہا جائے گا:تو نے جو تمنا کی ہے، وہ بھی تیرے لیے ہے اور دنیا کا دس گنا بھی تجھے ملے گا۔ وہ کہے گا: اے اللہ! تو توبادشاہ ہے، پھر بھی مجھ سے مذاق کرتا ہے۔ اس وقت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس قدر مسکرائے کہ آپ کی داڑھیں نمایاں ہوگئیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13239

۔ (۱۳۲۳۹)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ آخِرَ اَھْلِ الْجَنَّۃِ دُخُوْلًا الْجَنَّۃَ وَآخِرَ اَھْلِ النَّارِ خُرُوْجًا مِنَ النَّارِ رَجُلٌ یَخْرُجُ مِنَ النَّارِ حَبْوًا، فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لَہُ: اِذْھَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّۃَ، فَیَاْتِیْہَا فَیُخَیَّلُ اِلَیْہِ اَنَّہَا مَلْاٰی، فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ! وَجَدْتُّہَا مَلْاٰی، فَیَقُوْلُ: اِذْھَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّۃَ، فَیَاْتِیْہَا فَیُخَیَّلُ اِلَیْہِ اَنَّہَا مَلْاٰی، فَیَرْجِعُ فَیَقُوْلُ: یَارَبِّ! قَدْ وَجَدْتُّہَا مَلْاٰی، فَیَقُوْلُ: اِذْھَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّۃَ، فَیَاْتِیْہَا فَیُخَیَّلُ اِلَیْہِ اَنَّہَا مَلْاٰی، فَیَرْجِعُ اِلَیْہِ، فَیَقُوْلُ: یَارَبِّ! وَجَدْتُّہَا مَلْاٰی، ثَلَاثًا، فَیَقُوْلُ: اِذْھَبْ فَاِنَّ لَکَ مِثْلَ الدُّنْیَا وَعَشْرَۃَ اَمْثَالِھَا اَوْ وَعَشْرَۃَ اَمْثَالِ الدُّنْیَا، قَالَ: فَیَقُوْلُ: رَبِّ اَتَضْحَکُ مِنِّیْ وَاَنْتَ الْمَلِکُ۔ قَالَ: وَکَانَ یُقَالُ: ہٰذَا اَدْنٰی اَھْلِ الْجَنَّۃِ مَنْزِلَۃً۔)) (مسند احمد: ۴۳۹۱)
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اہل جنت میں سے سب سے آخر میں جنت میں جانے والا اور سب سے آخر میں جہنم سے نکلنے والا آدمی وہ ہے جو گھسٹتا ہوا جہنم سے نکلے گا، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: جا جنت میں چلا جا۔ وہ وہاں آکر یوں محسوس کرے گا کہ جنت تو بھری ہوئی ہے، وہ کہے گا: اے میرے ربّ! یہ تو ساری بھری ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جا جنت میں داخل ہوجا، وہ اسے پہلے کی طرح بھری ہوئی سمجھ کر واپس آجائے گا اور کہے گا: اے میرے رب! وہ تو مکمل طور پر بھری ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جا اورجنت میں داخل ہو جا، لیکن وہ آکر پھر یہی محسوس کرے گا کہ جنت تو بھری ہوئی ہے۔ وہ پھر واپس آکر عرض کرے گا:اے میرے رب! جنت تو مکمل طور پر بھری ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جا، تیرے لیے جنت میں پوری دنیا بلکہ اس سے دس گنا زیادہ جگہ موجود ہے، وہ کہے گا: اے میرے رب! کیا تو مجھ سے مذاق کرتا ہے، حالانکہ تو تو بادشاہ ہے۔ سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ کہا جاتا تھا کہ یہ شخص سب سے کم تر جنتی ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13240

۔ (۱۳۲۴۰)۔ وَعَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ آخِرَ مَنْ یَدُخُلُ الْجَنَّۃَ رَجُلٌ یَمْشِیْ عَلٰی الصِّرَاطِ فَیَنْکِبُ مَرَّۃً وَیَمْشِیْ مَرَّۃً وَتَسْفَعُہُ النَّارُ مَرَّۃً فَاِذَا جَاوَزَ الصِّرَاطَ اِلْتَفَتَ اِلَیْہَا فَقَالَ: تَبَارَکَ الَّذِیْ نَجَّانِیْ مِنْکَ لَقَدْ اَعْطَانِی اللّٰہُ مَالَمْ یُعْطِ اَحَدًا مِنَ الْاَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ قَالَ: فَتُرْفَعُ لَہُ شَجَرَۃٌ فَیَنْظُرُ اِلَیْہَا، فَیَقُوْلُ: یَارَبِّ اَدْنِنِیْ مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ فَاَسْتَظِلَّ بِظِلِّہَا وَاَشْرَبَ مِنْ مَائِہَا، فَیَقُوْلُ: اَیْ عَبْدِیْ! فَلَعَلِّیْ اِنْ اَدْنَیْتُکَ مِنْہُمَا سَاَلْتَنِیْ غَیْرَھَا؟ فَیَقُوْلُ: لَا، یَارَبِّ وَیُعَاھِدُ اللّٰہَ اَنْ لَّا یَسْاَلَہُ غَیْرَھَا وَالرَّبُّ عَزَّوَجَلَّ یَعْلَمُ اَنَّہُ سَیَسْاَلُہُ لِاَنَّہُ یَرٰی مَالَاصَبَرْ لَہُ یَعْنِیْ عَلَیْہِ فَیُدْنِیْہِ مِنْہَا، ثُمَّ تُرْفَعُ لَہُ شَجَرَۃٌ وَھِیَ اَحْسَنُ مِنْہَا فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ! اَدْنِنِیْ مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ فَاَسْتَظِلَّ بِظِلِّہَا وَاَشْرَبَ مِنْ مَائِھَا، فَیَقُوْلُ: اَیْ عَبْدِیْ! اَلَمْ تُعَاھِدْنِیْیَعْنِیْ اَنَّکَ لَا تَسْاَلُنِیْ غَیْرَھَا فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ! ہٰذِہِ، لَا اَسْاَلُکَ غَیْْرَھَا وَیُعَاہِدُہُ وَالرَّبُّ یَعْلَمُ اَنَّہُ سَیَسْاَلُہُ غَیْرَھَا فَیُدْنِیْہِ مِنْہَا، فَتُرْفَعُ لَہُ شَجَرَۃٌ عِنْدَ بَابِ الْجَنَّۃِ ھِیَ اَحْسَنُ مِنْہَا، فَیَقُوْلُ: رَبِّ اَدْنِنِیْ مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اَسْتَظِلُّ بِظِلِّہَا وَاَشْرَبُ مِنْ مَائِہَا، فَیَقُوْلُ: اَیْ عَبْدِیْ اَلَمْ تُعَاھِدْنِیْ اَنَّکَ لَا تَسْاَلُ غَیْرَھَا، فَیَقُوْلُ: یَارَبِّ! ہٰذِہِ الشَّجَرَۃُ، لَااَسْاَلُکَ غَیْرَھَا وَیُعَاھِدُہُ وَالرَّبُّ یَعْلَمُ اَنَّہُ سَیَسْاَلُہُ غَیْرَھَا لِاَنَّہُ یَرٰی مَالَا صَبَرْلَہُ عَلَیْہَا فَیُدْنِیْہِ مِنْہَا، فَیَسْمَعُ اَصْوَاتَ اَھْلِ الْجَنَّۃِ فَیَقُوْلُ: یَارَبِّ! الْجَنَّۃَ اَلْجَنَّۃَ، فَیَقُوْلُ: عَبْدِیْ اَلَمْ تُعَاھِدْنِیْ اَنَّکَ لاَ تَسْاَلُنِیْ غَیْرَھَا؟ فَیَقُوْلُ: یَارَبِّ اَدْخِلْنِیَ الْجَنَّۃَ، قَالَ: فَیَقُوْلُ عَزَّوَجَلَّ: مَا یَصْرِیْنِیْ مِنْکَ اَیْ عَبْدِیْ، اَیُرْضِیْکَ اَنْ اُعْطِیَکَ مِنَ الْجَنَّۃِ الدُّنْیَا وَمِثْلَہَا مَعَہَا، قَالَ: فَیَقُوْلُ: اَتَہْزَأُ بِیْ وَاَنْتَ رَبُّ الْعِزَّۃِ۔)) قَالَ: فَضِحَک عَبْدُاللّٰہِ حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہُ، ثُمَّ قَالَ: اَلَا تَسْاَلُوْنِیْ لِمَ ضَحِکْتُ؟ قَالُوْا لَہُ: لِمَ ضَحِکْتَ؟ قَالَ: لِضِحْکِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ قَالَ لَنَا: ((اَلَا تَسْاَلُوْنِیْ لِمَ ضَحِکْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((لِضِحْکِ الرَّبِّ حِیْنَ قَالَ: اَتَہْزَاُ بِیْ وَاَنْتَ رَبُّ الْعِزَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۳۷۱۴)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سب سے آخر میں جنت میں جانے والا پل صراط کے اوپر سے گزرے گا، وہ کبھی گرے گا اور کبھی چلے گا اور کبھی آگ اسے جھلسائے گی، بالآخر جب وہ پل صراط کو پار کر جائے گا تو جہنم کی طرف دیکھ کر کہے گا: وہ اللہ تعالیٰ برکتوں والا ہے، جس نے مجھے تجھ سے نجات دلائی، اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ایسا کرم کیا ہے کہ اس نے اگلوں پچھلوں میں سے کسی پر بھی ایسا کرم نہیں کیا، پھر اسے ایک درخت دکھائی دے گا، چنانچہ وہ اسے دیکھ کر عرض کرے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت کے قریب کر دے، تاکہ میں اس کے سایہ میں بیٹھ سکوں اور اس کا پانی پی سکوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے بندے! اگر میں تجھے اس کے قریب کر دوں تو کیا تو مجھ سے اور تو کچھ نہیں مانگے گا؟ وہ کہے گا: اے میرے ربّ! ! میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں تجھ سے اس کے علاوہ مزید کوئی چیز نہیں مانگوں گا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کو علم ہو گا کہ وہ ہر صورت میں اس سے مزید سوال کرے گا، کیونکہ وہ وہاں پہنچنے کے بعد ایسی چیزیں دیکھے گا کہ وہ صبر نہیں کر سکے گا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب جانے کی اجازت دے دے گا، اس کے بعد اسے ایک اور درخت دکھائی دے گا، جو پہلے درخت سے زیادہ خوبصورت ہوگا، وہ کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت کے قریب جانے کی اجازت دے دے، تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کر سکوں اور وہاں کا پانی پی سکوں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے میرے بندے ! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو مجھ سے مزید کوئی چیز طلب نہیں کرے گا، وہ کہے گا: اے میرے رب! بس میری یہی گزارش ہے، اسے پورا کر دے، میں اس کے علاوہ تجھ سے کچھ نہیں مانگوں گا، پھر وہ اللہ تعالیٰ سے اس بات کا پختہ عہد کرے گا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کو علم ہو گا کہ وہ عنقریب مزید سوال کرے گا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب جانے کی اجازت دے دے گا، اس کے بعد اسے جنت کے دروازے کے قریب پہلے درختوںسے زیادہ حسین درخت دکھائی دے گا، وہ کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت کے قریب جانے کی اجازت دے دے، تاکہ میں اس کے سائے میں آرام کر سکوں اور اس کا پانی پی سکوں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے میرے بندے! کیا تو نے مجھے سے یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو مجھ سے مزید سوال نہیں کرے گا؟ وہ کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت تک جانے کی اجازت دے دے، میں پختہ وعدہ کرتا ہوں کہ میں اس کے بعد تجھ سے مزید کچھ نہیں مانگوں گا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کو تو علم ہے کہ وہ عنقریب مزید سوال کرے گا، کیونکہ وہ ایسی چیزیں دیکھے گا کہ اس سے صبر نہیں ہو سکے گا، بہرحال اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب جانے کی اجازت دے دے گا، جب وہ وہاں پہنچ کر اہل ِ جنت کی آوازیں سنے گا تو عرض کرے گا: اے میرے ربّ!مجھے جنت میں داخل کر دے، جنت میں داخل کر دے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میرے بندے! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو مجھ سے مزید کوئی چیز نہیں مانگے گا؟ وہ کہے گا: اے میرے رب! بس تو مجھے جنت میں داخل کر دے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: میرے بندے ! کون سی چیز مجھے تجھ سے روک سکتی ہے،کیا تو اس بات پر راضی ہے کہ میں تجھے جنت میں پوری دنیا، بلکہ اس کی مثل ایک اور دنیا بھی دے دوں؟ وہ کہے گا: اے اللہ!تو تو ربّ العزت ہے، میرے ساتھ مذاق کیوں کرتا ہے؟ یہ بات بیان کر کے سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس قدر زور سے ہنسے کہ ان کی داڑھیں نظر آنے لگیں، پھر انھوں نے پوچھا: تم مجھ سے میرے اس قدر زور سے ہنسنے کی وجہ کیوں نہیں پوچھتے؟ ان کے شاگردوں نے کہا: جی بتلائیں کہ آپ کیوں ہنسے ہیں؟ انھوں نے کہا: بات یہ ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ حدیث بیان کر کے ہنسے تھے اور پھر ہم سے فرمایا تھا: تم مجھ سے میرے ہنسنے کی وجہ کیوں نہیں پوچھتے؟ ہم نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! آپ کیوں ہنسے ہیں؟ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس بندے نے جب کہا کہ اے اللہ ! تو تو ربّ العزت ہے، تو میرے ساتھ مذاق کیوں کرتا ہے؟ تو اس کی بات سن کر اللہ تعالیٰ مسکرا دیئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13241

۔ (۱۳۲۴۱)۔ وَعَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یَخْرُجُ مِنَ النَّارِ اَرْبَعَۃٌ،یُعْرَضُوْنَ عَلٰی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَیَاْمُرُ بِہِمْ اِلَی النَّارِ، فَیَلْتَفِتُ اَحَدُھُمْ فَیَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ قَدْ کُنْتُ اَرْجُوْ اِنْ اَخْرَجْتَنِیْ مِنْہَا اَنْ لَّا تُعِیْدَنِیْ فِیْہَا، فَیَقُوْلُ: فَلَا نُعِیْدُکَ فِیْہَا۔)) (مسند احمد: ۱۳۳۴۶)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چار آدمیوں کو جہنم سے نکال کر اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ پھر ان کو جہنم کی طرف واپس لے جانے کا حکم دے گا۔ ان میں سے ایک آدمی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر عرض کرے گا: اے میرے ربّ ! مجھے توا مید تھی کہ جب تو مجھے جہنم سے نکال دے گا تو دوبارہ اس میں نہیں لوٹائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ٹھیک ہے، ہم تجھے دوبارہ اس میں نہیں بھیجتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13242

۔ (۱۳۲۴۲)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ عَبْدًا فِیْ جَہَنَّمَ لَیُنَادِیْ اَلْفَ سَنَۃٍ: یَا حَنَّانُ! یَا مَنَّانُ! قَالَ: فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لِجِبْرِیْلَ: اِذْھَبْ فَائْتِنِیْ بِعَبْدِیْ ہٰذَا، فَیَنْطَلِقُ جِبْرِیْلُ فَیَجِدُ اَھْلَ النَّارِ مُکِبِّیْنَیَبْکُوْنَ، فَیَرْجِعُ اِلٰی رَبِّہِ فَیُخْبِرُہُ فَیَقُوْلُ: اِئْتِنِیْ بِہٖفِیْ مَکَانِ کَذَا وَکَذَا، فَیَجِیْئُ بِہٖفَیُوْقِفُہُ عَلٰی رَبِّہِ عَزَّوَجَلَّ فَیَقُوْلُ لَہُ: یَا عَبْدِیْ کَیْفَ وَجَدْتَّ مَکَانَکَ وَمَقِیْلَکَ، فَیَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ شَرَّ مَکَانٍ وَشَرَّ مَقِیْلٍ فَیَقُوْلُ: رُدُّوْا عَبْدِیْ فَیَقُوْلُ: یَارَبِّ مَا کُنْتُ اَرْجُوْا اِذَا اَخْرَجْتَنِیْ مِنْہَا اَنْ تَرُدَّنِیْ فِیْہَا فَیَقُوْلُ: دَعُوْا عَبْدِیْ۔)) (مسند احمد: ۱۳۴۴۴)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک بندہ جہنم میںایک ہزار سال تک ان الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو پکارتا رہے گا: یَا حَنَّانُ! یَا مَنَّانُ!، بالآخراللہ تعالیٰ جبرائیل علیہ السلام سے فرمائے گا: جاؤ اورمیرے اس بندے کو میرے پاس لے آؤ، جب وہ وہاں جا کر دیکھیں گے کہ جہنمی تو منہ کے بل پڑے رو رہے ہوں گے، وہ واپس آجائیں گے اور آ کر اللہ تعالیٰ کو یہ صورتحال بتائیں گے، لیکن اللہ تعالیٰ فرمائے گا: فلاں جگہ میں پڑے ہوئے میرے بندے کو لے آؤ، پس وہ اسے لا کر اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا کر دیں گے، اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: اے میرے بندے! تو نے اپنی جگہ اور ٹھکانے کو کیسا پایا؟ وہ عرض کرے گا: اے میرے ربّ! بہت بری جگہ ہے، بدترین ٹھکانہ ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: فرشتو! میرے بندے کو وہیں واپس لے جاؤ، وہ عرض کرے گا : اے میرے ربّ! مجھے تو یہ امید نہیں تھی کہ جب تو مجھے جہنم سے نکال لے گا تو دوبارہ اس میں بھیج دے گا، یہ سن کر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میرے بندے کو چھوڑ دو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13243

۔ (۱۳۲۴۳)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: سَاَلَتْ خَدِیْجَۃُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ وَلَدَیْنِ مَاتَا لَھَا فِی الْجَاھِلِیَّۃِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ھُمَا فِی النَّارِ۔)) قَالَ: فَلَمَّا رَاٰی الْکَرَاھِیَۃَ فِیْ وَجْہِہَا قَالَ: ((لَوْ رَاَیْتِ مَکَانَہُمَا لَاَبْغَضْتِہِمَا۔)) قَالَتْ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَوَلَدِیْ مِنْکَ قَالَ: ((فِی الْجَنَّۃِ۔)) قَالَ: ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ الْمُوْمِنِیْنَ وَاَوْلَادَھُمْ فِی الْجَنَّۃِ،وَاِنَّ الْمُشْرِکِیْنَ وَاَوْلَادَھُمْ فِی النَّارِ۔)) ثُمَّ قَرَاَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : {وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَابِھِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ} [الطور: ۲۱]۔)) (مسند احمد: ۱۱۳۱)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اپنے ان دو بچوں کے انجام کے بارے میں پوچھا جو دورِ جاہلیت میں مر گئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ جہنم میں جائیں گے۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے چہرے پر پریشانی کے آثار محسوس کیے تو فرمایا: اگر تم ان کا ٹھکانہ دیکھ لو تو تم بھی ان سے نفرت کرنے لگو گی۔ پھر انہوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! میری جو اولاد آپ سے ہوئی ہے، اس کا انجام؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ جنت میں جائے گی، بیشک اہل ِ ایمان اور ان کی اولادیں جنت میں جائیں گی اور مشرکین اور ان کی اولادیں جہنم میں جائیں گی۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَابِھِمْ ذُرِّیَّتَہُم} (اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان لانے میں ان کی پیروی کی تو ہم ان کی اولاد کو (جنت میں)ان سے ملا دیں گے۔) (سورۂ طور: ۲۱)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13244

۔ (۱۳۲۴۴)۔ وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اَتٰی عَلَیَّ زَمَانٌ وَاَنَا اَقُوْلُ: اَوْلَادُ الْمُسْلِمِیْنَ مَعَ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَاَوْلَادُ الْمُشْرِکِیْنَ مَعَ الْمُشْرِکِیْنَ، حَتّٰی حَدَّثَنِیْ فُلَانٌ عَنْ فُلَانٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : سُئِلَ عَنْہُمْ فَقَالَ: ((اَللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا کَانُوْا عَامِلِیْنَ۔)) قَالَ: فَلَقِیْتُ الرَّجُلَ، فَاَخْبَرَنِیْ، فَاَمْسَکْتُ عَنْ قَوْلِیْ۔ (مسند احمد: ۲۰۹۷۳)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: مجھ پر ایک ایسا دور بھی رہا کہ جس میں میں یہ فتوی دیا کرتا تھا کہ آخرت میں مسلمانوں کی اولاد مسلمانوں کے ساتھ اورمشرکوں کی اولادمشرکوں کے ساتھ ہوں گی، یہاں تک کہ فلاں آدمی نے فلاں آدمی کے حوالے سے مجھے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جب ان کی اولادوں کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ انھوں نے کون سے عمل کرنے تھے؟ پھر میں یہ حدیث بیان کرنے والے اُس آدمی کو جا کر ملا، اس نے مجھے اس حدیث کی خبردی، پھر میں نے اپنی پہلی بات کہنا چھوڑ دی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13245

۔ (۱۳۲۴۵)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) قَالَ: کُنْتُ اَقُوْلُ: اَوْلَادُ الْمُشْرِکِیْنَ ھُمْ مِنْہُمْ، فَحَدَّثَنِیْ رَجُلٌ عَنْ رَجُلٍ مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَقِیْتُہُ فَحَدَّثَنِیْ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((رَبُّہُمْ اَعْلَمُ بِہِمْ، ھُوَ خَلَقَہُمْ وَھُوَ اَعْلَمُ بِہِمْ وَبِمَا کَانُوْا عَامِلِیْنَ۔)) (مسند احمد: ۲۳۸۸۰)
(دوسری سند) سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں مشرکوں کی اولاد کے بارے میں یہی کہتا تھا کہ وہ ان ہی کے ساتھ ہو گی۔لیکن بعد میں ایک آدمی نے ایک صحابی کے حوالے سے یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کا ربّ ہی ان کے بارے میں بہتر جانتا ہے، اسی نے ان کو پیدا کیا، وہ اِن کو بھی جانتا ہے اور جو انھوںنے عمل کرنے تھے، ان کو بھی جانتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13246

۔ (۱۳۲۴۶)۔ وَعَنْ حَسْنَائَ بِنْتِ مُعَاوِیَۃَ مِنْ بَنِیْ صَرِیْمٍ قَالَت: حَدَّثَنَا عَمِّیْ قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَنْ فِی الْجَنَّۃِ؟ قَالَ: ((اَلنَّبِیُّ فِی الْجَنَّۃِ وَالشَّہِیْدُ فِی الْجَنَّۃِ وَالْمَوْلُوْدُ وَالْوَلِیْدَۃُ۔)) (مسند احمد: ۲۳۸۷۲)
بنو صریم کی ایک خاتون حسناء بنت معاویہ اپنے چچا سے بیان کرتی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! کون کون لوگ جنت میں جائیں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نبی جنت میں ہو گا ، شہید جنت میں ہو گا اور (بلوغت سے پہلے فوت ہوجانے والا)بچہ اور بچی بھی جنت میں ہو ں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13247

۔ (۱۳۲۴۷)۔ (وَعَنْہَا مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) بِنَحْوِہٖوَفِیْہِ ((وَالْمَوْلُوْدُ فِی الْجَنَّۃِ وَالْمَوْؤُوْدَۃُ فِی الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۰۸۶۱)
۔ (دوسری سند) اس میں ہے: نابالغ بچہ بھی جنت میں ہوگا اور زندہ درگور کی گئی بچی بھی جنت میں جائے گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13248

۔ (۱۳۲۴۷)۔ (وَعَنْہَا مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) بِنَحْوِہٖوَفِیْہِ ((وَالْمَوْلُوْدُ فِی الْجَنَّۃِ وَالْمَوْؤُوْدَۃُ فِی الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۰۸۶۱)
مولائے غطیب عبد اللہ بن ابی قیس، ام المومنین سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس آئے اور ان کو سلام کہا، انھوں نے پوچھا: کون ہے؟ اس نے بتایا: جی میں غطیف بن عازب کا غلام عبد اللہ ہوں، انھوں نے کہا: جو عفیف کے بیٹے ہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں، اے ام المومنین! پھر اس نے عصر کے بعد کی دو رکعتوں کے متعلق پوچھا کہ آیا اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ دو رکعتیں ادا کی ہیں؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، پھر اس نے کافروں کی اولادکا حکم دریافت کیا، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ: وہ آخرت میں اپنے آباء کے ساتھ ہوں گے۔ میںنے کہا تھا: اے اللہ کے رسول! کیا وہ عمل کے بغیر ہی اپنے آباء کے ساتھ (برے انجام میں شریک ہوں گے)؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ انھوں نے کون سے عمل کرنے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13249

۔ (۱۳۲۴۹)۔ وَعَنْْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ اِلَّا عَلٰی ہٰذِہِ الْمِلَّۃِ،حَتّٰییُبِیِّنَ عَنْہُ لِسَانُہُ فَاَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُشْرِّکَانِہٖ۔)) قَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!کَیْفَ مَاکَانَ قَبْلَ ذٰلِکَ؟ قَالَ: ((اَللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا کَانُوْا عَامِلِیْنَ۔)) (مسند احمد: ۷۴۳۸)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے،وہ اِس ملت ِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ بولنا شروع کر دے، پھر اس کے والدین اسے یہودی یا عیسائی یا مشرک بنا دیتے ہیں۔ صحابہ کرام نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! جو بچے اس عمرسے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں، ان کا انجام کیا ہوگا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ انھوں نے کون سے عمل کرنے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13250

۔ (۱۳۲۵۰)۔ وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سُئِلَ عَنْ ذَرَارِیِّ الْمُشْرِکِیْنَ فَقَالَ: ((اَللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا کَانُوْا عَامِلِیْنَ۔)) (مسند احمد: ۳۱۶۵)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مشرکین کے بچوں کے بارے میں پوچھا گیاتو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ انھوں نے کیا عمل کرنے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13251

۔ (۱۳۲۵۱)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلٰی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہٖ وَیُنَصِّرَانِہٖ وَیُمَجِّسَانِہٖ کَمَا تُنْتَجُ الْبَھِیْمَۃُ ھَلْ تُحِسُّوْنَ فِیْہَا مِنْ جَدْعَائَ ثُمَّ یَقُوْلُ: وَاقْرَؤُوْا اِنْ شِئْتُمْ {فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ }۔)) (مسند احمد: ۹۰۹۱)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پیدا ہونے والا ہر بچہ دینِ فطرت یعنی دین اسلام پر پیدا ہوتا ہے، بعد میں اس کے والدین اسے یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں،یہ بات بالکل ایسے ہی ہے جیسے جانور کا بچہ سالم پیدا ہوتا ہے، کیا تم ان میں سے کسی کا کان کٹا ہوا دیکھتے ہو؟اگراس بات کی تصدیق چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھ لو: {فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ } (اللہ تعالیٰ کی فطرت کو یعنی اس کے اس دین کو اختیار کرو، جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، کسی کو اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی کا حق حاصل نہیں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13252

۔ (۱۳۲۵۲)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلٰی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہٖ وَیُنَصِّرَانِہٖ مِثْلَ الْاَنْعَامِ تُنْتَجُ صِحَاحًا، فَتُکْوٰی آذَانُہَا۔)) (مسند احمد: ۷۷۸۲)
۔ (دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پیدا ہونے والا ہر بچہ فطرت یعنی دینِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے، بعد میں اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں، یہ بات ایسے ہی ہے جیسے چوپائے صحیح سالم پیدا ہوتے ہیں، بعد میں ان کے کانوں کو داغ دیا جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13253

۔ (۱۳۲۵۳)۔ وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلٰی الْفِطْرَۃِ حَتّٰییُعْرِبَ عَنْہُ لِسَانُہُ فَاِذَا اَعْرَبَ عَنْہُ لِسَانُہُ اِماَّ شَاکِرًا وَاِمَّا کَفُوْرًا۔)) (مسند احمد: ۱۴۸۶۵)
سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پیدا ہونے والا ہر بچہ فطرت یعنی دینِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے، یہاںتک کہ اس کی زبان اس کی طرف سے وضاحت کرنا شروع کر دے، اور جب ایسے ہوتا ہے توپھر پتہ چلتا ہے کہ اب وہ شکر گزار مسلمان ہے یا ناشکرا کافر۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13254

۔ (۱۳۲۵۴)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((کُلُّ بَنِیْ آدَمَ یَطْعَنُ الشَّیْطَانُ بِاِصْبَعِہٖفِیْ جَنْبِہٖحِیْنَیُوْلَدُ اِلَّا عِیْسٰی بْنَ مْرَیَمَ، ذَھَبَ یَطْعَنُ فَطَعَنَ فِی الْحِجَابِ۔)) (مسند احمد: ۱۰۷۸۳)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بنو آدم کے ہر بچے کو پیدائش کے وقت شیطان اپنی انگلی سے چوکا لگاتا ہے، ما سوائے عیسی بن مریم کے، شیطان چوکا لگانے کے لیے گیا تو تھا، لیکن پردے میں چوکا لگا کر واپس آ گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13255

۔ (۱۳۲۵۵)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: ثَنَا السَّرِیُّ بْنُ یَحْیٰی ثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا الْاَسْوَدُ بْنُ سَرِیْعٍ، وَکَانَ رَجُلًا مِنْ بَنِیْ سَعْدٍ وَکَانَ اَوَّلَ مَنْ قَصَّ فِیْ ہٰذَا الْمَسْجِدِیَعْنِی الْمَسْجِدَ الْجَامِعَ قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَرْبَعَ غَزَوَاتٍ قَالَ: فَتَنَاوَلَ قَوْمُ نِ الذُّرِّیَّۃَ بَعْدَ مَا قَتَلُوْا الْمُقَاتِلَۃَ فَبَلَغَ ذٰلِکَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((اَلَا! مَا بَالُ اَقْوَامٍ قَتَلُوْا الْمُقَاتِلَۃَ حَتّٰی تَنَاوَلُوا الذُّرِّیَّۃَ؟)) قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَوَلَیْسَ اَبْنَائُ الْمُشْرِکِیْنَ؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ خِیَارَکُمْ اَبْنَائُ الْمُشْرِکِیْنَ، اِنَّہَا لَیْسَتْ نَسَمَۃٌ تُوْلَدُ اِلَّا وُلِدَتْ عَلٰی الْفِطْرَۃِ، فَمَا تَزَالُ عَلَیْہَا حَتّٰییُبِیِّنَ عَنْہَا لِسَانُہَا فَاَبَوَاھَا یُہَوِّدَانِہَا اَوْ یُنَصِّرَانِہَا۔)) قَالَ: وَاَخْفَاھَا الْحَسَنُ۔ (مسند احمد: ۱۶۴۱۲)
سیدنا اسود بن سریع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، یہ قبیلہ بنو سعد کے فرد تھے اور انہوں نے سب سے پہلے مسجد جامع وعظ شروع کیا تھے، ان سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ چار غزووں میں شرکت کی، ایک دفعہ مسلمانوں نے لڑنے والے مخالفین کو قتل کرنے کے بعد ان کے چھوٹے بچوں کو بھی قتل کر دیا، لیکن جب یہ بات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہو گیا کہ انہوں نے پہلے لڑنے والوں کو قتل کیا ہے اور پھر ان کے بچوں کو بھی قتل کر دیا۔ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا وہ بھی ان مشرکوں کی ہی اولاد نہیں ہیں؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے بہترین لوگ مشرکوں کے ہی بیٹے ہیں، بات یہ ہے کہ ہر روح جب پیدا ہوتی ہے تو وہ دین ِ فطرت پر ہی پیدا ہوتی ہے اور وہ اسی پر برقرار رہتی ہے، یہاں تک کہ اس کی زبان اس کی طرف سے وضاحت کرنا شروع کر دے، پھر اس کے والدین اسے یہودی یا عیسائی بنا دیتے ہیں۔ حسن نے آخری الفاظ کی ادائیگی پست آواز سے کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13256

۔ (۱۳۲۵۶)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((ذِرَارِیُّ الْمُسْلِمِیْنَ فِی الْجَنَّۃِیَکْفُلُہُمْ اِبْرَاہِیْمُ علیہ السلام ۔)) (مسند احمد: ۸۳۰۷)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اہل ِ اسلام کی اولاد جنت میں ہے، ابراہیم علیہ السلام ان کی کفالت کرتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13257

۔ (۱۳۲۵۷)۔ وَعَنْ عَائِشَۃَ اُمِّ الْمُوْمِنِیْنَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: دُعِیَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِلٰی جَنَازَۃِ غُلَامٍ مِنَ الْاَنْصَارِ فَقُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! طُوْبٰی لِہٰذَا، عُصْفُوْرٌ مِنْ عَصَافِیْرِ الْجَنَّۃِ، لَمْ یُدْرِکِ الشَّرَّ وَلَمْ یَعْمَلْہُ، قَالَ: ((اَوَ غَیْرُ ذٰلِکَ یَاعَائِشَۃُ! اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّّ خَلَقَ لِلْجَنَّۃِ اَھْلًا، خَلَقَہَا لَھُمْ وَھُمْ فِیْ اَصْلَابِ آبَائِہِمْ وَخَلَقَ لِلنَّارِ اَھْلًا، خَلَقَہَا لَھُمْ وَھُمْ فِیْ اَصْلَابِ آبَائِہِمْ۔)) (مسند احمد: ۲۶۲۶۱)
ام المومنین سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کابیان ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک انصاری بچے کے جنازے کے لیے بلایا گیا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس بچے کے لیے تو خوشخبری ہے،یہ تو جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے، اس نے نہ گناہ کو پایا اور نہ اس پر عمل کیا۔ لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عائشہ! کوئی اور بات بھی ہے، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو جنت کے لیے اور جنت کو لوگوں کے لیے اس وقت پیدا کیا، جب کہ یہ لوگ ابھی تک اپنے باپوں کی پشتوں میں تھے، اور اس نے لوگوں کو جہنم کے لیے اور جہنم کو لوگوں کے لیے اس وقت پیدا کیا جبکہ یہ لوگ ابھی تک اپنے آباء کی پشتوں میں تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13258

۔ (۱۳۲۵۸)۔ وَعَنْ شُرَحْبِیْلِ بْنِ شُفْعَۃَ عَنْ بَعْضِ اَصْحَابِ النِّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((یُقَالُ لِلْوِلْدَانِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اُدْخُلُوْا الْجَنَّۃَ فَیَقُوْلُوُنَ: یَارَبِّ! حَتّٰییَدْخُلَ آبَاوُنَا وَاُمَّہَاتُنَا، قَالَ: فَیَاْتُوْنَ، قَالَ: فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: مَالِیْ اَرَاھُمْ مُحْبَنْطِئِیْنَ، اُدْخُلُوا الْجَنَّۃَ، قَالَ: فَیَقُوْلُوْنَ: یَارَبِّ! آبَاوُنَا وَاُمَّہَاتُنَا، قَالَ: فَیَقُوْلُ: اُدْخُلُوا الْجَنَّۃَ اَنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۷۰۹۶)
ایک صحابی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن چھوٹے بچوں سے کہا جائے گا کہ تم جنت میں چلے جاؤ، لیکن وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! جب تک ہمارے باپ اور مائیں جنت میںداخل نہیں ہو جاتے، اس وقت تک ہم نہیں جائیں گے، پھر وہ آگے چلیں گے، اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا: کیا وجہ ہے کہ تم غصے میں اور آہستہ آہستہ چلے رہے ہو؟ چلو جنت میں داخل ہو جاؤ، لیکن وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہمارے باپ اور ہماری مائیں۔ بالآخر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اچھا تم بھی جنت میں داخل ہو جاؤ اور اور تمہارے ماں باپ بھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13259

۔ (۱۳۲۵۹)۔ وَعَنِ الْاَسْوَدِ بْنِ سَرِیْعٍ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَرْبَعَۃٌیَوْمَ الْقِیَامَۃِ رَجُلٌ اَصَمُّ لَا یَسْمَعُ شَیْئًا وَرَجُلٌ اَحْمَقُ وَرَجُلٌ ھَرِمٌ وَرَجُلٌ مَاتَ فِیْ فَتْرَۃٍ، فَاَمَّا الْاَصَمُّ فَیَقُوْلَُ: رَبِّ لَقَدْ جَائَ الْاِسْلَامُ وَمَا اَسْمَعُ شَیْئًا، وَاَمَّا الْاَحْمَقُ فَیَقُوْلُ: رَبِّ لَقَدْ جَائَ الْاِسْلَامُ وَالصِّبْیَانُیَخْذِفُوْنِّیْ بِالْبَعْرِ، وَاَمَّاالْھَرِمُ فَیَقُوْلُ: رَبِّ لَقَدْ جَائَ الْاِسْلَامُ وَمَا اَعْقِلُ شَیْئًا، وَاَمَّا الَّذِیْ مَاتَ فِی الْفَتْرِۃِ، فَیَقُوْلُ: رَبِّ مَا اَتَانِیْ لَکَ رَسُوْلٌ، فَیَاْخُذُ مَوَاثِیْقَہُمْ لَیُطِیْعَنَّہُ فَیُرْسِلُ اِلَیْہِمْ اَنِ ادْخُلُوْا النَّارَ قَالََ: فَوَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ! لَوْ دَخَلُوْھَا لَکَانَتْ عَلَیْہِمْ بَرْدًا وَسَلاَمًا۔)) (مسند احمد: ۱۶۴۱۰)
سیدنا اسود بن سریع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن چار قسم کے لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے، ایک بہرہ ہو گا، جو بالکل نہیں سنتا تھا، دوسرا احمق یعنی بے شعور ہو گا، تیسرا انتہائی بوڑھا اور چوتھا فترہ میں مر جانے والا۔ بہرہ آدمی کہے گا: اے میرے رب! میرے پاس دین اسلام اس وقت آیا تھا، جب میں کچھ بھی نہیں سنتا تھا،احمق کہے گا: اے میرے رب! اسلام تو آیا تھا، لیکن میں اس قدر بے شعور تھا کہ بچے مجھے مینگنیاں مارا کرتے تھے، بوڑھا کہے گا: اے میرے ربّ! جب اسلام آیا تھا تو میری حالت یہ تھی کہ مجھے کوئی چیز سمجھ نہیں آتی تھی اور فترہ میں مرنے والا کہے گا: اے میرے رب! میرے پاس تو تیرا کوئی رسول ہی نہیں آیا تھا۔ یہ سن کر اللہ تعالیٰ ان سے پختہ عہد لے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ضرور بالضرور اطاعت کریں گے، پھر اللہ تعالیٰ ان کی طرف پیغام بھیجے گا کہ تم اس آگ میں داخل ہوجاؤ۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اگر وہ اس آگ میں داخل ہو جائیں گے تو وہ ان کے لیے ٹھنڈک اور سلامتی والی ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13260

۔ (۱۳۲۶۰)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِثْلُ ہٰذَا غَیْرَ اَنَّہُ قَالَ فِیْ آخِرِہٖ: ((فَمَنْدَخَلَہَاکَانَتْعَلَیْہِ بَرْدًا وَسَلَامًا وَمَنْ لَّمْ یَدْخُلْہَایُسْحَبُ اِلَیْہَا۔)) (مسند احمد: ۱۶۴۱۱)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بھی گزشتہ حدیث کی مانند ایک حدیث مروی ہے، البتہ اس کے آخر میں یہ الفاظ ہیں: جو شخص اس آگ میں داخل ہو جائے گا، وہ اس کے لیے ٹھنڈک اور سلامتی والی ہو گی اور جو اس میں داخل نہیں ہو گا، اسے گھسیٹ کر اس کی طرف لے جایا جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13261

۔ (۱۳۲۶۱)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : اَیْنَ اَبِیْ؟ قَالَ: ((فِی النَّارِ۔)) قَالَ: فَلَمَّا رَاٰی مَا فِیْ وَجْہِہٖقَالَ: ((اِنَّاَبِیْ وَاَبَاکَ فِی النَّارِ۔)) (مسند احمد: ۱۲۲۱۶)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا: میرا والد کہاں ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم میں۔ پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے چہرے پر غم کے آثار دیکھے تو فرمایا: میرا باپ اور تیرا باپ دونوں جہنم میں ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13262

۔ (۱۳۲۶۲)۔ وَعَنْ اَبِیْ رَزِیْنٍ لَقِیْطِ بْنِ عَامِرِ بْنِ الْمُنْتَفِقِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَیْنَ اُمِّیْ؟ قَالَ: ((اُمُّکَ فِی النَّارِ۔)) قَالَ: قُلْتُ: فَاَیْنَ مَنْ مَضٰی مِنْ اَھْلِکَ؟ قَالَ: ((اَمَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ اُمُّکَ مَعَ اُمِّیْ۔)) (مسند احمد: ۱۶۲۹۰)
سیدنا لقیط بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:اے اللہ کے رسول! میری والدہ کہاں ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم میں۔ میںنے کہا: تو پھر آپ کے جو رشتہ دار قبل از اسلام فوت ہوچکے ہیں، وہ کہاں ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تو اس بات پر راضی ہو جائے گا کہ تیری ماں میری ماں کے ساتھ ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13263

۔ (۱۳۲۶۳)۔ وَعَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ اَبِیْہِ (بُرَیْدَۃِ الْاَسْلَمِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَزَا غَزْوَۃَ الْفَتْحِ فَخَرَجَ یَمْشِیْ اِلَی الْقُبُوْرِ حَتّٰی اِذَا اَتٰی اِلٰی اَدْنَاھَا جَلَسَ اِلَیْہِ کَاَنَّہُ یُکَلِّمُ اِنْسَانًاجَالِسًایَبْکِیْ، قَالَ: فَاسْتَقْبَلَہُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقَالَ: مُا یُبْکِیْکَ جَعَلَنِیَ اللّٰہُ فِدَاکَ؟ قَالَ: ((سَاَلْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ اَنْ یَاْذَنَ لِیْ فِیْ زِیَارِۃِ قَبِرِ اُمِّ مُحَمَّدٍ فَاَذِنَ لِیْ، فَسَاَلْتُہُ اَنْ یَّاْذَنَ لِیْ فَاَسْتَغْفِرَلَھَا فَاَبٰی، اِنِّیْ کُنْتُ نَہَیْتُکُمْ عَنْ ثَلَاثَۃِ اَشْیَائَ: عَنِ لُحُوْمِ الْاَضَاحِیْ اَنْ تَمَسَّکُوْا بَعْدَ ثَلَاثَۃِ اَیَّامٍ، فَکُلُوْا مَا بَدَا لَکُمْ، وَعَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُوْرِ فَمَنْ شَائَ فَلْیَزُ ْر فَقَدْ اَذِنَ لِیْ فِیْ زِیَارِۃِ قَبْرِ اُمِّ مُحَمَّدٍ وَمَنْ شَائَ فَلْیَدَعْ، وَعَنِ الظُّرُوْفِ تَشْرَبُوْنَ فِیْہَا الدُّبَّائِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ وَاَمَرْتُکُمْ بِظُرُوْفٍ وَاِنَّ الْوِعَائَ لَایُحِلُّ شَیْئًا وَلَایُحَرِّمُہُ، فَاجْتَنِبُوْا کُلَّ مُسْکِرٍ۔)) (مسند احمد: ۲۳۴۲۶)
سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فتح مکہ سے فارغ ہو کر قبرستان کی طرف تشریف لے گئے اور اس کی قریب والی طرف میں جا کر بیٹھ گئے، یوں محسوس ہو رہا تھا کہ آپ کسی انسان کے ساتھ باتیں کر رہے ہیں، جبکہ آپ رو بھی رہے تھے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ کے سامنے آئے اور کہا: اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے، آپ کیوں رو رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جواب دیا: میں نے اپنے ربّ سے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت طلب کی، اللہ تعالیٰ نے مجھے اس چیز کی تو اجازت دے دی، لیکن جب میں نے اس سے والدہ کے حق میں دعائے مغفرت کی اجازت طلب کی، تو اس نے اس کی اجازت نہیں دی، میں نے تمہیں تین کاموں سے منع کیا تھا، ایک یہ کہ تم تین دنوں کے بعد قربانیوں کے گوشت نہیں کھا سکتے، اب تمہیں اجازت ہے جب تک چاہو کھا سکتے ہو، دوسرا میں نے تمہیں قبرستان جانے سے منع کیا تھا، اب جو آدمی قبرستان جانا چاہے، جا سکتا ہے، مجھے بھی اپنی والدہ کی قبر پر جانے کی اجازت دے دی گئی ہے،ہاں جو آدمی قبرستان نہ جانا چاہتا ہو، وہ بے شک نہ جائے، اور تیسرا کہ میں نے تمہیں کدو، سبز مٹکے اور تارکول لگے برتن کو استعمال کرنے سے منع کیا تھا اور باقی برتنوں کو استعمال کرنے کی اجازت دی تھی، اب یہ حکم ہے کہ برتن تو کسی چیز کو حلال یا حرام نہیں کرتا، لہذا تم سارے برتن استعمال کر سکتے ہو، البتہ ہر نشہ آور چیز سے پرہیز کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13264

۔ (۱۳۲۶۴)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) عَنْ اَبِیْہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَزَلَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَہُ قَرِیْبٌ مِنْ اَلْفِ رَاکِبٍ، فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ اَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْہِہٖوَعَیْنَاہُ تَذْرِفَانِ فَقَامَ اِلَیْہِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ( ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) فَفَدَاہُ بِالْاَبِ وَالْاُمِّ یَقُوْلُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَالَکَ؟ قَالَ: ((اِنِّی سَاَلْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ فِی الْاِسْتِغْفَارِ لِاُمِّیْ فَلَمْ یَاْذَنْ فَدَمَعَتْ عَیْنَایَ رَحْمَۃً لَھَا مِنَ النَّارِ ، وَاِنِّیْ کُنْتُ نَہَیْتُکُمْ عَنْ ثَلَاثٍ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُوْرِ۔)) فَذَکَرَ نَحْوَ الْحَدِیْثِ الْمُتَقَدِّمِ۔ (مسند احمد: ۲۳۳۹۱)
۔ (دوسری سند) سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ سفر میں تھے، دوران سفر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک مقام پر ٹھہرے، ہم بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، ہم ایک ہزار کے قریب سوار تھے، آپ نے دو رکعت نماز ادا کی۔، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا رخ ہماری طرف پھیرا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، سیدنا عمربن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اٹھ کر آپ کی طرف گئے اور کہا: اے اللہ کے رسول!میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ کے رونے کی کیا وجہ ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے ربّ سے اپنی والدہ کے حق میں دعائے مغفرت کرنے کی اجازت طلب کی، لیکن اس نے مجھے اس کی اجازت نہیں دی، اس لیے ان کے جہنم میں جانے پر مجھے ان پر ترس آیا اور میں رونے لگ گیا۔ میں نے تمہیں تین کاموں سے منع کیا تھا، ایک قبروں کی زیارت سے، …۔ اس سے آگے گزشتہ حدیث کی مانند ہی ذکر کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13265

۔ (۱۳۲۶۵)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا ھٰرُوْنُ بْنُ مَعْرُوْفٍ وَسَمِعْتُہُ اَنَا مِنْ ھٰرُوْنَ بْنِ مَعْرُوْفٍ اَنَا ابْنُ وَھْبٍ حَدَّثَنِیْ اَبُوْ صَخْرٍ اَنَّ اَبَا حَازِمٍ حَدَّثَہُ قَالَ: سَمِعْتُ سَہْلَ بْنَ سَعْدٍ یَقُوْلُ: شَہِدْتُّ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَجْلِسًا وَصَفَ فِیْہِ الْجَنَّۃَ حَتّٰی اِنْتَہٰی ثُمَّ قَالَ آخِرَ حَدِیْثِہٖ: فِیْہَا ((مَالَاعَیْنٌ رَاَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَاعَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ خَطَرَ۔)) ثُمَّ قَرَأَ ہٰذِہِ الْآیَۃَ {تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ۔فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآئً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْن۔} [السجدۃ: ۱۶،۱۷] (مسند احمد: ۲۳۲۱۴)
سیدنا سہل بن سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ایک محفل میں حاضر تھا، آپ نے جنت کا تذکرہ کیا اورآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی گفتگو کے آخر میں فرمایا: جنت میں ایسی ایسی نعمتیں ہیں کہ جن کو کسی آنکھ نے نہیں دیکھا،کسی کان نے ان کے متعلق نہیں سنا اور نہ کسی بشر کے دل پر ان کا تصور گزرا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت کی: {تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ۔فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآئً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْن۔} (ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں اور وہ اپنے ربّ کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں اور ہم نے ان کو جو رزق دیا ہے، اس میں سے وہ (اللہ تعالیٰ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں، ان کے آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی راحت کے لیے ان کے کیے ہوئے اعمال کی جزاء کے طور پر جو نعمتیں پوشیدہ رکھی گئی ہیں، ان کو فی الحال کوئی بھی نہیں جانتا۔ )
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13266

۔ (۱۳۲۶۶)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ یَّدْخُلُ الْجَنَّۃَیَنْعَمُ، لَایَبْأَسُ، وَلَاتَبْلٰی ثِیَابُہُ، وَلَایَفْنٰی شَبَابُہُ، فِیْ الْجَنَّۃِ مَالَاعَیْنٌ رَأَتْ وَلاَ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَاخَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ۔)) (مسند احمد: ۸۸۱۳)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو کوئی جنت میں داخل ہوجائے گا، وہ خوشحال رہے گا، بدحال نہیں ہو گا، اس کے کپڑے بوسیدہ نہیں ہوں گے، اس کی جوانی زائل نہیں ہوگی، جنت میں وہ کچھ ہے کہ آج تک نہ کسی آنکھ نے وہ چیزیں دیکھیں ہیں، نہ کسی کان نے ان کے بارے میں سنا ہے اور نہ کسی شخص کے دل پر ان کا تصور گزرا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13267

۔ (۱۳۲۶۷)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِی الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلاَ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَاخَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ، فَاقْرَئُ وْ اِنْ شِئْتُمْ {فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ } [السجدۃ: ۱۷]۔)) (مسند احمد: ۹۶۴۷)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: میںنے اپنے صالح بندوں کے لیے ایسی ایسی نعمتیں تیار کی ہیں کہ آج تک کسی آنکھ نے ان جیسی نعمتوں کو نہیں دیکھا، کسی کان نے ان کے متعلق نہیں سنا اور کسی انسان کے دل پر ان کا خیال تک نہیں گزرا، اگر چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھ کر دیکھ لو: {فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ} ( ان کی راحت کے لیے جو نعمتیں پوشیدہ رکھی گئی ہیں، انہیں(فی الحال) کوئی نہیں جانتا۔ (سورۂ سجدہ: ۱۷)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13268

۔ (۱۳۲۶۸)۔ وَعَنْ اَبِیْ اَیُّوْبَ مَوْلًی لِعُثْمَانِ بْنِ عَفَّانَ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((قِیْدُ سَوْطِ اَحَدِکُمْ فِی الْجَنَّۃِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمِثْلِہَا مَعَہَا وَلَقَابُ قَوْسِ اَحَدِکُمْ مِنَ الْجَنَّۃِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمِثْلِہَا مَعَہَا وَلَنَصِیْفُ امْرَاَۃِ الْجَنَّۃِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمِثْلِہَا مَعَہَا۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا اَبَا ھُرَیْرَۃَ! مَاالنَّصِیْفُ؟ قَالَ: اَلْخِمَارُ۔ (مسند احمد: ۱۰۲۷۵)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں تمہاری ایک لاٹھی کے برابر جگہ دوگنا دنیا سے بہتر ہے، جنت میں تمہاری کمان کے برابر جگہ دو گنا دنیا سے بہتر ہے اور جنت کی ایک خاتون کا دوپٹہ دو گنا دنیا سے زیادہ بہتر ہے۔ ابو ایوب کہتے ہیں: میںنے کہا: اے ابوہریرہ! النَّصِیْف کا کیا معنی ہے؟ انھوں نے کہا: دو پٹہ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13269

۔ (۱۳۲۶۹)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قُلْنَا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! حَدِّثْنَا عَنِ الْجَنَّۃِ مَا بِنَاؤُھَا قَالَ: ((لَبِنَۃُ ذَھَبٍ وَلَبِنَۃُ فِضَّۃٍ وَمِلَاطُہَا الْمِسْکُ الْاَذْفَرُ وَحَصْبَاؤُھَا اللُّؤْلُؤُ وَالْیَاقُوْتُ وَتُرَابُہَا الزَّعْفَرَانُ، مَنْ یَّدْخُلُہَایَنْعَمُ وَلَایَبْاَسُ وَیَخْلُدُ وَلَایَمُوْتُ وَلَاتَبْلٰی ثِیَابُہُ وَلَا یَفْنٰی شَبَابُہُ۔)) (مسند احمد: ۸۰۳۰)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے کہا اے اللہ کے رسول! آپ ہمیںجنت کے بارے میں بتلائیں کہ اس کی عمارت کیسی ہو گی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک اینٹ سونے کی اور ایک اینٹ چاندی کی ہو گی، اس کا گارا انتہائی تیز مہکنے والی کستور ی کا اور اس کے کنکر لولو اور یاقوت کے موتی ہوں گے اور اس کی مٹی زعفران ہوگی، جوآدمی جنت میں داخل ہوجائے گا، وہ خوشحال ہو گا، کبھی بدحال نہیں ہو گا، وہ وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا، اسے موت نہیں آئے گی، اس کا لباس بوسیدہ نہیں ہو گا اور اس کا شباب زائل نہیں ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13270

۔ (۱۳۲۷۰)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیَّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَأَلَ ابْنَ صَائِدٍ عَنْ تُرْبَۃِ الْجَنَّۃِ فَقَالَ: دَرْمَکَۃٌ بَیْضَائُ مِسْکٌ خَالِصٌ۔ قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((صَدَقَ۔)) (مسند احمد: ۱۱۰۱۵)
سیدنا ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابن صائد سے جنت کی مٹی کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا: وہ سفید رنگ کی ملائم مٹی اور خالص کستوری والی ہے۔ یہ سن کرآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس نے سچ کہا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13271

۔ (۱۳۲۷۱)۔ وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِلْیَہُوْدِ: ((اِنِّیْ سَائِلُہُمْ عَنْ تُرْبَۃِ الْجَنَّۃِ وَھِیَ دَرْمَکَۃٌ بَیْضَائُ۔)) فَسَاَلَھُمْ فَقَالُوْا: ھِیَ خُبْزَۃٌیَا اَبَا الْقَاسِمِ! فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَلْخُبْزَۃُ مِنَ الدَّرْمَکِ۔)) (مسند احمد: ۱۴۹۴۴)
سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہودکے بارے میں فرمایا: میں ان سے جنت کی مٹی کے بارے میں دریافت کرتا ہوں جو کہ سفید رنگ کی ملائم مٹی ہے۔ پھر ان سے سوال کیا، انھوں نے کہا: اے ابو القاسم! وہ روٹی کی طرح ہوگی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: روٹی بھی سفید آٹے کی ہی ہوتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13272

۔ (۱۳۲۷۲)۔ وَعَنْ اَبِیْ حَازِمٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ اَھْلَ الْجَنَّۃِ لَیَتَرَاؤَوْنَ الْغُرْفَۃَ فِی الْجَنَّۃِ کَمَا تَرَاؤَوْنَ الْکَوْکَبَ فِی السَّمَائِ۔)) قَالَ: فَحَدَّثْتُ بِذٰلِکَ النُّعْمَانَ بْنَ اَبِیْ عَیَّاشٍ فَقَالَ: سَمِعْتُ اَبَا سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیَّیَقُوْلُ: کَمَا تَرَاؤَوْنَ الْکَوْکَبَ الدُّرِّیَّ فِی الْاُفُقِ الشَّرَقِیِّ اَوِ الْغَرْبِیِّ۔ (مسند احمد: ۲۳۲۶۴)
سیدناسہل بن سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت والے ہر جگہ سے اپنے کمروں کو یوں دیکھیں گے، جیسے تم آسمان پر ستاروں کو دیکھتے ہو۔ ابو حازم نے کہا: میں نے حدیث نعمان بن ابی عیاش کو بیان کی، انھوں نے کہا کہ اس نے بھی سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہی حدیث بیان کرتے ہوئے یوں سنا ہے: جس طرح تم مشرقی یا مغربی افق پر دمکتے ہوئے تارے کو دیکھتے ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13273

۔ (۱۳۲۷۳)۔ وَعَنْْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ فِی الْجَنَّۃِ لَغُرَفًا یُرٰی بُطُوْنُہَا مِنْ ظُہُوْرِھَا وَظُھُوْرُھَا مِنْ بُطُوْنِہَا۔)) فَقَالَ اَعْرَابِیٌّ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! لِمَنْ ھِیَ؟ قَالَ: ((لِمَنْ اَطَابَ الْکَلَامَ، وَاَطْعَمَ الطَّعَامَ، وَصَلّٰی لِلّٰہِ بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ۔)) (مسند احمد: ۱۳۳۸)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں ایسے بالا خانے ہیں کہ باہر سے ان کے اندر کاماحول اور اندر سے ان کے باہر کا ماحول دیکھا جاسکے گا۔ ایک بدّو نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! یہ بالاخانے کن لوگوں کے لیے ہوں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اچھی بات کرے، دوسروں کو کھانا کھلائے اور جب رات کو عام لوگ سوئے ہوئے ہوں تو وہ اٹھ کر اللہ تعالیٰ کے لیے نماز ادا کرے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13274

۔ (۱۳۲۷۴)۔ وَعَنْ اَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَیْسٍ عَنْ اَبِیْہِ (اَبِیْ مُوْسَی الْاَشْعَرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَلْخَیْمَۃُ دُرَّۃٌ مُجَوَّفَۃٌ طُوْلُھَا فِی السَّمَائِ سِتُّوْنَ مِیْلًا، فِیْ کُلِّ زَاوِیَۃٍ مِنْہَا لِلْمُوْمِنِ اَھْلٌ لَا یَرَاھُمُ الْآخَرُوْنَ۔)) وَرُبَمَا قَالَ عَفَّانُ: لِکُلِّ زَاوِیَۃٍ۔ (مسند احمد: ۱۹۸۰۵)
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت کا ایک خیمہ بہت بڑا موتی ہوگا، وہ اندر سے خالی ہوگا، اس کی بلندی ساٹھ میل ہوگی، اس کے ہر کونے میں مومن کا اہل خانہ ہو گا، لیکن (وہ دوری کی وجہ سے) ایک دوسرے کو دیکھ نہیں پائیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13275

۔ (۱۳۲۷۵)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَا بَیْنَ مِصْرَاعَیْنِ فِی الْجَنَّۃِ کَمَسِیْرَۃِ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً۔)) (مسند احمد: ۱۱۲۵۹)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت کے دروازے کے دو پٹوں میں چالیس سال کی مسافت جتنی وسعت ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13276

۔ (۱۳۲۷۶)۔ عَنْ عُتْبَۃَ بْنِ عَبْدِ نِ السُّلَمِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: جَائَ اَعْرَابِیٌّ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَأَلَہُ عَنِ الْحَوْضِ وَذَکَرَالْجَنَّۃَ ثُمَّ قَالَ الْاَعْرَابِیُّ: فِیْہَا فَاکِہَۃٌ؟ قَالَ: ((نَعَمْ وَفِیْہَا شَجَرَۃٌ تُدْعٰی طُوْبٰی۔)) فَذَکَرَ شَیْئًا لَا اَدْرِیْ مَا ھُوَ قَالَ: اَیُّ شَجَرِ اَرْضِنَا تُثْبِہُ؟ قَالَ: ((لَیْسَتْ تُثْبِہُ شَیْئًا مِنْ شَجَرِ اَرْضِکَ۔)) فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَتَیْتَ الشَّامَ؟)) فَقَالَ: لَا، قَالَ: ((تُشْبِہُ شَجَرَۃٌ بِالشَّامِ تُدْعٰی الْجَوْزَۃَ تَنْبُتُ عَلٰی سَاقٍ وَاحِدٍ یَنْفَرِشُ اَعْلَاھَا۔)) قَالَ: مَا عِظَمُ اَصْلِہَا؟ قَالَ: ((لَوِ ارْتَحَلَتْ جَذْعَۃٌ مِنْ اِبِلِ اَھْلِکَ مَا اَحَاطَتْ بِاَصْلِہَا حَتّٰی تَنْکَسِرَ تَرْقُوْتُہَا ھَرِمًا۔)) قَالَ: فِیْہَا عِنَبٌ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَ: فَمَا عِظَمُ الْعُنْقُوْدِ؟ قَالَ: ((مَسِیْرَۃُ شَہْرٍ لِلْغُرَابِ الْاَبْقَعِ وَلَا یَفْتُرُ۔)) قَالَ: فَمَا عِظَمُ الْحَبَّۃِ؟ قَالَ: ((ھَلْ ذَبَحَ اَبُوْکَ تَیْسًا مِنْ غَنَمِہٖقَطُّعَظِیْمًا؟)) قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ((فَسَلَخَ اِھَابَہُ فَاَعْطَاہُ اُمَّکَ قَالَ: اِتَّخِذِیْ لَنَا مِنْہُ دَلْوًا؟)) قَالَ: نَعَمْ، قَالَ الْاَعْرَابِیُّ: فَاِنَّ تِلْکَ الْحَبَّۃَ لَتُشْبِعُنِیْ وَاَھْلَ بَیْتِیْ، قَالَ: ((نَعَمْ وَعَامَّۃَ عَشِیْرَتِکَ۔)) (مسند احمد: ۱۷۷۹۲)
سیدنا عتبہ بن عبدسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک بدّو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور حوض کے بارے میں پوچھا اور جنت کا ذکر کیا، پھر اس بدّو نے پوچھا: آیا جنت میں پھل ہوں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، اس میں ایک طوبی نامی درخت ہوگا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک اور بات ذکر کی جو مجھے یاد نہیں رہی، اس نے پوچھا: وہ درخت ہماری اس زمین کے کس درخت کے مشابہ ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ اس زمین کے کسی درخت جیسا نہیں ہے۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے دریافت کیا: کیا تم شام کے علاقے میں گئے ہو؟ اس نے کہا: جی نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شام میں جوزہ نامی ایک درخت ہوتا ہے، وہ ایک ہی تنا پر اگتا ہے، البتہ اوپر جا کر پھیل جاتا ہے۔ اس بدّو نے پوچھا: اس کاتنا کتنا بڑا ہوگا؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تمہارے اونٹوں میں سے ایک نوجوان اونٹ اس کے گرد چکر کاٹنے لگے تو چکر کاٹتے کاٹتے وہ بوڑھا ہو کر مرجائے گا، مگر اس درخت کے تنے کے گرد چکر پورا نہیں کر سکے گا۔ اس نے پوچھا: کیا وہاں انگور ہوں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ اس نے پوچھا: انگوروں کا ایک گچھا کتنا بڑا ہوگا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر سفید کوا ایک ماہ تک کوئی لچک پیدا کیے بغیر مسلسل پرواز کرتا رہے تو اس کے دوسرے کنارے تک نہیں پہنچ پائے گا۔ اس نے پوچھا: وہاں کے غلے کا ایک دانہ کس قدر بڑا ہوگا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے والد نے بکریوں کے ریوڑ میں سے کوئی بڑا بکرا کبھی ذبح کیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر اس نے اس کا چمڑا اتار کر تمہاری والدہ کو دیا ہے کہ وہ اس سے ایک ڈول تیار کر لے؟(بس اسی کو دانے کی مثال سمجھ لیں) اس نے کہا: جی ہاں۔ بدّو نے کہا: تب تو غلے کا ایک دانہ میرے اور میرے اہل خانہ کے لیے کافی ہو جائے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی بالکل، بلکہ تمہارے خاندان کے عام افراد کے لیے بھی کافی ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13277

۔ (۱۳۲۷۷)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّ رَجُلًا قَالَ لَہُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! طُوْبٰی لِمَنْ رَآکَ وَآمَنَ بِکَ، قَالَ: ((طُوْبٰی لِمَنْ رَاٰنِیْ وَآمَنَ بِیْ ثُمَّ طُوْبٰی ثُمَّ طُوْبٰی ثُمَّ طُوْبٰی لِمَنْ آمَنَ، وَلَمْ یَرَنِیْ۔)) قَالَ لَہُ رَجُلٌ: وَمَا طُوْبٰی؟ قَالَ: ((شَجَرَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ مَسِیْرَۃُ مِائَۃِ عَامٍ، ثِیَابُ اَھْلِ الْجَنَّۃِ تَخْرُجُ مِنْ اَکْمَامِہَا۔)) (مسند احمد: ۱۱۶۹۶)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ان لوگوں کے لیے طوبیٰ ہے، جنہوںنے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا دیدار کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ایمان لائے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی واقعی جن لوگوں نے میری زیارت کی اورمجھ پر ایمان لائے ان کے لیے طوبیٰ ہے، لیکن جو لوگ مجھے دیکھے بغیر مجھ پر ایمان لائے، ان کے لیے طوبی ہے، طوبی ہے، طوبی ہے۔ اس آدمی نے کہا: بھلا طوبیٰ ہے کیا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ جنت میں ایک درخت کا نام ہے اور یہ سو سال کی مسافت جتنا ہے، اس کی کلیوں کے غلافوں سے جنتی لوگوں کا لباس تیار کیا جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13278

۔ (۱۳۲۷۸)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ فِی الْجَنَّۃِ لَشَجَرَۃًیَسِیْرُ الرَّاکِبُ الْجَوَّادُ فِیْ ظِلِّہَا مِائَۃَ سَنَۃٍ وَاِنَّ وَرَقَہَا لَیَخْمِرُ الْجَنَّۃَ۔)) (مسند احمد: ۹۲۳۲)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں ایک درخت ہے، تیز رفتار گھوڑ سوار سو سال تک اس کے سائے میں چلتا رہتا ہے، اس کا ایک پتہ پورے باغ کو ڈھانپ لیتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13279

۔ (۱۳۲۷۹)۔ (وَلَہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) بِنَحْوِہٖوَزَادَفَاقْرَئُوْااِنْشِئْتُمْ {وَّظِلٍّمَّمْدُوْد} قَالَرَسُوْلُاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَمَوْضِعُ سَوْطِ اَحَدِکُمْ فِی الْجَنَّۃِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا۔)) وَقَرَأَ { فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْر}۔ (مسند احمد: ۹۶۴۹)
۔ (دوسری سند) اس میں یہ اضافہ ہے: اگر چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھ لو: {وَّظِلٍّ مَّمْدُوْد} (اور وہ لمبے لمبے سایوں میں ہوں گے) (سورۂ واقعہ: ۳۰)، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں تمہاری ایک لاٹھی کے برابر جگہ دنیا اور وما فیہا سے بڑھ کر ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت کی: {فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَ مَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ} (پس جسے آگ سے بچا کر جنت میں داخل کر دیاگیا تو وہ یقینا کامیاب ہوگیا اور (یاد رکھو کہ) دنیا کی زندگی دھوکے کے سامان کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ (سورۂ آل عمران: ۱۸۵)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13280

۔ (۱۳۲۸۰)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ فِی الْجَنَّۃِ شَجَرَۃًیَسِیْرُ الرَّاکِبُ فِیْ ظِلِّہَا سَبْعِیْنَ اَوْ مِائَۃَ سَنَۃٍ ھِیَ شَجَرَۃُ الْخُلْدِ۔)) (مسند احمد: ۹۹۵۱)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں ایک درخت اس قدر بڑا ہے کہ ایک اونٹ سوار ستر یا سو برس تک اس کے سائے میں چل سکتا ہے، وہ شَجَرَۃُ الْخُلْد (دائمی درخت) ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13281

۔ (۱۳۲۸۱)۔ وَعَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ طَیْرَ الْجَنَّۃِ کَاَمْثَالِ الْبُخْتِ تَرْعٰی فِیْ شَجَرِ الْجَنَّۃِ۔)) فَقَالَ اَبُوْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّ ہٰذِہِ لَطَیْرٌ نَاعِمَۃٌ۔ فَقَالَ: ((اَکَلَتُہَا اَنْعَمُ مِنْہَا قَالَھَا ثَلَاثًا وَاِنِّیْ لَاَرْجُوْ اَنْ تَکُوْنَ مِمَّنْ یَاْکُلُ مِنْہَا یَا اَبَا بَکْرٍ۔)) (مسند احمد: ۱۳۳۴۴)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت کے پرندے بختی اونٹوں جیسے ہوں گے، وہ جنت میں اڑتے پھرتے چرتے رہتے ہیں۔ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ پرندے تو بڑے عمدہ ہوں گے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین بار فرمایا: ان کو کھانے والے ان سے بھی بہتر اور افضل ہوں گے، اور ابو بکر! مجھے امید ہے کہ تم بھی ان کو کھانے والوں میں سے ہوگے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13282

۔ (۱۳۲۸۲)۔ وَعَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ حَیْدَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((فِی الْجَنَّۃِ بَحْرُ اللَّبَنِ ،وَبَحْرُ الْمَائِ، وَبَحْرُ الْعَسَلِ، وَبَحْرُ الْخَمْرِ ثُمَّ تَشَقَّقُ الْاَنْہَارُ مِنْہَا بَعْدَہُ۔)) (مسند احمد: ۲۰۳۱۱)
سیدنا معاویہ بن حیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں دودھ کا سمندر ہو گا، پانی کا سمندر ہو گا، شہد کا سمندر ہو گا اور شراب کا سمندر ہو گا، پھر ان سے نہریں نکل رہی ہوں گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13283

۔ (۱۳۲۸۳)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ فِی الْجَنَّۃِ سُوْقًا مَا فِیْہَا بَیْعٌ وَلَاشِرَائٌ اِلَّا الصُّوَرُ مِنَ النِّسَائِ وَالرِّجَالِ فَاِذَا اشْتَہٰی الرَّجُلُ صُوْرَۃً دَخَلَ فِیْہَا وَاِنَّ فِیْہَا لَمَجْمَعًا لِلْحُوْرِ الْعِیْنِیَرْفَعْنَ اَصْوَاتًا، لَمْ یَرَ الْخَلَائِقُ مِثْلَہَا، یَقُلْنَ: نَحْنُ الْخَالِدَاتُ فَلَا نَبِیْدُ وَنَحْنُ الرَّاضِیَاتُ فَلَانَسْخَطُ وَنَحْنُ النَّاعِمَاتُ فَلَا نَبْأَسُ، فَطُوْبٰی لِمَنْ کَانَ لَنَا وَکُنَّا لَہُ۔)) (مسند احمد: ۱۳۴۳)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں ایک بازار ہوگا، وہاں کوئی خرید و فروخت نہیں ہوگی، بلکہ وہاں تو صرف مردوں اور عورتوں کی تصاویر ہوں گی، جب کوئی مرد کسی تصویر کو پسند کرے گا، تو وہ اسی تصویر میں تبدیل ہوجائے گا اور جنت میں موٹی آنکھوں والی عورتوں حوروں کی ایک اجتماع گاہ ہو گی، وہ وہاں بلند آواز سے گائیں گی، مخلوقات ان جیسی نہیں دیکھیں، وہ یہ نغمہ گائیں گی:ہم ہمیشہ زندہ رہنی والی ہیں، ہم کبھی نہیں مریں گی، ہم راضی ہونے والی ہیں، کبھی ناراض نہیں ہوں گی، ہم خوشحال رہنی والی ہیں، کبھی بد حال نہیں ہوں گی، پس خوشخبری ہے ان کے لیے جو ہمارے لیے ہیں اور ہم ان کے لیے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13284

۔ (۱۳۲۸۴)۔ وَعَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْ لَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ لِاَھْلِ الْجَنَّۃِ سُوْقًا یَاْتُوْنَہَا کُلَّ جُمْعَۃٍ، فِیْہَا کُثْبَانُ الْمِسْکِ فَاِذَا خَرَجُوْا اِلَیْہَا ھَبَّتِ الرِّیْحُ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ شِمَالِیٌّ) قَالَ: فَتَمْلَاُ وُجُوْھَھُمْ وَثِیَابَہُمْ وَبُیُوْتَہُمْ مِسْکًا فَیَزْدَادُوْنَ حُسْنًا وَجَمَالًا قَالَ: فَیَاْتُوْنَ اَھْلِیْہِمْ، فَیَقُوْلُوْنَ: لَقَدِ ازْدَدْتُّمْ بَعْدَنَا حُسْنًا وَجَمَالًا وَیَقُوْلُوْنَ لَھُنَّ: وَاَنْتُمْ قَدِ ازْدَدْتُّمْ بَعْدَنَا حُسْنًا وَجَمَالًا۔)) (مسند احمد: ۱۴۰۸۰)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں اہلِ جنت کا ایک بازار ہوگا، وہ وہاں ہر ہفتہ کو جایا کریں گے، اس میں کستوری کے اونچے اونچے ڈھیر ہوں گے، جب وہ اس بازار کی طرف نکلیں گے تو شمال کی جانب سے ہوا چلے گی اور وہ ان کے چہروں ،کپڑوں اور گھروں کو کستوری سے بھر دے گی اور اس سے ان کے حسن و جمال میں اضافہ ہو گا، وہ جب لوٹ کر اپنے گھر والوںکے پاس جائیں گے تو گھر والے ان سے کہیں گے کہ ہمارے پاس سے جانے کے بعد تمہارا حسن و جمال بہت زیادہ ہو چکا ہے اور وہ کہیں گے کہ ہمارے بعد تمہارے حسن و جمال میں بھی بہت اضافہ ہوچکا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13285

۔ (۱۳۲۸۵)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَوِ اطَّلَعَتْ اِمْرَاۃٌ مِنْ نِسَائِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ اِلَی الْاَرْضِ لَمَلَأَتْ مَا بَیْنَہُمَا رِیْحًا وَلَطَابَ مَا بَیْنَہُمَا، وَلَنَصِیْفُہَا عَلٰی رَأْسِہَا خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا۔)) (مسند احمد: ۱۲۴۶۳)
سیدنا ا نس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر اہل جنت کی بیویوں میں سے ایک خاتون زمین کی طرف جھانک جائے تو اس کی خوشبو سے زمین و آسمان کے درمیان والا خلا بھر جائے اور ان دونوں کے درمیان والی ہر چیز معطر ہو جائے، اس کے سر کا ایک دوپٹہ دنیا وما فیہا سے بڑھ کر ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13286

۔ (۱۳۲۸۶)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لِلرَّجُلِ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ زَوْجَتَانِ مِنْ حُوْرِ الْعِیْنِ عَلٰی کُلِّ وَاحِدَۃٍ سَبْعُوْنَ حُلَّۃًیُرٰی مُخُّ سَاقِہَا وَرَائَ الثِّیَابِ۔)) (مسند احمد: ۸۵۲۳)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: موٹھی آنکھوں والی حوروں میں سے ہر جنتی کی دو دو بیویاں ہوں گی، ہر ایک کے جسم پر ستر ستر لباس ہوں گے، (لیکن نزاکت اور شفافیت کا یہ عالَم ہو گا کہ) ان کپڑوں کے پیچھے سے ان کی ران کا مغز دکھائی دے رہا ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13287

۔ (۱۳۲۸۷)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ الرَّجُلَ لَیَتَّکِیئُ فِی الْجَنَّۃِ سَبْعِیْنَ سَنَۃً قَبْلَ اَنْ یَّتَحَوَّلَ ثُمَّ تَاْتِیْہِ اِمْرَاَتُہُ فَتَضْرِبُ عَلٰی مَنْکِبَیْہِ فَیَنْظُرُ وَجْہَہٗفِیْ خَدِّھَا اَصْفٰی مِنَ الْمَرْأَۃِ، وَاِنَّ اَدْنٰی لُؤْلُؤَۃٍ عَلَیْہَا تُضِیْئُ مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ فَتُسَلِّمُ عَلَیْہِ قَالَ: فَیَرُدُّ السَّلَامَ وَیَسْاَلُھَا مَنْ اَنْتِ؟ وَتَقُوْلُ: اَنَا مِنَ الْمَزِیْدِ، وَاِنَّہُ لَیَکُوْنُ عَلَیْہَا سَبْعُوْنَ ثَوْبًا اَدْنَاھَا مِثْلُ النُّعْمَانِ مِنْ طُوْبٰی فَیَنْفُذُھَا بَصَرَہُ حَتّٰییَرٰی مُخَّ سَاقِہَا مِنْ وَّرَائِ ذٰلِکَ، وَاِنَّ عَلَیْہَا مِنَ التِّیْجَانِ، اِنَّ اَدْنٰی لُؤْلُؤَۃٍ عَلَیْہَا لَتُضِیْئُ مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ۔)) (مسند احمد: ۱۱۷۳۸)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں ایک آدمی ستر سال تک جگہ تبدیل کیے بغیر ایک مقام میں بیٹھا رہے گا، اس کے بعد اس کی بیوی اس کے پاس آکر اس کے کندھوں پرہاتھ رکھے گی، اسے اس بیوی کے رخساروں میںاپنا چہرہ نظر آئے گا، بیوی کا چہرہ آئینے سے بھی زیادہ شفاف ہوگا، اس کے جسم پر لگے ہوئے موتیوں میں سب سے کم تر موتی اس قدر خوبصورت ہوگا کہ وہ مشرق و مغرب کے درمیان کا علاقہ روشن کر دے گا، وہ اپنے شوہر کو سلام کہے گی اور وہ اسے سلام کا جواب دے گا اور اس سے پوچھے گا کہ تم کون ہو؟ وہ جواب دے گی: میں تمہارے لیے مزید نعمتوں میں سے ہوں، اس کے جسم پر ستر لباس ہوں گے، ان میں ہلکے سے ہلکا لباس طوبیٰ کے پہاڑ کے گل لالہ جیسا ہوگا، اس کی نظر ان تمام لباسوں کو پارکر کے اس کی پنڈلی کے گودے تک کو دیکھ رہی ہوگی، اس کے اوپرکئی تاج ہوں گے، ان تاجوں پر ٹانکا ہوا کم تر موتی اس قدر خوبصورت ہو گا کہ شرق و غرب کے درمیان خلا کو روشن کر دے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13288

۔ (۱۳۲۸۸)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖوَاَقَامَالصَّلَاۃَ وَصَامَ رَمَضَانَ فَاِنَّ حَقًّا عَلٰی اللّٰہِ اَنْ یُّدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ ھَاجَرَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَوْ جَلَسَ فِیْ اَرْضِہِ الَّتِیْ وُلِدَ فِیْہَا۔)) قَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَفَلَا نُخْبِرُ النَّاسَ؟ قَالَ: اِنَّ فِیْ الْجَنَّۃِ مِائَۃَ دَرَجَۃٍ اَعَدَّھَا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ لِلْمُجَاہِدِیْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ، بَیْنَ کُلِّ دَرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ، فَاِذَا سَاَلْتُمُ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ فَسَلُوْہُ الْفِرْدَوْسَ، فَاِنَّہُ وَسْطُ الْجَنَّۃِ وَاَعْلٰی الْجَنَّۃِ وَفَوْقَہُ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ عَزَّوَجَلَّ وَمِنْہُ تَفْجُرُ اَوْ تَنْفَجِرُ اَنْہَارُ الْجَنَّۃِ۔)) شَکَّ اَبُوْ عَامِرٍ (اَحَدُ الرُّوَاۃِ)۔ (مسند احمد: ۸۴۰۰)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا، نماز قائم کی اور ماہِ رمضان کے روزے رکھے، تو اس کا اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے، اس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کی ہو یا اپنی جائے پیدائش میں ہی زندگی گزار دی ہو۔ صحابہ کرام نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم لوگوں کو آپ کی یہ بات بتلا نہ دیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (یاد رکھو کہ) جنت میں سو درجے ہیں،اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے ان کو تیار کر رکھا ہے، ان میں سے ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان ہے، تم جب بھی اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کیا کرو، وہ جنت کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے، اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13289

۔ (۱۳۲۸۹)۔ وَعَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَلْجَنَّۃُ مِائَۃُ دَرَجَۃٍ، مَا بَیْنَ کُلِّ دَرَجَتَیْنِ مَسِیْرَۃُ مِائَۃِ عَامٍ وَقَالَ عَفَّانُ (اَحَدُ الرُّوَاۃِ): کَمَا بَیْنَ السَّمَائِ اِلَی الْاَرْضِ وَالْفِرْدَوْسُ اَعْلَاھَا دَرَجَۃً وَمِنْہَا تَخْرُجُ الْاَنْہَارُ الْاَرْبَعَۃُ وَالْعَرْشُ مِنْ فَوْقِہَا وَاِذَا سَاَلْتُمُ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فَاسْأَلُوْہُ الْفِرْدَوْسَ۔)) (مسند احمد: ۲۳۰۷۱)
سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت کے سو درجے ہیں، ہر دو درجوں کے مابین ایک سو سال کی مسافت کا یا زمین و آسمان کے درمیان کا فاصلہ ہے، سب سے اعلیٰ درجہ جنت الفردوس ہے، اسی سے چار نہریں نکلتی ہیں، اسی درجے پراللہ تعالیٰ کا عرش ہے، تم جب بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کرو تو جنت الفردوس طلب کیا کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13290

۔ (۱۳۲۹۰)۔ وَعَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَحْوَہُ۔ (مسند احمد: ۲۲۴۳۷)
سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس قسم کی حدیث بیان کی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13291

۔ (۱۳۲۹۱)۔ وَعَنْ اَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ قَیْسٍ عَنْ اَبِیْہِ (اَبِیْ مُوْسَی الْاَشْعَرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ اَرْبَعٌ ثِنْتَانِ مِنْ ذَھَبٍ حِلْیَتُہُمَا وَاٰنِیَتُہُمَا وَمَا فِیْہِمَا وَثِنْتَانِ مِنْ فِضَّۃٍ آنِیَتُہُمَا وَحِلْیَتُہُمَا وَمَا فِیْہِمَا، وَلَیْسَ بَیْنَ الْقَوْمِ وَبْیَنَ اَنْ یَّنْظُرُوْا اِلٰی رَبِّہِمْ عَزَّوَجَلَّ اِلَّا رِدَائُ الْکِبْرِیَائِ عَلٰی وَجْہِہٖفِیْ جَنَّۃِ عَدْنٍ، وَہٰذِہِ الْاَنْہَارُ تَشْخَبُ مِنْ جَنَّۃِ عَدْنٍ ثُمَّ تَصْدَعُ بَعْد ذٰلِکَ اَنْہَارًا۔)) (مسند احمد: ۱۹۹۶۹)
سیدناابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنات الفردوس چا رہیں، ان میں دو ایسی ہیں کہ ان میں رہنے والوں کا لباس، برتن اور ان کی ہر چیز سونے کی ہے اور دو ایسی ہے کہ ان کے برتن، ان میں رہنے والے کا لباس اور ان کی ہر چیز چاندی کی ہے، عدن والی بہشت میں اہل جنت اور اللہ تعالیٰ کی رؤیت کے درمیان صرف اللہ تعالیٰ کی کبریائی کی چادر ہو گی، یہ نہریں عدن بہشت سے ہی شروع ہوتی ہیں، اس کے بعد ان سے مزید نہریںنکل جاتی ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13292

۔ (۱۳۲۹۲)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَلْجَنَّۃُ مِائَۃُ دَرَجَۃٍ، مَا بَیْنَ کُلِّ دَرَجَتَیْنِ مِائَۃُ عَامٍ۔)) (مسند احمد: ۷۹۱۰)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت کے سو درجے ہیں اور اس کے ہر دو درجوں کے درمیان سو سال کی مسافت ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13293

۔ (۱۳۲۹۳)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ لِلْجَنَّۃِ مِائَۃَ دَرَجَۃٍ لَوْ اَنَّ الْعَالَمِیْنَ اجْتَمَعُوْا فِیْ اِحْدَاھُنَّ لَوَسِعَتْہُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۱۲۵۶)
سیدنا ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت کے سو درجے ہیں اور ہر درجہ اس قدر وسیع ہے کہ اگر دنیا کے تمام لوگ کسی ایک درجہ میں جمع ہوجائیں تو وہ اس میں سما جائیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13294

۔ (۱۳۲۹۴)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا عَامِرٌ وَسُرَیْجٌ قَالَا: ثَنَا فُلَیْحٌ عَنْ ہِلَالِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((اِنَّ اَھْلَ الْجَنَّۃِ لَیَتَزَاوَرُوْنَ فِیْہَا۔)) قَالَ سُرَیْجٌ: ((لَیَتَرَاؤَوْنَ فِیْہَا کَمَا تَرَاؤَوْنَ الْکَوْکَبَ الشَّرْقِیَّ وَالْکَوْکَبَ الْغَرْبِیَّ الْغَارِبَ فِی الْاُفُقِ الطَّالِعَ فِیْ تَفَاضُلِ الدَّرَجَاتِ۔)) قَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اُولٰئِکَ النَّبِیُّوْنَ؟ قَالَ: ((بَلٰی وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ! اَقْوَامٌ آمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖوَصَدَّقُواالْمُرْسَلِیْنَ۔)) وَقَالَ سُرَیْجٌ: ((وَاَقْوَامٌ آمَنُوْا بِاللّٰہِ۔)) (مسند احمد: ۸۴۰۴)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اہل جنت، جنت میں درجات کے تفاوت کے باوجود ایک دوسرے کو اس طرح دیکھیں گے، جیسے تم آسمان کے مشرقی یا مغربی کنارے پر غروب ہوتے، طلوع ہوتے ہوئے ستارے کو دیکھ لیتے ہو۔ صحابہ کرام نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا یہ انبیاء ہوں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! یہ درجات ان لوگوں کے ہوں گے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور تمام رسولوں کی تصدیق کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13295

۔ (۱۳۲۹۵)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ اَھْلَ الدَّرَجَاتِ الْعُلٰی لَیَرَاھُمْ مَنْ تَحْتَہُمْ کَمَا تَرَوْْنَ النَّجْمَ الطَّالِعَ فِی الْاُفُقِ مِنْ آفَاقِ السَّمَائِ وَاَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرَ مِنْہُمْ وَاَنْعَمَا۔)) (مسند احمد: ۱۱۹۰۴)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کابیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں نچلے درجات والے لوگ اونچے درجات والوں کو اس طرح دیکھ سکیں گے، جیسے تم آسمان کے دوردراز کناروں پر چمکتے ستاروں کو دیکھتے ہو اور سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا عمرفاروق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بھی ایسے ہی جنتیوں میں سے ہیں، (جو جنت کے اعلی درجات پر فائز ہوں گے)، اور کیا خوب مقام ہے ان کا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13296

۔ (۱۳۲۹۶)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ اَھْلَ الدَّرَجَاتِ الْعُلٰی لَیَرَاھُمْ مَنْ تَحْتَھُمْ کَمَا تَرَوْنَ النَّجْمَ الطَّالِعَ فِیْ الْاُفُقِ مِنْ آفَاقِ السَّمَائِ، وَاَبُوْ بَکْرٍ وعُمَرُ مِنْہُمْ وَاَنْعَمَا۔)) (مسند احمد: ۱۱۲۳۱)
۔ (دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں بلند درجات والے کو ان سے کم درجوں والے لوگ اس طرح دیکھیںگے، جیسے تم لوگ آسمان کے کنارے پر دمکتے ستارے کو دیکھتے ہو، اور سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی ایسے ہی بلند مقام لوگوں میں سے ہیں اور کیا خوب مقام ہے ان کا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13297

۔ (۱۳۲۹۷)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((آتِیْ بَابَ الْجَنَّۃِیَوْمَ الْقِیَامَۃِ، فَاَسْتَفْتِحُ فَیَقُوْلُ الْخَازِنُ: مَنْ اَنْتَ؟ قَالَ: فَاَقُوْلُ: مُحَمَّدٌ، قَالَ: یَقُوْلُ: بِکَ اُمِرْتُ اَنْ لَّااَفْتَحَ لِاَحَدٍ قَبْلَکَ۔)) (مسند احمد: ۱۲۴۲۴)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں قیامت کے دن جنت کے دروازے پر جا کر دروازہ کھولنے کا مطالبہ کروں گا، دروازے کا نگہبان پوچھے گا:تم کون ہو؟میں کہوں گا: جی میںمحمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہوں، وہ کہے گا: آپ کے بارے میں ہی مجھے حکم دیا گیا تھا کہ میں آپ سے پہلے کسی کے لیے دروازہ نہ کھولوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13298

۔ (۱۳۲۹۸)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((نَحْنُ الْآخِرُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ،نَحْنُ اَوَّلُ النَّاسِ دُخُوْلًا الْجَنَّۃَ، بَیْدَ اَنَّہُمْ اُوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا وَاُوْتِیْنَاہُ مِنْ بَعْدِھِمْ، فَہَدَانَا اللّٰہُ لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِہٖ،فَہٰذَاالْیَوْمُ الَّذِیْ ہَدَانَا اللّٰہُ لَہُ وَالنَّاسُ لَنَا فِیْہِ تَبَعٌ، غَدًا لِلْیَہُوْدِ وَبَعْدَ غَدٍ لِلنَّصَارٰی۔)) (مسند احمد: ۷۶۹۲)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم زمانہ کے لحاظ سے سب سے آخر میں آئے ہیں، تاہم قیامت کے دن ہم سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے، بس فرق یہ ہے کہ ان لوگوں کو ہم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور ہمیں بعد میں دی گئی، ان لوگوں نے جس دن کے بارے میں آپس میں اختلاف کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں ہماری رہنمائی فرما دی اور لوگ اس سلسلے میں ہمارے تابع ہیں، (پہلا دن جمعہ ہے، جو کہ ہمارا ہے)، اس سے اگلا دن (ہفتہ) یہودیوں کا ہے اور اس سے اگلا دن (اتوار) عیسائیوں کا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13299

۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13300

۔ (۱۳۳۰۰)۔ وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرِ و بْنِ الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((ھَلْ تَدْرُوْنَ اَوَّلَ مَنْ یَّدْخُلُ الْجَنَّۃَ مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ؟ قَالُوْا: اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ، قَالَ: ((اَوَّلُ مَنْ یَّدْخُلُ الْجَنَّۃَ مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ الْفُقَرَائُ وَالْمُہَاجِرُوْنَ الَّذِیْنَ تُسَدُّ بِہِمُ الثُّغُوْرُ وَیُتَّقٰی بِہِمُ الْمَکَارِہُ وَیَمُوْتُ اَحَدُھُمْ وَحَاجَتُہُ فِیْ صَدْرِہٖلَایَسْتَطِیْعُ لَھَا قَضَائً، فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لِمَنْ یَّشَائُ مِنْ مَلَائِکَتِہٖ: اِئْتُوْھُمْ فَحَیُّوْھُمْ، فَتَقُوْلُ الْمَلَائِکَۃُ: نَحْنُ سُکَّانُ سَمَائِکَ وَخِیَرَتُکَ مِنْ خَلْقِکَ، اَفَتَاْمُرُنَا اَنْ نَّاْتِیَ ھٰؤُلَائِ فَنُسَلِّمُ عَلَیْہِمْ؟ قَالَ: اِنَّہُمْ کَانُوْا عِبَادًا یَعْبُدُوْنِیِّ، لَایُشْرِکُوْنَبِیْ شَیْئًا وَتُسَدُّ بِہِمُ الثُّغُوْرُ وَیُتَّقٰی بِہِمُ الْمَکَارِہُ وَیَمُوْتُ اَحَدُھُمْ وَحَاجَتُہُ فِیْ صَدْرِہٖلَایَسْتَطِیْعُ لَھَا قَضَائً، قَالَ: فَتَاْتِیْہِمُ الْمَلَائِکَۃُ عِنْدَ ذٰلِکَ فَیَدْخُلُوْنَ عَلَیْہِمْ مِنْ کُلِّ بَابٍ: {سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ} [الرعد: ۲۴]۔)) (مسند احمد: ۶۵۷۰)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے سب سے پہلے جنت میں کون جائے گا؟ صحابہ کرام نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے پہلے وہ فقراء اور مہاجرین جنت میں جائیںگے، جن کے ذریعے سرحدات کو تحفظ دیا جاتا ہے اور جن کے واسطے سے (دشمنوں کے) ناپسندیدہ امور سے بچا جاتا ہے، جبکہ وہ خود اس حال میں دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں کہ ان کی خواہشات ان کے دلوں میں ہی رہ جاتی ہیں اور وہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے، اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو حکم دے گا کہ جا کر ان لوگوں کو سلام کہو، فرشتے کہیں گے: اے اللہ!ہم تیرے آسمان کے رہنے والے ہیں اور تیری بہترین مخلوق ہیں، کیا تو ہمیں اس بات کا حکم دیتا ہے کہ ہم ان لوگوں کے پاس جا کر انہیں سلام کریں؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ وہ لوگ ہیں، جو میری عبادت کیا کرتے تھے، میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے، ان کے ذریعے سرحدات کو تحفظ دیا جاتا تھا اور ان کے واسطے سے ناپسندیدہ امور سے بچا جاتا تھا، جبکہ یہ خود اس حال میں وفات پا گئے تھے کہ ان کی خواہشات ان کے دلوں میں ہی رہ گئی تھیں اور وہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے تھے، اس کے بعد یہ فرشتے ان کے پاس آئیںگے اور ہر دروازے سے داخل ہو کر یوں سلام پیش کریں گے: {سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ} (تم دنیا میں جو صبر کرتے رہے، اس کی وجہ سے تم پر سلام ہو، یہ تمہارا بہترین ٹھکانہ اور منزل ہے۔) (سورۂ رعد: ۲۲،۲۳)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13301

۔ (۱۳۳۰۱)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِنَّ اَوَّلَ ثُلَّۃٍ تَدْخُلُ الْجَنَّۃَ لَفُقَرَائُ الْمُہَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَیُتَّقٰی بِہِمُ الْمَکَارِہُ وَاِذَا اُمِرُوْا سَمِعُوْا وَاَطَاعُوْا وَاِذَا کَانَتْ لِرَجُلٍ مِّنْہُمْ حَاجَۃٌ اِلَی السُّلْطَانِ لَمْ تُقْضَ لَہُ حَتّٰییَمُوْتَ وَھِیَ فِیْ صَدْرِہٖوَاِنَّاللّٰہَعَزَّوَجَلَّیَدْْعُوْیَوْمَ الْقِیَامَۃِ الْجَنَّۃَ فَتَاْتِیْ بِزُخْرُفِہَا وَزِیْنَتِہَا، فَیَقُوْلُ: اَیْ عِبَادِیَ الَّذِیْنَ قَاتَلُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَقُتِلُوْا وَاُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَجَاھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ، اُدْخُلُوْا الْجَنَّۃَ فَیَدْخُلُوْنَہَا بِغَیْرِ حِسَابٍ وَلَاعَذَابٍ،…۔)) وَذَکَرَالْحَدِیْثَ۔ (مسند احمد: ۶۵۷۱)
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والا گروہ ان فقراء مہاجرین کا ہوگا کہ جن کے ذریعے ناپسندیدہ امور سے بچا جاتا تھا،ان کو جب کوئی حکم دیا جاتا تھا تو یہ سنتے اور اس کی اطاعت کرتے، لیکن اگر ان میں سے کسی کو کسی بادشاہ سے کام پڑ جاتا تو مرتے دم تک اس کا کام نہیں کیا جاتا تھا، اور وہ اپنی خواہش دل میں ہی دبائے فوت ہو جاتا تھا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جنت کو بلائے گا، چنانچہ وہ اپنی تمام آرائشوں اور زینتوں کے ساتھ آئے گی، پھر اللہ تعالیٰ کہے گا: اے میرے وہ بندو! جنہوںنے میری راہ میں قتال کیا اور مارے گئے اور میری راہ میں جن کو ایذائیں دی گئیں اور جنہوں نے میری راہ میں جہاد کیا، جنت میں داخل ہو جاؤ، چنانچہ وہ حساب اور عذاب کے بغیر جنت میں داخل ہو جائیں گے، …۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13302

۔ (۱۳۳۰۲)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَوَّلُ زُمْرَۃٍ تَلِجُ الْجَنَّۃَ صُوْرَتُہُمْ عَلٰی صُوْرَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ لَایَبْصُقُوْنَ وَلَایَتْفِلُوْنَ فِیْہَا وَلَایَتَخَمَّطُوْنَ فِیْہَا وَلَایَتَغَوَّطُوْنَ فِیْہَا، آنِیَتُہُمْ وَاَمْشَاطُہُمُ الذَّھَبُ وَالْفِضَّۃُ وَمَجَامِرُھُمُ الْاُلُوَّۃُ وَرَشْحُہُمُ الْمِسْکُ، وَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمْ زَوْجَتَانِ یُرٰی مُخُّ سَاقَیْہِمَا مِنْ وَّرَائِ اللَّحْمِ مِنَ الْحُسْنِ لَااخْتِلَافَ بَیْنَہُمْ وَلَاتَبَاغُضَ، قُلُوْبُہُمْ عَلٰی قَلْبٍ وَاحِدٍ یُسَبِّحُوْنَ اللّٰہَ بُکْرَۃً وَعَشِیًّا۔)) (مسند احمد: ۸۱۸۳)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں داخل ہونے والے سب سے پہلے گروہ کی صورتیں چودھویں شب کے چاند کی طرح روشن ہوںگی، ان کو جنت میں نہ لعاب آئے گا، نہ وہ وہاں تھوکیں گے، نہ ان کے ناکوں میں کوئی فضلہ ہوگا اور نہ وہ قضائے حاجت کریں گے، ان کے استعمال کے برتن اور کنگھیاں سونے اور چاندی کی ہوں گی، ان کی انگیٹھیوں میں (جلانے کے لئے) خوشبودار لکڑی ہو گی، ان کا پسینہ کستوری ہو گا، ہر جنتی کی دو دو بیویاں ہوں گی، ان کے حسن و لطافت کی بناء پر ان کی پنڈلیوں کا گودا گوشت میں سے نظر آ رہا ہوگا، اہل جنت کا آپس میں کسی قسم کا اختلاف یا جھگڑا نہیں ہوگا۔ ان کے دل ایک دوسرے کے بغض سے یکسر پاک صاف ہوںگے گویا ان سب کا دل ایک ہوگا۔ وہ صبح شام اللہ تعالیٰ کی تسبیحات کریں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13303

۔ (۱۳۳۰۳)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیًْقٍ آخَرَ) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ اَوَّلَ زُمْرَۃٍ تَدْخُلُ الْجَنَّۃَ عَلٰی صُوْرَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ ثُمَّ الَّذِیْنَیَلُوْنَہُمْ عَلٰی اَشَدِّ ضَوْئِ کَوْکَبٍ دُرِّیٍّ فِی السَّمَائِ اِضَائَ ۃً لَایَبُوْلُوْنَ وَلَایَتَغَوَّطُوْنَ وَلَایَتْفُلُوْنَ وَلَایَتَخَمَّطُوْنَ اَمْشَاطُہُمُ اَلذَّھَبُ وَرَشْحُہُمُ الْمِسْکُ وَمَجَامِرُھُمُ الْاُلُوَّۃُ وَاَزْوَاجُہُمُ الْحُوْرُ الْعِیْنُ، اَخْلَاقُہُمْ عَلٰی خَلْقِ رَجُلٍ وَاحِدٍ عَلٰی صُوْرَۃِ اَبِیْہِمْ آدَمَ فِیْ طُوْلِ سِتِّیْنَ ذِرَاعًا۔)) (مسند احمد: ۷۱۶۵)
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے گروہ کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی مانند روشن اور صاف ہوں گے، ان سے کم مرتبہ والوں کے چہرے آسمان پر سب سے زیادہ دمکتے ستارے جیسے ہوں گے، وہ جنت میں نہ پیشاب کریں گے،نہ تھوکیں گے، نہ ان کے ناکوں میں کوئی فضلہ ہو گا، ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی، ان کا پسینہ کستوری ہو گا، ان کی انگیٹھیوں میں (جلانے کے لئے) خوشبودار لکڑی ہو گی اور کی بیویاں موٹی آنکھوں والی حوریں ہوں گی،ان کے اخلاق ایک آدمی کے اخلاق کی مانند ہوں گے ( یعنی ان کا آپس میں کسی قسم کا اختلاف، ناراضگی اور بغض و حسد نہیں ہو گا)، ان سب کے قد ان کے باپ آدم علیہ السلام کے قد جتنا ہو گا، یعنی ساٹھ ہاتھ لمبے ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13304

۔ (۱۳۳۰۴)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَالِثٍ) بِنَحْوِہٖوَفِیْہِ ((لِکُلِّ امْرِیئٍ مِّنْہُمْ زَوْجَتَانِ ثِنْتَانِ، یُرٰی مُخُّ سَاقِہِمَا مِنْ وَّرَائِ اللَّحْمِ وَمَا فِی الْجَنَّۃِ اَعْزَبُ۔)) (مسند احمد: ۷۱۵۲)
۔ (تیسری سند) اس میں ہے: ہرجنتی کی دو دو بیویاں ہوں گی، ان کے گوشت سے ان کی پنڈلیوں کا گودا نظر آ رہا ہو گا اور جنت میں کوئی آدمی بھی بیوی کے بغیر نہیں ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13305

۔ (۱۳۳۰۵)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا عَبْدُاللّٰہِ بْنُ بَکْرِ نِ السَّہْمِیُّ ثَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مِہْرَانَ عَنْ مُوْسٰی بْنِ عُبَیْدٍ عَنْ مَیْمُوْنِ بْنِ مِہْرَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ رَبِّیْ اَعْطَانِیْ سَبْعِیْنَ اَلْفًا مِّنْ اُمَّتِیْیَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ۔)) فَقَالَ عُمَرُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَہَلَّا اِسْتَزَدْتَّہُ، قَالَ: ((قَدِ اسْتَزَدْتُّہُ فَاَعْطَانِیْ مَعَ کُلِّ رَجُلٍ سَبْعِیْنَ اَلْفًا۔)) قَالَ عُمَرُ: فَہَلَّا اِسْتَزَدْتَّہُ، قَالَ: ((قَدِ اسْتَزَدْتُّہُ فَاَعْطَانِیْ ہٰکَذَا۔)) وَفَرَّجَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرٍ بَیْنَیَدَیْہِ وَقَالَ عَبْدُاللّٰہِ: وَبَسَطَ بَاعَیْہِ وَحَثَا عَبْدُ اللّٰہِ، وَقَالَ ہِشَامٌ: وَہٰذَا مِنَ اللّٰہِ لَایُدْرٰی مَا عَدَدُہُ۔ (مسند احمد: ۱۷۰۶)
سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے ربّ نے مجھ سے وعدہ کیا کہ میری امت کے سترہزر افراد بغیر حساب و کتاب کے جنت میںجائیں گے۔ یہ سن کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے اس تعداد میں مزید اضافے کی درخواست کیوں نہیں کی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے مزید اضافے کی درخواست کی تھی اوراللہ تعالیٰ نے ان ستر ہزار میں سے ہر فرد کے ساتھ ستر ستر ہزار آدمی بھیجنے کا وعدہ کیا۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے مزید اضافے کی درخواست کیوں نہیں کی تھی؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میںنے درخواست کی تھی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے دو بازوؤں کو پھیلا کر اشارہ کر کے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مزید اتنے افراد کو بھی بغیر حساب کتاب جنت میں بھیجنے کا وعدہ کیا۔ امام احمد کے شیخ عبد اللہ بن بکر نے اپنے دونوں ہاتھوں کو سامنے کی طرف پھیلاکر اور عبد اللہ بن امام احمد نے اپنے پہلوؤں کی طرف دونوں بازوؤں کو پھیلا کر ان کو بھرنے کا اشارہ کیا۔ ہشام نے کہا: یہ تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، کوئی نہیں جانتا کہ اس کی تعداد کتنی ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13306

۔ (۱۳۳۰۶)۔ وَعَنْ اَبِیْ بَکْرِ نِ الصِّدِّیْقِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اُعْطِیْتُ سَبْعِیْنَ اَلْفًا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ وُجُوْہُہُمْ کَالْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ وَقُلُوْبُہُمْ عَلٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ فَاسْتَزَدْتُّ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ فَزَادَنِیْ مَعَ کُلِّ وَاحِدٍ سَبْعِیْنَ اْلَفًا۔)) قَالَ اَبُوْبَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: فَرَأَیْتُ اَنَّ ذٰلِکَ اَتٰی عَلٰی اَھْلِ الْقُرٰی وَمُصِیْبٌ مِنْ حَافَّاتِ الْبَوَادِیْ۔)) (مسند احمد: ۲۲)
ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: : میری امت کے ستر ہزار افراد بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے‘ ان کے چہرے بدر والی رات کے چاند کی طرح چمکتے ہوں گے اور ان کے دل ایک انسان کے دل کی مانند ہوں گے۔ جب میں نے اپنے ربّ سے مزید مطالبہ کیا تو اس نے ہر ایک کے ساتھ مزید ستر ہزار افراد کا اضافہ کر دیا۔ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میرا خیال ہے کہ یہ چیز تو بستیوں والوں پر آئے گی اور دیہاتوں کے کناروں تک پہنچ جائے گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13307

۔ (۱۳۳۰۷)۔ وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((سَاَلْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ فَوَعَدَنِیْ اَنْ یُّدْخِلَ مِنْ اُمَّتِیْ سَبْعِیْنَ اَلْفًا عَلٰی صُوْرَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدَرِ فَاسْتَزَدْتُّ فَزَادَنِیْ مَعَ کُلِّ اَلْفٍ سَبْعِیْنَ اَلْفًا فَقُلْتُ: اَیْ رَبِّ! اِنْ لَّمْ یَکُنْ ھٰوُلَائِ مُہَاجِرِیْ اُمَّتِیْ، قَالَ: اِذَنْ اُکْمِلُہُمْ لَکَ مِنَ الْاَعْرَابِ۔)) (مسند احمد: ۸۶۹۲)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے ربّ سے درخواست کی اور اس نے میرے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ میری امت میں سے ستر ہزار افراد کو جنت میں داخل کرے گا، ان افراد کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح منور ہوں گے، جب میںنے اس تعداد میں اضافے کی درخواست کی تو اس نے اس تعداد کے ہر فرد کے ساتھ ستر ستر ہزار کا مزید اضافہ کر دیا، میں نے کہا: اے میرے رب! اگر میری امت کے مہاجرین کی تعداد اس قدر نہ ہوئی تو؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں پھر عام دیہاتیوں سے اس عدد کو پورا کر د وں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13308

۔ (۱۳۳۰۸)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا قَالَ: سَمِعْتُ اَبَا الْقَاسِمِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((یَدْخُلُ سَبْعُوْنَ اَلْفًا مِنْ اُمَّتِیَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ۔)) فَقَالَ رَجُلٌ: اُدْعُ اللّٰہَ اَنْ یَجَعَلَنِیْ مِنْہُمْ، فَقَالَ: ((اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہُ مِنْہُمْ۔)) ثُمَّ قَامَ آخَرُ، فَقَالَ: اُدْعُ اللّٰہَ اَنْ یَّجْعَلَنِیْ مِنْہُمْ، فَقَالَ: ((سَبَقَکَ بِہَا عُکَاشَۃُ۔)) (مسند احمد: ۸۰۰۳)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ابو القاسم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت میں سے ستر ہزار افراد بغیر حساب وکتاب کے جنت میں جائیں گے۔ ایک آدمی نے کہا: آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے ان لوگوں میں شامل کر دے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے حق میں یہ دعا کی: یا اللہ! اس کو ان لوگوں میں شامل کر دے۔ اس کے بعد ایک اور آدمی نے کھڑا ہوا اور کہا: آپ میرے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کر دیں کہ وہ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل کر لے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عکاشہ تجھ سے سبقت لے گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13309

۔ (۱۳۳۰۹)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مِنْ اُمَّتِیْ زُمْرَۃٌ ھُمْ سَبْعُوْنَ اَلْفًا تُضِیْئُ وُجُوْھُہُمْ اِضَائَ ۃَ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ۔)) فَقَالَ اَبُوْ ھُرَیْرَۃُ: فَقَامَ عُکَاشَۃُ بْنُ مِحْصَنِ نِ الْاَسْدِیُّ ( ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) یَرْفَعُ نَمِرَۃً عَلَیْہِ فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اُدْعُ اللّٰہَ اَنْ یَّجْعَلَنِیْ مِنْہُمْ، فَقَالَ: ((اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہُ مِنْہُمْ۔)) ثُمَّ قَامَ رَجُلٌ مِّنَ الْاَنْصَارِ فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اُدْعُ اللّٰہَ اَنْ یَّجْعَلَنِیْ مِنْہُمْ قَالَ: ((سَبَقَکَ عُکَاشَۃُ۔)) (مسند احمد: ۹۱۹۱)
۔ (دوسری سند) سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت میں سے ستر ہزار افراد کی ایک جماعت جنت میںاس حال میں جائے گی کہ ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ یہ سن کر سیدنا عکاشہ بن محصن اسدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی چادر کو سنبھالتے ہوئے کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان لوگوں میں شامل کر دے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے لے یوں دعا کی: اے اللہ! اسے ان لوگوں میں شامل کر دے۔ اس کے بعد ایک انصاری آدمی کھڑا ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول! دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل کر دے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عکاشہ تم سے سبقت لے گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13310

۔ (۱۳۳۱۰)۔ وَعَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ وَعَدَنِیْ اَنْ یُّدْخِلَ مِنْ اُمَّتِیَ الْجَنَّۃَ سَبْعِیْنَ اَلْفًا بِغَیْرِ حِسَابٍ۔)) فَقَالَ یَزِیْدُ بْنُ الْاَخْنَسِ السُّلَمِیُّ: وَاللّٰہِ! مَا اُولٰئِکَ فِیْ اُمَّتِکَ اِلَّا کَالذُّبَابِ الْاَصْہَبِ فِی الذُّبَابِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کَانَ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ قَدْ وَعَدَنِیْ سَبْعِیْنَ اَلْفًا مَعَ کُلِّ اَلْفٍ سَبْعِیْنَ اَلْفًا وَزَادنِیْ ثَلَاثَ حَثَیَاتٍ (زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ مِنْ حَثَیَاتِ الرَّبِّ)۔)) (مسند احمد: ۲۲۵۰۸)
سیدناابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ میری امت میں سے ستر ہزار افراد کو بلا حساب جنت میں داخل فرمائے گا۔ یہ سن کر سیدنا یزید بن اخنس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ تعداد تو آپ کی امت میں ایسے ہی ہے، جیسے عام مکھیوں میں زرد رنگ کی مکھیوںکی قلیل سی تعداد ہوتی ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے ربّ نے میرے ساتھ ستر ہزار کا وعدہ کیا اور ہر ہزار کے ساتھ مزید ستر ہزار کا بھی وعدہ کیا اور اس پر مستزاد یہ کہ اللہ تعالیٰ کے تین چلو اس تعداد کے علاوہ ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13311

۔ (۱۳۳۱۱)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ اَدْنٰی مَقْعَدِ اَحَدِکُمْ مِنَ الْجَنَّۃِ اَنْ یَّقُوْلَ تَمَنَّ وَیَتَمَنّٰی فَیَقُوْلُ لَہُ: ھَلْ تَمَنَّیْتَ؟ فَیَقُوْلُ: نَعَمْ، فَیَقُوْلُ لَہُ: فَاِنَّ لَکَ مَا تَمَنَّیْتَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ۔)) (مسند احمد: ۸۱۵۳)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو آدمی جنت میں سب سے کم درجہ والا ہو گا، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: تو جو کچھ مانگنا چاہتا ہے، اس کی تمنا کر، وہ آدمی تمناکرے گا، پھراللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: کیا تو نے تمنا کر لی ہے؟ وہ عرض کرے گا: جی ہاں، پھر اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: تو نے جو تمنا کی ہے، تجھے وہ کچھ بھی ملے گا اور اس جتنا مزید بھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13312

۔ (۱۳۳۱۲)۔ وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ اَدْنٰی اَھْلِ الْجَنَّۃِ مَنْزِلَۃً لَیَنْظُرُ فِیْ مُلْکِہٖاَلْفَیْ سَنَۃٍیَرٰی اَقْصَاہُ کَمَا یَرٰی اَدْنَاہُ یَنْظُرُ فِیْ اَزْوَاجِہٖوَخَدَمِہٖ،وَاِنَّاَفْضَلَہُمْمَنْزِلَۃً لَیَنْظُرُ فِیْ وَجْہِ اللّٰہِ تَعَالٰی کُلَّ یَوْمٍ مَرَّتَیْنِ۔)) (مسند احمد: ۴۶۲۳)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اہل جنت میں سے سب سے کم مرتبے والا آدمی اپنے ملک میں دو ہزار سال کے عرصہ میں محض ایک بار نظر ڈال سکے گا، وہ دور والے مقامات کو بھی اسی طرح دیکھے گا جیسے قریب والی جگہ کو دیکھے گا، اسی طرح وہ اپنی بیویوں اور خادموں کو دیکھے گا اور اہل جنت میں سے اعلیٰ ترین درجے والے جنتی وہ ہو گا جو روزانہ دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کرے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13313

۔ (۱۳۳۱۳)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) رَفَعَہُ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ اَدْنٰی اَھْلِ الْجَنَّۃِ مَنْزِلَۃً اَلَّذِیْیَنْظُرُ اِلٰی جِنَانِہٖوَنَعِیْمِہٖ وَخَدَمِہٖوَسُرُرِہٖمِنْمَسِیْرَۃِ اَلْفِ سَنَۃٍ، اِنَّ اَکْرَمَہُمْ عَلٰی اللّٰہِ مَنْیَّنْظُرُ اِلٰی وَجْہِہٖغُدْوَۃً وَعَشِیَّۃً ثُمَّ تَلَاہٰذِہِ الْاَیَۃَ {وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ}۔ (مسند احمد: ۵۳۱۷)
۔ (دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اہل جنت میں سب سے کم درجہ والا جنتی ایک ہزار سال کی مسافت سے اپنے باغات، نعمتوں ، خادموں اور تختوں کودیکھے گا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ معزز وہ جنتی ہوگا جو ہر صبح شام کو اللہ تعالیٰ کا دیدار کرے گا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ} (اس دن بہت سے چہرے پر رونق ہوں گے اور اپنے ربّ کا دیدار کر رہے ہوں گے۔) (سورۂ قیامہ: ۲۲،۲۳)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13314

۔ (۱۳۳۱۴)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ اَدْنٰی اَھْْلِ الْجَنَّۃِ مَنْزِلَۃً مَنْ یَّتَمَنّٰی عَلٰی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَیُقَالُ: لَکَ ذٰلِکَ وَمِثْلُہُ مَعَہُ اِلَّا اَنَّہُ یُلَقَّنُ فَیُقَالُ لَہُ: کَذَا وَکَذَا، فَیُقَالُ: لَکَ ذٰلِکَ وَمِثْلُہُ۔)) فَقَالَ اَبُوْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ( ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌): قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَیُقَالُ: لَکَ ذٰلِکَ وَعَشْرَۃُ اَمْثَالِہٖ۔)) (مسنداحمد: ۹۸۱۴)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اہل جنت میں سب سے کم درجے والا شخص وہ ہو گا جو اللہ تعالیٰ پر تمنائیں کرے گا اور اس سے کہا جائے گا: یہ سب کچھ تیرے لیے ہے، بلکہ اتنا مزید بھی دیا جاتا ہے، پھر اسے یہ لقمہ دیا جائے گا کہ فلاں فلاں چیز بھی مانگ لے ۔ پھر اسے کہاجائے گا یہ سب کچھ تجھے دیا جاتا ہے اور اس کا ایک گنا مزید بھی عطا کیا جاتا ہے۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس سے کہا جائے گا کہ یہ سب کچھ تجھے دیا جا رہا ہے، بلکہ اس کے ساتھ اس کا دس گنا مزید بھی دیا جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13315

۔ (۱۳۳۱۵)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ اَدْنٰی اَھْلِ الْجَنَّۃِ مَنْزِلَۃً اَنَّ لَہُ لَسَبْعَ دَرَجَاتٍ وَھُوَ عَلٰی السَّادِسَۃِ وَفَوْقَہُ السَّابِعَۃُ وَاِنَّ لَہُ لَثَلٰثُمِائَۃِ خَادِمٍ وَیُغْدٰی عَلَیْہِ وَیُرَاحُ کُلَّ یَوْمٍ ثَلٰثُمِائَۃِ صَحْفَۃٍ وَلَااَعْلَمُہُ اِلَّا قَالَ: مِنْ ذَھَبٍ فِیْ کُلِّ صَحْفَۃٍ لَوْنٌ لَیْسَ فِی الْاُخْرٰی، وَاِنَّہ لَیَلَذُّ اَوَّلُہُ کَمَا یَلَذُّ آخِرُہُ وَاِنَّہُ لَیَقُوْلُ: یَارَبِّ! لَوْ اَذِنْتَ لِیْ لَاَطْعَمْتُ اَھْلَ الْجَنَّۃِ وَلَسَقَیْتُہُمْ لَمْ یَنْقُصْ مِمَّا عِنْدِیْ شَیْئٌ وَاِنَّ لَہُ لَاِثْنَتَیْنِ وَسَبْعِیْنَ زَوْجَۃً سِوٰی اَزْوَاجِہٖمِنَالدُّنْیَا وَاِنَّ الْوَاحِدَۃَ مِنْہُمْ لِیَأْخُذُ مَقْعَدُھا قَدْرَ مِیْلٍ مِنَ الْاَرْضِ۔)) (مسند احمد: ۱۰۹۴۵)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سب سے کم مرتبے والے جنتی کے سات درجات ہوںگے، وہ چھٹے درجے پر ہو گا اور اس سے اوپر ساتواں ہوگا، اس کے تین سو خادم ہوں گے، صبح شام سونے کے تین سو برتن اس کے سامنے پیش کیے جائیں گے اور ہر برتن میں ایسا کھانا ہوگا جو دوسرے برتن میں نہیں ہوگا اور اس کا پہلا حصہ جتنا لذید ہو گا، اس کا آخری بھی اتنا ہی مزیدار ہو گا۔وہ کہے گا: اے میرے ربّ! اگر تو مجھے اجازت دے اور میں اہل جنت کو کھانا پیش کروں اور مشروبات پلاؤں، اس سے میری نعمتوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی، نیز اسے دنیا والی بیویوں کے علاوہ بہتر جنتی بیویاں ملیں گی، ان میں سے ایک ایک بیوی کے بیٹھنے کی جگہ ایک میل زمین کے برابر ہوں گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13316

۔ (۱۳۳۱۶)۔ عَنْ عِیَاضِ بْنِ حِمَارٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَھْلُ الْجَنَّۃِ ثَلَاثَۃٌ ذُوْ سُلْطَانٍٍ مُقْسِطٌ مُتَصَدِّقٌ مُوَفَّقٌ، وَرَجُلٌ رَحِیْمٌ رَقِیْقُ الْقَلْبِ بِکُلِّ ذِیْ قُرْبٰی وَمُسْلِمٍ ، وَرَجُلٌ عَفِیْفٌ فَقِیْرٌ مُتَصَدِّقٌ۔)) (مسند احمد: ۱۷۶۲۳)
سیدنا عیاض بن حمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تین قسم کے لوگ جتنی ہیں: (۱) وہ بادشاہ جو عادل ہو، صدقہ کرتا ہو اور اسے خاص توفیق سے نوازا گیا ہو،(۲) وہ آدمی جو مہربان اور ہر رشتہ دار اور ہر مسلمان کے حق میں نرم دل والا ہو اور(۳) وہ پاکدامن آدمی جو فقیر ہو، لیکن پھر بھی صدقہ کرتا ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13317

۔ (۱۳۳۱۷)۔ وَعَنْ حَسْنَائَ ابْنَۃِ مُعَاوِیَۃَ الصَّرِیْمِیَّۃِ عَنْ عَمِّہَا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَنْ فِی الْجَنَّۃِ؟ قَالَ: ((اَلنَّبِیُّ فِی الْجَنَّۃِ، وَالشَّہِیْدُ فِی الْجَنَّۃِ، وَالْمَوْلُوْدُ فِی الْجَنَّۃِ، وَالْمَوْؤُدَۃُ فِی الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۰۸۵۹)
بنو صریم کی خاتون حسناء بنت معاویہ اپنے چچا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کرتی ہے، وہ کہتے ہیں:میںنے کہا: اے اللہ کے رسول! کون لوگ جنتی ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نبی جنتی ہے، شہید جنتی ہے، بچہ جنتی ہے اور زندہ در گور کی گئی لڑکی جنتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13318

۔ (۱۳۳۱۸)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ اَقْوَامٌ اَفْئِدَتُہُمْ مِثْلُ اَفْئِدَۃِ الطَّیْرِ۔)) (مسند احمد: ۸۳۶۴)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں وہ لوگ داخل ہوں گے، جن کے دل پرندوں کے دلوں جیسے نرم ہوںگے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13319

۔ (۱۳۳۱۹)۔ عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَھْلُ الْجَنَّۃِ عِشْرُوْنَ وَمِائَۃُ صَفٍّ، ہٰذِہِ الْاُمَّۃُ مِنْ ذٰلِکَ ثَمَانُوْنَ صَفًّا۔)) قَالَ اَبُوْعَبْدِالرَّحْمٰنِ: مَاتَ بِشْرُ بْنُ الْحَارِثِ وَاَبُو الْاَحْوَصِ وَالْھَیْثَمُ بْنُ خَارِجَۃَ فِیْ سَنَۃِ سَبْعٍ وَّعِشْرِیْنَ۔ (مسند احمد: ۲۳۴۴۹)
سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی، ان میں سے اسی (۸۰) صفیں اس امت کے لوگوں کی ہوں گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13320

۔ (۱۳۳۲۰)۔ وَعَنْْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یَدْخُلُ اَھْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ جُرْدًا مُرْدًا بِیْضًا جُعَادًا مُکْحَلِیْنَ اَبْنَائُ ثَلَاثٍ وَثَلَاثِیْنَ عَلٰی خَلْقِ آدَمَ سِتُّوْنَ ذِرَاعًا فِیْ عَرْضِ سَبْعَۃِ اَذْرُعٍ۔)) (مسند احمد: ۷۹۲۰)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اہل جنت، جنت میں جائیں گے تو ان کے جسموں پر بال نہیں ہوں گے، اور وہ بے ریش نوجوان ، سفید رنگ، گھنگریالے بالوں والے اور سر مگیں آنکھوں والے ہوں گے، ان کی عمریں تینتیس برس کی اور قد آدم علیہ السلام کے قد کے برابر سا ٹھ ہاتھ اور جسم کی چوڑائی سات ہاتھ ہوگی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13321

۔ (۱۳۳۲۱)۔ وَعَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یُبْعَثُ الْمُوْمِنُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ جُرْدًا مُرْدًا مُکْحَلِیْنَ بَنِیْ ثَلَاثِیْنَ سَنَۃً۔)) (مسند احمد: ۲۲۴۳۱)
سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن اہل ایمان کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ بے ریش ہوں گے، جسم پر بھی بال نہیں ہوں گے، آنکھیں سرمگیں ہوں گی اور عمریں تیس سال کی ہوں گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13322

۔ (۱۳۳۲۲)۔ وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَھْلُ الْجَنَّۃِیَاْکُلُوْنَ فِیْہَا وَیَشْرَبُوْنَ وَلَایَتَغَوَّطُوْنَ وَلَایَبُوْلُوْنَ وَلَایَتَمَخَّطُوْنَ وَلَایَبْزُقُوْنَ، طَعَامُہُمْ جُشَائٌ وَرَشْحٌ کَرَشْحِ الْمِسْکِ۔)) (مسند احمد: ۱۴۴۵۴)
سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اہل جنت، جنت میں کھائیں گے اور پئیں گے، لیکن وہ پائخانہ کریں گے نہ پیشاب اور ان کے ناک سے فضلہ آئے گا نہ منہ سے تھوک، ان کا کھانا تو ایک ڈکار سے ہضم ہو جائے گا اور ان کا پسینہ کستوری کی خوشبو جیسا ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13323

۔ (۱۳۳۲۳)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) قَالَ: سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : اَیَاْکُلُ اَھْلُ الْجَنَّۃِ؟ قَالَ: ((نَعَمْ وَیَشْرَبُوْنَ وَلَایَبُوْلُوْنَ فِیْہَا وَلَایَتَغَوَّطُوْنَ وَلَا یَتَنَخَّمُوْنَ، اِنَّمَا یَکُوْنُ ذٰلِکَ جُشَائً وَرَشْحًا کَرَشْحِ الْمِسْکِ وَیُلْہَمُوْنَ التَّسْبِیْحَ وَالتَّحْمِیْدَ کَمَا تُلْہَمُوْنَ النَّفَسَ۔)) (مسند احمد: ۱۴۸۷۵)
۔ (دوسری سند) سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ پوچھا گیا کہ آیا جنتی لوگ کچھ کھایا کریں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، وہ کھائیں گے اورپئیں گے، لیکن نہ وہ پیشاب کریں گے، نہ پائخانہ کریں گے اور نہ ان کو بلغم آئے گی، ایک ڈکار سے ان کا کھانا ہضم ہوجائے گا، ان کا پسینہ کستوری کی طرح عمدہ اور خوش بو دار ہوگا اوراللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرنے لیے ان کے دل میں یوں خیال ڈال دیا جائے گا، جیسے تمہارے دل میں سانس لینے کا خیال ڈالا گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13324

۔ (۱۳۳۲۴)۔ وَعَنْ زَیْدِ بْنِ اَرْقَمَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ اَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَجُلٌ مِنَ الْیَہُوْدِ فَقَالَ: یَااَبَاالْقَاسِمِ! اَلَسْتَ تَزْعُمُ اَنَّ اَھْلَ الْجَنَّۃِیَاْکُلُوْنَ فِیْہَا وَیَشْرَبُوْنَ؟ وَقَالَ لِاَصْحَابِہٖ: اِنْاَقَرَّلِیْ بِہٰذِہٖخَصَمْتُہُ،قَالَ: فَقَالَرَسُوْلُاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بَلٰی وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ اِنَّ اَحَدَھُمْ لَیُعْطٰی قُوَّۃَ مِائَۃِ رَجُلٍ فِی الْمَطْعَمِ وَالْمَشْرَبِ وَالشَّہْوَۃِ وَالْجِمَاعِ۔)) قَالَ: فَقَالَ لَہُ الْیَہُوْدِیُّ: فَاِنَّ الَّذِیْیَاْکُلُ وَیَشْرَبُ تَکُوْنُ لَہُ الْحَاجَۃُ؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((حَاجَۃُ اَحَدِھِمْ عِرْقٌ یَفِیْضُ مِنْ جُلُوْدِھِمْ مِثْلَ رِیْحِ الْمِسْکِ، فَاِذَا الْبَطْنُ قَدْ ضُمِّرَ۔)) (مسند احمد: ۱۹۴۸۴)
سیدنا زید بن ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میں خدمت میں آیا اور اس نے پوچھا: اے ابوالقاسم! آپ یہ کہتے ہیں ناں کہ جنتی جنت میں کھائیں گے اور پئیں گے؟ وہ اپنے ساتھیوں سے کہہ چکا تھا کہ اگر محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان دو باتوں کا اقرار کر لیا تو میں ان پر غالب آ جاؤں گا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا: ہاں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ایک ایک جنتی کو کھانے پینے اور شہوت و جماع کے سلسلے میں سو سو آدمیوں کے برابر قوت دی جائے گی۔ یہ سن کر یہودی نے کہا: تو پھرجو آدمی کھاتا پیتا ہے، اسے بول و براز کی حاجت بھی پیش آتی ہے؟رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کی یہ حاجت اس طرح پوری ہو جائے گی کہ ان کے جسموں سے پسینہ خارج ہوگا، جس کی خوشبو کستوری جیسی ہوگی، اسی سے ان کے پیٹ ہلکے ہو جایا کریں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13325

۔ (۱۳۳۲۵)۔ وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَرَاَیْتَ ثِیَابَ اَھْلِ الْجَنَّۃِ اُتُنْسَجُ نَسْجًا اَمْ تُشَقَّقُ مِنْ ثَمَرِ الْجَنَّۃِ؟ قَالَ: فَکَاَنَّ الْقَوْمَ تَعَجَّبُوْا مِنْ مَسْاَلَۃِ الْاَعْرَابِیِّ فَقَالَ: ((مَا تَعَجَّبُوْنَ مِنْ جَاھِلٍ یَسْاَلُ عَالِمًا!)) قَالَ: فَسَکَتَ ھُنَیَّۃً، ثُمَّ قَالَ: ((اَیْنَ السَّائِلُ عَنْ ثِیَابِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ؟)) قَالَ: اَنَا، قَالَ: ((لَا، بَلْ تُشَقَّقُ مِنْ ثَمَرِ الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۶۸۹۰)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر یہ سوال کیا: اے اللہ کے رسول! اہل ِ جنت کے لباس کے بارے میں فرمائیے کہ وہ بُنا جائے گا یا وہ جنت کے پھلوں سے ہی بنا لیا جائے گا؟ اس بدّو کے سوال سے یوں محسوس ہوا کہ لوگوں کو حیرت ہوئی ہے؟ یہ دیکھ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہیں اس بات سے تعجب ہو رہا ہے کہ ایک بے علم،علم والے سے ایک سوال کر رہا ہے؟ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کچھ دیر کے لیے خاموش رہے اور پھر فرمایا: وہ سائل کہاں ہے، جو اہل ِ جنت کے لباس کے بارے میں دریافت کر رہا تھا؟ وہ بولا: جی میں ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ـ اس لباس کو بُنا نہیں جائے گا، بلکہ وہ جنت کے پھلوں سے نکلے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13326

۔ (۱۳۳۲۶)۔ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: جَائَ اَعْرَابِیٌّ عُلْوِیٌّ جَرِیْئٌ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَخْبِرْنَا عَنِ الْھِجْرَۃِ اِلَیْکَ اَیْنَمَا کُنْتَ اَوْ لِقَوْمٍ خَاصَّۃٍ اَمْ اِلٰی اَرْضٍ مَعْلُوْمَۃٍ اَمْ اِذَا مِتَّ اِنْقَطَعَتْ؟ قَالَ: فَسَکَتَ عَنْہُ یَسِیْرًا، ثُمَّ قَالَ: ((اَیْنَ السَّائِلُ۔)) قَالَ: ھَا ھُوَ ذَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((اَلْھِجْرَۃُ اَنْ تَہْْجُرَ الْفَوَاحِشَ مَاظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَتُقِیْمَ الصَّلاَۃَ وَتُوْتِیَ الزَّکَاۃَ ثُمَّ اَنْتَ مُہَاجِرٌ وَاِنْ مُتَّ بِالْحَضْرِ۔)) ثُمَّ قَالَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو، اِبْتِدَائً مِنْ نَفْسِہٖ: جَائَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَخْبِرْنَا عَنْ ثِیَابِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ خَلْقًا تُخْلُقُ اَمْ نَسْجًا تُنْسَجُ، فَضِحَکَ بَعْضُ الْقَوْمِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مِمَّ تَضْحَکُوْنَ مِنْ جَاھِلٍ یَسْاَلُ عَالِمًا!)) ثُمَّ اَکَبَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ قَالَ: ((اَیْنَ السَّائِلُ؟)) قَالَ: ھُوَ اَنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((لَا بَلْ تَشَقَّقُ عَنْہَا ثَمَرُ الْجَنَّۃِ۔)) ثَلَاثَ مَرَّاتٍ۔ (مسند احمد: ۷۰۹۵)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک علوی اور جرأت مند بدّو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! آپ ہمیں اپنی طرف ہجرت کے متعلق بتلائیں کہ آیا ہجرت اُدھر ہی کی جاسکتی ہے، جہاں آپ تشریف فرما ہوں یا ہجرت کا کسی مخصوص قوم کے ساتھ ہی تعلق ہے کہ وہی قوم ہجرت کر سکتی ہے یا ہجرت کا تعلق کسی مخصوص زمین کے ساتھ ہے یا جب آپ وفات پا جائیں گے تو کیا ہجرت کا سلسلہ منقطع ہوجائے گا؟ یہ بات سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کچھ دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا: وہ سائل کہاں ہے؟ وہ بولا: جی میں ہوں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اصل ہجرت تو یہی ہے کہ تو ظاہری اور باطنی گناہ کو اور برائی کو ترک کر دے، اور نماز قائم کر اور زکوٰۃ ادا کر، بس پھر تو صحیح معنوں میں مہاجر ہوگا، خواہ تجھے تیرے اپنے شہر میں ہی موت آ جائے۔ بعد ازاں سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنی طرف سے شروع کرتے ہوئے کہا: ایک آدمی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ ہمیں اہل ِ جنت کے لباس کے بارے میں آگاہ فرمائیں کہ اسے الگ سے پیدا کیا جائے گا یا اس کو بُنا جائے گا؟ اس کا سوال سن کر بعض لوگ ہنس پڑے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اس سے کیوں ہنس رہے ہوکہ ایک بے علم نے ایک علم والے سے ایک مسئلہ پوچھا ہے؟ اس کے بعد اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سر جھکا لیا اور پھر فرمایا: وہ سائل کہاں ہے؟ وہ بولا: جی یہ میں موجود ہوں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین بار فرمایا: نہیں، بلکہ اس سے جنت کے پھل نکلتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13327

۔ (۱۳۳۲۷)۔ عَنْ بُرَیْدَۃَ الْاَسْلَمِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: جَائَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنِّیْ اُحِبَّ الْخَیْلَ فَفِی الْجَنَّۃِ خَیْلٌ؟ قَالَ: ((یُدْخِلُکَ اللّٰہُ الْجَنَّۃَ فَلَا تَشَائُ اَنْ تَرْکَبَ فَرَسًا مِنْ یَاقُوْتَۃٍ حَمْرَائَ تَطِیْرُ بِذَبِکَ فِیْ اَیِّ الْجَنَّۃِ شِئْتَ اِلَّا رَکِبْتَ۔)) وَاَتَاہُ رَجُلٌ آخَرُ فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَفِی الْجَنَّۃِ اِبِلٌ؟ قَالَ: ((یَا عَبْدَ اللّٰہِ اِنْ یُّدْخِلْکَ اللّٰہُ الْجَنَّۃَ کَانَ لَکَ فِیْہَا مَا اشْتَہَتْ نَفْسُکَ وَلَذَّتْ عَیْنُکَ۔)) (مسند احمد: ۲۳۳۷۰)
سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اوراس نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے گھوڑے پسند ہیں، کیا جنت میں گھوڑے ہوں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ تجھے جنت میں داخل کرے،تو جب تو چاہے گا کہ سرخ رنگ کے یاقوت کے گھوڑے پر سوار ہو، جو تجھے تیری مرضی کے مطابق جنت میں لے کر اڑے، تو تو سوار ہو جائے گا۔ ایک اور آدمی نے آپ کی خدمت میں آکر کہا: اے اللہ کے رسول! کیا جنت میں اونٹ ہوں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کے بندے! اگر اللہ تعالیٰ تجھے جنت میں داخل کر دے تو تیرے لیے وہاں ہر وہ چیز ہو گی جو تو چاہے گا اور تیری آنکھ پسند کرے گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13328

۔ (۱۳۳۲۸)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ یَوْمًا وَھُوَ یُحَدِّثُ وَعِنْدَہُ رَجُلٌ مِنْ اَھْلِ الْبَادِیَۃِ: ((اِنَّ رَجُلًا مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ اِسْتَاْذَنَ رَبَّہُ عَزَّوَجَلَّ فِی الزَّرْعِ فَقَالَ لَہُ رَبُّہُ عَزَّوَجَلَّ: اَلَسْتَ فِیْمَا شِئْتَ؟ قَالَ: بَلٰی وَلٰکِنِّیْ اُحِبُّ اَنْ اَزْرَعَ، قَالَ: فَبَذَرَ فَبَادَرَ الطَّرْفَ نَبَاتُہُ وَاسْتِوَاؤُہُ وَاسْتِحْصَادُہُ، فَکَانَ اَمْثَالَ الْجِبَالِ، قَالَ: فَیَقُوْلُ لَہُ رَبُّہُ عَزَّوَجَلَّ: دُوْنَکَ یَا ابْنَ آدَمَ فَاِنَّہُ لَایُشْبِعُکَ شَیْئٌ۔)) قَالَ: فَقَالَ الْاَعْرَابِیُّ: وَاللّٰہِ لاَ تَجِدُہُ اِلَّا قُرَشِیًّا اَوْ اَنْصَارِیًّا فَاِنَّہُمْ اَصْحَابُ زَرْعٍ وَاَمَّا نَحْنُ فَلَسْنَا بِاَصْحَابِہٖ،قَالَ: فَضِحَکرَسُوْلُاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۰۶۵۰)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک دن گفتگو کر رہے تھے اورایک دیہاتی آپ کے قریب بیٹھا ہوا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دورانِ گفتگو فرمایا: ایک جنتی اپنے ربّ سے زراعت کی اجازت طلب کرے گا، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: کیا تجھے ہر وہ چیز مل نہیں گئی جو تو چاہتا تھا؟ وہ عرض کرے گا: جی ہاں، تاہم میں زراعت پسند کرتا ہوں، چنانچہ وہ بیج ڈالے گا۔ اور پلک جھپکنے کی دیر میں کھیتی اُگ آئے گی، بڑی ہوجائے گی اور کٹائی بھی ہوجائے گی اور پہاڑوں کے برابر کھیتی کے ڈھیر لگ جائیں گے، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: اے ابن آدم! سنبھال لے اس کو،کوئی چیز تجھے سیر نہیں کرتی۔ وہ بدّو کہنے لگا: اللہ کی قسم جنت میں ایسی خواہش کرنے والا کوئی قریشی ہو گا یا انصاری، کیونکہ یہی لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں، ہم تو کھیتی باڑی کرنے والے ہیں ہی نہیں، یہ بات سن کررسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہنس دئیے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13329

۔ (۱۳۳۲۹)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِذَا اشْتَہٰی الْمُؤْمِنُ الْوَلَدَ فِی الْجَنَّۃِ کَانَ حَمْلُہُ وَوَضْعُہُ وَسِنُّہُ فِیْ سَاعَۃٍ وَاحِدَۃٍ کَمَا یَشْتَہِیْ۔)) (مسند احمد: ۱۱۰۷۹)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کوئی مومن جنت میںبچے کی تمنا کرے گا تو اس کا حمل، وضعِ حمل اور اس کی مطلوبہ اور پسندیدہ عمر، یہ سارے مراحل لمحہ بھر میں ہو جائیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13330

۔ (۱۳۳۳۰)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ لِاَھْلِ الْجَنَّۃِ: یَا اَھْلَ الْجَنَّۃِ! فَیَقُوْلُوْنَ: لَبَّیْکَ رَبَّنَا وَسَعْدَیْکَ، فَیَقُوْلُ: ھَلْ رَضِیْتُمْ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: وَمَا لَنَا لَا نَرْضٰی وَقَدْ اَعْطَیْتَنَا مَالَمْ تُعْطِ اَحَدًا مِنْ خَلْقِکَ، فَیَقُوْلُ: اَنَا اُعْطِیْکُمْ اَفْضَلَ مِنْ ذٰلِکَ، قَالُوْا: یَا رَبَّنَا فَاَیُّ شَیْئٍ اَفْضَلُ مِنْ ذٰلِکَ؟ قَالَ: اُحِلُّ عَلَیْکُمْ رِضْوَانِیْ فَلَا اَسْْخَطُ بَعْدَہُ اَبَدًا۔)) (مسند احمد: ۱۱۸۵۷)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اہل ِ جنت سے فرمائے گا: اے جنت والو! وہ سب کہیں گے: ہم حاضر ہیں، اے ہمارے رب! ہم حاضر ہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تم راضی ہو گئے ہو؟ وہ عرض کریں گے: اور ہم راضی کیوںنہ ہوں، تو نے تو ہمیںوہ کچھ عنایت کر دیا ہے، جو مخلوقات میں سے کسی کو بھی نہیں دیا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اب میں تمہیں سب سے افضل چیز دینے لگا ہوں، وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ان نعمتوں سے بڑھ کر بھی کوئی نعمت ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں تمہیں اپنی رضامندی کا مستحق ٹھہراتا ہوں اور اب میں تم سے کبھی بھی ناراض نہیں ہوں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13331

۔ (۱۳۳۳۱)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یُوْتٰی بِالْمَوْتِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُوْقَفُ عَلٰی الصِّرَاطِ، فَیُقَالُ: یَا اَھْلَ الْجَنَّۃِ! فَیَطَّلِعُوْنَ خَائِفِیْنَ وَجِلِیْنَ اَنْ یُّخْرَجُوْا مِنْ مَکَانِہِمُ الَّذِیْ ھُمْ فِیْہِ، فَیُقَالُ: ھَلْ تَعْرِفُوْنَ ہٰذَا؟ قَالُوْا: نَعَمْ رَبَّنَا ھٰذَا الْمَوْتُ، ثُمَّ یُقَالُ: یَا اَھْلَ النَّارِ! فَیَطَّلِعُوْنَ فَرِحِیْنَ مُسْتَبْشِرِیْنَ اَنْ یُّخْرَجُوْا مِنْ مَکَانِہِمُ الَّذِیْ ھُمْ فِیْہِ، فَیُقَالُ: ھَلْ تَعْرِفُوْنَ ہٰذَا؟ قَالُوْا: نَعَمْ ہٰذَا الْمَوْتُ، فَیَاْمُرُ بِہٖفَیُذْبَحُ عَلٰی الصِّرَاطِ، ثُمَّ یُقَالُ لِلْفَرِیْقَیْنِ کِلَاھُمَا: خُلُوْدٌ فِیْمَا تَجِدُوْنَ لَا مَوْتَ فِیْہِ اَبَدًا۔)) (مسند احمد: ۷۵۳۷)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن موت کو لا کر صراط کے اوپر کھڑا کر دیا جائے گا، پھر کہا جائے گا: اے جنت والو! وہ خوف زدہ ہو کر اور گھبرا کر ادھر دیکھیں گے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کو ان کے مقام سے نکال دیا جائے، ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم اس چیز کو پہچانتے ہو؟ وہ کہیں گے: جی ہاں اے ہمارے رب! یہ موت ہے، پھر کہا جائے گا: اے جہنم والو! وہ خوش ہو کر اُدھر دیکھیں گے کہ شاید ان کو ان کی اس جگہ سے نکلنے کا حکم دیا جانے والا ہے، ان سے بھی دریافت کیاجائے گا کہ کیا تم اس چیز کو پہچانتے ہو؟ وہ بھی کہیں گے: جی ہاں اے ہمارے ربّ! یہ موت ہے۔ تب اللہ تعالیٰ اس موت کے بارے میں حکم دے گا اور اس کو صراط پر ذبح کردیا جائے اور پھر دونوں فریقوں سے کہا جائے گا:تم جہاں بھی ہو، یہاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہو گے، اب کسی کو کبھی بھی موت نہیں آئے گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13332

۔ (۱۳۳۳۲)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِذَا دَخَلَ اَھْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ وَاَھْلُ النَّارِ النَّارَ یُجَائُ بِالْمَوْتِ کَاَنَّہُ کَبْشٌ اَمْلَحُ فَیُوْقَفُ بَیْنَ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ، فَیُقَالُ: یَا اَھْلَ الْجَنَّۃِ! فَذَکَرَ نَحْوَہُ وَفِیْہِ فَیُوْمَرُ بِہٖفَیُذْبَحُ، قَالَ: وَیُقَالُ: یَا اَھْلَ الْجَنَّۃِ! خُلُوْدٌ لَامَوْتَ، وَیَا اَھْلَ النَّارِ! خُلُوْدٌ لَامَوْتَ۔)) قَالَ: ثُمَّ قَرَاَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : {وَاَنْذِرْھُمْ یَوْمَ الْحَسْرَۃِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُ وَھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ} [مریم: ۳۹] قَالَ: وَاَشَارَ بِیَدِہٖ۔ (مسند احمد: ۱۱۰۸۲)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اہل ِ جنت، جنت میں اور اہل ِ جہنم، جہنم میں چلے جائیں گے تو موت کو ایک سیاہ مینڈھے کی شکل میں جنت اور دوزخ کے درمیا ن کھڑا کر دیا جائے گا، پھر آواز دی جائے گی: اے جنت والو! … سابقہ حدیث کی مانند ہے …، مزید اس میں ہے: پھر موت کو ذبح کرنے کا حکم دیا جائے گا اور کہا جائے گا: اے جنت والو! اب تم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہیں رہو گے اور کبھی موت نہیں آئے گی اور اے جہنم والو! اب تم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس میں رہو گے، کبھی موت نہیںآئے گی۔ اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {وَ اَنْذِرْھُمْ یَوْمَ الْحَسْرَۃِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُ وَ ھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ} (اور آپ ان کو حسرت والے دن سے ڈرائیں، جب سارے امور چکا دیئے جائیں گے اور یہ اس وقت غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13333

۔ (۱۳۳۳۳)۔ وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِذَا صَارَ اَھْلُ الْجَنَّۃِ فِی الْجَنَّۃِ وَاَھْلُ النَّارِ فِی النَّارِ، جِیْئَ بِالْمَوْتِ حَتّٰییُوْقَفَ بَیْنَ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ ثُمَّ یُذْبَحُ ثُمَّ یُنَادِیْ مُنَادٍ: یَا اَھْلَ الْجَنَّۃِ! خُلُوْدٌ لَامَوْتَ، یَا اَھْلَ النَّارِ! خُلُوْدٌ لَامَوْتَ، فَازْدَادَ اَھْلُ الْجَنَّۃِ فَرَحًا اِلٰی فَرَحِھِمْ وَازْدَادَ اَھْلُ النَّارِ حُزْنًا اِلٰی حُزْنِہِمْ۔)) (مسند احمد: ۵۹۹۳)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اہل ِجنت جنت میں اور اہل ِ جہنم جہنم میں پہنچ جائیں گے تو موت کو لا کر جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑا کر کے ذبح کر دیا جائے گا اور ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا: اے جنت والو! اب تم ہمیشہ کے لیے یہیں رہو گے، کبھی موت نہیں آئے گی۔ اور اے جہنم والو! اب تم بھی ہمیشہ کے لیے یہیں رہو گے اور کبھی موت نہیںآئے گی، یہ اعلان سن کر اہل ِ جنت کی خوشی میں اضافہ ہو جائے گی اور اہل جہنم کا غم اور افسوس بڑھ جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13334

۔ (۱۳۳۳۴)۔ وَعَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((اِذَا دَخَلَ اَھْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ وَاَھْلُ النَّارِ النَّارَ نَادٰی مُنَادٍ: یَا اَھْلَ الْجَنَّۃِ! خُلُوْدٌ فَلَامَوْتَ فِیْہِ، وَیَا اَھْلَ النَّارِ! خُلُوْدٌ فَلَا مَوْتَ فِیْہِ۔)) قَالَ: وَذَکَرَ بِیْ خَالِدُ بْنُ زَیْدٍ اَنَّہُ سَمِعَ اَبَا الزُّبَیْرِیَذْکُرُ مِثْلَہُ عَنْ جَابِرٍ وَعُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ اِلَّا اَنَّہُ یُحَدِّثُ عَنْہُمَا اَنَّ ذٰلِکَ بَعْدَ الشَّفَاعَاتِ وَمَنْ یَّخْرُجُ مِنَ النَّارِ۔(مسند احمد: ۸۵۱۶)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا: جب اہل ِ جنت بہشت میں اور اہل ِ جہنم دوزخ میں پہنچ جائیں گے تو ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا: اے جنت والو! اب تم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہیں رہو گے، یہاں کسی کو موت نہیں آئے گی۔ اور اے جہنم والو! اب تم بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہیں رہو گے، اس میں کسی کو موت نہیں آئے گی۔ ابوزبیر بھی جابر اور عبید بن عمیر سے اس قسم کی روایت بیان کرتے ہیں، لیکن وہ بھی بیان کرتے ہیں کہ موت کے ذبح ہونے کا یہ وقوعہ اس وقت پیش آئے گا، جب سفارشیں ہو چکی ہوں گی اور عارضی طور پر جہنم میں جانے والے جہنم سے باہر آ چکے ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13335

۔ (۱۳۳۳۵)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ وَاَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((یُنَادِیْ مُنَادٍ: اَنَّ لَکُمْ اَنْ تَحْیَوْا فَلَاتَمُوْتُوْا اَبَدًا وَاِنَّ لَکُمْ اَنْ تَصِحُّوْا فَلَاتَسْقَمُوْا اَبَدًا وَاَنَّ لَکُمْ اَنْ تَشِبُّوْا وَلَاتَہْرَمُوْا وَاِنَّ لَکُمْ اَنْ تَنَعَّمُوْا وَلَاتَبْأَسُوْا اَبَدًا، فَذٰلِکَ قَوْلُ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ { وَنُوْدُوْا اَنْ تِلْکُمُ الْجَنَّۃُ اُوْرِثْتُمُوْھَا بِمَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔} [الاعراف: ۴۳]۔)) (مسند احمد: ۱۱۹۲۷)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا: اے جنت والو! اب تم ہمیشہ زندہ رہو گے، کبھی مرو گے نہیں،تم تندرست رہو گے، کبھی بیمار نہیں ہو گے، تم ہمیشہ جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہیں ہو گے، تم ہمیشہ خوشحال رہو گے، کبھی بدحال نہیں ہو گے، اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا یہی مفہوم ہے: { وَنُوْدُوْا اَنْ تِلْکُمُ الْجَنَّۃُ اُوْرِثْتُمُوْھَا بِمَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔} (اور اعلان کر کے ان سے کہاجائے گا کہ تمہیں تمہارے اعمال کے نتیجے میں اس جنت کا وارث بنایا گیا)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13336

۔ (۱۳۳۳۶)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِی ثَنَا عَبْْدُ الرَّزَّاقِ اَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّھْرِیِّ فِیْ قَوْلِہٖعَزَّوَجَلَّ {کُلُّاُمَّۃٍ تُدْعٰی اِلٰی کِتَابِہَا} عَنْ عَطَائِ بْنِ یَزِیْدَ اللَّیْثِیِّ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ النَّاسُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ھَلْ نَرٰی رَبَّنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ھَلْ تُضَارُّوْنَ فِی الشَّمْسِ لَیْسَ دُوْنَہَا سَحَابٌ؟)) قَالُوْا: لَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((فَاِنَّکُمْ تَرَوْنَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَذٰلِکَ یَجْمَعُ اللّٰہُ النَّاسَ فَیَقُوْلُ: مَنْ کَانَ یَعْبُدُ شَیْئًا فَلْیَتَّبِعْہُ، فَیَتَّبِعُ مَنْ کَانَ یَعْبُدُ الْقَمَرَ الْقَمَرَ وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ الشَّمْسَ الشَّمْسَ وَیَتَّبِعُ مَنْ کَانَ یَعْبُدُ الطَّوَاغِیْتَ الطَّوَاغِیْتَ وَتَبْقٰی ہٰذِہِ الْاُمَّۃُ، فِیْہَا مُنَافِقُوْھَا فَیَاْتِیْہِمِ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فِیْ غَیْرِالصُّوْرَۃِ الَّتِیْ تَعْرِفُوْنَ، فَیَقُوْلُ: اَنَا رَبُّکُمْ، فَیَقُوْلُوْنَ: نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْکَ ہٰذَا مَکَانُنَا حَتّٰییَاتِیَنَا رَبُّنَا، فَاِذَا جَائَ رَبُّنَا عَرَفْنَاہُ، قَالَ: فَیَاْتِیْہِمُ اللّٰہُ فِی الصُّوْرَۃِ الَّتِیْیَعْرِفُوْنَ، فَیَقُوْلُ: اَنَا رَبُّکُمْ، فَیَقُوْلُوْنَ: اَنْتَ رَبُّنَا فَیَتَّبِعُوْنَہُ، قَالَ: وَیُضْرَبُ جَسْرٌعَلٰی جَہَنَّمَ۔)) قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَاَکُوْنُ اَوَّلَ مَنْ یُّجِیْزُ وَدَعْوَی الرُّسُلِ یَوْمَئِذٍ اَللّٰھُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ وَبِہَا کَلَالِیْبُ مِثْلُ شَوْکِ السَّعْدَانِ، ھَلْ رَاَیْتُمْ شَوْکَ السَّعْدَانِ؟)) قَالُوْا: نَعَمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((فَاِنَّہَا مِثْلُ شَوْکِ السَّعْدَانِ غَیْرَ اَنَّہُ لَایَعْلَمُ قَدْرَ عِظَمِھَا اِلَّا اللّٰہُ تَعَالٰی، فَتَخْطِفُ النَّاسَ بِاَعْمَالِھِمْ فَمِنْہُمُ الْمُوْبَقُ بِعَمَلِہٖوَمِنْہُمُالْمُخَرْدَلُثُمَّیَنْجُوا حَتّٰی اِذَا فَرَغَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ مِنَ الْقَضَائِ بَیْنَ الْعِبَادِ وَاَرَادَ اَنْ یُخْرِجَ مِنَ النَّارِ مَنْ اَرَادَ اَنْ یَّرْحَمَ مِمَّنْ کَانَ یَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، اَمَرَ الْمَلَائِکَۃَیُخْرِجُوْھُمْ فَیَعْرِفُوْنَہُمْ بِعَلَامَۃِ آثَارِ السُّجُوْدِ وَحَرَّمَ اللّٰہُ عَلٰی النَّارِ اَنْ تَاْکُلَ مِنِ ابْنِ آدَمَ اَثَرَ السُّجُوْدِ فَیُخْرِجُوْنَہُمْ قَدِ امْتُحِشُوْا، فَیُصَبُّ عَلَیْہِمْ مِنْ مَائٍ یُقَالُ لَہُ: مَائُ الْحَیَاۃِ، فَیَنْبُتُوْنَ نَبَاتَ الْحَبَّۃِ فِیْ حَمِیْلِ السَّیْلِ وَیَبْقٰی رَجُلٌ یُقْبِلُ بِوَجْْہِہٖاِلَی النَّارِ فَیَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ قَدْ قَشَبَنِیْ رِیْحُہَا وَاَحْْرَقَنِیْ ذَکَاؤُھَا، فَاصْرِفْ وَجْہِیْ عَنِ النَّارِ فَلَایَزَالُیَدْعُوْ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ حَتّٰییَقُوْلَ: فَلَعَلِّیْ اِنْ اَعْطَیْتُکَ ذٰلِکَ اَنْ تَسْاَلَنِیْ غَیْْرَہُ، فَیَقُوْلُ: لَا وَعِزَّتِکَ! لَااَسْاَلُکَ غَیْرَہُ، فَیَصْرِفُ وَجْہَہُ عَنِ النَّارِ، فَیَقُوْلُ بَعْدَ ذٰلِکَ: یَارَبِّ! قَرِّبْنِیْ اِلٰی بَابِ الْجَنَّۃِ، فَیَقُوْلُ: اَوَلَیْسَ قَدْ زَعَمْتَ اَنْ لَّاتَسْاَلَنِیْ غَیْرَہُ وَیْلَکَیَا ابْنَ آدَمَ! مَا اَغْدَرَکَ، فَلَا یَزَالُیَدْعُوْ حَتّٰییَقُوْلَ: فَلَعَلِّیْ اِنْ اَعْطَیْتُکَ ذٰلِکَ اَنْ تَسْاَلَنِیْ غَیْرَہُ، فَیَقُوْلُ: لَا، وَعِزَّتِکَ! لَااَسْاَلُکَ غَیْرَہُ وَیُعْطِیْ مِنْ عُہُوْدِہِ وَمَوَاثِیْقِہِ اَنْ لَایَسْاَلَ غَیْرَہُ، فَیُقَرِّبُہُ اِلٰی بَابِ الْجَنَّۃِ، فَاِذَا دَنَا مِنْہَا اِنْفَہَقَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ، فَاِذَا رَاٰی مَا فِیْہَا مِنَ الْحَبْرَۃِ وَالسُّرُوْرِ سَکَتَ مَاشَائَ اللّٰہُ اَنْ یَّسْکُتَ، ثُمَّ یَقُوْلُ: یَارَبِّ اَدْخِلْنِیَ الْجَنَّۃَ، فَیَقُوْلُ: اَوَلَیْسَ قَدْ زَعَمْتَ اَنْ لَّاتَسْاَلَ غَیْرَہُ فَقَدْ اَعْطَیْتَ عُہُوْدَکَ وَمَوَاثِیْقَکَ اَنْ لَاتَسْاَلَنِیْ غَیْرَہُ، فَیَقُوْلُ: یَارَبِّ! لَاتَجْعَلْنِیْ اَشْقٰی خَلْقِکَ، فَلَایَزَالُیَدْعُو اللّٰہَ حَتّٰییَضْحَکَ اللّٰہُ فَاِذَا ضَحِکَ مِنْہُ اَذِنَ لَہُ بِالدُّخُوْلِ فِیْہَا، فَاِذَا دَخَلَ قِیْلَ لَہُ: تَمَنَّ مِنْ کَذَا فَیَتَمَنّٰی، ثُمَّ یُقَالُ لَہُ: تَمَنَّ مِنْ کَذَا فَیَتَمَنّٰی، حَتّٰی تَنْقَطِعَ بِہِ الْاَمَانِیُّ، فَیُقَالُ لَہُ: ہٰذَا لَکَ وَمِثْلُہُ مَعَہُ۔)) قَالَ اَبُوْ سَعِیْدٍ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((ہٰذَا لَکَ وَعَشْرَۃُ اَمْثَالِہٖمَعَہُ۔)) قَالَاَبُوْھُرَیْرَۃَ: حَفِظْتُ مِثْلَہُ مَعَہُ، قَالَ اَبُوْ ھُرَیْرَۃَ: وَذٰلِکَ الرَّجُلُ آخِرُ اَھْلِ الْجَنَّۃِ دُخُوْلًا الْجَنَّۃَ۔ (مسند احمد: ۱۰۹۱۹)
اللہ تعالیٰ کے ارشاد {کُلُّ اُمَّۃٍ تُدْعِی اِلٰی کِتاَبھَا}( ہر گروہ کو اس کے نامہ ٔ اعمال کی طرف بلایاجائے گا۔) کی تفسیر میں امام زہری، عطاء بن یزید لیثی سے اور وہ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! آیا قیامت کے دن ہم اپنے ربّ کا دیدار کریں گے؟ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا چودھویں شب کے چاند کو دیکھنے میں تمہیں کوئی مشقت پیش آتی ہے، جبکہ اس کے سامنے بادل بھی نہ ہوں؟ صحابہ کرام نے کہا: اے اللہ کے رسول! بالکل نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسی طرح قیامت کے دن تم اللہ تعالیٰ کا دیدار کرو گے، اللہ تعالیٰ سب لوگوں کو جمع کر ے گا اور کہے گا: تم دنیامیں جس جس کی عبادت کرتے تھے، اس کے پیچھے چلے جاؤ، چنانچہ چاند کی عبادت کرنے والے چاند کے پیچھے ، سورج کی پوجا کرنے والے سورج کے پیچھے اور دوسرے طاغوتوں کی پوجا پاٹ کرنے والے ان کے پیچھے چل پڑیں گے، اس امت کے لوگ کھڑے رہ جائیںگے، ان میں منافقین بھی ہوںگے، تم اللہ تعالیٰ کی جو صور ت پہچانتے ہو، وہ اس کے علاوہ کسی اور صورت میں تمہارے پاس آکر کہے گا: میں تمہارا ربّ ہوں، وہ کہیں گے: ہم تو تیرے شرّ سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں، ہم تو یہیں ٹھہرے رہیں گے تاآنکہ ہمارا ربّ ہمارے پاس آ جائے، جب ہمارا ربّ ہمارے پاس آئے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا، جسے وہ پہچانتے ہوںگے، وہ کہے گا: میں تمہارا ربّ ہوں۔ وہ کہیں گے: واقعی تو ہمارا ربّ ہے، سو وہ اس کے پیچھے چل پڑیں گے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم کے اوپر ایک پل نصب کیا جائے گا، سب سے پہلے میں اسے عبور کروں گا، اس دن تمام انبیاء و رسل بھی خوف اور ڈر کے مارے یہ کہہ رہے ہوں گے: اے اللہ بچانا، اے اللہ محفوظ رکھنا، اس پل پر سعدان کے کانٹوں کی طرح خمدار کانٹے ہوں گے، کیا تم نے سعدان کے کانٹے دیکھے ہیں؟ صحابہ نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ بات ضرور ہے کہ ان کانٹوں کی ضخامت کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے،لوگوں کو ان کے اعمال کے حساب سے اچک لیاجائے گا،کوئی تو یوں ہی ہلاک ہو جائے گا اور کسی کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہلاک کیا جائے گا،یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلے کر کے فارغ ہوگا اور وہ توحید کی گواہی دینے والے اہل جہنم میں سے بعض پر رحم کرتے ہوئے ان کو جہنم سے نکالنے کا ارادہ کرے گا تو فرشتوں کو حکم دے گا کہ وہ ان کو جہنم سے نکال لائیں، فرشتے ان اہل توحید کو سجدوں کے نشانات کی وجہ سے پہچان لیں گے، اللہ تعالیٰ نے آگ پر حرام کیا ہے کہ وہ سجدوں کے نشانات کو کھائے، بہرحال فرشتے ان کو نکال کر لائیں گے، وہ جل جل کر کوئلہ بن چکے ہوں گے، ان پر مائُ الحیاۃ ڈالا جائے گا، اس سے وہ یوں اگیں گے جیسے سیلاب کی جھاگ وغیرہ میں دانے اگتے ہیں، ایسے لوگوں میں سے ایک آدمی باقی رہ جائے گا، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر کہے گا: اے میرے رب! مجھے جہنم کی ہوا نے تکلیف دی ہے اور اس کی گرمی کی شدت نے مجھے جلا کر رکھ دیا ہے، لہذا تو میرے چہرے کو آگ سے پھیر دے، وہ مسلسل دعائیں کرتا رہے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: اگر میں تیری یہ دعا قبول کر لوں تو کیا تواس کے علاوہ کوئی سوال تو نہیں کرے گا؟ وہ کہے گا: اے اللہ! مجھے تیری عزت کی قسم ہے کہ میں تجھ سے مزید کوئی مطالبہ نہیں کروں گا، چنانچہ اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو آگ سے پھیر دے گا، لیکن اس کے بعد وہ پھر کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے جنت کے دروازے کے قریب کر دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو مزید کوئی مطالبہ نہیں کرے گا؟ اے ابن آدم! تجھ پر بڑا افسوس ہے، تو کس قدر وعدہ خلاف ہے، لیکن وہ مسلسل اللہ تعالیٰ کو پکارتا رہے گا اور اس سے دعائیں کرتا رہے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: اگر میں تیری یہ بات قبول کر لوں تو تو مزید تو کچھ نہیں مانگے گا؟ وہ کہے گا: اے اللہ! تیری عزت کی قسم! میں تجھ سے مزید کوئی مطالبہ نہیں کروں گا، وہ اس پر اللہ تعالیٰ سے پختہ وعدہ کرے گا، پس اللہ تعالیٰ اسے جنت کے دروازے کے قریب کر دے گا، پھر جب وہ جنت کے دروازے کے قریب پہنچ جائے گا، تو جنت اس کے لیے نمایاں اور وسیع ہوجائے گی، جب وہ جنت کے اندر کی راحتیںاور خوشیاں ملاحظہ کرے گا تو کچھ دیر تو خاموش رہے گا، لیکن بالآخر یوں بول پڑے گا: اے میرے رب! مجھے جنت میں داخل کر دے، اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا: کیا تو نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو مزید کوئی مطالبہ نہیں کرے گا؟ جبکہ تو اس سلسلہ میں میرے ساتھ پختہ وعدے کر چکا ہے، وہ کہے گا: اے رب! تو اپنی مخلوق میں سے مجھے اپنی نعمتوں سے محروم نہیں رکھ، چنانچہ وہ مسلسل اللہ تعالیٰ کو پکارتا اور دعائیں کرتا رہے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی باتوں پر ہنس دے گا، جب اللہ تعالیٰ اس کی باتوں پر ہنسے گا تو اسے جنت میں داخل ہونے کی اجازت بھی دے دے گا، جب وہ جنت میں جائے گا تو اس سے کہا جائے گا: تو جو تمنا کر سکتا ہے کر لے، یعنی جو مانگ سکتا ہے مانگ لے، چنانچہ وہ خوب مانگے گا، پھر اس سے کہا جائے گا کہ تو مزید مانگ لے چنانچہ وہ مزید مانگے گا، یہاں تک کہ اس کی خواہشات ختم ہوجائیں گے، اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سے کہاجائے گا: تو نے جو کچھ مانگا ہے، یہ سب اور اتنا مزید تجھے دیا جاتا ہے۔ جب سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ حدیث بیان کی تو سیدنا ابوسعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی ان کے قریب تشریف فرما تھے، انھوں نے ان کی بیان کردہ کسی بھی بات میں کوئی تبدیلی نہیں کی، البتہ آخری بات کے بارے میں سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: میںنے تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یوں فرماتے ہوئے سنا تھا: تو نے جو کچھ مانگا، تجھے وہ بھی ملے گا اور اس سے مزید دس گنا دیا جاتا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مجھے تو اسی طرح یاد ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ تو نے جو کچھ مانگا تجھے یہ اور اتنا مزید دیا جاتا ہے، ساتھ ہی سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:جنت میں جانے والا سب سے آخری آدمی یہ ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13337

۔ (۱۳۳۳۷)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِنَحْوِہٖاِلٰی اَنْ ذَکَرَ الصِّرَاطَ فَقَالَ: وَیُوْضَعُ الصِّرَاطُ فَہُمْ عَلَیْہِ مِثْلُ جِیَادِ الْخَیْلِ وَالرِّکَابِ وَقَوْلُھُمْ عَلَیْہِ: سَلِّمْ سَلِّمْ، وَیَبْقٰی اَھْلُ النَّارِ، فَیُطْرَحُ مِنْہُمْ فِیْھَا فَوْجٌ، فَیُقَالُ: ھَلِ امْتَلَأْتِ؟ وَتَقُوْلُ: ھَلْ مِنْ مَزِیْدٍ، ثُمَّ یُطْرَحُ فِیْہَا فَوْجٌ، فَیُقَالُ: ھَلِ امْتَلَاْتِ؟ وَتَقُوْلُ: ھَلْ مِنْ مَزِیْدٍ، حَتّٰی اِذَا اُوْعِبُوْا فِیْہَا وَضَعَ الرَّحْمٰنُ عَزَّوَجَلَّ قَدَمَہُ فِیْھَا وَزَوٰی بَعْضُہَا اِلٰی بَعْضٍ، ثُمَّ قَالَتْ: قَطْ قَطْ قَطْ، وَاِذَا صَیَّرَ اَھْلُ الْجَنَّۃِ فِی الْجَنَّۃِ وَاَھْلُ النَّارِ فِی النَّارِ اُتِیَ بِالْمَوْتِ مُلَبَّبًا فَیُوْقَفُ عَلٰی السُّوْرِ الَّذِیْ بَیْنَ اَھْلِ النَّارِ وَاَھْلِ الْجَنَّۃِ، ثُمَّ یُقَالُ: یَا اَھْلَ الْجَنَّۃِ! فَیَطَّلِعُوْنَ خَائِفِیْنَ، ثُمَّ یُقَالُ: یَا اَھْلَ النَّارِ! فَیَطَّلِعُوْنَ مُسْتَبْشِرِیْنَیَرْجُوْنَ، فَیُقَالُ لِاَھْلِ الْجَنَّۃِ وَلِاَھْلِ النَّارِ: تَعْرِفُوْنَ ہٰذَا؟ فَیَقُوْلُوْنَ ھٰؤُلَائِ وَھٰؤُلَائِ: قَدْ عَرَفْنَاہُ ھُوَ الْمَوْتُ الَّذِیْ وُکِّلَ بِنَا، فَیُضْجَعُ فَیُذْبَحُ ذَبْحًا عَلٰی السُّوْرِ، ثُمَّ یُقَالُ: یَا اَھْلَ الْجَنَّۃِ! خُلُوْدٌ لَامَوْتَ، وَیَا اَھْلَ النَّارِ! خُلُوْدٌ لَا مَوْتَ۔)) (مسند احمد: ۸۸۰۳)
۔ (دوسری سند) اسی قسم کی حدیث ہے، البتہ اس میں ہے: پھر پل صراط نصب کر دیا جائے گا، لوگ اس کے اوپر سے بہترین گھوڑوں اور سواروں کی رفتار سے گزریں گے اور صورتحال یہ ہو گی کہ انبیاء ورسل بھی خوف کے مارے کہہ رہے ہوں گے: بچانا، محفوظ رکھنا، جہنمی لوگ باقی رہ جائیں گے، ان کی ایک فوج کو جہنم میں ڈال کر اس سے پوچھا جائے گا: کیا تو بھر گئی ہے؟ جہنم کہے گی: کیا مزید لوگ ہیں، اس کے بعد پھر ایک گروہ کو اس میں پھینکا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا: کیا اب تو بھر گئی ہے؟ وہ کہے گی: مزید لاؤ، یہاں تک کہ جب سب جہنمی جہنم میں ڈال دئیے جائیں گے اور وہ مزید لوگوں کو اپنے اندر ڈالے جانے کا مطالبہ کر رہی ہو گی تو آخرمیں اللہ تعالیٰ اپنا قدم اس میں رکھ دے گا، اس کے کنارے ایک دوسرے سے مل جائیںگے اور وہ کہے گی: بس،بس، بس۔ جب تمام جنتی لوگ جنت میں اور تمام جہنمی لوگ جہنم میں پہنچ جائیں گے تو جنت اور جہنم کے درمیان والی دیوار پر موت کو لا کر کھڑا کر دیا جائے گا، پھر یوں آواز دی جائے گی: او جنتیو! وہ خوف زدہ ہو کر ادھر دیکھیں گے، پھر کہا جائے گا: او جہنمیو! وہ خوش ہو کر اور جہنم سے رہائی کی امید لے کر ادھر دیکھیں گے،پھر اہل جنت اور اہل جہنم دونوں سے کہا جائے گا: کیا تم اس چیز کو جانتے ہو؟ وہ سب کہیں گے:جی ہم اسے جانتے ہیں، یہ و ہ موت ہے، جو ہمارے اوپر مسلط کی گئی تھی، پھر اسے لٹا کر اسی دیوار کے اوپر ذبح کر دیا جائے گا اور کہا جائے گا: جنتیو!اب تم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس جنت میں رہو گے، تم میں سے کسی پر موت نہیں آئے گی اور جہنمیو! اب تم بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسی میں رہو گے، تم میں سے کسی کو بھی موت نہیں آئے گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13338

۔ (۱۳۳۳۸)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا رِبْعِیُّ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ اِسْحٰقَ ثَنَا زَیْدُ بْنُ اَسْلَمَ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: سَاَلْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقُلْنَا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ھَلْ نَرٰی رَبَّنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ؟ قَالَ: ((ھَلْ تُضَارُّوْنَ فِی الشَّمْسِ لَیْسَ دُوْنَہَا سَحَابٌ؟)) قَالَ: قُلْنَا: لَا، قَالَ: ((فَہَلْ تُضَارُّوْنَ فِی الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ لَیْسَ دُوْنَہُ سَحَابٌ؟)) قَالَ: قُلْنَا: لَا، قَالَ: ((فَاِنَّکُمْ تَرَوْنَ رَبَّکُمْ کَذٰلِکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ،یَجْمَعُ اللّٰہُ النَّاسَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِیْ صَعِیْدٍ وَاحِدٍ قَالَ: فَیُقَالُ: مَنْ کَانَ یَعْبُدُ شَیْْئًا فَلْیَتَّبِعْہُ قَالَ: فَیَتَّبِعُ الَّذِیْنَ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الشَّمْسَ اَلشَّمْسَ، فَیَتَسَاقَطُوْنَ فِی النَّارِ، وَیَتَّبِعُ الَّذِیْنَ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْقَمَرَ الْقَمَرَ فَیَتَسَاقَطُوْنَ فِی النَّارِ وَیَتَّبِعُ الَّذِیْنَ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْاَوْثَانَ الْاَوْثَانَ وَالَّذِیْنَ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْاَصْنَامَ الْاَصْنَامَ، فَیَتَسَاقَطُوْنَ فِی النَّارِ، قَالَ: وَکُلُّ مَنْ یَعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَتّٰییَتَسَاقَطُوْنَ فِیالنَّارِ۔)) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : فَیَبْقٰی الْمُوْمِنُوْنَ وَمُنَافِقُوْھُمْ بَیْنَ ظَہْرَیْْہِمْ وَبَقَایَا اَھْلِ الْکِتٰبِ وَقَلَّلَہُمْ بِیَدِہٖ، قَالَ: فَیَاْتِیْہِمُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فَیَقُوْلُ: اَلَا تَتَّبِعُوْنَ مَاکُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ؟ قَالَ: فَیَقُوْلُوْنَ: کُنَّا نَعْبُدُ اللّٰہَ وَلَمْ نَرَ اللّٰہَ فَیَکْشِفُ عَنْ سَاقٍ، فَلَا یَبْقٰی اَحَدٌ کَانَ یَسْجُدُ لِلّٰہِ اِلَّا وَقَعَ سَاجِدًا، وَلَایَبْقٰی اَحَدٌ کَانَ یَسْجُدُ رِیَائً وَسُمْعَۃً اِلَّا وَقَعَ عَلٰی قَفَاہُ، قَالَ: ثُمَّ یُوْضَعُ الصِّرَاطُ بَیْنَ ظَہْرَیْ جَہَنَّمَ وَالْاَنْبِیَائُ بِنَاحِیَتْیِہِ، قَوْلُھُمْ: اَللّٰھُمَّ سَلِّمْ، سَلِّمْ، اَللّٰہُمَّ سَلِّمْ، سَلِّمْ، وَاِنَّہُ لَدَحْضٌ مَزَلَّۃٌ وَاِنَّہُ لَکَلَالِیْبُ وَخَطَاطِیْفُ، قَالَ عَبْدُالرَّحْمٰنِ: وَلَا اَدْرِیْ لَعَلَّہُ قَالَ: تَخْطِفُ النَّاسُ وَحَسَکَۃٌ تَنْبُتُ بِنَجْدٍ یُقَالُ لَھَا السَّعْدَانُ قَالَ: وَنَعَتَہَا لَھُمْ ، قَالَ: فَاَکُوْنُ اَنَا وَاُمَّتِیْ لَاَوَّلَ مَنْ مَرَّ اَوْ اَوَّلَ مَنْ یُّجِیْزُ، قَالَ: فَیَمُرُّوْنَ عَلَیْہِ مِثْلَ الْبَرْقِ وَمِثْلَ الرِّیْحِ وَمِثْلَ اَجَاوِیْدِ الْخَیْلِ وَالرِّکَابِ فَنَاجٍ مُسْلَّمٌ وَمَخْدُوْشٌ مُکَلَّمٌ وَمَکْدُوْسٌ فِی النَّارِ، فَاِذَا قَطَعُوْہُ اَوْ فَاِذَا جَاوَزُوْہُ، فَمَا اَحَدُکُمْ فِیْ حَقٍّ یَعْلَمُ اَنَّہُ حَقٌّ لَہُ بَاَشَدَّ مُنَاشَدَۃً مِنْہُمْ فِیْ اِخْوَانِہِمُ الَّذِیْنَ سَقَطُوْا فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ اَیْ رَبِّ! کُنَّا نَغْزُوْا جَمِیْعًا وَنَحُجُّ جَمِیْعًا وَنَعْتَمِرُ جَمِیْعًا فَبِمَ نَجَوْنَا الْیَوْمَ وَھَلَکُوْا، قَالَ: فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: اُنْظُرُوْا مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖزِنَۃُ دِیْنَارٍ مِنْ اِیْمَانٍ فَاَخْرِجُوْہُ، قَالَ: فَیُخْرَجُوْنَ، قَالَ: ثُمَّ یَقُوْلُ: مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖزِنَۃُ قِیْرَاطٍ مِنْ اِیْمَانٍ فَاَخْرِجُوْہُ، قَالَ: فَیُخْرَجُوْنَ، قَالَ: ثُمَّ یَقُوْلُ: مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖمِثْقَالُ حَبَّۃِ خَرْدَلٍ مِنْ اِیْمَانٍ فَاَخْرِجُوْہُ، قَالَ: فَیُخْرَجُوْنَ قَالَ: ثُمَّ یَقُوْلُ اَبُوْ سَعِیْدٍ: بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ کِتَابُ اللّٰہِ، قَالَ عَبْدُالرَّحْمٰنِ: وَاَظُنُّہُ یَعْنِیْ قَوْلَہُ {وَاِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ اَتَیْْنَا بِہَا وَکَفٰی بِنَا حَاسِبِینَ } قَالَ: فَیُخْرَجُوْنَ مِنَ النَّارِ فَیُطْرَحُوْنَ فِی نَہْرٍ یُقُال لَہُ نَہْرُ الْحَیَوَانِ فَیَنْبُتُوْنَ کَمَا تَنْبُتُ الْحَبُّ فِیْ حَمِیْلِ السَّیْلِ، اَلَاتَرَوْنَ مَا یَکُوْنُ مِنَ النَّبَتِ اِلَی الشَّمْسِیَکُوْنُ اَخْضَرَ وَمَا یَکُوْنُ اِلَی الظِّلْ یَکُوْنُ اَصْفَرَ۔)) قَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! کَاَنَّکَ کُنْتَ قَدْ رَعَیْتَ الْغَنَمَ؟ قَالَ: (((اَجَلْ قَدْ رَعَیْتُ الْغَنَمَ۔)) (مسند احمد: ۱۱۱۴۴)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! کیا قیامت کے دن ہم اللہ تعالیٰ کا دیدار کر سکیں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب بادل نہ ہوں تو کیا سورج کو دیکھنے میں تمہیں کوئی مشقت ہوتی ہے؟ ہم نے کہا: جی نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چودھویں کی رات کو جب بادل نہ ہوں تو کیا چاند کو دیکھنے میں تمہیں کوئی تکلیف ہوتی ہے؟ ہم نے کہا: جی نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم قیامت کے دن اپنے ربّ کو اسی طرح بسہولت دیکھو گے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام لوگوں کو ایک کھلے میدان میں جمع کر ے گا اور اعلان کیا جائے گا کہ دنیا میںجو کوئی جس کی عبادت کیا کرتا تھا، وہ اس کے پیچھے چلا جائے، چنانچہ سورج کی پوجا کرنے والے اس کے پیچھے چل پڑے گے اور وہ ان کو جہنم میں جا گرائے گا، چاند کی پرستش کرنے والے اس کے پیچھے چل پڑیں گے اور جہنم میں جا گریں گے اور دوسرے مختلف بتوں کی عبادت کرنے والے ان کے پیچھے چل پڑیں اور اس طرح جہنم میںجا گریں گے۔ صرف اہل ایمان باقی رہ جائیں گے، جبکہ ان میں منافقین اور کچھ اہل ِ کتاب بھی ہوں گے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہاتھ کے اشارہ سے اہل کتاب کی تعداد کی قلت کی طرف اشارہ کیا، پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس آکر ان سے کہے گا: تم جس کی عبادت کیا کرتے تھے، اس کے پیچھے کیوں نہیں جاتے؟ وہ کہیں گے: ہم تو ایک اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے اور ہم نے ابھی تک اس کو دیکھا ہی نہیں، پھر اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کو نمایاں کرے گا، جو لوگ صرف اللہ تعالیٰ کو سجدہ کیا کرتے تھے، وہ فوراً اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں گے اور جو لوگ محض دکھلاوے اور شہرت کے لیے سجدے کیا کرتے تھے، وہ سجدہ نہیں کر سکیں گے بلکہ گدی کے بل گر جائیں گے، اس کے بعد جہنم پر پل صراط نصب کیا جائے گا، انبیاء و رسل اس کی دونوں اطراف میں کھڑے ہر یہ دعائیں کر رہے ہوں گے: اے اللہ! محفوظ رکھنا، محفوظ رکھنا، اے اللہ! بچانا ، بچانا، اس پل پر شدید قسم کی پھسلن ہوگی اور وہاںبے شمارخمدار سلاخین اور کنڈیاں لگی ہوں گی،وہ گزرنے والوں کو اچک لیں گی اور وہاں نجد کے علاقے میں اگنے والے سعدان درخت کے کانٹوں کی طرح کے کانٹے ہوں گے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کانٹوں کی صفات بھی بیان کیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اور میری امت سب سے پہلے اس پل کو پار کریں گے، اس کے اوپر سے لوگ بجلی کی رفتار سے، تیز ہوا کی رفتار سے، بہترین تیز رفتار گھوڑوں کی رفتار سے اور تیز اونٹوں کی رفتار سے گزریں گے، بعض لوگ صحیح سالم نجات پا جائیں گے اور بعض گرتے پڑتے زخمی ہو کر گزریں گے اور گر جانے والے جہنم میں جاگریں گے، اس پل کو پار کرجانے والے لوگ دنیا میں اپنے یقینی حق پر جو جھگڑا کرتے تھے، اس سے زیادہ تکرار وہ اپنے ان بھائیوں کے حق میں کریں گے، جو جہنم میں گر جائیں گے، وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم اکٹھے جہاد کرتے تھے، مل کر حج وعمرہ کرتے تھے، تو پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم نجات پا گئے اور وہ ہلاک ہو گئے؟ اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا: دیکھو، جن لوگوں کے دلوںمیں ایک دینار کے برابر ایمان ہو ان کو نکال لاؤ، چنانچہ ایسے لوگوں کو جہنم سے باہر نکال لیا جائے گا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جن کے دلوں میں ایک قیراط کے برابر ایمان ہو، ان کو بھی نکال لاؤ۔ چنانچہ ایسے لوگوں کو بھی نکال لیاجائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جن لوگوں کے دلوں میں رائی کے ایک دانے کے برابر بھی ایمان ہو، ان کو بھی نکال لاؤ، چنانچہ ایسے لوگوں کو بھی جہنم سے نکال لیاجائے گا۔ اس کے بعد سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اس بات کی تائید کے لیے میرے اور تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کی کتاب کافی ہے، عبدالرحمن بن اسحاق کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ ان کا اشارہ اس آیت کی طرف تھا: {وَاِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِھَا وَ کَفٰی بِنَا حَاسِبِیْنَ} (اور اگر کسی کے پاس رائی کے ایک دانے کے برابر ایمان ہوا تو ہم اسے سامنے لے آئیں گے اور محاسبہ کرنے میں ہم کافی ہیںـ)۔ آگے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اور اِن جہنمیوں کو جہنم سے نکال کر نہر الحیوان میں ڈالا جائے گا، اس میں وہ لوگ اس طرح اگیں گے، جیسے سیلاب کی لائی ہوئی مٹی وغیرہ میں دانے اگتے ہیں، کیا تم دیکھتے ہو کہ جو پودا سورج کی طرف ہو وہ سبز ہوتا ہے اور جو سائے میں ہو وہ زرد ہوتا ہے۔ صحابہ کرام نے کہا: اے اللہ کے رسول! معلوم ہوتا ہے کہ آپ بکریاں چراتے رہے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں، میں نے بکریاں چرائی ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13339

۔ (۱۳۳۳۹)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا یَحْیٰی بْنُ آدَمَ ثَنَا اَبُوْ بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ عَنِ الْاَعْمَشِ عَنْ اَبِیْ صَالِحٍ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّکُمْ عَزَّوَجَلَّ۔)) قَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! نَرٰی رَبَّنَا؟ قَالَ: فَقَالَ: ((ھَلْ تُضَارُّوْنَ فِیْ رُؤْیَۃِ الشَّمْسِ نَصْفَ النَّہَارِ؟)) قَالُوْا:لَا، قَالَ: ((فَتُضَارُّوْنَ فِیْ رُؤْیَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ؟)) قَالُوْا: لَا، قَالَ: ((فَاِنَّکُمْ لَا تُضَارُّوْنَ فِیْ رُؤْیَتِہٖ اِلَّا کَمَا تُضَارُّوْنَ فِیْ ذٰلِکَ۔)) قَالَ الْاَعْمَشُ: لَاتُضَارُّوْنَ، یَقُوْلُ: لَاتُمَارُوْنَ۔ (مسند احمد: ۱۱۱۳۷)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم عنقریب اپنے ربّ تعالیٰ کا دیدار کرو گے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم اپنے ربّ کا دیدار کریں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا دوپہر کے وقت سورج کو دیکھنے میں تمہیں کوئی دقت ہوتی ہے؟ انھوں نے کہا: جی نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اچھا یہ بتاؤ کہ کیا چودھویں رات کے چاند کو دیکھنے میں تمہیں کوئی مشقت ہوتی ہے؟ انھوں نے کہا: جی نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسی طرح اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنے میں بھی تمہیں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی، مگر اسی طرح کہ جتنی سورج اور چاند کو دیکھتے وقت دقت پیش آتی ہے۔ اعمش نے لا تضارون کا معنی لا تمارون کیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کا دیدار کرتے ہوئے دھکم پیل نہیں ہوگی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13340

۔ (۱۳۳۴۰)۔ وَعَنْ اَبِیْ رَزِیْنٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَکُلُّنَا یَرَی اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَمَا آیَۃُ ذٰلِکَ فِیْ خَلْقِہٖ؟قَالَ: ((یَا اَبَارَزِیْنٍ! اَلَیْسَ کُلُّکُمْ یَرَی الْقَمَرَ مُخْلِیًا بِہٖ؟)) قَالَ: قُلْتُ: بَلٰییَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((فَاللّٰہُ اَعْظَمُ۔)) (مسند احمد: ۱۶۲۹۳)
سیدنا ابو رزین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم سب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے اور اس کی مخلوق میں اس کی کوئی مثال دی جا سکتی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابو رزین! کیا تم میں سے ہر کوئی اپنی اپنی جگہ سے چاندکو نہیں دیکھ لیتا؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تو اس سے عظیم ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 13341

۔ (۱۳۳۴۱)۔ وَعَنْ صُہَیْبِ بْنِ سِنَانٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِذَا دَخَلَ اَھْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ نُوْدُوْا: یَا اَھْلَ الْجَنَّۃِ! اِنَّ لَکُمْ مَوْعِدًا عِنْدَ اللّٰہِ لَمْ تَرَوْہُ۔فَقَالُوْا: وَمَا ھُوَ؟ اَلَمْ تُبِیِّضْ وُجُوْھَنَا وَتُزَحْزِحْنَا عَنِ النَّارِ وَتُدْخِلْنَا الْجَنَّۃَ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: اَلَمْ یُثَقِّلْ مَوَازِیْنَنَا وَیُعْطِنَا کُتُبَنَا بِاَیْمَانِنَا وَیُدْخِلْنَا الْجَنَّۃَ وَیُنَجِّنَا مِنَ النَّارِ) قَالَ: فَیَکْشِفُ الْحِجَابَ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَیَتَجَلّٰیاللّٰہُ لَھُمْ) فَیَنْظُرُوْنَ اِلَیْہِ، فَوَاللّٰہِ! مَا اَعْطَاھُمُ اللّٰہُ شَیْئًا اَحَبَّ اِلَیْہِمْ مِنْہُ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: مِنَ النَّظْرِ اِلَیْہِ)۔)) ثُمَّ تَلَا رَسُوْلُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : {لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ} [یونس: ۲۶] (مسند احمد: ۱۹۱۴۳)
سیدنا صہیب بن سنان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اہل جنت، جنت میں داخل ہوجائیں گے تو ان کو یہ آواز دی جائے گی: اے اہل جنت! تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کا ایک وعدہ پورا ہونا باقی ہے، ابھی تک تم نے اسے نہیں دیکھا، وہ کہیں گے: اے اللہ! کیا تو نے ہمارے چہروں کو سفید کر کے اور جہنم سے محفوظ رکھ کر ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا، ایک روایت میں ہے: وہ کہیں گے: کیا اللہ نے ہمارے میزانوں کو بھاری نہیں کیا اور کیا ہمارے نامہ ہائے اعمال ہمارے دائیں ہاتھوں میں پکڑا کر ہمیں جہنم سے بچا کر جنت میں داخل نہیں کیا۔ اتنے میں وہ حجاب اٹھائے گا اور اللہ تعالیٰ ان کے سامنے جلوہ فرمائے گا اور وہ اس کا دیدار کریں گے، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے بہتر اور پسندیدہ کوئی چیز نہیں دی ہوگی۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَ زِیَادَۃٌ} (جو لوگ دنیا میں نیکوکار ہیں، ان کو ان کے اعمال کا اچھا بدلہ ملے گا اور مزید ایک نعمت بھی ملے گی۔ (سورۂ یونس: ۲۶)

Icon this is notification panel