497 Results For Hadith (Musnad Ahmad ) Book ()
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11522

۔ (۱۱۵۲۲)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ خَطَبَ النَّاسَ بِالْجَابِیَۃِ، فَقَالَ: قَامَ فِینَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِثْلَ مَقَامِی فِیکُمْ، فَقَالَ: ((اسْتَوْصُوا بِأَصْحَابِیْ خَیْرًا، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ، ثُمَّ یَفْشُو الْکَذِبُ حَتّٰی إِنَّ الرَّجُلَ لَیَبْتَدِئُ بِالشَّہَادَۃِ قَبْلَ أَنْ یُسْأَلَہَا، فَمَنْ أَرَادَ مِنْکُمْ بَحْبَحَۃَ الْجَنَّۃِ فَلْیَلْزَمِ الْجَمَاعَۃَ فَإِنَّ الشَّیْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَہُوَ مِنَ الِاثْنَیْنِ أَبْعَدُ، لَا یَخْلُوَنَّ أَحَدُکُمْ بِامْرَأَۃٍ فَإِنَّ الشَّیْطَانَ ثَالِثُہُمَا، وَمَنْ سَرَّتْہُ حَسَنَتُہُ وَسَاء َتْہُ سَیِّئَتُہُ فَہُوَ مُؤْمِنٌ۔)) (مسند احمد: ۱۱۴)
سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جابیہ کے مقام پر خطبہ دیتے ہوئے کہا: ایک دفعہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے درمیان اسی طرح کھڑے ہوئے، جیسے میں تمہارے درمیان کھڑا ہوں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اپنے صحابہ کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں،اور ان لوگوں کے بارے میں بھی جو ان کے بعد ہوں گے اور ان لوگوں کے بارے میں بھی جو (تابعین) کے بعد ہوں گے، (ان سے حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں)، اس کے بعد جھوٹ اس قدر عام ہو جائے گا کہ ایک آدمی گواہی طلب کیے جانے سے پہلے گواہی دینے لگے گا، پس تم میں سے جو آدمی جنت میںداخل ہونا چاہتا ہے وہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنے کا التزام کرے، کیونکہ شیطان ہر اس آدمی کے ساتھ رہتا ہے جو اکیلا ہو اور وہ شیطان دو آدمیوں سے ذرا دور ہو جاتا ہے، تم میں سے کوئی آدمی کسی غیر محرم عورت کے ساتھ علیحدگی اختیار نہ کرے، کیونکہ ایسے دو افراد کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے اور جس آدمی کو نیکی کرکے خوشی اور گناہ کرکے ناخوشی ہو وہ مومن ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11523

۔ (۱۱۵۲۳)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: کَانَ بَیْنَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ وَبَیْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ کَلَامٌ، فَقَالَ خَالِدٌ لِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ: تَسْتَطِیلُونَ عَلَیْنَا بِأَیَّامٍ سَبَقْتُمُونَا بِہَا، فَبَلَغَنَا أَنَّ ذٰلِکَ ذُکِرَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((دَعُوا لِی أَصْحَابِی، فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ أَنْفَقْتُمْ مِثْلَ أُحُدٍ أَوْ مِثْلَ الْجِبَالِ ذَہَبًا مَا بَلَغْتُمْ أَعْمَالَہُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۳۸۴۸)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ما بین کچھ تلخ کلامی سی ہوگئی، سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عبدالرحمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: تم ہمارے اوپر محض اس لیے زبان درازی کرتے ہو کہ تم ہم سے کچھ دن پہلے اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ جب اس بات کا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کیا گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میرے لیے ہی میرے صحابہ کو کچھ نہ کہا کرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم احد پہاڑ یا کئی پہاڑوں کے برابر سونا بھی خرچ کردو تم ان کے اعمال یعنی درجوں تک نہیں پہنچ سکتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11524

۔ (۱۱۵۲۴)۔ عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ عَنْ أَبِی مُوسٰی قَالَ: صَلَّیْنَا الْمَغْرِبَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ قُلْنَا: لَوِ انْتَظَرْنَا حَتّٰی نُصَلِّیَ مَعَہُ الْعِشَائَ، قَالَ: فَانْتَظَرْنَا فَخَرَجَ إِلَیْنَا، فَقَالَ: مَا زِلْتُمْ ہَاہُنَا، قُلْنَا: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قُلْنَا: نُصَلِّی مَعَکَ الْعِشَائَ، قَالَ: ((أَحْسَنْتُمْ أَوْ أَصَبْتُمْ۔)) ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ إِلَی السَّمَائِ قَالَ: وَکَانَ کَثِیرًا مَا یَرْفَعُ رَأْسَہُ إِلَی السَّمَائِ، فَقَالَ: ((النُّجُومُ أَمَنَۃٌ لِلسَّمَائِ فَإِذَا ذَہَبَتِ النُّجُومُ أَتَی السَّمَائَ مَا تُوعَدُ، وَأَنَا أَمَنَۃٌ لِأَصْحَابِی فَإِذَا ذَہَبْتُ أَتٰی أَصْحَابِی مَا یُوعَدُونَ، وَأَصْحَابِی أَمَنَۃٌ لِأُمَّتِی فَإِذَا ذَہَبَتْ أَصْحَابِی أَتٰی أُمَّتِیْ مَا یُوعَدُونَ۔)) (مسند احمد: ۱۹۷۹۵)
سیدنا ابو موسیٰ اشعر ی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں مغرب کی نماز ادا کی، پھر ہم نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ ہم کچھ انتظار کر لیں اور آپ کی معیت میں عشاء کی نماز ادا کرکے جائیں۔ چنانچہ ہم انتظار کرنے لگے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہماری طرف تشریف لائے اور فرمایا: کیا تم یہیں ٹھہرے رہے ؟ ہم نے عرض کیا: جی ہاں اے اللہ کے رسول! بس ہم نے سوچا کہ ہم عشاء کی نماز بھی آپ کی معیت میں ادا کرلیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے اچھا کیا۔ پھر آپ نے آسمان کی طرف سر اٹھایا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا معمول بھی تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اکثر آسمان کیطرف سر اٹھایا کرتے تھے،پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : یہ ستارے آسمان کے امین (نگران و محافظ)ہیں،جبیہ تارے ختم ہو جائیں گے تو آسمان پر وہ کیفیت طاری ہو جائے گی، جس کا اس کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے، یعنی آسمان پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ میں بھی اپنے صحابہ کے لیے اسی طرح امین ہوں، جب میں دنیا سے چلا جائوں گا تو میرے صحابہ پر وہ فتنے اور آزمائشیں آجائیں گے جن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے اور میرے صحابہ بھی میری امت کے لیے امین اور محافظ ہیں، جب میرے صحابہ اس دنیا سے رخصت ہوجائیں گے تو میری امت پر ان فتنوں کا دور شروع ہو جائے گا، جن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11525

۔ (۱۱۵۲۵)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُغَفَّلٍ الْمُزَنِیِّ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ أَصْحَابِیْ، اَللّٰہَ اَللّٰہَ فِیْ أَصْحَابِیْ لَا تَتَخِذُوْھُمْ غَرَضًا بَعْدِیْ، فَمَنْ أَحَبَّہُمْ فَبِحُبِّیْ أَحَبَّہُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَہُمْ فَبِبُغْضِیْ أَبْغَضَہُمْ، وَمَنْ أَذَاھُمْ فَقَدْ آذَانِیْ، وَمَنْ آذَانِیْ فَقَدْ آذَی اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی، وَمَنْ آذَی اللّٰہَ فَیُوْشِکُ أَنْ یَأْخُذَہٗ۔)) (مسند احمد: ۲۰۸۵۴)
سیدنا عبداللہ بن مغفل مزنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، تم میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، تم میرے بعد انہیں سب وشتم اور طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنانا، پس جس نے ان سے محبت کی، تو دراصل اس نے میری محبت کی بنا پر ان سے محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو درحقیقت اس نے میرے ساتھ بعض کی بنا پر ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو ایذاء دی، اس نے دراصل مجھے ایذاء پہنچائی، جس نے مجھے تکلیف پہنچائی، اس نے درحقیقت اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی اور جس نے اللہ کو دکھ پہنچایا تو اللہ عنقریب اس کا مؤاخذہ کرے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11526

۔ (۱۱۵۲۶)۔ عَنْ یُوْسُفَ بَنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَلَّامٍ، أَنَّہٗ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَحْنُ خَیْرٌ اَمْ مَنْ بَعْدَنَا؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَوْ أَنْفَقَ أَحَدُھُمْ أُحُدًا ذَھَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِکُمْ وَلَا نَصِیْفَہٗ۔)) (مسند احمد: ۲۴۳۳۶)
سیدنایوسف بن عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت کیا گیا: ہم صحابہ افضل ہیںیا ہم سے بعد میں آنے والے لوگ؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر بعد والوں میں سے کوئی آدمی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دے تو وہ تمہارے ایک مد یا نصف مد تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11527

۔ (۱۱۵۲۷)۔ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِیْ فَاِنَّ أَحَدَکُمْ لَوْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَھَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِھِمْ وَلَا نَصِیْفَہٗ۔)) (مسند احمد: ۱۱۰۹۵)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میرے صحابہ کو سب و شتم نہ کرنا، کیونکہ ان کا مقام تو یہ ہے کہ اگر تم میں سے کوئی آدمی جبل احد کے برابر سونا خرچ کرے تو وہ ان صحابہ کے ایک مدیا نصف مد تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11528

۔ (۱۱۵۲۸)۔ عَنْ طَارِقِ بْنِ اَشْیَمَ أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((بِحَسْبِ أَصْحَابِی الْقَتْلُ۔)) (مسند احمد: ۱۵۹۷۱)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میرے صحابہ کو سب و شتم نہ کرنا، کیونکہ ان کا مقام تو یہ ہے کہ اگر تم میں سے کوئی آدمی جبل احد کے برابر سونا خرچ کرے تو وہ ان صحابہ کے ایک مدیا نصف مد تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11529

۔ (۱۱۵۲۹)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: إِنَّ اللّٰہَ نَظَرَ فِی قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَیْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ فَاصْطَفَاہُ لِنَفْسِہِ فَابْتَعَثَہُ بِرِسَالَتِہِ، ثُمَّ نَظَرَ فِی قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِہِ خَیْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَہُمْ وُزَرَائَ نَبِیِّہِ یُقَاتِلُونَ عَلٰی دِینِہِ، فَمَا رَأَی الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَنٌ، وَمَا رَأَوْا سَیِّئًا فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ سَیِّئٌ۔ (مسند احمد: ۳۶۰۰)
سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو اس نے قلب محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تمام انسانوں کے قلوب میں بہتر پایا، اس لیے اس نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنے لیے منتخب کر لیا اور ان کو رسالت کے ساتھ مبعوث کیا۔ پھر اس نے اس دل کے انتخاب کے بعدباقی بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی اوراصحاب محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قلوب کو تمام انسانوں کے قلوب سے بہتر پایا، اس لیے اس نے انہیں اپنے نبی کے وزراء ( اورساتھی) بنا دیا،جو اس کے دین کے لیے قتال کرتے ہیں۔ پس مسلمان جس بات کو بہتر سمجھیں وہ اللہ کے ہاں بھی بہتر ہی ہوتی ہے اور مسلمان جس بات کو برا سمجھیں وہ اللہ کے ہاں بھی بری ہی ہوتی ہے۔ 1
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11530

۔ (۱۱۵۳۰)۔ عَنْ اَبِیْ قَتَادَۃَ یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ عَلَی الْمِنْبَرِ لِلْأَنْصَارِ: ((أَلَا إِنَّ النَّاسَ دِثَارِی وَالْأَنْصَارَ شِعَارِی، لَوْ سَلَکَ النَّاسُ وَادِیًا وَسَلَکَتِ الْأَنْصَارُ شِعْبَۃً لَاتَّبَعْتُ شِعْبَۃَ الْأَنْصَارِ، وَلَوْلَا الْہِجْرَۃُ لَکُنْتُ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ، فَمَنْ وَلِیَ مِنَ الْأَنْصَارِ فَلْیُحْسِنْ إِلٰی مُحْسِنِہِمْ وَلْیَتَجَاوَزْ عَنْ مُسِیئِہِمْ، وَمَنْ أَفْزَعَہُمْ فَقَدْ أَفْزَعَ ہٰذَا الَّذِی بَیْنَ ہَاتَیْنِ)) وَأَشَارَ إِلٰی نَفْسِہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (مسند احمد: ۲۲۹۸۹)
سیدنا ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تشریف فرما تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انصار کے حق میں فرمایا: عام لوگوں کے میرے ساتھ تعلق کی مثال ایسے ہے جیسے اوپر اوڑھا ہوا کپڑا ہو اور انصار کا میرے ساتھ یوں تعلق ہے جیسے کوئی کپڑا جسم کے ساتھ متصل ہو (یعنی انصاری آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خاص لوگ ہیں)۔ اگر عام لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری پہاڑی گھاٹی میں تو میں انصار والی گھاٹی میں چلنا پسند کروں گا اور اگر ہجرت والی فضیلت نہ ہوتی تو میں بھی انصار کا ایک فرد ہوتا۔ کسی کو انصار پر امارت و حکومت حاصل ہو تو وہ ان کے نیکوکاروں کے ساتھ حسن سلوک کا برتائو کرے، اور اگر ان میں سے کوئی کوتاہی ہو جائے تو وہ اس سے در گزر کرے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی طرف اشارہ کرکے فرمایا: جس کسی نے ان کو خوف زدہ کیا تو گویا اس نے مجھے خوف زدہ کیا ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11531

۔ (۱۱۵۳۱)۔ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ قَالَ: بَلَغَ مُصْعَبَ بْنَ الزُّبَیْرِ عَنْ عَرِیفِ الْأَنْصَارِ شَیْئٌ فَہَمَّ بِہِ، فَدَخَلَ عَلَیْہِ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ فَقَالَ لَہُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((اسْتَوْصُوْا بِالْأَنْصَارِ خَیْرًا (أَوْ قَالَ: مَعْرُوفًا) اقْبَلُوْا مِنْ مُحْسِنِہِمْ وَتَجَاوَزُوْا عَنْ مُسِیئِہِمْ۔)) فَأَلْقٰی مُصْعَبٌ نَفْسَہُ عَنْ سَرِیرِہِ وَأَلْزَقَ خَدَّہُ بِالْبِسَاطِ وَقَالَ: أَمْرُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الرَّأْسِ وَالْعَیْنِ فَتَرَکَہُ۔ (مسند احمد: ۱۳۵۶۲)
علی بن زید سے مروی ہے کہ سیدنا مصعب بن زبیر تک انصار کے ایک نمائندے کی کوئی شکایت پہنچی تو انہوںنے اس کے متعلق (برا بھلا یا سزا دینے کا) ارادہ کیا، سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا مصعب کے ہاں جا کر ان سے کہا:میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ میں تمہیں انصار کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں، ان میں سے جو آدمی نیکوکار ہو تم اس کی بات کو قبول کرو اور جس سے کوئی کوتاہی سرزد ہو جائے تم اس سے در گزر کرو۔ یہ سن کر سیدنا مصعب نے اپنے آپ کو چارپائی سے نیچے گرا دیا اور اپنا رخسار چٹائی پر رکھ کر کہا:اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا حکم سر آنکھوں پر، پھر اس انصاری کو چھوڑ دیا اور کچھ نہ کہا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11532

۔ (۱۱۵۳۲)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُتَقَنِّعًا بِثَوْبٍ، فَقَالَ: ((أَیُّہَا النَّاسُ! إِنَّ النَّاسَ لَیَکْثُرُونَ وَإِنَّ الْأَنْصَارَ یَقِلُّونَ، فَمَنْ وَلِیَ مِنْکُمْ أَمْرًا یَنْفَعُ فِیہِ أَحَدًا، فَلْیَقْبَلْ مِنْ مُحْسِنِہِمْ وَیَتَجَاوَزْ عَنْ مُسِیئِہِمْ۔)) (مسند احمد: ۲۶۲۹)
سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (مرض الموت کے دنوں میں) سر اور منہ پر کپڑا لپیٹے باہر تشریف لائے اور فرمایا: لوگو! عام لوگ تعداد میںبڑھتے جا رہے ہیں اور انصار کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے، پس تم میں سے جو آدمی امور خلافت پر متمکن ہو اور کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ انصار کے نیکوکاروں کی بات کو قبول کر لے اور ان میں سے کسی سے کوئی کوتاہی ہو تو اس سے در گزر کرے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11533

۔ (۱۱۵۳۳)۔ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ زِیَادٍ السَّاعِدِیِّ الْأَنْصَارِیِّ، أَنَّہُ أَتٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ الْخَنْدَقِ وَہُوَ یُبَایِعُ النَّاسَ عَلَی الْہِجْرَۃِ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! بَایِعْ ہٰذَا، قَالَ: ((وَمَنْ ہٰذَا؟)) قَالَ ابْنُ عَمِّی حَوْطُ بْنُ یَزِیدَ أَوْ یَزِیدُ بْنُ حَوْطٍ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَا أُبَایِعُکَ، إِنَّ النَّاسَ یُہَاجِرُونَ إِلَیْکُمْ وَلَا تُہَاجِرُونَ إِلَیْہِمْ، وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِیَدِہِ لَا یُحِبُّ رَجُلٌ الْأَنْصَارَ حَتّٰی یَلْقَی اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی إِلَّا لَقِیَ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَہُوَ یُحِبُّہُ، وَلَا یَبْغُضُ رَجُلٌ الْأَنْصَارَ حَتّٰی یَلْقَی اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی إِلَّا لَقِیَ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَہُوَ یَبْغُضُہُ۔)) (مسند احمد: ۱۵۶۲۵)
سیدنا حارث بن زیاد ساعدی انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ وہ خندق کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں سے ہجرت کرنے کی بیعت لے رہے تھے، حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس آدمی سے بھی بیعت لے لیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کون ہے؟ انھوں نے کہا: یہ میرا چچا زاد حوط بن یزیدیایزید بن حوط ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تم سے بیعت نہیں لیتا، لوگ تمہاری طرف ہجرت کرکے آئیں گے، تم ان کی طرف ہجرت کرکے نہیں جائو گے ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! جو آدمی انصار سے محبت کرتا رہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جا ملے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس آدمی سے محبت کرتا ہوگا، لیکن جو آدمی انصار سے بغض رکھے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جا ملے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس آدمی سے بغض رکھتا ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11534

۔ (۱۱۵۳۴)۔ حَدَّثَنَا أَبُو سَعِیدٍ، حَدَّثَنَا شَدَّادٌ أَبُو طَلْحَۃَ، حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِی بَکْرٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ، قَالَ: أَتَتِ الْأَنْصَارُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِجَمَاعَتِہِمْ فَقَالُوْا إِلٰی مَتٰی نَنْزَعُ مِنْ ہٰذِہِ الْآبَارِ، فَلَوْ أَتَیْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَعَا اللّٰہَ لَنَا فَفَجَّرَ لَنَا مِنْ ہٰذِہِ الْجِبَالِ عُیُونًا، فَجَائُ وْا بِجَمَاعَتِہِمْ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّا رَآہُمْ قَالَ: ((مَرْحَبًا وَأَہْلًا لَقَدْ جَائَ بِکُمْ إِلَیْنَا حَاجَۃٌ)) قَالُوْا: إِی وَاللّٰہِ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، فَقَالَ: ((إِنَّکُمْ لَنْ تَسْأَلُونِی الْیَوْمَ شَیْئًا إِلَّا أُوتِیتُمُوہُ، وَلَا أَسْأَلُ اللّٰہَ شَیْئًا إِلَّا أَعْطَانِیہِ۔)) فَأَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ فَقَالُوْا: الدُّنْیَا تُرِیدُونَ فَاطْلُبُوا الْآخِرَۃَ، فَقَالُوْا بِجَمَاعَتِہِمْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ادْعُ اللّٰہَ لَنَا أَنْ یَغْفِرَ لَنَا، فَقَالَ: ((اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ، وَلِأَبْنَائِ الْأَنْصَارِ، وَلِأَبْنَائِ أَبْنَائِ الْأَنْصَارِ)) قَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَأَوْلَادِنَا مِنْ غَیْرِنَا، قَالَ: ((وَأَوْلَادِ الْأَنْصَارِ)) قَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَمَوَالِینَا؟ قَالَ: ((وَمَوَالِی الْأَنْصَارِ)) قَالَ: وَحَدَّثَتْنِی أُمِّی عَنْ أُمِّ الْحَکَمِ بِنْتِ النُّعْمَانِ بْنِ صُہْبَانَ: أَنَّہَا سَمِعَتْ أَنَسًا یَقُولُ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِثْلَ ہٰذَا غَیْرَ أَنَّہُ زَادَ فِیہِ: ((وَکَنَائِنِ الْأَنْصَارِ۔)) (مسند احمد: ۱۳۳۰۱)
عبید اللہ بن ابی بکر اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا (سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) سے بیان کرتے ہیں کہ انصار نے اکٹھے ہو کر شکوہ کیا کہ ہم کب تک ان کنوؤں سے پانی کھینچتے رہیں گے۔ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جا کر گزارش کریں اور آپ اللہ سے دعا کریں تاکہ وہ ان پہاڑوں سے ہمارے لیے چشمے جاری کر دے۔ پس وہ سب اکٹھے ہو کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گئے، آپ نے ان کو دیکھا تو خوش آمدید کہا اور فرمایا: تمہیں کوئی خاص ضرورت ہی ہماری طرف لائی ہے۔ انہوںنے کہا: اے اللہ کے رسول! واقعی بات ایسے ہی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آج تم جو بھی مانگو گے، وہ تمہیں دے دیا جائے گا اور میں بھی اللہ سے جو کچھ مانگوں گا وہ مجھے عنایت کر دے گا۔ یہ سن کر وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور بولے: کیا تم دنیا طلب کرنے آئے ہو؟آخرت کی کامیابی مانگ لو۔ ان سب نے بیک زبان عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا فرمائیں کہ وہ ہماری مغفرت فرما دے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یا اللہ! انصار کی، ان کے بیٹوں کی اور ان کے پوتوں کی مغفرت فرما دے۔ انصار نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اور غیر انصار سے ہونے والی ہماری اولاد کے حق میں بھی دعا فرما دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انصار کی سب اولاد کو بخش دے۔ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! انصار کے غلاموں اور لونڈیوں کے حق میں بھی دعا فرما دیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یا اللہ! انصار کے غلاموں اور لونڈیوں کی بھی مغفرت فرما دے۔ عبید اللہ بن ابی بکر کا بیان ہے کہ مجھ سے میری والدہ نے ام حکم بنت نعما ن بن صہباء کی روایت سے بیان کیا انہوں نے کہا کہ میںنے سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سنا وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اسی طرح بیان کرتے تھے، البتہ اس میں یہ بھی ہے کہ انصار نے مزید درخواست کی کہ اللہ کے رسول ہمارے بیٹوں کی بیویوں اور ہمارے بھائیوں کی بیویوں کے حق میں بھی دعائے مغفرت کر دیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11535

۔ (۱۱۵۳۵)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: شَقَّ عَلَی الْأَنْصَارِ النَّوَاضِحُ فَاجْتَمَعُوْا عِنْدَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَسْأَلُونَہُ أَنْ یُجْرِیَ لَہُمْ نَہْرًا سَیْحًا، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَرْحَبًا بِالْأَنْصَارِ وَاللّٰہِ لَا تَسْأَلُونِی الْیَوْمَ شَیْئًا إِلَّا أَعْطَیْتُکُمُوہُ، وَلَا أَسْأَلُ اللّٰہَ لَکُمْ شَیْئًا إِلَّا أَعْطَانِیہِ۔)) فَقَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ: اغْتَنِمُوہَا وَاطْلُبُوا الْمَغْفِرَۃَ، فَقَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ادْعُ اللّٰہَ لَنَا بِالْمَغْفِرَۃِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَلِأَبْنَائِ الْأَنْصَارِ وَلِأَبْنَائِ أَبْنَائِ الْأَنْصَارِ۔)) (مسند احمد: ۱۲۴۴۱)
۔ (دوسری سند) جب انصار کے لیے اونٹوں پر پانی لاد لاد کر لانا اور کھیتوں کو سیرات کرنا شاق گزرنے لگا تو وہ اکٹھے ہو کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میںگئے، تاکہ وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے درخواست کریں کہ آپ انہیں ایک بہتی نہر کھودنے کی اجازت فرمائیں۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: انصار کو خوش آمدید، اللہ کی قسم! آج تم مجھ سے جو بھی طلب کرو گے، میں تمہیں عنایت کردوں گا اور میں بھی اللہ سے تمہارے لیے جو کچھ مانگوں گا، وہ مجھے دے دے گا۔ انہوںنے ایک دوسرے سے کہا: اس وقت کو غنیمت سمجھو اور مغفرت کی درخواست کرو۔ ان سب نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ اللہ سے ہمارے حق میں مغفرت کی دعا فرمائیں، تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں دعا کی: یا اللہ! انصار کی، ان کی اولادوں کی اور ان کی اولادوں کی اولادوں کی مغفرت فرما دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11536

۔ (۱۱۵۳۶)۔ اِنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ الْأَنْصَارَ عَیْبَتِی الَّتِی أَوَیْتُ إِلَیْہَا، فَاقْبَلُوْا مِنْ مُحْسِنِہِمْ وَاعْفُوا عَنْ مُسِیئِہِمْ، فَإِنَّہُمْ قَدْ أَدَّوْا الَّذِی عَلَیْہِمْ وَبَقِیَ الَّذِی لَہُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۲۶۷۸)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بے شک انصار میرے انتہائی خاص، راز دان اور امین لوگ ہیں، ان کی طرف آکر میں نے پناہ لی، پس تم ان کے نیکو کاروں کی بات کو قبول کرو اور ان میں سے کسی سے کوتاہی ہو تو اس سے درگزر کرو، انہوںنے اپنے عہد و پیمان کو تو پورا کر دیا ہے، لیکن ان کے حقوق کی ادائیگی باقی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11537

۔ (۱۱۵۳۷)۔ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ صُہَیْبٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَأَی الصِّبْیَانَ وَالنِّسَائَ مُقْبِلِینَ، قَالَ عَبْدُ الْعَزِیزِ: حَسِبْتُ أَنَّہُ قَالَ: مِنْ عُرْسٍ، فَقَامَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُمْثِلًا فَقَالَ: ((اللَّہُمَّ أَنْتُمْ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَیَّ، اللَّہُمَّ أَنْتُمْ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَیَّ، اللَّہُمَّ أَنْتُمْ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَیَّ یَعْنِی الْأَنْصَارَ)) وَفِیْ لَفْظٍ: ((وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدَہِ اِنَّکُمْ لَاَحَبُّ النَّاسِ اِلَیَّ)) ثَلَاثَ مَرَّاتٍ۔ (مسند احمد: ۱۲۸۲۸)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک شادی سے انصار کے بچوں اور عورتوں کو آتے ہوئی دیکھاتو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے: اللہ گواہ ہے کہ تم لوگوں میں سے میرے نزدیک محبوب ترین ہو۔ اللہ گواہ ہے کہ مجھے سب سے زیادہ محبوب لوگوں میں سے ہو۔ اللہ جانتا ہے کہ تم انصار مجھے سب سے زیادہ محبوب لوگوں میں سے ہو۔ ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین بار فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11538

۔ (۱۱۵۳۸)۔ عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، أَنَّ زَیْدَ بْنَ أَرْقَمَ کَتَبَ إِلٰی أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ زَمَنَ الْحَرَّۃِ یُعَزِّیہِ فِیمَنْ قُتِلَ مِنْ وَلَدِہِ وَقَوْمِہِ، وَقَالَ أُبَشِّرُکَ بِبُشْرٰی مِنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ، وَلِأَبْنَائِ الْأَنْصَارِ، وَلِأَبْنَائِ أَبْنَائِ الْأَنْصَارِ، وَاغْفِرْ لِنِسَائِ الْأَنْصَارِ، وَلِنِسَائِ أَبْنَائِ الْأَنْصَارِ، وَلِنِسَائِ أَبْنَائِ أَبْنَائِ الْأَنْصَارِ۔)) (مسند احمد: ۱۹۵۱۴)
نضر بن انس سے روایت ہے کہ سیدنا زید بن ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو واقعۂ حرہ کے دنوں میں ان کی اولاد اور ان کی قوم کے افراد کے قتل کی تعزیت کے سلسلہ میں لکھا اور کہا: میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ایک خوش خبری سنانا چاہتا ہوں ، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یوں فرماتے ہوئے سنا: یا اللہ! انصارکو، ان کے بیٹوں کو اور ان کے پوتوں کو بخش دے، انصار کی خواتین کو، انصار کے بیٹوں کی بیویوں کو اور انصار کے پوتوں کی خواتین کو بخش دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11539

۔ (۱۱۵۳۹)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَمْزَۃَ قَالَ: قَالَتِ الْأَنْصَارُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ إِنَّ لِکُلِّ نَبِیٍّ أَتْبَاعًا، وَإِنَّا قَدْ تَبِعْنَاکَ فَادْعُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ یَجْعَلَ أَتْبَاعَنَا مِنَّا، قَالَ: فَدَعَا لَہُمْ أَنْ یَجْعَلَ أَتْبَاعَہُمْ مِنْہُمْ، قَالَ: فَنَمَّیْتُ ذٰلِکَ إِلَی ابْنِ أَبِی لَیْلٰی، فَقَالَ: زَعَمَ ذٰلِکَ زَیْدٌ یَعْنِی ابْنَ أَرْقَمَ۔ (مسند احمد: ۱۹۵۵۱)
عمر و بن مرہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے ابو حمزہ طلحہ بن یزید سے سنا، انھوں نے کہا کہ انصار نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہر نبی کے کچھ پیروکار ہوتے ہیں، ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیروی کی ہے۔ اب آپ دعا فرمائیںکہ اللہ تعالیٰ ہمارے پیروکار ہم میں سے بنائے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ان کے پیرو انہی میں سے بنائے۔ میں نے اس حدیث کا ابن ابی لیلی سے ذکر کیا، تو انہوںنے کہا کہ زید بن ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی ایسے ہی کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11540

۔ (۱۱۵۴۰)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اٰیَۃُ الْاِیْمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ وَآیَۃُ النِّفَاقِ بُغْضُہُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۲۳۹۶)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انصار سے محبت کرنا ایمان کی اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11541

۔ (۱۱۵۴۱)۔ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ھٰذَا الْحَیُّ مِنَ الْاَنْصَارِ مِحْنَۃٌ حُبُّہُمْ اِیْمَانٌ وَبُغْضُہُمْ نِفَاقٌ۔)) (مسند احمد: ۲۲۸۲۹)
سیدنا سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انصار کا یہ قبیلہ لوگوں کے امتحان کا ذریعہ ہے، ان سے محبت رکھنا ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا نفاق ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11542

۔ (۱۱۵۴۲)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا یُبْغِضُ الْاَنْصَارَ رَجُلٌ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ أَوْ إِلّّا أَبْغَضَہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ۔)) (مسند احمد: ۲۸۱۸)
سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس آدمی کا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان ہو وہ انصار سے بغض نہیں رکھتا۔ یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں فرمایا کہ جو آدمی انصار سے بغض رکھتا ہو، اللہ اور اس کا رسول اس سے بغض رکھتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11543

۔ (۱۱۵۴۳)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَایَۃَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَعَ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ، وَرَایَۃَ الْأَنْصَارِ مَعَ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ، وَکَانَ إِذَا اسْتَحَرَّ الْقَتْلُ، کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِمَّا یَکُونَ تَحْتَ رَایَۃِ الْأَنْصَارِ۔ (مسند احمد: ۳۴۸۶)
ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا جھنڈا سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس ہوتا اور انصار کا جھنڈا سیدنا سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاتھ میں ہوتا، جب شدیدجنگ چھڑتی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انصار کے جھنڈے کے نیچے چلے جاتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11544

۔ (۱۱۵۴۴)۔ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَوْلَا الْہِجْرَۃُ لَکُنْتُ امْرَأً مِنَ الْأَنْصَارِ، وَلَوْ یَنْدَفِعُ النَّاسُ فِی شُعْبَۃٍ أَوْ فِی وَادٍ وَالْأَنْصَارُ فِی شُعْبَۃٍ لَانْدَفَعْتُ فِی شِعْبِہِمْ۔)) (مسند احمد: ۸۱۵۴)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار کا ایک فرد ہوتا اور اگر لوگ ایک گھاٹییا وادی میں چلیں اور انصار دوسری گھاٹی میں ہوں تو میں انصار والی گھاٹی میں چلوں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11545

۔ (۱۱۵۴۵)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: اِجْتَمَعَ أُنَاسٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالُوْا آثَرَ عَلَیْنَا غَیْرَنَا، فَبَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَمَعَہُمْ، ثُمَّ خَطَبَہُمْ فَقَالَ: ((یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ! أَلَمْ تَکُونُوا أَذِلَّۃً فَأَعَزَّکُمُ اللّٰہُ؟)) قَالُوْا: صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، قَالَ: ((أَلَمْ تَکُونُوْا ضُلَّالًا فَہَدَاکُمُ اللّٰہُ؟)) قَالُوْا: صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، قَالَ: ((أَلَمْ تَکُونُوْا فُقَرَائَ فَأَغْنَاکُمُ اللّٰہُ؟)) قَالُوْا: صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، ثُمَّ قَالَ: ((أَلَا تُجِیبُونَنِی، أَلَا تَقُولُونَ!! أَتَیْتَنَا طَرِیدًا فَآوَیْنَاکَ، وَأَتَیْتَنَا خَائِفًا فَآمَنَّاکَ، أَلَا تَرْضَوْنَ! أَنْ یَذْہَبَ النَّاسُ بِالشَّائِ وَالْبُقْرَانِ (یَعْنِی الْبَقَرَ) وَتَذْہَبُونَ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَتُدْخِلُونَہُ بُیُوتَکُمْ؟ لَوْ أَنَّ النَّاسَ سَلَکُوْا وَادِیًا أَوْ شُعْبَۃً وَسَلَکْتُمْ وَادِیًا أَوْ شُعْبَۃً سَلَکْتُ وَادِیَکُمْ أَوْ شُعْبَتَکُمْ، لَوْلَا الْہِجْرَۃُ لَکُنْتُ امْرَأً مِنَ الْأَنْصَارِ، وَإِنَّکُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِی أَثَرَۃً فَاصْبِرُوا حَتّٰی تَلْقَوْنِی عَلَی الْحَوْضِ۔)) (مسند احمد: ۱۱۵۶۸)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ انصار کے کچھ لوگوں نے جمع ہو کر آپس میں کچھ ایسی باتیں کیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوسروں کوہمارے اوپر ترجیح دی ہے، جب یہ بات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انصار کو جمع کرکے ان سے خطاب فرماتے ہوئے فرمایا: اے انصار کی جماعت! کیایہ حقیقت نہیں کہ تم لوگ ذلیل اور رسورا تھے اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں عزت سے نوازا؟ انھوں نے کہا؛ اللہ اور اس کے رسول کی بات درست ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیایہ بھی حقیقت نہیں ہے کہ تم لوگ گمراہ تھے اور اللہ نے تمہیںہدایت سے نوازا؟ انھوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کی بات بالکل ٹھیک ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیایہ بات بھی صحیح نہیں کہ تم لوگ غریب تھے اور اللہ نے تمہیں غنی اور خوشحال کیا؟ انھوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کی بات صحیح ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم مجھے جوابا ً یوں کیوں نہیں کہتے کہ اے رسول! آپ کے شہر والوں نے آپ کو شہر بدر کر دیا تو ہم نے آپ کو پناہ دی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خوف زدہ ہو کر ہمار ے پاس پہنچے تو ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو امن دیا؟اے انصار! کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ لوگ بکریاں اور گائیں لے کر جائیں اور تم اللہ کے رسول کو اپنے ہمراہ لے کر جائو اور تم اس رسول کو اپنے گھروں میں داخل کرو، حقیقتیہ ہے کہ اگر لوگ کسی ایک وادییا گھاٹی میں چلیں تو میں اس گھاٹییا وادی میں چلوں گا، جس میں تم چلو گے، اگر ہجرت والی سعادت نہ ہوتی تو میں انصاری فرد ہوتا، تم عنقریب میرے بعد اس سے بھی بڑھ کر ترجیح و تفریق ملاحظہ کر و گے، مگر تم ایسی صورت میں بھی صبر کرنا یہاں تک کہ تم مجھ سے حوض کوثر پر آ ملو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11546

۔ (۱۱۵۴۶)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَحْوُہ وَفِیْہ: فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّکُمْ سَتَجِدُونَ بَعْدِی أَثَرَۃً شَدِیدَۃً فَاصْبِرُوْا حَتّٰی تَلْقَوُا اللّٰہَ وَرَسُولَہُ، فَإِنِّی فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ۔)) قَالَ أَنَسٌ: فَلَمْ نَصْبِرْ۔ (مسند احمد: ۱۲۷۲۶)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا، پھر گزشتہ حدیث کی مانند روایت بیان کی، البتہ اس میں ہے:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: تم میرے بعد بڑی ترجیح و تفریق ملاحظہ کرو گے، لیکن تم ایسی صورت حال میں صبر سے کام لینا،یہاں تک کہ تم اللہ اور اس کے رسول سے جا ملو، میں حوض کوثر پر تمہارا پیش رو ہوں گا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: لیکن ہم نے صبر نہیں کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11547

۔ (۱۱۵۴۷)۔ عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَائَ بْنَ عَازِبٍ یُحَدِّثُ: أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَوْ قَالَ: عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ قَالَ فِی الْأَنْصَارِ: ((لَا یُحِبُّہُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا یُبْغِضُہُمْ إِلَّا مُنَافِقٌ، مَنْ أَحَبَّہُمْ فَأَحَبَّہُ اللّٰہُ وَمَنْ أَبْغَضَہُمْ فَأَبْغَضَہُ اللّٰہُ۔)) قَالَ قُلْتُ لَہُ: أَنْتَ سَمِعْتَ الْبَرَائَ؟ قَالَ: إِیَّایَ یُحَدِّثُ۔ (مسند احمد: ۱۸۷۷۷)
سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انصار کے بارے میں فرمایا: اہل ایمان ان سے محبت رکھتے ہیں اور منافق ان سے بغض رکھتے ہیں، جو کوئی ان سے محبت کرے گا، اللہ اس سے محبت کرے گا اور جو کوئی ان سے بغض رکھے گا،اللہ تعالیٰ اس سے بغض رکھے گا۔ حدیث کے راوی شعبہ نے اپنے شیخ سے کہا: کیا آپ نے خود یہ حدیث سیدنا براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سنی ہے؟ انہوںنے کہا:جی سیدنا براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہی مجھے بیان کی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11548

۔ (۱۱۵۴۸)۔ عَنْ رَبَاحِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ حُوَیْطِبٍ قَالَ: حَدَّثَتْنِیْ جَدَّتِیْ أَنَّہَا سَمِعَتْ أَبَاہَا یَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَّا وُضُوْئَ لَہٗ، وَلَا وُضُوْئَ لِمَنْ لَمْ یَذْکُرِ اللّٰہَ تَعَالٰی، وَلَا یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْ بِیْ، وَلَا یُؤْمِنُ بِیْ مَنْ لَّا یُحِبُّ الْأَنْصَارَ۔)) (مسند أحمد: ۲۷۶۸۸)
رباح بن عبد الرحمن سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میری دادی نے مجھے اپنے باپ (سیدنا سعید بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) سے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس آدمی کا وضو نہیں اس کی کوئی نماز نہیں اور جس آدمی نے اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کیا، (یعنی بسم اللہ نہیں پڑھی) اس کا کوئیوضو نہیں اور جو شخص میں (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) پر ایمان نہیں لایا، وہ اللہ تعالیٰ پرایمان نہیں لا سکے گا اور جس بندے نے انصار سے محبت نہ کی، وہ مجھ پر ایمان نہیں لا سکے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11549

۔ (۱۱۵۴۹)۔ عَنِ الزُّہْرِیِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِی عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ الْأَنْصَارِیُّ، وَہُوَ أَحَدُ الثَّلَاثَۃِ الَّذِینَ تِیبَ عَلَیْہِمْ، أَنَّہُ أَخْبَرَہُ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَرَجَ یَوْمًا عَاصِبًا رَأْسَہُ فَقَالَ فِی خُطْبَتِہِ: ((أَمَّا بَعْدُ یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ! فَإِنَّکُمْ قَدْ أَصْبَحْتُمْ تَزِیدُونَ وَأَصْبَحَتِ الْأَنْصَارُ لَا تَزِیدُ عَلٰی ہَیْئَتِہَا الَّتِی ہِیَ عَلَیْہَا الْیَوْمَ، وَإِنَّ الْأَنْصَارَ عَیْبَتِی الَّتِی أَوَیْتُ إِلَیْہَا، فَأَکْرِمُوا کَرِیمَہُمْ، وَتَجَاوَزُوا عَنْ مُسِیئِہِمْ۔)) (مسند احمد: ۱۶۱۷۲)
عبداللہ بن کعب بن مالک انصاری،یہ کعب ان تین میں سے ایک ہیں جن کی توبہ قبول ہوئی تھی، سے مروی ہے کہ اس کو کسی صحابی نے بیان کیا کہ ایک دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے سر پر کپڑا باندھے باہر تشریف لائے اور اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا: اما بعد! اے مہاجرین کی جماعت! تمہاری تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور انصار آج اپنی پہلی سی تعداد میںنہیں ہیں،یہ انصار میرے خاص اور راز دان لوگ ہیں، جن کی طرف آکر میں نے پناہ لی، پس تم ان کے معزز شخص کا اکرام کرتے رہنا اور ان میں سے کوتاہی کرنے والے سے درگزر کرنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11550

۔ (۱۱۵۵۰)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، أَنَّ الْمُشْرِکِینَ لَمَّا رَہِقُوا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ فِی سَبْعَۃٍ مِنَ الْأَنْصَارِ وَ رَجُلَیْنِ مِنْ قُرَیْشٍ، قَالَ: ((مَنْ یَرُدُّہُمْ عَنَّا؟ وَہُوَ رَفِیقِی فِی الْجَنَّۃِ۔)) فَجَائَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ، فَلَمَّا أَرْہَقُوہُ أَیْضًا، قَالَ: ((مَنْ یَرُدُّہُمْ عَنِّی؟ وَہُوَ رَفِیقِی فِی الْجَنَّۃِ۔)) حَتّٰی قُتِلَ السَّبْعَۃُ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِصَاحِبِہِ: ((مَا أَنْصَفْنَا إِخْوَانَنَا۔)) (مسند احمد: ۱۴۱۰۲)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب مشرکین نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اوپر چڑھ آئے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سات انصاریوں اور دو قریشیوں کے ہمراہ تھے، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان مشرکین کو ہم سے کون ہٹائے گا، وہ اس عمل کے نتیجہ میں جنت میں میرا ساتھی ہوگا۔ جواباً ایک انصاری آگے بڑھا اور وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا دفاع کرتے ہوئے دشمن سے لڑتا رہا، یہاں تک کہ وہ شہید ہوگیا۔ جب مشرکین آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اوپر پھر چڑھ آئے تو آپ نے پھر فرمایا: کون ہے جو ان مشرکین کو ہم سے ہٹائے اور دور رکھے، اس عمل کے نتیجہ میں وہ جنت میں میرا ساتھی ہوگا۔ یہاں تک کہ ساتوں انصاری شہید ہو گئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے دو قریشی ساتھیوں سے فرمایا: ہم نے اپنے ان بھائیوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11551

۔ (۱۱۵۵۱)۔ عَنْ أَبِیْ مُوْسَی الْاَشْعَرِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یُکْثِرُ زِیَارَۃَ الْأَنْصَارِ خَاصَّۃً وَعَامَّۃً، فَکَانَ إِذَا زَارَ خَاصَّۃً أَتَی الرَّجُلَ فِی مَنْزِلِہِ، وَإِذَا زَارَ عَامَّۃً أَتَی الْمَسْجِدَ۔ (مسند احمد: ۱۹۷۹۲)
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاص و عام انصار کی زیارت و ملاقات کے لیے کثرت سے تشریف لے جایا کرتے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی خاص آدمی کی زیارت کے لیے تشریف لے جاتے تو اس کے گھر تشریف لے جاتے او ر جب عام لوگوں سے ملاقات کرنا ہوتی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد میں تشریف رکھتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11552

۔ (۱۱۵۵۲)۔ عَنْ أَبِی عُقْبَۃَ، وَکَانَ مَوْلًی مِنْ أَہْلِ فَارِسَ، قَالَ: شَہِدْتُ مَعَ نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ أُحُدٍ، فَضَرَبْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِکِینَ فَقُلْتُ: خُذْہَا مِنِّی وَأَنَا الْغُلَامُ الْفَارِسِیُّ، فَبَلَغَتِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((ہَلَّا قُلْتَ خُذْہَا مِنِّی وَأَنَا الْغُلَامُ الْأَنْصَارِیُّ۔)) (مسند احمد: ۲۲۸۸۲)
سیدنا ابو عقبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ ایک فارسی غلام تھے، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں غزوۂ احد میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ تھا، میں نے ایک مشرک پر زبردست قسم کا وار کرتے ہوئے کہا: لے مزہ چکھ، میں ایک فارسی لڑکا ہوں۔ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے یوں کیوں نہ کہا کہ لے مزہ چکھ، میں ایک انصاری لڑکا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11553

۔ (۱۱۵۵۳)۔ عَنْ عَائِشَۃَ، أَنَّہَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا یَضُرُّ امْرَأَۃً نَزَلَتْ بَیْنَ بَیْتَیْنِ مِنْ الْأَنْصَارِ أَوْ نَزَلَتْ بَیْنَ أَبَوَیْہَا۔)) (مسند احمد: ۲۶۷۳۷)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس عورت کو کوئی تکلیف نہیں جو انصاریوں کے گھروں میں اترے یا اپنے والدین کے گھر اترے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11554

۔ (۱۱۵۵۴)۔ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِخَیْرِ دُورِ الْأَنْصَارِ؟)) قَالُوْا: بَلٰی، یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، قَالَ: ((بَنُو عَبْدِ الْأَشْہَلِ وَہُمْ رَہْطُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ۔)) قَالُوْا: ثُمَّ مَنْ؟ یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، قَالَ: ((ثُمَّ بَنُو النَّجَّارِ۔)) قَالُوْا: ثُمَّ مَنْ؟ یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، قَالَ: ((ثُمَّ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ۔)) قَالُوْا: ثُمَّ مَنْ؟ یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، قَالَ: ((ثُمَّ بَنُو سَاعِدَۃَ۔)) قَالُوْا، ثُمَّ مَنْ؟ یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، قَالَ: ((ثُمَّ فِی کُلِّ دُورِ الْأَنْصَارِ خَیْرٌ۔)) قَالَ مَعْمَرٌ: أَخْبَرَنِیْ ثَابِتٌ وَقَتاَدَۃُ اَنَّہُمَا سَمِعَا أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یَذْکُرُ ھٰذَا الْحَدِیْثَ إِلاَّ أَنَّہٗ قَالَ: ((بَنُو النَّجَّارِ ثُمَّ بَنُوْ عَبْدِ الْأَشْہَلِ۔)) (مسند احمد: ۷۶۱۷)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیںیہ نہ بتلائوں کہ انصار کے سب سے اچھے گھرانے کون کون سے ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا: ضرور بیان فرمائیں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بنو عبدالاشھل، یہ سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا قبیلہ تھا۔ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ان کے بعد؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر بنو نجار ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ان کے بعد کون؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : پھر بنو حارث بن خزرج۔ صحابہ نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! ان کے بعد کون سا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر بنو ساعدہ۔ صحابہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! ان کے بعد کون؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر انصار کے سب ہی گھرانوں میں خیر ہی خیر ہے۔ معمر سے مروی ہے کہ ثابت اور قتادہ نے مجھ سے بیان کیا کہ ان دونوں نے سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہی حدیث بیان کرتے سنا تو انہوںنے سب سے پہلے بنو نجار کا اور ان کے بعد بنو عبدالاشھل کا ذکر کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11555

۔ (۱۱۵۵۵)۔ عَنْ أَبِی أُسَیْدٍ السَّاعِدِیِّ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((خَیْرُ دُورِ الْأَنْصَارِ بَنُو النَّجَّارِ، ثُمَّ بَنُو عَبْدِ الْأَشْہَلِ، ثُمَّ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، ثُمَّ بَنُو سَاعِدَۃَ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((وَفِی کُلِّ دُورِ الْأَنْصَارِ خَیْرٌ)) فَقَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ: جَعَلَنَا رَابِعَ أَرْبَعَۃٍ، أَسْرِجُوا لِی حِمَارِی، فَقَالَ ابْنُ أَخِیہِ: أَتُرِیدُ أَنْ تَرُدَّ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَسْبُکَ أَنْ تَکُونَ رَابِعَ أَرْبَعَۃٍ۔ (مسند احمد: ۱۶۱۴۷)
ابو اسید ساعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انصارکے گھرانوں میں سب سے بہترین گھر انہ بنو نجار کا، ان کے بعد بنو عبدالاشھل کا، ان کے بعد بنو حارث بن خزرج اور ان کے بعد بنو ساعدہ کا ہے، ویسے انصار کے سب گھرانوں میں خیر ہی خیر ہے۔ یہ سن کر سیدناسعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمارا نام چوتھے نمبر پر لیا، میرے گدھے پر زین کسو (میں جا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ شکایت کرتا ہوں)۔ لیکن ان کے بھتیجے نے ان سے کہا: کیا آپ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات پر اعتراض کریں گے؟ تمہارے لیےیہ اعزاز بھی کافی ہے کہ تم چوتھے نمبر پر ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11556

۔ (۱۱۵۵۶)۔ عَنْ جَرِیرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((الْمُہَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ أَوْلِیَائُ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ، وَالطُّلَقَائُ مِنْ قُرَیْشٍ، وَالْعُتَقَائُ مِنْ ثَقِیفٍ، بَعْضُہُمْ أَوْلِیَائُ بَعْضٍ فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، وَالْمُہَاجِرُوْنَ وَالْاَنْصَارُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَائُ بَعْضٍ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۹۴۲۸)
سیدنا جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مہاجرین اور انصار یہ سب ایک دوسرے کے مدد گار اور معاون ہیں، اسی طرح قریش کے وہ لوگ جنہیں فتح مکہ کے دن معاف کر دیا گیا اور بنو ثقیف کے آزاد کردہ لوگ دنیا اورآخرت میں ایک دوسرے کے مددگار اور معاون ہیں اور مہاجرین و انصار قیامت تک ایک دوسرے کے مدد گار اور معاون ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11557

۔ (۱۱۵۵۷)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((وَالطُّلَقَائُ مِنْ قُرَیْشٍ، وَالْعُتَقَائُ مِنْ ثَقِیفٍ، بَعْضُہُمْ أَوْلِیَائُ بَعْضٍ فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، وَالْمُہَاجِرُوْنَ وَالْاَنْصَارُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَائُ بَعْضٍ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۹۴۳۱)
۔ (دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قریش کے جن لوگوں کو فتح مکہ کے دن معاف کر دیا گیا، وہ اور بنو ثقیف کے وہ لوگ جنہیں آزاد کر دیا گیا،یہ سب دنیا و آخرت میں ایک دوسرے کے معاون اور مدد گار ہیں، اور مہاجرین و انصار بھی دنیا اور آخرت میں ایک دوسرے کے مدد گار اور معاون ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11558

۔ (۱۱۵۵۸)۔ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ، قَالَ: قَالَتِ الْأَنْصَارُ: نَحْنُ الَّذِینَ بَایَعُوا مُحَمَّدًا، عَلَی الْجِہَادِ مَا بَقِینَا أَبَدًا، فَأَجَابَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اللَّہُمَّ إِنَّ الْخَیْرَ خَیْرُ الْآخِرَہْ، فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُہَاجِرَہ۔)) وَفِیْ رِوَایَۃٍ: ((فَأَصْلِحِ الْاَنْصَارَ وَالْمُہَاجِرَۃَ۔)) (مسند احمد: ۱۲۷۶۲)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ انصار نے یوں کہا: نَحْنُ الَّذِینَ بَایَعُوا مُحَمَّدًا، عَلَی الْجِہَادِ مَا بَقِینَا أَبَدًا (ہم وہ لوگ ہیں جنہوںنے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر اس بات کی بیعت کی ہے کہ ہم جب تک زندہ رہیں گے، جہاد کرتے رہیں گے۔) تو ان کے اس قول کے جواب میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے، پس انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔ ایک روایت میں ہے: پس تو انصار اور مہاجرین کی اصلاح فرما۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11559

۔ (۱۱۵۵۹)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ الْمُہَاجِرُونَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا رَأَیْنَا مِثْلَ قَوْمٍ قَدِمْنَا عَلَیْہِمْ أَحْسَنَ مُوَاسَاۃً فِی قَلِیلٍ وَلَا أَحْسَنَ بَذْلًا فِی کَثِیرٍ، لَقَدْ کَفَوْنَا الْمَئُونَۃَ، وَأَشْرَکُونَا فِی الْمَہْنَإِ حَتّٰی لَقَدْ حَسِبْنَا أَنْ یَذْہَبُوْا بِالْأَجْرِ کُلِّہِ، قَالَ: ((لَا مَا أَثْنَیْتُمْ عَلَیْہِمْ وَدَعَوْتُمُ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَہُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۳۱۵۳)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ مہاجرین نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم جن انصاری لوگوں کے پاس آئے ہیں، ہم نے ان جیسے لوگ نہیں دیکھے، ان کے پاس کھانے پینے کی اشیاء کم ہوں تو خوب ہمدردی کرتے ہیں اور اگر ان کے پاس کھانے پینے کو وافر ہو تو بھی خوب خرچ کرتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں محنت مزدوری سے بچایا اور اپنی کمائی میں ہمیں اپنا شریک بنایا۔ ہمیں تو اندیشہ ہے کہ سارا اجرو ثواب یہ لوگ لے جائیں گے۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں،یہ بات نہیںہے ، تم لوگ جب تک ان کی تعریف کرو گے اور اللہ تعالیٰ سے ان کے حق میں دعائیں کرو گے توتمہیں بھی اجر و ثواب ملتا رہے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11560

۔ (۱۱۵۶۰)۔ عَنْ أَنْسٍ قَالَ: حَالَفَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ فِی دَارِنَا، قَالَ سُفْیَانُ: کَأَنَّہُ یَقُولُ: آخٰی۔ (مسند احمد: ۱۲۱۱۳)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمارے گھر میں مہاجرین اور انصار کے ما بین ایک معاہدہ کرایا۔اس حدیث کا ایک راوی سفیان کہتے ہیں:سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معاہدہ سے مراد مواخات اور بھائی چارہ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11561

۔ (۱۱۵۶۱)۔ عَنْ أَبِی مُوسٰی أَنَّ أَسْمَائَ لَمَّا قَدِمَتْ لَقِیَہَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فِی بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِینَۃِ، فَقَالَ: آلْحَبَشِیَّۃُ ہِیَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، فَقَالَ: نِعْمَ الْقَوْمُ أَنْتُمْ، لَوْلَا أَنَّکُمْ سُبِقْتُمْ بِالْہِجْرَۃِ، فَقَالَتْ ہِیَ لِعُمَرَ: کُنْتُمْ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَحْمِلُ رَاجِلَکُمْ وَیُعَلِّمُ جَاہِلَکُمْ وَفَرَرْنَا بِدِینِنَا، أَمَا إِنِّی لَا أَرْجِعُ حَتّٰی أَذْکُرَ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَجَعَتْ إِلَیْہِ فَقَالَتْ لَہُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((بَلْ لَکُمُ الْہِجْرَۃُ مَرَّتَیْنِ، ہِجْرَتُکُمْ إِلَی الْمَدِینَۃِ، وَہِجْرَتُکُمْ إِلَی الْحَبَشَۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۹۷۵۳)
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ اسماء بنت عمیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا جب حبشہ سے واپس آئیں تو سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی ان سے ملاقات ہوئی، تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کے بارے میںکہا: کیایہ وہی ہے جو حبشہ سے آئی ہے؟ انہوںنے کہا: جی ہاں۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر لوگ ہجرت کرنے میں تم پر سبقت نہ لے چکے ہوتے تو تم بہترین لوگ ہوتے، یہ سن کر انھوں نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: آپ لوگ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ رہے، تم میں سے جو سواری سے محروم ہوتا یعنی پیدل ہوتا، اللہ کے رسول اسے سواری دیتے اور تم میں سے جو کوئی دین کے مسائل سے واقف نہ ہوتا، اللہ کے رسول اسے تعلیم دیتے اور ہم تو اپنا دین بچانے کے لیےیہاں سے فرار ہو گئے تھے، اب میں جب تک اس بات کا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر نہ کر لوں واپس نہیں آئوں گی۔ پس وہ آپ کی خدمت میں گئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بات بتلائی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جواباً فرمایا: بلکہ تمہاری تو دوہجرتیں ہو گئیں، ایک مدینہ کی طرف اور ایک حبشہ کی طرف۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11562

۔ (۱۱۵۶۲)۔ عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ خَیْرٍ الْہَمْدَانِیِّ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُولُ عَلَی الْمِنْبَرِ: أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِخَیْرِ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّہَا؟ قَالَ: فَذَکَرَ أَبَا بَکْرٍ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِالثَّانِی، قَالَ: فَذَکَرَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، ثُمَّ قَالَ: لَوْ شِئْتُ لَأَنْبَأْتُکُمْ بِالثَّالِثِ، قَالَ: وَسَکَتَ فَرَأَیْنَا أَنَّہُ یَعْنِی نَفْسَہُ، فَقُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَہُ یَقُولُ ہٰذَا؟ قَالَ: نَعَمْ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ وَإِلَّا صُمَّتَا۔ (مسند احمد: ۹۰۹)
عبد خیر ہمدانی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سنا، وہ منبر پر تشریف فرما تھے اور کہہ رہے تھے: لوگو! کیا میں تمہیں نہ بتلائوں کہ اس امت میں نبی کے بعد کون سب سے افضل ہے؟ پھر انہوںنے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا نام لیا۔ پھر کہا: کیا میں تمہیں اس آدمی کے بارے میں نہ بتلائوں جو نبی کے بعد امت میں دوسرے درجہ پر ہے؟ پھر انہوںنے خود ہی سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا نام لیا۔ اور پھر کہا: اگر میں چاہوں تو تمہیں اس آدمی کے متعلق بتلا سکتا ہوں جو تیسرے درجہ پر ہے۔ عبد خیر کہتے ہیں کہ یہ کہہ کرو ہ خاموش رہے۔ ہم یہی سمجھے کہ وہ اپنے آپ کو مراد لے رہے ہیں۔ میں نے ان سے دریافت کیا، کیا آپ نے خود رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، رب کعبہ کی قسم!، اگر میں نے خود نہ سنا ہو تو میرےیہ کان بہرے ہو جائیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11563

۔ (۱۱۵۶۳)۔ حَدَّثَنِی اَبُوْ جُحَیْفَۃَ الَّذِیْ کَانَ عَلِیٌّ یُسَمِّیْہِ وَھْبَ الْخَیْرِ، قَالَ: قَالَ عَلِیٌّ: یَا أَبَا جُحَیْفَۃَ! اَلا أُخْبِرُکَ أَفْضَلَ ھٰذِہِ الْأُمَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّہَا؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلٰی، وَلَمْ أَکُنْ أَرٰی أَنَّ أَحَدًا أَفْضَلُ مِنْہُ، قَالَ: أَفْضَلُ ھٰذِہِ الْأُمَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّہَا أَبُوْ بَکْرٍ، وَبَعْدَ أَبِیْ بَکْرٍ عُمَرُ، وَبَعْدَ ھُمَا آخَرُ ثَالِثٌ وَلَمْ یُسَمِّہِ۔ (مسند احمد: ۸۳۵)
ابو حجیفہ، جنہیں علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ وہب الخیر کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے، ان سے مروی ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: اے ابو جحیفہ! کیا میں تمہیںیہ نہ بتلائوں کہ اس امت میں نبی کے بعد افضل ترین آدمی کون ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ضرور بتلائیں اور میرا خیال تھا کہ نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے افضل کوئی نہیں ہو سکتا۔ لیکن انھوں نے کہا: نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد اس امت میں سب سے افضل سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، ان کے بعد سیدناعمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے بعد ایک تیسرا آدمی ہے، پھر انہوں نے اس کا نام نہ لیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11564

۔ (۱۱۵۶۴)۔ عَنْ وَھْبِ نِ الشَّوَائِیِّ قَالَ: خَطَبَنَا عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقَالَ: مَنْ خَیْرُ ھٰذِہِ الْأُمَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّہَا؟ فَقُلْتُ: أَنْتَ یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ، قَالَ: لَا، خَیْرُ ھٰذِہِ بَعْدَ نَبِیِّہَا أَبُوْبَکْرٍ ثُمَّ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَمَا نُبْعِدُ اَنَّ السَّکِیْنَۃَ تَنْطِقُ عَلٰی لِسَانِ عُمَرَ۔ (مسند احمد: ۸۳۴)
وہب سوائی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہمیں خطبہ دیا اورپوچھا کہ اس امت میں نبی کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ میں نے عرض کیا: آپ خود ہیں، اے امیر المؤمنین! لیکن انھوں نے کہا: نہیں، اس امت میں نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سب سے افضل ہیں، ان کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں اور ہم اس امر کو بعید نہیں سمجھتے کہ سکون اور وقار عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی زبان پر بولتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11565

۔ (۱۱۵۶۵)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: سَبَقَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَصَلّٰی أَبُوْ بَکْرٍ وَثَلَّثَ عُمَرُ، ثُمَّ خَبَطَتْنَا أَوْ أَصَابَتْنَا فِتْنَۃٌ، یَعْفُوا اللّٰہُ عَمَّنْ یَشَائُ۔ (مسند احمد: ۸۹۵)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ فضیلت و مرتبہ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سب سے آگے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زندگی ہی میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نائب کے طور پر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے امامت کے فرائض سر انجام دیئے اور تیسرا درجہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ہے۔ ان کے بعد ہم فتنوں میں مبتلا ہوگئے اور اللہ جس سے چاہے گا، درگزر فرمائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11566

۔ (۱۱۵۶۶)۔ وَعَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِیْ جُحَیْفَۃَ قَالَ: کَانَ أَبِیْ مِنْ شُرَطِ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ وَکَانَ تَحْتَ الْمِنْبَرِ، فَحَدَّثَنِیْ أَبِیْ: أَنَّہٗ صَعِدَ الْمِنْبَرَ یَعْنِیْ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فَحَمِدَ اللّٰہَ تَعَالٰی وَأَثْنٰی عَلَیْہِ وَصَلّٰی عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ: خَیْرُ ھٰذِہِ الْأُمَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّہَا أَبُوْ بَکْرٍ وَالثَّانِیْ عُمَرُ، وَقَالَ: یَجْعَلُ اللّٰہُ تَعَالَی الْخَیْرَحَیْثُ أَحَبَّ۔ (مسند احمد: ۸۳۷)
عون بن ابی جحیفہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میرے والد سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے خصوصی پہرہ داروں میں سے تھے، وہ منبر کے قریب بیٹھے تھے، انہوںنے مجھے بیان کیا کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے منبر پر آکر اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء بیان کی اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر درود بھیجا اور کہا: اس امت میں نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سب سے افضل ہیں۔ پھر کہا: اللہ جہاں چاہتا ہے، خیر وبرکت نازل کر دیتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11567

۔ (۱۱۵۶۷)۔ عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَخْرُجُ إِلَی الْمَسْجِدِ فِیہِ الْمُہَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ، وَمَا مِنْہُمْ أَحَدٌ یَرْفَعُ رَأْسَہُ مِنْ حَبْوَتِہِ إِلَّا أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ، فَیَتَبَسَّمُ إِلَیْہِمَا وَیَتَبَسَّمَانِ إِلَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۲۵۴۴)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد میں تشریف لاتے، وہاں مہاجرین و انصار سب موجود تھے، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سوا کوئی آدمی آپ کی طرف سر نہ اٹھاتا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان دونوں کی طرف دیکھ کر وہ دونوں آپ کی طرف دیکھ کر تبسم کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11568

۔ (۱۱۵۶۸)۔ عَنِ ابْنِ اَبِیْ حَازِمٍ قَالَ: جَائَ رَجُلٌ اِلٰی عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقَالَ: مَا کَانَ مَنْزِلَۃُ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ مِنَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ فَقَالَ: کَمَنْزِلَتِہِمَا السَّاعَۃَ۔ (مسند احمد: ۱۶۸۲۹)
ابن ابی حازم سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے علی بن حسین کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا کیا مقام تھا؟ انہوںنے کہا: (ان دو ہستیوں کا وہی مقام تھا) جو اس گھڑی میں ان کا حاصل ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11569

۔ (۱۱۵۶۹)۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عِنْدَ امْرَأَۃٍ مِنَ الْأَنْصَارِ صَنَعَتْ لَہُ طَعَامًا، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَدْخُلُ عَلَیْکُمْ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ۔)) فَدَخَلَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَہَنَّیْنَاہْ، ثُمَّ قَالَ: ((یَدْخُلُ عَلَیْکُمْ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ۔)) فَدَخَلَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَہَنَّیْنَاہْ، ثُمَّ قَالَ: ((یَدْخُلُ عَلَیْکُمْ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ۔)) فَرَأَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُدْخِلُ رَأْسَہُ تَحْتَ الْوَدِیِّ فَیَقُولُ: ((اللَّہُمَّ إِنْ شِئْتَ جَعَلْتَہُ عَلِیًّا۔)) فَدَخَلَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَہَنَّیْنَاہْ۔ (مسند احمد: ۱۴۶۰۴)
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری خاتون نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعوت کی اور کھانا تیار کیا، ہم بھی آپ کے ساتھ تھے۔ کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آرہا ہے۔ اتنے میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لے آئے، ہم نے ان کو مبارکباد دی ۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک جنتی آدمی تمہارے پاس آنے والا ہے۔ اتنے میں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لے آئے۔ ہم نے انہیں مبارک باد دی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آنے والا ہے۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ کہہ کر اپنا سر کھجور کے چھوٹے درختوں کے نیچے کر لیا اور فرمایا: اے اللہ! اگر تو چاہے تو آنے والا علی ہو۔ اتنے میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لے آئے،اورہم نے انہیں بھی مبارک باد دی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11570

۔ (۱۱۵۷۰)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ غَنَمٍ الْأَشْعَرِیِّ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لِاَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما : ((لَوِ اجْتَمَعْتُمَا فِیْ مَشْورَۃٍ مَا خَلَفْتُکُمَا۔)) (مسند احمد: ۱۸۱۵۷)
عبدالرحمن بن غنم اشعری سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: اگر کسی مشورہ میں تم دونوں کی رائے ایک ہو تو میں تمہاری رائے سے اختلاف نہیں کروں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11571

۔ (۱۱۵۷۱)۔ عَنْ حُذَیْفَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِقْتَدُوْا بِالَّذَیْنِ مِنْ بَعْدِیْ اَبِیْ بَکْرٍ وَ عُمَرَ۔)) (مسند احمد: ۲۳۶۳۴)
سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میرے بعد ابو بکر اور عمر کی اقتداء کرنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11572

۔ (۱۱۵۷۲)۔ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: اِنْطَلَقْتُ اَنَا وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ وَسَمُرَۃُ بْنُ جُنْدُبٍ فَأَتَیْنَا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالُوْا لَنَا: انْطَلَقُوْا إِلٰی مَسْجِدِ التَّقْوٰی، فَانْطَلَقْنَا نَحْوَہُ فَاسْتَقْبَلْنَاہُ یَدَاہُ عَلٰی کَاہِلِ أَبِیْ بَکْرٍ وَ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما فَثُرْنَا فِیْ وَجْہِہِ، فَقَالَ: ((مَنْ ھٰؤُلَائِ یَا اَبَا بَکْرٍ؟)) قَالَ: عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ وَاَبُوْ ھُرَیْرَۃَ وَسَمُرَۃَ۔ (مسند احمد: ۱۰۷۷۷)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں، سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا سمرہ بن جندب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گئے، لوگوں نے ہمیں بتلایا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو تقویٰ مسجد کی طرف تشریف لے گئے ہیں، ہم بھی ادھر چل دیئے،جب ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے پہنچے تو دیکھا کہ آپ کے ہاتھ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے کاندھوں پر تھے، ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے پر غصہ کے آثار محسوس کیے، آپ نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا: یہ کون لوگ ہیں؟ انہوںنے بتلایا کہ یہ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11573

۔ (۱۱۵۷۳)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، صَلَّی بِنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَلَاۃً، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْہِہِ، فَقَالَ: ((بَیْنَا رَجُلٌ یَسُوقُ بَقَرَۃً إِذْ رَکِبَہَا فَضَرَبَہَا، قَالَتْ: إِنَّا لَمْ نُخْلَقْ لِہٰذَا إِنَّمَا خُلِقْنَا لِلْحِرَاثَۃِ۔)) فَقَالَ النَّاسُ: سُبْحَانَ اللّٰہِ! بَقَرَۃٌ تَتَکَلَّمُ؟ فَقَالَ: ((فَإِنِّی أُومِنُ بِہٰذَا أَنَا وَأَبُو بَکْرٍ غَدًا غَدًا وَعُمَرُ۔)) وَمَا ہُمَا ثَمَّ، ((وَبَیْنَا رَجُلٌ فِی غَنَمِہِ إِذْ عَدَا عَلَیْہَا الذِّئْبُ فَأَخَذَ شَاۃً مِنْہَا فَطَلَبَہُ فَأَدْرَکَہُ فَاسْتَنْقَذَہَا مِنْہُ فَقَالَ: یَا ہٰذَا اسْتَنْقَذْتَہَا مِنِّی فَمَنْ لَہَا یَوْمَ السَّبُعِ یَوْمَ لَا رَاعِیَ لَہَا غَیْرِی؟)) قَالَ النَّاسُ: سُبْحَانَ اللّٰہِ! ذِئْبٌ یَتَکَلَّمُ؟ فَقَالَ: ((إِنِّی أُومِنُ بِذٰلِکَ وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ۔)) وَمَا ہُمَا ثَمَّ۔ (مسند احمد: ۷۳۴۵)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا : ایک دفعہ ایک آدمی بیل کو ہانکے جا رہا تھا کہ وہ اس پر سوار ہوگیا اور اس نے اسے مارا، آگے سے بیل نے بول کر کہا کہ ہمیں سواری کے لیے تو پیدا نہیں کیا گیا، ہمیں تو کھیتی باڑی کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ لوگوں نے یہ بات سن کر ازراہ تعجب کہا: سبحان اللہ! بیل باتیں کرنے لگا۔ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس بات کی صداقت پر میرا، ابو بکر اور عمرکا بھی ایمان ہے۔ حالانکہ سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما وہاں موجود نہیں تھے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک دفعہ ایک آدمی اپنی بکریوں کے ریوڑ میں تھا کہ ایک بھیڑیئے نے حملہ کرکے ایک بکری کو اچک لیا، اس نے اس کا پیچھا کرکے اسے جا لیا اور اس سے بکری کو چھڑا لیا، تو بھیڑیئے نے بول کر کہا: ارے تو نے آج تو اسے مجھ سے چھڑا لیا، فتنوں کے دنوں میں جب لوگ مویشیوں کو یونہی چھوڑ کر بھاگ جائیں گے اور اس دن میرے سوا ان کا کوئی چرواہا (محافظ) نہ ہوگا، تب ان کو مجھ سے کون بچائے گا؟ لوگوں نے یہ سن کر بھی ازراہ تعجب کہا: سبحان اللہ! بھیڑیا انسانوں کی طرح باتیں کرنے لگا۔ لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس بات کی صداقت پر میرا، ابو بکر کا اور عمر کا بھی ایمان ہے۔ حالانکہ وہ دونوں اس وقت وہاں موجود نہ تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11574

۔ (۱۱۵۷۴)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَقْبَلَ اَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما فَقَالَ: ((یَا عَلِیُّ! ھٰذَانِ سَیِّدَا کُہُوْلِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ وَشَبَابِہَا عَدَا النَّبِیِّیْنَ وَالْمُرْسَلِیْنَ۔)) (مسند احمد: ۶۰۲)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں تھا کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لے آئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے علی! یہ دونوں جنتی بزرگوں اور نوجوانوںکے سردار ہوں گے، ماسوائے انبیاء و رسل کے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11575

۔ (۱۱۵۷۵)۔ عَنْ عَبْدِ خَیْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُہُ یَقُولُ: قَامَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلَی الْمِنْبَرِ فَذَکَرَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: قُبِضَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَعَمِلَ بِعَمَلِہِ وَسَارَ بِسِیرَتِہِ حَتّٰی قَبَضَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ، ثُمَّ اسْتُخْلِفَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلٰی ذٰلِکَ فَعَمِلَ بِعَمَلِہِمَا وَسَارَ بِسِیرَتِہِمَا حَتّٰی قَبَضَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی ذٰلِکَََََ۔ (مسند احمد: ۱۰۵۵)
عبد خیر سے مروی ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے منبر پر کھڑے ہو کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ذکر خیر کیا اور فرمایا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے بعد سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خلیفہ چن لیا گیا، انہوںنے سارے امور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عمل کے مطابق سر انجام دیئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہی کے طریقے پر چلتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ا پنے پاس بلا لیا۔ان کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خلیفہ چن لیا گیا، انہوںنے بھی اپنے دونوں پیش روؤں کے عمل کے مطابق امور سرانجام دیئے اور ان دونو ں کے طریقے پر چلتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی اپنے ہاں بلا لیااور وہ اسی منہج پر قائم تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11576

۔ (۱۱۵۷۶)۔ قَالَ نَافِعُ بْنُ عَبْدِ الْحَارِثِ: خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتَّی دَخَلَ حَائِطًا (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: مِنْ حَوَائِطِ الْمَدِیْنَۃِ)، فَقَالَ لِی: أَمْسِکْ عَلَیَّ الْبَابَ، فَجَائَ حَتّٰی جَلَسَ عَلَی الْقُفِّ وَدَلّٰی رِجْلَیْہِ فِی الْبِئْرِ فَضُرِبَ الْبَابُ، قُلْتُ: مَنْ ہٰذَا؟ قَالَ: أَبُوبَکْرٍ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ ہٰذَا أَبُوبَکْرٍ؟ قَالَ: ((ائْذَنْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ۔)) قَالَ: فَأَذِنْتُ لَہُ وَبَشَّرْتُہُ بِالْجَنَّۃِ، قَالَ: فَدَخَلَ فَجَلَسَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الْقُفِّ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: قُفِّ الْبِئْرِ) وَدَلّٰی رِجْلَیْہِ فِی الْبِئْرِ، ثُمَّ ضُرِبَ الْبَابُ فَقُلْتُ: مَنْ ہٰذَا؟ فَقَالَ: عُمَرُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ ہٰذَا عُمَرُ؟ قَالَ: ((ائْذَنْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ۔)) قَالَ: فَأَذِنْتُ لَہُ وَبَشَّرْتُہُ بِالْجَنَّۃِ، قَالَ: فَدَخَلَ فَجَلَسَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الْقُفِّ وَدَلّٰی رِجْلَیْہِ فِی الْبِئْرِ، قَالَ: ثُمَّ ضُرِبَ الْبَابُ، فَقُلْتُ: مَنْ ہٰذَا؟ قَالَ: عُثْمَانُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ ہٰذَا عُثْمَانُ؟ قَالَ: ((ائْذَنْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ مَعَہَا بَلَائٌ۔)) (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: وَسَیَلْقٰی بَلَائً)، فَأَذِنْتُ لَہُ وَبَشَّرْتُہُ بِالْجَنَّۃِ، فَجَلَسَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الْقُفِّ وَدَلَّی رِجْلَیْہِ فِی الْبِئْرِ۔ (مسند احمد: ۱۵۴۴۸)
سیدنا نافع بن عبدالحارث سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ گیا،یہاں تک کہ آپ مدینہ منورہ کے باغات میں سے ایک ایسے باغ میں داخل ہو گئے، اس کے باہر چار دیواری بنی ہوئی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم دروازے پر ٹھہرو ۔ اور آپ خود کنوئیں کی منڈیر پر جا بیٹھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے پائوں کنوئیں کے اندر لٹکالیے، کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے پوچھا: کون ہو؟آنے والے نے کہا: میں ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہوں۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ابوبکر آئے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انہیں اندر آنے کی اجازت دو اور ساتھ جنت کی بشارت بھی سنا دو۔ میںنے انہیں اندر آنے کی اجازت دی اور جنت کی بھی بشارت دے دی۔ وہ آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ہی اسی طرح کنوئیں میں پائوں لٹکا کر کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ گئے، کچھ دیر بعد پھر دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ میں نے پوچھا: کون ہو؟ اس نے کہا: میں عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہوں۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ عمرآئے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انہیں اندر آنے کی اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی سنا دو۔ میں نے انہیں اندر آنے کی اجازت دی اور جنت کی بھی بشارت سنا دی، وہ آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس کنوئیں کی منڈیر پر کنوئیں میں پائوں لٹکا کر بیٹھ گئے۔ پھر کچھ دیربعد دروازے پر دستک دی گئی۔ میں نے پوچھا: کون ہو؟ انہوںنے کہا: میں عثمان ہوں۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انہیں اندر آنے کی اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی سنا دو، لیکن کچھ آزمائش کے بعد۔ میں نے انہیں بھی اندر آنے کی اجازت دی اور جنت کی بھی بشارت سنائی۔ وہ بھی آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس (آپ کے سامنے) کنوئیں میں پائوں لٹکا کر کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11577

۔ (۱۱۵۷۷)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍوا قَالَ: کُنْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَائَ اَبُوْ بَکْرٍ فَاسْتَأْذَنَ، فَقَالَ: ((ائْذَنْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ۔)) ثُمَّ جَائَ عُمَرُ فَاسْتَأْذَنَ، فَقَالَ: ((ائْذَنْ لَہٗ وَبَشِّرْہٗ بِالْجَنَّۃِ۔)) ثُمَّ جَائَ عُثْمَانُ فَاسْتَأْذَنَ، فَقَالَ: ((ائْذَنْ لَہُ وَبَشِّرْہٗ بِالْجَنَّۃِ۔)) قَالَ: فَقُلْتُ: فَأَیْنَ أَنَا؟ قَالَ: ((أَنْتَ مَعَ أَبِیْکَ۔)) (مسند احمد: ۶۵۴۸)
سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے اور انہوںنے اندر آنے کی اجازت طلب کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: انہیں اندر آنے کی اجازت دو اور ساتھ جنت کی بشارت بھی دے دو۔ اس کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور انہوںنے بھی آنے کی اجازت طلب کی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: انہیں بھی اندر کی اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی سنا دو۔ اس کے بعد سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور انہوںنے بھی اندر آنے کی اجازت طلب کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم انہیں اندر آنے کی اجازت اور جنت کی بشارت دے دو۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا کہ میں کہاں ہوں گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنے باپ کے ساتھ ہو گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11578

۔ (۱۱۵۷۸)۔ عَنْ أَبِی مُوسَی الْأَشْعَرِیِّ قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَسِبْتُہُ، قَالَ: فِی حَائِطٍ، فَجَائَ رَجُلٌ فَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اذْہَبْ فَأْذَنْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ۔)) فَذَہَبْتُ فَإِذَا ہُوَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، فَقُلْتُ: ادْخُلْ وَأَبْشِرْ بِالْجَنَّۃِ، فَمَا زَالَ یَحْمَدُ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ حَتّٰی جَلَسَ، ثُمَّ جَائَ آخَرُ فَسَلَّمَ فَقَالَ: ((ائْذَنْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ۔)) فَانْطَلَقْتُ فَإِذَا ہُوَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، فَقُلْتُ ادْخُلْ وَأَبْشِرْ بِالْجَنَّۃِ، فَمَا زَالَ یَحْمَدُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ حَتّٰی جَلَسَ، ثُمَّ جَائَ آخَرُ فَسَلَّمَ فَقَالَ: ((اذْہَبْ فَأْذَنْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ عَلٰی بَلْوٰی شَدِیدَۃٍ۔)) قَالَ: فَانْطَلَقْتُ فَإِذَا ہُوَ عُثْمَانُ، فَقُلْتُ: ادْخُلْ وَأَبْشِرْ بِالْجَنَّۃِ عَلٰی بَلْوٰی شَدِیدَۃٍ، قَالَ: فَجَعَلَ یَقُولُ: اللَّہُمَّ صَبْرًا حَتّٰی جَلَسَ۔ (مسند احمد: ۱۹۷۳۸)
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک باغ میں تھا کہ ایک آدمی نے آکر سلام کہا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جا کر ان کو اندر آنے کی اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی سنا دو۔ میں نے دروازے پر جا کر دیکھا تو وہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔ میں نے ان سے کہا: جی اندر آجائیں اور آپ کو جنت کی بشارت ہو۔ وہ اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کرنے لگے یہاں تک کہ بیٹھ گئے۔ اس کے بعد ایک اور آدمی نے آکر سلام کہا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم جا کر اسے بھی اندر آنے کی اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی سنا دو۔ میں دروازے پر گیا تو وہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔ میں نے ان سے کہا: اندر آجائیں اور آپ کو جنت کی بشارت ہو۔ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کرتے ہوئے بیٹھ گئے۔ پھر ایک اور آدمی نے آکر سلام کہا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم جا کر اسے بھی اندر آنے کی اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی سنا، لیکنیہ جنت ایک سخت امتحان کے بعد ملے گی۔ میں گیا تو وہ عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، میں نے ان سے کہا کہ اندر آجائیں اور آپ کو جنت کی بشارت ہو، لیکن ایک سخت امتحان اور آزمائش کے بعد ملے گی۔ تو وہ کہنے لگے: یا اللہ! مجھے اس وقت صبر کی توفیق سے نوازنا، وہ یہ دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ وہ بھی بیٹھ گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11579

۔ (۱۱۵۷۹)۔ عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ: أَنَّ رَجُلًا قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! رَأَیْتُ کَأَنَّ دَلْوًا دُلِّیَتْ مِنَ السَّمَائِ، فَجَائَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فَأَخَذَ بِعَرَاقِیبِہَا فَشَرِبَ مِنْہُ شُرْبًا ضَعِیفًا، قَالَ عَفَّانُ: وَفِیہِ ضَعْفٌ، ثُمَّ جَائَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَأَخَذَ بِعَرَاقِیبِہَا فَشَرِبَ حَتّٰی تَضَلَّعَ، ثُمَّ جَائَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَأَخَذَ بِعَرَاقِیبِہَا فَشَرِبَ فَانْتَشَطَتْ مِنْہُ فَانْتَضَحَ عَلَیْہِ مِنْہَا شَیْئٌ۔ (مسند احمد: ۲۰۵۰۵)
سیدنا سمرہ بن جندب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک ڈول نیچے لٹکایا گیا، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آکر ڈول کو دونوں طرف سے پکڑ کر اس سے تھوڑا سا پانی پیا اور ان کے پینے میں کچھ کمزوری سی تھی۔ ان کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور انہوںنے ڈول کو دونوں طرف سے پکڑ کر خوب سیراب ہو کر پیا، ان کے بعد سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے، انہوںنے بھی ڈول کو دونوں طرف سے تھام لیا، اس میں کچھ لرزہ سا تھا۔ اس میں سے کچھ چھینٹے عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر جا گرے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11580

۔ (۱۱۵۸۰)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ جَالِسًا عَلٰی حِرَائٍ وَمَعَہُ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، فَتَحَرَّکَ الْجَبَلُ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اثْبُتْ حِرَائُ! فَإِنَّہُ لَیْسَ عَلَیْکَ إِلَّا نَبِیٌّ أَوْ صِدِّیقٌ أَوْ شَہِیدٌ۔)) (مسند احمد: ۲۳۳۲۴)
سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کوہ حراء پر تشریف فرما تھے،سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدناعثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، اچانک کوہ حراء (خوشی سے) جھومنے لگا،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حراء ٹھہر جا، تجھ پر نبی ہے، یا صدیق ہے، یا شہید ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11581

۔ (۱۱۵۸۱)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کُنَّا نَعُدُّ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَیٌّ وَأَصْحَابُہُ مُتَوَافِرُوْنَ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ ثُمَّ نَسْکُتُ۔ (مسند احمد: ۴۶۲۶)
سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زندگی میںہم ابو بکر، عمر اور عثمان کے نام اسی ترتیب سے لیا کرتے اور اس کے بعد ہم خاموش ہو جاتے تھے، جبکہ صحابۂ کرام کثیر تعداد میں تھے ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11582

۔ (۱۱۵۸۲)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ غَدَاۃٍ بَعْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، فَقَالَ: ((رَأَیْتُ قُبَیْلَ الْفَجْرِ کَأَنِّی أُعْطِیتُ الْمَقَالِیدَ وَالْمَوَازِینَ، فَأَمَّا الْمَقَالِیدُ فَہٰذِہِ الْمَفَاتِیحُ، وَأَمَّا الْمَوَازِینُ فَہِیَ الَّتِی تَزِنُونَ بِہَا، فَوُضِعْتُ فِی کِفَّۃٍ، وَوُضِعَتْ أُمَّتِی فِی کِفَّۃٍ، فَوُزِنْتُ بِہِمْ فَرَجَحْتُ، ثُمَّ جِیئَ بِأَبِی بَکْرٍ فَوُزِنَ بِہِمْ فَوَزَنَ، ثُمَّ جِیئَ بِعُمَرَ فَوُزِنَ فَوَزَنَ، ثُمَّ جِیئَ بِعُثْمَانَ فَوُزِنَ بِہِمْ، ثُمَّ رُفِعَتْْْْْ۔)) (مسند احمد: ۵۴۶۹)
سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک روز طلوع آفتاب کے بعدرسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے اور فرمایا: میں نے آج طلوع فجر سے کچھ دیر قبل یوں دیکھا کہ گویا مجھے چابیاں اور ترازو دیئے گئے، چابیاں تو یہی چابیاں ہیں، اور ترازو سے مراد بھییہی ترازو ہیں، جن سے تم اشیاء کا وزن کرتے ہو۔ مجھے ترازو کے ایک پلڑے میں اور میری امت کو دوسرے پلڑے میں رکھ کر میرا ان کے بالمقابل وزن کیا گیا تو میں بھاری رہا۔ پھر ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لا کر ان کے بالمقابل وزن کیا گیا۔ تو وہ بھاری رہے، پھر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لایا گیا اور وزن کیا گیا تو وہ بھاری رہے، اس کے بعد ترازو کو اوپر اٹھا لیا گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11583

۔ (۱۱۵۸۳)۔ عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ فَسَمِعْتُ فِیہَا خَشْفَۃً بَیْنَ یَدَیَّ، فَقُلْتُ: مَا ہٰذَا؟ قَالَ: بِلَالٌ، قَالَ: فَمَضَیْتُ فَإِذَا أَکْثَرُ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فُقَرَائُ الْمُہَاجِرِینَ وَذَرَارِیُّ الْمُسْلِمِینَ، وَلَمْ أَرَ أَحَدًا أَقَلَّ مِنَ الْأَغْنِیَائِ وَالنِّسَائِ، قِیلَ لِی: أَمَّا الْأَغْنِیَائُ فَہُمْ ہَاہُنَا بِالْبَابِ یُحَاسَبُونَ وَیُمَحَّصُونَ، وَأَمَّا النِّسَائُ فَأَلْہَاہُنَّ الْأَحْمَرَانِ الذَّہَبُ وَالْحَرِیرُ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْنَا مِنْ أَحَدِ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ الثَّمَانِیَۃِ، فَلَمَّا کُنْتُ عِنْدَ الْبَابِ أُتِیتُ بِکِفَّۃٍ فَوُضِعْتُ فِیہَا وَوُضِعَتْ أُمَّتِی فِی کِفَّۃٍ فَرَجَحْتُ بِہَا، ثُمَّ أُتِیَ بِأَبِی بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَوُضِعَ فِی کِفَّۃٍ وَجِیئَ بِجَمِیعِ أُمَّتِی فِی کِفَّۃٍ فَوُضِعُوْا فَرَجَحَ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَجِیئَ بِعُمَرَ فَوُضِعَ فِی کِفَّۃٍ وَجِیئَ بِجَمِیعِ أُمَّتِی فَوُضِعُوا فَرَجَحَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَعُرِضَتْ أُمَّتِی رَجُلًا رَجُلًا فَجَعَلُوا یَمُرُّونَ فَاسْتَبْطَأْتُ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ عَوْفٍ، ثُمَّ جَائَ بَعْدَ الْإِیَاسِ فَقُلْتُ: عَبْدُ الرُّحْمٰنِ، فَقَالَ: بِأَبِی وَأُمِّی یَا رَسُولَ اللّٰہِ، وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا خَلَصْتُ إِلَیْکَ حَتّٰی ظَنَنْتُ أَنِّی لَا أَنْظُرُ إِلَیْکَ أَبَدًا إِلَّاِِِِبَعْدَ الْمُشِیبَاتِ، قَال: وَمَا ذَاکَ؟ قَالَ: مِنْ کَثْرَۃِ مَالِی أُحَاسَبُ وَأُمَحَّصُ۔)) (مسند احمد: ۲۲۵۸۷)
سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے اپنے آگے آگے کسی کے پائوں کی آہٹ سنی، میں نے دریافت کیا کہ یہ کون ہے؟ جبریل نے بتایا کہ یہ بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہے، میں آگے گیا تو دیکھا کہ جنت میں زیادہ تعداد غریب مہاجرین اور مسلمانوں کی چھوٹی اولادوں کی ہے اور جنت میں مال داروں اور خواتین کی بہت کم تعداد نظر آئی، مجھے بتایا گیا کہ مال داروں کو وہاں جنت کے دروازے پر حساب دینے اور کوتاہیوں سے پاک و صاف کیے جانے کے لیے روک لیا گیا ہے۔ باقی رہیں خواتین تو انہیں سونے اور ریشم کے شوق نے غفلت میں مبتلا کیے رکھا، پھر ہم جنت کے آٹھ میں سے ایک دروازے سے باہر آئے اور جب میں دروازے کے قریب تھا تو ترازو کا ایک پلڑا میرے قریب کیا گیا اور مجھے اس میں رکھ کر میری امت کو دوسرے میں رکھا گیا، تو میں وزنی رہا۔ پھر ابو بکرکو لایا گیا، ان کو ایک پلڑے میں اور باقی ساری امت کو دوسرے پلڑے میں رکھا گیا، ابو بکر وزنی رہے۔ پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لایا گیا، ان کو ایک پلڑے میں اور ساری امت کو دوسرے پلڑے میں رکھا گیا تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھاری رہے، میری ساری امت ایک ایک کرکے میرے سامنے پیش کی گئی اور لوگ گزرتے گئے۔ مجھے عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دکھائی نہ دیئے، میں ان کی طرف سے مایوس ہو چکا تھا کہ وہ آگئے۔ میں نے کہا: عبدالرحمن! تم کہاں رہے؟ انہوںنے کہا: اللہ کے رسول میرے والدین آپ پر فدا ہوں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں آپ تک بمشکل پہنچا ہوں، میں تو سمجھ رہا تھا کہ اب میں بہت زیادہ مشکلات کے بعد ہیآپ کی زیارت کر سکوں گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ کیوں؟ انہوںنے کہا: مال و دولت کی کثرت کی وجہ سے میرا بہت زیادہ حساب کتاب لیا گیا اور کوتاہیوں سے پاک کیا گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11584

۔ (۱۱۵۸۴)۔ عن خَالِدِ بْنِ سُمَیْرٍ قَالَ: قَدِمَ عَلَیْنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَبَاحٍ فَوَجَدْتُہُ قَدِ اجْتَمَعَ إِلَیْہِ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو قَتَادَۃَ فَارِسُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَیْشَ الْأُمَرَائِ وَقَالَ: ((عَلَیْکُمْ زَیْدُ بْنُ حَارِثَۃَ فَإِنْ أُصِیبَ زَیْدٌ فجَعْفَرٌ فَإِنْ أُصِیبَ جَعْفَرٌ فعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ الْأَنْصَارِیُّ)) فَوَثَبَ جَعْفَرٌ فَقَالَ: بِأَبِی أَنْتَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ وَأُمِّی مَا کُنْتُ أَرْہَبُ أَنْ تَسْتَعْمِلَ عَلَیَّ زَیْدًا، قَالَ: ((امْضُوا فَإِنَّکَ لَا تَدْرِی أَیُّ ذٰلِکَ خَیْرٌ)) قَالَ: فَانْطَلَقَ الْجَیْشُ فَلَبِثُوا مَا شَائَ اللَّہُ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَعِدَ الْمِنْبَرَ وَأَمَرَ أَنْ یُنَادَی الصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((نَابَ خَبْرٌ أَوْ ثَابَ خَبْرٌ (شَکَّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ) أَلَا أُخْبِرُکُمْ عَنْ جَیْشِکُمْ ہٰذَا الْغَازِی! إِنَّہُمْ انْطَلَقُوا حَتّٰی لَقُوا الْعَدُوَّ فَأُصِیبَ زَیْدٌ شَہِیدًا فَاسْتَغْفِرُوا لَہُ)) فَاسْتَغْفَرَ لَہُ النَّاسُ، ((ثُمَّ أَخَذَ اللِّوَائَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ فَشَدَّ عَلَی الْقَوْمِ حَتّٰی قُتِلَ شَہِیدًا أَشْہَدُ لَہُ بِالشَّہَادَۃِ فَاسْتَغْفِرُوا لَہُ، ثُمَّ أَخَذَ اللِّوَائَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ فَأَثْبَتَ قَدَمَیْہِ حَتّٰی أُصِیبَ شَہِیدًا فَاسْتَغْفِرُوا لَہُ، ثُمَّ أَخَذَ اللِّوَائَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ)) وَلَمْ یَکُنْ مِنَ الْأُمَرَائِ ہُوَ أَمَّرَ نَفْسَہُ فَرَفَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُصْبُعَیْہِ وَقَالَ: ((اللَّہُمَّ ہُوَ سَیْفٌ مِنْ سُیُوفِکَ فَانْصُرْہُ)) وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ مَرَّۃً: فَانْتَصِرْ بِہِ، فَیَوْمَئِذٍ سُمِّیَ خَالِدٌ سَیْفَ اللّٰہِ ثُمَّ قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((انْفِرُوا فَأَمِدُّوا إِخْوَانَکُمْ وَلَا یَتَخَلَّفَنَّ أَحَدٌ)) فَنَفَرَ النَّاسُ فِی حَرٍّ شَدِیدٍ مُشَاۃً وَرُکْبَانًا۔ (مسند احمد: ۲۲۹۱۸)
خالد بن سمیر سے مروی ہے کہ عبداللہ بن رباح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہمارے ہاں تشریف لائے۔ تو میں نے ان کو اس حال میں پایا کہ لوگ ان کے اردگرد جمع تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے شاہ سوار ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جیش الامراء بھیجا اور فرمایا تمہارے اوپر زید بن حارثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ امیر ہیں۔ اگر وہ شہید ہو جائیں تو ان کے بعد جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ امیر ہوں گے۔ وہ بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ امیر ہوں گے۔ یہ سن کر جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اچھل کر بولے اے اللہ کے نبی میرا والد آپ پر فدا ہو مجھے یہ توقع نہ تھی کہ آپ زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو مجھ پر امیر مقرر فرمائیں گے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تم روانہ ہو جاؤ۔ تم نہیں جانتے کہ کونسی بات زیادہ بہتر ہے۔ لشکر روانہ ہو گیا۔ جب تک اللہ کو منظور تھا وہ لوگ سفر میں رہے پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تشریف لائے۔ اور آپ نے حکم دیا کہ نماز ہونے کا اعلان کیا جائے۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ ایک خبر پھیلی ہے۔ کیا میں تمہیں غزوہ میں مصروف اس لشکر کے متعلق نہ بتلاؤں؟ یہ لوگ گئے ان کی دشمن سے مڈبھیڑ ہوئی۔ اور زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شہید ہو گئے۔ تم ان کی مغفرت کی دعاء کرو۔ تو لوگوں نے ان کے حق میں دعائے مغفرت کی۔ ان کے بعد جعفر بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا تھام لیا۔ وہ دشمن پر حملہ آور ہوئے۔ یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہو گئے۔ تم ان کی شہادت کی گواہی دو۔ لوگوں نے ان کے حق میں بھی مغفرت کی دعا کی۔ پھر عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا اُٹھا لیا۔ وہ بھی دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہے یہاں تک کہ وہ بھی شہادت سے سرفراز ہوئے۔ صحابہ نے ان کے حق میں بھی دعائے مغفرت کی۔ ان کے بعد خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا اُٹھایا۔ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مقرر کردہ امیروں میں سے نہ تھے۔ پیش آمدہ حالات کے پیش ِنظر وہ از خود امیر بن گئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی انگلیاں اُٹھا کر فرمایا: یا اللہ ! یہ تیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔ تو اس کی مدد فرما۔ عبدالرحمن راوی نے ایک دفعہ کہا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعا کی برکت سے وہ فتح یاب ہوئے۔ اس روز سے خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سیف اللہ کہلائے۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تم روانہ ہو جاؤ اور جا کر اپنے بھائیوں کی مدد کرو۔ اور تم میں سے کوئی پیچھے نہ رہے۔ لوگ شدید گرمی میں پیدل اور سوار روانہ ہو گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11585

۔ (۱۱۵۸۵)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَرْحَمُ أُمَّتِی أَبُو بَکْرٍ وَأَشَدُّہَا فِی دِینِ اللّٰہِ عُمَرُ، وَأَصْدَقُہَا حَیَائً عُثْمَانُ، وَأَعْلَمُہَا بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأَقْرَؤُہَا لِکِتَابِ اللّٰہِ أُبَیٌّ، وَأَعْلَمُہَا بِالْفَرَائِضِ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ أَمِینٌ وَأَمِینُ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ۔)) (مسند احمد: ۱۲۹۳۵)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کابیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت میں سب سے زیادہ رحم دل ابو بکر ہیں، امت میں دین کے بارے میں عمر سب سے سخت ہیں، امت میں عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سب سے زیادہ حیا دار ہیں، معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ حلال و حرام کے متعلق سب سے زیادہ جانتے ہیں، قرآن کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ قاری ابی بن کعب ہیں اور امت میں مسائل وراثت (یا فرائض) کے بڑے عالم زید بن ثابت ہیں اور ہر امت میں ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابو عبیدہ بن جراح ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11586

۔ (۱۱۵۸۶)۔ عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَمِیرَۃَ قَالَ: لَمَّا حَضَرَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ الْمَوْتُ قِیلَ لَہُ: یَا أَبَاعَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَوْصِنَا!، قَالَ: أَجْلِسُونِی، فَقَالَ: إِنَّ الْعِلْمَ وَالْإِیمَانَ مَکَانَہُمَا مَنْ ابْتَغَاہُمَا وَجَدَہُمَا، یَقُولُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ: فَالْتَمِسُوا الْعِلْمَ عِنْدَ أَرْبَعَۃِ رَہْطٍ عِنْدَ عُوَیْمِرٍ أَبِی الدَّرْدَائِ وَعِنْدَ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ وَعِنْدَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَعِنْدَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَلَامٍ الَّذِی کَانَ یَہُودِیًّا ثُمَّ أَسْلَمَ، فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((إِنَّہُ عَاشِرُ عَشَرَۃٍ فِی الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۲۴۵۵)
یزید بن عمیرہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان سے کہا گیا: اے ابوعبدالرحمن! آپ ہمیں کوئی وصیت ہی کر دیں،انھوں نے کہا:مجھے بٹھا دو۔ پھر انھوں نے کہا: علم اور ایمان ایسی چیزیں ہیں کہ جو آدمی انہیں ان کے مرکز اور مقام سے حاصل کرنے کی کوشش کرے تو وہ انہیں حاصل کر ہی لیتا ہے۔ یہ بات انہوںنے تین مرتبہ کہی۔ تم چار آدمیوں سے علم حاصل کرو: سیدنا ابو درداء عویمر، سیدنا سلمان فارسی، سیدنا عبداللہ بن مسعود اور سیدنا عبداللہ بن سلام سے، مؤخر الذکر پہلے یہودی تھے، بعد میں انھوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا کہ وہ جنت میں جانے والے خاص دس آدمیوں سے ایک ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11587

۔ (۱۱۵۸۷)۔ عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ: کُنَّا عِنْدَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جُلُوسًا فَقَالَ: ((إِنِّی لَا أَدْرِی مَا قَدْرُ بَقَائِی فِیکُمْ؟ فَاقْتَدُوا بِاللَّذَیْنِ مِنْ بَعْدِی۔)) وَأَشَارَ إِلٰی أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ ((وَتَمَسَّکُوا بِعَہْدِ عَمَّارٍ وَمَا حَدَّثَکُمْ ابْنُ مَسْعُودٍ فَصَدِّقُوہُ۔)) (مسند احمد: ۲۳۶۶۵)
سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نہیں جانتا کہ میں کتنا عرصہ تمہارے درمیان رہوں گا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: تم میرے بعد ان دونوں کی اقتدا کرنا، عمار کے عہد کو مضبوطی سے تھامے رکھنا اور عبداللہ بن مسعود تمہیں جو کچھ بیان کریں ان کی تصدیق کرنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11588

۔ (۱۱۵۸۸)۔ عَن أَبِی مُوسَی الْأَشْعَرِیِّ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((کَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ کَثِیرٌ،وَلَمْ یَکْمُلْ مِنَ النِّسَائِ غَیْرُ مَرْیَمَ بِنْتِ عِمْرَانَ وَآسِیَۃَ امْرَأَۃِ فِرْعَوْنَ، وَإِنَّ فَضْلَ عَائِشَۃَ عَلَی النِّسَائِ کَفَضْلِ الثَّرِیدِ عَلٰی سَائِرِ الطَّعَامِ۔)) (مسند احمد: ۱۹۹۰۴)
سیدنا ابو موسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مردوں میں سے بہت سے لوگوں کو درجۂ کمال حاصل ہوا ہے، البتہ عورتوں میں سے صرف مریم بنت عمران اور آسیہ زوجۂ فرعون ہی درجۂ کمال تک پہنچی ہیں اور عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو باقی تمام عورتوںپر اسی طرح فضیلت ہے جیسے ثرید کو باقی سارے کھانوں پر۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11589

۔ (۱۱۵۸۹)۔ عَنْ عَلَیَّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ : ((خَیْرُ نِسَائِھَا بِنْتُ عِمْرَانَ وَخَیْرُ نِسَائِھَا خَدِیْجَۃُ۔)) (مسند احمد: ۶۴۰)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سیدہ مریم بنت عمران علیہا السلام اپنے زمانے کی اور سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اپنے عہد کی خواتین میں سب سے بہتر تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11590

۔ (۱۱۵۹۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: خَطَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ خُطُوْطٍ، قَالَ: ((تَدْرُوْنَ مَا ھٰذِہِ؟)) فَقَالُوْا: اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَمُ، فَقَالَ: رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَفْضَلُ نِسَائِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ خَدِیْجَۃُ بِنْتُ خُوَیْلِدٍ، وَ فَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَ آسِیَۃُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ اِمْرَاَۃُ فِرْعَوْنَ وَ مَرْیَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ رَضِیَ اللّٰہِ عَنْھُنَّ۔)) (مسند احمد: ۲۶۶۸)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زمین پر چار خطوط کھینچے، پھر پوچھا: کیا تم ان لکیروں کے بارے میں جانتے ہو؟ انھوں نے کہا: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت والی خواتین میں سب سے افضل یہ چار ہیں: خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم )، فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم اورمریم بنت عمران۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11591

۔ (۱۱۵۹۱)۔ حَدَّثَنِی جَدِّی رِیَاحُ بْنُ الْحَارِثِ: أَنَّ الْمُغِیرَۃَ بْنَ شُعْبَۃَ کَانَ فِی الْمَسْجِدِ الْأَکْبَرِ وَعِنْدَہُ أَہْلُ الْکُوفَۃِ عَنْ یَمِینِہِ وَعَنْ یَسَارِہِ، فَجَائَہُ رَجُلٌ یُدْعٰی سَعِیدَ بْنَ زَیْدٍ فَحَیَّاہُ الْمُغِیرَۃُ وَأَجْلَسَہُ عِنْدَ رِجْلَیْہِ عَلَی السَّرِیرِ، فَجَائَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ فَاسْتَقْبَلَ الْمُغِیرَۃَ فَسَبَّ وَسَبَّ، فَقَالَ: مَنْ یَسُبُّ ہٰذَا یَا مُغِیرَۃُ!، قَالَ: یَسُبُّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ، قَالَ: یَا مُغِیرَ بْنَ شُعْبَ یَا مُغِیرَ بْنَ شُعْبَ ثَلَاثًا، أَلَا أَسْمَعُ أَصْحَابَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُسَبُّونَ عِنْدَکَ لَا تُنْکِرُ وَلَا تُغَیِّرُ، فَأَنَا أَشْہَدُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِمَا سَمِعَتْ أُذُنَایَ وَوَعَاہُ قَلْبِی مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِنِّی لَمْ أَکُنْ أَرْوِی عَنْہُ کَذِبًا یَسْأَلُنِی عَنْہُ إِذَا لَقِیتُہُ أَنَّہُ قَالَ: ((أَبُو بَکْرٍ فِی الْجَنَّۃِ، وَعُمَرُ فِی الْجَنَّۃِ، وَعَلِیٌّ فِی الْجَنَّۃِ، وَعُثْمَانُ فِی الْجَنَّۃِ، وَطَلْحَۃُ فِی الْجَنَّۃِ، وَالزُّبَیْرُ فِی الْجَنَّۃِ، وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ فِی الْجَنَّۃِ، وَسَعْدُ بْنُ مَالِکٍ فِی الْجَنَّۃِ۔)) وَتَاسِعُ الْمُؤْمِنِینَ فِی الْجَنَّۃِ، لَوْ شِئْتُ أَنْ أُسَمِّیَہُ لَسَمَّیْتُہُ، قَالَ: فَضَجَّ أَہْلُ الْمَسْجِدِ یُنَاشِدُونَہُ: یَا صَاحِبَ رَسُولِ اللّٰہِ مَنِ التَّاسِعُ؟، قَالَ: نَاشَدْتُمُونِی بِاللّٰہِ، وَاللّٰہِ الْعَظِیمِ أَنَا تَاسِعُ الْمُؤْمِنِینَ، وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْعَاشِرُ، ثُمَّ أَتْبَعَ ذٰلِکَ یَمِینًا، قَالَ: وَاللّٰہِ لَمَشْہَدٌ شَہِدَہُ رَجُلٌ یُغَبِّرُ فِیہِ وَجْہَہُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَفْضَلُ مِنْ عَمَلِ أَحَدِکُمْ وَلَوْ عُمِّرَ عُمُرَ نُوحٍ عَلَیْہِ السَّلَام علیہ السلام ۔ (مسند احمد: ۱۶۲۹)
ریاح بن حارث سے روایت ہے کہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مسجد اکبرمیں تشریف فرما تھے اور اہل کوفہ ان کے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے تھے۔اتنے میں سیدنا سعید بن زید ان کی خدمت میں آئے اور سیدنا مغیرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو خوش آمدید کہا اور اپنی چار پائی کی پائنتی کی طرف ان کو اپنے پاس بٹھا لیا۔ اتنے میں کوفہ کا ایک اور آدمی آیا۔ اس نے آکر سیدنا مغیرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف رخ کرکے بہت زیادہ برا بھلاکہنے لگا۔ سیدنا سعید نے کہا: اے مغیرہ! یہ کسے برا بھلا کہہ رہا ہے؟ انہوںنے بتایا کہ یہ سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو گالیاں دے رہا ہے۔ اس نے کہا: اے مغیر بن شعب، اے مغیر بن شعب، اے مغیر بن شعب! کیا میں یہ نہیں سنتا کہ آپ کے سامنے اصحاب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گالیاں دی جاتی ہیں، لیکن آپ نہ ان کا انکار کرتے ہیں اور نہ اس سے کسی کو روکتے ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا، میرے دل نے خوب یاد رکھا ہے اور میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر کوئی ایسا جھوٹ باندھنے والا نہیں، جس کے متعلق رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ملاقات کے وقت مجھ سے باز پر س کریں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابو بکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں، علی جنتی ہیں، عثمان جنتی ہیں، طلحہ جنتی ہیں، زبیر جنتی ہیں، عبدالرحمن بن عوف جنتی ہیں، سعد بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جنتی ہے، اور اہل ایمان میں سے نویں نمبر پر مسلمان ہونے والا جنتی ہے۔ میں چاہوں تو اس کا نام ذکر کر سکتا ہوں۔ ریاح کہتے ہیں: اس کی بات سن کر اہل مسجد زور زور سے کہنے لگے: اے اللہ کے رسول کے صحابی! ہم آپ کو اللہ کا واسطہ دیتے ہیں آپ بتلائیں کہ نواں آدمی کون ہے؟ انہوں نے کہا: اب جبکہ تم لوگوں نے مجھے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا ہی ہے تو میں بتا دیتا ہوں کہ اللہ عظیم کی قسم میں اہل ایمان میں سے نواں ہوں اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان میں سے دسویں فرد ہیں۔ اس کے بعد انہوںنے دوسری قسم اٹھا کر کہا کوئی آدمی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک غزوۂ میں شریک ہو اور اس میں اس کے چہرے پر غبار پڑی ہو وہ تمہارے زندگی بھر کے اعمال سے افضل ہے خواہ اسے عمر نوح ہی مل جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11592

۔ (۱۱۵۹۲)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِیِّ قَالَ: لَمَّا خَرَجَ مُعَاوِیَۃُ مِنَ الْکُوفَۃِ اسْتَعْمَلَ الْمُغِیرَۃَ بْنَ شُعْبَۃَ، قَالَ: فَأَقَامَ خُطَبَائَ یَقَعُونَ فِی عَلِیٍّ، قَالَ: وَأَنَا إِلَی جَنْبِ سَعِیدِ بْنِ زَیْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ، قَالَ: فَغَضِبَ فَقَامَ فَأَخَذَ بِیَدِی فَتَبِعْتُہُ، فَقَالَ: أَلَا تَرٰی إِلٰی ہٰذَا الرَّجُلِ الظَّالِمِ لِنَفْسِہِ الَّذِی یَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ، فَأَشْہَدُ عَلَی التِّسْعَۃِ أَنَّہُمْ فِی الْجَنَّۃِ، وَلَوْ شَہِدْتُ عَلَی الْعَاشِرِ لَمْ آثَمْ، قَالَ: قُلْتُ: وَمَا ذَاکَ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اثْبُتْ حِرَائُ فَإِنَّہُ لَیْسَ عَلَیْکَ إِلَّا نَبِیٌّ أَوْ صِدِّیقٌ أَوْ شَہِیدٌ۔)) قَالَ: قُلْتُ: مَنْ ہُمْ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِیٌّ وَالزُّبَیْرُ وَطَلْحَۃُ وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ وَسَعْدُ بْنُ مَالِکٍ۔)) قَالَ ثُمَّ سَکَتَ قَالَ: قُلْتُ: وَمَنِ الْعَاشِرُ؟ قَالَ: قَالَ: أَنَا۔ وَفِیْ لَفْظٍ: اِھْتَزَّ حِرَائُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اثبُتْ حِرَائُ…۔)) فَذَکَرَ الْحَدِیْثَ۔ (مسند احمد: ۱۶۴۴)
عبداللہ بن ظالم مازنی سے مروی ہے کہ جب سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کوفہ سے باہر تشریف لے گئے تو مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اپنا نائب مقرر کر گئے، انہوںنے بعض ایسے خطباء کا تقرر کر دیا جو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی تنقیص کرتے تھے۔ عبداللہ بن ظالم کہتے ہیں کہ میں سعید بن زید کے پہلو میں بیٹھاتھا۔ وہ شدید غصے میں آئے اور اٹھ گئے۔ انہوںنے میرا ہاتھ پکڑا تو میں بھی ان کے پیچھے چل دیا۔ انہوںنے کہا: کیا تم اس آدمی کو دیکھ رہے ہو جو اپنے اوپر ظلم کر رہا ہے اور ایک جنتی آدمی پر لعنت کرنے کا حکم دیتا ہے۔ میں نو آدمیوں کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ سب جنتی ہیں۔ اور اگر میں دسویں کے بارے میں بھی گواہی دے دوں کہ وہ بھی جنتی ہے تو میں گنہگار نہیں ہوں گا۔ عبداللہ کہتے ہیں: میں نے ان سے دریافت کیا:وہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: اے حرا! تو سکون کر جا، تجھ پر اس وقت جو لوگ موجود ہیںوہیا تو نبی ہیںیا صدیقیا شہید۔ میں نے دریافت کیا: یہ کون کون تھے؟ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول، سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا زبیر، سیدنا طلحہ، سیدنا عبدالرحمن بن عوف اور سیدنا سعید بن مالک، اس سے آگے وہ خاموش رہے۔ میں نے پوچھا اور دسواں آدمی کون تھا؟ انھوں نے کہا: میں خود۔ دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ حراء خوشی سے حرکت کرنے لگا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا اے حرائ، سکون کر۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11593

۔ (۱۱۵۹۳)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ عَلٰی حِرَاء ٍ ہُوَ وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِیٌّ وَطَلْحَۃُ وَالزُّبَیْرُ فَتَحَرَّکَتِ الصَّخْرَۃُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اہْدَأْ فَمَا عَلَیْکَ إِلَّا نَبِیٌّ أَوْ صِدِّیقٌ أَوْ شَہِیدٌ۔)) وَإِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((نِعْمَ الرَّجُلُ أَبُو بَکْرٍ، نِعْمَ الرَّجُلُ عُمَرُ، نِعْمَ الرَّجُلُ أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ، نِعْمَ الرَّجُلُ أُسَیْدُ بْنُ حُضَیْرٍ، نِعْمَ الرَّجُلُ ثَابِتُ بْنُ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، نِعْمَ الرَّجُلُ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، نِعْمَ الرَّجُلُ مُعَاذُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ۔)) (مسند احمد: ۹۴۲۱)
ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدناابو بکر ، سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا طلحہ اور سیدنا زبیر یہ سب کوہ حراء پر تھے کہ پہاڑی حرکت کرنے لگی،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ٹھہر جا، تجھ پر اس وقت جو لوگ موجود ہیں وہ یا تو نبی ہے، یا صدیق ہے، یا شہید ہے۔ نیزرسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابو بکر اچھا آدمی ہے، ابو عبیدہ بن جراح اچھا آدمی ہے، اسید بن حضیر بہترین آدمی ہے، ثابت بن قیس بن شماس کیا عمدہ آدمی ہے، معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خوب آدمی ہے اور معاذ بن عمرو بن جموح اچھا آدمی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11594

۔ (۱۱۵۹۴)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّہُ لَمْ یَکُنْ قَبْلِی نَبِیٌّ إِلَّا قَدْ أُعْطِیَ سَبْعَۃَ رُفَقَائَ نُجَبَائَ وُزَرَائَ، وَإِنِّی أُعْطِیتُ أَرْبَعَۃَ عَشَرَ حَمْزَۃُ وَجَعْفَرٌ وَعَلِیٌّ وَحَسَنٌ وَحُسَیْنٌ وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ وَالْمِقْدَادُ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُودٍ وَأَبُو ذَرٍّ وَحُذَیْفَۃُ وَسَلْمَانُ وَعَمَّارٌ وَبِلَالٌ۔)) (مسند احمد: ۱۲۶۳)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھ سے پہلے ہر نبی کو سات بہترین اور عمدہ ساتھی بطور وزیر دیئے گئے تھے، جبکہ مجھے اس قسم کے چودہ افراد دیئے گئے ہیں، ان کے نام یہ ہیں، حمزہ، جعفر، علی، حسن ، حسین، ابو بکر، عمر، مقداد ، عبداللہ بن مسعود، ابو ذر، حذیفہ، سلمان، عمر، بلال۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11595

۔ (۱۱۵۹۵)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ: أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ ذَکْوَانَ، عَنْ عَبْدِالْوَاحِدِ بْنِ قَیْسٍ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ قَالَ: ((الْأَبْدَالُ فِی ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ ثَلَاثُونَ مِثْلُ إِبْرَاہِیمَ خَلِیلِ الرَّحْمٰنِ عَزَّوَجَلَّ، کُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی مَکَانَہُ رَجُلًا۔)) قَالَ اَبِیْ رَحِمَہُ اللّٰہُ فِیْہِ یَعْنِی حَدِیْثَ عَبْدِ الْوَھَّابِ: کَلَامٌ غَیْرُ ھٰذَا، أَوْ ھُوَ مُنْکرٌ، یَعْنِیْ حَدِیْثَ الْحَسَنِ بْنِ ذَکْوَانَ۔ (مسند احمد: ۲۳۱۳۱)
سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس امت میں اللہ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام جیسے تیس ابدال ہوں گے، جب ان میں سے کوئی ایک فوت ہوگا تو اللہ اس کی جگہ دوسرے کو لے آئے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11596

۔ (۱۱۵۹۶)۔ عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ، کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَخْرُجُ عَلَیْنَا فِی الصُّفَّۃِ وَعَلَیْنَا الْحَوْتَکِیَّۃُ، فَیَقُولُ: ((لَوْ تَعْلَمُونَ مَا ذُخِرَ لَکُمْ مَا حَزِنْتُمْ عَلٰی مَا زُوِیَ عَنْکُمْ، وَلَیُفْتَحَنَّ لَکُمْ فَارِسُ وَالرُّومُ۔)) (مسند احمد: ۱۷۲۹۳)
سیدنا عرباض بن ساریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس صفہ میں تشریف لاتے، جبکہ ہم پر پگڑی ہوتی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے: اگر تم یہ جان لو کہ اللہ کے ہاں تمہارے لیے کیا کچھ جمع ہے، تو تمہیں ان چیزوں پر کوئی غم نہیں ہو گا، جو تم کو دنیا میں نہیںدی گئیں،یاد رکھو کہ تمہارے ہاتھوں فارس اور روم ضرور بالضرور فتح ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11597

۔ (۱۱۵۹۷)۔ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اِطَّلَعَ عَلٰی أَھْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اِعْمَلُوْا مَاشِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ۔)) (مسند احمد: ۷۹۲۷)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی طرف جھانکا اور فرمایا: تم جو چاہو عمل کرتے رہو، میں نے تم کو بخش دیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11598

۔ (۱۱۵۹۸)۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَنْ یَدْخُلَ النَّارَ رَجُلٌ شَہِدَ بَدْرًا وَالْحُدَیْبِیَۃَ۔)) (مسند احمد: ۱۵۳۳۵)
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بدر اور حدیبیہ میں شریک ہونے والوں میں سے کوئی آدمی جہنم میں ہر گز نہیں جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11599

۔ (۱۱۵۹۹)۔ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیْجٍ قَالَ: اِنَّ جِبْرِیْلَ أَوْ مَلِکًا جَائَ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: مَا تَعُدُّوْنَ مَنْ شَہِدَ بَدْرًا فِیْکُمْ قَالُوْا: ((خِیَارَنَا۔)) قَالَ: کَذٰلِکَ ھُمْ عِنْدَنَا خِیَارُنَا مِنَ الْمَلَائِکَۃِ۔ (مسند احمد: ۱۵۹۱۴)
سیدنا رافع بن خدیج ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جبریل علیہ السلام یاکوئی اور فرشتہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا اور اس نے کہا: تم لوگوں کے ہاں اہل بدر کا کیا مقام ہے؟ صحابۂ کرام نے کہا: وہ ہم میں سب سے افضل اور بہتر ہیں۔ اس فرشتے نے کہا:ہمارے ہاں بھی معاملہ اسی طرح ہے کہ بدر میں شریک ہونے والے فرشتے باقی فرشتوں کی بہ نسبت بہتر اور افضل ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11600

۔ (۱۱۶۰۰)۔ عَنْ حَفْصَۃَ قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنِّیْ لَأَرْجُوْ أَنْ لَّا یَدْخُلَ النَّارَ إِنْ شَائَ اللّٰہُ أَحَدٌ شَہِدَ بَدْرًا وَالْحُدَیْبِیَۃَ۔)) قَالَتْ: فَقُلْتُ: اَلَیْسَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ یَقُوْلُ: {وَاِنْ مِنْکُمْ اِلَّا وَارِدُھَا قَالَتْ فَسَمِعْتُہُ یَقُوْلُ ثُمَّ نُنْجِی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِیْنَ فِیْہَا جِثِیَّا} [مریم: ۷۲]۔ (مسند احمد: ۲۶۹۷۲)
سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے امید ہے کہ بدر اور حدیبیہ میں شریک ہونے والوں میں سے کوئی فرد ان شاء اللہ جہنم میں نہیں جائے گا۔ سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ کا ارشاد اس طرح نہیں ہے کہ {وَاِنْ مِنْکُمْ اِلَّا وَارِدُھَا} … اور تم میں سے کوئی نہیں ہے، مگر وہ جہنم میں وارد ہونے والا ہے۔ سیدہ کہتی ہیں: پھر میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس سے آگے یوںتلاوت کرتے ہوئے سنا: {ثُمَّ نُنْجِی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِیْنَ فِیْہَا جِثِیَّا} … پھر ہم اللہ سے ڈرنے والوں کو نجات دے دیں گے اور کافروں کو گھٹنوں کے بل جہنم میں پڑا رہنے دیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11601

۔ (۱۱۶۰۱)۔ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ الْخُدْرِیِّ قَالَ: أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا کَانَ یَوْمُ الْحُدَیْبِیَۃِ، قَالَ: ((لَا تُوقِدُوْا نَارًا بِلَیْلٍ۔)) قَالَ: فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ ذَاکَ، قَالَ: ((أَوْقِدُوْا وَاصْطَنِعُوا، فَإِنَّہُ لَا یُدْرِکُ قَوْمٌ بَعْدَکُمْ صَاعَکُمْ وَلَا مُدَّکُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۱۲۲۶)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم دیا تھا کہ رات کو آگ نہ جلائیں (تاکہ دشمن کو ہمارا اندازہ نہ ہو)۔ ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ بعد میں جب حالات پر امن ہوئے تو آپ نے عام اجازت دے دی تھی کہ جب چاہو آگ جلا اور کھانا تیار کر سکتے ہو، پس بیشک شان یہ ہے کہ تمہارے بعد والی کوئی قوم تمہارے صاع اورمُدّ کو نہیں پہنچ سکتی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11602

۔ (۱۱۶۰۲)۔ عَنْ أُمِّ مُبَشِّرٍ اِمْرَأَۃِ زَیْدِ بْنِ حَارِثَۃَ قَالَتْ: جَائَ غُلَامُ حَاطِبٍ فَقَالَ: وَاللّٰہِ! لَا یَدْخُلُ حَاطِبٌ الْجَنَّۃَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کَذَبْتَ قَدْ شَہِدَ بَدْرًا وَالْحُدَیْبِیَۃَ۔)) (مسند احمد: ۲۷۵۸۵)
سیدہ ام مبشر زوجہ زید بن حارثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ سیدنا حاطب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے غلام نے آکر کہا: اللہ کی قسم! حاطب جنت میں نہیں جائے گا، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم غلط کہہ رہے ہو، وہ تو بدر اور حدیبیہ میں شرکت کر چکا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11603

۔ (۱۱۶۰۳)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنََّہٗ قَالَ: ((لَا یَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ مِمَّنْ بَابَعَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۴۸۳۷)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ جن لوگوں نے (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے بیعت کی تھی، ان میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11604

۔ (۱۱۶۰۴)۔ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: کُنَّا نَتَحَدَّثُ اَنَّ عِدَّۃَ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانُوْا یَوْمَ بَدْرٍ عَلٰی عِدَّۃِ اَصْحَابِ طَالُوْتَ یَوْمَ جَالُوْتَ، ثَلَاثُ مَائِۃٍ وَ بِضْعَۃَ عَشَرَ الَّذِیْنَ جَاوَزُوا مَعَہُ النَّھْرَ، قَالَ: وَ لَمْ یُجَاوِزْ مَعَہُ النَّھْرَ اِلَّا مُؤْمِنٌ۔ (مسند احمد: ۱۸۷۵۴)
سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم یہ باتیں کیا کرتے تھے کہ بدر والے دن صحابۂ کرام کی تعداد اتنی تھی، جتنی جالوت والے دن طالوت کے ساتھیوں کی تھی،یعنی تین سو چودہ پندرہ افراد تھے، جنہوں نے طالوت کے ساتھ نہرکو عبور کیا تھا اور نہر سے گزر جانے والے صرف مؤمن تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11605

۔ (۱۱۶۰۵)۔ عَنْ بِلَالٍ الْعَبْسِیِّ قَالَ: قَالَ حُذَیْفَۃُ: مَا أَخْبِیَۃٌ بَعْدَ أَخْبِیَۃٍ کَانَتْ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِبَدْرٍ، مَا یُدْفَعُ عَنْہُمْ مَا یُدْفَعُ عَنْ أَہْلِ ہٰذِہِ الْأَخْبِیَۃِ، وَلَا یُرِیدُ بِہِمْ قَوْمٌ سُوئً إِلَّا أَتَاہُمْ مَا یَشْغَلُہُمْ عَنْہ۔ (مسند احمد: ۲۳۶۵۵)
بلال عبسی سے مروی ہے کہ سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:بدر کے موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ جو خیمے تھے، ویسے اب خیمے کہاں ہیں؟ جو شرف اور مقام اہل بدر کا ہے وہ کسی دوسرے خیمے والوں کا کیسے ہو سکتا ہے؟ جس نے بھی اہل بدر کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا، اللہ کی طرف سے اس کی ایسی گرفت ہوئی کہ وہ اسی میں پھنسے رہ گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11606

۔ (۱۱۶۰۶)۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَبْلَ مَوْتِہِ بِقَلِیْلٍ أَوْ بِشَہْرٍ: ((مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوْسَۃٍ أَوْ مَا مِنْکُمْ مِنْ نَفْسٍ الْیَوْمَ مَنْفُوْسَۃٍ یَأْتِیْ عَلَیْہَا مِائْۃُ سَنَۃٍ وَھِیَ یَوْمَئِذٍ حَیَّۃٌ۔)) (مسند احمد: ۱۴۳۳۲)
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی وفات سے تقریباً ایک ماہ قبل ارشاد فرمایا: آج روئے زمین پر تم میں سے جو کوئی بھی نفس موجود ہے، سوسال بعد ان میں سے کوئی بھی زندہ باقی نہ ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11607

۔ (۱۱۶۰۷)۔ عَنْ نُعَیْمِ بْنِ دِجَاجَۃَ، أَنَّہُ قَالَ: دَخَلَ أَبُو مَسْعُودٍ عُقْبَۃُ بْنُ عَمْرٍو الْأَنْصَارِیُّ عَلٰی عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ: أَنْتَ الَّذِی تَقُولُ: لَا یَأْتِی عَلَی النَّاسِ مِائَۃُ سَنَۃٍ وَعَلَی الْأَرْضِ عَیْنٌ تَطْرِفُ؟ إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَا یَأْتِی عَلَی النَّاسِ مِائَۃُ سَنَۃٍ وَعَلَی الْأَرْضِ عَیْنٌ تَطْرِفُ مِمَّنْ ہُوَ حَیٌّ الْیَوْمَ۔)) وَاللّٰہِ! إِنَّ رَجَائَ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ بَعْدَ مِائَۃِ عَامٍ۔ (مسند احمد: ۷۱۴)
نعیم بن دجانہ سے مروی ہے کہ ابو مسعود عقبہ بن عمرو انصاری، سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں گئے اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: کیا تم یہ کہتے ہو کہ لوگوں پر سو سال گزریں گے تو ان میں سے کوئی بھی آنکھ پھڑکتی نہ ہوگی ( یعنی قیامت بپا ہو جائے گی اور کوئی آدمی زندہ باقی نہ رہے گا۔) جبکہ حقیقتیہ ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ آج روئے زمین پر جو بھی آنکھ پھڑک رہی ہے یعنی جو بھی انسان زندہ موجود ہے، آج سے سوسال کے بعد ان میں سے کوئی بھی زندہ باقی نہ ہوگا۔ اللہ کی قسم! اس امت کی خوش حالی کا اصل دور تو سوسال کے بعد بھی ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11608

۔ (۱۱۶۰۸)۔ عن عَبْدِ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ: صَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ لَیْلَۃٍ صَلَاۃَ الْعِشَاء ِ فِی آخِرِ حَیَاتِہِ، فَلَمَّا قَامَ قَالَ: ((أَرَأَیْتُمْ لَیْلَتَکُمْ ہٰذِہِ عَلٰی رَأْسِ مِائَۃِ سَنَۃٍ مِنْہَا لَا یَبْقَی مِمَّنْ ہُوَ عَلٰی ظَہْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ۔)) قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَوَہِلَ النَّاسُ فِی مَقَالَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تِلْکَ فِیمَا یَتَحَدَّثُونَ مِنْ ہٰذِہِ الْأَحَادِیثِ عَنْ مِائَۃِ سَنَۃٍ، وَإِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَا یَبْقَی الْیَوْمَ مِمَّنْ ہُوَ عَلٰی ظَہْرِ الْأَرْضِ یُرِیدُ أَنْ یَنْخَرِمَ ذٰلِکَ الْقَرْنُ۔)) (مسند احمد: ۶۰۲۸)
سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی زندگی کے اواخر میں ایک رات عشاء کی نماز پڑھائی اور پھر کھڑے ہو کر فرمایا: آج رات جو بھی جان دار اس روئے زمین پر موجود ہے، سو سال بعد ان میں سے ایک بھی زندہ باقی نہیں رہے گا۔ سیدنا عبداللہ (بن عمر) ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کییہ بات سن کر سب لوگ دم بخود رہ گئے اور سو سال سے متعلقہ ان احادیث کے متعلق مختلف باتیں کرنے لگے، حالانکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو یہ فرمایا تھا کہ آج جو لوگ روئے زمین پر موجود ہیں، سو سال بعد ان میں سے کوئی بھی زندہ باقی نہ رہے گا، یعنییہ طبقہ اور زمانہ ختم ہو جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11609

۔ (۱۱۶۰۹)۔ حَدَّثَنَا حَسَنٌ، ثَنَا ابْنُ لَھِیْعَۃَ، ثَنَا زُھْرَۃُ اَبُوْ عَقِیْلٍ الْقُرَشِیُّ، أَنَّ جَدَّہٗ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ ہِشَامٍ احْتَلَمَ فِیْ زَمَانِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَنَکَحَ النِّسَائَ۔ (مسند احمد: ۲۲۸۷۱)
ابو عقیل زہرہ قرشی نے بیان کیا کہ اس کا دادا سیدنا عبداللہ بن ہشام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میں بالغ ہوا اور عورتوں سے نکاح بھی کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11610

۔ (۱۱۶۱۰)۔ عَنِ الزُّہْرِیِّ، حَدَّثَنِی مَحْمُودُ بْنُ لَبِیدٍ، أَنَّہُ عَقَلَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعَقَلَ مَجَّۃً، مَجَّہَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (وَفِیْ لَفْظٍ: فِیْ وَجْہِہِ) مِنْ دَلْوٍ کَانَ فِی دَارِہِمْ۔ (مسند احمد: ۲۴۰۳۸)
زہری سے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں : مجھے سیدنا محمود بن لیبد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ انہوںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زیارت کی اور (انھوں نے اس زیارت کو خوب سمجھا ہے، یہاں تک کہ) انھوں نے یہ بھی سمجھا کہ ان کے گھر میں ایک ڈول تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے کلی کی اور کلی والا پانی اس کے چہرے پر پھینکا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11611

۔ (۱۱۶۱۱)۔ عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ قَالَ حَجَّ بِیْ أَبِیْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاع، وَأَنَا ابْنُ سَبْعِ سِنِیْنَ۔ (مسند احمد: ۱۵۸۰۹)
سیدنا سائب بن یزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میرے باپ نے مجھے اپنے ساتھ لے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع میں شرکت کی تھی، جبکہ میری عمر سات برس تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11612

۔ (۱۱۶۱۲)۔ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدِ نِ السَّاعَدِیِّ اَنَّہُ شَہِدَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْمُتَلَاعِنَیْنِ فَتَلَاعَنا عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: وَاَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشَرَۃَ، قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنْ اَمْسَکْتُہَا فَقَدْ کَذَبْتُ عَلَیْھَا، قَالَ: فَجَائَ تْ بِہِ لِلَّذِیْ یَکْرَہُ۔ (مسند احمد: ۲۳۱۸۹)
سیدنا سہل بن سعد ساعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عہد میں پیش آنے والے واقعہ لعان میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ موجود تھے، میاں بیوی نے آپس میں لعان کیا تھا، جبکہ اس وقت میری عمر پندرہ برس تھی۔لعان کرنے والا شوہر کہنے لگا: اے اللہ کے رسول ! اگر اب میں اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھتا ہوں تو گویا اس پر میں نے جھوٹا الزام لگایا ہے۔ پھر لعان کرنے والی عورت نے ایسی شکل والا بچہ جنم دیا تھا، جس کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ناپسند کیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11613

۔ (۱۱۶۱۳)۔ (۹۰۸)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِی أَبِی ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ أَبِی الْمُتَوَکِّلِ عَنْ أَبِی سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یَتَوَضَّأُ اِذَا جَامَعَ وَاِذَا أَرَادَ أَنْ یَرْجِعَ۔)) قَالَ سُفْیَانُ: أَبُو سَعِیْدٍ أَدْرَکَ الْحَرَّۃَ۔ (مسند أحمد: ۱۱۰۵۰)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب آدمی ایک دفعہ مجامعت کے بعد دوبارہ لوٹنا چاہے تو وہ وضو کر لے۔ سفیان نے کہا: سیدنا ابو سعید، حرّہ کی لڑائی کے بعد تک زندہ رہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11614

۔ (۱۱۶۱۴)۔ حَدَّثَنَا قَرَّانُ بْنُ تَمَامٍ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ ذِئْبٍ، عَنْ مَخْلَدِ بْنِ خِفَافٍ، عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائَشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: قَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّ الْغَلَّۃَ بِالضَّمَانِ۔ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: قَالَ أَبِیْ: سَمِعْتُ مِنْ قَرَّانَ بْنِ تَمَامٍ فِیْ سَنَۃِ اِحْدٰی وَثَمَانِیْنَ وَمِائَۃٍ، وَکَان ابْنُ الْمُبَارَکِ بَاقِیًا وَفِیْہَا مَاتَ ابْنُ الْمُبارَکِ۔ (مسند احمد: ۲۵۷۹۰)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ نفع ضمانت کے عوض ہوتا ہے۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے والد امام احمد بن حنبل ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کہا: میں نے قران بن تمام سے ۱۸۱ ھ میں سماع کیا تھا، اس سال امام ابن مبارک حیات تھے، لیکن پھر اسی سال ان کا انتقال ہو گیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11615

۔ (۱۱۶۱۵)۔ عَنْ شُرَحْبِیلَ بْنِ مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِیِّ، قَالَ: رَأَیْتُ سَبْعَۃَ نَفَرٍ خَمْسَۃً قَدْ صَحِبُوا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاثْنَیْنِ قَدْ أَکَلَا الدَّمَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، وَلَمْ یَصْحَبَا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَمَّا اللَّذَانِ لَمْ یَصْحَبَا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَبُوْ عُقْبَۃَ الْخَوْلَانِیُّ، وَأَبُو فَاتِحٍ الْأَنْمَارِیُّ۔ (مسند احمد: ۱۷۹۳۸)
شرجیل بن مسلم خولانی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے سات ایسے افراد کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے کہ ان میں سے پانچ تو وہ ہیں، جنہیں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صحبت کا اعزاز حاصل تھا اور دو آدمی ایسے تھے، جنہیں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صحبت کا شرف حاصل نہ ہو سکا، وہ قبل از اسلام دور جاہلیت میں جانوروں کے جسم سے بہنے والا خون پیا کرتے تھے، ان کے نام ابو عقبہ خولانی اور ابو صالح انماری ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11616

۔ (۱۱۶۱۶)۔ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ قَالَ: قَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا أُبَیُّ أُمِرْتُ أَنْ أَقْرَأَ عَلَیْکَ سُورَۃَ کَذَا وَکَذَا؟)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَقَدْ ذُکِرْتُ ہُنَاکَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقُلْتُ لَہُ: یَا أَبَا الْمُنْذِرِ فَفَرِحْتَ بِذٰلِکَ؟ قَالَ: وَمَا یَمْنَعُنِی؟ وَاللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی یَقُولُ: {قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذٰلِکَ فَلْتَفْرَحُوْا ہُوَ خَیْرٌ مِمَّا یَجْمَعُوْنَ} قَالَ مُؤَمَّلٌ: قُلْتُ لِسُفْیَانَ: ہٰذِہِ الْقِرَائَۃُ فِی الْحَدِیثِ؟ قَالَ: نَعَمْ۔ (مسند احمد: ۲۱۴۵۵)
سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے ابی! اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے سامنے فلاں سورت کی تلاوت کروں۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا اللہ کے ہاں میرا نام لیا گیاہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ عبداللہ بن ابزیٰ نے سیدنا ابی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے ابو منذر! کیایہ بات سن کر آپ کو خوشی ہوئی تھی؟ انھوں نے کہا: خوشی کیوں نہ ہوتی، جبکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے:{قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذٰلِکَ فَلْتَفْرَحُوْا ہُوَ خَیْرٌ مِمَّا یَجْمَعُوْنَ} … اے نبی! آپ ان لوگوں سے کہہ دیں کہ تم اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوش رہو، یہ لوگ جو دنیوی مال و اسباب جمع کرتے ہیں،یہ اس سے بہتر ہے۔ (چونکہ قرآن کریم کی قرأت متواترہ فَلْیَفْرَحُوْا ہے)، امام احمد کے شیخ مؤمل سے مروی ہے کہ میں نے اپنے شیخ سفیان سے دریافت کیا، کیایہ قرأت فَلْتَفْرَحُوْا حدیث میں ہے؟ انہوںنے کہا: جی ہاں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11617

۔ (۱۱۶۱۷)۔ حَدَّثَنَا یَحْيٰ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ اِسْحٰقَ، قَالَ: حَدَّثَتْنِیْ زَیْنَبُ ابْنَۃُ کَعْبِ بْنِ عُجَرَۃَ، عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِرِسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : اَرَاَیْتَ ھٰذِہِ الْاَمْرَاضَ الَّتِیْ تُصِیْبُنَا مَالَنَا بِھَا؟ قَالَ: ((کَفَّارَاتٌ۔)) قَالَ اَبِیْ: وَاِنْ قَلَّتْ؟ قَالَ: ((وَاِنْ شَوْکَۃً فَمَا فَوْقَھَا۔)) قَالَ: فَدَعَا اَبِیْ عَلٰی نَفْسِہِ اَنْ لَّا یُفَارِقَہُ الْوَعْکُ حَتّٰی یَمُوْتَ فِیْ اَنْ لَّا یَشْغَلَہُ عَنْ حَجٍّ، وَلا عُمْرَۃٍ، وَلا جِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّّٰہِ، وَلا صَلاَۃٍ مَکْتُوْبَۃٍ فِیْ جَمَاعَۃٍ، فَمَا مَسَّہُ اِنْسَانٌ اِلَّا وَجَدَ حَرَّہُ حَتّٰی مَاتَ۔(مسند احمد: ۱۱۲۰۱)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: جو بیماریاں ہمیں لاحق ہوتی ہیں، ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ گناہوں کا کفارہ بننے والی ہیں۔ میرے باپ نے کہا:اگرچہ وہ بیماری معمولی ہو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا: اگرچہ وہ کانٹا ہو یا اس سے بڑی کوئی چیز۔ یہ سن کر میرے باپ نے اپنے حق میں یہ بد دعا کر دی کہ اس کی موت تک بخار اس سے جدا نہ ہو، لیکن وہ بخار اس کو حج، عمرے، جہاد فی سبیل اللہ اور باجماعت فرضی نماز سے مشغول نہ کر دے، پس اس کے بعد جس انسان نے میرے باپ کو چھوا، بخار کی حرارت پائی،یہاں تک کہ وہ فوت ہو گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11618

۔ (۱۱۶۱۸)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لِاُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ: ((اِنَّ اللّٰہَ اَمَرَنِیْ اَنْ اَقْرَاَ عَلَیْکَ: {لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا}۔)) قَالَ :وَ سَمَّانِیْ لَکَ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) فَبَکٰی۔ (مسند احمد: ۱۲۳۴۵)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہارے سامنے سورۂ بینہ کی تلاوت کروں۔ سیدنا ابی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے دریافت کیا: کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کے سامنے میرا نام لیاہے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ یہ سن کر سیدنا ابی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رو پڑے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11619

۔ (۱۱۶۱۹)۔ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ أُبَیًّا قَالَ لِعُمَرَ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ! إِنِّی تَلَقَّیْتُ الْقُرْآنَ مِمَّنْ تَلَقَّاہُ (وَقَالَ عَفَّانُ مِمَّنْ یَتَلَقَّاہُ) مِنْ جِبْرِیلَ عَلَیْہِ السَّلَام وَہُوَ رَطْبٌ۔ (مسند احمد: ۲۱۴۲۹)
سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے امیر المومنین! میں نے قرآن کریم براہ راست اس ہستی سے سنا اور سیکھا ہے جنہوںنے جبریل علیہ السلام سے حاصل کیا، جبکہ وہ تروتازہ تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11620

۔ (۱۱۶۲۰)۔ عَنْ الْجَارُودِ بْنِ أَبِی سَبْرَۃَ، عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَلّٰی بِالنَّاسِ فَتَرَکَ آیَۃً فَقَالَ: ((أَیُّکُمْ أَخَذَ عَلَیَّ شَیْئًا مِنْ قِرَائَتِی؟)) فَقَالَ أُبَیٌّ: أَنَا، یَا رَسُولَ اللّٰہِ! تَرَکْتَ آیَۃَ کَذَا وَکَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((قَدْ عَلِمْتُ إِنْ کَانَ أَحَدٌ أَخَذَہَا عَلَیَّ فَإِنَّکَ أَنْتَ ہُوَ۔)) (مسند احمد: ۲۱۶۰۵)
سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور بھول کر ایک آیت ترک کر گئے، بعد میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: تم میں سے کسی کو قرأت میں میری غلطی کا احساس ہوا ہے؟ سیدنا ابی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! مجھے پتہ چل گیا تھا، آپ فلاں آیت چھوڑ گئے ہیں۔ رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے پتہ تھا کہ اگر کسی کا اس کا ادراک ہو گا تو وہ تم ہی ہو گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11621

۔ (۱۱۶۲۱)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أُبَیٍّ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَأَلَہُ: ((أَیُّ آیَۃٍ فِی کِتَابِ اللّٰہِ أَعْظَمُ؟)) قَالَ: اَللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، فَرَدَّدَہَا مِرَارًا، ثُمَّ قَالَ أُبَیٌّ: آیَۃُ الْکُرْسِیِّ، قَالَ: ((لِیَہْنِکَ الْعِلْمُ أَبَا الْمُنْذِرِ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ إِنَّ لَہَا لِسَانًا وَشَفَتَیْنِ تُقَدِّسُ الْمَلِکَ عِنْدَ سَاقِ الْعَرْشِ۔)) (مسند احمد: ۲۱۶۰۲)
سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے دریافت کیا: اللہ کی کتاب میںکونسی آیت سب سے زیادہ عظمت کی حامل ہے؟ انہوں نے جواباً عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ لیکن جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بار بار یہی سوال کیا، تو سیدنا ابی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: وہ آیت الکرسی ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابو المنذر! تمہیںیہ علم مبارک ہو، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس آیت کی ایک زبان اور دو ہونٹ ہیں اور یہ اللہ کے عرش کے پائے کے قریب اللہ تعالیٰ کی تقدیس اور پاکی بیان کرتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11622

۔ (۱۱۶۲۲)۔ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ أَمَّرَ أُسَامَۃَ بَلَغَہُ أَنَّ النَّاسَ یَعِیبُونَ أُسَامَۃَ وَیَطْعَنُونَ فِی إِمَارَتِہِ، فَقَامَ کَمَا حَدَّثَنِی سَالِمٌ فَقَالَ: ((إِنَّکُمْ تَعِیبُونَ أُسَامَۃَ وَتَطْعَنُونَ فِی إِمَارَتِہِ، وَقَدْ فَعَلْتُمْ ذٰلِکَ فِی أَبِیہِ مِنْ قَبْلُ، وَإِنْ کَانَ لَخَلِیقًا لِلْإِمَارَۃِ، وَإِنْ کَانَ لَأَحَبَّ النَّاسِ کُلِّہِمْ إِلَیَّ، وَإِنَّ ابْنَہُ ہٰذَا بَعْدَہُ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَیَّ، فَاسْتَوْصُوا بِہِ خَیْرًا، فَإِنَّہُ مِنْ خِیَارِکُمْ۔)) (مسند احمد: ۵۶۳۰)
سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لشکر کا سربراہ مقرر فرمایا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ لوگ اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سربراہ بننے پر اعتراض کرتے ہیں اور ان کو امیر بنائے جانے پر طعن کرتے ہیں، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھڑے ہو کر فرمایا: تم لوگ اسامہ کو سربراہِ لشکر بنائے جانے پر اعتراض کرتے ہو اور ان کو امیر بنائے جانے پر طنز کرتے ہو، یہی کام تم نے اس سے قبل اس کے والد کے بارے میں بھی کیا تھا، حالانکہ وہ امیر بنائے جانے کا بجا طور پر حق دار تھا۔ اور وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب بھی تھا، اس کے بعد اس کا یہ بیٹامجھے سب سے زیادہ پیارے لوگوں میں سے ہے، میں تمہیں اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں، یہ تمہارے بہترین لوگوں میں سے ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11623

۔ (۱۱۶۲۳)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((أُسَامَۃُ أَحَبُّ الناَّسِ اِلَیَّ مَا حَاشَا فَاطِمَۃَ وَلَا غَیْرَھَا۔)) (مسند احمد: ۵۷۰۷)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے سب سے زیادہ محبوب اسامہ (بن زید) ہے، فاطمہ وغیرہ کے علاوہ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11624

۔ (۱۱۶۲۴)۔ وَعَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ قَالَ: لَمَّا ثَقَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ھَبَطْتُ وَھَبَطَ النَّاسُ مَعِیَ إِلَی الْمَدِیْنَۃِ، فَدَخَلْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَدْ اَصْمَتَ فَلَا یَتَکَلَّمُ، فَجَعَلَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ إِلَی السَّمَائِ، ثُمَّ یَصُبُّہَا عَلَیَّ أَعْرِفُ أَنَّہٗ یَدْعُوْلِیْ۔ (مسند احمد: ۲۲۰۹۸)
سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زیادہ بیمار ہو گئے تو میں اور میرے رفقاء ہم سب مدینہ کے ایک نواح میں ٹھہر گئے، میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بالکل خاموش تھے اور شدت مرض کی وجہ سے بول نہ سکتے تھے،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر میری طرف جھکا کر اشارہ کرتے۔ میں جان گیا کہ آپ میرے حق میں دعائیں کر رہے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11625

۔ (۱۱۶۲۵)۔ حَدَّثَنَا عَارِمُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ عَنْ أَبِیہِ، قَالَ سَمِعْتُ: أَبَا تَمِیمَۃَ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِی عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ، یُحَدِّثُہُ أَبُو عُثْمَانَ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ قَالَ: کَانَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَأْخُذُنِی فَیُقْعِدُنِی عَلٰی فَخِذِہِ، وَیُقْعِدُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ عَلٰی فَخِذِہِ الْأُخْرٰی، ثُمَّ یَضُمُّنَا ثُمَّ یَقُولُ: ((اللَّہُمَّ ارْحَمْہُمَا فَإِنِّی أَرْحَمُہُمَا۔)) قَالَ أَبِی: قَالَ عَلِیُّ بْنُ الْمَدِینِیِّ: ہُوَ السَّلِّیُّ مِنْ عَنَزَۃَ إِلٰی رَبِیعَۃَ یَعْنِی أَبَا تَمِیمَۃَ السَّلِّیَّ۔ (مسند احمد: ۲۲۱۳۰)
سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے پکڑ کر اپنی ایک ران پر بٹھا لیتے اور دوسری ران پر سیدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بٹھا لیتے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں اپنے سینے سے چمٹا کر فرماتے: یا اللہ! میں ان پر شفقت کرتا ہوں تو بھی ان پر رحم فرما دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11626

۔ (۱۱۶۲۶)۔ عَنِ الشَّعْبِیِّ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَۃُ: لَا یَنْبَغِی لِأَحَدٍ أَنْ یَبْغُضَ أُسَامَۃَ بَعْدَمَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنْ کَانَ یُحِبُّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولَہُ فَلْیُحِبَّ أُسَامَۃَ۔)) (مسند احمد: ۲۵۷۴۸)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہو،وہ اسامہ سے محبت رکھے۔ اس فرمان کے بعد کسی کے لیے اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بغض رکھنا روا نہیں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11627

۔ (۱۱۶۲۷)۔ عَنْ عَائِشَۃَ، أَنَّ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ عَثَرَ بِأُسْکُفَّۃِ أَوْ عَتَبَۃِ الْبَابِ فَشُجَّ فِی جَبْہَتِہِ، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَمِیطِی عَنْہُ أَوْ نَحِّی عَنْہُ الْأَذٰی۔)) قَالَتْ: فَتَقَذَّرْتُہُ، قَالَتْ فَجَعَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَمُصُّہُ ثُمَّ یَمُجُّہُ، وَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَوْ کَانَ أُسَامَۃُ جَارِیَۃً لَکَسَوْتُہُ وَحَلَّیْتُہُ حَتّٰی أُنْفِقَہُ۔)) (مسند احمد: ۲۶۳۸۶)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا اسامہ بن یزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دروازے کی چوکھٹ میں گر پڑے اور ان کی پیشانی پر زخم آگیا۔ (اور ایک روایت میںیوں ہے کہ خون بہنے لگا) تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اس کی پیشانی سے خون صاف کر دو۔ لیکن مجھے کچھ کراہت سی محسوسی ہوئی، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خود شروع ہو گئے اور زخم کو چوس کر تھوکتے رہے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لڑکی ہوتا تو میں اسے اچھے اچھے کپڑے اور زیور پہنا کر اس قدر خوب صورت بنا دیتا کہ لوگ اس سے شادی کرنے میں رغبت کا اظہار کرتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11628

۔ (۱۱۶۲۸)۔ عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ أُسَیْدَ بْنَ حُضَیْرٍ، وَرَجُلًا آخَرَ مِنَ الْأَنْصَارِ، تَحَدَّثَا عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیْلَۃً فِی حَاجَۃٍ لَہُمَا حَتّٰی ذَہَبَ مِنَ اللَّیْلِ سَاعَۃٌ وَلَیْلَۃٌ شَدِیدَۃُ الظُّلْمَۃِ، ثُمَّ خَرَجَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَنْقَلِبَانِ وَبِیَدِ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا عُصَیَّۃٌ، فَأَضَاء َتْ عَصَا أَحَدِہِمَا لَہُمَا حَتّٰی مَشَیَا فِی ضَوْئِہَا حَتّٰی إِذَا افْتَرَقَ بِہِمَا الطَّرِیقُ أَضَائَ تْ لِلْآخَرِ عَصَاہُ، فَمَشٰی کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا فِی ضَوْء ِ عَصَاہُ حَتّٰی بَلَغَ إِلٰی أَہْلِہِ۔(مسند احمد: ۱۲۴۳۱)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا اسید بن حضیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ایک انصاری شخص (عباد بن بشر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) رات کو دیر تک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھے باتیں کرتے رہے،یہاں تک کہ رات کا ایک حصہ گزر گیا، جبکہ رات بھی سخت اندھیری تھی۔ پھرجب وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں سے اٹھ کر واپس چلے تو دونوں کے پاس ایک ایک لاٹھی تھی، ان میں سے ایک کی لاٹھی روشن ہوگئی اور وہ اس کی روشنی میں چلتے گئے، آگے جا کر جب ان کے راستے الگ الگ ہوئے تو دوسرے کی لاٹھی بھی روشن ہوگئی اور اس طرح وہ دونوں اپنی اپنی لاٹھی کی روشنی میں اپنے گھر پہنچ گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11629

۔ (۱۱۶۲۹)۔ (وَعَنْہٗ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ): أَنَّ أُسَیْدَ بْنَ حُضَیْرٍ وَعَبَّادَ بْنَ بِشْرٍ کَانَا عِنْدَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی لَیْلَۃٍ ظَلْمَائَ حِنْدِسٍ، فَخَرَجَا مِنْ عِنْدِہِ فَأَضَائَ تْ عَصَا أَحَدِہِمَا، فَجَعَلَا یَمْشِیَانِ فِی ضَوْئِہَا، فَلَمَّا تَفَرَّقَا أَضَائَ تْ عَصَا الْآخَرِ، وَقَدْ قَالَ حَمَّادٌ أَیْضًا: فَلَمَّا تَفَرَّقَا أَضَائَ تْ عَصَا ذَا وَعَصَا ذَا۔ (مسند احمد: ۱۳۹۰۶)
۔ (دوسری سند) سیدنا اسید بن حضیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عباد بن بشر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک سخت اندھیری رات میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھے رہے، وہ آپ کے ہاں سے اٹھ کر گئے تو ان میں سے ایک کی لاٹھی روشن ہوگئی اور وہ اس کی روشنی میں چلتے گئے، آگے جا کر جب ان کے راستے الگ الگ ہوئے تو دوسرے کیلاٹھی بھی روشن ہوگئی۔ حماد راوی نے یوں کہا ہے کہ جب ان کے راستے الگ الگ ہوئے تو اس کی لاٹھی روشن تھی اور دوسرے کی بھی روشن ہوگئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11630

۔ (۱۱۶۳۰)۔ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: قَرَاَ رَجُلٌ الْکَہْفَ وَفِیْ الدَّارِ دَابَّۃٌ فَجَعَلَتْ تَنْفِرُ فَنَظَرَ فَاِذَا ضَبَابَۃٌ اَوْ سَحَابَۃٌ قَدْ غَشِیَتْہُ، قَالَ: فَذُکِرَ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((اقْرَاْ فَلَانُ! فَاِنَّہَا السَّکِیْنَۃُ تَنَزَّلَتْ عِنْدَ الْقُرْآنِ اَوْ تَنَزَّلَتْ لِلْقُرْآنِ۔)) (مسند احمد: ۱۸۶۶۶)
سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے سورۂ کہف کی تلاوت کی، جس گھر میں وہ تلاوت کر رہا تھا، اس میں اس کی سواری بھی بندھی ہوئی تھی، وہ سواری بدکنا شروع ہو گئی، اس نے دیکھا کہ ایک بادل اس پر چھا رہا ہے، جب یہ بات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلائی گئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: او فلاں! تو پڑھتا رہتا، یہ سکینت تھی جو قرآن کے لیے نازل ہو رہی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11631

۔ (۱۱۶۳۱)۔ عَنْ عَائِشَۃَ، أَنَّہَا کَانَتْ تَقُولُ: کَانَ أُسَیْدُ بْنُ حُضَیْرٍ مِنْ أَفَاضِلِ النَّاسِ، وَکَانَ یَقُولُ: لَوْ أَنِّی أَکُونُ کَمَا أَکُونُ عَلَی أَحْوَالٍ ثَلَاثٍ مِنْ أَحْوَالِی لَکُنْتُ، حِینَ أَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَحِینَ أَسْمَعُہُ یُقْرَأُ، وَإِذَا سَمِعْتُ خُطْبَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَإِذَا شَہِدْتُ جِنَازَۃً وَمَا شَہِدْتُ جِنَازَۃً قَطُّ فَحَدَّثْتُ نَفْسِی بِسِوَی مَا ہُوَ مَفْعُولٌ بِہَا وَمَا ہِیَ صَائِرَۃٌ إِلَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۹۳۰۳)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے، وہ کہا کرتی تھیں کہ سیدنا اسید بن حضیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا افضل ترین لوگوں میں سے تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ تین مواقع پر میری جو کیفیت ہوتی ہے، اگر میں اسی حالت پر برقرار رہوں تو یقینا جنتی ہوں گا: (۱)جب میں قرآن کی تلاوت خود کر رہا ہوں یا کسیسے سن رہا ہوں، (۲)جب میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خطبہ سنتا ہوں اور (۳)جب میں کسی جنازہ میں شریک ہوتا ہوں تو میری تمام تر توجہ اس طرف ہوتی ہے کہ اس شخص کے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور اس کا انجام کیا ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11632

۔ (۱۱۶۳۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: قَدِمْنَا مِنْ حَجٍّ أَوْ عُمْرَۃٍ فَتُلُقِّینَا بِذِی الْحُلَیْفَۃِ، وَکَانَ غِلْمَانٌ مِنْ الْأَنْصَارِ تَلَقَّوْا أَہْلِیہِمْ فَلَقُوا أُسَیْدَ بْنَ حُضَیْرٍ فَنَعَوْا لَہُ امْرَأَتَہُ فَتَقَنَّعَ وَجَعَلَ یَبْکِی، قَالَتْ: فَقُلْتُ لَہُ: غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ أَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَکَ مِنْ السَّابِقَۃِ وَالْقِدَمِ، مَا لَکَ تَبْکِی عَلَی امْرَأَۃٍ، فَکَشَفَ عَنْ رَأْسِہِ وَقَالَ: صَدَقْتِ لَعَمْرِی حَقِّی أَنْ لَا أَبْکِی عَلٰی أَحَدٍ بَعْدَ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، وَقَدْ قَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا قَالَ، قَالَتْ: قُلْتُ لَہُ: مَا قَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَقَدِ اہْتَزَّ الْعَرْشُ لِوَفَاۃِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ۔)) قَالَتْ: وَہُوَ یَسِیرُ بَیْنِی وَبَیْنَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (مسند احمد: ۱۹۳۰۵)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب ہم حج یا عمرہ سے واپس آئے تو اہل مدینہ نے ذوالحلیفہ میں آکر ہمارا استقبال کیا، انصار کے لڑکے بھی اپنے گھر والوں کو ملنے آئے، جب ان کی سیدنا اسید بن حضیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ملاقات ہوئی تو ان کو ان کی اہلیہ کی وفات کی خبر دی، انہوںنے اپنے چہرے پر کپڑا ڈال لیا اور رونے لگ گئے۔ ام المومنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں:میں نے ان سے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت کرے آپ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابی ہیں اور آپ کو بہت سی فضیلتیں حاصل ہیں۔ آپ بیوی کی وفات پر اس قدر کیوں رو رہے ہیں؟ انہوںنے اپنے سر سے کپڑا ہٹا کر کہا: آپ نے درست کہا ہے، واقعی حق تو یہ ہے کہ میں سیدنا سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بعد کسی پر نہ روئوں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے بارے میں بہت کچھ فرمایا ہے۔ سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتی ہیں: میں نے ان سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں کیا فرمایا تھا؟ انہوںنے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایاکہ اللہ کا عرش سعد بن معاذ کی وفات پر جھوم گیا۔ سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتی ہیں: یہ بات بیان کرتے وقت سیدنا اسید بن حضیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میرے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے درمیان چل رہے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11633

۔ (۱۱۶۳۳)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: کَانَ یَقُولُ: حَدِّثُوْنِی عَنْ رَجُلٍ دَخَلَ الْجَنَّۃَ لَمْ یُصَلِّ قَطُّ، فَإِذَا لَمْ یَعْرِفْہُ النَّاسُ، سَأَلُوْہُ: مَنْ ہُوَ؟ فَیَقُولُ: أُصَیْرِمُ بَنِی عَبْدِ الْأَشْہَلِ، عَمْرُو بْنُ ثَابِتِ بْنِ وَقْشٍ، قَالَ: الْحُصَیْنُ فَقُلْتُ لِمَحْمُودِ بْنِ لَبِیدٍ: کَیْفَ کَانَ شَأْنُ الْأُصَیْرِمِ؟ قَالَ: کَانَ یَأْبَی الْإِسْلَامَ عَلٰی قَوْمِہِ فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ أُحُدٍ وَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی أُحُدٍ بَدَا لَہُ الْإِسْلَامُ، فَأَسْلَمَ فَأَخَذَ سَیْفَہُ فَغَدَا حَتّٰی أَتَی الْقَوْمَ فَدَخَلَ فِی عُرْضِ النَّاسِ فَقَاتَلَ حَتّٰی أَثْبَتَتْہُ الْجِرَاحَۃُ، قَالَ: فَبَیْنَمَا رِجَالُ بَنِی عَبْدِ الْأَشْہَلِ یَلْتَمِسُونَ قَتْلَاہُمْ فِی الْمَعْرَکَۃِ إِذَا ہُمْ بِہِ فَقَالُوْا: وَاللّٰہِ إِنَّ ہٰذَا لَلْأُصَیْرِمُ، وَمَا جَائَ لَقَدْ تَرَکْنَاہُ، وَإِنَّہُ لَمُنْکِرٌ ہٰذَا الْحَدِیثَ، فَسَأَلُوْہُ: مَا جَائَ بِہِ، قَالُوْا، مَا جَائَ بِکَ یَا عَمْرُو أَحَرْبًا عَلٰی قَوْمِکَ أَوْ رَغْبَۃً فِی الْإِسْلَامِ؟ قَالَ: بَلْ رَغْبَۃً فِی الْإِسْلَامِ، آمَنْتُ بِاللّٰہِ وَرَسُولِہِ وَأَسْلَمْتُ، ثُمَّ أَخَذْتُ سَیْفِی فَغَدَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَاتَلْتُ حَتّٰی أَصَابَنِی مَا أَصَابَنِی، قَالَ: ثُمَّ لَمْ یَلْبَثْ أَنْ مَاتَ فِی أَیْدِیہِمْ فَذَکَرُوْہُ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((إِنَّہُ لَمِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۴۰۳۴)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، انھوں نے کہا: تم مجھے کسی ایسے آدمی کے متعلق بتلائو جس نے نماز بالکل نہیں پڑھی اور وہ جنت میں گیا ہو۔ لوگ نہ بتلا سکے، پھر ان ہی سے دریافت کیا کہ وہ کون ہے؟ انہوںنے جواب دیا کہ وہ بنو عبدالاشھل کا ایک شخص اصیرم ہے، اس کا نام عمرو بن ثابت بن وقش ہے۔ راویٔ حدیث الحصین کہتے ہیں کہ میں نے محمود بن لبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ اصیرم کا کیا واقعہ ہے؟ انہوںنے بتلایا کہ وہ اپنی قوم کے مسلمان ہونے پر اعتراض اور ان کی مخالفت کیا کرتا تھا۔ غزوۂ احد کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب غزوۂ کے لیے تشریف لے گئے تو اسے قبول اسلام کا خیال آیا اور وہ مسلمان ہو گیا۔ اس نے تلوار اٹھائی اور چل پڑا۔ وہ مسلمانوں کے پاس جا کر کفار کی فوج میں گھس گیا اور اس نے اس قدر شدت سے قتال کیا کہ زخموں سے چور اور نڈھال ہو کر گر پڑا۔ بنو عبدالاشھل کے لوگ مقتولین میں اپنے خاندان کے لوگوں کو ڈھونڈ رہے تھے، تو یہ ان کے سامنے آگئے۔ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! یہ تو اصیرم ہے، یہ ہمارے ساتھ تو نہیں آیا تھا۔ ہم تو اسے اس حال میں چھوڑ کر آئے تھے کہ یہ اسلام کا منکر اورمخالف تھا۔ انہوں نے اس سے پوچھا: عمرو! تم یہاں کیسے آگئے؟ اپنی قوم کے خلاف لڑنے کے ارادے سے یا اسلام میں رغبت کی وجہ سے؟ اس نے جواب دیا، قومی عصبیت کی وجہ سے نہیں بلکہ رغبت اسلام کی وجہ سے میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لا کر مسلمان ہوا۔ اپنی تلوار لے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ چلا ، دشمنوں سے قتال کیا اور میرایہ انجام ہوا۔ سیدنا محمود بن لبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ ان باتوں سے کچھ ہی دیر بعد وہ ان کے ہاتھوں ہی اللہ کو پیارا ہو گیا۔ جب لوگوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس کا ذکر کیاتو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ جنتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11634

۔ (۱۱۶۳۴)۔ عَنْ حُمَیْدٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی أُمِّ سُلَیْمٍ فَأَتَتْہُ بِتَمْرٍ وَسَمْنٍ وَکَانَ صَائِمًا، فَقَالَ: ((أَعِیدُوْا تَمْرَکُمْ فِی وِعَائِہِ وَسَمْنَکُمْ فِی سِقَائِہِ۔)) ثُمَّ قَامَ إِلٰی نَاحِیَۃِ الْبَیْتِ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ وَصَلَّیْنَا مَعَہُ، ثُمَّ دَعَا لِأُمِّ سُلَیْمٍ وَلِأَہْلِہَا بِخَیْرٍ، فَقَالَتْ: أُمُّ سُلَیْمٍ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ لِی خُوَیْصَّۃً، قَالَ: ((وَمَا ہِیَ۔)) قَالَتْ: خَادِمُکَ أَنَسٌ، قَالَ: فَمَا تَرَکَ خَیْرَ آخِرَۃٍ وَلَا دُنْیَا إِلَّا دَعَا لِی بِہِ، وَقَالَ: ((اَللّٰہُمَّ ارْزُقْہُ مَالًا وَوَلَدًا، وَبَارِکْ لَہُ فِیہِ۔)) قَالَ: فَمَا مِنَ الْأَنْصَارِ إِنْسَانٌ أَکْثَرُ مِنِّی مَالًا، وَذَکَرَ أَنَّہُ لَا یَمْلِکُ ذَہَبًا وَلَا فِضَّۃً غَیْرَ خَاتَمِہِ، قَالَ: وَذَکَرَ أَنَّ ابْنَتَہُ الْکُبْرٰی أُمَیْنَۃَ أَخْبَرَتْہُ أَنَّہُ دُفِنَ مِنْ صُلْبِہِ إِلٰی مَقْدَمِ الْحَجَّاجِ نَیِّفًا عَلٰی عِشْرِینَ وَمِائَۃٍ۔ (مسند احمد: ۱۲۰۷۶)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں تشریف لے گئے، انہوںنے آپ کی خدمت میں کھجوریں اور گھی پیش کیا،لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس دن روزے سے تھے، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کھجوریں ان کے تھیلے میں اور گھی اس کے ڈبے میں واپس رکھ دو۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے گھر کے ایک کونے میں کھڑے ہو کر دو رکعتیں ادا کیں، ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر آپ نے سیدنا ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے اہل خانہ کے حق میں برکت کی دعا کی۔ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میری ایک خصوصی درخواست ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: وہ کیا؟ انہوںنے کہا: یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خادم سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہے، اس کے حق میں خصوصی دعا کر دیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دنیا و آخرت کی ہر خیر کی میرے حق میں دعا کر دی اور فرمایا: یا اللہ! اسے بہت سا مال اور اولاد عنایت فرما اور اس کے لیے ان میں برکت فرما۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ تمام انصار میں سے کسی کے پاس مجھ سے زیادہ دولت نہیں، جبکہ اس سے پہلے ان کے پاس صرف ایک انگوٹھی تھی اور ان کی بڑی بیٹی امینہ نے بتلایا کہ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے حجاج بن یوسف کے آنے سے پہلے تک اپنی اولاد میں سے تقریباً ایک سو پچیس چھبیس افراد کو اپنے ہاتھوں سے دفن کیا۔1
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11635

۔ (۱۱۶۳۵)۔ عَنْ أُمِّ سُلَیْمٍ أَنَّہَا قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَنَسٌ خَادِمُکَ، اُدْعُ اللّٰہَ لَہُ، قَالَ: فَقَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اَللّٰہُمَّ أَکْثِرْ مَالَہُ وَوَلَدَہُ، وَبَارِکْ لَہُ فِیمَا أَعْطَیْتَہُ۔)) قَالَ حَجَّاجٌ فِی حَدِیثِہِ: قَالَ: فَقَالَ أَنَسٌ: أَخْبَرَنِی بَعْضُ وَلَدِی أَنَّہُ قَدْ دُفِنَ مِنْ وَلَدِی وَوَلَدِ وَلَدِی أَکْثَرُ مِنْ مِائَۃٍ۔ (مسند احمد: ۲۷۹۷۲)
سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، انہوںنے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ انس آپ کا خادم ہے، آپ اس کے حق میں اللہ سے دعا کر دیں،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں دعا کی: یا اللہ! اس کے مال اور اولاد میں اضافہ کر اور تو اسے جو کچھ عطا کرے، اس میں برکت فرما۔ راویٔ حدیث حجاج نے اپنی حدیث میں ذکر کیا کہ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بتلایا کہ میری اولاد میں سے بعض نے مجھے بتلایا کہ میری اولاد اور اولاد کی اولاد میں سے ایک سو سے زائد لوگ دفن کیے جا چکے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11636

۔ (۱۱۶۳۶)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ سِیْرِیْنٍ قَالَ: کَانَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَحْسَنَ النَّاسِ صَلَاۃً فِی السَّفَرِ وَالْحَضَرِ۔ (مسند احمد: ۴۰۸۲)
سیدنا انس بن سیرین کا بیان کا ہے کہ سفر و حضرمیں سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سب سے زیادہ خوبصورت نماز ادا کرنے والے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11637

۔ (۱۱۶۳۷)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی الْمَدِینَۃِ أَخَذَ أَبُوْ طَلْحَۃَ بِیَدِی فَانْطَلَقَ بِی إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ أَنَسًا غُلَامٌ کَیِّسٌ فَلْیَخْدُمْکَ، قَالَ: فَخَدَمْتُہُ فِی السَّفَرِ وَالْحَضَرِ، وَاللّٰہِ! مَا قَالَ لِی لِشَیْئٍ صَنَعْتُہُ: لِمَ صَنَعْتَ ہٰذَا ہٰکَذَا؟ وَلَا لِشَیْئٍ لَمْ أَصْنَعْہُ لِمَ لَمْ تَصْنَعْ ہٰذَا ہٰکَذَا؟ (مسند احمد: ۱۲۰۱۱)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (ہجرت کے بعد) مدینہ منورہ تشریف لائے تو سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میرا ہاتھ پکڑکر مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لے گئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک سمجھداراور ہوشیار بچہ ہے، یہ آپ کی خدمت کیا کرے گا۔ چنانچہ میں (انس) نے سفر و حفر میں دس سال تک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت سر انجام دی ۔ اللہ کی قسم! میں نے کوئی کام کر لیا تو آپ نے کبھی بھی مجھ سے یہ نہ فرمایا کہ تو نے یہ کام کیوں کیا؟یا اگر میں نے کوئی کام نہیں کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کبھی بھی مجھ سے یہ نہ فرمایا کہ تو نے یہ کام اس طرح کیوں نہیں کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11638

۔ (۱۱۶۳۸)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: أَخَذَتْ أُمُّ سُلَیْمٍ بِیَدِی مَقْدَمَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَدِینَۃَ، فَأَتَتْ بِی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ہٰذَا ابْنِی وَہُوَ غُلَامٌ کَاتِبٌ، قَالَ: فَخَدَمْتُہُ تِسْعَ سِنِینَ فَمَا قَالَ لِی لِشَیْئٍ قَطُّ صَنَعْتُہُ، أَسَأْتَ أَوْ بِئْسَ مَا صَنَعْتَ۔ (مسند احمد: ۱۲۲۷۶)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری ہوئی تو میری والدہ سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا میرا ہاتھ پکڑے مجھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لے گئیں اور کہا: اللہ کے رسول! میرایہ بیٹا لکھنا پڑھنا جانتا ہے۔ (اسے اپنی خدمت کے لیے قبول فرمائیں) چنانچہ میں نے آپ کی نو برس تک خدمت کی، میں نے کوئیکام کیا ہو تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کبھی بھی مجھ سے یوں نہ فرمایا کہ تونے برا کام کیا ہے، یا تو نے غلط کام کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11639

۔ (۱۱۶۳۹)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: لَقَدْ سَقَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِقَدَحِی ہٰذَا الشَّرَابَ کُلَّہُ الْعَسَلَ وَالْمَائَ وَاللَّبَنَ۔ (مسند احمد: ۱۳۶۱۶)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اپنے اس پیالے سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو شہد، پانی اور دودھ، بلکہ ہر قسم کا مشروب پلایا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11640

۔ (۱۱۶۴۰)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: خَرَجْتُ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُتَوَجِّہًا إِلَی أَہْلِی، فَمَرَرْتُ بِغِلْمَانٍ یَلْعَبُونَ فَأَعْجَبَنِی لَعِبُہُمْ، فَقُمْتُ عَلَی الْغِلْمَانِ فَانْتَہٰی إِلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا قَائِمٌ عَلَی الْغِلْمَانِ، فَسَلَّمَ عَلَی الْغِلْمَانِ، ثُمَّ أَرْسَلَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی حَاجَۃٍ لَہُ فَرَجَعْتُ، فَخَرَجْتُ إِلٰی أَہْلِی بَعْدَ السَّاعَۃِ الَّتِی کُنْتُ أَرْجِعُ إِلَیْہِمْ فِیہَا، فَقَالَتْ لِی أُمِّی: مَا حَبَسَکَ الْیَوْمَ یَا بُنَیَّ؟ فَقُلْتُ: أَرْسَلَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی حَاجَۃٍ لَہُ، فَقَالَتْ: أَیُّ حَاجَۃٍ یَا بُنَیَّ؟ فَقُلْتُ: یَا أُمَّاہُ إِنَّہَا سِرٌّ، فَقَالَتْ: یَا بُنَیَّ احْفَظْ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سِرَّہُ، قَالَ ثَابِتٌ: فَقُلْتُ: یَا أَبَا حَمْزَۃَ أَتَحْفَظُ تِلْکَ الْحَاجَۃَ الْیَوْمَ أَوْ تَذْکُرُہَا، قَالَ: إِی وَاللّٰہِ! وَإِنِّی لَا أَذْکُرُہَا، وَلَوْ کُنْتُ مُحَدِّثًا بِہَا أَحَدًا مِنَ النَّاسِ لَحَدَّثْتُکَ بِہَا یَا ثَابِتُ! (مسند احمد: ۱۳۴۱۳)
ثابت بنانی سے روایت ہے کہ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کابیان ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے روانہ ہو کر اپنے اہل کی طرف چلا اورراستے میں کھیلتے ہوئے بچوں کے پاس سے گزرا، مجھے ان کا کھیل اچھا لگاتو میں وہاں رک کر انہیںدیکھنے لگا، میں ابھی وہیں کھڑاتھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں تشریف لے آئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آکر بچوں کو سلام کہا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ایک کام کے لیے روانہ فرمایا، میں کام کرکے واپس آیا تو اپنے سابقہ معمول سے ہٹ کر ذرا لیٹ گھر پہنچا، تو میری والدہ نے مجھ سے دریافت کیا: بیٹے! کہاں دیر ہوگئی تھی؟ میں نے عرض کیا: امی جان! یہ ایک راز کی بات ہے۔ انہوںنے کہا: بیٹے! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے راز کی حفاظت کرنا۔ ثابت کہتے ہیں، میں نے عرض کیا: ابو حمزہ! کیا آج بھی آپ کو وہ کام یاد ہے؟ انہوںنے کہا: جی ہاں اللہ کی قسم یاد رہے، لیکن میں بتائوں گا نہیں۔ ثابت! اگر لوگوں میں سے کسی کو میں نے وہ بتانا ہوتا تو تمہیں ضرور بتلا دیتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11641

۔ (۱۱۶۴۱)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: قَدِمَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا ابْنُ عَشَرٍ وَمَاتَ وَأنَا ابْنُ عِشْرِیْنَ۔ (مسند احمد: ۱۲۱۰۱)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت میری عمر دس سال تھی اور جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا تو اس وقت میری عمر بیس برس تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11642

۔ (۱۱۶۴۲)۔ عَنْ حُمِیْدٍ عَنْ أَنَسٍ عُمِّرَ مِائَۃَ سَنَۃٍ غَیْرَ سَنَۃٍ۔ (مسند احمد: ۱۲۲۷۵)
حمید سے روایت ہے کہ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی عمر ننانوے سال تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11643

۔ (۱۱۶۴۳)۔ عَنْ ثَابِتٍ قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: عَمِّی أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ، سُمِّیتُ بِہِ، لَمْ یَشْہَدْ مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ بَدْرٍ، قَالَ: فَشَقَّ عَلَیْہِ، وَقَالَ: فِی أَوَّلِ مَشْہَدٍ شَہِدَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غِبْتُ عَنْہُ، لَئِنْ أَرَانِی اللّٰہُ مَشْہَدًا فِیمَا بَعْدُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیَرَیَنَّ اللّٰہُ مَا أَصْنَعُ، قَالَ: فَہَابَ أَنْ یَقُولَ غَیْرَہَا، قَالَ: فَشَہِدَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ أُحُدٍ، قَالَ: فَاسْتَقْبَلَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ أَنَسٌ: یَا أَبَا عَمْرٍو! أَیْنَ؟ قَالَ: وَاہًا لِرِیحِ الْجَنَّۃِ أَجِدُہُ دُونَ أُحُدٍ، قَالَ: فَقَاتَلَہُمْ حَتّٰی قُتِلَ فَوُجِدَ فِی جَسَدِہِ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ مِنْ ضَرْبَۃٍ وَطَعْنَۃٍ وَرَمْیَۃٍ، قَالَ: فَقَالَتْ أُخْتُہُ عَمَّتِی الرُّبَیِّعُ بِنْتُ النَّضْرِ: فَمَا عَرَفْتُ أَخِی إِلَّا بِبَنَانِہِ، وَنَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْہُمْ مَنْ قَضٰی نَحْبَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیلًا} [الأحزاب: ۲۳] قَالَ: فَکَانُوْا یَرَوْنَ أَنَّہَا نَزَلَتْ فِیہِ وَفِی أَصْحَابِہِ۔ (مسند احمد: ۱۳۰۴۶)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میرے چچا سیدنا انس بن نضر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بدر کے دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ حاضر نہ ہوئے تھے، اسی چچا کے نام پر میرا نام بھی انس رکھا گیا، اس کا انہیں بہت قلق تھا، وہ کہا کرتے تھے: بدر پہلا معرکہ تھا، جس میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حاضر ہوئے اور میں حاضر نہ ہو سکا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی اور معرکے کا موقع دیا تو وہ دیکھے گا کہ میں کرتا کیا ہوں، پھر وہ مزید کوئی دعوی کرنے سے ڈر گئے، پھر سیدنا انس بن نضر احد کے دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ شریک ہوئے، سیدنا سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سامنے آرہے تھے،سیدنا انس بن نضر نے ان سے کہا : ابو عمرو! کہاں جا رہے ہو؟ انھوں نے کہا: آہ، میں احد کی جانب سے جنت کی خوشبو پا رہا ہوں۔پھر سیدنا انس لڑتے رہے، یہاں تک کہ شہید ہوگئے، ان کے جسم میں تلوار، نیزے اور تیر کے اسی (۸۰) سے زائد زخم آئے تھے۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ان کی بہن یعنی میری پھوپھی ربیع بنت نضر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اپنے بھائی کو پوروں سے پہچانا تھا کہ یہ ان کے بھائی ہیں، پس یہ آیت نازل ہوئی: {رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْہُمْ مَنْ قَضٰی نَحْبَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیلًا} … کچھ مرد ایسے ہیں کہ انہوں نے اپنے اللہ سے جو عہد کیا تھا، وہ سچا کر دکھایا، پس ان میں سے بعض وہ ہیں، جنہوں نے اپنینذر کو پورا کر دیا اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو انتظار کررہے ہیں اور انہوں نے اپنے وعدوں میں ذرہ برابر تبدیلی نہیںکی۔ صحابہ کا یہی خیال تھا کہ یہ آیت سیدنا انس بن نضر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے ساتھیوں (جیسے سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) کے بارے میں نازل ہوئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11644

۔ (۱۱۶۴۴)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((اَلَا اُخْبِرُکُمْ بِاَھْلِ النَّارِ وَاَھْلِ الْجَنَّۃِ؟ اَمَّا اَھْلُ الْجَنَّۃِ، فَکُلُّ ضَعِیْفٍ مُتَضَعِّفٍ اَشَعَثَ ذِیْ طِمْرَیْنِ لَوْ اَقَسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَاَبَرَّہُ، وَاَمَّا اَھْلُ النَّارِ فَکُلُّ جَعْظَرِیٍّ جَوَّاظٍ جَمَّاعٍ مَنَّاعٍ ذِیْ تَبَعٍ۔)) (مسند احمد: ۱۲۵۰۴)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں اہلِ جہنم اور اہلِ جنت کے بارے میں بتلا نہ دوں؟ جنتی لوگ یہ ہیں: ہر کمزور، جس کو کمزور سمجھا جاتا ہے، پراگندہ بالوں والا اور دو بوسیدہ پرانے کپڑوں والا، (لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں اتنی وقعت والا ہے کہ) اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم اٹھا دے تو وہ بھی اس کی قسم پوری کر دیتا ہے۔ اور جہنمی لوگ یہ ہیں: ہر بدمزاج (و بدخلق)،اکڑ کر چلنے والا، بہت زیادہ مال جمع کرنے والا اور بہت زیادہ بخل کرنے والا اور دوسرے لوگ جس کی پیروی کرتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11645

۔ (۱۱۶۴۵)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ، اَنَّ أَبَاہٗ غَزَا مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سِتَّ عَشَرَۃَ غَزْوَۃً۔ (مسند احمد: ۲۳۳۴۱)
سیدنا عبداللہ بن بریدہ سے مروی ہے کہ ان کے والد سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ سولہ غزوات میں شرکت کی سعادت حاصل رہی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11646

۔ (۱۱۶۴۶)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا بِلَالُ حَدِّثْنِی بِأَرْجٰی عَمَلٍ عَمِلْتَہُ فِی الْإِسْلَامِ عِنْدَکَ مَنْفَعَۃً، فَإِنِّی سَمِعْتُ اللَّیْلَۃَ خَشْفَ نَعْلَیْکَ بَیْنَ یَدَیَّ فِی الْجَنَّۃِ۔)) فَقَالَ بِلَالٌ: مَا عَمِلْتُ عَمَلًا فِی الْإِسْلَامِ أَرْجٰی عِنْدِی مَنْفَعَۃً إِلَّا أَنِّی لَمْ أَتَطَہَّرْ طُہُورًا تَامًّا فِی سَاعَۃٍ مِنْ لَیْلٍ أَوْ نَہَارٍ إِلَّا صَلَّیْتُ بِذٰلِکَ الطُّہُورِ مَا کَتَبَ اللّٰہُ لِی أَنْ أُصَلِّیَ۔ (مسند احمد: ۹۶۷۰)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے بلال! تم ایسا کون سا عمل کرتے ہو کہ تمہیں اسلام میں اس کے بہت زیادہ نفع یعنی ثو اب کی امید ہو؟ کیونکہ میں نے آج رات جنت میں اپنے آگے آگے تمہارے جوتوں کی آہٹ سنی ہے۔ سیدنا بلا ل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: میں نے اسلام میں اور تو کوئی ایسا عمل نہیں کیا، جس پر مجھے یہ ثواب ملا ہو،البتہ میرا معمول ہے کہ میں دن رات میںجب بھی وضو کرتا ہوں تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ مجھے جس قدر توفیق دیتا ہے، میں نماز ادا کر لیتا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11647

۔ (۱۱۶۴۷)۔ عَنْ بُرَیْدَۃَ الْأَسْلَمِیِّ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِمَعْنَاہٗ وَفِیْہِ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِبِلَالٍ: ((بِمَ سَبَقْتَنِیْ اِلَی الْجَنَّۃِ؟)) فَقَالَ: مَا أُحْدِثُ إِلَّا تَوَضَّأْتُ وَصَلَّیْتُ رَکْعَتَیْنِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بِہٰذَا۔)) (مسند احمد: ۲۳۳۸۴)
سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے گزشتہ حدیث کے ہم معنی حدیث روایت کی ہے،البتہ اس میں یہ وضاحت ہے: رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: تم کس عمل کی بدولت جنت میں مجھ سے پہلے پہنچ گئے۔ انہوں نے عرض کیا: میں کوئی خاص عمل تو نہیں کرتا البتہ جب بھی بے وضو ہوتا ہوں تو وضو کرتا ہوں اور پھر دور رکعت نماز ادا کرتا ہوں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بس اسی عمل کی وجہ سے ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11648

۔ (۱۱۶۴۸)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَیْلَۃً أُسْرِیَ بِنَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَدَخَلَ الْجَنَّۃَ فَسَمِعَ مِنْ جَانِبِھَا وَجْسًا قَالَ: ((یَاجِبْرِیْلُ! مَاھٰذَا؟)) قَالَ: ھٰذَا بِلَالٌ الْمُؤَذِّنُ، فَقَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِیْنَ جَائَ اِلَی النَّاسِ: ((قَدْ أَفْلَحَ بِلَالٌ، رَأَیْتُ لَہُ کَذَا وَکَذَا۔)) (مسند احمد: ۲۳۲۴)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ جس رات کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اسراء کرایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جنت میں داخل ہوئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی ایک طرف سے ہلکی سی آواز سنی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: اے جبریل! یہ آواز کون سی ہے؟ انھوں نے کہا: یہ بلال مؤذن ہے، پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں کے پاس آئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تحقیق بلال کامیاب ہو گیا ہے،میں نے اس کے لیےیہ کچھ دیکھا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11649

۔ (۱۱۶۴۹)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، إِنَّ بِلَالًا أَبْطَأَ عَنِ صَلَاۃِ الصُّبْحِ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا حَبَسَکَ؟)) فَقَالَ: مَرَرْتُ بِفَاطِمَۃَ وَھِیْ تَطْحَنُ وَالصَّبِیُّ یَبْکِیْ، فَقُلْتُ لَہَا: اِنْ شِئْتِ کَفَیْتُکِ الرَّحَا وَکَفَیْتِنِیَ الصَّبِیَّ، وَاِنْ شِئْتِ کَفَیْتُکِ الصَّبِیَّ وَکَفَیْتِنِیَ الرَّحَا، فَقَالَتْ: أَنَا أَرْفَقُ بِاِبْنِیْ مِنْکَ فَذَاکَ حَبَسَنِیْ قَالَ: ((فَرَحِمْتَہَا رَحِمَکَ اللّٰہُ۔)) (مسند احمد: ۱۲۵۵۲)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نمازِ فجر سے پیچھے رہ گئے،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: کہاں رک گئے تھے؟ انھوں نے کہا: میں سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس سے گزرا، وہ چکی چلا رہی تھیں اور بچہ رو رہا تھا۔ میں نے ان سے عرض کیا: آپ چاہیں تو میں چکیچلا دوں اور آپ بچے کو سنبھالیںیا میں بچے کو سنبھال لوں اور آپ چکی چلائیں، انھوں نے کہا: تمہاری نسبت بچے پر میں زیادہ شفیق اور مہربان ہوں، تو اس کام نے مجھے نماز سے دیر کرا دی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا پر شفقت کی، اللہ تم پر رحم فرمائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11650

۔ (۱۱۶۵۰)۔ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ اَنَّ شَاعِرًا قَالَ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: وَبِلَالُ عَبْدِ اللّٰہِ خَیْرُ بِلَالٖ، فَقَالَ لَہُ ابْنُ عُمَرُ: کَذَبْتَ ذَاکَ بِلَالُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۵۶۳۸)
سالم بن عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ایک شاعر نے ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سامنے ان کے بیٹے بلال کی وفات پر ایک قصیدہ پڑھتے ہوئے کہا: عبد اللہ کا بلال، بہترین بلال تھا۔یہ سن کر سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم غلط کہہ رہے ہو، یہ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا بلال تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11651

۔ (۱۱۶۵۱)۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: تُوُفِّیَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ یَعْنِی أَبَاہُ أَوِ اسْتُشْہِدَ وَعَلَیْہِ دَیْنٌ، فَاسْتَعَنْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی غُرَمَائِہِ أَنْ یَضَعُوا مِنْ دَیْنِہِ شَیْئًا، فَطَلَبَ إِلَیْہِمْ فَأَبَوْا، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اذْہَبْ فَصَنِّفْ تَمْرَکَ أَصْنَافًا الْعَجْوَۃَ عَلٰی حِدَۃٍ، وَعِذْقَ زَیْدٍ عَلٰی حِدَۃٍ، وَأَصْنَافَہُ، ثُمَّ ابْعَثْ إِلَیَّ۔)) قَالَ: فَفَعَلْتُ فَجَائَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَلَسَ عَلٰی أَعْلَاہُ أَوْ فِی وَسَطِہِ ثُمَّ قَالَ: ((کِلْ لِلْقَوْمِ۔)) قَالَ: فَکِلْتُ لِلْقَوْمِ حَتّٰی أَوْفَیْتُہُمْ وَبَقِیَ تَمْرِی کَأَنَّہُ لَمْ یَنْقُصْ مِنْہُ شَیْئٌ۔ (مسند احمد: ۱۴۴۱۱)
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ان کے والد عبداللہ بن عمرو بن حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شہید ہو گئے اور ان کے ذمے کافی قرض تھا، میں نے قرض خواہوں کو ادائیگی کے سلسلہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے تعاون کی درخواست کی کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ وہ اپنے قرض میں سے کچھ معاف کر دیں،لیکن ان لوگوں نے یہ رعایت دینے سے انکار کر دیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم جا کر ہر قسم کی کجھور الگ الگ کر دو، عجوہ الگ رکھو، عذق زید الگ رکھو اور اس کے بعد مجھے اطلاع دو۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے آپ کی ہدایت کے مطابق سارا کام کیا،پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اور کھجور کے سب سے اونچے یا سب سے درمیان والے ڈھیر پربیٹھ گئے اور مجھ سے فرمایا: تم پیمانے بھر بھر کر ان لوگوں کو ادائیگی کرتے جائو۔ میں نے ایسے ہی کیا کہ پیمانے بھر بھر کر ان لوگوں کا قرض چکا دیا اور میری کھجوریں اسی طرح باقی رہیں گویا ان میں کچھ بھی کمی نہیں ہوئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11652

۔ (۱۱۶۵۲)۔ حَدَّثَنَا أَبُو الْمُتَوَکِّلِ قَالَ: أَتَیْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ، فَقُلْتُ: حَدِّثْنِی بِحَدِیثٍ شَہِدْتَہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: تُوُفِّیَ وَالِدِی وَتَرَکَ عَلَیْہِ عِشْرِینَ وَسْقًا تَمْرًا دَیْنًا وَلَنَا تُمْرَانٌ شَتّٰی، وَالْعَجْوَۃُ لَا یَفِی بِمَا عَلَیْنَا مِنَ الدَّیْنِ، فَأَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لَہُ فَبَعَثَ إِلٰی غَرِیمِی فَأَبٰی إِلَّا أَنْ یَأْخُذَ الْعَجْوَۃَ کُلَّہَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((انْطَلِقْ فَأَعْطِہِ۔)) فَانْطَلَقْتُ إِلَی عَرِیشٍ لَنَا أَنَا وَصَاحِبَۃٌ لِی فَصَرَمْنَا تَمْرَنَا، وَلَنَا عَنْزٌ نُطْعِمُہَا مِنَ الْحَشَفِ قَدْ سَمُنَتْ، إِذَا أَقْبَلَ رَجُلَانِ إِلَیْنَا إِذَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعُمَرُ، فَقُلْتُ: مَرْحَبًا یَا رَسُولَ اللّٰہِ مَرْحَبًا یَا عُمَرُ، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا جَابِرُ! انْطَلِقْ بِنَا حَتّٰی نَطُوفَ فِی نَخْلِکَ ہٰذَا۔)) فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَطُفْنَا بِہَا وَأَمَرْتُ بِالْعَنْزِ فَذُبِحَتْ، ثُمَّ جِئْنَا بِوِسَادَۃٍ فَتَوَسَّدَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِوِسَادَۃٍ مِنْ شَعْرٍ حَشْوُہَا لِیفٌ، فَأَمَّا عُمَرُ فَمَا وَجَدْتُ لَہُ مِنْ وِسَادَۃٍ، ثُمَّ جِئْنَا بِمَائِدَۃٍ لَنَا عَلَیْہَا رُطَبٌ وَتَمْرٌ وَلَحْمٌ فَقَدَّمْنَاہُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعُمَرَ فَأَکَلَا، وَکُنْتُ أَنَا رَجُلًا مِنْ نِشْوِیِّ الْحَیَائُ، فَلَمَّا ذَہَبَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَنْہَضُ، قَالَتْ صَاحِبَتِی: یَا رَسُولَ اللّٰہِ دَعَوَاتٌ مِنْکَ، قَالَ: ((نَعَمْ، فَبَارَکَ اللّٰہُ لَکُمْ۔)) قَالَ: نَعَمْ، فَبَارَکَ اللّٰہُ لَکُمْ، ثُمَّ بَعَثْتُ بَعْدَ ذٰلِکَ إِلٰی غُرَمَائِی فَجَائُ وْا بِأَحْمِرَۃٍ وَجَوَالِیقَ، وَقَدْ وَطَّنْتُ نَفْسِی أَنْ أَشْتَرِیَ لَہُمْ مِنَ الْعَجْوَۃِ، أُوفِیہِمُ الْعَجْوَۃَ الَّذِی عَلٰی أَبِی فَأَوْفَیْتُہُمْ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ عِشْرِینَ وَسْقًا مِنَ الْعَجْوَۃِ وَفَضَلَ فَضْلٌ حَسَنٌ، فَانْطَلَقْتُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُبَشِّرُہُ بِمَا سَاقَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَیَّ، فَلَمَّا أَخْبَرْتُہُ قَالَ: ((اللَّہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ، اللَّہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ۔)): فَقَالَ لِعُمَرَ: ((إِنَّ جَابِرًا قَدْ أَوْفٰی غَرِیمَہُ۔)) فَجَعَلَ عُمَرُ یَحْمَدُ اللّٰہَ۔ (مسند احمد: ۱۵۰۶۹)
ابو المتوکل کہتے ہیں: میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں جا کر عرض کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا کوئی ایسا واقعہ سنائیں جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود مشاہدہ کیا ہو، انہوںنے بیان کیا کہ میرے والد کی وفات ہوئی تو ان کے ذمے بیس وسق کھجوروں کا قرض تھا (ایک وسق تقریباً۱۳۰ کلو کے برابر ہوتا ہے)، ہمارے پاس عجوہ اور مختلف قسم کی اتنی کھجوریں تھیںکہ ان سے ہمارا قرض پورا ادا نہ ہو سکتا تھا۔ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جا کر صورت حال کا ذکر کیا، آپ نے میرے قرض خواہ کو پیغام بھیجا کہ وہ کچھ رعایت کر دے، مگر اس نے رعایت دینے سے انکار کیا اور اصرار کیا کہ وہ تو عجوہ کھجور ہی لے گا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم جا کر اسے عجوہ ہی کی ادائیگی کر دو۔ میں اور میری بیوی اپنے باغ میں گئے، ہم نے کھجوریں اتاریں،ہماری ایک بکری تھی جسے ہم ردی ردی کھجوریں کھلایا کرتے تھے۔ وہ کھجوریں کھا کھا کر خوب موٹی تازی ہو چکی تھی، میں نے اچانک دیکھا تو دو آدمی آرہے تھے، ایک اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور دوسرے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مرحبا، عمر! مرحبا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: جابر! آئو ہم تمہاری کھجوروں میں گھوم کر آئیں۔ میں نے عرض کیا: جی ٹھیک ہے۔ چنانچہ ہم نے باغ میں چکر لگایا اور میں نے بکری کے ذبح کرنے کا کہا، اس کو ذبح کر دیا گیا۔ پھر ہم بالوں کا بنا ہوا ایک تکیہ لائے جس کے اندر کھجور کی جالی بھر ی گئی تھی، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دینے کے لیے ہمارے پاس تکیہ دستیاب نہ ہو سکا، پھر ہم نے دستر خوان پر تازہ اور خشک کھجور اور گوشت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے پیش کیا، ان دونوں نے کھانا کھایا، میں اور ایک ایسا آدمی تھا کہ جھجک رہا تھا۔ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جانے لگے تو میری اہلیہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ کی دعائوں کی ضرورت ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے، اللہ تمہارے رزق میں برکت فرمائے گا، اللہ تمہارے رزق میں برکت فرمائے۔ اس کے بعد میں نے اپنے قرض خواہوں کو پیغام بھیجا، وہ گدھے اور بورے لے کر آگئے، میں پختہ ارادہ کر چکا تھا کہ ان کے لیے عجوہ یعنی عمدہ قسم کی کھجور خرید کر میں اپنے والد کے ذمے عجوہ کھجور کی ادائیگی کروں گا۔ اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے پورے بیس وسق عجوہ کھجور کے پورے ادا کر دیئے اور کافی ساری کھجور بچ رہی۔ میں نے جا کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ خوش خبری دی کہ کس طرح اللہ نے میرے مال میں برکت فرمائی۔ جب میں نے آپ کو یہ بات بتلائی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یا اللہ تیرا شکر ہے۔ آپ نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بھی بتلایا کہ جابر نے اپنے قرض خواہوں کو پورا پورا قرض ادا کر دیا ہے، وہ بھی اللہ کی تعریفیں کرنے لگے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11653

۔ (۱۱۶۵۳)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ نُبَیْحٍ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَسْتَعِینُہُ فِی دَیْنٍ کَانَ عَلٰی أَبِی، قَالَ: فَقَالَ: ((آتِیکُمْ۔)) قَالَ: فَرَجَعْتُ فَقُلْتُ لِلْمَرْأَۃِ: لَا تُکَلِّمِی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَا تَسْأَلِیہِ، قَالَ: فَأَتَانَا فَذَبَحْنَا لَہُ دَاجِنًا کَانَ لَنَا، فَقَالَ: ((یَا جَابِرُ! کَأَنَّکُمْ عَرَفْتُمْ حُبَّنَا اللَّحْمَ۔)) قَالَ: فَلَمَّا خَرَجَ، قَالَتْ لَہُ الْمَرْأَۃُ: صَلِّ عَلَیَّ وَعَلٰی زَوْجِی أَوْ صَلِّ عَلَیْنَا؟ قَالَ: فَقَالَ: ((اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَیْہِمْ۔)) قَالَ: فَقُلْتُ لَہَا: أَلَیْسَ قَدْ نَہَیْتُکِ؟ قَالَتْ: تَرٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَدْخُلُ عَلَیْنَا وَلَا یَدْعُو لَنَا۔ (مسند احمد: ۱۴۲۹۵)
۔ (دوسری سند) سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میرے والد کے ذمے قرض تھا، میں اس کی ادائیگی کے سلسلے میں تعاون کے لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہارے پاس آئوں گا۔ میں نے جا کر اپنی اہلیہ سے کہہ دیا کہ تم اس بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کچھ نہ کہنا اور نہ کچھ مانگنا۔ آپ ہمارے ہاں تشریف لائے۔ آپ کی تشریف آوری پر ہم نے ایک بکریذبح کی، آپ نے گوشت دیکھ کر فرمایا: جابر! لگتا ہے تمہیںپتہ چل گیا کہ ہمیں گوشت پسند ہے۔ کھانے سے فارغ ہو کر آپ جانے لگے تو میری اہلیہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے درخواست کی: اے اللہ کے رسول! آپ میرے لیے اور میرے شوہر کے حق میں دعائے رحمت کر دیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یا اللہ ! ان پر رحمتیں نازل فرما۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے اپنی اہلیہ سے کہا، کیا میں نے تمہیں منع نہیں کیا تھا؟ وہ بولی: تم جانتے ہو کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس سے پہلے ہمارے ہاں تشریف لاتے اور ہمارے حق میں دعا نہیں فرماتے تھے، (اس لیے میں نے دعا کی درخواست کی)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11654

۔ (۱۱۶۵۴)۔ عَنْ سَالِمِ بْنِ الْجَعْدِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی سَفَرٍ، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ الْمَدِینَۃِ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی حَدِیثُ عَہْدٍ بِعُرْسٍ فَأْذَنْ لِی فِی أَنْ أَتَعَجَّلَ إِلٰی أَہْلِی، قَالَ: ((أَفَتَزَوَّجْتَ؟)) قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ((بِکْرًا أَمْ ثَیِّبًا؟)) قَالَ: قُلْتُ: ثَیِّبًا، قَالَ: ((فَہَلَّا بِکْرًا تُلَاعِبُہَا وَتُلَاعِبُکَ وَفِیْ رِوَایَۃٍ تُلَاعِبُکَ وَتُلَاعِبُھَا وَتُضَاحِکُکَ وَتُضَاھِکُھَا)) قَالَ: قُلْتُ: إِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ ہَلَکَ وَتَرَکَ عَلَیَّ جَوَارِیَ فَکَرِہْتُ أَنْ أَضُمَّ إِلَیْہِنَّ مِثْلَہُنَّ، فَقَالَ: ((لَا تَأْتِ أَہْلَکَ طُرُوقًا۔)) قَالَ: وَکُنْتُ عَلٰی جَمَلٍ فَاعْتَلَّ، قَالَ: فَلَحِقَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا فِی آخِرِ النَّاسِ قَالَ: فَقَالَ: ((مَا لَکَ یَا جَابِرُ؟)) قَالَ: قُلْتُ: اعْتَلَّ بَعِیرِی، قَالَ: ((فَأَخَذَ بِذَنَبِہِ۔)) ثُمَّ زَجَرَہُ قَالَ: فَمَا زِلْتُ إِنَّمَا أَنَا فِی أَوَّلِ النَّاسِ یَہُمُّنِی رَأْسُہُ، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنَ الْمَدِینَۃِ قَالَ: قَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا فَعَلَ الْجَمَلُ؟)) قُلْتُ: ہُوَ ذَا، قَالَ: ((فَبِعْنِیہِ۔)) (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَقَالَ: أَتَبِیْعُنِیْہِ بِکَذَا وَکَذَا وَاللّٰہُ یَغْفِرُلَکَ) قُلْتُ: لَا بَلْ ھُوَ لَکَ، قَالَ ((بِعْنِیْہِ۔)) (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَزَادَنِیْ قَالَ: أَتَبِیْعُنِیْہِ بِکَذَا وَکَذَا وَاللّٰہُ یَغْفِرُ لَکَ) قُلْتُ: ہُوَ لَکَ، قَالَ: ((لَا قَدْ أَخَذْتُہُ بِأُوقِیَّۃٍ ارْکَبْہُ فَإِذَا قَدِمْتَ فَأْتِنَا بِہِ۔)) قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ جِئْتُ بِہِ، فَقَالَ: ((یَا بِلَالُ زِنْ لَہُ وُقِیَّۃً وَزِدْہُ قِیرَاطًا۔)) قَالَ: قُلْتُ: ہٰذَا قِیرَاطٌ زَادَنِیہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا یُفَارِقُنِی أَبَدًا حَتّٰی أَمُوتَ، قَالَ: فَجَعَلْتُہُ فِی کِیسٍ، فَلَمْ یَزَلْ عِنْدِی حَتّٰی جَائَ أَہْلُ الشَّامِ یَوْمَ الْحَرَّۃِ فَأَخَذُوْہٗ فِیْمَا أَخَذُوْہُ۔ (مسند احمد: ۱۴۴۲۹)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں ایک سفر میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، واپسی پر جب ہم مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری نئی نئی شادی ہوئی ہے، اجازت ہو تو میں ذرا جلدییعنی دوسروں سے پہلے گھر چلا جائوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: کیا تم نے شادی کر لی ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: وہ کنواری ہے یا بیوہ؟ میں نے عرض کیا: جی وہ بیوہ ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے کنواری سے نکاح کیوں نہیں کیا؟ وہ تمہارے ساتھ اور تم اس کے ساتھ خوب کھیلتے؟ ۔ ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں: تم اس کے ساتھ اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی، اور وہ تمہیں ہنساتی اور تم اسے ہنساتے۔ میں نے عرض کیا: (میرے والد) عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا انتقال اس حال میں ہوا ہے کہ ان کے بعد میری(سات) جو ان بہنیں میری کفالت میں ہیں،میں نے ان پر ان کی ہم عمر عورت کو (بیوی کے طور پر لانا) مناسب نہیں سمجھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنے گھر رات کو یعنی بلا اطلاع نہ جانا۔ میں ایک اونٹ پر سوار تھا، و ہ بیمار پڑ گیا، میں سب سے پیچھے آہستہ آہستہ چلا جا رہا تھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے آ ملے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جابر! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میرا اونٹ بیمار پڑ گیا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی دم پکڑ کراسے ذرا ڈانٹا، دیکھتے ہی دیکھتے میں سب سے آگے نکل گیا، میں اس کی مہار کو کھینچ کھینچ کر اس کے سر کو پیچھے کی طرف لاتا تاکہ اس کی رفتار ذرا کم ہو، جب ہم مدینہ منورہ کے قریب آ پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تمہارا اونٹ کہاں ہے؟ میں نے عرض کیا: جییہ ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اسے میرے ہاتھ بیچ دو۔ دوسری روایت کے لفظ یوں ہیں: آپ نے فرمایا: اللہ تمہاری مغفرت کرے، کیا تم اسے میرے ہاتھ فروخت کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا: میں اسے آپ کے ہاتھ فروخت نہیں کرتا بلکہ یہ (بلاعوض) آپ ہی کا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : میں بلا معاوضہ نہیں لوں گا، تم اسے میرے ہاتھ بیچ دو۔ ایک روایت میں ہے:آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قیمت میں پہلے سے اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: کیا تم اتنے میں اسے میرے ہاتھ بیچتے ہو؟ اللہ تمہاری مغفرت فرمائے۔ میں نے عرض کیا: یہ آپ ہی کا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، میں اسے ایک اوقیہ سونے کے عوض خریدتا ہوں۔ مدینہ منورہ پہنچ کر اسے ہمارے حوالے کر دینا۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں جب مدینہ منورہ پہنچا تو اونٹ کو آپ کی خدمت میں لے گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بلال! تم ایک اوقیہ سونا اور مزید ایک قیراط تول کر اسے دے دو۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: قیراط زائد سونا رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے عنایت فرمایا،یہ میرے مرنے تک میرے پاس رہے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اسے اپنی جیب میںیا تھیلی میں رکھتا تھا اور وہ میرے پاس ہی موجود رہا یہاں تک کہ حرہ کی لڑائی کے دن جب اہل شام آئے تو ہمارے ہاں سے لوٹے ہوئے مال میں اسے بھی لوٹ کے گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11655

۔ (۱۱۶۵۵)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: فَقَدْتُ جَمَلِی لَیْلَۃً فَمَرَرْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یَشُدُّ لِعَائِشَۃَ، قَالَ: فَقَالَ لِی: ((مَا لَکَ یَا جَابِرُ؟)) قَالَ: قُلْتُ: فَقَدْتُ جَمَلِی أَوْ ذَہَبَ جَمَلِی فِی لَیْلَۃٍ ظَلْمَائَ، قَالَ: فَقَالَ لِی: ((ہَذَا جَمَلُکَ اذْہَبْ فَخُذْہُ۔)) قَالَ: فَذَہَبْتُ نَحْوًا مِمَّا قَالَ لِی فَلَمْ أَجِدْہُ، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَیْہِ فَقُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! مَا وَجَدْتُہُ، قَالَ: فَقَالَ لِی: ((ہٰذَا جَمَلُکَ اذْہَبْ فَخُذْہُ۔)) قَالَ: فَذَہَبْتُ نَحْوًا مِمَّا قَالَ لِی فَلَمْ أَجِدْہُ، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَیْہِ فَقُلْتُ بِأَبِی وَأُمِّی یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! لَا وَاللّٰہِ مَا وَجَدْتُہُ، قَالَ: فَقَالَ لِی: ((عَلٰی رِسْلِکَ۔)) حَتّٰی إِذَا فَرَغَ أَخَذَ بِیَدِی فَانْطَلَقَ بِی حَتّٰی أَتَیْنَا الْجَمَلَ فَدَفَعَہُ إِلَیَّ، قَالَ: ((ہٰذَا جَمَلُکَ۔)) قَالَ: وَقَدْ سَارَ النَّاسُ، قَالَ: ((فَبَیْنَمَا أَنَا أَسِیرُ عَلٰی جَمَلِی فِی عُقْبَتِی۔)) قَالَ: وَکَانَ جَمَلًا فِیہِ قِطَافٌ، قَالَ: قُلْتُ: یَا لَہْفَ أُمِّی أَنْ یَکُونَ لِی إِلَّا جَمَلٌ قَطُوفٌ، قَالَ: وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْدِی یَسِیرُ، قَالَ: فَسَمِعَ مَا قُلْتُ، قَالَ: فَلَحِقَ بِی، فَقَالَ: ((مَا قُلْتَ یَا جَابِرُ قَبْلُ؟)) قَالَ: فَنَسِیتُ مَا قُلْتُ، قَالَ: قُلْتُ: مَا قُلْتُ شَیْئًا یَا نَبِیَّ اللّٰہِ!، قَالَ: فَذَکَرْتُ مَا قُلْتُ، قَالَ: قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ یَا لَہْفَاہُ أَنْ یَکُونَ لِی إِلَّا جَمَلٌ قَطُوفٌ، قَالَ: فَضَرَبَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَجُزَ الْجَمَلِ بِسَوْطٍ أَوْ بِسَوْطِی، قَالَ: فَانْطَلَقَ أَوْضَعَ أَوْ أَسْرَعَ جَمَلٍ رَکِبْتُہُ قَطُّ وَہُوَ یُنَازِعُنِی خِطَامَہُ، قَالَ: فَقَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَنْتَ بَائِعِی جَمَلَکَ ہٰذَا؟)) قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ((بِکَمْ؟)) قَالَ: قُلْتُ: بِوُقِیَّۃٍ، قَالَ: قَالَ لِی: ((بَخٍ بَخٍ، کَمْ فِی أُوقِیَّۃٍ مِنْ نَاضِحٍ وَنَاضِحٍ؟)) قَالَ: قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ مَا بِالْمَدِینَۃِ نَاضِحٌ أُحِبُّ أَنَّہُ لَنَا مَکَانَہُ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((قَدْ أَخَذْتُہُ بِوُقِیَّۃٍ۔)) قَالَ: فَنَزَلْتُ عَنِ الرَّحْلِ إِلَی الْأَرْضِ، قَالَ: ((مَا شَأْنُکَ۔)) قَالَ: قُلْتُ: جَمَلُکَ، قَالَ: قَالَ لِی: ((ارْکَبْ جَمَلَکَ۔)) قَالَ: قُلْتُ: مَا ہُوَ بِجَمَلِی وَلٰکِنَّہُ جَمَلُکَ، قَالَ: کُنَّا نُرَاجِعُہُ مَرَّتَیْنِ فِی الْأَمْرِ إِذَا أَمَرَنَا بِہِ فَإِذَا أَمَرَنَا الثَّالِثَۃَ لَمْ نُرَاجِعْہُ، قَالَ: فَرَکِبْتُ الْجَمَلَ حَتّٰی أَتَیْتُ عَمَّتِی بِالْمَدِینَۃِ، قَالَ: وَقُلْتُ لَہَا: أَلَمْ تَرَیْ أَنِّی بِعْتُ نَاضِحَنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِأُوقِیَّۃٍ؟ قَالَ: فَمَا رَأَیْتُہَا أَعْجَبَہَا ذٰلِکَ، قَالَ: وَکَانَ نَاضِحًا فَارِہًا، قَالَ: ثُمَّ أَخَذْتُ شَیْئًا مِنْ خَبَطٍ أَوْجَرْتُہُ إِیَّاہُ، ثُمَّ أَخَذْتُ بِخِطَامِہِ فَقُدْتُہُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُقَاوِمًا رَجُلًا یُکَلِّمُہُ، قَالَ: قُلْتُ: دُونَکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ جَمَلَکَ، قَالَ: فَأَخَذَ بِخِطَامِہِ ثُمَّ نَادَی بِلَالًا، فَقَالَ: ((زِنْ لِجَابِرٍ أُوقِیَّۃً وَأَوْفِہِ۔)) فَانْطَلَقْتُ مَعَ بِلَالٍ فَوَزَنَ لِی أُوقِیَّۃً وَأَوْفٰی مِنَ الْوَزْنِ، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ قَائِمٌ یُحَدِّثُ ذٰلِکَ الرَّجُلَ، قَالَ: قُلْتُ لَہُ: قَدْ وَزَنَ لِی أُوقِیَّۃً وَأَوْفَانِی، قَالَ: فَبَیْنَمَا ہُوَ کَذٰلِکَ إِذْ ذَہَبْتُ إِلٰی بَیْتِی وَلَا أَشْعُرُ، قَالَ: ((فَنَادٰی أَیْنَ جَابِرٌ؟)) قَالُوْا: ذَہَبَ إِلٰی أَہْلِہِ، قَالَ: أَدْرِکْ ائْتِنِی بِہِ، قَالَ: فَأَتَانِی رَسُولُہُ یَسْعٰی، قَالَ: یَا جَابِرُ یَدْعُوکَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَأَتَیْتُہُ، فَقَالَ: ((فَخُذْ جَمَلَکَ۔)) قُلْتُ: مَا ھُوَ جَمَلِیْ وَإِنَّمَا ھُوَ جَمَلُکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((خُذْ جَمَلَکَ۔)) قَالَ: فَأَخَذْتُہُ، قَالَ: فَقَالَ: ((لَعَمْرِیْ مَا نَفَعْنَاکَ لِنُنْزِلَکَ عَنْہٗ۔)) قَالَ: فَجِئْتُ إِلٰی عَمَّتِیْ وَالنَّاضِحُ مَعِیْ وَبِالْوَقِیَّۃِ، قَالَ: فَقُلْتُ لَھَا: مَا تُرِیْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَعْطَانِیْ أَوْقِیَّۃً وَرَدَّ عَلَیَّ جَمَلِیْ۔ (مسند احمد: ۱۴۹۲۵)
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک رات میرا اونٹ گم ہوگیا، اس کی تلاش میں میرا گزر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے ہوا۔ آپ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے لیے اونٹ کو تیار کر رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا: جابر! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا: رات اندھیری ہے اور میرا اونٹ گم ہو گیا ہے۔آ پ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارا اونٹ وہاں ہے، جا کر اسے پکڑ لو۔ آپ نے جس طرح اشارہ فرمایا تھا، میں ادھر کو گیا لیکن اونٹ تو مجھے نہ ملا، میں آپ کی خدمت میں واپس آیا اور میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میرے باپ اور ماں آپ پر فدا ہوں،مجھے تو اونٹ نہیں ملا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارا اونٹ وہیں ہے، جا کر اسے پکڑ لو۔ آپ نے جس طرف کا اشارہ کیا تھا، میں ادھر گیا، لیکن اونٹ مجھے نہ ملا، میں نے واپس آکر عرض کیا: اے اللہ کے نبی ! اللہ کی قسم! اونٹ مجھے تو نہیں ملا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اچھا ٹھہرو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے کام سے فارغ ہو کر میرا ہاتھ پکڑا اور چل پڑے، یہاں تک کہ ہم چلتے چلتے اونٹ کے پاس جا پہنچے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ میرے حوالے کیا اور فرمایا: یہ اونٹ ہے۔ لوگ آگے جا چکے تھے، میں اپنے اونٹ پر سوار چلا جا رہا تھا، میرا اونٹ سست رفتار تھا، میں کہہ رہا تھا کہ کس قدر افسوس ہے کہ میرا اونٹ سست رفتار ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی میرے پیچھے پیچھے آرہے تھے۔ آپ نے میری بات سن لی۔ آپ مجھ سے آن ملے۔ اور فرمایا۔جابر! ابھی تم نے کیا کہا تھا؟ مجھے اپنی کہی ہوئی بات بھول چکی تھی۔ میں نے عرض کیا، اللہ کے نبی! میں نے تو کچھ نہیں کہا۔ پھر اچانک مجھے یہ بات یاد آگئی۔ تو میں نے عرض کیا، اللہ کے نبی میں نے کہا تھا، افسوس! میرا اونٹ کس قدر سست ہے تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اونٹ کے پچھلے حصے پر اپنییامیری لاٹھی ماری۔ جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ لاٹھی پڑتے ہی اونٹ اس قدر تیز دوڑا کہ میں آج تک کبھی بھی اس قدر تیز رفتار اونٹ پر سوار نہیں ہوا۔ وہ اپنی مہار مجھ سے چھڑاتا تھا اور قابو میں نہ آرہا تھا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا تم اپنا یہ اونٹ میرے ہاتھ فروخت کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا، جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: کتنے ہیں؟ میں نے عرض کیا، کہ ایک اوقیہ سونے کے عوض۔ آپ نے فرمایا بہت خوب، ایک اوقیہ کے کتنے اونٹ آتے ہیں؟ میں نے عرض کیا، اللہ کے نبی! پورے مدینہ میں ہمیں کوئی اونٹ اس سے زیادہ پیارا نہیں لگتا۔ تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک اوقیہ کے بدلے یہ اونٹ میں نے لے لیا۔یہ سنتے ہی میں اونٹ سے نیچے اتر آیا۔ آپ نے فرمایا: کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا کہ اب یہ اونٹ میرا نہیں بلکہ آپ کا ہے۔ آپ نے فرمایا: تم اپنے اونٹ پر سوار ہو جائو۔ میں نے کہا، اب یہ اونٹ میرا نہیں رہا۔ بلکہ آپ کا ہو چکا ہے۔ ہم نے دو مرتبہ یہ باتیں دہرائیں۔ اور تیسری دفعہ نہ دہرائی۔ اور میں اونٹ پر سوار ہو گیا۔ مدینہ منورہ جا کر میں اپنی پھوپھی جان کے پاس گیا۔ میں نے ان سے کہا کہ دیکھیں میں نے یہ اونٹ ایک اوقیہ سونے کے عو ض رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ فروخت کر دیا ہے۔ میں نے دیکھا کہ یہ سودا انہیں اچھا نہیں لگا، دراصل وہ اونٹ بڑا تیز اور طاقت ور تھا،میں نے ایک درخت کے پتے جھاڑ کر اونٹ کو کھلائے اور اس کی مہار پکڑ کر اسے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سپرد کر نے چلا۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی کے ساتھ محو گفتگو تھے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! آپ اپنا یہ اونٹ سنبھال لیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اونٹ کی مہار پکڑ لی اور سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: تم جابر کوایک اوقیہ سونا تول دو اور کچھ زیادہ دے دینا۔ میں بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ گیا، انہوںنے ایک اوقیہ سونا مجھے تول کر مزید بھی دے دیا، میں قیمت وصول کرکے واپس آیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابھی تک اس آدمی کے ساتھ محوکلام تھے۔ میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا: بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے ایک اوقیہ سونا اور کچھ مزید دے دیا ہے۔ آپ وہیں کھڑے تھے اور میں اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ میں اپنے خیالوں میں جا رہا تھا کہ آپ نے آواز دی: جابر کہاں ہے؟ صحابہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بتلایا کہ وہ تو اپنے گھر چلا گیا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا: جاؤ اور اسے میرے پاس بلا لائو۔ آپ کا قاصد دوڑتا ہوا میرے پاس آیا۔ اس نے کہا: جابر! آپ کو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بلایا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں پہنچا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنا اونٹ لے جائو۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ اونٹ میرا نہیں بلکہ اب تو آپ کا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنا اونٹ لے جائو۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اب یہ اونٹ میرا نہیں، بلکہ آپ کا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنا اونٹ لے جائو۔ چنانچہ میں نے اونٹ لے لیا، سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں ہم نے سوچا کہ اگر ہم آپ کے اس سودے سے منحرف ہوتے ہیں تو یہ بات ہمارے حق میں قطعاً مفید نہیں۔چنانچہ میں اپنی پھوپھی جان کے پاس گیا، اونٹ میرے ساتھ تھااور ایک اوقیہ سونا بھی میرے پاس تھا۔ میں نے پھوپھی جان کو بتلایا کہ دیکھیں اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ایک اوقیہ سونا بھی دیا ہے اور میرا اونٹ بھی مجھے واپس کر دیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11656

۔ (۱۱۶۵۶)۔ عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شِبْلٍ قَالَ: وَقَالَ جَرِیرٌ: لَمَّا دَنَوْتُ مِنَ الْمَدِینَۃِ أَنَخْتُ رَاحِلَتِی، ثُمَّ حَلَلْتُ عَیْبَتِی، ثُمَّ لَبِسْتُ حُلَّتِی، ثُمَّ دَخَلْتُ فَإِذَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَخْطُبُ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَسَلَّمْتُ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم )، فَرَمَانِی النَّاسُ بِالْحَدَقِ، فَقُلْتُ لِجَلِیسِی: یَا عَبْدَ اللّٰہِ! ذَکَرَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: نَعَمْ ذَکَرَکَ آنِفًا بِأَحْسَنِ ذِکْرٍ، فَبَیْنَمَا ہُوَ یَخْطُبُ إِذْ عَرَضَ لَہُ فِی خُطْبَتِہِ، وَقَالَ: ((یَدْخُلُ عَلَیْکُمْ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَقَالَ: أَنَّہٗ سَیَدْخُلُ عَلَیْکُمْ) مِنْ ہٰذَا الْبَابِ أَوْ مِنْ ہٰذَا الْفَجِّ مِنْ خَیْرِ ذِی یَمَنٍ إِلَّا أَنَّ عَلٰی وَجْہِہِ مَسْحَۃَ مَلَکٍ۔)) قَالَ جَرِیرٌ: فَحَمِدْتُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی مَا أَبْلَانِی۔ (مسند احمد: ۱۹۳۹۴)
سیدنا جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب میں مدینہ منورہ کے قریب پہنچا تو میں نے اپنی سواری کو بٹھا دیا، میں نے اپنا تھیلا کھولا، اپنا بہترین لباس زیب تن کیا اور اس کے بعد میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سلام کہا، لوگ مجھے بڑی توجہ سے دیکھنے لگے تو میں نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے شخص سے دریافت کیا: اے اللہ کے بندے! کیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کسی حوالے سے میرا ذکر کیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابھی ابھی تمہارا بڑے احسن انداز میں ذکر کیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے خطبے کے دوران ہی فرمایا: ابھی تمہارے پاس اس دروازے سے ایک شخص آرہا ہے، جو یمنکے بہترین لوگوں میں سے ہے، اس کے چہرے پر بادشاہ کی سی علامت ہو گی۔ پھر سیدنا جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے جن اعزازات سے نوا زا، میں نے ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11657

۔ (۱۱۶۵۷)۔ عَنْ جَرِیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: مَا حَجَبَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُنْذُ أَسْلَمْتُ وَلَا رَأْنِیْ إِلَّا تَبَسَّمَ فِیْ وَجْہِیْ۔ (مسند احمد: ۱۹۳۹۳)
سیدنا جریر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب سے میں نے اسلام قبو ل کیا ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے پاس آنے سے مجھے کبھی نہیں روکا اور آپ نے جب بھی مجھے دیکھا تو مسکرا دیئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11658

۔ (۱۱۶۵۸)۔ عَنْ قَیْسٍ قَالَ: قَالَ جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ: قَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَلَا تُرِیحُنِی مِنْ ذِی الْخَلَصَۃِ۔)) وَکَانَ بَیْتًا فِی خَثْعَمَ یُسَمَّی کَعْبَۃَ الْیَمَانِیَۃِ، فَنَفَرْتُ إِلَیْہِ فِی سَبْعِینَ وَمِائَۃِ فَارِسٍ مِنْ أَحْمَسَ، قَالَ: فَأَتَاہَا فَحَرَّقَہَا بِالنَّارِ وَبَعَثَ جَرِیرٌ بَشِیرًا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا أَتَیْتُکَ حَتّٰی تَرَکْتُہَا کَأَنَّہَا جَمَلٌ أَجْرَبُ، فَبَرَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی خَیْلِ أَحْمَسَ وَرِجَالِہَا خَمْسَ مَرَّاتٍ۔ (مسند احمد: ۱۹۴۰۲)
سیدنا جریر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: کیا تم مجھے ذوالخلصہ (بت خانہ) سے راحت نہیں پہنچا سکتے؟ وہ یمن کے قبیلہ خثعم میں ایک بت خانہ تھا، جسے یمنی کعبہ کہا جاتا تھا، چنانچہ میں ایک سو ستر (اور ایک روایت کے مطابق ایک سو پچاس) گھوڑ سواروں کو ساتھ لے کر روانہ ہوا، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا میں گھوڑے پر جم کر نہیں بیٹھ سکتا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے سینہ پر اپنا ہاتھ مبارک اس قدر زور سے مارا کہ میں نے آپ کی انگلیوں کے نشانات اپنے سینہ پر محسوس کئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ دعا دی: یا اللہ اسے جم کر بیٹھنے کی توفیق دے اور اسے راہ ہدایت دکھانے والا اور ہدایتیافتہ بنا دے۔ یہ اس بت خانے کی طرف گئے، جا کر اسے توڑ ڈالا اور جلا کر خاکستر کر دیا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف ایک آدمی کو خوشخبری دینے کے لیے روانہ کیا، سیدنا جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قاصد نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلایا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث فرمایا ہے، میں آپ کی طرف اس وقت تک روانہ نہیں ہوا، جب تک کہ میں نے اسے جلنے کے بعد خارش زدہ اونٹ کی طرح بالکل سیاہ شدہ نہیں دیکھ لیا، چناچنہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے احمس کے گھوڑ سواروں اور پیادہ لوگوں کے لیے برکت کی پانچ دفعہ دعا کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11659

۔ (۱۱۶۵۹)۔ عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِیرٍ قَالَ: قَالَ جَرِیرٌ بَایَعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ، وَعَلٰی أَنْ أَنْصَحَ لِکُلِّ مُسْلِمٍ، قَالَ: وَکَانَ جَرِیرٌ إِذَا اشْتَرَی الشَّیْئَ وَکَانَ أَعْجَبَ إِلَیْہِ مِنْ ثَمَنِہِ، قَالَ لِصَاحِبِہِ: تَعْلَمَنَّ وَاللّٰہِ! لَمَا أَخَذْنَا أَحَبُّ إِلَیْنَا مِمَّا أَعْطَیْنَاکَ، کَأَنَّہُ یُرِیدُ بِذٰلِکَ الْوَفَائَ۔ (مسند احمد: ۱۹۴۴۲)
سیدنا جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر ان باتوں کی بیعت کی تھی کہ میں آپ کا حکم سن کر اس کی اطاعت کروں گا اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کروں گا۔ ابو زرعہ کہتے ہیں کہ جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب کوئی چیز خریدتے اور ان کے خیال میں وہ چیزطے شدہ قیمت سے زیادہ قیمت کی ہوتی تو فروخت کنندہ سے کہتے: اللہ کی قسم! ہم نے تمہیں جو دیا ہے اس کی نسبت ہم نے جو چیز تم سے لی ہے، وہ ہمیں زیادہ محبوب ہے۔ گویا وہ یہ بات کہہ کر بائع کی حوصلہ افزائی کرکے اپنی کی ہوئی بیعت کے تقاضا کو پورا کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11660

۔ (۱۱۶۶۰)۔ عَنْ سُفْیَانَ قَالَ اِبْنٌ لِجَرِیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: کَانَتْ نَعْلُ جَرِیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ طُوْلُھَا ذِرَاعٌ۔ (مسند احمد: ۱۹۴۲۵)
سفیان کہتے ہیں کہ سیدنا جریر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بیٹے نے مجھے بیان کیا کہ جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے جوتے کی لمبائی ایک ہاتھ تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11661

۔ (۱۱۶۶۱)۔ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَسْلَمَ مَوْلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَقُوْلُ لِجَعْفَرِ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: ((اَشْبَہْتَ خَلْقِیْ وَخُلُقِیْ۔)) (مسند احمد: ۱۹۲۱۸)
نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے غلام سیدنا عبید اللہ بن اسلم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا جعفر بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا کرتے تھے کہ تم جسمانی طور پر اور اخلاق کے لحاظ سے میرے مشابہ ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11662

۔ (۱۱۶۶۲)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: مَا احْتَذَی النِّعَالَ وَلَا انْتَعَلَ وَلَا رَکِبَ الْمَطَایَا وَلَا لَبِسَ الْکُورَ مِنْ رَجُلٍ بَعْدَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَفْضَلُ مِنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ، یَعْنِی فِی الْجُودِ وَالْکَرَمِ۔ (مسند احمد: ۹۳۴۲)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد کسی آدمی نے جوتا نہیں پہنا، نہ سواریوں پر سوار ہوا اور نہ عمامہ استعمال کیا جو سیدنا جعفر بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بڑھ کر فضیلت والا ہو، ان کی مراد جود و سخاوت تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11663

۔ (۱۱۶۶۳)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَیْشًا اسْتَعْمَلَ عَلَیْہِمْ زَیْدَ بْنَ حَارِثَۃَ، وَقَالَ: ((فَإِنْ قُتِلَ زَیْدٌ أَوِ اسْتُشْہِدَ فَأَمِیرُکُمْ جَعْفَرٌ فَإِنْ قُتِلَ أَوِ اسْتُشْہِدَ فَأَمِیرُکُمْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ)) فَلَقُوا الْعَدُوَّ فَأَخَذَ الرَّایَۃَ زَیْدٌ فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّایَۃَ جَعْفَرٌ فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ، ثُمَّ أَخَذَہَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّایَۃَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فَفَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْہِ، وَأَتَی خَبَرُہُمُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَخَرَجَ إِلَی النَّاسِ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ وَقَالَ: ((إِنَّ إِخْوَانَکُمْ لَقُوا الْعَدُوَّ وَإِنَّ زَیْدًا أَخَذَ الرَّایَۃَ فَقَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ أَوْ اسْتُشْہِدَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّایَۃَ بَعْدَہُ جَعْفَرُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ فَقَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ أَوِ اسْتُشْہِدَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّایَۃَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ فَقَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ أَوِ اسْتُشْہِدَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّایَۃَ سَیْفٌ مِنْ سُیُوفِ اللّٰہِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فَفَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْہِ)) فَأَمْہَلَ ثُمَّ أَمْہَلَ آلَ جَعْفَرٍ ثَلَاثًا أَنْ یَأْتِیَہُمْ ثُمَّ أَتَاہُمْ فَقَالَ: ((لَا تَبْکُوا عَلٰی أَخِی بَعْدَ الْیَوْمِ أَوْ غَدٍ ادْعُوا لِی ابْنَیْ أَخِی)) قَالَ، فَجِیئَ بِنَا کَأَنَّا أَفْرُخٌ، فَقَالَ: ((ادْعُوا إِلَیَّ الْحَلَّاقَ)) فَجِیئَ بِالْحَلَّاقِ فَحَلَقَ رُئُ وْسَنَا، ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا مُحَمَّدٌ فَشَبِیہُ عَمِّنَا أَبِی طَالِبٍ وَأَمَّا عَبْدُ اللّٰہِ فَشَبِیہُ خَلْقِی وَخُلُقِی)) ثُمَّ أَخَذَ بِیَدِی فَأَشَالَہَا فَقَالَ: ((اللَّہُمَّ اخْلُفْ جَعْفَرًا فِی أَہْلِہِ وَبَارِکْ لِعَبْدِ اللّٰہِ فِی صَفْقَۃِ یَمِینِہِ)) قَالَہَا ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ: فَجَائَ تْ أُمُّنَا فَذَکَرَتْ لَہُ یُتْمَنَا وَجَعَلَتْ تُفْرِحُ لَہُ، فَقَالَ: ((الْعَیْلَۃَ تَخَافِینَ عَلَیْہِمْ وَأَنَا وَلِیُّہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ))۔ (مسند احمد: ۱۷۵۰)
عبداللہ بن جعفر سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور ان پر زید بن حارثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو امیر مقرر کیا۔ اور فرمایا اگر زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شہید ہو جائیں تو جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بن ابی طالب تمہارے امیر ہوں گے۔ اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تمہارے امیر ہوں گے۔ مسلمانوں کا دشمن سے مقابلہ ہوا۔ تو جھنڈا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اُٹھایا۔ وہ دشمن سے لڑتے رہے بالآخر شہید ہو گئے۔ ان کے بعد جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا تھام لیا۔ وہ بھی دشمن سے لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ ان کے بعد عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا سنبھالا۔ وہ بھی دشمن سے لڑتے لڑتے شہادت سے سرفراز ہوگئے۔ ان کے بعد خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا سنبھال لیا۔ اور اللہ نے ان کے ہاتھوں فتح نصیب فرمائی۔ ان کی اطلاع نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی۔ آپ لوگوں کی طرف باہر تشریف لائے۔ اور اللہ کی حمد وثناء کے بعد فرمایا کہ تمہارے بھائیوں کا دشمن سے مقابلہ ہوا۔ سب سے پہلے زید نے جھنڈا اُٹھایا۔ وہ لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ ان کے بعد جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بن ابی طالب نے جھنڈا اُٹھایا وہ بھی لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ ان کے بعد عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا سنبھالا لیا۔ وہ بھی لڑتے لڑتے شہادت کے رتبہ پر فائز ہو گئے۔ ان کے بعد اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا سنبھالا اور ان کے ہاتھوں اللہ نے فتح نصیب فرمائی۔ آل جعفر تین روز تک اس انتظار میں رہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ہاں تشریف لے جائیں تیسرے دن کے بعد آپ ان کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا تم آج کے بعد میرے بھائی پر مت رونا، میرے بھتیجوں کوبلاؤ ہمیں لایا گیا تو ہم چوزوں کی طرح بالکل چھوٹے چھوٹے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا نائی کو بلاؤ اسے بلایا گیا تو اس نے ہمارے سر مونڈ دئیے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایایہ محمد تو ہمارے چچا ابو طالب کے مشابہ ہے۔ اور عبداللہ شکل وصورت اور مزاج میں میرے ساتھ مشابہت رکھتا ہے۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر اوپر کو اُٹھا کر فرمایایا اللہ جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے اہل وعیال میں اس کا نائب بنا اور عبداللہ کی تجارت میں برکت فرما۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ دعا تین مرتبہ کی۔ ہماری والدہ آپ کے پاس آئی اور اس نے اس پر غم کا اظہار کیا کہ یہ بچے اب بے آسرا ہیں۔ تو آپ نے فرمایا کیا تم ان کے بارے میں فقروفاقہ کا اندیشہ کرتی ہو؟ دنیا اور آخرت میں میں ان کا سرپرست ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11664

۔ (۱۱۶۶۴)۔ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ خَالِدِ بْنِ سَارَّۃَ، أَنَّ أَبَاہُ أَخْبَرَہُ: أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ جَعْفَرٍ قَالَ: لَوْ رَأَیْتَنِیْ وَقُثَمَ وَعُبَیْدَ اللّٰہِ ابْنَیْ عَبَّاسٍ وَنَحْنُ صِبْیَانٌ نَلْعَبُ إِذْ مَرَّ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی دَابَّۃٍ، فَقَالَ: ((ارْفَعُوا ہَذَا إِلَیَّ۔)) قَالَ: فَحَمَلَنِی أَمَامَہُ، وَقَالَ لِقُثَمَ: ((ارْفَعُوا ہٰذَا إِلَیَّ۔)) فَجَعَلَہُ وَرَائَ ہُ وَکَانَ عُبَیْدُ اللّٰہِ أَحَبَّ إِلٰی عَبَّاسٍ مِنْ قُثَمَ، فَمَا اسْتَحٰی مِنْ عَمِّہِ أَنْ حَمَلَ قُثَمًا وَتَرَکَہُ، قَالَ: ثُمَّ مَسَحَ عَلٰی رَأْسِی ثَلَاثًا، وَقَالَ کُلَّمَا مَسَحَ: ((اللَّہُمَّ اخْلُفْ جَعْفَرًا فِی وَلَدِہِ۔)) قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللّٰہِ: مَا فَعَلَ قُثَمُ؟ قَالَ: اسْتُشْہِدَ، قَالَ: قُلْتُ: اللّٰہُ أَعْلَمُ بِالْخَیْرِ وَرَسُولُہُ بِالْخَیْرِ، قَالَ: أَجَلْ۔ (مسند احمد: ۱۷۶۰)
خالد بن سارہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن جعفر نے اسے بتلایا کہ کاش تم مجھے، سیدنا قثم بن عباس اور سیدنا عبید اللہ بن عباس کو دیکھتے، جب ہم بچے کھیل رہے تھے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سواری پر سوار ہمارے قریب سے گزرے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے اٹھا کر مجھے پکڑا دو اور آپ نے مجھے اپنے آگے سواری پر سوار کر لیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قثم کے متعلق فرمایا کہ اسے بھی میری طرف اٹھائو اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے اپنے پیچھے سوار کر لیا، سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قثم سے زیادہ عبید اللہ سے محبت تھی، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے چچا سے اس بات کی جھجک محسوس نہیں کی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قثم کو اپنے ساتھ سوار کر لیا اور عبید اللہ کو سوار نہ کیا، پھر آپ نے تین بار میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور ہر دفعہ یہ دعا کی: یا اللہ! جعفر کی اولاد میں تو ان کا خلیفہ بن جا۔ خالد بن سارہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن جعفر سے دریافت کیا کہ سیدنا قثم کی موت کیسے واقع ہوئی تھی ؟ انہوں نے بتلایا کہ وہ شہید ہوئے تھے۔ میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہی خیر اور بھلائی کو بہتر جانتے ہیں۔ انھوں نے کہا: جی ہاں، واقعی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11665

۔ (۱۱۶۶۵)۔ وَعَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ عُمَیْسٍ قَالَتْ: لَمَّا أُصِیبَ جَعْفَرٌ وَأَصْحَابُہُ، دَخَلْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَدْ دَبَغْتُ أَرْبَعِینَ مَنِیئَۃً وَعَجَنْتُ عَجِینِی وَغَسَّلْتُ بَنِیَّ وَدَہَنْتُہُمْ وَنَظَّفْتُہُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((ائْتِینِی بِبَنِی جَعْفَرٍ۔)) قَالَتْ: فَأَتَیْتُہُ بِہِمْ فَشَمَّہُمْ وَذَرَفَتْ عَیْنَاہُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی مَا یُبْکِیکَ؟ أَبَلَغَکَ عَنْ جَعْفَرٍ وَأَصْحَابِہِ شَیْئٌ، قَالَ: ((نَعَمْ، أُصِیبُوا ہٰذَا الْیَوْمَ۔)) قَالَتْ: فَقُمْتُ أَصِیحُ وَاجْتَمَعَ إِلَیَّ النِّسَائُ وَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی أَہْلِہِ، فَقَالَ: ((لَا تُغْفِلُوْا آلَ جَعْفَرٍ مِنْ أَنْ تَصْنَعُوا لَہُمْ طَعَامًا، فَإِنَّہُمْ قَدْ شُغِلُوا بِأَمْرِ صَاحِبِہِمْ۔)) (مسند احمد: ۲۷۶۲۶)
سیدہ اسماء بنت عمیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ سیدنا جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے رفقاء جب شہادت پا چکے تھے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ہاں تشریف لائے، میں نے چالیس کھالیں صاف کرنے کے لیے ڈالی ہوئی تھیں، آٹا گوندھا ہوا تھا اور میں نے اپنے بچوں کو نہلا کر تیل لگا کر ان کو خوب صاف ستھرے کیاہوا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آکر فرمایا: جعفر کے بیٹوں کو میرے پاس لائو۔ میں انہیں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لائی، آپ نے ان کو سونگھا اور ساتھ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پرفدا ہوں، آپ کیوں رو رہے ہیں؟ کیا جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے ساتھیوں کے متعلق آپ کے پاس کوئی خبر آئی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، وہ لوگ آج شہید ہو گئے ہیں۔ یہ سن کر میں اٹھی اور چیخی، عورتیں میرے پاس جمع ہوگئیں اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے گھرتشریف لے گئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو! آل جعفر کے لیے کھانا تیار کرنے سے غافل نہ ہونا، وہ اپنے سرپرست کی شہادت کے صدمے میں مبتلا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11666

۔ (۱۱۶۶۶)۔ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ کِنَانَۃَ بْنِ نُعَیْمٍ الْعَدَوِیِّ، عَنْ أَبِی بَرْزَۃَ الْأَسْلَمِیِّ، أَنَّ جُلَیْبِیبًا کَانَ امْرَأً یَدْخُلُ عَلَی النِّسَائِ یَمُرُّ بِہِنَّ وَیُلَاعِبُہُنَّ، فَقُلْتُ لِامْرَأَتِی: لَا یَدْخُلَنَّ عَلَیْکُمْ جُلَیْبِیبٌ، فَإِنَّہُ إِنْ دَخَلَ عَلَیْکُمْ لَأَفْعَلَنَّ وَلَأَفْعَلَنَّ، قَالَ: وَکَانَتْ الْأَنْصَارُ إِذَا کَانَ لِأَحَدِہِمْ أَیِّمٌ لَمْ یُزَوِّجْہَا حَتّٰی یَعْلَمَ ہَلْ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیہَا حَاجَۃٌ أَمْ لَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ: ((زَوِّجْنِی ابْنَتَکَ۔)) فَقَالَ: نِعِمَّ وَکَرَامَۃٌ یَا رَسُولَ اللّٰہِ وَنُعْمَ عَیْنِی، فَقَالَ: ((إِنِّی لَسْتُ أُرِیدُہَا لِنَفْسِی۔)) قَالَ: فَلِمَنْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ لِجُلَیْبِیبٍ: قَالَ: فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أُشَاوِرُ أُمَّہَا فَأَتٰی أُمَّہَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَخْطُبُ ابْنَتَکِ، فَقَالَتْ: نِعِمَّ وَنُعْمَۃُ عَیْنِی، فَقَالَ: إِنَّہُ لَیْسَ یَخْطُبُہَا لِنَفْسِہِ إِنَّمَا یَخْطُبُہَا لِجُلَیْبِیبٍ، فَقَالَتْ: أَجُلَیْبِیبٌ ابْنَہْ أَجُلَیْبِیبٌ ابْنَہْ أَجُلَیْبِیبٌ ابْنَہْ لَا لَعَمْرُ اللّٰہِ لَا تُزَوَّجُہُ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ یَقُومَ لِیَأْتِیَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِیُخْبِرَہُ بِمَا قَالَتْ أُمُّہَا، قَالَتْ الْجَارِیَۃُ: مَنْ خَطَبَنِی إِلَیْکُمْ؟ فَأَخْبَرَتْہَا أُمُّہَا، فَقَالَتْ: أَتَرُدُّونَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَمْرَہُ؟ ادْفَعُونِی فَإِنَّہُ لَمْ یُضَیِّعْنِی، فَانْطَلَقَ أَبُوہَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرَہُ، قَالَ: شَأْنَکَ بِہَا فَزَوَّجَہَا جُلَیْبِیبًا، قَالَ: فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَزْوَۃٍ لَہُ، قَالَ: فَلَمَّا أَفَائَ اللّٰہُ عَلَیْہِ، قَالَ لِأَصْحَابِہِ: ((ہَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟)) قَالُوْا نَفْقِدُ فُلَانًا وَنَفْقِدُ فُلَانًا، قَالَ: ((انْظُرُوْا ہَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟)) قَالُوْا: لَا، قَالَ: ((لٰکِنِّی أَفْقِدُ جُلَیْبِیبًا۔)) قَالَ: ((فَاطْلُبُوْہُ فِی الْقَتْلٰی؟)) قَالَ: فَطَلَبُوہُ فَوَجَدُوہُ إِلٰی جَنْبِ سَبْعَۃٍ قَدْ قَتَلَہُمْ ثُمَّ قَتَلُوہُ، فَقَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ہَا ہُوَ ذَا إِلٰی جَنْبِ سَبْعَۃٍ قَدْ قَتَلَہُمْ ثُمَّ قَتَلُوہُ، فَأَتَاہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَامَ عَلَیْہِ، فَقَالَ: ((قَتَلَ سَبْعَۃً وَقَتَلُوہُ، ہٰذَا مِنِّی وَأَنَا مِنْہُ، ہٰذَا مِنِّی وَأَنَا مِنْہُ۔)) مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا ثُمَّ وَضَعَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی سَاعِدَیْہِ، وَحُفِرَ لَہُ مَا لَہُ سَرِیرٌ إِلَّا سَاعِدَا رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ وَضَعَہُ فِی قَبْرِہِ وَلَمْ یُذْکَرْ أَنَّہُ غَسَّلَہُ، قَالَ ثَابِتٌ: فَمَا کَانَ فِی الْأَنْصَارِ أَیِّمٌ أَنْفَقَ مِنْہَا وَحَدَّثَ إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ ثَابِتًا، قَالَ: ہَلْ تَعْلَمْ مَا دَعَا لَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اللَّہُمَّ صُبَّ عَلَیْہَا الْخَیْرَ صَبًّا، وَلَا تَجْعَلْ عَیْشَہَا کَدًّا کَدًّا۔)) قَالَ: فَمَا کَانَ فِی الْأَنْصَارِ أَیِّمٌ أَنْفَقَ مِنْہَا، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمٰنِ: مَا حَدَّثَ بِہِ فِی الدُّنْیَا أَحَدٌ إِلَّا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ مَا أَحْسَنَہُ مِنْ حَدِیثٍ۔ (مسند احمد: ۲۰۰۲۲)
سیدنا ابو برزہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا جلیبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خوش مزاج قسم کے آدمی تھے، وہ عورتوں کے پاس چلے جاتے اور ان کے پاس سے گزرتے ہوئے کوئی مزاحیہ بات کر جاتے، ان کے اس مزاج کی وجہ سے میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا تھا کہ جلیبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تمہارے پاس نہ آئے، اگر وہ آیا تو تمہاری خیر نہیں۔ انصار کا یہ معمول تھا کہ ان کے ہاں کوئی بن شوہر عورت ہوتی تو وہ اس وقت تک اس کی شادی نہ کرتے جب تک انہیںیہ علم نہ ہو جاتا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس کی حاجت ہے یا نہیں؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک انصاری سے فرمایا: تم اپنی بیٹی کا نکاح مجھے دے دو۔ اس نے کہا: جی ٹھیک ہے، اے اللہ کے رسول! اور یہ بات میرے لیے باعث افتخار و اعتزاز ہوگی اور اس سے مجھے از حدخوشی ہوگی، ساتھ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وضاحت کر دی کہ میں اسے اپنے لیے طلب نہیں کر رہا۔ اس نے کہا، اللہ کے رسول! پھر کس کے لیے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جلیبیب کے لیے۔ یہ سن کر اس نے کہا:اے اللہ کے رسول!میں بچی کی ماں یعنی اپنی بیوی سے مشورہ کر لوں، وہ بچی کی ماں کے پاس گیا اور بتلایا کہ اللہ کے رسول تمہاری بیٹی کا رشتہ طلب کرتے ہیں۔ وہ بولی کہ بالکل ٹھیک ہے اور اس سے ہمیں از حد خوشی ہوگی۔ شوہر نے بتلایا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے لیے نہیں، بلکہ جلیبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے لیے رشتہ طلب کرتے ہیں۔ اس نے کہا: کیا جلیبیب کے لیے، نہیں، جلیبیب کو ہم بیٹی نہیں دے سکتے، جلیبیب نہیں۔اللہ کی قسم! ہم جلیبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اس کا نکاح نہیں کریں گے، جب وہ مرد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف جانے لگا تاکہ اپنی بیوی کے جواب سے آپ کو مطلع کرے تو وہ بچی بول اٹھی کہ آپ لوگوں کے پاس میرے نکاح کا پیغام کس نے بھیجا ہے؟ تو اس کی ماں نے اسے بتلا دیا۔ و ہ لڑکی بولی: کیا تم اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات کا انکار کر دو گے؟ آپ مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حوالے کر دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے ضائع نہیں کریں گے، چنانچہ بچی کا باپ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گیا اور اس نے ساری بات آپ کے گوش گزارکی اور کہا: اب آپ اس کے متعلق با اختیار ہیں۔ چنانچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کا نکاح جلیبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ کر دیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک غزوہ میں تشریف لے گئے، جب اللہ نے آپ کو فتح سے ہم کنار کر دیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم کسی آدمی کو غیر موجود پاتے ہو؟ صحابہ نے بتلایا کہ فلاں فلاں آدمی نظر نہیںآرہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر دیکھو کون کون نظر نہیں آرہا، صحابہ نے کہا: اور تو کوئی آدمی ایسا نظر نہیں آتا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لیکن مجھے جلیبیب دکھائی نہیں دے رہا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم دیا کہ اسے مقتولینیعنی شہداء میں جا کر تلاش کرو، صحابہ نے جا کر ان کو تلاش کیا تو انہیں اس حال میں پایا کہ ان کے قریب سات کافر مرے پڑے تھے۔ معلوم ہوتاتھا کہ وہ ان ساتوں کو مارنے کے بعد شہید ہوئے ہیں، صحابہ نے آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلایا کہ اے اللہ کے رسول! وہ تو سات کافروں کو قتل کرنے کے بعد خود شہید ہوا پڑا ہے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی لاش کے پاس آئے، اس کے قریب کھڑے ہو کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس نے سات آدمیوں کو قتل کیا، اس کے بعد کافروں نے اسے شہید کر ڈالا، یہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں، یہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں۔ یہ بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو تین بار ارشاد فرمائی، اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی لاش کو اپنے بازوئوں پر اٹھا لیا ، اس کی قبر تیار کی گئی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بازواس کے چارپائی بنے ہوئے تھے۔ اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے قبر میں اتارا، ان کو غسل دیئے جانے کا ذکر نہیں ہے۔ ثابت کہتے ہیں کہ انصار یوں میں یہ واحد بیوہ تھی، جس سے بہت زیادہ لوگوںنے نکاح کرنے کی رغبت کا اظہار کیا۔اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے ثابت سے کہا: کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے حق میں کیا دعا کی تھی؟ آپ نے یہ دعا کی تھی: یا اللہ! اس پر خیر و برکت کی برکھا برسا دے اور اس کی معیشت تنگ نہ ہو۔ اس دعا کی برکت تھی کہ یہ انصار میں واحد بیوہ تھی کہ جس سے بہت زیادہ لوگوں کو نکاح کرنے کی رغبت تھی۔ ابو عبدالرحمن عبداللہ بن امام احمد کہتے ہیں کہ دنیا میں اس حدیث کو صرف حماد بن سلمہ نے روایت کیا ہے اور یہ کیسی عمدہ حدیث ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11667

۔ (۱۱۶۶۷)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، أَنَّ حَارِثَۃَ خَرَجَ نَظَّارًا فَأَتَاہُ سَہْمٌ فَقَتَلَہُ، فَقَالَتْ أُمُّہُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَدْ عَرَفْتَ مَوْقِعَ حَارِثَۃَ مِنِّی، فَإِنْ کَانَ فِی الْجَنَّۃِ صَبَرْتُ وَإِلَّا رَأَیْتَ مَا أَصْنَعُ، قَالَ: یَا أُمَّ حَارِثَۃَ! إِنَّہَا لَیْسَتْ بِجَنَّۃٍ وَاحِدَۃٍ وَلٰکِنَّہَا جِنَانٌ کَثِیرَۃٌ، وَإِنَّ حَارِثَۃَ لَفِی أَفْضَلِہَا، أَوْ قَالَ: فِی أَعَلَی الْفِرْدَوْسِ شَکَّ یَزِیدُ۔ (مسند احمد: ۱۲۲۷۷)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ر وایت ہے کہ سیدنا حارثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جاسوسی کے لیے گئے،اچانک انہیں ایک تیر آلگا اور وہ شہید ہوگئے،ان کی والدہ نے کہا: اللہ کے رسول! آپ جانتے ہیں کہ میرا حارثہ کے ساتھ کتنا گہرا تعلق ہے، اب اگر وہ جنت میں ہے تو میں صبر کرتی ہوں، وگر نہ آپ دیکھیںگے کہ میں کیا کرتی ہوں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ام حارثہ! جنت ایک تو نہیں ہے، کئی جنتیں ہیں اور حارثہ تو افضل جنت میں ہے۔ یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں فرمایا کہ وہ تو جنت الفردوس کے اعلیٰ مقام میں ہے۔ ایک روایت میں ہے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ام حارثہ! جنتیں بہت سی ہیں اور حارثہ اعلیٰ جنت الفردوس میں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11668

۔ (۱۱۶۶۸)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((نِمْتُ فَرَأَیْتُنِیْ فِی الْجَنَّۃِ فَسَمِعْتُ صَوْتَ قَارِیئٍ یَقْرَئُ فَقُلْتُ: مَنْ ھٰذَا؟ قَالُوْا: ھٰذَا حَارِثَۃُ بْنُ النُّعْمَانِ۔)) فَقَالَ لَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کَذَاکَ الْبِرُّ کَذَاک البِّرُ۔)) وَکَانَ أَبَرَّ النَّاسِ بِأُمِّہِ۔ (مسند احمد: ۲۵۸۵۱)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں سو گیا اور میں نے خواب میں اپنے آپ کو جنت میں دیکھا اور میں نے وہاں قرآن پڑھتے ایک آدمی کی آواز سنی، میں نے دریافت کیا کہ یہ کون ہے؟ فرشتوں نے بتلایا کہ یہ حارثہ بن نعمان ہے۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس صحابی کے حق میں فرمایا: حسن سلوک کا یہی انجام ہوتا ہے، حسن سلوک کا یہی انجام ہوتا ہے۔ یہ صحابی لوگوں میں سب سے زیادہ اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11669

۔ (۱۱۶۶۹)۔ عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ النُّعْمَانِ قَالَ: مَرَرْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَعَہُ جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَام جَالِسٌ فِی الْمَقَاعِدِ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ ثُمَّ أَجَزْتُ، فَلَمَّا رَجَعْتُ وَانْصَرَفَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((ہَلْ رَأَیْتَ الَّذِی کَانَ مَعِی؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ((فَإِنَّہُ جِبْرِیلُ وَقَدْ رَدَّ عَلَیْکَ السَّلَامَ۔)) (مسند احمد: ۲۴۰۷۷)
سیدنا حا رثہ بن نعمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جبریل علیہ السلام کے ساتھ (مسجد کے قریب) المقاعد جگہ میں بیٹھے تھے، میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے گزرا تو میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سلام کہا اور میں آگے گزر گیا، جب میں واپس آیا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی وہاں سے واپس ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے ساتھ بیٹھے آدمی کو تم نے دیکھا تھا؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ جبریل علیہ السلام تھے اور انہوںنے تمہارے سلام کا جواب دیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11670

۔ (۱۱۶۷۰)۔ عن عَلِیّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ یَقُولُ: بَعَثَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَا وَالزُّبَیْرَ وَالْمِقْدَادَ، فَقَالَ: ((انْطَلِقُوا حَتّٰی تَأْتُوا رَوْضَۃَ خَاخٍ فَإِنَّ بِہَا ظَعِینَۃً مَعَہَا کِتَابٌ فَخُذُوہُ مِنْہَا۔)) فَانْطَلَقْنَا تَعَادٰی بِنَا خَیْلُنَا حَتّٰی أَتَیْنَا الرَّوْضَۃَ فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِینَۃِ، فَقُلْنَا: أَخْرِجِی الْکِتَابَ، قَالَتْ: مَا مَعِی مِنْ کِتَابٍ، قُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْکِتَابَ أَوْ لَنَقْلِبَنَّ الثِّیَابَ، قَالَ: فَأَخْرَجَتِ الْکِتَابَ مِنْ عِقَاصِہَا، فَأَخَذْنَا الْکِتَابَ، فَأَتَیْنَا بِہِ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِذَا فِیہِ: مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِی بَلْتَعَۃَ إِلٰی نَاسٍ مِنَ الْمُشْرِکِینَ بِمَکَّۃَ، یُخْبِرُہُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا حَاطِبُ! مَا ہٰذَا؟)) قَالَ: لَا تَعْجَلْ عَلَیَّ إِنِّی کُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِی قُرَیْشٍ، وَلَمْ أَکُنْ مِنْ أَنْفُسِہَا، وَکَانَ مَنْ کَانَ مَعَکَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ لَہُمْ قَرَابَاتٌ یَحْمُونَ أَہْلِیہِمْ بِمَکَّۃَ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِی ذٰلِکَ مِنَ النَّسَبِ فِیہِمْ أَنْ أَتَّخِذَ فِیہِمْ یَدًا یَحْمُونَ بِہَا قَرَابَتِی، وَمَا فَعَلْتُ ذٰلِکَ کُفْرًا وَلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِینِی وَلَا رِضًا بِالْکُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّہُ قَدْ صَدَقَکُمْ۔)) فَقَالَ عُمَرُرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: دَعْنِی أَضْرِبْ عُنُقَ ہٰذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ: ((إِنَّہُ قَدْ شَہِدَ بَدْرًا، وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ اللّٰہَ قَدِ اطَّلَعَ عَلٰی أَہْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ۔)) (مسند أحمد: ۶۰۰)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے، سیدنا زبیر اور سیدنا مقدار کو بھیجا اور فرمایا: تم چلو، یہاں تک کہ روضۂ خاخ تک پہنچ جاؤ، وہاں ایک مسافر خاتون کے پاس ایک خط ہو گا، وہ خط اس سے لے لو۔ سو ہم چل پڑے، ہمارے گھوڑے دوڑتے گئے، یہاں تک کہ ہم اس روضہ کے پاس پہنچے، وہاں تو واقعی ایک خاتون موجود تھی، ہم نے اس سے کہا: خط نکال دے، اس نے کہا: میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے، ہم نے کہا: خط نکال دے، وگرنہ ہم تیرے کپڑے اتار دیں گے، یہ سن کر اس نے اپنے بالوں کی لٹ سے خط نکال دیا، ہم نے وہ لیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئے، اس خط میں یہ عبارت لکھی ہوئی تھی: یہ خط حاطب بن ابو بلتعہ کی طرف سے مکہ کے مشرکوں کی طرف ہے، …۔ وہ ان کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعض امور کی خبر دے رہے تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے حاطب! یہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: مجھ پر جلدی نہ کرنا (میں تفصیل بتاتا ہوں)، بات یہ ہے کہ میں معاہدے کی بنا پر قریشیوں سے ملا ہوا تھا اور میں نسب کے لحاظ سے ان میں سے نہیں تھا، آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں، ان کی قریشیوں سے رشتہ داریاں ہیں، جن کی وجہ سے وہ مکہ میں ان کے رشتہ داروں کی حفاظت کرتے ہیں، جب میں نے دیکھا کہ قریشیوں سے میرا نسب تو ملتا نہیں ہے، تو میں نے سوچا کہ اگر میں ان پر کوئی ایسا احسان کر دوں کہ جس کی وجہ سے وہ میرے رشتہ داروں کی بھی حفاظت کریں (اس مقصد کے لیے میں نے یہ کام کیا ہے)، نہ میں نے یہ کاروائی کفر کرتے ہوئے کی، نہ اپنے دین سے مرتد ہوتے ہوئے اور نہ اسلام کے بعد کفر کو پسند کرتے ہوئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک شان یہ ہے کہ اس آدمی نے تم سے سچ بولا ہے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: چھوڑیئے مجھے، میں اس منافق کی گردن اتار پھینکوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ بدر میں حاضر ہوا تھا، اور تجھے پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی طرف جھانکا اور کہا: آج کے بعد جو چاہو کر گزرو، میں نے تم کو معاف کر دیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11671

۔ (۱۱۶۷۱)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، أَنَّ حَاطِبَ بْنَ أَبِیْ بَلْتَعَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ کَتَبَ إِلٰی مَکَّۃَ یَذْکُرُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَرَادَ غَزْوَھُمْ، فَدَلَّ رَسُوْلُ اللّٰہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الْمَرْأَۃٍ الَّتِیْ مَعَہَا الْکِتَابُ فَذَکَرَ نَحْوَہٗ۔ (مسند احمد: ۱۴۸۳۳)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اہل مکہ کے نام ایک خط لکھ کر ان کو اطلاع دی کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان پر حملہ کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابۂ کرام کو اس عورت کے متعلق بتلا دیا، جس کے پاس وہ خط تھا… اس سے آگے حدیث گزشتہ حدیث کی مانند ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11672

۔ (۱۱۶۷۲)۔ قَالَ جَائَ عَبْدٌ لِحَاطِبِ بْنِ أَبِیْ بَلْتَعَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَحَدُ بَنِی أَسَدٍ یَشْتَکِیْ سَیِّدَہٗ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! لَیَدْخُلَنَّ حَاطِبُ النَّارَ، فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کَذَبْتَ لَا یَدْخُلُہَا اِنَّہٗ قَدْ شَہِدَ بَدْرًا وَالْحُدَیْبِیَۃَ۔)) (مسند احمد: ۱۴۸۳۰)
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ایک غلام، جو بنی اسد کے قبیلہ سے تھا، آیا اور اپنے مالک کی شکایت کرتے ہوئے کہا: اللہ کے رسول! حاطب ضرور جہنم میں جائے گا، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: تم غلط کہتے ہو، وہ تو بدر اور حدیبیہ میں شرکت کی سعادت حاصل کر چکا ہے، (جبکہ بدر اور حدیبیہ میں شرکت کرنے والے جہنم میں نہیں جائیں گے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11673

۔ (۱۱۶۷۳)۔ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ، عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ: قَالَتْ لِی أُمِّی: مَتٰی عَہْدُکَ بِالنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَقُلْتُ: مَا لِی بِہِ عَہْدٌ مُنْذُ کَذَا وَکَذَا، قَالَ: فَہَمَّتْ بِی، قُلْتُ: یَا أُمَّہْ دَعِینِی حَتّٰی أَذْہَبَ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَا أَدَعُہُ حَتّٰی یَسْتَغْفِرَ لِی وَیَسْتَغْفِرَ لَکِ، قَالَ: فَجِئْتُہُ فَصَلَّیْتُ مَعَہُ الْمَغْرِبَ، فَلَمَّا قَضَی الصَّلَاۃَ قَامَ یُصَلِّی فَلَمْ یَزَلْ یُصَلِّی حَتّٰی صَلَّی الْعِشَائَ، ثُمَّ خَرَجَ (وَزَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ: قَالَ: مَا لَکَ؟ فَحَدَّثْتُہٗ بِالْأَمْرِ، فَقَالَ: غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ وَلِأُمِّکَ)۔ (مسند احمد: ۲۳۸۲۹)
سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، میری والدہ نے مجھ سے دریافت کیا کہ تمہاری نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملاقات کب ہوئی تھی؟ میں نے عرض کیا کہ میں تو اتنے عرصہ سے آپ سے ملاقات نہیں کر سکا، انہوںنے مجھے سخت سست کہا۔ میں نے عرض کیا: امی جان! آپ اجازت دیں تاکہ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جائوں اور میں اس وقت ان کو چھوڑ کر الگ نہ ہوں گا، جب تک وہ میرے اور آ پ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حق میں دعائے مغفرت نہ کریں، چنانچہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گیا، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں نماز مغرب ادا کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ کھڑے ہو کر مزید نفل نماز ادا کرنے لگے یہاں تک کہ آپ نے نماز عشاء ادا کی۔ اس کے بعد آپ باہر تشریف لے چلے۔ دوسری روایت کے الفاظ ہیں:آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا: کیا بات ہے؟ میں نے سارا واقعہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں دعا کی: اللہ تعالیٰ تمہاری اور تمہاری والدہ کی مغفرت فرمائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11674

۔ (۱۱۶۷۴)۔ عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ قَالَ: مَا مَنَعَنِی أَنْ أَشْہَدَ بَدْرًا إِلَّا أَنِّی خَرَجْتُ أَنَا وَأَبِی حُسَیْلُ فَأَخَذَنَا کُفَّارُ قُرَیْشٍ، فَقَالُوْا إِنَّکُمْ تُرِیدُونَ مُحَمَّدًا؟ قُلْنَا: مَا نُرِیدُ إِلَّا الْمَدِینَۃَ، فَأَخَذُوْا مِنَّا عَہْدَ اللّٰہِ وَمِیثَاقَہُ لَنَنْصَرِفَنَّ إِلَی الْمَدِینَۃِ وَلَا نُقَاتِلُ مَعَہُ، فَأَتَیْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرْنَاہُ الْخَبَرَ، فَقَالَ: ((انْصَرِفَا نَفِی بِعَہْدِہِمْ وَنَسْتَعِینُ اللّٰہَ عَلَیْہِمْ۔)) (مسند احمد: ۲۳۷۴۶)
سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: غزوۂ بدر میں ہماری عدم شرکت کی وجہ یہ ہوئی کہ میں اور میرا والد سیدنا حسیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جا رہے تھے کہ قریشی کفار نے ہمیں گرفتار کر لیا، انھوں نے کہا کہ تم لوگ محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی طرف جا رہے ہو۔ ہم نے کہا کہ ہم تو مدینہ کی طرف جا رہے ہیں۔ انہوںنے ہم سے اللہ کی قسم اور پختہ عہد لیا کہ ہم مدینہ کی طرف جائیں اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مل کر ان کے خلاف لڑائی میں حصہ نہ لیں۔ ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جا کر سارا واقعہ بیان کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم دونوں چلے جاؤ، ہم ان سے کیے ہوئے عہد و پیمان کو پورا کریں گے اور ان کے خلاف اللہ کی مدد کے خواستگار ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11675

۔ (۱۱۶۷۵)۔ عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ کُلِّ شَیْئٍ حَتّٰی مَسْحِ الْحِصٰی فَقَالَ: ((وَاحِدَۃً أَوْ دَعْ۔)) (مسند احمد: ۲۳۶۶۴)
سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: میں نے رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایک ایک مسئلہ دریافت کیا،یہاں تک کہ میں نے یہ بھی پوچھا کہ (نماز کے دوران سجدہ والی جگہ سے) کنکریوں کو ہٹانا یا صاف کرنا کیسا ہے؟ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک دفعہ ہٹا سکتے ہو یا پھر یہ بھی رہنے دو (تو بہتر ہے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11676

۔ (۱۱۶۷۶)۔ عَنْ حُذَیْفَۃَ، أَنَّہُ قَدِمَ مِنْ عِنْدِ عُمَرَ قَالَ: لَمَّا جَلَسْنَا إِلَیْہِ أَمْسِ سَأَلَ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَیُّکُمْ سَمِعَ قَوْلَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْفِتَنِ؟ فَقَالُوْا: نَحْنُ سَمِعْنَاہُ، قَالَ: لَعَلَّکُمْ تَعْنُونَ فِتْنَۃَ الرَّجُلِ فِی أَہْلِہِ وَمَالِہِ؟، قَالُوْا: أَجَلْ، قَالَ: لَسْتُ عَنْ تِلْکَ أَسْأَلُ، تِلْکَ یُکَفِّرُہَا الصَّلَاۃُ وَالصِّیَامُ وَالصَّدَقَۃُ، وَلٰکِنْ أَیُّکُمْ سَمِعَ قَوْلَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْفِتَنِ الَّتِی تَمُوجُ مَوْجَ الْبَحْرِ؟ قَالَ: فَأَمْسَکَ الْقَوْمُ وَظَنَنْتُ أَنَّہُ إِیَّایَ یُرِیدُ، قُلْتُ: أَنَا، قَالَ لِی: أَنْتَ لِلَّہِ أَبُوکَ، قَالَ: قُلْتُ: تُعْرَضُ الْفِتَنُ عَلَی الْقُلُوبِ عَرْضَ الْحَصِیرِ، فَأَیُّ قَلْبٍ أَنْکَرَہَا نُکِتَتْ فِیہِ نُکْتَۃٌ بَیْضَائُ، وَأَیُّ قَلْبٍ أُشْرِبَہَا نُکِتَتْ فِیہِ نُکْتَۃٌ سَوْدَائُ، حَتّٰی یَصِیرَ الْقَلْبُ عَلٰی قَلْبَیْنِ أَبْیَضَ مِثْلِ الصَّفَا لَا یَضُرُّہُ فِتْنَۃٌ مَا دَامَتْ السَّمٰوَاتُ وَالْأَرْضُ، وَالْآخَرِ أَسْوَدَ مُرْبَدٍّ کَالْکُوزِ مُخْجِیًا وَأَمَالَ کَفَّہُ لَا یَعْرِفُ مَعْرُوفًا وَلَا یُنْکِرُ مُنْکَرًا إِلَّا مَا أُشْرِبَ مِنْ ہَوَاہُ۔ (مسند احمد: ۲۳۶۶۹)
سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ وہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس سے واپس آئے تو بیان کیا کہ کل جب ہم ان کی خدمت میں بیٹھے تھے تو انہوں نے صحابۂ کرام سے دریافت کیا کہ تم میں سے کسی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے قیامت سے قبل بپا ہونے والے فتن کے بارے میں حدیث سنی ہو؟ تو سب نے کہا کہ اس بارے میں تو ہم سب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بہت کچھ سن چکے ہیں۔ انہوںنے کہا:شاید تم لوگ میری بات سے انسان کے اس کے اہل اور مال کا فتنہ سمجھ رہے ہو؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں۔ انھوں نے کہا: میں اس کے بارے میں نہیں پوچھ رہا، ان فتنوں کو تو نماز، روزہ اور صدقات مٹا دیتے ہیں، میں تو یہ پوچھ رہا ہوں کہ تم میں سے کسی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ان فتنوں کے بارے میں سنا ہو جو سمندر کی موجوں کی طرح تندی تیزی سے آئیں گے۔ سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ یہ سن کر سب لوگ خاموش ہوگئے۔ میں سمجھ گیا کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مجھ سے پوچھنا چاہتے ہیں۔ میں نے عرض کیا: میں سن چکا ہوں۔ انھوں نے کہا: بہت خوب، سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: پھر میں نے بیان کیا کہ فتنے انسانوں کے دلوں پر اس طرح مسلسل چھا جائیں گے جیسے چٹائی کے تنکے ایک دوسرے کے ساتھ متصل ہوتے ہیں، جو دل ان فتنوں سے مانوس نہیں ہوں گے یعنی ان میں ملوث نہ ہوں گے ان پر سفید نقطے لگتے جائیں گے اور جو دل ان فتنوں سے مانوس ہو جائیں گے یعنی ان میں ملوث ہو جائیں گے ان پر سیاہ نقطے لگتے جائیں گے۔ یہاں تک کہ لوگوں کے دل یعنی لوگ دو قسم کے ہو جائیں گے۔ ایک قسم ان لوگوں کی ہوگی جن کے دل چکنے پتھر کی مانند صاف ہوں گے، جب تک آسمان اور زمین باقی ہیںیعنی قیامت تک کوئی فتنہ ان کو ضرر نہیں پہنچا سکے گا۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہوگی جن کے دل کا لے سیاہ اور ٹیڑھے ہوں گے (ساتھ ہی آپ نے اپنی ہتھیلی کو الٹا کر بھی دکھایا) ایسے اپنی خواہشات کے ہی تابع ہوں گے، وہ کسی بھی اچھائی کو اچھا یا برائی کو برانہیں سمجھیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11677

۔ (۱۱۶۷۷)۔ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا بَعَثَ حَرَامًا خَالَہُ أَخَا أُمِّ سُلَیْمٍ فِی سَبْعِینَ رَجُلًا، فَقُتِلُوا یَوْمَ بِئْرِ مَعُونَۃَ، وَکَانَ رَئِیسُ الْمُشْرِکِینَ یَوْمَئِذٍ عَامِرُ بْنُ الطُّفَیْلِ، وَکَانَ ہُوَ أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: اخْتَرْ مِنِّی ثَلَاثَ خِصَالٍ یَکُونُ لَکَ أَہْلُ السَّہْلِ وَیَکُونُ لِی أَہْلُ الْوَبَرِ، أَوْ أَکُونُ خَلِیفَۃً مِنْ بَعْدِکَ أَوْ أَغْزُوکَ بِغَطَفَانَ أَلْفِ أَشْقَرَ وَأَلْفِ شَقْرَائ، قَالَ: فَطُعِنَ فِی بَیْتِ امْرَأَۃٍ مِنْ بَنِی فُلَانٍ، فَقَالَ: غُدَّۃٌ کَغُدَّۃِ الْبَعِیرِ فِی بَیْتِ امْرَأَۃٍ مِنْ بَنِی فُلَانٍ ائْتُونِی بِفَرَسِی، فَأُتِیَ بِہِ فَرَکِبَہُ فَمَاتَ وَہُوَ عَلٰی ظَہْرِہِ، فَانْطَلَقَ حَرَامٌ أَخُو أُمِّ سُلَیْمٍ وَرَجُلَانِ مَعَہُ رَجُلٌ مِنْ بَنِی أُمَیَّۃَ، وَرَجُلٌ أَعْرَجُ، فَقَالَ لَہُمْ: کُونُوا قَرِیبًا مِنِّی حَتّٰی آتِیَہُمْ فَإِنْ آمَنُونِی وَإِلَّا کُنْتُمْ قَرِیبًا، فَإِنْ قَتَلُونِی أَعْلَمْتُمْ أَصْحَابَکُمْ، قَالَ: فَأَتَاہُمْ حَرَامٌ، فَقَالَ: أَتُؤْمِنُونِی أُبَلِّغْکُمْ رِسَالَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَیْکُمْ، قَالُوا: نَعَمْ، فَجَعَلَ یُحَدِّثُہُمْ وَأَوْمَئُوا إِلٰی رَجُلٍ مِنْہُمْ مِنْ خَلْفِہِ فَطَعَنَہُ حَتّٰی أَنْفَذَہُ بِالرُّمْحِ، قَالَ: اللّٰہُ أَکْبَرُ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ، قَالَ: ثُمَّ قَتَلُوہُمْ کُلَّہُمْ غَیْرَ الْأَعْرَجِ، کَانَ فِی رَأْسِ جَبَلٍ، قَالَ أَنَسٌ: فَأُنْزِلَ عَلَیْنَا وَکَانَ مِمَّا یُقْرَأُ فَنُسِخَ أَنْ بَلِّغُوا قَوْمَنَا أَنَّا لَقِینَا رَبَّنَا فَرَضِیَ عَنَّا وَأَرْضَانَا، قَالَ: فَدَعَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَیْہِمْ أَرْبَعِینَ صَبَاحًا عَلٰی رِعْلٍ وَذَکْوَانَ وَبَنِی لِحْیَانَ، وَعُصَیَّۃَ الَّذِینَ عَصَوُا اللّٰہَ وَرَسُولَہُ۔ (مسند احمد: ۱۳۲۲۷)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے بھائی میرے ماموں حرام کو ستر افراد کے ایک دستہ کے ہمراہ بھیجا تھا اور یہ لوگ بئر معونہ کے دن قتل کر دئیے گئے تھے۔ ان دنوں مشرکین کا لیڈر عامر بن طفیل بن مالک عامری تھا، اس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آکر پیش کش کی تھی کہ آپ میری طرف سے تین میں سے کوئی ایک بات قبول کر لیں: (۱)دیہاتی علاقے آپ کے اور شہری علاقے میرے ہوں، یا (۲)آپ کے بعد خلافت مجھے دی جائے، یا (۳)میں بنو غطفان کو ساتھ ملا کر ایک ہزار اونٹوں اور ایک ہزار اونٹنیوں کے ساتھ آپ سے لڑوں گا۔ ( اس موقعہ پر آپ نے دعا کی کہ یا اللہ عامر کے مقابلے میں میری مدد فرما) چنانچہ وہ بنو فلان کے ایک گھرانے میں تھا کہ اسے طاعون نے آلیا، وہ کہنے لگا: یہ تو بنو فلاں کی عورت کے گھر میں اونٹوں کی گلٹی جیسی گلٹی ہے، میرا گھوڑا میرے پاس لاؤ۔ اس کا گھوڑا اس کے پاس لایا گیا،یہ اس پر سوار ہو ا اور اس کی پشت پر ہی اسے موت آگئی۔ سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بھائی سیدنا حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور اس کے ساتھ دو آدمی، ان میں سے ایک کا تعلق بنو امیہ سے تھا اور دوسرا اعرج یعنی لنگڑا تھا، کو ساتھ لئے چلا، اور اس نے ان تینوں سے کہا: تم میرے قریب قریب رہنا تاآنکہ میں ان کے پاس جا پہنچوں، انہوں نے اگر مجھے کچھ نہ کہا تو بہتر اور اگر کوئی دوسری صورت پیدا ہوئی تو تم میرے قریب ہی ہو گئے اور اگر انہوں نے مجھے قتل کر ڈالا تو تم پیچھے والے اپنے ساتھیوں کواطلاع تو دے سکو گے۔ چنانچہ حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے قریب پہنچے اور ان سے کہا: کیا تم مجھے اس بات کی اجازت دو گے کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پیغام تم لوگوں تک پہنچا سکوں۔ انہوں نے کہا: جی ہاں، یہ ان کے سامنے گفتگو کرنے لگے اور ان لوگوں نے حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پیچھے سے اپنے ایک آدمی کو اشارہ کیا ور اس نے ان پر نیزے کا وار کیا، جوان کے جسم سے پار ہو گیا۔ سیدنا حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس وقت کہا: اللہ اکبر، رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا۔ پھر انہوں نے اعرج کے سوا باقی دو کو قتل کر دیا، وہ پہاڑ کی چوٹی پر تھا اس لئے بچ گیا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں اسی واقعہ کے سلسلہ میں ہم پر یہ آیت نازل ہوئی، اس کی باقاعدہ تلاوت کی جاتی تھی،یہ بعد میں منسوخ کر دی گئی: بَلِّغُوا قَوْمَنَا أَنَّا لَقِینَا رَبَّنَا فَرَضِیَ عَنَّا وَأَرْضَانَا۔ (ہماری قوم تک یہ پیغام پہنچا دو کہ ہم اپنے رب سے جا ملے ہیں اور وہ ہم سے راضی ہو گیا ہے اور اس نے ہمیں بھی راضی کر دیا ہے۔)نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان رِعل، ذکوان، بنو لحیان اور بنو عصیہ پر چالیس دن تک بددعا کی، جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معصیت کی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11678

۔ (۱۱۶۷۸)۔ عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَضَعَ لِحَسَّانَ مِنْبَرًا فِی الْمَسْجِدِ یُنَافِحُ عَنْہُ بِالشِّعْرِ، ثُمَّ یَقُولُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَیُؤَیِّدُ حَسَّانَ بِرُوحِ الْقُدُسِ، یُنَافِحُ عَنْ رَسُولِہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔)) (مسند احمد: ۲۴۹۴۱)
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا حسان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے لیے مسجد نبوی میں منبر رکھوایا تاکہ وہ اس پر بیٹھ کر (کفار کے ہجو والے اشعار کے جواب میں) اشعار پڑھ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا دفاع کریں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے تھے: حسان جب تک اللہ کے رسول کا دفاع کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس وقت تک روح القدس یعنی جبریل علیہ السلام کے ذریعے اس کی مدد فرماتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11679

۔ (۱۱۶۷۹)۔ عَنِ الْبَرَاء ِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ: ((اہْجُ الْمُشْرِکِینَ فَإِنَّ جِبْرِیلَ مَعَکَ۔)) (مسند احمد: ۱۸۹۰۱)
سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا حسان بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: تم مشرکین کی ہجو کا جواب دو، جبریل تمہارے ساتھ ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11680

۔ (۱۱۶۸۰)۔ عَنْ ذَیَّالِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ حَنْظَلَۃَ، عَنْ جَدَّۃِ حَنْظَلَۃَ بْنِ حِذْیَمٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، أَنَّ أَبَاہٗ دَنَا بِہِ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: إِنَّ لِی بَنِینَ ذَوِی لِحًی وَدُونَ ذٰلِکَ، وَإِنَّ ذَا أَصْغَرُہُمْ فَادْعُ اللّٰہَ لَہُ فَمَسَحَ رَأْسَہُ، وَقَالَ: ((بَارَکَ اللّٰہُ فِیکَ أَوْ بُورِکَ فِیہِ۔)) قَالَ ذَیَّالٌ: فَلَقَدْ رَأَیْتُ حَنْظَلَۃَ یُؤْتٰی بِالْإِنْسَانِ الْوَارِمِ وَجْہُہُ أَوِ الْبَہِیمَۃِ الْوَارِمَۃِ الضَّرْعُ فَیَتْفُلُ عَلٰی یَدَیْہِ وَیَقُولُ: بِسْمِ اللّٰہِ، وَیَضَعُ یَدَہُ عَلٰی رَأْسِہِ، وَیَقُولُ: عَلٰی مَوْضِعِ کَفِّ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَیَمْسَحُہُ عَلَیْہِ وَقَالَ ذَیَّالٌ: فَیَذْہَبُ الْوَرَمُ۔ (احمد: ۲۰۹۴۱)
سیدنا حنظلہ بن حذیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد نے ان کو لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب جا بٹھایا اور عرض کیا: میرے بیٹے باریشیعنی بڑی عمر کے بھی ہیں اور ان سے چھوٹے بھی ہیں،یہ سب سے چھوٹا ہے، آپ اللہ تعالیٰ سے اس کے حق میں دعا فرمائیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا: اللہ تمہارے اندر برکت فرمائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11681

۔ (۱۱۶۸۱)۔ عَنْ وَحْشِیِّ بْنِ حَرَبٍ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَقَدَ لِخَالِدِ بْنِ الْوَلِیْدِ عَلٰی قِتَالِ أَھْلِ الرِّدَّۃِ وَقَالَ: اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((نِعْمَ عَبْدُ اللّٰہِ وَأَخُوْ الْعَشِیْرَۃِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیْدِ سَیْفٌ مِنْ سُیُوْفِ اللّٰہِ سَلَّہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَلَی الْکُفَّارِ وَالْمُنَافِقِیْنَ۔)) (مسند احمد: ۴۳)
ذیال کہتے ہیں: میں نے سیدنا حنظلہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھاکہ جب کسی آدمی کا چہرہ یا جانور کا تھن متورم ہو جاتا اور ایسے آدمییا جانور کو سیدنا حنظلہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس لایا جاتا اور وہ بسم اللہ کہہ کر اپنے سر کے اس حصے پر ہاتھ لگاتے، جہاں اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی ہتھیلی مبارک رکھی تھی اور اس کے بعد وہ اپنا ہاتھ اس بیمار آدمییا جانور پر پھیرتے تو اس کا ورم زائل ہو جاتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11682

۔
سیدنا وحشی بن حرب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو مرتدین کے مقابلے کے لیے مقرر فرمایا اور کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یوں فرماتے سنا کہ خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اللہ کا بہترین بندہ اور قوم کا بہترین فرد ہے، یہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے کفار اور منافقین پر مسلط کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11683

۔ (۱۱۶۸۳)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی إِذَا کُنَّا تَحْتَ ثَنِیَّۃِ لِفْتٍ طَلَعَ عَلَیْنَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ مِنَ الثَّنِیَّۃِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِأَبِی ہُرَیْرَۃَ: ((انْظُرْ مَنْ ہٰذَا؟)) قَالَ أَبُوہُرَیْرَۃَ: خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((نِعْمَ عَبْدُ اللّٰہِ ہٰذَا۔)) (مسند احمد: ۸۷۰۵)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں روانہ ہوئے، جب ہم لفت نامی پہاڑی گھاٹی پر پہنچے تو گھاٹی میں سے سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہمارے سامنے آگئے۔رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: دیکھنا،یہ کون آرہا ہے؟ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اللہ کا بہترین بندہ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11684

۔ (۱۱۶۸۴)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ: وَکَانَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْأَزْہَرِ یُحَدِّثُ: أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ جُرِحَ یَوْمَئِذٍ وَکَانَ عَلَی الْخَیْلِ خَیْلِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ ابْنُ الْأَزْہَرِ: قَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْدَمَا ہَزَمَ اللّٰہُ الْکُفَّارَ وَرَجَعَ الْمُسْلِمُونَ إِلٰی رِحَالِہِمْ یَمْشِی فِی الْمُسْلِمِینَ، وَیَقُولُ: ((مَنْ یَدُلُّ عَلَی رَحْلِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ؟)) قَالَ: فَمَشَیْتُ أَوْ قَالَ فَسَعَیْتُ بَیْنَ یَدَیْہِ، وَأَنَا مُحْتَلِمٌ، أَقُولُ: مَنْ یَدُلُّ عَلٰی رَحْلِ خَالِدٍ حَتّٰی حَلَلْنَا عَلٰی رَحْلِہِ، فَإِذَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ مُسْتَنِدٌ إِلٰی مُؤْخِرَۃِ رَحْلِہِ، فَأَتَاہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَظَرَ إِلٰی جُرْحِہِ، قَالَ الزُّہْرِیُّ: وَحَسِبْتُ أَنَّہُ قَالَ: وَنَفَثَ فِیہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۹۲۹۱)
عبد الرحمن بن ازہر سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس دن زخمی ہو گئے اور وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گھڑ سواروں کے دستہ کے قائد تھے۔ ابن ازہر کہتے ہیں: جب اللہ تعالیٰ نے کفار کو شکست سے دو چار کیا اور مسلمان اپنے خیموں کی طرف واپس آئے تو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو میں نے دیکھا کہ آپ مسلمانوں کے درمیان چلتے ہوئے یہ فرماتے ہوئے آرہے تھے کہ کوئی خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے خیمے کے بارے میں بتلائے، میں آپ کے آگے آگے تیزی سے گیا، میں ان دنوں بالغ تھا، میں پکارتاجا رہا تھا کہ کوئی ہے جو خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے خیمے کے متعلق بتلائے۔ یہاں تک کہ ہم چلتے چلتے ان کے خیمے میں جا داخل ہوئے۔ میں نے دیکھا کہ خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے پالان کے پچھلے حصہ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے قریب آئے۔ ان کے زخم کو دیکھا۔ زہری سے مروی ہے میرا خیال ہے کہ عبدالرحمن بن ازہر نے یہ بھی بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے زخم پر لعاب مبارک بھی لگایا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11685

۔ (۱۱۶۸۵)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فِیْ قِصَّۃِ اِسْلَامِہٖ قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ عَامِدًا لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِأُسْلِمَ، فَلَقِیتُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ، وَذٰلِکَ قُبَیْلَ الْفَتْحِ وَہُوَ مُقْبِلٌ مِنْ مَکَّۃَ، فَقُلْتُ: أَیْنَ یَا أَبَا سُلَیْمَانَ؟ قَالَ: وَاللّٰہِ! لَقَدْ اسْتَقَامَ الْمَنْسِمُ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَنَبِیٌّ، أَذْہَبُ وَاللّٰہِ أُسْلِمُ فَحَتّٰی مَتٰی قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ، مَا جِئْتُ إِلَّا لِأُسْلِمَ، قَالَ: فَقَدِمْنَا عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَدِمَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فَأَسْلَمَ وَبَایَعَ، اَلْحَدِیْثَ۔ وَفِیْ آخِرِہِ: قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: وَقَدْ حَدَّثَنِی مَنْ لَا أَتَّہِمُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ طَلْحَۃَ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ کَانَ مَعَہُمَا أَسْلَمَ حِینَ أَسْلَمَا۔ (مسند احمد: ۱۷۹۳۰)
سیدنا عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنا قبول اسلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: پھر میں اسلام قبول کرنے کے ارادے سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف جانے کا قصد کرکے روانہ ہوا، یہ فتح مکہ سے کچھ پہلے کا واقعہ ہے، میری خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ملاقات ہوگئی، وہ مکہ کی طرف سے آرہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا: اے ابو سلیمان! کدھر کا ارادہ ہے؟ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! اب تو راستہ واضح اور نکھر چکا ہے اور وہ آدمییعنی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واقعی اللہ کا نبی ہے، اللہ کی قسم میں تو جا کر اسلام قبول کرتا ہوں، کب تک ادھر ادھر دھکے کھاتا رہوں گا۔ ان کی باتیں سن کر میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں بھی مسلمان ہونے اور اسلام قبول کرنے کے ارادے سے آیا ہوں۔ چنانچہ ہم دونوں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جا پہنچے،سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آگے بڑھ کر اسلام قبول کیا اور بیعت کی۔ اس حدیث کے آخر میں ہے اسی حدیث کے ایک راوی ابن اسحاق نے بیان کیا کہ مجھ سے ایک انتہائی با اعتماد آدمی نے بیان کیا کہ جب خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مسلمان ہوئے تو عثمان بن طلحہ بن ابی طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی ان کے ساتھ مسلمان ہوئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11686

۔ (۱۱۶۸۶)۔ عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلٰی خَبَّابٍ وَقَدِ اکْتَوٰی سَبْعًا، فَقَالَ: لَوْلَا أَنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((لَا یَتَمَنّٰی أَحَدُکُمُ الْمَوْتَ۔)) لَتَمَنَّیْتُہُ۔ وَلَقَدْ رَأَیْتُنِی مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا أَمْلِکُ دِرْہَمًا، وَإِنَّ فِی جَانِبِ بَیْتِی الْآنَ لَأَرْبَعِینَ أَلْفَ دِرْہَمٍ، قَالَ: ثُمَّ أُتِیَ بِکَفَنِہِ فَلَمَّا رَآہُ بَکٰی، قَالَ: لٰکِنَّ حَمْزَۃَ لَمْ یُوجَدْ لَہُ کَفَنٌ إِلَّا بُرْدَۃٌ مَلْحَائُ، إِذَا جُعِلَتْ عَلٰی رَأْسِہِ قَلَصَتْ عَنْ قَدَمَیْہِ، وَإِذَا جُعِلَتْ عَلٰی قَدَمَیْہِ قَلَصَتْ عَنْ رَأْسِہِ حَتّٰی مُدَّتْ عَلٰی رَأْسِہِ وَجُعِلَ عَلٰی قَدَمَیْہِ الْإِذْخِرُ۔ (مسند احمد: ۲۷۷۶۱)
حارثہ بن مضرب سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا خباب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں گیا، وہ ایک بیماری کے علاج کے سلسلہ میں سات داغ لگوا چکے تھے، مگر کچھ افاقہ نہ ہوا تھا، انھوں نے کہا:اگر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا کہ تم میں سے کوئی آدمی موت کی تمنا نہ کرے۔ تو میں ضرور موت کی تمنا کرتا ۔ میں نے اپنے آپ کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ اس حال میں دیکھا ہے کہ میرے پاس ایک بھی درہم نہیں ہوتا تھا اور اب یہ حال ہے کہ میرے گھر کے ایک کونے میں چالیس ہزار درہم موجود ہیں، اس کے بعد ان کے پاس ان کا کفن لایا گیا، وہ اسے دیکھ کر رونے لگے اور پھر کہا: ہمارے پاس ایسا کفن موجود ہے۔ لیکن سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تھے کہ ان کے کفن کے لیے محض ایک دھاری دار چادر تھی،ان کے سر پر ڈالی جاتی تو ان کے پائوں ننگے ہو جاتے اور جب ان کے پائوں پر ڈالی جاتی تو سر سے اتر جاتی، بالآخر اسے ان کے سر پر ڈال دیا گیا اور ان کے پائوں پر اذخرڈال دی گئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11687

۔ (۱۱۶۸۷)۔ عَنْ خَبَّابِ (بْنِ الْأَرَتِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) قَالَ: ہَاجَرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَبَتَغِی وَجْہَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فَوَجَبَ أَجْرُنَا عَلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، فَمِنَّا مَنْ مَضٰی لَمْ یَأَکُلْ مِنْ أَجْرِہِ شَیْئًا، مِنْہُمْ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ قُتِلَ یَوْمَ أُحُدٍ فَلَمْ نَجِدْ شَیْئًا نُکَفِّنُہُ فِیْہِ إِلَّا نَمِرَۃً کُنَّا إِذَا غَطَّیْنَا بِہَا رَأْسَہُ خَرَجَتْ رِجْلَاہُ، وَإِذَا غَطَّیْنَا رِجْلَیْہِ خَرَجَ رَأْسُہُ، فَأَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہِ وَصَحْبِہِ وَسَلَّمَ أَنْ نُغَطِّیَ بِہَا رَأْسَہُ، وَنَجْعَلَ عَلٰی رِجْلَیْہِ إِذْخِرًا، وَمِنَّا مَنْ أَیْنَعَتْ، لَہُ ثَمَرَتُہُ فَہُوَ یَہْدِ بُہَا یَعْنِی یَجْتَنِیْہَا۔ (مسند احمد: ۲۱۳۷۲)
سیّدناخباب بن ارت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ہجرت کی، اس لیے اللہ تعالیٰ پر ہمارا ثواب ثابت ہو گیا( جیسا کہ اس نے وعدہ کیا ہے)۔ پھر ہم میں بعض لوگ ایسے تھے، جو اپنے عمل کا اجر کھائے بغیر اللہ کے پاس چلے گئے، ان میں سے ایک سیّدنا مصعب بن عمیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تھے، جو احد کے دن شہید ہو گئے، ہمیں ان کے کفن کے لیے صرف ایک چادر مل سکی اور وہ بھی اس قدر مختصر تھی کہ جب ہم ان کا سر ڈھانپتے تو پائوں ننگے ہو جاتے اور جب ان کے پائوں کو ڈھانپا جاتا تو سر ننگا ہو جاتا۔بالآخر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم ان کا سر ڈھانپ دیں اور ان کے پائوں پر اذخر (گھاس) ڈال دیں، جبکہ ہم میں بعض ایسے بھی ہیں جن کا پھل تیار ہو چکا اور اب وہ اسے چن رہا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11688

۔ (۱۱۶۸۸)۔ عَنْ خَبَّابٍ قَالَ: شَکَوْنَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یَوْمَئِذٍ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَۃً فِی ظِلِّ الْکَعْبَۃِ فَقُلْنَا: أَلَا تَسْتَنْصِرُ لَنَا اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی أَوْ أَلَا تَسْتَنْصِرُ لَنَا؟ فَقَالَ: ((قَدْ کَانَ الرَّجُلُ فِیمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ یُؤْخَذُ فَیُحْفَرُ لَہُ فِی الْأَرْضِ فَیُجَائُ بِالْمِنْشَارِ عَلٰی رَأْسِہِ فَیُجْعَلُ بِنِصْفَیْنِ فَمَا یَصُدُّہُ ذٰلِکَ عَنْ دِینِہِ، وَیُمَشَّطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِیدِ مَا دُونَ عَظْمِہِ مِنْ لَحْمٍ وَعَصَبٍ فَمَا یَصُدُّہُ ذٰلِکَ، وَاللّٰہِ لَیُتِمَّنَّ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ہٰذَا الْأَمْرَ حَتّٰی یَسِیرَ الرَّاکِبُ مِنَ الْمَدِینَۃِ إِلٰی حَضْرَمَوْتَ لَا یَخَافُ إِلَّا اللّٰہَ تَعَالٰی وَالذِّئْبَ عَلٰی غَنَمِہِ، وَلٰکِنَّکُمْ تَسْتَعْجِلُونَ۔)) (مسند احمد: ۲۱۳۸۸)
سیدنا خباب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کفار کے مظالم کی شکایت کی، اس وقت آپ کعبہ کے سائے میں ایک چادر کو سر کے نیچے رکھے لیٹے ہوئے تھے۔ ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا: آپ اللہ تعالیٰ سے ہماری نصرت کی دعا کیوں نہیں فرماتے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے والے لوگوں پر یہ حالات بھی آئے کہ ایک آدمی کو زمین میں گڑھا کھود کر اس میں کھڑا کر دیا جاتا اور پھر اس کے سر پر آرا چلا کر اس کے دو ٹکڑے کر دیئے جاتے۔ اس قدر ظلم بھی ان لوگوں کو دین سے نہ ہٹانا۔ اور ان لوگوں کے جسموں پر لوہے کی کنگھیاں چلا دی جائیں اور وہ ان کی ہڈیوں اور پٹھوں کے اوپر سے گوشت ادھیڑ کر رکھ دیتیں۔ اس کے باوجود وہ لوگ دین سے پیچھے نہ ہٹتے۔ اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ ضرور بالضرور اپنے دین کو اس حد تک مکمل اور غالب کرے گا کہ ایک سوار مدینہ منورہ سے روانہ ہو کر حضر موت تک کا سفر کرے گا۔ اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا۔ حتیٰ کہ اسے اپنی بکریوں پر بھیڑیوں کے حملے کا بھی خوف نہ ہوگا۔ تم تو بہت جلدی کر رہے ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11689

۔ (۱۱۶۸۹)۔ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَشَرَۃَ رَہْطٍ عَیْنًا وَأَمَّرَ عَلَیْہِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتِ بْنِ أَبِی الْأَقْلَحِ جَدَّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَانْطَلَقُوا حَتّٰی إِذَا کَانُوا بِالْہَدَّۃِ بَیْنَ عُسْفَانَ وَمَکَّۃَ، ذُکِرُوْا لِحَیٍّ مِنْ ہُذَیْلٍ یُقَالُ لَہُمْ: بَنُو لِحْیَانَ، فَنَفَرُوْا لَہُمْ بِقَرِیبٍ مِنْ مِائَۃِ رَجُلٍ رَامٍ فَاقْتَصُّوا آثَارَہُمْ حَتّٰی وَجَدُوْا مَأْکَلَہُمُ التَّمْرَ فِی مَنْزِلٍ نَزَلُوہُ قَالُوْا: نَوٰی تَمْرِ یَثْرِبَ، فَاتَّبَعُوْا آثَارَہُمْ فَلَمَّا أُخْبِرَ بِہِمْ عَاصِمٌ وَأَصْحَابُہُ لَجَئُوا إِلٰی فَدْفَدٍ، فَأَحَاطَ بِہِمُ الْقَوْمُ فَقَالُوا لَہُمْ: انْزِلُوْا وَأَعْطُونَا بِأَیْدِیکُمْ وَلَکُمُ الْعَہْدُ وَالْمِیثَاقُ أَنْ لَا نَقْتُلَ مِنْکُمْ أَحَدًا، فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ أَمِیرُ الْقَوْمِ: أَمَّا أَنَا وَاللّٰہِ لَا أَنْزِلُ فِی ذِمَّۃِ کَافِرٍ، اللَّہُمَّ أَخْبِرْ عَنَّا نَبِیَّکَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَمَوْہُمْ بِالنَّبْلِ فَقَتَلُوْا عَاصِمًا فِی سَبْعَۃٍ وَنَزَلَ إِلَیْہِمْ ثَلَاثَۃُ نَفَرٍ عَلَی الْعَہْدِ وَالْمِیثَاقِ، مِنْہُمْ خُبَیْبٌ الْأَنْصَارِیُّ وَزَیْدُ بْنُ الدَّثِنَۃِ وَرَجُلٌ آخَرُ، فَلَمَّا تَمَکَّنُوْا مِنْہُمْ أَطْلَقُوْا أَوْتَارَ قِسِیِّہِمْ فَرَبَطُوہُمْ بِہَا، فَقَالَ الرَّجُلُ الثَّالِثُ: ہٰذَا أَوَّلُ الْغَدْرِ وَاللّٰہِ لَا أَصْحَبُکُمْ إِنَّ لِی بِہٰؤُلَائِ لَأُسْوَۃً یُرِیدُ الْقَتْلَ فَجَرَّرُوْہُ وَعَالَجُوہُ، فَأَبٰی أَنْ یَصْحَبَہُمْ، فَقَتَلُوْہُ فَانْطَلَقُوْا بِخُبَیْبٍ وَزَیْدِ بْنِ الدَّثِنَۃِ حَتّٰی بَاعُوہُمَا بِمَکَّۃَ بَعْدَ وَقْعَۃِ بَدْرٍ، فَابْتَاعَ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ خُبَیْبًا، وَکَانَ خُبَیْبٌ ہُوَ قَتَلَ الْحَارِثَ بْنَ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلٍ یَوْمَ بَدْرٍ، فَلَبِثَ خُبَیْبٌ عِنْدَہُمْ أَسِیرًا حَتّٰی أَجْمَعُوْا قَتْلَہُ، فَاسْتَعَارَ مِنْ بَعْضِ بَنَاتِ الْحَارِثِ مُوسٰی یَسْتَحِدُّ بِہَا لِلْقَتْلِ فَأَعَارَتْہُ إِیَّاہَا، فَدَرَجَ بُنَیٌّ لَہَا قَالَتْ: وَأَنَا غَافِلَۃٌ حَتّٰی أَتَاہُ فَوَجَدْتُہُ یُجْلِسُہُ عَلٰی فَخِذِہِ وَالْمُوسٰی بِیَدِہِ، قَالَتْ: فَفَزِعْتُ فَزْعَۃً عَرَفَہَا خُبَیْبٌ، قَالَ: أَتَخْشَیْنَ أَنِّی أَقْتُلُہُ؟ مَا کُنْتُ لِأَفْعَلَ، فَقَالَتْ: وَاللّٰہِ مَا رَأَیْتُ أَسِیرًا قَطُّ خَیْرًا مِنْ خُبَیْبٍ، قَالَتْ: وَاللّٰہِ لَقَدْ وَجَدْتُہُ یَوْمًا یَأْکُلُ قِطْفًا مِنْ عِنَبٍ فِی یَدِہِ، وَإِنَّہُ لَمُوثَقٌ فِی الْحَدِیدِ وَمَا بِمَکَّۃَ مِنْ ثَمَرَۃٍ، وَکَانَتْ: تَقُولُ إِنَّہُ لَرِزْقٌ رَزَقَہُ اللّٰہُ خُبَیْبًا، فَلَمَّا خَرَجُوْا بِہِ مِنَ الْحَرَمِ لِیَقْتُلُوْہُ فِی الْحِلِّ، قَالَ لَہُمْ خُبَیْبٌ: دَعُوْنِی أَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ، فَتَرَکُوہُ فَرَکَعَ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ قَالَ: وَاللّٰہِ لَوْلَا أَنْ تَحْسِبُوْا أَنَّ مَا بِی جَزَعًا مِنَ الْقَتْلِ لَزِدْتُ، اللّٰہُمَّ أَحْصِہِمْ عَدَدًا، وَاقْتُلْہُمْ بَدَدًا، وَلَا تُبْقِ مِنْہُمْ أَحَدًا، فَلَسْتُ أُبَالِی حِینَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا، عَلٰی أَیِّ جَنْبٍ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِی، وَذٰلِکَ فِی ذَاتِ الْإِلٰہِ وَإِنْ یَشَأْ یُبَارِکْ عَلٰی أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ، ثُمَّ قَامَ إِلَیْہِ أَبُو سِرْوَعَۃَ عُقْبَۃُ بْنُ الْحَارِثِ فَقَتَلَہُ، وَکَانَ خُبَیْبٌ ہُوَ سَنَّ لِکُلِّ مُسْلِمٍ قُتِلَ صَبْرًا، الصَّلَاۃَ وَاسْتَجَابَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِعَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ یَوْمَ أُصِیبَ، فَأَخْبَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَصْحَابَہُ یَوْمَ أُصِیبُوْا خَبَرَہُمْ، وَبَعَثَ نَاسٌ مِنْ قُرَیْشٍ إِلٰی عَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ حِینَ حُدِّثُوْا أَنَّہُ قُتِلَ لِیُؤْتٰی بِشَیْئٍ مِنْہُ یُعْرَفُ وَکَانَ قَتَلَ رَجُلًا مِنْ عُظَمَائِہِمْ یَوْمَ بَدْرٍ، فَبَعَثَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی عَاصِمٍ مِثْلَ الظُّلَّۃِ مِنَ الدَّبْرِ فَحَمَتْہُ مِنْ رُسُلِہِمْ فَلَمْ یَقْدِرُوْا عَلٰی أَنْ یَقْطَعُوْا مِنْہُ شَیْئًا۔ (مسند احمد: ۷۹۱۵)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دس آدمیوں کی ایک جماعت کو اہل مکہ کی جاسوسی کے لیے روانہ فرمایااور ان پر عاصم بن عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے نانا سیدنا عاصم بن ثابت بن اقلح انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو امیر مقرر کیا،یہ لوگ روانہ ہوئے، جب یہ عسفان اور مکہ مکرمہ کے درمیان ہَدَّہ کے مقام پر پہنچے تو بنو ہذیل کے ایک قبیلے بنو لحیان کو ان کی خبرہو گئی۔ وہ تقریباً ایک سو تیر اندازوں کا جتھہ بن کر ان کی طرف نکل پڑے، ان کے قدموں کے نشانات پر چلتے چلتے ایک مقام پر جا پہنچے، جہاں ان لوگوں نے قیام کیا تھا،ان کے کھانے کے آثار دیکھ کر انھوں نے کہا کہ یہ تو یثرب کی کھجوروں کی گٹھلیاں ہیں، وہ ان کے آثار و علامات کے پیچھے چلتے رہے۔ جب عاصم اور ان کے ساتھیوں کو ان کفار کے بارے میں پتہ چلا تو وہ ایک بلند پہاڑی پر چڑھ گئے۔ تو کفار نے ان کا محاصرہ کر لیا۔ اور ان سے کہا کہ تم نیچے اتر آئو اور اپنے ہاتھ ہمارے ہاتھوں میں دے دو۔ ہم تمہارے ساتھ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم تم میں سے کسی کو بھی قتل نہیں کریں گے، امیر لشکر سیدنا عاصم بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو کسی کافر کی پناہ میں نہیں جاتا۔ یا اللہ! ہمارے ان حالات سے اپنے نبی کو مطلع کر دینا، کفار نے مسلمانوں پر تیر برسائے اور سیدنا عاصم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سمیت سات مسلمانوں کو شہید کر دیا اور باقی تین آدمی سیدنا خبیب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا زید بن دثنہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ایک تیسرا شخص ان کے عہدو میثاق کے جھانسے میں آگئے، جب کفار نے ان پر اچھی طرح قابو پالیا تو انہوںنے اپنی کمانوں کی رسیاں کھول کر ان کے ساتھ ان تینوں کو باندھ لیا، ان تین میں سے تیسرا آدمی بولا کہ یہ تمہاری پہلی بدعہدی ہے۔ اللہ کی قسم!میں تمہارے ساتھ بالکل نہیں جائوں گا اور اس نے ان مقتولینیعنی شہداء ساتھیوں کی طرف اشارہ کرکے کہاکہ میرے لیےیہ لوگ بہترین نمونہ ہیں۔ کفار نے اسے گھسیٹا اور پورا زور لگایا مگر اس نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ آخر کار کافروںنے اسے بھی قتل کر دیا او ر انہوںنے سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اور سیدنا زید بن دثنہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ساتھ لے جا کر مکہ میں فروخت کر دیا،یہ سارا واقعہ بدر کے بعد پیش آیا تھا، حارث بن نوفل بن عبد مناف کی اولاد نے سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خرید لیا، کیونکہ سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے حارث بن عامر بن نوفل کو بدر والے دن قتل کیا تھا، سو وہ قیدی کی حیثیت سے ان کے ہاں رہے تاآنکہ انہوںنے ان کو قتل کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا۔ خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے حارث کی ایک بیٹی سے استرا طلب کیا تاکہ قتل ہونے سے پہلے غیر ضروری بال صاف کر لیں، اس نے ان کو استرا لا دیا، اس کا ایک چھوٹا سا بیٹا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف آگیا، ماں کو پتہ نہ چل سکا تھا، جب ماں اسے تلاش کرتے کرتے ادھر آئی تو دیکھا کہ خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بچے کو اپنی ران پر بٹھایا ہوا ہے اور استرا ان کے ہاتھ میں ہے۔ اس عورت سے مروی ہے کہ میں یہ منظر دیکھ کر خوف زدہ ہوگئی، خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میری پریشانی کو بھانپ گئے اور کہنے لگے: کیا تمہیں ڈر ہے کہ میں اسے قتل کر دوں گا، میں ہر گز ایسا نہیں کر سکتا۔ وہ کہتی ہے کہ میں نے کبھی بھی خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بہتر قیدی کوئی نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم! میں نے ایک دن اسے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں انگور کا گچھا تھا اور وہ اسے کھا رہے تھے، حالانکہ وہ تو زنجیروں میںبندھے ہوئے تھے اور ان دنوں مکہ میں کوئی پھل بھی دستیاب نہیں تھا، وہ کہا کرتی تھی کہ وہ رزق تھا جو اللہ تعالیٰ نے خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو عطا کیا تھا۔ وہ لوگ جب خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کرنے کے لیے حرم سے باہر لے چلے تو سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: مجھے دو رکعت نماز ادا کر لینے دو۔ انہوںنے اسے اجازت دے دی۔ چنانچہ انہوںنے دو رکعت نماز ادا کی۔ پھر کہا: اللہ کی قسم اگر تم یہ گمان نہ کرتے کہ مجھے قتل کا خوف لاحق ہے تو میں مزید نماز بھی ادا کرتا۔ یا اللہ! ان کی تعداد کو شمار میں رکھ۔ ان سب کو الگ الگ ہلاک کر اور ان میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑ، پھر انھوں نے کہا: میں بحالت اسلام قتل ہو رہا ہوں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ میں اللہ کی راہ میں کس پہلو پر گر رہا ہوں، میرے ساتھ یہ سلوک اللہ کی راہ میںیعنی اللہ پر ایمان لانے کے نتیجہ میں ہو رہا ہے، اگر اللہ چاہے تو میرے جسم کے بکھرے ہوئے اعضاء میں بھی برکتیں ڈال دے۔اس کے بعد ابو سروعہ عقبہ بن حارث اٹھ کر ان کی طرف گیا اور انہیں شہید کر دیا ۔ سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہر مسلمان کے لیےیہ طریقہ جاری کر دیا کہ جب اسے ظلماً قتل کیا جا رہا ہو تو وہ قتل ہونے سے پہلے نماز ادا کرے اور اللہ تعالیٰ نے عاصم بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قتل والے دن کی دعا قبول کیا ور اسی واقعہ کے روز اللہ نے اپنے رسول اور ان کے صحابہ کو ان کے واقعہ کی اطلاع کر دی۔ جب قریش کو سیدنا عاصم بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قتل کی خبر ہوئی تو انہوںنے مزیدیقین کے لیے لوگوں کو بھیجا تاکہ وہ ان کے جسم کے کچھ حصے کاٹ لائیں۔ سیدنا عاصم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بدر کے دن رؤسائے قریش میں سے ایک بڑے سردار کو قتل کیا تھا، وہ لوگ آئے تو اللہ تعالیٰ نے بھڑوں کی فوج ادھر بھیج دی۔ وہ عاصم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے جسم پر بادل کی مانند چھا گئی اور ان قریشی نمائندوں سے ان کے جسم کو بچایا اور وہ ان کے جسم کے کسی بھی حصہ کو نہ کاٹ سکے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11690

۔ (۱۱۶۹۰)۔ وَعَنْ عَمْرِو بْنِ أُمَیَّۃَ الْضَّمَرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعَثَہُ وَحْدَہُ عَیْنًا إِلٰی قُرَیْشٍ، قَالَ: جِئْتُ إِلَی خَشَبَۃِ خُبَیْبٍ وَأَنَا أَتَخَوَّفُ الْعُیُونَ، فَرَقِیتُ فِیہَا فَحَلَلْتُ خُبَیْبًا، فَوَقَعَ إِلَی الْأَرْضِ، فَانْتَبَذْتُ غَیْرَ بَعِیدٍ، ثُمَّ الْتَفَتُّ فَلَمْ أَرَ خُبَیْبًا، وَلَکَأَنَّمَا ابْتَلَعَتْہُ الْأَرْضُ فَلَمْ یُرَ لِخُبَیْبٍ أَثَرٌ حَتَّی السَّاعَۃِ۔ (مسند احمد: ۱۷۳۸۴)
سیدنا عمرو بن امیہ ضمری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس اکیلے کو قریش کی طرف جاسوس کی حیثیت سے روانہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اس لکڑی کے پاس آیا، جس پر خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لٹکایا گیا تھا۔ مجھے قریش کا بھی ڈر تھا کہ کہیں وہ مجھے دیکھ نہ لیں، میں اس لکڑی پر چڑھ گیا، میں نے خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رسی کو کھولا، وہ زمین پر گرے۔ جب میں نے ان کی طرف دھیان کیا تو خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا جسم مجھے دکھائی نہیں دیا،یوں لگتا ہے زمین ان کو نگل گئی، اب تک ان کے جسم کا کوئی اثر دکھائی نہیںدیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11691

۔ (۱۱۶۹۱)۔ عَنْ قَیْسِ بْنِ بِشْرِ نِ التَّغْلَبِیِّ قَالَ: أَخْبَرَنِیْ أَبِیْ، وَکَانَ جَلِیْسًا لِأَبِی الدَّرْدَائِ، قَالَ: کَانَ بِدَمِشْقَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُقَالُ لَہُ: ابْنُ الْحَنْظَلِیَّۃِ، وَکَانَ رَجُلًا مُتَوَحِّدًا قَلَّمَا یُجَالِسُ النَّاسَ، إِنَّمَا ہُوَ فِی صَلَاۃٍ، فَإِذَا فَرَغَ فَإِنَّمَا یُسَبِّحُ وَیُکَبِّرُ حَتّٰی یَأْتِیَ أَہْلَہُ، فَمَرَّ بِنَا یَوْمًا وَنَحْنُ عِنْدَ أَبِی الدَّرْدَائِ فَقَالَ لَہُ أَبُو الدَّرْدَائِ: کَلِمَۃً تَنْفَعُنَا وَلَا تَضُرُّکَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((نِعْمَ الرَّجُلُ خُرَیْمٌ الْأَسَدِیُّ لَوْلَا طُولُ جُمَّتِہِ وَإِسْبَالُ إِزَارِہِ۔)) فَبَلَغَ ذٰلِکَ خُرَیْمًا فَجَعَلَ یَأْخُذُ شَفْرَۃً یَقْطَعُ بِہَا شَعَرَہُ إِلٰی أَنْصَافِ أُذُنَیْہِ، وَرَفَعَ إِزَارَہُ إِلٰی أَنْصَافِ سَاقَیْہِ قَالَ: فَأَخْبَرَنِی أَبِی قَالَ: دَخَلْتُ بَعْدَ ذٰلِکَ عَلٰی مُعَاوِیَۃَ فَإِذَا عِنْدَہُ شَیْخٌ جُمَّتُہُ فَوْقَ أُذُنَیْہِ وَرِدَاؤُہُ إِلٰی سَاقَیْہِ، فَسَأَلْتُ عَنْہُ، فَقَالُوْا: ہَذَا خُرَیْمٌ الْأَسَدِیََََُّ۔ (مسند احمد: ۱۷۷۶۹)
بشر تغلبی سے مروی ہے کہ وہ سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھا کرتے تھے، انہوںنے بتلایا کہ دمشق میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ایک صحابی تھے، ان کو ابن حنظلیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہا جاتا تھا،وہ گوشتہ نشین قسم کے آدمی تھے، وہ لوگوں سے بہت کم ملتے جلتے تھے، بس نماز میں مصروف رہتے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد گھر آنے تک اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تکبیر میں مشغول رہتے۔ ہم ایک دن سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ وہ ہمارے پاس سے گزرے۔ سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا کہ کوئی بات ہی ارشاد فرما دیں، ہمیں اس سے فائدہ ہو جائے گا اور آپ کا کچھ نہ جائے گا۔ انہوںنے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خریماسدی میں دو باتیں نہ ہوں تو وہ بہت ہی اچھا آدمی ہے، ایک تو اس کے بال کاندھوں تک لمبے ہیں اور دوسرے اس کی چادر ٹخنوں سے نیچے رہتی ہے۔ دوسری روایت کے الفاظ ہیں اگر وہ اپنے بال چھوٹے اور چادر بھی چھوٹی کر لے۔ جب یہ بات سیدنا خریم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تک جا پہنچی تو انہوںنے چھری لے کر فوراً اپنے بال نصف کا نوں تک کاٹ دیئے اور اپنی چادر نصف پنڈلی تک اوپر اٹھا لی۔ قیس کہتے ہیں: اس واقعہ کے بعد میں ایک دفعہ سیدنا امیر معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں گیا، ان کے ہاں ایک بزرگ تشریف فرما تھے،ان کے سر کے بال کانوں سے اوپر اور چادر نصف پنڈلی تک تھی، میں نے ان کے متعلق دریافت کیا تو کہنے والوں نے بتایا کہ یہ سیدنا خریم اسدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11692

۔ (۱۱۶۹۲)۔ حَدَّثَنَا شُعَیْبٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ، حَدَّثَنِی عُمَارَۃُ بْنُ خُزَیْمَۃَ الْأَنْصَارِیُّ، أَنَّ عَمَّہُ حَدَّثَہُ وَہُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابْتَاعَ فَرَسًا مِنْ أَعْرَابِیٍّ فَاسْتَتْبَعَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِیَقْضِیَہُ ثَمَنَ فَرَسِہِ، فَأَسْرَعَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَشْیَ وَأَبْطَأَ الْأَعْرَابِیُّ، فَطَفِقَ رِجَالٌ یَعْتَرِضُونَ الْأَعْرَابِیَّ، فَیُسَاوِمُونَ بِالْفَرَسِ لَا یَشْعُرُونَ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابْتَاعَہُ حَتّٰی زَادَ بَعْضُہُمُ الْأَعْرَابِیَّ فِی السَّوْمِ عَلٰی ثَمَنِ الْفَرَسِ الَّذِی ابْتَاعَہُ بِہِ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَادَی الْأَعْرَابِیُّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: إِنْ کُنْتَ مُبْتَاعَا ہٰذَا الْفَرَسَ فَابْتَعْہُ وَإِلَّا بِعْتُہُ، فَقَامَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ سَمِعَ نِدَائَ الْأَعْرَابِیِّ، فَقَالَ: ((أَوَلَیْسَ قَدِ ابْتَعْتُہُ مِنْکَ؟)) قَالَ الْأَعْرَابِیُّ: لَا، وَاللّٰہِ مَا بِعْتُکَ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((بَلٰی قَدِ ابْتَعْتُہُ مِنْکَ۔)) فَطَفِقَ النَّاسُ یَلُوذُونَ بِالنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالْأَعْرَابِیِّ وَہُمَا یَتَرَاجَعَانِ، فَطَفِقَ الْأَعْرَابِیُّ یَقُولُ: ہَلُمَّ شَہِیدًا یَشْہَدُ أَنِّی بَایَعْتُکَ، فَمَنْ جَائَ مِنْ الْمُسْلِمِینَ قَالَ لِلْأَعْرَابِیِّ: وَیْلَکَ، النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یَکُنْ لِیَقُولَ إِلَّا حَقًّا، حَتَّی جَائَ خُزَیْمَۃُ فَاسْتَمَعَ لِمُرَاجَعَۃِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمُرَاجَعَۃِ الْأَعْرَابِیِّ فَطَفِقَ الْأَعْرَابِیُّ یَقُولُ: ہَلُمَّ شَہِیدًا یَشْہَدُ أَنِّی بَایَعْتُکَ، قَالَ خُزَیْمَۃُ: أَنَا أَشْہَدُ أَنَّکَ قَدْ بَایَعْتَہُ، فَأَقْبَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی خُزَیْمَۃَ، فَقَالَ: ((بِمَ تَشْہَدُ؟)) فَقَالَ: بِتَصْدِیقِکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، فَجَعَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَہَادَۃَ خُزَیْمَۃَ شَہَادَۃَ رَجُلَیْنِ۔ (مسند احمد: ۲۲۲۲۸)
عمارہ بن خزیمہ انصاری سے مروی ہے کہ ان کے چچا جو کہ صحابی تھے، نے ان کو بیان کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک بدّو سے ایک گھوڑا خریدا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: میرے ساتھ آکر گھوڑے کی قیمت وصول کر لو۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تیز رفتار تھے اور بدّو کی رفتار سست تھی، سو یہ بدّو پیچھے رہ گیا اور کچھ لوگ اعرابی کے پاس آئے اور اس کے ساتھ گھوڑے کا سودا کرنے لگے۔ انہیںیہ علم نہیں تھا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے گھوڑے کا سودا طے کر لیا ہے۔ یہاں تک کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جس قیمت میں گھوڑا خریدا تھا۔ ایک آدمی نے گھوڑے کی قیمت اس سے زیادہ لگا دی، اعرابی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پکار کر کہا: آپ یہ گھوڑا خریدنا چاہتے ہیں تو خرید لیں ورنہ میں کسی اور کے ہاتھ بیچ رہا ہوں۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اعرابی کی آواز سنی تو رک گئے اور فرمایا: کیایہ گھوڑا میں تم سے خرید نہیں چکا ہوں؟ اس نے کہا:اللہ کی قسم نہیں، میں نے تو آپ کے ہاتھ اسے بیچا ہی نہیں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں، میں تو اسے تم سے خرید چکا ہوں۔ لوگ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور اعرابی کے اردا گرد اکٹھے ہوگئے اور وہ ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے کہ اس اعرابی نے کہا: اگر آپ سچے ہیں تو کوئی گواہ پیش کریں، جو گواہی دے کہ میں نے یہ گھوڑا آپ کے ہاتھ فروخت کیا ہے۔ اتنے میں ایک مسلمان نے آگے بڑھ کر اعرابی سے کہا: تجھ پر افسوس ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیشہ سچ ہی کہتے ہیں، جھوٹ نہیں بولتے۔ یہاں تک کہ سیدنا خزیمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگئے اور انہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اور اعرابی کی باتیں سنیں، اعرابی کہہ رہا تھا کہ کوئی گواہ پیش کرو جو گواہی دے کہ میں نے یہ گھوڑا آپ کے ہاتھ فروخت کیا ہے۔ سیدنا خزیمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بولے: میں گواہی دیتا ہوں کہ تم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ یہ گھوڑا فروخت کر دیا ہے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا خزیمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: تم یہ گواہی کس بنیاد پردے رہے ہو؟ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ کی تصدیق کی بنیاد پر کہا، آپ ہمیشہ سچ ہی بولتے ہیں۔تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا خزیمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اکیلے کی گواہی کو دو گواہوں کے برابر قرار دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11693

۔ (۱۱۶۹۳)۔ أَبِیْ ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ھُوَ ابْنُ فَارِسٍ، أَنَا یُوْنُسُ، عَنِ الزُّھْرِیِّ، عَنِ ابْنِ خُزَیْمَۃَ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِیِّ صَاحِبِ الشَّہَادَتَیْنِ، عَنْ عَمِّہِ، أَنَّ خُزَیْمَۃَ بْنَ ثَابِتِ نِ الْاَنْصَارِیِّ رَآی فِی الْمَنَامِ أَنَّہٗ سَجَدَ عَلَی جَبْہَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِذٰلِکَ، فَاضْطَجَعَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ: ((صَدِّقْ بِذٰلِکَ رُؤْیَاکَ فَسَجَدَ عَلٰی جَبْہَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۲۲۲۷)
عمارہ بن خزیمہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ سیدناخزیمہ بن ثابت انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے خواب میں دیکھا کہ انہوںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیشانی پرسجدہ کیا۔ پھر جب انہوںنے اپنا یہ خواب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے سامنے لیٹ گئے اور فرمایا: تم اپنا خواب اس طرح پورا کر لو۔ چنانچہ انہوںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیشانی پر سجدہ کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11694

۔ (۱۱۶۹۴)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدٍ أَوْ غَیْرِہِ، أَنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ قَالَ: لَمَّا کُتِبَتِ الْمَصَاحِفُ فَقَدْتُ آیَۃً کُنْتُ أَسْمَعُہَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَوَجَدْتُہَا عِنْدَ خُزَیْمَۃَ الْأَنْصَارِیِّ، {مِنَ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ … …تَبْدِیلًا} قَالَ: فَکَانَ خُزَیْمَۃُ یُدْعٰی ذَا الشَّہَادَتَیْنِ، أَجَازَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَہَادَتَہُ بِشَہَادَۃِ رَجُلَیْنِ، قَالَ الزُّھْرِیُّ: وَقُتِلَ یَوْمَ صِفِّیْنَ مَعَ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌۔ (مسند احمد: ۲۱۹۹۱)
سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب قرآن کریم کے مصاحف لکھے جا رہے تھے تو میں نے ایک آیت گم پائی، میں خود اس آیت کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا کرتا تھا، وہ مجھے کسی کے ہاں سے لکھی ہوئی نہیں مل رہی تھی، آخر کار وہ مجھے سیدنا خزیمہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں سے لکھی ہوئی ملی، وہ آیتیہ تھی:{مِنَ الْمُؤمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَاعَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَنْ قَضٰی نَحْبَہٗوَمِنْھُمْمَّنْیَّنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا۔} … اہل ایمان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اللہ کے ساتھ کئے ہوئے اپنے عہدو پیمان کو خوب پورا کیا اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو اپنے مقصد اور منزل کو پاگئے اور بعض حصول منزل کے منتظر ہیں اور انہوںنے اپنے کئے ہوئے عہد میں تبدیلی بالکل نہیں کی۔ (سورۂ احزاب: ۲۳) سیدنا خزیمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ذوالشھادتین یعنی دو گواہیوں والے کہلاتے تھے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان اکیلے کی گواہی کو دو گواہیوں کے برابر قرار دیا تھا۔ زہری کہتے ہیں کہ وہ صفین کے موقعہ پر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معیت میں قتل ہوئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11695

۔ (۱۱۶۹۵)۔ قَالَ أَخْبَرَنِی یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ، قَالَ أَخْبَرَتْنِی جَدَّتِی، یَعْنِی امْرَأَۃَ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ، قَالَ عَفَّانُ: عَنْ جَدَّتِہِ أُمِّ أَبِیہِ امْرَأَۃِ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ، أَنَّ رَافِعًا رَمٰی مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ أُحُدٍ اَوْ یَوْمَ خَیْبَرَ، قَالَ: أَنَا أَشُکُّ بِسَہْمٍ فِی ثَنْدُوَتِہِ، فَأَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ انْزِعِ السَّہْمَ، قَالَ: ((یَا رَافِعُ إِنْ شِئْتَ نَزَعْتُ السَّہْمَ وَالْقُطْبَۃَ جَمِیعًا، وَإِنْ شِئْتَ نَزَعْتُ السَّہْمَ وَتَرَکْتُ الْقُطْبَۃَ، وَشَہِدْتُ لَکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَنَّکَ شَہِیدٌ۔)) قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ بَلْ انْزِعِ السَّہْمَ وَاتْرُکِ الْقُطْبَۃَ، وَاشْہَدْ لِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَنِّی شَہِیدٌ، قَالَ: فَنَزَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم السَّہْمَ وَتَرَکَ الْقُطْبَۃَ۔ (مسند احمد: ۲۷۶۶۹)
سیدنا رافع بن خدیج ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اہلیہ نے بیان کیا کہ سیدنا رافع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ احدیا خیبر کے دن ایک تیر ان کے سینے میں آ کر لگا تھا، انہوںنے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ اس تیر کو باہر کھینچ دیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رافع! اگر تم چاہو تو میں تیر اور اس کے پھل دونوں کو کھینچ دوں، لیکن اگر چاہو تو تیر کو باہر کھینچ لوں اور اس کے پھل کو اندر ہی رہنے دوں اور میں قیامت کے دن تمہارے حق میں گواہی دوں کہ تم اللہ کی راہ میں شہید ہو۔ انہوںنے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! تو پھر آپ تیر کھینچ لیں اور اس کے پھل کو اندر رہنے دیں اور آپ قیامت کے دن میرے حق میں گواہی دیں کہ میں اللہ کی راہ میں شہید ہوا ہوں۔ پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تیر کو باہر کھینچ لیا اور اس کا پھل رہنے دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11696

۔ (۱۱۶۹۶)۔ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُبَارَکُ یَعْنِی ابْنَ فَضَالَۃَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِیُّ، عَنْ رَبِیعَۃَ الْأَسْلَمِیِّ، قَالَ: کُنْتُ أَخْدُمُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((یَا رَبِیعَۃُ أَلَا تَزَوَّجُ؟)) قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ! یَا رَسُولَ اللّٰہِ، مَا أُرِیدُ أَنْ أَتَزَوَّجَ مَا عِنْدِی مَا یُقِیمُ الْمَرْأَۃَ، وَمَا أُحِبُّ أَنْ یَشْغَلَنِی عَنْکَ شَیْئٌ، فَأَعْرَضَ عَنِّی فَخَدَمْتُہُ مَا خَدَمْتُہُ، ثُمَّ قَال لِی الثَّانِیَۃَ: ((یَا رَبِیعَۃُ! أَلَا تَزَوَّجُ؟)) فَقُلْتُ: مَا أُرِیدُ أَنْ أَتَزَوَّجَ، مَا عِنْدِی مَا یُقِیمُ الْمَرْأَۃَ، وَمَا أُحِبُّ أَنْ یَشْغَلَنِیْ عَنْکَ شَیْئٌ فَأَعْرَضَ عَنِّی، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلٰی نَفْسِی، فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ! لَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِمَا یُصْلِحُنِی فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ أَعْلَمُ مِنِّی، وَاللّٰہِ! لَئِنْ قَالَ: تَزَوَّجْ، لَأَقُولَنَّ: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، مُرْنِی بِمَا شِئْتَ، قَالَ فَقَالَ: ((یَا رَبِیعَۃُ أَلَا تَزَوَّجُ؟)) فَقُلْتُ: بَلٰی مُرْنِی بِمَا شِئْتَ، قَالَ: ((انْطَلِقْ إِلٰی آلِ فُلَانٍ حَیٍّ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَکَانَ فِیہِمْ تَرَاخٍ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْ لَہُمْ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَرْسَلَنِیْ إِلَیْکُمْ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُزَوِّجُونِیْ فُلَانَۃَ لِامْرَأَۃٍ مِنْہُمْ۔)) فَذَہَبْتُ: فَقُلْتُ لَہُمْ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ أَرْسَلَنِی إِلَیْکُمْ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُزَوِّجُونِیْ فُلَانَۃَ فَقَالُوْا: مَرْحَبًا بِرَسُولِ اللّٰہِ وَبِرَسُولِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاللّٰہِ، لَا یَرْجِعُ رَسُولُ رَسُولِ اللّٰہِ ص ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَّا بِحَاجَتِہِ فَزَوَّجُونِیْ وَأَلْطَفُونِیْ وَمَا سَأَلُونِی الْبَیِّنَۃَ، فَرَجَعْتُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَزِینًا، فَقَالَ لِی: ((مَا لَکَ یَا رَبِیعَۃُ؟)) فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ، أَتَیْتُ قَوْمًا کِرَامًا فَزَوَّجُونِیْ وَأَکْرَمُونِی وَأَلْطَفُونِی وَمَا سَأَلُونِی بَیِّنَۃً وَلَیْسَ عِنْدِی صَدَاقٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا بُرَیْدَۃُ الْأَسْلَمِیُّ اجْمَعُوْا لَہُ وَزْنَ نَوَاۃٍ مِنْ ذَہَبٍ۔)) قَالَ: فَجَمَعُوْا لِی وَزْنَ نَوَاۃٍ مِنْ ذَہَبٍ، فَأَخَذْتُ مَا جَمَعُوْا لِی فَأَتَیْتُ بِہِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((اذْہَبْ بِہٰذَا إِلَیْہِمْ فَقُلْ: ہٰذَا صَدَاقُہَا۔)) فَأَتَیْتُہُمْ فَقُلْتُ: ہَذَا صَدَاقُہَا فَرَضُوہُ وَقَبِلُوہُ وَقَالُوْا: کَثِیرٌ طَیِّبٌ، قَالَ: ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَزِینًا، فَقَالَ: ((یَا رَبِیعَۃُ! مَا لَکَ حَزِینٌ؟)) فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا رَأَیْتُ قَوْمًا أَکْرَمَ مِنْہُمْ، رَضُوْا بِمَا آتَیْتُہُمْ وَأَحْسَنُوْا وَقَالُوْا: کَثِیرًا طَیِّبًا، وَلَیْسَ عِنْدِی مَا أُولِمُ، قَالَ: ((یَا بُرَیْدَۃُ اجْمَعُوْا لَہُ شَاۃً۔)) قَالَ: فَجَمَعُوْا لِی کَبْشًا عَظِیمًا سَمِینًا، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اذْہَبْ إِلٰی عَائِشَۃَ، فَقُلْ لَہَا: فَلْتَبْعَثْ بِالْمِکْتَلِ الَّذِی فِیہِ الطَّعَامُ۔)) قَالَ: فَأَتَیْتُہَا فَقُلْتُ لَہَا مَا أَمَرَنِی بِہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ: ہٰذَا الْمِکْتَلُ فِیہِ تِسْعُ آصُعِ شَعِیرٍ، لَا وَاللّٰہِ إِنْ أَصْبَحَ لَنَا طَعَامٌ غَیْرُہُ خُذْہُ، فَأَخَذْتُہُ فَأَتَیْتُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَََََ وَأَخْبَرْتُہُ مَا قَالَتْ عَائِشَۃُ، فَقَالَ: ((اذْہَبْ بِہٰذَا إِلَیْہِمْ فَقُلْ: لِیُصْبِحْ ہٰذَا عِنْدَکُمْ خُبْزًا۔)) فَذَہَبْتُ إِلَیْہِمْ وَذَہَبْتُ بِالْکَبْشِ وَمَعِی أُنَاسٌ مِنْ أَسْلَمَ، فَقَالَ: لِیُصْبِحْ ہٰذَا عِنْدَکُمْ خُبْزًا وَہٰذَا طَبِیخًا، فَقَالُوْا: أَمَّا الْخُبْزُ فَسَنَکْفِیکُمُوہُ وَأَمَّا الْکَبْشُ فَاکْفُونَا أَنْتُمْ، فَأَخَذْنَا الْکَبْشَ أَنَا وَأُنَاسٌ مِنْ أَسْلَمَ فَذَبَحْنَاہُ وَسَلَخْنَاہُ وَطَبَخْنَاہُ فَأَصْبَحَ عِنْدَنَا خُبْزٌ وَلَحْمٌ، فَأَوْلَمْتُ وَدَعَوْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَعْطَانِی أَرْضًا وَأَعْطَانِی أَبُو بَکْرٍ أَرْضًا وَجَاء َتْ الدُّنْیَا فَاخْتَلَفْنَا فِی عِذْقِ نَخْلَۃٍ، فَقُلْتُ: أَنَا ہِیَ فِی حَدِّی، وَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: ہِیَ فِی حَدِّی فَکَانَ بَیْنِی وَبَیْنَ أَبِی بَکْرٍ کَلَامٌ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ کَلِمَۃً کَرِہَہَا وَنَدِمَ، فَقَالَ لِی: یَا رَبِیعَۃُ رُدَّ عَلَیَّ مِثْلَہَا حَتَّی تَکُونَ قِصَاصًا، قَالَ: قُلْتُ: لَا أَفْعَلُ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: لَتَقُولَنَّ أَوْ لَأَسْتَعْدِیَنَّ عَلَیْکَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِفَاعِلٍ، قَالَ: وَرَفَضَ الْأَرْضَ وَانْطَلَقَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَانْطَلَقْتُ أَتْلُوْہُ، فَجَائَ نَاسٌ مِنْ أَسْلَمَ فَقَالُوْا لِی: رَحِمَ اللّٰہُ أَبَا بَکْرٍ فِی أَیِّ شَیْئٍ یَسْتَعْدِی عَلَیْکَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ قَالَ لَکَ مَا قَالَ، فَقُلْتُ: أَتَدْرُونَ مَا ہٰذَا؟ ہٰذَا أَبُوْ بَکْرٍ الصِّدِّیقُ، ہٰذَا ثَانِیَ اثْنَیْنِ، وَہٰذَا ذُوْ شَیْبَۃِ الْمُسْلِمِینَ، إِیَّاکُمْ لَایَلْتَفِتُ فَیَرَاکُمْ تَنْصُرُونِی عَلَیْہِ، فَیَغْضَبَ فَیَأْتِیَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَیَغْضَبَ لِغَضَبِہِ فَیَغْضَبَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِغَضَبِہِمَا فَیُہْلِکَ رَبِیعَۃَ، قَالُوْا: مَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: ارْجِعُوْا، قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَتَبِعْتُہُ وَحْدِی حَتّٰی أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَحَدَّثَہُ الْحَدِیثَ، کَمَا کَانَ فَرَفَعَ إِلَیَّ رَأْسَہُ، فَقَالَ: ((یَا رَبِیعَۃُ! مَا لَکَ وَلِلصِّدِّیقِ؟)) قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! کَانَ کَذَا کَانَ کَذَا، قَالَ لِیْ کَلِمَۃً کَرِھَہَا، فَقَالَ لِیْ: قُلْ کَمَا قُلْتُ حَتّٰی یَکُوْنَ قِصَاصًا فَاَبَیْتُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَجَلْ فَلَا تَرُدَّ عَلَیْہِ وَلٰکِنْ، قُلْ: غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ یَا أَبَا بَکْرٍ!۔)) فَقُلْتُ: غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ یَا أَبَا بَکْرٍ، قَالَ الْحَسَنُ: فَوَلّٰی أَبُوْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ وَھُوَ یَبْکِیْ۔ (مسند احمد: ۱۶۶۹۳)
سیدنا ربیعہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: ربیعہ! تم شادی کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں شادی نہیں کرنا چاہتا، میں بیوی کی ضروریات پوری کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا، میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ کوئی چیز مجھے آپ کی طرف سے مصروف (اور غافل) کر دے۔ آپ نے اس بارے میں مجھ سے مزید کچھ نہ کہا۔ پھر جب تک اللہ کو منظور تھا، میں آپ کی خدمت بجا لاتا رہا۔ کافی عرصہ بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک دفعہ پھر مجھ سے فرمایا: ربیعہ! تم شادی کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں شادی نہیں کرنا چاہتا، نہ ہی میں بیوی کی ضروریات پوری کر سکتا ہوں، میں یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ کوئی چیز مجھے آپ کی طرف سے مشغول (یا غافل) کرے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے مزید کچھ نہ کہا، میں نے اس کے بعد دل میں سوچاکہ اللہ کے رسول بہتر جانتے ہیں کہ کونسی چیز میرے لیے دنیا اور آخرت میں بہتر ہے۔ اللہ کی قسم! اگر اب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے نکاح کے متعلق ارشاد فرمایا تو میں کہہ دوں گا کہ اللہ کے رسو ل ٹھیک ہے، آپ جو چاہیں مجھے ارشاد فرمائیں۔ آپ نے ایک دفعہ پھر مجھ سے فرمایا: ربیعہ! تم نکاح کیوں نہیں کر لیتے؟ میں نے عرض کیا:جی ٹھیک ہے، آپ جو چاہیں مجھے حکم فرمائیں، آپ نے ایک انصاری قبیلہ کا نام لے کر فرمایا کہ تم ان کے ہاں جائو، وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں کچھ وقفہ سے آیا کرتے تھے، تم جا کر ان سے کہو کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے، وہ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنے خاندان کی فلاں خاتون کا نکاح میرے ساتھ کر دو، چنانچہ میں نے ان کے ہاں جا کر ان سے کہا کہ مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تمہاری طرف بھیجا ہے اور حکم دیا ہے کہ تم فلاں خاتون کا نکاح میرے ساتھ کردو۔ وہ کہنے لگے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ان کے نمائندے کو مرحبا (خوش آمدید)، اللہ کی قسم، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا بھیجا ہوا آدمی اپنی ضرورت پوری کرکے واپس جائے گا۔ چنانچہ انہوںنے میرا نکاح کر دیا اور میرے ساتھ بہت اچھا برتائو کیا۔ انہوں نے مجھ سے اس بات کا بھی ثبوت طلب نہ کیا کہ کیا واقعی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بھیجا بھی ہے؟ میں غمگین سا ہو کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں واپس آیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: ربیعہ! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں بہت ہی با اخلاق لوگوں کے پاس گیا، انہوںنے میری خوب آئو بھگت کی اور میرے ساتھ حسن سلوک کیا، انہوںنے مجھ سے اس بات کی دلیل بھی نہیں مانگی کہ کیا واقعی آپ نے مجھے ان کی طرف بھیجا ہے؟ اب مسئلہ یہ ہے کہ میں مہر ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے بریدہ اسلمی! تم اس کے لیے پانچ درہم چاندی کی قیمت کے مساوی سونا جمع کرو۔ پس انہوںنے میرے لیےاتنا سونا جمع کر دیا، انہوںنے میری خاطر جو سونا جمع کیا تھا میں اسے لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آگیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم یہ سونا ان یعنی اپنے سسرال کے ہاں لے جائو اور ان سے کہنا کہ یہ اس کا مہر ہے۔ چنانچہ میں ان لوگوں کے ہاں گیا اور میں نے ان سے کہا کہ یہ اس کا (یعنی میری بیوی کا) مہر ہے۔ وہ اس پر راضی ہوگئے اور انہوںنے اسی کو قبول کر لیا اور ساتھ ہی کہا کہ یہ بہت ہی پاکیزہ ہے۔ سیدنا ربیعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں ایک دفعہ پھر غمگین ہو کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: ربیعہ! کیا بات ہے؟ غمگین کیوں ہو؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے ان سے بڑھ کر شریف لوگ نہیں دیکھے، میں نے ان کو جو بھی دیا وہ اسی پر راضی ہوگئے اورانہوںنے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ بہت ہے اور پاکیزہ ہے۔اب میری تو حالت یہ ہے کہ میں ولیمہ کرنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتا۔ آپ نے فرمایا: اے بریدہ! اس کے لیے ایک بکری کا انتظام کرو۔ چنانچہ انہوں نے میرے لیے اتنی رقم جمع کر دی کہ ایک بڑا اور موٹا تازہ مینڈھا خرید لیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس جا کر ان سے کھانے والا بڑا برتن لے آئو۔ میں ان کی خدمت میں گیا اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے جو حکم فرمایا تھا، میں نے ان سے بیان کر دیا۔ انہوںنے کہا: وہ یہ برتن ہے، اس میں نو صاع (تقریباً۲۲کلو) جو ہیں۔ اللہ کی قسم! ہمارے ہاں اس کے علاوہ کھانے کی اور کوئی چیز نہیں ہے، تم یہ لے جائو۔ چنانچہ میں وہ لے گیااور لے جاکر وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ اور ام المومنین نے جو کچھ کہا تھا وہ بھی بیان کر دیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم یہ خوراک ان (اپنے سسرال) کے ہاں لے جائو۔ اور کہو کہ یہ تمہارے ہاں روٹی کے کام آئیں گے۔ چنانچہ میں مینڈھا بھی ساتھ لے کر وہاں چلا گیا، میرے ساتھ میرے قبیلہ کے لوگ بھی تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ جو روٹی کے لیے اور یہ مینڈھا سالن پکانے کے لیے ہے، وہ کہنے لگے کہ روٹی ہم تیار کرتے ہیں اور مینڈھے کو تم تیار کرو، میں نے اور قبیلہ کے کچھ لوگوں نے مینڈھے کو ذبح کرکے اس کی کھال اتار کر گوشت تیار کرکے اسے پکایا، ہمارے پاس روٹی اور گوشت کا سالن تیار تھا۔ میں نے ولیمہ کیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بھی دعوت دی۔ اس سے آگے سیدنا ربیعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے بعد مجھے اور ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قطعۂ زمین عنایت فرمایا، ہمارے پاس دنیا کا مال آگیا، میرا اور ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا کھجور کے ایک درخت کے بارے میں جھگڑا ہو گیا۔ میں نے دعوی کیا کہ یہ میری حد میں ہے اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہا کہ یہ میری حد میں ہے۔ میرے اور ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے درمیان تو تکار ہوگئی، غصے میں ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک سخت کلمہ کہہ گئے، وہ خود انہیں بھی اچھا نہ لگا اور وہ خود اس پر نادم ہوئے، انہوںنے مجھ سے کہا: ربیعہ! تم بھی مجھے اسی قسم کے الفاظ کہہ لو، تاکہ بدلہ پورا ہو جائے۔ میں نے کہا کہ میں تو ایسے نہیں کروںگا، ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بولے تمہیں ایسے الفاظ کہنے ہوں گے ورنہ میں اس بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے شکایت کر دوں گا۔ میںنے کہا: میں تو ایسا کام نہیں کر سکتا یعنی آپ کو ایسے الفاظ نہیں کہہ سکتا۔ ربیعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے وہ متنازعہ جگہ چھوڑ دی اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف چل دیئے، میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ میرے قبیلے بنو اسلم کے بھی کچھ لوگ آگئے اور انہوںنے مجھ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر رحم کرے، وہ کس بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں تیری شکایت کریں گے؟ حالانکہ سخت اور ناگوار قسم کے الفاظ تو خود انہوںنے کہے ہیں۔ میں نے ان لوگوں سے کہا: کیا تم جانتے ہو وہ کون ہیں؟ وہ ابو بکرصدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں،وہ ثانی اثنین ہیں۔ (یعنی جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہجرت کی تو غار میں اللہ کے رسول کے ساتھ دوسرے فرد وہی تھے۔) تمام مسلمانوں میں سے معزز و مکرم وہی ہیں۔ خبردار! خیال کرو کہ وہ کہیں مڑ کر تمہیں نہ دیکھ لیں کہ تم ان کے خلاف میری مدد کرنے آئے ہو۔ انہوںنے دیکھ لیا تو ناراض ہو جائیں گے۔ وہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گئے تو ان کے غصہ کی بنیاد پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی ناراض ہو جائیں گے اور ان دونوں کی ناراضگی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بھی ناراض ہو جائے گا اور ربیعہ ہلاک ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا: تو پھر تم ہمیں کیا حکم دیتے ہو؟ اس نے کہا:تم واپس چلے جائو۔ چنانچہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں چلے گئے، ان کے پیچھے پیچھے میں بھی اکیلا چلا گیا۔ انہوں نے جا کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ساری بات بتلا دی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری طرف سر اٹھا کر دریافت فرمایا: ربیعہ! تمہارے اور ابو بکر کے درمیان کیا بات ہوئی ہے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!بات اس طرح ہوئی تھی۔ انہوںنے مجھے ایسے الفاظ کہہ دیئے جو خود انہیں بھی اچھے نہیں لگے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں بھی ان کو اسی قسم کے الفاظ کہوں تاکہ قصاص ہو جائے۔ لیکن میں نے ایسے الفاظ کہنے سے انکار کر دیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بہت اچھا، تم ایسے الفاظ نہ کہنا، بلکہ تم یوں کہو ابو بکر! اللہ آپ کو معاف کرے۔ تو میں نے کہا: اے ابو بکر! اللہ آپ کو معاف کرے۔ حسن نے بیان کیا کہ اس کے بعد ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ روتے ہوئے چلے گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11697

۔ (۱۱۶۹۷)۔ عَنْ نُعَیْمٍ الْمُجْمِرِ، عَنْ رَبِیعَۃَ بْنِ کَعْبٍ قَالَ: کُنْتُ أَخْدُمُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَقُومُ لَہُ فِی حَوَائِجِہِ نَہَارِی أَجْمَعَ حَتّٰی یُصَلِّیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْعِشَائَ الْآخِرَۃَ، فَأَجْلِسَ بِبَابِہِ إِذَا دَخَلَ بَیْتَہُ أَقُولُ لَعَلَّہَا أَنْ تَحْدُثَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَاجَۃٌ، فَمَا أَزَالُ أَسْمَعُہُ یَقُولُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((سُبْحَانَ اللّٰہِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ۔)) حَتّٰی أَمَلَّ فَأَرْجِعَ أَوْ تَغْلِبَنِی عَیْنِی فَأَرْقُدَ قَالَ: فَقَالَ لِی: یَوْمًا لِمَا یَرٰی مِنْ خِفَّتِی لَہُ وَخِدْمَتِی إِیَّاہُ: ((سَلْنِی یَا رَبِیعَۃُ أُعْطِکَ۔)) قَالَ: فَقُلْتُ: أَنْظُرُ فِی أَمْرِی یَا رَسُولَ اللّٰہِ ثُمَّ أُعْلِمُکَ ذٰلِکَ، قَالَ: فَفَکَّرْتُ فِی نَفْسِی فَعَرَفْتُ أَنَّ الدُّنْیَا مُنْقَطِعَۃٌ زَائِلَۃٌ وَأَنَّ لِی فِیہَا رِزْقًا سَیَکْفِینِی وَیَأْتِینِی، قَالَ: فَقُلْتُ: أَسْأَلُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِآخِرَتِی، فَإِنَّہُ مِنَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ بِالْمَنْزِلِ الَّذِی ہُوَ بِہِ، قَالَ: فَجِئْتُ فَقَالَ: ((مَا فَعَلْتَ؟ یَا رَبِیعَۃُ!۔)) قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ، أَسْأَلُکَ أَنْ تَشْفَعَ لِی إِلٰی رَبِّکَ فَیُعْتِقَنِی مِنَ النَّارِ، قَالَ: فَقَالَ: ((مَنْ أَمَرَکَ بِہٰذَا یَا رَبِیعَۃُ!۔)) قَالَ: فَقُلْتُ: لَا وَاللّٰہِ الَّذِی بَعَثَکِ بِالْحَقِّ، مَا أَمَرَنِی بِہِ أَحَدٌ، وَلٰکِنَّکَ لَمَّا قُلْتَ سَلْنِی أُعْطِکَ وَکُنْتَ مِنَ اللّٰہِ بِالْمَنْزِلِ الَّذِی أَنْتَ بِہِ، نَظَرْتُ فِی أَمْرِی وَعَرَفْتُ أَنَّ الدُّنْیَا مُنْقَطِعَۃٌ وَزَائِلَۃٌ، وَأَنَّ لِی فِیہَا رِزْقًا سَیَأْتِینِی، فَقُلْتُ أَسْأَلُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِآخِرَتِی، قَالَ: فَصَمَتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم طَوِیلًا ثُمَّ قَالَ لِی: ((إِنِّی فَاعِلٌ فَأَعِنِّی عَلٰی نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُودِ۔)) (مسند احمد: ۱۶۶۹۵)
نعیم بن مجمر بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ربیعہ بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا اور سارا سارا دن آپ کی ضروریات پوری کیا کرتا تھا، یہاں تک کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عشاء کی نمازادا فرما لیتے، نماز عشاء کے بعد آپ اپنے گھر تشریف لے جاتے تو میں آپ کے دروازے پر بیٹھ رہتا۔ میں سوچتا کہ ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کوئی ضرورت پیش آجائے، میں کافی دیر تک آپ کی آواز سنتا رہتا کہ آپ سُبْحَانَ اللّٰہِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِکے الفاظ ادا کرتے رہتے، یہاں تک کہ میں ہی تھک کر واپس آجاتا، یا مجھ پر آنکھیں غلبہ پالیتیں اور میں سو جاتا، میں چونکہ آپ کی خدمت کے لیے ہر وقت مستعد رہتا اور خوب خدمت کیا کرتا تھا، ایک دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے ربیعہ! مجھ سے کچھ مانگو، میں تمہیں دوں گا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں غور کرکے عرض کروں گا۔ میں نے دل میں کافی سوچ بچار کی، مجھے خیال آیا کہ دنیا تو منقطع ہو جانے والی چیز ہے اور میرے پاس دنیوی رزق کافی ہے، مزید بھی آتا رہے گا، میں نے سوچا کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آخرت کے بارے کچھ طلب کر لوں۔ کیونکہ آپ کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بلند مقام ہے، چنانچہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ربیعہ! سنائو کیا سوچا؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے سوچ لیا ہے۔ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ کہ آپ میرے حق میں رب تعالیٰ کے ہاں سفارش کریں کہ وہ مجھے جہنم سے آزاد کر دے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’ربیعہ! یہ دعا کرنے کا تمہیں کس نے کہا؟ میں نے عرض کیا: اللہ کی قسم، اس بات کا مجھے کسی نے بھی نہیں کہا، لیکن جب آپ نے مجھ سے فرمایا کہ مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا اور آپ کا اللہ کے ہاں جو مقام ہے وہ تو ہے ہی۔ تو میں نے اپنے تمام معاملات میں غور کیا تو مجھے یاد آیا کہ دنیا تو منقطع ہو جانے والی چیز ہے اور میرے پاس دنیوی رزق بہت ہے اور مزید ملتا بھی رہے گا۔ میں نے سوچا کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آخرت کے بارے میں کچھ طلب کر لوں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کافی دیر خاموش رہے، پھر مجھ سے فرمایا: ٹھیک ہے میں یہ کام کروں گا،لیکن تم بکثرت سجدے کرکے میری مدد کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11698

۔ (۱۱۶۹۸)۔ عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَہْلِ الْبَادِیَۃِ کَانَ اسْمُہُ زَاہِرًا، کَانَ یُہْدِی لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْہَدِیَّۃَ مِنَ الْبَادِیَۃِ، فَیُجَہِّزُہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا أَرَادَ أَنْ یَخْرُجَ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ زَاہِرًا بَادِیَتُنَا وَنَحْنُ حَاضِرُوہُ۔)) وَکَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُحِبُّہُ، وَکَانَ رَجُلًا دَمِیمًا، فَأَتَاہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمًا وَہُوَ یَبِیعُ مَتَاعَہُ، فَاحْتَضَنَہُ مِنْ خَلْفِہِ وَہُوَ لَا یُبْصِرُہُ، فَقَالَ الرَّجُلُ: أَرْسِلْنِی مَنْ ہٰذَا؟ فَالْتَفَتَ فَعَرَفَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَعَلَ لَا یَأْلُوْ مَا أَلْصَقَ ظَہْرَہُ بِصَدْرِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ عَرَفَہُ، وَجَعَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنْ یَشْتَرِی الْعَبْدَ؟)) فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِذًا وَاللّٰہِ تَجِدُنِی کَاسِدًا، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لٰکِنْ عِنْدَ اللّٰہِ لَسْتَ بِکَاسِدٍ۔)) أَوْ قَالَ: ((لٰکِنْ عِنْدَ اللّٰہِ أَنْتَ غَالٍ۔)) (مسند احمد: ۱۲۶۷۶)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی آدمی، جس کا نام زاہرتھا، وہ دیہات سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں تحائف لایا کرتا تھا، اس کی واپسی پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی اسے بدلے میں کوئی چیز عطا فرمایا کرتے تھے، ایک دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زاہر ہمارا دیہاتی اور ہم اس کے شہری ہیں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس سے بہت محبت تھی، وہ حسین نہیں تھے، وہ ایک دن اپنا سامان بیچ رہا تھا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پاس پہنچ گئے، وہ نہ دیکھ سکا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے پیچھے سے اسے پکڑ کر اپنے بازووں کے حصار میں لے لیا، وہ کہنے لگا: مجھے چھوڑ، کون ہے؟ اس نے مڑ کر دیکھا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پہچان لیا، اب وہ کوشش کرکے اپنی پشت کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سینہ مبارک کے ساتھ اچھی طرح لگانے لگا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمانے لگے: اس غلام کو کون خریدے گا؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! آپ مجھے کم قیمت پائیں گے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لیکن تم اللہ کے ہاں تو کم قیمت نہیں ہو، بلکہ اللہ کے ہاں تمہاری بہت زیادہ قیمت ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11699

۔ (۱۱۶۹۹)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اِشْتَدَّ الْأَمْرُ یَوْمَ الْخَنْدَقِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَلاَ رَجُلٍ یَأْتِیْنَا بِخَبَرِ بَنِیْ قُرَیْظَۃَ؟)) فَانْطَلَقَ الزُّبَیْرُ فَجَائَ بِخَبْرِھِمْ ثُمَّ اشْتَدَّ الْاَمْرُ اَیْضًا، فَذَکَرَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ لِکُلِّ نَبِیٍّ حَوَارِیًّا وَإِنَّ الزُّبَیْرَ حَوَارِیَّ۔)) (مسند احمد: ۱۴۴۲۸)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ خندق کے دن جب حالات سنگین ہو گئے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی ہے جو جا کر بنو قریظہ کی خبر لے کر آئے۔ یہ سن کر سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ گئے اور ان کے احوال معلوم کرکے آئے، جب پھر معاملہ سخت ہوا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسی طرح تین مرتبہ فرمایاکہ کون ہے جو بنو قریظہ کے احوال معلوم کرکے آئے۔ ہر بار سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اٹھ کر گئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیرہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11700

۔ (۱۱۷۰۰)۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَلزُّبَیْرُ اِبْنُ عَمَّتِیْ وَحَوَارِیَّ مِنْ اُمَّتِیْ۔)) (مسند احمد: ۱۴۴۲۷)
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زبیر میرا پھوپھی زاد اور میری امت میں سے میرا حواری ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11701

۔ (۱۱۷۰۱)۔ حَدَّثَنَا زَائِدَۃُ عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ ابْنُ جُرْمُوزٍ عَلٰی عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ وَأَنَا عِنْدَہُ، فَقَالَ عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: بَشِّرْ قَاتِلَ ابْنِ صَفِیَّۃَ بِالنَّارِ، ثُمَّ قَالَ عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((إِنَّ لِکُلِّ نَبِیٍّ حَوَارِیًّا وَحَوَارِیَّ الزُّبَیْرُ۔)) سَمِعْت سُفْیَانَ یَقُولُ: الْحَوَارِیُّ النَّاصِرُ۔ (مسند احمد: ۶۸۱)
زربن جیش سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میںحاضر تھا کہ ابن جرموز نے ان سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: سیدہ صفیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے بیٹےیعنی سیدنا زبیر بن عوام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو۔ اس کے بعد سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر نبی کا ایک حواری ہوتاہے اور میرا حواری زبیر ہے۔ امام سفیان نے کہا: حواری سے مراد مدگار ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11702

۔ (۱۱۷۰۲)۔ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ قَالَ: اسْتَأْذَنَ ابْنُ جُرْمُوزٍ عَلٰی عَلِیّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقَالَ: مَنْ ھٰذَا؟ قَالُوْا: اِبْنُ جَرْمُوْزٍ یَسْتَأْذِنُ قَالَ: ائْذَنُوْا لَہُ لِیَدْخُلْ قَاتِلُ الزُّبَیْرِ النَّارَ، إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ، فَذَکَرَ الْحَدِیْثَ الْمُتَقَدِّمَ۔ (مسند احمد: ۶۸۰)
زر بن جیش سے روایت ہے کہ ابن جرموز نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں آنے کی اجازت طلب کی، انھوں نے دریافت کیا: کون ہے ؟ لوگوںنے بتلایا کہ ابن جرموز آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اسے آنے دو، زبیر کا قاتل ضرور بالضرور جہنم رسید ہوگا۔ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کہتے سنا، پھر سابق حدیث کی طرح کی حدیث بیان کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11703

۔ (۱۱۷۰۳)۔ عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّہٗ قَالَ لِاِبْنِہِ عَبْدِ اللّٰہِ: یَا بُنَیَّ! اَمَا وَاللّٰہِ! اِنْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیَجْمَعُ لِیْ اَبَوَیْہِ جَمِیْعًا یُفْدِیْنِیْ بِہِمَا یَقُوْلُ: ((فِدَاکَ اَبِیْ وَ أُمِّیْ۔)) (مسند احمد: ۱۴۰۹)
سیدنا زبیر بن عوام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے،انہوںنے اپنے بیٹے عبداللہ سے کہا: میرے پیارے بیٹے ! اللہ کی قسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے مخاطب ہوتے ہوئے اپنے والدین کا ذکر کرکے فرمایا کرتے تھے: تجھ پر میرے والدین قربان ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11704

۔ (۱۱۷۰۴)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ مَوْلٰی اَسْمَائَ اَنَّہٗ سَمِعَ اَسْمَائَ بِنْتَ اَبِیْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا تَقُوْلُ: عِنْدِیْ لِلزُّبَیْرِ سَاعِدَانِ مِنْ دِیْیَاجِ کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَعْطَا ھُمَا اِیَّاہٗ یُقَاتِلُ فِیْہِمَا۔ (مسند احمد: ۲۷۵۱۵)
سیدہ اسمائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے غلام عبد اللہ سے مروی ہے کہ اس نے سیدہ اسماء بنت ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: میرے پاس زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی دو آستینیں ہیں، جو ریشم کی بنی ہوئی وہ ان کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عنایت کی تھیں، وہ انہیں پہن کر دشمن کے مقابلے کو نکلا کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11705

۔ (۱۱۷۰۵)۔ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیہِ عَنْ مَرْوَانَ، وَمَا إِخَالُہُ یُتَّہَمُ عَلَیْنَا، قَالَ: أَصَابَ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رُعَافٌ سَنَۃَ الرُّعَافِ حَتّٰی تَخَلَّفَ عَنِ الْحَجِّ وَأَوْصٰی، فَدَخَلَ عَلَیْہِ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ فَقَالَ: اسْتَخْلِفْ، قَالَ: وَقَالُوْہُ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مَنْ ہُوَ؟ قَالَ: فَسَکَتَ، قَالَ: ثُمَّ دَخَلَ عَلَیْہِ رَجُلٌ آخَرُ فَقَالَ لَہُ مِثْلَ مَا قَالَ لَہُ الْأَوَّلُ وَرَدَّ عَلَیْہِ نَحْوَ ذٰلِکَ، قَالَ: فَقَالَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: قَالُوْا الزُّبَیْرَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَمَا وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ، إِنْ کَانَ لَخَیْرَہُمْ مَا عَلِمْتُ وَأَحَبَّہُمْ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۴۵۵)
ہشام بن عروہ اپنے والد سے اور وہ مروان سے بیان کرتے ہیں،میں نہیں سمجھتا کہ وہ ہمارے نزدیک قابل تہمت ہو، ا س نے کہا کہ (۳۱) سن ہجری جو کہ سنۃ الرعاف یعنی نکسیر کا سال کہلاتا ہے، اس سال سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو نکسیر آئی اور ان کو اس قدر نکسیر آنے لگی کہ وہ حج کے لیے بھی نہ جا سکے اور انہیں موت کا اندیشہ لاحق ہوا تو انہوںنے اپنے بعد وصیت بھی کر دی، ایک قریشی آدمی ان کی خدمت میں گیا تو اس نے پوچھا: کیا آپ کے بعد کسی کو خلیفہ نام زد کر دیا گیا ہے؟ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے دریافت کیا: کیا لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں، انھوں نے پوچھا: وہ کون ہے یعنی خلیفہ کسے نامزد کیا گیاہے ؟ وہ خاموش رہا ، پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے بھی پہلے آدمی والی بات کی اور انہوںنے اسے بھی وہی جواب دیا۔ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیا لوگ زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خلیفہ بنائے جانے کا ذکر کرتے ہیں۔ اس نے کہا: جی ہاں۔ انھوں نے کہا: اس ذات کیقسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میرے علم کے مطابق وہ سب سے افضل ہیں اور ررسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11706

۔ (۱۱۷۰۶)۔ عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدٍ، أَنَّ أَبَاہُ زَیْدًا أَخْبَرَہُ أَنَّہُ لَمَّا قَدِمَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَدِینَۃَ، قَالَ زَیْدٌ: ذُہِبَ بِی إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأُعْجِبَ بِی، فَقَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ہٰذَا غُلَامٌ مِنْ بَنِی النَّجَّارِ مَعَہُ مِمَّا أَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ بِضْعَ عَشْرَۃَ سُورَۃً، فَأَعْجَبَ ذٰلِکَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ: ((یَا زَیْدُ! تَعَلَّمْ لِی کِتَابَ یَہُودَ فَإِنِّی وَاللّٰہِ مَا آمَنُ یَہُودَ عَلٰی کِتَابِی۔)) قَالَ زَیْدٌ: فَتَعَلَّمْتُ کِتَابَہُمْ مَا مَرَّتْ بِی خَمْسَ عَشْرَۃَ لَیْلَۃً حَتّٰی حَذَقْتُہُ وَکُنْتُ أَقْرَأُ لَہُ کُتُبَہُمْ إِذَا کَتَبُوْا إِلَیْہِ وَأُجِیبُ عَنْہُ إِذَا کَتَب۔ (مسند احمد: ۲۱۹۵۴)
خارجہ بن زید سے روایت ہے،ان کے والد سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو بتلانا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو مجھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے دیکھ کر خوش ہوئے،گھر والوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! بنو نجار کے اس لڑکے کوآپ پر نازل کی گئی سورتوں میں سے دس سے زیادہ سورتیںیاد ہیں،یہ بات بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بہت اچھی لگی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زید! تم یہودیوں کی زبان اورلکھنا پڑھنا سیکھ لو، اللہ کی قسم میں اپنی تحریروں کے بارے میں یہودیوں پر اعتماد نہیں کر سکتا۔ زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ان کی زبان لکھنا پڑھنا اور سیکھنا شروع کی اور میں پندرہ دنوں میں اس کا ماہر ہو گیا، اس کے بعد جب یہودی لوگ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نام خطوط لکھتے تو میں ہی وہ پڑھ کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سناتا اور جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے خطوط کا جواب لکھواتے تو میں ہی لکھا کرتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11707

۔ (۱۱۷۰۷)۔ عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُبَیْدٍ قَالَ: قَالَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ: قَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((تُحْسِنُ السُّرْیَانِیَّۃَ إِنَّہَا تَأْتِینِی کُتُبٌ۔)) قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: ((فَتَعَلَّمْہَا۔)) فَتَعَلَّمْتُہَا فِی سَبْعَۃَ عَشَرَ یَوْمًا۔ (مسند احمد: ۲۱۹۲۰)
سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’کیا تم سریانی زبان اچھی طرح جانتے ہو؟ میر ے پاس اس زبان میں خطوط آتے ہیں۔ میں نے عرض کیا: جی نہیں، آپ نے فرمایا: تو پھر تم اس زبان کو اچھی طرح سیکھ لو۔ پس میں نے سترہ دنوں میں یہ زبان اچھی طرح سیکھ لی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11708

۔ (۱۱۷۰۸)۔ عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اجْتَمَعَ جَعْفَرٌ وَعَلِیٌّ وَزَیْدُ بْنُ حَارِثَۃَ، فَقَالَ جَعْفَرٌ: أَنَا أَحَبُّکُمْ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ عَلِیٌّ: أَنَا أَحَبُّکُمْ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ زَیْدٌ: أَنَا أَحَبُّکُمْ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوْا: انْطَلِقُوا بِنَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی نَسْأَلَہُ، فَقَالَ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ: فَجَائُ وْا یَسْتَأْذِنُونَہُ، فَقَالَ: ((اخْرُجْ فَانْظُرْ مَنْ ہٰؤُلَائِ؟)) فَقُلْتُ: ہٰذَا جَعْفَرٌ وَعَلِیٌّ وَزَیْدٌ، مَا أَقُولُ أَبِی؟ قَالَ: ((ائْذَنْ لَہُمْ۔)) وَدَخَلُوْا فَقَالُوْا: مَنْ أَحَبُّ إِلَیْکَ؟ قَالَ: ((فَاطِمَۃُ۔)) قَالُوْا: نَسْأَلُکَ عَنْ الرِّجَالِ، قَالَ: ((أَمَّا أَنْتَ یَا جَعْفَرُ فَأَشْبَہَ خَلْقُکَ خَلْقِی وَأَشْبَہَ خُلُقِی خُلُقَکَ وَأَنْتَ مِنِّی وَشَجَرَتِی، وَأَمَّا أَنْتَ یَا عَلِیُّ! فَخَتَنِی وَأَبُو وَلَدِی وَأَنَا مِنْکَ وَأَنْتَ مِنِّی، وَأَمَّا أَنْتَ یَا زَیْدُ! فَمَوْلَایَ وَمِنِّی وَإِلَیَّ وَأَحَبُّ الْقَوْمِ إِلَیَّ۔)) (مسند احمد: ۲۲۱۲۰)
سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا جعفر، سیدنا علی اور سیدنا زید بن حارثہ اکٹھے ہوگئے۔ سیدنا جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کے رسول کو تم میں سب سے زیادہ محبت مجھ سے ہے۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کے رسول کو تم میں سب سے زیادہ مجھ سے محبت ہے۔ اور سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی کہا کہ تم سب کی بہ نسبت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مجھ سے زیادہ محبت ہے۔ پھر وہ سب بولے کہ چلو اللہ کے رسول کے پاس چلتے ہیں، پس ان سب نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسامہ باہر جا کر دیکھو کون لوگ ہیں؟ انھوں نے بتلایا کہ سیدنا جعفر، سیدنا علی اور سیدنا زید ہیں، میں نے یہ نہیں کہا کہ میرے والد ہیں (یاد رہے کہ سیدنا زید، سیدنا اسامہ کے والد تھے)، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان لوگوں کو آنے کی اجازت دے دو۔ سو وہ لوگ آئے اور انہوںنے دریافت کیا کہ آپ کو ہم میں سے زیادہ محبت کس کے ساتھ ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فاطمہ کے ساتھ۔ ‘ انھوں نے کہا: ہم تو آپ سے مردوں کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اے جعفر ! تمہاری شکل و صورت میری شکل و صورت سے اور میری شکل و صورت تمہاری شکل و صورت کے مشابہ ہے، آپ مجھ سے اور میرے خاندان میں سے ہیں، اے علی! آپ میرے داماد اور میری اولاد کے باپ ہیں، میں تمہارا ہوں اور تم میرے ہو اور اے زید! آپ میرے آزاد کردہ غلام ہو اور مجھ سے ہیں، آپ کا مجھ سے گہرا تعلق ہے اور تم مجھے سب سے زیادہ محبوب ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11709

۔ (۱۱۷۰۹)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: مَا بَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زَیْدَ بْنَ حَارِثَۃَ فِیْ جَیْشٍ قَطُّ اِلاَّ أَمَّرَہٗ عَلَیْہِ، وَلَوْ بَقِیَ بَعْدَہُ اسْتَخْلَفَہٗ۔ (مسند احمد: ۲۶۴۲۳)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زید بن حارثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو جس لشکر میں بھی روانہ کیا، ان کو اس کا امیر ہی مقررکیا، اگر وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد زندہ رہتے تو آپ انہیں کو لشکروں کا امیر بنا دیتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11710

۔ (۱۱۷۱۰)۔ عَنْ مُجَاہِدٍ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: جِیْئَ بِیْ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ جَائَ بِی عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ وَزُہَیْرٌ فَجَعَلُوْا یُثْنُوْنَ عَلَیْہِ، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَا تُعْلِمُونِی بِہِ قَدْ کَانَ صَاحِبِی فِی الْجَاہِلِیَّۃِ۔)) قَالَ: قَالَ نَعَمْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَنِعْمَ الصَّاحِبُ کُنْتَ، قَالَ: فَقَالَ: ((یَا سَائِبُ انْظُرْ أَخْلَاقَکَ الَّتِی کُنْتَ تَصْنَعُہَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، فَاجْعَلْہَا فِی الْإِسْلَامِ، أَقْرِ الضَّیْفَ، وَأَکْرِمِ الْیَتِیمَ، وَأَحْسِنْ إِلٰی جَارِکَ۔)) (مسند احمد: ۱۵۵۸۵)
سیدنا سائب بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: فتح مکہ والے روز مجھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لایا گیا، سیدنا عثمان بن عفان اور سیدنا زہیر مجھے لے کر آئے تھے، وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے میری تعریف و توصیف کرنے لگے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہیں اس کے بارے میں مجھے بتلانے کی ضروت نہیں،یہ قبل از اسلام میرے ساتھی تھے۔ سیدنا سائب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی کہا: آپ کے رسول نے بالکل درست فرمایا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بہترین رفیق تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سائب! تم اپنے اسلام سے پہلے والے اخلاق پر نظر رکھنا اور اسلام میں بھی وہی اخلاق اپنائے رکھنا، مہمانوں کی مہمان نوازی کیا کرو، یتیموں کا اکرام کیا کرو اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے رہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11711

۔ (۱۱۷۱۱)۔ عَنْ مُجَاہِدٍ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ أَبِی السَّائِبِ، أَنَّہُ کَانَ یُشَارِکُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَبْلَ الْإِسْلَامِ فِی التِّجَارَۃِ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ الْفَتْحِ جَائَ ہُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَرْحَبًا بِأَخِی وَشَرِیکِی (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: کُنْتَ شَرِیْکِیْ وَکُنْتَ خَیْرَ شَرِیْکٍ) کَانَ لَا یُدَارِیُٔ وَلَا یُمَارِی یَا سَائِبُ، قَدْ کُنْتَ تَعْمَلُ أَعْمَالًا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ لَا تُقْبَلُ مِنْکَ، وَہِیَ الْیَوْمَ تُقْبَلُ مِنْکَ۔)) وَکَانَ ذَا سَلَفٍ وَصِلَۃٍ۔ (مسند احمد: ۱۵۵۹۰)
سیدنا سائب بن ابی سائب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ اسلام سے قبل رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مل کر تجارت کیا کرتے تھے، مکہ فتح ہوا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو دیکھ کر فرمایا: میں اپنے بھائی اور شریک کار کو مرحبا کہتا ہوں۔ دوسری روایت میں ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میرے شریک کار تھے اور بہترین شریک کار تھے، وہ کسی بھی معاملے میں اختلاف اور جھگڑانہیں کرتے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے سائب! تم جاہلیت میں بہت اچھے عمل کرتے رہے، مگر وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں ہوتے تھے،، اب تمہاری طرف سے ایسے اعمال اللہ کے ہاں قبول ہوں گے۔ سیدنا سائب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لوگوں کو ادھار اور ادائیگی میں مہلت دیا کرتے اور صلہ رحمی کیا کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11712

۔ (۱۱۷۱۲)۔ عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ قَالَ حَجَّ بِیْ أَبِیْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاع، وَأَنَا ابْنُ سَبْعِ سِنِیْنَ۔ (مسند احمد: ۱۵۸۰۹)
سیدنا سائب بن یزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:حجۃ الوداع میں، جبکہ میری عمر سات برس تھی، میرے والد نے مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں مجھے حج کرایا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11713

۔ (۱۱۷۱۳)۔ عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ الصِّبْیَانِ إِلَی ثَنِیَّۃِ الْوَدَاعِ، نَتَلَقّٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ غَزْوَۃِ تَبُوکَ، وَقَالَ سُفْیَانُ مَرَّۃً: أَذْکُرُ مَقْدَمَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا قَدِمَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ تَبُوکَ۔ (مسند احمد: ۱۵۸۱۲)
سیدنا سائب بن یزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غزوۂ تبوک سے واپس تشریف لائے تو میں دوسرے بچوں کے ساتھ آپ کے استقبال کے لیے ثنیۃ الوداع کی طرف گیا تھا۔سفیان راوی نے ایک مرتبہ یوں بیان کیا: سائب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مجھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آمد کا واقعہ یاد ہے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تبوک سے واپس آئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11714

۔ (۱۱۷۱۴)۔ عَنِ ابْنِ سَابِطٍ، عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: اَبْطَأْتُ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((مَا حَبَسَکِ یَا عَائِشَۃُ؟)) قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّ فِی الْمَسْجِدِ رَجُلًا مَا رَأَیْتُ أَحَدًا أَحْسَنَ قِرَائَۃً مِنْہٗ، قَالَ: فَذَھَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِذَا ھُوَ سَالِمٌ مَوْلٰی أَبِیْ حُذَیْفَۃَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ فِی أُمَّتِیْ مِثْلَکَ۔)) (مسند احمد: ۲۵۸۳۴)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں:مجھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضری دینے میں تاخیر ہوگئی، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: عائشہ! تم کیوں لیٹ ہو گئی ہو؟ انہوںنے کہا: اے اللہ کے رسول! مسجد میں ایک آدمی تھا، میں نے اس سے زیادہ حسین قرأت کرتے کسی کو نہیں سنا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جا کر دیکھا تو وہ سیدنا ابو حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے غلام سیدنا سالم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، ان کو دیکھ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کا شکر ہے، جس نے میری امت میں تم جیسے لوگ بھی پیدا کیے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11715

۔ (۱۱۷۱۵)۔ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِی ذُبَابٍ، قَالَ: قَدِمْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَسْلَمْتُ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! اجْعَلْ لِقَوْمِی مَا أَسْلَمُوْا عَلَیْہِ مِنْ أَمْوَالِہِمْ، فَفَعَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاسْتَعْمَلَنِی عَلَیْہِمْ، ثُمَّ اسْتَعْمَلَنِی أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، ثُمَّ اسْتَعْمَلَنِی عُمَرُ مِنْ بَعْدِہِ۔ (مسند احمد: ۱۶۸۴۸)
سیدنا سعد بن ابی ذباب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا اور اسلام قبول کیا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! قبول اسلام کے وقت میری قوم کے لوگوں کے پاس جو اموال ہیں، آپ وہ اموال انہی کی ملکیت میں رہنے دیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایسے ہی کیا اور مجھے میری قوم پر امیر مقرر کر دیا، بعد میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اور ان کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی مجھے میری قوم پر امیر مقرر کیے رکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11716

۔ (۱۱۷۱۶)۔ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: مَا سَمِعْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَجْمَعُ أَبَاہٗ وَأُمَّہٗ لِاَحَدٍ غَیْرِ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ، فَاِنِّیْ سَمِعْتُہٗ یَُقْولُ یَوْمَ اُحُدٍ: ((اِرْمِ یَا سَعْدُ! فِدَاکَ أَبِیْ وَأُمِّیْ۔)) (مسند احمد: ۱۰۱۷)
سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کبھی نہیں سنا کہ آپ نے کسی کے لیےیوں فرمایا ہو کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ماں باب اس پر فدا ہوں، ما سوائے سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے، میں نے خود سنا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے احد والے دن فرمایا: اے سعد! تم دشمن پر تیر برسائو، میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11717

۔ (۱۱۷۱۷)۔ وَعَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ: قَالَ سَعْدُ بْنُ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ جَمَعَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَبْوَیْہِ یَوْمَ أُحُدٍ۔ (مسند احمد: ۱۴۹۵)
سیدنا سعد بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: احد کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے حق میںفدائیہ جملہ کہتے ہوئے اپنے والدا ور والدہ دونوں کا ذکر کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11718

۔ (۱۱۷۱۸)۔ حَدَّثَنَا قَیْسٌ قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ مَالِکٍ یَقُولُ: إِنِّی لَأَوَّلُ الْعَرَبِ رَمٰی بِسَہْمٍ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، وَلَقَدْ أَتَیْنَا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَا لَنَا طَعَامٌ نَأْکُلُہُ إِلَّا وَرَقَ الْحُبْلَۃِ، وَہٰذَا السَّمُرَ حَتّٰی إِنَّ أَحَدَنَا لَیَضَعُ کَمَا تَضَعُ الشَّاۃُ مَا لَہُ خِلْطٌ، ثُمَّ أَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدٍ یُعَزِّرُونِی عَلَی الدِّینِ، لَقَدْ خِبْتُ إِذَنْ وَضَلَّ عَمَلِی۔ (مسند احمد: ۱۶۱۸)
سیدنا سعد بن مالک یعنی سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سب سے پہلا عرب ہوں، جس نے اللہ کی راہ میں سب سے پہلے تیر برسانے1 کی سعادت نصیب ہوئی، میں نے صحابہ کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ اس حال میں بھی دیکھا ہے کہ ہمارے پاس کھانے کے لیے خاردار درختوں کے پتوں اور ببول کے درخت کے سوا کچھ نہ تھا، ہم قضائے حاجت کو جاتے تو بکریوں کی طرح مینگنیاں کرتے، فضلہ کے ساتھ کسی قسم کی آلائش نہ ہوتی (یعنی بالکل خشک فضلہ ہوتا ! نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ۱ھ میں ایک سریہ روانہ کیا۔ مقصد قریشی تجارتی قافلہ پر حملہ تھا۔ اس میں دونوں طرف سے تیروں کا تبادلہ ہوا۔ سعد اس سریہ میں شامل تھے اور سب سے پہلے انہوں نے تیر چلایا تھا، جس کا وہ اس حدیث میں تذکرہ کر رہے ہیں۔ فتح الباری: ص ۸۲۔ (عبداللہ رفیق) تھا)۔ اب بنو اسد کے لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ دین کے بارے میں مجھ پر طنز کرتے ہیں، اگر ان کا طنز حقیقت پر مبنی ہوتو میں تو خسارے میں رہا اور میرے اعمال برباد ہوگئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11719

۔ (۱۱۷۱۹)۔ (وَعَنْہٗ بِلَفِظٍ آخَرَ) قَالَ: لَقَدْ رَأَیْتُنِیْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَابِعَ سَبْعَۃٍ، وَمَا لَنَا طَعَامٌ اِلَّا وَرَقَ الْحُبْلَۃِ، حَتّٰی أَنَّ أَحَدَنَا لَیَضَعُ کَمَا تَضَعُ الشَّاۃُ مَا یُخَالِطُہٗ شَیْئٌ، ثُمَّ أَصْبَحَتْ بَنُوْ أَسَدٍ یُعَزِّرُوْنِّیْ عَلَی الْاِسْلَامِ، لَقَدْ خَسِرْتُ اِذًا وَضَلَّ سَعْیِیْ۔ (مسند احمد: ۱۴۹۸)
۔ (دوسری روایت) سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے خود کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ دیکھا، میں مسلمان ہونے والے گروہ میں ساتواں1 فرد تھا، ہمارے پاس خوراک کے طور پر صرف خاردار درختوں کے پتے تھے ا ور ہم قضائے حاجت کرتے تو بکریوں کی طرح مینگنیاں کرتے تھے اور یہ فضلہ لیس دار نہیں ہوتا تھا،لیکن اب بنو اسد اسلام کے بارے میں مجھ پر طنز کرتے ہیں، اگر ان کی بات درست ہو تو میں تو خسارے میں رہا اور میرے سارے اعمال اکارت گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11720

۔ (۱۱۷۲۰)۔ وَعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قاَلَ: ((أَوَّلُ مَنْ یَدْخُلُ مِنْ ھٰذَا الْبَابِ رَجُلٌ مِنْ أَھْلِ الْجَنَّۃِ۔)) فَدَخَلَ سَعْدُ بْنُ أَبِیْ وَقَّاصٍ۔ (مسند احمد: ۷۰۶۹)
عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس دروازے سے سب سے پہلے داخل ہونے والا آدمی اہل جنت میں سے ہے۔ پس سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس دروازے سے داخل ہوئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11721

۔ (۱۱۷۲۱)۔ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ أُنْزِلَتْ فِی أَبِی أَرْبَعُ آیَاتٍ قَالَ: قَالَ أَبِی أَصَبْتُ سَیْفًا قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! نَفِّلْنِیہِ، قَالَ: ((ضَعْہُ۔)) قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! نَفِّلْنِیہِ، أُجْعَلْ کَمَنْ لَا غَنَائَ لَہُ، قَالَ: ((ضَعْہُ مِنْ حَیْثُ أَخَذْتَہُ۔)) فَنَزَلَتْ: {یَسْأَلُونَکَ الْأَنْفَالَ} قَالَ: وَہِیَ فِی قِرَائَ ۃِ ابْنِ مَسْعُودٍ کَذٰلِکَ {قُلِ الْأَنْفَالُ} وَقَالَتْ أُمِّی: أَلَیْسَ اللّٰہُ یَأْمُرُکَ بِصِلَۃِ الرَّحِمِ وَبِرِّ الْوَالِدَیْنِ، وَاللّٰہِ! لَا آکُلُ طَعَامًا وَلَا أَشْرَبُ شَرَابًا حَتّٰی تَکْفُرَ بِمُحَمَّدٍ، فَکَانَتْ لَا تَأْکُلُ حَتّٰی یَشْجُرُوْا فَمَہَا بِعَصًا فَیَصُبُّوا فِیہِ الشَّرَابَ، قَالَ شُعْبَۃُ: وَأُرَاہُ قَالَ: وَالطَّعَامَ، فَأُنْزِلَتْ: {وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ أُمُّہُ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ} وَقَرَأَ حَتّٰی بَلَغَ {بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ} وَدَخَلَ عَلَیَّ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا مَرِیضٌ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أُوصِی بِمَالِی کُلِّہِ فَنَہَانِی، قُلْتُ: النِّصْفُ، قَالَ: ((لَا۔)) قُلْتُ: الثُّلُثُ، فَسَکَتَ فَأَخَذَ النَّاسُ بِہِ وَصَنَعَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ طَعَامًا فَأَکَلُوْا وَشَرِبُوا وَانْتَشَوْا مِنَ الْخَمْرِ، وَذَاکَ قَبْلَ أَنْ تُحَرَّمَ، فَاجْتَمَعْنَا عِنْدَہُ فَتَفَاخَرُوْا وَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: الْأَنْصَارُ خَیْرٌ، وَقَالَتِ الْمُہَاجِرُونَ: الْمُہَاجِرُونَ خَیْرٌ، فَأَہْوٰی لَہُ رَجُلٌ بِلَحْیَیْ جَزُورٍ فَفَزَرَ أَنْفَہُ، فَکَانَ أَنْفُ سَعْدٍ مَفْزُورًا فَنَزَلَتْ: {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ} إِلٰی قَوْلِہِ {فَہَلْ أَنْتُمْ مُنْتَہُونَ} [المائدۃ: ۹۰۔۹۱]۔ (مسند احمد: ۱۵۶۷)
سیدنا مصعب بن سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میرے باپ (سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) کے بارے میں چار آیات نازل ہوئی ہیں،میرے والد نے کہا: (غزوہ بدر کے ! اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سعد بن ابی وقاص بالکل ابتدائی مسلمان ہونے والوں میں سے ہیں۔ (بخاری: ۳۷۲۷) کی ایک روایت کے مطابق انہوں نے اپنے آپ کو ثلث الاسلام بھی قرار دیا ہے۔ دوران) مجھے ایک تلوار ملی، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ یہ تلوار مجھے زائد حصہ کے طور پر دے دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے رکھ دو۔ میں نے عرض کیا :اللہ کے رسول! آپ یہ تلوار تو مجھے میرے حصہ سے زائد کے طور پر عنایت فرما دیں، بس آپ مجھے یوں سمجھیں کہ میرا اس کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے یہ جہاں سے اٹھائی ہے، وہیں رکھ دو۔ اس موقع پر آیت نازل ہوئی: {یَسْأَلُونَکَ الْأَنْفَالَ قُلِ الْأَنْفَالُ} یہ قراء ت سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی ہے، (جبکہ قرآن کریم کی متواتر قرأت میں یَسْأَلُوْنَکَ عَنِ الْأَنْفَالِ ہے)۔ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میری والدہ نے کہا: کیا اللہ آپ کو صلہ رحمی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم نہیں دیتا؟ اللہ کی قسم! میں اس وقت تک نہ کچھ کھائوں گی اور نہ پیوں گی جب تک تم محمد( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے ساتھ کفر نہیں کرو گے، پس وہ کچھ نہیں کھاتی تھی،یہاں تک کہ گھر والے لکڑی کے ذریعے اس کے منہ کو کھول کر رکھتے اور وہ اس میں پینے کی کوئی چیز ڈالتے تھے۔ شعبہ کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ میر ے شیخ سماک بن حرب نے کھانے کا بھی ذکر کیا تھا، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی: {وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ وَّفِصٰلُہ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ۔ وَاِنْ جَاہَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖعِلْمٌفَلَاتُطِعْہُمَاوَصَاحِبْہُمَافِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا ْ وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔} … اور حقیقتیہ ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں ضعف پر ضعف اٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ (اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔لیکن وہ اگر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان۔ دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا رہ مگر پیروی اس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے۔ پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے،اس وقت میں تمہیں بتا دوں گا کہ تم کیسے عمل کرتے رہے تھے۔ (سورۂ لقمان: ۱۴،۱۵) سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں بیمار تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ہاں تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا میں اپنے سارے مال کی (اللہ کی راہ میں صدقہ کرنے کی ) وصیت کر سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: آدھے مال کی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے پوچھا: ایک تہائی کی۔ آپ یہ بات سن کر خاموش ہو گئے اور لوگوں نے اسی پر عمل شروع کر دیا، ایک انصاری نے کھانے کی دعو ت کی، لوگوں نے وہاں کھانا کھایا اور شراب پی کر نشے میں مست ہوگئے، یہ حرمت ِ شراب سے پہلے کی بات ہے، ہم اس کے ہاں جمع ہوئے، لوگ ایک دوسرے پر تفاخر کا اظہار کرنے لگے، انصار نے کہا کہ ہم افضل ہیں اور مہاجرین کہنے لگے کہ ہم افضل ہیں، ایک آدمی نے اونٹ کا جبڑا اٹھا کر سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دے مارااور ان کی ناک کو چیر ڈالا، سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی ناک چیری ہوئی تھی۔ اس موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں: {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ۔ اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطَانُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَائَ فِیْ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ}… اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور شرک کے لیے نصب کردہ چیزیں اور فال کے تیر سراسر گند ہیں، شیطان کے کام سے ہیں، سو اس سے بچو، تاکہ تم فلاح پاؤ،شراب اور جوئے کے ذریعے شیطان تمہارے درمیان عداوت اور بعض ڈالنا اور تمہیں اللہ کییاد اور نماز سے غافل کرنا چاہتا ہے۔ تو کیا تم ان دونوں کاموں سے باز نہیں آئو گے؟ (سورۂ مائدہ: ۹۰، ۹۱)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11722

۔ (۱۱۷۲۲)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِیعَۃَ یُحَدِّثُ: أَنَّ عَائِشَۃَ کَانَتْ تُحَدِّثُ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَہِرَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ وَہِیَ إِلٰی جَنْبِہِ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: مَا شَأْنُکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَتْ: فَقَالَ: ((لَیْتَ رَجُلًا صَالِحًا مِنْ أَصْحَابِی یَحْرُسُنِی اللَّیْلَۃَ۔)) قَالَ: ((فَبَیْنَا أَنَا عَلٰی ذٰلِکَ إِذْ سَمِعْتُ صَوْتَ السِّلَاحِ۔)) فَقَالَ: ((مَنْ ہٰذَا؟)) قَالَ: أَنَا سَعْدُ بْنُ مَالِکٍ، فَقَالَ: ((مَا جَائَ بِکَ۔)) قَالَ: جِئْتُ لِأَحْرُسَکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، قَالَتْ: فَسَمِعْتُ غَطِیطَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی نَوْمِہِ۔ (مسند احمد: ۲۵۶۰۶)
عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کیا کرتی تھیں کہ ایک رات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نیند نہیں آرہی تھی، وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پہلو میں تھیں، انہوںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! کیا بات ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کاش میرے صحابہ میں سے کوئی نیک آدمی آج رات میرا پہرہ دیتا۔ میں ابھی انہی خیالات میں ہی تھی کہ میں نے اسلحہ کی آوازیں سنیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کون ہے؟ آنے والے نے کہا: اے ا للہ کے رسول! میں سعد بن مالک ہوں، آپ کا پہرہ دینے کی سعادت حاصل کرنے آیا ہوں۔ (اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس قدر سکون سے ہوئے کہ) سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتی ہیں: اس کے بعد میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سوتے ہوئے خراٹے لیتے سنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11723

۔ (۱۱۷۲۳)۔ عَنْ عَبَایَۃَ بْنِ رِفَاعَۃَ، قَالَ: بَلَغَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ سَعْدًا لَمَّا بَنَی الْقَصْرَ قَالَ: انْقَطَعَ الصُّوَیْتُ، فَبَعَثَ إِلَیْہِ مُحَمَّدَ بْنَ مَسْلَمَۃَ فَلَمَّا قَدِمَ أَخْرَجَ زَنْدَہُ وَأَوْرٰی نَارَہُ وَابْتَاعَ حَطَبًا بِدِرْہَمٍ، وَقِیلَ لِسَعْدٍ: إِنَّ رَجُلًا فَعَلَ کَذَا وَکَذَا، فَقَالَ: ذَاکَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ، فَخَرَجَ إِلَیْہِ فَحَلَفَ بِاللّٰہِ مَا قَالَہُ، فَقَالَ: نُؤَدِّیْ عَنْکَ الَّذِی تَقُولُہُ، وَنَفْعَلُ مَا أُمِرْنَا بِہِ، فَأَحْرَقَ الْبَابَ ثُمَّ أَقْبَلَ یَعْرِضُ عَلَیْہِ أَنْ یُزَوِّدَہُ فَأَبٰی، فَخَرَجَ فَقَدِمَ عَلٰی عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَہَجَّرَ إِلَیْہِ فَسَارَ ذَہَابَہُ وَرُجُوعَہُ تِسْعَ عَشْرَۃَ، فَقَالَ: لَوْلَا حُسْنُ الظَّنِّ بِکَ لَرَأَیْنَا أَنَّکَ لَمْ تُؤَدِّ عَنَّا، قَالَ: بَلٰی أَرْسَلَ یَقْرَأُ السَّلَامَ وَیَعْتَذِرُ وَیَحْلِفُ بِاللّٰہِ مَا قَالَہُ، قَالَ: فَہَلْ زَوَّدَکَ شَیْئًا؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَمَا مَنَعَکَ أَنْ تُزَوِّدَنِی أَنْتَ، قَالَ: إِنِّی کَرِہْتُ: أَنْ آمُرَ لَکَ، فَیَکُونَ لَکَ الْبَارِدُ وَیَکُونَ لِی الْحَارُّ، وَحَوْلِی أَہْلُ الْمَدِینَۃِ قَدْ قَتَلَہُمْ الْجُوعُ، وَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((لَا یَشْبَعُ الرَّجُلُ دُونَ جَارِہِ۔)) (مسند احمد: ۳۹۰)
عبایہ بن رفاعہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کواطلاع پہنچی کہ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جب محل تعمیر کیا تو کہا: اب لوگوں کی آوازیں (شور آنا) بند ہوگئی ہیں۔ تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا محمد بن مسلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ادھر بھیجا، وہ آئے تو انہوںنے آتے ہی تیاری کی، ایک درہم کی لکڑی خریدی اور اس دروازے کو آگ لگا دی۔ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بتلایا گیا کہ ایک آدمی نے یہ کام کیا ہے، انھوں نے کہا: جی ہاں، وہ محمد بن مسلمہ بن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں۔ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کی خدمت میں گئے اور جا کر کہا:اللہ کی قسم! میں نے ایسا کوئی لفظ نہیں کہا۔ محمد بن مسلمہ نے کہا: آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں، ہم آپ کی اس بات کو امیر المومنین تک پہنچا دیں گے اور ہمیں جو حکم ہوا ہے، ہم اس کی تعمیل کریں گے، چنانچہ انہوں نے دروازے کو آگ لگا دی۔ پھر سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے محمد بن مسلمہ کو مال کی پیش کش کی تو انہوںنے کچھ لینے سے انکار کر دیا۔ وہاں سے روانہ ہو کر محمد بن مسلمہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں آئے، وہ بہت جلد واپس آئے تھے، ان کے جانے اور واپسی میں صرف انیس دن لگے تھے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر مجھے آپ کے بارے میں حسن ظن نہ ہوتا تو ہم سمجھتے کہ آپ نے ہماری طرف سے مفوضہ ذمہ داری کو پورے طور پر سر انجام نہیں دیا۔محمد بن مسلمہ نے کہا: کیوں نہیں، میں اپنی ذمہ داری کو بجا طور پر کیوں نہ ادا کرتا۔ انھوں نے کہا: سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آ پ کو سلام کہتے ہیں اور معذرت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے دریافت کیا: آیا انہوںنے آپ کو زادِ راہ دیا ہے یا نہیں دیا؟ محمد بن مسلمہ نے کہا: جی نہیں دیا۔ آپ نے خود مجھے زاد راہ کیوں نہ دیا؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے تمہارے لیے زادراہ دیئے جانے کا حکم اس لیے نہیں دیا تھا کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ تم تو فائدہ اٹھائو اور اہل مدینہ کی حاجت کی وجہ سے ذمہ داری مجھ پر رہے، میرے ارد گرد یہ اہل مدینہ موجود ہیں، جنہیں بھوک کی شدت نے قتل کر رکھا ہے۔ میں اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ حدیث سن چکا ہوں کہ کوئی آدمی اکیلا سیر ہو کر نہ کھائے کہ اس کا ہم سایہ بھوکا ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11724

۔ (۱۱۷۲۴)۔ عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: زَارَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی مَنْزِلِنَا، فَقَالَ: ((اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ۔)) قَالَ: فَرَدَّ سَعْدٌ رَدًّا خَفِیًّا، فَرَجَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاتَّبَعَہُ سَعْدٌ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ قَدْ کُنْتُ أَسْمَعُ تَسْلِیمَکَ وَأَرُدُّ عَلَیْکَ رَدًّا خَفِیًّا لِتُکْثِرَ عَلَیْنَا مِنَ السَّلَامِ، قَالَ: فَانْصَرَفَ مَعَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَمَرَ لَہُ سَعْدٌ بِغُسْلٍ فَوُضِعَ فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ نَاوَلَہُ أَوْ قَالَ: نَاوَلُوْہُ مِلْحَفَۃً مَصْبُوغَۃً بِزَعْفَرَانٍ وَوَرْسٍ فَاشْتَمَلَ بِہَا، ثُمَّ رَفَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدَیْہِ وَہُوَ یَقُولُ: ((اللَّہُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِکَ وَرَحْمَتَکَ عَلٰی آلِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ۔)) قَالَ: ثُمَّ أَصَابَ مِنَ الطَّعَامِ فَلَمَّا أَرَادَ الِانْصِرَافَ قَرَّبَ إِلَیْہِ سَعْدٌ حِمَارًا قَدْ وَطَّأَ عَلَیْہِ بِقَطِیفَۃٍ، فَرَکِبَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ سَعْدٌ: یَا قَیْسُ! اصْحَبْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ قَیْسٌ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((ارْکَبْ۔)) فَأَبَیْتُ ثُمَّ قَالَ: ((إِمَّا أَنْ تَرْکَبَ وَإِمَّا أَنْ تَنْصَرِفَ۔)) قَالَ: فَانْصَرَفْتُ۔ (مسند احمد: ۱۵۵۵۵)
سیدنا قیس بن سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِکہا۔ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پست آواز سے سلام کا جواب دیا، (آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ سلام تین بار کہا تھا اور سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے تین بار ہی اتنی پست آواز میں جواب دیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نہیں سنا) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس چل دیئے۔ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے چلے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں آپ کے سلام کی آواز سن رہا تھا اور آہستہ آواز سے جواب دے رہا تھا تا کہ آپ ہم پر زیادہ سے زیادہ سلام کہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ساتھ واپس تشریف لے آئے۔ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ کے غسل کے لیے پانی رکھوایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غسل کیا، اس کے بعد انہوںنے زعفران یا ورس سے رنگا ہوا ایک خوشبودار کپڑا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پیش کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ کپڑا اپنے اوپر لے لیا، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی: یا اللہ! سعد بن عبادہ کی آل کو اپنی رحمتوں اور برکتوں سے مالا مال فرما۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھانا تناول فرمایا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے واپسی کا ارادہ کیا تو سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سواری کے لیے گدھا پیش کیا، جس کے اوپر ایکموٹی چادر رکھ دی تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گدھے پر سوار ہوگئے۔ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا کہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ جائے، سو سیدنا قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ساتھ چل دیئے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم بھی سوار ہو جائو۔ انہوںنے تو (احتراماً) سوار ہونے سے انکار کر دیا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم یاتو سوار ہو جائو یا پھر واپس چلے جائو۔ چنانچہ میں واپس چلا آیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11725

۔ (۱۱۷۲۵)۔ حَدَّثَنَا یَزِیدُ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: أَخْبَرَنِی وَاقِدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَکَانَ وَاقِدٌ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ وَأَعْظَمِہِمْ وَأَطْوَلِہِمْ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلٰی أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ فَقَالَ لِی: مَنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: أَنَا وَاقِدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، قَالَ: إِنَّکَ بِسَعْدٍ أَشْبَہُ ثُمَّ بَکٰی وَأَکْثَرَ الْبُکَائَ، فَقَالَ: رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلٰی سَعْدٍ، کَانَ مِنْ أَعْظَمِ النَّاسِ وَأَطْوَلِہِمْ، ثُمَّ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَیْشًا إِلٰی أُکَیْدِرَ دُومَۃَ، فَأَرْسَلَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِجُبَّۃٍ مِنْ دِیبَاجٍ مَنْسُوجٍ فِیہِ الذَّہَبُ، فَلَبِسَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَامَ عَلَی الْمِنْبَرِ أَوْ جَلَسَ فَلَمْ یَتَکَلَّمْ، ثُمَّ نَزَلَ فَجَعَلَ النَّاسُ یَلْمِسُونَ الْجُبَّۃَ وَیَنْظُرُونَ إِلَیْہَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَتَعْجَبُونَ مِنْہَا۔)) قَالُوْا: مَا رَأَیْنَا ثَوْبًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْہُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَمَنَادِیلُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِی الْجَنَّۃِ أَحْسَنُ مِمَّا تَرَوْنَ۔)) (مسند احمد: ۱۲۲۴۸)
محمد بن عمرو سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ نے مجھے بیان کیا، جبکہ وہ انتہائی حسین و جمیل ، عظیم الجثہ اور دراز قامت آدمی تھے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں گیا، انہوںنے مجھ سے دریافت کیا کہ میں کون ہوں۔ میں نے عرض کیا:میں واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ ہوں۔ انھوں نے کہا: تم تو سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے مشابہ ہو، اس کے بعد وہ رونے لگے اور بہت زیادہ روئے اور کہا: سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر اللہ کی رحمت ہو، وہ سب سے بڑھ کر جسیم اور طویل قامت تھے۔ پھر کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دومہ کے والی اکیدر کی طرف ایک لشکر روانہ فرمایا اور اس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں ایک ریشمی جبہ ارسال کیا، جس پر سونے کی کڑھائی کی گئی تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے زیب تن فرمایا اور منبر پر کھڑے ہوئے یا بیٹھے، آپ نے کچھ گفتگو نہ کی اور ویسے ہی نیچے اتر آئے۔ لوگ اس جبہ کو ہاتھ لگا لگا کر دیکھنے لگے (اور اس کی عمدگی پرتعجب کرنے لگے)۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم اس جبہ پر تعجب کرتے ہو؟ صحابۂ کرام نے عرض کیا: جی کیوں نہیں، ہم نے اس سے اچھا کپڑا کبھی نہیں دیکھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جو کپڑا دیکھ رہے ہو، جنت میںسعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے رومال اس سے بھی زیادہ قیمتی ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11726

۔ (۱۱۷۲۶)۔ وَعَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اِھْتَزَّالْعَرْشُ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مٰعَاذٍ۔)) (مسند احمد: ۱۱۱۸۴)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی وفات پر اللہ تعالیٰ کا عرش جھوم گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11727

۔ (۱۱۷۲۷)۔ وَعَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ عَنْ جَدَّتِہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: وَلَوْ أَشَائُ أَنْ أُقَبِّلَ الْخَاتَمَ الَّذِی بَیْنَ کَتِفَیْہِ مِنْ قُرْبِی مِنْہُ لَفَعَلْتُ، یَقُولُ: ((اہْتَزَّ لَہُ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی۔)) یُرِیدُ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ یَوْمَ تُوُفِّیَ۔ (مسند احمد: ۲۷۳۲۹)
عاصم بن عمر بن قتاد ہ اپنی جدہ سیدہ رمیثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا، جبکہ میں اس وقت آپ کے اس قدر قریب تھی کہ اگر میں اس وقت چاہتی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مہر نبوت کو بوسہ دے سکتی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے لیے تو اللہ کا عرش جھوم اٹھا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مراد سیدنا سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، جس دن وہ فوت ہوئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11728

۔ (۱۱۷۲۸)۔ وَعَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ یَزِیْدَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: لَمَّا تُوُفِّیَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ صَاحَتْ أُمُّہُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَلَا یَرْفَأُ دَمْعُکِ وَیَذْہَبُ حُزْنُکِ؟ فَإِنَّ ابْنَکِ أَوَّلُ مَنْ ضَحِکَ اللّٰہُ لَہُ، وَاہْتَزَّ لَہُ الْعَرْشُ۔)) (مسند احمد: ۲۸۱۳۳)
سیدہ اسماء بنت یزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی ماں رونے چیخنے لگی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے آنسو رکتے نہیں،کیا تمہارے غم کا بوجھ ہلکا نہیں ہوتا، تمہارے بیٹے کی شان تو یہ ہے کہ یہ وہ پہلا آدمی ہے، جس کے لیے اللہ تعالیٰہنسے ہیں اور جس کے لیے اس کا عرش جھوم اٹھا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11729

۔ (۱۱۷۲۹)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ وَجَناَزَۃُ سَعْدٍ مَوْضُوْعَۃٌ: ((اِھْتَزَّ لَھَا عَرْشُ الرَّحْمٰنِ عَزَّوَجَلَّ۔)) (مسند احمد: ۱۳۴۸۸)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا جنازہ رکھا ہوا تھا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ اس کی خاطر رحمن عزوجل کا عرش جھوم اٹھا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11730

۔ (۱۱۷۳۰)۔ عَنْ عَائَشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: أُصِیبَ سَعْدٌ یَوْمَ الْخَنْدَقِ، رَمَاہُ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ یُقَالُ لَہُ حِبَّانُ بْنُ الْعَرِقَۃِ فِی الْأَکْحَلِ، فَضَرَبَ عَلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَیْمَۃً فِی الْمَسْجِدِ لِیَعُودَہُ مِنْ قَرِیبٍ۔ (مسند احمد: ۲۴۷۹۸)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خندق کے دن زخمی ہو گئے، حبان بن عرقہ قریشی نے ا ن کے بازو کی اکحل نامی رگ پر تیر مارا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قریب سے ان کی تیمار داری کر نے کے لیے ان کے لیے مسجد میں خیمہ نصب کرایا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11731

۔ (۱۱۷۳۱)۔ عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ قَالَ: نَزَلَ أَہْلُ قُرَیْظَۃَ عَلٰی حُکْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، قَالَ: فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی سَعْدٍ فَأَتَاہُ عَلٰی حِمَارٍ، قَالَ: فَلَمَّا دَنَا قَرِیبًا مِنَ الْمَسْجِدِ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((قُوْمُوْا إِلٰی سَیِّدِکُمْ أَوْ خَیْرِکُمْ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ ہٰؤُلَائِ نَزَلُوا عَلٰی حُکْمِکَ۔)) قَالَ: تُقْتَلُ مُقَاتِلَتُہُمْ وَتُسْبٰی ذَرَارِیُّہُمْ قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَقَدْ قَضَیْتَ بِحُکْمِ اللّٰہِ۔)) وَرُبَّمَا قَالَ: ((قَضَیْتَ بِحُکْمِ الْمَلِکِ۔)) (مسند احمد: ۱۱۱۸۵)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بنو قریظہ کے لوگ سیدنا سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے فیصلے پر راضی ہوگئے، اس لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیغام بھیج کر بلوایا، وہ گدھے پر سوار ہو کر تشریف لائے، جب وہ مسجد نبوی کے قریب پہنچے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنے سردار کی طرف اٹھ کر جائو یایوں فرمایا تم اپنے رئیس کی طرف اٹھ کر جائو (اور ان کو گدھے سے اتارو)۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: یہیہودی لوگ آپ سے فیصلہ کرانے پر راضی ہوئے ہیں۔ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا: ان کے جنگجوؤں کو قتل کر دیا جائے اور بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے۔ یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آپ نے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ کیا ہے، (یعنی جو فیصلہ کیا ہے اللہ کو بھی وہی منظور ہے۔) اور کسی وقت سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یوں بیان کیا: آپ نے تو بادشاہ1 والا فیصلہ کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11732

۔ (۱۱۷۳۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ فِیْ حَدِیْثِھَا الطَّوِیْلِ ذَکَرَ بِطُوْلِہِ فِیْ الْخَنْدَقِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ لِسَعْدٍ: ((لَقَدْ حَکَمْتَ فِیہِمْ بِحُکْمِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَحُکْمِ رَسُولِہِ۔)) قَالَتْ: ثُمَّ دَعَا سَعْدٌ: قَالَ: اللّٰہُمَّ إِنْ کُنْتَ أَبْقَیْتَ عَلٰی نَبِیِّکَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ حَرْبِ قُرَیْشٍ شَیْئًا فَأَبْقِنِی لَہَا، وَإِنْ کُنْتَ قَطَعْتَ الْحَرْبَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُمْ فَاقْبِضْنِی إِلَیْکَ، قَالَتْ: فَانْفَجَرَ کَلْمُہُ وَکَانَ قَدْ بَرِئَ حَتّٰی مَا یُرٰی مِنْہُ إِلَّا مِثْلُ الْخُرْصِ، وَرَجَعَ إِلٰی قُبَّتِہِ الَّتِی ضَرَبَ عَلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَحَضَرَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ، قَالَتْ: فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ إِنِّی لَأَعْرِفُ بُکَائَ عُمَرَ مِنْ بُکَائِ أَبِی بَکْرٍ وَأَنَا فِی حُجْرَتِی، وَکَانُوْا کَمَا قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {رُحَمَاء ُ بَیْنَہُمْ} قَالَ عَلْقَمَۃُ: قُلْتُ: أَیْ أُمَّہْ! فَکَیْفَ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَصْنَعُ؟ قَالَتْ: کَانَتْ عَیْنُہُ لَا تَدْمَعُ عَلٰی أَحَدٍ وَلٰکِنَّہُ کَانَ إِذَا وَجِدَ فَإِنَّمَا ہُوَ آخِذٌ بِلِحْیَتِہِ۔ (مسند احمد: ۲۵۶۱۰)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے ایک طویل حدیث مروی ہے، اس ! حقیقی بادشاہ خالق و مالک ہی ہے۔ اس لیے اللہ کا فیصلہ اور بادشاہ کا فیصلہ کہنے میں کوئی فرق نہیں۔ میں ہے: رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا:تم نے بنو قریظہ کے بارے میں ایسا فیصلہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو بھییہی فیصلہ منظور تھا۔ اس کے بعد سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے دعا کی اور کہا: یا اللہ! اگر تو نے اپنے نبی کے لیے قریش کے ساتھ کوئی لڑائی باقی رکھی ہے تو مجھے اس میں شرکت کے لیے زندہ رکھنا اور اگر تو نے اپنے نبی اور قریش کے درمیان لڑائیوں کا سلسلہ مکمل کر دیا ہے تو مجھے اپنی طرف اٹھا لے۔اس دعا کے بعد ان کا زخم پھٹ گیا، ویسے وہ سارا ٹھیک ہو چکا تھا، البتہ اس میں سے صرف ایک انگوٹھی کے حلقہ کے برابر معمولی سا زخم باقی رہ گیا تھا۔ سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس خیمے کی طرف واپس آئے جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے لیے نصب کرایا تھا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے پاس گئے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جان ہے! میں اپنے حجرے ہی میں تھی اور میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے رونے کی آواز وں کو الگ الگ پہچان رہی تھی۔ ان کا آپس میں میل جول ویسا ہی تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ {رُحَمَاء ُ بَیْنَہُمْ} … وہ ایک دوسرے پر ازحد مہربان ہیں۔ (سورۂ فتح: ۲۹)سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے بیان کرنے والے علقمہ نے عرض کیا: امی جان! ایسے مواقع پر اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا طرز عمل کیا ہوتا تھا؟ انھوں نے کہا: کسی کی وفات پر آپ کی آنکھوں میں آنسو نہ آتے تھے، البتہ جب آپ غمگین ہوتے تو اپنی داڑھی مبارک کو ہاتھ میں پکڑ لیتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11733

۔ (۱۱۷۳۳)۔ وَعَنْ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَۃَ الزُّرَقِیِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لِھٰذَا الْعَبْدِ الصَّالِحِ الَّذِیْ تَحَرَّکَ لَہٗ الْعَرْشُ وَفُتِحَتْ لَہٗ أَبْوَابُ السَّمَائِ شُدِّدَ عَلَیْہِ فَفَرَّجَ اللّٰہُ عَنْہٗ۔)) وَقَالَ مَرَّۃً: ((تَفَتَّحَتْ۔)) وَقَالَ مَرَّۃً: ((ثُمَّ فَرَّجَ اللّٰہُ عَنْہُ۔)) وَقَالَ مَرَّۃً: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِسَعْدِ یَوْمَ مَاتَ وَھُوَیُدْفَنُ۔ (مسند احمد: ۱۴۵۵۹)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ نیک بندہ ہے، جس کے لیے اللہ کا عرش جھوم اٹھا اور اس کے استقبال کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے گئے، لیکن قبر میں اس پر ایک بار سختی کی گئی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس مشکل کو زائل کر دیا۔ اور راوی نے ایک باریوں کہا: پھر اللہ تعالیٰ نے کشادگی پید اکر دی۔ ایک دفعہ راوی نے یہ تفصیل بیان کی: جس دن سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فوت ہوئے اوران کو دفن کیا جا رہا تھا، اس وقت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے حق میں یہ باتیں کی تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11734

۔ (۱۱۷۳۴)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیِّ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمًا إِلٰی سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ حِینَ تُوُفِّیَ، قَالَ: فَلَمَّا صَلّٰی عَلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَوُضِعَ فِی قَبْرِہِ وَسُوِّیَ عَلَیْہِ سَبَّحَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَبَّحْنَا طَوِیلًا، ثُمَّ کَبَّرَ فَکَبَّرْنَا، فَقِیلَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! لِمَ سَبَّحْتَ؟ ثُمَّ کَبَّرْتَ، قَالَ: ((لَقَدْ تَضَایَقَ عَلٰی ہٰذَا الْعَبْدِ الصَّالِحِ قَبْرُہُ حَتّٰی فَرَّجَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْہُ۔)) (مسند احمد: ۱۴۹۳۴)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی وفات کے موقع پران کی طرف گئے، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی نماز جنازہ ادا کی اور ان کو قبر میں رکھا گیا اور ان پر مٹی برابر کر دی گئی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ کی تسبیح کی اور ہم نے بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ کافی دیر تک اللہ کی تسبیح بیان کی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ اکبر کہا اور ہم بھی آپ کے ساتھ اللہ اکبر کہتے رہے۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کے سبحان اللہ اور اللہ اکبر کہنے کی کیا وجہ تھی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس صالح بندے پر اس کی قبر تنگ ہوگئی تھییہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے قبر فراخ کر دی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11735

۔ (۱۱۷۳۵)۔ (۱۱۴۹۲)۔ عَنْ سَفِیْنَۃَ اَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ: اَعْتَقَتْنِیْ اُمُّ سَلَمَۃَ وَاشْتَرَطَتْ عَلَیَّ اَنْ اَخْدُمَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا عَاشَ۔ (مسند احمد: ۲۲۲۷۲) (۱۱۷۳۶)۔ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا حَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَۃَ الْعَبْسِیُّ کُوفِیٌّ، حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ جُمْہَانَ، حَدَّثَنِی سَفِینَۃُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((الْخِلَافَۃُ فِی أُمَّتِی ثَلَاثُونَ سَنَۃً ثُمَّ مُلْکًا بَعْدَ ذٰلِکَ۔)) ثُمَّ قَالَ لِی سَفِینَۃُ: أَمْسِکْ خِلَافَۃَ أَبِی بَکْرٍ وَخِلَافَۃَ عُمَرَ وَخِلَافَۃَ عُثْمَانَ وَأَمْسِکْ خِلَافَۃَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ، قَالَ: فَوَجَدْنَاہَا ثَلَاثِینَ سَنَۃً، ثُمَّ نَظَرْتُ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی الْخُلَفَائِ فَلَمْ أَجِدْہُ یَتَّفِقُ لَہُمْ ثَلَاثُونَ، فَقُلْتُ لِسَعِیدٍ: أَیْنَ لَقِیتَ سَفِینَۃَ؟ قَالَ: لَقِیتُہُ بِبَطْنِ نَخْلٍ فِی زَمَنِ الْحَجَّاجِ فَأَقَمْتُ عِنْدَہُ ثَمَانِ لَیَالٍ أَسْأَلُہُ عَنْ أَحَادِیثِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قُلْتُ لَہُ: مَا اسْمُکَ؟ قَالَ: مَا أَنَا بِمُخْبِرِکَ سَمَّانِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَفِینَۃَ، قُلْتُ: وَلِمَ سَمَّاکَ سَفِینَۃَ؟ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَعَہُ أَصْحَابُہُ فَثَقُلَ عَلَیْہِمْ مَتَاعُہُمْ فَقَالَ: ((لِی ابْسُطْ کِسَائَکَ؟)) فَبَسَطْتُہُ فَجَعَلُوْا فِیہِ مَتَاعَہُمْ ثُمَّ حَمَلُوہُ عَلَیَّ، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((احْمِلْ فَإِنَّمَا أَنْتَ سَفِینَۃُ۔)) فَلَوْ حَمَلْتُ یَوْمَئِذٍ وِقْرَ بَعِیرٍ أَوْ بَعِیرَیْنِ أَوْ ثَلَاثَۃٍ أَوْ أَرْبَعَۃٍ أَوْ خَمْسَۃٍ أَوْ سِتَّۃٍ أَوْ سَبْعَۃٍ مَا ثَقُلَ عَلَیَّ إِلَّا أَنْ یَجْفُوْا۔ (مسند احمد: ۲۲۲۷۴)
ابو عبد الرحمن سیدنا سفینہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے آزاد کیا اور مجھ پر یہ شرط عائد کی کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب تک زندہ رہیں، میں ان کی خدمت کرتا رہوں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11736

۔ (۱۱۷۳۶)۔ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا حَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَۃَ الْعَبْسِیُّ کُوفِیٌّ، حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ جُمْہَانَ، حَدَّثَنِی سَفِینَۃُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((الْخِلَافَۃُ فِی أُمَّتِی ثَلَاثُونَ سَنَۃً ثُمَّ مُلْکًا بَعْدَ ذٰلِکَ۔)) ثُمَّ قَالَ لِی سَفِینَۃُ: أَمْسِکْ خِلَافَۃَ أَبِی بَکْرٍ وَخِلَافَۃَ عُمَرَ وَخِلَافَۃَ عُثْمَانَ وَأَمْسِکْ خِلَافَۃَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ، قَالَ: فَوَجَدْنَاہَا ثَلَاثِینَ سَنَۃً، ثُمَّ نَظَرْتُ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی الْخُلَفَائِ فَلَمْ أَجِدْہُ یَتَّفِقُ لَہُمْ ثَلَاثُونَ، فَقُلْتُ لِسَعِیدٍ: أَیْنَ لَقِیتَ سَفِینَۃَ؟ قَالَ: لَقِیتُہُ بِبَطْنِ نَخْلٍ فِی زَمَنِ الْحَجَّاجِ فَأَقَمْتُ عِنْدَہُ ثَمَانِ لَیَالٍ أَسْأَلُہُ عَنْ أَحَادِیثِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قُلْتُ لَہُ: مَا اسْمُکَ؟ قَالَ: مَا أَنَا بِمُخْبِرِکَ سَمَّانِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَفِینَۃَ، قُلْتُ: وَلِمَ سَمَّاکَ سَفِینَۃَ؟ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَعَہُ أَصْحَابُہُ فَثَقُلَ عَلَیْہِمْ مَتَاعُہُمْ فَقَالَ: ((لِی ابْسُطْ کِسَائَکَ؟)) فَبَسَطْتُہُ فَجَعَلُوْا فِیہِ مَتَاعَہُمْ ثُمَّ حَمَلُوہُ عَلَیَّ، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((احْمِلْ فَإِنَّمَا أَنْتَ سَفِینَۃُ۔)) فَلَوْ حَمَلْتُ یَوْمَئِذٍ وِقْرَ بَعِیرٍ أَوْ بَعِیرَیْنِ أَوْ ثَلَاثَۃٍ أَوْ أَرْبَعَۃٍ أَوْ خَمْسَۃٍ أَوْ سِتَّۃٍ أَوْ سَبْعَۃٍ مَا ثَقُلَ عَلَیَّ إِلَّا أَنْ یَجْفُوْا۔ (مسند احمد: ۲۲۲۷۴)
سیدنا سفینہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت میں خلافت کا زمانہ تیس سال تک ہے۔ اس کے بعد ملوکیت آجائے گی۔ پھر سیدنا سفینہ نے مجھ (سعید بن جمہان) سے کہا: تم سیدنا ابو بکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان اور سیدنا علی کے ادوار خلافت کو شمار کرو، ہم نے ان تمام ادوار کے مجموعہ کو تیس سال پایا۔ میں نے ان سے بعد کے خلفاء کے ادوار پر بھی نظر ڈالی، مگر مجھے ان میں تیس سال پورے ہوتے دکھائی نہیں دیئے۔ میں نے (یعنی حشرح بن نباتہ عبسی کوفی نے)سعید سے دریافت کیا: آپ کی سفینہ سے کہاں ملاقات ہوئی تھی؟ انہوںنے بتلایا کہ حجاج کے دور حکومت میں بطن نخل میں میری ان سے ملاقات ہوئی تھی اور میں نے ان کے ہاں آٹھ رات قیام کیا تھا۔ میں ان سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی احادیث کے بارے میں دریافت کرتا رہا، میں نے ان سے دریافت کیا کہ تمہارا اصل نام کیا ہے؟ انھوں نے کہا: یہ میں آپ کو نہیں بتلائوں گا، البتہ یہ بات ہے کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا نام سفینہ رکھا ہے۔ میں نے پوچھا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تمہارا نام سفینہ کس وجہ سے رکھا ؟ انھوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابہ سفر پر جا رہے تھے، سامان اٹھانا ان کے لیے بوجھ اور مشقت کا سبب بنا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اپنی چادر بچھائو، میں نے چادر بچھائی تو سب لوگوں نے اپنا اپنا سامان اس میں ڈال کر مجھے اٹھوا دیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اٹھا لو، تم تو سفینہ (یعنی کشتی) ہو۔ آپ کے اس کلام کی برکت سے میں اس دن ایک، دو، تین، چار، پانچ، چھ یا سات اونٹوں کے اٹھائے جانے والے وزن کے برابر بھی اٹھاتا تو مجھے بوجھل محسوس نہ ہوتا۔ الایہ کو لوگ (قافلہ) مجھ سے آگے نکل جاتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11737

۔ (۱۱۷۳۷)۔ قَالَ حَدَّثَنِی مَکِّیُّ بْنُ إِبْرَاہِیمَ قَالَ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ أَبِی عُبَیْدٍ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ، أَنَّہُ أَخْبَرَہُ قَالَ، خَرَجْتُ مِنَ الْمَدِینَۃِ ذَاہِبًا نَحْوَ الْغَابَۃِ حَتّٰی إِذَا کُنْتُ بِثَنِیَّۃِ الْغَابَۃِ، لَقِیَنِی غُلَامٌ لِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ: قُلْتُ: وَیْحَکَ! مَا لَکَ؟ قَالَ: أُخِذَتْ لِقَاحُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قُلْتُ: مَنْ أَخَذَہَا؟ قَالَ: غَطَفَانُ وفَزَارَۃُ، قَالَ: فَصَرَخْتُ ثَلَاثَ صَرَخَاتٍ أَسْمَعْتُ مَنْ بَیْنَ لَابَتَیْہَا، یَا صَبَاحَاہْ! یَا صَبَاحَاہْ! ثُمَّ انْدَفَعْتُ حَتّٰی أَلْقَاہُمْ وَقَدْ أَخَذُوہَا، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَرْمِیہِمْ وَأَقُولُ: أَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ وَالْیَوْمُ یَوْمُ الرُّضَّعِ، قَالَ: فَاسْتَنْقَذْتُہَا مِنْہُمْ قَبْلَ أَنْ یَشْرَبُوا، فَأَقْبَلْتُ بِہَا أَسُوقُہَا فَلَقِیَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ الْقَوْمَ عِطَاشٌ وَإِنِّی أَعْجَلْتُہُمْ قَبْلَ أَنْ یَشْرَبُوا فَاذْہَبْ فِی أَثَرِہِمْ، فَقَالَ: ((یَا ابْنَ الْأَکْوَعِ! مَلَکْتَ فَأَسْجِحْ إِنَّ الْقَوْمَ یُقْرَوْنَ فِی قَوْمِہِمْ۔)) (مسند احمد: ۱۶۶۲۸)
یزید بن ابی عبید سے مروی ہے کہ سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو بتلایا کہ میں غابہ کی طرف جانے کے لیے مدینہ منورہ سے روانہ ہوا، جب میں غابہ کی گھاٹییا راستہ میں تھا تو مجھ سے سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے لڑکے کی ملاقات ہوئی، میں نے کہا تیرا بھلا ہو، تجھے کیاہوا ہے؟ وہ بولا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اونٹنیوں کو لوٹ لیا گیا ہے، میں نے پوچھا: کس نے لوٹی ہیں؟ اس نے بتایا کہ غطفان اور فزارہ کے لوگوں نے، سیدنا سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: یہ سن کر میں نے بلند آواز سے تین بار یَا صَبَاحَاہ کی آواز دی،یہ آواز اس قدر اونچی اور تیزتھی کہ میں نے مدینہ کے دو حرّوں کے مابین لوگوں تک پہنچادی، پھر میں ان لوگوں کے پیچھے دوڑ پڑا، تاآنکہ میں نے ان کو جا لیا، وہ ان اونٹنیوں کو اپنے قبضے میں لے چکے تھے۔ میں ان پر تیر برسانے لگا اور میں یہ رجز پڑھتا جا تا تھا: أَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ وَالْیَوْمُیَوْمُ الرُّضَّعِ (میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کمینوں کی ہلاکت کا دن ہے)۔ سیدنا سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:قبل اس کے کہ وہ کہیں جا کر پانی پیتے میں نے اونٹنیوں کو ان سے چھڑوا لیا۔ میں اونٹنیوں کو لے کر واپس ہوا اوررسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ لوگ ابھی تک پیاسے ہیں اور میں ان کے پانی پینے سے پہلے پہلے ان تک پہنچ گیا، آپ ان کے پیچھے تشریف لے چلیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابن اکوع! تو نے ان پر غلبہ پالیا اب نرمی کر، قوم میں ان کی ضیافت کی جا رہی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11738

۔ (۱۱۷۳۸)۔ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ عُبَیْدٍ قَالَ: رَأََیْتُ أَثَرَ ضَرْبَۃٍ فِیْ سَاقِ سَلَمَۃَ بْنِ الْاَکْوَعِ فَقُلْتُ: یَا أَبَا مُسْلِمٍ! مَا ھٰذِہِ الضَّرْبَۃُ؟ قَالَ: ھٰذِہِ ضَرْبَۃٌ أُصِبْتُہَا یَوْمَ خَبْیَرَ، قَالَ: یَوْمَ أُصِبْتُہَا، قَالَ النَّاسُ: أُصِیْبَ سَلَمَۃُ، فَأُتِیَ بِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَفَثَ فِیْہِ ثَلَاثَ نَفَثَاتٍ، فَمَا اشْتَکَیْتُہَا حَتَّی السَّاعَۃِ۔ (مسند احمد: ۱۶۶۲۹)
یزید بن عبید سے مروی ہے،وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی پنڈلی پر زخم کا ایک نشان دیکھا، میں نے پوچھا: ابو مسلم! یہ نشان کیسا ہے؟ انہوں نے کہا: خیبر کے دن مجھے زخم لگا تھا، یہ اس کا نشان ہے، جس دن مجھے یہ زخم آیا تھا، لوگوں نے کہا: سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو شدید قسم کا زخم آیا ہے، مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لایا گیا، آپ نے اس زخم پر تھوک کے ساتھ تین پھونکیں ماریں، اس کے بعد اب تک مجھے اس میں کوئی درد محسوس نہیں ہوا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11739

۔ (۱۱۷۳۹)۔ وَعَنْ سَلَمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: جَائَنِیْ عَمِّیْ عَامِرٌ فَقَالَ: اَعْطِنِیْ سَلَاحَکَ! قَالَ: فَأَعْطَیْتُہٗ قَالَ: فَجِئْتُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَبْغِنِیْ سَلَاحَکَ؟ قَالَ: ((اَیْنَ سَلاحُکَ؟)) قَالَ: أَعْطَیْتُہٗ عَمِّیْ عَامِرًا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: ((مَا أَجِدُ شِبْہَکَ اِلَّا الَّذِیْ قَالَ ھَبْ لِیْ أَخًا أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ۔)) قَالَ: فَأَعْطَانِیْ قَوْسَہٗ وَمَجَانَہٗ وَثَلَاثَۃَ أَسْہُمٍ مِنْ کِنَانَتِہِ۔ (مسند احمد: ۱۶۶۵۹)
سید سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میرے چچا سیدنا عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے میرے پاس آئے اور کہا: اپنا اسلحہ مجھے دے دو۔ میں نے اپنے ہتھیار ان کو دے دیئے۔ پھر میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جا کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ اپنے ہتھیار مجھے عنایت فرمائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے ہتھیار کہاں ہیں؟ میں نے عرض کیا: وہ تو میں نے اپنے چچا سیدنا عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دے دیئے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تو تمہارے بارے میں وہی مثال پاتا ہوں کہ کسی نے دعا کی تھی کہ یا اللہ مجھے ایسا بھائی عطا کر جو مجھے میری اپنی جان سے بھی بڑھ کر محبوب ہو۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی کمان،ڈھالیں اور اپنے ترکش میں سے تین تیر مجھے عطا فرمائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11740

۔ (۱۱۷۴۰)۔ عَنْ یَزِیْدَ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَبْعَ غَزَوَاتٍ فذَکَرَ الْحُدَیْبِیَۃَ وَیَوْمَ حُنَیْنٍ وَیَوْمَ الْقَرْدِ وَیَوْمَ خَیْبَرَ قَالَ یَزِیْدُ: وَنَسِیْتُ بَقِیَّتَہُنَّ۔ (مسند احمد: ۱۶۶۵۸)
یزید بن ابی عبید بیان کرتے ہیں کہ سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں سات غزوات میں شرکت کی، پھر انہوںنے حدیبیہ، حنین، قرد اور خیبر کے نام لیے۔ یزید بن ابی عبید کہتے ہیں کہ باقی تین غزووں کے نام مجھے بھول گئے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11741

۔ (۱۱۷۴۱)۔ وَعَنْ سَلَمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَقَالَ: ((اَنْتُمْ أَھْلُ بَدْوِنَا وَنَحْنُ أَھْلِ حَضَرِکُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۶۶۶۹)
سیدنا سلمہ بن اکو ع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ہمارے دیہاتی ہو اور ہم تمہارے شہری ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11742

۔ (۱۱۷۴۲)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ حَبِیبٍ الْعَوْذِیُّ، حَدَّثَنِی أَبِی قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ سِنَانِ بْنِ سَلَمَۃَ مُکْرَانَ، فَقَالَ سِنَانُ بْنُ سَلَمَۃَ: حَدَّثَنِی أَبِی سَلَمَۃُ بْنُ الْمُحَبِّقِ: أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنْ أَدْرَکَہُ رَمَضَانُ لَہُ حُمُولَۃٌ یَأْوِی إِلٰی شِبَعٍ فَلْیَصُمْ رَمَضَانَ حَیْثُ أَدْرَکَہُ۔)) وَقَالَ سِنَانٌ: وُلِدْتُ یَوْمَ حُنَیْنٍ فَبُشِّرَ بِی أَبِی، فَقَالُوْا لَہُ: وُلِدَ لَکَ غُلَامٌ، فَقَالَ: سَہْمٌ أَرْمِی بِہِ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا بَشَّرْتُمُونِی بِہِ وَسَمَّانِی سِنَانًا۔ (مسند احمد: ۲۰۳۳۲)
حبیب عوذی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے سنان بن سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ مکران میں ایک غزوہ میں شرکت کی، سیدنا سنان بن سلمہ بن محبق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ میری ولادت غزوۂ حنین کے روز ہوئی تھی، جب میری ولادت کی میرے والد کو بشارت دی گئی تو انھوں نے کہا: تم نے مجھے جو خوشخبری دی ہے، اس کی بہ نسبت مجھے وہ تیر زیادہ محبوب ہے جس کے ساتھ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا دفاع کروں اور انہوںنے میرا نام سنان رکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11743

۔ (۱۱۷۴۳)۔ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: ثنی سَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ، حَدِیْثَہُ مِنْ فِیْہِ، قَالَ: کُنْتُ رَجُلاً فَارِسِیًّا مِنْ أَھْلِ (اِصْبَھَانَ) مِنْ أَھْلِ قَرْیَۃٍ مِنْھَا یُقَالُ لَھا: (جَیُّ) وَکَانَ أَبِی دِھْقَانَ قَرْیَتِہٖ، وَکُنْتُ أَحَبَّ خَلْقِ اللّٰہِ إِلَیْہِ، فَلَمْ یَزَلْ حُبُّہُ إِیَّایَ حَتّٰی حَبَسَنِی فِی بَیْتِہِ۔ أَیْ مُلَازِمَ النَّارِ۔ کَمَا تُحْبَسُ الْجَارِیَۃُ، وَأَجْھَدْتُ فِی الْمَجُوْسِیَّۃِ حَتّٰی کُنْتُ قَاطِنَ النَّارِ الَّذِی یُوْقِدُھَا لَایَتْرُکُھَا تَخْبُوْسَاعَۃً۔ قَالَ: وَکاَنَتْ لِأَبِی ضَیْعَۃٌ عَظِیْمَۃٌ، قَالَ: فَشَغَلَ فِی بُنْیَانٍ لَّہُ یَوْماً، فَقَالَ: لِی: یَابُنَیَّ! إِنِّی شَغَلْتُ فِی بُنْیَانِ ھٰذَا الْیَوْمَ عَنْ ضَیْعَتِی، فَاذْھَبْ فَاطَّلِعْھَا وَأَمَرَنِی فِیْھَا بِبَعْضِ ماَ یُرِیْدُ، فَخَرَجْتُ، أُرِیْدُ ضَیْعَتَہُ، فَمَرَرْتُ بَکَنِیْسَۃٍ مِنْ کَنَائِسِ النَّصَارٰی، فَسَمِعْتُ أَصْوَاتَھُمْ فِیْھَا وَھُمْ یُصَلُّوْنَ، َوَکُنْتُ لَا أَدْرِی مَا أَمْرُ النَّاسِ لِحَبْسِ أَبِی إِیَّایَ فِی بَیْتِہِ، فَلَمَّا مَرَرْتُ بِھِمْ وَسَمِعْتُ أَصْوَاتَھُمْ،دَخَلْتُ عَلَیْھِمْ أَنْظُرُ مَا یَصْنَعُوْنَ، قَالَ: فَلَمَّا رَأَیْتُھُمْ أَعْجَبَتْنِی صَلَا تُھُمْ، وَرَغِبْتُ فِی أَمْرِھِمْ، وَقُلْتُ: ھٰذَا وَاللّٰہِ خَیْرٌ مِنَ الدِّیْنِ الَّذِی نَحْنُ عَلَیْہِ، فَوَاللّٰہِ مَاتَرَکْتُھُمْ حَتّٰی غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَتَرَکْتُ ضَیْعَۃَ أَبِی، وَلَمْ آتِھَا، فَقُلْتُ لَھُمْ: أَیْنَ أَصْلُ ھٰذَا الدِّیْنِ؟ قَالُوْا: بِالشَّامِ، قَالَ: ثُمَّ رَجَعْتُ إِلٰی أَبِی، وَقَدْ بَعَثَ فِی طَلَبِی، وَشَغَلْتُہُ عَنْ عَمَلِہِ کُلِّہِ۔ قَالَ: فَلَمَّا جِئْتُہُ قَالَ: أَیْ بُنَیَّ أَیْنَ کُنْتَ؟ أَلَمْ أَکُنْ عَھِدتُّ إِلَیْکَ مَاعَھِدتُّ؟ قَالَ: قُلْتُ: یَا أَبَتِ! مَرَرْتُ بِنَاسٍ یُصَلُّوْنَ فِی کَنِیْسَۃٍ لَّھُمْ، فَأَعْجَبَنِی مَارَأَیْتُ مِنْ دِیْنِھِمْ، فَوَاللّٰہِ مَا زِلْتُ عِنْدَھُمْ حَتّٰی غَرَبَتِ الشَّمْسُ قاَلَ: أَیْ بُنَیَّ! لَیْسَ فِی ذٰلِکَ الدِّیْنِ خَیْرٌ، دِیْنُکَ وَدِیْنُ آباَئِکَ خَیْرٌ مِنْہُ۔ قَالَ: قُلْتُ کَلاَّ وَاللّٰہِ، إِنَّہُ خَیْرٌ مِنْ دِیْنِنَا، قَالَ: فَخَافَنِی فَجَعَلَ فِی رِجْلِیْ قَیْداً ثُمَّ حَبَسَنِی فِی بَیْتِہِ۔ قَالَ: وَبَعَثْتُ إِلَی النَّصَارٰی فَقُلْتُ لَھُمْ: إِذَا قَدِمَ عَلَیْکُمْ رَکْبٌ مِّنَ الشَّامِ تُجَّارٌ مِنَ النَّصَارٰی، فَأَخْبِرُوْنِی بِھِمْ، قَالَ: فَقَدِمَ عَلَیْھِمْ رَکْبٌ مِنَ الشَّامِ تُجَّارٌ مِّنَ النَّصَارٰی، قَالَ: فَأَخْبَرُوْنِی بِھِمْ، قَالَ: قُلْتُ لَھُمْ: إِذَا قَضَوْا حَوَائِجَھُمْ، وَأَرَادُوْا الرَّجْعَۃَ إِلٰی بِلَادِھِمْ فَآذِنُوْنِی بِھِمْ، فَلَمَّا أَرَادُوْا الرَّجْعَۃَ إِلٰی بِلَادِھِمْ أَخْبَرُوْنِی بِھِمْ، فَأَلْقَیْتُ الْحَدِیْدَ مِنْ رِجْلَیَّ، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَھُمْ حَتّٰی قَدِمْتُ الشَّامَ۔ فَلَمَّا قَدِمْتُھَا قُلْتُ: مَنْ أَفْضَلُ أَھْلِ ھٰذَا الدِّیْنِ؟ قَالُوْا: الْاُسْقُفُ فِی الْکَنِیْسَۃٍ قَالَ: فَجِئْتُہُ، فَقُلْتُ: إِنِّی قَدْ رَغِبْتُ فِی ھٰذَا الدِّیْنِ، وَأَحْبَبْتُ أَنْ أَکُوْنَ مَعَکَ أَخْدِمُکَ فِی کَنِیْسَتِکَ، وَأَتَعَلَّمُ مِنْکَ، وَأُصَلِّی مَعَکَ۔قَالَ: فَادْخُلْ فَدَخَلْتُ مَعَہُ، قَالَ: فَکاَنَ رَجُلٌ سُوْئٌ یَأْمُرُھُمْ بِالصَّدَقَۃِ وَیُرَغِّبُھُمْ فِیْھَا، فَإِذَا جَمَعُوْا اإِلَیْہِ مِنْھَا أَشْیَائَ اکْتَنَزَہٗ لِنَفْسِہِ وَلَمْ یُعْطِہِ الْمَسَاکِیْنَ، حَتّٰی جَمَعَ سَبْعَ قِلَالٍ مِنْ ذَھَبٍ وَوَرِقٍ، قَالَ: وَأَبْغَضْتُہٗ بُغْضًا شَدِیْداً لِمَا رَأَیْتُہٗ یَصْنَعُ، ثُمَّ مَاتَ، فَاجْتَمَعَتْ إِلَیْہِ النَّصَارٰی لِیَدْفِنُوْہُ، فَقُلْتُ لَھُمْ: إِنَّ ھٰذَا کَانَ رَجُلٌ سُوْئٌ، یَأْمُرُکُمْ بِالصَّدَقَۃِ وَیُرَغِّبُکُمْ فِیْھَا، فَإِذَا جِئْتُمُوْہُ بِھَا، اکْتَنَزَھَا لِنَفْسِہِ وَلَمْ یُعْطِ الْمَسَاکِیْنَ مِنْھَا شَیْئاً۔ قَالُوْا: وَمَاعِلْمُکَ بِذٰلِکَ؟ قَالَ: قُلْتُ: أَنَا أَدُلُّکُمْ عَلٰی کَنْزِہِ۔ قَالُوْا: فَدُلَّنَا عَلَیْہِ۔ قَالَ: فَأَرَیْتُھُمْ مَوْضِعَہٗ، قَالَ: فَاسْتَخْرَجُوْا مِنْہُ سَبْعَ قِلَالٍ مَمْلُوْئَ ۃٍ ذَھَباً وَوَرِقاً، قَالَ: فَلَمَّا رَأَوْھَا قَالُوْا: وَاللّٰہِ لَانَدْفِنُہُ أَبَداً۔ فَصَلَبُوْہُ ثُمَّ رَجَمُوْہُ بِالْحِجَارَۃِ، ثُمَّ جَائُ وْا بِرَجُلٍ آخَرَ فَجَعَلُوْہُ بِمَکَانِہِ۔ قَالَ: یَقُوْلُ سَلْمَانُ: فَمَا رَأَیْتُ رَجُلاً لَایُصَلِّی الْخَمْسَ أَرٰی أَنَّہُ أَفْضَلَ مِنْہُ، أَزْھَدَ فِی الدُّنْیَا وَلَا أَرْغَبَ فِی الآخِرَۃِ، وَلَا أَدْأَبَ لَیْلاً وَنَھَاراً مِنْہُ، قَالَ: فَأَحْبَبْتُہُ حُبًّا لَمْ أُحِبَّہٗ مِنْ قَبْلِہِ، وَأَقَمْتُ مَعَہُ زَمَاناً ثُمَّ حَضَرَتْہُ الْوَفَاۃُ، فَقُلْتُ لَہُ: یَافُلَانُ! إِنِّی کُنْتُ مَعَکَ، وَأَحْبَبْتُکَ حُبًّا لَمْ أُحِبَّہٗ مِنْہُ قَبْلَکَ، وَقَدْ حَضَرَکَ مَاتَرٰی مِنْ أَمْرِ اللّٰہِ فَإِلٰی مَنْ تُوْصِیْ بِیْ؟ وَمَاتَأْمُرُنِی؟ قَالَ: أَیْ بُنَیَّ! وَاللّٰہِ مَا أَعْلَمُ أَحَداً الْیَوْمَ عَلٰی مَاکُنْتُ عَلَیْہِ، لَقَدْ ھَلَکَ النَّاسُ وَبَدَّلُوْا وَتَرَکُوْا أَکْثَرَمَا کَانُوْا عَلَیْہِ إِلاَّ رَجُلاً بِـ(الْمَوْصِلِ) وَھُوَ فُلَانٌ، فَھُوَ عَلٰی مَا کُنْتُ عَلَیْہِ فَالْحَقْ بِہٖ۔ قَالَ: فَلَمَّا مَاتَ وَغُیِّبَ، لَحِقْتُ بِصَاحِبِ (الْمَوْصِلِ)، فَقُلْتُ لَہُ: یَافُلَانُ! إِنَّ فُلَاناً أَوْصَانِی عِنْدَ مَوْتِہِ أَنْ أَلْحَقَ بِکَ وَأَخْبَرَنِی أَنَّکَ عَلٰی أَمْرِہِ۔ قَالَ: فَقَالَ لِی: أَقِمْ عِنْدِی۔ فَأَقَمْتُ عِنْدَہُ، فَوَجَدتُّہُ خَیْرَ رَجُلٍ عَلٰی أَمْرِ صَاحِبِہِ، فَلَمْ یَلْبَثْ أَنْ مَاتَ، فَلَمَّا حَضَرَتْہُ الْوَفَاۃُ، قُلْتُ لَہٗ: یَا فُلَانُ! اِنَّ فُلَانًا أَوْصٰی بِیْ أِلَیْکَ وَأَمَرَنِیْ بِاللُّحُوْقِ بِکَ وَقَدْ حَضَرَکَ مِنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مَا تَرٰی فَأِلٰی مَنْ تُوْصِیْ بِیْ؟ وَمَا تَأْمُرُنِیْ؟ قَالَ: أَیْ بُنَیَّ! وَاللّٰہِ! مَا أَعْلَمُ رَجُلًا عَلٰی مِثْلِ مَا کُنَّا عَلَیْہِ اِلَّا رَجُلًا بِـ (نَصِیْبَیْن) وَھُوَ فُلَانٌ فَالْحَقْ بِہٖ۔ قَالَ: فَلَمَّا مَاتَ وَغُیِّبَ لَحِقْتُ بِصَاحِبِ نَصِیْبَیْن فَجِئْتُہٗ فَأَخْبَرْتُہٗ بِخَبَرِیْ وَمَا أَمَرَنِیْ بِہٖ صَاحِبِیْ قَالَ: فَأَقِمْ عِنْدِیْ۔ فَأَقَمْتُ عِنْدَہٗ فَوَجَدْتُّہٗ عَلٰی أَمْرِ صَاحِبَیْہِ فَأَقَمْتُ مَعَ خَیْرِ رَجُلٍ، فَوَاللّٰہِ مَا لَبِثَ اَنْ نَزَلَ بِہِ الْمَوْتُ، فَلَمَّا حُضِرَ قُلْتُ لَہٗ: یَا فَلَانُ! اِنَّ فُلَانًا کَانَ أَوْصٰی بِیْ أِلٰی فُلَانٍ، ثُمَّ أَوْصٰی بِیْ فُلَانٌ اِلَیْکَ، فَاِلٰی مَنْ تُوْصِیْ بِیْ؟ وَمَا تَأْمُرُنِیْ؟ قَالَ: أَیْ بُنَیَّ! وَاللّٰہِ مَا نَعْلَمُ أَحَدًا بَقِیَ عَلٰی أَمْرِنَا آمُرُکَ أَنْ تَأْتِیَہٗ أِلاَّ رَجُلًا بِـ (عَمُوْرِیَّۃَ) فَاِنَّہٗ بِمِثْلِ مَا نَحْنُ عَلَیْہِ، فَاِنْ اَحْبَبْتَ فَأْتِہٖ۔ قَالَ: فَأِنَّہٗ عَلٰی أَمْرِنَا۔ قَالَ: فَلَمَّا مَاتَ وَغُیِّبَ، لَقِیْتُ بِصَاحِبِ عَمُوْرِیَّۃَ وَأَخْبَرْتُہٗ خَبَرِیْ، فَقَالَ: أَقِمْ عِنْدِیْ۔ فَأَقَمْتُ مَعَ رَجُلٍ عَلٰی ھَدْیِ أَصْحَابِہٖ وَأَمْرِھِمْ۔ قَالَ: وَاکْتَسَبْتُ حَتّٰی کَانَ لِیْ بَقَرَاتٌ وَغُنَیْمَۃٌ ۔ قَالَ: ثُمَّ نَزَلَ بِہٖ أَمْرُ اللّّٰہِ، فَلَمَّا حُضِرَ قُلْتُ لَہٗ: یَا فُلَانُ! أِنِّیْ کُنْتُ مَعَ فُلَانٍ، فَأَوْصٰی بِیْ فُلَانٌ اِلٰی فُلَانٍ، وَأَوْصٰی بِیْ فُلَانٌ أِلٰی فُلَانٍ، ثُمَّ أَوْصٰی بِیْ فُلَانٌ أِلَیْکَ، فَأِلٰی مَنْ تُوْصِیْ بِیْ؟ وَمَا تَأْمُرُنِیْ؟ قَالَ: أَیْ بُنَیَّ! مَا أَعْلَمُہٗ أَصْبَحَ عَلٰی مَا کُنَّا عَلَیْہِ أَحَدٌ مِّنَ النَّاسِ آمُرُکَ أَنْ تَأْتِیَہٗ وَلٰکِنَّّہٗ قَدْ أَظَلَّکَ زَمَانُ نَبِيٍّ، ھُوَ مَبْعُوْثٌ بِدِیْنِ أِبْرَاہِیْمَ، یَخْرُجُ بِأَرْضِ الْعَرَبِ، مُہَاجِرًا أِلٰی أَرْضٍ بَیْنَ حَرَّتَیْنِ بَیْنَھُمَا نَخْلٌ، بِہٖ عَلَامَاتٌ لَا تَخْفٰی، یَأْکُلُ الْھَدِیَّّۃَ وَلَا یَأْکُلُ الصَّدَقَۃَ،بَیْنَ کَتِفَیْہِ خَاتَمُ النُّبُوَّۃِ، فَأِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَلْحَقَ بِتِلْکَ الْبِلَادِ فَافْعَلْ۔ قَالَ: ثُمَّّ مَاتَ وَ غُیِّبَ، فَمَکَثْتُ فِیْ عَمُوْرِیَّۃَ مَا شَائَ اللّٰہُ أَنْ أَمْکُثَ۔ثُمَّ مَرَّبِی نَفَرٌ مِنْ کَلْب تُجَّارًا فَقُلْتُ لَھُمْ: تَحْمِلُوْنِی إِلٰی أَرْضِ الْعَرَبِ وَأُعْطِیْکُمْ بَقَرَاتِیْ ھٰذِہٖ وَغَنِیْمَتِی ھٰذِہٖ؟ قَالُوْا: نَعَمْ فَاَعْطَیْتُھُمُوْھَا، وَحَمَلُوْنِی، حَتّٰی إِذَا قَدِمُوْا بِی وَادِیَ الْقُرٰی ظَلَمُوْنِی، فَبَاعُوْنِی مِنْ رَجُلٍ مِنَ الْیَھُوْدِ عَبْداً، فَکُنْتُ عِنْدَہُ، وَرَأَیْتُ النَّخْلَ، وَرَجَوْتُ، أَنْ تَکُوْنَ الْبَلَدُ الَّذِی وَصَفَ لِی صَاحِبِی، وَلَمْ یَحُقَّ لِی فِی نَفْسِی۔ فَبَیْنَمَا أَنَا عِنْدَہُ قَدِمَ عَلَیْہِ ابْنُ عَمٍّ لَّہُ مِنَ الْمَدِیْنَۃِ مِنْ بَنِی قُرَیْظَۃَ، فَابْتَاعَنِیْ مِنْہُ، فَاحْتَمَلَنِی إِلَی الْمَدِ یْنَۃِ، فَوَاللّٰہِ مَاھُوَ إِلاَّ أَنْ رَأَیْتُھَا فَعَرَفْتُھَا بِصِفَۃِ صَاحِبِی، فَأَقَمْتُ بِھَا۔ وَبَعَثَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ فَأَقَامَ بِمَکَّۃَ مَا أَقَامَ، لَا أَسْمَعُ لَہُ بِذِکْرٍ مَعَ مَا أَنَا فِیْہِ مِنْ شُغْلِ الرِّقِّ۔ ثُمَّ ھَاجَرَ إِلَی الْمَدِیْنَۃِ، فَوَاللّٰہِ إِنِّی لَفِی رَأْسِ عِذْقٍ لِسَیِّدِیْ أَعْمَلُ فِیْہِ بَعْضَ الْعَمَلِ، وَسَیِّدِی جَالِسٌ إِذْ أَقْبَلَ ابْنُ عَمٍّ لَّہُ حَتّٰی وَقَفَ عَلَیْہِ فَقَالَ: فُلَاَنٌ قَاتَلَ اللّٰہُ بَنِی قِیْلَۃَ، وَاللّٰہِ إِنَّھُمْ الآنَ لَمُجْتَمِعُوْنَ بـ(قُبَائَ) عَلٰی رَجُلٍ قَدِمَ عَلَیْھِمْ مِنْ مَّکَّۃَ الْیَوْمَ یَزْعَمُوْنَ أَنَّہُ نَبِیٌّ۔ قَالَ: فَلَمَّا سَمِعْتُھَا أَخَذَتْنِی الْعُرَوَائُ حَتّٰی ظَنَنْتُ أَنِّی سَأَسْقُطُ عَلٰی سَیِّدِیْ، قَالَ: وَنَزَلْتُ عَنِ النَّخْلَۃِ فَجَعَلْتُ أَقُوْلُ لِاِبْنِ عَمِّہِ ذٰلِکَ: مَاذَا تَقُوْلُ؟ مَاذَا تَقُوْلُ؟ قَالَ: فَغَضِبَ سَیِّدِی فَلَکَمَنِی لَکْمَۃً شَدِیْدَۃً، ثُمَّ قَالَ: مَالَکَ وَلِھٰذا؟ أَقْبِلْ عَلٰی عَمَلِکَ۔ قَالَ: قُلْتُ: لَاشَیْئَ إِنَّمَا أَردتُّ أَنْ أَسْتَثْبِتَ عَمَّا قَالَ۔ وَقَدْ کَانَ عِنْدِی شَیْئٌ قَدْ جَمَعْتُہُ، فَلَمَّا أَمْسَیْتُ أَخَذْتُہُ ثُمَّ ذَھَبْتُ بِہِ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِVوَھُوَ بـ(قُبَائٍ) فَدَخَلْتُ عَلَیْہِ فَقُلْتُ لَہُ: إِنَّہُ قَدْ بَلَغَنِی أَنَّکَ رَجُلٌ صَالِحٌ، وَمَعَکَ أَصْحَابٌ لَّکَ غُرَبَائُ ذَوُوْ حَاجَۃٍ،وَھٰذَا شَیْئٌ کَانَ عِنْدِی لِلصَّدَقَۃِ، فَرَأَیْتُکُمْ أَحَقَّ بِہِ مِنْ غَیْرِکُمْ، قَالَ: فَقَرَّبْتُہُ إِلَیْہِ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِV لأَِصْحَابِہِ: ((کُلُوْا۔)) وَأَمْسَکَ یَدَہُ فَلَمْ یَأْکُلْ۔ قَالَ: فَقُلْتُ فِی نَفْسِی: ھٰذِہِ وَاحِدَۃٌ ثُمَّ انْصَرَفْتُ عَنْہُ، فَجَمَعْتُ شَیْئاً، وَتَحَوَّلَ رَسُوْلُ اللّٰہِV إِلَی الْمَدِیْنَۃِ، ثُمَّ جِئْتُ بِہٖ فَقُلْتُ: إِنِّی رَأَیْتُکَ لَا تَأْکُلُ الصَّدَقَۃَ، وَھٰذِہٖ ھَدِیَّۃٌ أَکْرَمْتُکَ بِھَا، قَالَ: فَأَکَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِVمِنْھَا، وَأَمَرَ أَصْحَابَہُ فَأَکَلُوْا مَعَہُ، قاَلَ: فَقُلْتُ: فِی نَفْسِی ھَاتَانِ اثْنَتَانِ۔ ثُمَّ جِئْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِV وَھُوَ بِبَقِیْعِِ الْغَرْقَدِ، قَالَ: وَقَدْ تَبِعَ جَنَازَۃً مِنْ أَصْحَابِہِ، عَلَیْہِ شَمْلَتَانِ لَہُ، وَھُوَجَالِسٌ فِی أَصْحَابِہِ، فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ، ثُمَّ اسْتَدَرْتُ أَنْظُرُ إِلٰی ظَھْرِہِ، ھَلْ أَرٰی الْخَاتَمَ الَّذِی وَصَفَ لِی صَاحِبِی، فَلَمَّا رَآنِی رَسُوْلُ اللّٰہِV اسْتَدَرْتُہُ، عَرَفَ أَنِّی اَسْتَثْبِتُ فِی شَیْئٍ وَصَفَ لِی، قَالَ: فَأَلْقٰی رِدَائَ ہُ عَنْ ظَھْرِہِ، فَنَظَرْتُ إِلَی الْخَاتَمِ فَعَرَفْتُہُ، فَانْکَبَبْتُ عَلَیْہِ أُقَبِّلُہُ وَأَبْکِی۔ فَقَالَ لِی رَسُوْلُ اللّٰہِV: ((تَحَوَّلْ۔)) فَتَحَوَّلْتُ، فَقَصَصْتُ عَلَیْہِ حَدِیْثِی۔ کَمَا حَدَّثْتُکَ یَا ابْنَ عَبَّاسٍ! قَالَ: فَأَعْجَبَ رَسُوْلُ اللّٰہVأَنْ یَّسْمَعَ ذٰلِکَ أَصْحَابُہُ۔ ثُمَّ شَغَلَ سَلْمَانُ الرِّقَ حَتّٰی فَاتَہُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِVبَدْرٌ وَأُحُدٌ۔ قَالَ: ثُمَّ قَالَ لِی رَسُوْلُ اللّٰہِV: ((کَاتِبْ یَا سَلْمَانُ!)) فَکاَتَبْتُ صَاحِبِی عَلٰی ثَلَاثِ مِائَۃِ نَخْلَۃٍ أُحْیِیْھَا لَہُ بِالْفَقِیْرِ، وَبِأَرْبَعِیْنَ أُوْقِیَۃً۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِV : ((أَعِیْنُوْا أَخَاکُمْ۔)) فَأَعَانُوْنِی بِالنَّخْلِ، الرَّجُلُ بِثَلَاثِیْنَ وَدِیَّۃً وَالرَّجُلُ بِعِشْرِیْنَ، وَالرَّجُلُ بِخَمْسَ عَشَرَۃَ، وَالرَّجُلُ بِعَشْرٍ یَعْنِی: الرَّجُلَ بِقَدَرِ مَاعِنْدَہُ۔ حَتّٰی اِجْتَمَعَتْ لِی ثَلَاثُ مِئَۃِ وَدِیَّۃٍ۔ فَقَالَ لِی رَسُوْلُ اللّٰہِV: ((اِذْھَبْ یَاسَلْمَانُ! فَفَقِّرْلَھَا، فَإِذَا فَرَغْتَ فَأْتِنِی أَکُوْنُ أَنَا أَضَعُھَا بِیَدِی۔)) فَفَقَّرْتُ لَھَا، وَأَعَانَنِی أَصْحَابِی، حَتّٰی إِذَا فَرَغْتُ مِنْھَا جِئْتُہُ فَأَخْبَرْتُہُ۔ فَخَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِV مَعِیَ إِلَیْھَا،فَجَعَلْنَا نُقَرِّبُ لَہُ الْوَدِیَّ، وَیَضَعُہُ رَسُوْلُ اللّٰہِV بِیَدِہِ، فَوَالَّذِی نَفْسُ سَلْمَاَنَ بِیَدِہِ! مَا مَاتَتْ مِنْھَا وَدِیَّۃٌ وَاحِدَۃٌ، فَأَدَّیْتُ النَّخْلَ وَبَقِیَ عَلَیَّ الْمَالُ، فَأُتِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِV بِمِثْلِ بَیْضَۃِ الدَجَّاجَۃٍ مِنْ ذَھَبٍ مِنْ بَعْضِ الْمَغَازِیْ، فَقَالَ: ((مَافَعَلَ الْفَارِسِیُّ الْمُکَاتَبُ؟)) قَالَ: فَدُعِیْتُ لَہٗ۔ فَقَالَ: ((خُذْ ھٰذِہِ فَأَدِّ بِھَا مَا عَلَیْکَ یَاسَلْمَانُ!)) فَقُلْتُ: وَأَیْنَ تَقَعَ ھٰذِہٖ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مِمَّا عَلَیَّ؟ قَالَ: ((خُذْھَا، فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ سَیُؤَدِّی بِھَا عَنْکَ۔)) قَالَ: فَأَخَذْتُھَا، فَوَزَنْتُ لَھُمْ مِنْھَا وَالَّذِی نَفْسُ سَلْمَانَ بِیَدِہِ! أَرْبَعِیْنَ أُوْقِیَۃً، فَأَوْفَیْتُھُمْ حَقَّھُمْ، وَعَتَقْتُ، فَشَھِدتُّ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِV الْخَنْدَقَ، ثُمَّ لَمْ یَفُتْنِیْ مَعَہٗ مَشْھَدٌ۔ (مسند احمد: ۲۴۱۳۸)
سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا سلمان فارسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے اپنا واقعہ اپنی زبانییوں بیان کیا، وہ کہتے ہیں: میں اصبہان والوں میں سے ایک فارسی باشندہ تھا،میرا تعلق ان کی ایک جيّ نامی بستی سے تھا، میرے باپ اپنی بستی کے بہت بڑے کسان تھے اور میں اپنے باپ کے ہاں اللہ کی مخلوق میں سے سب سے زیادہ محبوب تھا۔ میرے ساتھ ان کی محبت قائم رہی حتیٰ کہ انھوں نے مجھے گھر میں آگ کے پاس ہمیشہ رہنے والے کی حیثیت سے پابند کردیا، جیسے لڑکی کو پابند کر دیا جاتا ہے۔ میں نے مجوسیت میں بڑی جد وجہد سے کام لیا، حتی کہ میں آگ کا ایسا خادم و مصاحب بنا کہ ہر وقت اس کو جلاتا رہتا تھا اور ایک لمحہ کے لیے اسے بجھنے نہ دیتا تھا۔ میرے باپ کی ایک بڑی عظیم جائداد تھی، انھوں نے ایک دن ایک عمارت (کے سلسلہ میں) مصروف ہونے کی وجہ سے مجھے کہا: بیٹا! میں تو آج اس عمارت میں مشغول ہو گیا ہوں اور اپنی جائداد (تک نہیں پہنچ پاؤں گا)، اس لیے تم چلے جاؤ اور ذرا دیکھ کر آؤ۔ انھوں نے اس کے بارے میں مزید چند (احکام بھی) صادر کئے تھے۔ پس میں اس جاگیر کے لیے نکل پڑا، میرا گزر عیسائیوں کے ایک گرجا گھر کے پاس سے ہوا، میں نے ان کی آوازیں سنیں اور وہ نماز ادا کر رہے تھے۔ مجھے یہ علم نہ ہو سکا تھا کہ عوام الناس کا کیا معاملہ ہے کہ میرے باپ نے مجھے اپنے گھر میں پابند کر رکھا ہے۔ (بہرحال) جب میں ان کے پاس سے گزرا اور ان کی آوازیں سنیں تو میں ان کے پاس چلا گیا اور ان کی نقل و حرکت دیکھنے لگ گیا۔ جب میں نے ان کو دیکھا تو مجھے ان کی نماز پسند آئی اور میں ان کےدین کی طرف راغب ہوا اور میں نے کہا: بخدا! یہ دین اُس (مجوسیت) سے بہتر ہے جس پر ہم کاربند ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا: اس دین کی بنیاد کہاں ہے؟ انھوں نے کہا: شام میں۔ پھر میں اپنے باپ کی طرف واپس آ گیا، (چونکہ مجھے تاخیر ہو گئی تھی اس لیے) انھوں نے مجھے بلانے کے لیے کچھ لوگوں کو بھی میرے پیچھے بھیج دیا تھا۔ میں اِس مصروفیت کی وجہ سے ان کے مکمل کام کی (طرف کوئی توجہ نہ دھر سکا)۔ جب میں ان کے پاس آیا تو انھوں نے پوچھا: بیٹا! آپ کہاں تھے؟ کیا میں نے ایک ذمہ داری آپ کے سپرد نہیں کی تھی؟ میں نے کہا: ابا جان! میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا، وہ گرجا گھر میں نماز پڑھ رہے تھے، مجھے ان کی کاروائی بڑی پسند آئی۔ اللہ کی قسم! میں ان کے پاس ہی رہا، حتی کہ سورج غروب ہو گیا۔ میرے باپ نے کہا: بیٹا!اس دین میں کوئی خیر نہیں ہے، تمہارا اور تمہارے آباء کا دین اس سے بہتر ہے۔ میں نے کہا: بخدا! ہرگز نہیں، وہ دین ہمارے دین سے بہتر ہے۔ (میرے ان جذبات کی وجہ سے) میرے باپ کو میرے بارے میں خطرہ لاحق ہوا اور انھوں نے میرے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر مجھے گھر میں پابند کر دیا۔ میں نے عیسائیوں کی طرف پیغام بھیجا کہ جب شام سے تاجروں کا عیسائی قافلہ آئے تو مجھے خبر دینا۔ (کچھ ایام کے بعد) جب شام سے عیسائیوں کا تجارتی قافلہ پہنچا تو انھوں نے مجھے اس (کی آمد) کی اطلاع دی۔ میں نے ان سے کہا: جب (اس قافلے کے) لوگ اپنی ضروریات پوری کرکے اپنے ملک کی طرف واپس لوٹنا چاہیں تو مجھے بتلا دینا۔ سو جب انھوں نے واپس جانا چاہا تو انھوں نے مجھے اطلاع دے دی۔ میں نے اپنے پاؤں سے بیڑیاں اتار پھینکیں اور ان کے ساتھ نکل پڑا اور شام پہنچ گیا۔ جب میں شام پہنچا تو پوچھا: وہ کون سی شخصیت ہے جو اس دین والوں میں افضل ہے؟ انھوں نے کہا: فلاں گرجا گھر میں ایک پادری ہے۔میں اس کے پاس گیا اور میں نے کہا: میں اِس دینِ (نصرانیت) کی طرف راغب ہوا ہوں، اب میں چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس رہوں اور گرجا گھر میں آپ کی خدمت کروں اور آپ سے تعلیم حاصل کروں اور آپ کے ساتھ نماز پڑھوں۔ اس نے کہا: (ٹھیک ہے) آ جاؤ۔ پس میں اس میں داخل ہو گیا۔ لیکن وہ بڑا برا آدمی تھا۔ وہ لوگوں کو صدقہ کرنے کا حکم دیتا تھا اور ان کو ترغیب دلاتا تھا۔ جب وہ کئی اشیاء لے کر آتے تھے، تو وہ اپنے لیے جمع کر لیتا تھا اور مساکین کو کچھ بھی نہیں دیتا تھا، حتی کہ اس کے پاس سونے اور چاندی کے سات مٹکے جمع ہو گئے۔ میں اس کے کرتوں کی بنا پر اس سے نفرت کرتا تھا۔ بالآخر وہ مر گیا، اسے دفن کرنے کے لیے عیسائی لوگ پہنچ گئے۔ میں نے ان سے کہا: یہ تو برا آدمی تھا، یہ تم لوگوں کو تو صدقہ کرنے کا حکم دیتا اور اس کی ترغیب دلاتا تھا، لیکن جب تم لوگ اس کے پاس صدقہ جمع کرواتے تھے تو یہ اسے اپنے لیے ذخیرہ کر لیتا تھا اور مساکین کو بالکل نہیں دیتا تھا۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا: تجھے کیسے علم ہوا؟ میں نے کہا: میں تمہیں اس کے خزانے کی خبر دے سکتا ہوں۔ انھوں نے کہا: تو پھر ہمیں بتاؤ۔پس میں نے ان کو (اس کے خزانے کا) مقام دکھایا۔ انھوں نے وہاں سے سونے اورچاندی کے بھرے ہوئے سات مٹکے نکالے۔جب انھوں نے صدقے (کا یہ حشر) دیکھا تو کہنے لگے: بخدا! ہم اس کو کبھی بھی دفن نہیں کریں گے۔ سو انھوں نے اس کو سولی پر لٹکایا اور پھر پتھروں سے اس کو سنگسار کیا۔ بعد ازاں وہ اس کی جگہ پر ایک اور آدمی لے آئے۔ سیدنا سلمان کہتے ہیں: جو لوگ پانچ نمازیں ادا کرتے تھے، میں نے اس کو ان میں افضل پایا۔ میں نے اسے دنیا سے سب سے زیادہ بے رغبت، آخرت کے معاملے میں سب سے زیادہ رغبت والا اور دن ہو یا رات (عبادت کے معاملات کو) تندہی سے ادا کرنے والا پایا۔ میں نے اس سے ایسی محبت کی کہ اس سے پہلے اس قسم کی محبت کسی سے نہیں کی تھی۔ میں اسی کے ساتھ کچھ زمانہ تک مقیم رہا۔ بالآخر اس کی وفات کا وقت قریب آ پہنچا۔ میں نے اسے کہا: او فلان! میں تیرے ساتھ رہا اور میں نے تجھ سے ایسی محبت کی کہ اس سے قبل اس قسم کی محبت کسی سے نہیں کی تھی۔ اب تیرے پاس اللہ تعالیٰ کا حکمِ (موت) آ پہنچا ہے، تو خود بھی محسوس کر رہا ہے۔ اب تو مجھے کس کے پاس جانے کی نصیحت کرے گا؟ اور مجھے کیا حکم دے گا؟ اس نے کہا: میرے بیٹا! اللہ کی قسم! میں جس دین پر پابند تھا، میرے علم کے مطابق کوئی بھی اس دین کا پیروکار نہیں ہے۔ لوگ ہلاک ہو گئے ہیں اور تبدیل ہو گئے ہیں اور جس شریعت کو اپنا رکھا تھا اس کے اکثر امور کو ترک کر دیا ہے۔ ہاں فلاں ایک آدمی موصل میں ہے۔ وہ اسی دین پر کاربند ہے، پس تو اس کے پاس چلے جانا۔جب وہ فوت ہو گیا اور اسے دفن کر دیا گیا تو میں موصل والے آدمی کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے اسے کہا: اے فلاں! فلاں آدمی نے موت کے وقت مجھے وصیت کی تھی کہ میں تجھ سے آ ملوں۔ اس نے مجھے بتلایا تھاکہ تم بھی اس کے دین پر کاربند ہو۔ اس نے مجھے کہا: (ٹھیک ہے) تم میرے پاس ٹھہر سکتے ہو۔ پس میں نے اس کے پاس اقامت اختیار کی، میں نے اسے بہترین آدمی پایا جو اپنے ساتھی کے دین پر برقرار تھا۔ (کچھ عرصے کے بعد اس پر بھی) فوت ہونے کے آثار (دکھائی دینے لگے)۔ جب اس پر وفات کی گھڑی آ پہنچی تو میں نے کہا: او فلاں! فلاں نے تو مجھے تیرے بارے میں وصیت کی تھی اور مجھے حکم دیا تھا کہ تیری صحبت میں رہوں۔ اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ تجھ پر نازل ہونے والا ہے وہ تو دیکھ رہا ہے۔ اب تو مجھے کیا وصیت کرے گا اور کیا حکم دے گا کہ میں کس کے پاس جاؤں؟ اس نے کہا: بیٹا! اللہ کی قسم! میرے علم کے مطابق تو ہمارے دین پر قائم صرف ایک آدمی ہے، جو نصیبین میں ہے۔ (میری وفات کے بعد) اس کے پاس چلے جانا۔ پس جب وہ فوت ہوا اور اسے دفن کر دیا گیا تو میں نصیبین والے صاحب کے پاس پہنچ گیا۔ میں اس کے پاس آیا اور اسے اپنے بارے میں اور اپنے (رہنما) کے حکم کے بارے میں مطلع کیا۔ اس نے کہا: میرے پاس ٹھہریئے۔ سو میں اس کے پاس ٹھہر گیا۔ میں نے اس کو اس کے سابقہ دونوں صاحبوں کے دین پر پایا۔ وہ بہترین آدمی تھا جس کے پاس میں نے اقامت اختیار کی۔ لیکن اللہ کی قسم! وہ جلد ہی مرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو میں نے اسے کہا: او فلاں! فلاں (اللہ کے بندے) نے مجھے فلاں کی (صحبت میں رہنے کی) نصیحت کی تھی، پھر اس نے تیرے پاس آنے کی نصیحت کی۔ اب تو مجھے کس کے پاس جانے کی وصیت کرے گا یا کیا حکم دے گا؟ اس نے کہا: میرے بیٹے! ہم تو ایسے آدمی کے بارے میں کوئی معلومات نہیں رکھتے، جو ہمارے دین پر قائم ہو، کہ تو اس کے پاس جا سکے ۔ البتہ ایک آدمی عموریہ میں ہے۔ وہ دین کے معاملے میں ہماری طرح کا ہے۔ اگر تو چاہتا ہے تو اس کے پاس چلے جانا، کیونکہ وہ ہمارے دین پر برقرار ہے۔ پس جب وہ بھی مر گیا اور اسے دفن کر دیا گیا، تو میں عموریہ والے کے پاس پہنچ گیا اور اسے اپنا سارا ماجرا سنایا۔ اس نے کہا: تم میرے پاس ٹھہرو۔ میں نے اس کی صحبت اختیار کر لی اور اسے اس کے اصحاب کی سیرت اور دین پر پایا۔ سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے اس کے پاس کمائی بھی کی، حتی کہ میں کچھ گائیوں اور بکریوں کا مالک بن گیا۔ لیکن اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہونے (کی علامات دکھائیدینے لگیں)۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آ پہنچا تو میں نے اسے کہا: او فلاں! میں فلاں بندے کے پاس تھا، فلاں نے مجھے فلاں کے بارے میں، فلاں نے فلاں کے بارے میں اور اس نے تیرے پاس آنے کی وصیت کی تھی۔ اب تو مجھے کس (کی صحبت میں رہنے) کی وصیت کرے گا؟ اور مجھے کیا حکم دے گا؟ اس نے کہا: میرے بیٹا! میں تو کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو ہمارے دین پر کاربند ہو اور جس کے بارے میں میں تجھے حکم دے سکوں۔ لیکن اب ایک نبی کی آمد کا وقت قریب آ چکا ہے، اسے دینِ ابراہیمی کے ساتھ مبعوث کیا جائے گا ، وہ عربوں کی سرزمین سے ظاہر ہو گا اور ایسے (شہر) کی طرف ہجرت کرے گا جو دو حرّوں (یعنی کالے پتھر والی زمینوں) کے درمیان ہو گا اور ان کے درمیان کھجوروں کے درخت ہوں گے۔ اس کی اور علامات بھی ہوں گی، جو مخفی نہیں ہوں گی۔ وہ ہدیہ (یعنی بطورِ تحفہ دی گئی چیز) کھائے گا، صدقہ نہیں کھائے گا اور اس کے کندھوں کے درمیان مہرِ ختمِ نبوّت ہو گی۔ اگر تجھے استطاعت ہے تو (عرب کے) ان علاقوں تک پہنچ جا۔ سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: پھر وہ فوت ہو گیا اور اسے دفن کر دیا گیا۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور تھا، میں عموریہ میں سکونت پذیر رہا۔ پھر میرے پاس سے بنو کلب قبیلے کا ایک تجارتی قافلہ گزرا۔ میں نے ان سے کہا: اگر تم مجھے سرزمینِ عرب کی طرف لے جاؤ تو میں تم کو اپنی گائیں اور بکریاں دے دوں گا؟ انھوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ پس میں نے اپنی گائیں اور بکریاںان کو دے دیں اور انھوں نے مجھے اپنے ساتھ ملا لیا۔ جب وہ مجھے وادیٔ قری تک لے کر پہنچے تو انھوں نے مجھ پر ظلم کیا اور بطورِ غلام ایکیہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ پس میں اس کے پاس ٹھہر گیا۔ جب میں نے کھجوروں کے درخت دیکھے تو مجھے امید ہونے لگی کہ یہ وہی شہر ہے جو میرے ساتھی نے بیان کیا تھا، لیکنیقین نہیں آ رہا تھا۔ ایک دن اس یہودی کا چچا زاد بھائی، جس کا تعلق بنو قریظہ سے تھا، مدینہ سے اس کے پاس آیا اور مجھے خرید کر اپنے پاس مدینہ میں لے گیا۔ اللہ کی قسم! جب میں نے مدینہ کو دیکھا تو اپنے ساتھی کی بیان کردہ علامات کی روشنی میں اس کو پہچان گیا (کہ یہی خاتم النبین کا مسکن ہو گا)۔ میں وہاں فروکش ہو گیا۔ اُدھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مکہ مکرمہ میں مبعوث کر دیا، جتنا عرصہ انھوں نے وہاں ٹھہرنا تھا، وہ ٹھہرے۔ لیکن میں نے ان (کی آمد) کا کوئی تذکرہ نہیں سنا، دوسری بات یہ بھی ہے کہ میں غلامی والے شغل میں مصروف رہتا تھا۔ بالآخر نبی کریمa ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے آئے۔ اللہ کی قسم! (ایک دن) میں اپنے آقا کے پھل دار کھجور کے درخت کی چوٹی پر کوئی کام کر رہا تھا، میرا مالک بیٹھا ہوا تھا، اس کا چچازاد بھائی اچانک اس کے پاس آیا اور کہا: او فلاں! اللہ تعالیٰ بنوقیلہ کو ہلاک کرے، وہ قباء میں مکہ سے آنے والے ایک آدمی کے پاس جمع ہیں اور ان کا خیال ہے کہ وہ نبی ہے۔ جب میں نے اس کییہ بات سنی تو مجھ پر اس قدر کپکپی طاری ہو گئی کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ اپنے مالک پر گر جاؤں گا۔ میں کھجور کے درخت سے اترا اور اس کے چچا زاد بھائی سے کہنے لگا: تم کیا کہہ رہے ہو؟ تم کیا کہہ رہے ہو؟ اس بات سے میرے آقا کو غصہ آیا اور اس نے مجھے زور سے مکا مارا اور کہا: تیرا اس کی بات سے کیا تعلق ہے۔ جا، اپنا کام کر۔ میں نے کہا: کوئی تعلق نہیں، بس ذرا بات کی چھان بین کرنا چاہتا تھا۔ سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میرے پاس میرا جمع کیا ہوا کچھ مال تھا۔ جب شام ہوئی تو میں نے وہ مال لیا اور قباء میں رسول اللہ a کے پاس پہنچ گیا۔ میں آپ a پر داخل ہوا اور کہا: مجھے یہ بات موصول ہوئی ہے کہ آپ کوئی صالح آدمی ہیں اور آپ کے اصحاب غریب اور حاجتمند لوگ ہیں۔ یہ میرے پاس کچھ صدقے کا مال ہے، میں نے آپ لوگوں کو ہی اس کا زیادہ مستحق سمجھا ہے۔ پھر میں نے وہ مال آپ a کے قریب کیا۔ لیکن آپ a نے اپنے صحابہ سے فرمایا: ’’تم لوگ کھا لو۔‘‘ آپa نے خود اپنا ہاتھ روک لیا اور نہ کھایا۔ میں نے دل میں کہا کہ (اس بندے کے نبی ہونے کی) ایک نشانی تو (پوری ہو گئی ہے)۔ پھر میں چلا گیا اور مزید کچھ مال جمع کیا۔ اب رسول اللہ a مدینہ میں منتقل ہو چکے تھے۔ پھر (وہ مال لے کر) میں آپ a کے پاس آیا اور کہا: میرا آپ کے بارے میں خیال ہے کہ آپ صدقے کا مال نہیں کھاتے، اس لیےیہ ہدیہ (یعنی تحفہ) ہے، میں اس کے ذریعےآپ کی عزت کرنا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ a نے وہ چیز خود بھی کھائی اور اپنے صحابہ کو بھی کھانے کاحکم دیا، سو انھوں نے بھی کھائی۔ (یہ منظر دیکھ کر) میں نے دل میں کہا: دو علامتیں (پوری ہو گئیں ہیں)۔ (سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: )میں (تیسری دفعہ) جب رسول اللہ a کے پاس آیا تو وہ ’’بَقِیْعُ الْغَرْقَد‘‘ میں تھے۔آپ a کسی صحابی کے جنازے کی خاطر وہاں آئے ہوئے تھے، آپ a پر دو چادریں تھیں۔ آپa اپنے اصحاب میں تشریف فرما تھے۔ میں نے آپ a کو سلام کہا، پھر آپ کی پیٹھ پر نظر ڈالنے کے لیے گھوما، تاکہ (دیکھ سکوں کہ) آیا وہ (ختمِ نبوّت والی) مہر بھی ہے، جس کی پیشین گوئی میرے ساتھی نے کی تھی۔ جب رسول اللہ a نے مجھے گھومتے ہوئے دیکھا تو آپ پہچان گئے کہ میں آپ a کے کسی وصف کی جستجو میں ہوں، پس آپ a نے اپنی چادر اپنی پیٹھ سے ہٹا دی، میں نے مہرِنبوت دیکھی اور اسے پہچان گیا۔ پھر میں آپa پر ٹوٹ پڑا اور آپ کے بوسے لینے اور رونے لگا۔ رسول اللہa نے مجھے فرمایا: ’’پیچھے ہٹو۔‘‘ پس میں پیچھے ہٹ گیا۔ ابن عباس! پھر میں نے آپ a کو اپنا وہ سارا ماجرا سنایا، جو تجھے سنایا ہے اور رسول اللہ a کو یہ بات اچھی لگی کہ یہ واقعہ آپ کے صحابہ بھیسنیں۔ پھر سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غلامی کی وجہ سے مشغول رہے اور غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں رسول اللہa کے ساتھ شریک نہ ہو سکے۔ (سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:) ایک دن رسول اللہa نے مجھے فرمایا: ’’سلمان! (اپنے مالک سے) مکاتبت کر لو۔‘‘ پس میں نے اپنے آقا سے اس بات پر مکاتبت کر لی کہ میں اس کے لیے تین سو کھجور کے چھوٹے درخت زمین سے اکھاڑ کر اس کی جگہ پر لگاؤں گا اور (مزید اسے) چالیس اوقیے دوں گا۔ رسول اللہa نے فرمایا: ’’اپنے بھائی (سلمان) کی مدد کرو۔‘‘ لوگوں نے مدد کرتے ہوئے مجھے کھجوروں کے درخت دیے۔ کسی نے تیس، کسی نے بیس،کسی نے پندرہ، کسی نے دس، الغرض کہ ہر ایک نے اپنی استطاعت کے بقدر مجھے کھجوروں کے چھوٹے درخت دیے، حتی کہ میرے پاس تین سو کھجوریں جمع ہو گئیں۔ رسول اللہa نے مجھے فرمایا: ’’سلمان! جاؤ اور گڑھے کھودو۔ جب فارغ ہو جاؤ تو میرے پاس آ جانا، (یہ پودے) میں خود لگاؤں گا۔‘‘ (سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:) میں نے گڑھے کھودے، میرے ساتھیوں نے میری معاونت کی۔ جب میں فارغ ہوا تو آپa کے پاس آیا اور آپ کو اطلاع دی۔ رسول اللہa میرے ساتھ نکلے۔ ہم (کھجوروں کے وہ) بوٹے آپa کے قریب کرتے تھے اور آپ اپنے ہاتھ سے ان کو لگا دیتے تھے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے! ان میں سے کھجور کا ایک پودا بھی نہ مرا۔ اب میں کھجور کے چھوٹے درخت تو لگا چکا تھااور (چالیس اوقیوں والا) مال باقی تھا۔ کسی غزوے سے رسول اللہ a کے پاس مرغی کے انڈے کے بقدر سونا لایا گیا۔ آپ aنے پوچھا: ’’مکاتبت کرنے والا (سلمان) فارسی کیا کر رہا ہے؟‘‘ مجھے بلایا گیا، آپ aنے فرمایا: ’’سلمان! یہ لو اور اس کے ساتھ اپنی ذمہ داری ادا کرو۔‘‘ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھ پر جتنا (قرضہ) ہے، اس سے کیا اثر ہو گا؟ (یعنی قرضہ بہت زیادہ ہے)۔ آپ a نے فرمایا: ’’یہ تو لو، عنقریب اللہ تعالیٰ تمہارا (قرضہ) بھی ادا کر دے گا۔‘‘ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے! میں نے وہ لے لیا اور اس میں سے ان آقاؤں کو چالیس اوقیے تول کر دے دئیے ، ان کا پورا حق ادا کر دیا اور آزا د ہو گیا۔ پھر میں رسول اللہ a کے ساتھ غزوۂ خندق میں حاضر ہوا اور اس کے بعد کوئی غزوہ مجھ سے نہ رہ سکا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11744

۔ (۱۱۷۴۴)۔ عَنْ أَبِی قُرَّۃَ الْکِنْدِیِّ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ قَالَ: کُنْتُ مِنْ أَبْنَائِ أَسَاوِرَۃِ فَارِسَ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ قَالَ: فَانْطَلَقْتُ تَرْفَعُنِی أَرْضٌ وَتَخْفِضُنِی أُخْرٰی حَتّٰی مَرَرْتُ عَلٰی قَوْمٍ مِنَ الْأَعْرَابِ فَاسْتَعْبَدُوْنِی فَبَاعُونِی حَتَّی اشْتَرَتْنِی امْرَأَۃٌ، فَسَمِعْتُہُمْ یَذْکُرُوْنَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکَانَ الْعَیْشُ عَزِیزًا، فَقُلْتُ لَہَا: ہَبِی لِی یَوْمًا، فَقَالَتْ: نَعَمْ، فَانْطَلَقْتُ فَاحْتَطَبْتُ حَطَبًا فَبِعْتُہُ فَصَنَعْتُ طَعَامًا فَأَتَیْتُ بِہِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَوَضَعْتُہُ بَیْنَ یَدَیْہِ، فَقَالَ: ((مَا ہٰذَا؟)) فَقُلْتُ: صَدَقَۃٌ، فَقَالَ لِأَصْحَابِہِ: ((کُلُوْا۔)) وَلَمْ یَأْکُلْ، قُلْتُ: ہٰذِہِ مِنْ عَلَامَاتِہِ، ثُمَّ مَکَثْتُ مَا شَائَ اللّٰہُ أَنْ أَمْکُثَ، فَقُلْتُ لِمَوْلَاتِی: ہَبِی لِی یَوْمًا، قَالَتْ: نَعَمْ، فَانْطَلَقْتُ فَاحْتَطَبْتُ حَطَبًا بِأَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَصَنَعْتُ طَعَامًا فَأَتَیْتُہُ بِہِ وَہُوَ جَالِسٌ بَیْنَ أَصْحَابِہِ فَوَضَعْتُہُ بَیْنَ یَدَیْہِ، فَقَالَ: ((مَا ہٰذَا؟)) قُلْتُ: ہَدِیَّۃٌ، فَوَضَعَ یَدَہُ وَقَالَ لِأَصْحَابِہِ: ((خُذُوْا بِسْمِ اللّٰہِ۔)) وَقُمْتُ خَلْفَہُ فَوَضَعَ رِدَائَ ہُ فَإِذَا خَاتَمُ النُّبُوَّۃِ، فَقُلْتُ: أَشْہَدُ أَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ، فَقَالَ: ((وَمَا ذَاکَ؟)) فَحَدَّثْتُہُ عَنِ الرَّجُلِ، وَقُلْتُ: أَیَدْخُلُ الْجَنَّۃَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَإِنَّہُ حَدَّثَنِی أَنَّکَ نَبِیٌّ؟ فَقَالَ: ((لَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَۃٌ۔)) فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّہُ أَخْبَرَنِی أَنَّکَ نَبِیٌّ أَیَدْخُلُ الْجَنَّۃَ؟ قَالَ: ((لَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَۃٌ۔)) (مسند احمد: ۲۴۱۱۳)
ابو قرہ کندی سے روایت ہے کہ سلمان فارسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ میں سرداران فارس کی نسل میں سے تھا، اس سے آگے انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا، میں وہاں سے چل دیا، کوئی سر زمین مجھے اپنے اوپر جگہ دیتی اور پھر مجھے کہیں آگے پھینک دیتی،یہاں تک کہ میں اعرابیوں کی ایک جماعت کے پاس سے گزرا۔ انہوںنے مجھے غلام کی حیثیت سے فروخت کر دیا اور بالآخر مجھے ایک خاتون نے خرید لیا، میں اس گھر کے افراد کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا تذکرہ کرتے سنا، ان دنوں میری گزر بسر انتہائی تنگی میں ہوئی تھی، میں نے اپنی اس مالکہ سے درخواست کی کہ مجھے ایک دن رخصت دیں، انہوںنے رخصت دے دی، تو میں نے جا کر لکڑیاں جمع کر کے ان کو فروخت کیا اور کھانا تیار کیا، میں وہ کھانا لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے وہ کھانا آپ کے سامنے رکھ دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کیا ہے؟ میں نے عر ض کیا: یہ صدقہ ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ سے فرمایا: یہ کھا لو۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود تناول نہ فرمایا، میں نے دل میں کہا: آپ کی علامات میں سے یہ ایک بات تو پوری ہوئی، اس کے بعد اللہ کو جس قدر منظور تھا، وقت گزرا۔ پھر میں نے اپنی مالکہ سے ایک دن کی رخصت طلب کی، اس نے مجھے رخصت دے دی۔ تو میں نے جا کر لکڑیاں اکٹھی کرکے ان کو پہلے سے زیادہ قیمت میں فروخت کیااور اس رقم سے میں نے کھانا تیار کیا، میں وہ کھانا لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صحابہ کی جماعت میں تشریف فرما تھے، میں نے وہ کھانا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے رکھ دیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: یہ ہدیہ ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک کھانے کی طرف بڑھایا اور صحابہ سے بھی فرمایا کہ اللہ کا نام لے کر تم بھی کھائو۔ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے کھڑا ہوگیا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی چادر ہٹا دی اور مجھے مہر نبوت بھی نظر آ گئی، میں بے اختیار پکاراٹھا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہاری اس بات کی وجہ اور سبب کیا ہے؟ میں نے اس پادری کا واقعہ آپ کے گوش گزار کیا اور دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! کیا وہ جنت میں جائے گا؟ اس نے مجھے بتلایا تھا کہ آپ اللہ کے آخری نبی ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں وہی جائے گا، جو مسلمان ہوگا۔ میں نے دوبارہ عرض کیا: اللہ کے رسول! اسی نے مجھے بتلایا تھا کہ آپ اللہ کے نبی ہیں، تو کیا وہ جنت میں جائے گا ؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہی آدمی جنت میں جائے گا جو مسلمان ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11745

۔ (۱۱۷۴۵)۔ وَعَنْ بُرَیْدَۃَ الْأَسْلَمِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: جَائَ سَلْمَانُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ قَدِمَ الْمَدِینَۃَ بِمَائِدَۃٍ عَلَیْہَا رُطَبٌ، فَوَضَعَہَا بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا ہٰذَا؟ یَا سَلْمَانُ!۔)) قَالَ: صَدَقَۃٌ عَلَیْکَ وَعَلٰی أَصْحَابِکَ، قَالَ: ((ارْفَعْہَا فَإِنَّا لَا نَأْکُلُ الصَّدَقَۃَ۔)) فَرَفَعَہَا فَجَائَ مِنَ الْغَدِ بِمِثْلِہِ فَوَضَعَہُ بَیْنَ یَدَیْہِ یَحْمِلُہُ، فَقَالَ: ((مَا ہٰذَا؟ یَا سَلْمَانُ!۔)) فَقَالَ: ہَدِیَّۃٌ لَکَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِأَصْحَابِہِ: ((ابْسُطُوْا۔)) فَنَظَرَ إِلَی الْخَاتَمِ الَّذِی عَلٰی ظَہْرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَآمَنَ بِہِ، وَکَانَ لِلْیَہُوَدِ، فَاشْتَرَاہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِکَذَا وَکَذَا دِرْہَمًا وَعَلٰی أَنْ یَغْرِسَ نَخْلًا، فَیَعْمَلَ سَلْمَانُ فِیہَا حَتّٰی یَطْعَمَ، قَالَ: فَغَرَسَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم النَّخْلَ إِلَّا نَخْلَۃً وَاحِدَۃً غَرَسَہَا عُمَرُ، فَحَمَلَتِ النَّخْلُ مِنْ عَامِہَا وَلَمْ تَحْمِلِ النَّخْلَۃُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا شَأْنُ ہٰذِہِ؟)) قَالَ عُمَرُ: أَنَا غَرَسْتُہَا، یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، قَالَ: فَنَزَعَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ غَرَسَہَا فَحَمَلَتْ مِنْ عَامِہَا۔ (مسند احمد: ۲۳۳۸۵)
سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک دسترخوان لیے، جس میں کھجوریں تھیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آکر وہ دستر خوان رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے رکھ دیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: سلمان! یہ کیا ہے؟ انہوںنے کہا: یہ آپ کے لیے اور آپ کے صحابہ کے لیے صدقہ ہے۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے اٹھا لو، ہم صدقہ کا مال نہیں کھاتے۔ چنانچہ انہوںنے اسے اٹھا لیا۔ وہ دوسرے دن بھی حسب سابق آئے اور انہوںنے کھانا لا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے رکھ دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: سلمان! یہ کیا ہے؟ انہوںنے جواب دیا: اے اللہ کے رسول! یہ آپ کے لیے تحفہ ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ سے فرمایا: اپنے ہاتھ بڑھائو۔ سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پشت پر مہر بھی ملاحظہ کی اور یہ سب کچھ دیکھ کر وہ ایمان لے آئے۔ سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان دنوں یہود کے غلام تھے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو کچھ درہم اور کھجور کے پودے کاشت کرنے کے عوض خرید لیا۔ شرط یہ تھی کہ ان درختوں کے ثمر آور ہونے تک سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ وہاں باغ میں کام کریں گے، کھجور کے تمام پودے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ہاتھوں سے خود لگائے، صرف ایک پودا سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے لگایا، تمام پودے اسی سال ثمر آور ہوگئے، کھجور کے صرف ایکپودے پر پھل نہ آیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے کیا ہوا؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ٰنے بتلایا: اے اللہ کے رسول! یہ پودا میں نے لگایا تھا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے اکھیڑ کر دوبارہ گاڑھ دیا تو وہ بھی اسی سال پھل دار ہوگیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11746

۔ (۱۱۷۴۶)۔ عَنْ یُسْرِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ فَاتِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((نِعْمَ الْفَتٰی سَمُرَۃَ لَوْ أَخَذَ مِنْ لِمَّتِہِ وَشَمَرَ مِنْ مِئْزَرِہِ۔)) فَفَعَلَ ذٰلِکَ سَمُرَۃُ أَخَذَ مِنْ لِمَّتِہِ وَشَمَرَ عِنْ مِئْزَرِہِ۔ (مسند احمد: ۱۷۹۴۱)
سیدنا سمرہ بن فاتک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سمرہ ایک اچھا آدمی ہے،کاش وہ اپنے سر کے بال ذرا چھوٹے کرلے اور اپنی چادر کو ٹخنوں سے اوپر رکھے۔ یہ سن کر سیدنا سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فوراً دونوں باتوں پر عمل شروع کر دیا۔ انہوںنے بال چھوٹے کر لیے اور چادر بھیاوپر کر لی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11747

۔ (۱۱۷۴۷)۔ أَخْبَرَنَا زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ لِصُہَیْبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا: لَوْلَا ثَلَاثُ خِصَالٍ فِیکَ لَمْ یَکُنْ بِکَ بَأْسٌ، قَالَ: وَمَا ہُنَّ فَوَاللّٰہِ مَا نَرَاکَ تَعِیبُ شَیْئًا، قَالَ: اکْتِنَاؤُکَ بِأَبِی یَحْیٰی وَلَیْسَ لَکَ وَلَدٌ، وَادِّعَاؤُکَ إِلَی النَّمِرِ بْنِ قَاسِطٍ وَأَنْتَ رَجُلٌ أَلْکَنُ، وَأَنَّکَ لَا تُمْسِکُ الْمَالَ، قَالَ: أَمَّا اکْتِنَائِی بِأَبِی یَحْیٰی، فَإِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَنَّانِی بِہَا فَلَا أَدَعُہَا حَتّٰی أَلْقَاہُ، وَأَمَّا ادِّعَائِی إِلَی النَّمِرِ بْنِ قَاسِطٍ فَإِنِّی امْرُؤٌ مِنْہُمْ وَلٰکِنْ اسْتُرْضِعَ لِی بِالْأَیْلَۃِ فَہٰذِہِ اللُّکْنَۃُ مِنْ ذَاکَ، وَأَمَّا الْمَالُ فَہَلْ تَرَانِی أُنْفِقُ إِلَّا فِی حَقٍّ؟ (مسند احمد: ۱۹۱۵۰)
سیدنا زید بن اسلم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا صہیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اگر آپ کے اندر تین خصلتیں نہ ہوں تو آپ میں کوئی حرج نہیں ہو گا، انہوںنے دریافت کیا کہ وہ کونسی ہیں؟ اللہ کی قسم! آپ کو کسی چیز کی عیب جوئی کرتے نہیں دیکھا۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ایک تو یہ کہ آپ نے ابو یحییٰ کنیت رکھی ہوئی ہے، جبکہ آپ کی اولاد نہیں، دوسرے یہ کہ آپ نمر بن قاسط جیسے عظیم شخص کی طرف انتساب کرتے ہیں، جبکہ آپ کی حالت یہ ہے کہ آپ کی زبان میں لکنت ہے اور تیسری بات یہ کہ آپ کے پاس جتنی بھی دولت آجائے آپ اسے خرچ کر ڈالتے ہیں، اسے جمع نہیں رکھتے۔ یہ سن کر انہوں نے جواباً کہا:جہاں تک میری کنیت کا تعلق ہے، تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرییہ کنیت رکھی ہے اور اب میں آپ سے ملاقات تک یعنی مرتے دم تک اس کنیت کو ترک نہیں کروں گا۔دوسری بات کہ میں نمر بن قاسط کی طرف انتساب کرتا ہوں تو میں چونکہ انہی لوگوں میں سے ہوں، تو ان کی طرف نسبت کیوں نہ کروں؟ البتہ حقیقتیہ ہے کہ میری رضاعت أیلہ میں ہوئی ہے، یہ لکنت اسی کا اثر ہے اور باقی رہا مال کو جمع رکھنے کی بجائے خرچ کر ڈالنا۔ تو آپ کا کیا خیال ہے کہ میں اسے ناحق خرچ کرتا ہوں؟
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11748

۔ (۱۱۷۴۸)۔ عَنْ زُہَیْرٍ،عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیلٍ، عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ صُہَیْبٍ، أَنَّ صُہَیْبًا کَانَ یُکَنّٰی أَبَا یَحْیٰی، وَیَقُولُ: إِنَّہُ مِنَ الْعَرَبِ وَیُطْعِمُ الطَّعَامَ الْکَثِیرَ، فَقَالَ لَہُ: عُمَرُ یَا صُہَیْبُ، مَا لَکَ تُکَنّٰی أَبَا یَحْیٰی؟ وَلَیْسَ لَکَ وَلَدٌ، وَتَقُولُ: إِنَّکَ مِنَ الْعَرَبِ وَتُطْعِمُ الطَّعَامَ الْکَثِیرَ وَذٰلِکَ سَرَفٌ فِی الْمَالِ، فَقَالَ صُہَیْبٌ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَنَّانِی أَبَا یَحْیٰی، وَأَمَّا قَوْلُکَ فِی النَّسَبِ فَأَنَا رَجُلٌ مِنَ النَّمِرِ بْنِ قَاسِطٍ مِنْ أَہْلِ الْمَوْصِلِ، وَلٰکِنِّی سُبِیتُ غُلَامًا صَغِیرًا قَدْ غَفَلْتُ أَہْلِی وَقَوْمِی، وَأَمَّا قَوْلُکَ فِی الطَّعَامِ فَإِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَقُولُ: ((خِیَارُکُمْ مَنْ أَطْعَمَ الطَّعَامَ وَرَدَّ السَّلَامَ۔)) فَذٰلِکَ الَّذِی یَحْمِلُنِی عَلٰی أَنْ أُطْعِمَ الطَّعَامَ۔ (مسند احمد: ۲۴۴۲۲)
حمزہ بن صہیب سے روایت ہے کہ سیدنا صہیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی کنیت ابو یحییٰ تھی، نیز وہ خود کو عربوں کی طرف منسوب کیا کرتے تھے اور وہ لوگوں کو کثرت سے کھانا کھلایا کرتے تھے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: صہیب! آپ کی تو اولاد ہی نہیں، آپ نے ابو یحییٰ کنیت کیوں اختیار کیہوئی ہے؟ اور آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ اصلاً عرب ہیں اور آپ دوسروں کو کثرت سے کھانا کھلاتے ہیں،یہ تو مال کا ضیاع ہے؟ یہ سن کر سیدنا صہیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری کنیت ابو یحییٰ رکھی ہے، باقی رہا آپ کا میرے نسب کے متعلق اظہار خیال تو میں خاندانی طور پر اہل موصل کے رئیس نمر بن قاسط کے خاندان سے ہوں، البتہ میں چھوٹا بچہ تھا کہ مجھے قیدی بنا لیا گیا اور میں اپنے اہل اور قوم کو بھول بیٹھا، باقی رہا میرے کھانے کھلانے کے بارے میں آپ کی بات تو یاد رکھیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سے بہترین آدمی وہ ہے، جو دوسروں کو کھانا کھلائے اور سلام کا جواب دے۔ یہی چیز مجھے آمادہ کرتی ہے کہ میں دوسروں کو کھانا کھلائوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11749

۔ (۱۱۷۴۹)۔ عَنْ أَبِی وَائِلٍ، عَنْ ضِرَارِ بْنِ الْأَزْوَرِ قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: امْدُدْ یَدَکَ أُبَایِعْکَ عَلَی الْإِسْلَامِ، قَالَ ضِرَارٌ: ثُمَّ قُلْتُ: تَرَکْتُ الْقِدَاحَ وَعَزْفَ الْقِیَانِ وَالْخَمْرَ تَصْلِیَۃً وَابْتِہَالَا وَ کَرِّی الْمُحَبَّرَ فِی غَمْرَۃٍ وَحَمْلِی عَلَی الْمُشْرِکِینَ الْقِتَالَا فَیَا رَبِّ لَا أُغْبَنَنْ صَفْقَتِیْ فَقَدْ بِعْتُ مَالِی وَأَہْلِی ابْتِدَالَا فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا غُبِنَتْ صَفْقَتُکَ یَا ضِرَارُ۔)) (مسند احمد: ۱۶۸۲۳)
سیدنا ضرار بن ازور ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: آپ اپنا ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر قبول اسلام کی بیعت کروں، پھر میں نے آپ کی خدمت میں یہ اشعار پڑھے: میں نے قسمت آزمائی والے تیر اور گانے والیوں کے گانے گناہوں کی معافی لینے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی کے اظہار کے لیے ترک کر دیے۔ اور اپنے محبّر نامی گھوڑے پر سوار ہو کر جاہلی قتل و غارت بھی ترک کر دی اور اب میں مشرکین کے خلاف حملے کرتا ہوں۔ اے رب میں اپنے اس سودے میں خسارانہ پائوں، میں نے اپنا مال اور سب اہل و عیال اسلام کی خاطر چھوڑ دیئے ہیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ضرار! تم نے اپنی اس تجارت میں خسارے والا کام نہیں کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11750

۔ (۱۱۷۵۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَدِمَ ضِمَادٌ الْأَزْدِیُّ مَکَّۃَ فَرَأٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَغِلْمَانٌ یَتْبَعُونَہُ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ إِنِّی أُعَالِجُ مِنَ الْجُنُونِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ نَسْتَعِینُہُ وَنَسْتَغْفِرُہُ، وَنَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا، مَنْ یَہْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہُ، وَمَنْ یُضْلِلْ فَلَا ہَادِیَ لَہُ، وَأَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ۔)) قَالَ: فَقَالَ: رُدَّ عَلَیَّ ہٰذِہِ الْکَلِمَاتِ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: لَقَدْ سَمِعْتُ الشِّعْرَ وَالْعِیَافَۃَ وَالْکَہَانَۃَ فَمَا سَمِعْتُ مِثْلَ ہٰذِہِ الْکَلِمَاتِ، لَقَدْ بَلَغْنَ قَامُوسَ الْبَحْرِ، وَإِنِّی أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہُ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ فَأَسْلَمَ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ أَسْلَمَ: ((عَلَیْکَ وَعَلٰی قَوْمِکَ۔)) قَالَ: فَقَالَ: نَعَمْ، عَلَیَّ وَعَلٰی قَوْمِی، قَالَ: فَمَرَّتْ سَرِیَّۃٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْدَ ذٰلِکَ بِقَوْمِہِ فَأَصَابَ بَعْضُہُمْ مِنْہُمْ شَیْئًا إِدَاوَۃً أَوْ غَیْرَہَا، فَقَالُوْا ہَذِہِ مِنْ قَوْمِ ضِمَادٍ رُدُّوہَا، قَالَ: فَرَدُّوہَا۔ (مسند احمد: ۲۷۴۹)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ضماد ازدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مکہ مکرمہ آئے اور انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ لڑکے آپ کو تنگ کرتے ہوئے آپ کا پیچھا کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا: اے محمد! میں پاگل پن کا علاج کرتا ہوں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جوابا یہ خطبہ پڑھا: إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّہِ نَسْتَعِینُہُ وَنَسْتَغْفِرُہُ، وَنَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا، مَنْ یَہْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہُ، وَمَنْ یُضْلِلْ فَلَا ہَادِیَ لَہُ، وَأَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہ۔ یہ الفاظ سن کر ضماد نے عرض کیا کہ (براہِ کرم) آپ یہ کلمات مجھے دوبارہ سنا دیں، اس نے دوبارہ یہ کلمات سن کر کہا:میں شعر،فال بازی، جادو اور نجامت وغیرہ سن چکا ہوں اور جانتا بھی ہوں، میں نے (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ادا کیے ہوئے) ان کلمات جیسے با مقصد اور جامع کلمات آج تک نہیں سنے، یہ تو سمندر کی تہ تک پہنچنے والے کلمات ہیں، میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میںگواہی دیتا ہوں کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ یہ کلمہ پڑھ کر وہ دائرۂ اسلام میں داخل ہو گیا۔ وہ مسلمان ہوا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ قبول اسلام اور اعتراف تمہاری اور تمہاری قوم کی طرف سے ہے۔ اس نے کہا: جی ہاں یہ میری اور میری قوم کی طرف سے ہے اس کے بعد نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ کا ایک دستہ ضماد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی قوم کے پاس سے گزرا اور انہوں نے اس قوم کا کچھ سامان برتن وغیرہ لو ٹ لیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ ضماد کی قوم ہے، ان کو ان کا سامان وا پس کر دو۔ پس صحابۂ کرام نے ان لوگوں کو ان سے لوٹا ہوا سامان واپس کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11751

۔ (۱۱۷۵۱)۔ عَنْ ضَمْرَۃَ بْنِ ثَعْلَبَۃَ: أَنَّہُ أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعَلَیْہِ حُلَّتَانِ مِنْ حُلَلِ الْیَمَنِ فَقَالَ: ((یَا ضَمْرَۃُ أَتَرٰی ثَوْبَیْکَ ہٰذَیْنِ مُدْخِلَیْکَ الْجَنَّۃَ؟)) فَقَالَ: لَئِنْ اسْتَغْفَرْتَ لِی یَا رَسُولَ اللّٰہِ، لَا أَقْعُدُ حَتّٰی أَنْزَعَہُمَا عَنِّی، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِضَمْرَۃَ بْنِ ثَعْلَبَۃَ۔)) فَانْطَلَقَ سَرِیعًا حَتّٰی نَزَعَہُمَا عَنْہُ۔ (مسند احمد: ۱۹۱۸۸)
سیدنا ضمرہ بن ثعلبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے تو یمنی لباس کے دو بیش قیمت خوبصورت کپڑے زیب تن کئے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا: ضمرہ! کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہارے یہ دو کپڑے تمہیں جنت میں لے جائیں گے؟ یہ سن کر سیدنا ضمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ میرے حق میں مغفرت کی دعا فرمائیں تو میں جب تک ان کو اتار نہ دوں میں بیٹھوںگا نہیں۔ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دعا فرمائی: یا اللہ! ضمرہ بن ثعلبہ کی مغفرت فرما۔ تو انہوںنے جلدی سے جا کر ان کپڑوں کو اتار دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11752

۔ (۱۱۷۵۲)۔ عَنْ قیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ طَارِقَ بْنَ شِہَابٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ یَقُوْلُ: رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَغَزَوْتُ فِیْ خِلَافَۃِ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ ثَلَاثًا وَّثَلَاثِیْنَ، أَوْ ثَلَاثًا وَّأَرْبَعِیْنَ مِنْ غَزْوَۃٍ اِلٰی سَرِیَۃٍ۔ (مسند احمد: ۱۹۰۳۶)
سیدنا طارق بن شہاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہے اور میںنے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ادوار میں۳۳یا۳۴ لڑائیوں میں شرکت کی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11753

۔ (۱۱۷۵۳)۔ عَنْ یَحْیَ بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہِ، عَنِ الزُّبَیْرِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ یَوْمَئِذٍ: ((أَوْجَبَ طَلْحَۃُ حِیْنَ صَنَعَ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا صَنَعَ۔)) یَعْنِی حِیْنَ بَرَکَ لَہٗ طَلْحَۃُ فَصَعِدَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی ظَہْرِہِ۔ (مسند احمد: ۱۴۱۷)
سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: طلحہ نے رسول اللہ کے ساتھ جو کچھ کیا ہے، اس وجہ سے اس نے اپنے حق میں (جنت کو) ثابت کر لیا ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سیدنا طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے بیٹھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی پشت پر چڑھ گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11754

۔ (۱۱۷۵۴)۔ عَنْ اِسْمَاعِیْلَ قَالَ: قَال قیْسٌ: رَأَیْتُ طَلْحَۃَ یَدُہُ شَلَّائُ، وَقٰی بِہَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ أُحُدٍ۔ (مسند احمد: ۱۳۸۵)
قیس کہتے ہیں: میں نے سیدنا طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا کہ ان کا ہاتھ شل ہو چکا تھا، انہوںنے اس کے ذریعے احد کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف آنے والے تیروں کو روکا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11755

۔ (۱۱۷۵۵)۔ عَنْ أَبِی الْہَیْثَمِ بْنِ نَصْرِ بْنِ دَہْرٍ الْأَسْلَمِیِّ، أَنَّ أَبَاہُ حَدَّثَہُ، أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ فِی مَسِیرِہِ إِلٰی خَیْبَرَ لِعَامِرِ بْنِ الْأَکْوَعِ، وَہُوَ عَمُّ سَلَمَۃَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَکْوَعِ وَکَانَ اسْمُ الْأَکْوَعِ سِنَانًا: ((انْزِلْ یَا ابْنَ الْأَکْوَعِ فَاحْدُ لَنَا مِنْ ہُنَیَّاتِکَ۔)) قَالَ: فَنَزَلَ یَرْتَجِزُ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: وَاللّٰہِ لَوْلَا اللّٰہُ مَا اہْتَدَیْنَا، وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا،إِنَّا إِذَا قَوْمٌ بَغَوْا عَلَیْنَا، وَإِنْ أَرَادُوا فِتْنَۃً أَبَیْنَا، فَأَنْزِلَنْ سَکِینَۃً عَلَیْنَا، وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَیْنَا۔ (مسند احمد: ۱۵۶۴۱)
سیدنا دہر اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خیبر کی طرف جا رہے تھے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عامر بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا،یہ سلمہ بن عمرو بن اکوع کے چچا تھے اور اکوع کا نام سنان تھا، بہرحال آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اکوع کے بیٹے! ادھر آکر ہمیں اپنے کلام میں سے حدی سنائو۔ چنانچہ انہوں نے نیچے اتر کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خواہش پر یہ رجز پڑھے: وَاللّٰہِ لَوْلَا اللّٰہُ مَا اہْتَدَیْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا إِنَّا إِذَا قَوْمٌ بَغَوْا عَلَیْنَا وَإِنْ أَرَادُوا فِتْنَۃً أَبَیْنَا فَـأَنْزِلَنْ سَکِینَۃً عَلَیْنَا وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَیْنَا اللہ کی قسم اگر اللہ کی رحمت اور توفیق نہ ہوتی تو ہم ہدایت نہ پا سکتے، نہ ہم صدقہ کرتے اور نہ نمازیں پڑھتے، ہم وہ لوگ ہیں کہ جب لوگ ہم پر ظلم کریںیا ہم پر زیادتی کرنے کا ارادہ کریں تو ہم ان کے ایسے رویہ کو برداشت نہیں کرتے۔ یا اللہ! تو ہم پر سکینت اوراطمینان نازل فرما اور اگر دشمن سے ہماری مڈ بھیڑ ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11756

۔ (۱۱۷۵۶)۔ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ أَخْبَرَنِی عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ الْأَنْصَارِیُّ: أَنَّ سَلَمَۃَ بْنَ الْأَکْوَعِ قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ خَیْبَرَ قَاتَلَ أَخِی قِتَالًا شَدِیدًا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَارْتَدَّ عَلَیْہِ سَیْفُہُ فَقَتَلَہُ، فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی ذٰلِکَ، وَشَکُّوا فِیہِ رَجُلٌ مَاتَ بِسِلَاحِہِ، شَکُّوْا فِی بَعْضِ أَمْرِہِ، قَالَ سَلَمَۃُ: فَقَفَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ خَیْبَرَ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَتَأْذَنُ لِیْ أَنْ أَرْجُزَ بِکَ؟، فَأَذِنَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ لَہُ عُمَرُ: اعْلَمْ مَا تَقُولُ؟، قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ لَوْلَا اللّٰہُ مَا اہْتَدَیْنَا، وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((صَدَقْتَ۔)) فَأَنْزِلَنْ سَکِینَۃً عَلَیْنَا، وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَیْنَا، وَالْمُشْرِکُونَ قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا، فَلَمَّا قَضَیْتُ رَجَزِی، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَنْ قَالَ ہٰذَا؟)) قُلْتُ: أَخِی قَالَہَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَرْحَمُہُ اللّٰہُ۔)) فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَاللّٰہِ، إِنَّ نَاسًا لَیَہَابُوْنَ أَنْ یُصَلُّوْا عَلَیْہِ وَیَقُولُونَ رَجُلٌ مَاتَ بِسِلَاحِہِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَاتَ جَاہِدًا مُجَاہِدًا۔)) قَالَ ابْنُ شِہَابٍ: ثُمَّ سَأَلْتُ ابْنَ سَلَمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ فَحَدَّثَنِی عَنْ أَبِیہِ مِثْلَ الَّذِی حَدَّثَنِی عَنْہُ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ غَیْرَ أَنَّ ابْنَ سَلَمَۃَ قَالَ: قَالَ مَعَ ذٰلِکَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَہَابُونَ الصَّلَاۃَ عَلَیْہِ کَذَبُوْا مَاتَ جَاہِدًا مُجَاہِدًا، فَلَہُ أَجْرُہُ مَرَّتَیْنِ۔)) وَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِإِصْبَعَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۶۶۱۷)
سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: خیبر کے دن میرے بھائی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں خوب زور دار جنگ لڑی، لیکن ہوا یوں کہ اس کی اپنی تلوار پلٹ کر اس کو آلگی اور وہ قتل ہو گیا،صحابۂ کرام نے اس بارے میں مختلف باتیں کیں اور اس کی شہادت کے بارے میںمختلف شبہات کا اظہار کیا، کسی نے کہا کہ اپنے اسلحہ سے مرا ہے اور بعض نے اس کے انجام کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ سیدنا سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خیبر سے واپس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اجازت ہو تو میں آپ کی خدمت میں کچھ رجز پیش کروں؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو اجازت دے دی، لیکن سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو کہا: ذرا دھیان سے بولنا۔ سیدنا سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے پڑھا: وَاللّٰہِ لَوْلَا اللّٰہُ مَا اہْتَدَیْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا اللہ کی قسم اگر اللہ کی رحمت اور توفیق نہ ہوتی تو ہم ہدایت نہ پا سکتے، نہ ہم صدقہ کرتے اور نہ نمازیں پڑھتے۔ یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے بالکل درست کہا ہے۔ فَـأَنْزِلَنْ سَکِینَۃً عَلَیْنَا وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَیْنَا وَالْمُشْرِکُونَ قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا یا اللہ! تو ہم پر سکینت اوراطمینان نازل فرما اور اگر دشمن سے ہماری مڈ بھیڑ ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ اور مشرکوں نے ہم پر ظلم کیا ہے۔ جب میں نے اپنارجز پورا کر لیاتو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کلام کس کا ہے؟ میں نے عرض کیا: یہ میرے بھائی کا کلام ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس پر اللہ کی رحمت ہو۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! بعض لوگ اس کے حق میں رحمت کی دعا کرتے ہوئے گھبراتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ وہ تو اپنے ہی اسلحہ سے مرا ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ تو جہاد کرتے ہوئے فوت ہوا ہے۔ ابن شہاب سے مروی ہے کہ سلمہ بن اکوع کے بیٹے سے بھی اس حدیث کی بابت کا دریافت کیا تو اس نے بھی اپنے والد کی روایت سے اسی طرح بیان کیا جیسے عبدالرحمن نے بیان کیا تھا۔ البتہ سلمہ بن اکوع کے بیٹے نے یوں کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے ساتھ ساتھ یوں فرمایا تھا کہ وہ اس کے حق میں دعائے رحمت کرنے سے گھبراتے ہیں تو یہ جھوٹے ہیں،وہ تو جہاد کرتے ہوئے مرا ہے۔ اور آپ نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسے دوگنا اجر ملے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11757

۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11758

۔ (۱۱۷۵۸)۔ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِی عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِی عُبَادَۃُ بْنُ الْوَلِیدِ بْنِ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِیہِ الْوَلِیدِ، عَنْ جَدِّہِ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ، وَکَانَ أَحَدَ النُّقَبَائِ قَالَ: بَایَعْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْعَۃَ الْحَرْبِ، وَکَانَ عُبَادَۃُ مِنَ الَاثْنَیْ عَشَرَ الَّذِینَ بَایَعُوْا فِی الْعَقَبَۃِ الْأُولٰی عَلٰی بَیْعَۃِ النِّسَائِ فِی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ، فِی عُسْرِنَا وَیُسْرِنَا، وَمَنْشَطِنَا وَمَکْرَہِنَا، وَلَا نُنَازِعُ فِی الْأَمْرِ أَہْلَہُ، وَأَنْ نَقُولَ بِالْحَقِّ حَیْثُمَا کُنَّا لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ۔ (مسند احمد: ۲۳۰۷۶)
سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، یہ صحابی ان افراد میں سے تھے جن کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیعت عقبہ اولیٰ میں مدینہ منورہ میں لوگوں پر نقیب (اور نگران) مقرر فرمایا تھا، ان سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے بیعت عقبہ اولیٰ کے موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر لڑائی کی بیعت کی تھی کہ ہمیں اگر اسلام اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دفاع کے لیے کسی سے جنگ بھی کرنا پڑی تو ہم اس سے دریغ نہیں کریںگے اور سیدنا عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان بارہ نقباء میں سے تھے، جنہوںنے بیعت عقبہ اولیٰ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر موافق اور ناموافق حالات میں پسندیدہ و ناپسندیدہ احوال میںیعنیہر حال میں آپ کا حکم سننے اور ماننے کی بیعت کی اور اس امر کا اقرار کیا کہ ہم حکومت و اقتدار کے بارے میںاہل اقتدار سے مقابلہ نہیں کریں گے اور ہم جہاں بھی ہوں گے ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا کئے بغیر حق کہیں گے۔ نیز ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر عورتوں والے امور کی طرح بیعت کی تھی۔ (ان امور کا ذکر سورۂ ممتحنہ میں ہے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11759

۔ (۱۱۷۵۹)۔ قَالَ: قَرَأْتُ عَلٰی یَعْقُوبَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: عُبَادَۃُ بْنُ الصَّامِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ أَصْرَمَ بْنِ فِہْرِ بْنِ ثَعْلَبَۃَ فِی الِاثْنَیْ عَشَرَ الَّذِینَ بَایَعُوا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْعَقَبَۃِ الْأُولٰی۔ (مسند احمد: ۲۳۱۵۶)
سیدنا عبادہ بن صامت بن قیس بن اصرم بن فہر بن ثعلبہ بن غنم بن عوف بن خزرج ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان بارہ افراد میں سے ہیں، جنہوںنے بیعت عقبہ اولیٰ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11760

۔ (۱۱۷۶۰)۔ قَالَ: سَمِعْتُ سُفْیَانَ بْنَ عُیَیْنَۃَ یُسَمِّی النُّقَبَائَ، فَسَمَّی عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ مِنْہُمْ، قَالَ سُفْیَانُ: عُبَادَۃُ عَقَبِیٌّ، أُحُدِیٌّ، بَدْرِیٌّ، شَجَرِیٌّ، وَہُوَ نَقِیبٌ۔ (مسند احمد: ۲۳۱۵۴)
امام سفیان بن عیینہ نقباء کا نام لیتے تھے، اس ضمن میں انھوں نے سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا نام بھی ان میں ذکر کیا اور انھوں نے کہا: عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ عقبی، احدی، بدری، شجری اور نقیب ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11761

۔ (۱۱۷۶۱)۔ وَعَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الْوَلِیْدِ بْنِ عُبَادَۃَ، حَدَّثَنِی أَبِیْ قَالَ: دَخَلْتُ عَلٰی عُبَادَۃَ وَہُوَ مَرِیضٌ أَتَخَایَلُ فِیہِ الْمَوْتَ، فَقُلْتُ: یَا أَبَتَاہُ أَوْصِنِی وَاجْتَہِدْ لِی؟ فَقَالَ: أَجْلِسُونِی، قَالَ: یَا بُنَیَّ إِنَّکَ لَنْ تَطْعَمَ طَعْمَ الْإِیمَانِ، وَلَنْ تَبْلُغَ حَقَّ حَقِیقَۃِ الْعِلْمِ بِاللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی حَتّٰی تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ، قَالَ: قُلْتُ: یَا أَبَتَاہُ فَکَیْفَ لِی أَنْ أَعْلَمَ مَا خَیْرُ الْقَدَرِ وَشَرُّہُ؟ قَالَ: تَعْلَمُ أَنَّ مَا أَخْطَأَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیبَکَ، وَمَا أَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ، یَا بُنَیَّ! إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی الْقَلَمُ، ثُمَّ قَالَ: اکْتُبْ، فَجَرٰی فِی تِلْکَ السَّاعَۃِ بِمَا ہُوَ کَائِنٌ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔)) یَا بُنَیَّ! إِنْ مِتَّ وَلَسْتَ عَلٰی ذَلِکَ دَخَلْتَ النَّارَ، وَفِیْ رِوَایَۃٍ مَا اَکْتُبُ قَالَ: فَاکْتُبْ مَا یَکُوْنُ وَمَا ہُوَ کَائِنٌ اِلٰی اَنْ تَقُوْمَ السَّاعَۃُ۔ (مسند احمد: ۲۳۰۸۱)
ولید بن عبادہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں گیا، جبکہ وہ مریض تھے اور موت کی کش مکش میںمبتلا تھے، میں نے ان سے گزارش کی کہ اے ابا جان! مجھے کوئی اچھی سی وصیت ہی کر دیں۔ انھوں نے کہا: مجھے بٹھائو۔ پھر کہا: بیٹا! تم اس وقت تک ایمان کا ذائقہ نہیں چکھ سکتے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان کی اصل حقیقت تک پہنچ سکتے ہو، جب تک کہ تم ہر اچھی اور بری تقدیر پر ایمان نہیں لاؤ گے۔ میں نے عرض: ابا جان!اچھی اور بری تقدیر کا علم مجھے کیسے ہوگا؟ انھوں نے کہا: تم اس بات کا یقین رکھو کہ جو چیز تمہیں نہیں ملی، وہ تمہیں کسی بھی صورت مل نہیں سکتی تھی اور تمہیں جو کچھ مل گیا ہے وہ تم سے چھوٹ نہیں سکتا تھا، بیٹے! میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا، اس کے بعد اس سے فرمایا کہ لکھ، چنانچہ وہ قلم اسی وقت لکھنے لگا اور اس نے قیامت تک ہونے والے ہر امر کو لکھ دیا۔ بیٹے! اگر تمہیں اس حال میں موت آئی کہ تمہارا یہ ایمان نہ ہوا تو تم جہنم میں جائو گے۔ دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیں: قلم نے عرض کیا: میں کیا لکھو؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قیامت کے بپا ہونے تک جو کچھ بھی ہونے والا ہے ہر امر کو لکھ دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11762

۔ (۱۱۷۶۲)۔ عَنِ الصُّنَابِحِیِّ أَنَّہُ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ وَہُوَ فِی الْمَوْتِ فَبَکَیْتُ، فَقَالَ: مَہْلًا لِمَ تَبْکِی؟ فَوَاللّٰہِ لَئِنِ اسْتُشْہِدْتُ لَأَشْہَدَنَّ لَکَ، وَلَئِنْ شُفِّعْتُ لَأَشْفَعَنَّ لَکَ، وَلَئِنْ اسْتَطَعْتُ لَأَنْفَعَنَّکَ، ثُمَّ قَالَ: وَاللّٰہِ مَا حَدِیثٌ سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَکُمْ فِیہِ خَیْرٌ إِلَّا حَدَّثْتُکُمُوہُ إِلَّا حَدِیثًا وَاحِدًا، سَوْفَ أُحَدِّثُکُمُوہُ الْیَوْمَ وَقَدْ أُحِیطَ بِنَفْسِی، سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنْ شَہِدَ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰہِ حُرِّمَ عَلَی النَّارِ۔)) حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ مِثْلَہُ قَالَ: حَرَّمَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَلَیْہِ النَّارَ۔ (مسند احمد: ۲۳۰۸۷)
صنا بحی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گیا، جبکہ وہ مرض الموت میںمبتلا تھے، ان کی حالت دیکھ کر میںرونے لگا، انہوںنے کہا: رک جاؤ، تم کیوں روتے ہو؟ اللہ کی قسم! اگر مجھ سے تمہارے بارے میں گواہی لی گئی تو میں تمہارے مومن ہونے کی گواہی دوں گا، اگر مجھے شفاعت کی اجازت دی گئی تو میں تمہارے حق میںشفاعت کروں گا اور اگر مجھ سے ہو سکا تو تمہیں نفع پہنچائوں گا۔ ‘ پھر کہا: اللہ کی قسم میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جو بھی کوئی ایسی حدیث سنی ہے جس میں تمہارے لیے بہتری ہے تو میں وہ حدیث تمہیں سنا چکا ہوں، البتہ ایک حدیث ہے، جو میں تمہیں نہیں سنا سکا، وہ تمہیں آج ابھی سناتا ہوں اور اب صورت حال یہ ہے کہ میری روح قبض کی جانے والی ہے۔ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمییہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے رسول ہیں، اس پر جہنم حرام کر دی جائے گییایوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کو حرا م کر دے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11763

۔ (۱۱۷۶۳)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ جَعْفَرٍ وَالْخُزَاعِیُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: حَدَّثَتْنَا أُمُّ بَکْرٍ بِنْتُ الْمِسْوَرِ، قَالَ الْخُزَاعِیُّ: عَنْ أُمِّ بَکْرٍ بِنْتِ الْمِسْوَرِ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ عَوْفٍ بَاعَ أَرْضًا لَہُ مِنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ بِأَرْبَعِینَ أَلْفَ دِینَارٍ، فَقَسَمَہُ فِی فُقَرَائِ بَنِی زُہْرَۃَ وَفِی الْمُہَاجِرِینَ وَأُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِینَ، قَالَ الْمِسْوَرُ: فَأَتَیْتُ عَائِشَۃَ بِنَصِیبِہَا، فَقَالَتْ: مَنْ أَرْسَلَ بِہٰذَا؟ فَقُلْتُ: عَبْدُ الرَّحْمٰنِ، قَالَتْ: أَمَا إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ:، وَقَالَ الْخُزَاعِیُّ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا یَحْنُوْ عَلَیْکُنَّ بَعْدِی إِلَّا الصَّابِرُونَ۔)) سَقَی اللّٰہُ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ عَوْفٍ مِنْ سَلْسَبِیلِ الْجَنَّۃِ۔ (مسند احمد: ۲۵۲۳۱)
ام بکر بنت مسور سے مروی ہے کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنی ایک زمین سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو چالیس ہزار دینار میں فروخت کی۔اور انہوں نے یہ ساری رقم بنو زہرہ کے فقراء ، مہاجرین صحابہ اور امہات المومنین میں تقسیم کر دی۔ مسور کہتے ہیں: میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا حصہ لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوںنے دریافت کیا کہ یہ رقم کس نے بھیجی ہے؟ میں نے عرض کیا: سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے۔ سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنی بیویوں کے حق میں فرماتے سنا ہے کہ میرے بعد صبر کی صفت سے متصف لوگ ہی تم پر شفقت و مہربانی کریں۔ اللہ تعالیٰ عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو جنت کی سلسبیل سے سیراب فرمائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11764

۔ (۱۱۷۶۴)۔ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ لِأَزْوَاجِہِ: ((إِنَّ الَّذِی یَحْنُوْ عَلَیْکُنَّ بَعْدِی لَہُوَ الصَّادِقُ الْبَارُّ۔)) اللَّہُمَّ اسْقِ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ عَوْفٍ مِنْ سَلْسَبِیلِ الْجَنَّۃِ۔ (مسند احمد: ۲۷۰۹۴)
سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے سنا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی ازواج سے مخاطب ہو کر فرمایا: میرے بعد جو کوئی تمہارے اوپر شفقت کرے گا وہ انتہائی سچا اور صالح ہوگا۔ یا اللہ! تو عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو جنت کے سلسبیل نامی چشمے سے سیراب کرنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11765

۔ (۱۱۷۶۵)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: بَیْنَمَا عَائِشَۃُ فِی بَیْتِہَا إِذْ سَمِعَتْ صَوْتًا فِی الْمَدِینَۃِ، فَقَالَتْ: مَا ہٰذَا؟ قَالُوْا: عِیرٌ لِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ قَدِمَتْ مِنَ الشَّامِ تَحْمِلُ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ، قَالَ: فَکَانَتْ سَبْعَ مِائَۃِ بَعِیرٍ، قَالَ: فَارْتَجَّتْ الْمَدِینَۃُ مِنَ الصَّوْتِ، فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((قَدْ رَأَیْتُ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ عَوْفٍ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ حَبْوًا۔)) فَبَلَغَ ذٰلِکَ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ عَوْفٍ فَقَالَ: إِنِ اسْتَطَعْتُ لَأَدْخُلَنَّہَا قَائِمًا، فَجَعَلَہَا بِأَقْتَابِہَا وَأَحْمَالِہَا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ۔ (مسند احمد: ۲۵۳۵۳)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اپنے گھر تشریف فرما تھیں کہ انہوںنے مدینہ منورہ میں زور زور کی آوازیں سنیں،انھوں نے پوچھا: یہ کیسی آواز ہے؟ بتانے والوں نے بتلایا کہ شام سے عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ایک تجارتی قافلہ آیا ہے، جو ہر قسم کا سامان اٹھائے ہوئے ہے۔ و ہ سات سو اونٹ تھے، قافلے کی آوازوں سے مدینہ گونج اٹھا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: میں نے عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا کہ وہ سرین کے بل گھسٹے ہوئے جنت میں گئے۔ جب یہ بات سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تک پہنچی تو انھوں نے کہا: اگر کوشش کروں تو سیدھا کھڑا ہو کر بھی جنت میں جا سکتا ہوں، چنانچہ انہوںنے وہ سارا قافلہ اس کے پالانوں اور اٹھائے ہوئے سامان سمیت اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11766

۔ (۱۱۷۶۶)۔ حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ، عَنْ عُرْوَۃَ: أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ عَوْفٍ قَالَ: أَقْطَعَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَرْضَ کَذَا وَکَذَا، فَذَہَبَ الزُّبَیْرُ إِلٰی آلِ عُمَرَ فَاشْتَرٰی نَصِیبَہُ مِنْہُمْ فَأَتٰی عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، فَقَالَ: إِنَّ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ عَوْفٍ زَعَمَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَقْطَعَہُ وَعُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَرْضَ کَذَا وَکَذَا؟ وَإِنِّی اشْتَرَیْتُ نَصِیبَ آلِ عُمَرَ، فَقَالَ عُثْمَانُ: عَبْدُ الرَّحْمٰنِ جَائِزُ الشَّہَادَۃِ لَہُ وَعَلَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۶۷۰)
سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے اور سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو فلاں فلاں اراضی الاٹ کر دیں، سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آل عمرکے ہاں جا کر ان سے ان کا حصہ خرید لیا اور سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں جا کر کہا: سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا خیال ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں اور سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو فلاں فلاں اراضی الاٹ کی تھیں، اب میں نے آل عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا حصہ تو خرید لیا۔ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: عبدالرحمن بن عوف کی گواہی ہر حال میں مقبول ہے،وہ ان کے حق میں ہو یا ان کی مخالفت میں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11767

۔ (۱۱۷۶۷)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اَبِیْ أَوْفٰی، وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَۃِ قَالَ: کَانَ النَّبِیّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِذَا أَتَاہٗ قَوْمٌ بِصَدَقَۃٍ قَالَ: ((اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَیْہِمْ۔)) فَأَتَاہُ أَبِیْ بِصَدَقَۃٍ فَقَالَ: ((اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی آلِ اَبِیْ أَوْفٰی۔)) (مسند احمد: ۱۹۳۴۶)
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ اصحاب ِ شجرہ میں سے ہیں، سے مروی ہے کہ جب لوگ صدقہ کا مال لا کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پیش کرتے تو آپ ان کے حق میںیوں دعا فرماتے: اے اللہ! ان پر رحمت فرما۔ جب میرے والد صدقہ کا مال لے کر حاضر آئے توآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں دعا دی: اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی آلِ اَبِیْ أَوْفٰی (اے اللہ! ابو اوفیٰ کی آل پر رحمتیں نازل فرما)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11768

۔ (۱۱۷۶۸)۔ (وَعَنْہٗ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أَبِیْ أَوْفٰی قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِذَا أَتَاہُ قَوْمٌ بِصَدَقَتِہِمْ صَلِّ عَلَیْہِمْ فَأَتَاہُ أَبِیْ بِصَدَقَتِہِ فَقَالَ: ((اَللّٰھُمَّ صَلِّ آلَ أَبِیْ أَوْفٰی۔)) (مسند احمد: ۱۹۶۲۵)
۔ (دوسری سند) سیدنا عبداللہ بن اوفیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب لوگ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں صدقہ پیش کرتے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے حق میں رحمت کی دعا فرماتے، جب میرے والد صدقہ کا مال لے کر حاضرخدمت ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں دعا فرمائی: اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی آلِ اَبِیْ أَوْفٰی (اے اللہ! ابو اوفیٰ کی آل پر رحمتیں نازل فرما)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11769

۔ (۱۱۷۶۹)۔ (وَعَنْہٗ مِنْ طَرِیْقٍ ثَالِثٍ) قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ قَالَ: وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَۃِ، قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِذَا أَتَاہُ رَجُلٌ بِصَدَقَتِہِ قَالَ: ((اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی آلِ فُلَانٍ۔)) قَالَ: فَأَتَاہُ أَبِی بِصَدَقَتِہِ فَقَالَ: ((اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی آلِ أَبِیْ أَوْفٰی۔)) (مسند احمد: ۱۹۶۳۶)
۔ (تیسری سند) سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ،جو کہ اصحاب شجرہ میں سے تھے، سے مروی ہے کہ جب کوئی آدمی صدقہ کا مال لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ اسے یوں دعا دیتے: یا اللہ! فلاں کی آل پر رحمت فرما۔ جب میرے والد صدقہ لے کر حاضر خدمت ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں دعا دی : اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی آلِ اَبِیْ أَوْفٰی (اے اللہ! ابو اوفیٰ کی آل پر رحمتیں نازل فرما)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11770

۔ (۱۱۷۷۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُنَیْسٍ، عَنِ أَبِیہِ، قَالَ: دَعَانِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((إِنَّہُ قَدْ بَلَغَنِی أَنَّ خَالِدَ بْنَ سُفْیَانَ بْنِ نُبَیْحٍ یَجْمَعُ لِی النَّاسَ لِیَغْزُوَنِی، وَہُوَ بِعُرَنَۃَ فَأْتِہِ فَاقْتُلْہُ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ انْعَتْہُ لِی حَتّٰی أَعْرِفَہُ، قَالَ: ((إِذَا رَأَیْتَہُ وَجَدْتَ لَہُ أُقْشَعْرِیَرَۃً۔)) قَالَ: فَخَرَجْتُ مُتَوَشِّحًا بِسَیْفِی حَتّٰی وَقَعْتُ عَلَیْہِ، وَہُوَ بِعُرَنَۃَ مَعَ ظُعُنٍ یَرْتَادُ لَہُنَّ مَنْزِلًا وَحِینَ کَانَ وَقْتُ الْعَصْرِ، فَلَمَّا رَأَیْتُہُ وَجَدْتُ مَا وَصَفَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ الْأُقْشَعْرِیرَۃِ، فَأَقْبَلْتُ نَحْوَہُ وَخَشِیتُ أَنْ یَکُونَ بَیْنِی وَبَیْنَہُ مُحَاوَلَۃٌ تَشْغَلُنِی عَنِ الصَّلَاۃِ، فَصَلَّیْتُ وَأَنَا أَمْشِی نَحْوَہُ أُومِیُٔ بِرَأْسِی الرُّکُوعَ وَالسُّجُودَ، فَلَمَّا انْتَہَیْتُ إِلَیْہِ قَالَ: مَنِ الرَّجُلُ؟ قُلْتُ: رَجُلٌ مِنْ الْعَرَبِ، سَمِعَ بِکَ وَبِجَمْعِکَ لِہٰذَا الرَّجُلِ فَجَائَ کَ لِہٰذَا، قَالَ: أَجَلْ أَنَا فِی ذٰلِکَ، قَالَ: فَمَشَیْتُ مَعَہُ شَیْئًا حَتّٰی إِذَا أَمْکَنَنِی حَمَلْتُ عَلَیْہِ السَّیْفَ حَتَّی قَتَلْتُہُ، ثُمَّ خَرَجْتُ وَتَرَکْتُ ظَعَائِنَہُ مُکِبَّاتٍ عَلَیْہِ، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَآنِی فَقَالَ: ((أَفْلَحَ الْوَجْہُ؟)) قَالَ: قُلْتُ: قَتَلْتُہُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، قَالَ: ((صَدَقْتَ۔)) قَالَ: ثُمَّ قَامَ مَعِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَخَلَ فِی بَیْتِہِ فَأَعْطَانِیْ عَصًا، فَقَالَ: ((أَمْسِکْ ہٰذِہِ عِنْدَکَ یَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أُنَیْسٍ۔)) قَالَ: فَخَرَجْتُ بِہَا عَلَی النَّاسِ، فَقَالُوْا: مَا ہٰذِہِ الْعَصَا؟ قَالَ: قُلْتُ: أَعْطَانِیہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَمَرَنِی أَنْ أُمْسِکَہَا، قَالُوْا: أَوَلَا تَرْجِعُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَتَسْأَلَہُ عَنْ ذٰلِکَ؟ قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! لِمَ أَعْطَیْتَنِی ہٰذِہِ الْعَصَا؟ قَالَ: ((آیَۃٌ بَیْنِی وَبَیْنَکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، إِنَّ أَقَلَّ النَّاسِ الْمُتَخَصِّرُونَ یَوْمَئِذٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) فَقَرَنَہَا عَبْدُ اللّٰہِ بِسَیْفِہِ فَلَمْ تَزَلْ مَعَہُ حَتَّی إِذَا مَاتَ أَمَرَ بِہَا فَصُبَّتْ مَعَہُ فِی کَفَنِہِ ثُمَّ دُفِنَا جَمِیعًاً۔ (مسند احمد: ۱۶۱۴۳)
سیدنا عبداللہ بن انیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بلوا کر فرمایا: مجھے اطلاع ملی ہے کہ خالد بن سفیان بن نبیح مجھ پر حملہ کرنے کے لیے لوگوں کو جمع کر رہا ہے، وہ اس وقت عرنہ وادی میں ہے، تم جا کر اسے قتل کر دو۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھ سے اس کا حلیہ بیان فرمائیں تا کہ میں اسے پہچان سکوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم اسے دیکھو گے تو تم پر کپکپی طاری ہو جائے گی۔ پس میں نے اپنی تلوار لٹکائی اور چل پڑا، جب میں عرنہ میں اس کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ اس کے ساتھ عورتیں بھی تھیں اور وہ ان کے لیے جگہ تیار کر رہا تھا، یہ عصر کا وقت تھا۔ جب میں نے اسے دیکھا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بیان کے مطابق مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی، میں اس کی طرف بڑھا، مجھے اندیشہ ہوا کہ ممکن ہے کہ اس کے اور میرے درمیان لڑائی شروع ہو جائے اور میں نماز نہ پڑھ سکوں، اس لیے میں نے اس کی طرف چلتے چلتے نماز پڑھی لی اور اشارے سے رکوع و سجود کر لیے، جب میں اس کے پاس پہنچا تو اس نے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں ایک عرب ہوں، سنا ہے کہ تم اس یعنی محمد( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے مقابلے کے لیے لشکر جمع کر رہے ہو، میں بھی اسی مقصد کے لیے آیا ہوں۔ اس نے کہا: ہا ںہاں اسی مشن پر ہوں۔ میں کچھ دور تک اس کے ساتھ ساتھ چلا، جب مجھے موقعہ ملا تو میں نے اس پر تلوار سے وار کر کے اسے قتل کر دیا اور وہاں سے نکل آیا، میں نے اس کی عورتوں کو اس حال میں وہاں چھوڑا کہ وہ اس پر جھکی ہوئی تھیں۔ جب میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس واپس آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا: چہرہ کامیاب ہو گیا ہے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اسے قتل کر دیا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بالکل تم ٹھیک کہتے ہو۔ اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ساتھ اٹھ کر چلے اور اپنے گھر تشریف لے گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ایک لاٹھی عنایت کی اور فرمایا: عبدالرحمن بن انیس! اسے اپنے پاس محفوظ رکھنا۔ میں وہ لاٹھی لے کر باہر لوگوں میں آیا۔ انہوںنے پوچھا: یہ کیسی لاٹھی ہے؟ میں نے بتلایا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یہ لاٹھی عنایت کی ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں اسے محفوظ رکھوں۔ انہوںنے کہا: کیا تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس واپس جا کر آپ سے اس کے بارے میں مزید وضاحت نہیں کرا لیتے؟ پس میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں دوبارہ گیا اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! آپ نے یہ لاٹھی مجھے کس مقصد کے لیے دی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن یہ لاٹھی میرے اور تمہارے درمیان نشانی ہوگی، قیامت کے دن بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جن کے پاس ٹیک لگانے کے لیے عصا وغیر ہ ہوگا۔ پس سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس عصا کو اپنی تلوار کے ساتھ باندھ لیا اور وہ ہمیشہ ان کے پاس رہا، یہاں تک کہ جب ان کا انتقال ہوا تو اس عصا کو بھی ان کے کفن کے ساتھ رکھ کر دونوں کو دفن کر دیا گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11771

۔ (۱۱۷۷۱)۔ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللّٰہِ الْحَسَنُ بْنُ أَیُّوبَ الْحَضْرَمِیُّ قَالَ: أَرَانِی عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بُسْرٍ شَامَۃً فِی قَرْنِہِ فَوَضَعْتُ أُصْبُعِی عَلَیْہَا فَقَالَ: وَضَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُصْبُعَہُ عَلَیْہَا، ثُمَّ قَالَ: ((لَتَبْلُغَنَّ قَرْنًا۔)) قَالَ أَبُو عَبْدِ اللّٰہِ: وَکَانَ ذَا جُمَّۃٍ۔ (مسند احمد: ۱۷۸۴۱)
ابو عبداللہ حسن بن ایوب حضرمی سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن بسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے سر کی ایک جانب میں مجھے ایک تل کا نشان دکھایا، میں نے اپنی انگلی اس کے اوپر رکھی تو انہوںنے بتلایا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی انگلی مبارک اس پر رکھ کر فرمایا تھا کہ تم ایک سو سال کیعمر کو پہنچو گے۔ سیدنا عبداللہ بسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بال کاندھوں تک آتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11772

۔ (۱۱۷۷۲)۔ حَسَنُ بْنُ أَیُّوبَ الْحَضْرَمِیُّ قَالَ: حَدَّثَنِی عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بُسْرٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: کَانَتْ أُخْتِی تَبْعَثُنِی إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْہَدِیَّۃِ فَیَقْبَلُہَا، (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: کَانَتْ أُخْتِیْ رُبَمَا بَعَثَتْنِیْ بِالشَّیْئِ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَطْرُفُہٗ إِیَّاہُ فَیَقْبَلُہٗ مِنِّیْ)۔ (مسند احمد: ۱۷۸۳۹)
حسن بن ایوب حضرمی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: صحابیٔ رسول سیدنا عبداللہ بن بسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بیان کیا کہ ان کی ہمشیرہ ان کو ایک ہدیہ دے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بھیجا کرتی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس ہدیہ کو قبول فرما لیا کرتے تھے۔ دوسری روایت میںیوں ہے:بسا اوقات میری ہمشیرہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے کوئی تحفہ دے کر مجھے بھیجا کرتی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھ سے وہ تحفہ قبول فرما لیا کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11773

۔ (۱۱۷۷۳)۔ وَعَنْ یَحْیَ بْنِ حَسَّانَ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ بُسْرٍ الْمَازِنِیَّ یَقُوْلُ: تَرَوْنَ یَدِیْ ھٰذِہِ فَأَنَا بَایَعْتُ بِہَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لا تَصُوْمُوْا یَوْمَ السِّبْتِ إِلَّا فِیْمَا افْتَرَضَ عَلَیْکُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۷۸۳۸)
یحییٰ بن حسان سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن بسر مازنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یوں کہتے سنا کہ تم میرایہ ہاتھ دیکھ رہے ہو، میں نے اس ہاتھ کے ساتھ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ارشاد ہے کہ تم فرض روزہ کے علاوہ ہفتہ کے دن کا روزہ نہ رکھا کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11774

۔ (۱۱۷۷۴)۔ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بُسْرٍ الْمَازِنِیُّ قَالَ بَعَثَنِی أَبِی إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَدْعُوہُ إِلَی الطَّعَامِ فَجَائَ مَعِی فَلَمَّا دَنَوْتُ مِنَ الْمَنْزِلِ أَسْرَعْتُ فَأَعْلَمْتُ أَبَوَیَّ فَخَرَجَا فَتَلَقَّیَا رَسُولَ اللّٰہِ! ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرَحَّبَا بِہِ وَوَضَعْنَا لَہُ قَطِیفَۃً کَانَتْ عِنْدَنَا زِئْبِرِیَّۃً فَقَعَدَ عَلَیْہَا ثُمَّ قَالَ أَبِی لِأُمِّی: ہَاتِ طَعَامَکِ، فَجَائَتْ بِقَصْعَۃٍ فِیہَا دَقِیقٌ قَدْ عَصَدَتْہُ بِمَائٍ وَمِلْحٍ فَوَضَعْتُہُ بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((خُذُوا بِسْمِ اللّٰہِ مِنْ حَوَالَیْہَا وَذَرُوا ذُرْوَتَہَا فَإِنَّ الْبَرَکَۃَ فِیہَا۔)) فَأَکَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَکَلْنَا مَعَہُ وَفَضَلَ مِنْہَا فَضْلَۃٌ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَہُمْ، وَارْحَمْہُمْ، وَبَارِکْ عَلَیْہِمْ، وَوَسِّعْ عَلَیْہِمْ فِیْ اَرْزَاقِہِمْ۔)) (مسند احمد: ۱۷۸۳۰)
سیدنا عبد اللہ بن بسر مازنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے میرے ماں باپ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بھیجا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کھانے کی دعوت دوں، میں گیا تو آپ میرے ساتھ تشریف لے آئے، جب میں گھر کے قریب ہوا تو میں نے جلدی سے اپنے والدین کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے آنے کی اطلاع دی، وہ دونوں باہر آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا استقبال کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو خوش آمدید کہا، ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے ایک چادر بچھا دی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس پر بیٹھ گئے، پھر میرے باپ نے میری ماں سے کہا: کھانا لائو، وہ ایک پیالہ لائیں، اس میں آٹا تھا، جسے انہوں نے پانی اور نمک میں گوند رکھا تھا، میری والدہ نے وہ آپ کے سامنے رکھ دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بسم اللہ پڑھ کر کھائو اور اس کے ارگرد سے کھاؤ، اوپر کی جانب سے نہیں کھانا، کیونکہ اوپر سے برکت نازل ہوتی ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھایا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ہم نے بھی کھایا، اس سے کچھ کھانا بچ گیا، کھانے کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ دعا کی: اللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَہُمْ، وَارْحَمْہُمْ، وَبَارِکْ عَلَیْہِمْ، وَوَسِّعْ عَلَیْہِمْ فِیْ اَرْزَاقِہِمْ۔ (اے اللہ! انہیں معاف کردے، ان پررحم فرما، ان کے لیے برکت کر اور ان کے رزق میں وسعت پیدا کر)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11775

۔ (۱۱۷۷۵)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: جَائَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی أَبِی فَنَزَلَ عَلَیْہِ أَوْ قَالَ لَہُ أَبِی: انْزِلْ عَلَیَّ قَالَ فَأَتَاہُ بِطَعَامٍ وَحَیْسَۃٍ وَسَوِیقٍ فَأَکَلَہُ وَکَانَ یَأْکُلُ التَّمْرَ وَیُلْقِی النَّوٰی وَصَفَ بِأُصْبُعَیْہِ السَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطٰی بِظَہْرِہِمَا مِنْ فِیہِ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَکَانَ یَاْکُلُ التَّمْرَ وَ یَضَعُ النِّوٰی عَلٰی ظَہْرِ اِصْبَعَیْہِ ثُمَّ یَرْمِیْ بِہٖ) ثُمَّ أَتَاہُ بِشَرَابٍ فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَہُ مَنْ عَنْ یَمِینِہِ فَقَامَ فَأَخَذَ بِلِجَامِ دَابَّتِہِ (وَفِیْ لَفْظٍ: فَرَکِبَ بَغْلَۃً لَہُ بَیْضَائ) فَقَالَ: ادْعُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لِی فَقَالَ: ((اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَہُمْ فِیمَا رَزَقْتَہُمْ وَاغْفِرْ لَہُمْ وَارْحَمْہُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۷۸۳۵)
۔ (دوسری سند)سیدنا عبد اللہ بن بسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میرے باپ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور آپ ہمارے گھر تشریف لائے یا میرے باپ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آنے کا مطالبہ کیا تھا، یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بطور مہمان اترے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے میرے باپ نے کھانا پیش کیا اور ساتھ کھجوروں سے بنا ہوا کھانا یا ستو بھی تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھایا اور آپ کھجوریں کھاتے تھے اور گٹھلیاں پھینک دیتے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انگشت ِ شہادت اور درمیان والی انگلی کو ملاتے تھے اور کھجور کھا کر ان انگلیوں کی پشت پر گٹھلی رکھ کر پھینک دیتے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پانی لایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پیا، پھر جو دائیں جانب تھا، اسے پکڑا دیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہوئے اور سفید خچر پر سوار ہو کر اپنی سواری کی لگام تھام لی، میرے باپ نے کہا: میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرما دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ دعا کی: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَہُمْ فِیمَا رَزَقْتَہُمْ وَاغْفِرْ لَہُمْ وَارْحَمْہُمْ۔ (اے اللہ! جو تونے انہیںدیا ہے، اس میں برکت فرما اور انہیں بخش دے اور ان پررحم فرما۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11776

۔ (۱۱۷۷۶)۔ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ، أَخْبَرَنَا أَیُّوبُ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلَالٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ عَبْدِ الْقَیْسِ کَانَ مَعَ الْخَوَارِجِ، ثُمَّ فَارَقَہُمْ قَالَ: دَخَلُوْا قَرْیَۃً فَخَرَجَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ خَبَّابٍ ذَعِرًا یَجُرُّ رِدَائَہُ، فَقَالُوْا: لَمْ تُرَعْ، قَالَ: وَاللّٰہِ! لَقَدْ رُعْتُمُونِی، قَالُوْا: أَنْتَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ خَبَّابٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَہَلْ سَمِعْتَ مِنْ أَبِیکَ حَدِیثًا یُحَدِّثُہُ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تُحَدِّثُنَاہُ؟ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُہُ یُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ ذَکَرَ فِتْنَۃً الْقَاعِدُ فِیہَا خَیْرٌ مِنَ الْقَائِمِ وَالْقَائِمُ فِیہَا خَیْرٌ مِنَ الْمَاشِی وَالْمَاشِی فِیہَا خَیْرٌ مِنَ السَّاعِی، قَالَ: فَإِنْ أَدْرَکْتَ ذَاکَ فَکُنْ عَبْدَ اللّٰہِ الْمَقْتُولَ، قَالَ أَیُّوبُ: وَلَا أَعْلَمُہُ إِلَّا قَالَ: وَلَا تَکُنْ عَبْدَ اللّٰہِ الْقَاتِلَ، قَالُوْا: أَأَنْتَ سَمِعْتَ ہَذَا مِنْ أَبِیکَ یُحَدِّثُہُ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَقَدَّمُوہُ عَلٰی ضَفَّۃِ النَّہَرِ فَضَرَبُوْا عُنُقَہُ فَسَالَ دَمُہُ کَأَنَّہُ شِرَاکُ نَعْلٍ مَا ابْذَقَرَّ وَبَقَرُوْا أُمَّ وَلَدِہِ عَمَّا فِی بَطْنِہَا۔ (مسند احمد: ۲۱۳۷۸)
حمید بن ہلال سے روایت ہے، وہ قبیلہ عبد القیس کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں، جو شروع میں خوارج کے ساتھ تھا، پھر ان سے الگ ہو گیا تھا، اس سے مروی ہے کہ خوارج ایک بستی میں داخل ہوئے، سیدنا عبداللہ بن خباب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے خوف زدہ سے ہو کر اس بستی سے باہر نکل گئے۔ خوارج نے ان سے کہا: آپ پریشان نہ ہوں، آپ گھبرائیں نہیں، آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔انہوںنے کہا: اللہ کی قسم! تم لوگوں نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔ خوارج نے کہا: آپ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابی خباب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بیٹے عبداللہ ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، خوارج نے پوچھا: کیا آپ نے اپنے والد سے کوئی حدیث سنی ہو، جسے وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بیان کرتے ہوں، براہ کرم آپ ہمیں وہ حدیث تو بیان کر دیں۔ سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی ہاں، میں نے اپنے والد کو سنا، انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بیان کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک فتنے کا ذکر کیا کہ اس فتنہ کے دوران کھڑے آدمی کی بہ نسبت بیٹھا رہنے والا اور چلنے والے کی نسبت کھڑا رہنے والا اور فتنہ میں دوڑنے والے کی بہ نسبت عام رفتار سے چلنے والابہتر ہوگا۔رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تمہارا اس قسم کے حالات سے سامنا ہو تو اللہ کا مقتول بندہ بن جانا۔ حدیث کے راوی حمید کے شاگرد ایوب نے کہا: مجھے یقین ہے کہ حمید بن ہلال نے اس سے آگے یہ بھی بیان کیا کہ تم اللہ کے قاتل بندے نہ بننا۔ خوارج نے پوچھا:کیا آپ نے یہ حدیث برا ہ راست اپنے والد سے سنی ہے کہ وہ اس حدیث کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بیان کرتے تھے۔ سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی بالکل، عبدالقیس کا ایکفرد بیان کرتا ہے کہ یہ حدیث سننے کے باوجود انہوںنے سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو نہر (دریا) کے کنارے لے جا کر ان کی گردن اڑا دی اور ان کا خون دریا کے پانی میں اس طرح چلا گویاکہ وہ جوتے کا تسمہ ہے، (یعنی وہ پانی کے اندر حل نہ ہوا اور دھاگے یا تسمے کی مانند پانی میں بہتا رہا۔) اور ان ظالموں نے ان کی ام ولد کا پیٹ بھی پھاڑ ڈالا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11777

۔ (۱۱۷۷۷)۔ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلَالٍ نَحْوَہُ إِلَّا أَنَّہُ قَالَ: مَا ابْذَقَرَّ یَعْنِی لَمْ یَتَفَرَّقْ، وَقَالَ: لَا تَکُنْ عَبْدَ اللّٰہِ الْقَاتِلَ وَکَذٰلِکَ، قَالَ: بَہْزٌ أَیْضًا۔ (مسند احمد: ۲۱۰۶۵)
حمید بن ہلال سے ان کے دوسرے شاگرد سلیمان نے بھییہ حدیث ان سے اسی طرح روایت کی ہے۔ البتہ انہوںنے ما ابذعر کی بجائے ما ابذ قر کا لفظ بیان کیا، تاہم دونوں کامعنی و مفہوم ایک ہی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اللہ تعالیٰ کا قاتل بندہ نہ بننا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11778

۔ (۱۱۷۷۸)۔ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: لِرَجُلٍ یُقَالُ لَہُ: ذُو الْبِجَادَیْنِ ((اِنَّہٗ أَوَّاہٌ۔)) وَذٰلِکَ أَنَّہٗ کَانَ رَجُلًا کَثِیْرَ الذِّکْرِ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فِی الْقُرْآنِ وَیَرْفَعُ صَوْتَہٗ فِی الدُّعَائِ۔ (مسند احمد: ۱۷۵۹۲)
سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص جیسے ذوالبجادین کہا جاتا تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے متعلق فرمایا : و ہ اَوّاہ ہے۔ یعنی اللہ کا ذکر کرتے ہوئے اس پر رقت طاری ہو جاتی ہے، وہ شخص کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کرکے اللہ تعالیٰ کو خوب یاد کیا کرتا اور بلند آواز سے دعائیں کیا کرتا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11779

۔ (۱۱۷۷۹)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنِ ابْنِ الْأَدْرَعِ قَالَ کُنْتُ أَحْرُسُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ لَیْلَۃٍ، فَخَرَجَ لِبَعْضِ حَاجَتِہِ قَالَ: فَرَآنِی فَأَخَذَ بِیَدِی، فَانْطَلَقْنَا فَمَرَرْنَا عَلٰی رَجُلٍ یُصَلِّی یَجْہَرُ بِالْقُرْآنِ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((عَسٰی أَنْ یَکُونَ مُرَائِیًا۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! یُصَلِّی یَجْہَرُ بِالْقُرْآنِ، قَالَ: فَرَفَضَ یَدِی۔ ثُمَّ قَالَ: (إِنَّکُمْ لَنْ تَنَالُوْا ہٰذَا الْأَمْرَ بِالْمُغَالَبَۃِ۔)) قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ وَأَنَا أَحْرُسُہُ لِبَعْضِ حَاجَتِہِ فَأَخَذَ بِیَدِی فَمَرَرْنَا عَلٰی رَجُلٍ یُصَلِّی بِالْقُرْآنِ، قَالَ: فَقُلْتُ: عَسَی أَنْ یَکُونَ مُرَائِیًا فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((کَلَّا إِنَّہُ أَوَّابٌ۔)) قَالَ: فَنَظَرْتُ فَإِذَا ہُوَ عَبْدُ اللّٰہِ ذُو الْبِجَادَیْنِ۔ (مسند احمد: ۱۹۱۸۰)
سیدنا ابن الادرع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں ایک رات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پہرہ دے رہا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی کام کی غرض سے باہر تشریف لائے، آپ نے مجھے دیکھاتو میرا ہاتھ تھام لیا، ہم چلتے چلتے ایک آدمی کے پاس سے گزرے وہ جہراً قرأت کرتے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی دکھلاوا کرنے والا ہو۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ تو جہراًتلاوت کرتے ہوئے نماز ادا کر رہا ہے۔ لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ جھٹک دیا اور پھر فرمایا: تم کوشش کرکے بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے۔ ابن الادرع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ایک دفعہ پھر میں رات کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پہرہ دے رہا تھا کہ آپ کسی کام کی غرض سے باہر تشریف لائے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ تھام لیا، ہم چلتے چلتے ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو جہراً تلاوت کرتے ہوئے نمازا دا کررہا تھا۔ میں نے کہا: ہو سکتا ہے کہ یہ دکھلاوا کرنے والا ہو۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر گز نہیں،یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والا شخص ہے۔ میں نے دیکھا تو وہ سیدنا عبداللہ ذوالبجا دین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11780

۔ (۱۱۷۸۰)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ إِذَا لَقِیَ الرَّجُلَ مِنْ أَصْحَابِہِ یَقُولُ: تَعَالَ نُؤْمِنْ بِرَبِّنَا سَاعَۃً، فَقَالَ ذَاتَ یَوْمٍ لِرَجُلٍ فَغَضِبَ الرَّجُلُ، فَجَائَ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ أَلَا تَرٰی إِلَی ابْنِ رَوَاحَۃَ یُرَغِّبُ عَنْ إِیمَانِکَ إِلٰی إِیمَانِ سَاعَۃٍ؟ فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَرْحَمُ اللّٰہُ ابْنَ رَوَاحَۃَ، إِنَّہُ یُحِبُّ الْمَجَالِسَ الَّتِی تُبَاہِی بِہَا الْمَلَائِکَۃُ عَلَیْہِمُ السَّلَام۔)) (مسند احمد: ۱۳۸۳۲)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا معمول تھا کہ جب ان کی کسی دوست سے ملاقات ہوتی تو اس سے کہتے: آئوکچھ دیر بیٹھ کر اپنے رب پر ایماں لے آئیں (یعنی رب کی باتیں کرکے اپنے ایمان کو تازہ کر لیں) اسی طرح انہوںنے ایک آدمی سے یہی بات کہہ دی تو وہ غضب ناک ہوگیا۔ اس نے جا کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! ابن رواحہ کو دیکھیں کہ وہ آپ کے ایمان سے اعراض کرتے ہوئے کچھ دیر کے لیے ایمان کی طرف جاتا ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابن رواحہ پر اللہ کی رحمت ہو، وہ ایسی مجالس کو پسند کرتا ہے جن پر فرشتوں خوش ہوتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11781

۔ (۱۱۷۸۱)۔ عَنِ الزُّہْرِیِّ، قَالَ: سَمِعْتُ سِنَانَ بْنَ أَبِی سِنَانٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ قَائِمًا فِی قَصَصِہِ: إِنَّ أَخًا لَکُمْ کَانَ لَا یَقُولُ الرَّفَثَ یَعْنِی ابْنَ رَوَاحَۃَ، قَالَ: وَفِینَا رَسُولُ اللّٰہِ یَتْلُو کِتَابَہُ، إِذَا انْشَقَّ مَعْرُوفٌ مِنَ اللَّیْلِ سَاطِعُ، یَبِیتُ یُجَافِی جَنْبَہُ عَنْ فِرَاشِہِ، إِذَا اسْتَثْقَلَتْ بِالْکَافِرِینَ الْمَضَاجِعُ، أَرَانَا الْہُدٰی بَعْدَ الْعَمٰی فَقُلُوبُنَا، بِہِ مُوقِنَاتٌ أَنَّ مَا قَالَ وَاقِعُ۔ (مسند احمد: ۱۵۸۲۹)
سنان بن ابی سنان کہتے تھے کہ انھوں نے سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سنا، وہ کھڑے ہو کر وعظ و نصیحت فرما رہے تھے، بیچ میں انھوں نے کہا: تمہارے بھائی ابن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فضول اشعار نہیں کہتے تھے، انہوںنے تو اپنے اشعار میں اس قسم کی باتیں کہی ہیں: وَفِینَا رَسُولُ اللّٰہِ یَتْلُو کِتَابَہُ، إِذَا انْشَقَّ مَعْرُوفٌ مِنَ اللَّیْلِ سَاطِعُ یَبِیتُیُجَافِی جَنْبَہُ عَنْ فِرَاشِہِ، إِذَا اسْتَثْقَلَتْ بِالْکَافِرِینَ الْمَضَاجِعُ أَرَانَا الْہُدٰی بَعْدَ الْعَمٰی فَقُلُوبُنَا، بِہِ مُوقِنَاتٌ أَنَّ مَا قَالَ وَاقِعُ اور ہم میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم موجود ہیں، وہ اس کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں جب رات کا معروف حصہ گزر جاتا ہے۔ یہ رات اس حال میں بسر کرتا ہے کہ اس کا پہلو بستر سے الگ ہوتا ہے ۔ جبکہ کافر اپنے بستروں پر بوجھ بنے ہوئے یعنی سوئے ہوئے ہوتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہماری گمراہی کے بعد ہمیں ہدایت دکھائی، ہمارے دلوں کو یقین ہے کہ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں سچ ہے اور پورا ہونے والا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11782

۔ (۱۱۷۸۲)۔ عَنْ ہِشَامٍ ،عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَسْمَائَ أَنَّہَا حَمَلَتْ بِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ بِمَکَّۃَ، قَالَتْ: فَخَرَجْتُ وَأَنَا مُتِمٌّ فَأَتَیْتُ الْمَدِینَۃَ فَنَزَلْتُ بِقُبَائَ فَوَلَدْتُہُ بِقُبَائَ، ثُمَّ أَتَیْتُ بِہِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَوَضَعْتُہُ فِی حِجْرِہِ، ثُمَّ دَعَا بِتَمْرَۃٍ فَمَضَغَہَا، ثُمَّ تَفَلَ فِی فِیہِ، فَکَانَ أَوَّلَ مَا دَخَلَ فِی جَوْفِہِ رِیقُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: ثُمَّ حَنَّکَہُ بِتَمْرَۃٍ، ثُمَّ دَعَا لَہُ وَبَرَّکَ عَلَیْہِ، وَکَانَ أَوَّلَ مَوْلُودٍ وُلِدَ فِی الْإِسْلَامِ۔ (مسند احمد: ۲۷۴۷۷)
سیدہ اسماء بنت ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ مکہ میں ان کو حمل ہو گیا تھا، یہ بچہ عبداللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، وہ کہتی ہیں: جب ایام حمل پورے ہو چکے تھے کہ تو میں مکہ سے روانہ ہو کر مدینہ منورہ کی طرف چل دی اورقباء میں آکر ٹھہری اور میں نے ان کو وہیں جنم دیا اور اس کو لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گئی اور اسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی گود میں رکھ دیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھجور منگوا کر اسے چبایا اور لعاب مبارک اس کے منہ میں ڈالا، اس کے پیٹ میں سب سے پہلے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا لعاب دہن گیا تھا۔ سیدہ اسماء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو کھجور کی گھٹی دی، اس کے حق میں دعا فرمائی اور برکت کی دعا بھی کی، اسلام میں1 یہ سب سے پہلا پیدا ہونے والا بچہ تھا۔ ! اس سے مراد یہ ہے کہ مدینہ میں مہاجرین کے ہاں پیدا ہونے والا یہ پہلا بچہ تھا۔ ورنہ مہاجرین کا مدینہ کے علاوہ پہلا بچہ عبداللہ بن جعفر تھا جو حبشہ میں پیدا ہوا اور ہجرت کے بعد انصار کے ہاں پہلا بچہ مسلمہ بن مخلد تھا۔ [فتح الباری: ج۷، ص ۲۴۸] (عبداللہ رفیق)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11783

۔ (۱۱۷۸۳)۔ وَعَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِاِبْنِ الزُّبَیْرِ فَحَنَّکَہٗ بِتَمْرَۃٍ فَقَالَ: ((ھٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ وَاَنْتِ أُمُّ عَبْدِاللّٰہِ۔)) (مسند احمد: ۲۵۱۲۶)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں عبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے کھجور کی گھٹی دی اور فرمایا: اس کا نام عبداللہ ہے اور (عائشہ!) تم ام عبداللہ ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11784

۔ (۱۱۷۸۴)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ سَلَامٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَقْدَمَہُ الْمَدِینَۃَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی سَائِلُکَ عَنْ ثَلَاثِ خِصَالٍ لَا یَعْلَمُہُنَّ إِلَّا نَبِیٌّ، قَالَ: ((سَلْ۔)) قَالَ: مَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَۃِ؟ وَمَا أَوَّلُ مَا یَأْکُلُ مِنْہُ أَہْلُ الْجَنَّۃِ؟ وَمِنْ أَیْنَ یُشْبِہُ الْوَلَدُ أَبَاہُ وَأُمَّہُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَخْبَرَنِی بِہِنَّ جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَام آنِفًا، قَالَ ذَلِکَ عَدُوُّ الْیَہُودِ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ، قَالَ: أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَۃِ فَنَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْمَشْرِقِ فَتَحْشُرُ النَّاسَ إِلَی الْمَغْرِبِ، وَأَمَّا أَوَّلُ مَا یَأْکُلُ مِنْہُ أَہْلُ الْجَنَّۃِ زِیَادَۃُ کَبِدِ حُوتٍ، وَأَمَّا شَبَہُ الْوَلَدِ أَبَاہُ وَأُمَّہُ فَإِذَا سَبَقَ مَائُ الرَّجُلِ مَائَ الْمَرْأَۃِ نَزَعَ إِلَیْہِ الْوَلَدُ، وَإِذَا سَبَقَ مَائُ الْمَرْأَۃِ مَائَ الرَّجُلِ نَزَعَ إِلَیْہَا۔)) قَالَ: أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ، وَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ الْیَہُودَ قَوْمٌ بُہْتٌ وَإِنَّہُمْ إِنْ یَعْلَمُوْا بِإِسْلَامِی یَبْہَتُونِیْ عِنْدَکَ، فَأَرْسِلْ إِلَیْہِمْ فَاسْأَلْہُمْ عَنِّی أَیُّ رَجُلٍ ابْنُ سَلَامٍ فِیکُمْ؟ قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَیْہِمْ فَقَالَ: ((أَیُّ رَجُلٍ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلَامٍ فِیکُمْ؟)) قَالُوْا: خَیْرُنَا وَابْنُ خَیْرِنَا وَعَالِمُنَا وَابْنُ عَالِمِنَا وَأَفْقَہُنَا وَابْنُ أَفْقَہِنَا، قَالَ: ((أَرَأَیْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ تُسْلِمُونَ؟)) قَالُوْا: أَعَاذَہُ اللّٰہُ مِنْ ذٰلِکَ،: قَالَ: فَخَرَجَ ابْنُ سَلَامٍ، فَقَالَ: أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰہِ، قَالُوْا: شَرُّنَا وَابْنُ شَرِّنَا وَجَاہِلُنَا وَابْنُ جَاہِلِنَا، فَقَالَ: ابْنُ سَلَامٍ ہٰذَا الَّذِی کُنْتُ أَتَخَوَّفُ مِنْہُ۔ (مسند احمد: ۱۲۰۸۰)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جن دنوں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے، سیدنا عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ کی خدمت میں آکر کہا: میں آپ سے تین باتوں کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا ہوں، ان باتوں کو صرف نبی جانتا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پوچھو۔ انہوںنے کہا: علامات قیامت میں سب سے پہلی علامت کیا ہے، اہل جنت سب سے پہلے کون سی چیز کھائیں گے اور بچے کی اپنے ماں باپ سے مشابہت کیوں کر ہوتی ہے؟ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : ان باتوں کے متعلق جبریل علیہ السلام ابھی ابھی مجھے بتلا کر گئے ہیں، عبداللہ بن سلام نے کہا: یہ فرشتہ تو یہود کا دشمن ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کی اولین نشانی وہ آگ ہے، جو مشرق کی طرف سے نمودار ہوگی اور لوگوں کو جمع کرتی ہوئی مغرب کی طرف لائے گی،اہل جنت کا سب سے پہلا کھانا مچھلی کے جگر کا بڑھا ہوا ٹکڑا ہوگا اور بچے کی اس کے باپ یا ماں کے ساتھ مشابہت اس طرح ہوتی ہے کہ جب مرد کا مادۂ منویہ عورت کے مادہ پر غالب آجائے تو بچہ مرد کے مشابہ ہو جاتا ہے اور جب عورت کا مادۂ منویہ مرد کے مادہ پر غالب آجائے تو بچہ ماں کے مشابہ ہو جاتا ہے۔ یہ جوابات سن کر سیدنا عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پکار اٹھے: أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ(میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔)پھر سیدنا عبد اللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہودی لوگ بہتان طراز قسم کے لوگ ہیں، اگر انہیں میرے قبول اسلام کا پتہ چل گیا تو آپ کے پاس آکر وہ مجھ پر بہتان باندھیں گے، آپ ان کے ہاں پیغام بھیج کر ان سے میرے متعلق دریافت کرلیں کہ ان کے ہاں ابن سلام کی کیا حیثیت ہے؟ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہودیوں کی طرف پیغام بھیج کر ان سے دریافت کیا کہ تمہارے ہاں ابن سلام کا کیا مقام ہے؟ انہوںنے جواب دیا: وہ ہم سے بہت اچھا ہے اور بہت اچھے آدمی کا بیٹا ہے، وہ ہمارا عالم ہے اور ہمارے ایک بڑے عالم کا بیٹا ہے، وہ ہم میں سے دین کی سب سے زیادہ سمجھ رکھنے والا اور سب سے زیادہ دین کو سمجھنے والے کا بیٹا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بتلائو اگر وہ اسلام قبول کرلے تو کیا تم مسلمان ہو جائو گے؟ وہ کہنے لگے: اللہ اسے اس کام سے محفوظ رکھے۔ یہ سن کر سیدنا ابن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سامنے آگئے اور پکار کر کہا: اَشْہَدَ اَنْ لَّا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّداً رسولُ اللّٰہِ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے رسول ہیں۔)یہ سن کر یہودی اسی وقت کہنے لگے: یہ تو ہم میں سب سے برا ہے اور سب سے برے شخص کا بیٹا ہے، یہ تو ہم میں سے جاہل اور جاہل آدمی کا بیٹا ہے، یہ سن کر سیدنا عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں اسی بات سے ڈرتا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11785

۔ (۱۱۷۸۵)۔ وَعَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: مَا سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ لِحَیٍّ مِنَ النَّاسِ یَمْشِیْ أَنَّہٗ فِیْ الْجَنَّۃِ اِلَّا لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَلَامٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌۔ (مسند احمد: ۱۴۵۳)
سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سیدنا عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سوا کسی بھی زندہ شخص کے متعلق نہیں سنا1 کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے متعلق فرمایا ہو کہ وہ جنتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11786

۔ (۱۱۷۸۶)۔ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِیہِ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُتِیَ بِقَصْعَۃٍ فَأَکَلَ مِنْہَا فَفَضَلَتْ فَضْلَۃٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَجِیئُ رَجُلٌ مِنْ ہٰذَا الْفَجِّ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ یَأْکُلُ ہٰذِہِ الْفَضْلَۃَ۔)) قَالَ سَعْدٌ: وَکُنْتُ تَرَکْتُ أَخِی عُمَیْرًا یَتَوَضَّأُ، قَالَ: فَقُلْتُ: ہُوَ عُمَیْرٌ، قَالَ: فَجَائَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلَامٍ فَأَکَلَہَا۔ (مسند احمد: ۱۴۵۸)
سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں کھانے کا ایک پیالہ پیش کیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس میں سے کھانا تناول فرمایا اور اس میں کھانا بچ بھی گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس پہاڑی راستے سے ایک جنتی آدمی آئے گا اور یہ بچا ہوا کھانا تناول کرے گا۔ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں اپنے بھائی عمیر کو وضو کرتے چھوڑ کر آیا تھا، میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ عمیر ہی آجائے، لیکن اتنے میں سیدنا عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لے آئے اور انہوں نے وہ بچا ہوا کھانا کھایا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11787

۔ (۱۱۷۸۷)۔ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ قَالَ: کُنْتُ فِی الْمَسْجِدِ فَجَائَ رَجُلٌ فِی وَجْہِہِ أَثَرٌ مِنْ خُشُوعٍ فَدَخَلَ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ فَأَوْجَزَ فِیہَا، فَقَالَ الْقَوْمُ: ہَذَا رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ، فَلَمَّا خَرَجَ اتَّبَعْتُہُ حَتّٰی دَخَلَ مَنْزِلَہُ، فَدَخَلْتُ مَعَہُ فَحَدَّثْتُہُ، فَلَمَّا اسْتَأْنَسَ، قُلْتُ لَہُ: إِنَّ الْقَوْمَ لَمَّا دَخَلْتَ قَبْلُ الْمَسْجِدَ، قَالُوْا: کَذَا وَکَذَا، قَالَ: سُبْحَانَ اللّٰہِ مَا یَنْبَغِی لِأَحَدٍ أَنْ یَقُولَ مَا لَا یَعْلَمُ، وَسَأُحَدِّثُکَ لِمَ إِنِّی رَأَیْتُ رُؤْیَا عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَصَصْتُہَا عَلَیْہِ، رَأَیْتُ کَأَنِّی فِی رَوْضَۃٍ خَضْرَائَ، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: فَذَکَرَ مِنْ خُضْرَتِہَا وَسَعَتِہَا وَسْطُہَا عَمُودُ حَدِیدٍ أَسْفَلُہُ فِی الْأَرْضِ وَأَعْلَاہُ فِی السَّمَائِ فِی أَعْلَاہُ عُرْوَۃٌ، فَقِیلَ لِیَ: اصْعَدْ عَلَیْہِ، فَقُلْتُ: لَا أَسْتَطِیعُ، فَجَائَنِی مِنْصَفٌ، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: ہُوَ الْوَصِیفُ، فَرَفَعَ ثِیَابِی مِنْ خَلْفِی، فَقَالَ: اصْعَدْ عَلَیْہِ، فَصَعِدْتُ حَتّٰی أَخَذْتُ بِالْعُرْوَۃِ، فَقَالَ: اسْتَمْسِکْ بِالْعُرْوَۃِ فَاسْتَیْقَظْتُ وَإِنَّہَا لَفِی یَدِی، قَالَ: فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَصَصْتُہَا عَلَیْہِ فَقَالَ: ((أَمَّا الرَّوْضَۃُ فَرَوْضَۃُ الْإِسْلَامِ، وَأَمَّا الْعَمُودُ فَعَمُودُ الْإِسْلَامِ، وَأَمَّا الْعُرْوَۃُ فَہِیَ الْعُرْوَۃُ الْوُثْقٰی، أَنْتَ عَلَی الْإِسْلَامِ حَتّٰی تَمُوتَ۔)) قَالَ: وَہُوَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلَامٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌۔ (مسند احمد: ۲۴۱۹۶)
سیدنا قیس بن عباد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں مسجد میں موجود تھا کہ ایک شخص آیا، اس کے چہرے پر خشوع و خضوع کے آثار نمایاں تھے، اس نے اندر آکر دو مختصر رکعتیں ادا کیں، لوگ کہنے لگے کہ یہ جنتی آدمی ہے، جب وہ باہر گیا تو میں بھی ! اس بات کو سعد بن ابی وقاص کے عدم علم محمول کرنا مشکل اور عجیب لگتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سعد بن ابی وقاص کی بات اس وقت کی ہے جب عشرہ مبشرہ میں سے اکثر افراد فوت ہو چکے ہیں۔ تفصیل دیکھیں فتح الباری: ج۷، ص ۱۳۰۔ (عبداللہ رفیق) ان کے پیچھے پیچھے چلا گیا۔ وہ گھر میں داخل ہوا تو میں بھی ان کے پیچھے اندر چلا گیا اور اس سے باتیں کیں۔ جب میں اس سے اور وہ مجھ سے مانوس ہوگیا تو میں نے اس سے کہا: تم جب مسجد میں داخل ہوئے تو لوگوں نے تمہارے متعلق اس قسم کی باتیں کی تھیں۔ انھوں نے کہا: سبحان اللہ! کسی بھی آدمی کو کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جسے وہ اچھی طرح جانتا نہ ہو، میں تمہیں ان کی اس بات کی وجہ بتلاتا ہوں، میں نے ایک خواب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے بیان کیا تھا، میں نے دیکھا گویا کہ میں ایک پررونق سرسبز باغ میں ہوں۔ حدیث کے ایک راوی ابن عون نے کہا کہ عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس باغ کی سرسبزی، رونق اور اس کی وسعت کا بھی ذکر کیا کہ وہ باغ انتہائی خوبصورت با رونق اور بہت زیادہ وسیع و عریض تھا۔ اس کے درمیان میں لوہے کا ایک ستون تھا۔ جس کا نیچے والا حصہ زمین میں اور اوپر والا حصہ آسمان تک تھا، اس کے سرے پر ایک کڑا تھا، مجھ سے کہا گیا کہ اس پر چڑھ جائو۔ میں نے کہا کہ میں تو اس پر نہیں چڑھ سکتا، اتنے میں ایک خادم نے آکر میرے پیچھے سے میرے کپڑے کو اٹھا کر کہا: اوپر چڑھ جائو، چنانچہ میں اس پر چڑھ گیا،یہاں تک کہ میں نے اس کڑے کو پکڑ لیا، اس نے مجھ سے کہا اس کڑے کو مضبوطی سے پکڑ لو، اتنے میں میں بیدار ہوگیا، جب میں بیدار ہوا تو اس وقت وہ میرے ہاتھ میں تھا، میں نے جا کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس خواب کا تذکرہ کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: باغ سے اسلام کا باغ مراد ہے، ستون سے اسلام کا ستون مراد ہے اور کڑا سے مراد مضبوط کڑا (یعنی ایمان) ہے، اس خواب کا مفہوم یہ ہے کہ تم مرتے دم تک اسلام پر قائم رہو گے۔ سیدنا قیس بن عباد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کہتے ہیں کہ وہ شخص سیدنا عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11788

۔ (۱۱۷۸۸)۔ عَنْ خَرَشَۃَ بْنِ الْحُرِّ قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ، فَجَلَسْتُ إِلٰی شِیَخَۃٍ فِی مَسْجِدِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَائَ شَیْخٌ یَتَوَکَّأُ عَلٰی عَصًا لَہُ، فَقَالَ الْقَوْمُ: مَنْ سَرَّہُ أَنْ یَنْظُرَ إِلٰی رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فَلْیَنْظُرْ إِلٰی ہٰذَا، فَقَامَ خَلْفَ سَارِیَۃٍ فَصَلَّی رَکْعَتَیْنِ، فَقُمْتُ إِلَیْہِ فَقُلْتُ لَہُ: قَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ کَذَا وَکَذَا، فَقَالَ: الْجَنَّۃُ لِلَّہِ عَزَّ وَجَلَّ یُدْخِلُہَا مَنْ یَشَائُ، وَإِنِّی رَأَیْتُ عَلَی عَہْدِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رُؤْیَا، رَأَیْتُ کَأَنَّ رَجُلًا أَتَانِی فَقَالَ: انْطَلِقْ، فَذَہَبْتُ مَعَہُ فَسَلَکَ بِی مَنْہَجًا عَظِیمًا، فَعَرَضَتْ لِی طَرِیقٌ عَنْ یَسَارِی، فَأَرَدْتُ أَنْ أَسْلُکَہَا، فَقَالَ: إِنَّکَ لَسْتَ مِنْ أَہْلِہَا، ثُمَّ عَرَضَتْ لِی طَرِیقٌ عَنْ یَمِینِی فَسَلَکْتُہَا حَتَّی انْتَہَیْتُ إِلَی جَبَلٍ زَلِقٍ، فَأَخَذَ بِیَدِی فَزَجَلَ بِی، فَإِذَا أَنَا عَلَی ذُرْوَتِہِ، فَلَمْ أَتَقَارَّ وَلَا أَتَمَاسَکْ فَإِذَا عَمُودٌ مِنْ حَدِیدٍ فِی ذُرْوَتِہِ حَلْقَۃٌ مِنْ ذَہَبٍ، فَأَخَذَ بِیَدِی فَزَجَلَ بِی حَتَّی أَخَذْتُ بِالْعُرْوَۃِ، فَقَالَ: اسْتَمْسِکْ، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَضَرَبَ الْعَمُودَ بِرِجْلِہِ فَاسْتَمْسَکْتُ بِالْعُرْوَۃِ، فَقَصَصْتُہَا عَلَی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((رَأَیْتَ خَیْرًا، أَمَّا الْمَنْہَجُ الْعَظِیمُ فَالْمَحْشَرُ، وَأَمَّا الطَّرِیْقُ الَّتِیْ عَرَضَتْ عَنْ یَسَارِکَ فَطَرِیقُ أَہْلِ النَّارِ وَلَسْتَ مِنْ أَہْلِہَا، وَأَمَّا الطَّرِیقُ الَّتِی عَرَضَتْ عَنْ یَمِینِکَ فَطَرِیقُ أَہْلِ الْجَنَّۃِ، وَأَمَّا الْجَبَلُ الزَّلِقُ فَمَنْزِلُ الشُّہَدَائِ، وَأَمَّا الْعُرْوَۃُ الَّتِی اسْتَمْسَکْتَ بِہَا فَعُرْوَۃُ الْإِسْلَامِ، فَاسْتَمْسِکْ بِہَا حَتَّی تَمُوتَ۔)) قَالَ: فَأَنَا أَرْجُوْ أَنْ أَکُونَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ، قَالَ: وَإِذَا ہُوَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلَامٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌۔ (مسند احمد: ۲۴۲۰۰)
حرشہ بن حرسے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں مدینہ منورہ گیا، مسجد نبوی میں متعدد بزرگ موجود تھے، میں بھی ان کی خدمت میں بیٹھا، اتنے میں ایک بزرگ لاٹھی کی ٹیک لگاتے ہوئے آئے،لوگ کہنے لگے کہ جو کوئی کسی جنتی آدمی کو دیکھنا چاہتا ہو، وہ اسے دیکھ لے۔ وہ آکر ایک ستون کے پیچھے کھڑے ہوئے اور انہوںنے دو رکعت نماز ادا کی، میں اٹھ کر ان کی طرف گیا اور ان سے عرض کیا کہ کچھ لوگوں نے آپ کے بارے میں اس قسم کی باتیں کی ہیں، انہوںنے کہا: جنت اللہ کی ہے،وہ جسے چاہے گا جنت میں داخل کرے گا۔ اس بات کی تفصیلیہ ہے کہ میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میں ایک خواب دیکھا تھا، میں نے دیکھا کہ گویا ایک آدمی میرے پاس آیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ چلو،میں اس کے ساتھ چل دیا، وہ مجھے ساتھ لیے ایک بڑے اور واضح راستے پر چلتا گیا، میری جانب ایک راستہ آیا، میں نے اس پر جانے کا ارادہ کیا تو اس نے مجھ سے کہا کہ یہ تمہارا راستہ نہیں ہے، آگے جا کر میری داہنی جانب ایک راستہ آیا، میں اس پر چل دیا،یہاں تک کہ میں ایک چٹیل پہاڑ تک جا پہنچا جس پر کوئی درخت وغیرہ نہ تھا، اس نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے اوپر کو اچھال دیا اور میں اس کی چوٹی پر جا پہنچا، وہاں میں نے لوہے کا ایک ستون دیکھا ، اس کی چوٹی پر ایک سنہری کرڑا تھا۔ اس آدمی نے میرا ہاتھ پکڑ کر اوپر کو اچھال دیا اور میں نے جا کر اس کڑے کو پکڑ لیا۔ پھر اس نے کہا: اسے مضبوطی سے پکڑ لو۔ میں نے کہا:میں نے اسے پکڑ لیا ہے، اس نے لوہے کے اس ستون کو پائوں سے ٹھوکر لگائی اور میں کڑے سے چمٹا رہا۔ جب میں نے یہ خواب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سنایا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے، بڑے اور واضح راستے سے مراد میدان حشرہے اور راستے میں تمہارے بائیں طرف آنے والا راستہ اہل جہنم کا تھا، تم اس راستے والے نہیں ہو اور تمہاری داہنی جانب والا راستہ اہل جنت کا راستہ تھا۔ چٹیل پہاڑ شہداء کی منز ل ہے اور تم نے جو کڑا مضبوطی سے پکڑا وہ اسلام کا کڑا ہے۔ تم مرتے دم تک اسے مضبوطی سے پکڑے رہنا۔ اس نے اس کے بعد کہا:مجھے امید ہے کہ میں اہل جنت میں سے ہوں گا۔ یہ بزرگ سیدنا عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11789

۔ (۱۱۷۸۹)۔ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ فِیْ بَیْتِ مَیْمُوْنَۃَ، فَوَضَعْتُ لَہٗ وَضُوْئً مِنَ اللَّیْلِ، قَالَ: فَقَالَتْ مَیْمُوْنَۃُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! وَضَعَ لَکَ ھٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: ((اَللّٰھُمَّ فَقِّہْہٗ فِی الدِّیْنِ وَعَلِّمْہُ الْتَأْوِیْلَ۔)) (مسند احمد: ۳۰۳۲)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ام المومنین سیدہ میمونہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے گھر تھے،میں نے آپ کے لیے رات کو وضو کرنے کے لیے پانی رکھا۔ سیدہ میمونہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے آپ کو بتلایا کہ اے اللہ کے رسول! آپ کے لیےیہ پانی عبداللہ بن عباس نے رکھا ہے۔ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے حق میں یوں دعا فرمائی: یا اللہ! اسے دین میں گہری سمجھ اور قرآن کی تفسیر کا علم عطا فرما۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11790

۔ (۱۱۷۹۰)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقً ثَانٍ) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَضَعَ یَدَہ عَلٰی کَتِفِیْ أَوْ عَلٰی مَنْکِبِیْ شَکَّ سَعِیْدٌ ثُمَّ قَالَ: ((اَللّٰھُمَّ فَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ وَعلِّمْہُ التَّأْوِیْلَ۔)) (مسند احمد: ۲۳۹۷)
۔ (دوسری سند) سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر یہ دعا کی: یا اللہ! اسے دین میں فقاہت اور تفسیر کا علم عطا فرما۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11791

۔ (۱۱۷۹۱)۔ وَعَنْ عِکْرَمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَللّٰھُمَّ أَعْطِ ابْنَ عَبَّاسِ الْحِکْمَۃَ وَعَلِّمْہُ التَّاْوِیْلَ۔)) (مسند احمد: ۲۴۲۲)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے حق میںیوں دعا فرمائی: یا اللہ ابن عباس کو حکمت اور تفسیر کا علم عطا فرما۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11792

۔ (۱۱۷۹۲)۔ وَعَنْہُ بِلَفْظٍ آخَرَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: مَسَحَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَأْسِیْ وَدَعَا لِیْ بِالْحِکْمَۃِ۔ (مسند احمد: ۱۸۴۰)
۔ (دوسری سند) سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ان کے حق میں حکمت کی دعا فرمائی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11793

۔ (۱۱۷۹۳)۔ وَعَنْہٗ قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ضَمَّنِیْ إِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ: ((اَللّٰھُمَّ عَلِّمْہُ الْکِتَابَ۔)) (مسند احمد: ۳۳۷۹)
۔ (تیسری سند) سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے اپنے ساتھ لگایا اور یہ دعا کی: یا اللہ! اسے قرآن مجید کا علم عطا فرما۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11794

۔ (۱۱۷۹۴)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ أَنَّ کُرَیْبًا أخْبَرَہُ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ: أَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ فَصَلَّیْتُ خَلْفَہُ، فَأَخَذَ بِیَدِی فَجَرَّنِی فَجَعَلَنِی حِذَائَہُ، فَلَمَّا أَقْبَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی صَلَاتِہِ خَنَسْتُ فَصَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ لِی: ((مَا شَأْنِی أَجْعَلُکَ حِذَائِی فَتَخْنِسُ؟)) فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَوَیَنْبَغِی لِأَحَدٍ أَنْ یُصَلِّیَ حِذَائَ کَ وَأَنْتَ رَسُولُ اللّٰہِ الَّذِی أَعْطَاکَ اللّٰہُ؟ قَالَ: فَأَعْجَبْتُہُ فَدَعَا اللّٰہَ لِی أَنْ یَزِیدَنِی عِلْمًا وَفَہْمًا، قَالَ: ثُمَّ رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَامَ حَتّٰی سَمِعْتُہُ یَنْفُخُ ثُمَّ أَتَاہُ بِلَالٌ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ الصَّلَاۃَ، فَقَامَ فَصَلّٰی مَا أَعَادَ وُضُوئً ۔ (مسند احمد: ۳۰۶۰)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رات کے آخری حصہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھنا شروع کی،لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے آگے کی طرف کھینچ کر اپنے پہلو میں اپنے برابر کھڑا کر لیا، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز کی طرف متوجہ ہوئے تو میں کھسک کر کچھ پیچھے کو ہو گیا، جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز مکمل کی تو مجھ سے فرمایا: تمہیں کیا ہوا تھا، میں نے تمہیں اپنے برابر کھڑا کیا اور تم کھسک گئے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ نے آپ کو عظیم منصب و مرتبہ سے نوازا ہے۔ کیا (مجھ جیسے) کسی فرد کے لیے مناسب ہے کہ وہ آپ کے برابر کھڑا ہو کر نماز ادا کرے؟ میرییہ بات آپ کو بہت پسندآئی، آپ نے اللہ سے میرے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ میرے علم اور فہم میں اضافہ فرمائے۔ میں نے اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ اس قدر گہری نیند سو گئے کہ خراٹے لینے لگے۔ اس کے بعد سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آکر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو آواز دی: اے اللہ کے رسول! نماز کا وقت ہو گیا ہے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اٹھ کر نماز ادا کی اور دوبارہ وضونہیں کیا (کیونکہ نیند میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا دل بیدار ہی رہتا تھا)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11795

۔ (۱۱۷۹۵)۔ وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: مَرَّبِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا اَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، فَاخْتَبَأْتُ مِنْہُ خَلْفَ بَابٍ فَدَعَانِیْ فَحَطَأَنِیْ حَطْأَۃً ثُمَّ بَعَثَ بِیْ إِلٰی مُعَاوِیَۃَ۔ (مسند احمد: ۲۱۵۰)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا میرے پاس سے گز ر ہوا تو میں ایک دروازے کے پیچھے چھپ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بلوا کر ہلکا سا جھنجھوڑا دیا اور مجھے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلانے کے لیے بھیجا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11796

۔ (۱۱۷۹۶)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: کُنْتُ مَعَ أَبِی عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعِنْدَہُ رَجُلٌ یُنَاجِیہِ، فَکَانَ کَالْمُعْرِضِ، عَنْ أَبِی فَخَرَجْنَا مِنْ عِنْدِہِ، فَقَالَ لِی أَبِی: أَیْ بُنَیَّ أَلَمْ تَرَ إِلَی ابْنِ عَمِّکَ کَالْمُعْرِضِ عَنِّی، فَقُلْتُ: یَا أَبَتِ إِنَّہُ کَانَ عِنْدَہُ رَجُلٌ یُنَاجِیہِ، قَالَ: فَرَجَعْنَا إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ أَبِی: یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قُلْتُ لِعَبْدِ اللّٰہِ کَذَا وَکَذَا، فَأَخْبَرَنِی أَنَّہُ کَانَ عِنْدَکَ رَجُلٌ یُنَاجِیکَ، فَہَلْ کَانَ عِنْدَکَ أَحَدٌ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((وَہَلْ رَأَیْتَہُ، یَا عَبْدَ اللّٰہِ!، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ((فَإِنَّ ذَاکَ جِبْرِیلُ وَہُوَ الَّذِی شَغَلَنِی عَنْکَ۔)) (مسند احمد: ۲۶۷۹)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اپنے والد کے ساتھ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر تھا اور آپ کے پاس ایک اور آدمی بھی بیٹھا تھا، وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ سرگوشی کر رہا تھا،یوں لگتا تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے والد کی طرف توجہ نہیں فرما رہے، ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں سے اٹھ آئے،میرے والدنے مجھ سے کہا: بیٹا! دیکھا کہ تمہارے چچا زاد (یعنی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) نے میری طرف توجہ ہی نہیں کی۔ میں نے عرض کیا: ابا جان، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ایک اور آدمی بیٹھا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے ساتھ محو کلام تھے۔ ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں واپس آگئے، اب کی بار میرے والد نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: میں نے عبداللہ سے اس طرح بات کی اوراس نے بتلایا کہ آپ کے پاس کوئی آدمی بیٹھا آ پ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ہم کلام تھا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عبداللہ! کیا تم نے اس آدمی کو دیکھا تھا؟ میں نے عرض کیا:جی ہاں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ جبریل علیہ السلام تھے،میں ان کیوجہ سے آپ لوگوں کی طرف تو جہ نہ کر سکا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11797

۔ (۱۱۷۹۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَمَلَہُ، وَحَمَلَ أَخَاہُ ھٰذَا قُدَّامَہُ، وَھٰذَا خَلْفَہُ۔ (مسند احمد: ۳۲۱۷)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو اور ان کے بھائی کو اپنے سواری پر اٹھا لیا، ایک کو اپنے آگے اور ایک کو اپنے پیچھے بٹھا لیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11798

۔ (۱۱۷۹۸)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشَرَۃَ سَنَۃً۔ (مسند احمد: ۳۵۴۳)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کے وقت ان کی عمر پندرہ برس تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11799

۔ (۱۱۷۹۹)۔ وَعَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: جَمَعْتُ الْمُحْکَمَ فِیْ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَأَنَا ابْنُ عَشَرَ حِجَجٍ قَالَ: فَقُلْتُ لَہُ: وَمَا الْمُحْکَمُ؟ قَالَ: الْمُفَصَّلُ۔ (مسند احمد: ۳۱۲۵)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میں محکم سورتیںیاد کر لی تھیں، جبکہ میری عمر دس برس تھی۔ میں (سعید بن جبیر) نے ان سے کہا: محکم سے کیا مراد ہے؟ انھوں نے کہا: مفصل سورتیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11800

۔ (۱۱۸۰۰)۔ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: إِنَّ الَّذِیْ تَدْعُوْنَہُ الْمُفَصَّلُ ھُوَ الْمُحْکَمُ، تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاَنَا ابْنُ عَشَرَ سِنِیْنَ، وَقَدْ قَرَأْتُ الْمُحْکَمَ۔ (مسند احمد: ۲۲۸۳)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: تم جن سورتوں کو مفصل کہتے ہو، ان کو محکم بھی کہتے ہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کے وقت میری عمر دس سال تھی، لیکن میں یہ محکم سورتیںیاد کر چکا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11801

۔ (۱۱۸۰۱)۔ وَعَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رِبَاحٍ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ یَقُوْلُ: تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا خَتِیْنٌ۔ (مسند احمد: ۲۳۷۹)
سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات ہوئی اس وقت میرا ختنہ ہو چکا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11802

۔ (۱۱۸۰۲)۔ عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: کَتَبَ نَجْدَۃُ الْحَرُورِیُّ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ یَسْأَلُہُ عَنْ قَتْلِ الصِّبْیَانِ، وَعَنِ الْخُمُسِ لِمَنْ ہُوَ؟ وَعَنِ الصَّبِیِّ مَتٰی یَنْقَطِعُ عَنْہُ الْیُتْمُ؟ وَعَنِ النِّسَائِ ہَلْ کَانَ یُخْرَجُ بِہِنَّ أَوْ یَحْضُرْنَ الْقِتَالَ؟ وَعَنِ الْعَبْدِ ہَلْ لَہُ فِی الْمَغْنَمِ نَصِیبٌ؟ قَالَ: فَکَتَبَ إِلَیْہِ ابْنُ عَبَّاسٍ، أَمَّا الصِّبْیَانُ فَإِنْ کُنْتَ الْخَضِرَ تَعْرِفُ الْکَافِرَ مِنَ الْمُؤْمِنِ فَاقْتُلْہُمْ، وَأَمَّا الْخُمُسُ فَکُنَّا نَقُولُ: إِنَّہُ لَنَا فَزَعَمَ قَوْمُنَا أَنَّہُ لَیْسَ لَنَا، وَأَمَّا النِّسَائُ فَقَدْ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَخْرُجُ مَعَہُ بِالنِّسَائِ فَیُدَاوِینَ الْمَرْضٰی وَیَقُمْنَ عَلَی الْجَرْحٰی وَلَا یَحْضُرْنَ الْقِتَالَ، وَأَمَّا الصَّبِیُّ فَیَنْقَطِعُ عَنْہُ الْیُتْمُ إِذَا احْتَلَمَ، وَأَمَّا الْعَبْدُ فَلَیْسَ لَہُ مِنَ الْمَغْنَمِ نَصِیبٌ وَلٰکِنَّہُ قَدْ کَانَ یُرْضَخُ لَہُمََََََََْ۔ (مسند احمد: ۱۹۶۷)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نجدہ حروری نے ان کے نام ایک خط لکھ کر ان سے یہ مسائل دریافت کئے: بچوں کو قتل کرنا کیسا ہے؟ خمس کے اہل کون لوگ ہیں؟بچے پر سے یتیمی کا اطلاق کب ختم ہوتا ہے؟ کیا عورتیں جہاد میں جا سکتی ہیںیا نہیں؟ کیا مال غنیمت میں غلام کا بھی حصہ ہے یا نہیں؟ انھوں نے جواباً تحریر کیا: اگر تم خضر ہو اور جانتے ہو کہ بچہ بڑا ہو کر کافر بنے گا تو تم اسے قتل کر سکتے ہو ، رہا مسئلہ خمس کا تو ہم تو اب تک یہی کہتے آئے ہیں کہ یہ ہمارا یعنی بنو ہاشم اور بنو مطلب کا حق ہے، اب ہم میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ ہمارا حق نہیں۔اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خواتین کو اپنے ساتھ جہاد میں لے جایا کرتے تھے، وہ مریضوں کا علاج معالجہ کرتیں، مریضوںکی تیمارداری کرتیں، البتہ جنگ میں شامل نہیں ہوتی تھیں۔بچہ جب بالغ ہو جائے تو اس سے یتیمی کا اطلاق ختم ہو جاتا ہے۔غلام کا مال غنیمتمیں کچھ حصہ نہیں، البتہ ان کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں کچھ نہ کچھ بطور عطیہ دیا جاتا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11803

۔ (۱۱۸۰۳)۔ عَنْ یَزِیدَ بْنِ ہُرْمُزَ قَالَ: کَتَبَ نَجْدَۃُ بْنُ عَامِرٍ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ یَسْأَلُہُ عَنْ أَشْیَائَ، فَشَہِدْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ حِینَ قَرَأَ کِتَابَہُ وَحِینَ کَتَبَ جَوَابَہُ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَاللّٰہِ لَوْلَا أَنْ أَرُدَّہُ عَنْ شَرٍّ یَقَعُ فِیہِ مَا کَتَبْتُ إِلَیْہِ وَلَا نَعْمَۃَ عَیْنٍ، قَالَ: فَکَتَبَ إِلَیْہِ إِنَّکَ سَأَلْتَنِی عَنْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی الَّذِی ذَکَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ مَنْ ہُمْ؟ وَإِنَّا کُنَّا نُرٰی قَرَابَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ ہُمْ فَأَبٰی ذٰلِکَ عَلَیْنَا قَوْمُنَا، وَسَأَلَہُ عَنِ الْیَتِیمِ مَتٰی یَنْقَضِی یُتْمُہُ؟ وَإِنَّہُ إِذَا بَلَغَ النِّکَاحَ، وَأُونِسَ مِنْہُ رُشْدٌ، دُفِعَ إِلَیْہِ مَالُہُ وَقَدِ انْقَضٰی یُتْمُہُ، وَسَأَلَہُ ہَلْ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقْتُلُ مِنْ صِبْیَانِ الْمُشْرِکِینَ أَحَدًا؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یَقْتُلْ مِنْہُمْ أَحَدًا وَأَنْتَ فَلَا تَقْتُلْ إِلَّا أَنْ تَکُونَ تَعْلَمُ مَا عَلِمَ الْخَضِرُ مِنَ الْغُلَامِ الَّذِی قَتَلَہُ، وَسَأَلَہُ عَنِ الْمَرْأَۃِ وَالْعَبْدِ ہَلْ کَانَ لَہُمَا سَہْمٌ مَعْلُومٌ إِذَا حَضَرُوا الْبَأْسَ؟ وَإِنَّہُ لَمْ یَکُنْ لَہُمْ سَہْمٌ مَعْلُومٌ إِلَّا أَنْ یُحْذَیَا مِنْ غَنَائِمِ الْمُسْلِمِینَ۔ (مسند احمد: ۲۲۳۵)
یزید بن ہرمز سے مروی ہے کہ نجدہ بن عامر حروری نے سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خط لکھ کر ان سے چند مسائل دریافت کئے، سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جب اس کا خط پڑھ کر اس کے سوالات کے جوابات لکھوائے تو میں بھی وہاں موجود تھا، سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: وہ جس شر یعنی برائی اور فتنے میں گرر ہا ہے، اگر میں اس کو اس سے بچانا نہ چاہ رہا ہوتا تو میں اس کے خط کا جواب نہ دیتا اور نہ اس طرح اسے خوش کرتا، چنانچہ انہوںنے اسے لکھا کہ تم نے مجھ سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ان قرابت داروں کے حصوں کے متعلق دریافت کیاہے، جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر کیاہے، کہ اس سے کون لوگ مراد ہیں، ہم تو اب تک یہی سمجھتے آئے ہیں کہ ان قرابت داروں سے ہم ہییعنی بنو ہاشم اور بنو مطلب مراد ہیں۔ لیکن اب ہماری قوم اس بارے میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتی،نجدہ نے ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ یتیم سے یتیمی کا اطلاق کب زائل ہوتا ہے؟انہوںنے لکھا کہ جب بچہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائے اور سمجھدار ہوجائے، تب اس کا مال اس کے حوالے کر دیا جائے، اس سے یتیمی کا اطلاق ختم ہو جاتا ہے۔ نجدہ نے ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ آیا مشرکین کے بچوں میں سے کسی کو قتل کیا جا سکتا ہے؟ انھوں نے جواباً لکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مشرکین کے کسی بچے کو قتل نہیں کیا، تم بھی ان میں سے کسی کو قتل نہ کرو، الایہ کہ تم خضر کی طرح علم رکھتے ہو(کہ فلاں بچہ کافر ہی ہو گا تو تم اسے قتل کر سکتے ہو)، اسی طرح نجدہ نے ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ آیا مال غنیمت میں عورتوں اور غلاموں کا بھی حصہ مقرر ہے؟ جبکہ وہ میدان جنگ میں حاضر ہوں؟ انھوں نے لکھا کہ عورتوں اور غلاموں کا حصہ مال غنیمت میں سے مقرر نہیں ہے، البتہ ان کو مسلمانوں کے اموال غنیمت میں سے (حوصلہ افزائی کے طور پر) کچھ حصہ بطور ہدیہ دیا جا سکتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11804

۔ (۱۱۸۰۴)۔ عَنْ نَافِعٍ قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ: رَأَیْتُ فِی الْمَنَامِ کَأَنَّ بِیَدِی قِطْعَۃَ إِسْتَبْرَقٍ، وَلَا أُشِیرُ بِہَا إِلٰی مَکَانٍ مِنَ الْجَنَّۃِ إِلَّا طَارَتْ بِی إِلَیْہِ، فَقَصَّتْہَا حَفْصَۃُ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((إِنَّ أَخَاکِ رَجُلٌ صَالِحٌ، أَوْ إِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ رَجُلٌ صَالِحٌ۔)) (مسند احمد: ۴۴۹۴)
سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: میں نے ایک خواب دیکھا کہ گویا میرے ہاتھ میں ریشم کا ایک قیمتی ٹکڑا ہے اور میں جنت میں جس طرف بھی اس سے اشار ہ کرتا ہوں وہ مجھے اپنے ساتھ اڑا کر ادھر ہی لے جاتا ہے۔ میری بہن ام المومنین سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان کا یہ خواب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بیان کیا تو آپ نے فرمایا: تمہارا بھائی عبد اللہ نیک اور صالح آدمی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11805

۔ (۱۱۸۰۵)۔ عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: کَانَ الرَّجُلُ فِی حَیَاۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا رَأَی رُؤْیَا قَصَّہَا عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَتَمَنَّیْتُ أَنْ أَرٰی رُؤْیَا فَأَقُصَّہَا عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: وَکُنْتُ غُلَامًا شَابًّا عَزَبًا فَکُنْتُ أَنَامُ فِی الْمَسْجِدِ عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَرَأَیْتُ فِی النَّوْمِ کَأَنَّ مَلَکَیْنِ أَخَذَانِی فَذَہَبَا بِی إِلَی النَّارِ، فَإِذَا ہِیَ مَطْوِیَّۃٌ کَطَیِّ الْبِئْرِ، وَإِذَا لَہَا قَرْنَانِ وَإِذَا فِیہَا نَاسٌ قَدْ عَرَفْتُہُمْ، فَجَعَلْتُ أَقُولُ: أَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ النَّارِ، أَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ النَّارِ، فَلَقِیَہُمَا مَلَکٌ آخَرُ فَقَالَ لِی: لَنْ تُرَاعَ، فَقَصَصْتُہَا عَلٰی حَفْصَۃَ، فَقَصَّتْہَا حَفْصَۃُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((نِعْمَ الرَّجُلُ عَبْدُاللّٰہِ لَوْ کَانَ یُصَلِّی مِنَ اللَّیْلِ۔)) قَالَ سَالِمٌ: فَکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ لَا یَنَامُ مِنَ اللَّیْلِ إِلَّا قَلِیلًا۔ (مسند احمد: ۶۳۳۰)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زندگی میں جو بھی آدمی کوئی خواب دیکھتا، وہ اسے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے بیان کرتا۔ میری بھی خواہش تھی کہ میں بھی کوئی خواب دیکھوں اور اسے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے بیان کروں، میں کنوارا نوجوان تھا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانہ میں مسجد میں سویا کرتا تھا، میں نے خواب دیکھا گویا کہ دو فرشتوں نے مجھے پکڑا اور مجھے جہنم کی طرف لے گئے، وہ اس طرح چنی گئی تھی جیسے کنواں چنا جاتا ہے اور اس کے اوپر (کنویں کی طرح کے) دو ستون تھے، جب میں نے اس میں دیکھا تومجھے اس میں ایسے لوگ دکھائیدیئے جن کو میں پہنچانتا تھا۔ میں ڈر کر کہنے لگا: اُعوذُ باللّٰہِ مِنَ النَّار،اُعوذُ باللّٰہِ مِنَ النَّار (میں جہنم سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں، میں جہنم سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔) ایک فرشتہ ان دونوں فرشتوں سے آ ملا، اس نے مجھ سے کہا: تم مت گھبرائو۔ میں نے یہ خواب اپنی ہمشیرہ سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو بیان کیا، جب انہوںنے یہ خواب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بیان کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عبداللہ اچھا آدمی ہے، کاش کہ وہ رات کو نمازپڑھا کرے۔ سالم کہتے ہیں: اس کے بعد سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رات کو کم ہی سویا کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11806

۔ (۱۱۸۰۶)۔ وَعَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ: شَہِدَ ابْنُ عُمَرَ الْفَتْحَ، وَہُوَ ابْنُ عِشْرِینَ سَنَۃً وَمَعَہُ فَرَسٌ حَرُونٌ وَرُمْحٌ ثَقِیلٌ، فَذَہَبَ ابْنُ عُمَرَ یَخْتَلِی لِفَرَسِہِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ إِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ۔)) (مسند احمد: ۴۶۰۰)
مجاہد سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ موجود تھے اور ان کی عمر بیس سال تھی، ان کے پاس ایک شاندار گھوڑا اور ایک خاصا وزنی نیزہ تھا۔ ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے گھوڑے کے لیے گھاس کاٹنے گئے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بے شک عبداللہ (صالح آدمی ہے)، بے شک عبداللہ (صالح آدمی ہے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11807

۔ (۱۱۸۰۷)۔ وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَرَضَہُ یَوْمُ أُحُدٍ وَھُوَ ابْنُ اَرْبَعَ عَشَرَۃَ فَلَمْ یُجْزِہِ، ثُمَّ عَرَضَہُ یَوْمَ الْخَنْدَقِ، وَھُوَ ابْنُ خَمْسَ عَشَرَۃَ فَأَجَازَہُ۔ (مسند احمد: ۴۶۶۱)
سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے غزوۂ احد کے موقع پیش ہوئے، اس وقت ان کی عمر چودہ برس تھی، آپ نے ان کو جنگ میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں دی، پھر وہ خندق کے موقع پر پیش ہوئے،تب ان کی عمر پندرہ برس تھی، تونبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو جنگ میں شرکت کی اجازت دے دی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11808

۔ (۱۱۸۰۸)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ سِیرِینَ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ: أَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ؟ قَالَ: تُجْزِئُکَ قِرَائَۃُ الْإِمَامِ، قُلْتُ: رَکْعَتَیِ الْفَجْرِ أُطِیلُ فِیہِمَا الْقِرَائَۃَ، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُصَلِّی صَلَاۃَ اللَّیْلِ مَثْنٰی مَثْنٰی، قَالَ: قُلْتُ: إِنَّمَا سَأَلْتُکَ عَنْ رَکْعَتَیِ الْفَجْرِ، قَالَ: إِنَّکَ لَضَخْمٌ أَلَسْتَ تَرَانِی أَبْتَدِئُ الْحَدِیثَ، کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُصَلِّی صَلَاۃَ اللَّیْلِ مَثْنٰی مَثْنٰی فَإِذَ خَشِیَ الصُّبْحَ أَوْتَرَ بِرَکْعَۃٍ، ثُمَّ یَضَعُ رَأْسَہُ فَإِنْ شِئْتَ قُلْتَ نَامَ، وَإِنْ شِئْتَ قُلْتَ لَمْ یَنَمْ، ثُمَّ یَقُومُ إِلَیْہِمَا وَالْأَذَانُ فِی أُذُنَیْہِ فَأَیُّ طُولٍ یَکُونُ، ثُمَّ قُلْتُ: رَجُلٌ أَوْصٰی بِمَالٍ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ أَیُنْفَقُ مِنْہُ فِی الْحَجِّ؟ قَالَ: أَمَا إِنَّکُمْ لَوْ فَعَلْتُمْ کَانَ مِنْ سَبِیلِ اللّٰہِ، قَالَ: قُلْتُ: رَجُلٌ تَفُوتُہُ رَکْعَۃٌ مَعَ الْإِمَامِ فَسَلَّمَ الْإِمَامُ أَیَقُومُ إِلٰی قَضَائِہَا قَبْلَ أَنْ یَقُومَ الْإِمَامُ؟ قَالَ: کَانَ الْإِمَامُ إِذَا سَلَّمَ قَامَ، قُلْتُ: الرَّجُلُ یَأْخُذُ بِالدَّیْنِ أَکْثَرَ مِنْ مَالِہِ، قَالَ: لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَائٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عِنْدَ اسْتِہِ عَلٰی قَدْرِ غَدْرَتِہ۔ (مسند احمد: ۵۰۹۶)
انس بن سیرین سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے پوچھا: میں امام کے پیچھے قرأت کر لیا کروں؟ انہوںنے کہا: امام کی قرأت تمہارے لیے کافی ہے۔ میں نے کہا: میں فجر کی دو سنتوں میں قرأت طویل کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رات کو دو دو رکعت ادا کیا کرتے تھے۔ میں نے کہا: میں نے تو آپ سے فجر کی دو رکعتوں کے متعلق دریافت کیا ہے؟ انہوںنے کہا: تم تو موٹی عقل کے آدمی ہو، تم دیکھتے نہیں کہ میں نے بات شروع ہی کی ہے، یعنی پوری بات تو سنو۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رات کو دو دو رکعت ادا کیا کرتے تھے، جب صبح ہونے کا اندیشہ ہوتا تو ایک و تر ادا کر لیتے، اس کے بعد لیٹ جاتے۔ تم یوں بھی کہہ سکتے ہو کہ سو جاتے اور اگر چاہو تو کہہ سکتے ہو کہ سوتے نہیں تھے۔ پھر اذان ہوتے ہی اٹھ کر یہ دو رکعت ادا کرتے، تو ان میں طوالت کہاں سے آگئی؟ اس کے بعد میں نے پوچھا: کوئی شخص اللہ کی راہ میں اپنے مال کی وصیت کرے تو کیا وہ اس مال میں سے حج کے اخراجات بھی ادا کر سکتا ہے؟ انہوں نے کہا: اگر تم ایسا کرو تو یہ بھی اللہ کی راہ میں ہی شمار ہوگا۔ میں نے پوچھا: ایک شخص کی امام کے ساتھ ایک رکعت رہ جائے، امام کے سلام پھیرنے کے بعد آیا وہ امام کے اٹھنے سے پہلے فوت شدہ رکعت کو قضا کرنے کے لیے کھڑا ہو سکتا ہے؟ انھوں نے کہا: جب امام سلام پھیر لے تو تب مقتدی کھڑا ہو گا۔ میں نے پوچھا: کوئی شخص قرض کے عوض میں اپنے اصل مال سے زائد وصول کرے تو اس کا شرعاً کیا حکم ہے؟ انھوں نے کہا: قیامت کے دن ہر دھوکہ باز کے لیے اس کی سرین کے قریب اس کے دھوکے کے بقدر جھنڈا نصب کیا جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11809

۔ (۱۱۸۰۹)۔ عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ جُرَیْجٍ أَنَّہُ قَالَ لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ: یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ! رَأَیْتُکَ تَصْنَعُ أَرْبَعًا، لَمْ أَرَ مِنْ أَصْحَابِکَ مَنْ یَصْنَعُہَا، قَالَ: مَا ہُنَّ یَا ابْنَ جُرَیْجٍ، قَالَ: رَأَیْتُکَ لَا تَمَسُّ مِنَ الْأَرْکَانِ إِلَّا الْیَمَانِیَّیْنِ، وَرَأَیْتُکَ تَلْبَسُ النِّعَالَ السِّبْتِیَّۃَ، وَرَأَیْتُکَ تَصْبُغُ بِالصُّفْرَۃِ، وَرَأَیْتُکَ إِذَا کُنْتَ بِمَکَّۃَ أَہَلَّ النَّاسُ إِذَا رَأَوُا الْہِلَالَ وَلَمْ تُہْلِلْ أَنْتَ حَتّٰی یَکُونَ یَوْمُ التَّرْوِیَۃِ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: أَمَّا الْأَرْکَانُ فَإِنِّی لَمْ أَرَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَمَسُّ إِلَّا الْیَمَانِیَّیْنِ، وَأَمَّا النِّعَالُ السِّبْتِیَّۃُ فَإِنِّی رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَلْبَسُ النِّعَالَ الَّتِی لَیْسَ فِیہَا شَعَرٌ وَیَتَوَضَّأُ فِیہَا، فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَلْبَسَہَا، وَأَمَّا الصُّفْرَۃُ فَإِنِّی رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَصْبُغُ بِہَا فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَصْبُغَ بِہَا، وَأَمَّا الْإِہْلَالُ فَإِنِّی لَمْ أَرَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُہِلُّ حَتّٰی تَنْبَعِثَ بِہِ نَاقَتُہُ۔ (مسند احمد: ۵۳۳۸)
عبید بن جریج سے مروی ہے کہ انھوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے پوچھا: اے ابو عبدالرحمن! آپ چار ایسے کام کرتے ہیں کہ آپ کے ساتھیوں میں سے کو ئی بھی وہ کام نہیں کرتا،انہوں نے کہا: ابن جریج! وہ کون سے ؟ ابن جریج نے کہا: میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے صرف اس کے دو یمنی کونوں کو مس کرتے ہیں،میں نے آپ نے کو دیکھا ہے کہ آپ رنگے ہوئے بغیر بالوں والے چمڑے کے جوتے استعمال کرتے ہیں،میں نے دیکھا ہے کہ آپ اپنے بالوں یا کپڑوں کو زرد رنگ سے رنگتے ہیںاور جب لوگ مکہ میں ہوں تو ذوالحجہ کا چاند دیکھتے ہی تلبیہ پڑھنا شروع کر دیتے ہیں، لیکن آپ یوم الترویہیعنی آٹھ ذوالحجہ تک تلبیہ نہیں پڑھتے؟ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کے جواب میں فرمایا: جہاں تک آپ کے پہلے سوال کا تعلق ہے کہ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے میں اس کے صرف دو یمنی کونوں کو چھوتا ہوں اور باقی دو عراقی کونوں کو نہیں چھوتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بیت اللہ کے ان دو یمنی کونوں کو ہی چھوتے دیکھا ہے۔آپ کا دوسرا سوال رنگے ہوئے چمڑے کے بالوں کے بغیر جوتے کے متعلق ہے، تو میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ رنگے ہوئے چمڑے کے ایسے جوتے پہنتے تھے، جن پر بال نہیں ہوتے تھے، بلکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انہی میں وضو کر لیاکرتے تھے، اس لیے میں بھی اسی قسم کے جوتے پہنا کرتا ہوں۔ باقی رہا بالوں یا کپڑوں کو زرد رنگ سے رنگنا، تو میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس رنگ سے رنگتے دیکھا ہے، اس لیے میں بھی اسی رنگ سے رنگنے کو پسند کرتا ہوں اور آپ کا تلبیہ کے متعلق سوال تو میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ اس وقت تک تلبیہ نہیں پڑھتے تھے۔ جب تک کہ آپ کی اونٹنی سفر حج پر روانہ ہونے کے لیے اٹھ کھڑی نہ ہوتی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11810

۔ (۱۱۸۱۰)۔ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ سَمِعْتُ رَجُلًا مِنْ أَہْلِ نَجْرَانَ قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، قُلْتُ: إِنَّمَا أَسْأَلُکَ عَنْ شَیْئَیْنِ عَنِ السَّلَمِ فِی النَّخْلِ وَعَنِ الزَّبِیبِ وَالتَّمْرِ، فَقَالَ: أُتِیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِرَجُلٍ نَشْوَانَ (وَفِیْ لَفْظٍ: سَکْرَانَ) قَدْ شَرِبَ زَبِیبًا وَتَمْرًا، قَالَ: فَجَلَدَہُ الْحَدَّ وَنَہٰی أَنْ یُخْلَطَا، قَالَ: وَأَسْلَمَ رَجُلٌ فِی نَخْلِ رَجُلٍ فَلَمْ یَحْمِلْ نَخْلُہُ، قَالَ: فَأَتَاہُ یَطْلُبُہُ (فِیْ لَفْظٍ: فَاَرَادَ اَنْ یَاْخُذَ دَرَاھِمَہٗ) قَالَ: فَأَبٰی أَنْ یُعْطِیَہُ، قَالَ: فَأَتَیَا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((أَحَمَلَتْ نَخْلُکَ۔))قَالَ: لَا، قَالَ: ((فَبِمَ تَأْکُلُ مَالَہُ؟)) قَالَ: فَأَمَرَہُ فَرَدَّ عَلَیْہِ وَنَہٰی عَنِ السَّلَمِ فِی النَّخْلِ حَتّٰی یَبْدُوَ صَلَاحُہُ۔ (مسند احمد: ۵۱۲۹)
ابو اسحاق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اہل نجرا ن کے ایک آدمی سے سنا اس نے کہا کہ میں نے ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ میں آپ سے دو مسائل کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا ہوں، ایک تو کھجوروں کی بیع سلم کے بارے میں (کہ کوئی شخص فصل تیار ہونے سے پہلے کھجور کے مالک سے بھائو وغیرہ طے کرکے کھجوروں کی بیع کر لے، کیایہ جائز ہے؟) اور دوسرا سوال منقّی اور کھجور کے متعلق ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جواب دیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں ایک آدمی کو پیش کیا گیا جو نشہ کی حالت میںتھا، اس نے منقّی اور کھجور کا تیار شدہ نبیذپیا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس پر حد جاری کر دی تھی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان دونوں کو ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرما دیا، ( کیونکہ ان دونوں کے اختلاط سے تیار کر دہ نبیذ بہت جلد نشہ آور ہو جاتا ہے) اور ایک آدمی نے دوسرے سے کھجوروں کی بیع سلم کی تھی، اتفاق سے کھجوروں کے درخت ثمر آور نہ ہوئے، ان کا مالک اس شخص سے اپنی طے شدہ رقم لینے آیا تو دوسرے نے ادائیگی سے انکار کیا۔ وہ دونوں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مالک سے دریافت فرمایا: کیا تمہارے کھجوروں کے درخت ثمر آور ہوئے؟ اس نے کہا: جی نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تم کس بنیاد پر اس کامال کھاتے ہو۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیع سلم سے اس وقت تک1 منع فرما دیا، جب تک پھل کی صلاحیت نمایاں نہ ہو جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11811

۔ (۱۱۸۱۱)۔ عَنْ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ، قَالَ: قَالَ طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((نِعْمَ أَھْلُ الْبَیْتِ عَبْدُ اللّٰہِ وَأَبُوْ عَبْدِ اللّٰہِ وَأُمُّ عَبْدِ اللّٰہِ۔)) (مسند احمد: ۱۳۸۱)
سیدنا طلحہ بن عبیداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے گھر کے افراد عبداللہ، ابو عبداللہ اور ام عبداللہ سب ہی اچھے لوگ ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11812

۔ (۱۱۸۱۲)۔ حَدَّثَنَا ھُشَیْمٌ، عَنْ حُصَیْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَمُغِیْرَۃَ الضَّبِّیِّ عَنْ مُجَاھِدٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِوبْنِ الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: زَوَّجَنِیْ اَبِیْ امْرَاَۃً مِّنْ قُرَیْشٍ، فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَیَّ جَعَلْتُ لَا اَنْحَاشُ لَھَا عَمَّا بِیْ مِنَ الْقُوَّۃِ عَلَی الْعِبَادَۃِ مِنَ الصَّوْمِ وَالصَّلاۃِ، فَجَائَ عَمْرُوبْنُ الْعَاصِ اِلٰی کَنَّتِہِ حَتّٰی دَخَلَ عَلَیْھَا، فَقَالَ لَھَا: کَیْفَ وَجَدْتِّ بَعْلَکِ؟ قَالَتْ: خَیْرُ الرِّجَالِ، اَوْ کَخَیْرِ الْبُعُوْلَۃِ، مِنْ رَجُلٍ، لَمْ یُفَتِّشْ لَنَا کَنَفًا، وَلَمْ یَعْرِفْ لَنَا فِرَاشًا، فَاَقْبَلَ عَلَیَّ، فَعَذَمَنِیْ، وَعَضَّنِیْ بِلِسَانِہٖ، فَقَالَ: اَنْکَحْتُکَ امْرَاَۃً مِّنْ قُرَیْشٍ ذَاتَ حَسَبٍ فَعَضَلْتَھَا، وَفَعَلْتَ وَفَعَلْتَ! ثُمَّ انْطَلَقَ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَشَکَانِیْ، فَاَرْسَلَ اِلَیَّ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاَتَیْتُہُ، فَقَالَ لِیْ: ((اَتَصُوْمُ النَّھَارَ؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ((وَتَقُوْمُ اللَّیْلَ؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ((لٰکِنِّیْ اَصُوْمُ وَاُفْطِرُ، وَاُصَلِّیْ وَاَنَامُ، وَاَمَسُّ النِّسَائَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ۔)) قَالَ: ((اقْرَاِ الْقُرْآنَ فِیْ کُلِّ شَہْرٍ۔)) قُلْتُ: اِنِّیْ اَجِدُنِیْ اَقْوٰی مِنْ ذٰلِکَ، قَالَ: ((فَاقْرَاْہُ فِیْ کُلِّ عَشَرَۃِ اَیَّامٍ۔)) قُلْتُ: اِنِّیْ اَجِدُنِیْ اَقْوٰی مِنْ ذٰلِکَ، قَالَ اَحَدُھُمَا اَمَّا حُصِیْنٌ وَاَمَّا مُغِیْرَۃُ، قَالَ: ((فَاقْرَاْہُ فِیْ کُلِّ ثَلاثٍ۔)) وَفِیْ رِوَایَۃٍ قَالَ: ((فَاقْرَاْہُ فِیْ کُلِّ سَبْعٍ لَا تَزِیْدَنَّ عَلٰی ذٰلِکَ۔)) قَالَ: ثُمَّ قَالَ: (( صُمْ فِیْ کُلِّ شَھْرٍ ثَلاثَۃَ اَیَّامٍ۔)) قُلْتُ: اِنِّیْ اَقْوٰی مِنْ ذٰلِکَ، قَالَ: فَلَمْ یَزَلْ یَرْفَعُنِیْ، حَتّٰی قَالَ: ((صُمْ یَوْمًا وَاَفْطِرْ یَوْمًا فَاِنَّہُ اَفْضَلُ الصَّیَامِ، وَھُوَ صِیَامُ اَخَیْ دَاوُدَ عَلَیْہِ السَّلَامُ۔)) قَالَ: حُصَیْنٌ فِیْ حَدَیْثِہِ ثُمَّ قَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (( فَاِنَّ لِکُلِّ عَابِدٍ شِرَّۃً، وَلِکُلِّ شِرَّۃٍ فَتْرَۃٌ، فَاِمَّا اِلٰی سُنَّۃٍ، وَاِمَّا اِلٰی بِدْعَۃٍ، فَمَنْ کَانَتْ فَتْرَتُہُ اِلٰی سُنَّۃٍ فَقَدِ اھْتَدٰی، وَمَنْ کَانَتْ فَتْرَتُہُ اِلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ فَقَدْ ھَلَکَ۔)) قَالَ مُجَاھِدٌ: فَکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو، حَیْثُ قَدْ ضَعُفَ وَکَبِرَ، یَصُوْمُ الْاَیَّامَ کَذٰلِکَ، یَصِلُ بَعْضَھَا اِلٰی بَعْضٍ، لِیَتَقَوّٰی بِذٰلِکَ، ثُمَّ یُفْطِرُ بَعْدَ تِلْکَ الْاَیَّامِ، قَالَ: وَکَانَ یَقْرُاُ فِیْ کِلِّ حِزْبٍ کَذٰلِکَ، یَزِیْدُ اَحْیَانًا، وَیَنْقُصُ اَحْیَانًا، غَیْرَ اَنَّہٗ یُوفِی الْعَدَدَ، اِمَّا فِیْ سَبْعٍ، وَاِمَّا فِیْ ثَلاثٍ، قَالَ: ثُمَّ کَانَ یَقُوْلُ بَعْدَ ذٰلِکَ: لَاَنْ اَکُوْنَ قَبِلْتُ رُخْصَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا عُدِلَ بِہٖ (اَوْ عَدَلَ)، لٰکِنِّیْ فَارَقْتُہُ عَلٰی اَمْرٍ اَکْرَہُ اَنْ اُخَالِفَہُ اِلیٰ غَیْرِہِ۔ (مسند احمد: ۶۴۷۷)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: میرے باپ نے ایک قریشی عورت سے میری شادی کر ! جو چیز آدمی کے پاس نہ ہو اس کو بیچنا جائز نہیں۔ اسی طرح کچے پھل کی بیع بھی درست نہیں البتہ بیع سلم میں معاملہ طے کرتے وقت بائع کے پاس چیز کا موجود ہونا شرط نہیں امام بخاری نے اس حوالہ سے باب قائم کیا ہے۔ تفصیل دیکھیں، صحیح بخاری: ۲۲۴۴ اور اس کا باب۔ (عبداللہ رفیق) دی، جب میں اس پر داخل ہوا تو میں نے اس کا کوئی اہتمام نہ کیا اور نہ اس کو وقت دیا، کیونکہ مجھے روزے اور نماز کی صورت میں عبادت کرنے کی بڑی قوت دی گئی تھی، جب سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی بہو کے پاس آئے اور اس سے پوچھا: تو نے اپنے خاوند کو کیسا پایا ہے؟ اس نے کہا: وہ بہترین آدمی ہے، یا وہ بہترین خاوند ہے، اس نے نہ میرا پہلو تلاش کیا اور نہ میرے بچھونے کو پہچانا (یعنی وہ عبادت میں مصروف رہنے کی وجہ سے اپنی بیوی کے قریب تک نہیں گیا )۔ یہ کچھ سن کر میرا باپ میری طرف متوجہ ہوا اور مجھے بہت ملامت کی اور برا بھلا کہا اور کہا: میں نے حسب و نسب والی قریشی خاتون سے تیری شادی کی ہے اور تو اس سے الگ تھلگ ہو گیا اور تو نے ایسے ایسے کیا ہے، پھر وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف چلے گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے میرا شکوہ کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بلایا اور میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تو دن کو روزہ رکھتا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اور رات کو قیام کرتا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لیکن میں تو روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور حق زوجیت بھی ادا کرتا ہوں، جس نے میری سنت سے بے رغبتی اختیار کی، وہ مجھ سے نہیں ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو ایک ماہ میں قرآن مجید کی تلاوت مکمل کیا کر۔ میںنے کہا: میں اپنے آپ کو اس سے زیادہ قوی پاتاہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر دس دنوں میں مکمل کر لیا کرو۔ میں نے کہا: جی میںاپنے آپ کو اس سے زیادہ قوت والا سمجھتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تین دنوں میں ختم کر لیا کرو۔ ایک روایت میں ہے: تو سات دنوں میں تلاوت مکمل کر لیا کر اور ہر گز اس سے زیادہ تلاوت نہ کر۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر ماہ میں تین روزے رکھا کر۔ میں نے کہا: جی میں اس سے زیادہ طاقتور ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے آگے بڑھاتے گئے، یہاں تک کہ فرمایا: ایک دن روزہ رکھ لیا کر اور ایک دن افطار کر لیا کر، یہ افضل روزے ہیں اور یہ میرے بھائی داود علیہ السلام کے روزے ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر عبادت گزار میں حرص اور رغبت پیدا ہوتی ہے، پھر ہر رغبت کے بعد آخر سستی اور کمی ہو تی ہے، اس کا انجام سنت کی طرف ہوتا ہے یا بدعت کی طرف، پس جس کا انجام سنت کی طرف ہوتا ہے، وہ ہدایت پا جائے گا، اور جس کا انجام کسی اور شکل میں ہو گا، وہ ہلاک ہو جائے گا۔ امام مجاہد کہتے ہیں: جب سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کمزور اور بوڑھے ہو گئے تو وہ اسی مقدار کے مطابق روزے رکھتے تھے، بسا اوقات چند روزے لگاتار رکھ لیتے، پھر اتنے ہی دن لگاتار افطار کر لیتے، اس سے ان کا مقصد قوت حاصل کرنا ہوتا تھا، اسی طرح کا معاملہ اپنے قرآنی حزب میں کرتے تھے، کسی رات کو زیادہ حصہ تلاوت کر لیتے اور کسی رات کو کم کر لیتے، البتہ ان کی مقدار وہی ہوتی تھی،یا تو سات دنوں میں قرآن مجید مکمل کر لیتے،یا تین دنوں میں۔ اور سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بعد میں کہا کرتے تھے: اگر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رخصت قبول کر لی ہوتی تو وہ مجھے دنیا کی ہر اس چیز سے محبوب ہوتی، جس کا بھی اس سے موازنہ کیا جاتا، لیکن میں عمل کی جس روٹین پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جدا ہوا تھا، اب میں ناپسند کرتا ہوں کہ اس کی مخالفت کروں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11813

۔ (۱۱۸۱۳)۔ عَنْ اَبِی سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو (بْنِ الْعَاصِ) ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَقَدْ اُخْبِرْتُ اَنَّکَ تَقُوْمُ اللَّیْلَ وَتَصُوْمُ النَّہَارَ؟)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! نَعَمْ، قَالَ: ((فَصُمْ وَاَفْطِرْ وَصَلِّ وَنَمْ، فَإِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَیْکَ حَقَّا، وَإِنَّ لِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقَّا، وَإِنَّ لِزَوْْرِکَ عَلَیْکَ حَقَّا، وَإِنَّ بِحَسْبِکَ اَنْ تَصُوْمَ مِنْ کُلِّ شَہْرِ ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ۔)) قَالَ: فَشَدَّدْتُّ فَشَدَّدَ عَلَیَّ، قَالَ: فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنِّی اَجِدُ قُوَّۃً، قَالَ: ((فَصُمْ مِنْ کُلِّ جُمُعَۃٍ ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ۔)) قَالَ: فَشَدَّدْتُّ فَشَدَّدَ عَلَیَّ، قَالَ: فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنِّی اَجِدُ قُوَّۃً، قَالَ: ((صُمْ صَوْمَ نَبِیِّ اللّٰہِ دَاوُدَ وَلَا تَزِدْ عَلَیْہِ۔)) قَالَ: فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَمَا کَانَ صِیَامُ دَاوُدَ (عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ) قَالَ: ((کَانَ یَصُوْمُ یَوْمًا وَیُفْطِرُ یَوْمًا۔)) (مسند احمد: ۶۸۶۷)
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ تم ساری رات قیام کرتے ہو اور ہر روز روزہ رکھتے ہو۔ میں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: روزہ رکھا کروا ور ناغہ بھی کیا کرو اوررات کو قیام بھی کیا کر اور سویا بھی کر، کیونکہ تیرے جسم کا تجھ پر حق ہے، تیری اہلیہ کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے مہمان کا تجھ پر حق ہے، مہینہ میں تین روزے رکھ لیا کر،اتنے ہی تیرے لیے کافی ہیں۔ لیکن ہوا یوں کہ میں نے سختی کی،اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بھی مجھ پر سختی فرمائی۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے اندر اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تو ہر ہفتہ میں تین دن روزے رکھ لیا کر۔ لیکن میں نے سختی کی اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بھی مجھ پر سختی کی اور میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے اندر اس سے زیادہ روزے رکھنے کی قوت ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تو اللہ کے نبی دائود علیہ السلام کی طرح روزے رکھ لیا کر اور ان پر اضافہ نہ کر۔ میں نے کہا:اے اللہ کے رسول! دائود علیہ السلام کیسے روزے رکھتے تھے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن ناغہ کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11814

۔ (۱۱۸۱۴)۔ عَنْ یَحْیٰی بْنِ حَکِیْمٍ بْنِ صَفْوَانَ اَنَّ عَبْدَاللّٰہِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: جَمَعْتُ الْقُرْآنَ فَقَرأْتُہُ فِیْ لَیْلَۃٍ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِنِّیْ اَخْشٰی اَنْ یَطُوْلَ عَلَیْکَ الزَّمَانُ وَاَنْ تَمَلَّ، اِقْرَائْ بِہِ فِیْ کُلِّ شَہْرٍ قُلْتُ اَیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ دَعْنِیْ اَسْتَمْتِعُ مِنْ قُوَّتِیْ وَمِنْ شَبَابِیْ قَالَ اِقْرَئْ بِہِ فِیْ عِشْرِیْنَ قُلْتُ اَیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ دَعْنِیْ اَسْتَمْتِعُ مِنْ قُوَّتِیْ وَشَبَابِیْ قَالَ اِقْرَئْ بِہِ فِی عَشْرٍ قُلْتُ یَارَسُوْلِ اللّٰہِ دَعْنِیْ اَسْتَمْتِعُ مِنْ قُوَّتِیْ وَشَبَابِیْ قَالَ اِقْرَئْ بِہِ فِیْ کُلِّ سَبْعٍ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ دَعْنِیْ اَسْتَمْتِعُ مِنْ قُوَّتِیْ وَمِنْ شَبَابِیْ فَاَبٰی۔
یحییٰ بن حکیم بن صفوان بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص نے فرمایا کہ میں نے پورا قرآن مجید حفظ کیا اور پھر ایک ہی رات میں اسے پڑھا۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے خطرہ ہے کہ زمانہ تجھ پر لمبا ہو جائے گا اور تو اکتاہٹ کا شکار ہو جائے گا، اس لیے ایک ماہ میں قرآن مجید مکمل کر۔ وہ کہتے ہیں میں نے کہا اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں، میں اپنی قوت اور جوانی سے فائدہ اٹھائوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیس دن میں قرآن مکمل پڑھ لو، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں، میں اپنی قوت اور جوانی سے فائدہ اٹھائوں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دس دن میں پڑھ لو۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں میں اپنی قوت اور جوانی سے فائدہ اٹھائوں۔ آپ نے فرمایا: سات دن میں قرآن مکمل کرلو۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں کہ میں اپنی قوت اور جوانی سے فائدہ اٹھائوں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے کم مدت میں قرآنِ مجید ختم کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11815

۔ (۱۱۸۱۵)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: کُنْتُ أَکْتُبُ کُلَّ شَیْئٍ أَسْمَعُہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُرِیدُ حِفْظَہُ فَنَہَتْنِی قُرَیْشٌ فَقَالُوْا: إِنَّکَ تَکْتُبُ کُلَّ شَیْئٍ تَسْمَعُہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَشَرٌ یَتَکَلَّمُ فِی الْغَضَبِ وَالرِّضَا، فَأَمْسَکْتُ عَنِ الْکِتَابِ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((اکْتُبْ فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ مَا خَرَجَ مِنِّی إِلَّا حَقٌّ۔)) (مسند احمد: ۶۵۱۰)
سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اللہ کے رسول سے جو کچھ سنتا،اسے حفظ کرنے کی غرض سے لکھ لیتا تھا،لیکن قریش نے مجھے اس سے منع کیا اور کہا: تم اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جو کچھ سنتے ہو لکھ لیتے ہو، حالانکہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بشر ہیں، آپ کبھی غصے کی حالت میں بات کر رہے ہوتے ہیں اور کبھی معمول کی حالت میں۔ چنانچہ میں نے آپ کیباتیں لکھنا چھوڑ دیں، لیکن جب میں نے اس بات کا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم لکھ لیا کرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میرے منہ سے حق کے سوا کوئی بات ادا نہیں ہوتی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11816

۔ (۱۱۸۱۶)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: سَمِعْنَاہُ یَقُولُ: مَا کَانَ أَحَدٌ أَعْلَمَ بِحَدِیثِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنِّی إِلَّا مَا کَانَ مِنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو، فَإِنَّہُ کَانَ یَکْتُبُ بِیَدِہِ وَیَعِیہِ بِقَلْبِہِ، وَکُنْتُ أَعِیہِ بِقَلْبِی وَلَا أَکْتُبُ بِیَدِی، وَاسْتَأْذَنَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْکِتَابِ عَنْہُ فَأَذِنَ لَہُ۔ (مسند احمد: ۹۲۲۰)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سوا کوئی صحابی احادیث رسول کے بارے میں مجھ سے زیادہ علم نہیں رکھتا تھا، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ احادیث لکھ کر زبانییاد کرتے تھے اور میں محض زبانی طور پر یاد کرتا تھا، لکھتا نہیں تھا، انہوںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے احادیث لکھنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے ان کو اجازت دے دی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11817

۔ (۱۱۸۱۷)۔ (وَعَنْہٗ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) قَالَ: لَیْسَ أَحَدٌ أَکْثَرَ حَدِیْثًا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنِّیْ اِلَّا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرٍو، فَأَنَّہُ کَانَ یَکْتُبُ وَکُنْتُ لَا اَکْتُبُ۔ (مسند احمد: ۷۳۸۳)
۔ (دوسری سند) سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سوا کوئی آدمی احادیث کا علم مجھ سے زیادہ نہیں رکھتا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ احادیث کو لکھ لیتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11818

۔ (۱۱۸۱۸)۔ عَنْ حَنْظَلَۃَ بْنِ خُوَیْلِدٍ الْعَنْزِیِّ قَالَ: بَیْنَمَا أَنَا عِنْدَ مُعَاوِیَۃَ إِذْ جَائَہُ رَجُلَانِ یَخْتَصِمَانِ فِی رَأْسِ عَمَّارٍ یَقُولُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا: أَنَا قَتَلْتُہُ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو: لِیَطِبْ بِہِ أَحَدُکُمَا نَفْسًا لِصَاحِبِہِ، فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((تَقْتُلُہُ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ۔)) قَالَ مُعَاوِیَۃُ: فَمَا بَالُکَ مَعَنَا؟ قَالَ: إِنَّ أَبِی شَکَانِی إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((أَطِعْ أَبَاکَ مَا دَامَ حَیًّا وَلَا تَعْصِہِ۔)) فَأَنَا مَعَکُمْ وَلَسْتُ أُقَاتِلُ۔ (مسند احمد: ۶۹۲۹)
حنظلہ بن خویلد عنبری سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں حاضر تھا کہ دو آدمیوں نے ان کے ہاں آکر سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سر کے بارے میں جھگڑنا شروع کر دیا، ہر ایک کا دعویٰ تھا کہ اس نے ان کو قتل کیا ہے،ان کی باتیں سن کر سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم میں سے ہر ایک اپنے اس کارنامے پر اپنا دل خوش کر لے، میں نے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا ہے کہ باغی گروہ اسے قتل کرے گا۔ ان سے یہ حدیث سن کر سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر یہ بات ہے توپھر آپ ہمارا ساتھ کیوں دیتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: میرے والد نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے میری شکایت کی تھی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایاتھا: تمہارا والد جب تک زندہ ہے، تم اس کی اطاعت کرتے رہو۔ اس حدیث کی وجہ سے میں آپ لوگوں کے ساتھ ہوں، لیکن پھر بھی لڑائی میں حصہ نہیں لیتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11819

۔ (۱۱۸۱۹)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِی الْہُذَیْلِ، عَنْ شَیْخٍ مِن النَّخَعِ قَالَ: دَخَلْتُ مَسْجِدَ إِیلِیَائَ فَصَلَّیْتُ إِلٰی سَارِیَۃٍ رَکْعَتَیْنِ، فَجَائَ رَجُلٌ فَصَلّٰی قَرِیبًا مِنِّی، فَمَالَ إِلَیْہِ النَّاسُ فَإِذَا ہُوَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، فَجَائَہُ رَسُولُ یَزِیدَ بْنِ مُعَاوِیَۃَ أَنْ أَجِبْ، قَالَ: ہٰذَا یَنْہَانِی أَنْ أُحَدِّثَکُمْ کَمَا کَانَ أَبُوہُ یَنْہَانِی، وَإِنِّی سَمِعْتُ نَبِیَّکُمْ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((أَعُوذُ بِکَ مِنْ نَفْسٍ لَّا تَشْبَعُ، وَمِنْ قَلْبٍ لَّا یَخْشَعُ، وَمِنْ دُعَائٍ لَا یُسْمَعُ، وَمِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ۔)) أَعُوذُ بِکَ مِنْ ہٰؤُلَائِ الْأَرْبَعِ۔ (مسند احمد: ۶۸۶۵)
عبداللہ بن ابی ہذیل سے روایت ہے، وہ قبیلہ نخع کے ایک شیخ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں نے ایلیا کی مسجد (یعنی بیت المقدس) میں داخل ہوا اور میں نے ایک ستون کے پیچھے دو رکعت نماز ادا کی، ایک اور آدمی نے بھی آکر میرے قریب نماز ادا کی، لوگ اس کی طرف امڈ کر گئے۔ وہ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔ یزید بن معاویہ کا قاصد ان کو بلانے آیا تو وہ کہنے لگے: وہ مجھے احادیث بیان کرنے سے منع کرتا ہے، جیسا کہ اس کا والد بھی مجھے رو کا کرتا تھا۔ میں تمہارے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ دعائیں کرتے سن چکا ہوں: أَعُوذُ بِکَ مِنْ نَفْسٍ لَّا تَشْبَعُ، وَمِنْ قَلْبٍ لَّا یَخْشَعُ، وَمِنْ دُعَائٍ لَا یُسْمَعُ، وَمِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ۔ (اے اللہ! میں تجھ سے پناہ چاہتا ہوں، ایسے نفس سے جو سیر نہیں ہوتا، ایسے دل سے جو ڈرتا نہ ہو، ایسی دعا سے جو سنی نہ جاتی ہو اور ایسے علم سے جو نفع بخش نہ ہو۔)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11820

۔ (۱۱۸۲۰)۔ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ: لَمَّا قُتِلَ أَبِی، قَالَ: جَعَلْتُ أَکْشِفُ الثَّوْبَ عَنْ وَجْہِہِ، قَالَ: فَجَعَلَ الْقَوْمُ یَنْہَوْنِی وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا یَنْہَانِی، قَالَ: فَجَعَلَتْ عَمَّتِی فَاطِمَۃُ بِنْتُ عَمْرٍو تَبْکِی، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَتَبْکِینَ أَوْ لَا تَبْکِینَ مَا زَالَتْ الْمَلَائِکَۃُ تُظِلُّہُ بِأَجْنِحَتِہِمْ حَتّٰی رَفَعْتُمُوہُ۔)) قَالَ حَجَّاجٌ فِی حَدِیثِہِ: تُظَلِّلُہُ۔ (مسند احمد: ۱۴۲۳۶)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:جب میرے والد کی شہادت ہوئی تو میں ان کے چہرے سے کپڑا ہٹانے لگا،لوگ مجھے ایسا کرنے سے روکنے لگے، لیکن رسول اللہ نہیں روکتے تھے، میری پھوپھی سیدہ فاطمہ بنت عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا رونے لگیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو مت روؤ یا نہ روؤ، تم نے جب تک اس میت کو اٹھایا نہیں، فرشتوں نے اس پر سایہ کئے رکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11821

۔ (۱۱۸۲۱)۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا جَابِرُ! أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ أَحْیَا أَبَاکَ فَقَالَ لَہُ: تَمَنَّ عَلَیَّ، فَقَالَ: أُرَدُّ إِلَی الدُّنْیَا فَأُقْتَلُ مَرَّۃً أُخْرٰی، فَقَالَ: إِنِّی قَضَیْتُ الْحُکْمَ أَنَّہُمْ إِلَیْہَا لَا یُرْجَعُونَ۔)) (مسند احمد: ۱۴۹۴۲)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جابر! کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کو زندہ کرکے اس سے فرمایا: تم مجھ سے جو چاہو مانگو میں تمہیں دوں گا۔ تیرے والد نے کہا: مجھے دنیا میں واپس بھیج دیا جائے، تاکہ میں دوبارہ شہیدہو سکوں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:یہ تو میں فیصلہ کر چکا ہوں کہ ان لوگوں کو دنیا میں دوبارہ نہیں بھیجا جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11822

۔ (۱۱۸۲۲)۔ عَنْ جَابِرٍ یَقُولُ: اسْتُشْہِدَ أَبِی بِأُحُدٍ، فَأَرْسَلْنَنِی أَخَوَاتِی إِلَیْہِ بِنَاضِحٍ لَہُنَّ فَقُلْنَ: اذْہَبْ فَاحْتَمِلْ أَبَاکَ عَلٰی ہٰذَا الْجَمَلِ، فَادْفِنْہُ فِی مَقْبَرَۃِ بَنِی سَلِمَۃَ، قَالَ: فَجِئْتُہُ وَأَعْوَانٌ لِی، فَبَلَغَ ذٰلِکَ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ جَالِسٌ بِأُحُدٍ فَدَعَانِی وَقَالَ: ((وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَا یُدْفَنُ إِلَّا مَعَ إِخْوَتِہِ۔)) فَدُفِنَ مَعَ أَصْحَابِہِ بِأُحُدٍ۔ (مسند احمد: ۱۵۳۳۱)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میرے والد کی غزوۂ احد میں شہادت ہوئی، میری بہنوں نے اپنا اونٹ دے کر مجھے بھیجا کہ اپنے والد کی میت کو اس اونٹ پر لاد کر قبیلہ بنو سلمہ کے قبرستان میں دفن کروں، پس میں اور میرے ساتھی گئے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم احد کے مقام پر بیٹھے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ہمارے ارادے کا علم ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بلوا کر فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تمہارے باپ کو اس کے دوسرے شہید بھائیوں کے ساتھ ہی دفن کیاجائے گا۔ چنانچہ ان کو احد ہی میں دوسرے شہداء کے ساتھ دفن کیا گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11823

۔ (۱۱۸۲۳)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ الْمَدِینَۃِ إِلَی الْمُشْرِکِینَ لِیُقَاتِلَہُمْ، وَقَالَ لِی أَبِی عَبْدُ اللّٰہِ: یَا جَابِرُ لَا عَلَیْکَ أَنْ تَکُونَ فِی نَظَّارِی أَہْلِ الْمَدِینَۃِ حَتّٰی تَعْلَمَ إِلٰی مَا یَصِیرُ أَمْرُنَا، فَإِنِّی وَاللّٰہِ لَوْلَا أَنِّی أَتْرُکُ بَنَاتٍ لِی بَعْدِی لَأَحْبَبْتُ أَنْ تُقْتَلَ بَیْنَ یَدَیَّ، قَالَ: فَبَیْنَمَا أَنَا فِی النَّظَّارِینَ إِذْ جَائَ تْ عَمَّتِی بِأَبِی وَخَالِی عَادِلَتَہُمَا عَلٰی نَاضِحٍ، فَدَخَلَتْ بِہِمَا الْمَدِینَۃَ لِتَدْفِنَہُمَا فِی مَقَابِرِنَا، إِذْ لَحِقَ رَجُلٌ یُنَادِی أَلَا إِنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَأْمُرُکُمْ أَنْ تَرْجِعُوْا بِالْقَتْلٰی فَتَدْفِنُوہَا فِی مَصَارِعِہَا حَیْثُ قُتِلَتْ، فَرَجَعْنَا بِہِمَا فَدَفَنَّاہُمَا حَیْثُ قُتِلَا، فَبَیْنَمَا أَنَا فِی خِلَافَۃِ مُعَاوِیَۃَ بْنِ أَبِی سُفْیَانَ إِذْ جَائَنِی رَجُلٌ فَقَالَ: یَا جَابِرُ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ! وَاللّٰہِ لَقَدْ أَثَارَ أَبَاکَ عَمَلُ مُعَاوِیَۃَ فَبَدَا فَخَرَجَ طَائِفَۃٌ مِنْہُ فَأَتَیْتُہُ فَوَجَدْتُہُ عَلَی النَّحْوِ الَّذِی دَفَنْتُہُ لَمْ یَتَغَیَّرْ إِلَّا مَا لَمْ یَدَعِ الْقَتْلُ أَوْ الْقَتِیلُ فَوَارَیْتُہُ۔ (مسند احمد: ۱۵۳۵۵)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مشرکین سے قتال کرنے کی غرض سے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے، میرے والد عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں کہ تم اہل مدینہ کے ساتھ رہو اور اس جنگ کے انجام کو دیکھو۔ اللہ کی قسم! اگر میں اپنے بعد اپنی بیٹیوں کو نہ چھوڑ کر جا رہا ہوتا تو میں یہ پسند کرتا کہ تم میری نظروں کے سامنے شہید ہو جائو۔ اب میں مدینہ منورہ میں جنگ کے نتیجہ کی انتظار رہی میں تھا کہ میری پھوپھی میرے والد اور ماموں عمرو بن جموح کو اونٹ پر رکھے ہوئے آگئیں، میں انہیں لے کر مدینہ منورہ لے گیا تاکہ ان کو اپنے آبائی قبرستان میں دفن کروں، اتنے میں ایک اعلان کرنے والے نے اعلان کیا کہ خبر دار! نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم شہداء کو واپس احد لے جا کر ان کے شہید ہونے کے مقامات پر ہی دفن کرو۔ چنانچہ ہم نے ان کو واپس لے جا کر ان کے مقام شہادت پر دفن کیا۔ سیدنا معاویہ بن ابی سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا دور خلافت تھا کہ ایک آدمی نے آکر مجھ سے کہا: اے جابر بن عبداللہ! سیدنا معاویہ بن ابی سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے اہل کاروں نے تمہارے باپ کی قبر کو کھول ڈالا ہے اور ان کی میت ظاہر ہو گئی ہے اور اس کا کچھ حصہ قبر سے باہر نکل آیا ہے۔ میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ میں نے ان کو جس حال میں دفن کیا تھا، وہ اسی طرح تھے، ان میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی، البتہ قتل والے زخم بدلے ہوئے تھے، چنانچہ میں نے ان کو دوبارہ دفن کردیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11824

۔ (۱۱۸۲۴)۔ ثَنَا جَرِیرٌ یَعْنِی ابْنَ حَازِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ: أَرَأَیْتَ رَجُلًا مَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یُحِبُّہُ أَلَیْسَ رَجُلًا صَالِحًا؟ قَالَ: بَلٰی، قَالَ: قَدْ مَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یُحِبُّکَ وَقَدِ اسْتَعْمَلَکَ، فَقَالَ: قَدِ اسْتَعْمَلَنِی فَوَاللّٰہِ مَا أَدْرِی أَحُبًّا کَانَ لِی مِنْہُ أَوْ اسْتِعَانَۃً بِی، وَلٰکِنْ سَأُحَدِّثُکَ بِرَجُلَیْنِ مَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یُحِبُّہُمَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُودٍ وَعَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ۔ (مسند احمد: ۱۷۹۶۰)
حسن بصری سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے سیدنا عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: آپ کی اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے، جس سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تا حیات محبت کرتے رہے ہوں، کیا وہ صالح آدمی نہیں ہوگا؟ انہوںنے کہا: کیوں نہیں، تو اس نے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دنیا سے تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کو اپناعامل بنا کر بھیجا ہوا تھا، سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: انہوں نے مجھے عامل تو بنایا تھا، اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ مجھ سے محبت کی وجہ سے یا میری مدد کرنے کے لیے مجھے عامل بنایا تھا، البتہ میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دنیا سے تشریف لے گئے تو آپ دو آدمیوں سے محبت کرتے تھے، ایک سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور دوسرے سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11825

۔ (۱۱۸۲۵)۔ عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ: أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَتَاہُ بَیْنَ أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ، وَعَبْدُ اللّٰہِ یُصَلِّی فَافْتَتَحَ النِّسَائَ فَسَحَلَہَا، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَقْرَأَ الْقُرْآنَ غَضًّا کَمَا أُنْزِلَ فَلْیَقْرَأْہُ عَلٰی قِرَائَ ۃِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ۔)) ثُمَّ تَقَدَّمَ یَسْأَلُ فَجَعَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((سَلْ تُعْطَہْ، سَلْ تُعْطَہْ، سَلْ تُعْطَہْ۔)) فَقَالَ فِیمَا سَأَلَ: اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ إِیمَانًا لَا یَرْتَدُّ، وَنَعِیمًا لَا یَنْفَدُ، وَمُرَافَقَۃَ نَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی أَعْلٰی جَنَّۃِ الْخُلْدِ، قَالَ: فَأَتٰی عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَبْدَ اللّٰہِ لِیُبَشِّرَہُ، فَوَجَدَ أَبَا بَکْرٍ رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِ قَدْ سَبَقَہُ فَقَالَ: إِنْ فَعَلْتَ لَقَدْ کُنْتَ سَبَّاقًا بِالْخَیْرِ۔ (مسند احمد: ۴۲۵۵)
سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ رات کو نماز ادا کر رہے تھے کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہمراہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس تشریف لائے، انھوں نے سورۂ نساء کی تلاوت شروع کی اور اس کی مکمل تلاوت کی تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو کوئی قرآن کو اسی طرح پڑھنا چاہتا ہو، جیسا کہ وہ نازل ہواتھا تو وہ ابن ام عبد یعنی ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی قرأت کے مطابق تلاوت کیا کرے۔ پھر وہ آگے بڑھے اور سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سوال کرنے لگے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمانے لگے : تم اللہ سے مانگو تمہیں دیا جائے گا، تم اللہ سے مانگو تمہیں دیا جائے گا، تم اللہ سے مانگو تمہیں دیا جائے گا۔ تو انہوں نے اپنی دعاؤں میں سے یہ دعا بھی کی: اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ إِیمَانًا لَا یَرْتَدُّ، وَنَعِیمًا لَا یَنْفَدُ، وَمُرَافَقَۃَ نَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی أَعْلٰی جَنَّۃِ الْخُلْدِ (یا اللہ! میں تجھ سے ایسے ایمان کی دعا کرتا ہوں جو مجھ سے واپس نہ جائے، ایسی نعمتوں کا سوال کرتا ہوں جو کبھی زائل نہ ہوں اور میں تجھ سے ہمیشہ والی جنت کے اعلیٰ مقامات میں تیرے نبی کاساتھ چاہتا ہوں۔) اس کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کو بشارت دینے کے لیے آئے تو انھوں نے دیکھا کہ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس بارے میں ان سے سبقت لے جا چکے تھے۔ تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگرچہ آپ نے یہ کام کیا ہے، مگر صورتحال یہ ہے کہ آپ ہر اچھے کام میں سبقت لے جاتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11826

۔ (۱۱۸۲۶)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: مَرَّ بِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا أُصَلِّی، فَقَالَ: ((سَلْ تُعْطَہْ یَا ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ۔)) فَابْتَدَرَ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَ قَالَ عُمَرُ: مَا بَادَرَنِی أَبُو بَکْرٍ إِلٰی شَیْئٍ إِلَّا سَبَقَنِی إِلَیْہِ أَبُو بَکْرٍ، فَسَأَلَاہُ عَنْ قَوْلِہِ، فَقَالَ: مِنْ دُعَائِی الَّذِی لَا أَکَادُ أَدَعُ اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ نَعِیمًا لَا یَبِیدُ، وَقُرَّۃَ عَیْنٍ لَا تَنْفَدُ، وَمُرَافَقَۃَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُحَمَّدٍ فِی أَعْلَی الْجَنَّۃِ جَنَّۃِ الْخُلْدِ۔ (مسند احمد: ۴۱۶۵)
سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میں نماز ادا کر رہا تھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس سے گزرے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ام عبد کے بیٹے! تو جو چاہے دعا کر تجھے عطا کیا جائے گا۔ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے اس خوشی سے آگاہ کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جس کام میں بھی میرے ساتھ مقابلہ کیا تو وہ مجھ سے سبقت لے گئے۔دونوں نے عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ انہوں نے اس رات کو کیا دعا کی تھی، انھوں نے بتلایا کہ میں نے وہ دعا کی تھی، جس کو میں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوں، میں نے کہا تھا: اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ نَعِیمًا لَا یَبِیدُ، وَقُرَّۃَ عَیْنٍ لَا تَنْفَدُ، وَمُرَافَقَۃَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُحَمَّدٍ فِی أَعْلَی الْجَنَّۃِ جَنَّۃِ الْخُلْدِ۔ (یا اللہ! میں تجھ سے ایسی نعمتوں کا سوال کرتا ہوں جو کبھی زائل نہ ہوں،آنکھوں کی ایسی ٹھنڈک کا سوال کرتا ہوں، جو کبھی ختم نہ ہوں او ر جنت کے اعلیٰ مقامات میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ساتھ چاہتا ہوں۔)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11827

۔ (۱۱۸۲۷)۔ وَعَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَوْ کُنْتُ مُؤَمِّرًا أَحَدًا دُوْنَ مَشْوَرِۃِ الْمُؤْمِنِیْنَ لَأَمَّرْتُ اِبْنَ أُمِّ عَبْدٍ۔)) (مسند احمد: ۵۶۶)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کابیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر میں نے کسی کی مشاورت کے بغیر کسی کو امیر بنانا ہوتا تو میں ام عبد کے بیٹےیعنی عبداللہ بن مسعود کو امیر بناتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11828

۔ (۱۱۸۲۸)۔ وَعَنْ أُمِّ مُوسٰی، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُولُ: أَمَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابْنَ مَسْعُودٍ فَصَعِدَ عَلٰی شَجَرَۃٍ، أَمَرَہُ أَنْ یَأْتِیَہُ مِنْہَا بِشَیْئٍ، فَنَظَرَ أَصْحَابُہُ إِلٰی سَاقِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ حِینَ صَعِدَ الشَّجَرَۃَ فَضَحِکُوْا مِنْ حُمُوشَۃِ سَاقَیْہِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا تَضْحَکُونَ لَرِجْلُ عَبْدِ اللّٰہِ أَثْقَلُ فِی الْمِیزَانِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ أُحُدٍََََ۔)) (مسند احمد: ۹۲۰)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حکم دیا کہ وہ درخت پر چڑھ کر وہاں کوئی چیز اتار لائیں، وہ درخت پر چڑھے، جب صحابۂ کرام نے ان کے درخت پر چڑھتے ہوئے ان کی پتلی پتلی کم زور پنڈلیوں کو دیکھا تو وہ ہنسنے لگے، لیکن رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کیوں ہنستے ہو؟ قیامت کے دن عبداللہ کی ٹانگ ترازو میں احد پہاڑ سے زیادہ وزنی ہوگی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11829

۔ (۱۱۸۲۹)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّہُ کَانَ یَجْتَنِی سِوَاکًا مِنَ الْأَرَاکِ، وَکَانَ دَقِیق السَّاقَیْنِ، فَجَعَلَتِ الرِّیحُ تَکْفَؤُہُ، فَضَحِکَ الْقَوْمُ مِنْہُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مِمَّ تَضْحَکُونَ؟)) قَالُوْا: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ مِنْ دِقَّۃِ سَاقَیْہِ، فَقَالَ: ((وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَہُمَا أَثْقَلُ فِی الْمِیزَانِ مِنْ أُحُدٍٍٍٍٍ۔)) (مسند احمد: ۳۹۹۱)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ پیلو کے درخت سے مسواک توڑ رہے تھے، ان کی پنڈ لیاں کم زور تھیں،ہوا چلنے کی وجہ سے کپڑا اڑنے لگا تو لوگ ان کی باریک پنڈلیوں کو دیکھ کر ہنسنے لگ گئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: تم کس بات پہ ہنس رہے ہو؟ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! ان کی کم زور پنڈلیوں کو دیکھ کر ہنسی آرہی ہے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ پنڈلیاں ترازو میں احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہوں گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11830

۔ (۱۱۸۳۰)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیدَ قَالَ: أَتَیْنَا حُذَیْفَۃَ، فَقُلْنَا: دُلَّنَا عَلٰی أَقْرَبِ النَّاسِ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہَدْیًا وَسَمْتًا وَوَلَائً، نَأْخُذْ عَنْہُ وَنَسْمَعْ مِنْہُ، فَقَالَ: کَانَ أَقْرَبَ النَّاسِ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہَدْیًا وَسَمْتًا وَدَلًّا ابْنُ أُمِّ عَبْدٍ حَتّٰی یَتَوَارَی عَنِّی فِی بَیْتِہِ، وَلَقَدْ عَلِمَ الْمَحْفُوظُونَ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ الصَّلَاۃ وَالسَّلَامُ أَنَّ ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ مِنْ أَقْرَبِہِمْ إِلَی اللّٰہِ زُلْفَۃً (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: وَسِیْلَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)۔ (مسند احمد: ۲۳۷۳۲)
عبدالرحمن بن یزید سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں گئے اور ہم نے کہا آپ ہمیں کسی ایسے آدمی کی طرف راہ نمائی کریں جو اپنی سیرت، کردار اور عمل کے لحاظ سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سب سے زیادہ قریب ہو، تاکہ ہم اس سے کچھ حاصل کر سکیں اور اس سے احادیث کا سماع کر سکیں،انہوں نے کہا:سیرت، کردار اور عمل کے لحاظ سے ام عبد کے بیٹے سیدنا عبداللہ بن مسعود رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سب سے زیادہ قریب ہیں،یہاں تک کہ وہ گھر داخل ہو جائیں (یعنی ان کے گھر سے باہر کے تمام معمولات سنت نبوی کے مطابق ہوتے ہیں اور میں ان کے گھر کے اندرونی معمولات نہیں جانتا۔)ایک روایت میںیوں ہے:تم جس قسم کے آدمی کے متعلق پوچھتے ہو تو ایسا شخص عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہی ہے، گھر سے باہر آکر گھر جانے تک اس کے تمام معمولات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے معمولات کے مطابق ہوتے ہیں، اب میں یہ نہیں جانتا کہ گھر کے اندر ان کے معمولات کیا ہوتے ہیں؟ اصحاب محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میں سے اہل علم جانتے ہیں کہ ام عبد کے بیٹے عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان میں سے اللہ کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ قیامت کے دن ان سب سے بڑھ کر اللہ کے مقرب ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11831

۔ (۱۱۸۳۱)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِذْنُکَ عَلَیَّ أَنْ تَرْفَعَ الْحِجَابَ وَأَنْ تَسْتَمِعَ سِوَادِی حَتَّی أَنْہَاکَ۔)) قَالَ أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ: قَالَ أَبِیْ: بِسَوَادِیْ، سِرِّیْ، قَالَ: اَذِنَ لَہُ أَنْ یَسْمَعَ سِرَّہٗ۔ (مسند احمد: ۳۶۸۴)
سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پردہ کو اٹھا دیا جانا تمہارے لیے آگے آجانے کی اجازت کے مترادف ہے اور تم میری راز کی باتوں کو سننے کے بھی مجازہو، یہاں تک کہ میں تمہیں اس سے روک دوں۔ ابوعبدالرحمن نے کہا: سِوَاد کا معنی راز ہے، یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں راز کی باتیں سننے کی اجازت دے رکھی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11832

۔ (۱۱۸۳۲)۔ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: قَرَأْتُ مِنْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَبْعِینَ سُورَۃً، وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ لَہُ ذُؤَابَۃٌ فِی الْکُتَّابِ، (وَفِیْ لَفْظٍ: وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ غُلَامٌ لَہٗ ذُؤَابَتَانِ یَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ)۔ (مسند احمد: ۳۸۴۶)
عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ستر سورتیں براہ راست رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سیکھی ہیں۔ زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس وقت چھوٹے تھے اور زیر تعلیم تھے۔ انہوں نے لٹیں رکھی ہوئی تھیں۔ دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بچے تھے ان کی دولٹیں تھیں اور وہ بچوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11833

۔ (۱۱۸۳۳)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَل کُنْتُ أَرْعٰی غَنَمًا لِعُقْبَۃَ بْنِ أَبِی مُعَیْطٍ، فَمَرَّ بِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَبُو بَکْرٍ، فَقَالَ: ((یَا غُلَامُ ہَلْ مِنْ لَبَنٍ؟)) قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، وَلٰکِنِّی مُؤْتَمَنٌ، قَالَ: ((فَہَلْ مِنْ شَاۃٍ لَمْ یَنْزُ عَلَیْہَا الْفَحْلُ؟)) فَأَتَیْتُہُ بِشَاۃٍ فَمَسَحَ ضَرْعَہَا فَنَزَلَ لَبَنٌ فَحَلَبَہُ فِی إِنَائٍ فَشَرِبَ وَسَقَی أَبَا بَکْرٍ، ثُمَّ قَالَ لِلضَّرْعِ: ((اقْلِصْ۔)) فَقَلَصَ قَالَ: ثُمَّ أَتَیْتُہُ بَعْدَ ہٰذَا فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ عَلِّمْنِی مِنْ ہٰذَا الْقَوْلِ، قَالَ: ((فَمَسَحَ رَأْسِی وَقَالَ: یَرْحَمُکَ اللّٰہُ فَإِنَّکَ غُلَیِّمٌ مُعَلَّمٌ۔)) (وَفِیْ رِوَایَۃٍ) قَالَ: فَأَتَاہُ أَبُو بَکْرٍ بِصَخْرَۃٍ مَنْقُورَۃٍ فَاحْتَلَبَ فِیہَا فَشَرِبَ وَشَرِبَ أَبُو بَکْرٍ وَشَرِبْتُ، قَالَ: ثُمَّ أَتَیْتُہُ بَعْدَ ذٰلِکَ قُلْتُ: عَلِّمْنِی مِنْ ہٰذَا الْقُرْآنِ، قَالَ: ((إِنَّکَ غُلَامٌ مُعَلَّمٌ۔)) قَالَ: فَأَخَذْتُ مِنْ فِیہِ سَبْعِینَ سُورَۃً۔ (مسند احمد: ۴۴۱۲)
سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کابیان ہے، وہ کہتے ہیں: میں عقبہ بن ابی معیط کی بکریا ںچرایا کرتا تھا، رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میرے پاس سے گزرے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لڑکے! دودھ مل سکتا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، لیکنیہ میرے پاس امانت ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا اس ریوڑ میں کوئی ایسی بکری ہے، جس کی ابھی تک نر سے جفتی ہی نہ ہوئی ہو؟ تو میں ایک بکری پکڑ کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لے آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے تھنوں پر ہاتھ پھیرا تو دودھ اتر آیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک برتن میں دودھ دوہا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود بھی نوش فرمایا اور ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بھی دیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تھن سے فرمایا: سکڑ جا (یعنی پہلے کی طرح ہو جا)۔ پس وہ سکڑ کر اپنی پہلی حالت میں ہو گیا۔ سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:میں اس کے بعد ایک موقع پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ دعا مجھے بھی سکھا دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا: تجھ پر اللہ کی رحمت ہو، تو سیکھا سکھایا، پڑھا پڑھایا بچہ ہے۔ دوسری روایت میں ہے: ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ کی خدمت میں پیالےیا برتن کی طرح کا ایک پتھر لے کر آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس میں دودھ دوہا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود بھی نوش فرمایا اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیااور میں نے بھی پیا۔ سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:میں نے اس کے بعد ایک موقعہ پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: آپ مجھے بھی اس قرآن میں سے کچھ سکھا دیں،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پڑھا پڑھایا بچہ ہے۔ سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: چنانچہ میں نے ستر سورتیں براہ راست رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پڑھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11834

۔ (۱۱۸۳۴)۔ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: کُنَّا نَأْتِی عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرٍو فَنَتَحَدَّثُ عِنْدَہُ، فَذَکَرْنَا یَوْمًا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُودٍ فَقَالَ: لَقَدْ ذَکَرْتُمْ رَجُلًا لَا أَزَالُ أُحِبُّہُ مُنْذُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((خُذُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَۃٍ مِنْ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ۔)) فَبَدَأَ بِہِ، ((وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَأُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ، وَسَالِمٍ مَوْلٰی أَبِی حُذَیْفَۃَ۔)) (مسند احمد: ۶۷۹۵)
مسروق سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں جایا کرتے اور ان کے ہاں بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے، ہم نے ایک دن سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا تذکرہ کیا تو انھوں نے کہا: تم نے ایک ایسے آدمی کا نام لے دیا ہے کہ میں نے جب سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ حدیث سنی ہے، تب سے میں اس سے محبت کرتا ہوں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایاہے: تم لوگ چار آدمیوں سے قرآن کا علم حاصل کرو، ابن ام عبد، معاذ بن جبل، ابی بن کعب اور مولائے ابی حذیفہ سالم سے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سب سے پہلے ام عبد کے بیٹے سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا نام لیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11835

۔ (۱۱۸۳۵)۔ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِلْعَبَّاسٍ: ((ھٰذَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَجْوَدُ قُرَیْشٍ کَفًّا وَأَوْصَلُہَا۔)) (مسند احمد: ۱۶۱۰)
سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں فرمایا: یہ عباس بن عبد المطلب ہیں، جو کہ قریش میں سب سے زیادہ فراخ دست (یعنی سخی) اور سب سے بڑھ کر صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11836

۔ (۱۱۸۳۶)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ وَقَعَ فِی أَبٍ لِلْعَبَّاسِ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ فَلَطَمَہُ الْعَبَّاسُ، فَجَائَ قَوْمَہُ فَقَالُوْا: وَاللّٰہِ لَنَلْطِمَنَّہُ کَمَا لَطَمَہُ فَلَبِسُوا السِّلَاحَ، فَبَلَغَ ذٰلِکَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ: ((أَیُّہَا النَّاسُ أَیُّ أَہْلِ الْأَرْضِ أَکْرَمُ عَلَی اللّٰہِ؟)) قَالُوْا: أَنْتَ، قَالَ: ((فَإِنَّ الْعَبَّاسَ مِنِّی وَأَنَا مِنْہُ، فَلَا تَسُبُّوْا مَوْتَانَا فَتُؤْذُوْا أَحْیَائَ نَا۔)) فَجَائَ الْقَوْمُ فَقَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ نَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنْ غَضَبِکَ۔ (مسند احمد: ۲۷۳۴)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے والد پر طنز کیا، وہ دورِ جاہلیت میں فوت ہو گئے تھے، عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے (طیش میں آکر) اسے تھپڑ رسید کر دیا،انصاری کی قوم کے لوگ آگئے اور کہنے لگے: اللہ کی قسم، جس طرح اس نے تھپڑ مارا ہے، ہم بھی بدلے میں اسے ضرور تھپڑ ماریں گے، وہ لوگ اسلحہ سے مسلح ہو کر آ گئے۔ جب یہ بات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا: لوگو! روئے زمین کے لوگوں میں اللہ کے ہاں سب سے زیادہ معزز کون شخص ہے؟ لوگوں نے کہا: جی آپ ہیں ۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر عباس میرا ہے اور میں عباس کا ہوں، تم ہمارے فوت شدہ لوگوں کو برا بھلا کہہ کر ہمارے زندہ لوگوں کو ایذا نہ پہنچائو۔ پھر ان لوگوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر معذرت کرتے ہوئے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم آپ کے غصہ اور ناراضگی سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11837

۔ (۱۱۸۳۷)۔ عَنْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِیعَۃَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَ: دَخَلَ الْعَبَّاسُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُغْضَبًا، فَقَالَ لَہُ: ((مَا یُغْضِبُکَ؟)) قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا لَنَا وَلِقُرَیْشٍ إِذَا تَلَاقَوْا بَیْنَہُمْ تَلَاقَوْا بِوُجُوہٍ مُبْشِرَۃٍ، وَإِذَا لَقُونَا لَقُونَا بِغَیْرِ ذٰلِکَ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتَّی احْمَرَّ وَجْہُہُ وَحَتَّی اسْتَدَرَّ عِرْقٌ بَیْنَ عَیْنَیْہِ، وَکَانَ إِذَا غَضِبَ اسْتَدَرَّ فَلَمَّا سُرِّیَ عَنْہُ، قَالَ: ((وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ، (أَوْ قَالَ) وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ، لَا یَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الْإِیمَانُ حَتّٰی یُحِبَّکُمْ لِلَّہِ عَزَّ وَجَلَّ وَلِرَسُولِہِ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ! مَنْ آذَی الْعَبَّاسَ فَقَدْ آذَانِی، إِنَّمَا عَمُّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِیہِ۔)) (مسند احمد: ۱۷۶۵۷)
سیدنا عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب سے مروی ہے کہ سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غصے کی حالت میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے دریافت کیا: تمہیں کس بات پر غصہ آیا ہے؟ انہوںنے کہا: اے اللہ کے رسول! قریش کو ہم سے کیا عداوت ہے؟ وہ آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو بڑے خوش ہو کر ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو ان کے چہرے بدل جاتے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس قدر غضب ناک ہوئے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیشانی سے پسینہ بہنے لگا، ویسے جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو شدید غصہ آتا تھا تو پسینہ بہنے لگتا تھا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کییہ کیفیت زائل ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کسی کے دل میں ایمان اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتا، جب تک وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لیے تم سے محبت نہیں کرے گا۔ (دوسری روایت میں ہے: اللہ تعالیٰ کے لیے اور میری قرابت داری کی وجہ سے تم سے محبت نہیں کرے گا) پھر فرمایا: لوگو! (یاد رکھو) جس نے عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ایذا پہنچائی، اس نے مجھے تکلیف دی، آدمی کا چچا اس کے باپ کی ہی ایک قسم ہوتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11838

۔ (۱۱۸۳۸)۔ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: قَبَّلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُقَبِّلُ، وَقَالَ وَکِیعٌ: قَالَتْ: قَبَّلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ وَہُوَ مَیِّتٌ، قَالَتْ: فَرَأَیْتُ دُمُوعَہُ تَسِیلُ عَلَی خَدَّیْہِ یَعْنِی عُثْمَانَ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ: وَعَیْنَاہُ تُہْرَاقَانِ۔ (مسند احمد: ۲۶۲۳۱)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان بن مظعون ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فوت ہوگئے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی میت کو بوسہ دیا، میں نے دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے آنسو سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے رخساروں پر بہہ رہے تھے۔ اس حدیث کے ایک راوی عبدالرحمن سے مروی ہے کہ آپ کی آنکھیں آنسو بہار ہی تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11838

۔ (۱۱۸۳۸م)۔ وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَمَّا مَاتَتْ زَیْنَبُ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: رُقَیَّۃُ) اِبْنَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِلْحَقِیْ بِسَلَفِنَا الصَّالِحِ الْخَیْرِ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُوْنٍ۔)) (مسند احمد: ۲۱۲۷)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیٹی سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا (یا سیدہ رقیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ) کا انتقال ہوا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بیٹی سے مخاطب ہو کر فرمایا: تم جا کر ہمارے بہترین پیش رو عثمان بن مظعون سے جا ملو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11839

۔ (۱۱۸۳۹)۔ وَعَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیِدٍ قَالَ: کَانَتْ اُمُّ الْعَلَائِ الْاَنْصَارِیَّۃُ تَقُوْلُ: لَمَّا قَدِمَ الْمُہَاجِرُوْنَ الْمَدِیْنَۃَ اِقْتَرَعَتِ الْأَنْصَارُ عَلٰی سُکْنَاھُمْ، فَطَارَ لَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُوْنٍ فِی السُّکْنٰی، قَالَتْ أُمُّ الْعَلَائِ: فَاشْتَکٰی عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ عِنْدَنَا فَمَرَّضْنَاہُ حَتّٰی إِذَا تُوُفِّیَ أَدْرَجْنَاہُ فِی أَثْوَابِہِ، فَدَخَلَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْکَ یَا أَبَا السَّائِبِ شَہَادَتِی عَلَیْکَ لَقَدْ أَکْرَمَکَ اللَّہُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((وَمَا یُدْرِیکِ أَنَّ اللّٰہَ أَکْرَمَہُ؟)) قَالَتْ: فَقُلْتُ: لَا أَدْرِی بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَمَّا ہُوَ فَقَدْ جَائَہُ الْیَقِینُ مِنْ رَبِّہِ، وَإِنِّی لَأَرْجُو الْخَیْرَ لَہُ، وَاللّٰہِ! مَا أَدْرِی وَأَنَا رَسُولُ اللّٰہِ مَا یُفْعَلُ بِی۔)) (قَالَ یَعْقُوبُ: بِہِ) قَالَتْ: وَاللّٰہِ لَا أُزَکِّی أَحَدًا بَعْدَہُ أَبَدًا، فَأَحْزَنَنِی ذٰلِکَ فَنِمْتُ فَأُرِیتُ لِعُثْمَانَ عَیْنًا تَجْرِی، فَجِئْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرْتُہُ ذٰلِکَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((ذَاکَ عَمَلُہُ۔)) (مسند احمد: ۲۸۰۰۴)
سیدنا خارجہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ ام علاء انصاریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہا کرتی تھیں کہ جب مہاجرین ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئے تو انصار نے ان کو اپنے ہاں رہائش دینے کے لیے قرعہ اندازی کی تو سیدنا عثمان بن مظعون ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا نام ہمارے حصہ میں نکل آیا، لیکن ہوا یوں کہ سیدنا عثمان بن مظعون ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہمارے ہاں بیمار پڑ گئے۔ ہم نے ان کا خوب علاج معالجہ کیا،، لیکن ان کا انتقال ہو گیا،ہم نے ان کو کفن کے کپڑوں میں لپیٹا، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے۔ میں نے کہا: اے ابو السائب! آپ پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں، میں آپ کے بارے میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ نے آپ کو عزت و تکریم سے نوازا ہے۔ لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آپ کو کیا علم کہ اللہ نے ان کی عزت و تکریم کی ہے۔ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پرفدا ہوں، میں تو اس بارے میں کچھ نہیں1 جانتی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے رب کی طرف سے موت آئی، مجھے اس کے ! صحیح بخاری (۳۹۲۹) میں الفاظ اس طرح ہیں: لَا اَدْرِیْ بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُقِیْیَارَسُوْلَ اللّٰہِ فَمَنْ؟ اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں نہیں جانتی تو اور کون (جانتا ہے)؟ ام العلاء انصاریہ کا مطلب یہ تھا کہ ہمارے گھر میں اس کے رہنے کی وجہ سے، مجھے اس کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا اور میرے خیال کے مطابق یہ نیک آدمی ہے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا مقصد یہ تھا کہ کسی کے بارے اخروی لحاظ سے حتمی اور قطعی رائے کا اظہار نہیں ہونا چاہیے ہاں اچھے انجام کی امید ظاہر کی جاسکتی ہے۔ (عبداللہ رفیق) بارے میں اللہ سے خیر کی امید ہے۔ اللہ کی قسم! میں اگرچہ اللہ کا رسول ہوں، لیکن میں بھی نہیں جانتا کہ کل کلاں میرے ساتھ اور اس کے ساتھ کیا پیش آئے گا؟ ام العلائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اللہ کی قسم! میں آج کے بعد کسی کی صفائی پیش نہیں کروں گی، اس بات سے مجھے غم لاحق ہوا، میں سوئی ہوئی تھی کہ خواب میں مجھے ایک بہتا چشمہ دکھایا گیا کہ یہ عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے لیے ہے۔ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جا کر آپ کو اس کے متعلق بتلایا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اس کا عمل ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11840

۔ (۱۱۸۴۰)۔ عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدٍ، عَنْ أُمِّہِ قَالَتْ: إِنَّ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ لَمَّا قُبِضَ قَالَتْ أُمُّ خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدٍ: طِبْتَ أَبَا السَّائِبِ خَیْرُ أَیَّامِکَ الْخَیْرُ، فَسَمِعَہَا نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((مَنْ ہٰذِہِ؟)) قَالَتْ: أَنَا، قَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((وَمَا یُدْرِیکِ؟)) فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللَّہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَجَلْ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُوْنٍ مَارَأَیْنَا اِلَّاخَیْرًا، وَھٰذَا أَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ وَاللّٰہِ مَا اَدْرِیْ مَا یُصْنَعُ بِیْ۔)) (مسند احمد: ۲۸۰۰۶)
خارجہ بن زید اپنی والدہ سیدہ ام العلاء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت کرتے ہیں، انہوںنے کہا: جب سیدنا عثمان بن مظعون ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا انتقال ہوا تو میں نے کہا: :اے ابو السائب! تمہیں مبارک ہو، تمہارے ایام زندگی اچھے گزرے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بات سنی تو فرمایا: یہ بات کہنے والی کون ہے؟ سیدہ ام علاء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عرض کیا: جی میں ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہیں اس بات کا کیا علم؟‘ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے یہ بات سیدنا عثمان بن مظعون ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ (جیسے عظیم الترتیب انسان کے بارے میں کہی ہے)، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہا ں ہاں، ہم نے عثمان بن مظعون کو ہر لحاظ سے بہتر پایا،یاد رکھو کہ میں اگرچہ اللہ کا رسول ہوں، لیکن میں اپنے بارے میں یہ بھی نہیں جانتا کہ کل کلاں میرے ساتھ کیا معاملہ پیش آئے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11841

۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11842

۔ (۱۱۸۴۲)۔ عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ، عَنْ رَجُلٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ: حَدِیثٌ بَلَغَنِی عَنْکَ أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَہُ مِنْکَ، قَالَ: نَعَمْ، لَمَّا بَلَغَنِی خُرُوجُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَکَرِہْتُ خُرُوجَہُ کَرَاہَۃً شَدِیدَۃً خَرَجْتُ حَتّٰی وَقَعْتُ نَاحِیَۃَ الرُّومِ، وَقَالَ یَعْنِی یَزِیدَ بِبَغْدَادَ: حَتّٰی قَدِمْتُ عَلٰی قَیْصَرَ، قَالَ: فَکَرِہْتُ مَکَانِی ذٰلِکَ أَشَدَّ مِنْ کَرَاہِیَتِی لِخُرُوجِہِ، قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ لَوْلَا أَتَیْتُ ہٰذَا الرَّجُلَ، فَإِنْ کَانَ کَاذِبًا لَمْ یَضُرَّنِی، وَإِنْ کَانَ صَادِقًا عَلِمْتُ، قَالَ: فَقَدِمْتُ فَأَتَیْتُہُ فَلَمَّا قَدِمْتُ قَالَ النَّاسُ: عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ لِی: ((یَا عَدِیُّ بْنَ حَاتِمٍ أَسْلِمْ تَسْلَمْ۔)) ثَلَاثًا قَالَ: قُلْتُ: إِنِّی عَلٰی دِینٍ، قَالَ: ((أَنَا أَعْلَمُ بِدِینِکَ مِنْکَ۔)) فَقُلْتُ: أَنْتَ أَعْلَمُ بِدِینِی مِنِّی؟ قَالَ: ((نَعَمْ، أَلَسْتَ مِنٰ الرَّکُوسِیَّۃِ، وَأَنْتَ تَأْکُلُ مِرْبَاعَ قَوْمِکَ؟)) قُلْتُ: بَلٰی، قَالَ: ((فَاِنَّ ھٰذَا لَایَحِلُّ لَکَ فِیْ دِینِکَ۔)) قَالَ: فَلَمْ یَعْدُ أَنْ قَالَہَا فَتَوَاضَعْتُ لَہَا، فَقَالَ: ((أَمَا إِنِّی أَعْلَمُ مَا الَّذِی یَمْنَعُکَ مِنَ الْإِسْلَامِ، تَقُولُ: إِنَّمَا اتَّبَعَہُ ضَعَفَۃُ النَّاسِ، وَمَنْ لَا قُوَّۃَ لَہُ، وَقَدْ رَمَتْہُمْ الْعَرَبُ، أَتَعْرِفُ الْحِیرَۃَ؟)) قُلْتُ: لَمْ أَرَہَا وَقَدْ سَمِعْتُ بِہَا، قَالَ: ((فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَیُتِمَّنَّ اللّٰہُ ہٰذَا الْأَمْرَ حَتّٰی تَخْرُجَ الظَّعِینَۃُ مِنَ الْحِیرَۃِ حَتّٰی تَطُوفَ بِالْبَیْتِ فِی غَیْرِجِوَارِ أَحَدٍ، وَلَیَفْتَحَنَّ کُنُوزَ کِسْرَی بْنِ ہُرْمُزَ۔)) قَالَ: قُلْتُ: کِسْرَی بْنِ ہُرْمُزَ؟ قَالَ: ((نَعَمْ، کِسْرَی بْنِ ہُرْمُزَ، وَلَیُبْذَلَنَّ الْمَالُ حَتّٰی لَا یَقْبَلَہُ أَحَدٌ۔)) قَالَ عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ: فَہٰذِہِ الظَّعِینَۃُ تَخْرُجُ مِنَ الْحِیرَۃِ فَتَطُوفُ بِالْبَیْتِ فِی غَیْرِ جِوَارٍ، وَلَقَدْ کُنْتُ فِیمَنْ فَتَحَ کُنُوزَ کِسْرَی بْنِ ہُرْمُزَ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَتَکُونَنَّ الثَّالِثَۃُ لِأَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ قَالَہَا۔ (مسند احمد: ۱۸۴۴۹)
ابو عبیدہ سے روایت ہے، وہ ایک آدمی سے بیان کرتے ہیں، اس نے کہا: میں نے سیدنا عدی بن حاتم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ذکر کیا کہ مجھ تک آپ کی طرف سے ایک بات پہنچی ہے، میں اسے آپ سے براہ راست سماع کرنا چاہتا ہوں، انہوںنے کہا: جی ٹھیک ہے، جب مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ظہور کی اطلاع ملی تو مجھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ظہور اچھا نہ لگا، مجھے اس سے شدید کراہت ہوئی، میں یہاں سے بھاگ نکلا اور روم کے علاقے میں جا پہنچا، حدیث کے راوییزید نے بغداد میںیوں بیان کیا:میں یہاں سے بھاگ کر قیصر روم کے ہاں چلا گیا، مگر مجھے پہلے سے بھی زیادہ پریشانی ہوئی، تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں اسی آدمی کے ہاں چلا جائوں، اگر وہ جھوٹا ہوا تو مجھے اس کا ضرر نہیں ہو گا اوراگر وہ سچا ہوا تو مجھے علم ہو ہی جائے گا، چنانچہ میں واپس آکر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جب میں آیا تو لوگوں نے کہا: عدی بن حاتم، عدی بن حاتم، میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس چلا گیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے تین بار فرمایا: عدی بن حاتم! دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائو، سلامت رہو گے۔ عدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: میں ایک دین پر ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہارے دین کے متعلق تم سے بہتر جانتا ہوں۔ میں نے عرض کیا: کیا آپ میرے دین کے بارے میں مجھ سے بہتر جانتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ کیا تم رکوسیہ گروہ میں سے نہیں ہو؟ (یہ عیسائیوں اور صابئین کا ایک درمیانی گروہ ہے) اور تم اپنی قوم سے مال کا چوتھا حصہ لے کر کھاتے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حالانکہ یہ چیز تمہارے دین میں تمہارے لیے حلال نہیں ہیں۔ سیدنا عدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب یہ دونوں باتیں بیان فرمائیں تو میں نے انہیں تسلیم کر لیا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اسلام قبول کرنے سے کون سی چیز تمہارے لیے مانع ہے؟ تم سمجھتے ہو کہ کم زور معاشرت والے افراد نے دین اسلام کی اتباع کی ہے اور ایسے لوگوں نے دین اسلام قبول کیا ہے، جنہیں دنیوی لحاظ سے قوت یا شان و شوکت حاصل نہیں اور عربوں نے ان مسلمانوں کو دھتکار دیا ہے، کیا تم حیرہ (کوفہ کے قریب ایک) شہر سے واقف ہو؟ میںنے عرض کیا: میں نے اس شہر کو دیکھا تو نہیں، البتہ اس کے بارے سنا ضرور ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اللہ تعالیٰ اس دین کو اس حد تک ضرور غالب کرے گا کہ ایک اکیلی خاتون حیرہ شہر سے کسی کی پناہ اور حفاظت کے بغیر بے خوف و خطر سفر کرتی ہوئی آکر بیت اللہ کا طواف کرے گی اور کسریٰ بن ہرمز کے خزانے ضرور بالضرور مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوں گے۔ میں عدی نے حیران ہو کر پوچھا: کیا کسریٰ بن ہرمز کے خزانے ؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : ہاں ہاں کسریٰ بن ہرمز کے اور مال و دولت کی اس قدر فراوانی ہو جائے گی کہ کوئی آدمی مال لینے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ عدی بن حاتم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: (میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق ایسا پر امن دور دیکھا کہ) ایک اکیلی خاتون حیرہ سے کسی کی پناہ اور حفاظت کے بغیربے خوف و خطر سفر کرکے آکر بیت اللہ کا طواف کرتی ہے اور میں خود ان لوگوں میں شامل تھا، جنہوںنے کسریٰ بن ہر مز کے خزانوں کو فتح کیا تھا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تیسری بات بھی ضرور پوری ہو کر رہے گی، کیونکہیہ بات اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کہی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11843

۔ (۱۱۸۴۳)۔ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ، قَالَ: سَمِعْتُ سِمَاکَ بْنَ حَرْبٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَبَّادَ بْنَ حُبَیْشٍ یُحَدِّثُ عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: جَاء َتْ خَیْلُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَوْ قَالَ: رُسُلُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا بِعَقْرَبٍ فَأَخَذُوْا عَمَّتِی وَنَاسًا، قَالَ: فَلَمَّا أَتَوْا بِہِمْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((فَصَفُّوْا لَہُ۔)) قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ، نَأَی الْوَافِدُ وَانْقَطَعَ الْوَلَدُ وَأَنَا عَجُوزٌ کَبِیرَۃٌ مَا بِی مِنْ خِدْمَۃٍ فَمُنَّ عَلَیَّ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْکَ، قَالَ: ((مَنْ وَافِدُکِ؟)) قَالَتْ: عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ: ((الَّذِی فَرَّ مِنَ اللّٰہِ وَرَسُولِہِ؟)) قَالَتْ: فَمَنَّ عَلَیَّ، قَالَتْ: فَلَمَّا رَجَعَ وَرَجُلٌ إِلٰی جَنْبِہِ نَرٰی أَنَّہُ عَلِیٌّ قَالَ: سَلِیہِ حِمْلَانًا، قَالَ: فَسَأَلَتْہُ فَأَمَرَ لَہَا، قَالَتْ: فَأَتَتْنِی فَقَالَتْ: لَقَدْ فَعَلْتَ فَعْلَۃً مَا کَانَ أَبُوکَ یَفْعَلُہَا، قَالَتْ: ائْتِہِ رَاغِبًا أَوْ رَاہِبًا، فَقَدْ أَتَاہُ فُلَانٌ فَأَصَابَ مِنْہُ وَأَتَاہُ فُلَانٌ فَأَصَابَ مِنْہُ، قَالَ: فَأَتَیْتُہُ فَإِذَا عِنْدَہُ امْرَأَۃٌ وَصِبْیَانٌ أَوْ صَبِیٌّ فَذَکَرَ قُرْبَہُمْ مِنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَعَرَفْتُ أَنَّہُ لَیْسَ مُلْکُ کِسْرٰی وَلَا قَیْصَرَ، فَقَالَ لَہُ: ((یَا عَدِیُّ بْنَ حَاتِمٍ مَا أَفَرَّکَ أَنْ یُقَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہُ، فَہَلْ مِنْ إِلٰہٍ إِلَّا اللَّہُ، مَا أَفَرَّکَ أَنْ یُقَالَ اللّٰہُ أَکْبَرُ، فَہَلْ شَیْئٌ ہُوَ أَکْبَرُ مِنَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ؟)) قَالَ: فَأَسْلَمْتُ فَرَأَیْتُ وَجْہَہُ اسْتَبْشَرَ، وَقَالَ: ((إِنَّ الْمَغْضُوبَ عَلَیْہِمْ الْیَہُودُ، وَالضَّالِّینَ النَّصَارٰی۔)) ثُمَّ سَأَلُوْہُ، فَحَمِدَ اللّٰہَ تَعَالٰی وَأَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ! فَلَکُمْ أَیُّہَا النَّاسُ أَنْ تَرْضَخُوْا مِنَ الْفَضْلِ۔)) ارْتَضَخَ امْرُؤٌ بِصَاعٍ بِبَعْضِ صَاعٍ بِقَبْضَۃٍ بِبَعْضِ قَبْضَۃٍ، قَالَ شُعْبَۃُ: وَأَکْثَرُ عِلْمِی أَنَّہُ قَالَ: ((بِتَمْرَۃٍ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ، إِنَّ أَحَدَکُمْ لَاقِی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَقَائِلٌ: مَا أَقُولُ أَلَمْ أَجْعَلْکَ سَمِیعًا بَصِیرًا؟ أَلَمْ أَجْعَلْ لَکَ مَالًا وَوَلَدًا؟ فَمَاذَا قَدَّمْتَ؟ فَیَنْظُرُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ وَعَنْ یَمِینِہِ وَعَنْ شِمَالِہِ، فَلَا یَجِدُ شَیْئًا فَمَا یَتَّقِی النَّارَ إِلَّا بِوَجْہِہِ، فَاتَّقُوْا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوْہُ فَبِکَلِمَۃٍ لَیِّنَۃٍ، إِنِّی لَا أَخْشٰی عَلَیْکُمُ الْفَاقَۃَ، لَیَنْصُرَنَّکُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی وَلَیُعْطِیَنَّکُمْ، أَوْ لَیَفْتَحَنَّ لَکُمْ حَتّٰی تَسِیرَ الظَّعِینَۃُ بَیْنَ الْحِیرَۃِ ویَثْرِبَ أَوْ أَکْثَرَ مَا تَخَافُ السَّرَقَ عَلٰی ظَعِینَتِہَا۔)) قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ: ثَنَاہُ شُعْبَۃُ مَا لَا أُحْصِیہِ وَقَرَأْتُہُ عَلَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۹۶۰۰)
سیدنا عدی بن حاتم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ایک گھڑ سوار دستہ یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قاصد آئے اور انہوںنے میری پھوپھی اور (قبیلہ کے) کچھ لوگوں کو گرفتار کر لیا، میں اس وقت عقرب (ایک جگہ کا نام) میں تھا۔ وہ لوگ ان قیدیوں کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لے گئے، وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے لائنوں میں کھڑے ہوئے تو میری پھوپھی نے کہا: میری پیروی کرنے والا بہت دور ہے، اولاد بھی پاس نہیںاور میں ایک عمر رسیدہ خاتون ہوں میرا کوئی خدمت گزار بھی نہیں، آپ مجھ پر احسان فرمائیں، اللہ آپ پر احسان کرے گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے پیروی کرنے والا کون ہے؟ اس نے کہا: عدی بن حاتم۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہی عدی جو اللہ اور اس کے رسول کے ڈر سے فرار ہو گیا ہے۔ اس نے کہا: پس آپ نے مجھ پر احسان فرمایا۔ میری پھوپھی نے بیان کیا کہ اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک اور آدمی بھی تھا، میری پھوپھی کا خیال ہے کہ وہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔ اس نے اس سے (یعنی میری پھوپھی سے) سے کہا: رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کوئی سواری مانگ لو۔ اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سواری کا مطالبہ کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے لیے سواری مہیا کئے جانے کا حکم صادر فرمایا۔ سیدنا عدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میری پھوپھی نے آکر مجھ سے کہا کہ تو نے ایسا کام کیا ہے کہ تیرا باپ تو (بزدلی والا) ایسا کوئی کام نہ کرتا تھا، تو رغبت کے ساتھ یا خوف کے ساتھ ہر حال میں ان کے پاس یعنی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں چلا جاتا، فلاں آدمی ان کی خدمت میں گیا اور فلاں بھی ان کے ہاں حاضر ہوا، انہوںنے ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کیا۔ عدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:میں آپ کی خدمت میں چلا آیا، اس وقت آپ کی خدمت میں ایک عورت اور اس کے ساتھ ایک دو بچے بھی تھے۔ صحابۂ کرام رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے انتہائی قریب آزادی سے بیٹھے تھے، میں نے جان لیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قیصر و کسریٰ جیسے بادشاہ نہیں ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: عدی! کیا تم محض اس لیے فرار ہوئے کہ کلمۂ توحید لا الہ الا اللہ نہ پڑھا جائے؟ کیا اللہ کے سوا کوئی معبود ہے؟ کیا کوئی اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر بھی ہے؟ عدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: پس میں دائرہ ٔ اسلام میں داخل ہو گیا، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے پر خوشی کے آثار دیکھے۔ نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قرآن کریم میں اَلْمَغْضُوبَ عَلَیْہِمْ (وہ لوگ جن پر اللہ کا غضب ہوا) سے مراد یہودی ہیں۔ اور اَلضَّالِّینَ (گمراہ) سے مراد نصاریٰ (عیسائی) ہیں۔ اس کے بعد وہاں پر موجود فقراء نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کچھ مانگا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: لوگو! اللہ نے تمہیں جو نعمتیں دی ہیں، تم ان میں سے اللہ کی راہ میں ضرورت مندوں کو دو۔ تو کسی نے ایک صاع اور کسی نے اس سے کچھ کم، کسی نے ایک مٹھی اورکسی نے اس سے بھی کم یعنی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق صدقہ کیا۔ حدیث کے راوی شعبہ نے کہا: میرے علم کے مطابق سماک نے یہ بھی کہا کہ کسی نے ایک کھجور اور کسی نے اس سے بھی کم مقدار میں صدقہ کیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزید فرمایا: تم میں سے ہر ایک جا کر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کر نے والا ہے، اللہ اپنے ملاقات کرنے والے بندوں سے فرمائے گا: کیا میں نے تجھے سننے والا اور دیکھنے والا نہیں بنایا تھا؟ کیا میں نے تجھے مال و اولاد سے نہیں نوازا تھا؟ تو بتا تو کیا اعمال کرکے آیا ہے؟ وہ اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں دیکھے گا، وہ کوئی ایسی چیز نہیں پائے گا، جو اس کے کسی کام آسکے، وہ اپنے چہرے ہی کے ذریعے جہنم سے بچنے کی کوشش کرے گا، پس تم جہنم سے بچنے کا سامان کر لو، اگرچہ وہ کھجور کے ایک حصے کی شکل میں ہو۔ اگر تم کسی کو دینے کے لیے کھجور کا کچھ حصہ بھی نہ پائو تو نرم کلامی کے ساتھ ہی جہنم سے بچ جائو۔ مجھے تمہارے بارے میں فقر و فاقہ کا ڈر نہیں، اللہ تعالیٰ تمہاری مدد ضرور کرے گا اور ضرور تمہیں بہت کچھ دے گا اور وہ تمہیں ایسی فتح سے ہمکنار فرمائے گا کہ ایک خاتون حیرہ اوریثرب کے درمیان کا یا اس سے بھی زیادہ سفر بے خوف و خطر طے کر ے گی، زیادہ سے زیادہ اس کو اپنی سواری کے چوری ہو جانے کا خطرہ ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11844

۔ (۱۱۸۴۴)۔ عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: أَتَیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَابَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌فِی أُنَاسٍ مِنْ قَوْمِی فَجَعَلَ یَفْرِضُ لِلرَّجُلِ مِنْ طَیِّیئٍ فِی أَلْفَیْنِ وَیُعْرِضُ عَنِّی، قَالَ: فَاسْتَقْبَلْتُہُ فَأَعْرَضَ عَنِّی، ثُمَّ أَتَیْتُہُ مِنْ حِیَالِ وَجْہِہِ فَأَعْرَضَ عَنِّی، قَالَ: فَقُلْتُ: یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! أَتَعْرِفُنِی؟ قَالَ: فَضَحِکَ حَتَّی اِسْتَلْقٰی لِقَفَاہُ ثُمَّ قَالَ: نَعَمْ وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأَعْرِفَکَ، آمَنْتَ إِذْ کَفَرُوْا، وَأَقْبَلْتَ إِذْ أَدْبَرُوْا وَوَفَیْتَ إِذ غَدَرُوْا، وإِنَّ أَوَّلَ صَدَقَۃٍ بَیَّضَتْ وَجْہَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَوُجُوْہَ أَصْحَابِہِ صَدَقَۃُ عَدِیِّ جِئْتَ بِہَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ أَخَذَ یَعْتَذِرُ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّمَا فَرَضْتُ لِقَوْمٍ أَجْحَفَتْ بِہِمُ الْفَاقَۃُ وَہُمْ سَادَۃُ عَشَائِرِہِمْ لِمَا یَنُوْبُہُمْ مِنَ الْحُقُوْقِ۔ (مسند احمد: ۳۱۶)
سیدناعدی بن خاتم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں اپنی قوم کے کچھ افراد کے ساتھ سیدناعمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے بنو طی ٔ کے ہر ہر فرد کو دو دو ہزار دیئے اورمجھ سے اعراض کیا، پھر میں ان کے سامنے آیا، لیکن انھوں نے بے رخی اختیار کی، پھر میں بالکل ان کے چہرے کے سامنے آیا، تب بھی انہوں نے مجھ سے اعراض کیا، بالآخر میں نے کہا: اے امیر المومنین! کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟یہ بات سن کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس قدر ہنسے کہ گدی کی بل لیٹ گئے اور پھر کہا: جی ہاں، اللہ کی قسم! میں تمہیں پہچانتا ہوں، تم اس وقت ایمان لائے تھے جب یہ لوگ کفر پر ڈٹے ہوئے تھے، تم اس وقت اسلام کی طرف متوجہ ہوئے تھے جب ان لوگوں نے پیٹھ کی ہوئی تھی اور تم نے اس وقت وفاداری دکھائی، جب یہ لوگ غداری کر رہے تھے اور میں جانتا ہوں کہ سب سے پہلا صدقہ، جس نے نبی کریم اور صحابہ کے چہرے روشن کر دیئے تھے، وہ تو عدی کا صدقہ تھا، جو تم رسول اللہ کے پاس لے کر آئے تھے، بعد ازاں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عدی سے معذرت کی اور کہا: میں نے ان لوگوں کو اس لئے دیا ہے کہ یہ لوگ آج کل فاقوں سے دو چار ہیں، جبکہ یہ اپنے اپنے قبیلوں کے سردار بھی ہیں اور ان پر کافی ساری ذمہ داریاں ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11845

۔ (۱۱۸۴۵)۔ عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: أَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَعَلَّمَنِی الْإِسْلَامَ وَنَعَتَ لِی الصَّلَاۃَ وَکَیْفَ أُصَلِّی کُلَّ صَلَاۃٍ لِوَقْتِہَا، ثُمَّ قَالَ لِی: ((کَیْفَ أَنْتَ یَا ابْنَ حَاتِمٍ إِذَا رَکِبْتَ مِنْ قُصُورِ الْیَمَنِ لَا تَخَافُ إِلَّا اللّٰہَ حَتّٰی تَنْزِلَ قُصُورَ الْحِیرَۃِ؟)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَأَیْنَ مَقَانِبُ طَیِّئٍ وَرِجَالُہَا، قَالَ: ((یَکْفِیکَ اللّٰہُ طَیِّئًا وَمَنْ سِوَاہَا۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّا قَوْمٌ نَتَصَیَّدُ بِہٰذِہِ الْکِلَابِ وَالْبُزَاۃِ فَمَا یَحِلُّ لَنَا مِنْہَا؟ قَالَ: ((یَحِلُّ لَکُمْ {مَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِینَ تُعَلِّمُونَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ فَکُلُوا مِمَّا أَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ} فَمَا عَلَّمْتَ مِنْ کَلْبٍ أَوْ بَازٍ ثُمَّ أَرْسَلْتَ وَذَکَرْتَ اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ فَکُلْ مِمَّا أَمْسَکَ عَلَیْکَ۔)) قُلْتُ: وَإِنْ قَتَلَ؟ قَالَ: ((وَإِنْ قَتَلَ وَلَمْ یَأْکُلْ مِنْہُ شَیْئًا فَإِنَّمَا أَمْسَکَہُ عَلَیْکَ۔)) قُلْتُ: أَفَرَأَیْتَ إِنْ خَالَطَ کِلَابَنَا کِلَابٌ أُخْرٰی حِینَ نُرْسِلُہَا؟ قَالَ: ((لَا تَأْکُلْ حَتّٰی تَعْلَمَ أَنَّ کَلْبَکَ ہُوَ الَّذِی أَمْسَکَ عَلَیْکَ۔)) قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّا قَوْمٌ نَرْمِی بِالْمِعْرَاضِ فَمَا یَحِلُّ لَنَا؟ قَالَ: ((لَا تَأْکُلْ مَا أَصَبْتَ بِالْمِعْرَاضِ إِلَّا مَا ذَکَّیْتَ۔)) (مسند احمد: ۱۸۴۴۷)
سیدنا عدی بن حاتم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم لوگ کتوں اور بازوں کے ذریعے شکارکرتے ہیں، ہمارے لیے ان کے شکار میں سے کیا حلال ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شکاری کتے تم نے سدھائے ہیں، اس تعلیم سے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں دے رکھی ہے، ان کے روکے ہوئے شکار کو کھا سکتے ہو اور اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا ہو اور جو کتایا باز تم نے چھوڑا ہے اور اللہ کا نام ذکر کیا ہے، تو وہ جو شکار روک کر رکھیں، وہ کھا لو۔ میںنے کہا: اگرچہ یہ شکار کو مار بھی دیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگرچہ یہ مار بھی دیں،لیکن شکار سے خود نہ کھایا ہو تو انہوں نے شکار تمہارے لیے روکا ہے۔ میں نے کہا: اب یہ فرمائیں کہ چھوڑتے وقت اگر ہمارے کتے کے ساتھ دوسرے کتے مل جل جاتے ہیں تو پھر کیا حکم ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اس وقت تک شکار نہ کھاؤ جب تک تمہیںیہ معلوم نہ ہو جائے کہ یہ شکار تمہارے کتے نے ہی کیا ہے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم تیر کے درمیانی موٹے حصے سے شکار کرتے ہیں، اس میں سے ہمارے لیے کیا حلال ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شکار تیر کے اس حصے سے مر جائے، اس کو نہ کھاؤ، الا یہ کہ خود ذبح کر لو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11846

۔ (۱۱۸۴۶)۔ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ الْبَارِقِیِّ، قَالَ: عَرَضَ لِلنَّبِیَِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَلَبٌ فَأَعْطَانِی دِینَارًا وَقَالَ: ((أَیْ عُرْوَۃُ ائْتِ الْجَلَبَ فَاشْتَرِ لَنَا شَاۃً؟)) فَأَتَیْتُ الْجَلَبَ فَسَاوَمْتُ صَاحِبَہُ فَاشْتَرَیْتُ مِنْہُ شَاتَیْنِ بِدِینَارٍ فَجِئْتُ أَسُوقُہُمَا، أَوْ قَالَ أَقُودُہُمَا، فَلَقِیَنِی رَجُلٌ فَسَاوَمَنِی فَأَبِیعُہُ شَاۃً بِدِینَارٍ، فَجِئْتُ بِالدِّینَارِ وَجِئْتُ بِالشَّاۃِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ہٰذَا دِینَارُکُمْ وَہٰذِہِ شَاتُکُمْ، قَالَ: ((وَصَنَعْتَ کَیْفَ؟)) قَالَ: فَحَدَّثْتُہُ الْحَدِیثَ، فَقَالَ: ((اللَّہُمَّ بَارِکْ لَہُ فِی صَفْقَۃِ یَمِینِہِ۔)) فَلَقَدْ رَأَیْتُنِی أَقِفُ بِکُنَاسَۃِ الْکُوفَۃِ فَأَرْبَحُ أَرْبَعِینَ أَلْفًا قَبْلَ أَنْ أَصِلَ إِلٰی أَہْلِی، وَکَانَ یَشْتَرِی الْجَوَارِیَ وَیَبِیعُ۔ (مسند احمد: ۱۹۵۷۹)
سیدنا عروہ بن ابی جعد بارقی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے سامان تجارت لایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ایک دینار دیا اور فرمایا: عروہ! تم جا کر ہمارے لیے ایک بکری خرید لائو۔ میں مقام فروخت یعنی منڈی میں گیا اور میں نے مالک سے سودا طے کرکے ایک دینار میں دو بکریا ںخرید لیں، میں انہیں ہانک کر لا رہا تھا کہ راستے میں مجھے ایک آدمی ملا، اس نے میرے ساتھ ایک بکری کا معاملہ طے کیا اور میں نے ایک دینار میں ایک بکری اس کے ہاتھ فروخت کر دی۔ میں ایک دینار اور ایک بکری لے کر آ گیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ہے آپ کا دیا ہوا ایک دینار اور یہ ہے ایک بکری۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کیسے؟ جواباً میں نے سارا واقعہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گوش گزار کر دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یا اللہ! اس کی خرید و فروخت میں برکت فرما۔ (آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اس دعا کی برکت سے )میں نے اپنے آپ کو اس حال میں بھی دیکھا ہے کہ میں کوفہ کی گندی روڑی پر کھڑا ہوا ہوتا اور اپنے گھر پہنچنے سے پہلے پہلے چالیس ہزار منافع کما لیا کرتا تھا۔یہ صحابی لونڈیوں کی خرید و فروخت کیا کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11847

۔ (۱۱۸۴۷)۔ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مِنْ أُمَّتِیْ سَبْعُوْنَ أَلْفًا بِغَیْرِ حِسَابٍ۔)) فَقَالَ عُکَاشَۃُ بْنُ مِحْصَنٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أُدْعُ اللّٰہَ أَنْ یَجْعَلَنِیَ مِنْہُمْ؟ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ مِنْہُمْ۔)) ثُمَّ قَالَ آخَرُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اُدْعُ اللّٰہَ أَنْ یَجْعَلَنِیَ مِنْہُمْ، قَالَ: ((قَدْ سَبَقَکَ بِہَا عُکَاشَۃُ۔)) (مسند احمد: ۸۵۹۹)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت میں سے ستر ہزار آدمی حساب کتاب کے بغیر جنت میں جائیں گے۔ یہ سن کر سیدنا عکاشہ بن محصن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی انہی لوگوں میں سے کر دے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یا اللہ! اسے ان لوگوں میں سے بنا دے۔ بعد ازاں ایک اور آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول!دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان لوگوں میں سے بنا دے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس بارے میں عکاشہ تم سے سبقت لے گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11848

۔ (۱۱۸۴۸)۔ عَنِ ابْنِ الْعَلَائِ بْنِ الْحَضْرَمِیِّ أَنَّ أَبَاہٗ کَتَبَ إِلَی النَّبِیِّ فَبَدَأَ بِنَفْسِہِ۔ (مسند احمد: ۱۹۱۹۵)
ابن علاء حضرمی سے روایت ہے کہ ان کے والد نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں ایک تحریر بھیجی تو تحریر کی ابتداء اپنے آپ سے کی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11849

۔ (۱۱۸۴۹)۔ عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ قَالَ: کَانَ بَیْنِی وَبَیْنَ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ کَلَامٌ، فَأَغْلَظْتُ لَہُ فِی الْقَوْلِ، فَانْطَلَقَ عَمَّارٌ یَشْکُونِی إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَائَ خَالِدٌ وَہُوَ یَشْکُوہُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَجَعَلَ یُغْلِظُ لَہُ وَلَا یَزِیدُ إِلَّا غِلْظَۃً وَالنَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَاکِتٌ لَا یَتَکَلَّمُ فَبَکٰی عَمَّارٌ وَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَلَا تَرَاہُ فَرَفَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَأْسَہُ قَالَ: ((مَنْ عَادٰی عَمَّارًا عَادَاہُ اللَّہُ، وَمَنْ أَبْغَضَ عَمَّارًا أَبْغَضَہُ اللّٰہُ۔)) قَالَ خَالِدٌ: فَخَرَجْتُ فَمَا کَانَ شَیْئٌ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ رِضَا عَمَّارٍ فَلَقِیتُہُ فَرَضِیَ۔ قَالَ عَبْدُاللّٰہِ: سَمِعْتُہُ مِنْ أَبِیْ مَرَّتَیْنِ۔ (مسند احمد: ۱۶۹۳۸)
سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میرے اور سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے مابین کچھ تکرار ہوگئی،میں نے ان سے کچھ سخت باتیں کہہ دیں۔ سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میری شکایت کرنے کے لیے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں چلے گئے، ان کے بعد سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی ان کی شکایت کے سلسلہ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں گئے اور ان کے متعلق سخت باتیں کرنے لگے، ان کی باتوں کی شدت بڑھتی ہی جاتی تھی۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش تھے، کوئی کلام نہیں کر رہے تھے، یہ منظر دیکھ کر عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رونے لگے۔ اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! کیا آپ دیکھتے نہیںیہ کیا کچھ کہہ رہے ہیں؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا سر مبارک اٹھا کر فرمایا: جو شخص عمار سے عداوت رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے عداوت رکھے گا اور جو کوئی عمار سے بغض رکھے گا، اللہ تعالیٰ اس سے بغض رکھے گا۔ سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں سے واپس ہوا تو میری نظروں میں سب سے اہم اور پسندیدہ بات یہی تھی کہ عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مجھ سے راضی ہو جائیں، چنانچہ میں نے جا کر ان سے ملاقات کی اور وہ مجھ سے راضی ہوگئے۔ عبداللہ بن امام احمد کہتے ہیں:میں نے یہ حدیث اپنے والدسے دو مرتبہ سنی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11850

۔ (۱۱۸۵۰)۔ وَعَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَھْلِ مِصْرَ یُحَدِّثُ: أَنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ أَھْدٰی إِلٰی نَاسٍ ھَدَایَا فَفَضَّلَ عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقِیْلَ لَہُ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((تَقْتُلُہُ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ۔)) (مسند احمد: ۱۷۹۱۸)
عمرو بن دینار مصر کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں، وہ بیان کرتا تھا کہ سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کچھ لوگوں کی خدمت میں تحائف بھیجے اور سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو زیادہ اور قیمتی تحفے بھیجے، اس بارے میں جب ان سے دریافت کیا گیا کہ ان کو اس قدر اہمیت دینے کی کیا وجہ ہے؟ تو انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا کہ ایک باغی گروہ ان کو قتل کرے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11851

۔ (۱۱۸۵۱)۔ وَعَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ قَالَ: جَائَ رَجُلٌ فَوَقَعَ فِیْ عَلِیٍّ وَفِیْ عَمَّارٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عِنْدَ عَائِشَۃ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فَقَالَتْ: أَمَّا عَلِیٌّ فَلَسْتُ قَائِلَۃً لَکَ فِیْہِ شَیْئًا، وَأَمَّا عَمَّارٌ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((لَا یُخَیَّرُ بَیْنَ أَمَرَیْنِ اِلَّا اِخْتَارَ اَرْشَدَھُمَا۔)) (مسند احمد: ۲۵۳۳۱)
عطاء بن یسار سے مروی ہے کہ ایک آدمی سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی خدمت میں آیا اور وہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں ناروا باتیں کرنے لگا۔سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: جہاں تک سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بات ہے تو میں ان کے بارے میں تجھ سے کچھ نہیں کہوں گی، البتہ سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یوں فرماتے سنا ہے کہ عمار کو جب بھی دو باتوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیا جائے تو انھوں نے زیادہ بہتر اور ہدایت والی بات کو منتخب کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11852

۔ (۱۱۸۵۲)۔ وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِبْنُ سُمَیَّۃَ مَا عُرِضَ عَلَیْہِ اَمْرَانِ قَطُّ اِلَّا اخْتَارَ الْأَرْشَدَ مِنْہُمَا۔)) (مسند احمد: ۳۶۹۳)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کابیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابن سمیہ کے سامنے جب بھی دو باتیں پیش کی گئیں تو انہوںنے ان میں سے بہتر بات کو اختیار کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11853

۔ (۱۱۸۵۳)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: أَخْبَرَنِی مَنْ ہُوَ خَیْرٌ مِنِّی (یَعْنِی اَبَا قَتَادَۃَ السُّلَمِیَّ الْأَنْصَارِیَّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لِعَمَّارٍ حِینَ جَعَلَ یَحْفِرُ الْخَنْدَقَ وَجَعَلَ یَمْسَحُ رَأْسَہُ وَیَقُولُ: ((بُؤْسَ ابْنِ سُمَیَّۃَ تَقْتُلُکَ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ۔)) (مسند احمد: ۲۲۹۸۳)
سیدناابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ایک ایسے آدمی نے مجھے بیان کیا جو مجھ سے بہتر اور افضل ہے،ان کی مراد سیدنا ابو قتادہ سلمی انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں، اس نے بیان کیا کہ سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خندق کھود رہے تھے اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے سر سے مٹی جھاڑتے ہوئے فرما رہے تھے: ہائے ابن سمیہ کی مصیبت،(اے عمار!) تجھے ایک باغی گروہ قتل کر ے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11854

۔ (۱۱۸۵۴)۔ عَنْ عِکْرِمَۃَ: أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ لَہُ وَلِابْنِہِ عَلِیٍّ: انْطَلِقَا إِلَی أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ فَاسْمَعَا مِنْ حَدِیثِہِ، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا فَإِذَا ہُوَ فِی حَائِطٍ لَہُ، فَلَمَّا رَآنَا أَخَذَ رِدَائَہُ فَجَائَ نَا فَقَعَدَ، فَأَنْشَأَ یُحَدِّثُنَا حَتّٰی أَتٰی عَلٰی ذِکْرِ بِنَائِ الْمَسْجِدِ، قَالَ: کُنَّا نَحْمِلُ لَبِنَۃً لَبِنَۃً وَعَمَّارُ بْنُ یَاسرٍ یَحْمِلُ لَبِنَتَیْنِ لَبِنَتَیْنِ، قَالَ: فَرَآہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَعَلَ یَنْفُضُ التُّرَابَ عَنْہُ وَیَقُولُ: ((یَا عَمَّارُ أَلَا تَحْمِلُ لَبِنَۃً کَمَا یَحْمِلُ أَصْحَابُکَ؟)) قَالَ: إِنِّی أُرِیدُ الْأَجْرَ مِنَ اللّٰہِ، قَالَ: فَجَعَلَ یَنْفُضُ التُّرَابَ عَنْہُ وَیَقُولُ: ((وَیْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُہُ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ، یَدْعُوہُمْ إِلَی الْجَنَّۃِ وَیَدْعُونَہُ إِلَی النَّارِ۔)) قَالَ: فَجَعَلَ عَمَّارٌ یَقُولُ: أَعُوذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنَ الْفِتَنِ۔ (مسند احمد: ۱۱۸۸۳)
عکرمہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے اور میرے بیٹے علی سے کہا: تم ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں جا کر ان سے احادیث سن کر آئو، پس ہم چلے گئے، وہ اپنے باغ میں تشریف فرما تھے، انہوں نے ہمیں دیکھا تو اپنی چادر سنبھال کر ہمارے پاس آکر بیٹھ گئے اور ہمیں احادیث سنانے لگے(یا ہم سے باتیں کرنے لگے) یہاں تک کہ مسجد (نبوی) کی تعمیر کا ذکر آگیا۔ انھوں نے کہا: ہم ایک ایک اینٹ اٹھا رہے تھے اور سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دو دو اینٹیںاٹھا رہے تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب ان کو دیکھا تو ان کے جسم سے مٹی صاف کرنے لگے اور فرمانے لگے: عمار! تم بھی اپنے ساتھیوں کی طرح ایک ایک اینٹ کیوں نہیں اٹھاتے؟ انہوںنے کہا: میں اللہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنا چاہتا ہوں، آپ ان کے جسم سے مٹی جھاڑتے جاتے اور فرماتے جاتے: ہائے عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا، یہ انہیں جنت کی طرف بلائے گا، لیکن وہ اسے جہنم کی طرف بلائیں گے۔ یہ سن کر سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہنے لگے: میں فتنوں سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11855

۔ (۱۱۸۵۵)۔ وَعَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَائَ عَمَّارٌ فَاسْتَأْذَنَ فَقَالَ: ((ائْذَنُوْا لَہُ مَرْحَبًا بِالطَّیَّبِ الْمُطَیَّبِ۔)) (مسند احمد: ۷۷۹)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آکر اندر آنے کی اجازت طلب کی،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے آنے کی اجازت دے دو، بہترین اور شاندار آدمی کو خوش آمدید۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11856

۔ (۱۱۸۵۶)۔ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ قَالَ: دَعَا عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیہِمْ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ فَقَالَ: إِنِّی سَائِلُکُمْ وَإِنِّی أُحِبُّ أَنْ تَصْدُقُونِی، نَشَدْتُکُمُ اللّٰہَ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یُؤْثِرُ قُرَیْشًا عَلٰی سَائِرِ النَّاسِ، وَیُؤْثِرُ بَنِی ہَاشِمٍ عَلٰی سَائِرِ قُرَیْشٍ، فَسَکَتَ الْقَوْمُ فَقَالَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: لَوْ أَنَّ بِیَدِی مَفَاتِیحَ الْجَنَّۃِ لَأَعْطَیْتُہَا بَنِی أُمَیَّۃَ حَتّٰی یَدْخُلُوْا مِنْ عِنْدِ آخِرِہِمْ، فَبَعَثَ إِلٰی طَلْحَۃَ وَالزُّبَیْرِ، فَقَالَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: أَلَا أُحَدِّثُکُمَا عَنْہُ یَعْنِی عَمَّارًا؟ أَقْبَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آخِذًا بِیَدِی، نَتَمَشّٰی فِی الْبَطْحَائِ حَتّٰی أَتٰی عَلٰی أَبِیہِ وَأُمِّہِ وَعَلَیْہِ یُعَذَّبُونَ، فَقَالَ أَبُو عَمَّارٍ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! الدَّہْرَ ہٰکَذَا، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اصْبِرْ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِآلِ یَاسِرٍ وَقَدْ فَعَلْتَ۔)) (مسند احمد: ۴۳۹)
سالم بن ابی جعد سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سمیت کچھ صحابہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کوبلوایا اور کہا: میں تم سے ایک بات دریافت کرنا چاہتا ہوںاور میرا ارادہ ہے کہ تم مجھ سے سچ سچ بات بیان کر دو، میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں: کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کوئی چیز دینے میں قریش کو دوسرے لوگوں پر ترجیح دیا کرتے تھے؟ اور قریش میں سے بنو ہاشم کو ترجیح دیا کرتے تھے؟ یہ سن کر لوگ خاموش رہ گئے۔سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر جنت کی چابیاں میرے ہاتھ میں آجائیں تو میں چابیاں بنو امیہ کو دے دوں یہاں تک کہ یہ سب لوگ جنت میں چلے جائیں ۔پھر انہوںنے سیدنا طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف پیغام بھیجا اور سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے فرمایا: کیا میں تمہیں اس (یعنی عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) کے متعلق کچھ بیان کردوں؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور ہم بطحاء میں چلتے آرہے تھے، یہاں تک کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور اس کے ماں باپ کے پاس سے گزرے، انہیں قبول اسلام کیپاداش میں عذاب دیا جا رہا تھا۔ سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے والد (سیدنایاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ایسا کب تک ہوتا رہیگا؟ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: صبرکرو۔ پھر فرمایا: یا اللہ! آل یاسر کی مغفرت فرما۔ (ویسے میں جانتا ہوں کہ) تو ان کی مغفرت کر چکا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11857

۔ (۱۱۸۵۷)۔ ثَنَا جَرِیرٌ یَعْنِی ابْنَ حَازِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ: أَرَأَیْتَ رَجُلًا مَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یُحِبُّہُ أَلَیْسَ رَجُلًا صَالِحًا؟ قَالَ: بَلٰی، قَالَ: قَدْ مَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یُحِبُّکَ وَقَدِ اسْتَعْمَلَکَ، فَقَالَ: قَدِ اسْتَعْمَلَنِی فَوَاللّٰہِ مَا أَدْرِی أَحُبًّا کَانَ لِی مِنْہُ أَوْ اسْتِعَانَۃً بِی، وَلٰکِنْ سَأُحَدِّثُکَ بِرَجُلَیْنِ مَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یُحِبُّہُمَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُودٍ وَعَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ۔ (مسند احمد: ۱۷۹۶۰)
حسن بصری سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے سیدنا عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: آپ کی اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے، جس سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تا حیات محبت کرتے رہے ہوں، کیا وہ صالح آدمی نہیں ہوگا؟ انہوںنے کہا: کیوں نہیں، تو اس نے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دنیا سے تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کو اپناعامل بنا کر بھیجا ہوا تھا، سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: انہوں نے مجھے عامل تو بنایا تھا، اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ مجھ سے محبت کی وجہ سے یا میری مدد کرنے کے لیے مجھے عامل بنایا تھا، البتہ میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دنیا سے تشریف لے گئے تو آپ دو آدمیوں سے محبت کرتے تھے، ایک سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور دوسرے سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11858

۔ (۱۱۸۵۸)۔ عَنْ حَکِیْمِ بْنِ عُمَیْرٍ وَضَمْرَۃَ بْنِ حَبِیْبٍ قَالَا: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: مَنْ سَّرَہُ أَنْ یَنْظُرَ إِلٰی ھَدْیِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلْیَنْظُرْ إِلٰی ھَدْیِ عَمْرِو بْنِ الْأَسْوَدِ۔ (مسند احمد: ۱۱۵)
سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جو کوئی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سیرت کو دیکھنا چاہتا ہے، وہ عمرو بن اسود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی سیرت کو دیکھ لے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11859

۔ (۱۱۸۵۹)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اسْتَخْلَفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِبْنَ أُمِّ مَکْتُوْمٍ مَرَّتَیْنِ عَلَی الْمَدِیْنَۃِ، وَلَقَدْ رَأَیْتُہُ یَوْمَ الْقَادِسِیَۃِ مَعَہُ رَاْیَۃٌ سَوْدَائُ۔ (مسند احمد: ۱۲۳۶۹)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دو مرتبہ مدینہ منورہ میں اپنا نائب مقرر فرمایاتھا، میں نے قادسیہ کے دن ان کو دیکھا کہ وہ ایک سیاہ علم تھامے ہوئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11860

۔ (۱۱۸۶۰)۔ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَتَاہُ شَیْئٌ فَأَعْطَاہُ نَاسًا وَتَرَکَ نَاسًا، وَقَالَ جَرِیرٌ: أَعْطٰی رِجَالًا وَتَرَکَ رِجَالًا، قَالَ: فَبَلَغَہُ عَنِ الَّذِینَ تَرَکَ أَنَّہُمْ عَتِبُوْا وَقَالُوْا، قَالَ: فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: ((إِنِّی أُعْطِی نَاسًا وَأَدَعُ نَاسًا وَأُعْطِی رِجَالًا وَأَدَعُ رِجَالًا۔)) قَالَ عَفَّانُ: قَالَ: ((ذِی وَذِی وَالَّذِی أَدَعُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنَ الَّذِی أُعْطِی أُعْطِی أُنَاسًا لِمَا فِی قُلُوبِہِمْ مِنَ الْجَزَعِ وَالْہَلَعِ وَأَکِلُ قَوْمًا إِلٰی مَا جَعَلَ اللّٰہُ فِی قُلُوبِہِمْ مِنَ الْغِنَی وَالْخَیْرِ مِنْہُمْ عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ۔)) قَالَ: وَکُنْتُ جَالِسًا تِلْقَائَ وَجْہِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: مَا أُحِبُّ أَنَّ لِی بِکَلِمَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حُمْرَ النَّعَمِ۔ (مسند احمد: ۲۰۹۴۸)
سیدنا عمروبن تغلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس مال غنیمت آیا،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کچھ لوگوں میں اس کو تقسیم کر دیا اور بعض لوگوں کو چھوڑ دیا، جن لوگوں کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مال نہیں دیا تھا،انہوں نے خفگی کا اظہار کیا، جب ان کییہ بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے منبر پر چڑھ کر اللہ کی حمد و ثناء کی اور پھر فرمایا: میں بعض لوگوں کو دیتا اور بعض کو چھوڑ دیتا ہوں، حالانکہ میں جن کو نہیں دیتا، وہ مجھے ان افراد کی بہ نسبت زیادہ محبوب ہوتے ہیں، جن کو میں دیتا ہوں، جن لوگوں کے دلوں میں حرص اور طمع ہوتی ہے، میں ان کو دیتا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کے دلوں میں استغنا اور بھلائی رکھی ہے، میں انہیں اللہ کی ان عطا کردہ نعمتوں کے سپرد کر تا ہوں، عمرو بن تغلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ہیں۔ سیدنا عمرو بن تغلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے حق میں یہ بات سن کر کہا: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے بیٹھا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کیاس بات کے مقابلے میں مجھے سرخ اونٹ لینا زیادہ پسند نہیں ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11861

۔ (۱۱۸۶۱)۔ حَدَّثَنَا أَبُو الصَّخْرِ حُمَیْدُ بْنُ زِیَادٍ: أَنَّ یَحْیَی بْنَ النَّضْرِ حَدَّثَہُ عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ أَنَّہُ حَضَرَ ذٰلِکَ، قَالَ: أَتَی عَمْرُو بْنُ الْجَمُوحِ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَرَأَیْتَ إِنْ قَاتَلْتُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ حَتّٰی أُقْتَلَ أَمْشِی بِرِجْلِی ہٰذِہِ صَحِیحَۃً فِی الْجَنَّۃِ، وَکَانَتْ رِجْلُہُ عَرْجَائَ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((نَعَمْ۔)) فَقُتِلُوْا یَوْمَ أُحُدٍ، ہُوَ وَابْنُ أَخِیہِ وَمَوْلًی لَہُمْ، فَمَرَّ عَلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((کَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَیْکَ تَمْشِی بِرِجْلِکَ ہٰذِہِ صَحِیحَۃً فِی الْجَنَّۃِ۔)) فَأَمَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِہِمَا وَبِمَوْلَاہُمَا فَجُعِلُوا فِی قَبْرٍ وَاحِدٍ۔ (مسند احمد: ۲۲۹۲۰)
سیدنا ابوقتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمرو بن جموح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا خیال ہے اگر میں اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے شہید ہو جائوں تو کیا میں جنت میں اپنی اس ٹانگ سے صحیح طور پر چل سکوں گا؟ دراصل وہ ایک ٹانگ سے لنگڑے تھے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی بالکل۔۔ پھر وہ،ان کا بھتیجا سیدنا عبداللہ بن عمرو بن حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کا ایک غلام یہ تینوں غروۂ احد میں شہید ہو گئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس سے گزرے اور فرمایا: میں گویا دیکھ رہا ہوں کہ تو اپنی اس ٹانگ سے صحیح طور پر جنت میں چل رہا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان تینوں کو ایک ہی قبر میں دفن کرنے کا حکم دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11862

۔ (۱۱۸۶۲)۔ حَدَّثَنَا شَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الدِّمَشْقِیُّ، وَکَانَ قَدْ أَدْرَکَ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قَالَ أَبُوْ أُمَامَۃَ: یَا عَمْرُو بْنَ عَبَسَۃَ صَاحِبَ الْعَقْلِ عَقْلِ الصَّدَقَۃِ، رَجُلٌ مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ بِأَیِّ شَیْئٍ تَدَّعِی أَنَّکَ رُبُعُ الْإِسْلَامِ؟ قَالَ: إِنِّی کُنْتُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ أَرَی النَّاسَ عَلٰی ضَلَالَۃٍ وَلَا أَرَی الْأَوْثَانَ شَیْئًا، ثُمَّ سَمِعْتُ عَنْ رَجُلٍ یُخْبِرُ أَخْبَارَ مَکَّۃَ وَیُحَدِّثُ أَحَادِیثَ، فَرَکِبْتُ رَاحِلَتِی حَتّٰی قَدِمْتُ مَکَّۃَ، فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُسْتَخْفٍ، وَإِذَا قَوْمُہُ عَلَیْہِ جُرَآئُ فَتَلَطَّفْتُ لَہُ فَدَخَلْتُ عَلَیْہِ، فَقُلْتُ: مَا أَنْتَ؟ قَالَ: ((أَنَا نَبِیُّ اللّٰہِ۔)) فَقُلْتُ: وَمَا نَبِیُّ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((رَسُولُ اللّٰہِ۔)) قَالَ: قُلْتُ آللَّہُ أَرْسَلَکَ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قُلْتُ: بِأَیِّ شَیْئٍ أَرْسَلَکَ؟ قَالَ: ((بِأَنْ یُوَحَّدَ اللّٰہُ وَلَا یُشْرَکَ بِہِ شَیْئٌ وَکَسْرِ الْأَوْثَانِ وَصِلَۃِ الرَّحِمِ۔)) فَقُلْتُ لَہُ: مَنْ مَعَکَ عَلٰی ہٰذَا؟ قَالَ: ((حُرٌّ وَعَبْدٌ أَوْ عَبْدٌ وَحُرٌّ۔)) وَإِذَا مَعَہُ أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی قُحَافَۃَ وَبِلَالٌ مَوْلٰی أَبِی بَکْرٍ، قُلْتُ: إِنِّی مُتَّبِعُکَ، قَالَ: ((إِنَّکَ لَا تَسْتَطِیعُ ذٰلِکَ یَوْمَکَ ہٰذَا وَلٰکِنْ ارْجِعْ إِلٰی أَہْلِکَ، فَإِذَا سَمِعْتَ بِی قَدْ ظَہَرْتُ فَالْحَقْ بِی۔)) قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلٰی أَہْلِی وَقَدْ أَسْلَمْتُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُہَاجِرًا إِلَی الْمَدِینَۃِ، فَجَعَلْتُ أَتَخَبَّرُ الْأَخْبَارَ حَتّٰی جَائَ رَکَبَۃٌ مِنْ یَثْرِبَ فَقُلْتُ: مَا ہٰذَا الْمَکِّیُّ الَّذِی أَتَاکُمْ؟ قَالُوْا: أَرَادَ قَوْمُہُ قَتْلَہُ فَلَمْ یَسْتَطِیعُوا ذٰلِکَ وَحِیلَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَہُ وَتَرَکْنَا النَّاسَ سِرَاعًا، قَالَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَۃَ: فَرَکِبْتُ رَاحِلَتِی حَتّٰی قَدِمْتُ عَلَیْہِ الْمَدِینَۃَ فَدَخَلْتُ عَلَیْہِ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَتَعْرِفُنِی؟ قَالَ: ((نَعَمْ أَلَسْتَ أَنْتَ الَّذِی أَتَیْتَنِی بِمَکَّۃَ؟)) قَالَ: قُلْتُ: بَلٰی، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! عَلِّمْنِی مِمَّا عَلَّمَکَ اللّٰہُ وَأَجْہَلُ، قَالَ: ((إِذَا صَلَّیْتَ الصُّبْحَ فَأَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاۃِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتْ فَلَا تُصَلِّ حَتّٰی تَرْتَفِعَ، فَإِنَّہَا تَطْلُعُ حِینَ تَطْلُعُ بَیْنَ قَرْنَیْ شَیْطَانٍ، وَحِینَئِذٍ یَسْجُدُ لَہَا الْکُفَّارُ، فَإِذَا ارْتَفَعَتْ قِیدَ رُمْحٍ أَوْ رُمْحَیْنِ فَصَلِّ، فَإِنَّ الصَّلَاۃَ مَشْہُودَۃٌ مَحْضُورَۃٌ حَتّٰی یَسْتَقِلَّ الرُّمْحُ بِالظِّلِّ، ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاۃِ، فَإِنَّہَا حِینَئِذٍ تُسْجَرُ جَہَنَّمُ، فَإِذَا فَائَ الْفَیْئُ فَصَلِّ، فَإِنَّ الصَّلَاۃَ مَشْہُودَۃٌ مَحْضُورَۃٌ حَتّٰی تُصَلِّیَ الْعَصْرَ، فَإِذَا صَلَّیْتَ الْعَصْرَ فَأَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاۃِ حَتّٰی تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَإِنَّہَا تَغْرُبُ حِینَ تَغْرُبُ بَیْنَ قَرْنَیْ شَیْطَانٍ، وَحِینَئِذٍ یَسْجُدُ لَہَا الْکُفَّارُ۔)) قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! أَخْبِرْنِی عَنِ الْوُضُوئِ، قَالَ: ((مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ یَقْرَبُ وَضُوئَہُ، ثُمَّ یَتَمَضْمَضُ وَیَسْتَنْشِقُ وَیَنْتَثِرُ إِلَّا خَرَجَتْ خَطَایَاہُ مِنْ فَمِہِ وَخَیَاشِیمِہِ مَعَ الْمَائِ حِینَ یَنْتَثِرُ، ثُمَّ یَغْسِلُ وَجْہَہُ کَمَا أَمَرَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی إِلَّا خَرَجَتْ خَطَایَا وَجْہِہِ مِنْ أَطْرَافِ لِحْیَتِہِ مِنَ الْمَائِ، ثُمَّ یَغْسِلُ یَدَیْہِ إِلَی الْمِرْفَقَیْنِ إِلَّا خَرَجَتْ خَطَایَا یَدَیْہِ مِنْ أَطْرَافِ أَنَامِلِہِ، ثُمَّ یَمْسَحُ رَأْسَہُ إِلَّا خَرَجَتْ خَطَایَا رَأْسِہِ مِنْ أَطْرَافِ شَعَرِہِ مَعَ الْمَائِ، ثُمَّ یَغْسِلُ قَدَمَیْہِ إِلَی الْکَعْبَیْنِ کَمَا أَمَرَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا خَرَجَتْ خَطَایَا قَدَمَیْہِ مِنْ أَطْرَافِ أَصَابِعِہِ مَعَ الْمَائِ، ثُمَّ یَقُومُ فَیَحْمَدُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَیُثْنِی عَلَیْہِ بِالَّذِی ہُوَ لَہُ أَہْلٌ، ثُمَّ یَرْکَعُ رَکْعَتَیْنِ إِلَّا خَرَجَ مِنْ ذَنْبِہِ کَہَیْئَتِہِ یَوْمَ وَلَدَتْہُ أُمُّہُ۔)) قَالَ أَبُو أُمَامَۃَ: یَا عَمْرُو بْنَ عَبَسَۃَ! انْظُرْ مَا تَقُولُ؟ أَسَمِعْتَ ہٰذَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَیُعْطَی ہٰذَا الرَّجُلُ کُلَّہُ فِی مَقَامِہِ؟ قَالَ: فَقَالَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَۃَ: یَا أَبَا أُمَامَۃَ! لَقَدْ کَبِرَتْ سِنِّی وَرَقَّ عَظْمِی، وَاقْتَرَبَ أَجَلِی وَمَا بِی مِنْ حَاجَۃٍ، أَنْ أَکْذِبَ عَلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَعَلٰی رَسُولِہِ، لَوْ لَمْ أَسْمَعْہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَّا مَرَّۃً أَوْ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا، لَقَدْ سَمِعْتُہُ سَبْعَ مَرَّاتٍ أَوْ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۱۷۱۴۴)
شداد بن عبداللہ دمشقی، جن کو متعدد صحابۂ کرام سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، ان سے مروی ہے کہ سیدنا ابو امامہ نے کہا کہ دیت (خون بہا) ادا نہ کر سکنے والوں کی طرف سے خون بہاادا کرنے والے عمرو بن عبسہ! آپ بنو سلیم میں سے ہیں، آپ کس طرح دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ چوتھے نمبر پر دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے؟ انہوںنے کہا:میں دور جاہلیت میں بھی لوگوں کو گم راہ سمجھتا تھا اور میں بتوں کو کچھ اہمیت نہ دیا کرتا تھا، پھر میں نے ایک آدمی کو سنا وہ مکہ کی باتیں کیا کرتا اور بیان کیا کرتا تھا، میں سواری پر سوار ہو کر مکہ مکرمہ آیا۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پوشیدہ طور پر اسلام کی تبلیغ کرتے تھے اور آپ کی قوم آپ پر غالب تھی اور ظلم ڈھاتی تھی۔ میں نرم خوئی اختیار کرکے آپ کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہوگیا، میں نے عرض کیا: آپ کا دعویٰ کیاہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اللہ کا نبی ہوں۔ میں نے دریافت کیا: اللہ کا نبی ہونے سے کیا مراد ہے یا اس کا مفہوم کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کے نبی ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ میں اللہ کا رسول اور اس کا فرستادہ ہوں۔ میں نے دریافت کیا: آیا آپ کو اللہ نے رسول بنا کر مبعوث کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی بالکل۔ میں نے پوچھا: اللہ نے آپ کو کیا پیغام اور دعوت دے کر مبعوث کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کے ایک ہونے پر ایمان لایا جائے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے، بتوں کو توڑ دیا جائے، صلہ رحمی کی جائے۔ میں نے کہا: اس دعوت کے سلسلہ میں آپ کے ساتھ کس قسم کے لوگ ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک آزادہے اور ایک غلام۔ ان دنوں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔ میں نے عرض کیا: میں آپ کا متبع بننا چاہتا ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ان حالات میں اس بات کی استطاعت نہیں رکھ سکتے، البتہ تم اپنے اہل میں واپس چلے جائو، جب تم میرے غالب ہونے کا سنو تو میرے پاس آجانا۔ اس کے بعد میں اپنے اہل میں واپس آگیا، میں اسلام قبول کر چکا تھا، اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہجرت کرکے مدینہ منورہ میں تشریف لے آئے، میں حالات معلوم کرتا رہا یہاں تک کہ یثرب سے ایک چھوٹا سا قافلہ آیا۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ وہ مکی جو تمہارے ہاں آیا تھا، اس کی کیا پوزیشن ہے؟ انہوںنے بتلایا کہ ان کی قوم نے ان کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا، مگر وہ اپنے اس ارادے میں کامیاب نہ ہو سکے، ان کے اور ان کے اس برے ارادہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رکاوٹ آگئی اور لوگ بڑی تیزسے اس کے ساتھ مل رہے ہیں۔ پھر میں سواری پر سوار ہو کر مدینہ منورہ آیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ نے مجھے پہچانا؟ آپ نے فرمایا: کیا تم وہی شخص نہیں ہو، جو میرے پاس مکہ میں آئے تھے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ پھر میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو کچھ سکھایا ہے اور میں اس سے واقف نہیں، آپ مجھے بھی اس کی تعلیم دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم فجر کی نماز ادا کر لو تو طلوع آفتاب تک نماز نہ پڑھو، آفتاب طلوع ہونے کے بعد بھی اس کے بلند ہونے تک نماز نہ پڑھو، کیونکہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے اور اس وقت کفار اسے سجدہ کرتے ہیں، جب سورج ایک دو نیزوں کے برابر بلند ہو جائے تو نماز پڑھ سکتے ہو، بے شک نماز کے وقت اللہ کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں، تم سورج کے عین سر پر پہنچنے تک نماز پڑھ سکتے ہو، جب سورج عین سر پر ہو تو نماز نہ پڑھو کیونکہ اس وقت جہنم کو بھڑکایا جاتا ہے، جب سایہ ڈھل جائے تو نماز پڑھو، نماز کے وقت اللہ کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں، پھر تم عصر تک نماز پڑھ سکتے۔ جب تم عصر کی نمازادا کر لو تو غروب آفتاب تک نماز پڑھنے سے رکے رہو، جب سورج غروب ہوتا ہے اس وقت بھی کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! مجھے وضوء کے مسائل بھی بتلائیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو کوئی وضو کے پانی کے قریب ہو کر کلی کرے، ناک میں پانی چڑھائے، ناک کو جھاڑے،تو اس کے گناہ پانی کے ساتھ اس کے منہ سے اور نتھنوں سے نکل جاتے ہیں، پھر جب وہ چہرہ اسی طرح دھوئے جیسے اس کا اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیاہے تو اس کے گناہ پانی کے ساتھ اس کیداڑھی کے کناروں سے نکل جاتے ہیں۔ پھروہ اپنے بازوئوں کو کہنیوں تک دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں کے گناہ انگلیوں کے پوروں سے نکل جاتے ہیں، پھر وہ جب اپنے سرکا مسح کرتا ہے تو اس کے سر کے گناہ پانی کے ساتھ بالوں کے سروں سے نکل جاتے ہیں، پھر وہ اپنے قدموں کو یعنی پائوں کو اسی طرح دھوتا ہے، جیسے اس کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو پانی کے ساتھ اس کے گناہ پائوں کی انگلیوں کے کناروں سے نکل جاتے ہیں، اس کے بعد وہ کھڑا ہو کر اللہ کے شایان شان حمد و ثناء کرتا ہے اور دو رکعت نماز ادا کرتا ہے تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے، جیسا وہ اپنی ولادت کے روز تھا۔ عمرو بن عبسہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے شاگرد ابو امامہ نے دریافت کیا: اے عمرو بن عبسہ! ذرا خیال سے بولیں۔ کیا آپ نے یہ ساری بات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے خو دسنی ہے؟ کیایہ سب کچھ ایک آدمی کو ایک ہی وقت میں مل جاتا ہے؟ سیدنا عمروبن عبسہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے ابو امامہ!اب میں بوڑھا ہو چکا ہوں، میری ہڈیاں کمزور ہو چکی ہیں، میری موت کا وقت قریب ہے۔ مجھے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر جھوٹ باندھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ بات ایک، دو یا تین مرتبہ ہی سنی ہوتی تو میں بیان نہ کرتا۔ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ حدیث سات مرتبہ بلکہ اس سے بھی زائد مرتبہ سماع کر چکا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11863

۔ (۱۱۸۶۳)۔ وَعَنْ اَبِی نَجِیْحِ نِ السُّلَمِیِّ یَعْنِیْ عَمْرَو بْنَ عَبَسَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: حَاصَرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِصْنَ الطَّائِفِ فَسَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَقُوْلُ: ((مَنْ بَلَغَ بِسَہْمٍ فَلَہٗ دَرَجَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ۔)) قَالَ: فَبَلَغْتُ یَوْمَئِذٍ سِتَّۃَ عَشَرَ سَہْمًا۔ (مسند احمد: ۱۷۱۴۷)
ابو نجیح سیدنا عمرو بن عبسہ سلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں طائف کے قلعے کا محاصر کیا، اس دوران رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ کی راہ میں دشمن کو ایک تیر مارا، اسے جنت میں ایک درجہ ملے گا۔ سیدنا عمرو بن عبسہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے اس دن سولہ تیرمارے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11864

۔ (۱۱۸۶۴)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ مِنْ فِیْہِ قَالَ: لَمَّا اِنْصَرَفْنَا مِنَ الْأَحْزَابِ عَنِ الْخَنْدَقِ جَمَعْتُ رِجَالًا مِنْ قُرَیْشٍ، کَانُوا یَرَوْنَ مَکَانِی وَیَسْمَعُونَ مِنِّی، فَقُلْتُ لَہُمْ: تَعْلَمُونَ وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأَرٰی أَمْرَ مُحَمَّدٍ یَعْلُو الْأُمُورَ عُلُوًّا کَبِیرًا مُنْکَرًا، وَإِنِّی قَدْ رَأَیْتُ رَأْیًا فَمَا تَرَوْنَ فِیہِ؟ قَالُوا: وَمَا رَأَیْتَ؟ قَالَ: رَأَیْتُ أَنْ نَلْحَقَ بِالنَّجَاشِیِّ فَنَکُونَ عِنْدَہُ فَإِنْ ظَہَرَ مُحَمَّدٌ عَلٰی قَوْمِنَا کُنَّا عِنْدَ النَّجَاشِیِّ فَإِنَّا أَنْ نَکُونَ تَحْتَ یَدَیْہِ أَحَبُّ إِلَیْنَا مِنْ أَنْ نَکُونَ تَحْتَ یَدَیْ مُحَمَّدٍ، وَإِنْ ظَہَرَ قَوْمُنَا فَنَحْنُ مَنْ قَدْ عُرِفَ فَلَنْ یَأْتِیَنَا مِنْہُمْ إِلَّا خَیْرٌ، فَقَالُوا: إِنَّ ہٰذَا الرَّأْیُ، قَالَ: فَقُلْتُ لَہُمْ: فَاجْمَعُوا لَہُ مَا نُہْدِی لَہُ، وَکَانَ أَحَبَّ مَا یُہْدَی إِلَیْہِ مِنْ أَرْضِنَا الْأَدَمُ، فَجَمَعْنَا لَہُ أُدْمًا کَثِیرًا، فَخَرَجْنَا حَتّٰی قَدِمْنَا عَلَیْہِ، فَوَاللّٰہِ! إِنَّا لَعِنْدَہُ إِذْ جَائَ عَمْرُو بْنُ أُمَیَّۃَ الضَّمْرِیُّ، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ بَعَثَہُ إِلَیْہِ فِی شَأْنِ جَعْفَرٍ وَأَصْحَابِہِ، قَالَ: فَدَخَلَ عَلَیْہِ ثُمَّ خَرَجَ مِنْ عِنْدِہِ، قَالَ: فَقُلْتُ لِأَصْحَابِی: ہٰذَا عَمْرُو بْنُ أُمَیَّۃَ الضَّمْرِیُّ، لَوْ قَدْ دَخَلْتُ عَلَی النَّجَاشِیِّ فَسَأَلْتُہُ إِیَّاہُ فَأَعْطَانِیہِ فَضَرَبْتُ عُنُقَہُ، فَإِذَا فَعَلْتُ ذٰلِکَ رَأَتْ قُرَیْشٌ أَنِّی قَدْ أَجْزَأْتُ عَنْہَا حِینَ قَتَلْتُ رَسُولَ مُحَمَّدٍ، قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَیْہِ فَسَجَدْتُ لَہُ کَمَا کُنْتُ أَصْنَعُ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِصَدِیقِی أَہْدَیْتَ لِی مِنْ بِلَادِکَ شَیْئًا؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، أَیُّہَا الْمَلِکُ، قَدْ أَہْدَیْتُ لَکَ أُدْمًا کَثِیرًا، قَالَ: ثُمَّ قَدَّمْتُہُ إِلَیْہِ فَأَعْجَبَہُ وَاشْتَہَاہُ ثُمَّ قُلْتُ لَہُ: أَیُّہَا الْمَلِکُ! إِنِّی قَدْ رَأَیْتُ رَجُلًا خَرَجَ مِنْ عِنْدِکَ وَہُوَ رَسُولُ رَجُلٍ عَدُوٍّ لَنَا فَأَعْطِنِیہِ لِأَقْتُلَہُ فَإِنَّہُ قَدْ أَصَابَ مِنْ أَشْرَافِنَا وَخِیَارِنَا، قَالَ: فَغَضِبَ ثُمَّ مَدَّ یَدَہُ فَضَرَبَ بِہَا أَنْفَہُ ضَرْبَۃً، ظَنَنْتُ أَنْ قَدْ کَسَرَہُ، فَلَوِ انْشَقَّتْ لِی الْأَرْضُ لَدَخَلْتُ فِیہَا فَرَقًا مِنْہُ ثُمَّ قُلْتُ: أَیُّہَا الْمَلِکُ وَاللّٰہِ! لَوْ ظَنَنْتُ أَنَّکَ تَکْرَہُ ہٰذَا مَا سَأَلْتُکَہُ، فَقَالَ لَہُ: أَتَسْأَلُنِی أَنْ أُعْطِیَکَ رَسُولَ رَجُلٍ یَأْتِیہِ النَّامُوسُ الْأَکْبَرُ الَّذِی کَانَ یَأْتِی مُوسٰی لِتَقْتُلَہُ؟ قَالَ: قُلْتُ، أَیُّہَا الْمَلِکُ أَکَذَاکَ ہُوَ؟ فَقَالَ: وَیْحَکَ یَا عَمْرُو! أَطِعْنِی وَاتَّبِعْہُ فَإِنَّہُ وَاللّٰہِ لَعَلَی الْحَقِّ وَلَیَظْہَرَنَّ عَلٰی مَنْ خَالَفَہُ کَمَا ظَہَرَ مُوسٰی عَلٰی فِرْعَوْنَ وَجُنُودِہِ، قَالَ: قُلْتُ: فَبَایِعْنِی لَہُ عَلَی الْإِسْلَامِ، قَالَ: نَعَمْ فَبَسَطَ یَدَہُ وَبَایَعْتُہُ عَلَی الْإِسْلَامِ ثُمَّ خَرَجْتُ إِلٰی أَصْحَابِی، وَقَدْ حَالَ رَأْیِی عَمَّا کَانَ عَلَیْہِ وَکَتَمْتُ أَصْحَابِی إِسْلَامِی، ثُمَّ خَرَجْتُ عَامِدًا لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِأُسْلِمَ، فَلَقِیتُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ وَذٰلِکَ قُبَیْلَ الْفَتْحِ وَہُوَ مُقْبِلٌ مِنْ مَکَّۃَ، فَقُلْتُ: أَیْنَ یَا أَبَا سُلَیْمَانَ؟ وَاللّٰہِ! لَقَدْ اسْتَقَامَ الْمَنْسِمُ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَنَبِیٌّ أَذْہَبُ وَاللّٰہِ أُسْلِمُ فَحَتّٰی مَتَی؟ قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ! مَا جِئْتُ إِلَّا لِأُسْلِمَ، قَالَ: فَقَدِمْنَا عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَدِمَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فَأَسْلَمَ وَبَایَعَ، ثُمَّ دَنَوْتُ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی أُبَایِعُکَ عَلٰی أَنْ تَغْفِرَ لِی مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِی وَلَا أَذْکُرُ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا عَمْرُو بَایِعْ فَإِنَّ الْإِسْلَامَ یَجُبُّ مَا کَانَ قَبْلَہُ، وَإِنَّ الْہِجْرَۃَ تَجُبُّ مَا کَانَ قَبْلَہَا)) قَالَ: فَبَایَعْتُہُ ثُمَّ انْصَرَفْتُ، قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: وَقَدْ حَدَّثَنِی مَنْ لَا أَتَّہِمُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ طَلْحَۃَ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ کَانَ مَعَہُمَا أَسْلَمَ حِینَ أَسْلَمَا۔ (مسند احمد: ۱۷۹۳۰)
حبیب بن اوس سے مروی ہے کہ سیدنا عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے براہ راست بیان کیا کہ جب ہم غزوۂ احزاب میں خندق سے واپس ہوئے، تو میں نے چند قریشی لوگوں کو جمع کیا، وہ جو میرا مقام سمجھتے اور میری بات کو توجہ سے سنتے تھے، میں نے ان سے کہا: اللہ کی قسم! تم جانتے ہو کہ میری نظر میں محمد کی دعوت سب پر غالب ہو کر رہے گی اور ہم لوگ اسے پسند بھی نہیں کرتے، میری ایک رائے ہے، اب تم بتاؤ کہ اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا: جی آپ کی رائے کیا ہے؟ میں نے کہا: میرا خیال ہے کہ ہم نجاشی کے پاس چلے جائیں اور وہیں رہیں، اگر محمد ہماری قوم پر غالب آ گئے، تو ہم نجاشی کے ہاں ہوں گے اور محمد کے ماتحت رہنے کی نسبت نجاشی کے ماتحت رہنا ہمیں زیادہ پسند ہے اور اگر ہماری قوم غالب ہوئی تو ہم معروف ہیں،ہمیں ان کے ہاں خیر ہی خیر ملے گی۔ لوگوں نے کہا: واقعی آپ کی رائے مناسب ہے۔پھر میں نے ان سے کہا: تم اس کو تحائف دینے کے لیے مال جمع کرو، اسے ہمارے علاقے کا چمڑا بطور ہدیہ بہت پسند تھا، پس ہم نے اسے دینے کے لیے بہت سے چمڑے جمع کر لئے اور ہم روانہ ہو گئے اور اس کے ہاں پہنچ گئے، اللہ کی قسم !ہم اس کے پاس موجود تھے کہ عمرو بن امیہ ضمری بھی وہاں آگئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو جعفر اور ان کے ساتھیوںکے سلسلہ میں بات چیت کے لیے وہاں بھیجا تھا، وہ اس کے پاس آئے اور اس کے ہاں سے چلے گئے، اب میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: یہ عمرو بن امیہ ضمری ہے، اگر میں نجاشی کے ہاں جا کر اس سے اس کا مطالبہ کروں کہ اسے میرے حوالے کر دے تو وہ اسے میرے حوالے کر دے گا اور میں اسے قتل کر دوں گا تو قریش اعتراف کریں گے کہ میں نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سفیر کو قتل کر کے ان کی نیابت کا حق ادا کر دیا۔ چنانچہ میں اس کے دربار میں گیا اور جاتے ہی اسے تعظیمی سجدہ کیا، جیسا کہ میں اس سے پہلے بھی کیا کرتا تھا،اس نے کہا: دوست کی آمد مبارک، تم اپنے وطن سے میرے لیے کچھ تحفہ لائے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں ! بادشاہ سلامت! میں آپ کے لیے کثیر مقدار میں چمڑے لے کر حاضر ہوا ہوں۔ پھر میں نے وہ اس کی خدمت میں پیش کئے، اس نے ان کو خوب پسند کیا اور یہ بھی اظہار کیا کہ اس کو ان کی ضرورت تھی، اس کے بعد میں نے کہا: بادشاہ سلامت! میں نے یہاں ایک آدمی کو دیکھا ہے، جو آپ کے ہاں سے باہر گیا ہے، وہ تو ہمارے دشمن کا قاصد ہے، آپ اسے میرے حوالے کر دیں تاکہ میں اسے قتل کر سکوں، وہ تو ہمارے معزز اور بہترین لوگوں کا قاتل ہے، یہ سن کر نجاشی غضبناک ہو گیا۔ اس نے اپنا ہاتھ لمبا کر کے اپنے ہی ناک پر اس قدر زور سے مارا کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ اس نے اپنے ناک کی ہڈی توڑ دی ہو گی، اس کے خوف کی وجہ سے میرییہ حالت ہوئی کہ اگر زمین پھٹ جاتی تو میں اس میں داخل ہو جاتا۔ پھر میں نے کہا: بادشاہ سلامت! اللہ کی قسم اگر مجھے علم ہوتا کہ یہ بات آپ کو اس قدر ناگوار گزرے گی تو میں آپ سے اس کا مطالبہ ہی نہ کرتا۔ نجاشی نے کہا: جو فرشتہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا کرتا تھا، اب وہ جس آدمی کے پاس آتا ہے، کیا میں اس کے قاصد کو تمہارے حوالے کر دوں تاکہ تم اسے قتل کر سکو؟ میں نے کہا: بادشاہ سلامت! کیا وہ واقعی ایسا ہی ہے؟ وہ بولا: اے عمرو! تجھ پر افسوس ہے، تم میری بات مان لو اور اس کی اتباع کر لو، اللہ کی قسم وہ یقینا حق پر ہے اور وہ ضرور بالضرور اپنے مخالفین پر غالب آئے گا، جیسے موسیٰ علیہ السلام ، فرعون اور اس کے لشکروں پر غالب آئے تھے۔ میں نے کہا: آپ مجھ سے اس کے حق میں قبولِ اسلام کی بیعت لے لیں۔ نجاشی نے کہا: ٹھیک ہے۔ چنانچہ اس نے اپنا ہاتھ پھیلا دیا اور میں نے اس کے ہاتھ پر قبولِ اسلام کی بیعت کر لی۔ پھر میں اپنے ساتھیوں کی طرف گیا، جبکہ میری رائے سابقہ رائے سے یکسر بدل چکی تھی، لیکن میں نے اپنے ساتھیوں سے اپنے قبولِ اسلام کو چھپائے رکھا، پھر میں مسلمان ہونے کے لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف چل دیا، خالد بن ولید سے میری ملاقات ہوئی، وہ مکہ مکرمہ سے آرہے تھے، یہ فتح مکہ سے پہلے کی بات ہے اور میں نے ان سے دریافت کیا: ابو سلیمان! کہاں سے آرہے ہو؟ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! راستہ خوب واضح ہو چکا ہے، وہ محمد یقینا نبی ہے، اللہ کی قسم میں تو جا کر مسلمان ہوتا ہوں۔ کب تک یوں ہی ادھر ادھربھٹکتا رہوں گا، میں نے کہا: اللہ کی قسم میں بھی اسلام قبول کرنے کے لیے ہی آیاہوں۔ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچے۔ خالد بن ولید آگے بڑھے۔ انہوں نے اسلام قبول کیا اوربیعت کی، ان کے بعد میں بھی قریب ہوا اور میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں آپ سے اس شرط پر بیعتکرتا ہوں کہ میرے سابقہ سارے گناہ معاف ہو جائیں اور مجھے بعد میں سرزد ہونے والے گناہوں کانام لینایاد نہ رہا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے عمرو! تم بیعت کرو، بے شک اسلام پہلے کے سارے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور ہجرت سابقہ تمام گناہوں کو ختم کر دیتی ہے، پس میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کر لی اور پھر میں واپس آگیا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں: مجھ سے ایک ایسے آدمی نے بیان کیا جومیرے نزدیک قابلِ اعتماد ہے، اس نے کہا کہ سیدنا عثمان بن طلحہ بن ابی طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی ان دونوں کے ہم راہ تھے، جب یہ دونوں اسلام میں داخل ہوئے تو وہ بھی ان کے ساتھ ہی مسلمان ہوئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11865

۔ (۱۱۸۶۵)۔ وَعَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ یَقُولُ: بَعَثَ إِلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((خُذْ عَلَیْکَ ثِیَابَکَ وَسِلَاحَکَ ثُمَّ ائْتِنِی۔)) فَأَتَیْتُہُ وَہُوَ یَتَوَضَّأُ فَصَعَّدَ فِیَّ النَّظَرَ ثُمَّ طَأْطَأَہُ فَقَالَ: ((إِنِّی أُرِیدُ أَنْ أَبْعَثَکَ عَلٰی جَیْشٍ فَیُسَلِّمَکَ اللّٰہُ وَیُغْنِمَکَ، وَأَرْغَبُ لَکَ مِنَ الْمَالِ رَغْبَۃً صَالِحَۃً۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا أَسْلَمْتُ مِنْ أَجْلِ الْمَالِ وَلٰکِنِّی أَسْلَمْتُ رَغْبَۃً فِی الْإِسْلَامِ، وَأَنْ أَکُونَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((یَا عَمْرُو! نِعْمَ الْمَالُ الصَّالِحُ لِلْمَرْئِ الصَّالِحِ۔)) (مسند احمد: ۱۷۹۱۵)
سیدناعمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے پیغام بھیجا کہ تم لباس اور اسلحہ زیب ِ تن کر کے میرے پاس آجائو، میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا تو آپ وضو کر رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری طرف نظر اٹھائی اور سر کو نیچے کی طرف جھکایا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہیں ایک لشکر پر امیر بنا کر روانہ کرناچاہتا ہوں، اللہ تمہیں سلامت رکھے گا اور تمہیں غنیمت سے نوازے گا یا تمہیں مال کی صالح رغبت دے گا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں مال و دولت کے لالچ میں نہیں، بلکہ اسلام کی رغبت کی بنا پر مسلمان ہوا ہوں،میں تو اس لیے مسلمان ہوا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت حاصل رہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عمرو! صالح آدمی کے لیے اچھا مال اچھی چیز ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11866

۔ (۱۱۸۶۶)۔ حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ وَعَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْوَرْدِ عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ قَالَ: قَالَ طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ: لَا أُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَیْئًا إِلَّا أَنِّی سَمِعْتُہُ یَقُولُ: ((إِنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ صَالِحِی قُرَیْشٍ۔)) قَالَ: وَزَادَ عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَرْدٍ عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ عَنْ طَلْحَۃَ قَالَ: ((نِعْمَ أَہْلُ الْبَیْتِ عَبْدُ اللّٰہِ، وَأَبُو عَبْدِ اللّٰہِ، وَأُمُّ عَبْدِ اللّٰہِ۔)) (مسند احمد: ۱۳۸۲)
سیدنا طلحہ بن عبید اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے صرف وہی بات بیان کرتا ہوں، جو میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہوتی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عمرو بن عاص قریش کے صالح افراد میں سے ہے۔ عبدالجبار بن ورد نے مزید بیان کیا کہ ابن ابی ملیکہ نے طلحہ سے بیان کیا کہ سیدنا طلحہ بن عبید اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: عبداللہ، ان کے والد اور ان کی والدہ، یہ بہترین گھرانہ ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11867

۔ (۱۱۸۶۷)۔ وَعَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِبْنَا الْعَاصِ مُؤْمِنَانِ عَمْرٌو وَہِشَامٌ۔)) (مسند احمد: ۸۰۲۹)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عاص کے دونوں بیٹے عمرو اور ہشام اہل ایمان ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11868

۔ (۱۱۸۶۸)۔ وَعَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ عَقَلْتُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَلْفَ مِثْلٍ۔(مسند احمد: ۱۷۹۵۹)
سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایک ہزار ضرب الامثال سنی اور سیکھی ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11869

۔ (۱۱۸۶۹)۔ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ شِمَاسَۃَ حَدَّثَہُ قَالَ: لَمَّا حَضَرَتْ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ الْوَفَاۃُ بَکٰی، فَقَالَ لَہُ ابْنُہُ عَبْدُ اللّٰہِ: لِمَ تَبْکِی أَجَزَعًا عَلَی الْمَوْتِ؟ فَقَالَ: لَا، وَاللّٰہِ! وَلٰکِنْ مِمَّا بَعْدُ، فَقَالَ لَہُ: قَدْ کُنْتَ عَلٰی خَیْرٍ، فَجَعَلَ یُذَکِّرُہُ صُحْبَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَفُتُوحَہُ الشَّامَ، فَقَالَ عَمْرٌو: تَرَکْتَ أَفْضَلَ مِنْ ذٰلِکَ کُلِّہِ شَہَادَۃَ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ إِنِّی کُنْتُ عَلٰی ثَلَاثَۃِ أَطْبَاقٍ لَیْسَ فِیہَا طَبَقٌ إِلَّا قَدْ عَرَفْتُ نَفْسِی فِیہِ، کُنْتُ أَوَّلَ شَیْئٍ کَافِرًا فَکُنْتُ أَشَدَّ النَّاسِ عَلٗی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَوْ مِتُّ حِینَئِذٍ وَجَبَتْ لِی النَّارُ، فَلَمَّا بَایَعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کُنْتُ أَشَدَّ النَّاسِ حَیَائً مِنْہُ، فَمَا مَلَأْتُ عَیْنِی مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَا رَاجَعْتُہُ فِیمَا أُرِیدُ حَتّٗی لَحِقَ بِاللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ حَیَائً مِنْہُ، فَلَوْ مِتُّ یَوْمَئِذٍ قَالَ النَّاسُ: ہَنِیئًا لِعَمْرٍو أَسْلَمَ وَکَانَ عَلٰی خَیْرٍ فَمَاتَ فَرُجِیَ لَہُ الْجَنَّۃُ، ثُمَّ تَلَبَّسْتُ بَعْدَ ذٰلِکَ بِالسُّلْطَانِ وَأَشْیَائَ فَلَا أَدْرِی عَلَیَّ أَمْ لِی، فَإِذَا مِتُّ فَلَا تَبْکِیَنَّ عَلَیَّ، وَلَا تُتْبِعْنِی مَادِحًا وَلَا نَارًا، وَشُدُّوْا عَلَیَّ إِزَارِی فَإِنِّی مُخَاصِمٌ، وَسُنُّوا عَلَیَّ التُّرَابَ سَنًّا، فَإِنَّ جَنْبِیَ الْأَیْمَنَ لَیْسَ بِأَحَقَّ بِالتُّرَابِ مِنْ جَنْبِی الْأَیْسَرِ، وَلَا تَجْعَلَنَّ فِی قَبْرِی خَشَبَۃً وَلَا حَجَرًا، فَإِذَا وَارَیْتُمُونِیْ فَاقْعُدُوْا عِنْدِی قَدْرَ نَحْرِ جَزُورٍ وَتَقْطِیعِہَا أَسْتَأْنِسْ بِکُمْ۔ (مسند احمد: ۱۷۹۳۳)
عبدالرحمن بن شماسہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان پر گریہ طاری ہوگیا، ان کے فرزند عبداللہ نے ان سے کہا: آپ کیوں روتے ہیں؟ کیا موت کے ڈر کی وجہ سے؟ انہوںنے کہا: نہیں، اللہ کی قسم موت سے نہیں، بلکہ موت کے بعد والے مراحل کا خوف ہے۔ عبداللہ نے کہا: آپ تو بہت اچھے اچھے اعمال کرتے رہے ہیں، پھر وہ انہیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صحبت میں گزارے ہوئے لمحات اور ان کی فتوحات شام یاد کرانے لگے۔ سیدنا عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم ان سب سے افضل بات تو چھوڑ ہی گئے کہ میں کلمۂ شہادت کا اقرار و اعتراف کر چکا ہوں، میری زندگی کے تین مراحل ہیں اور مجھے ہر مرحلہ میں اپنی ذات کی معرفت حاصل ہے، میں پہلے مرحلے میں کافر تھا اور میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سخت دشمن تھا، اگر مجھے اسی حال میں موت آجاتی تو مجھ پر جہنم واجب ہوتی ۔ جب میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تو مجھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سب سے زیادہ جھجک آتی تھی، میں نے کبھی نظر بھر کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نہیں دیکھا اور میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جو کچھ دریافت کرنا چاہتا ہوتا کبھی دوسری مرتبہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت نہ کرتا، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ کے ہاں تشریف لے گئے، یہ میری طرف سے آپ کے حیاء کی وجہ تھی، اگر انہی دنوں مجھے موت آجاتی تو لوگ کہتے کہ عمرو کو مبارک ہو، وہ مسلمان ہوا اور اس نے بہترین زندگی بسر کی، اس کے لیے جنت کی امید ہے۔اس کے بعد میں حکمران اور بہت سے معاملات میں مشغول رہا، میں نہیں جانتا کہ وہ امور میرے حق میں ثابت ہوں گے یا میرے خلاف، میں فوت ہو جائوں تو تم میرے اوپر ہرگز گر یہ نہ کرنا اور میرے جنازہ کے ساتھ کسی مدح کرنے والے کو یا آگ لے کر نہ جانا اور میرے اوپر چادر باندھ دینا، کیونکہ اللہ کے فرشتے مجھ سے سخت حساب لیں گے اور تم میرے اوپر اچھی طرح مٹی ڈال دینا ، بے شک میرادایاں پہلو میرے بائیں پہلو سے زیادہ مٹی کا حق دار نہیں۔ اور تم میری قبر پر لکڑییا پتھر نہ رکھنا، جب تم میری تدفین سے فارغ ہو جائو تو تم میری قبر کے پاس اتنی دیر بیٹھے رہنا جتنی دیر میں ایک اونٹ کو نحر کرکے اس کا گوشت تیار کیا جاتا ہے، تاکہ تمہاری موجودگی سے مجھے کچھ انس حاصل ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11870

۔ (۱۱۸۷۰)۔ حَدَّثَنَا أَبُو نَوْفَلِ بْنُ أَبِی عَقْرَبَ قَالَ: جَزِعَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ عِنْدَ الْمَوْتِ جَزَعًا شَدِیدًا، فَلَمَّا رَأٰی ذٰلِکَ ابْنُہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو قَالَ: یَا أَبَا عَبْدِ اللّٰہِ! مَا ہٰذَا الْجَزَعُ؟ وَقَدْ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُدْنِیکَ وَیَسْتَعْمِلُکَ، قَالَ: أَیْ بُنَیَّ! قَدْ کَانَ ذٰلِکَ، وَسَأُخْبِرُکَ عَنْ ذٰلِکَ، إِنِّی وَاللّٰہِ مَا أَدْرِی أَحُبًّا ذٰلِکَ کَانَ أَمْ تَأَلُّفًا یَتَأَلَّفُنِی، وَلٰکِنِّی أَشْہَدُ عَلٰی رَجُلَیْنِ أَنَّہُ قَدْ فَارَقَ الدُّنْیَا وَہُوَ یُحِبُّہُمَا ابْنُ سُمَیَّۃَ وَابْنُ أُمِّ عَبْدٍ، فَلَمَّا حَدَّثَہُ وَضَعَ یَدَہُ مَوْضِعَ الْغِلَالِ مِنْ ذَقْنِہِ، وَقَالَ: اللَّہُمَّ أَمَرْتَنَا فَتَرَکْنَا، وَنَہَیْتَنَا فَرَکِبْنَا، وَلَا یَسَعُنَا إِلَّا مَغْفِرَتُکَ، وَکَانَتْ تِلْکَ ہِجِّیرَاہُ حَتّٰی مَاتَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌۔ (مسند احمد: ۱۷۹۳۴)
ابو نوفل بن ابی عقرب سے مروی ہے کہ وفات کے وقت سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر گھبراہٹ طاری ہوگئی، ان کے بیٹے عبداللہ نے ان کییہ حالت دیکھی تو کہا: اے ابو عبداللہ! یہ گھبراہٹ اور پریشانی کیسی؟ آپ کو تو یہ مقام حاصل رہا ہے کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آپ کو اپنے قریب بٹھایا کرتے اور آپ کو مختلف علاقوں میں عامل بنا کر بھیجا کرتے تھے۔ سیدنا عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: بیٹے! یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے، میں تمہیں اس بارے میں بتلاتا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ آپ کا میرے ساتھ یہ تعلق مجھ سے محبت کی بنیاد پر تھا یا میری تالیف قلبی کے لیے تھا۔ البتہ میں گواہی دیتا ہوں کہ دو آدمی ایسے تھے کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دنیا سے روانہ ہونے تک ان سے محبت کرتے رہے۔ ایک ابن سمیہ اور ابن ام عبد (یعنی سیدنا عمار بن یاسر اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما )۔ سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب اپنے بیٹے سے یہ باتیں کر رہے تھے تو انہوںنے اپنا ہاتھ اپنی ٹھوڑی کے آخری حصہ پر رکھا ہوا تھا اور کہا: یا اللہ! (ہم خطا کار ہیں) تو نے ہمیں حکم دیئے، ہم نے ان کی پروانہ کی اور تونے ہمیں بہت سے کاموں سے روکا، مگر ہم ان کا ارتکاب کرتے رہے، ہم تو تیری مغفرت ہی کے امیدوار اور طلب گار ہیں۔ یہی کہتے ہوئے اور اسی حالت میں وہ انتقال کر گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11871

۔ (۱۱۸۷۱)۔ ثَنَا جَرِیرٌ یَعْنِی ابْنَ حَازِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ: أَرَأَیْتَ رَجُلًا مَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یُحِبُّہُ أَلَیْسَ رَجُلًا صَالِحًا؟ قَالَ: بَلٰی، قَالَ: قَدْ مَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یُحِبُّکَ وَقَدِ اسْتَعْمَلَکَ، فَقَالَ: قَدِ اسْتَعْمَلَنِی فَوَاللّٰہِ مَا أَدْرِی أَحُبًّا کَانَ لِی مِنْہُ أَوْ اسْتِعَانَۃً بِی، وَلٰکِنْ سَأُحَدِّثُکَ بِرَجُلَیْنِ مَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یُحِبُّہُمَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُودٍ وَعَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ۔ (مسند احمد: ۱۷۹۶۰)
سیدنا عمار بن یاسر اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما )۔ سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب اپنے بیٹے سے یہ باتیں کر رہے تھے تو انہوںنے اپنا ہاتھ اپنی ٹھوڑی کے آخری حصہ پر رکھا ہوا تھا اور کہا: یا اللہ! (ہم خطا کار ہیں) تو نے ہمیں حکم دیئے، ہم نے ان کی پروانہ کی اور تونے ہمیں بہت سے کاموں سے روکا، مگر ہم ان کا ارتکاب کرتے رہے، ہم تو تیری مغفرت ہی کے امیدوار اور طلب گار ہیں۔ یہی کہتے ہوئے اور اسی حالت میں وہ انتقال کر گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11872

۔ (۱۱۸۷۲)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: کَانَ فَزَعٌ بِالْمَدِینَۃِ، فَأَتَیْتُ عَلٰی سَالِمٍ مَوْلٰی أَبِی حُذَیْفَۃَ وَہُوَ مُحْتَبٍ بِحَمَائِلِ سَیْفِہِ، فَأَخَذْتُ سَیْفًا فَاحْتَبَیْتُ بِحَمَائِلِہِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ أَلَا کَانَ مَفْزَعُکُمْ إِلَی اللّٰہِ وَإِلٰی رَسُولِہِ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((أَلَا فَعَلْتُمْ کَمَا فَعَلَ ہٰذَانِ الرَّجُلَانِ الْمُؤْمِنَانِ۔)) (مسند احمد: ۱۷۹۶۳)
سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ مدینہ منورہ میں خوف و ہراس پھیل گیا تو میں سیدنا ابو حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے غلام سیدنا سالم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں گیا، وہ اپنی تلوار کے پٹے کے ساتھ گوٹھ مار کر بیٹھے تھے، میں نے ان سے تلوار لی اور اس کے پٹے سے گوٹھ مار کر بیٹھ گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو! تمہاری گھبراہٹ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف کیوں نہیںہوئی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے اس طرح کیوں نہیں کیا، جیسے ان دونوں نے کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11873

۔ (۱۱۸۷۳)۔ وَعَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اَسْلَمَ النَّاسُ وَآمَنَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ۔)) (مسند احمد: ۱۷۵۴۸)
سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا: (فتح مکہ کے موقع پر) لوگوں نے تو ظاہراً اسلام قبول کیا اور عمرو بن عاص نے (دلی طور پر ) ایمان قبول کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11874

۔ (۱۱۸۷۴)۔ عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: بَعَثَ إِلَیَّ عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ فِی مَرَضِہِ، فَأَتَیْتُہُ فَقَالَ لِی: إِنِّی کُنْتُ أُحَدِّثُکَ بِأَحَادِیثَ لَعَلَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی یَنْفَعُکَ بِہَا بَعْدِی، وَاعْلَمْ أَنَّہُ کَانَ یُسَلَّمُ عَلَیَّ، فَإِنْ عِشْتُ فَاکْتُمْ عَلَیَّ وَإِنْ مِتُّ فَحَدِّثْ إِنْ شِئْتَ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: وَاِنَّہُ کَانَ یُسَلَّمُ عَلَیَّ فَلَمَّا اکْتَوَیْتُ أَمْسَکَ عَنِّیْ فَلَمَّا تَرَکْتُہُ عَادَ اِلَیَّ)، وَاعْلَمْ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ جَمَعَ بَیْنَ حَجَّۃٍ وَعُمْرَۃٍ، ثُمَّ لَمْ یَنْزِلْ فِیہَا کِتَابٌ وَلَمْ یَنْہَ عَنْہَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ رَجُلٌ فِیہَا بِرَأْیِہِ مَا شَائَ۔ (مسند احمد: ۲۰۰۸۰)
مطرف بن عبداللہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مرض الموت میں مبتلا تھے، انہوںنے مجھے پیغام بھیج کر بلوایا، جب میں ان کی خدمت میں آیا تو انہوںنے مجھ سے کہا: میں آپ کو احادیث سنایا کرتا تھا، امید ہے کہ میرے بعد اللہ تعالیٰ ان احادیث سے فائدہ پہنچائے گا، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ شدت مرض کے دوران میرے صبر کرنے کی وجہ سے اللہ کے فرشتے آکر مجھے سلام کہا کرتے تھے، اگر میںزندہ رہوں تو تم میری اس بات کا لوگوں کے سامنے اظہار نہ کرنا اور اگر میرا انتقال ہو جائے تو چاہو تو لوگوں کو بتلا دینا۔ ایک روایت میں ہے: اللہ کے فرشتے مجھے سلام کہا کرتے تھے، مگر جب میں نے اپنے زخم کو داغ لگوایا تو سلام کا یہ سلسلہ مجھ سے رک گیا، پھر جب میں نے اس عمل کو ترک کیا تو یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔ تم یہ بھی جان رکھو کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حج اور عمرہ کو ایک ہی احرام میں جمع کیا تھا اور اس کے بعد نہ کتاب اللہ میں اس سے منع کیا گیا اور نہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود اس سے منع فرمایا، بس ایک آدمی اس بارے میںاپنی رائے سے اس سے منع کرتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11875

۔ (۱۱۸۷۵)۔ عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ، عَنْ فُرَاتِ بْنِ حَیَّانَ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَمَرَ بِقَتْلِہِ، وَکَانَ عَیْنًا لِأَبِی سُفْیَانَ وَحَلِیفًا، فَمَرَّ بِحَلْقَۃٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ: إِنِّی مُسْلِمٌ، قَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ إِنَّہُ یَزْعُمُ أَنَّہُ مُسْلِمٌ، فَقَالَ: ((إِنَّ مِنْکُمْ رِجَالًا نَکِلُہُمْ إِلٰی إِیمَانِہِمْ مِنْہُمْ فُرَاتُ بْنُ حَیَّانَ۔)) (مسند احمد: ۱۹۱۷۳)
حارثہ بن مضرب سے روایت ہے کہ وہ سیدنا فرات بن حیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ وہ قبل از اسلام ابو سفیان کے جاسوس اور (ایک انصاری آدمی کے) حلیف تھے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو قتل کرنے کا حکم دیا، لیکن جب یہ انصار کے ایک حلقہ کے پاس سے گزرے اور انھوں نے کہا کہ میں مسلم ہوں۔ انصار نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ تو کہتا ہے کہ میں مسلم ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں، جنہیں ہم ان کے ایمان کے سپرد کرتے ہیں، فرات بن حیان بھی ان میں سے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11876

۔ (۱۱۸۷۶)۔ وَعَنْہُ فِیْ أُخْرٰی عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لِاَصْحَابِہِ: ((اِنَّ مِنْکُمْ رِجَالًا لَا أُعْطِیہِمْ شَیْئًا أَکِلُہُمْ إِلٰی إِیمَانِہِمْ، مِنْہُمْ فُرَاتُ بْنُ حَیَّانَ قَالَ: مِنْ بَنِی عِجْلٍ۔)) (مسند احمد: ۱۶۷۱۰)
ایک دوسری روایت کے مطابق حارثہ بن مضرب، ایک صحابی سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: تم میں سے بعض لوگ ایسے ہیں کہ میں انہیں کچھ نہیں دیتا، میں انہیںان کے ایمان کے سپرد کرتا ہوں، انہی لوگوں میں سے قبیلہ بنو عجل کا ایک فرد فرات بن حیان بھی ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11877

۔ (۱۱۸۷۷)۔ عَنِ الْعَلَائِ بْنِ عُمَیْرٍ قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ قَتَادَۃَ بْنِ مِلْحَانَ حِینَ حُضِرَ، فَمَرَّ رَجُلٌ فِی أَقْصَی الدَّارِ قَالَ: فَأَبْصَرْتُہُ فِی وَجْہِ قَتَادَۃَ، قَالَ: وَکُنْتُ إِذَا رَأَیْتُہُ کَأَنَّ عَلٰی وَجْہِہِ الدِّہَانَ، قَالَ: وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَسَحَ عَلَی وَجْہِہِ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمٰنِ: حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ مَعِینٍ وَہُرَیْمٌ أَبُو حَمْزَۃَ قَالَا: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ فَذَکَرَ مِثْلَہُ۔ (مسند احمد: ۲۰۵۸۳)
ابو العلاء بن عمیر سے مروی ہے کہ جب سیدنا قتادہ بن ملحان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو اس وقت میں ان کے ہاں موجود تھا، اتنے میں گھر کے اندر دور سے ایک آدمی گزرا، میں نے اس گزرنے والے کا عکس (آئینے کی مانند) قتادہ بن ملحان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے چہرے پر دیکھا، ابو العلاء کہتے ہیں: میں جب انہیں دیکھا کرتا تھا تو یوں لگتا تھا گویا ان کے چہرے پر تیل لگا ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے چہرے پر اپنا ہاتھ مبارک پھیرا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11878

۔ (۱۱۸۷۸)۔ أَبِیْ ثَنَا وَھْبُ بْنُ جَرِیْرٍ ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِیْ أَیَّاسٍ یَعْنِیْ مُعَاوِیَۃَ ابْنَ قُرَّۃَ، عَنْ أَبِیْہِ یَعْنِیْ قُرَّۃَ بْنَ أَیَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّہُ أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَعَا لَہٗ وَمَسَحَ رَأْسَہٗ۔ (مسند احمد: ۱۵۶۶۸)
سیدنا معاویہ بن قرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے والد سیدنا قرہ بن ایاس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گئے تو آپ نے ان کے حق میں دعا کی اور ان کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11879

۔ (۱۱۸۷۹)۔ حَدَّثَنِی مُعَاوِیَۃُ بْنُ قُرَّۃَ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ: أَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی رَہْطٍ مِنْ مُزَیْنَۃَ فَبَایَعْنَاہُ، وَإِنَّ قَمِیصَہُ لَمُطْلَقٌ، قَالَ: فَبَایَعْنَاہُ، ثُمَّ أَدْخَلْتُ یَدِی فِی جَیْبِ قَمِیصِہِ فَمَسِسْتُ الْخَاتَمَ، قَالَ عُرْوَۃُ: فَمَا رَأَیْتُ مُعَاوِیَۃَ وَلَا ابْنَہُ، قَالَ: وَأُرَاہُ یَعْنِی إِیَاسًا فِی شِتَائٍ قَطُّ وَلَا حَرٍّ إِلَّا مُطْلِقَیْ اَزْرَارِھِمَا لَا یَزُرَّانِ۔ (مسند احمد: ۲۰۶۳۹)
سیدنا معاویہ بن قرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں:میں قبیلہ مزینہ کے ایک قافلے کے ساتھ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قمیص کے بٹن کھلے تھے، اس لیے میں نے اپنا ہاتھ آپ کی قمیص کے اندر داخل کیا اور مہر نبوت کو چھوا۔ عروہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے بیٹے ایاس کو موسم گرما اور سرما میں جب بھی دیکھا، ان کی قمیص کے بٹن کھلے ہوتے تھے، ان کو بند نہیں کیا کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11880

۔ (۱۱۸۸۰)۔ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ: أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ، وَکَانَ قَائِدَ کَعْبٍ مِنْ بَنِیہِ حِینَ عَمِیَ، قَالَ: سَمِعْتُ کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ یُحَدِّثُ حَدِیثَہُ حِینَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ، فَقَالَ کَعْبُ بْنُ مَالِکٍ: لَمْ أَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَزْوَۃٍ غَیْرِہَا قَطُّ إِلَّا فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ، غَیْرَ أَنِّی کُنْتُ تَخَلَّفْتُ فِی غَزْوَۃِ بَدْرٍ وَلَمْ یُعَاتِبْ أَحَدًا تَخَلَّفَ عَنْہَا، إِنَّمَا خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُرِیدُ عِیرَ قُرَیْشٍ حَتّٰی جَمَعَ اللّٰہُ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ عَدُوِّہِمْ عَلٰی غَیْرِ مِیعَادٍ، وَلَقَدْ شَہِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیْلَۃَ الْعَقَبَۃِ حِینَ تَوَافَقْنَا عَلَی الْإِسْلَامِ، مَا أُحِبُّ أَنَّ لِی بِہَا مَشْہَدَ بَدْرٍ، وَإِنْ کَانَتْ بَدْرٌ أَذْکَرَ فِی النَّاسِ مِنْہَا وَأَشْہَرَ، وَکَانَ مِنْ خَبَرِی حِینَ تَخَلَّفْتُ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ لِأَنِّی لَمْ أَکُنْ قَطُّ أَقْوٰی وَلَا أَیْسَرَ مِنِّی حِینَ تَخَلَّفْتُ عَنْہُ فِی تِلْکَ الْغَزَاۃِ، وَاللّٰہِ مَا جَمَعْتُ قَبْلَہَا رَاحِلَتَیْنِ قَطُّ حَتّٰی جَمَعْتُہَا فِی تِلْکَ الْغَزَاۃِ، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَلَّمَا یُرِیدُ غَزَاۃً یَغْزُوہَا إِلَّا وَرّٰی بِغَیْرِہَا حَتّٰی کَانَتْ تِلْکَ الْغَزَاۃُ فَغَزَاہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی حَرٍّ شَدِیدٍ، وَاسْتَقْبَلَ سَفَرًا بَعِیدًا وَمَفَازًا، وَاسْتَقْبَلَ عَدُوًّا کَثِیرًا، فَجَلَا لِلْمُسْلِمِینَ أَمْرَہُ لِیَتَأَہَّبُوا أُہْبَۃَ عَدُوِّہِمْ، فَأَخْبَرَہُمْ بِوَجْہِہِ الَّذِی یُرِیدُ، وَالْمُسْلِمُونَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَثِیرٌ، لَا یَجْمَعُہُمْ کِتَابُ حَافِظٍ یُرِیدُ الدِّیوَانَ، فَقَالَ کَعْبٌ: فَقَلَّ رَجُلٌ یُرِیدُ یَتَغَیَّبُ إِلَّا ظَنَّ أَنَّ ذٰلِکَ سَیُخْفٰی لَہُ مَا لَمْ یَنْزِلْ فِیہِ وَحْیٌ مِنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَغَزَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تِلْکَ الْغَزْوَۃَ حِینَ طَابَتِ الثِّمَارُ وَالظِّلُّ، وَأَنَا إِلَیْہَا أَصْعَرُ، فَتَجَہَّزَ إِلَیْہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالْمُؤْمِنُونَ مَعَہُ، وَطَفِقْتُ أَغْدُو لِکَیْ أَتَجَہَّزَ مَعَہُ فَأَرْجِعَ وَلَمْ أَقْضِ شَیْئًا، فَأَقُولُ فِی نَفْسِی أَنَا قَادِرٌ عَلٰی ذٰلِکَ، إِذَا أَرَدْتُ فَلَمْ یَزَلْ کَذٰلِکَ یَتَمَادٰی بِی حَتّٰی شَمَّرَ بِالنَّاسِ الْجِدُّ، فَأَصْبَحَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَادِیًا وَالْمُسْلِمُونَ مَعَہُ، وَلَمْ أَقْضِ مِنْ جَہَازِی شَیْئًا، فَقُلْتُ: الْجَہَازُ بَعْدَ یَوْمٍ أَوْ یَوْمَیْنِ، ثُمَّ أَلْحَقُہُمْ، فَغَدَوْتُ بَعْدَ مَا فَصَلُوْا لِأَتَجَہَّزَ فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَقْضِ شَیْئًا مِنْ جَہَازِی، ثُمَّ غَدَوْتُ فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَقْضِ شَیْئًا، فَلَمْ یَزَلْ ذٰلِکَ یَتَمَادٰی بِی حَتّٰی أَسْرَعُوْا وَتَفَارَطَ الْغَزْوُ، فَہَمَمْتُ أَنْ أَرْتَحِلَ فَأُدْرِکَہُمْ وَلَیْتَ أَنِّی فَعَلْتُ، ثُمَّ لَمْ یُقَدَّرْ ذٰلِکَ لِی، فَطَفِقْتُ إِذَا خَرَجْتُ فِی النَّاسِ بَعْدَ خُرُوجِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَطُفْتُ فِیہِمْ یَحْزُنُنِی أَنْ لَا أَرٰی إِلَّا رَجُلًا مَغْمُوصًا عَلَیْہِ فِی النِّفَاقِ أَوْ رَجُلًا مِمَّنْ عَذَرَہُ اللّٰہُ وَلَمْ یَذْکُرْنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی بَلَغَ تَبُوکَ، فَقَالَ وَہُوَ جَالِسٌ فِی الْقَوْمِ بِتَبُوکَ: ((مَا فَعَلَ کَعْبُ بْنُ مَالِکٍ؟)) قَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی سَلِمَۃَ: حَبَسَہُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! بُرْدَاہُ وَالنَّظَرُ فِی عِطْفَیْہِ، فَقَالَ لَہُ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: بِئْسَمَا قُلْتَ، وَاللّٰہِ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا عَلِمْنَا عَلَیْہِ إِلَّا خَیْرًا، فَسَکَتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ کَعْبُ بْنُ مَالِکٍٔٔ: فَلَمَّا بَلَغَنِی أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ تَوَجَّہَ قَافِلًا مِنْ تَبُوکَ حَضَرَنِی بَثِّی فَطَفِقْتُ أَتَفَکَّرُ الْکَذِبَ، وَأَقُولُ بِمَاذَا أَخْرُجُ مِنْ سَخَطِہِ غَدًا أَسْتَعِینُ عَلٰی ذٰلِکَ کُلَّ ذِی رَأْیٍ مِنْ أَہْلِی، فَلَمَّا قِیلَ إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ أَظَلَّ قَادِمًا زَاحَ عَنِّی الْبَاطِلُ وَعَرَفْتُ أَنِّی لَنْ أَنْجُوَ مِنْہُ بِشَیْئٍ أَبَدًا فَأَجْمَعْتُ صِدْقَہُ، وَصَبَّحَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ فَرَکَعَ فِیہِ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ، فَلَمَّا فَعَلَ ذٰلِکَ جَائَ ہُ الْمُتَخَلِّفُونَ فَطَفِقُوْا یَعْتَذِرُوْنَ إِلَیْہِ وَیَحْلِفُونَ لَہُ وَکَانُوا بِضْعَۃً وَثَمَانِینَ رَجُلًا، فَقَبِلَ مِنْہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَانِیَتَہُمْ، وَیَسْتَغْفِرُ لَہُمْ، وَیَکِلُ سَرَائِرَہُمْ إِلَی اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی حَتّٰی جِئْتُ، فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَیْہِ تَبَسَّمَ تَبَسُّمَ الْمُغْضَبِ، ثُمَّ قَالَ لِی: ((تَعَالَ۔)) فَجِئْتُ أَمْشِی حَتّٰی جَلَسْتُ بَیْنَ یَدَیْہِ، فَقَالَ لِی: ((مَا خَلَّفَکَ؟ أَلَمْ تَکُنْ قَدِ اسْتَمَرَّ ظَہْرُکَ؟)) قَالَ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی لَوْ جَلَسْتُ عِنْدَ غَیْرِکَ مِنْ أَہْلِ الدُّنْیَا لَرَأَیْتُ أَنِّی أَخْرُجُ مِنْ سَخْطَتِہِ بِعُذْرٍ، لَقَدْ أُعْطِیتُ جَدَلًا وَلٰکِنَّہُ وَاللّٰہِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَئِنْ حَدَّثْتُکَ الْیَوْمَ حَدِیثَ کَذِبٍ تَرْضٰی عَنِّی بِہِ لَیُوشِکَنَّ اللّٰہُ تَعَالٰی یُسْخِطُکَ عَلَیَّ، وَلَئِنْ حَدَّثْتُکَ الْیَوْمَ بِصِدْقٍ تَجِدُ عَلَیَّ فِیہِ إِنِّی لَأَرْجُو قُرَّۃَ عَیْنِی عَفْوًا مِنَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی، وَاللّٰہِ مَا کَانَ لِی عُذْرٌ، وَاللّٰہِ مَا کُنْتُ قَطُّ أَفْرَغَ وَلَا أَیْسَرَ مِنِّی حِینَ تَخَلَّفْتُ عَنْکَ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَمَّا ہٰذَا فَقَدْ صَدَقَ فَقُمْ حَتّٰی یَقْضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی فِیکَ۔)) فَقُمْتُ وَبَادَرَتْ رِجَالٌ مِنْ بَنِی سَلِمَۃَ فَاتَّبَعُونِی فَقَالُوْا لِی: وَاللّٰہِ! مَا عَلِمْنَاکَ کُنْتَ أَذْنَبْتَ ذَنْبًا قَبْلَ ہٰذَا، وَلَقَدْ عَجَزْتَ أَنْ لَا تَکُونَ اعْتَذَرْتَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِمَا اعْتَذَرَ بِہِ الْمُتَخَلِّفُونَ، لَقَدْ کَانَ کَافِیَکَ مِنْ ذَنْبِکَ اسْتِغْفَارُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَکَ، قَالَ: فَوَاللّٰہِ! مَا زَالُوْا یُؤَنِّبُونِّی حَتّٰی أَرَدْتُ أَنْ أَرْجِعَ فَأُکَذِّبَ نَفْسِی، قَالَ: ثُمَّ قُلْتُ لَہُمْ: ہَلْ لَقِیَ ہٰذَا مَعِی أَحَدٌ؟ قَالُوْا: نَعَمْ، لَقِیَہُ مَعَکَ رَجُلَانِ قَالَا مَا قُلْتَ، فَقِیلَ لَہُمَا مِثْلُ مَا قِیلَ لَکَ، قَالَ: فَقُلْتُ لَہُمْ: مَنْ ہُمَا؟ قَالُوْا: مُرَارَۃُ بْنُ الرَّبِیعِ الْعَامِرِیُّ وَہِلَالُ بْنُ أُمَیَّۃَ الْوَاقِفِیُّ، قَالَ: فَذَکَرُوْا لِی رَجُلَیْنِ صَالِحَیْنِ قَدْ شَہِدَا بَدْرًا لِی فِیہِمَا أُسْوَۃٌ، قَالَ: فَمَضَیْتُ حِینَ ذَکَرُوْہُمَا لِی، قَالَ: وَنَہٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمُسْلِمِینَ عَنْ کَلَامِنَا أَیُّہَا الثَّلَاثَۃُ مِنْ بَیْنِ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْہُ فَاجْتَنَبَنَا النَّاسُ، قَالَ: وَتَغَیَّرُوا لَنَا حَتّٰی تَنَکَّرَتْ لِی مِنْ نَفْسِی الْأَرْضُ فَمَا ہِیَ بِالْأَرْضِ الَّتِی کُنْتُ أَعْرِفُ، فَلَبِثْنَا عَلٰی ذَلِکَ خَمْسِینَ لَیْلَۃً، فَأَمَّا صَاحِبَایَ فَاسْتَکَانَا وَقَعَدَا فِی بُیُوتِہِمَا یَبْکِیَانِ،ٔ وَأَمَّا أَنَا فَکُنْتُ أَشَبَّ الْقَوْمِ وَأَجْلَدَہُمْ فَکُنْتُ أَشْہَدُ الصَّلَاۃَ مَعَ الْمُسْلِمِینَ وَأَطُوفُ بِالْأَسْوَاقِ وَلَا یُکَلِّمُنِی أَحَدٌ، وَآتِی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ فِی مَجْلِسِہِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ، فَأُسَلِّمُ عَلَیْہِ فَأَقُولُ فِی نَفْسِی حَرَّکَ شَفَتَیْہِ بِرَدِّ السَّلَامِ أَمْ لَا؟ ثُمَّ أُصَلِّی قَرِیبًا مِنْہُ وَأُسَارِقُہُ النَّظَرَ، فَإِذَا أَقْبَلْتُ عَلٰی صَلَاتِی نَظَرَ إِلَیَّ، فَإِذَا الْتَفَتُّ نَحْوَہُ أَعْرَضَ حَتّٰی إِذَا طَالَ عَلَیَّ ذٰلِکَ مِنْ ہَجْرِ الْمُسْلِمِینَ، مَشَیْتُ حَتّٰی تَسَوَّرْتُ حَائِطَ أَبِی قَتَادَۃَ، وَہُوَ ابْنُ عَمِّی، وَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَیَّ، فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ فَوَاللّٰہِ مَا رَدَّ عَلَیَّ السَّلَامَ، فَقُلْتُ لَہُ: یَا أَبَا قَتَادَۃَ! أَنْشُدُکَ اللّٰہَ ہَلْ تَعْلَمُ أَنِّی أُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ؟ قَالَ: فَسَکَتَ، قَالَ: فَعُدْتُ فَنَشَدْتُہُ فَسَکَتَ فَعُدْتُ فَنَشَدْتُہُ، فَقَالَ: اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، فَفَاضَتْ عَیْنَایَ وَتَوَلَّیْتُ حَتّٰی تَسَوَّرْتُ الْجِدَارَ، فَبَیْنَمَا أَنَاأَمْشِی بِسُوقِ الْمَدِینَۃِ إِذَا نَبَطِیٌّ مِنْ أَنْبَاطِ أَہْلِ الشَّامِ مِمَّنْ قَدِمَ بِطَعَامٍ یَبِیعُہُ بِالْمَدِینَۃِ یَقُولُ: مَنْ یَدُلُّنِی عَلٰی کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ؟ قَالَ: فَطَفِقَ النَّاسُ یُشِیرُونَ لَہُ إِلَیَّ حَتّٰی جَائَ، فَدَفَعَ إِلَیَّ کِتَابًا مِنْ مَلِکِ غَسَّانَ، وَکُنْتُ کَاتِبًا فَإِذَا فِیہِ: أَمَّا بَعْدُ! فَقَدْ بَلَغَنَا أَنَّ صَاحِبَکَ قَدْ جَفَاکَ، وَلَمْ یَجْعَلْکَ اللّٰہُ بِدَارِ ہَوَانٍ وَلَا مَضْیَعَۃٍ، فَالْحَقْ بِنَا نُوَاسِکَ، قَالَ: فَقُلْتُ: حِینَ قَرَأْتُہَا وَہٰذَا أَیْضًا مِنَ الْبَلَائِ، قَالَ: فَتَیَمَّمْتُ بِہَا التَّنُّورَ فَسَجَرْتُہُ بِہَا حَتّٰی إِذَا مَضَتْ أَرْبَعُونَ لَیْلَۃً مِنَ الْخَمْسِینَ إِذَا بِرَسُولِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَأْتِینِی فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَأْمُرُکَ أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَکَ، قَالَ: فَقُلْتُ: أُطَلِّقُہَا أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ؟ قَالَ: بَلْ اعْتَزِلْہَا فَلَا تَقْرَبْہَا، قَالَ: وَأَرْسَلَ إِلٰی صَاحِبَیَّ بِمِثْلِ ذٰلِکَ، قَالَ: فَقُلْتُ لِامْرَأَتِی: الْحَقِی بِأَہْلِکِ فَکُونِی عِنْدَہُمْ حَتّٰی یَقْضِیَ اللّٰہُ فِی ہٰذَا الْأَمْرِ، قَالَ: فَجَاء َتِ امْرَأَۃُ ہِلَالِ بْنِ أُمَیَّۃَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ لَہُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ إِنَّ ہِلَالًا شَیْخٌ ضَائِعٌ لَیْسَ لَہُ خَادِمٌ فَہَلْ تَکْرَہُ أَنْ أَخْدُمَہُ، قَالَ: ((لَا، وَلٰکِنْ لَا یَقْرَبَنَّکِ۔)) قَالَتْ: فَإِنَّہُ وَاللّٰہِ مَا بِہِ حَرَکَۃٌ إِلٰی شَیْئٍ، وَاللّٰہِ، مَا یَزَالُ یَبْکِی مِنْ لَدُنْ أَنْ کَانَ مِنْ أَمْرِکَ مَا کَانَ إِلٰی یَوْمِہِ ہٰذَا، قَالَ: فَقَالَ لِی بَعْضُ أَہْلِی: لَوِ اسْتَأْذَنْتَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی امْرَأَتِکَ، فَقَدْ أَذِنَ لِامْرَأَۃِ ہِلَالِ بْنِ أُمَیَّۃَ أَنْ تَخْدُمَہُ، قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ لَا اَسْتَأْذِنُ فِیْھَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا اَدْرِیْ مَا یَقُوْلُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِذَا اسْتَأْذَنْتُہُ وَاَنَا رَجُلٌ شَابٌّ فَلَبِثْنَا بَعْدَ ذَالِکَ عَشْرَ لَیَالٍ کَمَالَ خَمْسِیْنَ لَیْلَۃً حِیْنَ نَھٰی عَنْ کَلَامِنَا قَالَ ثُمَّ صَلَّیْتُ صَلٰوۃَ الْفُجْرِ صَبَاحَ خَمْسِیْنَ لَیْلَۃً عَلَی ظَہْرِ بَیْتٍ مِنْ بُیُوتِنَا فَبَیْنَمَا أَنَا جَالِسٌ عَلَی الْحَالِ الَّتِی ذَکَرَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی مِنَّا، قَدْ ضَاقَتْ عَلَیَّ نَفْسِی، وَضَاقَتْ عَلَیَّ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ، سَمِعْتُ صَارِخًا أَوْفٰی عَلٰی جَبَلِ سَلْعٍ یَقُولُ بِأَعْلٰی صَوْتِہِ: یَا کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ! أَبْشِرْ، قَالَ: فَخَرَرْتُ سَاجِدًا، وَعَرَفْتُ أَنْ قَدْ جَائَ فَرَجٌ، وَآذَنَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِتَوْبَۃِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَلَیْنَا، حِینَ صَلّٰی صَلَاۃَ الْفَجْرِ فَذَہَبَ النَّاسُ یُبَشِّرُونَنَا، وَذَہَبَ قِبَلَ صَاحِبَیَّ یُبَشِّرُونَ وَرَکَضَ إِلَیَّ رَجُلٌ فَرَسًا وَسَعٰی سَاعٍ مِنْ أَسْلَمَ، وَأَوْفَی الْجَبَلَ، فَکَانَ الصَّوْتُ أَسْرَعَ مِنْ الْفَرَسِ، فَلَمَّا جَائَ نِی الَّذِی سَمِعْتُ صَوْتَہُ یُبَشِّرُنِی، نَزَعْتُ لَہُ ثَوْبَیَّ فَکَسَوْتُہُمَا إِیَّاہُ بِبِشَارَتِہِ، وَاللّٰہِ! مَا أَمْلِکُ غَیْرَہُمَا یَوْمَئِذٍ فَاسْتَعَرْتُ ثَوْبَیْنِ فَلَبِسْتُہُمَا، فَانْطَلَقْتُ أَتَأَمَّمُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَلْقَانِی النَّاسُ فَوْجًا فَوْجًا یُہَنِّئُونِی بِالتَّوْبَۃِ یَقُوْلُوْنَ: لِیَہْنِکَ تَوْبَۃُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ، حَتّٰی دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَاِذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَالِسٌ فِی الْمَسْجِدِ حَوْلَہُ النَّاسُ، فَقَامَ اِلَیَّ طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ یُہَرْوِلُ حَتّٰی صَافَحَنِیْ وَہَنَّأَنِی وَاللّٰہِ مَا قَامَ إِلَیَّ رَجُلٌ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ غَیْرَہُ، قَالَ: فَکَانَ کَعْبٌ لَا یَنْسَاہَا لِطَلْحَۃَ، قَالَ کَعْبٌ: فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ وَہُوَ یَبْرُقُ وَجْہُہُ مِنْ السُّرُورِ: ((أَبْشِرْ بِخَیْرِ یَوْمٍ مَرَّ عَلَیْکَ مُنْذُ وَلَدَتْکَ أُمُّکَ۔)) قَالَ: قُلْتُ: أَمِنْ عِنْدِکَ! یَا رَسُولَ اللّٰہِ أَمْ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((لَا، بَلْ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ۔)) قَالَ: وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْہُہُ کَأَنَّہُ قِطْعَۃُ قَمَرٍ حَتّٰی یُعْرَفَ ذٰلِکَ مِنْہُ، قَالَ: فَلَمَّا جَلَسْتُ بَیْنَ یَدَیْہِ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ مِنْ تَوْبَتِی أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِی صَدَقَۃً إِلَی اللّٰہِ تَعَالَی وَإِلٰی رَسُولِہِ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَمْسِکْ بَعْضَ مَالِکَ فَہُوَ خَیْرٌ لَکَ۔)) قَالَ: فَقُلْتُ: إِنِّی أُمْسِکُ سَہْمِی الَّذِی بِخَیْبَرَ، قَالَ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّمَا اللّٰہُ تَعَالٰی نَجَّانِی بِالصِّدْقِ،ٔ وَإِنَّ مِنْ تَوْبَتِی أَنْ لَا أُحَدِّثَ إِلَّا صِدْقًا مَا بَقِیتُ، قَالَ: فَوَاللّٰہِ! مَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِنْ الْمُسْلِمِینَ أَبْلَاہُ اللّٰہُ مِنَ الصِّدْقِ فِی الْحَدِیثِ مُذْ ذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَحْسَنَ مِمَّا أَبْلَانِی اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی، وَاللّٰہِ! مَا تَعَمَّدْتُ کَذِبَۃً مُذْ قُلْتُ ذٰلِکَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی یَوْمِی ہٰذَا، وَإِنِّی لَأَرْجُو أَنْ یَحْفَظَنِی فِیمَا بَقِیَ، قَالَ: وَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: {لَقَدْ تَابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِینَ اتَّبَعُوہُ فِی سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنْ بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیغُ قُلُوبُ فَرِیقٍ مِنْہُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ إِنَّہُ بِہِمْ رَئُ وْفٌ رَحِیمٌ وَعَلَی الثَّلَاثَۃِ الَّذِینَ خُلِّفُوا حَتّٰی إِذَا ضَاقَتْ عَلَیْہِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْہِمْ أَنْفُسُہُمْ وَظَنُّوا أَنْ لَا مَلْجَأَ مِنَ اللّٰہِ إِلَّا إِلَیْہِ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ لِیَتُوبُوْا إِنَّ اللّٰہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ، یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِینَ} [التوبۃ: ۱۱۷۔۱۱۹] قَالَ کَعْبٌ: فَوَاللّٰہِ! مَا أَنْعَمَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَلَیَّ مِنْ نِعْمَۃٍ قَطُّ بَعْدَ أَنْ ہَدَانِی أَعْظَمَ فِی نَفْسِی مِنْ صِدْقِی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَئِذٍ، أَنْ لَا أَکُونَ کَذَبْتُہُ فَأَہْلِکُ کَمَا ہَلَکَ الَّذِینَ کَذَبُوْہُ حِینَ کَذَبُوہُ، فَإِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی قَالَ لِلَّذِینَ کَذَبُوہُ حِینَ کَذَبُوہُ شَرَّ مَا یُقَالُ لِأَحَدٍ فَقَالَ اللّٰہُ تَعَالَی: {سَیَحْلِفُونَ بِاللّٰہِ لَکُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ إِلَیْہِمْ لِتُعْرِضُوْا عَنْہُمْ فَأَعْرِضُوا عَنْہُمْ إِنَّہُمْ رِجْسٌ وَمَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ جَزَائً بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُونَ یَحْلِفُونَ لَکُمْ لِتَرْضَوْا عَنْہُمْ فَإِنْ تَرْضَوْا عَنْہُمْ، فَإِنَّ اللّٰہَ لَا یَرْضٰی عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ} [التوبۃ: ۹۵۔ ۹۶] قَالَ: وَکُنَّا خُلِّفْنَا أَیُّہَا الثَّلَاثَۃُ عَنْ أَمْرِ أُولَئِکَ الَّذِینَ قَبِلَ مِنْہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ حَلَفُوْا، فَبَایَعَہُمْ وَاسْتَغْفَرَلَہُمْ فَأَرْجَأَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَمْرَنَا حَتّٰی قَضَی اللّٰہُ تَعَالٰی، فَبِذٰلِکَ قَالَ اللّٰہُ تَعَالَی: {وَعَلَی الثَّلَاثَۃِ الَّذِینَ خُلِّفُوْا} وَلَیْسَ تَخْلِیفُہُ إِیَّانَا وَإِرْجَاؤُہُ أَمْرَنَا الَّذِی ذَکَرَ مِمَّا خُلِّفْنَا بِتَخَلُّفِنَا عَنْ الْغَزْوِ، وَإِنَّمَا ہُوَ عَمَّنْ حَلَفَ لَہُ وَاعْتَذَرَ إِلَیْہِ فَقَبِلَ مِنْہُ۔ (مسند احمد: ۱۵۸۸۲)
عبد الرحمن بن عبد اللہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: عبداللہ بن کعب، جو اپنے باپ سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے نابینا ہو جانے کی وجہ سے ان کے قائد تھے، وہ کہتے ہیں: سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنا واقعہ بیان کیا جب وہ غزوئہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ انھوں نے کہا: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تمام لڑائیوں میں شریک ہوا تھا، ما سوائے تبوک اور بدرکے، میں ان میں پیچھے رہ گیا تھا، مگر بدر میں پیچھے رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ کا عتاب نہیں ہوا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اس جنگ میں غرض یہ تھی کہ قافلہ قریش کا تعاقب کیا جائے، دشمنوں کو اللہ تعالیٰ نے اچانک حائل کردیا اور جنگ ہوگئی، میں عقبہ والی رات کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سب سے اسلام پر قائم رہنے کا عہد لیا تھا اور مجھے تو عقبہ والی وہ رات غزوۂ بدر کے مقابلہ میں عزیز ہے، اگرچہ جنگ بدر کو لوگوں میں زیادہ شہرت حاصل ہے اور جنگ تبوک کا واقعہ یہ ہے کہ اس جنگ سے پہلے کبھی بھی میرے پاس دو سواریاں جمع نہیں ہوئی تھیں، اس غزوہ کے وقت میں دو سواریوں کا مالک تھا، اس کے علاوہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا یہ دستور تھا کہ جب کہیں جنگ کا خیال کرتے تو صاف صاف پتہ نشان اور جگہ نہیں بتاتے تھے، بلکہ کچھ گول مول الفاظ میں بات ظاہر کرتے تھے تاکہ لوگ دوسرا مقام سمجھتے رہیں، غرض جب لڑائی کا وقت آیا تو گرمی بہت شدید تھی، راستہ طویل تھا اور بے آب و گیاہ تھا، دشمن کی تعداد زیادہ تھی، لہٰذا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسلمانوں کو پورے طور پر آگاہ کردیا کہ ہم تبوک جا رہے ہیں تاکہ تیاری کرلیں، اس وقت نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ کثیر تعداد میں مسلمان موجود تھے، مگر کوئی ایسی کتاب وغیرہ نہیں تھی کہ اس میں سب کے نام لکھے ہوئے ہوں، کوئی کم ہی مسلمان ایسا تھا جو اس لڑائی میں شریک ہونا نہ چاہتا ہو، مگر وہ خیال کرتا تھا کہ اس کی غیر حاضری نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس وقت تک معلوم نہیں ہو سکتی جب تک کہ وحی نہ آئے، غرض نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لڑائی کی تیاریاں شروع کردیں اور یہ وقت تھا جب کہ میوہ پک رہا تھا اور سایہ میںبیٹھنا اچھا معلوم ہوتا تھا، سب تیاریاں کر رہے تھے، مگر میں ہر صبح کو یہی سوچتا تھا کہ میں تیاری کرلوں گا، کیا جلدی ہے، میں تو ہر وقت تیاری کر سکتا ہوں، اسی طرح دن گزرتے رہے، ایک روز صبح کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم روانہ ہو گئے، میں نے سوچا ان کو جانے دو، میں ایک دو دن میں تیاری کرکے راستہ میں ان میں شامل ہو جاؤں گا، دوسری صبح کو میں نے تیاری کرنا چاہی، مگر نہ ہو سکی اور میںیوں ہی رہ گیا تیسرے روز بھییہی ہوا اور پھر برابر میرایہی حال ہوتا رہا، اب سب لوگ بہت دور نکل چکے تھے، میں نے کئی مرتبہ قصد کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جا ملوں، مگر تقدیر میں نہ تھا، کاش! میں ایسا کرلیتا چنانچہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چلے جانے کے بعد میں جب مدینہ میں چلتا پھرتا تو مجھ کو یا تو منافق نظر آتے یا وہ جو کمزور ضعیف اور بیمار تھے، مجھے بہت افسوس ہوتا تھا، (جب میں نے بعد میں معلومات لی تھیں تو ان سے پتہ چلا تھا کہ) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے راستے میں مجھے کہیں بھییاد نہیں کیا تھا، البتہ تبوک پہنچ کر جب سب لوگوں میں تشریف فرما ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کعب بن مالک کہاں ہے؟ بنو سلمہ کے ایک آدمی سیدنا عبداللہ بن انیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ تو اپنے حسن و جمال پر ناز کرنے کی وجہ سے رہ گئے ہیں، لیکن سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم نے اچھی بات نہیں کی، اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول! ہم تو انہیں اچھا آدمی ہی سمجھتے ہیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ سن کر خاموش ہوگئے، جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس آ رہے ہیں تو میں سوچنے لگا کہ کوئی ایسا حیلہ بہانہ ہاتھ آ جائے جو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے غصہ سے مجھے بچا سکے، پھر میں اپنے گھر کے سمجھدار لوگوں سے مشورہ کرنے لگا کہ اس سلسلہ میں کچھ تم بھی سوچو، مگر جب یہ بات معلوم ہوئی کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ کے بالکل قریب آ گئے ہیں تو میرے دل سے اس حیلہ کا خیال دور ہوگیا اور میں نے یقین کرلیا کہ جھوٹ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے غصہ سے نہیں بچا سکے گا، صبح کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ میں پہنچ گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا طریقہیہ تھا کہ جب سفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد میں جاتے اور دو رکعت نفل ادا فرماتے، اس بار بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایسے ہی کیا اور مسجد میں بیٹھ گئے، اب جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے آنا شروع کیا اور اپنے اپنے عذر بیان کرنے لگے اور قسمیں کھانے لگے یہ کل اسی (۸۰) افراد یا اس سے کچھ زیادہ تھے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے ان کے عذر قبول کر لئے اور ان سے دوبارہ بیعت لی اور ان کے لئے دعائے مغفرت فرمائی اور ان کے دلوں کے خیالات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا۔ جب میں آیا تو السلام علیکم کہا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غصے والی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا اور فرمایا: آؤ۔ پس میں سامنے جا کر بیٹھ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے پوچھا: کعب تم کیوں پیچھے رہ گئے تھے؟ حالانکہ تم نے تو سواری کا بھی انتظام کرلیا تھا؟ میں نے عرض کیا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا فرمان درست ہے، میں اگر کسی اور کے سامنے ہوتا تو ممکن تھا کہ بہانے وغیرہ کر کے اس سے نجات پا جاتا، کیونکہ میں خوب بول سکتا ہوں، مگر اللہ گواہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ اگر آج میں نے جھوٹ بول کر آپ کو راضی کرلیا تو کل اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے ناراض کردے گا، اس لئے میں سچ ہی بولوں گا، چاہے آپ مجھ پر غصہ ہی کیوں نہ فرمائیں، آئندہ کو تو اللہ کی مغفرت اور بخشش کی امید رہے گی، اللہ کی قسم! میں قصور وار ہوں، حالانکہ مال و دولت میں کوئی بھی میرے برابر نہیں ہے، مگر میں یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی شریک نہ ہو سکا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ سن کر فرمایا۔ کعب نے درست بات بیان کردی، اچھا چلے جاؤ اور اپنے حق میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کرو۔ میں اٹھ کر چلا گیا، بنی سلمہ کے آدمی بھی میرے ساتھ ہو لئے اور کہنے لگے: ہم نے تو اب تک تمہارا کوئی گناہ نہیں دیکھا، تم نے بھی دوسرے لوگوں کی طرح نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے کوئی بہانہ پیش کردیا ہوتا، حضور کی دعائے مغفرت تیرے کے لئے کافی ہو جاتی، وہ مجھے برابر یہی سمجھاتے رہے، یہاں تک کہ میرے دل میں یہ خیال آنے لگا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس واپس چلا جاؤں اور پہلے والی بات کو غلط ثابت کرکے کوئی بہانہ پیش کردوں، پھر میں نے ان سے پوچھا کہ کیا کوئی اور شخص بھی ہے، جس نے میری طرح اپنے گناہ کا اعتراف کیا ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں دو آدمی اور بھی ہیں، جنہوں نے اقرار کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے بھی وہی کچھ فرمایا ہے جو تم سے ارشاد فرمایا ہے، میں نے ان کے نام پوچھے تو انھوں نے کہا: ایک مرارہ بن ربیع عامری اور دوسرے ہلال بن امیہ واقفی ہیں،یہ دونوں نیک آدمی تھے اور جنگ بدر میں شریک ہو چکے تھے، ان کا معاملہ میری طرح کا تھا، ان دو آدمیوں کا نام سن کر مجھے بھی اطمینان سا ہوگیا اور میں چلا گیا۔نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تمام مسلمانوں کو منع فرمادیا تھا کہ کوئی شخص ان تین آدمیوں سے کلام نہ کرے، دوسرے پیچھے رہ جانے والے اور جھوٹے بہانے کرنے والوں کے لئے یہ حکم نہیں دیا تھا، اب ہوا کیا کہ لوگوں نے ہم سے الگ رہنا شروع کردیا اور ہم ایسے ہو گئے، جیسے ہمیں کوئی جانتا ہی نہیں ہے، بس گویا ہمارے لیے تو زمین تبدیل ہو گئی، پچاس راتیں اسی حال میں گزر گئیں، میرے دونوں ساتھی تو گھر میں بیٹھ گئے، میں ہمت والا تھا، نکلتا، باجماعت نماز میں شریک ہوتا، بازار وغیرہ جاتا، مگر کوئی میرے ساتھ بات نہیں کرتا تھا، میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بھی آتا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جائے نماز پر جلوہ افروز ہوتے، میں سلام کہتا اور مجھے شبہ سا ہوتا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہونٹ سلام کا جواب دینے کے ساتھ ہل رہے ہیںیا نہیں، پھر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب ہی نماز پڑھنے لگتا، اور آنکھ چرا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بھی دیکھتا رہتا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس دوران کیا کرتے ہیں، چنانچہ میں جب نماز میں ہوتا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے دیکھتے رہتے اور جب میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف دیکھتا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھ سے اعراض کر لیتے، جب لوگوں کے الگ ہونے کی مدت لمبی ہو گئی اور میں لوگوں کی خاموشی سے عاجز آ گیا، ایک دن اپنے چچا زاد بھائی سیدنا ابوقتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس باغ میںآیا اور سلام کہا اور اس سے مجھے بہت محبت تھی، مگر اللہ کی قسم! اس نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا، میں نے کہا: اے ابوقتادہ! تو مجھے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محبت کرنے والا جانتا ہے یا نہیں؟ اس نے اس سوال کا جواب بھی نہیں دیا، پھر میں نے قسم کھا کر یہی بات کہی مگر جواب ندارد، میں نے تیسری مرتبہ یہی کہا تو ابوقتادہ نے صرف اتنا جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، پھر مجھ سے ضبط نہ ہو سکا، میں نے رونا شروع کر دیا اور واپس چل دیا، میں ایک دن بازار میں جا رہا تھا کہ ایک نصرانی کسان، جو ملک شام کا رہنے والا تھا اور اناج فروخت کرنے آیا تھا، وہ لوگوں سے میرا پتہ معلوم کر رہا تھا،لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا کہ یہ کعب بن مالک ہے، وہ میرے پاس آیا اور غسان کے نصرانی بادشاہ کا ایک خط مجھے دیا، اس میں لکھا تھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے رسول تم پر بہت زیادتی کر رہے ہیں، حالانکہ اللہ نے تم کو ذلیل اور بے عزت نہیں بنایا ہے، تم بہت کام کے آدمی ہو، تم میرے پاس آ جاؤ، ہم تم کو بہت آرام سے رکھیں گے۔ میں نے سوچا کہ یہ تو دوہری آزمائش ہے اور پھر اس خط کو آگ کے تنور میں ڈال دیا، ابھی تک چالیس دن گزرے تھے،دس باقی تھے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قاصد سیدنا خزیمہ بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے آکر کہا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے ہیں کہ تم اپنی بیوی سے الگ ہو جاؤ، میں نے کہا: کیا مطلب ہے؟ طلاق دے دوں یا کچھ اور؟ انھوں نے کہا: بس الگ رہو اور مباشرت وغیرہ مت کرو، میرے دونوں ساتھیوں کو بھییہیحکم دیا گیا، پس میں نے بیوی سے کہا کہ تم اس وقت تک اپنے رشتہ داروں میں جا کر رہو، جب تک اللہ تعالیٰ میرا فیصلہ نہ فرما دے۔ اُدھر سیدنا ہلال بن امیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیوی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول !ہلال بن امیہ میرا خاوند بہت بوڑھا ہے، اگر میں اس کا کام کردیا کروں تو کوئی برائی تو نہیں ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کوئی حرج نہیں، بس وہ صحبت نہ کرنے پائے، اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس میں تو ایسی خواہش ہی نہیں ہے اور جب سے یہ بات ہوئی ہے، وہ مسلسل رو رہا ہے، جب اس کے بارے میں یہ بات سامنے آئی تو میرے عزیزوں نے مجھ سے کہا: تم بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جا کر اپنی بیوی کے بارے میں ایسی ہی اجازت حاصل کرلو، تاکہ وہ تمہاری خدمت کرتی رہے، جس طرح سیدنا ہلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیوی کو اجازت مل گئی ہے، میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں کبھی بھی ایسا نہیں کر سکتا، معلوم نہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کیا فرمائیں گے، میں نوجوان آدمی ہوں، ہلال کی مانند ضعیف نہیں ہوں، اس کے بعد وہ دس راتیں بھی گزر گئیں اور میں پچاسویں رات کو صبح کی نماز اپنے گھر کی چھت پر پڑھ کر بیٹھا تھا اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ زندگی اجیرن ہو چکی ہے اور زمین میرے لئے باوجود اپنی وسعت کے تنگ ہو چکی ہے، اتنے میں کوہ سلع پر سے کسی پکارنے والے نے پکار کر کہا: اے کعب بن مالک! تم کو بشارت دی جاتی ہے۔ یہ آواز کے سنتے ہی میں خوشی سے سجدہ میں گر پڑا اور یقین کرلیا کہ اب یہ مشکل آسان ہوگئی، کیونکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز فجر کے بعد لوگوں سے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کا قصور معاف کردیا ہے۔ اب تو لوگ میرے پاس اور میرے ان ساتھیوں کے پاس خوشخبری اور مبارکباد کے لئے جانے لگے اور ایک آدمی اپنے گھوڑے کو بھگاتے میرے پاس آیا اور ایک دوسرے بنو سلمہ کے آدمی نے سلع پہاڑ پر چڑھ کر آواز دی، اس کی آواز جلدی میرے کانوں تک پہنچ گئی، اس وقت میں اس قدر خوش ہوا کہ اپنے دونوں کپڑے اتار کر اس کو دے دیئے، جبکہ میرے پاس ان کے سوا کوئی دوسرے کپڑے نہیں تھے، میں نے ابوقتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دو کپڑے لے کر زیب ِ تن کیے، پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جانے لگا، راستہ میںلوگوں کا ایک ہجوم تھا، وہ مجھے مبارکباد دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ انعام تمہیں مبارک ہو۔ پھر جب میں مسجد میں گیا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف فرما تھے اور دوسرے لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے، طلحہ بن عبیداللہ مجھے دیکھ کر دوڑے، میرے ساتھ مصافحہ کیا اورمبارک باد دی، مہاجرین میں سے یہ کام صرف طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کیا، اللہ گواہ ہے کہ میں ان کا یہ طرز عمل کبھی نہیں بھولوں گا، پھر جب میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سلام کہا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے کعب!یہ دن تمہیں مبارک ہو، جو سب دنوں سے اچھا ہے، تمہاری پیدائش سے لے کر آج تک۔ میں نے عرض کیا: یہ معافی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوئی ہے یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی طرف سے معاف کیا گیا ہے۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب خوش ہوتے تھے تو چہرہ مبارک چاند کی طرح چمکنے لگتا تھا اور ہم آپ کی خوشی کو پہچان جاتے تھے، پھر میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے بیٹھ کر کہا: اے اللہ کے رسول!میں اپنی اس نجات اور معافی کے شکریہ میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول کے لئے خیرات نہ کردوں؟ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تھوڑا کرو اور کچھ اپنے لئے رکھ لو، کیونکہیہ تمہارے لئے فائدہ مند ہو گا۔ میں نے عرض کیا: جی ٹھیک ہے، میں اپنا خیبر کا حصہ روک لیتا ہوں، پھر میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے سچ بولنے کی وجہ سے نجات پائی ہے، اب میں تمام زندگی سچ ہی بولوں گا، اللہ کی قسم! میں نہیں کہہ سکتا کہ سچ بولنے کی وجہ سے اللہ نے کسی پر ایسی مہربانی فرمائی ہو، جو مجھ پر کی ہے، اس وقت سے آج تلک میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور میں امید کرتا ہوں کہ زندگی بھر اللہ مجھے جھوٹ سے بچائے گا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر یہ اٰیات نازل فرمائیں: {لَقَدْ تَابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِینَ اتَّبَعُوہُ فِی سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنْ بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیغُ قُلُوبُ فَرِیقٍ مِنْہُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ إِنَّہُ بِہِمْ رَئُ وْفٌ رَحِیمٌ۔ وَعَلَی الثَّلَاثَۃِ الَّذِینَ خُلِّفُوا حَتّٰی إِذَا ضَاقَتْ عَلَیْہِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْہِمْ أَنْفُسُہُمْ وَظَنُّوا أَنْ لَا مَلْجَأَ مِنَ اللّٰہِ إِلَّا إِلَیْہِ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ لِیَتُوبُوْا إِنَّ اللّٰہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ۔ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِینَ} … بلاشبہ یقینا اللہ نے نبی پر مہربانی کے ساتھ توجہ فرمائی اور مہاجرین و انصار پر بھی، جو تنگ دستی کی گھڑی میں اس کے ساتھ رہے، اس کے بعد کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل ٹیڑھے ہو جائیں، پھر وہ ان پر دوبارہ مہربان ہوگیا۔ یقیناوہ ان پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ اور ان تینوں پر بھی جو موقوف رکھے گئے، یہاں تک کہ جب زمین ان پر تنگ ہوگئی، باوجود اس کے کہ فراخ تھی اور ان پر ان کی جانیں تنگ ہوگئیں اور انھوں نے یقین کر لیا کہ بے شک اللہ سے پناہ کی کوئی جگہ اس کی جناب کے سوا نہیں، پھر اس نے ان پر مہربانی کے ساتھ توجہ فرمائی، تاکہ وہ توبہ کریں۔ یقینا اللہ ہی ہے جو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ (سورۂ توبہ: ۱۱۷۔ ۱۱۹) سیدنا کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اس سے بڑھ کر میں نے کوئی انعام اور احسان نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے مجھے سچ بولنے کی توفیق دے کر ہلاک ہونے سے بچا لیا، ورنہ دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی تباہ اور ہلاک ہوجاتا، جنہوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جھوٹ بولا، جھوٹے حلف اٹھائے، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: {سَیَحْلِفُونَ بِاللّٰہِ لَکُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ إِلَیْہِمْ لِتُعْرِضُوْا عَنْہُمْ فَأَعْرِضُوا عَنْہُمْ إِنَّہُمْ رِجْسٌ وَمَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ جَزَائً بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُونَ۔ یَحْلِفُونَ لَکُمْ لِتَرْضَوْا عَنْہُمْ فَإِنْ تَرْضَوْا عَنْہُمْ، فَإِنَّ اللّٰہَ لَا یَرْضٰی عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ۔} … عنقریب وہ تمھارے لیے اللہ کی قسمیں کھائیں گے جب تم ان کی طرف واپس آؤ گے، تاکہ تم ان سے توجہ ہٹا لو۔ سو ان سے بے توجہی کرو، بے شک وہ گندے ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے، اس کے بدلے جو وہ کماتے رہے ہیں۔تمھارے لیے قسمیں کھائیں گے، تاکہ تم ان سے راضی ہو جاؤ، پس اگر تم ان سے راضی ہو جاؤ تو بے شک اللہ نافرمان لوگوں سے راضی نہیں ہوتا۔ (سورۂ توبہ: ۹۵،۹۶) سیدنا کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم تینوں ان منافقوں سے علیحدہ ہیں، جنہوں نے نہ جانے کتنے بہانے بنائے اور جھوٹے حلف اٹھائے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی بات کو قبول کرلیا اور ان سے بیعت لے لی اور ان کے لیے دعائے مغفرت فرما دی، مگر ہمارا معاملہ چھوڑ ے رکھا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {وَّعَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا حَتّٰی اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْہِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْہِمْ اَنْفُسُھُمْ وَظَنُّوْٓا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّآ اِلَیْہِ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ لِیَتُوْبُوْا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔ }… اور ان تینوں پر بھی جو موقوف رکھے گئے، یہاں تک کہ جب زمین ان پر تنگ ہوگئی، باوجود اس کے کہ فراخ تھی اور ان پر ان کی جانیں تنگ ہوگئیں اور انھوں نے یقین کر لیا کہ بے شک اللہ سے پناہ کی کوئی جگہ اس کی جناب کے سوا نہیں، پھر اس نے ان پر مہربانی کے ساتھ توجہ فرمائی، تاکہ وہ توبہ کریں۔ یقینا اللہ ہی ہے جو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ (سورۂ توبہ: ۱۱۸) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہم کو پیچھے کرنا اور ہمارے معاملے کو مؤخر کرنا، جس کا ذکر کیا گیا ہے، یہ ہمارا غزوے سے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ یہ تو ان کی وجہ سے تھا، جنھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے حلف اٹھائے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے عذر پیش کیے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے عذر قبول کر لیے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11881

۔ (۱۱۸۸۱)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ، أَنَّ کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ لَمَّا تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ أَتٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: إِنَّ اللّٰہَ لَمْ یُنْجِنِی إِلَّا بِالصِّدْقِ، وَإِنَّ مِنْ تَوْبَتِی إِلَی اللّٰہِ أَنْ لَا أَکْذِبَ أَبَدًا، وَإِنِّی أَنْخَلِعُ مِنْ مَالِی صَدَقَۃً لِلّٰہِ تَعَالٰی وَرَسُولِہِ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَمْسِکْ عَلَیْکَ بَعْضَ مَالِکَ، فَإِنَّہُ خَیْرٌ لَکَ۔)) قَالَ: فَإِنِّی أُمْسِکُ سَہْمِی مِنْ خَیْبَرَ۔ (مسند احمد: ۱۵۸۶۲)
سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب ان کی توبہ قبول ہوئی کی تو انہوںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا: اللہ نے مجھے سچ بولنے کی بدولت اس آزمائش سے نجات دی ہے، میں نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ میری توبہ قبول ہو جائے تو میں کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا اور میںاپنی ساری دولت اللہ اور اس کے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے صدقہ کر دوں گا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: تم اپنا کچھ مال رکھ لو، یہ تمہار ے لیے بہتر ہو گا۔ سیدنا کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تو پھر میں خیبر سے ملنے والا اپنا حصہ رکھ لیتا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11882

۔ (۱۱۸۸۲)۔ عَنْ خَبَّابِ (بْنِ الْأَرَتِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) قَالَ: ہَاجَرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَبَتَغِی وَجْہَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فَوَجَبَ أَجْرُنَا عَلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، فَمِنَّا مَنْ مَضٰی لَمْ یَأَکُلْ مِنْ أَجْرِہِ شَیْئًا، مِنْہُمْ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ قُتِلَ یَوْمَ أُحُدٍ فَلَمْ نَجِدْ شَیْئًا نُکَفِّنُہُ فِیْہِ إِلَّا نَمِرَۃً کُنَّا إِذَا غَطَّیْنَا بِہَا رَأْسَہُ خَرَجَتْ رِجْلَاہُ، وَإِذَا غَطَّیْنَا رِجْلَیْہِ خَرَجَ رَأْسُہُ، فَأَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہِ وَصَحْبِہِ وَسَلَّمَ أَنْ نُغَطِّیَ بِہَا رَأْسَہُ، وَنَجْعَلَ عَلٰی رِجْلَیْہِ إِذْخِرًا، وَمِنَّا مَنْ أَیْنَعَتْ لَہُ ثَمَرَتُہُ فَہُوَ یَہْدِ بُہَا یَعْنِی یَجْتَنِیْہَا۔ (مسند احمد: ۲۱۳۷۲)
سیّدناخباب بن ارت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ہجرت کی، اس لیے اللہ تعالیٰ پر ہمارا ثواب ثابت ہو گیا( جیسا کہ اس نے وعدہ کیا ہے)۔ پھر ہم میں بعض لوگ ایسے تھے، جو اپنے عمل کا اجر کھائے بغیر اللہ کے پاس چلے گئے، ان میں سے ایک سیّدنا مصعب بن عمیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تھے، جو احد کے دن شہید ہو گئے، ہمیں ان کے کفن کے لیے صرف ایک چادر مل سکی اور وہ بھی اس قدر مختصر تھی کہ جب ہم ان کا سر ڈھانپتے تو پائوں ننگے ہو جاتے اور جب ان کے پائوں کو ڈھانپا جاتا تو سر ننگا ہو جاتا۔ بالآخر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم ان کا سر ڈھانپ دیں اور ان کے پائوں پر اذخر (گھاس) ڈال دیں، جبکہ ہم میں بعض ایسے بھی ہیں جن کا پھل تیار ہو چکا اور اب وہ اسے چن رہے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11883

۔ (۱۱۸۸۳)۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ فِیْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: ((إنَّہٗ یُحْشَرُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بَیْنَ یَدَیِ الْعُلَمَائِ نَبَذَۃً۔)) (مسند احمد: ۱۰۸)
سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کابیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں فرمایا: وہ قیامت کے دن اہل علم سے ایک تیر کی پھینک پرآگے آگے جا رہے ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11884

۔ (۱۱۸۸۴)۔ وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَرْحَمُ أُمَّتِیْ أَبُوْ بَکْرٍ، وَأَشَدُّھَا فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ عُمَرُ، وَأَصْدَقُہَا حَیَائً عُثْمَانُ، وَأَعَلَمُہَا بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ۔))(مسند احمد: ۱۴۰۳۵)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت میں ابو بکر سب سے بڑھ کر مہربان ہیں،میری امت میں سے عمر دین کے بارے میں بڑے سخت ہیں،عثمان سب سے بڑھ کر حیا دار ہیں اور سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حلال و حرام کا علم سب سے زیادہ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11885

۔ (۱۱۸۸۵)۔ وَعَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَقِیَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((یَا مُعَاذُ! اِنِّیْ لَأُحِبُّکَ۔)) فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَأَنَا وَاللّٰہِ أُحِبُّکَ، قَالَ: ((فَاِنِّیْ اُوْصِیْکَ بِکَلِمَاتٍ تَقُوْلُھُنَّ فِیْ کُلِّ صَلَاۃٍ، اَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ۔)) (مسند احمد: ۲۲۴۷۷)
سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مجھ سے ملاقات ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے معاذ! مجھے تم سے محبت ہے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں بھی آپ سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہیں چند کلمات کی وصیت کرتا ہوں، تم ہر نماز (کے آخر میں) یہ کلمات کہا کرو: اَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ (یا اللہ! اپنا ذکر کرنے، اپنی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے اور اپنی عبادت بہتر طور کرنے میں میری مدد فرما)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11886

۔ (۱۱۸۸۶)۔ عَنْ عَاصِمِ بْنِ حَمِیْدٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: لَمَّا بَعَثَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی الْیَمَنِ خَرَجَ مَعَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُوصِیہِ، وَمُعَاذٌ رَاکِبٌ وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَمْشِی تَحْتَ رَاحِلَتِہِ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: ((یَا مُعَاذُ إِنَّکَ عَسَی أَنْ لَا تَلْقَانِی بَعْدَ عَامِی ہٰذَا، أَوْ لَعَلَّکَ أَنْ تَمُرَّ بِمَسْجِدِی ہٰذَا أَوْ قَبْرِی۔)) فَبَکٰی مُعَاذٌ جَشَعًا لِفِرَاقِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ الْتَفَتَ فَأَقْبَلَ بِوَجْہِہِ نَحْوَ الْمَدِینَۃِ، فَقَالَ: ((إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِی الْمُتَّقُونَ مَنْ کَانُوا وَحَیْثُ کَانُوا۔)) (مسند احمد: ۲۲۴۰۲)
سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو یمن کی طرف روانہ فرمایا تو ان کو وصیتیں کرتے ہوئے گئے، سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سوار تھے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی سواری کے ساتھ ساتھ چلتے جا رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی گفتگو سے فارغ ہونے کے بعد فرمایا: معاذ! ممکن ہے کہ اس سال کے بعد تمہاری مجھ سے ملاقات نہ ہو سکے اور ہو سکتا ہے کہ تم میری اس مسجد یا قبر کے پاس سے گزرو۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جدائی کے خیال سے رنجیدہ ہو کر سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ روپڑے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف منہ کر کے فرمایا: سب لوگوں میں میرے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے، جو تقویٰ کی صفت سے متصف ہوں، وہ جو بھی ہوں اور جہاں بھی ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11887

۔ (۱۱۸۸۷)۔ عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِیَّۃَ، حَدَّثَنِی عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ سَابِطٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ الْأَوْدِیِّ، قَالَ: قَدِمَ عَلَیْنَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ الْیَمَنَ رَسُولُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ السَّحَرِ رَافِعًا صَوْتَہُ بِالتَّکْبِیرِ أَجَشَّ الصَّوْتِ، فَأُلْقِیَتْ عَلَیْہِ مَحَبَّتِی فَمَا فَارَقْتُہُ حَتّٰی حَثَوْتُ عَلَیْہِ التُّرَابَ بِالشَّامِ مَیِّتًا رَحِمَہُ اللَّہُ، ثُمَّ نَظَرْتُ إِلٰی أَفْقَہِ النَّاسِ بَعْدَہُ فَأَتَیْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُودٍ، فَقَالَ لِی: کَیْفَ أَنْتَ إِذَا أَتَتْ عَلَیْکُمْ أُمَرَائُ یُصَلُّونَ الصَّلَاۃَ لِغَیْرِ وَقْتِہَا؟ قَالَ: فَقُلْتُ: مَا تَأْمُرُنِی إِنْ أَدْرَکَنِی ذٰلِکَ؟ قَالَ: صَلِّ الصَّلَاۃَ لِوَقْتِہَا وَاجْعَلْ ذٰلِکَ مَعَہُمْ سُبْحَۃً۔ (مسند احمد: ۲۲۳۷۰)
سال کے بعد تمہاری مجھ سے ملاقات نہ ہو سکے اور ہو سکتا ہے کہ تم میری اس مسجد یا قبر کے پاس سے گزرو۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جدائی کے خیال سے رنجیدہ ہو کر سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ روپڑے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف منہ کر کے فرمایا: سب لوگوں میں میرے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے، جو تقویٰ کی صفت سے متصف ہوں، وہ جو بھی ہوں اور جہاں بھی ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11888

۔ (۱۱۸۸۸)۔ عَنْ أَبِی مُنِیبٍ الْأَحْدَبِ قَالَ: خَطَبَ مُعَاذٌ بِالشَّامِ فَذَکَرَ الطَّاعُونَ فَقَالَ: إِنَّہَا رَحْمَۃُ رَبِّکُمْ، وَدَعْوَۃُ نَبِیِّکُمْ، وَقَبْضُ الصَّالِحِینَ قَبْلَکُمْ، اللَّہُمَّ أَدْخِلْ عَلٰی آلِ مُعَاذٍ نَصِیبَہُمْ مِنْ ہٰذِہِ الرَّحْمَۃِ، ثُمَّ نَزَلَ مِنْ مَقَامِہِ ذٰلِکَ، فَدَخَلَ عَلٰی عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مُعَاذٍ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ: {الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَلَا تَکُونَنَّ مِنْ الْمُمْتَرِینَ} [البقرۃ: ۱۴۷] فَقَالَ مُعَاذٌ: {سَتَجِدُنِی إِنْ شَاء َ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِینَ} [الصافات: ۱۰۲]۔ (مسند احمد: ۲۲۴۳۵)
ابو منیب احدب سے مروی ہے کہ سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے شام میں خطاب کیا اور طاعون کا ذکر کرتے ہوئے کہا: طاعون تمہارے رب کی تم پر رحمت اور تمہارے نبی کی دعا ہے اور تم سے پہلے ابو منیب احدب سے مروی ہے کہ سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے شام میں خطاب کیا اور طاعون کا ذکر کرتے ہوئے کہا: طاعون تمہارے رب کی تم پر رحمت اور تمہارے نبی کی دعا ہے اور تم سے پہلے
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11889

۔ (۱۱۸۸۹)۔ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ قَالَ: قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((سَتُہَاجِرُونَ إِلَی الشَّامِ فَیُفْتَحُ لَکُمْ، وَیَکُونُ فِیکُمْ دَائٌ کَالدُّمَّلِ أَوْ کَالْحَزَّۃِ، یَأْخُذُ بِمَرَاقِّ الرَّجُلِ یَسْتَشْہِدُ اللّٰہُ بِہِ أَنْفُسَہُمْ وَیُزَکِّی بِہَا أَعْمَالَہُمْ۔)) اللَّہُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ سَمِعَہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَعْطِہِ ہُوَ وَأَہْلَ بَیْتِہِ الْحَظَّ الْأَوْفَرَ مِنْہُ، فَأَصَابَہُمْ الطَّاعُونُ فَلَمْ یَبْقَ مِنْہُمْ أَحَدٌ فَطُعِنَ فِی أُصْبُعِہِ السَّبَّابَۃِ فَکَانَ یَقُولُ: مَا یَسُرُّنِی أَنَّ لِی بِہَا حُمْرَ النَّعَمِ۔ (مسند احمد: ۲۲۴۳۸)
اسماعیل بن عبید اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم لوگ عنقریب ارض شام کی طرف ہجرت کر جائوگے اور وہ تمہارے ہاتھوں فتح ہوگا اور تمہارے اندر گوشت کے ٹکڑے کی مانند ایک بیماری (یعنی طاعون) داخل ہو گی، جو انسان کے پیٹ کے نچلے حصے پر ااثر انداز ہوگی، اللہ تعالیٰ اس بیماری کے ذریعے لوگوں کو مقام شہادت سے نوازے گا اور ان کے اعمال کا تزکیہ کر ے گا۔ یا اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ معاذ بن جبل نے واقعییہ حدیث رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے تو اسے اور اس کے اہل خانہ کو اس بیماری کا وافر حصہ عطا فرما،چنانچہ ان لوگوں کو طاعون کی بیماری نے آ لیا اور ان میں سے ایک بھی زندہ نہ بچا، سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی انگشت شہادت زخمی ہو گئی تو وہ کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ پسند نہیں کہ میری انگلی بچ جاتی اور مجھے سرخ اونٹ مل جاتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11890

۔ (۱۱۸۹۰)۔ عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ السُّلَمِیِّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدْعُوْنَا اِلَی السَّحُوْرِ فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ: ((ھَلُمَّ اِلَی الْغَدَائِ الْمُبَارَکِ۔)) ثُمَّ سَمِعْتُہٗ یَقُوْلُ: ((اَللّٰھُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِیَۃَ الْکِتَابَ وَالْحِسَابَ وَقِہِ الْعَذَابَ۔)) (مسند احمد: ۱۷۲۸۲)
سیدنا عرباض بن ساریہ سلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سنا، آپ ہمیں ماہ رمضان میں سحری کے لیے بلا نے کے لیے فرماتے: بابرکت کھانے کی طرف آئو۔ پھر میں نے ایک موقع پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ یا اللہ! معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لکھنے پڑھنے اور حساب کا علم عطا فرما اور اسے عذاب سے محفوظ رکھ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11891

۔ (۱۱۸۹۱)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ عُمَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہٗ ذَکَرَ مُعَاوِیَۃَ فَقَالَ: ((اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ ھَادِیًا مَہْدِیًّا وَاھْدِبِہِ۔)) (مسند احمد: ۱۸۰۵۵)
سیدنا عبدالرحمن بن ابی عمیرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: یا اللہ! اسے راہ دکھانے والا ہدایتیافتہ بنا اور اس کے ذریعے لوگوں کو بھی ہدایت نصیب فرما۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11892

۔ (۱۱۸۹۲)۔ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَیَّۃَ عَمْرُو بْنُ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ قَالَ: سَمِعْتُ جَدِّی یُحَدِّثُ أَنَّ مُعَاوِیَۃَ أَخَذَ الْإِدَاوَۃَ بَعْدَ أَبِی ہُرَیْرَۃَ یَتْبَعُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِہَا، وَاشْتَکٰی أَبُو ہُرَیْرَۃَ فَبَیْنَا ہُوَ یُوَضِّیئُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَفَعَ رَأْسَہُ إِلَیْہِ مَرَّۃً أَوْ مَرَّتَیْنِ فَقَالَ: یَا مُعَاوِیَۃُ! إِنْ وُلِّیتَ أَمْرًا فَاتَّقِ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَاعْدِلْ، قَالَ: فَمَا زِلْتُ أَظُنُّ أَنِّی مُبْتَلًی بِعَمَلٍ۔ (مسند احمد: ۱۷۰۵۷)
ابو امیہ عمرو بن یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دادا سعید بن عمرو بن سعید بن عاص کو بیان کرتے سنا کہ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پانی کا برتن لے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ساتھ جایا کرتے تھے، جب وہ بیمار پڑے تو ان کے بعد سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس برتن کو اٹھاتے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ساتھ جاتے، اے موقع پر سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو وضو کرا رہے تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی طرف ایکیا دو مرتبہ سر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا: معاویہ! اگر تمہیں سر براہ حکومت بنایا جائے تو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور عدل سے کام لینا۔ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہارشاد سننے کے بعد مجھے یہیقین رہا کہ مجھے حکومت (اقتدار) ضرور ملے گی،(کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جو فرما دیا تھا)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11893

۔ (۱۱۸۹۳)۔ عَنْ اَبِیْ مِجْلَزٍ اَنَّ مُعَاوِیَۃَ دَخَلَ بَیْتًا فِیْہِ ابْنُ عَامِرٍ وَابْنُ الزُّبَیْرِ، فَقَامَ ابْنُ عَامِرٍ وَجَلَسَ ابْنُ الزُّبَیْرِ، فَقَالَ لَہٗ مُعَاوِیَۃُ: اجْلَسْ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((مَنْ سَرَّہٗ اَنْ یَمْثُلُ لَہُ الْعِبَادُ قِیَامًا فَلْیَتَبَوَّاْ بَیْتًا فِی النَّارِ۔)) وَفِیْ لَفْظٍ: ((فَلْیَتَبَوَّاْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ۔)) (مسند احمد: ۱۶۹۵۵)
ابو مجلز بیان کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک گھر میں داخل ہوئے، اس میں ابن عامر اور ابن زبیر بھی موجود تھے، ابن عامر تو کھڑے ہو گئے، لیکن سیدنا ابن زبیر بیٹھے رہے، سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ابن عامر سے کہا: بیٹھ جائو، کیونکہ میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس کییہ خواہش ہو کہ بندے اس کے لئے کھڑے ہوں تو وہ اپنا گھر دوزخ میں تیار کر لے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11894

۔ (۱۱۸۹۴)۔ عَنْ مُجَاھِدِ وَعَطَائٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما أَنَّ مُعَاوِیَۃَ (ابْنَ أَبِی سُفْیَانَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) أَخْبَرَہُ أَنَّہُ رَاٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَصَّرَ مِنْ شَعْرِہِ بِمِشْقَصٍ، فَقُلْنَا لابْنِ عَبَّاس: مَا بَلَغَنَا ھٰذَا إِلَّاعَنْ مُعَاوِیَۃَ، فَقَالَ: مَا کَانَ مُعَاوِیَۃُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُتَّہَمًا۔ (مسند احمد: ۱۶۹۸۸)
سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو خبر دی کہ انھوں نے دیکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لمبے چوڑے پھل سے اپنے بال تراشے تھے۔ مجاہد اور عطا کہتے ہیں: ہم نے سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: یہ بات ہمیں صرف سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے موصول ہوئی ہے۔ انھوں نے جواباً کہا: سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بارے میں تہمت زدہ نہیں ہیں (یعنی وہ یہ خبر دینے میں سچے ہیں)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11895

۔ (۱۱۸۹۵)۔ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ مُعَاوِیَۃَ دَخَلَ عَلٰی عَائِشَۃَ فَقَالَتْ لَہُ: أَمَا خِفْتَ أَنْ أُقْعِدَ لَکَ رَجُلًا فَیَقْتُلَکَ؟ فَقَالَ: مَا کُنْتِ لِتَفْعَلِیہِ وَأَنَا فِی بَیْتِ أَمَانٍ، وَقَدْ سَمِعْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((الْإِیمَانُ قَیْدُ الْفَتْکِ۔)) کَیْفَ أَنَا فِی الَّذِی بَیْنِی وَبَیْنَکِ وَفِی حَوَائِجِکِ قَالَتْ: صَالِحٌ، قَالَ: فَدَعِینَا وَإِیَّاہُمْ حَتَّی نَلْقٰی رَبَّنَا عَزَّ وَجَلَّ۔ (مسند احمد: ۱۶۹۵۷)
سعید بن مسیب ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت ہے کہ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی خدمت میں گئے تو سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان سے کہا: کیا تمہیں اس بات سے ڈر نہیں لگتا کہ میں کسی کو تمہاری گھات میں تمہیں قتل کرنے کے لیے بٹھا دوں اور وہ تمہیں قتل کر دے؟ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: آپ ایسا کام نہیں کریں گی۔ (یا آپ ایسا نہیں کر سکتیں) کیونکہ میں حفظ و امان کی حدود کے اندر ہوں۔ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ایمان دھوکے سے قتل کرتے سے مانع ہے۔ اچھا اب آپ یہ بتائیں کہ میں آپ کے اور آپ کی ضروریات کے پورا کرنے میں میں کیسا جا رہا ہوں؟ سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ٹھیک ہو۔ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: پس آپ ہمیں اور لوگوں کو اپنے حال پر چھوڑیں،یہاں تک کہ ہم اپنے رب سے جا ملیں۔ (مراد یہ ہے کہ آپ میرے اور لوگوں کے معاملات میں دخل نہ دیا کریں)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11896

۔ (۱۱۸۹۶)۔ عَنْ أَبِی الْجُوِیْرِیَۃَ، عَنْ مَعْنِ بْنِ یَزِیْدَ السُّلَمِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ سَمِعْتُہُ یَقُوْلُ: بَایَعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَا وَأَبِیْ وَجَدِّیْ، وَخَاصَمْتُ إِلَیْہِ فَأَفْلَجَنِیْ، وَخَطَبَ عَلَیَّ فَأَنْکَحَنِیْ۔ (مسند احمد: ۱۸۴۶۴)
سیدنا معن بن یزید سلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں، میرے والد اور میرے دادا نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی، میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں ایک معاملہ لے گیا تو آپ نے میرے حق میں فیصلہ کیا اور میرے لیے نکاح کا پیغام بھیج کر آپ نے میرا نکاح کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11897

۔ (۱۱۸۹۷)۔ عَنْ بُرَیْدَۃَ الْأَسْلَمِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یُحِبُّ مِنْ أَصْحَابِیْ أَرْبَعَۃً أَخْبَرَنِیْ أَنَّہٗ یُحِبُّہُمْ وَأَمَرَنِیْ أَنْ اُحِبَّہُمْ۔)) قَالُوْا: مَنْ ھُمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((إِنَّ عَلِیًّا مِنْہُمْ، وَأَبُوْ ذَرِّ نِ الْغَفَّارِیُّ، وَسَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ، وَالْمِقْدَادُ بْنُ الْاَسْوَدِ الْکِنْدِیُّ۔)) (مسند احمد: ۲۳۳۵۶)
سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ میرے چار صحابہ سے محبت رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بتلایا ہے کہ وہ ان سے محبت رکھتا ہے اور مجھے حکم بھی دیا ہے کہ میں بھی ان سے محبت رکھوں۔ صحابۂ کرام نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! وہ کون کون ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علی، ابو ذر غفاری، سلمان فارسی اور مقداد بن اسود کندی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11898

۔ (۱۱۸۹۸)۔ وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: شَہِدْتُ مِنَ الْمِقْدَادِ، قَالَ أَبُو نُعَیْمٍ ابْنِ الْأَسْوَدِ: مَشْہَدًا، لَأَنْ أَکُونَ أَنَا صَاحِبَہُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا عُدِلَ بِہِ، أَتَی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یَدْعُو عَلَی الْمُشْرِکِینَ فَقَالَ: وَاللّٰہِ یَا رَسُولَ اللّٰہِ لَا نَقُولُ کَمَا قَالَتْ بَنُو إِسْرَائِیلَ لِمُوسٰی: {اذْہَبْ أَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا إِنَّا ہَاہُنَا قَاعِدُونَ} وَلٰکِنْ نُقَاتِلُ عَنْ یَمِینِکَ، وَعَنْ یَسَارِکَ، وَمِنْ بَیْنِ یَدَیْکَ، وَمِنْ خَلْفِکَ، فَرَأَیْتُ وَجْہَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُشْرِقُ وَسَرَّہُ ذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۴۰۷۰)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا مقداد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ایک موقع پر ایسی بات کرتے سنا ہے کہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ کاش وہ فرد میں ہوتا اوراس کے عوض ہر وہ چیز دے دیتا، جس کو اس کے برابر سمجھا جاتا ہے، وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مشرکین کے خلافت بد دعا کر رہے تھے، سیدنا مقداد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم اس طرح نہیں کہیں گے جیسے بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ :{اِذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُکَ فْقَاتِلَا اِنّا ھَھُنَا قَاعِدُوْنَ} … آپ اور آپ کا رب جا کر لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ (سورۂ مائدہ: ۲۴) بلکہ ہم تو آپ کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے ہر طرف سے (آپ کے دفاع میں) لڑیں گے۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ بات سن کر از حد خوش ہوئے اور میں نے آپ کے چہر ہ مبارک کو خوشی سے دمکتا دیکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11899

۔ (۱۱۸۹۹)۔ عَنْ یَحْیَ بْنِ أَبِی الْھَیْثَمِ قَالَ: سَمِعْتُ یُوْسُفَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَلَامِ یَقُوْلُ: أَجْلَسَنِیَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ حِجْرِہِ وَمَسَحَ عَلٰی رَأْسِیْ وَسَمَّانِیْ یُوْسُفَ۔ (مسند احمد: ۱۶۵۲۰)
سیدنایوسف بن عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے اپنی گود میں بٹھا کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرا نام یوسف رکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11900

۔ (۱۱۹۰۰)۔ عَنْ رَجَائِ بْنِ حَیْوَۃَ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ قَالَ: أَنْشَأَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَزْوَۃً، فَأَتَیْتُہُ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ادْعُ اللّٰہَ لِی بِالشَّہَادَۃِ، فَقَالَ: ((اللَّہُمَّ سَلِّمْہُمْ وَغَنِّمْہُمْ۔)) قَالَ: فَسَلِمْنَا وَغَنِمْنَا، قَالَ: ثُمَّ أَنْشَأَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَزْوًا ثَانِیًا فَأَتَیْتُہُ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ادْعُ اللّٰہَ لِی بِالشَّہَادَۃِ، فَقَالَ: ((اللَّہُمَّ سَلِّمْہُمْ وَغَنِّمْہُمْ۔)) قَالَ ثُمَّ أَنْشَأَ غَزْوًا ثَالِثًا فَأَتَیْتُہُ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی أَتَیْتُکَ مَرَّتَیْنِ قَبْلَ مَرَّتِی ہٰذِہِ فَسَأَلْتُکَ أَنْ تَدْعُوَ اللّٰہَ لِی بِالشَّہَادَۃِ، فَدَعَوْتَ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ یُسَلِّمَنَا وَیُغَنِّمَنَا، فَسَلِمْنَا وَغَنِمْنَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ، فَادْعُ اللّٰہَ لِی بِالشَّہَادَۃِ، فَقَالَ: ((اللَّہُمَّ سَلِّمْہُمْ وَغَنِّمْہُمْ۔)) قَالَ: فَسَلِمْنَا وَغَنِمْنَا، ثُمَّ أَتَیْتُہُ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مُرْنِی بِعَمَلٍ قَالَ: ((عَلَیْکَ بِالصَّوْمِ فَإِنَّہُ لَا مِثْلَ لَہُ۔)) قَالَ: فَمَا رُئِیَ أَبُو أُمَامَۃَ وَلَا امْرَأَتُہُ وَلَا خَادِمُہُ إِلَّا صُیَّامًا، قَالَ: فَکَانَ إِذَا رُئِیَ فِی دَارِہِمْ دُخَانٌ بِالنَّہَارِ قِیلَ اعْتَرَاہُمْ ضَیْفٌ، نَزَلَ بِہِمْ نَازِلٌ، قَالَ: فَلَبِثَ بِذٰلِکَ مَا شَائَ اللَّہُ، ثُمَّ أَتَیْتُہُ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَمَرْتَنَا بِالصِّیَامِ فَأَرْجُو أَنْ یَکُونَ قَدْ بَارَکَ اللّٰہُ لَنَا فِیہِ یَا رَسُولَ اللّٰہِ فَمُرْنِی بِعَمَلٍ آخَرَ، قَالَ: ((اعْلَمْ أَنَّکَ لَنْ تَسْجُدَ لِلَّہِ سَجْدَۃً إِلَّا رَفَعَ اللّٰہُ لَکَ بِہَا دَرَجَۃً وَحَطَّ عَنْکَ بِہَا خَطِیئَۃً۔)) (مسند احمد: ۲۲۴۹۲)
سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک غزوہ تیار کیا، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست کی: اے اللہ کے رسول! آپ اللہ تعالیٰ سے میرے حق میں شہید ہونے کی دعا فرمائیں۔ لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں دعا کی: یا اللہ! ان کو سلامت رکھ اور انہیں غنیمت سے سر فراز فرما۔ پس اس دعا کے نتیجے میں ہم سلامت رہے اور مال غنیمت لے کر واپس ہوئے۔ اس کے بعد پھر ایک موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غزوہ کی تیاری کی، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اب کی بار تو آپ اللہ تعالیٰ سے میرے لیے شہادت کی دعا فرمائیں۔ لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں دعا کی: یا اللہ! انہیں سلامت رکھ اور انہیں مال غنیمت سے سرفراز فرما۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اس دعا کی برکت سے ہم صحیح سلامت رہے اور مال غنیمت سمیت واپس ہوئے۔ اس کے بعد پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تیسرے غزوے کی تیاری کی ہے، میں نے آپ کی خدمت میں آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ اللہ تعالیٰ سے میرے لیے شہادت کی دعا فرمائیں۔ آپ نے دونوں دفعہ دعا فرمائی کہ اللہ ہمیں سلامت رکھے اور مال غنیمت سے نوازے۔ چنانچہ دونوں دفعہ ہم سلامت رہے اور مال غنیمت لے کر واپس ہوئے۔ اللہ کے رسول! آپ اللہ سے میرے حق میں شہادت کی دعا فرمائیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں دعا کی: یا اللہ! انہیں سلامت رکھ اور ان کو مال غنیمت سے سرفراز فرما۔ چنانچہ ہم صحیح سلامت رہے اور مال غنیمت لے کر واپس ہوئے۔ میں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے کسی ایسے کام کا حکم فرمائیں کہ میں جس پر عمل کروں اور اللہ مجھے اس سے نفع پہنچائے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم روزے رکھا کرو، کوئی عمل روزے کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ رجاء بن حیوہ کہتے ہیں: اس کے بعد سیدنا ابوامامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، ان کی بیوی اوران کے خادم کو روزے کی حالت ہی میں دیکھا گیا۔ رجاء کہتے ہیں: اگر کبھی دن کے وقت ان کے گھر سے دھواں اٹھتا دکھائی دیتا تو لوگ کہتے کہ ان کے ہاں کوئی مہمان یا ملاقاتی آیا ہو گا، سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور رہا میں روزوںپر کار بند رہا۔ پھر ایک بار میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جا کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول!آپ نے ہمیں روزے رکھنے کا حکم فرمایاہے، مجھے امید ہے کہ اللہ نے ہمارے لیے اس عمل میں برکت فرمائی ہے، اب آپ ہمیں اس کے علاوہ مزید کسی دوسرے عمل کا حکم بھی فرمائیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جان لو کہ تم اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے جو سجدہ کرو گے تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ تمہارا ایک درجہ بلند کرے گا اور تمہارا ایک گناہ معاف کر ے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11901

۔ (۱۱۹۰۱)۔ عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ أَنَّ یَزِیدَ بْنَ مُعَاوِیَۃَ کَانَ أَمِیرًا عَلَی الْجَیْشِ الَّذِی غَزَا فِیہِ أَبُو أَیُّوبَ، فَدَخَلَ عَلَیْہِ عِنْدَ الْمَوْتِ، فَقَالَ لَہُ أَبُو أَیُّوبَ: إِذَا مِتُّ فَاقْرَئُ وْا عَلَی النَّاسِ مِنِّی السَّلَامَ، فَأَخْبِرُوہُمْ أَنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنْ مَاتَ لَا یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْئًا جَعَلَہُ اللّٰہُ فِی الْجَنَّۃِ۔)) وَلْیَنْطَلِقُوْا بِیْ فَلْیَبْعُدُوْا بِی فِی أَرْضِ الرُّومِ مَا اسْتَطَاعُوْا، فَحَدَّثَ النَّاسُ لَمَّا مَاتَ أَبُو أَیُّوبَ فَاسْتَلْأَمَ النَّاسُ وَانْطَلَقُوْا بِجِنَازَتِہِ۔ (مسند احمد: ۲۳۹۲۰)
عاصم نے مکہ کے ایک باشندے سے روایت کیا ہے کہ یزید بن معاویہ اس لشکر کا امیر تھا جس میں سیدنا ابو ایوب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شریک تھے، ان کی وفات کے وقت یزید ان کے پاس آیا تو انہوںنے اس سے کہا: میری وفات ہو تو میری طرف سے لوگوں کو سلام کہنا اور انہیں بتلا دینا کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جو کوئی اس حال میں فوت ہوا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا تھا، اللہ اسے جنت عطا فرمائے گا۔ اس کے بعد یہ لوگ میری میت کو اٹھا کر روم کی حدود میں جہاں تک ممکن ہو دورلے جائیں، پس جب سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا انتقال ہوا تویزید نے لوگوں کو ان کے انتقال کی خبر دی،لوگوں نے اپنے ہتھیار زیب تن کر لیے اور ان کی میت کو لے کر چل پڑے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11902

۔ (۱۱۹۰۲)۔ عَنِ الْأَعْمَشِ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ظِبْیَانَ وَیَعْلٰی، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِی ظِبْیَانَ قَالَ: غَزَا أَبُو أَیُّوبَ الرُّومَ فَمَرِضَ فَلَمَّا حُضِرَ قَالَ: أَنَا إِذَا مِتُّ فَاحْمِلُونِیْ فَإِذَا صَافَفْتُمُ الْعَدُوَّ فَادْفِنُونِیْ تَحْتَ أَقْدَامِکُمْ، وَسَأُحَدِّثُکُمْ حَدِیثًا سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَوْلَا حَالِیْ ہٰذَا مَا حَدَّثْتُکُمُوہُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنْ مَاتَ لَا یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْئًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔)) (مسند احمد: ۲۳۹۵۶)
ابو ظبیان سے مروی ہے کہ سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ روم کے خلاف ایک غزوۂ میں شریک تھے اور وہاں بیمار پڑ گئے، جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو انھوں نے کہا: جب میں فوت ہو جائوں تو مجھے اٹھا کر لے جانا، جہاں دشمن سامنے آجائے تم مجھے وہیں اپنے قدموں کے نیچے دفن کر دینا، میں تمہیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہوئی ایک حدیث سناتا ہوں۔ اگر میں اس حال میں (یعنی اس مرض الموت میں ) نہ ہوتا تو میں تمہیںیہ حدیث نہ سناتا۔ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جو آدمی اس حال میں فوت ہوا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا تو وہ جنت میں جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11903

۔ (۱۱۹۰۳)۔ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَجُلًا قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ لِفُلَانٍ نَخْلَۃً وَأَنَا أُقِیمُ حَائِطِی بِہَا فَأْمُرْہُ أَنْ یُعْطِیَنِی حَتّٰی أُقِیمَ حَائِطِی بِہَا، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَعْطِہَا إِیَّاہُ بِنَخْلَۃٍ فِی الْجَنَّۃِ۔)) فَأَبٰی فَأَتَاہُ أَبُوالدَّحْدَاحِ، فَقَالَ: بِعْنِی نَخْلَتَکَ بِحَائِطِی، فَفَعَلَ، فَأَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی قَدْ ابْتَعْتُ النَّخْلَۃَ بِحَائِطِی، قَالَ: فَاجْعَلْہَا لَہُ فَقَدْ أَعْطَیْتُکَہَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((کَمْ مِنْ عَذْقٍ رَاحَ لِأَبِی الدَّحْدَاحِ فِی الْجَنَّۃِ۔)) قَالَہَا مِرَارًا، قَالَ: فَأَتَی امْرَأَتَہُ فَقَالَ: یَا أُمَّ الدَّحْدَاحِ! اخْرُجِی مِنَ الْحَائِطِ فَإِنِّی قَدْ بِعْتُہُ بِنَخْلَۃٍ فِی الْجَنَّۃِ، فَقَالَتْ: رَبِحَ الْبَیْعُ أَوْ کَلِمَۃً تُشْبِہُہَا۔ (مسند احمد: ۱۲۵۱۰)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! فلاں آدمی کا کھجور کا ایک درخت ہے، میں اس درخت کا ضرورت مند ہوں تاکہ اس کے ذریعے اپنے باغ کی دیوار کو سیدھا کر سکوں، آپ اسے حکم دیں کہ وہ یہ درخت مجھے دے دے اور میں اپنے باغ کی دیوار کو مضبوط کر لوں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: تم یہ درخت اسے دے دو، اس کے بدلے میں تمہیں جنت میں ایک درخت لے دوں گا۔ اس نے اس بات سے انکار کیا۔ یہ بات سن کر سیدنا ابو دحداح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آکر اس آدمی سے کہا کہ میرے پورے باغ کے عوض تم یہ ایک کھجور مجھے فروخت کر دو، اس نے ایسے ہی کیا، پھر سیدنا ابو دحداح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے وہ ایک کھجور اپنے پورے باغ کے عوض خریدلی ہے، آپ یہ کھجور اس ضرورت مند کو دے دیں، میں کھجور کا یہ درخت آپ کے حوالے کر چکا ہوں،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں کھجور کے کتنے ہی خوشے ابو دحداح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے لیے لٹک رہے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بات متعدد مرتبہ دہرائی، ابو دحداح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنی بیوی کے پاس آکر اس سے کہا: اے ام وحداح! باغ سے باہر نکل آئو، میں نے یہ باغ جنت کی ایک کھجور کے عوض فروخت کر دیا ہے۔ اس نے کہا: آپ نے تو بڑے فائدے والا سودا کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11904

۔ (۱۱۹۰۴)۔ عَن جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ قَالَ: صَلَّی رَسُولُ اللَّہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی ابْنِ الدَّحْدَاحِ، قَالَ حَجَّاجٌ: عَلَی أَبِی الدَّحْدَاحِ، ثُمَّ أُتِیَ بِفَرَسٍ مَعْرُورٍ فَعَقَلَہُ رَجُلٌ فَرَکِبَہُ فَجَعَلَ یَتَوَقَّصُ بِہِ، وَنَحْنُ نَتَّبِعُہُ نَسْعٰی خَلْفَہُ، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: إِنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((کَمْ عِذْقٍ مُعَلَّقٍ أَوْ مُدَلًّی فِی الْجَنَّۃِ لِأَبِی الدَّحْدَاحِ۔)) قَالَ حَجَّاجٌ فِی حَدِیثِہِ: قَالَ رَجُلٌ مَعَنَا عِنْدَ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ فِی الْمَجْلِسِ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((کَمْ مِنْ عِذْقٍ مُدَلًّی لِأَبِی الدَّحْدَاحِ فِی الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۱۲۰۰)
سیدنا جابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دحداح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بیٹےیا ابو دحداح کی نماز جنازہ ادا کی، اس کے بعد بغیرزین کے ایک گھوڑا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا، ایک آدمی نے اس کی ٹانگ کو رسی سے باندھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس پر سوار ہوئے، وہ گھوڑا اچھلتا ہوا چلنے لگا، ہم آپ کے پیچھے پیچھے تیز تیز جا رہے تھے، لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں کھجور کے کتنے ہی خوشے ابو دحداح کی انتظار میں لٹک رہے ہیں۔ حجاج نے اپنی حدیث میںیوں بیان کیا کہ محفل میں ہمارے ساتھ بیٹھے ایک آدمی نے سیدنا جابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں کھجور کے کتنے ہی خوشے ابو دحداح کے لیے لٹک رہے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11905

۔ (۱۱۹۰۵)۔ عَنْ أَبِی عُمَرَ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ قَالَ: نَزَلَ بِأَبِی الدَّرْدَائِ رَجُلٌ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ: مُقِیمٌ فَنَسْرَحَ أَمْ ظَاعِنٌ فَنَعْلِفَ، قَالَ: بَلْ ظَاعِنٌ، قَالَ: فَإِنِّی سَأُزَوِّدُکَ زَادًا لَوْ أَجِدُ مَا ہُوَ أَفْضَلُ مِنْہُ لَزَوَّدْتُکَ، أَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ ذَہَبَ الْأَغْنِیَائُ بِالدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ نُصَلِّی وَیُصَلُّونَ، وَنَصُومُ وَیَصُومُونَ، وَیَتَصَدَّقُونَ وَلَا نَتَصَدَّقُ، قَالَ: ((أَلَا أَدُلُّکَ عَلَی شَیْئٍ إِنْ أَنْتَ فَعَلْتَہُ لَمْ یَسْبِقْکَ أَحَدٌ کَانَ قَبْلَکَ وَلَمْ یُدْرِکْکَ أَحَدٌ بَعْدَکَ إِلَّا مَنْ فَعَلَ الَّذِی تَفْعَلُ، دُبُرَ کُلِّ صَلَاۃٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِینَ تَسْبِیحَۃً، وَثَلَاثًا وَثَلَاثِینَ تَحْمِیدَۃً، وَأَرْبَعًا وَثَلَاثِینَ تَکْبِیرَۃً۔)) (مسند احمد: ۲۲۰۵۲)
سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی ان کے ہاں مہمان ٹھہرا، انھوں نے اس سے دریافت کیا کہ اگر آپ ہمارے ہاں قیام فرمائیں تو ہم آپ کی سواری کو چراگاہ میں بھجوا دیں اور اگر جلد روانگی کا پروگرام ہو تو ہم اسے یہیں چارہ ڈال دیں۔ اس آدمی نے کہا:نہیں، میں تو بس جانے والا ہوں، انہوں نے فرمایا: میں آپ کو ایک زادِ راہ دینا چاہتا ہوں، اگر میرے پاس اس سے بہتر کوئی تحفہ ہوتا تو میں وہ آپ کی نذر کرتا۔ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گیا تھا اور آپ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مالدار لوگ دنیا کے لحاظ سے بھی آگے نکل گئے اور آخرت کے لحاظ سے بھی ۔ہم (غریب لوگ) نماز پڑھتے ہیں اور وہ امیر لوگ بھی نماز ادا کرتے ہیں، ہم بھی روزے رکھتے ہیں اور وہ بھی روزے رکھتے ہیں، لیکن وہ صدقہ کرتے ہیں اور ہم صدقہ نہیں کر سکتے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایک ایسا عمل نہ بتلائوں، اگر تم اس پر عمل کرو تو نہ اگلوں میں سے کوئی تم سے آگے بڑھ سکے گا اور نہ پچھلوں میں سے کو تجھ کو پا سکے گا، ماسوائے اس کے جو اسی پر عمل کرے، تم ہر نماز کے بعد تینتیس بار سُبْحَانَ اللّٰہِ تینتیس بار اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اور چونتیس بار اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہا کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11906

۔ (۱۱۹۰۶)۔ عَنْ یُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ: صَحِبْتُ أَبَا الدَّرْدَائِ أَتَعَلَّمُ مِنْہُ فَلَمَّا حَضَرَہُ الْمَوْتُ، قَالَ: آذِنْ النَّاسَ بِمَوْتِی، فَآذَنْتُ النَّاسَ بِمَوْتِہِ، فَجِئْتُ وَقَدْ مُلِئَ الدَّارُ وَمَا سِوَاہُ، قَالَ: فَقُلْتُ: قَدْ آذَنْتُ النَّاسَ بِمَوْتِکَ وَقَدْ مُلِئَ الدَّارُ وَمَا سِوَاہُ، قَالَ: أَخْرِجُونِیْ فَأَخْرَجْنَاہُ، قَالَ: أَجْلِسُونِی، قَالَ: فَأَجْلَسْنَاہُ، قَالَ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ! إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنْ تَوَضَّأَ فَأَسْبَغَ الْوُضُوئَ ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ یُتِمُّہُمَا، أَعْطَاہُ اللّٰہُ مَا سَأَلَ مُعَجِّلًا أَوْ مُؤَخِّرًا۔)) قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ! إِیَّاکُمْ وَالِالْتِفَاتَ فَإِنَّہُ لَا صَلَاۃَ لِلْمُلْتَفِتِ، فَإِنْ غُلِبْتُمْ فِی التَّطَوُّعِ فَلَا تُغْلَبُنَّ فِی الْفَرِیضَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۸۰۴۵)
سیدنایوسف بن عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں حصول علم کے لیے سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں گیا، جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا۔ تو انہوںنے مجھ سے کہا: تم لوگوں کو میری وفات کی اطلاع کردو۔ میں نے لوگوںکو ان کی وفات کی اطلاع دی، میں واپس آیا تو ان کا گھر اور ارد گرد کے مقامات لوگوں سے بھرے تھے، میں نے جا کر ان سے عرض کیا: میں نے لوگوں کو آپ کی وفات کی اطلاع دی اورگھر اور اردگرد کے مقامات لوگوں سے بھر گئے ہیں۔ انھوں نے مجھے کہا: تم مجھے باہر لے چلو، ہم ان کو باہر لے گئے۔ انھوں نے کہا: مجھے بٹھا دو، ہم نے ان کو بٹھا دیا۔ انہوںنے کہا: لوگو! میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جو آدمی اچھی طرح مکمل وضو کرکے مکمل دو رکعت نماز ادا کرے تو وہ اللہ سے جو بھی دعا کرے، اللہ اسے جلد یا بدیر اس کی مطلوبہ چیز ضرور عطا فرمائے گا۔ پھر انھوں نے کہا: لوگو! نماز میں ادھر ادھر نہ دیکھا کرو، جو کوئی ادھر ادھر دیکھتا ہے اس کی نماز نہیں ہوتی، اگر نفل نماز میں اس کی ضرورت پیش آ جائے تو خیر، مگر فرض نماز میں اس کی گنجائش نہ نکالا کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11907

۔ (۱۱۹۰۷)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ صَامِتٍ قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ: خَرَجْنَا مِنْ قَوْمِنَا غِفَارٍ وَکَانُوا یُحِلُّونَ الشَّہْرَ الْحَرَامَ أَنَا وَأَخِی أُنَیْسٌ وَأُمُّنَا، فَانْطَلَقْنَا حَتّٰی نَزَلْنَا عَلٰی خَالٍ لَنَا ذِی مَالٍ وَذِی ہَیْئَۃٍ، فَأَکْرَمَنَا خَالُنَا فَأَحْسَنَ إِلَیْنَا فَحَسَدَنَا قَوْمُہُ، فَقَالُوْا: إِنَّکَ إِذَا خَرَجْتَ عَنْ أَہْلِکَ خَلَفَکَ إِلَیْہِمْ أُنَیْسٌ، فَجَائَ نَا خَالُنَا فَنَثَا عَلَیْہِ مَا قِیلَ لَہُ، فَقُلْتُ: أَمَّا مَا مَضٰی مِنْ مَعْرُوفِکَ فَقَدْ کَدَّرْتَہُ وَلَا جِمَاعَ لَنَا فِیمَا بَعْدُ، قَالَ: فَقَرَّبْنَا صِرْمَتَنَا فَاحْتَمَلْنَا عَلَیْہَا وَتَغَطّٰی خَالُنَا ثَوْبَہُ وَجَعَلَ یَبْکِی، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا حَتّٰی نَزَلْنَا بِحَضْرَۃِ مَکَّۃَ، قَالَ: فَنَافَرَ أُنَیْسٌ رَجُلًا عَنْ صِرْمَتِنَا وَعَنْ مِثْلِہَا فَأَتَیَا الْکَاہِنَ فَخَیَّرَ أُنَیْسًا، فَأَتَانَا بِصِرْمَتِنَا وَمِثْلِہَا وَقَدْ صَلَّیْتُ یَا ابْنَ أَخِی قَبْلَ أَنْ أَلْقٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثَلَاثَ سِنِینَ، قَالَ: فَقُلْتُ: لِمَنْ؟ قَالَ: لِلّٰہِ، قَالَ: قُلْتُ: فَأَیْنَ تَوَجَّہُ؟ قَالَ: حَیْثُ وَجَّہَنِی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: وَأُصَلِّی عِشَائً حَتّٰی إِذَا کَانَ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ أُلْقِیتُ کَأَنِّی خِفَائٌ (قَالَ أَبِی: قَالَ أَبُو النَّضْرِ: قَالَ سُلَیْمَانُ: کَأَنِّی جِفَائٌ) حَتّٰی تَعْلُوَنِی الشَّمْسُ، قَالَ: فَقَالَ أُنَیْسٌ: إِنَّ لِی حَاجَۃً بِمَکَّۃَ فَاکْفِنِی حَتّٰی آتِیَکَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ فَرَاثَ عَلَیَّ ثُمَّ أَتَانِی، فَقُلْتُ: مَا حَبَسَکَ؟ قَالَ: لَقِیتُ رَجُلًا یَزْعُمُ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ أَرْسَلَہُ عَلٰی دِینِکَ، قَالَ: فَقُلْتُ: مَا یَقُولُ النَّاسُ لَہُ؟ قَالَ: یَقُولُونَ، إِنَّہُ شَاعِرٌ وَسَاحِرٌ وَکَاہِنٌ، قَالَ: وَکَانَ أُنَیْسٌ شَاعِرًا، قَالَ: فَقَالَ: قَدْ سَمِعْتُ قَوْلَ الْکُہَّانِ فَمَا یَقُولُ بِقَوْلِہِمْ، وَقَدْ وَضَعْتُ قَوْلَہُ عَلٰی أَقْرَائِ الشِّعْرِ فَوَاللّٰہِ مَا یَلْتَامُ لِسَانُ أَحَدٍ أَنَّہُ شِعْرٌ، وَاللّٰہِ إِنَّہُ لَصَادِقٌ وَإِنَّہُمْ لَکَاذِبُونَ، قَالَ: فَقُلْتُ لَہُ: ہَلْ أَنْتَ کَافِیَّ حَتّٰی أَنْطَلِقَ فَأَنْظُرَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَکُنْ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ عَلٰی حَذَرٍ فَإِنَّہُمْ قَدْ شَنِفُوا لَہُ وَتَجَہَّمُوا لَہُ، وَقَالَ عَفَّانُ: شِیفُوا لَہُ، وَقَالَ بَہْزٌ: سَبَقُوْا لَہُ، وَقَالَ أَبُو النَّضْرِ: شَفَوْا لَہُ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ حَتّٰی قَدِمْتُ مَکَّۃَ فَتَضَیَّفْتُ رَجُلًا مِنْہُمْ فَقُلْتُ: أَیْنَ ہٰذَا الرَّجُلُ الَّذِی تَدْعُونَہُ الصَّابِئَ؟ قَالَ: فَأَشَارَ إِلَیَّ، قَالَ: الصَّابِئُ، قَالَ: فَمَالَ أَہْلُ الْوَادِی عَلَیَّ بِکُلِّ مَدَرَۃٍ وَعَظْمٍ حَتّٰی خَرَرْتُ مَغْشِیًّا عَلَیَّ، فَارْتَفَعْتُ حِینَ ارْتَفَعْتُ کَأَنِّی نُصُبٌ أَحْمَرُ، فَأَتَیْتُ زَمْزَمَ فَشَرِبْتُ مِنْ مَائِہَا وَغَسَلْتُ عَنِّی الدَّمَ، فَدَخَلْتُ بَیْنَ الْکَعْبَۃِ وَأَسْتَارِہَا، فَلَبِثْتُ بِہِ ابْنَ أَخِی ثَلَاثِینَ مِنْ بَیْنِ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ، وَمَا لِی طَعَامٌ إِلَّا مَائُ زَمْزَمَ فَسَمِنْتُ حَتّٰی تَکَسَّرَتْ عُکَنُ بَطْنِی، وَمَا وَجَدْتُ عَلَی کَبِدِی سَخْفَۃَ جُوعٍ، قَالَ: فَبَیْنَا أَہْلُ مَکَّۃَ فِی لَیْلَۃٍ قَمْرَائَ أَضْحِیَانٍ، وَقَالَ عَفَّانُ: أَصْخِیَانٍ، وَقَالَ بَہْزٌ: أَصْخِیَانٍ، وَکَذٰلِکَ قَالَ أَبُو النَّضْرِ، فَضَرَبَ اللّٰہُ عَلٰی أَصْمِخَۃِ أَہْلِ مَکَّۃَ فَمَا یَطُوفُ بِالْبَیْتِ غَیْرُ امْرَأَتَیْنِ فَأَتَتَا عَلَیَّ وَہُمَا تَدْعُوَانِ إِسَافَ وَنَائِلَ، قَالَ: فَقُلْتُ: أَنْکِحُوْا أَحَدَہُمَا الْآخَرَ فَمَا ثَنَاہُمَا ذٰلِکَ، قَالَ: فَأَتَتَا عَلَیَّ، فَقُلْتُ: وَہَنٌ مِثْلُ الْخَشَبَۃِ غَیْرَ أَنِّی لَمْ اَکْنِ، قَالَ: فَانْطَلَقَتَا تُوَلْوِلَانِ وَتَقُولَانِ لَوْ کَانَ ہَاہُنَا أَحَدٌ مِنْ أَنْفَارِنَا، قَالَ: فَاسْتَقْبَلَہُمَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَبُو بَکْرٍ وَہُمَا ہَابِطَانِ مِنَ الْجَبَلِ، فَقَالَ: مَا لَکُمَا؟ فَقَالَتَا: الصَّابِئُ بَیْنَ الْکَعْبَۃِ وَأَسْتَارِہَا، قَالَا: مَا قَالَ لَکُمَا، قَالَتَا: قَالَ لَنَا کَلِمَۃً تَمْلَأُ الْفَمَ، قَالَ: فَجَائَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہُوَ وَصَاحِبُہُ حَتَّی اسْتَلَمَ الْحَجَرَ فَطَافَ بِالْبَیْتِ ثُمَّ صَلَّی، قَالَ: فَأَتَیْتُہُ فَکُنْتُ أَوَّلَ مَنْ حَیَّاہُ بِتَحِیَّۃِ أَہْلِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ: ((عَلَیْکَ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ مِمَّنْ أَنْتَ؟)) قَالَ: قُلْتُ: مِنْ غِفَارٍ، قَالَ: فَأَہْوَی بِیَدِہِ فَوَضَعَہَا عَلٰی جَبْہَتِہِ، قَالَ: فَقُلْتُ فِی نَفْسِی: کَرِہَ أَنِّی انْتَمَیْتُ إِلٰی غِفَارٍ، قَالَ: فَأَرَدْتُ أَنْ آخُذَ بِیَدِہِ فَقَذَعَنِی صَاحِبُہُ وَکَانَ أَعْلَمَ بِہِ مِنِّی، قَالَ: ((مَتٰی کُنْتَ ہَاہُنَا؟)) قَالَ: کُنْتُ ہَاہُنَا مُنْذُ ثَلَاثِینَ مِنْ بَیْنِ لَیْلَۃٍ وَیَوْمٍ، قَالَ: ((فَمَنْ کَانَ یُطْعِمُکَ؟)) قُلْتُ: مَا کَانَ لِی طَعَامٌ إِلَّا مَائُ زَمْزَمَ، قَالَ: فَسَمِنْتُ حَتّٰی تَکَسَّرَ عُکَنُ بَطْنِی، وَمَا وَجَدْتُ عَلٰی کَبِدِی سُخْفَۃَ جُوعٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّہَا مُبَارَکَۃٌ، وَإِنَّہَا طَعَامُ طُعْمٍ۔)) قَالَ أَبُو بَکْرٍ: ائْذَنْ لِی یَا رَسُولَ اللّٰہِ فِی طَعَامِہِ اللَّیْلَۃَ؟ قَالَ: فَفَعَلَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَانْطَلَقَ أَبُو بَکْرٍ وَانْطَلَقْتُ مَعَہُمَا حَتّٰی فَتَحَ أَبُو بَکْرٍ بَابًا فَجَعَلَ یَقْبِضُ لَنَا مِنْ زَبِیبِ الطَّائِفِ، قَالَ: فَکَانَ ذٰلِکَ أَوَّلَ طَعَامٍ أَکَلْتُہُ بِہَا فَلَبِثْتُ مَا لَبِثْتُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنِّی قَدْ وُجِّہَتْ إِلَیَّ أَرْضٌ ذَاتُ نَخْلٍ، وَلَا أَحْسَبُہَا إِلَّا یَثْرِبَ فَہَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّی قَوْمَکَ لَعَلَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ یَنْفَعَہُمْ بِکَ وَیَأْجُرَکَ فِیہِمْ؟)) قَالَ: فَانْطَلَقْتُ حَتّٰی أَتَیْتُ أُنَیْسًا، قَالَ: فَقَالَ لِی: مَا صَنَعْتَ؟ قَالَ: قُلْتُ: إِنِّی صَنَعْتُ أَنِّی أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ، قَالَ: قَالَ: فَمَا لِی رَغْبَۃٌ عَنْ دِینِکَ إِنِّی قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ ثُمَّ أَتَیْنَا أُمَّنَا، فَقَالَتْ: فَمَا بِی رَغْبَۃٌ عَنْ دِینِکُمَا فَإِنِّی قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ، فَتَحَمَّلْنَا حَتّٰی أَتَیْنَا قَوْمَنَا غِفَارًا، فَأَسْلَمَ بَعْضُہُمْ قَبْلَ أَنْ یَقْدَمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَدِینَۃَ، وَقَالَ: یَعْنِی یَزِیدَ بِبَغْدَادَ، وَقَالَ بَعْضُہُمْ: إِذَا قَدِمَ، فَقَالَ بَہْزٌ: إِخْوَانُنَا نُسْلِمُ، وَکَذَا قَالَ أَبُو النَّضْرِ، وَکَانَ یَؤُمُّہُمْ خُفَافُ بْنُ إِیمَائِ بْنِ رَحَضَۃَ الْغِفَارِیُّ، وَکَانَ سَیِّدَہُمْ یَوْمَئِذٍ، وَقَالَ: بَقِیَّتُہُمْ إِذَا قَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَسْلَمْنَا، فَقَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَدِینَۃَ فَأَسْلَمَ بَقِیَّتُہُمْ، قَالَ: وَجَائَ تْ أَسْلَمُ، فَقَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ إِخْوَانُنَا نُسْلِمُ عَلَی الَّذِی أَسْلَمُوْا عَلَیْہِ فَأَسْلَمُوْا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((غِفَارٌ غَفَرَ اللّٰہُ لَہَا وَأَسْلَمُ سَالَمَہَا اللّٰہُ۔)) (مسند احمد: ۲۱۸۵۸)
سیدنا عبد اللہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ہم اپنی قوم غفار، جو حرمت والے مہینے کو حلال سمجھتے تھے، سے وفد کی صورت میں نکلے۔ میں (ابو ذر)، میرا بھائی انیس اور میری ماں روانہ ہوئے، ہم اپنے ماموں کے پاس آکر ٹھہرے جو مالدار اور اچھی پوزیشن والا تھا۔ انھوں نے ہماری بڑی عزت کی اور ہمارے ساتھ احسان کیا، لیکن ان کی قوم ہم سے حسد کرنے لگی ۔ اس لیے انھوں نے کہا: جب تو اپنے اہل خانہ سے باہر جاتا ہے تو انیس ان کے پاس آ جاتا ہے۔ پس ہمارا ماموں آیا اور جو بات اسے کہی گئی، اس کے سلسلے میں ہماری غیبت کرنے لگ گیا۔ میں نے اسے کہا: جو تو نے ہمارے ساتھ نیکی کی تھی، اسے تو تو نے گدلا کر دیا ہے اور آئندہ ہم آپ کے پاس نہیں آئیں گے۔ ہم اپنی اونٹنیوں کے قریب پہنچے اور سوار ہو کر چل پڑے، میرے ماموں نے کپڑا اوڑھ کر رونا شروع کر دیا۔ ہم چلتے گئے اور مکہ کے قریب جا کر پڑاؤ ڈالا۔ انیس نے ایک آدمی سے ہماری اونٹنیوں اور اتنی ہی اور کے عوض فخر کا اظہار کیا۔ وہ دونوں فیصلہ کرانے کے لیے ایک نجومی کے پاس گئے، اس نے انیس کو منتخب کیا، پس انیس ہماری اور اتنی اور اونٹنیاں لے کر ہمارے پاس آیا۔ اس نے کہا: اے میرے بھیتجے! میں تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ملنے سے تین برس پہلے سے نماز پڑھ رہا تھا۔ میں نے کہا: کس کے لیے؟ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ کے لیے۔ میں نے کہا: تو کس طرف رخ کرتا تھا۔ اس نے کہا: جس طرف میرا ربّ میرا رخ موڑ دیتا تھا۔ میں رات کے آخری حصے میں نمازِ عشا ادا کرتا تھا۔ اب میں گم سم ہو کر لیٹ گیا،یہاں تک کہ سورج چڑھ آیا۔ انیس نے کہا: مجھے مکہ میں کوئی کام ہے، تو مجھے کفایت کر۔ انیس چلا گیا، مکہ پہنچ گیا اور مجھے اچھائی کا بدلہ برائی سے دیا۔ پھر وہ واپس آ گیا۔ میں نے پوچھا: تو نے وہاں کیا کیا ہے؟ اس نے کہا: میں مکہ میں ایک ایسے آدمی کو ملا ہوں جو تیرے دین پر ہے، وہ خیال کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مبعوث فرمایا ہے۔ میں نے کہا: لوگ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا: لوگ اسے شاعر، نجومی اور جادو گر کہتے ہیں۔ انیس خود بھی ایک شاعر تھا۔ اس نے کہا: لیکن میں نے نجومیوں کا کلام سنا ہے اور اس کے کلام کو زبان آور شعراء کے کلام پر پیش کیا ہے، لیکن کسی کی زبان یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ وہ (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا کلام بھی) شعر ہے۔ اللہ کی قسم! وہ صادق ہے اور لوگ جھوٹے ہیں۔ میں نے کہا: اب تو مجھے کفایت کر، تاکہ میں بھی جا کر دیکھ سکوں (کہ اصل ماجرا کیا ہے؟) اس نے کہا: تم مکہ والوں سے بچ کر رہنا کیونکہ وہ اسے ناپسند کر رہے ہیں میں مکہ پہنچ گیا اور ایک آدمی کے پاس مہمان ٹھہرا اور اس سے پوچھا: وہ آدمی کہاں ہے جس کو تم لوگ بے دین کہتے ہو؟ اس نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ بے دین۔ (یہ سنتے ہی) اہل وادی مٹی کے ڈھیلے اور ہڈیاں لے کر مجھ پر چڑھ دوڑے، میں بے ہوش ہو کر گر پڑا، جب (مجھے افاقہ ہوا اور)میں اٹھا تو ایسے لگتا تھا کہ میں ایک سرخ پتھر ہوں۔ میں زمزم پانی پر آیا، خون دھویا، اس کا پانی پیا اور میں کعبہ کے پردوں کے اندر داخل ہو گیا اے میرے بھتیجے! میں وہاں تیس دنوں تک ٹھہرا رہا۔ میرے پاس مائے زمزم کے علاوہ کوئی کھانا نہیں تھا، وہی پی کر میں موٹا ہوتا رہا (یعنی خوراک کی کمی پوری کرتا رہا) اور اپنے پیٹ کی سلوٹیں ختم کرتا رہا۔ مجھے بھوک کی وجہ سے ہونے والی لاغری محسوس نہیں ہوئی۔ (دن گزرتے رہے اور ) ایک دن مکہ میں چاندنی رات اور صاف فضا تھی، اچانک ان کے کانوں میں یہ آواز پڑی کہ کوئی بھی بیت اللہ کا طواف نہ کرے اور دو عورتیں اساف اور نائلہ کو پکار رہی تھیں۔ اس نے کہا: وہ طواف کے دوران میرے پاس سے گزریں، میں نے کہا: ایک کی دوسرے سے شادی کر دو۔ لیکن وہ اپنے قول سے باز نہ آئیں۔ (چکر کے دوران پھر) میرے پاس سے گزریں۔ میں نے کہا: شرمگاہ تو لکڑی کی طرح ہے اور میں نے بات کنایۃً نہیں کی۔ وہ دونوں چیختی چلاتی چلتی گئیں اور یہ کہتی گئیں کہ کاش ہماری جماعت کا بھی کوئی آدمییہاں ہوتا! اس نے کہا: اسی اثنا میں ان کے سامنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ابو بکر (بلندی سے) اترتے ہوئے آ رہے تھے۔ آپ نے کہا: تمھیں کیا ہو گیا ہے؟ انھوں نے کہا: کعبہ اور اس کے پردوں کے درمیان بے دین ہے۔ انہوں نے کہا: اس نے تمھیں کیا کہا: انھوں کہا: ایسی بات کہی کہ جس سے منہ بھر جاتا ہے۔ اتنے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے آئے اور حجرِ اسود کا استلام کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھی نے بیت اللہ کا طواف کیا اور پھر نماز پڑھی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو ابوذر نے کہا: میں پہلا آدمی تھا جس نے انھیں اسلام کا سلام پیش کیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ پر سلامتی ہو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وعلیک ورحمۃ اللہ پھر فرمایا: آپ کون ہیں؟ میں نے کہا: میں غفار قبیلے سے ہوں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ہاتھ جھکایا اور اپنی انگلی اپنی پیشانی پر رکھی۔ میں دل ہی دل میں کہنے لگا کہ شاید آپ نے غفار کی طرف میری نسبت کو ناپسند کیا۔ میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ پکڑنا چاہا لیکن آپ کے ساتھی نے مجھے روک دیااور وہ آپ کو مجھ سے زیادہ جانتا تھا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا: آپ اس جگہ کب سے ہیں؟ میں نے کہا: میں تیس دنوں سے یہاں ہوں، پھر آپ نے فرمایا: کون تجھے کھانا کھلاتا تھا؟ میں نے کہا: زمزم کے پانی کے علاوہ میرے پاس کوئی کھانا نہیں ہے، یہی پانی پی کر میں موٹا ہوتا رہا اور اپنے پیٹ کی سلوٹیں پر کرتا رہا اور مجھے بھوک کی وجہ سے کوئی لاغری محسوس نہیں ہوئی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ پانی مبارک ہے اور یہ کھانے کا کھانا ہے۔ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں، آج رات میں اس کو کھانا کھلاؤں گا۔ آپ نے اجازت دے دی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ابوبکر چل پڑے اور میں بھی ان کے ساتھ چل دیا۔ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے دروازہ کھولا اور طائف کا منقی لانا شروع کیا۔ یہ پہلا کھانا تھا جو میں نے کھایا، پھر کچھ مدت میں وہاں ٹھہرا پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کوئی کھجوروں والی زمین میرے لیے مطیع کر دی گئی ہے، مجھے لگتا ہے کہ وہ یثرب (مدینہ) ہے، کیا تو اپنی قوم کو میرا پیغام پہنچا دے گا، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تیرے ذریعے ان کو نفع دے اور ان کی وجہ سے تجھے اجرو ثواب بھی عطا کرے۔ میں انیس کے پاس پہنچا۔ اس نے پوچھا: تو نے کیا کیا ہے؟ میں نے کہا: اسلام قبول کر لیا ہے اور تصدیق کی ہے۔ اس نے کہا: میں بھی تیرے دین سے بے رغبتی نہیں کرتا، میں بھی مطیع ہو گیا ہوں اورمیں نے بھی تصدیق کی ہے ہم دونوں اپنی ماں کے پاس گئے تو کہنے لگی مجھے بھی تمہارے دین سے بے رغبتی نہیں میں بھی مسلمان ومطیع ہوگئی۔ ہم سوار ہوئے اور اپنی قوم غفار کے پاس پہنچ گئے۔ نصف قبیلہ تو مسلمان ہو گیا۔ ایماء بن رحضہ غفاری، جو ان کا سردار تھا، ان کو نماز پڑھاتا تھا۔ اور نصف قبیلے نے کہا: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ تشریف لائیں گے تو ہم بھی مسلمان ہو جائیں گے۔ پس جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ تشریف لائے تو وہ نصف قبیلہ کے لوگ بھی مسلمان ہو گئے۔ اسلم قبیلہ کے لوگ آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! جس چیز پر ہمارے بھائی مسلمان ہوئے، ہم بھی اسی چیز پر مسلمان ہوتے ہیں۔ پھر وہ مسلمان ہو گئے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: غفار قبیلہ، اللہ اس کو بخش دے اور اسلم قبیلہ، اللہ اسے سلامتی کے ساتھ رکھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11908

۔ (۱۱۹۰۸)۔ عَنْ أَبِی حَرْبِ بْنِ أَبِی الْأَسْوَدِ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَا أَقَلَّتِ الْغَبْرَائُ وَلَا أَظَلَّتِ الْخَضْرَائُ مِنْ رَجُلٍ أَصْدَقَ مِنْ أَبِی ذَرٍّ۔)) (مسند احمد: ۷۰۷۸)
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زمین نے نہیں اٹھایا کسی ایسے آدمی کو اور آسمان نے سایہ نہیں کیا کسی ایسے آدمی پر جو ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بڑھ کر سچا ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11909

۔ (۱۱۹۰۹)۔ (وَعَنْہٗ فِیْ أُخْرٰی): ((أَصْدَقَ لَھْجَۃً مِنْ أَبِیْ ذَرٍّ۔)) (مسند احمد: ۶۶۳۰)
۔ (دوسری سند) اس میں ہے: جو زبان کے لحاظ سے ابو ذر سے سچا ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11910

۔ (۱۱۹۱۰)۔ عَنْ عِرَاکِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ: إِنِّی لَأَقْرَبُکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((إِنَّ أَقْرَبَکُمْ مِنِّی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَنْ خَرَجَ مِنَ الدُّنْیَا کَہَیْئَتِہِ یَوْمَ تَرَکْتُہُ عَلَیْہِ۔)) وَإِنَّہُ وَاللّٰہِ! مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ تَشَبَّثَ مِنْہَا بِشَیْئٍ غَیْرِی۔ (مسند احمد: ۲۱۷۹۰)
سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: قیامت کے دن میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب ہوں گا، کیونکہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ تم میں سے جو آدمی دنیا سے اس حال میں گیا، جس حال میں میں اسے چھوڑ کر جائوں تو وہ قیامت کے دن سب سے زیادہ میرے قریب ہو گا۔ اللہ کی قسم! میرے سوا تم میں سے ہر ایک دنیوی امور اور معاملات سے ملوث ہو چکا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11911

۔ (۱۱۹۱۱)۔ عَنْ یَعْلَی بْنِ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ: قَالَ شَدَّادُ بْنُ أَوْسٍ: کَانَ أَبُوْ ذَرٍّ یَسْمَعُ الْحَدِیثَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیہِ الشِّدَّۃُ،ثُمَّ یَخْرُجُ إِلٰی قَوْمِہِ یُسَلِّمُ لَعَلَّہُ یُشَدِّدُ عَلَیْہِمْ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُرَخِّصُ فِیہِ بَعْدُ فَلَمْ یَسْمَعْہُ أَبُو ذَرٍّ، فَیَتَعَلَّقَ أَبُو ذَرٍّ بِالْأَمْرِ الشَّدِیدِ۔ (مسند احمد: ۱۷۲۶۷)
سیدنا شداد بن اوس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کوئی ایسی حدیث سنتے، جس میں کوئی سخت حکم ہوتا، وہ یہ حدیث سن کر اپنی قوم کی طرف چلے جاتے تاکہ اس حدیث کی روشنی میں ان پر سختی کریں، بعد میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس حکم میں رخصت اور نرمی کر دیتے۔ لیکن سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس نرمی اور رخصت والا حکم نہ سن پاتے، پس وہ اس سخت حکم پر ہی کاربند رہتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11912

۔ (۱۱۹۱۲)۔ وَعَنِ الْأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ قَالَ: کُنْتُ بِالْمَدِینَۃِ فَإِذَا أَنَا بِرَجُلٍ یَفِرُّ النَّاسُ مِنْہُ حِینَ یَرَوْنَہُ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا أَبُو ذَرٍّ صَاحِبُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قُلْتُ: مَا یُفِرُّ النَّاسَ؟ قَالَ: إِنِّی أَنْہَاہُمْ عَنِ الْکُنُوزِ بِالَّذِی کَانَ یَنْہَاہُمْ عَنْہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۱۷۸۲)
احنف بن قیس سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں مدینہ منورہ میں تھا، میں نے دیکھا کہ لوگ ایک آدمی کو دیکھتے تو اس سے دور بھاگ جاتے، میں نے اس آدمی سے دریافت کیا کہ آپ کون ہیں؟ اس نے بتلایا کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا صحابی ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہوں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ لوگ آپ کو دیکھ کر کیوں بھاگ جاتے ہیں؟ انہوںنے بتلایا کہ میں ان لوگوں کو وہ خزانے یعنی مال و دولت جمع کرنے سے روکتا ہوں، جن سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو منع کیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11913

۔ (۱۱۹۱۳)۔ عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْمَسْجِدِ جَالِسًا، وَکَانُوْا یَظُنُّونَ أَنَّہُ یَنْزِلُ عَلَیْہِ، فَأَقْصَرُوْا عَنْہُ حَتّٰی جَائَ أَبُوْ ذَرٍّ فَاقْتَحَمَ، فَأَتٰی فَجَلَسَ إِلَیْہِ فَأَقْبَلَ عَلَیْہِمُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((یَا أَبَا ذَرٍّ ہَلْ صَلَّیْتَ الْیَوْمَ؟)) قَالَ: لَا قَالَ: ((قُمْ فَصَلِّ۔)) فَلَمَّا صَلّٰی أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ الضُّحٰی أَقْبَلَ عَلَیْہِ فَقَالَ: ((یَا أَبَا ذَرٍّ تَعَوَّذْ مِنْ شَرِّ شَیَاطِینِ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ۔)) قَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! وَہَلْ لِلْإِنْسِ شَیَاطِینُ؟ قَالَ: ((نَعَمْ، شَیَاطِینُ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ یُوحِی بَعْضُہُمْ إِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا۔)) ثُمَّ قَالَ: ((یَا أَبَا ذَرٍّ أَلَا أُعَلِّمُکَ مِنْ کَنْزِ الْجَنَّۃِ۔)) قَالَ: بَلٰی جَعَلَنِی اللّٰہُ فِدَاء َکَ، قَالَ: ((قُلْ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ۔)) قَالَ: فَقُلْتُ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ، قَالَ: ثُمَّ سَکَتَ عَنِّی فَاسْتَبْطَأْتُ کَلَامَہُ، قَالَ: قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ إِنَّا کُنَّا أَہْلَ جَاہِلِیَّۃٍ وَعَبَدَۃَ أَوْثَانٍ فَبَعَثَکَ اللّٰہُ رَحْمَۃً لِلْعَالَمِینَ أَرَأَیْتَ الصَّلَاۃَ مَاذَا ہِیَ؟ قَالَ: ((خَیْرٌ مَوْضُوعٌ مَنْ شَائَ اسْتَقَلَّ وَمَنْ شَائَ اسْتَکْثَرَ۔)) قَالَ: قُلْتُ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! أَرَأَیْتَ الصِّیَامَ مَاذَا ہُوَ؟ قَالَ: ((فَرْضٌ مُجْزِیئٌ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! أَرَأَیْتَ الصَّدَقَۃَ مَاذَا ہِیَ؟ قَالَ: ((أَضْعَافٌ مُضَاعَفَۃٌ، وَعِنْدَ اللّٰہِ الْمَزِیدُ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! فَأَیُّ الصَّدَقَۃِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: ((سِرٌّ إِلٰی فَقِیرٍ، وَجُہْدٌ مِنْ مُقِلٍّ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! أَیُّمَا نَزَلَ عَلَیْکَ أَعْظَمُ؟ قَالَ: {اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ} آیَۃُ الْکُرْسِیِّ، قَالَ: قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! أَیُّ الشُّہَدَائِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: ((مَنْ سُفِکَ دَمُہُ وَعُقِرَ جَوَادُہُ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! فَأَیُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: ((أَغْلَاہَا ثَمَنًا وَأَنْفَسُہَا عِنْدَ أَہْلِہَا۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! فَأَیُّ الْأَنْبِیَائِ کَانَ أَوَّلَ؟ قَالَ: ((آدَمُ عَلَیْہِ السَّلَام۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! أَوَنَبِیٌّ کَانَ آدَمُ؟ قَالَ: ((نَعَمْ، نَبِیٌّ مُکَلَّمٌ، خَلَقَہُ اللّٰہُ بِیَدِہِ، ثُمَّ نَفَخَ فِیہِ رُوحَہُ، ثُمَّ قَالَ لَہُ: یَا آدَمُ قُبْلًا۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! کَمْ وَفَّی عِدَّۃُ الْأَنْبِیَائِ؟قَالَ: ((مِائَۃُ أَلْفٍ وَأَرْبَعَۃٌ وَعِشْرُونَ أَلْفًا، الرُّسُلُ مِنْ ذٰلِکَ ثَلَاثُ مِائَۃٍ وَخَمْسَۃَ عَشَرَ جَمًّا غَفِیرًا۔)) (مسند احمد: ۲۲۶۴۴)
سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے، صحابۂ کرام نے سمجھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی کا نزول ہو رہا ہے، انہوںنے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے خاموشی اختیار کئے رکھی،یہاں تک کہ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آکر مجلس میں گھس گئے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جا بیٹھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ابو ذر! کیا تم نے آج نماز چاشت ادا کر لی ہے؟ انہوںنے کہا:جی نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اٹھو اور نماز ادا کرلو۔ انہوںنے چاشت کی چادر رکعات ادا کیں تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی طرف رخ کرکے فرمایا: ابوذر! آپ جنات اور انسانی شیاطین کے شر سے پناہ طلب کرتے رہا کریں۔ سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اللہ کے نبی! کیا انسانوں میں بھی شیاطین ہوتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں، جنات اور انسانی شیاطین دھوکہ دیتے ہوئے جھوٹی باتوں کو ایک دوسرے کی طرف القاء کرتے ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابوذر! کیا میں تمہیں جنت کے خزانے کا ایک کلمہ نہ سکھائوں؟ انہوںنے کہا: اللہ مجھے آپ پر فدا کرے، ضرور سکھلائیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِکہو۔ میں نے یہ کلمہ دہرایا، اس کے بعد آپ میری طرف سے خاموش ہو گئے، میں نے آپ کی بات کی انتظار کی، میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! ہم مشرک اور بت پرست تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث کیا، نماز کے متعلق ارشاد فرمائیں کہ یہ کیسی چیز ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ ایک بہترین عبادت ہے، اب یہ انسانوں کی مرضی ہے تھوڑی عبادت کریںیا زیادہ؟ سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! روزے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ فرض ہے اور اس کا ثواب بہت ہے۔ سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! صدقہ کے بارے میں فرمائیں کہ اللہ کے ہاں اس کا کیا ثواب ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کا اجر کئی گنا ہے اور اللہ کے ہاں اس کا مزید اجر بھی ہے۔ سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! کونسا صدقہ افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پوشیدہ طور پر کسی حاجت مند تہی دست کو صدقہ دینا اور تنگ دست آدمی کا صدقہ کرنا سب سے افضل صدقہ ہے۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اے اللہ کے نبی! آپ پر جو قرآن نازل ہوا ہے۔اس میں سب سے زیادہ عظمت والی آیت کونسی ہے؟ آپ نے فرمایا: {اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ}یعنی آیت الکرسی، سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! کون سا شہید سب سے افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس کا خون اللہ کی راہ میں بہادیا گیا اور اس کے گھوڑے کی ٹانگیں کاٹ دی گئیں۔ سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! کس قسم کے غلام کو آزاد کرنا افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو سب سے زیادہ قیمت والا ہو اور اپنے مالکوں کی نظر میں زیادہ پسند ہو۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! سب سے پہلے نبی کون ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدم علیہ السلام ۔ سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! کیا آدم علیہ السلام نبی تھے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، وہ ایسے نبی تھے، جن سے اللہ تعالیٰ نے براہ راست کلام کی، اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے مبارک ہاتھ سے پیدا کیا، پھر اس میں اپنی پیدا کی ہوئی روح پھونکی، پھر اللہ نے ان سے فرمایا:آدم! سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! انبیاء کی تعداد کتنی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک لاکھ چوبیس ہزار اور ان میں سے تین سو پندرہ افراد کی بڑی جماعت رسول ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11914

۔ (۱۱۹۱۴)۔ عَنْ أَبِی الْأَسْوَدِ الدِّیْلِیِّ قَالَ: رَأَیْتُ اَصْحَابَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَمَا رَأَیْتُ لِاَبِیْ ذَرٍّ شَبِیْہًا۔ (مسند احمد: ۲۱۹۰۸)
ابو اسود دیلی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے متعدد صحابۂ کرام کی زیارت کی ہے، میں نے سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جیسا کوئی نہیں دیکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11915

۔ (۱۱۹۱۵)۔ حَدَّثَنَا شَہْرُ بْنُ حَوْشَبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ غَنْمٍ، أَنَّہُ زَارَ أَبَا الدَّرْدَائِ بِحِمْصَ فَمَکَثَ عِنْدَہُ لَیَالِیَ وَأَمَرَ بِحِمَارِہِ فَأُوکِفَ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ: مَا أَرَانِی إِلَّا مُتَّبِعَکَ، فَأَمَرَ بِحِمَارِہِ فَأُسْرِجَ فَسَارَا جَمِیعًا عَلٰی حِمَارَیْہِمَا، فَلَقِیَا رَجُلًا شَہِدَ الْجُمُعَۃَ بِالْأَمْسِ عِنْدَ مُعَاوِیَۃَ بِالْجَابِیَۃِ، فَعَرَفَہُمَا الرَّجُلُ وَلَمْ یَعْرِفَاہُ فَأَخْبَرَہُمَا خَبَرَ النَّاسِ، ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ قَالَ: وَخَبَرٌ آخَرُ کَرِہْتُ أَنْ أُخْبِرَکُمَا أُرَاکُمَا تَکْرَہَانِہِ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ: فَلَعَلَّ أَبَا ذَرٍّ نُفِیَ، قَالَ: نَعَمْ وَاللّٰہِ فَاسْتَرْجَعَ أَبُو الدَّرْدَائِ وَصَاحِبُہُ، قَرِیبًا مِنْ عَشْرِ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ: ارْتَقِبْہُمْ وَاصْطَبِرْ کَمَا قِیلَ لِأَصْحَابِ النَّاقَۃِ، اللّٰہُمَّ إِنْ کَذَّبُوْا أَبَا ذَرٍّ فَإِنِّی لَا أُکَذِّبُہُ، اللّٰہُمَّ وَإِنِ اتَّہَمُوہُ فَإِنِّی لَا أَتَّہِمُہُ، اللّٰہُمَّ وَإِنِ اسْتَغَشُّوہُ فَإِنِّی لَا أَسْتَغِشُّہُ، فَإِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَأْتَمِنُہُ حِینَ لَا یَأْتَمِنُ أَحَدًا وَیُسِرُّ إِلَیْہِ حِینَ لَا یُسِرُّ إِلٰی أَحَدٍ، أَمَا وَالَّذِی نَفْسُ أَبِی الدَّرْدَائِ بِیَدِہِ لَوْ أَنَّ أَبَا ذَرٍّ قَطَعَ یَمِینِی مَاأَبْغَضْتُہُ بَعْدَ الَّذِی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَا أَظَلَّتِ الْخَضْرَائُ وَلَا أَقَلَّتِ الْغَبْرَائُ مِنْ ذِی لَہْجَۃٍ أَصْدَقَ مِنْ أَبِی ذَرٍّ۔)) (مسند احمد: ۲۲۰۶۷)
شہر بن حوشب سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سے عبدالرحمن بن غنم نے بیان کیا کہ وہ حمص میں سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی زیارت کو گئے اور کئی راتیں ان کے ہاں قیام کیا، انہوںنے اپنے گدھے پر کاٹھی رکھنے کا حکم دیا، سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہنے لگے: میں بھی آپ کے ہم راہ چلتا ہوں، انہوں نے اپنے گدھے پر گدی رکھنے کا حکم دیا، دونوں اپنے اپنے گدھے پر سوار ہو کر سفر پر روانہ ہوئے، ان کی ملاقات ایک آدمی سے ہوئی جو صرف ایک ہی دن قبل جابیہ میں سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ نماز جمعہ ادا کرکے آیا تھا۔ اس نے ان دونوں کو پہچان لیا،یہ دونوں اسے نہیں پہچانتے تھے، اس نے ان کو لوگوں کے احوال سے آگاہ کیا، پھر اس نے کہا: ایک خبر اور بھی ہے، میں وہ آپ کو بتلانا نہیں چاہتا، میں جانتا ہوں کہ آ پ اس خبر کو اچھا نہیں سمجھیں گے۔ سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بول اٹھے کہ شاید سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو شہر بدر کر دیا گیا ہوگا، اس نے کہا: جی ہاں، اللہ کی قسم! واقعی واقعہ رو نماہو چکا ہے، سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے ساتھی عبدالرحمن بن غنم نے تقریباً دس مرتبہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کے کلمات دہرائے۔ پھر سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اب آپ ان لوگوں پر اللہ کے عذاب کے منتظر رہیں اور دیکھتے رہیں کہ ہوتا کیا ہے؟ یہ اسی طرح کا معاملہ ہے جیسے صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی ٹانگیں کاٹنے والوں سے کہا گیا تھا کہ تم اپنے گھروں میں تین دن گزار لو۔ پھر سیدنا ابودرداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یااللہ! یہ لوگ اگر ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی تکذیب کرتے ہیں تو کریں میں اس کی بات کی تکذیبنہیں کرتا۔ یا اللہ! اگر یہ لوگ ان پر الزامات لگاتے ہیں تو لگائیں میں ان پر کسی قسم کا الزام نہیں دھرتا۔ یا اللہ! اگر یہ لوگ اس پر غالب آنا چاہتے ہیں تو آئیں میں ان پر غالب آنے کی کوشش نہیں کروں گا۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان پر اس وقت بھروسہ کیا کرتے تھے، جب آپ کو کسی پر بھروسہ نہ ہوتا تھا، اور آپ اس وقت ان سے راز کی باتیں کر لیا کرتے تھے، جبکہ آپ کسی بھی شخص کے ساتھ راز دارانہ گفتگو نہ کیا کرتے تھے، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں ابو درداء کی جان ہے! اگر ابو ذر میرا دایاں ہاتھ کاٹ بھی ڈالیں تو میں ان سے ناراض نہ ہوں گا، کیونکہ میں رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بات کہتے سن چکا ہوں کہ زمین نے نہیں اٹھایا کسی ایسے آدمی کو اور آسمان نے سایہ نہیں کیا کسی ایسے آدمی پر جو ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بڑھ کر سچا ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11916

۔ (۱۱۹۱۶)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَیْمٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ یَعْنِی ابْنَ الْأَشْتَرِ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ أَبَا ذَرٍّ، حَضَرَہُ الْمَوْتُ وَہُوَ بِالرَّبَذَۃِ فَبَکَتِ امْرَأَتُہُ، فَقَالَ: مَا یُبْکِیکِ؟ قَالَتْ: أَبْکِی لَا یَدَ لِی بِنَفْسِکَ وَلَیْسَ عِنْدِی ثَوْبٌ یَسَعُکَ کَفَنًا، فَقَالَ: لَا تَبْکِی فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ یَوْمٍ وَأَنَا عِنْدَہُ فِی نَفَرٍ یَقُولُ: ((لَیَمُوتَنَّ رَجُلٌ مِنْکُمْ بِفَلَاۃٍ مِنَ الْأَرْضِ، یَشْہَدُہُ عِصَابَۃٌ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ۔)) قَالَ: فَکُلُّ مَنْ کَانَ مَعِی فِی ذٰلِکَ الْمَجْلِسِ مَاتَ فِی جَمَاعَۃٍ وَفُرْقَۃٍ فَلَمْ یَبْقَ مِنْہُمْ غَیْرِی، وَقَدْ أَصْبَحْتُ بِالْفَلَاۃِ أَمُوتُ فَرَاقِبِی الطَّرِیقَ فَإِنَّکِ سَوْفَ تَرَیْنَ مَا أَقُولُ، فَإِنِّی وَاللّٰہِ! مَا کَذَبْتُ وَلَا کُذِبْتُ، قَالَتْ: وَأَنّٰی ذَلِکَ وَقَدِ انْقَطَعَ الْحَاجُّ؟، قَالَ رَاقِبِی الطَّرِیقَ، قَالَ: فَبَیْنَا ہِیَ کَذٰلِکَ إِذَا ہِیَ بِالْقَوْمِ تَخْدِیْہِمْ رَوَاحِلُہُمْ کَأَنَّہُمُ الرَّخَمُ، فَأَقْبَلَ الْقَوْمُ حَتّٰی وَقَفُوْا عَلَیْہَا، فَقَالُوْا: مَا لَکِ؟ قَالَتْ: امْرُؤٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ تُکَفِّنُونَہُ وَتُؤْجَرُوْنَ فِیہِ، قَالُوْا: وَمَنْ ہُوَ؟ قَالَتْ: أَبُو ذَرٍّ، فَفَدَوْہُ بِآبَائِہِمْ وَأُمَّہَاتِہِمْ وَوَضَعُوْا سِیَاطَہُمْ فِیْ نُحُورِہَا یَبْتَدِرُونَہُ، فَقَالَ: أَبْشِرُوا أَنْتُمْ النَّفَرُ الَّذِینَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیکُمْ مَا قَالَ، أَبْشِرُوْا سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَا مِنْ امْرَأَیْنِ مُسْلِمَیْنِ ہَلَکَ بَیْنَہُمَا وَلَدَانِ أَوْ ثَلَاثَۃٌ فَاحْتَسَبَا وَصَبَرَا فَیَرَیَانِ النَّارَ أَبَدًا۔)) ثُمَّ قَدْ أَصْبَحْتُ الْیَوْمَ حَیْثُ تَرَوْنَ، وَلَوْ أَنَّ ثَوْبًا مِنْ ثِیَابِی یَسَعُنِی لَمْ أُکَفَّنْ إِلَّا فِیہِ، فَأَنْشُدُکُمُ اللّٰہَ أَنْ لَا یُکَفِّنَنِی رَجُلٌ مِنْکُمْ کَانَ أَمِیرًا أَوْ عَرِیفًا أَوْ بَرِیدًا، فَکُلُّ الْقَوْمِ کَانَ قَدْ نَالَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا إِلَّا فَتًی مِنَ الْأَنْصَارِ کَانَ مَعَ الْقَوْمِ، قَالَ: أَنَا صَاحِبُکَ ثَوْبَانِ فِیْ عَیْبَتِیْ مِنْ غَزْلِ أُمِّیْ وَأَجِدُ ثَوْبَیَّ ھٰذَیْنِ الَّذَیْنِ عَلَیَّ، قَالَ: اَنْتَ صَاحِبِیْ فَکَفِّنِّی۔ (مسند احمد: ۲۱۷۹۹)
ابراہیم بن الاشتر سے روایت کیا ہے کہ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ربذہ میں تھے، ان کی وفات کا وقت آیا تو ان کی اہلیہ رونے لگیں۔ انہوںنے دریافت کیا کہ آپ کیوں روتی ہیں؟ وہ بولیں: میں اس لیے رو رہی ہوں کہ میںاکیلی آپ کی تدفین کیسے کروں گی؟ اور میرے پاس تو آپ کے کفن کے لیے کافی کپڑا تک بھی نہیں ہے۔ سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم مت روؤ۔ میں نے ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا تھا، اس وقت میں صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر تھا، آپ نے فرمایا تھا کہ تم میں سے ایک آدمی کو جنگل میں موت آئے گی، اس کے پاس اہل ایمان کی ایک جماعت پہنچ جائے گی، اس وقت میرے ساتھ جتنے بھی لوگ وہاں موجود تھے، وہ سب اس حال میں فوت ہوئے کہ ان کے اردگرد لوگوں کی جماعتیں موجود تھیںیا ان کی وفات کسی آبادی میں ہوئی، ان لوگوں میں سے صرف میں ہی باقی بچا ہوں اور اب میں جنگل (ویرانے) میں مر رہا ہوں، تم راستے پر نظر رکھو، میں تم سے جو کچھ کہہ رہا ہوں، تم عنقریبیہ سب کچھ دیکھ لو گی، اللہ کی قسم نہ تو میں غلط بیانی کر رہا ہوں اور نہ بیان کرنے والے یعنی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غلط بیانی کی ہے۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اہلیہ نے حیران ہو کر کہا: ایسا کیونکر ہوگا۔ حجاج کرام حج سے فراغت کے بعد اپنے اپنے علاقوں کو واپس روانہ ہو چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بہرحال تم راستے پر نظر رکھنا، وہ اسی کیفیت میں تھی کہ اس نے دور سے لوگوں کو آتے دیکھا، جن کی سواریاں ان کو تیزی سے لا رہی تھیں، دور سے یوں لگتا تھا گویا کہ وہ پرندوں کا جھنڈ ہے، لوگ آتے آتے سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اہلیہ کے پاس پہنچ گئے۔ انہوںنے دریافت کیا: کیا معاملہ ہے؟ وہ بولیں کہ ایک مسلمان آدمی ہے۔ آپ لوگ رک کر اس کی تکفین کریں، اللہ تمہیں اجر دے گا۔ انہوںنے دریافت کیا: وہ کون ہے؟ اس خاتون نے بتلایا کہ وہ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں۔ تو ان سب لوگوں نے سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا کہ ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اور انہوںنے اپنی لاٹھیاں سواریوں کی گردنوں میں لٹکا دیں اور بڑی پھرتی سے ان کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم لوگوں کو بشارت ہو، تم ہی وہ لوگ ہو جن کے بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا، تمہیں مبارک ہو، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا تھا کہ دو مسلمان (خاوند بیوی) جن کے دو یا تین (نابالغ) بچے وفات پا جائیں اور وہ دونوں ان بچوں کی وفات پر صبر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کے امید وار ہوں تو وہ کبھی بھی جہنم کو نہیں دیکھیں گے اور آج تم میرا حال دیکھ رہے ہو، اگر میرے کپڑوں میں سے کوئی کپڑا کافی ہو تو مجھے اسی میں کفن دیا جائے، میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تم میں سے جو آدمی کسی قوم یاعلاقے کا امیر ہو یا اپنی قوم کا سردار ہو یا قوم کاقاصد ہو وہ مجھے کفن نہ پہنائے، وہ سب لوگ ان ذمہ داریوں کو ادا کر چکے تھے، البتہ ان میں صرف ایک انصاری لڑکا تھا۔ اس نے کہا: میں اس بارے میں آپ کی خدمت بجا لائوں گا، میرے سامان میں دو کپڑے زائد ہیں،یہ دو کپڑے میری والدہ نے اپنے ہاتھوں سے کاتے ہیں اور میرے پاس اپنے استعمال کے لیےیہ دو کپڑے جو میرے زیب تن ہیں وہ کافی ہیں۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فرمایا: ٹھیک ہے، تم ہی مجھے کفن دینا۔ سیدہ ام ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بھییہ حدیث مختصراً مروی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11917

۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11918

۔ (۱۱۹۱۸)۔ عَنْ قَنْبَرٍ حَاجِبِ مُعَاوِیَۃَ قَالَ: کَانَ أَبُو ذَرٍّ یُغَلِّظُ لِمُعَاوِیَۃَ، قَالَ: فَشَکَاہُ إِلٰی عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ وَإِلٰی أَبِی الدَّرْدَائِ وَإِلٰی عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَإِلٰی أُمِّ حَرَامٍ، فَقَالَ: إِنَّکُمْ قَدْ صَحِبْتُمْ کَمَا صَحِبَ وَرَأَیْتُمْ کَمَا رَأٰی فَإِنْ رَأَیْتُمْ أَنْ تُکَلِّمُوہُ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلٰی أَبِی ذَرٍّ فَجَائَ فَکَلَّمُوہُ، فَقَالَ: أَمَّا أَنْتَ یَا أَبَا الْوَلِیدِ! فَقَدْ أَسْلَمْتَ قَبْلِی وَلَکَ السِّنُّ وَالْفَضْلُ عَلَیَّ، وَقَدْ کُنْتُ أَرْغَبُ بِکَ عَنْ مِثْلِ ہٰذَا الْمَجْلِسِ، وَأَمَّا أَنْتَ یَا أبا الدَّرْدَائِ! فَإِنْ کَادَتْ وَفَاۃُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ تَفُوتَکَ ثُمَّ أَسْلَمْتَ فَکُنْتَ مِنْ صَالِحِی الْمُسْلِمِینَ، وَأَمَّا أَنْتَ یَا عَمْرُو بْنَ الْعَاصِ! فَقَدْ جَاہَدْتَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَمَّا أَنْتِ یَا أُمَّ حَرَامٍ! فَإِنَّمَا أَنْتِ امْرَأَۃٌ وَعَقْلُکِ عَقْلُ امْرَأَۃٍ، وَأَمَّا أَنْتَ وَذَاکَ، قَالَ: فَقَالَ عُبَادَۃُ: لَا جَرَمَ، لَا جَلَسْتُ مِثْلَ ہٰذَا الْمَجْلِسِ أَبَدًا۔ (مسند احمد: ۲۱۶۳۴)
سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے دربان قنبر سے روایت ہے کہ سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ سختی سے پیش آیا کرتے تھے، سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عبادہ بن صامت، سیدنا ابوالدرداء، سیدنا عمرو بن عاص اور سیدہ ام حرام سے ان کی شکایت کی اور کہا: تم بھی اسی طرح رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابی ہو، جیسے وہ ہیں، جیسے انہوںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا، آپ لوگوں نے بھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اسی طرح دیکھا ہے، اگر مناسب سمجھو تو ان سے بات کرکے دیکھ لو کہ وہ ایسا سخت رویہ کیوں رکھتے ہیں؟ پھر انہوںنے سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیغام بھیجا، پس وہ آ گئے اور ان حضرات نے ان سے گفتگو کی۔ سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے ابو الولید! (یعنی عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) آپ مجھ سے قبل دائرہ ٔ اسلام میں داخل ہوئے، آپ کو مجھ پر عمر اور فضیلت میں سبقت حاصل ہے، میں اس قسم کی محفل کی بجائے آپ کے ساتھ بیٹھنے کی رغبت رکھتا تھا، اے ابودرداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اگر ایسا ہوتا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات پہلے ہو جاتی اور تم ان کے بعد اسلام میں آتے تو تب بھی تم صالح مسلمانوں میں سے ہوتے، اے عمرو بن عاص! آپ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ جہاد اور غزووں میں شریک رہے ہیں اور اے ام حرام! (یہ عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اہلیہ تھیں) آپ تو ایک خاتون ہیں۔ اور آپ کی عقل بہر حال ایک عورت کی سی ہی ہے، آپ کو ایسے امور میں دخل انداز ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ سن کر سیدنا عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یقینا میں اس قسم کی مجلس میں کبھی نہیں بیٹھ سکوں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11919

۔ (۱۱۹۱۹)۔ عَنْ عِلْبَائَ بْنِ أَحْمَرَ، حَدَّثَنَا أَبُو زَیْدٍ الْأَنْصَارِیُّ قَالَ: قَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((ادْنُ مِنِّی۔)) قَالَ: فَمَسَحَ بِیَدِہِ عَلٰی رَأْسِہِ وَلِحْیَتِہِ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: ((اللّٰہُمَّ جَمِّلْہُ وَأَدِمْ جَمَالَہُ۔)) قَالَ: فَلَقَدْ بَلَغَ بِضْعًا وَمِائَۃَ سَنَۃٍ وَمَا فِی رَأْسِہِ وَلِحْیَتِہِ بَیَاضٌ إِلَّا نَبْذٌ یَسِیرٌ، وَلَقَدْ کَانَ مُنْبَسِطَ الْوَجْہِ، وَلَمْ یَنْقَبِضْ وَجْہُہُ حَتّٰی مَاتَ۔ (مسند احمد: ۲۱۰۱۳)
سیدنا ابوزید انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: میرے قریب ہو جاؤ۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے سر اور داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور یہ دعا دی: ٍٔیا اللہ! اسے خوبصورت بنا دے اور اس کا جمال دائمی ہو۔ علبا کہتے ہیں: سیدنا ابو زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی عمر ایک سو چھ سات برس ہو گئی تھے، لیکن ان کے سر اور داڑھی کے بال بہت کم سفید ہوئے تھے، ان کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا اور ان کی وفات تک اس پر جھریاں نہیں پڑی تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11920

۔ (۱۱۹۲۰)۔ (وَعَنْ أَبِیْ زَیْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((جَمَلَکَ اللّٰہُ۔)) قَالَ أَنَسٌ: وَکَانَ رَجُلًا جَمِیْلًا حَسَنَ السَّمْتِ۔ (مسند احمد: ۲۳۲۷۳)
۔ (دوسری سند) سیدنا ابو زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہیں جمال سے نوازے۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ خوبصورت اور بہترین نقش و نگار رکھتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11921

۔ (۱۱۹۲۱)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَخْطَبَ (یَعْنِی أَبَا زَیْدٍ الْاَنْصَارِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِنْ طَرِیْقٍ ثَالِثٍ)، قَالَ: اسْتَسْقٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَتَیْتُہُ بِإِنَائٍ، فِیہِ مَائٌ وَفِیہِ شَعْرَۃٌ فَرَفَعْتُہَا ثُمَّ نَاوَلْتُہُ، فَقَالَ: ((اللّٰہُمَّ جَمِّلْہُ۔)) قَالَ: فَرَأَیْتُہُ بَعْدَ ثَلَاثٍ وَتِسْعِینَ سَنَۃً (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَرَأَیْتُہُ وَھُوَ ابْنُ أَرْبَعٍ وَتِسْعِیْنَ وَمَا فِیْ رَأْسِہِ وَلِحْیَتِہِ شَعْرَۃٌ بَیْضَائُ)۔ (مسند احمد: ۲۳۲۷۱)
۔ ( تیسری سند)سیدنا ابو زید عمرو بن اخطب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پانی طلب فرمایا، میں آپ کی خدمت میں پانی کا برتن لے کر حاضر ہوا، اس میں پانی اور ایک بال تھا، میں نے بال نکال دیا اور پانی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پیش کیا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یوں دعا دی: یا اللہ! اسے خوبصورت بنا دے۔ راوی کہتا ہے: میں نے ابو زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو (۹۳) سال کی عمر میں اور دوسری روایت کے مطابق (۹۴)سال کی عمر میںدیکھا کہ ان کے سر اور داڑھی میں ایک بھی سفید بال نہ تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11922

۔ (۱۱۹۲۲)۔ حَدَّثَنَا عِلْبَائُ بْنُ أَحْمَرَ، حَدَّثَنَا أَبُو زَیْدٍ قَالَ: قَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا أَبَا زَیْدٍ! ادْنُ مِنِّی، وَامْسَحْ ظَہْرِی۔)) وَکَشَفَ ظَہْرَہُ فَمَسَحْتُ ظَہْرَہُ وَجَعَلْتُ الْخَاتَمَ بَیْنَ أَصَابِعِی، قَالَ: فَغَمَزْتُہَا، قَالَ: فَقِیلَ: وَمَا الْخَاتَمُ؟ قَالَ: شَعَرٌ مُجْتَمِعٌ عَلٰی کَتِفِہِ۔ (مسند احمد: ۲۳۲۷۷)
سیدنا ابو زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے ابو زید! تم میرے قریب ہو جاؤ اور میری پشت پر ہاتھ پھیرو۔ ساتھ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی پشت سے کپڑا ہٹایا، تو میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پشت مبارک پر ہاتھ پھیرا اور مہر نبوت کو میں نے اپنی انگلیوں میں لے لیا اور اسے دبا کر دیکھا۔ ان سے دریافت کیا گیا کہ وہ مہر کیسی تھی؟ انھوں نے کہا: وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کندھے پر تھی اور اس پر بال اُگے ہوئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11923

۔ (۱۱۹۲۳)۔ (وَعَنْ أَبِیْ زَیْدٍ عَمْرِو بْنِ اَخْطَبَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: رَأَیْتُ الْخَاتَمَ الَّذِی بَیْنَ کَتِفَیْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَرَجُلٍ، قَالَ: بِإِصْبَعِہِ الثَّلَاثَۃِ ہٰکَذَا فَمَسَحْتُہٗ بِیَدِیْ۔ (مسند احمد: ۲۳۲۷۰)
۔ (دوسری سند) سیدنا ابو زید عمرو بن اخطب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کاندھوں کے درمیان جو مہر تھی، وہ دیکھی۔ ابو زیدنے تین انگلیوں کو جمع کر کے اشارہ کرکے بتلایا کہ وہ اس طرح تھی، میں نے اسے ہاتھ لگا کر چھوا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11924

۔ (۱۱۹۲۴)۔ وَعَنْ تَمِیْمِ بْنِ حُوَیْصٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا زَیْدٍ یَقُوْلُ: قَاتَلْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثَلَاثَ عَشَرَۃَ مَرَّۃً، قَالَ شُعْبَۃُ أَحَدُ الرُّوَاۃِ: وَھُوَ جَدُّ عَزْرَۃَ ھٰذَا۔ (مسند احمد: ۲۳۲۷۲)
سیدنا ابوزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں تیرہ غزوات لڑے ہیں۔ شعبہ راوی نے کہا: سیدنا ابو زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس عزرہ کے دادا تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11925

۔ (۱۱۹۲۵)۔ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ رَأٰی رُؤْیَا أَنَّہُ یَکْتُبُ صٓ فَلَمَّا بَلَغَ إِلٰی سَجْدَ تِہَا، قَالَ: رَأَی الدَّوَاۃَ وَالْقَلَمَ وَکُلَّ شَیْئٍ بِحَضْرَتِہِ انْقَلَبَ سَاجِدًا، قَالَ فَقَصَّہَا عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمْ یَزَلْ یَسْجُدُ بِہَا بَعْدُ۔ (مسند احمد: ۱۱۷۶۳)
سیدناابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ خواب دیکھا کہ وہ سورۂ ص لکھ رہے ہیں، جب اس کی سجدہ والی آیت کے پاس پہنچے تو انہوں نے دوات،قلم اور اپنے پاس والی ہر چیز کودیکھا کہ وہ سجدے کی حالت میں ہو گئی، پھر جب انہوں نے یہ خواب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر بیان کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس میں سجدہ کرنا شروع کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11926

۔ (۱۱۹۲۶)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ سَرِیَّۃٍ ثَلَاثِیْنَ رَاکِبًا، قَالَ: فَنَزَلْنَا بِقَوْمٍ مِنَ الْعَرَبِ، قَالَ: فَسَأَلْنَاھُمْ أَنْ یُضَیِّفُوْنَا فَأَبَوْا، قَالَ: فَلُدِغَ سَیِّدُھُمْ، قَالَ: فَاَتَوْنَا فَقَالُوْا: فِیْکُمْ أَحَدٌ یَرْقِیْ مِنَ الْعَقْرَبِ؟ قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ، أَنَا وَلٰکِنْ لَا أَفْعَلُ حَتّٰی تُعْطُوْنَا شَیْئًا، قَالُوْا: فَإِنَّا نُعْطِیْکُمْ ثَلَاثِیْنَ شَاۃً، قَالَ: فَقَرَأْتُ عَلَیْہَا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ سَبْعَ مَرَّاتٍ، قَالَ: فَبَرَأَ (وَفِیْ لَفْظٍ: قَالَ: فَجَعَلَ یَقْرَأُ أُمَّ الْقُرْآنِ وَیَجْمَعُ بُزَاقَہُ وَیَتْفُلُ فَبَرَأَ الرَّجُلُ فَأَتَوْھُمْ بِالشَّائِ، قَالَ: فَلَمَّا قَبَضْنَا الْغَنَمَ، قَالَ: عَرَضَ فِیْ أَنْفُسِنَا مِنْہَا، قَالَ: فَکَفَفْنَا حَتّٰی أَتَیْنَا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (وَفِیْ لَفْظٍ: فَقَالَ أَصْحَابِیْ: لَمْ یَعْہَدْ إِلَیْنَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ ھٰذَا بِشَیْئٍ لَا نَاْخُذُ مِنْہُ شَیْئًا حَتّٰی نَاْتِیَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: فَذَکَرْنَا ذَالِکَ لَہُ فقَالَ: ((أَمَا عَلِمْتَ اَنَّھَا رُقْیَۃٌ، اِقْسِمُوْھَا وَاضْرِبُوْا لِیْ مَعَکُمْ بِسَہْمٍ، (وَفِیْ لَفْظٍ: فَقَالَ: کُلْ وَأَطْعِمْنَا مَعَکَ وَمَا یُدْرِیْکَ اَنَّھَا رُقْیَۃٌ؟)) قَالَ: قُلْتُ: أُلْقِیَ فِیْ رَوْعِیْ۔ (مسند احمد: ۱۱۰۸۶)
سیدنا ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم تیس سوار مجاہدین کو ایک سریّے میں بھیجا، ہم عرب کی ایک قوم کے پاس سے اترے اوران سے میزبانی کا اپنا حق طلب کیا، لیکن انہوں نے انکار کردیا، ہوا یوں کہ ان کے ایک سردار کو کسی زہریلی چیز نے ڈس لیا، وہ ہمارے پاس آئے اورکہنے لگے کہ کیا تم میں سے کوئی آدمی ڈسنے کا دم کر لیتا ہے، سیدنا ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: ہاں میں کرلیتا ہوں، لیکن میںاس وقت تک دم نہیں کروں گا، جب تک تم ہمیں کچھ عطا نہیں کروگے، انہوں نے کہا: ہم تمہیں تیس بکریاں دیں گے، سیدنا ابوسعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میںنے اس پر سورۂ فاتحہ پرھنی شروع کی اور سات مرتبہ پڑھی،اپنی تھوک جمع کرتا اور پھر اس پر تھوک دیتا، پس وہ تندرست ہوگیا اور انہوں نے تیس بکریاں دے دیں، جب ہم نے وہ بکریاں اپنے قبضے میں لے لیں، تو ہمیں شک ہو نے لگا (کہ پتہ نہیںیہ ہمارے لئے حلال بھی ہیںیا کہ نہیں)۔سو ہم ان پر کوئی کاروائی کرنے سے رک گئے، یہاں تک کہ ان کے بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت نہ کر لیں۔ جب ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور یہ بات بتلائی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تونے کیسے جانا کہ یہ دم ہے! ان کو تقسیم کر لو اور میرا بھی حصہ مقرر کرو۔ ایک روایت میں ہے: تو خود بھی کھا اور ہمیں بھی اپنے ساتھ کھلا، بھلا تجھے کیسے پتہ چلا تھا کہ یہ دم ہے؟ میں نے کہا: جی بس میرے دل میں یہ بات ڈال دی گئی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11927

۔ (۱۱۹۲۷)۔ عَنْ ہِلَالِ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ: نَزلَتُ عَلٰی اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ فَضَمَّنِی وَإِیَّاہُ الْمَجْلِسُ، قَالَ: فَحَدَّثَ اَنَّہُ اَصْبَحَ ذَاتَ یَوْمٍ وَقَدْ عَصَبَ عَلٰی بَطْنِہِ حَجَرًا مِنَ الْجُوْعِ، فَقَالَتْ لَہُ امْرَاَتُہُ اَوْ اُمُّہُ: اِئْتِ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاسْاَلْہُ فَقَدْ اَتَاہُ فُلَانٌ فَسَاَلَہُ فَاَعْطَاہُ وَاَتَاہُ فُلَانٌ فَسَاَلَہُ فَاَعْطَاہُ، قَالَ: فَقُلْتُ: حَتّٰی اَلْتَمِسَ شَیْئًا، قَالَ: فَالْتَمَسْتُ فَلَمْ اَجِدْ شَیْئًا، فَاَتَیْتُہُ وَہُوَ یَخْطُبُ فَاَدْرَکْتُ مِنْ قَوْلِہِ وَہُوَ یَقُوْلُ: ((مَنِ اسْتَعَفَّ یُعِفَّہُ اللّٰہُ، وَمَنِ اسْتَغْنٰی یُغْنِہِ اللّٰہُ، وَمَنْ سَاَلَنَا إِمَّا اَنْ نَبْذُلَ لَہُ وَإِمَّا اَنْ نُواسِیَہُ، وَمَنْ یَسْتَعِفُّ عَنَّا اَوْ یَسْتَغْنِیْ اَحَبُّ إِلَیْنَا مِمَّنْ یَسَاَلُنَا۔)) قَالَ: فَرَجَعْتُ فَمَا سَاَلْتُہُ شَیْئًا، فَمَا زَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ یَرْزُقُنَا حَتّٰی مَا اَعْلَمُ فِی الْاَنْصَارِ اَہْلِ بَیْتٍ اَکْثَرَ اَمْوَالاً مِنَّا۔ (مسند احمد: ۱۱۴۲۱)
ہلال بن حصین کہتے ہیں: میں سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں جا کر ٹھہرا، ہم ایک مجلس میں جمع ہوئے، سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ ایک دفعہ انہوں نے اس حال میں صبح کی کہ بھوک کی شدت کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھا ہوا تھا، ان کی اہلیہیا والدہ نے ان سے کہا: تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جاؤ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کچھ مانگ کر لائو، جب فلاں آدمی نے جا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے دیا تھا، اسی طرح فلاں نے بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جا کر مانگا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے بھی عطا کیا تھا۔ میں (ابو سعید)نے جواباً کہا: میں پہلے (کسی اور ذریعہ سے) کوئی چیز حاصل کرنے کی کوشش کروں گا، پھر میں نے ایسے ہی کیا، مگر مجھے (کہیں سے) کچھ بھی نہ ملا۔ بالآخر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس چلا گیا، اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس وقت یہ بات ارشاد فرما رہے تھے: جو آدمی مانگنے سے بچے گا، اللہ تعالیٰ اسے بچا لے گا اور جس نے غِنٰی اختیار کیا، اللہ تعالیٰ اسے غنی کر دے گا اور جو آدمی ہم سے کوئی چیز مانگے گا تو ہم اسے کچھ نہ کچھ دے دیں گے، بہرحال جو شخص ہم سے مانگنے سے بچے گا اور غِنٰی اختیار کرے گا تو وہ ہمیں سوال کرنے والے آدمی کی بہ نسبت زیادہ محبوب ہو گا۔ سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: یہ حدیث سن کر میں واپس چلا آیا اور میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کوئی سوال نہیں کیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس قدر رزق دیا کہ میں نہیں جانتا کہ انصار کے کسی گھر والے ہم سے زیادہ مال دار ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11928

۔ (۱۱۹۲۸)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِی سَعِیْدِ الْخُدْرِی عَنْ اَبِیْہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: سَرَّحَتْنِی اُمِّیْ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَسْاَلُہُ فَاَتَیْتُہُ فَقَعَدْتُّ، قَالَ: فَاسْتَقْبَلَنِیْ فَقاَلَ: ((مَنِ اسْتَغْنٰی اَغْنَاہُ اللّٰہُ، وَمَنِ اسْتَعَفَّ اَعَفَّہُ اللّٰہُ، وَمَنِ اسْتَکْفٰی کَفَاہُ اللّٰہُ، وَمَنْ سَاَل َوَلَہُ قِیْمَۃُ اُوْقِیَۃٍ فَقَدْ اَلْحَفَ۔)) قَالَ: فَقُلْتُ: نَاقَتِی الْیَاقُوْتَۃُ مَعِیَ خَیْرٌ مِنْ اُوْقِیَۃٍ، فَرَجَعْتُ وَلَمْ اَسْاَلْہُ۔ (مسند احمد: ۱۱۰۷۵)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میری والدہ نے مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف بھیجا تاکہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کوئی چیز مانگ کر لے آؤں، میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ کر وہاں بیٹھ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: جس شخص نے غنی ہونا چاہا، اللہ تعالیٰ اسے غنی کر دے گا، جس نے (لوگوں کے سامنے دست ِ سوال پھیلانے) سے پاکدامنی اختیار کی، اللہ تعالیٰ اسے پاکدامن بنا دے گا، جس نے اللہ تعالیٰ سے کفایت چاہی، اللہ تعالیٰ اسے کفایت کرے گا اور اگر ایک اوقیہ کی قیمت کا مالک سوال کرے گا تو وہ اصرار کے ساتھ سوال کرے گا (جو اس کا حق نہیں ہے)۔ یہ سن کر سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے سوچا کہ میرییاقوتہ اونٹنی ایک اوقیہ سے بہتر ہے، اس لیے میں لوٹ گیا اور سوال نہیں کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11929

۔ (۱۱۹۲۹)۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: حَدَّثَنِی أَبِی أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ مَرَّ بِہِ فَقَالَ لَہُ: أَیْنَ تُرِیدُ یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ؟ قَالَ: أَرَدْتُ أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ فَانْطَلَقْتُ مَعَہُ قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: یَا أَبَا سَعِیدٍ! إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَنْہٰی عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِیِّ، وَعَنْ أَشْیَاء مِنَ الْأَشْرِبَۃِ، وَعَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُورِ، وَقَدْ بَلَغَنِی أَنَّکَ مُحَدِّثٌ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی ذٰلِکَ؟ قَالَ أَبُو سَعِیدٍ: سَمِعَتْ أُذُنَایَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یَقُولُ: ((إِنِّی نَہَیْتُکُمْ عَنْ أَکْلِ لُحُومِ الْأَضَاحِیِّ بَعْدَ ثَلَاثٍ فَکُلُوْا وَادَّخِرُوْا فَقَدْ جَائَ اللّٰہُ بِالسَّعَۃِ، وَنَہَیْتُکُمْ عَنْ أَشْیَائَ مِنَ الْأَشْرِبَۃِ أَوِ الْأَنْبِذَۃِ فَاشْرَبُوْا وَکُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ وَنَہَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُورِ فَإِنْ زُرْتُمُوہَا فَلَا تَقُولُوْا ہُجْرًا۔)) (مسند احمد: ۱۱۶۵۰)
محمد بن عمرو بن ثابت سے مروی ہے کہ میرے والد نے مجھ سے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے پاس سے گزرے اور ان سے کہا:ابو عبدالرحمن! آپ کدھر جا رہے ہیں؟ انہوںنے کہا: میں سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں جانا چاہتا ہوں، میں ان کے ساتھ چل پڑا۔ سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: ابو سعید! میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سنا ہے کہ آپ قربانی کے گوشت سے،بعض مخصوص مشروبات سے اور زیارت قبور سے منع فرما رہے تھے اور مجھے اطلاع ملی ہے کہ آپ اس بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کچھ بیان کرتے ہیں۔سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے تمہیں تین دنوں کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع کیا تھا، اب تم جب تک چاہو کھا سکتے اور ذخیرہ کر سکتے ہو، اب اللہ نے خوش حالی کر دی ہے اور میں نے تمہیں بعض برتنوں کے مشروبات (یعنی نبیذ) سے منع کیا تھا۔ اب تم ان برتنوں میں بھی تیار کرکے پی سکتے ہو، (بس اتنا یاد رکھو کہ) ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور میں نے تمہیں قبرستان جانے سے منع کیا تھا، اب اگر تم قبرستان جائو تو خلاف شرع باتیں نہ کیا کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11930

۔ (۱۱۹۳۰)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ کُنْتُ فِی حَلْقَۃٍ مِنْ حِلَقِ الْأَنْصَارِ فَجَائَنَا أَبُو مُوسٰی کَأَنَّہُ مَذْعُورٌ فَقَالَ: إِنَّ عُمَرَ أَمَرَنِی أَنْ آتِیَہُ فَأَتَیْتُہُ فَاسْتَأْذَنْتُ ثَلَاثًا، فَلَمْ یُؤْذَنْ لِی فَرَجَعْتُ وَقَدْ قَالَ ذٰلِکَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَنِ اسْتَأْذَنَ ثَلَاثًا فَلَمْ یُؤْذَنْ لَہُ فَلْیَرْجِعْ۔)) فَقَالَ لَتَجِیئَنَّ بِبَیِّنَۃٍ عَلَی الَّذِی تَقُولُ وَإِلَّا أَوْجَعْتُکَ، قَالَ أَبُو سَعِیدٍ فَأَتَانَا أَبُو مُوسٰی مَذْعُورًا أَوْ قَالَ فَزِعًا فَقَالَ: أَسْتَشْہِدُکُمْ، فَقَالَ أُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ: لَا یَقُومُ مَعَکَ إِلَّا أَصْغَرُ الْقَوْمِ، قَالَ أَبُو سَعِیدٍ وَکُنْتُ اَصْغَرَھُمْ فَقُمْتُ مَعَہٗ وَشَہِدْتُّ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنِ اسْتَاْذَنَ ثَلَاثًا فَلَمْ یُؤْذَنْ لَہٗ فَلْیَرْجِعْ۔)) (مسند احمد: ۱۱۰۴۳)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں انصار کے ایک حلقہ میں بیٹھا ہواتھا کہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہمارے پاس آئے اور وہ کچھ ڈرے ڈرے سے لگ رہے تھے انہوں نے کہا، دراصل سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے اپنے پاس بلایا تھا، پس میں ان کے پاس آیا اور تین بار اجازت طلب کی، لیکن جب مجھے اجازت نہیں دی گئی تو میں واپس پلٹ گیا، کیونکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو تین مرتبہ کسی سے اجازت طلب کرے اور اسے اجازت نہ ملے تو وہ واپس چلا جائے۔ جب میں نے یہ حدیث سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بتلائی تو انھوں نے کہا: اس بات کی دلیل لائو، وگرنہ میں تم کو سزا دوں گا، پس میں گواہی طلب کرنے کے لیے آیا ہوں، سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اس پر ہم میں جو سب سے چھوٹا ہے، وہ آپ کے ساتھ کھڑا ہوگا، سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں ہی سب سے چھوٹا تھا، پس میں کھڑا ہوا اور یہ گواہی دی کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور اسے اجازت نہ ملے تو وہ واپس چلا جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11931

۔ (۱۱۹۳۱)۔ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِھَابٍ عَنْ أَبِی سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: أَخْرَجَ مَرْوَانُ الْمِنْبَرَ فِی یَوْمِ عِیْدٍ وَلَمْ یَکُنْ یُخْرَجُ بِہِ، وَبَدَأَ بِالْخُطْبَۃِ قَبْلَ الصَّلَاۃِ وَلَمْ یَکُنْ یُبْدَأُ بِہَا، قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: یَامَرْوَانُ! خَالَفْتَ السُّنَّۃَ أَخْرَجْتَ الْمِنْبَرَ یَوْمَ عِیْدٍ وَلَمْ یَکُ یُخْرَجُ بِہِ فِی یَوْمِ عِیْدٍ، وَبَدَأْتَ بِالْخُطْبَۃِ قَبْلَ الصَّلَاۃِ وَلَمْ یَکُ یُبْدَأُ بِہَا۔ قَالَ: فَقَالَ أَبُو سَعِیْدٍ الْخُدْرِیُّ: مَنْ ھٰذَا؟ قَالُوا: فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ۔ قَالَ: فَقَالَ أَبُو سَعِیْدٍ: أَمَّا ھٰذَا فَقَدْ قضٰی مَا عَلَیْہِ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((مَنْ رَأٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا، فَاِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ یُغَیِّرَہُ بِیَدِہِ فَلْیَفْعَلْ، وَقَالَ مَرَّۃً فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہِ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ بِیَدِہِ فَبِلِسَانِہِ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ بِلِسَانِہِ فَبِقَلْبِہِ وَذٰلِکَ أَضْعَفُ الْاِیْمَانِ۔)) (مسند احمد: ۱۱۰۸۹)
سیّدنا ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ مروان نے عید والے دن (عید گاہ میں) منبر رکھوایا، جبکہ یہ اس سے پہلے نہیںنکالا جاتا تھا اور نماز سے پہلے خطبے سے ابتدا کی، جبکہ اس سے نہیں، بلکہ نماز سے ابتدا کی جاتی تھی۔ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: مروان! تو نے سنت کی مخالفت کی ہے، تونے آج عید کے دن منبر نکالا ہے، جبکہ اسے نہیں نکالا جاتا تھا اور تو نے نماز سے پہلے خطبہ سے ابتدا کی ہے، حالانکہ خطبہ سے تو ابتدا نہیں کی جاتی تھی۔ سیّدنا ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پوچھا: یہ آدمی کون ہے؟ لوگوں نے کہا: فلان بن فلان ہے۔ پھر انھوں نے کہا؛ اس شخص نے تو اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : تم میں سے جو شخص برائی کو دیکھے اور اسے ہاتھ سے روکنے کی طاقت ہو تو وہ اس کو روکے، اگر ہاتھ سے ایسا کرنے کی طاقت نہ رکھے تو زبان سے روکے، اگر زبان سے بھی قدرت نہ ہو تو دل سے (برا جانے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11932

۔ (۱۱۹۳۲)۔ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا یَمْنَعَنَّ أَحَدَکُمْ مَخَافَۃُ النَّاسِ أَنْ یَقُولَ بِالْحَقِّ إِذَا شَہِدَہُ أَوْ عَلِمَہُ۔)) قَالَ أَبُو سَعِیدٍ: فَحَمَلَنِی عَلٰی ذَلِکَ أَنِّی رَکِبْتُ إِلٰی مُعَاوِیَۃَ فَمَلَأْتُ أُذُنَیْہِ ثُمَّ رَجَعْتُ۔ (مسند احمد: ۱۱۸۱۵)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کو لوگوں کا خوف حق بات کہنے سے نہ روکے، جبکہ وہ موقع پر موجود ہو یا حق بات کو جانتا ہو۔ سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:اس حدیث نے مجھے آمادہ کیا اور میں سواری پر سوار ہو کر سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں گیا اور ان کو بہت سی احادیث سنا کر واپس آگیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11933

۔ (۱۱۹۳۳)۔ عَنْ أَمِّ سَلَمَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: دَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی أَبِیْ سَلَمَۃَ، وَقَدْ شَقَّ بَصَرُہُ فَأَغْمَضَہُ ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ الرُّوحَ إِذَا قُبِضَ تَبِعَہُ الْبَصَرُ۔)) فَضَجَّ نَاسٌ مِنْ أَہْلِہِ فَقَالَ: ((لَا تَدْعُوْا عَلٰی أَنْفُسِکُمْ إِلَّا بِخَیْرٍ، فَإِنَّ الْمَلَائِکَۃَ یُؤَمِّنُونَ عَلٰی مَا تَقُولُونَ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِأَبِی سَلَمَۃَ وَارْفَعْ دَرَجَتَہُ فِی الْمَہْدِیِّینَ، وَاخْلُفْہُ فِی عَقِبِہِ فِی الْغَابِرِینَ، وَاغْفِرْ لَنَا وَلَہُ یَا رَبَّ الْعَالَمِینَ، اللَّہُمَّ افْسَحْ فِی قَبْرِہِ وَنَوِّرْ لَہُ فِیہِ۔)) (مسند احمد: ۲۷۰۷۸)
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ سیدنا ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی آنکھیںیعنی نظر اوپر کو اٹھ چکی تھیں۔ (دراصل ان کی وفات ہو رہی تھییا ہو چکی تھی اور آنکھیں کھلی تھیں)، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے آئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی آنکھوں کو بند کیا اور فرمایا: جب روح قبض کی جاتی ہے تو نظر اس کا پیچھا کر تی ہے۔ یہ سن کر ان کے گھر والے رونے لگے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنے حق میں صرف خیر و بھلائی کی ہی دعا کرو، تم جو کچھ بھی کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود یوں دعا کی: اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِأَبِی سَلَمَۃَ وَارْفَعْ دَرَجَتَہُ فِی الْمَہْدِیِّینَ، وَاخْلُفْہُ فِی عَقِبِہِ فِی الْغَابِرِینَ، وَاغْفِرْ لَنَا وَلَہُ یَا رَبَّ الْعَالَمِینَ، اللَّہُمَّ افْسَحْ فِی قَبْرِہِ وَنَوِّرْ لَہُ فِیہِ (یا اللہ! ابو سلمہ کی مغفرت فرما اور ہدایتیا فتہ لوگوں میں ان کے درجات بلند فرمااور ان کے بعد باقی رہ جانے والوں میں تو اس کا خلیفہ بن جا اور اے رب العالمین! تو اس کی اور ہماری مغفرت فرما، یا اللہ! اس کی قبر کو کشادہ کر اور اسے اس کے لیے روشن فرما۔)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11934

۔ (۱۱۹۳۴)۔ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، أَنْبَأَنَا الْجُرَیْرِیُّ قَالَ: کُنْتُ أَطُوفُ مَعَ أَبِی الطُّفَیْلِ فَقَالَ: مَا بَقِیَ أَحَدٌ رَأٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَیْرِی، قَالَ: قُلْتُ: وَرَأَیْتَہُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: کَیْفَ کَانَ صِفَتُہُ؟ قَالَ: کَانَ أَبْیَضَ مَلِیحًا مُقصَّدًا۔ (مسند احمد: ۲۴۲۰۷)
جریری سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا ابو طفیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ طواف کر رہا تھا۔ انہوںنے کہا: میرے سوا کوئی ایسا آدمی باقی نہیں رہا، جس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زیارت کی ہو۔ میں نے ان سے کہا: کیا آپ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔ میں نے پوچھا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا حلیہ کیسا تھا؟ انھوں نے کہا: آپ گورے خوبصورت اور میانہ قد کے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11935

۔ (۱۱۹۳۵)۔ وَعَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: أَدْرَکْتُ ثَمَانَ سِنِیْنَ مِنْ حَیَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَوُلِدْتُ عَامَ أُحُدٍ۔ (مسند احمد: ۲۴۲۰۹)
سیدنا ابو طفیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میری ولادت احد کے سال ہوئی تھی اور میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زندگی کے آٹھ سال پائے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11936

۔ (۱۱۹۳۶)۔ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ أَبَا طَلْحَۃَ کَانَ یَرْمِی بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ أُحُدٍ، وَالنَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَلْفَہُ یَتَتَرَّسُ بِہِ وَکَانَ رَامِیًا، وَکَانَ إِذَا رَمٰی رَفَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَخْصَہُ یَنْظُرُ أَیْنَ یَقَعُ سَہْمُہُ، وَیَرْفَعُ أَبُو طَلْحَۃَ صَدْرَہُ وَیَقُولُ: ہٰکَذَا بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی یَا رَسُولَ اللّٰہِ، لَا یُصِیبُکَ سَہْمٌ نَحْرِی دُونَ نَحْرِکَ، وَکَانَ أَبُو طَلْحَۃَ یَسُوقُ نَفْسَہُ بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَیَقُولُ: إِنِّی جَلْدٌ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَوَجِّہْنِی فِی حَوَائِجِکَ وَمُرْنِی بِمَا شِئْتَ۔ (مسند احمد: ۱۴۱۰۴)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ احد کے دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے کھڑے کفار پر تیربرسا رہے تھے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پیچھے کھڑے ان کو ڈھال بنائے ہوئے تھے، سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بڑے اچھے تیر انداز تھے، جب وہ تیر چھوڑتے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سر اٹھا کر دیکھتے کہ تیر کہاں جا کر گرتا ہے اور ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی خوشی سے سینہ تان کر کہتے: اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! ایسے ہوتی ہے تیر اندازی، اللہ کی قسم! کوئی تیر آپ تک نہیں1 پہنچے گا، میری گردن آپ کے آگے ہے۔ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خود کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے آگے لے جاتے اور کہتے: اے اللہ کی رسول! میں مضبوط ہوں، آپ اپنے کاموں کے لیے مجھے بھیجا کریں اور جوچاہیں مجھے حکم دیا کریں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11937

۔ (۱۱۹۳۷)۔ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((صَوْتُ أَبِی طَلْحَۃَ فِی الْجَیْشِ خَیْرٌ مِنْ فِئَۃٍ۔)) قَالَ: وَکَانَ یَجْثُو بَیْنَ یَدَیْہِ فِی الْحَرْبِ، ثُمَّ یَنْثُرُ کِنَانَتَہُ وَیَقُولُ: وَجْہِی لِوَجْہِکَ الْوِقَائُ، وَنَفْسِی لِنَفْسِکَ الْفِدَائُ۔ (مسند احمد: ۱۳۷۸۱)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لشکر میں ابوطلحہ اکیلے کی آواز پوری جماعت کی آواز سے بہتر ہے۔ جنگ کے دوران سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے گھٹنوں کے بل کھڑے ہو جاتے اور اپنے تر کش کے تیروں کو بکھیر دیتے اور کہتے: اے اللہ کے رسول! میرا چہرہ آپ کے چہرے کو بچانے والا ہے اور میری جان آپ کے لیے فدا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11938

۔ (۱۱۹۳۸)۔ قَالَ: کَانَ أَبُو طَلْحَۃَ یَتَتَرَّسُ مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِتُرْسٍ وَاحِدٍ، وَکَانَ أَبُو طَلْحَۃَ حَسَنَ الرَّمْیِ، فَکَانَ إِذَا رَمٰی أَشْرَفَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَنْظُرُ إِلٰی مَوَاقِعِ نَبْلِہِ۔ (مسند احمد: ۱۳۸۳۶)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک ہی ڈھال کی اوٹ میں ہو جاتے اور سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بہترین تیر انداز تھے، جب وہ تیر چلاتے تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گردن اٹھا کر دیکھتے کہ تیر کہاں جا کر گرتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11939

۔ (۱۱۹۳۹)۔ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لِأَبِی طَلْحَۃَ: ((أَقْرِئْ قَوْمَکَ السَّلَامَ، فَإِنَّہُمْ مَا عَلِمْتُ أَعِفَّۃٌ صُبُرٌ۔)) (مسند احمد: ۱۲۵۴۹)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: تم اپنی قوم کو میرا سلام کہنا، میرے علم کے مطابق یہ لوگ پاکدامن اور صابر ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11940

۔ (۱۱۹۴۰)۔ عَنْ اَنَسٍ قَالَ: کَانَ أَبُوْطَلْحَۃَ یُکْثِرُ الصَّوْمَ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَلَمَّا مَاتَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ لَا یُفْطِرُ إِلَّا فِیْ سَفَرٍ أَوْ مَرْضٍ۔ (مسند احمد: ۱۲۰۳۹)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میں بھی کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے۔ لیکن جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات ہو گئی تو پھر تو وہ صرف سفر یا بیماری کی وجہ سے ہی روزے کا ناغہ کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11941

۔ (۱۱۹۴۱)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نُعَیْمٍ الْقَیْسِیِّ قَالَ: حَدَّثَنِی الضَّحَّاکُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَرْزَبٍ الْأَشْعَرِیُّ أَنَّ أَبَا مُوسٰی حَدَّثَہُمْ قَالَ: لَمَّا ہَزَمَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ہَوَازِنَ بِحُنَیْنٍ عَقَدَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِأَبِی عَامِرٍ الْأَشْعَرِیِّ عَلٰی خَیْلِ الطَّلَبِ، فَطَلَبَ فَکُنْتُ فِیمَنْ طَلَبَہُمْ فَأَسْرَعَ بِہِ فَرَسُہُ فَأَدْرَکَ ابْنَ دُرَیْدِ بْنِ الصِّمَّۃِ فَقَتَلَ أَبَا عَامِرٍ وَأَخَذَ اللِّوَائَ، وَشَدَدْتُ عَلَی ابْنِ دُرَیْدٍ فَقَتَلْتُہُ وَأَخَذْتُ اللِّوَائَ، وَانْصَرَفْتُ بِالنَّاسِ، فَلَمَّا رَآنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَحْمِلُ اللِّوَائَ قَالَ: ((یَا أَبَا مُوسَی! قُتِلَ أَبُو عَامِرٍ؟)) قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: فَرَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَفَعَ یَدَیْہِ یَدْعُو یَقُولُ: ((اللَّہُمَّ عُبَیْدَکَ عُبَیْدًا أَبَا عَامِرٍ اجْعَلْہُ مِنَ الْأَکْثَرِینَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۹۷۹۶)
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے حنین میں بنو ہوازن کو ہزیمت سے دو چار کیا، تو رسول اللہ نے بھاگ جانے والے مشرکوں کا پیچھا کرنے کے لیے سیدنا ابو عامر اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو گھڑ سواروں کے ایک دستہ پر مامور فرمایا،یہ ان کے پیچھے روانہ ہوئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا، سیدنا ابو عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا گھوڑا تیزی سے ان کو لے کر آگے نکل گیا، انہوں نے ابن درید کو جا لیا، لیکن ابن درید نے سیدنا ابو عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کر دیا اور ان کا جھنڈا قبضے میں لے لیا، پھر میں نے ابن درید کا پیچھا کر کے اسے قتل کر دیا اور جھنڈا دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیا اور میں لوگوں کے ساتھ واپس ہوا، رسول اللہ نے جھنڈا اُٹھائے دیکھا تو فرمایا: اے ابو موسیٰ ! کیا ابو عامر قتل ہو گئے ہیں؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے یہ دعا کر رہے تھے: اے اللہ اپنے پیارے بندے عبید ابو عامر کو قیامت کے روز ان لوگوں میں بنانا جن کے صالح اعمال بہت اور بے شمار بلند درجات ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11942

۔ (۱۱۹۴۲)۔ عَنْ شُرَیْحِ بْنِ عُبَیْدٍ، وَرَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ وَغَیْرِہِمَا قَالُوْا: لَمَّا بَلَغَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سَرَغَ حُدِّثَ أَنَّ بِالشَّامِ وَبَائً شَدِیدًا، قَالَ: بَلَغَنِی أَنَّ شِدَّۃَ الْوَبَائِ فِی الشَّامِ، فَقُلْتُ: إِنْ أَدْرَکَنِی أَجَلِی وَأَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ حَیٌّ اسْتَخْلَفْتُہُ، فَإِنْ سَأَلَنِی اللّٰہُ لِمَ اسْتَخْلَفْتَہُ عَلٰی أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُلْتُ إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَکَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((إِنَّ لِکُلِّ نَبِیٍّ أَمِینًا وَأَمِینِی أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ۔)) فَأَنْکَرَ الْقَوْمُ ذٰلِکَ وَقَالُوْا: مَا بَالُ عُلْیَا قُرَیْشٍ یَعْنُونَ بَنِی فِہْرٍ، ثُمَّ قَالَ: فَإِنْ أَدْرَکَنِی أَجَلِی وَقَدْ تُوُفِّیَ أَبُوعُبَیْدَۃَ اسْتَخْلَفْتُ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، فَإِنْ سَأَلَنِی رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ لِمَ اسْتَخْلَفْتَہُ؟ قُلْتُ: سَمِعْتُ رَسُولَکَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((إِنَّہُ یُحْشَرُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بَیْنَ یَدَیِ الْعُلَمَائِ نَبْذَۃً۔)) (مسند احمد: ۱۰۸)
شریح بن عبید اور راشد بن سعد وغیرہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سرغ کے مقام تک پہنچے تو ان کو اطلاع ملی کہ سر زمین شام میں شدید قسم کی وباء پھوٹ پڑی ہے،انہوں نے لوگوں سے کہا: مجھے اطلاع ملی ہے کہ شام میں شدید وبا پھیل گئی ہے، میں نے سوچا ہے کہ اگر مجھے موت نے آلیا اور سیدنا ابو عبیدہ بن جراح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ زندہ رہ گئے تو میں ان کو اپناخلیفہ نامزد کر کے جائوں گا، اگر اللہ نے مجھ سے پوچھا کہ تو نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی امت پر ان کو خلیفہ نام زد کیوں کیا تو میں جواب دوں گا کہ میں نے تیرے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا تھا کہ ہر نبی کا ایک قابل اعتماد آدمی ہوتا ہے اور میرا قابل اعتماد آدمی ابو عبیدہ بن جراح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہے۔ لوگوں نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اس بات کا انکار کرتے ہوئے کہا: قریش کے اشراف کا کیا بنے گا، ان کی مراد بنو فہر کے لوگ تھے، لیکن سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر مجھے ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بعد موت آئی تو میں سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خلیفہ نامزد کروں گا، اگر میرے رب عزوجل نے مجھ سے دریافت کیا کہ تو نے ان کو خلیفہ نامزد کیوں کیا تو میں کہوں گاکہ میں نے تیرے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا تھا کہ معاذ قیامت کے دن اہل علم کے آگے آگے جائیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11943

۔ (۱۱۹۴۳)۔ وَعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا : أَیُّ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ أَحَبَّ اِلَیْہِ قَالَتْ: أَبُوْ بَکْرٍ، قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَتْ: ثُمَّ عُمَرُ، قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَتْ: أَبُوْ عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ، قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: فَسَکَتَتْ۔ (مسند احمد: ۲۶۳۵۳)
عبداللہ بن شقیق سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کس صحابی سے سب سے زیادہ محبت تھی؟ انہوں نے کہا: سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے۔ میں نے پوچھا: ان کے بعدکون محبوب تھا؟ انہوںنے کہا: سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ۔ میں نے کہا: ان کے بعد؟ انھوں نے کہا: سیدنا ابو عبیدہ بن جراح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، میں نے دریافت کیا کہ ان کے بعد کون؟ لیکن اس بار وہ خاموش رہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11944

۔ (۱۱۹۴۴)۔ عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ قَالَ: قَالَ عُمَرُ لِأَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ: ابْسُطْ یَدَکَ حَتّٰی أُبَایِعَکَ فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((أَنْتَ أَمِینُ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ۔)) فَقَالَ أَبُوعُبَیْدَۃَ: مَا کُنْتُ لِأَتَقَدَّمَ بَیْنَ یَدَیْ رَجُلٍ أَمَرَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یَؤُمَّنَا، فَأَمَّنَا حَتّٰی مَاتَ۔ (مسند احمد: ۲۳۳)
ابو بختری سے مروی ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا ابو عبیدہ بن جراح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: آپ اپنا ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کروں، کیونکہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ آپ اس امت کے امینیعنی انتہائی قابل اعتماد آدمی ہیں۔ تو سیدنا ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں اس آدمی سے آگے کیسے بڑھ سکتا ہوں جسے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم دیا تھا کہ وہ ہماری امامت کرائیں، پھر انھوں نے اپنی وفات تک ہماری امامت کرائی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11945

۔ (۱۱۹۴۵)۔ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ قَالَ: اسْتَعْمَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَبَا عُبَیْدَۃَ بْنَ الْجَرَّاحِ عَلَی الشَّامِ وَعَزَلَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ، قَالَ: فَقَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ: بُعِثَ عَلَیْکُمْ أَمِینُ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((أَمِینُ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ أَبُو عُبَیْدۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ۔)) قَالَ أَبُو عُبَیْدَۃَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((خَالِدٌ سَیْفٌ مِنْ سُیُوفِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَنِعْمَ فَتَی الْعَشِیرَۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۶۹۴۷)
عبدالملک بن عمیر سے مروی ہے کہ جب سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو معزول کرکے سیدنا ابو عبیدہ بن جراح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو شام کا عامل مقرر کیا تو سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اس امت کے امین اور انتہائی قابل اعتماد آدمی کو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اس امت کے امین ابو عبیدہ بن جراح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں۔ سیدنا ابو عبیدہ بن جراح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے بھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ خالد بن ولید اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے اور اپنے خاندان کا بہترین فرد ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11946

۔ (۱۱۹۴۶)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: جَائَ الْعَاقِبُ وَالسَّیِّدُ صَاحِبَا نَجْرَانَ، قَالَ: وَأَرَادَا أَنْ یُلَاعِنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَقَالَ أَحَدُہُمَا لِصَاحِبِہِ: لَا تُلَاعِنْہُ فَوَاللّٰہِ! لَئِنْ کَانَ نَبِیًّا فَلَعَنَّا، قَالَ خَلَفٌ: فَلَاعَنَّا لَا نُفْلِحُ نَحْنُ وَلَا عَقِبُنَا أَبَدًا، قَالَ: فَأَتَیَاہُ فَقَالَا: لَا نُلَاعِنُکَ وَلٰکِنَّا نُعْطِیکَ مَا سَأَلْتَ، فَابْعَثْ مَعَنَا رَجُلًا أَمِینًا، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَأَبْعَثَنَّ رَجُلًا أَمِینًا حَقَّ أَمِینٍ حَقَّ أَمِینٍ۔)) قَالَ: فَاسْتَشْرَفَ لَہَا أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: فَقَالَ: ((قُمْ یَا أَبَا عُبَیْدَۃَ بْنَ الْجَرَّاحِ۔)) قَالَ: فَلَمَّا قَفٰی، قَال: ((ھٰذَا أَمِیْنُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۳۹۳۰)
ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نجران کے حاکم کے دونمائندے عاقب اور سید آئے، وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ملاعنت یعنی مباہلہ کرنا چاہتے تھے، لیکن ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا:اس محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) سے مباہلہ نہ کرو۔ اللہ کی قسم! اگر یہ سچا نبی ہوا اور ہم نے ان سے مباہلہ کر لیا تو نہ ہم فلاح پائیںگے اور نہ ہمارے بعد ہماری نسل فلاح پاسکے گی۔ انہوںنے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: ہم آپ سے مباہلہ نہیں کرتے،البتہ ہم آپ کا مطالبہ پورا کر دیتے ہیں، آپ کسی امین آدمی کو ہمارے ساتھ روانہ کریں تاکہ ہم صلح نامہ کے مطابق طے شدہ مال اسے ادا کر دیں،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہارے ساتھ ایک ایسے آدمی کو بھیجوں گا جو صحیح معنوں میں امین اور دیانت دار ہے۔ یہ سن کر سب صحابہ نے نظریں اٹھا اٹھا کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کیطرف دیکھا (کہ یہ منصب کس خوش نصیب کو ملتا ہے) پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابو عبیدہ! اٹھو۔ جب سیدنا ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے ساتھ روانہ ہوگئے تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس امت کا امین اور قابل اعتماد آدمی ہے۔ سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے گزشتہ حدیث کی مانند روایت بیان کی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11947

۔ (۱۱۹۴۷)۔ وَعَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِنَحْوِہِ۔ (مسند احمد: ۲۳۶۶۱)
سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے گزشتہ حدیث کی مانند روایت بیان کی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11948

۔ (۱۱۹۴۸)۔ وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ أَھْلَ الْیَمَنِ لَمَّا قَدِمُوْا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالُوا: ابعَثْ مَعَنَا رَجُلًا یُعَلِّمُنَا السُّنَّۃَ وَالْاِسْلَامَ، قَالَ: فَأَخَذَ بِیَدِ أَبِیْ عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ وَقَالَ: ((ھٰذَا أَمِیْنُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۴۰۹۴)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب اہل یمن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور انہوںنے درخواست کی:آپ ہمارے ساتھ کوئی آدمی بھیجیں جو ہمیں سنت اور اسلام کی تعلیم دے۔رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو عبیدہ بن جراح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: یہ اس امت کا امین اوردیانت دار آدمی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11949

۔ (۱۱۹۴۹)۔ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ الْأَشْعَرِیِّ، عَنْ رَابِّہِ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِہِ کَانَ خَلَفَ عَلٰی أُمِّہِ بَعْدَ أَبِیہِ، کَانَ شَہِدَ طَاعُونَ عَمَوَاسَ، قَالَ: لَمَّا اشْتَعَلَ الْوَجَعُ قَامَ أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ فِی النَّاسِ خَطِیبًا، فَقَالَ: أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ ہٰذَا الْوَجَعَ رَحْمَۃُ رَبِّکُمْ، وَدَعْوَۃُ نَبِیِّکُمْ، وَمَوْتُ الصَّالِحِینَ قَبْلَکُمْ، وَإِنَّ أَبَا عُبَیْدَۃَ یَسْأَلُ اللّٰہَ أَنْ یَقْسِمَ لَہُ مِنْہُ حَظَّہُ، قَالَ: فَطُعِنَ فَمَاتَ رَحِمَہُ اللَّہُ، وَاسْتُخْلِفَ عَلَی النَّاسِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ فَقَامَ خَطِیبًا بَعْدَہُ فَقَالَ: أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ ہٰذَا الْوَجَعَ رَحْمَۃُ رَبِّکُمْ، وَدَعْوَۃُ نَبِیِّکُمْ، وَمَوْتُ الصَّالِحِینَ قَبْلَکُمْ، وَإِنَّ مُعَاذًا یَسْأَلُ اللّٰہَ أَنْ یَقْسِمَ لِآلِ مُعَاذٍ مِنْہُ حَظَّہُ، قَالَ: فَطُعِنَ ابْنُہُ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ مُعَاذٍ فَمَاتَ، ثُمَّ قَامَ فَدَعَا رَبَّہُ لِنَفْسِہِ فَطُعِنَ فِی رَاحَتِہِ، فَلَقَدْ رَأَیْتُہُ یَنْظُرُ إِلَیْہَا، ثُمَّ یُقَبِّلُ ظَہْرَ کَفِّہِ، ثُمَّ یَقُولُ: مَا أُحِبُّ أَنَّ لِی بِمَا فِیکِ شَیْئًا مِنَ الدُّنْیَا، فَلَمَّا مَاتَ اسْتُخْلِفَ عَلَی النَّاسِ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فَقَامَ فِینَا خَطِیبًا فَقَالَ: أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ ہٰذَا الْوَجَعَ إِذَا وَقَعَ فَإِنَّمَا یَشْتَعِلُ اشْتِعَالَ النَّارِ فَتَجَبَّلُوا مِنْہُ فِی الْجِبَالِ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ أَبُو وَاثِلَۃَ الْہُذَلِیُّ: کَذَبْتَ وَاللّٰہِ! لَقَدْ صَحِبْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنْتَ شَرٌّ مِنْ حِمَارِی ہٰذَا، قَالَ: وَاللّٰہِ! مَا أَرُدُّ عَلَیْکَ مَا تَقُولُ، وَایْمُ اللّٰہِ لَا نُقِیمُ عَلَیْہِ، ثُمَّ خَرَجَ وَخَرَجَ النَّاسُ فَتَفَرَّقُوْا عَنْہُ وَدَفَعَہُ اللّٰہُ عَنْہُمْ، قَالَ: فَبَلَغَ ذٰلِکَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مِنْ رَأْیِ عَمْرٍو فَوَاللّٰہِ مَا کَرِہَہُ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمٰنِ عَبْد اللّٰہِ بْن أَحْمَد بْن حَنْبَلٍ: أَبَانُ بْنُ صَالِحٍ جَدُّ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمٰنِ مُشْکُدَانَۃَ۔ (مسند احمد: ۱۶۹۷)
شہر بن حوشب اشعری سے روایت ہے وہ اپنے سوتیلے باپ جو اس کی قوم کے ایک آدمی ہیں، سے روایت کرتے ہیں، جس نے اس کے والد کی وفات کے بعد اس کی والدہ سے نکاح کیا تھا اور وہ طاعون عمواس کے موقع پر حاضر تھا، اس سے مروی ہے کہ جب وہاں طاعون کی وبا پھیلی تو سیدنا ابو عبیدہ بن جراح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کھڑے ہو کر لوگوں سے خطاب کیا اور کہا : لوگو! یہ بیماری تمہارے اللہ کی طرف سے رحمت اور تمہارے نبی کی دعاء کا نتیجہ اور تم سے پہلے صالحین کی موت کا ذریعہ ہے اور ابو عبیدہ اللہ سے دعا کرتا ہے کہ وہ اسے بھی اس میں سے حصہ عطا کرے، رابہ سے مروی ہے کہ اس دعا کے بعد سیدنا ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ طاعون میں مبتلا ہو کر فوت ہو گئے اور انہوںنے لوگوں پر سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو امیر نامزد کیا۔ سیدنا ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے انتقال کے بعد سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑے ہوئے اور خطاب کرتے ہوئے لوگوں سے کہا: لوگو! یہ بیماری تمہارے رب کی رحمت، تمہارے نبی کی دعا اور تم سے پہلے صالحین کی موت کا سبب رہی ہے اورمعاذ اللہ سے دعا کرتا ہے کہ وہ آل معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اس بیماری میں سے حصہ عطا کرے۔ رابہ سے مروی ہے کہ اس کے بعد سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے فرزند عبدالرحمن بن معاذ طاعون میں مبتلا ہو کر فوت ہوگئے، اس کے بعد سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے رب سے اپنے حق میں دعا کی، چنانچہ ان کی ہتھیلی پر طاعون کا پھوڑا ظاہر ہوا، میں نے سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا کہ وہ اس پھوڑے کو دیکھتے اور اپنی ہتھیلی کی پشت کو بوسہ دے کر کہتے تھے کہ مجھے یہ پسند نہیں کہ تیری وجہ سے مجھے جو مقام ملنے الا ہے، اس کی بجائے مجھے دنیا بھر کی دولت مل جائے، پھر جب ان کا انتقال ہوا تو انہوںنے عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لوگوں پر اپنا نائب نامزد کر دیا۔ وہ بھی خطبہ دیتے ہوئے ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، انہوںنے کہا: لوگو! جب یہ بیماری شروع ہوتی ہے تو آگ کے شعلوں کی مانند پھیلتی چلی جاتی ہے، تم اس سے بچنے کے لیے پہاڑوں کی طرف نکل جائو۔ ان کییہ بات سن کر ابو واثلہ ہذلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: آپ کییہ بات درست نہیں، میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صحبت میں رہ چکا ہوں، تم تو میرے اس گدھے سے بھی بد تر ہو۔ سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں آپ کی بات کا جواب نہیں دیتا، تاہم اللہ کی قسم! ان حالات میں ہم یہاں نہیں رہ سکتے اور پھر وہ وہاں سے دور چلے گئے اور لوگ بھی ان کے ساتھ وہاں سے دور چلے گئے،وہ اس طاعون کے علاقے سے چلے گئے تو اللہ نے بھی اسے ان سے دور کر دیا، جب یہ بات امیر المومنین سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تک پہنچی تو انہوں نے اس بات کو نا پسند نہیں کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11950

۔ (۱۱۹۵۰)۔ عَنْ اَبِیْ قَتَادَۃَ، قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ سَفَرٍ، فَقَالَ: (( إِنَّکُمْ إِنْ لَا تُدْرِکُوْا الْمَائَ غَدًا تَعْطَشُوْا، وَانْطَلَقَ سَرَعَانُ النَّاسِ یُرِیدُونَ الْمَائَ، وَلَزِمْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَمَالَتْ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَاحِلَتُہُ فَنَعَسَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَعَمْتُہُ فَأَدْعَمَ، ثُمَّ مَالَ فَدَعَمْتُہُ فَأَدْعَمَ، ثُمَّ مَالَ حَتّٰی کَادَ أَنْ یَنْجَفِلَ عَنْ رَاحِلَتِہِ فَدَعَمْتُہُ فَانْتَبَہَ، فَقَالَ: ((مَنِ الرَّجُلُ؟)) قُلْتُ: أَبُو قَتَادَۃَ، قَالَ: ((مُذْ کَمْ کَانَ مَسِیرُکََ۔)) قُلْتُ: مُنْذُ اللَّیْلَۃِ، قَالَ: ((حَفِظَکَ اللّٰہُ کَمَا حَفِظْتَ رَسُولَہُ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((لَوْ عَرَّسْنَا۔)) فَمَالَ إِلٰی شَجَرَۃٍ فَنَزَلَ فَقَالَ: ((انْظُرْ ہَلْ تَرٰی أَحَدًا؟)) قُلْتُ: ہٰذَا رَاکِبٌ ہٰذَانِ رَاکِبَانِ حَتّٰی بَلَغَ سَبْعَۃً، فَقَالَ: ((احْفَظُوْا عَلَیْنَا صَلَاتَنَا۔)) فَنِمْنَا فَمَا أَیْقَظَنَا إِلَّا حَرُّ الشَّمْسِ فَانْتَبَہْنَا فَرَکِبَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَارَ وَسِرْنَا ہُنَیْہَۃً ثُمَّ نَزَلَ فَقَالَ: ((أَمَعَکُمْ مَائٌ؟)) قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، مَعِی مِیضَأَۃٌ فِیہَا شَیْئٌ مِنْ مَائٍ، قَالَ: ((ائْتِ بِہَا؟)) فَأَتَیْتُہُ بِہَا فَقَالَ: ((مَسُّوْا مِنْہَاَ، مَسُّوْا مِنْہَا۔)) فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ وَبَقِیَتْ جَرْعَۃٌ فَقَالَ: ((ازْدَہِرْ بِہَا یَا أَبَا قَتَادَۃَ! فَإِنَّہُ سَیَکُونُ لَہَا نَبَأٌ۔)) ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ وَصَلَّوُا الرَّکْعَتَیْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ، ثُمَّ صَلَّوُا الْفَجْرَ، ثُمَّ رَکِبَ وَرَکِبْنَا فَقَالَََََ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ: فَرَّطْنَا فِی صَلَاتِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا تَقُولُونَ؟ إِنْ کَانَ أَمْرَ دُنْیَاکُمْ فَشَأْنُکُمْ، وَإِنْ کَانَ أَمْرَ دِینِکُمْ فَإِلَیَّ۔)) قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَرَّطْنَا فِی صَلَاتِنَا، فَقَالَ: ((لَا تَفْرِیطَ فِی النَّوْمِ، إِنَّمَا التَّفْرِیطُ فِی الْیَقَظَۃِ، فَإِذَا کَانَ ذٰلِکَ فَصَلُّوہَا وَمِنَ الْغَدِ وَقْتَہَا۔)) ثُمَّ قَالَ: ((ظُنُّوْا بِالْقَوْمِ۔)) قَالُوْا: إِنَّکَ قُلْتَ بِالْأَمْسِ: ((إِنْ لَا تُدْرِکُوا الْمَائَ غَدًا تَعْطَشُوا۔)) فَالنَّاسُ بِالْمَائِ، فَقَالَ: أَصْبَحَ النَّاسُ وَقَدْ فَقَدُوا نَبِیَّہُمْ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْمَائِ وَفِی الْقَوْمِ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ فَقَالَا: أَیُّہَا النَّاسُ! إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یَکُنْ لِیَسْبِقَکُمْ إِلَی الْمَائِ وَیُخَلِّفَکُمْ، وَإِنْ یُطِعِ النَّاسُ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ یَرْشُدُوْا قَالَہَا ثَلَاثًا، فَلَمَّا اشْتَدَّتِ الظَّہِیرَۃُ رَفَعَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ ہَلَکْنَا عَطَشًا تَقَطَّعَتِ الْأَعْنَاقُ، فَقَالَ: ((لَا ہُلْکَ عَلَیْکُمْ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((یَا أَبَا قَتَادَۃَ ائْتِ بِالْمِیضَأَۃِ۔)) فَأَتَیْتُہُ بِہَا فَقَالَ: ((احْلِلْ لِی غُمَرِی۔)) یَعْنِی قَدَحَہُ، فَحَلَلْتُہُ فَأَتَیْتُہُ بِہِ فَجَعَلَ یَصُبُّ فِیہِ وَیَسْقِی النَّاسَ فَازْدَحَمَ النَّاسُ عَلَیْہِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ! أَحْسِنُوا الْمَلَأَ فَکُلُّکُمْ سَیَصْدُرُ عَنْ رِیٍّ۔)) فَشَرِبَ الْقَوْمُ حَتّٰی لَمْ یَبْقَ غَیْرِی وَغَیْرُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَصَبَّ لِیََََ فَقَالَ: ((اشْرَبْ یَا أَبَا قَتَادَۃَ!۔)) قَالَ: قُلْتُ: اشْرَبْ أَنْتَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، قَالَ: ((إِنَّ سَاقِیَ الْقَوْمِ آخِرُہُمْ۔)) فَشَرِبْتُ وَشَرِب بَعْدِی وَبَقِیَ فِی الْمِیضَأَۃِ نَحْوٌ مِمَّا کَانَ فِیہَا، وَہُمْ یَوْمَئِذٍ ثَلَاثُ مِائَۃٍ، قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: فَسَمِعَنِی عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ وَأَنَا أُحَدِّثُ ہٰذَا الْحَدِیثَ فِی الْمَسْجِدِ الْجَامِعِ، فَقَالَ: مَنِ الرَّجُلُ؟ قُلْتُ: أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَبَاحٍ الْأَنْصَارِیُّ، قَالَ الْقَوْمُ: أَعْلَمُ بِحَدِیثِہِمْ انْظُرْ کَیْفَ تُحَدِّثُ فَإِنِّی أَحَدُ السَّبْعَۃِ تِلْکَ اللَّیْلَۃَ، فَلَمَّا فَرَغْتُ قَالَ: مَا کُنْتُ أَحْسِبُ أَنَّ أَحَدًا یَحْفَظُ ہٰذَا الْحَدِیثَ غَیْرِیْ، قَالَ حَمَّادٌ: وَحَدَّثَنَا حُمَیْدٌ الطَّوِیلُ، عَنْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْمُزَنِیِّ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِمِثْلِہِ وَزَادَ، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا عَرَّسَ وَعَلَیْہِ لَیْلٌ تَوَسَّدَ یَمِینَہُ، وَإِذَا عَرَّسَ الصُّبْحَ وَضَعَ رَأْسَہُ عَلٰی کَفِّہِ الْیُمْنٰی وَأَقَامَ سَاعِدَہُ۔ (مسند احمد: ۲۲۹۱۳)
سیدنا ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم ایک سفر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، آپ نے فرمایا: اگر تمہیں کل پانی نہ ملا تو تم پیاسے رہو گے۔ تیز رفتار لوگ آگے چلے گئے تاکہ پانی تلاش کریں۔ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ رہا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سواری آپ کو لیے راستے سے ایک طرف ہٹ گئی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سواری پر ہی اونگھ آگئی، میں نے آپ کو ذراآسرا دے کر سیدھا کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدھے ہوگئے، اس کے بعد پھر جھک گئے، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سیدھا کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدھے ہوگئے، اس کے بعد پھر اونگھ کی وجہ سے اس قدر جھکے یا آپ کو جھٹکا لگا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سواری سے گرنے کے قریب ہوگئے، میں نے آپ کو سیدھا کیا تو آپ متنبہ ہوئے اور دریافت کیا: تم کون ہو؟ میں نے عرض کیا: جی میں ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کب سے اس طرح میرے ساتھ چل رہے ہو؟ میں نے عرض کیا: ساری رات اسی طرح گزر گئی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے جس طرح اللہ کے رسول کی حفاظت کی، اللہ تمہاری حفاظت کرے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بہتر ہوگا کہ ہم کہیں رک کر آرام کر لیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک درخت کی طرف گئے اور وہاں اترے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ذرا دیکھو کوئی آدمی دکھائی دیتا ہے؟ میں نے عرض کیا: یہ ایک سوار آرہا ہے، یہ دو سوار آرہے ہیں،یہاں تک کہ آنے والوں کی تعداد سات ہو گئی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ہمارے لیے نماز کے وقت کا خیال رکھنا۔ پھر ہم سو گئے اور اس قدر سوئے کہ سورج کی تمازت نے ہمیں بیدار کیا، ہم بیدار ہوئے، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سواری پر سوار ہو کر روانہ ہوئے، ہم بھی آپ کے ساتھ کچھ دور تک گئے، اس کے بعد آپ سواری سے نیچے اترے اور دریافت فرمایا: کیا تمہارے پاس پانی موجود ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، میرے پاس وضو کے برتن میں کچھ پانی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہی لے آئو۔ میں پانی کا برتن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لے کر آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس سے پانی لے کر وضو کر لو۔ چنانچہ لوگوں نے وضو کیا، برتن میں ایک گھونٹ جتنا پانی باقی رہ گیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: ابو قتادہ! اسے محفوظ کرلو، عنقریب اس گھونٹ کی بڑی شان ہوگی۔ پھر سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اذان کہی اور سب نے فجر سے پہلی د ورکعتیں ادا کیں اور پھر فجر کی نماز با جماعت ادا کی۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سواری پر سوار ہوئے اور ہم بھی سوار ہوگئے، ہم میں سے بعض لوگوں نے ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ہم سے نماز کے بارے میں بڑی کوتاہی سرزد ہو گئی ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ سنا تو فرمایا: کیا باتیں کر رہے ہو؟ اگر دنیاوی باتیں ہیں توتم جانو اور تمہارا کام اور اگر دین کی کوئی بات ہے تو مجھ سے کرو۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!ہم سے نماز کے بارے میں بہت بڑی کوتاہی سر زد ہوئی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نیند کے سبب نماز میںتاخیر ہو جانا کوتاہی نہیں، کوتاہی تو اس صورت میں ہوتی ہے جب آدمی بیدار ہو اور نماز کو لیٹ کر دے، جب ایسی صورت حال پیش آجائے تو اسی وقت نماز ادا کر لو اور آئندہ اس نماز کو اس کے اپنے مقرر وقت پر ادا کرو۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو لوگ آگے گئے ہوئے ہیں، ان کے بارے میں اندازہ کرو کہ وہ اس وقت کہاں پہنچ چکے ہوں گے؟ صحابۂ کرام نے گزارش کی کہ آپ ہی نے توکل ارشاد فرمایا تھا کہ اگر کل تمہیں پانی نہ ملا تو پیاسے رہو گے۔ اس لیے لوگ پانی کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنے پاس موجود نہ پایا، پس وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی پانی والے مقام پر ہوں گے۔ ان لوگوں میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی موجود تھے، ان دونوں حضرات نے کہا: لوگو! یہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تمہیں پیچھے چھوڑ کر خود پہلے پانی کے مقام پر چلے جائیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ سے تین بار فرمایا کہ اگر لوگ ابو بکر اور عمر کی بات مان لیں تو اچھے رہیں گے۔ جب دھوپ خوب چڑھ گئی اور گرمی شدید ہوگئی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں کے سامنے نمودار ہوئے تو لوگ چیخ اٹھے کہ: اے اللہ کے رسول! ہم تو پیاسے مر گئے اور پیاس کی شدت سے ہماری گردنیں کٹنے کو ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی بات سن کر فرمایا: تمہارے اوپر ہلاکت نہیں آئے گی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : اے ابو قتادہ! پانی والا برتن لے آئو۔ میں وہ برتن لے کر آپ کی خدمت میں آیا تو آپ نے فرمایا کہ تم میرا پیالہ کھول کر لے آئو۔ میں نے اسے کھول کر آپ کی خدمت میں پیش کیا تو آپ اس برتن میں سے پانی کو اس پیالے میں انڈیل انڈیل کر لوگوں کو پلانے لگے۔ آپ کے اردگرد لوگوں کا ہجوم ہوگیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک دوسرے سے اچھا برتائو کرو عنقریب تم میں سے ہر کوئی سیراب ہو کر جائے گا۔ چنانچہ سب لوگوں نے پانی نوش کر لیا صرف میں اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہی باقی رہ گئے۔ تو آپ نے میرے لیے پیالے میں انڈیلا اور فرمایا ابو قتادہ! ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لو یہ نوش کرو۔ میں نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول! پہلے آپ نوش فرمائیں۔ آپ نے فرمایا دوسروں کو پلانے والا آخر میں پیتا ہے۔ چنانچہ میں نے پانی پیا اور میرے بعد آپ نے نوش کیا۔ اوربرتن میں پانی اتنا بچ رہا جتنا اس میں پہلے سے تھا۔ اس دن لوگوں کی تعداد تین سو تھی۔عبداللہ سے مروی ہے کہ میں جامع مسجد میں یہ حدیث بیان کر رہا تھا کہ عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے میری آواز سن لی۔ انھوں نے کہا کہ بیان کرنے والا آدمی کون ہے؟میں نے عرض کیا کہ میں عبداللہ بن رباح انصاری ہوں۔ تو انہوںنے فرمایا کہ قوم کے افراد ہی اپنی بات کو بہتر طور پر جانتے ہوتے ہیں۔ بہر حال تم ذرا خیال کرکے بیان کرو۔ اس رات جمع ہونے والے سات افراد میں سے ایک میں بھی ہوں جب میں حدیث بیان کرکے فارغ ہوا تو انہوںنے فرمایا کہ میں نہیں سمجھتا تھا کہ اس حدیث کو میرے سوا کوئی دوسرا بھییاد رکھتا ہوگا۔ حماد بن سلمہ نے بیان کیا کہ ہم سے اس حدیث کو حمید طویل نے بکر بن عبداللہ مزنی سے انہوںنے عبداللہ بن رباح سے انہوںنے ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اسے اسی طرح بیان کیا۔ اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب رات کو آرام کی غرض سے کہیں ٹھہرتے اور رات کا کچھ حصہ باقی ہوتا تو اپنے داہنے ہاتھ کو تکیہ کے طور پر استعمال کرتے اورجب صبح بالکل قریب ہوتی تو اپنا سر اپنی داہنی ہتھیلی پر رکھ کر اپنے بازو کو سیدھا اوپر کو کھڑا کر لیتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11951

۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11952

۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11953

۔ (۱۱۹۵۳)۔ وَعَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اَخْبَرَنِیْ مَنْ ھُوَ خَیْرٌ مِنِّیْ أَبُوْ قَتَادَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لِعَمَّارِ بْنِ یَاسرٍ: ((تَقْتُلُکَ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ۔)) (مسند احمد: ۲۲۹۸۴)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مجھ سے بھی بہتر آدمییعنی سیدنا ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا تھا: تمہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11954

۔ (۱۱۹۵۴)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَمِعَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ قَیْسٍ یَقْرَأُ فَقَالَ: ((لَقَدْ أُعْطِیَ ہٰذَا مِنْ مَزَامِیرِ آلِ دَاوُدَ النَّبِیِّ عَلَیْہِ السَّلَام۔)) (مسند احمد: ۸۸۰۶)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عبداللہ بن قیسیعنی ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو تلاوت کرتے ہوئے سنا اورفرمایا: اسے تو اللہ کے نبی دائود علیہ السلام کی سی خوش الحانی عطا کی گئی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11955

۔ (۱۱۹۵۵)۔ وَعَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَمِعَ صَوْتَ أَبِیْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ وَھُوَ یَقْرَأُ فَقَالَ: ((لَقَدْ أُوْتِیَ أَبُوْ مُوْسٰی مِنْ مَزَامِیْرِ آلِ دَاوُدَ۔)) (مسند احمد: ۲۵۸۵۷)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو تلاوت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا: ابو موسیٰ کو تو آل دائود کی سی خوش الحانی عطا کی گئی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11956

۔ (۱۱۹۵۶)۔ وَعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ الْأَسْلَمِیِّ، عَنْ أَبِیْہِ قَالَ: خَرَجَ بُرَیْدَۃُ عِشَائً فَلَقِیَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخَذَ بِیَدِہِ فَأَدْخَلَہُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا صَوْتُ رَجُلٍ یَقْرَأُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((تُرَاہُ مُرَائِیًا۔)) فَأَسْکَتَ بُرَیْدَۃُ، فَإِذَا رَجُلٌ یَدْعُو فَقَالَ: اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِأَنِّی أَشْہَدُ أَنَّکَ أَنْتَ اللّٰہُ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِی لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا أَحَدٌ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَقَدْ سَأَلَ اللّٰہَ بِاسْمِہِ الْأَعْظَمِ الَّذِی إِذَا سُئِلَ بِہِ أَعْطٰی، وَإِذَا دُعِیَ بِہِ أَجَابَ۔)) قَالَ: فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْقَابِلَۃِ خَرَجَ بُرَیْدَۃُ عِشَائً فَلَقِیَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخَذَ بِیَدِہِ فَأَدْخَلَہُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا صَوْتُ الرَّجُلِ یَقْرَأُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَتَقُولُہُ مُرَائٍ؟)) فَقَالَ بُرَیْدَۃُ: أَتَقُولُہُ مُرَائٍ یَا رَسُولَ اللّٰہِ!؟، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَا بَلْ مُؤْمِنٌ مُنِیبٌ، لَا بَلْ مُؤْمِنٌ مُنِیبٌ۔)) فَإِذَا الْأَشْعَرِیُّ یَقْرَأُ بِصَوْتٍ لَہُ فِی جَانِبِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ الْأَشْعَرِیَّ أَوْ إِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ قَیْسٍ أُعْطِیَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِیرِ دَاوُدَ۔)) فَقُلْتُ: أَلَا أُخْبِرُہُ؟ یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، قَالَ: ((بَلٰی فَأَخْبِرْہُ۔)) فَأَخْبَرْتُہُ فَقَالَ: أَنْتَ لِی صَدِیقٌ أَخْبَرْتَنِی عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِحَدِیْثٍ۔ (مسند احمد: ۲۳۳۴۰)
سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ عشا کے وقت باہر گئے اورنبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملاقات ہوگئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور مسجد میں لے گئے، وہاں تلاوت کرتے ہوئے ایک آدمی کی آوازسنی،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ دکھلاوا کر رہا ہے؟ سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خاموش رہے، پھر اس آدمی نے یوں دعا کی: اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْأَلُکَ بِأنّی اَشْہَدُ اَنَّکَ اَنْتَ اللّٰہُ الَّذِی لَا اِلٰہ اِلَّا اَنْتَ الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِی لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَہٗکُفُوَاًاَحَدٌ۔ (یا اللہ! میں یہ واسطہ دے کر تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو ہی وہ اللہ ہے، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، تو اکیلا ہے، تو ایسا بے نیاز ہے، جس نے کسی کو جنا اور نہ وہ کسی سے جنا گیا اور کوئی بھی اس کا ہم سر نہیں۔) یہ دعا سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کیقسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس نے اللہ سے اس کے اس سب سے با عظمت نام لے کر دعا کی ہے کہ جب بھی اللہ سے اس کا یہ نام لے کر کچھ مانگا جائے تو وہ عنایت کرتا ہے اور جو بھی دعا کی جائے، وہ قبول کرتا ہے۔ بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: دوسری رات ہوئی تو میں عشاء کے وقت باہر نکلا، اس دن بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملاقات ہوئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور مسجد میں لے گئے تو اسی آدمی کی تلاوت کی آواز آرہی تھی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تو سمجھتا ہے کہ یہ دکھلاوا کر رہا ہے؟ سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ دکھلاوا کرنے والا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ دکھلاوا کرنے والا نہیں ہے، بلکہ مخلص مومن ہے، یہ دکھلاوا کرنے والا نہیں، بلکہ مخلص مومن ہے۔ میں (بریدہ) نے دیکھا تو وہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، جو مسجد کے ایک کونے میں بلند آواز سے قرأت کر رہے تھے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عبداللہ بن قیس اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دائود علیہ السلام کیسی خوش الحانی عطا کی گئی ہے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا میں ان کو اس بات سے با خبر کردوں؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں اور ان کو بتلا دو۔ جب میں نے ان کو اس کی خبر دی تو انہوںنے مجھ سے فرمایا: تم میرے مخلص دوست ہو، کیونکہ تم نے مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کیایک خاص بات سے باخبر کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11957

۔ (۱۱۹۵۷)۔ عَن أَبِی مُوسَی الْأَشْعَرِیِّ قَالَ: قُلْتُ لِرَجُلٍ: ہَلُمَّ فَلْنَجْعَلْ یَوْمَنَا ہٰذَا لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، فَوَاللّٰہِ لَکَأَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَاہِدٌ ہٰذَا الْیَوْمَ فَخَطَبَ فَقَالَ: ((وَمِنْہُمْ مَنْ یَقُوْلُ ھَلُمَّ فَلْنَجْعَلْ یَوْمَنَا ھٰذَا لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔)) فَمَا زَالَ یَقُوْلُھَا حَتّٰی تَمَنَّیْتُ اَنَّ الْاَرْضَ سَاخَتْ بِیْ۔ (مسند احمد: ۱۹۹۹۴)
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے ایک آدمی سے کہا:آئو ہم اپنا آج کا یہ دن اللہ تعالیٰ کے لیے مختص کر یں، اللہ کی قسم یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس دن اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی ہمارے ساتھ موجود تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خطاب کیا اور کہا: بعض لوگ ایسے بھی ہیں، جو دوسروں سے کہتے ہیں کہ آئو ہم اپنا آج کا یہ دن اللہ تعالیٰ کے لیے مختص کریں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بات اس قدر تکرار سے ارشاد فرمائی کہ میں نے تمنا کی کاش کہ زمین مجھے اپنے اندر دھنسا لے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11958

۔ (۱۱۹۵۸)۔ عَنْ مُجَالِدٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ: کَتَبَ عُمَرُ فِی وَصِیَّتِہِ أَنْ لَا یُقَرَّ لِی عَامِلٌ أَکْثَرَ مِنْ سَنَۃٍ، وَأَقِرُّوا الْأَشْعَرِیَّ یَعْنِی أَبَا مُوسٰی أَرْبَعَ سِنِینَ۔ (مسند احمد: ۱۹۷۱۹)
شعبی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنی وصیت میںلکھا تھا کہ میرا مقرر کردہ کوئی عامل ایک سال سے زیادہ عرصہ تک اپنی ذمہ داری پر بحال نہ رکھا جائے، البتہ تم سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو چار سال تک ان کی ذمہ داری پر برقرار رکھو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11959

۔ (۱۱۹۵۹)۔ عَن أَبِی وَائِلٍ، عَن أَبِی مُوسٰی قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اللَّہُمَّ اجْعَلْ عُبَیْدًا أَبَا عَامِرٍ فَوْقَ أَکْثَرِ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) قَالَ: فَقُتِلَ عُبَیْدٌ یَوْمَ أَوْطَاسٍ، وَقَتَلَ أَبُو مُوسَی قَاتِلَ عُبَیْدٍ، قَالَ: قَالَ أَبُووَائِلٍ: وَإِنِّی لَأَرْجُو أَنْ لَا یَجْمَعَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ بَیْنَ قَاتِلِ عُبَیْدٍ وَبَیْنَ أَبِی مُوسَی فِی النَّارِ۔ (مسند احمد: ۱۹۹۲۹)
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یااللہ! اپنے بندے عبید ابو عامر کو قیامت کے دن اکثر لوگوں سے بلند مرتبہ پر فائز فرمانا۔ سیدنا عبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غزوۂ اوطاس میں شہید ہوئے تھے اور سیدنا ابو موسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قاتل کو قتل کرکے جہنم رسید کیا تھا۔ راویٔ حدیث عاصم کہتے ہیں: میرے شیخ ابو وائل نے بیان کیا: مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ عبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قاتل اور سیدنا ابو موسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو جہنم میں اکٹھے نہیں کرے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11960

۔ (۱۱۹۶۰)۔ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیُّ قَالَ: قَرَأْتُ عَلَی الْفُضَیْلِ بْنِ مَیْسَرَۃَ حَدِیثَ أَبِی حَرِیزٍ أَنَّ أَبَا بُرْدَۃَ حَدَّثَہُ، قَالَ: أَوْصٰی أَبُو مُوسٰی حِینَ حَضَرَہُ الْمَوْتُ فَقَالَ: إِذَا انْطَلَقْتُمْ بِجِنَازَتِی فَأَسْرِعُوا الْمَشْیَ، وَلَا یَتَّبِعُنِی مُجَمَّرٌ، وَلَا تَجْعَلُوا فِی لَحْدِی شَیْئًا یَحُولُ بَیْنِی وَبَیْنَ التُّرَابِ، وَلَا تَجْعَلُوا عَلٰی قَبْرِی بِنَائً، وَأُشْہِدُکُمْ أَنَّنِی بَرِیْئٌ مِنْ کُلِّ حَالِقَۃٍ أَوْ سَالِقَۃٍ أَوْ خَارِقَۃٍ، قَالُوْا: أَوَسَمِعْتَ فِیہِ شَیْئًا؟ قَالَ: نَعَمْ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۹۷۷۶)
ابو بردہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی وفات کا وقت آیا تو انھوں نے وصیت کرتے ہوئے کہا: جب تم میرا جنازہ لے کر چلو تو ذرا تیز تیز چلنا اور کوئی آدمی آگ کے کوئلوں پر خوشبو ڈال کر جنازے کے ساتھ نہ چلے اور میری قبر میں کوئی ایسی چیز بھی نہ رکھنا جو میرے اور مٹی کے درمیان حائل ہو، نیز تم میری قبر پر کوئی عمارت کھڑی نہ کرنا اور میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں کسی کی وفات پر سر کے بال مونڈنے والی، چیخنے والی اور کپڑے پھاڑنے والی ہر عورت سے بری اور لا تعلق ہوں۔ لوگوں نے عرض کیا: کیا آپ نے اس بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کچھ سنا ہے؟ انہوںنے کہا: جی ہاں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11961

۔ (۱۱۹۶۱)۔ أَبِیْ ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوْسٰی ثَنَا حَرِیْزٌ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ عُبَیْدٍ، عَنْ أَبِیْ مَالِکٍ عُبَیْدٍ اَنَّ رَسُْولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْمَا بَلَغَہٗ دَعَا لَہُ: ((اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی عُبَیْدٍِ اَبِیْ مَالِکٍ وَاجْعَلْہٗ فَوْقَ کَثِیْرٍ مِنَ النَّاسِ۔)) (مسند احمد: ۲۳۲۹۵)
سیدنا ابو مالک عبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ان کو یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے لیےیہ دعا کی تھی: یا اللہ! ابو مالک عبید پر رحمت نازل فرما اور اسے بہت سے لوگوں پر فوقیت عطا فرما۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11962

۔ (۱۱۹۶۲)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ لَمَّا قَدِمْتُ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُلْتُ: فِی الطَّرِیقِ شِعْرًا، یَا لَیْلَۃً مِنْ طُولِہَا وَعَنَائِہَا عَلٰی أَنَّہَا مِنْ دَارَۃِ الْکُفْرِ نَجَّتِ، قَالَ: وَأَبَقَ مِنِّی غُلَامٌ لِی فِی الطَّرِیقِ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَبَایَعْتُہُ فَبَیْنَا أَنَا عِنْدَہُ، إِذْ طَلَعَ الْغُلَامُ فَقَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ ہٰذَا غُلَامُکَ۔)) قُلْتُ: ہُوَ لِوَجْہِ اللّٰہِ فَأَعْتَقْتُہُ۔ (مسند احمد: ۷۸۳۲)
سیدناابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آرہا تھا تو میں نے راستے میں یہ شعر کہا: یَالَیْلَۃً مِنْ طُولھا وَعَنَالِٔھا عَلٰی انّہا مِنْ دَارْۃِ الکُفْرِ نَجَّتٖ (تعجبہےاسراتپرجواسقدرطویل اور پر مشقت ہے ہاں یہ فائدہ ضرور ہوا کہ اس نے مجھے دارالکفر سے نکال لیا) سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: راستے میں میرا ایک غلام مجھ سے فرار ہو گیا، میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جا کر مسلمان ہوا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بیعت کر لی، میں آپ کی خدمت میں ہی بیٹھا تھا کہ وہ غلام بھی آگیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: ابو ہریرہ! یہ ہے تمہارا غلام۔ میں نے عرض کیا:وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہے، پھر انھوںنے اس کو آزاد کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11963

۔ (۱۱۹۶۳)۔ حَدَّثَنَا خُثَیْمٌ یَعْنِی ابْنَ عِرَاکٍ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ قَدِمَ الْمَدِینَۃَ فِی رَہْطٍ مِنْ قَوْمِہِ، وَالنَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِخَیْبَرَ وَقَدِ اسْتَخْلَفَ سِبَاعَ بْنَ عُرْفُطَۃَ عَلَی الْمَدِینَۃِ، قَالَ: فَانْتَہَیْتُ إِلَیْہِ وَہُوَ یَقْرَأُ فِی صَلَاۃِ الصُّبْحِ فِی الرَّکْعَۃِ الْأُولٰی بِـ {کہیعص} وَفِی الثَّانِیَۃِ: {وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِینَ} قَالَ: فَقُلْتُ لِنَفْسِی: وَیْلٌ لِفُلَانٍ إِذَا اکْتَالَ اکْتَالَ بِالْوَافِی، وَإِذَا کَالَ کَالَ بِالنَّاقِصِ، قَالَ: فَلَمَّا صَلّٰی زَوَّدَنَا شَیْئًا حَتّٰی أَتَیْنَا خَیْبَرَ وَقَدِ افْتَتَحَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَیْبَرَ، قَالَ: فَکَلَّمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمُسْلِمِینَ فَأَشْرَکُونَا فِی سِہَامِہِمْ۔ (مسند احمد: ۸۵۳۳)
عراک بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی قوم کے افراد کے ساتھ مدینہ منورہ آئے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان دنوں خیبر میں تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ میں سیدنا سباع بن عرفطہ کو اپنا نائب مقرر کر گئے تھے، سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں : میں سیدنا سباع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس پہنچا تو وہ صبح کی پہلی رکعت میں {کہیعص}اور دوسری رکعت میں سورۂ مطففین کی تلاوت کر رہے تھے، میں نے دل میں کہا: فلاں آدمی کے لیے تباہی اور ہلاکت ہے، جب وہ اپنے لیے لیتا ہے تو پورا پیمانہ لیتا ہے اور جب دوسروں کو دیتا ہے تو کم پیمانہ دیتا ہے، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو انہوںنے ہمیں کچھ زاد راہ دیا،یہاں تک کہ ہم خیبر جا پہنچے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابۂ کرام سے بات کرکے ہمیں بھی مال غنیمت میں شریک کر لیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11964

۔ (۱۱۹۶۴)۔ عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ عَنْ رَجُلٍ مِنَ الطُّفَاوَۃِ قَالَ: نَزَلْتُ عَلٰی أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: وَلَمْ أُدْرِکْ مِنْ صَحَابَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَجُلًا أَشَدَّ تَشْمِیرًا، وَلَا أَقْوَمَ عَلٰی ضَیْفٍ مِنْہُ، فَبَیْنَمَا أَنَا عِنْدَہُ وَہُوَ عَلٰی سَرِیرٍ لَہُ، وَأَسْفَلَ مِنْہُ جَارِیَۃٌ لَہُ سَوْدَائُ، وَمَعَہُ کِیسٌ فِیہِ حَصًی وَنَوًی یَقُولُ: سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ حَتّٰی إِذَا أَنْفَذَ مَا فِی الْکِیسِ أَلْقَاہُ إِلَیْہَا فَجَمَعَتْہُ فَجَعَلَتْہُ فِی الْکِیسِ ثُمَّ دَفَعَتْہُ إِلَیْہِ، فَقَالَ لِی: أَلَا أُحَدِّثُکَ عَنِّی وَعَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُلْتُ: بَلٰی، قَالَ: فَإِنِّی بَیْنَمَا أَنَا أُوعَکُ فِی مَسْجِدِ الْمَدِینَۃِ إِذْ دَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَسْجِدَ، فَقَالَ: ((مَنْ أَحَسَّ الْفَتَی الدَّوْسِیَّ؟ مَنْ أَحَسَّ الْفَتَی الدَّوْسِیَّ؟)) فَقَالَ لَہُ قَائِلٌ: ہُوَ ذَاکَ یُوعَکُ فِی جَانِبِ الْمَسْجِدِ حَیْثُ تَرٰی یَا رَسُولَ اللّٰہِ، فَجَائَ فَوَضَعَ یَدَہُ عَلَیَّ وَقَالَ لِی مَعْرُوفًا، فَقُمْتُ فَانْطَلَقَ حَتّٰی قَامَ فِی مَقَامِہِ الَّذِی یُصَلِّی فِیہِ، وَمَعَہُ یَوْمَئِذٍ صَفَّانِ مِنْ رِجَالٍ وَصَفٌّ مِنْ نِسَائٍ أَوْ صَفَّانِ مِنْ نِسَائٍ وَصَفٌّ مِنْ رِجَالٍ، فَأَقْبَلَ عَلَیْہِمْ فَقَالَ: ((إِنْ نَسَّانِی الشَّیْطَانُ شَیْئًا مِنْ صَلَاتِی فَلْیُسَبِّحِ الْقَوْمُ وَلْیُصَفِّقِ النِّسَائُ۔)) فَصَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَمْ یَنْسَ مِنْ صَلَاتِہِ شَیْئًا، فَلَمَّا سَلَّمَ أَقْبَلَ عَلَیْہِمْ بِوَجْہِہِ فَقَالَ: ((مَجَالِسَکُمْ ہَلْ مِنْکُمْ إِذَا أَتٰی أَہْلَہُ أَغْلَقَ بَابَہُ وَأَرْخٰی سِتْرَہُ، ثُمَّ یَخْرُجُ فَیُحَدِّثُ فَیَقُولُ: فَعَلْتُ بِأَہْلِی کَذَا، وَفَعَلْتُ بِأَہْلِی کَذَا؟)) فَسَکَتُوْا فَأَقْبَلَ عَلَی النِّسَائِ فَقَالَ: ((ہَلْ مِنْکُنَّ مَنْ تُحَدِّثُ؟)) فَجَثَتْ فَتَاۃٌ کَعَابٌ عَلٰی إِحْدٰی رُکْبَتَیْہَا وَتَطَاوَلَتْ لِیَرَاہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَیَسْمَعَ کَلَامَہَا فَقَالَتْ: إِی وَاللّٰہِ إِنَّہُمْ لَیُحَدِّثُونَ وَإِنَّہُنَّ لَیُحَدِّثْنَ، فَقَالَ: ((ہَلْ تَدْرُونَ مَا مَثَلُ مَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ؟ إِنَّ مَثَلَ مَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ مَثَلُ شَیْطَانٍ وَشَیْطَانَۃٍ، لَقِیَ أَحَدُہُمَا صَاحِبَہُ بِالسِّکَّۃِ قَضٰی حَاجَتَہُ مِنْہَا وَالنَّاسُ یَنْظُرُونَ إِلَیْہِ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((أَلَا لَا یُفْضِیَنَّ رَجُلٌ إِلٰی رَجُلٍ وَلَا امْرَأَۃٌ إِلَی امْرَأَۃٍ إِلَّا إِلٰی وَلَدٍ أَوْ وَالِدٍ۔)) قَالَ: وَذَکَرَ ثَالِثَۃً فَنَسِیتُہَا، ((أَلَا إِنَّ طِیبَ الرَّجُلِ مَا وُجِدَ رِیحُہُ وَلَمْ یَظْہَرْ لَوْنُہُ، أَلَا إِنَّ طِیبَ النِّسَائِ مَا ظَہَرَ لَوْنُہُ وَلَمْ یُوجَدْ رِیحُہُ۔)) (مسند احمد: ۱۰۹۹۰)
ابو نضرہ سے روایت ہے، وہ بنو طفاوہ قبیلہ کے ایک فرد سے روایت کرتے ہیں کہ میں سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں مہمان ٹھہرا، میں نے صحابۂ کرام میں سے کسی کو ان سے بڑھ کر مہمان نواز نہیں پایا، میں ان کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا اور وہ اپنی چارپائی پر تشریف فرما تھے، ان کی سیاہ فام لونڈی نیچے تھی، سیدنا ابو ہریرہ کے پاس ایک تھیلی میں کنکر اور گٹھلیاں تھیں، سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سُبْحَانَ اللّٰہِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ پڑھتے جاتے، جب تھیلی خالی ہو جاتی تو وہ اسے اس لونڈی کی طرف پھینکتے اور وہ تمام کنکروں اور گٹھلیوں کو تھیلی میں جمع کر کے ان کے حوالے کر دیتی۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے کہا: کیا میں تمہیں اپنا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ایک واقعہ نہ سنائوں۔ میں نے عرض کیا: جی ضرور سنائیں، انہوں نے کہا: مجھے بخار تھا اور میں مدینہ منورہ کی مسجد یعنی مسجد نبوی میں تھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا: کسی کو دوسی جوان یعنی ابو ہریرہکے متعلق علم ہو، کسی کو دوسی جوان کا علم ہو۔ (کہ وہ کہاں ہے؟) کسی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلایا کہ اے اللہ کے رسول! وہ دیکھیں وہ تو مسجد کے ایک کونے میں بخار میں مبتلا پڑا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آکر اپنا ہاتھ مبارک مجھ پر رکھا اور میرے ساتھ پیاری پیاری باتیں کیں۔ یہاں تک کہ میں اٹھ کھڑا ہوا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چل کر اپنی نماز والی جگہ پر تشریف لے گئے، اس روز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مردوں کی دو اور عورتوں کی ایک صف یا عورتوں کی دو اور مردوں کی ایک صف تھی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کی طرف رخ کرکے ارشاد فرمایا: اگر شیطان مجھے نماز میں کچھ بھلوا دے تو مرد حضرات سُبْحَانَ اللّٰہِ کہہ دیاکریں اور عورتیں اپنے ہاتھ پر دوسرا ہاتھ مار کر آواز پیدا کریں (جس سے میں اپنی بھول اور غلطی پر متنبہ ہو جائوں گا)۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز پڑھائی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز میں نہ بھولے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز کا سلام پھیرا اور لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: تم اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے رہو،کیا تم میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے اہل خانہ کے ہاں جا کر دروازہ بند کرکے پردے لٹکانے کے بعد (حق زوجیت سے فارغ ہو کر) باہر جا کر لوگوں کی بتلائے کہ میں نے اپنی بیوی کے ساتھ یوں کیا اور یہ کیا۔ آپ کی بات سن کر صحابۂ کرام خاموش رہے، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عورتوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: کیا تم میں کوئی عورت بھی ایسی ہے جو ایسی باتیں کرتی ہو؟ تو ابھرے ہوئے سینہ والی ایک نوجوان لڑکی اپنے ایک گھٹنے کے بل ذرا اونچی ہو کر گردن اٹھا کر آپ کی طرف دیکھنے لگی تاکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی طرف توجہ فرمائیں اور اس کی بات سنیں۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم! مرد بھی ایسی باتیں کرتے ہیں اور عورتیں بھی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ ایسی باتیں کرنے والوں کی کیا مثال ہے؟ ایسی باتیں کرنے والوں کی مثال شیطان اور شیطاننی کی مانند ہے، جو راستے میں ہی ایک دوسرے سے ملیں اور بر سر عام ایک دوسرے سے اپنی نفسانی خواہش پوری کریں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزید فرمایا: خبر دار! کوئی مرد کسی مرد یا کسی عورت کے ساتھ اور کوئی عورت کسی مرد یا کسی عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں علیحدہ نہ لیٹے، صرف باپ اور اس کا بیٹا اس طرح لیٹ سکتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک تیسری بات کا بھی ذکر کیا جو مجھے بھول گئی ہے۔ خبردار! مردوں کی خوشبو ایسی ہونی چاہیے جس کی صرف خوشبو ہو اور رنگ نہ ہو اور عورتوں کی خوشبو ایسی ہونی چاہیے کہ جس کا رنگ ہو اور خوشبو نہ ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11965

۔ (۱۱۹۶۵)۔ حَدَّثَنِی أَبُو کَثِیرٍ، حَدَّثَنِی أَبُوہُرَیْرَۃَ وَقَالَ لَنَا: وَاللّٰہِ مَا خَلَقَ اللّٰہُ مُؤْمِنًا یَسْمَعُ بِی وَلَا یَرَانِی إِلَّا أَحَبَّنِی، قُلْتُ: وَمَا عِلْمُکَ بِذٰلِکَ یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ؟ قَالَ: إِنَّ أُمِّی کَانَتْ امْرَأَۃً مُشْرِکَۃً، وَإِنِّی کُنْتُ أَدْعُوہَا إِلَی الْإِسْلَامِ، وَکَانَتْ تَأْبٰی عَلَیَّ، فَدَعَوْتُہَا یَوْمًا فَأَسْمَعَتْنِی فِی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا أَکْرَہُ، فَأَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا أَبْکِی، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی کُنْتُ أَدْعُو أُمِّی إِلَی الْإِسْلَامِ وَکَانَتْ تَأْبَی عَلَیَّ، وَإِنِّی دَعَوْتُہَا الْیَوْمَ فَأَسْمَعَتْنِی فِیکَ مَا أَکْرَہُ، فَادْعُ اللّٰہَ أَنْ یَہْدِیَ أُمَّ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اللَّہُمَّ اہْدِ أُمَّ أَبِی ہُرَیْرَۃَ۔)) فَخَرَجْتُ أَعْدُو أُبَشِّرُہَا بِدُعَائِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّا أَتَیْتُ الْبَابَ إِذَا ہُوَ مُجَافٍ وَسَمِعْتُ خَضْخَضَۃَ الْمَائِ، وَسَمِعْتُ خَشْفَ رِجْلٍ یَعْنِی وَقْعَہَا، فَقَالَتْ: یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ کَمَا أَنْتَ ثُمَّ فَتَحَتِ الْبَابَ وَقَدْ لَبِسَتْ دِرْعَہَا وَعَجِلَتْ عَنْ خِمَارِہَا، فَقَالَتْ: إِنِّی أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَجَعْتُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَبْکِی مِنَ الْفَرَحِ کَمَا بَکَیْتُ مِنَ الْحُزْنِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَبْشِرْ فَقَدِ اسْتَجَابَ اللّٰہُ دُعَائَ کَ وَقَدْ ہَدٰی أُمَّ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، فَقُلْتُ: یَارَسُولَ اللّٰہِ! ادْعُ اللّٰہَ أَنْ یُحَبِّبَنِی أَنَا وَأُمِّی إِلٰی عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِینَ وَیُحَبِّبُہُمْ إِلَیْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اللَّہُمَّ حَبِّبْ عُبَیْدَکَ ھٰذَا وَأُمَّہُ اِلٰی عِبَادِکَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَجَبِّبْہِمْ اِلَیْہِمَا۔)) فَمَا خَلَقَ اللّٰہُ مُؤْمِنًا یَسْمَعُ بِیْ وَلَا یَرَانِیْ أَوْ یَرٰی أُمِّیْ إِلَّا وَھُوَ یُحِبُّنِیْ۔ (مسند احمد: ۸۲۴۲)
ابوکثیر سے روایت ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہم سے بیان کرتے ہوئے کہا: اللہ کی قسم! اللہ نے جس کسی مومن کو پیدا کیا اور اس نے میر ے متعلق محض سنا ہو، دیکھا نہ بھی ہو تو وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ ابو کثیر کہتے ہیں: میں نے ان سے دریافت کیا کہ ابو ہریرہ! آپ کو اس بات کا کیا علم کہ ہر مومن آپ سے محبت رکھتا ہے؟ انہوں نے کہا: میری والدہ مشرک عورت تھی، میں اس کو اسلام کی دعوت دیا کرتا تھا اور وہ میری بات کو قبول کرنے سے انکار کرتی رہتی تھی۔ ایک دن میںنے ان کو اسلام کی دعوت دی تو اس نے مجھ سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے متعلق ایسی ایسی باتیں کہیں جو مجھے قطعاً اچھی نہ لگیں، میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جا کر رونے لگا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں اپنی والدہ کو اسلام کی دعوت دیا کرتا تھا اور وہ میری دعوت کو قبول کرنے سے انکار کرتی رہتی تھی، میں نے آج بھی اسے اسلام کی دعوت دی تو اس نے آپ کے متعلق ایسی ایسی ناگواری باتیں کہی ہیں، جو مجھے قطعاً پسند نہیں، آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ میری ماں کو ہدایت سے سر فراز فرما دے، (پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دعا کی)۔ میں دوڑتا ہوا اپنی والدہ کی طرف گیا تاکہ جا کر اسے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعا کی بشارت دے سکوں، میں دروازے پر پہنچا تو دروازہ اندر سے بند تھا۔ میں نے پانی کے گرنے کی آواز سنی اور میں نے جوتوں کی آواز بھی سنی۔ اندر سے میری والدہ نے کہا: ابو ہریرہ! ذرا ٹھہرے رہو۔ کچھ دیر بعد اس نے دروازہ کھولا۔اس نے قمیص پہنی اور سر پر اوڑھنی لینے سے بھی پہلے پکار اٹھی: إِنِّی أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ۔میں جس طرح کچھ دیر قبل غم کی وجہ سے روتا ہوا آپ کی خدمت میں گیا تھا، اب اسی طرح خوشی کی شدت سے روتا ہوا میں آپ کی خدمت میں پہنچا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مبارک ہو، اللہ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی ماں کو ہدایت سے سرفراز کر دیا ہے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے اور میری ماں کو اپنے تمام اہل ایمان بندوں کی نظروں میں محبوب بنا دے اور تمام اہل ایمان کو ہمارے ہاں محبوب بنادے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دعا فرمائی: یا اللہ!تو اپنے اس بندے (ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) اور اس کی والدہ کو اپنے تمام اہل ایمان بندوں کا محبوب بنا دے اور تمام اہل ایمان کو ان دونوں کا محبوب بنا دے۔ اس دعا کی برکت سے اب ہر وہ مومن جو میرے متعلق سنتا ہے، خواہ اس نے مجھے یا میری والدہ کو نہ بھی دیکھا ہو، وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11966

۔ (۱۱۹۶۶)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((أَلَا مِنْ رَجُلٍ یَأْخُذُ بِمَا فَرَضَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ کَلِمَۃً أَوْ کَلِمَتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا أَوْ أَرْبَعًا أَوْ خَمْسًا فَیَجْعَلُہُنَّ فِی طَرَفِ رِدَائِہِ فَیَتَعَلَّمُہُنَّ وَیُعَلِّمُہُنَّ۔)) قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: فَقُلْتُ: أَنَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، قَالَ: ((فَابْسُطْ ثَوْبَکَ۔)) قَالَ: فَبَسَطْتُ ثَوْبِی فَحَدَّثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ قَالَ: ((ضُمَّ إِلَیْکَ۔)) فَضَمَمْتُ ثَوْبِی إِلٰی صَدْرِی فَإِنِّی لَأَرْجُوْ أَنْ لَا أَکُوْنَ نَسِیتُ حَدِیثًا سَمِعْتُہُ مِنْہُ بَعْدُ۔ (مسند احمد: ۸۳۹۰)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کون ہے جو اللہ کے فرائض میں سے ایک، دو، تین، چار یا پانچ باتیں سن کر اپنی چادر کے پلو میں باندھ لے، پھر ان باتوں کا علم خود بھی حاصل کرے اور دوسروں کو بھی ان کی تعلیم دے؟ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس کام کے لیے میں حاضر ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنا کپڑا بچھائو۔ چنانچہ میں نے اپنا کپڑا بچھایا، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کچھ باتیں ارشاد فرمائیں اور پھر فرمایا: اس کپڑے کو سمیٹ لو۔ چنانچہ میں نے اپنے کپڑے کو سمیٹ کر اپنے سینےسے لگا لیا، مجھے امید ہے کہ اس کے بعد میں نے آپ سے جو بھی حدیث سنی، اسے بھولنے نہیں پاؤں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11967

۔ (۱۱۹۶۷)۔ عَنِ الْأَعْرَجِ قَالَ: قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: إِنَّکُمْ تَقُولُوْنَ أَکْثَرَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاللّٰہُ الْمَوْعِدُ! إِنَّکُمْ تَقُولُوْنَ: مَا بَالُ الْمُہَاجِرِینَ لَا یُحَدِّثُونَ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِہٰذِہِ الْأَحَادِیثِ؟ وَمَا بَالُ الْأَنْصَارِ لَا یُحَدِّثُونَ بِہٰذِہِ الْأَحَادِیثِ؟ وَإِنَّ أَصْحَابِی مِنَ الْمُہَاجِرِینَ کَانَتْ تَشْغَلُہُمْ صَفَقَاتُہُمْ فِی الْأَسْوَاقِ، وَإِنَّ أَصْحَابِی مِنَ الْأَنْصَارِ کَانَتْ تَشْغَلُہُمْ أَرْضُوہُمْ وَالْقِیَامُ عَلَیْہَا، وَإِنِّی کُنْتُ امْرَأً مُعْتَکِفًا، وَکُنْتُ أُکْثِرُ مُجَالَسَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَحْضُرُ إِذَا غَابُوْا وَأَحْفَظُ إِذَا نَسُوا، وَإِنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَدَّثَنَا یَوْمًا فَقَالَ: ((مَنْ یَبْسُطُ ثَوْبَہُ حَتّٰی أَفْرُغَ مِنْ حَدِیثِی، ثُمَّ یَقْبِضُہُ إِلَیْہِ فَإِنَّہُ لَیْسَ یَنْسٰی شَیْئًا سَمِعَہُ مِنِّی أَبَدًا۔)) فَبَسَطْتُ ثَوْبِیْ أَوْ قَالَ: نَمِرَتِی، ثُمَّ قَبَضْتُہُ إِلَیَّ فَوَاللّٰہِ! مَا نَسِیتُ شَیْئًا سَمِعْتُہُ مِنْہُ، وَایْمُ اللّٰہِ لَوْلَا آیَۃٌ فِی کِتَابِ اللّٰہِ مَا حَدَّثْتُکُمْ بِشَیْئٍ أَبَدًا، ثُمَّ تَلَا: {إِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالْہُدٰی} الْآیَۃَ کُلَّہَا [البقرۃ: ۱۵۹]۔ (مسند احمد: ۷۶۹۱)
اعرج سے روایت ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم لوگ اعتراض کرتے ہو اور کہتے ہو کہ ابو ہریرہ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بہت احادیث روایت کرتا ہے، اللہ گواہ ہے، تم کہتے ہو کہ ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیان کردہ احادیث ایسی ہوتی ہیں، جو نہ تو مہاجرین بیان کرتے ہیں اور نہ انصاری۔ (اب سنو،) حقیقتیہ ہے کہ میرے مہاجر بھائی بازاروں میں خرید و فروخت میں مصروف رہتے اور میرے انصاری بھائی اپنی کھیتی باڑی اور اپنے اموال وغیرہ میں مشغول رہتے اور میں ایک گوشہ نشین بن کر رہا اور میرا بیشتر وقت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بسر ہوتا۔ لوگ اپنے کاموں کی وجہ سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی محفلوں سے غیر حاضر رہتے اور میں حاضر ہوتا۔ وہ لوگ احادیث بھول جاتے مگر میںیاد رکھتا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیان کے دوران ایک دن ہم سے فرمایا: کون ہے جو اپنا کپڑا بچھائے یہاں تک کہ جب میں اپنی بات مکمل کرکے فارغ ہو جائوں تو وہ اپنے کپڑے کو اپنی طرف سمیٹ لے، اس کی برکت اس قدر ہوگی کہ وہ مجھ سے سنی ہوئی کوئی بھی بات کبھی بھی نہ بھلا سکے گا۔ چنانچہ میں نے اپنا کپڑا بچھا دیااور پھر اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ اللہ کی قسم! اس کی برکت سے میں آپ سے سنی ہوئی کوئی بھی بات نہیں بھولا۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ کی کتاب میں یہ آیت نہ ہوتی تو میں تمہیں کبھی کچھ بیان نہ کرتا، پھر انہوںنے یہ آیت تلاوت کی:{اِنّ الّذینیَکْتُمُونَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیّنَاتِ وَالْھُدیٰ مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنَّاہُ لِلنَّاسِ فِیْ الْکِتَابِ اُولٰئِکَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰہُ وَیَلْعَنُھُمُ اللَّاعِنُوْنَ} … بے شک جو لوگ ہمارے نازل کردہ صریح دلائل اور ہدایت کی باتوں کو چھپاتے ہیں بعد اس کے کہ ہم نے لوگوں کے لیے ان کو کتاب میں کھول کر بیان کر دیا ہے ان لوگوں پر اللہ اور سب لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11968

۔ (۱۱۹۶۸)۔ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ فَرُّوخَ الْجُرَیْرِیِّ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ النَّہْدِیَّ یَقُولُ: تَضَیَّفْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ سَبْعًا فَکَانَ ہُوَ وَامْرَأَتُہُ وَخَادِمُہُ یَعْتَقِبُونَ اللَّیْلَ أَثْلَاثًا، یُصَلِّی ہٰذَا ثُمَّ یُوقِظُ ہٰذَا، وَیُصَلِّی ہٰذَا ثُمَّ یَرْقُدُ وَیُوقِظُ ہٰذَا، قَالَ: قُلْتُ: یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ! کَیْفَ تَصُومُ؟ قَالَ: أَمَّا أَنَا فَأَصُومُ مِنْ أَوَّلِ الشَّہْرِ ثَلَاثًا، فَإِنْ حَدَثَ لِی حَادِثٌ کَانَ آخِرَ شَہْرِی، قَالَ: وَسَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ: قَسَمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمًا بَیْنَ أَصْحَابِہِ تَمْرًا، فَأَصَابَنِی سَبْعُ تَمَرَاتٍ، إِحْدَاہُنَّ حَشَفَۃٌ، وَمَا فِیہِنَّ شَیْئٌ أَعْجَبُ إِلَیَّ مِنْہَا أَنَّہَا شَدَّتْ مَضَاغِیْ۔ (مسند احمد: ۸۶۱۸)
ابو عثمان نہدی سے مروی ہے،وہ کہتے ہیں: میں سات روز تک سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں مہمان ٹھہرا، ان کا معمول تھا کہ وہ، ان کی اہلیہ اور ان کا خادم رات کو تین حصوں میں باری باری جاگتے، ایک نماز پڑھتا رہتا، بعد میں وہ دوسرے کو جگا دیتا، وہ نماز پڑھتا رہتا، پھر وہ سو جاتا اور تیسرے کو بیدار کر دیتا۔ میں نے دریافت کیا: ابو ہریرہ! آپ روزے کس طرح رکھتے ہیں؟ انھوں نے کہا: مہینہ کے شروع میں تین روزے رکھتا ہوں، اگر کوئی وجہ در پیش ہو تو مہینہ کے آخر تک یہی روزے ہوتے ہیں۔1 ابو عثمان کہتے ہیں: میں نے ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو کہتے سنا کہ ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے صحابہ کے درمیان کھجور یں تقسیم کیں تو سات کھجوریں میرے حصے میں آئیں۔ ان میں سے ایک بے کار سی کھجور تھی، تاہم وہ مجھے سب سے زیادہ پسند تھی، اس نے میرے دانتوں کو مضبوط کر دیا2، (تب میں اس کو چبا سکا)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11969

۔ (۱۱۹۶۹)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: حَدَّثَنِی خَلِیلِی الصَّادِقُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ قَالَ: ((یَکُونُ فِی ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ بَعْثٌ إِلَی السِّنْدِ وَالْہِنْدِ۔)) فَإِنْ أَنَا أَدْرَکْتُہُ فَاسْتُشْہِدْتُ فَذٰلِکَ، وَإِنْ أَنَا فَذَکَرَ کَلِمَۃً رَجَعْتُ وَأَنَا أَبُو ہُرَیْرَۃَ الْمُحَرَّرُ قَدْ أَعْتَقَنِی مِنَ النَّارِ۔ (مسند احمد: ۸۸۰۹)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میرے سچے ! یعنی میں کسی بیمارییا سفر کی وجہ سے کوئی اور روزے نہ رکھ سکوں تو پھر یہی تین روزے ہی آخر تک رہتے ہیں اور ان سے ہی پورے مہینہ کے ثواب حاصل ہونے کی امید ہوتی ہے کیونکہ ہر نیکی کا بدلہ دس گناہ ملتا ہے۔ [بلوغ الامانی] (عبداللہ رفیق) @ صحیح بخاری کے الفاظ ہیں: شدَّتْ فِیْ مَضَاغِیْ وہ میرے چبانے میں سخت تھی۔ یعنی وہ کھجور چبانے کے لحاط سے سخت ہونے کی وجہ سے مجھے زیادہ پسند آئی۔ خلیل اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بیان کرتے ہوئے فرمایا: اس امت میں ایک لشکر سندھ اور ہند کی طرف جائے گا۔ پھر ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے تھے: اگر میں اس لشکر کو پا لوں اور اس میں شریک ہو کر شہادت کے مرتبہ پر فائز ہو جائوں تو بہتر، اوراگر میں (شہید نہ ہوا)، بلکہ واپس آ گیا تو میں آزاد ابو ہریرہ بن جاؤں گا، اللہ تعالیٰ مجھے آگ سے آزاد کر دے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11970

۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11971

۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11972

۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11973

۔ (۱۱۹۷۳)۔ عَنْ أَبِی الْیَسَرِ کَعْبِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ وَاللّٰہِ! إِنَّا لَمَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِخَیْبَرَ عَشِیَّۃً إِذْ أَقْبَلَتْ غَنَمٌ لِرَجُلٍ مِنْ یَہُودَ تُرِیدُ حِصْنَہُمْ، وَنَحْنُ مُحَاصِرُوہُمْ إِذْ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَنْ رَجُلٌ یُطْعِمُنَا مِنْ ہٰذِہِ الْغَنَمِ؟)) قَالَ أَبُو الْیَسَرِ: فَقُلْتُ: أَنَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، قَالَ: ((فَافْعَلْ۔)) قَالَ: فَخَرَجْتُ أَشْتَدُّ مِثْلَ الظَّلِیمِ فَلَمَّا نَظَرَ إِلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُوَلِّیًا قَالَ: ((اللَّہُمَّ أَمْتِعْنَا بِہِ۔)) قَالَ: فَأَدْرَکْتُ الْغَنَمَ وَقَدْ دَخَلَتْ أَوَائِلُہَا الْحِصْنَ، فَأَخَذْتُ شَاتَیْنِ مِنْ أُخْرَاہَا فَاحْتَضَنْتُہُمَا تَحْتَ یَدَیَّ، ثُمَّ أَقْبَلْتُ بِہِمَا أَشْتَدُّ کَأَنَّہُ لَیْسَ مَعِی شَیْئٌ حَتَّی أَلْقَیْتُہُمَا عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَذَبَحُوہُمَا فَأَکَلُوہُمَا، فَکَانَ أَبُو الْیَسَرِ مِنْ آخِرِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہَلَاکًا، فَکَانَ إِذَا حَدَّثَ بِہٰذَا الْحَدِیثِ بَکٰی ثُمَّ یَقُولُ: أَمْتِعُوا بِی لَعَمْرِی کُنْتُ آخِرَہُمْ، (قَالَ جَامِعُہُ رَحِمَہُ اللّٰہُ: وَاللّٰہِ لَقَدْ جَائَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ آخِرَ مَنَاقِبِ الصَّحَابَۃِ بِدُوْنِ قَصْدٍ وَقَدْ جَائَ فِیْ آخِرِہِ: لَعَمْرِیْ کُنْتُ آخِرَھُمْ)۔ (مسند احمد: ۱۵۶۱۰)
سیدناابوالیسر کعب بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم دن کے پچھلے پہر خیبر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے کہ ایکیہودی کا بکریوں کا ریوڑ آیا، جو قلعہ کے اندر جانا چاہتا تھا اور ہم ان یہودیوں کا محاصرہ کئے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کون سا جوان ہمیں ان بکریوں میں سے پکڑ کر کھلائے گا؟ ابو الیسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس خدمت کے لیے میں حاضر ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے، کاروائی کرو۔ ابو الیسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں فوراً شتر مرغ کی طرح دوڑتا ہو اگیا، جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے جاتے دیکھا تو فرمایا: یا اللہ! ہمیں اس کے ذریعے فائدہ پہنچا۔ میں بکریوں تک پہنچ گیا، ریوڑ کا پہلا حصہ قلعہ میں داخل ہو چکا تھا، میں نے ریوڑ کے آخری حصہ میں سے دو بکریوں کو قابو کر لیا اور میں نے ان کو اپنے بازو کے نیچے بغلوں میں دبا لیا اور میں ان کو لیے اس طرح دوڑتا ہوا آیا گویا کہ میں نے کوئی چیز اٹھائی ہوئی نہیں۔صحابۂ کرام نے ان بکریوں کو ذبح کرکے تناول کیا۔سیدنا ابو الیسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ صحابہ میں سے سب سے آخر میں فوت ہونے والے صحابی ہیں۔ جب وہ یہ واقعہ بیان کرتے تو رو پڑتے اور کہتے: مجھ سے فائدہ اٹھا لو، میری زندگی کی قسم! میں اس وقت آخری صحابی زندہ ہوں۔ اس کی کتاب کا جامع احمد عبدالرحمن بنا کہتا ہے کہ اللہ کی قسم! اتفاق سے بلا قصد یہ حدیث مناقب صحابہ کے آخر میں آگئی ہے۔ اور اس حدیث کے آخری الفاظ بھی اتفاق سے یہی ہیں کہ میں اس وقت آخری صحابی زندہ ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11974

۔ (۱۱۹۷۴)۔ عَنْ أَسْمَائَ قَالَتْ: صَنَعْتُ سُفْرَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی بَیْتِ أَبِی بَکْرٍ حِینَ أَرَادَ أَنْ یُہَاجِرَ قَالَتْ: فَلَمْ نَجِدْ لِسُفْرَتِہِ وَلَا لِسِقَائِہِ مَا نَرْبِطُہُمَا بِہِ، قَالَتْ: فَقُلْتُ لِأَبِی بَکْرٍ: وَاللّٰہِ! مَا أَجِدُ شَیْئًا أَرْبِطُہُ بِہِ إِلَّا نِطَاقِی، قَالَ: فَقَالَ: شُقِّیہِ بِاثْنَیْنِ فَارْبِطِی بِوَاحِدٍ السِّقَائَ وَالْآخَرِ السُّفْرَۃَ، فَلِذٰلِکَ سُمِّیَتْ ذَاتَ النِّطَاقَیْنِ۔ (مسند احمد: ۲۷۴۶۷)
سیدہ اسمائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ ہجرت کے موقع پر میں نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے زاد راہ تیار کیا، آپ کے تھیلے اور مشکیزے کو باندھنے کے لیے ہمیں کوئی چیز دستیاب نہ ہوئی، میں نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے عرض کیا:اللہ کی قسم! اس سامان کو باندھنے کے لیے میرے کمر بند کے سوا اور کوئی چیز موجود نہیں ہے۔سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم اس کے دو حصے کرکے ایک سے کھانے کا اور ایک سے پینے کا سامان باندھ دو۔ اسی وجہ سے سیدہ اسمائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا نام ذات النطاقین پڑ گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11975

۔ (۱۱۹۷۵)۔ عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِی بَکْرٍ قَالَتْ: تَزَوَّجَنِی الزُّبَیْرُ وَمَا لَہُ فِی الْأَرْضِ مِنْ مَالٍ وَلَا مَمْلُوکٍ وَلَا شَیْئٍ غَیْرَ فَرَسِہِ، قَالَتْ: فَکُنْتُ أَعْلِفُ فَرَسَہُ وَأَکْفِیہِ مَئُونَتَہُ وَأَسُوسُہُ وَأَدُقُّ النَّوٰی لِنَاضِحِہِ أَعْلِبُ وَأَسْتَقِی الْمَائَ وَأَخْرُزُ غَرْبَہُ، وَأَعْجِنُ وَلَمْ أَکُنْ أُحْسِنُ أَخْبِزُ، فَکَانَ یَخْبِزُ لِی جَارَاتٌ مِنَ الْأَنْصَارِ وَکُنَّ نِسْوَۃَ صِدْقٍ، وَکُنْتُ أَنْقُلُ النَّوٰی مِنْ أَرْضِ الزُّبَیْرِ الَّتِی أَقْطَعَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی رَأْسِی، وَہِیَ مِنِّی عَلٰی ثُلُثَیْ فَرْسَخٍ، قَالَتْ: فَجِئْتُ یَوْمًا وَالنَّوٰی عَلٰی رَأْسِی، فَلَقِیتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَعَہُ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِہِ فَدَعَانِی ثُمَّ قَالَ: ((إِخْ إِخْ۔)) لِیَحْمِلَنِی خَلْفَہُ قَالَتْ: فَاسْتَحْیَیْتُ أَنْ أَسِیرَ مَعَ الرِّجَالِ وَذَکَرْتُ الزُّبَیْرَ وَغَیْرَتَہُ، قَالَتْ: وَکَانَ أَغْیَرَ النَّاسِ فَعَرَفَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنِّی قَدِ اسْتَحْیَیْتُ فَمَضٰی، وَجِئْتُ الزُّبَیْرَ فَقُلْتُ: لَقِیَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعَلٰی رَأْسِی النَّوٰی وَمَعَہُ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِہِ، فَأَنَاخَ لِأَرْکَبَ مَعَہُ فَاسْتَحْیَیْتُ وَعَرَفْتُ غَیْرَتَکَ، فَقَالَ: وَاللّٰہِ! لَحَمْلُکِ النَّوٰی أَشَدُّ عَلَیَّ مِنْ رُکُوبِکِ مَعَہُ، قَالَتْ: حَتّٰی أَرْسَلَ إِلَیَّ أَبُو بَکْرٍ بَعْدَ ذٰلِکَ بِخَادِمٍ فَکَفَتْنِیْ سَیَاسَۃَ الْفَرَسِ فَکَاَنَّمَا اَعْتَقَتْنِیْ۔ (مسند احمد: ۲۷۴۷۶)
سیدہ اسماء بنت ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے نکاح کر لیا، جبکہ ان کے پاس ایک گھوڑے کے سوا مال، غلام اور کوئی چیز، غرضیکہ کچھ بھی نہیں تھا، میں ہی ان کے گھوڑے کو گھاس ڈالتی، اس کی ضروریات پوری کرتی اور میں گھوڑے کو گھما پھرا لاتی اور میں ان کے اونٹ کے لیے کھجور کی گٹھلیاں کوٹتی پیستی، اسے گھاس ڈالتی اور اس پر پانی لاد لاتی، پانی کا ڈول پھٹ جاتا تو اس کی مرمت کرتی، آٹا گوندھتی، میں اچھی طرح روٹی پکانا نہیں جانتی تھی، اس لیے میری ہمسایہ انصاری خواتین مجھے روٹی پکا دیتی تھیں،یہ بڑی اچھی عورتیں تھیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جو زمین سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو عنایت کیا تھا وہ تقریباً دو میل دور تھا، میں وہاں سے گٹھلیاں سر پر لاد کر لاتی۔ ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صحابہ کے ساتھ آرہے تھے کہ راستے میں مجھ سے ملاقات ہوگئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے آواز دے کر اپنے پیچھے مجھے سوار کرنے کے لیے اپنی سواری کو روکنے کی آواز دی، لیکن مجھے مردوں کے ساتھ سفر کرنے میں جھجک محسوس ہوئی۔ ساتھ ہی مجھے سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کی غیرت بھییاد آئی، وہ سب سے زیادہ غیرت مند تھے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جان گئے کہ میں آپ کے ساتھ سوار ہونے سے جھجک رہی ہوں، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چل دیئے۔ میں نے سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس جا کر ان کو بتلایا کہ میرے سر پر گٹھلیاں تھیں۔ راستے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابۂ کرام مل گئے، آپ نے مجھے اپنے ساتھ سوار کرنے کے لیے سواری کو بٹھانے ارادہ کیا، لیکن میں تو شرما گئی اور میں آپ کی غیرت کو بھی جانتی ہوں۔ یہ سن کر سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میرے نزدیک تمہارے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ سوار ہونے سے تمہارا گٹھلیاں اٹھا کر لانامیرے لیے زیادہ ناگوار ہے۔ سیدہ اسمائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میرییہی صورت حال رہی،یہاں تک کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک خدامہ میری طرف بھیج دی، پھر گھوڑے کی خدمت کے سلسلہ میں اس خادمہ نے میری ذمہ داریاں سنبھال لیں، اس نے آکر گویا مجھے آزاد کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11976

۔ (۱۱۹۷۶)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ نَفَرًا مِنْ بَنِی ہَاشِمٍ دَخَلُوْا عَلٰی أَسْمَائَ بِنْتِ عُمَیْسٍ، فَدَخَلَ أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّیقُ وَہِیَ تَحْتَہُ یَوْمَئِذٍ فَرَآہُمْ فَکَرِہَ ذٰلِکَ، فَذَکَرَ ذٰلِکَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: لَمْ أَرَ إِلَّا خَیْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ اللّٰہَ قَدْ بَرَّأَہَا مِنْ ذٰلِکَ۔))) ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ: ((لَا یَدْخُلَنَّ رَجُلٌ بَعْدَ یَوْمِی ہٰذَا عَلٰی مُغِیبَۃٍ إِلَّا وَمَعَہُ رَجُلٌ أَوْ اثْنَانِ۔)) (مسند احمد: ۶۷۴۴)
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ بنو ہاشم کے کچھ لوگ سیدہ اسماء بنت عمیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں گئے، وہ ان دنوں ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی زوجیت میں تھیں، وہ لوگ بیٹھے ہی تھے کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگئے، انہوںنے ان لوگوں کو اپنی اہلیہ کے ہاں دیکھا تو انہیںیہ بات ناگوار گزری۔ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس واقعہ کا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کیا اور کہا کہ میں نے کوئی قابل اعتراض بات تو نہیں دیکھی بلکہ میں نے تو اچھی بات ہی دیکھی ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اسماء کو ایسی باتوں سے محفوظ رکھا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا: آج کے بعد کوئی آدمی اکیلا کسی ایسی خاتون کے ہاں نہ جائے، جس کا خاوند گھر پر نہ ہو، الایہ کہ اس کے ساتھ ایک دو آدمی اس کے ساتھ ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11977

۔ (۱۱۹۷۷)۔ عَن أَبِی مُوسٰی قَالَ: لَقِیَ عُمَرُ أَسْمَائَ بِنْتَ عُمَیْسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالَی عَنْہُمَا فَقَالَ: نِعْمَ الْقَوْمُ أَنْتُمْ لَوْلَا أَنَّکُمْ سُبِقْتُمْ بِالْہِجْرَۃِ وَنَحْنُ أَفْضَلُ مِنْکُمْ، قَالَتْ: کُنْتُمْ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُعَلِّمُ جَاہِلَکُمْ وَیَحْمِلُ رَاجِلَکُمْ وَفَرَرْنَا بِدِینِنَا، فَقَالَتْ: لَا أَنْتَہِی حَتّٰی أَدْخُلَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَخَلَتْ: فَذَکَرَتْ مَا قَالَ لَہَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالَی عَنْہُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((بَلْ لَکُمُ الْہِجْرَۃُ مَرَّتَیْنِ ہِجْرَتُکُمْ ھِجْرَتُکُمْ إِلَی الْحَبْشَۃِ وَھِجْرَتُکُمْ إِلَی الْمَدِیْنَۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۹۹۳۰)
سیدنا ابو موسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی سیدہ اسماء بنت عمیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے ملاقات ہو گئی تو انھوں نے کہا: تم بڑے اچھے لوگ ہو، بس یہ بات ہے کہ لوگ تم سے پہلے ہجرت کر آئے ہیں اور ہم تم سے افضل ہیں۔ سیدہ اسماء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: آپ لوگ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ہوتے تھے، تمہیں جس چیز کا علم نہ ہوتا، اللہ کے رسول تمہیں تعلیم دیتے اور تم میں سے جس کے پاس سواری نہ ہوتی، اللہ کے رسول اسے سواری عنایت کر دیتے اور ہم اپنے دین کو بچاتے ہوئے فرار ہوگئے تھے۔ بہرحال میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جا کر آپ سے ضرور اس بات کا ذکر کروں گی، چنانچہ انہوںنے جا کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی ساری بات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کی، تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہیں دو ہجرتوں کا ثواب ملے گا، ایک حبشہ کی طرف اور ایک مدینہ کی طرف۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11978

۔ (۱۱۹۷۸)۔ عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ عَنْ أُمِّ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَۃَ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُہْدِیَتْ لَہُ ہَدِیَّۃٌ فِیہَا قِلَادَۃٌ مِنْ جَزْعٍ، فَقَالَ: ((لَأَدْفَعَنَّہَا إِلٰی أَحَبِّ أَہْلِی إِلَیَّ۔)) فَقَالَتِ النِّسَائُ ذَہَبَتْ بِہَا ابْنَۃُ أَبِی قُحَافَۃَ فَدَعَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُمَامَۃَ بِنْتَ زَیْنَبَ فَعَلَّقَہَا فِی عُنُقِہَا۔ (مسند احمد: ۲۵۲۱۱)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں ایک ہدیہ پیش کیا گیا، اس میںیمنی موتیوں کا ایک ہار بھی تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں یہ ہار اپنے اہل میں سے اسے دوں گا، جو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ عورتوں نے سمجھا کہ اس ہار کو ابو قحافہ کی بیٹییعنی سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا لے جائیں گی، مگر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی نواسی سیدہ امامہ بنت زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو بلوا کر وہ ہار ان کی گردن میں ڈال دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11979

۔ (۱۱۹۷۹)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ فِی بَرِیرَۃَ ثَلَاثُ قَضِیَّاتٍ، أَرَادَ أَہْلُہَا أَنْ یَبِیعُوہَا وَیَشْتَرِطُوا الْوَلَائَ، فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((اشْتَرِیہَا فَأَعْتِقِیہَا فَإِنَّمَا الْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ۔)) قَالَ: وَعُتِقَتْ فَخَیَّرَہَا (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: وَکَانَتْ تَحْتَ عَبْدٍ فَلَمَّا اَعْتَقَتْہَا قَالَ لَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : اخْتَارِیْ فَاِنْ شِئْتِ أَنْ تَمْکُثِیْ تَحْتَ ھٰذَا الْعَبْدِ، وَاِنْ شِئْتِ أَنْ تُفَارِقِیْہِ فَاخْتَارَتْ نَفْسَہَا) رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاخْتَارَتْ نَفْسَہَا، قَالَتْ: وَکَانَ النَّاسُ یَتَصَدَّقُونَ عَلَیْہَا فَتُہْدِی لَنَا، فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((ہُوَ عَلَیْہَا صَدَقَۃٌ وَہُوَ لَکُمْ ہَدِیَّۃٌ فَکُلُوہُ۔)) (مسند احمد: ۲۴۶۹۱)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ سیدہ بریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے واقعہ میں تین مسائل ہیں، اس کے اہل خانہ نے ان کو اس شرط پر فروخت کرنا چاہا کہ اس کی ولاء ان کا حق ہو گا، جب میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اسے خرید کر آزاد کر دو، ولاء کا تعلق اسی کے ساتھ ہوتا ہے، جو آزاد کرے۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: پس میں نے ان کو آزاد کیا تو وہ ان دنوں ایک غلام (مغیث) کی زوجیت میں تھیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: تمہیں اختیار ہے، تم چاہو تو اس غلام کی زوجیت میں رہ سکتی ہو اور اگر چاہو تو اس سے مفارقت اختیار کر سکتی ہو۔ انہوں نے اپنے لیے اس سے مفارقت کو پسند کر لیا،تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ سیدہ بریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو صدقات دیا کرتے تھے اور وہ انہی صدقات میں سے کچھ حصہ بطور تحفہ ہمیں دے دیاکرتی تھی، جب میں نے اس بات کا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے اور تمہارے لیے اس کی طرف سے ہدیہ اورتحفہ ہوتا ہے، پس تم یہ کھانا کھا سکتی ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11980

۔ (۱۱۹۸۰)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَیْرَۃَ، عَنْ دُرَّۃَ بِنْتِ أَبِی لَہَبٍ قَالَتْ: کُنْتُ عِنْدَ عَائِشَۃَ فَدَخَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((ائْتُونِی بِوَضُوئٍ۔)) قَالَتْ: فَابْتَدَرْتُ أَنَا وَعَائِشَۃُ الْکُوزَ فَأَخَذْتُہُ أَنَا فَتَوَضَّأَ فَرَفَعَ بَصَرَہُ إِلَیَّ أَوْ طَرْفَہُ إِلَیَّ وَقَالَ: ((أَنْتِ مِنِّی وَأَنَا مِنْکِ۔)) (مسند احمد: ۲۴۸۹۱)
سیدہ درہ بنت ابی لہب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس موجود تھی کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے آئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وضو کے لیے پانی طلب فرمایا، تو میں اور سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا پانی کے برتن کی طرف لپکیں اورمیں نے پانی کا برتن پکڑ لیا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وضو کیا اور میری طرف نظر اٹھا کر فرمایا: تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11981

۔ (۱۱۹۸۱)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ فَسَمِعْتُ خَشَفَۃً فَقُلْتُ: مَا ہٰذِہِ الْخَشَفَۃَ؟ فَقِیلَ ہٰذِہِ الرُّمَیْصَائُ بِنْتُ مِلْحَانَ۔)) (مسند احمد: ۱۳۸۶۵)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں جنت میں گیا تو میں نے وہاں چلنے کی آہٹ سنی، میں نے پوچھا کہ یہ کیسی آہٹ ہے؟ تو مجھے بتلایا گیا کہ یہ رمیصاء بنت ملحان کے چلنے کی آواز ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11982

۔ (۱۱۹۸۲)۔ (وَعَنْہٗ بِلَفْظٍ اَخَرَ) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ فَسَمِعْتُ خَشْخَشَۃَ بَیْنَ یَدِیْ فَإِذَا ھِیَ الْغُمَیْصَائُ بِنْتُ مِلْحَانَ۔)) وَھِیَ أُمُّ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ۔ (مسند احمد: ۱۳۵۴۸)
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے اپنے سامنے آہٹ سی سنی، وہ غمیصاء بنت ملحان تھی۔ یہ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی والدہ تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11983

۔ (۱۱۹۸۳)۔ وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَرَیْتُنِیْ دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ فَاِذَا أَنَا بِالرُّمَیْصَائِ امْرَأَۃِ اَبِیْ طَلْحَۃَ۔)) (مسند احمد: ۱۵۲۵۷)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’مجھے خواب میں دکھلایا گیا کہ میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے وہاں ابو طلحہ کی اہلیہ رمیصاء کو پایا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11984

۔ (۱۱۹۸۴)۔ عَنْ اَنَسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: مَاتَ ابْنٌ لاَبِی طَلْحَۃَ مِنْ اُمِّ سُلَیْمٍ فَقَالَتْ: لِاَھْلِھَا لَا تُحِدِّثُوْا اَبَاطَلْحَۃَ بِاِبْنِہِ حَتّٰی اَکُوْنَ اَنَا اُحَدِّثُہُ، قَالَ: فَجَائَ فَقَرَّبَتْ اِلَیْہِ عَشَائً فَاَکَلَ وَشَرِبَ، قَالَ: ثُمَّ تَصَنَّعَتْ لَہُ اَحْسَنَ مَاکَانَتْ تَصَنَّعُ قَبْلَ ذٰلِکَ، فَوَقَعَ بِھَا، فَلَمَّا رَاَتْ اَنَّہُ قَدْ شَبِعَ وَاَصَابَ مِنْھَا، قَالَتْ: یَا اَبَاطَلْحَۃَ اَرَاَیْتَ اَنَّ قَوْمًا اَعَارُوْا عَارِیَتَھُمْ اَھْلَ بَیْتٍ وَطَلَبُوْا عَارِیَتَھُمْ اَلَھُمْ اَنْ یَمْنَعُوْھُمْ؟ قَالَ:لَا، قَالَتْ: فَاحْتَسِبِ ابْنَکَ، فَانْطَلَقَ حَتّٰی اَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاَخْبَرَہُ بِمَا کَانَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بَارَکَ اللّٰہُ لَکَمَا فِیْ غَابِرِ لَیْلَتِکُمَا۔)) قَالَ: فَحَمَلَتْ قَالَ: فَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ سَفَرٍ وَھِیَ مَعَہُ ،وکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِذَا اَتَی الْمِدِیْنَۃَ مِنْ سَفَرٍ لَا یَطْرُقُھَا طُرُوْقًا، فَدَنَوْا مِنَ الْمَدِیْنَۃِ فَضَرَبَھَا الْمَخَاضُ، وَاحْتَبَسَ عَلَیْھَا اَبُوْطَلْحَۃَ وَانْطَلَقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ اَبُوْ طَلْحَۃَ: یَارَبِّ! اِنَّکَ لَتَعْلَمُ اَنَّہُ یُعْجِبُنِیْ اَنْ اَخْرُجَ مَعَ رَسُوْلِکَ اِذَا خَرَجَ، وَاَدْخُلَ مَعَہُ اِذَا دَخَلَ، وَقَدِ احْتَبَسْتُ بِمَا تَرٰی، قَالَ: تَقُوْلُ اُمُّ سُلَیْمٍ: یَا اَبَاطَلْحَۃَ مَا اَجِدُ الَّذِیْ کُنْتُ اَجِدُ فَانْطَلَقْنَا، قَالَ: وَضَرَبَھَا الْمَخَاضُ حِیْنَ قَدِمُوْا فَوَلَدَتْ غُلَامًا، فَقَالَتْ لِیْ اُمِّیْ: یَا اَنَسُ! لَا یُرْضِعَنَّہُ اَحَدٌ حَتّٰی تَغْدُوَ بِہٖ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَصَادَفْتُہُ وَمَعَہُ مِیْسَمٌ فَلَمَّا رَآنِی قَالَ: ((لَعَلَّ اُمَّ سُلَیْمٍ وَلَدَتْ؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَضَعَ الْمِیْسَمَ قَالَ: فَجِئْتُ بِہٖ فَوَضَعْتُہُ فِیْ حِجْرِہِ قَالَ: وَدَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِعَجْوَۃٍ مِنْ عَجْوَۃِ الْمَدِیْنَۃِ فَلَا کَھَا فِیْ فِیْہِ حَتّٰی ذَابَتْ ثُمَّ قَذَفَھَافِیْ فِی الصَّبِیِّ فَجَعَلَ الصَّبِیُّ یَتَلَمَّظُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اُنْظُرُوْا اِلٰی حُبِّ الْاَنْصَارِ التَّمْرَ۔))، قَالَ: فَمَسَحَ وَجْھَہَ وَسَمَّاہُ عَبْدَ اللّٰہِ۔ (مسند احمد: ۱۳۰۵۷)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابو طلحہ اور سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کا بیٹا فوت ہو گیا، سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اپنے اہل والوں سے کہا: تم نے ابو طلحہ کو اس کے بیٹے کے بارے میں نہیں بتلانا، میں خود اس کو بتاؤں گی، پس جب وہ آئے تو اس نے ان کو شام کا کھانا پیش کیا، انھوں نے کھانا کھایا اور مشروب پیا، پھر سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اپنے خاوند کے لیے اچھی طرح تیاری کی، جیسا کہ وہ پہلے کرتی تھیں، پس انھوں نے ان سے جماع کیا، جب ام سلیم نے دیکھا کہ اس کاخاوند خوب سیر ہو گیا اور حق زوجیت بھیادا کر لیا تو اس نے کہا: اے ابو طلحہ! اس کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے کہ لوگ ایک گھر والوں کو کوئی چیز عاریۃً دیتے ہیں، پھر جب وہ ان سے واپس کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو کیا وہ روک سکتے ہیں؟ انھوں نے کہا: نہیں، نہیں روک سکتے، ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: تو پھر اپنے بیٹے کی وفات پر ثواب کی نیت سے صبر کر، سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ چل پڑے، یہاں تک کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سارے ماجرے کی خبر دی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری گزشتہ رات میں برکت فرمائے۔ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو حمل ہو گیا، ایک دفعہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سفر میں تھے اور ام سلیم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھیں، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سفر سے واپسی پر مدینہ آتے تھے تو رات کو شہر میں داخل نہیں ہو تے تھے، پس جب وہ مدینہ کے قریب پہنچے تو ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو دردِ زہ شروع ہو گیا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو آگے چل دیئے، لیکن سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی بیوی کے پاس رک گئے اور انھوں نے کہا: اے میرے ربّ! تو جانتا ہے کہ مجھے یہ بات پسند لگتی ہے کہ تیرے رسول کے ساتھ سفر میں نکلوں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ہی مدینہ میں داخل ہوں، لیکن اب تو دیکھ رہا ہے کہ میں رک گیا ہوں، اتنے میں ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: جو چیز میں پہلے پاتی تھی، ابھی وہ نہیں پا رہی، پس ہم چل پڑے اور جب مدینہ پہنچے تو دوبارہ دردِ زہ شروع ہوا اور انھوں نے بچہ جنم دیا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میری ماں نے مجھے کہا: اے انس! کوئی بھی اس کو دودھ نہ پلائے، یہاں تک کہ تو صبح کو اس کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لے جائے، وہ کہتے ہیں: میں بچہ لے کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس حال میں پایا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جانوروں کو داغنے والا ایک آلہ تھا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا: شاید ام سلیم نے بچہ جنم دیا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ آلہ رکھ دیا، میں بچے کو لے کر آگے بڑھا اور اس کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی گودی میں رکھ دیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مدینہ کی عجوہ کھجورمنگوائی، اس کو اپنے منہ مبارک میں ڈال کر چبایا،یہاں تک کہ وہ نرم ہو گئی، پھر اس کو بچے کے منہ میں ڈالا اور بچہ زبان پھیر کر اس کو نگلنے لگ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دیکھو کہ انصاریوں کو کھجور سے کتنی محبت ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور اس کا نام عبد اللہ رکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11985

۔ (۱۱۹۸۵)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدْخُلُ بَیْتَ أُمِّ سُلَیْمٍ وَیَنَامُ عَلٰی فِرَاشِہَا وَلَیْسَتْ فِی بَیْتِہَا، قَالَ: فَأُتِیَتْ یَوْمًا فَقِیلَ لَہَا ہٰذَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَائِمٌ عَلٰی فِرَاشِکِ، قَالَتْ: فَجِئْتُ وَذَاکَ فِی الصَّیْفِ فَعَرِقَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتَّی اسْتَنْقَعَ عَرَقُہُ عَلٰی قِطْعَۃِ أَدَمٍ عَلَی الْفِرَاشِ، فَجَعَلْتُ أُنَشِّفُ ذٰلِکَ الْعَرَقَ وَأَعْصِرُہُ فِی قَارُورَۃٍ، فَفَزِعَ وَأَنَا أَصْنَعُ ذٰلِکَ، فَقَالَ: ((مَا تَصْنَعِینَ یَا أُمَّ سُلَیْمٍ؟)) قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! نَرْجُوْ بَرَکَتَہُ لِصِبْیَانِنَا، قَالَ: ((أَصَبْتِ۔)) (مسند احمد: ۱۳۳۹۹)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں تشریف لایا کرتے اور ان کے بستر پر سو جایا کرتے تھے، ایسا بھی ہوتا کہ وہ اپنے گھر پر موجود نہیں ہوتی تھیں، وہ ایک دن گھر تشریف لائیں تو ان کو بتلایا گیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تمہارے بستر پر سوئے ہوئے ہیں، گرمی کا موسم تھا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس قدر پسینہ آیا ہوا تھا کہ وہ بستر کے چمڑے کے ٹکڑے پر گر رہا تھا۔ سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پسینہ کو نچوڑ نچوڑ کر ایک شیشی میں جمع کرنے لگی، میں یہ کام کر رہی تھی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیدار ہو گئے اور فرمایا: ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تم یہ کیا کر رہی ہو؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم اسے اپنے بچوں کے لیے بطور تبرک استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: درست کر رہی ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11986

۔ (۱۱۹۸۶)۔ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ عَنْ أَنَسٍ) قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقِیلُ عِنْدَ أُمِّ سُلَیْمٍ، وَکَانَ مِنْ أَکْثَرِ النَّاسِ عَرَقًا فَاتَّخَذَتْ لَہُ نِطَعًا فَکَانَ یَقِیلُ عَلَیْہِ، وَخَطَّتْ بَیْنَ رِجْلَیْہِ خَطًّا فَکَانَتْ تُنَشِّفُ الْعَرَقَ فَتَأْخُذُہُ، فَقَالَ: ((مَا ہٰذَا یَا أُمَّ سُلَیْمٍ؟)) فَقَالَتْ: عَرَقُکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَجْعَلُہُ فِی طِیبِی، فَدَعَا لَہَا بِدُعَائٍ حَسَنٍ۔ (مسند احمد: ۱۳۴۵۶)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں جا کر قیلولہ کیا کرتے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پسینہ بہت زیادہ آتا تھا، سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے چمڑے کا ایک بچھونا تیار کیا، جس پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قیلولہ کیا کرتے تھے۔ سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا آپ کے پائوں کے درمیان ایک لکیر سی بنا دی تھی۔ وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پسینے کو نچوڑ کر جمع کر لیتی تھیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت کیا کہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ! یہ کیا کر رہی ہو؟ انہوںنے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ آپ کا پسینہ ہے، میں اسے اپنی خوشبو میں ملائوں گی، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے حق میں بہترین دعا فرمائی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11987

۔ (۱۱۹۸۷)۔ وَفِیْ رِوَایَۃٍ عَنْہٗ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَأْتِی بَیْتَ أُمِّ سُلَیْمٍ فَیَنَامُ عَلٰی فِرَاشِہَا وَلَیْسَتْ أُمُّ سُلَیْمٍ فِی بَیْتِہَا فَتَأْتِیْ فَتَجِدُہُ نَائِمًا، وَکَانَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃ وَالسَّلَامُ إِذَا نَامَ ذَفَّ عَرَقًا، فَتَأْخُذُ عَرَقَہُ بِقُطْنَۃٍ فِی قَارُورَۃٍ فَتَجْعَلُہُ فِی مِسْکِہَا۔ (مسند احمد: ۱۳۴۴۲)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے گھر تشریف لے جاتے اور ان کے بستر پر سو جاتے تھے،جبکہ بسا اوقات ایسے ہوتا کہ سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا گھر پر موجود نہیں ہوتی تھیں، جب وہ آتیں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سویا ہواپاتیں تھیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب سوتے تو آپ کو اتنا پسینہ آتا کہ بہنے لگتا۔ وہ آپ کے پسینہ کو روئی سے جمع کرکے اسے شیشی میں نچوڑ لیتیں اور پھر اسے اپنی کستوری میں ملا لیتیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11988

۔ (۱۱۹۸۸)۔ عَنْ حُمَیْدٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی أُمِّ سُلَیْمٍ فَأَتَتْہُ بِتَمْرٍ وَسَمْنٍ وَکَانَ صَائِمًا، فَقَالَ: ((أَعِیدُوْا تَمْرَکُمْ فِی وِعَائِہِ وَسَمْنَکُمْ فِی سِقَائِہِ۔)) ثُمَّ قَامَ إِلٰی نَاحِیَۃِ الْبَیْتِ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ وَصَلَّیْنَا مَعَہُ، ثُمَّ دَعَا لِأُمِّ سُلَیْمٍ وَلِأَہْلِہَا بِخَیْرٍ، فَقَالَتْ: أُمُّ سُلَیْمٍ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ لِی خُوَیْصَّۃً، قَالَ: ((وَمَا ہِیَ۔)) قَالَتْ: خَادِمُکَ أَنَسٌ، قَالَ: فَمَا تَرَکَ خَیْرَ آخِرَۃٍ وَلَا دُنْیَا إِلَّا دَعَا لِی بِہِ، وَقَالَ: ((اَللّٰہُمَّ ارْزُقْہُ مَالًا وَوَلَدًا، وَبَارِکْ لَہُ فِیہِ۔)) قَالَ: فَمَا مِنَ الْأَنْصَارِ إِنْسَانٌ أَکْثَرُ مِنِّی مَالًا، وَذَکَرَ أَنَّہُ لَا یَمْلِکُ ذَہَبًا وَلَا فِضَّۃً غَیْرَ خَاتَمِہِ، قَالَ: وَذَکَرَ أَنَّ ابْنَتَہُ الْکُبْرٰی أُمَیْنَۃَ أَخْبَرَتْہُ أَنَّہُ دُفِنَ مِنْ صُلْبِہِ إِلٰی مَقْدَمِ الْحَجَّاجِ نَیِّفًا عَلٰی عِشْرِینَ وَمِائَۃٍ۔ (مسند احمد: ۱۲۰۷۶)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں تشریف لے گئے، انہوںنے آپ کی خدمت میں کھجوریں اور گھی پیش کیا،لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس دن روزے سے تھے، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کھجوریں ان کے تھیلے میں اور گھی اس کے ڈبے میں واپس رکھ دو۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے گھر کے ایک کونے میں کھڑے ہو کر دو رکعتیں ادا کیں، ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر آپ نے سیدنا ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے اہل خانہ کے حق میں برکت کی دعا کی۔ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میری ایک خصوصی درخواست ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: وہ کیا؟ انہوںنے کہا: یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خادم سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہے، اس کے حق میں خصوصی دعا کر دیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دنیا و آخرت کی ہر خیر کی میرے حق میں دعا کر دی اور فرمایا: یا اللہ! اسے بہت سا مال اور اولاد عنایت فرما اور اس کے لیے ان میں برکت فرما۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ تمام انصار میں سے کسی کے پاس مجھ سے زیادہ دولت نہیں، جبکہ اس سے پہلے ان کے پاس صرف ایک انگوٹھی تھی اور ان کی بڑی بیٹی امینہ نے بتلایا کہ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے حجاج بن یوسف کے آنے سے پہلے تک اپنی اولاد میں سے تقریباً ایک پچیس چھبیس افراد کو دفن کیا گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11989

۔ (۱۱۹۸۹)۔ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ أُمَّ سُلَیْمٍ کَانَتْ مَعَ أَبِی طَلْحَۃَ یَوْمَ حُنَیْنٍ فَإِذَا مَعَ أُمِّ سُلَیْمٍ خِنْجَرٌ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَۃَ: مَا ہٰذَا مَعَکِ یَا أُمَّ سُلَیْمٍ؟ فَقَالَتْ أُمُّ سُلَیْمٍ: اتَّخَذْتُہُ إِنْ دَنَا مِنِّی أَحَدٌ مِنَ الْکُفَّارِ أَبْعَجُ بِہِ بَطْنَہُ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَۃَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ أَلَا تَسْمَعُ مَا تَقُولُ أُمُّ سُلَیْمٍ؟ تَقُولُ کَذَا وَکَذَا، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أُقْتُلُ مَنْ بَعْدَنَا مِنَ الطُّلَقَائِ انْہَزَمُوا بِکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، فَقَالَ: ((یَا أُمَّ سُلَیْمٍ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ کَفَانَا وَأَحْسَنَ۔)) (مسند احمد: ۱۴۰۹۵)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا غزوۂ حنین کے موقع پر اپنے شوہر سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ تھیں، اس روز سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس ایک خنجر تھا، سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے دریافت کیا : ام سلیم !یہ آپ کے پاس کس لیے ہے؟ انھوں نے کہا: یہ میں نے اس لیے ساتھ رکھا ہے کہ اگر کوئی کافر میرے قریب آیا تو میں اس کے ساتھ اس کے پیٹ کو چاک کر دوں گی۔ یہ بات سن کر سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بات سن رہے ہیں، وہ تو یوں کہہ رہی ہے۔ سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے جن لوگوں کو مکہ میں آزاد کیا ہے ان کا ایمان کم زور ہے، وہ منافق ہیں، آپ ان کو قتل کر دیں۔ اے اللہ کے رسول! وہ آپ کو اکیلے چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ام سلیم! اللہ تعالیٰ نے ہماری مددکی اور خوب مدد کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11990

۔ (۱۱۹۹۰)۔ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ) عَنْ أَنَسٍ قَالَ: لَمَّا انْہَزَمَ الْمُسْلِمُونَ یَوْمَ حُنَیْنٍ نَادَتْ أُمُّ سُلَیْمٍ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! اقْتُلْ مَنْ بَعْدَنَا انْہَزَمُوْا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا أُمَّ سُلَیْمٍ! إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ کَفٰی۔)) قَالَ: فَأَتَاہَا أَبُوْ طَلْحَۃَ وَمَعَہَا مِعْوَلٌ، فَقَالَ: مَا ہٰذَا یَا أُمَّ سُلَیْمٍ؟ قَالَتْ: إِنْ دَنَا مِنِّی أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ بَعَجْتُہُ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو طَلْحَۃَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! انْظُرْ مَا تَقُولُ أُمُّ سُلَیْمٍ۔ (مسند احمد: ۱۲۰۸۱)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ایک اور روایت میں ہے کہ حنین کے دن جب مسلمان شکست کھا گئے تو سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے آواز دی: اے اللہ کے رسول!جولوگ ہم سے بعد والے ہیں، آپ انہیں قتل کر دیں،یہ لوگ آپ کو اکیلے چھوڑ کر نکل بھاگے ہیں۔ لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ام سلیم! اللہ تعالیٰ نے ہماری خوب مدد کی ہے۔ سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے شوہر سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے پاس آئے تو ان کے پس ایک گینتی دیکھی اورپوچھا: ام سلیم! یہ کیا ہے؟ انہوںنے جواب دیا:اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا تو میں اس کا پیٹ چاک کر دوں گی۔ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! دیکھئے، ام سلیم کیا کہہ رہی ہے؟
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11991

۔ (۱۱۹۹۱)۔ عَنْ أَنَسِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ أُمَّ أَیْمَنَ بَکَتْ لَمَّا قُبِضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقِیْلَ لَھَا: مَا یُبْکِیْکِ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ فَقَالَتْ: اِنِّیْ قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَیَمُوْتُ وَلٰکِنْ اِنَّمَا أَبْکِیْ عَلَی الْوَحْیِ الَّذِیْ رُفِعَ عَنَّا۔ (مسند احمد: ۱۳۲۴۷)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا تھا تو سیدہ ام ایمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا رونے لگیں، ان سے کہا گیا کہ آپ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے انتقال پر کیوں روتی ہیں؟ تو انہوں نے کہا: میں یہ بات جانتی تھی کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عنقریب وفات پا جائیں گے، میں تو اس لیے رو رہی ہوں کہ اب وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11992

۔ (۱۱۹۹۲)۔ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّ الرَّجُلَ کَانَ جَعَلَ لَہُ، قَالَ عَفَّانُ: یَجْعَلُ لَہُ مِنْ مَالِہِ النَّخَلَاتِ أَوْ کَمَا شَائَ اللّٰہُ حَتَّی فُتِحَتْ عَلَیْہِ قُرَیْظَۃُ وَالنَّضِیرُ، قَالَ: فَجَعَلَ یَرُدُّ بَعْدَ ذٰلِکَ، وَإِنَّ أَہْلِی أَمَرُونِی أَنْ آتِیَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَسْأَلَہُ الَّذِی کَانَ أَہْلُہُ أَعْطَوْہُ أَوْ بَعْضَہُ، وَکَانَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ أَعْطَاہُ أُمَّ أَیْمَنَ أَوْ کَمَا شَائَ اللَّہُ، قَالَ: فَسَأَلْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَعْطَانِیہِنَّ فَجَاء َتْ أُمُّ أَیْمَنَ فَجَعَلَتِ الثَّوْبَ فِی عُنُقِی وَجَعَلَتْ تَقُولُ: کَلَّا وَاللّٰہِ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ لَا یُعْطِیکَہُنَّ وَقَدْ أَعْطَانِیہِنَّ، أَوْ کَمَا قَالَ: فَقَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَکِ کَذَا وَکَذَا۔)) وَتَقُولُ: کَلَّا وَاللّٰہِ، قَالَ: وَیَقُولُ: ((لَکِ کَذَا وَکَذَا۔)) قَالَ: حَتّٰی أَعْطَاہَا فَحَسِبْتُ أَنَّہُ قَالَ عَشْرُ أَمْثَالِہَا، أَوْ قَالَ قَرِیبًا مِنْ عَشْرَۃِ أَمْثَالِہَا أَوْ کَمَا قَالَ۔ (مسند احمد: ۱۳۳۲۴)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ کوئی آدمی اپنے مال میں سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے کھجوروں کے چند درخت یا حسب تو فیق کوئی چیز مقرر کر دیتا۔ جب بنو قریظہ اور بنو نضیر پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فتح نصیب ہوئی تو آپ اس کے بعد لوگوں کی طرف سے دیئے ہوئے اموال ان کو واپس کرنے لگے، میرے گھر والوں نے بھی مجھ سے کہا کہ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جا کر آپ سے اس چیز کا یا اس میں سے کچھ کا مطالبہ کروں، جو وہ آپ کو دے چکے تھے۔ میرے گھر والوں کے دیئے ہوئے کھجوروں کے درخت نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ام ایمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو اور کچھ دوسرے افراد کو دے چکے تھے، سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے جا کرنبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے درختوں کی واپسی کا مطالبہ کیا تو آپ نے مجھے وہ واپس کر دیئے۔ لیکن سیدہ ام ایمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے آکر میری گردن میں کپڑا ڈال دیااور کہنے لگیں: ہر گز نہیں، اللہ کی قسم! اللہ کے رسول یہ درخت مجھے دے چکے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اب یہ درخت تمہیں نہیں دیں گے۔ یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہیں ان کے عوض اتنے درخت دے دیتا ہوں۔ لیکن وہ کہتی جاتیں کہ ہر گز نہیں، اللہ کی قسم! اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان سے کہتے جاتے کہ آپ کوکھجور کے اتنے درخت دے دیتا ہوں، یہاں تک کہ آپ نے حسب وعدہ ان کو عنایت کر دیئے۔ سلیمان کہتے ہیںمیرا خیال ہے کہ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ آپ نے ان کو دس گنا یا دس گنا کے قریب کھجوروں کے درخت عنایت فرمائے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11993

۔ (۱۱۹۹۳)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، عَنْ أُمِّ حَرَامٍ أَنَّہَا قَالَتْ: بَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَائِلًا فِی بَیْتِی إِذْ اسْتَیْقَظَ وَہُوَ یَضْحَکُ، فَقُلْتُ: بِأَبِی وَأُمِّی أَنْتَ مَا یُضْحِکُکَ؟ فَقَالَ: ((عُرِضَ عَلَیَّ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِی یَرْکَبُونَ ظَہْرَ ہٰذَا الْبَحْرِ کَالْمُلُوکِ عَلَی الْأَسِرَّۃِ۔)) فَقُلْتُ: اُدْعُ اللّٰہَ أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْہُمْ، قَالَ: ((اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہَا مِنْہُمْ۔)) ثُمَّ نَامَ أَیْضًا فَاسْتَیْقَظَ وَہُوَ یَضْحَکُ فَقُلْتُ: بِأَبِی وَأُمِّی مَا یُضْحِکُکَ؟ قَالَ: ((عُرِضَ عَلَیَّ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِی یَرْکَبُونَ ہٰذَا الْبَحْرَ کَالْمُلُوکِ عَلَی الْأَسِرَّۃِ۔)) فَقُلْتُ: اُدْعُ اللّٰہَ أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْہُمْ، قَالَ: ((أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِینَ۔)) فَغَزَتْ مَعَ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ وَکَانَ زَوْجَہَا فَوَقَصَتْہَا بَغْلَۃٌ لَہَا شَہْبَائُ فَوَقَعَتْ فَمَاتَتْ۔ (مسند أحمد: ۲۷۵۷۲)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ ام حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے گھر میں قیلولہ کر رہے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیدار ہوئے تو آپ مسکرا رہے تھے، میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ اس سمندر پر سوار ہو رہے ہیں، وہ بادشاہوں کی طرح تختوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا: آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے ان میں سے بنا دے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! تو اس کو ان میں سے بنا دے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پھر سو گئے اور جب بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے، میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ مجھ پر پیش کیے گئے، وہ اس سمندر پر سوار ہو رہے ہیں اور ایسے لگ رہا ہے کہ وہ تختوں پر بیٹھے ہوئے بادشاہ ہیں۔ میں نے کہا: آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ مجھے بھی ان میں سے بنا دے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اوّلین لوگوں میں سے ہو۔ پھر سیدہ ام حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اپنے خاوند سیدنا عبادہ بن صامت کے ساتھ اس غزوے کے لیے نکلیں، شہباء خچر نے ان کو اس طرح گرایا کہ ان کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ فوت ہو گئیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11994

۔ (۱۱۹۹۴)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مَعْمَرٍ الْأَنْصَارِیُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یَقُولُ: اِتَّکَأَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عِنْدَ ابْنَۃِ مِلْحَانَ، قَالَ: فَرَفَعَ رَأْسَہُ فَضَحِکَ، فَقَالَتْ: مِمَّ ضَحِکْتَ؟ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَقَالَ: ((مِنْ أُنَاسٍ مِنْ أُمَّتِی یَرْکَبُونَ ہٰذَا الْبَحْرَ الْأَخْضَرَ غُزَاۃً فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، مَثَلُہُمْ کَمَثَلِ الْمُلُوکِ عَلَی الْأَسِرَّۃِ۔)) قَالَتْ: اُدْعُ اللّٰہَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْہُمْ، فَقَالَ: ((اللّٰہُمَّ اجْعَلْہَا مِنْہُمْ۔)) فَنَکَحَتْ عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ قَالَ: فَرَکِبَتْ فِی الْبَحْرِ مَعَ ابْنِہَا قَرَظَۃَ حَتّٰی إِذَا ہِیَ قَفَلَتْ رَکِبَتْ دَابَّۃً لَہَا بِالسَّاحِلِ، فَوَقَصَتْ بِہَا فَسَقَطَتْ فَمَاتَتَْ۔ (مسند أحمد: ۱۳۸۲۶)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنت ِ ملحان کے پاس ٹیک لگائی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسکراتے ہوئے سر مبارک اٹھایا، سیدہ بنت ِ ملحان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ انھوں نے کہا: میری امت کے کچھ لوگ ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اس سبز سمندر پر سوار ہو رہے ہیں، ان کی مثال تختوں پر بیٹھے ہوئے بادشاہوں کی سی ہے۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ مجھے بھی ان میں سے بنا دے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! تو اس کو ان میں سے بنا دے۔ پھر اس خاتون نے سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے شادی کر لی اور اپنے بیٹے قرظہ کے ساتھ سمندری سفر شروع کیا، واپسی پر جب وہ ساحل کے پاس اپنی ایک سواری پر سوار ہوئی تو اس نے اس کو یوں گرایا کہ اس کی گردن ٹوٹ گئی، سو وہ گری اور فوت ہو گئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11995

۔ (۱۱۹۹۵)۔ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سَعِیدٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ أُمِّ خَالِدٍ بِنْتِ خَالِدِ بْنِ سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُتِیَ بِکِسْوَۃٍ فِیہَا خَمِیصَۃٌ صَغِیرَۃٌ، فَقَالَ: ((مَنْ تَرَوْنَ أَحَقَّ بِہٰذِہِ؟)) فَسَکَتَ الْقَوْمُ فَقَالَ: ((ائْتُونِی بِأُمِّ خَالِدٍ۔)) فَأُتِیَ بِہَا فَأَلْبَسَہَا إِیَّاہَا ثُمَّ قَالَ لَہَا مَرَّتَیْنِ: ((أَبْلِی وَأَخْلِقِی۔)) وَجَعَلَ یَنْظُرُ إِلٰی عَلَمٍ فِی الْخَمِیصَۃِ أَحْمَرَ أَوْ أَصْفَرَ وَیَقُولُ: ((سَنَاہْ سَنَاہْ یَا أُمَّ خَالِدٍ۔)) وَسَنَاہْ فِی کَلَامِ الْحَبَشِ الْحَسَنُ۔ (مسند احمد: ۲۷۵۹۷)
سیدہ ام خالد بنت خالد بن سعید بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں کچھ کپڑے لائے گئے، ان میں ایک چھوٹی سی ایک اونی چادر بھی تھی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: تم اس چادر کا سب سے زیادہ کس کو مستحق سمجھتے ہو؟ صحابۂ کرام خاموش رہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ام خالد کو میرے پاس لائو۔ پس اسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو آپ نے وہ کپڑا اسے پہنا دیا اور دو دفعہ فرمایا: تم اس کو بوسید کرو، تم اس کو بوسیدہ کرو (یعنی تم زندہ رہو اور دیر تک اسے استعمال کرو)۔ اور آپ اس چادر کے اوپر موجود سرخ یا زرد علامات کو اچھی طرح دیکھتے اور فرماتے: ام خالد! بہت اچھے، بہت اچھے۔ حدیث میں وارد لفظ سناہ حبشی زبان کا ہے، اس کے عربی میں معانی عمدہ، اچھا اور بہترین کا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11996

۔ (۱۱۹۹۶)۔ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ أُمِّ شَرِیْکٍ أَنَّہَا کَانَتْ مِمَّنْ وَھَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۸۱۷۳)
عروہ سے روایت ہے کہ سیدہ ام شریک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ان خواتین میں سے ہیں، جنہوں نے اپنے آپ کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے ہبہ کر دیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11997

۔ (۱۱۹۹۷)۔ عَنْ أُمِّ فَرْوَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا وَکَانَتْ قَدْ بَایَعَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ أَفْضَلِ الْعَمَلِ فَقَالَ: ((اَلصَّلَاۃُ لِأَوَّلِ وَقْتِہَا۔)) (مسند احمد: ۲۷۶۴۵)
سیدہ ام فروہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، جنھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی تھی، سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت کیا گیا کہ سب سے افضل عمل کونسا ہے؟ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نماز کو اس کے اول وقت پر ادا کرنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11998

۔ (۱۱۹۹۸)۔ عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ ( ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ) قَالَتْ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: اِنِّیْ رَأَیْتُ فِیْ مَنَامِیْ فِیْ بَیْتِیْ أَوْ حُجْرَتِیْ عُضْوًا مِنْ أَعْضَائِکَ، (وَفِیْ رِوَایَۃٍ زَیَادَۃُ فَجَزِعْتُ مِنْ ذٰلِکَ) قَالَ: ((تَلِدُ فَاطَمِۃُ اِنْ شَائَ اللّٰہُ غُلَامًا فَتَکْفُلِیْنَہُ۔)) فَوَلَدَتْ فَاطِمَۃُ حَسَنًا، فَدَفَعَتْہُ اِلَیْہَا فَأَرْضَعَتْہُ بِلَبَنِ قُثَمَ، وَأَتَیْتُ بِہِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمًا أَزُوْرُہُ، فَأََخَذَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَوَضَعَہُ عَلٰی صَدْرِہِ فَبَالَ عَلٰی صَدْرِہِ، فَأَصَابَ الْبَوْلُ اِزَارَہُ، فَزَخَخْتُ بِیَدِیْ عَلٰی کَتِفَیْہِ،(وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَضَرَبَتُ بَیْنَ کَتِفَیْہِ) فَقَالَ: ((أَوْجَعْتِ ابْنِیْ أَصْلَحَکِ اللّٰہُ۔)) أَوْ قَالَ: ((رَحِمَکِ اللّٰہُ۔)) فَقُلْتُ: أَعْطِنِیْ اِزَارَکَ أَغْسِلْہُ، فَقَالَ: ((اِنَّمَا یُغْسَلُ بَوْلُ الْجَارِیَۃِ وَیُصَبُّ عَلٰی بَوْلِ الْغُلَامِ۔)) (مسند أحمد: ۲۷۴۱۶)
سیدہ ام فضل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گئی اور کہا: میں نے خواب میں اپنے گھر یا اپنے حجرے میں آپ کے اعضاء میں سے ایک عضو دیکھا ہے اور میں اس سے گھبرا گئی ہوں، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیٹا جنم دے گی اور تم اس کی کفالت کرو گی۔ پس سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے واقعی سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو جنم دیا اور ان کو سیدہ ام فضل کے سپرد کر دیا، انھوں نے ان کو سیدنا قثم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے دودھ سے دودھ پلایا، ایک دن میں سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زیارت کرنے کے لیے آپ کے پاس آئی۔ آ پ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو پکڑا اور اپنے سینے پر رکھ دیا، پس بچے نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سینے پر پیشاب کر دیا اور وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ازار تک پہنچ گیا، میں نے سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے کندھوں کے درمیان اپنے ہاتھ سے مارا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری اصلاح کرے، تم نے میرے بیٹے کو تکلیف دی ہے۔ یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم کرے۔ پھر میں نے کہا: آپ اپنا ازار مجھے دے دیں، تاکہ میں اس کو دھو دوں، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: صرف بچی کے پیشاب کو دھویاجاتا ہے اور بچے کے پیشاب پر پانی بہا دیا جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11999

۔ (۱۱۹۹۹)۔ عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ قَالَتْ: شَکُّوْا فِیْ صَوْمِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ عَرَفَۃَ، فَقٰلَتْ أُمُّ الْفَضْلِ: أَنَا أُعْلِمُ لَکُمْ ذٰلِکَ، فَبَعَثَتْ بِلَبَنٍ فَشَرِبَ۔ (مسند احمد: ۲۷۴۰۹)
سیدہ ام فضل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ صحابہ کو عرفہ کے دن یہ شک ہونے لگا کہ آیا آج رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم روزے سے ہیںیا نہیں، سیدہ ام فضل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: میں تمہیں اس کا پتہ کرا کے دیتی ہوں،پھر انہوںنے دودھ کا برتن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بھجوایا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ پی لیا (اور اس طرح پتہ چل گیاکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا روزہ نہیں ہے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12000

۔ (۱۲۰۰۰)۔ (وَعَنْہٗ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ أَخْبَرَتْہٗ أَنَّہُمْ شَکُّوْا فِیْ صَوْمِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ عَرَفَۃَ،فَأَرْسَلَتْ إِلَیْہِ بِلَبَنٍ فَشَرِبَ، وَھُوَ یَخْطُبُ النَّاسَ بِعَرَفَۃَ عَلٰی بَعِیْرِہِ۔ (مسند احمد: ۲۷۴۱۹)
۔ (دوسری سند) سیدنا ام فضل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کو عرفہ کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے روزے کے بارے میں شک ہونے لگا، تو انہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں دودھ بھجوا دیا اورآپ نے وہ نوش فرما لیا، اس وقت آپ عرفہ میں اونٹ پر سوار ہو کرلوگوں کو خطبہ دے رہے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12001

۔ (۱۲۰۰۱)۔ عَنْ أَبِی الْحَسَنِ مَوْلَی أُمِّ قَیْسٍ بِنْتِ مِحْصَنٍ، عَنْ أُمِّ قَیْسٍ أَنَّہا قَالَتْ: تُوُفِّیَ ابْنِی فَجَزِعْتُ عَلَیْہِ فَقُلْتُ لِلَّذِی یَغْسِلُہُ: لَا تَغْسِلْ ابْنِی بِالْمَائِ الْبَارِدِ فَتَقْتُلَہُ، فَانْطَلَقَ عُکَّاشَۃُ بْنُ مِحْصَنٍ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرَہُ بِقَوْلِہَا فَتَبَسَّمَ ثُمَّ قَالَ: ((مَا قَالَتْ؟ طَالَ عُمْرُہَا۔)) قَالَ: فَلَا أَعْلَمُ امْرَأَۃً عُمِّرَتْ مَا عُمِّرَتْ۔ (مسند احمد: ۲۷۵۳۹)
سیدہ ام قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میرا بیٹا وفات پا گیا، میں اس پر بہت زیادہ غمگین ہوئی، میں نے غسل دینے والے سے کہا کہ میرے بیٹے کو ٹھنڈے پانی سے غسل دے کر اسے مار نہ دینا، تو ان کے بھائی سیدہ عکاشہ بن محصن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جا کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ان کییہ بات بتلائی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس پر تبسم کیا اور فرمایا: اس نے کیا کہا؟ اس کی عمر طویل ہو۔ ابو الحسن کہتے ہیں: میرے علم کے مطابق جتنی عمر ان کو ملی، اتنی عمر کسی خاتون کی نہیں تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12002

۔ (۱۲۰۰۲)۔ عَنْ أَبِی مُرَّۃَ، مَوْلٰی فَاخِتَۃَ أُمِّ ہَانِیئٍ، عَنْ فَاخِتَۃَ أُمِّ ہَانِیئٍ بِنْتِ أَبِی طَالِبٍ، قَالَتْ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ فَتْحِ مَکَّۃَ، أَجَرْتُ رَجُلَیْنِ مِنْ أَحْمَائِی، فَأَدْخَلْتُہُمَا بَیْتًا وَأَغْلَقْتُ عَلَیْہِمَا بَابًا، فَجَائَ ابْنُ أُمِّی عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ، فَتَفَلَّتَ عَلَیْہِمَا بِالسَّیْفِ، قَالَتْ: فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمْ أَجِدْہُ، وَوَجَدْتُ فَاطِمَۃَ فَکَانَتْ أَشَدَّ عَلَیَّ مِنْ زَوْجِہَا، قَالَتْ: فَجَائَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعَلَیْہِ أَثَرُ الْغُبَارِ فَأَخْبَرْتُہُ، فَقَالَ: ((یَا أُمَّ ہَانِیئٍ قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ، وَأَمَّنَّا مَنْ أَمَّنْتِ۔)) (مسند أحمد: ۲۷۴۴۵)
سیدہ ام ہانی فاختہ بنت ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: فتح مکہ والے دن میں نے اپنے دو سسرالی رشتہ داروں کو پناہ دی اور ان کو گھر میں داخل کر کے دروازہ بند کر دیا، میری اپنی ماں کا بیٹا سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور ان پر تلوار سونت لی، میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گئی، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے نہ مل سکے، البتہ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا موجود تھیں، لیکن وہ میرے معاملے میں مجھ پر اپنے خاوند سے بھی زیادہ سختی کرنے والی تھیں، اتنے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے آئے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر گردو غبار کا اثر تھا، جب میں نے اپنی بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتائی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ام ہانی! جن کو تو نے پناہ دی، ہم نے بھی ان کو پناہ دی اور جن کو تو نے امن دیا، ہم نے بھی ان کو امن دے دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12003

۔ (۱۲۰۰۳)۔ عَنْ أُمِّ ہَانِیئٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَخَلَ عَلَیْہَا، فَدَعَا بِشَرَابٍ فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَہَا فَشَرِبَتْ، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَمَا إِنِّی کُنْتُ صَائِمَۃً، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((الصَّائِمُ الْمُتَطَوِّعُ أَمِیرُ نَفْسِہِ إِنْ شَائَ صَامَ وَإِنْ شَائَ أَفْطَرَ۔)) (مسند احمد: ۲۷۴۳۱)
سیدہ ام ہانی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ہاں تشریف لائے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پانی طلب فرمایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پانی پی کر باقی پانی ان کو واپس دیا تو انہوںنے (آپ کا جوٹھا پانی) پی لیا اور پھر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں تو روزے سے تھی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نفلی روزے دار اپنے نفس کا خود امیر ہوتا ہے، چاہے تو روزہ پورا کر لے اور چاہے تو روزہ توڑ دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12004

۔ (۱۲۰۰۴)۔ عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلٰی قَالَ مَا أَخْبَرَنِی أَحَدٌ أَنَّہُ رَأَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُصَلِّی الضُّحٰی غَیْرُ أُمِّ ھَانِیئٍ فَاِنَّہَا حَدَّثَتْ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَخَلَ بَیْتَہَا یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ فَاغْتَسَلَ وَصَلّٰی ثَمَانَ رَکَعَاتٍ (زَادَ فِی رِوَایَۃٍ یُخَفِّفُ فِیْہِنَّ الرُّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ) مَارَأَتْہُ صَلّٰی صَلَاۃً قَطُّ أَخَفَّ مِنْہَا غَیْرَ أَنَّہُ کَانَ یُتِمُّ الرَّکُوْعَ وَالسُّجُودِ۔ (مسند احمد: ۲۷۴۳۹)
ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں: سیدہ ام ہانی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے علاوہ کسی نے مجھے خبر نہیں دی کہ اس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہو، انھوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فتح مکہ والے دن اس کے گھر میں داخل ہوئے،غسل کیا اور آٹھ رکعات نماز پڑھی، تخفیف کے ساتھ رکوع و سجود کیے، (بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ) اس نے نبی کریمfکو اس سے ہلکی نماز پڑھتے کبھی نہیں دیکھا تھا، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رکوع و سجود مکمل کر رہے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12005

۔ (۱۲۰۰۵)۔ عَنْ أُمِّ ہَانِیئٍ بِنْتِ أَبِی طَالِبٍ قَالَتْ: مَرَّ بِی ذَاتَ یَوْمٍ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی قَدْ کَبِرْتُ وَضَعُفْتُ أَوْ کَمَا قَالَتْ: فَمُرْنِی بِعَمَلٍ أَعْمَلُہُ وَأَنَا جَالِسَۃٌ، قَالَ: ((سَبِّحِی اللّٰہَ مِائَۃَ تَسْبِیحَۃٍ، فَإِنَّہَا تَعْدِلُ لَکِ مِائَۃَ رَقَبَۃٍ تُعْتِقِینَہَا مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِیلَ، وَاحْمَدِی اللّٰہَ مِائَۃَ تَحْمِیدَۃٍ تَعْدِلُ لَکِ مِائَۃَ فَرَسٍ مُسْرَجَۃٍ مُلْجَمَۃٍ تَحْمِلِینَ عَلَیْہَا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، وَکَبِّرِی اللّٰہَ مِائَۃَ تَکْبِیرَۃٍ فَإِنَّہَا تَعْدِلُ لَکِ مِائَۃَ بَدَنَۃٍ مُقَلَّدَۃٍ مُتَقَبَّلَۃٍ، وَہَلِّلِی اللّٰہَ مِائَۃَ تَہْلِیلَۃٍ۔)) قَالَ ابْنُ خَلَفٍ: أَحْسِبُہُ قَالَ: ((تَمْلَأُ مَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ، وَلَا یُرْفَعُ یَوْمَئِذٍ لِأَحَدٍ عَمَلٌ إِلَّا أَنْ یَأْتِیَ بِمِثْلِ مَا أَتَیْتِ بِہِ۔)) (مسند أحمد: ۲۷۴۵۰)
سیدہ ام ہانی بنت ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس سے گزرے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں عمر رسیدہ ہو گئی ہوں اور کمزور ہو گئی ہے، اس لیے مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں کہ بیٹھ کر کر لیا کروں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سو (۱۰۰) بار سُبْحَانَ اللّٰہ کہو، یہ عمل تمہارے لیے اولادِ اسماعیل سے سو گردنیں آزاد کرنے کے برابر ہو گا، سو (۱۰۰) دفعہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہو، یہ عمل تمہارے لیے اللہ کے راستے میں سو لگام شدہ اور زین شدہ گھوڑے دینے کے برابر ہو گا، سو (۱۰۰) بار اَللّٰہُ اَکْبَر کہو، یہ عمل تیرے لیے ان سو (۱۰۰) اونٹوں کے برابر ہو گا، جن کو قلادے ڈال کر حج کے زمانے میں مکہ مکرمہ کی طرف بھیج دیا جائے اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبول بھی کر لیے جائیں اور سو (۱۰۰) بار لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہو، یہ عمل آسمان و زمین کے درمیانی خلا کو ثواب سے بھر دے گا، اس دن کسی آدمی کا ایسا عظیم عمل اوپر کی طرف نہیں اٹھائے، الا یہ کہ وہ اسی طرح کا عمل کرے، جیسے تو نے کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12006

۔ (۱۲۰۰۶)۔ عَنْ أُمِّ وَرَقَۃَ بِنْتِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ أَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَزُورُہَا کُلَّ جُمُعَۃٍ، وَأَنَّہَا قَالَتْ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! یَوْمَ بَدْرٍ أَتَأْذَنُ فَأَخْرُجُ مَعَکَ أُمَرِّضُ مَرْضَاکُمْ وَأُدَاوِی جَرْحَاکُمْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُہْدِی لِی شَہَادَۃً؟ قَالَ: ((قَرِّی فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یُہْدِی لَکِ شَہَادَۃً۔)) وَکَانَتْ أَعْتَقَتْ جَارِیَۃً لَہَا وَغُلَامًا عَنْ دُبُرٍ مِنْہَا، فَطَالَ عَلَیْہِمَا فَغَمَّاہَا فِی الْقَطِیفَۃِ حَتّٰی مَاتَتْ وَہَرَبَا، فَأَتَی عُمَرُ فَقِیلَ لَہُ إِنَّ أُمَّ وَرَقَۃَ قَدْ قَتَلَہَا غُلَامُہَا وَجَارِیَتُہَا وَہَرَبَا، فَقَامَ عُمَرُ فِی النَّاسِ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَزُورُ أُمَّ وَرَقَۃَ، یَقُولُ: انْطَلِقُوْا نَزُوْرُ الشَّہِیدَۃَ، وَإِنَّ فُلَانَۃَ جَارِیَتَہَا وَفُلَانًا غُلَامَہَا غَمَّاہَا ثُمَّ ہَرَبَا فَلَا یُؤْوِیہِمَا أَحَدٌ، وَمَنْ وَجَدَہُمَا فَلْیَأْتِ بِہِمَا، فَأُتِیَ بِہِمَا فَصُلِبَا فَکَانَا أَوَّلَ مَصْلُوبَیْنِ۔ (مسند احمد: ۲۷۸۲۵)
سیدہ ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہر جمعہ کے دن ان کی ملاقات کے لیے جایا کرتے تھے، بدر کے موقع پر انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! کیا مجھے اجازت ہے کہ میں آپ کے ساتھ چلوں تاکہ مریضوں کی تیمار داری اور زخمیوں کا علاج معالجہ کروں، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے مقام شہادت عطا فرما دے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنے گھر ہی ٹھہری رہو، اللہ تعالیٰ تمہیںیہیں شہادت سے سرفراز کرے گا۔ سیدہ ام ورقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے ایک غلام اور لونڈی کو مدبر کیا تھا (یعنی انہوںنے یہ اعلان کر دیا تھا کہ میری وفات کے بعد یہ دونوں آزاد ہوں گے۔) مگر اللہ کی قدرت کہ سیدہ ام ورقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی عمر طویل ہو گئی اور ان دو غلام اور لونڈی نے اپنی آزادی کے لالچ میں ان کے منہ اور ناک پر کس کر کپڑا لپیٹ کر ان کا سانس بند کرکے ان کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور خود فرار ہوگئے۔ امیر المومنین سیدناعمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں مقدمہ گیا اور ان سے کہا گیا کہ ان کو ان کے غلام اور لونڈی نے قتل کیا ہے اور خود فرار ہوگئے ہیں۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے لوگوں میں کھڑے ہو کر خطاب کیا اور کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدہ ام ورقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی ملاقات کے لیے جایا کرتے اور کہا کرتے تھے کہ آئو شہیدہ کی ملاقات کو جائیں۔ ان کی فلاں لونڈی اور فلاں غلام نے ان کا سانس گھونٹ کر ان کو قتل کر دیا ہے اور فرار ہوگئے ہیں، کوئی بھی آدمی ان دونوں کو پناہ نہ دے اور جسے وہ دونوں ملیں، وہ ان کو ہمارے ہاں پیش کرے۔ چنانچہ ان دونوں کو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور انہیں پھانسی دے دی گئی، سب سے پہلے ان دونوں کو پھانسی دی گئی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12007

۔ (۱۲۰۰۷)۔ عَنْ أَبِیْ مَعْشَرٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ النَّخْعِیِّ أَنَّہُ کَانَ یَدْخُلُ عَلٰی عَائَشَۃ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَ: قُلْتُ: کَیْفَ کَانَ یَدْخُلُ عَلَیْہَا؟ قَالَ: کَانَ یَخْرُجُ مَعَ خَالِہِ الْأَسْوَدِِ، قَالَ: وَکَانَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ عَائِشَۃَ إِخَائٌ وَوُدٌّ۔ (مسند احمد: ۲۵۹۰۹)
ابومعشرکہتے ہیں کہ ابراہیم نخعیl، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس جایا کرتے تھے۔ حدیث کے راوی سعید بن ابی عروبہ نے اپنے شیخ ابو معشر سے دریافت کیا کہ وہ ان کی خدمت میں کیسے چلے جاتے تھے؟ انھوں نے کہا: وہ اپنے ماموں اسود کے ساتھ جاتے تھے، سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اور اسود کے مابین بھائی چارہ اور کافی الفت و محبت تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12008

۔ (۱۲۰۰۸)۔ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنِ الْأَحْنَفِ قَالَ: بَیْنَمَا أَطُوفُ بِالْبَیْتِ إِذْ لَقِیَنِی رَجُلٌ مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ فَقَالَ: أَلَا أُبَشِّرُکَ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلٰی، قَالَ: أَتَذْکُرُ إِذْ بَعَثَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی قَوْمِکَ بَنِی سَعْدٍ أَدْعُوہُمْ إِلَی الْإِسْلَامِ، قَالَ: فَقُلْتُ: أَنْتَ وَاللّٰہِ! مَا قَالَ إِلَّا خَیْرًا، وَلَا أَسْمَعُ إِلَّا حُسْنًا، فَإِنِّی رَجَعْتُ فَأَخْبَرْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِمَقَالَتِکَ قَالَ: ((اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِلْأَحْنَفِ۔)) قَالَ: فَمَا أَنَا لِشَیْئٍ أَرْجٰی مِنْہَا۔ (مسند احمد: ۲۳۵۴۸)
حسن سے روایت ہے کہ احنف نے کہا: میں ایک دفعہ بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا کہ بنو سلیم کا ایک آدمی آ کر مجھے ملا اور اس نے مجھ سے کہا:کیا میں تمہیں ایک خوش خبری سنائوں؟ میں نے کہا: جی ضرور سنائیں۔ اس نے کہا: کیا آپ کو یاد ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے تمہاریقوم بنو سعد کی طرف روانہ فرمایا تھا تاکہ میں انہیں اسلام کی دعوت دوں تو تم نے اس موقع پر کہا تھا کہ اللہ کی قسم! اس رسول نے اچھی بات ہی کہی ہے اور میں نے بھی ان کے متعلق اچھا ہی سنا ہے، جب میں نے واپس آکر تمہاری بات سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو آگاہ کیا تو آپ نے یوں دعا کی تھی: اے اللہ! تو احنف کو بخش دے۔ انھوں نے کہا: پس مجھے سب سے زیادہ امید اسی دعا پر ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12009

۔ (۱۲۰۰۹)۔ حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ سَعِیدٍ الْجُرَیْرِیِّ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ، عَنْ أُسَیْرِ بْنِ جَابِرٍ قَالَ: لَمَّا أَقْبَلَ أَہْلُ الْیَمَنِ جَعَلَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَسْتَقْرِی الرِّفَاقَ فَیَقُولُ: ہَلْ فِیکُمْ أَحَدٌ مِنْ قَرَنٍ حَتّٰی أَتٰی عَلٰی قَرَنٍ؟ فَقَالَ: مَنْ أَنْتُمْ؟ قَالُوْا: قَرَنٌ، فَوَقَعَ زِمَامُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَوْ زِمَامُ أُوَیْسٍ فَنَاوَلَہُ أَحَدُہُمَا الْآخَرَ فَعَرَفَہُ فَقَالَ عُمَرُ: مَا اسْمُکَ؟ قَالَ: أَنَا أُوَیْسٌ، فَقَالَ: ہَلْ لَکَ وَالِدَۃٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَہَلْ کَانَ بِکَ مِنَ الْبَیَاضِ شَیْئٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَدَعَوْتُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ فَأَذْہَبَہُ عَنِّی إِلَّا مَوْضِعَ الدِّرْہَمِ مِنْ سُرَّتِی لِأَذْکُرَ بِہِ رَبِّی، قَالَ لَہُ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: اسْتَغْفِرْ لِی، قَالَ: أَنْتَ أَحَقُّ أَنْ تَسْتَغْفِرَ لِی أَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((إِنَّ خَیْرَ التَّابِعِینَ رَجُلٌ یُقَالُ لَہُ أُوَیْسٌ، وَلَہُ وَالِدَۃٌ وَکَانَ بِہِ بَیَاضٌ، فَدَعَا اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ فَأَذْہَبَہُ عَنْہُ إِلَّا مَوْضِعَ الدِّرْہَمِ فِی سُرَّتِہِ۔)) فَاسْتَغْفَرَ لَہُ ثُمَّ دَخَلَ فِی غِمَارِ النَّاسِ فَلَمْ یُدْرَ أَیْنَ وَقَعَ؟ قَالَ: فَقَدِمَ الْکُوفَۃَ قَالَ: وَکُنَّا نَجْتَمِعُ فِی حَلْقَۃٍ فَنَذْکُرُ اللّٰہَ وَکَانَ یَجْلِسُ مَعَنَا، فَکَانَ إِذَا ذَکَرَ ہُوَ وَقَعَ حَدِیثُہُ مِنْ قُلُوبِنَا مَوْقِعًا لَا یَقَعُ حَدِیثُ غَیْرِہِ، فَذَکَرَ الْحَدِیثَ۔ (مسند احمد: ۲۶۶)
اسیربن جابر سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب اہل یمن کے قافلے اور وفود آئے تو امیر المومنین سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے قافلوں کے پاس بار بار جا کر دریافت کرتے کہ آیا تم میں بنو قرن قبیلے کا کوئی فرد بھی ہے؟ یہاں تک کہ آپ بنو قرن کے لوگوں کے پاس پہنچ گئے، آپ نے ان سے دریافت کیا کہ تم لوگ کس قبیلہ سے ہو؟ انہوں نے بتلایا کہ وہ بنو قرن قبیلے کے لوگ ہیں، اسی دوران سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا اویس کی سواری کی مہار نیچے گر گئی تو ان میں سے ایک نے دوسرے کو وہ مہار تھما دی، اسی دوران سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اویس کو پہچان گئے، پس سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے دریافت کیا: آپ کا نام کیا ہے؟ انہوں نے بتلایا: جی میرا نام اویس ہے۔ انھوں نے پوچھا: تمہاری والدہ حیات ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، انھوں نے پوچھا: کیا تمہارے جسم پر سفید داغ (دھبہ) تھا؟ اس نے جواب دیا: جی ہاں، پھر میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی اوراس نے اسے ختم کر دیا تھا، البتہ اس میں سے ایک درہم جتنا دھبہ میری ناف کے قریب باقی رہ گیا ہے، تاکہ میں اسے دیکھ کر اپنے رب کو یاد کرتا رہوں۔ یہ سن کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس سے فرمایا:آپ میرے حق میں دعائے مغفرت کریں۔ اس نے کہا: آپ اس بات کا زیادہ حق رکھتے ہیں کہ آپ میرے حق میں مغفرت کی دعا کریں، کیونکہ آپ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابی ہیں۔سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ تابعین میں سے سب سے افضل آدمی کا نام اویس ہے، اس کی والدہ حیات ہے، اس کے جسم پر سفید نشانات تھے، اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اللہ نے اس مرض کو اس سے زائل کر دیا، صرف ایک درہم کے برابر نشان اس کی ناف کے قریب باقی رہ گیا۔ یہ سن کر اویس نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں دعائے مغفرت کی، اس کے بعد وہ لوگوں کی بھیڑ میں چلے گئے اور کچھ پتہ نہ چل سکا کہ وہ کدھر غائب ہوگئے۔ اسیر کہتے ہیں: وہ کوفہ آئے، ہم ایک حلقہ میں جمع ہو کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے، جناب اویس وہ بھی ہمارے ساتھ تشریف رکھتے، جب وہ وعظ و نصیحت کرتے تو ان کی باتوں کا ہمارے دلوںپر اس قدر اثر ہوتا کہ کسی دوسرے کی تذکیر کا اتنا اثر نہ ہوتا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12010

۔ (۱۲۰۱۰)۔ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِیکٌ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِی لَیْلٰی، قَالَ: نَادٰی رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ یَوْمَ صِفِّینَ: أَفِیکُمْ أُوَیْسٌ الْقَرَنِیُّ؟ قَالُوْا: نَعَمْ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ مِنْ خَیْرِ التَّابِعِینَ أُوَیْسًا الْقَرَنِیَََََّ۔)) (مسند احمد: ۱۶۰۳۸)
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے مروی ہے کہ جنگ صفین کے دن اہل شام میں سے ایک شخص نے بلند آواز سے پکار کر دریافت کیا:آیا تمہارے اندر اویس قرنی نام کا کوئی آدمی موجود ہے؟ لوگوں نے بتلایا: جی ہاں۔ اس نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ تابعین میں سب سے افضل شخص اویس قرنی ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12011

۔ (۱۲۰۱۱)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ قَالَ: حَدَّثَنِی اَبِیْ قَالَ: مَا کَانَ أَشَدَّ عَلَی ابْنِ عُیَیْنَۃَ أَنْ یَقُولَ حَدَّثَنَا (مسند احمد: ۱۹۱۹۴)
عبداللہ بن امام احمد سے مروی ہے کہ میرے والد امام احمدl نے کہا: امام سفیان ابن عینیہ ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کے لیے حَدَّثَنَا کہنے سے زیادہ مشکل کوئی کام نہ تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12012

۔ (۱۲۰۱۲)۔ أَنَّہُ سَمِعَ عَبْدَ اللّٰہِ یُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ لَقِیَ زَیْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ بِأَسْفَلِ بَلْدَحَ، وَذٰلِکَ قَبْلَ أَنْ یَنْزِلَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْوَحْیُ، فَقَدَّمَ إِلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سُفْرَۃً فِیہَا لَحْمٌ فَأَبٰی أَنْ یَأْکُلَ مِنْہَا، ثُمَّ قَالَ: إِنِّی لَا آکُلُ مَا تَذْبَحُونَ عَلٰی أَنْصَابِکُمْ، وَلَا آکُلُ إِلَّا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ۔ حَدَّثَ ہٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (مسند احمد: ۶۱۱۰)
سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زید بن عمرو بن نفیل سے بلدح سے نشیبی حصے میں ملاقات ہوئی،یہ آپ پر نزول وحی سے پہلے کا واقعہ ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی خدمت میں کھانا پیش کیا، اس میں گوشت بھی تھا، زید نے کھانا کھانے سے انکار کیا اور کہا کہ تم لوگ اپنے بت خانوں پر جو جانور ذبح کرتے ہو، میں وہ نہیں کھاتا اور جس ذبیحہ پر اللہ کا نام نہ لیا جائے، میں وہ بھی نہیں کھایا کرتا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ واقعہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بیان کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12013

۔ (۱۲۰۱۳)۔ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ إِنْ شَائَ اللَّہُ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُوشِکُ أَنْ تَضْرِبُوْا، وَقَالَ سُفْیَانُ مَرَّۃً: أَنْ یَضْرِبَ النَّاسُ أَکْبَادَ الْإِبِلِ یَطْلُبُونَ الْعِلْمَ لَا یَجِدُونَ عَالِمًا أَعْلَمَ مِنْ عَالِمِ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ۔)) وَقَالَ قَوْمٌ: ہُوَ الْعُمَرِیُّ قَالَ: فَقَدَّمُوا مَالِکًا۔ (مسند احمد: ۷۹۶۷)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عنقریب تم لوگ طلب علم کے لیے اونٹوں پر سفر کرکے ان کو تھکا دو گے اور لوگ اہل مدینہ کے عالم سے بڑھ کر کوئی بڑا عالم نہیں پائیں گے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے عمری مراد ہیں، لیکن جمہور کا خیال ہے کہ اس سے امام مالک بن انسl مراد ہیں، پس انھوں نے امام مالک کو ترجیح دی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12014

۔ (۱۲۰۱۴)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُولُ: قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((قَدْ تُوُفِّیَ الْیَوْمَ رَجُلٌ صَالِحٌ مِنَ الْحَبَشِ، ہَلُمَّ فَصُفُّوا۔)) قَالَ: فَصَفَفْنَا فَصَلَّی النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَیْہِ وَنَحْنُ۔ (مسند احمد: ۱۴۱۹۷)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آج حبشہ کے ایک صالح آدمی کا انتقال ہوگیا ہے، آئو صفیں بنائو (اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھیں)۔ پس ہم نے صفیں بنائیں اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اور ہم نے اس کی نماز جنازہ ادا کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12015

۔ (۱۲۰۱۵)۔ (عَنْہٗ من طریق اخری) قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَاتَ الْیَوْمَ عَبْدٌ لِلّٰہِ صَالِحٌ أَصْحَمَۃُ، فَقُومُوْا فَصَلُّوْا عَلَیْہِ۔)) فَقَامَ فَأَمَّنَا فَصَلّٰی عَلَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۴۴۸۶)
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آج اللہ کا ایک بندہ اصحمہ وفات پا گیا ہے، اٹھو اور اس کی نماز جنازہ ادا کرو۔ پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اٹھ کر ہماری امامت کرائی اور اس کی نماز جنازہ ادا کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12016

۔ (۱۲۰۱۶)۔ عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ خَدِیْجَۃَ سَأَلَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ وَرْقَۃَ بْنِ نَوْفَلٍ فَقَالَ: ((قَدْ رَأَیْتُہُ فِی الْمَنَامِ فَرَأَیْتُ عَلَیْہِ ثِیَابَ بَیَاضٍ فَأَحْسِبُہُ لَوْ کَانَ مِنْ أَھْلِ النَّارِ لَمْ یَکُنْ عَلَیْہِ ثِیَابُ بَیَاضٍ۔)) (مسند احمد: ۲۴۸۷۱)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ورقہ بن نوفل کے بارے میں سوال کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے اس کو خواب میں دیکھا ہے، اس نے سفید کپڑے زیب ِ تن کیے ہوئے تھے، میرا خیال ہے کہ اگر وہ جہنمی ہوتا تو اس پر سفید کپڑے نہ ہوتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 12017

۔ (۱۲۰۱۷)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَہْلُ مَکَّۃَ یَقُولُونَ: أَخَذَ ابْنُ جُرَیْجٍ الصَّلَاۃَ مِنْ عَطَائٍ، وَأَخَذَہَا عَطَائٌ مِنْ ابْنِ الزُّبَیْرِ، وَأَخَذَہَا ابْنُ الزُّبَیْرِ مِنْ أَبِی بَکْرٍ، وَأَخَذَہَا أَبُو بَکْرٍ مِنَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا رَأَیْتُ أَحَدًا أَحْسَنَ صَلَاۃً مِنْ ابْنِ جُرَیْجٍ۔ (مسند احمد: ۷۳)
عبدالرزاق سے مروی ہے کہ اہل مکہ کہا کرتے ہیں کہ ابن جریج نے نماز کا طریقہ عطاء بن ابی رباح ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے، انہوںنے ابن الزبیر ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے، انہوں نے ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اور انہوں نے نماز کا طریقہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سیکھا۔ میں نے ابن جریج ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بڑھ کر بہترنماز پڑھتے کسی کو نہیں دیکھا۔

Icon this is notification panel