930 Results For Hadith (Musnad Ahmad ) Book ()
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10651

۔ (۱۰۶۵۱)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: بُعِثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَوْ أُنْزِلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ وَہُوَ ابْنُ أَرْبَعِینَ سَنَۃً، فَمَکَثَ بِمَکَّۃَ ثَلَاثَ عَشْرَۃَ سَنَۃً وَبِالْمَدِینَۃِ عَشْرَ سِنِینَ، قَالََ: فَمَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّینَ۔ (مسند احمد: ۲۱۱۰)
سیدناعبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بعثت یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر نزولِ قرآن کی ابتداء جب ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عمر چالیس برس تھی، اس کے بعد آپ نے تیرہ سال مکہ مکرمہ میں اور دس برس مدینہ منورہ میں بسر کئے اور تریسٹھ برس کی عمر میں آپ کا انتقال ہوا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10652

۔ (۱۰۶۵۲)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: أُنْزِلَ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَأَرْبَعِینَ، فَمَکَثَ بِمَکَّۃَ عَشْرًا وَبِالْمَدِینَۃِ عَشْرًا، وَقُبِضَ وَہُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّینَ۔ (مسند احمد: ۲۰۱۷)
سیدناعبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بعثت یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر نزولِ قرآن کی ابتداء جب ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عمر چالیس برس تھی، اس کے بعد آپ نے تیرہ سال مکہ مکرمہ میں اور دس برس مدینہ منورہ میں بسر کئے اور تریسٹھ برس کی عمر میں آپ کا انتقال ہوا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10653

۔ (۱۰۶۵۳)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: فَنَزَلَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَانِبَ الْحَرَّۃِ، ثُمَّ بَعَثَ إِلَی الْأَنْصَارِ فَجَاؤُوا نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَلَّمُوا عَلَیْہِمَا وَقَالُوا: ارْکَبَا آمِنَیْنِ مُطْمَئِنَّیْنِ، قَالَ: فَرَکِبَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَبُو بَکْرٍ وَحَفُّوا حَوْلَہُمَا بِالسِّلَاحِ، قَالَ: فَقِیلَ بِالْمَدِینَۃِ: جَائَ نَبِیُّ اللّٰہِ، فَاسْتَشْرَفُوا نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَنْظُرُونَ إِلَیْہِ وَیَقُولُونَ: جَائَ نَبِیُّ اللّٰہِ، فَأَقْبَلَ یَسِیرُ حَتَّی جَائَ إِلَی جَانِبِ دَارِ أَبِی أَیُّوبَ، قَالُوا: فَإِنَّہُ لَیُحَدِّثُ أَہْلَہَا إِذْ سَمِعَ بِہِ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلَامٍ، وَہُوَ فِی نَخْلٍ لِأَہْلِہِ یَخْتَرِفُ لَہُمْ مِنْہُ، فَعَجِلَ أَنْ یَضَعَ الَّذِییَخْتَرِفُ فِیہَا، فَجَائَ وَہِیَ مَعَہُ، فَسَمِعَ مِنْ نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَجَعَ إِلٰی أَہْلِہِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَیُّ بُیُوتِ أَہْلِنَا أَقْرَبُ؟)) قَالَ: فَقَالَ أَبُو أَیُّوبَ: أَنَا یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! ہٰذِہِ دَارِی وَہٰذَا بَابِی، قَالَ: ((فَانْطَلِقْ فَہَیِّئْ لَنَا مَقِیلًا۔)) قَالَ: فَذَہَبَ فَہَیَّأَ لَہُمَا مَقِیلًا، ثُمَّ جَائَ فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! قَدْ ہَیَّأْتُ لَکُمَا مَقِیلًا، فَقُومَا عَلٰی بَرَکَۃِ اللّٰہِ فَقِیلَا، فَلَمَّا جَاء َ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَائَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلَامٍ فَقَالَ: أَشْہَدُ أَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ حَقًّا، وَأَنَّکَ جِئْتَ بِحَقٍّ، وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْیَہُودُ أَنِّی سَیِّدُہُمْ وَابْنُ سَیِّدِہِمْ وَأَعْلَمُہُمْ وَابْنُ أَعْلَمِہِمْ، فَادْعُہُمْ فَاسْأَلْہُمْ، فَدَخَلُوا عَلَیْہِ فَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا مَعْشَرَ الْیَہُودِ! وَیْلَکُمْ اتَّقُوا اللّٰہَ، فَوَالَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، إِنَّکُمْ لَتَعْلَمُونَ أَنِّی رَسُولُ اللّٰہِ حَقًّا وَأَنِّی جِئْتُکُمْ بِحَقٍّ، أَسْلِمُوا۔)) قَالُوا: مَا نَعْلَمُہُ ثَلَاثًا۔ (مسند احمد: ۱۳۲۳۷)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو حرہ کی ایک جانب میں تشریف فرما ہوئے اور انصار کو اپنی آمد کی اطلاع بھجوائی۔ وہ لوگ نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے اور انہوں نے آپ دونوں کو سلام کہا اور عرض کیا آپ امن اور اطمینان کے ساتھ سوار ہو کر شہر میں تشریف لائیں۔ چناں چہ اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدناابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی اپنی سواری پر سوار ہوئے اور لوگوں نے اسلحہ تان کر آپ کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ مدینہ منورہ میں خبر پھیل گئی کہ اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے آئے ہیں۔ چناں چہ لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف امڈکر آئے، تاکہ آپ کی زیارت کرلیں، اور وہ خوشی سے کہتے جاتے اللہ کے نبی تشریف لائے ہیں۔ آپ چلتے چلتے سیدناابو ایوب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھر کے قریب آپہنچے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے اہلِ خانہ سے باتیں کرنے لگیں گے۔ تو عبداللہ بن سلام اپنے اہلِ خانہ کے نخلستان میں اہلِ خانہ کے لیے کھجوریں چن رہے تھے انہوں نے بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آمد کی خبر سنی، وہ اس قدر تیزی اور جلدی سے آپ کی خدمت میں آئے کہ وہ کھجوریں اٹھائے ہوئے تھے۔ اور انہوں نے آکر آپ کی گفتگو سنی۔اس کے بعد وہ اپنے گھر تشریف لے گئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہمارے رشتہ داروں کے گھروں میں سے کس کا گھر یہاں سے قریب ترین ہے۔ توسیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! یہ میرا گھر اور میرا دروازہ ہے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اچھا آپ جا کر ہمارے لئے جگہ بنائیں۔سیدناانس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیںیہ سن کرسیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جا کر آپ کے لئے اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے لیے جگہ تیار کی۔ اور آ کر عرض کیا اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! میں آپ دونوں کے لئے جگہ تیار کر آیا ہوں۔ اللہ کے نام کی برکت سے اٹھ کر تشریف لائیں اور آرام فرمائیں۔ جب اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے گھر آئے تو عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگئے۔ اور کہنے لگے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں اور دعوتِ حق اور دینِ حق لے کر مبعوث ہوئے ہیں۔ یہودی جانتے ہیں کہ میں ان کا سردار اور ابنِ سراد ہوں، اور میں ان کا سب سے بڑا عالم اور ان کے سب سے بڑے عالم کا بیٹا ہوں۔آپ ان یہودیوں کو بلوائیں۔ اور ان سے میری بابت دریافت فرمائیں۔ یہودی آئے تو اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: اے یہودیو! اللہ سے ڈرو اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں تم یقینا جانتے ہو کہ میں واقعی اللہ کا رسول ہوں۔ اور میں تمہارے پاس دینِ حق اور دعوتِ حق لے کر آیا ہوں۔ تم اسلام قبول کر لو۔ تو وہ بولے، ہم اس بات کو نہیں جانتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10654

۔ (۱۰۶۵۴)۔ عَنْ أنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَزَلَ فِی عُلُوِّ الْمَدِینَۃِ فِی حَیٍّ،یُقَالُ لَہُم: بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، فَأَقَامَ فِیہِمْ أَرْبَعَ عَشْرَۃَ لَیْلَۃً، ثُمَّ إِنَّہُ أَرْسَلَ إِلٰی مَلَإٍ مِنْ بَنِی النَّجَّارِ، قَالَ: فَجَائُ وْا مُتَقَلِّدِینَ سُیُوفَہُمْ، قَالَ: فَکَأَنِّی أَنْظُرُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی رَاحِلَتِہِ وَأَبُو بَکْرٍ رِدْفُہُ، وَمَلَأُ بَنِی النَّجَّارِ حَوْلَہُ، حَتّٰی أَلْقٰی بِفِنَائِ أَبِی أَیُّوبَ، قَالَ: فَکَانَ یُصَلِّی حَیْثُ أَدْرَکَتْہُ الصَّلَاۃُ، وَیُصَلِّی فِی مَرَابِضِ الْغَنَمِ، ثُمَّ إِنَّہُ أَمَرَ بِالْمَسْجِدِ، فَأَرْسَلَ إِلٰی مَلَإٍ مِنْ بَنِی النَّجَّارِ فَجَائُ وْا، فَقَالَ: ((یَا بَنِی النَّجَّارِ! ثَامِنُونِی حَائِطَکُمْ ہٰذَا۔)) فَقَالُوا: وَاللّٰہِ! لا نَطْلُبُ ثَمَنَہُ إِلَّا إِلَی اللّٰہِ، قَالَ: وَکَانَ فِیہِ مَا أَقُولُ لَکُمْ کَانَتْ فِیہِ قُبُورُ الْمُشْرِکِینَ، وَکَانَ فِیہِ حَرْثٌ، وَکَانَ فِیہِ نَخْلٌ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِقُبُورِ الْمُشْرِکِینَ فَنُبِشَتْ، وَبِالْحَرْثِ فَسُوِّیَتْ وَبِالنَّخْلِ فَقُطِعَ، قَالَ: ((فَصَفُّوا النَّخْلَ إِلٰی قِبْلَۃِ الْمَسْجِدِ وَجَعَلُوا عِضَادَتَیْہِ حِجَارَۃً، قَالَ: وَجَعَلُوا یَنْقُلُونَ ذٰلِکَ الصَّخْرَ، وَہُمْ یَرْتَجِزُونَ وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَعَہُمْ یَقُولُ: ((اللّٰہُمَّ لَا خَیْرَ إِلَّا خَیْرُ الْآخِرَہ، فَانْصُرِ الْأَنْصَارَ وَالْمُہَاجِرَہْ۔)) (مسند احمد: ۱۳۲۴۰)
سیدناانس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب ہجرت کر کے تشریف لائے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مدینہ منورہ کے بالائی علاقہ میں بنو عمرو بن عوف کے قبیلہ میں چودہ راتیں قیام فرمایا، بعد ازاں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ماموں قبیلہ بنو نجار کے معززین کے ہاں پیغام بھجوایا، وہ ہتھیار سجا کر آگئے۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:وہ منظر گویا اب بھی میری نظروں کے سامنے ہے کہ اللہ کے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی سواری پر سوار ہیں اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ کے پیچھے ہیں اور بنو نجار کے معززین کی جماعت آپ کے گرد حلقہ بنائے ہوئے ہے، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھر کے سامنے اپنا سامان رکھا، اس وقت تک چونکہ مسجد تعمیر نہ ہوئی تھی اس لئے جہاں نماز کا وقت ہو جاتا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہیں نماز ادا فرما لیتے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بکریوں کے باڑے میں بھی نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تعمیر مسجد کا حکم دیا اور بنو نجار کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے طلب فرمایا، وہ آگئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے بنو نجار! تم میرے ساتھ اپنے اس قطعہ ارضی کی قیمت طے کرو۔ لیکن انہوں نے عرض کیا: اللہ کی قسم! ہم اس کا معاوضہ صرف اللہ سے لیں گے۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ اس قطعہ میں مشرکین کی قبریں تھیں اور کچھ کھیتیاں(اور کھنڈرات) اور کھجوروں کے کچھ درخت تھے، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مشرکین کی قبروں کے متعلق حکم دیا کہ ان کو اکھیڑدیا جائے، پس ان کو اکھاڑ دیا گیا اور کھیتوں ( یا کھنڈرات) کے متعلق حکم دیا اور ان کو مسمار کر کے برابر کر دیا گیا اور کھجوروں کے درختوں کو کاٹ دینے کا حکم دیا اور انہیں کاٹ دیا گیا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: کھجوروں کے تنوں کو مسجد کے قبلہ کے رُخ ایک قطار میں کھڑا کر کے دیوار بنا دی گئی، اور دونوں پہلوں کی دیواروں کی جگہ پتھر چُن دئیے گئے، صحابہ کرام ان پتھروں کو اُٹھا اُٹھا کر لاتے اور یہ شعر پڑھتے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی ان کے ساتھ یہ کلمات فرما رہے تھے: اَللَّہُمَّ لَا خَیْرَ إِلَّا خَیْرُ الْآخِرَہ، فَانْصُرِ الْأَنْصَارَ وَالْمُہَاجِرَہْ (یااللہ! اصل بھلائی تو آخرت کی بھلائی ہے، تو انصار اور مہاجرین کی مدد فرمایا۔)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10655

۔ (۱۰۶۵۵)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ الْمَدِینَۃَ، آخَی النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَہُ وَبَیْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِیعِ، فَقَالَ: أُقَاسِمُکَ مَالِی نِصْفَیْنِ، وَلِی امْرَأَتَانِ فَأُطَلِّقُ إِحْدَاہُمَا، فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُہَا فَتَزَوَّجْہَا، فَقَالَ: بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِی أَہْلِکَ وَمَالِکَ، دُلُّونِی عَلَی السُّوقِ،فَدَلُّوہُ، فَانْطَلَقَ فَمَا رَجَعَ إِلَّا وَمَعَہُ شَیْئٌ مِنْ أَقِطٍ وَسَمْنٍ قَدِ اسْتَفْضَلَہُ، فَرَآہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْدَ ذٰلِکَ وَعَلَیْہِ وَضَرٌ مِنْ صُفْرَۃٍ، فَقَالَ: ((مَہْیَمْ؟)) قَالَ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَۃً مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: ((مَا أَصْدَقْتَہَا؟)) قَالَ: نَوَاۃً مِنْ ذَہَبٍ، قَالَ حُمَیْدٌ: أَوْ وَزْنَ نَوَاۃٍ مِنْ ذَہَبٍ، فَقَالَ: ((أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاۃٍ۔))۔ (مسند احمد: ۱۳۰۰۶)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مدینہ منورہ تشریف لائے تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے اور سیدنا سعد بن ربیع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے مابین مواخات اور بھائی چارہ قائم کر دیا،سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں اپنا سارا مال نصف نصف کرتا ہوں، میری دو بیویاں ہیں، میں ایک کو طلاق دے دیتا ہوں، اس کی عدت پوری ہونے کے بعد آپ اس سے نکاح کر لیں، سیدنا عبدالرحمان بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ تمہارے اہل وعیال اور مال میں برکت فرمائے، لیکن مجھے ان چیزوں کی ضرورت نہیں، مجھے بازاراور منڈی کا راستہ بتلا دو۔ لوگوں نے ان کو منڈی کا راستہ بتلادیا، وہ اس میں چلے گئے اور جب واپس آئے تو ان کے پاس کچھ پنیر اور کچھ گھی تھا، جو وہ بطورِ منافع کما کر لائے تھے، اس کے بعد ایک موقعہ پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں دیکھا تو ان کے کپڑوں پر زرد رنگ لگاہواتھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کیا؟ جواب دیا کہ میں نے ایک انصاری خاتون سے شادی کر لی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: تم نے اسے مہر کے طور پر کیا ادا کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: نواۃ کے برابر سونا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ولیمہ کرو خواہ وہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10656

۔ (۱۰۶۵۶)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: وَحَالَفَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَ قُرَیْشٍ وَالْأَنْصَارِ فِی دَارِی الَّتِی بِالْمَدِینَۃِ۔ (مسند احمد: ۱۲۴۹۹)
سیدناانس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قریش اور انصار کے مابین مؤاخات اور بھائی چارہ میرے اس گھر میں کرایا تھا، جو مدینہ منورہ میں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10657

۔ (۱۰۶۵۷)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: حَالَفَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ فِی دَارِنَا، قَالَ سُفْیَانُ: کَأَنَّہُ یَقُولُ: آخَی۔ (مسند احمد: ۱۲۱۱۳)
۔(دوسری سند) سیدناانس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مہاجرین اور انصار کے مابین بھائی چارہ ہمارے گھر میں قائم کیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10657

۔ (۱۰۶۵۷)۔ عََنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَل قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا وَقَالَ لَہُ قَائِلٌ: بَلَغَکَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَاحِلْفَ فِی الْإِسْلَامِ۔)) قَالَ: فَغَضِبَ ثُمَّ قَالَ: بَلٰی بَلٰی، قَدْ حَالَفَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَ قُرَیْشٍ وَالْأَنْصَارِ فِی دَارِہِ۔ (مسند احمد: ۱۴۰۳۱)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ کسی نے ان سے کہا: کیا تم کو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ہے کہ اسلام میں کوئی مؤاخات نہیں ہے۔ ؟یہ سن کر سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غضب ناک ہو گئے اور کہنے لگے، کیوں نہیں، کیوں نہیں، بلکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود قریش اور انصار کے مابین میرے گھر میں مواخات کرائی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10658

۔ (۱۰۶۵۸)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: حَالَفَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ فِی دَارِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ۔ (مسند احمد: ۱۴۰۳۲)
۔(دوسری سند) عاصم احول سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مہاجرین اور انصار کے مابین مواخات سیدناانس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھر میں کرائی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10659

۔ (۱۰۶۵۹)۔ عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَا حِلْفَ فِی الْإِسْلَامِ، وَأَیُّمَا حِلْفٍ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ لَمْ یَزِدْہُ الْإِسْلَامُ إِلَّا شِدَّۃً۔))۔ (مسند احمد: ۱۶۸۸۳)
سیدنا جبیر بن مطعم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسلام میں آپس کا عہدوپیمان نہیں ہے، البتہ اسلام سے قبل دورِ جاہلیت میں جو عہد وپیمان ہو چکا ہے، اسلام اسے مزید مضبوط اور پختہ کرتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10660

۔ (۱۰۶۶۰)۔ عَنْ قَیْسِ بْنِ عَاصِمٍ اَنَّہُ سَألَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنِ الْحَلْفِ، فَقَالَ: ((مَا کَانَ مِنْ حَلْفٍ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، فَتَمَسَّکُوْا بِہِ وَلَا حِلْفَ فِی الْاِسْلَامِ۔))۔ (مسند احمد: ۲۰۸۸۹)
قیس بن عاصم سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عہدوپیمان کے بارے میں دریافت کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو عہد و پیمان دورِ جاہلیت میں کر چکے ہو، انہیں پورا کرو، البتہ اسلام میں از سرِ نو ایسے عہدو پیمان نہیں ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10661

۔ (۱۰۶۶۱)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((شَہِدْتُ حِلْفَ الْمُطَیَّبِینَ مَعَ عُمُومَتِی وَأَنَا غُلَامٌ، فَمَا أُحِبُّ أَنَّ لِی حُمْرَ النَّعَمِ وَأَنِّی أَنْکُثُہُ۔)) قَالَ الزُّہْرِیُّ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَمْ یُصِبِ الْإِسْلَامُ حِلْفًا إِلَّا زَادَہُ شِدَّۃً، وَلَا حِلْفَ فِی الْإِسْلَامِ۔)) وَقَدْ أَلَّفَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَ قُرَیْشٍ وَالْأَنْصَارِ۔ (مسند احمد: ۱۶۵۵)
سیدناعبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں ابھی لڑکا ہی تھا کہ اپنے چچاؤں کے ساتھ مطیبین کے معاہدہ میں شامل ہوا تھا، اب بھی مجھے بیشِ قیمت سرخ اونٹ بھی مل جائیں تو تب بھی میں اس معاہدہ کو توڑنا پسند نہیں کروں گا۔ امام زہری کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسلام نے لوگوں کے کئے ہوئے جس معاہدہ کو پایا، اس نے اسے مزید پختہ کیا اور اب اسلام میں اس قسم کے عہدوپیمان اور معاہدوں کی گنجائش نہیں ہے۔ خود اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قریش اور انصار کے مابین مؤاخات قائم کی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10662

۔ (۱۰۶۶۲)۔ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَفَعَہُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((کُلُّ حِلْفٍ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، لَمْ یَزِدْہُ الْإِسْلَامُ إِلَّا شِدَّۃً أَوْ حِدَّۃً۔))۔ (مسند احمد: ۲۹۰۹)
سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دورِ جاہلیت میں جو معاہدے اور عہدوپیمان ہوئے، اسلام نے ان کو مزید پختہ اور مضبوط کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10663

۔ (۱۰۶۶۳)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: قَالَتِ الْمُہَاجِرُونَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا رَأَیْنَا مِثْلَ قَوْمٍ قَدِمْنَا عَلَیْہِمْ أَحْسَنَ بَذْلًا مِنْ کَثِیرٍ وَلَا أَحْسَنَ مُوَاسَاۃً فِی قَلِیلٍ، قَدْ کَفَوْنَا الْمَئُونَۃَ وَأَشْرَکُونَا فِی الْمَہْنَإِ، فَقَدْ خَشِینَا أَنْ یَذْہَبُوا بِالْأَجْرِ کُلِّہِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((کَلَّا مَا أَثْنَیْتُمْ عَلَیْہِمْ بِہِ، وَدَعَوْتُمُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَہُمْ۔))۔ (مسند احمد: ۱۳۱۵۳)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ مہاجرین نے کہا: ہم جن انصاری لوگوں کے پاس آئے ہیں، ہم نے ان سے زیادہ خرچ کرنے والا اور قلت کے باوجود ان سے بڑھ کر ہمدردی کرنے والا کسی کو نہیں پایا، انہوں نے ہماری ہر ضرورت کو پورا کیا اور ہمیں اپنی ہر خوشی میں شریک رکھا، ہمیں تو اندیشہ ہے کہ سارا ثواب یہ لوگ ہی لے جائیں گے، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، ایسی بات نہیں ہے، جب تک تم ان کے حسنِ سلوک پر ان کی جو تعریف کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ سے ان کے حق میں دعائیں کرتے ہو، (اللہ تمہیں بھی اس کا اجروثواب دے گا)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10664

۔ (۱۰۶۶۴)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أبَیِْہِ عَنْ جَدِّہِ، أنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَتَبَ کِتَابًا بَیْنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ: ((اَنْ یَعْقِلُوْا مَعَاقِلَہُمْ وَاَنْ یَفْدُوْا عَانِیَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ، وَالاِصْلَاحِ بَیْنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔))۔ (مسند احمد: ۲۴۴۳)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مہاجرین اور انصار کے مابینیہ معاہدہ تحریر کیا تھا کہ یہ سب مل کر ایک دوسرے کے خون بہا ادا کریں گے،ایک دوسرے کے قیدیوں کو معروف طریقہ سے رہا کرائیں گے اور مسلمانوں کے مابین اصلاحِ احوال کریں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10665

۔ (۱۰۶۶۵)۔ حَدَّثَنَاإِسْمَاعِیلُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ عَطِیَّۃَ الْأَنْصَارِیُّ عَنْ جَدَّتِہِ أُمِّ عَطِیَّۃَ، قَالَتْ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَدِینَۃَ، جَمَعَ نِسَائَ الْأَنْصَارِ فِی بَیْتٍ، ثُمَّ بَعَثَ إِلَیْہِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَامَ عَلَی الْبَابِ فَسَلَّمَ، فَرَدَدْنَ عَلَیْہِ السَّلَامَ، فَقَالَ: أَنَا رَسُولُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَیْکُنَّ، قُلْنَا: مَرْحَبًا بِرَسُولِ اللّٰہِ وَرَسُولِ رَسُولِ اللّٰہِ وَقَالَ: ((تُبَایِعْنَ عَلٰی أَنْ لَا تُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا، وَلَا تَزْنِینَ وَلَا تَقْتُلْنَ أَوْلَادَکُنَّ، وَلَا تَأْتِینَ بِبُہْتَانٍ تَفْتَرِینَہُ بَیْنَ أَیْدِیکُنَّ وَأَرْجُلِکُنَّ، وَلَا تَعْصِینَہُ فِی مَعْرُوفٍ۔)) قُلْنَا: نَعَمْ! فَمَدَدْنَا أَیْدِیَنَا مِنْ دَاخِلِ الْبَیْتِ، وَمَدَّ یَدَہُ مِنْ خَارِجِ الْبَیْتِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّہُمَّ اشْہَدْ! وَأَمَرَنَا بِالْعِیدَیْنِ أَنْ نُخْرِجَ الْعُتَّقَ وَالْحُیَّضَ، وَنَہٰی عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ، وَلَا جُمُعَۃَ عَلَیْنَا، وَسَأَلْتُہَا عَنْ قَوْلِہِ: {وَلَا یَعْصِینَکَ فِی مَعْرُوفٍ} قَالَتْ: نُہِینَا عَنِ النِّیَاحَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۱۰۷۸)
سیدہ ام عطیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انصار کی خواتین کو ایک گھر میں جمع کیا اور سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ان کی طرف بھیجا، وہ جا کر دروازے پر کھڑے ہو گئے اور سلام کہا، ان عورتوں نے سلام کا جواب دیا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں تمہاری طرف رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا قاصد ہوں۔ ہم نے کہا: ہم اللہ کے رسول اور اللہ کے رسول کے قاصد کو مرحبا اور خوش آمدید کہتی ہیں، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم ان امور پر بیعت کرو کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو کو شریک نہیں ٹھہراؤ گی، زنا نہیں کرو گی، اپنی اولادوں کو قتل نہیں کرو گی،تم از خود کوئی بات بنا کر کسی پر بہتان طرازی نہیں کرو گی اور نوحہ نہیں کرو گی۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ پھر ہم نے گھر کے اندر سے اپنے ہاتھ آگے کو بڑھائے اور انھوں نے باہر ہی سے اپنا بڑھایا، ہاتھ ملائے بغیر ہی محض اشارے سے بیعت ہوئی۔ پھر انھوں نے فرمایا: یا اللہ! گواہ رہنا۔ انھوں نے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم عیدین کے موقعہ پر نوجوان لڑکیوں کو اور حیض والی خواتین کو بھی باہر، عیدگاہ کی طرف عید کے لیے لے جایا کریں اور انھوں نے ہمیں جنازوں کے ساتھ جانے سے منع فرمایا، نیز فرمایا کہ ہمارے لیے جمعہ کی حاضری ضروری نہیں۔ اسمٰعیل بن عبدالرحمن کہتے ہیں: میں نے اپنی دادی سے دریافت کیا کہ حدیث میں وارد لفظ {وَلَا یَعْصِینَکَ فِی مَعْرُوفٍ} سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس لفظ کے ذریعے ہمیںنوحہ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10666

۔ (۱۰۶۶۶)۔ عَنْ أُمَیْمَۃَ بِنْتِ رُقَیْقَۃَ قَالَتْ أَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی نِسَائٍ نُبَایِعُہُ فَأَخَذَ عَلَیْنَا مَا فِی الْقُرْآنِ أَنْ لَا نُشْرِکَ بِاللّٰہِ شَیْئًا الْآیَۃَ قَالَ: ((فِیمَا اسْتَطَعْتُنَّ وَأَطَقْتُنَّ۔)) قُلْنَا اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَرْحَمُ بِنَا مِنْ أَنْفُسِنَا، قُلْنَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَلَا تُصَافِحُنَا؟ قَالَ: ((إِنِّی لَا أُصَافِحُ النِّسَائَ إِنَّمَا قَوْلِی لِامْرَأَۃٍ وَاحِدَۃٍ کَقَوْلِی لِمِائَۃِ امْرَأَۃٍ۔)) (مسند احمد: ۲۷۵۴۹)
سیدہ امیمہ بنت رقیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں عورتوں کے ساتھ مل کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حاضر ہوئی، ہم نے آپ سے بیعت کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم سے قرآن پاک میں بیان کئے گئے اصولوں پر بیعت لی کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کریں گی، (آیت آخر تک)، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ان شقوں پر تم نے اتنا عمل کرنا ہے، جتنی تم میں طاقت اور قوت ہو گی۔ ہم نے کہا: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تو ہمارے ساتھ ہمارے نفسوں سے بھی زیادہ رحم کرنے والے ہیں، ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ ہمارے ساتھ مصافحہ کیوں نہیں کرتے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اجنبی عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، میرا سو خواتین سے عہد لینا، ایسے ہی ہے جیسے ایک عورت سے عہد لیتا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10667

۔ (۱۰۶۶۷)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ: جَائَ تْ أُمَیْمَۃُ بِنْتُ رُقَیْقَۃَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تُبَایِعُہُ عَلَی الْإِسْلَامِ، فَقَالَ: ((أُبَایِعُکِ عَلٰی أَنْ لَا تُشْرِکِی بِاللّٰہِ شَیْئًا، وَلَا تَسْرِقِی، وَلَا تَزْنِی وَلَا تَقْتُلِی وَلَدَکِ، وَلَا تَأْتِی بِبُہْتَانٍ تَفْتَرِینَہُ بَیْنَیَدَیْکِ وَرِجْلَیْکِ، وَلَا تَنُوحِی، وَلَا تَبَرَّجِی تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْأُولٰی۔)) (مسند احمد: ۶۸۵۰)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ امیمہ بنت رقیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں اسلام کی بیعت کرنے کی غرض سے حاضر ہوئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تم سے اس بات کی بیعت لیتا ہوں کہ تم اللہ کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہیں ٹھہراؤ گی، چوری اور زنانہیں کرو گی، اپنے بچوں کو قتل نہ کرو گی، اور از خود گھڑ کر کسی پر بہتان طرازی نہیں کرو گی، نوحہ نہیں کرو گی اور پہلی جاہلیت کی طرح سرِ عام بے پردہ نہ گھومو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10668

۔ (۱۰۶۶۸)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: قَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَدِینَۃَ، وَہِیَ أَوْبَأُ أَرْضِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، فَاشْتَکٰی أَبُو بَکْرٍ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اللَّہُمَّ حَبِّبْ إِلَیْنَا الْمَدِینَۃَ کَحُبِّنَا مَکَّۃَ أَوْ أَشَدَّ، وَصَحِّحْہَا، وَبَارِکْ لَنَا فِی مُدِّہَا وَصَاعِہَا، وَانْقُلْ حُمَّاہَا فَاجْعَلْہَا فِی الْجُحْفَۃِ۔))۔ (مسند احمد: ۲۴۷۹۲)
سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو وہ شدید قسم کی وبائی زمین تھی، پھر سیّدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیمار پڑ گئے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دعا کی: یا اللہ ! ہمارے لئے مدینہ منورہ، مکہ مکرمہ کی طرح یا اس سے بھی زیادہ محبوب بنا دے اور اس کی فضا کو صحت والا کر دے اور ہمارے لیے اس کے مد اور صاع میں برکت فرما اور اس کے بخار کو یہاں سے جُحفہ کے علاقے میں منتقل کر دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10669

۔ (۱۰۶۶۹)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: لَمَّا قَدِمَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَدِینَۃَ، اشْتَکٰی أَصْحَابُہُ، وَاشْتَکٰی أَبُو بَکْرٍ وَعَامِرُ بْنُ فُہَیْرَۃَ مَوْلٰی أَبِی بَکْرٍ وَبِلَالٌ، فَاسْتَأْذَنَتْ عَائِشَۃُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی عِیَادَتِہِمْ، فَأَذِنَ لَہَا، فَقَالَتْ لِأَبِی بَکْرٍ: کَیْفَ تَجِدُکَ؟ فَقَالَ: ((کُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِی أَہْلِہِ، وَالْمَوْتُ أَدْنٰی مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہِ، وَسَأَلَتْ عَامِرًا فَقَالَ: إِنِّی وَجَدْتُ الْمَوْتَ قَبْلَ ذَوْقِہِ، إِنَّ الْجَبَانَ حَتْفُہُ مِنْ فَوْقِہِ،وَسَأَلَتْ بِلَالًا فَقَالَ: یَا لَیْتَ شِعْرِی ہَلْ أَبِیتَنَّ لَیْلَۃً بِفَجٍّ، وَحَوْلِی إِذْخِرٌ وَجَلِیلُ، فَأَتَتِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرَتْہُ بِقَوْلِہِمْ، فَنَظَرَ إِلَی السَّمَائِ وَقَالَ: ((اللَّہُمَّ حَبِّبْ إِلَیْنَا الْمَدِینَۃَ، کَمَا حَبَّبْتَ إِلَیْنَا مَکَّۃَ اَوْ أَشَدَّ، اللَّہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی صَاعِہَا وَفِی مُدِّہَا، وَانْقُلْ وَبَائَ ہَا إِلٰی مَہْیَعَۃَ۔)) وَہِیَ الْجُحْفَۃُ کَمَا زَعَمُوا۔ (مسند احمد: ۲۴۸۶۴)
سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو سیدنا ابوبکر صدیق، ان کے غلام سیدنا عامر بن فہیرہ اور سیدنا بلال سمیت کچھ صحابۂ کرام بیمار پڑ گئے۔ سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان کی عیادت کے لیے جانے کی خاطر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اجازت چاہی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں جانے کی اجازت مرحمت فرما دی۔ جب انھوں نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ آپ کیسے ہیں؟ تو انہوں نے یہ شعر پڑھ کر اپنی پریشانی کا اظہار کیا: ہر شخص کو اس کے اہلِ خانہ میں صبح بخیر کہا جاتا ہے، حالانکہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے بھی اس کے قریب ہے۔ پھر جب انھوں نے سیدنا عامر بن فہیرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ان کا حال دریافت کیا تو انہوں نے کہا: میں موت کے آنے سے پہلے ہی موت سے دو چار ہو گیا ہوں، موت ہر وقت بزدل آدمی کے سر پرکھڑی ہوتی ہے۔ جب سیدہ نے سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ان کا حال دریافت کیا تو انہوں نے کہا: اے کاش میں جان سکوں کہ میں کوئی ایک رات اس وادی فج (جو کہ مکہ کی ایک وادی ہے) میں گزار سکوں گا، جہاں میرے گرد اذخر گھاس اور جلیل نامی گھاس ہو۔ جب عیادت کے بعد سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں آئیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ان حضرات کی باتوں کے متعلق بتلایا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آسمان کی طرف نظر اُٹھا کر فرمایا: یا اللہ ! ہمارے لیے مدینہ منورہ کے صاع اور مد میں برکت فرما اور اس کی وباء کو مہیعہیعنی حجفہ کی طرف منتقل کر دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10670

۔ (۱۰۶۷۰)۔ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: قَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَدِینَۃَ وَہِیَ وَبِیئَۃٌ، ذُکِرَ أَنَّ الْحُمّٰی صَرَعَتْہُمْ فَمَرِضَ أَبُو بَکْرٍ، وَکَانَ إِذَا أَخَذَتْہُ الْحُمَّییَقُولُ: کُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِی أَہْلِہِ، وَالْمَوْتُ أَدْنٰی مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہِ، قَالَتْ: وَکَانَ بِلَالٌ إِذَا أَخَذَتْہُ الْحُمّٰییَقُولُ: أَلَا لَیْتَ شِعْرِی ہَلْ أَبِیتَنَّ لَیْلَۃً بِوَادٍ، وَحَوْلِی إِذْخِرٌ وَجَلِیلُ، وَہَلْ أَرِدْنَ یَوْمًا مِیَاہَ مَجَنَّۃٍ، وَہَلْیَبْدُوَنْ لِی شَامَۃٌ وَطَفِیلُ، اللَّہُمَّ الْعَنْ عُتْبَۃَ بْنَ رَبِیعَۃَ وَشَیْبَۃَ بْنَ رَبِیعَۃَ وَأُمَیَّۃَ بْنَ خَلَفٍ، کَمَا أَخْرَجُونَا مِنْ مَکَّۃَ، فَلَمَّا رَأٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا لَقُوا، قَالَ: ((اللَّہُمَّ حَبِّبْ إِلَیْنَا الْمَدِینَۃَ کَحُبِّنَا مَکَّۃَ أَوْ أَشَدَّ، اللَّہُمَّ صَحِّحْہَا، وَبَارِکْ لَنَا فِی صَاعِہَا وَمُدِّہَا، وَانْقُلْ حُمَّاہَا إِلَی الْجُحْفَۃِ۔)) قَالَ: فَکَانَ الْمَوْلُودُ یُولَدُ بِالْجُحْفَۃِ، فَمَا یَبْلُغُ الْحُلُمَ حَتّٰی تَصْرَعَہُ الْحُمّٰی۔ (مسند احمد: ۲۶۷۷۰)
سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو مدینہ وبا والا علاقہ اور لوگ بخار میں مبتلا تھے، سیّدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیمار ہو گئے۔ انہیں جب شدت کا بخار ہوتا تو وہ یوں کہنے لگتے: ہر شخص اپنے اہلِ خانہ میں صبح کرتا ہے، حالانکہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے بھی اس کے زیادہ قریب ہے۔ سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ سیّدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو شدید بخار ہوتا تو وہ یوں کہتے: اے کاش میں جان سکوں کہ میں کوئی ایک رات اس وادی میں گزار سکوں گا، جہاں میرے اردگرد اذخر اور جلیل نامی گھاس ہو، اور میں کبھی مجنہ کے چشموں پر جا سکوں گا اور کیا شامہ اور جلیل نامی پہاڑ میرے لیے ظاہر ہوں گے، اے اللہ !عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف پر لعنت فرما کہ انہوں نے ہمیں مکہ مکرمہ سے نکال دیا ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب ان صحابہ کییہ پریشانی دیکھی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یا اللہ ! ہمارے لئے مدینہ منورہ کو مکہ مکرمہ کی طرح یا اس سے بھی بڑھ کر محبوب بنا دے۔ اور اس کی فضا کو صحت والا بنا دے، اور ہمارے لئے یہاں کے صاع اور مد میں برکت فرما اور یہاں کے بخار کو جحفہ کی طرف منتقل کر دے عروہ کہتے ہیں آپ کی اس دعا کا نتیجہیہ ہوا کہ جحفہ کے علاقے میں جو بچہ بھی پیدا ہوتا وہ بلوغت کی عمر کو نہیں پہنچتا تھا حتی کہ اسے بخار چت گرا دیتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10671

۔ (۱۰۶۷۱)۔ عَنْ أَسْمَائَ أَنَّہَا حَمَلَتْ بِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ بِمَکَّۃَ، قَالَتْ: فَخَرَجْتُ وَأَنَا مُتِمٌّ، فَأَتَیْتُ الْمَدِینَۃَ فَنَزَلْتُ بِقُبَائَ فَوَلَدْتُہُ بِقُبَائَ، ثُمَّ أَتَیْتُ بِہِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَوَضَعْتُہُ فِی حِجْرِہِ، ثُمَّ دَعَا بِتَمْرَۃٍ فَمَضَغَہَا ثُمَّ تَفَلَ فِی فِیہِ، فَکَانَ أَوَّلَ مَا دَخَلَ فِی جَوْفِہِ رِیقُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: ثُمَّ حَنَّکَہُ بِتَمْرَۃٍ، ثُمَّ دَعَا لَہُ وَبَرَّکَ عَلَیْہِ، وَکَانَ أَوَّلَ مَوْلُودٍ وُلِدَ فِی الْإِسْلَامِ۔ (مسند احمد: ۲۷۴۷۷)
سیدہ اسماء بنت ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ وہ عبداللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مکہ میں حاملہ ہو گئی تھیں، وہ کہتی ہیں: میں جب مکہ سے سفر ہجرت پر روانہ ہوئی تو ایام حمل پورے ہو چکے تھے، میں مدینہ منورہ آئی اور قباء میں قیام کیا، وہیں میں نے بچے کو جنم دیا، میں اسے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لائی اور میں نے اسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی گود میں رکھ دیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھجور منگوا کر اسے چبایا اور اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈال دیا، اس کے پیٹ میں سب سے پہلے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا لعاب مبارک داخل ہوا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے کھجور کی گھٹی دی اور اس کے حق میں برکت کی دعا کی، اسلام کے دور میں یہ سب سے پہلا پیدا ہونے والا بچہ تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10672

۔ (۱۰۶۷۲)۔ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: تَزَوَّجَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ شَوَّالٍ وَبَنٰی بِیْ فِیْ شَوَّالٍ، فَأیُّ نِسَائِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ اَحْظٰی عِنْدَہُ مِنِّیْ، وَکَانَتْ عَائِشَۃُ تَسْتَحِبُّ أَنْ تَدْخُلَ نِسَائُھَا فِیْ شَوَّالٍ۔ (مسند احمد: ۲۶۲۳۵)
سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ( قبل از ہجرت) ماہِ شوال میں مجھ سے نکاح کیا تھا اور ( بعد ازہجرت) ماہ شوال میں میری رخصتی ہوئی، تو کونسی بیوی مجھ سے بڑھ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی منظورِ نظر تھی، اور سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اس بات کو پسند کرتی تھیں کہ اپنے خاندان کی عورتوں کی ماہِ شوال میں شادی کریں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10673

۔ (۱۰۶۷۳)۔ عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ عُمَیْسٍ قَالَتْ: کُنْتُ صَاحِبَۃَ عَائِشَۃَ الَّتِی ہَیَّأَتْہَا وَأَدْخَلَتْہَا عَلَی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَعِیْ نِسْوَۃٌ، قَالَتْ: فَوَاللّٰہِ! مَا وَجَدْنَا عِنْدَہُ قِرًی إِلَّا قَدَحًا مِنْ لَبَنٍ، قَالَتْ: فَشَرِبَ مِنْہُ ثُمَّ نَاوَلَہُ عَائِشَۃَ، فَاسْتَحْیَتِ الْجَارِیَۃُ، فَقُلْنَا: لَا تَرُدِّییَدَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خُذِی مِنْہُ، فَأَخَذَتْہُ عَلَی حَیَائٍ، فَشَرِبَتْ مِنْہُ، ثُمَّ قَالَ: ((نَاوِلِی صَوَاحِبَکِ۔)) فَقُلْنَا: لَا نَشْتَہِہِ، فَقَالَ:((لَا تَجْمَعْنَ جُوعًا وَکَذِبًا۔)) قَالَتْ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنْ قَالَتْ إِحْدَانَا لِشَیْئٍ تَشْتَہِیہِ: لَا أَشْتَہِیہِ،یُعَدُّ ذَلِکَ کَذِبًا، قَالَ: ((إِنَّ الْکَذِبَ یُکْتَبُ کَذِبًا حَتَّی تُکْتَبَ الْکُذَیْبَۃُ کُذَیْبَۃً۔)) (مسند احمد: ۲۸۰۱۹)
سیدہ اسماء بنت عمیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں:میں نے سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں روانہ کرتے وقت ان کو تیار کیا، چند دوسری خواتین بھی میرے ساتھ تھیں، اللہ کی قسم! ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں دودھ کے ایک پیالے کے سوا مزید کوئی مہمانی نہ پائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے دودھ نوش فرمایا اور پھر وہ سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو تھما دیا، انھوں نے دلہن ہونے کی وجہ سے دودھ نوش کرنے میں جھجک محسوس کی، لیکن ہم نے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ یوں نہ واپس کرو اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پیالہ پکڑ لو، انہوں نے جھجکتے ہوئے پیالہ لے کر اس سے نوش کیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اپنی ان سہیلیوں کو دے دو، تو ہم نے عرض کیا، ہمیں اس کی حاجت نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جھوٹ اور بھوک کو یکجا نہ کرو۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کسی کو کسی چیز کی حاجت تو ہو مگر وہ ویسے ہی کہہ دے کہ مجھے حاجت نہیں تو کیا یہ بھی جھوٹ لکھا جائے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جھوٹ کو جھوٹ ہی لکھا جاتا ہے اور چھوٹا جھوٹ چھوٹا ہی لکھا جاتا ہے۔ شہر بن حوشب سے مروی ہے کہ وہ ایک دن قبیلہ بنو عبد الاشھل کی ایک خاتون سیدہ اسماء بنت یزید بن سکن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں گئے، انہوں نے اس کے سامنے کھانا پیش کیا، تو انہوں نے کہا کہ مجھے کھانے کی طلب نہیں،انہوں نے کہا: میں نے اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو ان کی شادی کی موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف روانہ کرتے وقت تیار کیا تھا، پھر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گئی اور میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے ملوانے کے لئے بلایا، آپ آکر ان کے پہلو میں بیٹھ گئے، دودھ کا ایک پیالہ پیش کیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے نوش فرمایا اور پھر آپ نے باقی ماندہ سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو دیا، انہوں نے سر جھکا لیا اور شرما گئیں۔ سیدہ اسمائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں نے سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو جھڑک دیا اور کہا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ سے پیالہ پکڑ لو، چنانچہ انہوں نے پیالہ لے کر اس سے کچھ پی لیا۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے فرمایا: اپنی سہیلی کو دے دو۔ سیدہ اسمائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول! آپ لیں اور نوش فرمائیں، اس کے بعد مجھے عنایت فرمائیں، چنانچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پیالہ لے کر اس میں سے کچھ نوش کیا اور پھر وہ مجھے تھما دیا، وہ کہتی ہیں کہ میں نے بیٹھ کر اسے اپنے گھٹنے پر رکھا اور اسے گھمانے لگی اور اپنے ہونٹ اس پر پھیرنے لگی تاکہ میرے ہونٹ اس مبارک مقام پر لگ جائیں، جہاں منہ رکھ کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نوش فرمایا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں میرے پاس موجود خواتین کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ انہیں بھی دو، تو انہوں نے کہا ہمیں حاجت نہیں ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جھوٹ اور بھوک کو جمع نہ کرو، پس کیا تو اس بات سے باز نہیں آئے گی کہ مجھے حاجت نہیں ہے؟ میں نے کہا: اماں جان! میں آئندہ ایسے نہ کہوں گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10674

۔ (۱۰۶۷۴)۔ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ أَنَّ أَسْمَائَ بِنْتَ یَزِیدَ بْنِ السَّکَنِ، إِحْدٰی نِسَائِ بَنِی عَبْدِ الْأَشْہَلِ، دَخَلَ عَلَیْہَایَوْمًا، فَقَرَّبَتْ إِلَیْہِ طَعَامًا، فَقَالَ: لَا أَشْتَہِیہِ، فَقَالَتْ: إِنِّی قَیَّنْتُ عَائِشَۃَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ جِئْتُہُ فَدَعَوْتُہُ لِجِلْوَتِہَا، فَجَائَ فَجَلَسَ إِلٰی جَنْبِہَا، فَأُتِیَ بِعُسِّ لَبَنٍ فَشَرِبَ، ثُمَّ نَاوَلَہَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَخَفَضَتْ رَأْسَہَا وَاسْتَحْیَا، قَالَتْ أَسْمَائُ: فَانْتَہَرْتُہَا، وَقُلْتُ لَہَا: خُذِی مِنْ یَدِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: فَأَخَذَتْ فَشَرِبَتْ شَیْئًا، ثُمَّ قَالَ لَہَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَعْطِی تِرْبَکِ۔)) قَالَتْ أَسْمَائُ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! بَلْ خُذْہُ فَاشْرَبْ مِنْہُ، ثُمَّ نَاوِلْنِیہِ مِنْ یَدِکَ، فَأَخَذَہُ فَشَرِبَ مِنْہُ، ثُمَّ نَاوَلَنِیہِ، قَالَتْ: فَجَلَسْتُ ثُمَّ وَضَعْتُہُ عَلٰی رُکْبَتِی، ثُمَّ طَفِقْتُ أُدِیرُہُ وَأَتْبَعُہُ بِشَفَتَیَّ لِأُصِیبَ مِنْہُ مَشْرَبَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ قَالَ لِنِسْوَۃٍ عِنْدِی: ((نَاوِلِیہِنَّ۔)) فَقُلْنَ: لَا نَشْتَہِیہِ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَا تَجْمَعْنَ جُوعًا وَکَذِبًا، فَہَلْ أَنْتِ مُنْتَہِیَۃٌ أَنْ تَقُولِی لَا أَشْتَہِیہِ؟)) فَقُلْتُ: أَیْ أُمَّہْ! لَا أَعُودُ أَبَدًا۔ (مسند احمد: ۲۸۱۴۳)
امام نافع سے مروی ہے کہ سیدناعبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو وہ جمع ہو کر نماز کے وقت انتظار کیا کرتے تھے، اس وقت کوئی بھی اذان دینے والا نہیں ہوتا تھا، ایک دن صحابہ نے اس بارے میں گفتگو شروع کی، بعض نے کہا کہ عیسائیوں کے ناقوس جیسا ناقوس بنا لو۔ بعض نے کہا کہ ناقوس تو نہیں ہونا چاہیے، البتہ یہودیوں کی طرح کا ایک سینگ مقرر کر لو۔ سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم اس طرح کیوں نہیں کرتے کہ کسی کو بھیج دیا کرو جو نماز کا اعلان کر دیا کرے؟ پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بلال! اُٹھو اور نماز کا اعلان کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10675

۔ (۱۰۶۷۵)۔ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ یَقُولُ: کَانَ الْمُسْلِمُونَ حِینَ قَدِمُوا الْمَدِینَۃَ،یَجْتَمِعُونَ فَیَتَحَیَّنُونَ الصَّلَاۃَ، وَلَیْسَیُنَادِی بِہَا أَحَدٌ، فَتَکَلَّمُوا یَوْمًا فِی ذٰلِکَ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ: اتَّخِذُوا نَاقُوسًا مِثْلَ نَاقُوسِ النَّصَارٰی، وَقَالَ بَعْضُہُمْ: بَلْ قَرْنًا مِثْلَ قَرْنِ الْیَہُودِ، فَقَالَ عُمَرُ: أَوَلَا تَبْعَثُونَ رَجُلًا یُنَادِی بِالصَّلَاۃِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا بِلَالُ! قُمْ فَنَادِ بِالصَّلَاۃِ۔))۔ (مسند احمد: ۶۳۵۷)
پھر سیدنا عبد اللہ بن زید بن عبد ربہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے خواب میں اذان دیکھی اور آ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اطلاع دی، نماز کے ابواب میں اذان کی مکمل تفصیل گزر چکی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10676

۔ (۱۰۶۷۶)۔ عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ عَائِشَۃَ قَالَتْ: قَدْ فُرِضَتِ الصَّلَاۃُ رَکْعَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ بِمَکَّۃَ، فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَدِینَۃَ، زَادَ مَعَ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ إِلَّا الْمَغْرِبَ، فَإِنَّہَا وِتْرُ النَّہَارِ، وَصَلَاۃَ الْفَجْرِ لِطُولِ قِرَاء َتِہِمَا، قَالَ: وَکَانَ إِذَا سَافَرَ صَلَّی الصَّلَاۃَ الْأُولٰی۔ (مسند احمد: ۲۶۵۷۰)
سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ مکہ میں نماز کی دو دو رکعتیں فرض ہوئی تھیں، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو ہر دو رکعت کے ساتھ مزید دو رکعتوں کا اضافہ کر دیا تھا، ما سوائے مغرب کے، کیونکہ وہ دن کی طاق نماز ہے اور ما سوائے نمازِ فجر کے، کیونکہ ان میں قراء ت طویل ہوتی ہے، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا معمول تھا کہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سفر پر روانہ ہوتے تو پہلے کی طرح نماز ادا فرماتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10677

۔ (۱۰۶۷۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَقْبَلَتْ یَہُودُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوْا: یَا أَبَا الْقَاسِمِ! إِنَّا نَسْأَلُکَ عَنْ خَمْسَۃِ أَشْیَائَ، فَإِنْ أَنْبَأْتَنَا بِہِنَّ عَرَفْنَا أَنَّکَ نَبِیٌّ وَاتَّبَعْنَاکَ، فَأَخَذَ عَلَیْہِمْ مَا أَخَذَ إِسْرَائِیلُ عَلٰی بَنِیہِ إِذْ قَالُوْا: {اللّٰہُ عَلٰی مَا نَقُولُ وَکِیلٌ} قَالَ: ((ہَاتُوْا۔)) قَالُوْا: أَخْبِرْنَا عَنْ عَلَامَۃِ النَّبِیِّ، قَالَ: ((تَنَامُ عَیْنَاہُ وَلَا یَنَامُ قَلْبُہُ۔))، قَالُوْا: أَخْبِرْنَا کَیْفَ تُؤَنِّثُ الْمَرْأَۃُ وَکَیْفَ تُذْکِرُ؟ قَالَ: ((یَلْتَقِی الْمَائَ انِِ فَإِذَا عَلَا مَائُ الرَّجُلِ مَائَ الْمَرْأَۃِ أَذْکَرَتْ، وَإِذَا عَلَا مَائُ الْمَرْأَۃِ آنَثَتْ۔))، قَالُوْا: أَخْبِرْنَا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِیلُ عَلٰی نَفْسِہِ، قَالَ: ((کَانَ یَشْتَکِی عِرْقَ النَّسَا فَلَمْ یَجِدْ شَیْئًایُلَائِمُہُ إِلَّا أَلْبَانَ کَذَا وَکَذَا۔)) قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْن أَحْمَد: قَالَ أَبِی: قَالَ بَعْضُہُمْ: یَعْنِی الْإِبِلَ فَحَرَّمَ لُحُومَہَا، قَالُوْا: صَدَقْتَ، قَالُوْا: أَخْبِرْنَا مَا ہٰذَا الرَّعْدُ؟ قَالَ: ((مَلَکٌ مِنْ مَلَائِکَۃِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مُوَکَّلٌ بِالسَّحَابِ بِیَدِہِ، أَوْ فِییَدِہِ مِخْرَاقٌ مِنْ نَارٍ، یَزْجُرُ بِہِ السَّحَابَ، یَسُوقُہُ حَیْثُ أَمَرَ اللّٰہُ۔)) قَالُوْا: فَمَا ہٰذَا الصَّوْتُ الَّذِییُسْمَعُ؟ قَالَ: ((صَوْتُہُ۔))، قَالُوْا: صَدَقْتَ، إِنَّمَا بَقِیَتْ وَاحِدَۃٌ وَہِیَ الَّتِی نُبَایِعُکَ إِنْ أَخْبَرْتَنَا بِہَا، فَإِنَّہُ لَیْسَ مِنْ نَبِیٍّ إِلَّا لَہُ مَلَکٌ یَأْتِیہِ بِالْخَبَرِ، فَأَخْبِرْنَا مَنْ صَاحِبُکَ؟ قَالَ: ((جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَام۔)) قَالُوْا: جِبْرِیلُ؟ ذَاکَ الَّذِییَنْزِلُ بِالْحَرْبِ وَالْقِتَالِ وَالْعَذَابِ عَدُوُّنَا۔ لَوْ قُلْتَ: مِیکَائِیلَ الَّذِییَنْزِلُ بِالرَّحْمَۃِ وَالنَّبَاتِ وَالْقَطْرِ لَکَانَ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیلَ} إِلَی آخِرِ الْآیَۃَ۔ (مسند احمد: ۲۴۸۳)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بیان کرتے ہیں کہ یہودی لوگ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے کہا: اے ابوالقاسم! ہم آپ سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال کریں گے، اگر آپ ان کے جوابات دیں گے تو ہم پہچان جائیں گے کہ آپ برحق نبی ہیں اور ہم آپ کی اتباع بھی کریں گے، آپ نے ان سے اس طرح عہد لیا، جس طرح یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے عہد لیا تھا، جب انھوں نے کہا تھا ہم جو بات کر رہے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ وکیل ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: و ہ سوال پیش کرو۔ (۱) انہوں نے کہا: ہمیں نبی کی نشانی بتائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نبی کی آنکھیں سوتی ہیں اور اس کا دل نہیں سوتا۔ (۲) انھوں نے کہا: یہ بتائیں کہ نر اورمادہ کیسے پیدا ہوتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مردوزن کا آب جو ہر دونوں ملتے ہیں، جب آدمی کا پانی عورت کے پانی پر غالب آتا ہے، تو نر پیدا ہوتا ہے اور جب عورت کا آب جو ہر غالب آتا ہے تو مادہ پیدا ہوتی ہے۔ (۳) انہوں نے کہا: ہمیں بتائو کہیعقوب علیہ السلام نے خود پر کیا حرام قرار دیا تھا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انہیں عرق نسا کی بیماری تھی، انہیں صرف اونٹنیوں کا دودھ موافق آیا، تو صحت ہونے پر اونٹوں کا گوشت خود پر حرام قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا: آپ سچ کہتے ہیں، (۴) اچھا یہ بتائیں کہ یہ گرج کیا ہے؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے، جس کے سپرد بادل ہیں۔ اس فرشتہ کے ہاتھ میں آگ کا ہنٹرہے، جس کے ساتھ وہ اس جگہ بادلوں کو چلاتا ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا: یہ آواز کیا ہے جو سنی جاتی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اسی ہنٹر کی آواز ہے۔ انہوں نے کہا: آپ نے سچ کہا ہے۔ (۵) انہوں نے کہا: ایک بات رہ گئی ہے، اگر آپ اس کا جواب دیں گے تو ہم آپ کی بیعت کریں گے، وہ یہ ہے کہ ہر نبی کے لئے ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے، جواس کے پاس بھلائییعنی وحی لے کر آتا ہے، آپ بتائیں آپ کا فرشتہ ساتھی کون سا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جبریل علیہ السلام ہیں۔ اب کی بار انھوں نے کہا: جبریل،یہ تو جنگ، لڑائی اور عذاب لے کر آتا ہے، یہ تو ہمارا دشمن ہے، اگر آپ میکائیل کہتے جو کہ رحمت، نباتات اور بارش کے ساتھ نازل ہوتا ہے، تو پھر بات بنتی، اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ آیت نازل کی: {قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہ نَزَّلَہ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَیَدَیْہِ وَھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ۔} … کہہ دے جو کوئی جبریل کا دشمن ہو تو بے شک اس نے یہ کتاب تیرے دل پر اللہ کے حکم سے اتاری ہے، اس کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے ہے اور مومنوں کے لیے سرا سر ہدایت اور خوشخبری ہے۔ (سورۂ بقرہ: ۹۷)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10678

۔ (۱۰۶۷۸)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: سَأَلْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ الْقِرَدَۃِ وَالْخَنَازِیرِ، أَہِیَ مِنْ نَسْلِ الْیَہُودِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَلْعَنْ قَوْمًا قَطُّ، فَمَسَخَہُمْ فَکَانَ لَہُمْ نَسْلٌ حِینَیُہْلِکُہُمْ،وَلٰکِنْ ہٰذَا خَلْقٌ کَانَ، فَلَمَّا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَی الْیَہُودِ، مَسَخَہُمْ فَجَعَلَہُمْ مِثْلَہُمْ۔))۔ (مسند احمد: ۳۷۴۷)
سیدناعبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بندروں اور خنزیروں کے متعلق دریافت کیا کہ کیایہیہودیوں کی مسخ شدہ نسل سے ہیں؟ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایسا کبھی نہیں ہو اکہ کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم پرلعنت کرتے ہوئے انہیں مسخ کر دے اور انہیں ہلاک کر دے اور پھر ان کی نسل چلے، در حقیقتیہ مخلوق ان کے مسخ کئے جانے سے پہلے کی ہے، اللہ تعالیٰ جب یہود پر غضب ناک ہوا تو اس نے ان کو ان مخلوقات کی مانند بنا دیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10679

۔ (۱۰۶۷۹)۔ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِیدٍ أَخِی بَنِی عَبْدِ الْأَشْہَلِ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ سَلَامَۃَ بْنِ وَقْشٍ، وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ بَدْرٍ، قَالَ: کَانَ لَنَا جَارٌ مِنْ یَہُودَ فِی بَنِی عَبْدِ الْأَشْہَلِ، قَالَ: فَخَرَجَ عَلَیْنَایَوْمًا مِنْ بَیْتِہِ قَبْلَ مَبْعَثِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِیَسِیرٍ، فَوَقَفَ عَلٰی مَجْلِسِ عَبْدِ الْأَشْہَلِ، قَالَ سَلَمَۃُ: وَأَنَا یَوْمَئِذٍ أَحْدَثُ مَنْ فِیہِ سِنًّا، عَلَیَّ بُرْدَۃٌ مُضْطَجِعًا فِیہَا بِفِنَائِ أَہْلِی، فَذَکَرَ الْبَعْثَ وَالْقِیَامَۃَ وَالْحِسَابَ وَالْمِیزَانَ وَالْجَنَّۃَ وَالنَّارَ، فَقَالَ: ذٰلِکَ لِقَوْمٍ أَہْلِ شِرْکٍ أَصْحَابِ أَوْثَانٍ لَا یَرَوْنَ أَنَّ بَعْثًا کَائِنٌ بَعْدَ الْمَوْتِ، فَقَالُوا لَہُ: وَیْحَکَیَا فُلَانُ! تَرٰی ہٰذَا کَائِنًا، إِنَّ النَّاسَ یُبْعَثُونَ بَعْدَ مَوْتِہِمْ إِلٰی دَارٍ فِیہَا جَنَّۃٌ وَنَارٌ، یُجْزَوْنَ فِیہَا بِأَعْمَالِہِمْ، قَالَ: نَعَمْ، وَالَّذِییُحْلَفُ بِہِ! لَوَدَّ أَنَّ لَہُ بِحَظِّہِ مِنْ تِلْکَ النَّارِ أَعْظَمَ تَنُّورٍ فِی الدُّنْیَایُحَمُّونَہُ، ثُمَّ یُدْخِلُونَہُ إِیَّاہُ، فَیُطْبَقُ بِہِ عَلَیْہِ، وَأَنْیَنْجُوَ مِنْ تِلْکَ النَّارِ غَدًا، قَالُوا لَہُ: وَیْحَکَ! وَمَا آیَۃُ ذٰلِکَ؟ قَالَ: نَبِیٌّیُبْعَثُ مِنْ نَحْوِ ہٰذِہِ الْبِلَادِ، وَأَشَارَ بِیَدِہِ نَحْوَ مَکَّۃَ وَالْیَمَنِ، قَالُوا: وَمَتٰی تَرَاہُ، قَالَ: فَنَظَرَ إِلَیَّ وَأَنَا مِنْ أَحْدَثِہِمْ سِنًّا، فَقَالَ: إِنْ یَسْتَنْفِدْ ہٰذَا الْغُلَامُ عُمُرَہُ یُدْرِکْہُ، قَالَ سَلَمَۃُ: فَوَاللّٰہِ! مَا ذَہَبَ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ حَتّٰی بَعَثَ اللّٰہُ تَعَالٰی رَسُولَہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ حَیٌّ بَیْنَ أَظْہُرِنَا، فَآمَنَّا بِہِ وَکَفَرَ بِہِ بَغْیًا وَحَسَدًا، فَقُلْنَا: وَیْلَکَ،یَا فُلَانُ! أَلَسْتَ بِالَّذِی قُلْتَ لَنَا فِیہِ مَا قُلْتَ؟ قَالَ: بَلٰی وَلَیْسَ بِہ۔ (مسند احمد: ۱۵۹۳۵)
قبیلہ بنو عبدالاشہل کے سیدنا محمود بن لبید سلمہ بن سلامہ بن وقش سے روایت ہے، یہ اصحاب بدر میں سے تھے، کہتے ہیں کہ قبیلہ بنو عبدالا شھل کا ایکیہودی ہمارا ہمسایہ تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بعثت سے کچھ دن پہلے ایک دن وہ اپنے گھر سے نکل کر قبیلہ عبدالاشھل کی ایک محفل میں آکھڑا ہوا، سلمہ کہتے ہیں کہ میں اس روز وہاں پر موجود سب سے کم سن تھا۔ میں ایک چادر اوڑھے اپنے گھر کے سامنے لیٹا ہوا تھا۔ اس یہودی نے مرنے کے بعد جی اُٹھنے قیامت، حساب وکتاب، میزان اور جنت وجہنم کا ذکر کیا۔ اس نے یہ باتیں ایسے لوگوں کے سامنے کی تھیں، جو مشرک اور بت پرست تھے، وہ مرنے کے بعد جی اُٹھنے پر ایمان واعتقاد نہ رکھتے تھے، انہوں نے اس سے کہا: ارے یہ کیا؟ تو بھی کہتا ہے کہ یہ کچھ ہو گا اور لوگ مرنے کے بعد ایک ایسے جہان میں اُٹھائے جائیں گے، جہاں جنت اور جہنم ہو گی اور لوگوں کو ان کے اعمال کی جزادی جائے گی؟ اس نے کہا: ہاں، اس ذات کی قسم جس کی قسم اُٹھائی جاتی ہے! میں تو یہ بھی پسند کرتا ہوں کہ دنیا میں آگ کا ایک بہت بڑا تنور ہو اور لوگ اس میں داخل ہو جائیں اور پھر اسے اوپر سے بند کر دیا جائے اور میں کل کو جہنم کی آگ سے بچ جاؤں۔ لوگوں نے اس سے کہا: تجھ پر افسوس، اس کی علامت کیا ہے؟ تو اس نے مکہ اور یمن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان علاقوں سے ایک نبی مبعوث ہو گا لوگوں نے اس سے پوچھا ہم اس کو کب دیکھ سکیں گے؟ اس نے میری طرف دیکھا، میں ان میں سب سے کم سن تھا اور اس نے کہا: یہ لڑکا اگر زندہ رہا تو اپنی عمر تمام ہونے سے پہلے پہلے اسے دیکھلے گا۔ سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! کچھ دن رات ہی گزرے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بھیج دیا اور وہ ہمارے درمیان زندہ موجود تھے۔ پس ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ایمان لے آئے اور اس نے بغض وحسد کی بنا پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا کفر کیا، ہم نے اس سے کہا: اے فلاں! تجھ پر افسوس! کیا تو ہی وہ شخص نہیں، جس نے ہم سے اس نبی کے متعلق باتیں کی تھیں اور بتلایا تھا؟ اس نے کہا! ہاں، کیوں نہیں، لیکنیہ وہ نبی نہیں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10680

۔ (۱۰۶۸۰)۔ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ الزُّہْرِیِّ قَالَ: مَرَّ بِیْیَہُوْدِیٌّ، وَأنَا قَائِمٌ خَلْفَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَالنَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَتَوَضَّأ، قَالَ: فَقَالَ: اِرْفَعْ أوِ اکْشِفْ ثَوْبَہُ عَنْ ظَہْرِہِ؟ قال: فَذَھَبْتُ بِہِ اَرْفَعُہُ، قَالَ: فَنَضَحَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی وَجْہِیْ مِنَ الْمَائِ۔ (مسند احمد: ۱۹۱۱۵)
سیدنا مسور بن مخرمہ زہری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وضو کر رہے تھے اور میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے کھڑا تھا، ایکیہودی میرے پاس سے گزرا اور اس نے کہا ان کی پشت پر سے کپڑا اوپر اُٹھاؤ، تو میں آپ کا کپڑا اوپر کو اٹھانے لگا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے چہرے پر پانیکے چھینٹے مارے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10681

۔ (۱۰۶۸۱)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ قَالَ: جَائَ جُرْمُقَانِیٌّ إِلَی أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: أَیْنَ صَاحِبُکُمْ ہٰذَا الَّذِییَزْعُمُ أَنَّہُ نَبِیٌّ؟ لَئِنْ سَأَلْتُہُ لَأَعْلَمَنَّ أَنَّہُ نَبِیٌّ أَوْ غَیْرُ نَبِیٍّ، قَالَ: فَجَائَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ الْجُرْمُقَانِیُّ: اِقْرَأْ عَلَیَّ أَوْ قُصَّ عَلَیَّ، فَتَلَا عَلَیْہِ آیَاتٍ مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی، فَقَالَ الْجُرْمُقَانِیُّ: ہٰذَا، وَاللّٰہِ الَّذِی جَائَ بِہِ مُوسٰی عَلَیْہِ السَّلَام، قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَحْمَد: ہٰذَا الْحَدِیثُ مُنْکَرٌ۔ (مسند احمد: ۲۱۱۷۶)
سیدناجابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک عجمی قوم جرامقہ کا ایک فرد صحابہ کرام کے پاس آیا اور اس نے کہا: تمہارے وہ صاحب کہاں ہیں جو نبی ہونے کے دعوے دار ہیں؟ میں ان سے کچھ دریافت کر نا چاہتا ہوں ، تاکہ جان لوں کہ وہ نبی ہیںیا نہیں ؟ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اور اس جرمقانی نے کہا: آپ میرے سامنے کچھ تلاوت کریںیا بیان کریں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے سامنے کتاب اللہ کی چند آیات کی تلاوت کی، جرمقانی نے کہا: اللہ کی قسم! موسیٰ علیہ السلام بھی ایسی ہی تعلیم لے کر آئے تھے۔ عبداللہ بن احمد نے کہا کہ یہ حدیث منکر ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10682

۔ (۱۰۶۸۲)۔ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ أَنَّ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ أَخْبَرَہُ: أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَکِبَ حِمَارًا، عَلَیْہِ إِکَافٌ تَحْتَہُ قَطِیفَۃٌ فَدَکِیَّۃٌ، وَأَرْدَفَ وَرَائَہُ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ، وَہُوَ یَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ فِی بَنِی الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، وَذٰلِکَ قَبْلَ وَقْعَۃِ بَدْرٍ، حَتّٰی مَرَّ بِمَجْلِسٍ، فِیہِ أَخْلَاطٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ وَالْمُشْرِکِینَ عَبَدَۃِ الْأَوْثَانِ وَالْیَہُودِ، فِیہِمْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أُبَیٍّ، وَفِی الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ، فَلَمَّا غَشِیَتِ الْمَجْلِسَ عَجَاجَۃُ الدَّابَّۃِ، خَمَّرَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أُبَیٍّ أَنْفَہُ بِرِدَائِہِ ثُمَّ قَالَ: لَا تُغَبِّرُوا عَلَیْنَا، فَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ فَدَعَاہُمْ إِلَی اللّٰہِ وَقَرَأَ عَلَیْہِمْ الْقُرْآنَ، فَقَالَ لَہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أُبَیٍّ: أَیُّہَا الْمَرْئُ! لَا أَحْسَنَ مِنْ ہٰذَا إِنْ کَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا، فَلَا تُؤْذِینَا فِی مَجَالِسِنَا، وَارْجِعْ إِلٰی رَحْلِکَ، فَمَنْ جَاء َکَ مِنَّا فَاقْصُصْ عَلَیْہِ، قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ: اغْشَنَا فِی مَجَالِسِنَا فَإِنَّا نُحِبُّ ذٰلِکَ، قَالَ: فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِکُونَ وَالْیَہُودُ، حَتّٰی ہَمُّوا أَنْ یَتَوَاثَبُوا، فَلَمْ یَزَلِ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُخَفِّضُہُمْ، ثُمَّ رَکِبَ دَابَّتَہُ حَتّٰی دَخَلَ عَلٰی سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ، فَقَالَ: ((أَیْ سَعْدُ! أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ؟ (یُرِیدُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أُبَیٍّ) قَالَ کَذَا وَکَذَا۔)) فَقَالَ: اعْفُ عَنْہُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَاصْفَحْ، فَوَاللّٰہِ! لَقَدْ أَعْطَاکَ اللّٰہُ الَّذِی أَعْطَاکَ، وَلَقَدْ اصْطَلَحَ أَہْلُ ہٰذِہِ الْبُحَیْرَۃِ، أَنْ یُتَوِّجُوہُ فَیُعَصِّبُونَہُ بِالْعِصَابَۃِ، فَلَمَّا رَدَّ اللّٰہُ ذٰلِکَ بِالْحَقِّ الَّذِی أَعْطَاکَہُ شَرِقَ بِذٰلِکَ فَذَاکَ فَعَلَ بِہِ مَا رَأَیْتَ، فَعَفَا عَنْہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۲۱۱۰)
سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے، اس پر کاٹھی اور اس کے نیچے فد کی کپڑا یعنی فدک مقام کا تیار شدہ کپڑا رکھا ہوا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو گدھے پر اپنے پیچھے سوار کر لیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبیلہ بنو حارث بن خزرج میں سیدنا سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے، یہ غزوۂ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چلتے چلتے ایک ایسی محفل کے پاس سے گذرے جس میں مسلمان، مشرکین، بتوں کے پجاری اور یہودی ملے جلے بیٹھے تھے۔ ان میں عبداللہ ابن ابی اور عبداللہ بن رواحہ بھی تھے، گدھے کے چلنے کی وجہ سے اڑنے والا غبار محفل پر پہنچا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر سے اپنی ناک کو ڈھانپ لیا اور بولا ہم پر غبار نہ اڑاؤ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان لوگوں کو سلام کہا اور رک کر نیچے اتر آئے اور ان لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دی اور ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کی، عبداللہ بن ابی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: آپ کی بات سے بہتر کوئی بات نہیں، اگر آپ جو کچھ کہتے ہیں وہ حق ہے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہماری محافل میں آکر ہمیں تنگ نہ کیا کریں، آپ اپنے گھر جائیں ہم میں سے جو کوئی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے سامنے یہ چیزیں بیان کیا کریں۔ اس پر سیدنا عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہماری محافل میں تشریف لایا کریں، ہم پسند کرتے ہیں۔ یا سیدنا عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عبداللہ بن ابی سے مخاطب ہو کر کہا:تم اپنی محافل میں آنے سے ہمیں روک رہے ہو، تاہم ہم تمہیں اپنی محافل میں آنے کی دعوت دیتے ہیں، تم ہماری محافل میں آیا کر و ہم اسے پسند کرتے ہیں، ان باتوں سے مسلمانوں، مشرکین اور یہود میں تو تُکار شروع ہو گئی،یہاں تک کہ نوبت ہاتھا پائی تک جا پہنچی۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انہیں خاموش کراتے رہے، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی سواری پر سوار ہو کر تشریف لے گئے اور سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں جا کر نزول فرما ہوئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سعد! کیا تم نے ابو حباب یعنی عبداللہ بن ابی کی بات سنی ہے؟ اس نے یوںیوں کہا ہے۔ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ اسے جانے دیں اور درگزر کریں، اللہ کی قسم ! اللہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جو عزت دینی تھی، وہ دے رکھی ہے اس بستییعنی مدینہ منورہ کے لوگ اس کی تاج پوشی اور دستار بندی کر کے اسے سردار بنانے والے تھے، جب اللہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو عطا کئے ہوئے حق کے ذریعے اسے ناکام ونامراد کیا تو وہ آپ سے حسد کرنے لگا ہے۔ اس نے آپ کے ساتھ جو کچھ کیایہ اسی کا نتیجہ ہے،سو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے معاف کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10683

۔ (۱۰۶۸۳)۔ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: غَزَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَمْسَ عَشَرَۃَ غَزْوَۃً۔ (مسند احمد: ۱۸۷۵۸)
سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پندرہ غزوے کئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10684

۔ (۱۰۶۸۴)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) ثَنَا إِسْرَائِیْلُ عَنْ أبِیْ اِسْحٰقَ عَنِ الْبَرَائِ ابْنِ عَازِبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَمْسَ عَشْرَۃَ غَزْوَۃً، وَأنَا وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ لِدَۃٌ۔ (مسند احمد: ۱۸۷۸۷)
۔( دوسری سند) سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ پندرہ غزوات میں شرکت کی، میں اور سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہم عمر ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10685

۔ (۱۰۶۸۵)۔ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ قَالَ: سَأَلْتُ زَیْدَ بْنَ أَرْقَمَ کَمْ غَزَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: تِسْعَ عَشْرَۃَ، وَغَزَوْتُ مَعَہُ سَبْعَ عَشْرَۃَ، وَسَبَقَنِی بِغَزَاتَیْنِ۔ (مسند احمد: ۱۹۵۳۱)
ابو اسحاق سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے سیدنا زید بن ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کل کتنے غزوے کئے تھے؟ انہوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انیس غزوے کیے اور میں نے آپ کے ساتھ سترہ غزوات میں شرکت کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دو غزووں میں مجھ سے سبقت لے گئے تھے، (سو میں ان میں شرکت نہ کر سکا تھا)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10686

۔ (۱۰۶۸۶)۔ عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أبِیْہِ قَالَ: غَزَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سِتَّ عَشَرَۃَ غَزْوَۃً۔ (مسند احمد: ۲۳۳۴۱)
سیدنا بریدہ سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ سولہ غزوات میں شرکت کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10686

۔ (۱۰۶۸۶م)۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: لَمْ یَکُنْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَغْزُو فِی الشَّہْرِ الْحَرَامِ إِلَّا أَنْ یُغْزٰی أَوْ یُغْزَوْا، فَإِذَا حَضَرَ ذٰلِکَ، أَقَامَ حَتّٰییَنْسَلِخَ۔ (مسند احمد: ۱۴۶۳۷)
سیدناجابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حرمت والے مہینوں میں قتال نہیں کیا کرتے تھے، سوائے اس صورت کے کہ دشمن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر چڑھائی کر دیتا، اگر کوئی ایسی صورت پیش آ جاتی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حرمت والے مہینے کے گزرنے تک رک جاتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10687

۔ (۱۰۶۸۷)۔ عَنْ أنَسٍ قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِذَا غَزَا قَالَ: ((اَللّٰھُمَّ أنْتَ عَضُدِیْ، وَأنْتَ نَصِیْرِیْ، وَبِکَ أُقَاتِلُ۔))۔ (مسند احمد: ۱۲۹۴۰)
سیدناانس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب دشمن سے قتال کرتے تو یہ دعا کرتے تھے: اَللّٰہُمَّ اَنْتَ عَضُدِی وَاَنْتَ نصِیری وَبِکَ اُقَاتِلُ۔ (یا اللہ ! تو ہی میرا دست وبازو اور مدد گار ہے اور میں تیرے ہی سہارے دشمن سے قتال کرتا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10688

۔ (۱۰۶۸۸)۔ عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ قَالَ: کُنْتُ أَنَا وَعَلِیٌّ رَفِیقَیْنِ فِی غَزْوَۃِ ذَاتِ الْعُشَیْرَۃِ، فَلَمَّا نَزَلَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَقَامَ بِہَا، رَأَیْنَا أُنَاسًا مِنْ بَنِی مُدْلِجٍ یَعْمَلُونَ فِی عَیْنٍ لَہُمْ فِی نَخْلٍ، فَقَالَ لِی عَلِیٌّ: یَا أَبَا الْیَقْظَانِ! ہَلْ لَکَ أَنْ تَأْتِیَ ہٰؤُلَائِ، فَنَنْظُرَ کَیْفَیَعْمَلُونَ؟ فَجِئْنَاہُمْ فَنَظَرْنَا إِلٰی عَمَلِہِمْ سَاعَۃً، ثُمَّ غَشِیَنَا النَّوْمُ فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَعَلِیٌّ، فَاضْطَجَعْنَا فِی صَوْرٍ مِنَ النَّخْلِ فِی دَقْعَائَ مِنَ التُّرَابِ، فَنِمْنَا فَوَاللّٰہِ! مَا أَہَبَّنَا إِلَّا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُحَرِّکُنَا بِرِجْلِہِ، وَقَدْ تَتَرَّبْنَا مِنْ تِلْکَ الدَّقْعَائِ، فَیَوْمَئِذٍ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعَلِیٍّ: ((یَا أَبَا تُرَابٍ!)) لِمَا یُرَی عَلَیْہِ مِنَ التُّرَابِ، قَالَ: ((أَلَا أُحَدِّثُکُمَا بِأَشْقَی النَّاسِ رَجُلَیْنِ؟)) قُلْنَا: بَلٰی،یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((أُحَیْمِرُ ثَمُودَ الَّذِی عَقَرَ النَّاقَۃَ، وَالَّذِییَضْرِبُکَیَا عَلِیُّ عَلٰی ہٰذِہِ، یَعْنِی قَرْنَہُ، حَتّٰی تُبَلَّ مِنْہُ ہٰذِہِ، یَعْنِی لِحْیَتَہُ۔))۔ (مسند احمد: ۱۸۵۱۱)
سیدناعمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ غزوۃ العشیرۃ میں میں اور علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اکٹھے تھے۔ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں نزول فرما ہوئے تو ہم نے وہاں بنو مدلج کے لوگوں کو ایک نخلستان میں ایک چشمے پر کام کرتے دیکھا تو علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے کہا ابو الیقظان!کیا خیال ہے ہم ان کے پاس جا کر دیکھیںیہ کس طرح کام کرتے ہیں؟ ہم ان کے پاس گئے اور ہم نے کچھ دیر ان کا کام دیکھا۔ پھر ہمیں نیند نے آلیا۔ تو میں اور علی چل کر کھجوروں کے ایک جھنڈ میں مٹی پر ہی لیٹ کر سو گئے۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہی اپنے پاؤں سے حرکت دے کر ہمیں بیدار کیا۔ ہم دونوں مٹی کے ساتھ لتھڑے ہوئے تھے اس دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اے ابو تراب کی کنیت سے پکارا، کیونکہ ان کے وجود پر مٹی نظر آ رہی تھی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمھارے لیے دو بدبخت ترین مردوں کی نشاندہی نہ کروں؟ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: احیمر ثمودی، جس نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دی تھیں اور وہ آدمی جو (اے علی!) تیرے سر پر مارے گا، حتی کہ تیری (داڑھی) خون سے بھیگ جائے گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10689

۔ (۱۰۶۸۹)۔ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَدِینَۃَ، جَائَتْہُ جُہَیْنَۃُ، فَقَالُوا: إِنَّکَ قَدْ نَزَلْتَ بَیْنَ أَظْہُرِنَا، فَأَوْثِقْ لَنَا حَتّٰی نَأْتِیَکَ وَتُؤْمِنَّا، فَأَوْثَقَ لَہُمْ فَأَسْلَمُوا، قَالَ: فَبَعَثَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی رَجَبٍ، وَلَا نَکُونُ مِائَۃً وَأَمَرَنَا أَنْ نُغِیرَ عَلٰی حَیٍّ مِنْ بَنِی کِنَانَۃَ إِلٰی جَنْبِ جُہَیْنَۃَ، فَأَغَرْنَا عَلَیْہِمْ وَکَانُوا کَثِیرًا، فَلَجَأْنَا إِلٰی جُہَیْنَۃَ فَمَنَعُونَا، وَقَالُوا: لِمَ تُقَاتِلُونَ فِی الشَّہْرِ الْحَرَامِ؟ فَقُلْنَا: إِنَّمَا نُقَاتِلُ مَنْ أَخْرَجَنَا مِنَ الْبَلَدِ الْحَرَامِ فِی الشَّہْرِ الْحَرَامِ، فَقَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ: مَا تَرَوْنَ، فَقَالَ بَعْضُنَا: نَأْتِی نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنُخْبِرُہُ، وَقَالَ قَوْمٌ: لَا، بَلْ نُقِیمُ ہَاہُنَا، وَقُلْتُ أَنَا فِی أُنَاسٍ مَعِی: لَا، بَلْ نَأْتِی عِیرَ قُرَیْشٍ فَنَقْتَطِعُہَا، فَانْطَلَقْنَا إِلَی الْعِیرِ، وَکَانَ الْفَیْئُ إِذْ ذَاکَ مَنْ أَخَذَ شَیْئًا فَہُوَ لَہُ، فَانْطَلَقْنَا إِلَی الْعِیرِ، وَانْطَلَقَ أَصْحَابُنَا إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرُوہُ الْخَبَرَ، فَقَامَ غَضْبَانًا مُحْمَرَّ الْوَجْہِ، فَقَالَ: ((أَذَہَبْتُمْ مِنْ عِنْدِی جَمِیعًا وَجِئْتُمْ مُتَفَرِّقِینَ، إِنَّمَا أَہْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ الْفُرْقَۃُ، لَأَبْعَثَنَّ عَلَیْکُمْ رَجُلًا لَیْسَ بِخَیْرِکُمْ، أَصْبَرُکُمْ عَلَی الْجُوعِ وَالْعَطَشِ۔)) فَبَعَثَ عَلَیْنَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ جَحْشٍ الْأَسَدِیَّ، فَکَانَ أَوَّلَ أَمِیرٍ أُمِّرَ فِی الْإِسْلَامِ۔ (مسند احمد: ۱۵۳۹)
سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو قبیلہ جہینہ کے لوگ آپ کی خدمت میں آئے اور انہوں نے عرض کیا آپ ہمارے درمیان تشریف لا چکے ہیں، آپ ہمارے ساتھ مضبوط تعلق قائم کریں تاکہ ہم آپ کی خدمت میں آئیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہماری قیادت بھی فرمائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے پختہ عہدوپیمان کیا، وہ لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے، سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں ماہ رجب میں روانہ کیا، ہماری تعداد ایک سو بھی نہ تھی، آپ نے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم قبیلہ جہینہ کے قریب آباد بنو کنانہ کی ایک شاخ پر حملہ کریں، ہم نے ان پر حملہ کر دیا، وہ لوگ تعداد میں بہت زیادہ تھے، ہم قبیلہ جہینہ میں جا کر پناہ گزیں ہو گئے اورانہوں نے ہمیںپناہ دے دی اور یہ بھی کہا کہ آپ لوگ حرمت والے مہینے میں قتال کیوں کرتے ہیں؟ ہم نے کہا: ہم ان لوگوں سے قتال کرتے ہیں جنہوں نے ہمیں بلد حرامیعنی حرمت والے شہر سے حرمت والے مہینے میں نکال باہر کیا،یہ باتیں سن کر ہم میں سے بعض نے بعض سے کہا: اب تمہارا کیا خیال ہے؟ بعض نے کہا:ہم اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جا کر صورتِ حال کی خبر کریں، لیکن کچھ لوگوں نے کہا: نہیں نہیں، ہمیں یہیں ٹھہرنا چاہیے۔اور میں نے چند مزید لوگوں کو ساتھ ملا کر کہا کہ ہمیں قریش کے قافلہ کا رخ کر کے اس کو لوٹ لینا چاہیے، چنانچہ ہم قافلہ کی طرف چل پڑے، ان دنوں دستور تھا کہ مال پر جو آدمی قابض ہو جاتا وہ اسی کا ہوتا ،ہم قافلہ کی طرف چل دئیے، اور ہمارے کچھ ساتھیوں نے جا کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سارے حالات کی اطلاع کر دی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غضب ناک ہو کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا: تم میرے ہاں سے اکٹھے ہو کر گئے تھے اور تم الگ الگ ہو کر واپس آ رہے ہو، تم سے پہلے لوگوں کو بھی اسی اختلاف نے ہلاک کیا تھا، میں تمہارے اوپر ایک ایسے آدمی کو امیر بنا کر بھیجوں گا جو تم سے بہتر یا افضل نہیں، البتہ تمہاری نسبت وہ بھوک پیاس کو زیادہ برداشت کر سکتا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عبداللہ بن جحش اسدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ہمارے اوپر امیر بنا کر روانہ فرمایا،یہ پہلا شخص تھا جسے دورِ اسلام میں سب سے پہلے امیر بنایا گیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10690

۔ (۱۰۶۹۰)۔ عَنِ الْبَرَاء ِ بْنِ عَازِبٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ أَوَّلَ مَا قَدِمَ الْمَدِینَۃَ، نَزَلَ عَلَی أَجْدَادِہِ اَوْ أَخْوَالِہِ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَأَنَّہُ صَلَّی قِبَلَ بَیْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّۃَ عَشَرَ أَوْ سَبْعَۃَ عَشَرَ شَہْرًا، وَکَانَ یُعْجِبُہُ أَنْ تَکُونَ قِبْلَتُہُ قِبَلَ الْبَیْتِ، وَأَنَّہُ صَلّٰی أَوَّلَ صَلَاۃٍ صَلَّاہَا صَلَاۃَ الْعَصْرِ وَصَلّٰی مَعَہُ قَوْمٌ، فَخَرَجَ رَجُلٌ مِمَّنْ صَلّٰی مَعَہُ، فَمَرَّ عَلٰی أَہْلِ مَسْجِدٍ وَہُمْ رَاکِعُونَ، فَقَالَ: أَشْہَدُ بِاللّٰہِ! لَقَدْ صَلَّیْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قِبَلَ مَکَّۃَ، قَالَ: فَدَارُوا کَمَا ہُمْ قِبَلَ الْبَیْتِ، وَکَانَ یُعْجِبُہُ أَنْ یُحَوَّلَ قِبَلَ الْبَیْتِ، وَکَانَ الْیَہُودُ قَدْ أَعْجَبَہُمْ إِذْ کَانَ یُصَلِّی قِبَلَ بَیْتِ الْمَقْدِسِ، وَأَہْلُ الْکِتَابِ فَلَمَّا وَلّٰی وَجْہَہُ قِبَلَ الْبَیْتِ أَنْکَرُوا ذٰلِکَِِِِ۔ (مسند احمد: ۱۸۶۹۰)
سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو ابتدائی طور پر اپنے انصاری اجداد یا ماموؤں کے ہاں اترے اور وہیں قیام فرمایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہاں آکر سولہ سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نمازیں ادا فرمائیں، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دلی پسند یہتھی کہ آپ کاقبلہ خانہ کعبہ ہو۔ (تحویل قبلہ کے بعد) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سب سے پہلی نماز عصر( خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے ) ادا فرمائی۔ لوگوں نے بھی آپ کی معیت میں نماز ادا کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نماز ادا کرنے والے لوگوں میں سے ایک آدمی وہاں سے روانہ ہوا، تو اس کا گزر کچھ لوگوں کے پاس سے ہوا، جو مسجد میں نماز ادا کر رہے تھے اور وہ رکوع کی حالت میں تھے، اس شخص نے کہا: میں اللہ کا واسطہ دے کر شہادت دیتا ہوں کہ میں اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں مکہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کر کے آیا ہوں۔ وہ لوگ نماز کے دوران ہی کعبہ کی طرف مڑ گئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بھی دلی پسند یہی تھی کہ آپ کا رخ کعبہ (بیت اللہ) کی طرف کر دیا جائے اور یہودیوں کو یہ بات اچھی لگتی تھی کہ آپ بیت المقدس کی طرف اور اہل کتاب کے قبلہ کی طرف رخ کر کے نمازیں ادا کیا کرتے تھے، جب آپ کا رخ بیت اللہ کی طرف کر دیا گیا تو انہیںیہ بات اچھی نہ لگی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10691

۔ (۱۰۶۹۱)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لَھَا: ((إِنَّہُمْ (یَعْنِی الْیَہُوْدَ) لَا یَحْسُدُونَّا عَلٰی شَیْئٍ کَمَا یَحْسُدُونَّا عَلٰییَوْمِ الْجُمُعَۃِ، الَّتِی ہَدَانَا اللّٰہُ لَہَا وَضَلُّوا عَنْہَا، وَعَلَی الْقِبْلَۃِ الَّتِی ہَدَانَا اللّٰہُ لَہَا وَضَلُّوا عَنْہَا، وَعَلٰی قَوْلِنَا خَلْفَ الْإِمَامِ آمِینَ۔))۔ (مسند احمد: ۲۵۵۴۳)
سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: یہودی ہمارے اوپر اور کسی چیز کا اتنا حسد نہیں کرتے جتنا وہ جمعہ کے دن پر حسد کرتے ہیں، جبکہ اللہ نے یہ دن ہمیں دیا اور وہ اس سے محروم رہے، وہ ہمارے قبلہ پر بھی حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں یہقبلہ دیا اور وہ اس سے محروم ہے اور وہ امام کے پیچھے ہمارے آمین کہنے پر بھی حسد کرتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10692

۔ (۱۰۶۹۲)۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: اُحِیْلَتِ الصَّلَاۃُ ثَلَاثَۃَ اَحْوَالٍ وَاُحِیْلَ الصِّیَامُ ثَلَاثَۃَ اَحْوَالٍ، فَاَمَّا اَحْوَالُ الصَّلَاۃِ فَإِنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ وَہُوَ یُصَلِّیْ سَبْعَۃَ عَشَرَ شَہْرًا إِلٰی بَیْتِ الْمَقْدِسِ (الْحَدِیْثِ) قَالَ: وَاَمَا اَحْوَالُ الصِّیَامِ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ فَجَعَل یَصُوْمُ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ، وَقَالَ یَزِیْدُ: فَصَامَ سَبْعَۃَ عَشَرَ شَہْرًا مِنْ رَبِیْعِ الْاَوَّلِ إِلٰی رَمَضَانَ، مِنْ کُلِّ شَہْرٍ ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ، وَصَامَ یَوْمَ عَاشُوْرَائَ، ثُمَّ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ فَرَضَ عَلَیْہِ الصِّیَامَ فَاَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ (إِلٰی ھٰذِہِ الآیَۃِ) وَعَلَی الَّذِیْنَیُطِیْقُوْنَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ} قَالَ: فَکَانَ مَنْ شَائَ صَامَ وَمَنْ شَائَ اَطْعَمَ مِسْکِیْنًا فَاَجْزَأَ ذَالِکَ عَنْہُ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اَنْزَلَ اْلآیَۃَ الْاُخْرٰی: {شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنْزِلَ فیِہِ الْقُرْآنُ (إِلٰی قَوْلِہِ) فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ} فَاَثْبَتَ اللّٰہُ صِیَامَہُ عَلَی الْمُقِیْمِ الصَّحِیْحِ، وَرَخَّصَ فِیْہِ لِلْمَرِیْضِ وَالْمُسَافِرِ وَثَبَّتَ الإِطْعَامَ لِلْکَبِیْرِ الَّذِی لَایَسْتَطِیْعُ الصِّیَامَ فَھٰذَانِ حَالَانِ، قَالَ: وَکَانُوْا یَاْکُلُوْنَ وَیَشْرَبُوْنَ، وَیَاْتُوْنَ النِّسَائَ مَالَمْ یَنَامُوْا فَإِذَا نَامُوْا اِمْتَنَعُوْا، قَالَ: ثُمَّ إِنَّ رَجُلاً مِنَ الْاَنْصَارِ یُقَالُ لَہُ صِرْمَۃُ، ظَلَّ یَعْمَلُ صَائِمًا حَتّٰی اَمْسٰی فَجَائَ إِلٰی اَہْلِہِ فَصَلَّی الْعِشَائَ ثُمَّ نَامَ فَلَمْ یَاْکُلْ، وَلَمْ یَشْرَبْ حَتّٰی اَصْبَحَ فَاَصْبَحَ صَائِمًا، قَالَ: فَرَآہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَدْ جَہِدَ جَہْدًا شَدِیْدًا، قَالَ: ((مَالِیْ اَرَاکَ قَدْ جَہِدْتَّ جَہْدًا شَدِیْدًا؟)) قَالَ: یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ! إِنِّی عَمِلْتُ اَمْسِ فَجِئْتُ حِیْنَ جِئْتُ فَاَلْقَیْتُ نَفْسِی فَنِمْتُ وَاَصْبَحْتُ حِیْنَ اَصْبَحْتُ صَائِمًا، قَالَ: وَکَانَ عُمَرُ قَدْ اَصَابَ مِنَ النِّسَائِ مِنْ جَارِیَۃٍ اَوْ مِنْ حُرْۃٍ بَعْدَ مَانَامَ، وَاَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَذَکَرَ ذَالِکَ لَہُ فَاَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ إلٰی نِسَائِکُمْ (إِلٰی قَوْلِہٖعَزَّوَجَلَّ) ثُمَّاَتِمُّوْاالصِّیامَ إِلَی الَّیْلِ۔} (مسند احمد: ۲۲۴۷۵)
سیدنامعاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ تین مراحل میں نماز کی فرضیت اور تین مراحل میں ہی روزے کی فرضیت ہوئی، نماز کے مراحل یہ ہیں: جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے،… (کتاب الصلاۃ میں مکمل حدیث گزر چکی ہے) روزے کے مراحل یہ ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہر ماہ میں تین روزے رکھا کرتے تھے، یزید راوی کہتا ہے: ربیع الاول سے لے کر ماہِ رمضان کے روزوں کی فرضیت تک کل سترہ ماہ کے دوران آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہر ماہ میں تین روزے رکھتے رہے، نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دس محرم کا روزہ بھی رکھا تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ماہِ رمضان کے روزے فرض کر دیئے اور یہ آیات نازل فرمائیں: {یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔} (اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں، جس طرح کہ تم سے پہلے والے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم پرہیزگار بن جائو۔ )نیز فرمایا: { وَعَلَی الَّذِیْنَیُطِیْقُوْنَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ} (اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں، وہ (روزہ کی بجائے) ایک مسکین کوبطور فدیہ کھانا کھلا دیا کریں۔) ان آیات پر عمل کرتے ہوئے جو آدمی چاہتا وہ روزہ رکھ لیتا اور جو کوئی روزہ نہ رکھنا چاہتا وہ بطورِ فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا اور یہی چیز اس کی طرف سے کافی ہو جاتی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا: {شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنْزِلَ فیِہِ الْقُرْآنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ} (ماہِ رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں لوگوں کو ہدایت کے لئے اور ہدایت کے واضح دلائل بیان کرنے کے لئے قرآن مجید نازل کیا گیا ہے، جو حق و باطل میں امتیاز کرنے والا ہے، اب تم میں سے جو آدمی اس مہینہ کو پائے وہ روزے رکھے۔) اس طرح اللہ تعالیٰ نے مقیم اورتندرست آدمی پراس مہینے کے روزے فرض کر دیئے، البتہ مریض اور مسافر کو روزہ چھوڑنے کی رخصت دے دی اور روزہ کی طاقت نہ رکھنے والے عمر رسیدہ آدمی کے لیے روزہ کا یہ حکم برقرار رکھا کہ وہ بطورِ فدیہ مسکین کو کھانا کھلا دیا کرے، یہ دو حالتیں ہو گئیں، تیسری حالت یہ تھی کہ لوگ رات کو سونے سے پہلے تک کھا پی سکتے تھے اور بیویوں سے ہم بستری کر سکتے تھے تھے، لیکن جب نیند آ جاتی تو اس کے بعد یہ سب کچھ ان کے لئے ممنوع قرار پاتا تھا، ایک دن یوں ہوا کہ ایک صرمہ نامی انصاری صحابی روزے کی حالت میں سارا دن کام کرتا رہا، جب شام ہوئی تو اپنے گھر پہنچا اور عشا کی نماز پڑھ کر کچھ کھائے پئے بغیر سو گیا،یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور اس طرح اس کا روزہ بھی شروع ہو چکا تھا، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے دیکھا کہ وہ کافی نڈھال ہوچکا تھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے پوچھا کہ: بہت نڈھال دکھائی دے رہے ہو، کیا وجہ ہے؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! کل سارا دن کام کرتا رہا، جب گھر آیا تو ابھی لیٹا ہی تھا کہ سو گیا( اور اس طرح میرے حق میں کھانا پینا حرام ہو گیا اور) جب صبح ہوئی تو میں نے تو روزے کی حالت میں ہی ہونا تھا۔ اُدھر سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بھی ایک معاملہ تھا کہ انھوں نے نیند سے بیدار ہونے کے بعد اپنی بیوییا لونڈی سے ہم بستریکر لی تھی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آ کر ساری بات بتلا دی تھی، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا: {اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ إلَی نِسَائِکُمْ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَا عَنْکُمْ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰییَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوْا الصِّیامَ إِلَی الَّیْلِ۔} (روزے کی راتوںمیں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لیے حلال کیا گیا، وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو، تمہاری پوشیدہ خیانتوں کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے، اس نے تمہاری توبہ قبول فرما کر تم سے درگزر فرما لیا، اب تمہیں ان سے مباشرت کی اور اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی چیز کو تلاش کرنے کی اجازت ہے، تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے، پھر رات تک روزے کو پورا کرو۔)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10693

۔ (۱۰۶۹۳)۔ عَنْ اَنَسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: لَمَّا سَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِلٰی بَدْرٍ، خَرَجَ فَاسْتَشَارَ النَّاسَ، فَاَشَارَ عَلَیْہِ اَبُوْبَکَرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، ثُمَّ اسْتَشَارَھُمْ فَاَشْارَ عَلَیْہِ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فَسَکَتَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْاَنْصَارِ: اِنّمَا یُرِیْدُکُمْفَقَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! وَاللّٰہِ لَانَکُوْنُ کَمَا قَالَتْ بَنُوْا اِسْرَئِیْلَ لِمُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ : {اذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ} وَلٰکِنْ وَاللّٰہِ لَوْ ضَرَبَتَ اَکْبَادَ الْاِبِلِ حَتّٰی تَبْلُغَ بَرْکَ الْغِمَادِ لَکُنَّا مَعَکَ۔ (مسند احمد: ۱۲۰۴۵)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بدر کی طرف روانہ ہونے لگے تو باہر تشریف لائے اور لوگوں سے مشورہ کیا، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک مشورہ دیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مشورہ طلب کیا، اس بار سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک رائے دی، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش رہے، اتنے میں ایک انصاری کھڑا ہوا اور اس نے کہا: انصاریو! حضور ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تم سے مخاطب ہیں، پس انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! ہم اس طرح نہیں ہوں گے، جیسا کہ بنو اسرائیل نے موسی علیہ السلام سے کہا تھا: تو جا اور تیرا ربّ جائے اور تم دونوں جا کر لڑو، ہم تو یہیں بیٹھنے والے ہیں۔ اللہ کی قسم ہے، اے اللہ کے رسول! اگر آپ اونٹوں کے جگروں پر مارتے ہوئے سفر کرتے جائیں،یہاں تک کہ برک الغماد تک پہنچ جائیں تو ہم آپ کے ساتھ ہی رہیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10694

۔ (۱۰۶۹۴)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بُسَیْسَۃَ عَیْنًا،یَنْظُرُ مَا فَعَلَتْ عِیرُ أَبِی سُفْیَانَ، فَجَائَ وَمَا فِی الْبَیْتِ أَحَدٌ غَیْرِی وَغَیْرُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: لَا أَدْرِی مَا اسْتَثْنٰی بَعْضَ نِسَائِہِ فَحَدَّثَہُ الْحَدِیثَ، قَالَ: فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَتَکَلَّمَ، فَقَالَ: ((إِنَّ لَنَا طَلِبَۃً فَمَنْ کَانَ ظَہْرُہُ حَاضِرًا فَلْیَرْکَبْ مَعَنَا۔)) فَجَعَلَ رِجَالٌ یَسْتَأْذِنُونَہُ فِی ظَہْرٍ لَہُمْ فِی عُلُوِّ الْمَدِینَۃِ، قَالَ: ((لَا إِلَّا مَنْ کَانَ ظَہْرُہُ حَاضِرًا۔)) فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابُہُ حَتّٰی سَبَقُوا الْمُشْرِکِینَ إِلٰی بَدْرٍ، وَجَائَ الْمُشْرِکُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَا یَتَقَدَّمَنَّ أَحَدٌ مِنْکُمْ إِلٰی شَیْئٍ حَتّٰی أَکُونَ أَنَا أُؤْذِنُہُ۔)) فَدَنَا الْمُشْرِکُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((قُومُوا إِلٰی جَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمٰوَاتُ وَالْأَرْضُ۔)) قَالَ: یَقُولُ عُمَیْرُ بْنُ الْحُمَامِ الْأَنْصَارِیُّ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! جَنَّۃٌ عَرْضُہَا السَّمٰوَاتُ وَالْأَرْضُ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) فَقَالَ: بَخٍ بَخٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا یَحْمِلُکَ عَلٰی قَوْلِکَ بَخٍ بَخٍ؟)) قَالَ: لَا، وَاللّٰہِ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِلَّا رَجَائَ أَنْ أَکُونَ مِنْ أَہْلِہَا، قَالَ: ((فَإِنَّکَ مِنْ أَہْلِہَا۔)) قَالَ: فَأَخْرَجَ تَمَرَاتٍ مِنْ قَرَنِہِ فَجَعَلَ یَأْکُلُ مِنْہُنَّ، ثُمَّ قَالَ: لَئِنْ أَنَا حَیِیتُ حَتّٰی آکُلَ تَمَرَاتِی ہٰذِہِ إِنَّہَا لَحَیَاۃٌ طَوِیلَۃٌ، قَالَ: ثُمَّ رَمٰی بِمَا کَانَ مَعَہُ مِنَ التَّمْرِ، ثُمَّ قَاتَلَہُمْ حَتّٰی قُتِلَ۔ (مسند احمد: ۱۲۴۲۵)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا بسیسہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو جاسوس کی حیثیت سے روانہ فرمایا تاکہ وہ ابو سفیان کے قافلہ پر نظر رکھے، ایک دفعہ جب کہ گھر میں میرے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سوا اور کوئی نہ تھا وہ آئے، ثابت راوی کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں ہے کہ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے امہات المؤمنین میں سے کسی کا استثناء کیا تھا یا نہیں، اور سیدنا بسیسہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آکر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بات کی، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف لے گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک قافلے پر ہماری نظر ہے، جس آدمی کے پاس سواری ہو، وہ سوار ہو کر ہمارے ساتھ چلے۔ بعض لوگوں نے یہ اجازت چاہی کہ ان کی سواریاں مدینہ منورہ کے بالائی علاقہ میں ہیں، وہ جا کر سواریاں لے آئیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، صرف وہ لوگ چلیں جن کی سواریاں اس وقت موجود ہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ کے اصحاب روانہ ہوئے اور مشرکین سے پہلے پہلے بدر کے مقام پر جا پہنچے، مشرکین بھی آگئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تک میں اجازت نہ دوں کوئی آدمی پیش قدمی نہ کرے۔ جب مشرکین مسلمانوں کے قریب آپہنچے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب بڑھو اس جنت کی طرف جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ عمیر بن نحام انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا جنت کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں! تو وہ کہنے لگے: واہ، واہ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم یہ واہ واہ کیوں کہہ رہے ہو؟ انہوں نے :کہا اللہ کے رسول! میں یہ الفاظ اس امید پر کہہ رہا ہوں کہ اللہ مجھے اہلِ جنت میں سے بنا دے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جنتی ہو، اس کے بعد اس نے اپنی تھیلی سے کچھ کھجوریں نکالیں اور کھانے لگا ، اتنے میں اس نے کہا: اگر میں ان کھجوروں کے کھانے تک زندہ رہوں، تو یہ تو بڑی طویل زندگی ہے، چنانچہ اس کے پاس جو کھجوریں تھیں، اس نے ان کو پھینک دیا اور مشرکین سے قتال کیایہاں تک کہ شہید ہو گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10695

۔ (۱۰۶۹۵)۔ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: لَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ أَصَبْنَا مِنْ ثِمَارِہَا، فَاجْتَوَیْنَاہَا وَأَصَابَنَا بِہَا وَعْکٌ، وَکَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَتَخَبَّرُ عَنْ بَدْرٍ، فَلَمَّا بَلَغَنَا أَنَّ الْمُشْرِکِینَ قَدْ أَقْبَلُوا، سَارَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی بَدْرٍ، وَبَدْرٌ بِئْرٌ،فَسَبَقَنَا الْمُشْرِکُونَ إِلَیْہَا، فَوَجَدْنَا فِیہَا رَجُلَیْنِ مِنْہُمْ، رَجُلًا مِنْ قُرَیْشٍ وَمَوْلًی لِعُقْبَۃَ بْنِ أَبِی مُعَیْطٍ، فَأَمَّا الْقُرَشِیُّ فَانْفَلَتَ، وَأَمَّا مَوْلَی عُقْبَۃَ فَأَخَذْنَاہُ فَجَعَلْنَا نَقُولُ لَہُ: کَمِ الْقَوْمُ؟ فَیَقُولُ: ہُمْ، وَاللّٰہِ! کَثِیرٌ عَدَدُہُمْ، شَدِیدٌ بَأْسُہُمْ، فَجَعَلَ الْمُسْلِمُونَ، إِذْ قَالَ ذٰلِکَ، ضَرَبُوہُ حَتّٰی انْتَہَوْا بِہِ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ لَہُ: ((کَمِ الْقَوْمُ؟)) قَالَ: ہُمْ، وَاللّٰہِ! کَثِیرٌ عَدَدُہُمْ، شَدِیدٌ بَأْسُہُمْ، فَجَہَدَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یُخْبِرَہُ کَمْ ہُمْ فَأَبٰی، ثُمَّ إِنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَأَلَہُ: ((کَمْ یَنْحَرُونَ مِنَ الْجُزُرِ۔)) فَقَالَ: عَشْرًا کُلَّ یَوْمٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((الْقَوْمُ أَلْفٌ کُلُّ جَزُورٍ لِمِائَۃٍ۔)) وَتَبِعَہَا ثُمَّ إِنَّہُ أَصَابَنَا مِنَ اللَّیْلِ طَشٌّ مِنْ مَطَرٍ، فَانْطَلَقْنَا تَحْتَ الشَّجَرِ وَالْحَجَفِ نَسْتَظِلُّ تَحْتَہَا مِنَ الْمَطَرِ، وَبَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدْعُو رَبَّہُ عَزَّ وَجَلَّ، وَیَقُولُ: ((اللَّہُمَّ إِنَّکَ إِنْ تُہْلِکْ ہٰذِہِ الْفِئَۃَ لَا تُعْبَدْ۔)) قَالَ: فَلَمَّا أَنْ طَلَعَ الْفَجْرُ نَادَی الصَّلَاۃَ عِبَادَ اللّٰہِ، فَجَائَ النَّاسُ مِنْ تَحْتِ الشَّجَرِ وَالْحَجَفِ فَصَلَّی بِنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَحَرَّضَ عَلَی الْقِتَالِ، ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ جَمْعَ قُرَیْشٍ تَحْتَ ہٰذِہِ الضِّلَعِ الْحَمْرَائِ مِنَ الْجَبَلِ۔)) فَلَمَّا دَنَا الْقَوْمُ مِنَّا وَصَافَفْنَاہُمْ، إِذَا رَجُلٌ مِنْہُمْ عَلٰی جَمَلٍ لَہُ أَحْمَرَ یَسِیرُ فِی الْقَوْمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا عَلِیُّ! نَادِ لِی حَمْزَۃَ۔)) وَکَانَ أَقْرَبَہُمْ مِنَ الْمُشْرِکِینَ مَنْ صَاحِبُ الْجَمَلِ الْأَحْمَرِ، وَمَاذَا یَقُولُ لَہُمْ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنْ یَکُنْ فِی الْقَوْمِ أَحَدٌ یَأْمُرُ بِخَیْرٍ فَعَسٰی أَنْ یَکُونَ صَاحِبَ الْجَمَلِ الْأَحْمَرِ۔)) فَجَائَ حَمْزَۃُ، فَقَالَ: ہُوَ عُتْبَۃُ بْنُ رَبِیعَۃَ وَہُوَ یَنْہٰی عَنِ الْقِتَالِ، وَیَقُولُ لَہُمْ: یَا قَوْمُ! إِنِّی أَرٰی قَوْمًا مُسْتَمِیتِینَ لَا تَصِلُونَ إِلَیْہِمْ وَفِیکُمْ خَیْرٌ،یَا قَوْمُ! اعْصِبُوہَا الْیَوْمَ بِرَأْسِی، وَقُولُوا: جَبُنَ عُتْبَۃُ بْنُ رَبِیعَۃَ وَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّی لَسْتُ بِأَجْبَنِکُمْ، فَسَمِعَ ذٰلِکَ أَبُو جَہْلٍ فَقَالَ: أَنْتَ تَقُولُ ہٰذَا؟ وَاللّٰہِ! لَوْ غَیْرُکَیَقُولُ ہٰذَا، لَأَعْضَضْتُہُ قَدْ مَلَأَتْ رِئَتُکَ جَوْفَکَ رُعْبًا، فَقَالَ عُتْبَۃُ: إِیَّایَ تُعَیِّرُیَا مُصَفِّرَ اسْتِہِ! سَتَعْلَمُ الْیَوْمَ أَیُّنَا الْجَبَانُ، قَالَ: فَبَرَزَ عُتْبَۃُ وَأَخُوہُ شَیْبَۃُ وَابْنُہُ الْوَلِیدُ حَمِیَّۃً، فَقَالُوا: مَنْ یُبَارِزُ؟ فَخَرَجَ فِتْیَۃٌ مِنْ الْأَنْصَارِ سِتَّۃٌ، فَقَالَ عُتْبَۃُ: لَا نُرِیدُ ہٰؤُلَائِ وَلٰکِنْ یُبَارِزُنَا مِنْ بَنِی عَمِّنَا مِنْ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((قُمْ یَا عَلِیُّ! وَقُمْ یَا حَمْزَۃُ! وَقُمْ یَا عُبَیْدَۃُ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ!)) فَقَتَلَ اللّٰہُ تَعَالَی عُتْبَۃَ وَشَیْبَۃَ ابْنَیْ رَبِیعَۃَ وَالْوَلِیدَ بْنَ عُتْبَۃَ وَجُرِحَ عُبَیْدَۃُ، فَقَتَلْنَا مِنْہُمْ سَبْعِینَ وَأَسَرْنَا سَبْعِینَ، فَجَائَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ قَصِیرٌ بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَسِیرًا، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ ہٰذَا وَاللّٰہِ مَا أَسَرَنِی، لَقَدْ أَسَرَنِی رَجُلٌ أَجْلَحُ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ وَجْہًا، عَلٰی فَرَسٍ أَبْلَقَ مَا أُرَاہُ فِی الْقَوْمِ، فَقَالَ الْأَنْصَارِیُّ: أَنَا أَسَرْتُہُ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَقَالَ: ((اسْکُتْ فَقَدْ أَیَّدَکَ اللّٰہُ تَعَالَی بِمَلَکٍ کَرِیمٍ۔)) فَقَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: فَأَسَرْنَا وَأَسَرْنَا مِنْ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ الْعَبَّاسَ وعَقِیلًا وَنَوْفَلَ بْنَ الْحَارِثِ۔ (مسند احمد: ۹۴۸)
سیدناعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ہم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو وہاں کی آب وہوا ہمیں راس نہ آئی اور ہمیں شدید بخار نے آلیا۔ اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بدر کے متعلق حالات و واقعات معلوم کرتے رہتے تھے، جب ہمیں یہ اطلاع ملی کہ مشرکین مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے نکل پڑے ہیں تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بدر کی طرف روانہ ہوئے، بدر ایک کنوئیں کا نام ہے مشرکین ہم سے پہلے وہاں پہنچ گئے، ہمیں وہاں دو مشرک ملے، ان میں سے ایک قریشی تھا اور دوسرا عقبہ بن ابی معیط کا غلام تھا، قریشی تو وہاں سے بھاگ نکلا البتہ عقبہ کے غلام کو ہم نے پکڑ لیا۔ہم اس سے پوچھنے لگے کہ قریشیوں کی تعداد کتنی ہے؟ وہ کہتا اللہ کی قسم وہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں اور سازوسامان کے لحاظ سے بھی وہ مضبوط ہیں، اس نے جب یہ کہا تو مسلمانوں نے اسے مارنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ وہ اسے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لے آئے۔ آپ نے بھی اس سے دریافت کیا کہ ان کی تعداد کتنی ہے؟ تو اس نے پھر وہی کہا کہ اللہ کی قسم! ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور سازوسامان بھی ان کے پاس کافی ہے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پورا زور لگایا تاکہ وہ بتلادئے کہ ان کی تعداد کس قدر ہے؟ مگر اس نے کچھ نہ بتلایا۔ بعدازاں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ وہ روزانہ کتنے اونٹ ذبح کرتے ہیں؟ اس نے بتلایا کہ روزانہ دس اونٹ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کی تعداد ایک ہزار ہے ایک سو کے لگ بھگ افراد کے لیے ایک اونٹ ہوتا ہے۔ بعدازاں رات کو بوندا باندی ہو گئی ہم نے بارش سے بچاؤ کے لیے درختوں اور ڈھالوں کی پناہ لی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ساری رات اللہ سے دعائیں کرتے رہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کہہ رہے تھے یا اللہ ! اگر تو نے اس چھوٹی سی جماعت کوہلاک کر دیا تو زمین پر تیری عبادت نہ کی جائے گی۔ صبح صادق ہو ئی تو آپ نے آواز دی، لوگو! نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ لوگ درختوں اور ڈھالوں کے نیچے سے نکل آئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں دشمن کے خلاف لڑنے کی ترغیب دلائی، پھر آپ نے فرمایا کہ قریش کیجماعت اس ٹیڑھے سرخ پہاڑ کے نیچے ہو گی جب دشمن ہمارے قریب آئے اور ہم بھی ان کے بالمقابل صف آراء ہوئے تو ان میں سے ایک آدمی اپنے سرخ اونٹ پر سوار دشمن کی فوج میں چکر لگا رہا تھا، تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پکار کر فرمایا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کومیری طرف بلاؤ وہ مشرکین کا سب سے قریبی رشتہ دار تھا، آپ نے پوچھا یہ سرخ اونٹ والا آدمی کون ہے؟ اور وہ ان سے کیا کہہ رہا ہے؟ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا اگر ان لوگوں میں کوئی بھلامانس ان کو اچھی بات کہنے والا ہوا تو وہ یہی سرخ اونٹ والا ہی ہو گا۔حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے تو انہوں نے بتلایا کہ یہ عتبہ بن ربیعہ ہے جو انہیں قتال سے منع کر رہا ہے اور ان سے کہہ رہا ہے لوگو! میں ایسے لوگوں کو دیکھ رہا ہوں جو مرنے پر تلے ہوئے ہیں، اور تم ان تک نہیں پہنچ سکو گے۔ اسی میں تمہاری خیر ہے، لوگو! تم لڑائی سے پیچھے ہٹنے کی عار میرے سر پر باندھو، اور کہہ دوکہ عتبہ بن ربیعہ نے بزدلی دکھائی، تم جانتے ہو کہ میں تم سے زیادہ بزدل نہیں ہوں، ابو جہل نے اس کی باتیں سنیں تو کہا ارے تم ایسی باتیںکہہ رہے ہو؟ کوئی دوسرا کہتا تو میں اس سے کہتا جا کر اپنے باپ کی شرم گاہ کوکاٹ کھاؤ، تمہارے دل میں تو خوف بھر گیا ہے۔ تو عتبہ نے کہا ارے اپنی دبر کو زعفران سے رنگنے والے کیا تو مجھے عار دلاتا ہے ؟ آج تجھے پتہ چل جائے گا کہ ہم میں سے بزدل کون ہے؟ علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فرماتے ہیں چنانچہ عتبہ اس کا بھائی شیبہ اور اس کا بیٹا ولید قومی حمیت وغیرت کے جذبہ سے مقابلے میں نکلے اور عتبہ نے پکارا، کون آئے گا ہمارے مقابلہ میں؟ تو چھ انصاری اس کے جواب میں سامنے آئے۔ تو عتبہ نے کہا ہم ان سے لڑنا نہیں چاہتے، ہم تو اپنے عم زاد بنو عبدالمطلب کو مقابلے کی دعوت دیتے ہیں تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ! تم اٹھو، حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اٹھو اور عبیدہ بن حارث بن مطلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تم اُٹھو، تو اللہ تعالیٰ نے ربیعہ کے دونوں بیٹوں عتبہ اور شیبہ کو اور ولید بن عتبہ کو قتل کر دیا اور مسلمانوں میں سے عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ زخمی ہو گئے۔ مسلمانوں نے ستر کا فروں کو قید اور ستر کو قتل کیا، ایک پست قد انصاری صحابی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ عباس بن عبدالمطلب کو گرفتار کر لائے، تو عباس نے کہا اللہ کے رسول! ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ کی قسم مجھے اس نے نہیں بلکہ مجھے ایک ایسے آدمی نے گرفتار کیا ہے جس کے سر کے دونوں پہلوؤں پربال نہیں تھے۔ جو انتہائی حسین وجمیل تھا اور اس کے گھوڑے کی ٹانگیں رانوں تک سفید تھیں۔ وہ آدمی مجھے آپ لوگوں میں دکھائی نہیں دے رہا۔ تو انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا اللہ کے رسول! اسے میں نے ہی گرفتار کیا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خاموش رہو، اس سلسلہ میں اللہ نے اپنے ایک معزز فرشتے کے ذریعے تمہاری نصرت کی تھی۔ علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ ہم نے بہت سے کافروں کو اور بنو عبدالمطلب میں سے عباس، عقیل اور نوفل بن حارث کو گرفتار کیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10696

۔ (۱۰۶۹۶)۔ عن ابْنِ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ، قَالَ: نَظَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی أَصْحَابِہِ، وَہُمْ ثَلَاثُ مِائَۃٍ وَنَیِّفٌ، وَنَظَرَ إِلَی الْمُشْرِکِینَ فَإِذَا ہُمْ أَلْفٌ وَزِیَادَۃٌ، فَاسْتَقْبَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْقِبْلَۃَ، ثُمَّ مَدَّ یَدَیْہِ وَعَلَیْہِ رِدَاؤُہُ وَإِزَارُہُ ثُمَّ قَالَ: ((اللّٰہُمَّ أَیْنَ مَا وَعَدْتَنِی، اللّٰہُمَّ أَنْجِزْ مَا وَعَدْتَنِی، اللّٰہُمَّ إِنَّکَ إِنْ تُہْلِکْ ہٰذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ أَہْلِ الْإِسْلَامِ، فَلَا تُعْبَدْ فِی الْأَرْضِ أَبَدًا۔)) قَالَ: فَمَا زَالَ یَسْتَغِیثُ رَبَّہُ عَزَّ وَجَلَّ وَیَدْعُوہُ حَتّٰی سَقَطَ رِدَاؤُہُ، فَأَتَاہُ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَأَخَذَ رِدَائَ ہُ فَرَدَّاہُ، ثُمَّ الْتَزَمَہُ مِنْ وَرَائِہِ، ثُمَّ قَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! کَفَاکَ مُنَاشَدَتُکَ رَبَّکَ، فَإِنَّہُ سَیُنْجِزُ لَکَ مَا وَعَدَکَ، وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ مُرْدِفِینَ} فَلَمَّا کَانَ یَوْمُئِذٍ وَالْتَقَوْا، فَہَزَمَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُشْرِکِینَ، فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، وَأُسِرَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، فَاسْتَشَارَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَبَا بَکْرٍ وَعَلِیًّا وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ ہٰؤُلَائِ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِیرَۃُ وَالْإِخْوَانُ، فَإِنِّی أَرٰی أَنْ تَأْخُذَ مِنْہُم الْفِدْیَۃَ، فَیَکُونُ مَا أَخَذْنَا مِنْہُمْ قُوَّۃً لَنَا عَلَی الْکُفَّارِ، وَعَسَی اللّٰہُ أَنْ یَہْدِیَہُمْ، فَیَکُونُونَ لَنَا عَضُدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا تَرٰییَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟)) قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ! مَا أَرٰی مَا رَأٰی أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَلٰکِنِّی أَرٰی أَنْ تُمَکِّنَنِی مِنْ فُلَانٍ قَرِیبًا لِعُمَرَ، فَأَضْرِبَ عُنُقَہُ، وَتُمَکِّنَ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِنْ عَقِیلٍ فَیَضْرِبَ عُنُقَہُ، وَتُمَکِّنَ حَمْزَۃَ مِنْ فُلَانٍ أَخِیہِ فَیَضْرِبَ عُنُقَہُ حَتّٰییَعْلَمَ اللّٰہُ أَنَّہُ لَیْسَتْ فِی قُلُوبِنَا ہَوَادَۃٌ لِلْمُشْرِکِینَ، ہٰؤُلَائِ صَنَادِیدُہُمْ وَأَئِمَّتُہُمْ وَقَادَتُہُمْ، فَہَوِیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا قَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَلَمْ یَہْوَ مَا قُلْتُ فَأَخَذَ مِنْہُمُ الْفِدَائَ، فَلَمَّا أَنْ کَانَ مِنْ الْغَدِ قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: غَدَوْتُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِذَا ہُوَ قَاعِدٌ وَأَبُوبَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَإِذَا ہُمَا یَبْکِیَانِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَخْبِرْنِی مَاذَا یُبْکِیکَ أَنْتَ وَصَاحِبَکَ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُکَائً بَکَیْتُوَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُکَائً تَبَاکَیْتُ لِبُکَائِکُمَا، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((الَّذِی عَرَضَ عَلَیَّ أَصْحَابُکَ مِنَ الْفِدَائِ، لَقَدْ عُرِضَ عَلَیَّ عَذَابُکُمْ أَدْنٰی مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ لِشَجَرَۃٍ قَرِیبَۃٍ۔)) وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَکُونَ لَہُ أَسْرٰی حَتّٰییُثْخِنَ فِی الْأَرْضِ… إِلٰی قَوْلِہِ: {لَوْلَا کِتَابٌ مِنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ} مِنَ الْفِدَائِ ثُمَّ أُحِلَّ لَہُمُ الْغَنَائِمُ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ أُحُدٍ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ عُوقِبُوا بِمَا صَنَعُوا یَوْمَ بَدْرٍ مِنْ أَخْذِہِمُ الْفِدَائ، فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ، وَفَرَّ أَصْحَابُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکُسِرَتْ رَبَاعِیَتُہُ وَہُشِمَتِ الْبَیْضَۃُ عَلٰی رَأْسِہِ، وَسَالَ الدَّمُ عَلٰی وَجْہِہِ، وَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالَی: {أَوَلَمَّا أَصَابَتْکُمْ مُصِیبَۃٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَیْہَا} الْآیَۃَ بِأَخْذِکُمُ الْفِدَائَ۔ (مسند أحمد: ۲۰۸)
سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بدر کے دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے صحابہ کی طرف دیکھا،جبکہ وہ تین سوسے کچھ زائد تھے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مشرکوں کی طرف دیکھا اور وہ ایک ہزار سے زائد تھے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے، ہاتھوں کو لمبا کیا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک چادر اور ایک ازار زیب ِ تن کیا ہوا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ دعا کی: اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا، وہ کہاں ہے، اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا، اس کو پورا کر دے، اے اللہ! اگر تو نے اہل اسلام کی اس جماعت کو ختم کر دیا تو زمین میں کبھی بھی تیریعبادت نہیں کی جائے گی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے ربّ سے مدد طلب کرتے رہے اور دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چادر گر گئی، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے، انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چادر اٹھائی اور اس کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ڈال کر پیچھے سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پکڑ لیا اور پھر کہا: اے اللہ کے نبی! آپ نے اپنے ربّ سے جو مطالبہ کر لیا ہے، یہ آپ کو کافی ہے، اس نے آپ سے جو وعدہ کیا ہے، وہ عنقریب اس کو پورا کر دے گا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمایا: {إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ مُرْدِفِینَ۔}… اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا، جو لگاتار چلے آئیں گے۔ (سورۂ انفال: ۹) پھر جب اس دن دونوں لشکروں کی ٹکر ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو اس طرح شکست دی کہ ان کے ستر افراد مارے گئے اور ستر افراد قید کر لیے گئے، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو بکر، سیدنا علی اور سیدنا عمر سے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! یہ لوگ ہمارے چچوں کے ہی بیٹے ہیں، اپنے رشتہ دار اور بھائی ہیں، میرا خیال تو یہ ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں، اس مال سے کافروں کے مقابلے میں ہماری قوت میں اضافہ ہو گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو بعد میں ہدایت دے دے، اس طرح یہ ہمارا سہارا بن جائیں۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب! اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ انھو ں نے کہا: اللہ کی قسم! میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا، میرا خیال تو یہ ہے کہ فلاں آدمی، جو میرا رشتہ دار ہے، اس کو میرے حوالے کریں، میں اس کی گردن اڑاؤں گا، عقیل کو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سپرد کریں، وہ اس کو قتل کریں گے، فلاں شخص کو سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حوالے کریں، وہ اس کی گردن قلم کریں گے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کو علم ہو جائے کہ ہمارے دلوں کے اندر مشرکوں کے لیے کوئی رحم دلی نہیں ہے، یہ قیدی مشرکوں کے سردار، حکمران اور قائد ہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے پسند کی اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے کو پسند نہیں کیا، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فدیہ لے لیا۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب اگلے دن میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا تو آپ اور سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دونوں بیٹھے ہوئے رو رہے تھے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے اس چیز کے بارے میں بتائیں جو آپ کو اور آپ کے ساتھی کو رُلا رہی ہے؟ اگر مجھے بھی رونا آ گیا تو میں بھی روؤں گا اور اگر مجھے رونا نہ آیا تو تمہارے رونے کی وجہ سے رونے کی صورت بنا لوں گا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے ساتھیوں نے فدیہ لینے کے بارے میں جو رائے دی تھی، اس کی وجہ سے مجھ پر تمہارا عذاب پیش کیا گیا ہے، جو اس درخت سے قریب ہے۔ اس سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کیمراد قریب والا ایک درخت تھا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کیں: {مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓاَسْرٰی حَتّٰییُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْز’‘ حَکِیْم’‘۔ لَوْ لَا کِتٰب’‘ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَاب’‘ عَظِیْم’‘} نبی کے ہاتھ قیدی نہیں چاہییں جب تک کہ ملک میں اچھی خونریزی کی جنگ نہ ہو جائے، تم تو دنیا کے مال چاہتے ہو اور اللہ کا ارادہ آخرت کا ہے اور اللہ زور آور باحکمت ہے، اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس بارے میں تمہیں کوئی بڑی سزا ہوتی۔ (سورۂ انفال:۶۷) پھر ان کے لیے مالِ غنیمت حلال کر دیا گیا، جب اگلے سال غزوۂ احد ہوا تو بدر والے دن فدیہ لینے کی سزا دی گئی اور ستر صحابہ شہید ہو گئے، نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بھاگ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دانت شہید کر دئیے گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر پر خود کو توڑ دیا گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے پر خون بہنے لگا، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: {اَوَلَمَّآ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃ’‘ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْھَا قُلْتُمْ اَنّٰی ھٰذَا قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر’‘۔} (کیا بات ہے کہ جب احد کے دن)تمہیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دو چند پہنچا چکے، تو یہ کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آگئی؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ خود تمہاری طرف سے ہے، بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ (سورۂ آل عمران: ۱۶۵) یعنی فدیہ لینے کی وجہ سے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10697

۔ (۱۰۶۹۷)۔ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَاوَرَ النَّاسَ یَوْمَ بَدْرٍ، فَتَکَلَّمَ أَبُو بَکْرٍ فَأَعْرَضَ عَنْہُ، ثُمَّ تَکَلَّمَ عُمَرُ فَأَعْرَضَ عَنْہُ، فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِیَّانَا تُرِیدُ؟ فَقَالَ الْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ، لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِیضَہَا الْبَحْرَ لَأَخَضْنَاہَا، وَلَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَکْبَادَہَا إِلَی بَرْکِ الْغِمَادِ فَعَلْنَا فَشَأْنَکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، فَنَدَبَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَصْحَابَہُ، فَانْطَلَقَ حَتّٰی نَزَلَ بَدْرًا وَجَائَتْ رَوَایَا قُرَیْشٍ، وَفِیہِمْ غُلَامٌ لِبَنِی الْحَجَّاجِ أَسْوَدُ، فَأَخَذَہُ أَصْحَابُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَأَلُوہُ عَنْ أَبِی سُفْیَانَ وَأَصْحَابِہِ، فَقَالَ: أَمَّا أَبُو سُفْیَانَ فَلَیْسَ لِی بِہِ عِلْمٌ، وَلٰکِنْ ہٰذِہِ قُرَیْشٌ وَأَبُو جَہْلٍ وَأُمَیَّۃُ بْنُ خَلَفٍ قَدْ جَائَ تْ، فَیَضْرِبُونَہُ فَإِذَا ضَرَبُوہُ، قَالَ: نَعَمْ، ہَذَا أَبُو سُفْیَانَ، فَإِذَا تَرَکُوہُ فَسَأَلُوہُ عَنْ أَبِی سُفْیَانَ، قَالَ: مَا لِی بِأَبِی سُفْیَانَ مِنْ عِلْمٍ، وَلٰکِنْ ہٰذِہِ قُرَیْشٌ قَدْ جَائَتْ، وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُصَلِّی فَانْصَرَفَ فَقَالَ: ((إِنَّکُمْ لَتَضْرِبُونَہُ إِذَا صَدَقَکُمْ وَتَدَعُونَہُ إِذَا کَذَبَکُمْ۔)) وَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِیَدِہِ فَوَضَعَہَا، فَقَالَ: ((ہٰذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا، وَہٰذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا، إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی۔)) فَالْتَقَوْا فَہَزَمَہُمُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، فَوَاللّٰہِ! مَا أَمَاطَ رَجُلٌ مِنْہُمْ عَنْ مَوْضِعِ کَفَّیِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَخَرَجَ إِلَیْہِمُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْدَ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ وَقَدْ جَیَّفُوا، فَقَالَ: ((یَا أَبَا جَہْلٍ! یَا عُتْبَۃُ! یَا شَیْبَۃُ! یَا أُمَیَّۃُ! قَدْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَکُمْ رَبُّکُمْ حَقًّا؟ فَإِنِّی قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِی رَبِّی حَقًّا۔)) فَقَالَ لَہُ عُمَرُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! تَدْعُوہُمْ بَعْدَ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ وَقَدْ جَیَّفُوا، فَقَالَ: ((مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْہُمْ غَیْرَ أَنَّہُمْ لَا یَسْتَطِیعُونَ جَوَابًا، فَأَمَرَ بِہِمْ فَجُرُّوا بِأَرْجُلِہِمْ فَأُلْقُوا فِی قَلِیبِ بَدْرٍ۔))۔ (مسند احمد: ۱۳۳۲۹)
سیدناانس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بدر کے دن لوگوں سے مشاورت کی، ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بات کی تو آپ نے منہ دوسری طرف موڑ لیا، پھر عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بات کی، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی طرف سے بھی منہ موڑ لیا، تو انصار نے کہا اللہ کے رسول! آپ ہماری بات کے منتظر ہیں؟ تو مقداد بن اسود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا( دوسری روایت میں سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا نام ہے) اللہ کے رسول ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آپ اگر ہمیں سمندر میں کود جانے کا حکم فرمائیں تو ہم سمندر میں کود جائیں اور اگر آپ ہمیں برک الغماد تک اپنی سواریاں دوڑانے کا حکم دیں تو ہم اس کے لیے بھی حاضر ہیں۔ اللہ کے رسول! جو مقصد پیشِ نظر ہے اس کے لیے چلیں، چنانچہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ کرام کو روانگی کا حکم دیا۔ آپ روانہ ہو کر بدر کے مقام پر نزول فرما ہوئے، قریش کے پانی لانے والے اونٹ پر آدمی آئے۔ان میں بنو حجاج کا ایک سیاہ فام غلام بھی تھا، اسے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پکڑ لیا۔ مسلمانوں نے اس سے ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کے متعلق دریافت کیا تو اس نے کہا ابو سفیان کے متعلق تو میں کچھ نہیں جانتا۔ البتہ قریش، ابوجہل اور امیہ بن خلف وغیرہیہاں آئے ہوئے ہیں مسلمان اس کی بات سن کر اسے مارنے لگے مسلمانوں نے جب اسے مارا تو اس نے کہا ہاں ہاں ابو سفیان وہاں ہے، جب اسے مارنا چھوڑ کر اس سے ابو سفیان کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا مجھے تو ابوسفیان کے متعلق کچھ علم نہیں، البتہ قریشیہاں آئے ہوئے ہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز ادا فرما رہے تھے۔ آپ نماز سے فارغ ہوئے اور فرمایا، وہ سچ کہتا ہے تو اسے مارتے ہو جھوٹ بولتا ہے تو چھوڑ دیتے ہو۔ اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کچھ جگہوں پر ہاتھ رکھ رکھ کر فرمایا، ان شاء اللہ کل فلاں آدمییہاں مر کر گرے گا اور فلاں آدمییہاں گرے گا۔ مسلمانوں اور کفار کا مقابلہ ہوا، اللہ تعالیٰ نے کفار کو شکست دی، اللہ کی قسم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ہتھیلیوں والی جگہوں سے کوئی بھی آدمی ادھر اُدھر نہ گرا۔ تین دن بعد نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان مردہ کافروں کی طرف گئے۔ ان کی لاشوں میںبدبو پڑ چکی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا اے ابو جہل! اے عتبہ! اے شیبہ! اے امیہ! تمہارے رب نے تمہارے ساتھ جو وعدہ کیا تھا تم اسے سچ پا چکے ہو۔ میرے رب نے میرے ساتھ جو وعدہ کیا تھا میں نے اسے سچا پایا۔ عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو مرے ہوئے تین دن گزر چکے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان سے ہم کلام ہو رہے ہیں؟ جب کہ ان کے لاشو میں بدبو پڑ چکی ہے۔ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا میں ان سے جو کچھ کہہ رہا ہوں تم میری بات کو ان سے زیادہ نہیں سن رہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ یہ جواب دینے کی استطاعت نہیں رکھتے، چنانچہ آپ نے ان مردوں کے متعلق حکم صادر فرمایا، انہیں ٹانگوں سے پکڑ کر گھسیٹ کر بدر کے کنوئیں میں پھینک دیا گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10698

۔ (۱۰۶۹۸)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ وَہُوَ فِی قُبَّۃٍیَوْمَ بَدْرٍ: ((اللَّہُمَّ إِنِّی أَنْشُدُکَ عَہْدَکَ وَوَعْدَکَ، اللَّہُمَّ إِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدْ بَعْدَ الْیَوْمِ۔)) فَأَخَذَ أَبُو بَکْرٍ بِیَدِہِ فَقَالَ: حَسْبُکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَقَدْ أَلْحَحْتَ عَلٰی رَبِّکَ، وَہُوَ یَثِبُ فِی الدِّرْعِ فَخَرَجَ وَہُوَ یَقُولُ: {سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّونَ الدُّبُرَ}۔ (مسند احمد: ۳۰۴۲)
سیدناعبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بدر کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے قبہ کے اندر تشریف فرما تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں دعا کی: یا اللہ! میں تجھے تیرا کیا ہوا وعدہ یا د دلاتا ہوں، یا اللہ! اگر تو چاہتا ہے کہ آج کے بعد تیری عبادت نہ کی جائے( تو ہمارے مخالفین کو ہم پر غلبہ دے اور ہمیں ان کے ہاتھوں قتل کرا دے۔) اتنے میں سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ تھام لیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے اپنے رب سے خوب خوب دعائیں کر لی ہیں اور یہی کافی ہیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی قمیض میں خوشی سے اچھلتے ہوئے فرما رہے تھے {سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّونَ الدُّبُرَ} … عنقریب مسلمانوں کی دشمن جماعتیں ہزیمت سے دو چار ہوں گی، اور وہ پیٹھ دے کر بھاگ جائیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10699

۔ (۱۰۶۹۹)۔ عَنْ عَلِیٍّ قَالَ: مَا کَانَ فِیْنَا فَارِسٌ یَوْمَ بَدْرٍ غَیْرَ الْمِقْدَادِ، وَلَقَدْ رَاَیْتُنَا وَمَا فِیْنَا اِلَّا نَائِمٌ إِلَّا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَحْتَ شَجَرَۃٍیُصَلِّیْ وَیَبْکِیْ حَتّٰی اَصْبَحَ۔ (مسند احمد: ۱۰۲۳)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بدر کے دن ہم مسلمانوں میں مقداد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سوا کوئی گھڑ سوار نہ تھا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سوا ہم میں سے ہر ایک کو نیند آگئی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک درخت کے نیچے نماز پڑھ رہے تھے اور صبح تک اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ زاری کرتے رہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10700

۔ (۱۰۷۰۰)۔ عَنْ عَلِیٍّ قَالَ لَمَّا حَضَرَ الْبَأسُ یَوْمَ بَدْرٍ، اِلْتَقَیْنَا بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَکَانَ مِنْ اَشَدِّ النَّاسِ، مَا کَانَ اَوْ لَمْ یَکُنْ اَحَدٌ اَقْرَبَ اِلَی الْمُشْرِکِیْنَ مِنْہُ۔ (مسند احمد: ۱۰۴۲)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بدر کے دن جب لڑائی شروع ہوئی تو ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جاملے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بہت بہادر تھے اور ہم میں سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بڑھ کر مشرکین کے قریب تر اور کوئی نہ تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10701

۔ (۱۰۷۰۱)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: لَقَدْ رَاَیْتُنَایَوْمَ بَدْرٍ، وَنَحْنُ نَلُوْذُ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَھُوَ اَقْرَبُنَا اِلَی الْعَدُوِّ، وَکَانَ مِنْ اَشَدِّ النَّاسِ یَوْمَئِذٍ بَاْسًا۔ (مسند احمد: ۶۵۴)
۔( دوسری سند) سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میں نے بدر کے دن دیکھا کہ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے پناہ ڈھونڈتے تھے اور ہم سب کی بہ نسبت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دشمن کے انتہائی قریب تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس دن بہادری کے خوب جوہر دکھائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10702

۔ (۱۰۷۰۲)۔ عَنْ اَبِیْ صَالِحٍ اَلْحَنْفِیِّ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قِیْلَ لِعَلِیٍّ وَلِاَبِیْ بَکْرٍ یَوْمَ بَدْرٍ: مَعَ اَحَدِکُمَا جِبْرِیْلُ وَ مَعَ الْآخَرِ مِیْکَائِیْلُ وَ اِسْرَافِیْلُ، مَلَکٌ عَظِیْمٌیَشْہَدُ الْقِتَالَ اَوْ قَالَ: یَشْہَدُ الصَّفَّ۔ (مسند احمد: ۱۲۵۷)
ابو صالح حنفی سے مروی ہے کہ بدر کے دن سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا گیا کہ تم میں سے ایک کے ساتھ جبریل اور دوسرے کے ساتھ میکائل اور اسرافیل بھی،یہ بہت بڑا فرشتہ ہے، جو لڑائی میںیا لڑائی کے وقت صف میں حاضر ہوتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10703

۔ (۱۰۷۰۳)۔ عَنْ اَبِیْ دَاوُدَ الْمَازِنِیِّ، وَکَانَ شَہِدَ بَدْرًا، قال: اِنِّیْ لَاَتْبَِعُ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ لِاَضْرِبَہُ اِذَا وَقَعَ رَاْسَہُ قَبْلَ اَنْ یَصِلَ اِلَیْہِ سَیْفِیْ، فَعَرَفْتُ اَنَّہُ قَدْ قَتَلَہُ غَیْرِیْ۔ (مسند احمد: ۲۴۱۸۶)
سیدنا ابو داؤد مازنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ،جو غزوۂ بدر میں شریک تھے، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں ایک مشرک کو قتل کرنے کے لیے اس کے پیچھے لگا ہوا تھا کہ اچانک میری تلوار اس تک نہ پہنچنے سے پہلے ہی اس کا سر کٹ کر دور جا گرا، میں جان گیا کہ اسے میرے سوا کسی دوسرے نے قتل کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10704

۔ (۱۰۷۰۴)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ أَنَّہُ قَالَ: إِنِّی لَوَاقِفٌ یَوْمَ بَدْرٍ فِی الصَّفِّ، نَظَرْتُ عَنْ یَمِینِی وَعَنْ شِمَالِی، فَإِذَا أَنَا بَیْنَ غُلَامَیْنِ مِنَ الْأَنْصَارِ حَدِیثَۃٍ أَسْنَانُہُمَا، تَمَنَّیْتُ لَوْ کُنْتُ بَیْنَ أَضْلَعَ مِنْہُمَا فَغَمَزَنِی أَحَدُہُمَا، فَقَالَ: یَا عَمِّ! ہَلْ تَعْرِفُ أَبَا جَہْلٍ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، وَمَا حَاجَتُکَ؟ یَا ابْنَ أَخِی؟ قَالَ: بَلَغَنِی أَنَّہُ سَبَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ رَأَیْتُہُ لَمْ یُفَارِقْ سَوَادِی سَوَادَہُ حَتَّییَمُوتَ الْأَعْجَلُ مِنَّا، قَالَ: فَغَمَزَنِی الْآخَرُ، فَقَالَ لِی مِثْلَہَا، قَالَ: فَتَعَجَّبْتُ لِذٰلِکَ، قَالَ: فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ نَظَرْتُ إِلٰی أَبِی جَہْلٍ یَجُولُ فِی النَّاسِ، فَقُلْتُ لَہُمَا: أَلَا تَرَیَانِ ہٰذَا صَاحِبُکُمَا الَّذِی تَسْأَلَانِ عَنْہُ، فَابْتَدَرَاہُ فَاسْتَقْبَلَہُمَا فَضَرَبَاہُ حَتّٰی قَتَلَاہُ، ثُمَّ انْصَرَفَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرَاہُ، فَقَالَ: ((أَیُّکُمَا قَتَلَہُ؟)) فَقَالَ: کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا أَنَا قَتَلْتُہُ، قَالَ: ((ہَلْ مَسَحْتُمَا سَیْفَیْکُمَا؟)) قَالَا: لَا فَنَظَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی السَّیْفَیْنِ، فَقَالَ: ((کِلَاکُمَا قَتَلَہُ۔)) وَقَضٰی بِسَلَبِہِ لِمُعَاذِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ، وَہُمَا مُعَاذُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ وَمُعَاذُ بْنُ عَفْرَائَ۔ (مسند احمد: ۱۶۷۳)
سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بدر کے دن میں صف میں کھڑا تھا، میں نے دائیں بائیں دیکھا تو میں نے اپنے آپ کو دو نو عمر انصاری بچوں کے درمیان کھڑا ہوا پایا، میں نے سو چا کہ کاش میرے قریب ان نو عمر بچوں کی بجائے کوئی طاقت ور آدمی ہوتا، اتنے میں ان میں سے ایک نے مجھے متوجہ کر کے پوچھا چچا جان!کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں! لیکن بھتیجے! یہ تو بتلاؤ تمہیں اس سے کیا غرض ہے؟ وہ بولا: میں نے سنا ہے کہ اس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گالیاں دی ہوئی ہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میںمیری جان ہے! اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو میں اس سے اس وقت تک جدانہ ہوں گا، جب تک کہ ہم میں سے جس نے پہلے مرنا ہے وہ مرنہ جائے، اس کے ساتھ ہی دوسرے نوجوان لڑکے نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا، اس نے بھی مجھ سے ویسی ہی بات کی، مجھے ان دونوں کی باتوں پر تعجب ہوا۔ اتنے میں میں نے ابوجہل کو دیکھا، وہ کافر لوگوں کے درمیان چکر لگا رہا تھا، میں نے ان دونوں سے کہا: کیا تم اس آدمی کو دیکھ رہے ہو؟ یہیوہ آدمی ہے جس کی بابت تم دریافت کر رہے ہو، وہ یہ سنتے ہی اس کی طرف لپکے، ابوجہل کا ان دونوں سے سامنا ہوا تو انہوں نے وار کر کے اسے قتل کر ڈالا، اور اس کے بعد وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، اور سارا واقعہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گوش گزار کیا۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے دریافت فرمایا: تم میں سے کس نے اسے قتل کیا ہے؟ دونوں میں سے ہر ایک نے کہا کہ اسی نے قتل کیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کیا تم نے اپنی تلواروں کو صاف کر لیا ہے؟ انہوں نے کہا: جی نہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دونوں تلواروں کو دیکھا تو فرمایا: تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابوجہل کا حاصل شدہ سامان کا فیصلہ سیدنا معاذ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں کیا، ان دونوں نوجوانوں کے نام سیدنا معاذ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا معاذ بن عفراء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10705

۔ (۱۰۷۰۵)۔ عَنْ اَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ بَدْرٍ: ((مَنْ یَنْظُرُ مَا فَعَلَ اَبُوْ جَہْلٍ؟)) فَانْطَلَقَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ فَوَجَدَ اِبْنَیْ عَفْرَائَ قَدْ ضَرَبَاہُ حَتّٰی بَرَدَ، (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: حَتّٰی بَرَکَ) فَاَخَذَ بِلِحْیَتِہِ فَقَالَ: اَنْتَ اَبُوْ جَہْلٍ! فَقَالَ: وَھَلْ فَوْقَ رَجُلٍ قَتَلْتُمُوْہُ اَوْ قَتَلَہُ اَھْلُہُ۔ (مسند احمد: ۱۲۱۶۷)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بدر کے دن فرمایا: کون ہے جو جا کر دیکھے کہ ابوجہل کیا کر رہا ہے؟ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ گئے، انہوں نے دیکھا کہ عفراء کے دو بیٹوں نے ابوجہل کو مار گرایا ہوا ہے تاآنکہ وہ ٹھنڈا ہونے یعنی مرنے کے قریب تھا، تو ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسے اس کی ڈاڑھی سے پکڑ کر کہا: تو ہی ابوجہل ہے؟ ابوجہل نے کہا: تم نے جن جن لوگوں کو قتل کیا، کیا مجھ سے بڑھ کر بھی ان میں سے کوئی ہے؟ یایوں کہا: کیا مجھ سے بڑھ کر بھی کوئی آدمی ایسا ہے، جسے اس کے خاندان والوں نے قتل کیا ہو؟
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10706

۔ (۱۰۷۰۶)۔ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: انْتَہَیْتُ إِلَی أَبِی جَہْلٍ یَوْمَ بَدْرٍ، وَقَدْ ضُرِبَتْ رِجْلُہُ، وَہُوَ صَرِیعٌ وَہُوَ یَذُبُّ النَّاسَ عَنْہُ بِسَیْفٍ لَہُ، فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَخْزَاکَ،یَا عَدُوَّ اللّٰہِ! فَقَالَ: ہَلْ ہُوَ إِلَّا رَجُلٌ قَتَلَہُ قَوْمُہُ، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَتَنَاوَلُہُ بِسَیْفٍ لِی غَیْرِ طَائِلٍ، فَأَصَبْتُ یَدَہُ فَنَدَرَ سَیْفُہُ فَأَخَذْتُہُ فَضَرَبْتُہُ بِہِ حَتّٰی قَتَلْتُہُ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ حَتّٰی أَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَأَنَّمَا أُقَلُّ مِنَ الْأَرْضِ فَأَخْبَرْتُہُ، فَقَالَ: ((آللَّہِ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ۔)) قَالَ: فَرَدَّدَہَا ثَلَاثًا قَالَ: قُلْتُ: آللَّہِ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ، قَالَ فَخَرَجَ یَمْشِی مَعِی حَتّٰی قَامَ عَلَیْہِ، فَقَالَ: ((الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِیأَخْزَاکَ، یَا عَدُوَّ اللّٰہِ! ہٰذَا کَانَ فِرْعَوْنَ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ۔)) قَالَ: وَزَادَ فِیہِ أَبِی عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: فَنَفَّلَنِی سَیْفَہُ۔ (مسند احمد: ۴۲۴۶)
سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بدر کے دن میں ابوجہل کے پاس پہنچا، اس کی ٹانگ پر ضرب آئی ہوئی تھی اور وہ گرا پڑا تھا اور اس حال میں بھی اپنی تلوار سے لوگوں کو اپنے آپ سے دور بھگا رہا تھا، میں نے کہا: اے اللہ کے دشمن! اُس اللہ کا شکر ہے جس نے تجھے رسوا کیا، وہ بولا: میں وہی ہوں جسے اس کی اپنی قوم نے قتل کیا ہے۔سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ اس کی اس بات پر میں نے بلاتا خیر اپنی تلوار چلا کر اس کے ہاتھ پر ماری اور اس کی تلوار گر گئی۔ پھر میں نے اسے اچھی طرح پکڑ کر اسے مارا اور قتل کر ڈالا۔ پھر میں گرمی میں، خوشی خوشی چلتا ہوا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچا، خوشی کے مارے میرے پاؤں زمین پر نہیں لگ رہے تھے، میں نے آپ کو ساری بات بتلائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، کیا واقعی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بات کو تین بار دہرایا، میں نے عرض کیا: واقعی، اُس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ساتھ چلتے ہوئے گئے یہاں تک کہ اس کی میت پر جا کھڑے ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کے دشمن! اللہ کا شکر ہے جس نے تجھے ذلیل ورسوا کیا،یہ اس امت کا فرعون تھا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابوجہل کی تلوار مجھے عنایت فرمائی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10707

۔ (۱۰۷۰۷)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ اَبِیْ عُبَیْدَۃَ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ: اَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّ اللّٰہَ قَدْ قَتَلَ اَبَا جَہْلٍ، فَقَالَ: ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ نَصَرَ عَبْدَہُ وَاَعَزَّ دِیْنَہُ۔)) وَقَال مَرَّۃًیَعْنِیْ اُمَیَّۃَ: ((صَدَقَ عَبْدَہُ وَاَعَزَّ دِیْنَہُ۔)) وَفِیْ لَفْظٍ آخَرَ: ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَ وَعْدَہُ وَنَصَرَ عَبْدَہُ وَھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہُ۔)) (مسند احمد: ۳۸۵۶)
۔(دوسری سند) سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے ابوجہل کو ہلاک کر دیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سب تعریف اس اللہ کے لیے ہیں، جس نے اپنے بندے کی مدد کی اور اپنے دین کو عزت دی۔ امیہ بن خالد راوی کے الفاظ یہ ہیں: سب تعریف اس اللہ کے لیے ہے، جس نے اپنے بندے کے ساتھ کیے ہوئے وعدہ کو پورا کیا اور اپنے دین کو عزت دی۔ ایک اور روایت کے الفاظ یوں ہیں: سب تعریف اس اللہ کے لیے ہیں، جس نے اپنا وعدہ پوراکیا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے نے کفار کے تمام لشکروں کو شکست دی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10708

۔ (۱۰۷۰۸)۔ عَنْ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنْ أَہْلِ بَدْرٍ قَالَ: إِنْ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیُرِینَا مَصَارِعَہُمْ بِالْأَمْسِ، یَقُولُ: ((ہٰذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا إِنْ شَاء َ اللّٰہُ تَعَالٰی، وَہٰذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا إِنْ شَاء َ اللّٰہُ تَعَالٰی۔)) قَالَ: فَجَعَلُوایُصْرَعُونَ عَلَیْہَا، قَالَ: قُلْتُ: وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ! مَا أَخْطَئُوا تِیکَ کَانُوا یُصْرَعُونَ عَلَیْہَا، ثُمَّ أَمَرَ بِہِمْ فَطُرِحُوا فِی بِئْرٍ، فَانْطَلَقَ إِلَیْہِمْ، فَقَالَ: ((یَا فُلَانُ! یَا فُلَانُ! ہَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَکُمُ اللّٰہُ حَقًّا؟ فَإِنِّی وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِی اللّٰہُ حَقًّا۔)) قَالَ عُمَرُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَتُکَلِّمُ قَوْمًا قَدْ جَیَّفُوا؟ قَالَ: ((مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْہُمْ، وَلٰکِنْ لَا یَسْتَطِیعُونَ أَنْ یُجِیبُوا۔)) (مسند احمد: ۱۸۲)
سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اہلِ بدر کے متعلق مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غزوۂ بدر سے ایک دن پہلے ہمیں سردارانِ قریش کے گرنے اور پچھڑنے کے مقامات دکھا رہے تھے، اور فرماتے تھے: کل ان شاء اللہ فلاں کافر یہاں قتل ہو کر گرے گا، اور فلاں آدمی قتل ہو کر یہاں گرے گا، ان شاء اللہ۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ واقعی وہ لوگ انہی جگہوں پر گرے۔ میں (عمر) ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا! وہ ان مقامات سے بالکل اِدھر اُدھر نہیں گرے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی لاشوں کے متعلق حکم دیا تو انہیں گھسیٹ کر کنوئیں میں پھینک دیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کفار کی لاشوں کی طرف گئے اور فرمایا: اے فلاں! اے فلاں! تمہارے رب نے تمہارے ساتھ جو وعدہ کیا تھا، کیا تم نے اسے سچ پا لیا ہے، میرے ساتھ تو اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا تھا، میں نے تو اسے پورا پالیا ہے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایسے لوگوں سے ہم کلام ہیں جو مردہ ہو چکے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں ان سے جو کچھ کہہ رہا ہوں، تم ان کی بہ نسبت زیادہ نہیں سن رہے، لیکن وہ ان باتوں کا جواب نہیں دے سکتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10709

۔ (۱۰۷۰۹)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: سَمِعَ الْمُسْلِمُونَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یُنَادِی عَلٰی قَلِیبِ بَدْرٍ: ((یَا أَبَا جَہْلِ بْنَ ہِشَامٍ! یَا عُتْبَۃُ بْنَ رَبِیعَۃَ! یَا شَیْبَۃُ بْنَ رَبِیعَۃَ! یَا أُمَیَّۃُ بْنَ خَلَفٍ! ہَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَکُمْ رَبُّکُمْ حَقًّا، فَإِنِّی وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِی رَبِّی حَقًّا؟)) قَالُوا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! تُنَادِی قَوْمًا قَدْ جَیَّفُوا، قَالَ: ((مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْہُمْ وَلٰکِنَّہُمْ لَا یَسْتَطِیعُونَ أَنْ یُجِیبُوا۔)) (مسند احمد: ۱۲۰۴۳)
سیدناانس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب صحابۂ کرام نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بدر کے کنوئیں پر یوں کلام کرتے سنا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابو جہل بن ہشام! اے عتبہ بن ربیعہ! اے شیبہ بن ربیعہ! اے امیہ بن خلف! تمہارے رب نے تمہارے ساتھ جو وعدہ کیا تھا، کیا تم نے اسے پورا پا لیا ہے؟ تو انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ ایسے لوگوں سے ہم کلام ہیں جو مردہ ہو چکے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں ان سے جو کہہ رہا ہوں، تم ان کی بہ نسبت زیادہ نہیں سن رہے ہو؟ لیکن وہ جواب دینے کی سکت نہیں رکھتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10710

۔ (۱۰۷۱۰)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: وَقَفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی الْقَلِیْبِیَوْمَ بَدْرٍ، فَقَالَ: ((یَا فُلَانُ! یَا فُلَانُ! ہَلْ وَجَدْتُّمْ مَا وَعَدَکُمْ رَبُّکُمْ حَقًّا؟ أَمَا وَاللّٰہِ! إِنَّہُمُ الْآنَ لَیَسْمَعُوْنَ کَلاَمِیْ۔)) قَالَ یَحْیَی: فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: غَفَرَاللّٰہُ لِأَبِیْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ، اِنَّہُ وَہِلَ، إِنَّمَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَاللّٰہِ! إِنَّہُمْ لَیَعْلَمُوْنَ الْآنَ أَنَّ الَّذِی کُنْتُ أَقُوْلُ لَہُمْ حَقًّا۔)) وَإِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰییَقُوْلُ: {إِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی} {وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ۔} (مسند احمد: ۴۸۶۴)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ بدر والے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کنویں (جس میں کفار کے مقتولوں کو پھینک دیا گیا تھا) کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا: او فلاں! اوفلاں! تمہارے رب نے تمہارے ساتھ جو وعدہ کیا تھا کیا تم نے اسے درست پایا ہے؟ خبردار! اللہ کی قسم ہے کہ یہ لوگ اس وقت میرا کلام سن رہے ہیں۔ لیکن سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اللہ تعالیٰ ابو عبدالرحمن پر رحم فرمائے، وہ بھول گئے ہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو یہ فرمایا تھا کہ اب یہ جانتے ہیں کہ میں ان سے جو کچھ کہتا تھا، وہ حق تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بیشک تو مردوں کو نہیں سنا سکتا۔ نیز فرمایا: جو لوگ قبروں میں ہیں، توان کو نہیں سنا سکتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10711

۔ (۱۰۷۱۱)۔ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: وَحُدِّثَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ أَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَمَرَ بِبِضْعَۃٍ وَعِشْرِینَ رَجُلًا مِنْ صَنَادِیدِ قُرَیْشٍ، فَأُلْقُوا فِی طُوًی مِنْ أَطْوَائِ بَدْرٍ خَبِیثٍ مُخْبِثٍ، قَالَ: وَکَانَ إِذَا ظَہَرَ عَلٰی قَوْمٍ أَقَامَ بِالْعَرْصَۃِ ثَلَاثَ لَیَالٍ، قَالَ: فَلَمَّا ظَہَرَ عَلٰی بَدْرٍ أَقَامَ ثَلَاثَ لَیَالٍ، حَتّٰی إِذَا کَانَ الثَّالِثُ أَمَرَ بِرَاحِلَتِہِ فَشُدَّتْ بِرَحْلِہَا ثُمَّ مَشٰی، وَاتَّبَعَہُ أَصْحَابُہُ قَالُوا: فَمَا نَرَاہُ یَنْطَلِقُ إِلَّا لِیَقْضِیَ حَاجَتَہُ، قَالَ: حَتّٰی قَامَ عَلٰی شَفَۃِ الطُّوٰی، قَالَ: فَجَعَلَ یُنَادِیہِمْ بِأَسْمَائِہِمْ وَأَسْمَائِ آبَائِہِمْ: ((یَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ! أَسَرَّکُمْ أَنَّکُمْ أَطَعْتُمُ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ، ہَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَکُمْ رَبُّکُمْ حَقًّا؟)) قَالَ عُمَرُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! مَا تُکَلِّمُ مِنْ أَجْسَادٍ لَا أَرْوَاحَ فِیہَا؟ قَالَ: ((وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ، مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْہُمْ۔)) قَالَ قَتَادَۃُ: أَحْیَاہُمُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لَہُ حَتّٰی سَمِعُوا قَوْلَہُ تَوْبِیخًا وَتَصْغِیرًا وَنِقْمَۃً۔ (مسند احمد: ۱۲۴۹۸)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ان کو بیان کیا گیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیس سے زائد قریشی سرداروں کے متعلق حکم دیا اور انہیں بدر کے کنوؤں میں سے ایک کنوئیں میں پھینک دیا گیا۔ وہ کنواں بڑا خبیث اور گندا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا معمول یہ تھا کہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی قوم پر فتح پاتے تو وہاں تین رات قیام فرماتے، اسی طرح آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب بدر میں فتح یاب ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں بھی تین رات قیام فرمایا، جب تیسرا دن ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی سواری کو تیار کرنے کا حکم فرمایا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم روانہ ہو ئے، صحابہ نے بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیروی کی، صحابہ کہتے ہیں کہ ہم سب نے سمجھا کہ آپ اپنی کسی ضروری حاجت کے لیے تشریف لے جا رہے ہیں۔ چلتے چلتے آپ اس کنوئیں کے کنارے پر جا رکے اور ان مقتول کفار قریش کو ان کے ناموں اور ان کے آباء کے ناموں کا ذکر کر کے ان کو پکارا اور یوں فرمایا: اے فلاں بن فلاں! کیا اب تمہیںیہ بات اچھی لگتی ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے؟ تمہارے رب نے تمہارے ساتھ جو وعدہ کیا تھا، کیا تم نے اسے سچا پالیا ہے؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اللہ کے نبی! کیا آپ ایسے اجسام سے ہم کلام ہو رہے ہیں، جن میں روحیں ہی نہیں ہیں؟ قتادہ کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زجروتوبیخ، رسوائی اور اظہار ناراضگی کے لیے ان کفار کو زندہ کر دیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10712

۔ (۱۰۷۱۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا قَالَتْ لَمَّا أَمَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ بَدْرٍ بِأُولَئِکَ الرَّہْطِ، فَأُلْقُوا فِی الطُّوٰی عُتْبَۃُ وَأَبُو جَہْلٍ وَأَصْحَابُہُ، وَقَفَ عَلَیْہِمْ فَقَالَ: ((جَزَاکُمُ اللّٰہُ شَرًّا مِنْ قَوْمِ نَبِیٍّ مَا کَانَ أَسْوَأَ الطَّرْدِ وَأَشَدَّ التَّکْذِیبِ۔)) قَالُوا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! کَیْفَ تُکَلِّمُ قَوْمًا جَیَّفُوا؟ فَقَالَ: ((مَا أَنْتُمْ بِأَفْہَمَ لِقَوْلِی مِنْہُمْ أَوْ لَہُمْ أَفْہَمُ لِقَوْلِی مِنْکُمْ۔)) (مسند احمد: ۲۵۸۸۶)
سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ بدر میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب ان مقتول سردارانِ قریش عتبہ، ابوجہل اور ان کے ساتھیوں کے پاس سے گزرے، جنہیں کنوئیں میں پھینک دیا گیا تھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں رک گئے اور فرمایا: تم ایک نبی کی ایسی قوم ہو، جو اس کے شدید مخالف اور بہت زیادہ تکذیب کرنے والے تھے، اللہ نے تمہیں بہت بُرا بدلہ دیا، میں ان سے جو کچھ کہہ رہا ہوں، تم ان کی نسبت میری بات کو زیادہ نہیں سن رہے ہو۔ یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں فرمایا کہ وہ تمہاری بہ نسبت میری بات کو زیادہ سمجھ رہے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10713

۔ (۱۰۷۱۳)۔ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ أَمَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْقَتْلٰی أَنْ یُطْرَحُوا فِی الْقَلِیبِ، فَطُرِحُوا فِیہِ إِلَّا مَا کَانَ مِنْ أُمَیَّۃَ بْنِ خَلَفٍ فَإِنَّہُ انْتَفَخَ فِی دِرْعِہِ فَمَلَأَہَا، فَذَہَبُوا یُحَرِّکُوہُ فَتَزَایَلَ، فَأَقَرُّوہُ وَأَلْقَوْا عَلَیْہِ مَا غَیَّبَہُ مِنَ التُّرَابِ وَالْحِجَارَۃِ، فَلَمَّا أَلْقَاہُمْ فِی الْقَلِیبِ وَقَفَ عَلَیْہِمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((یَا أَہْلَ الْقَلِیبِ! ہَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا، فَإِنِّی قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِی رَبِّی حَقًّا۔)) فَقَالَ لَہُ أَصْحَابُہُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَتُکَلِّمُ قَوْمًا مَوْتٰی؟ قَالَ: فَقَالَ لَہُمْ: ((لَقَدْ عَلِمُوا أَنَّ مَا وَعَدْتُہُمْ حَقٌّ۔)) قَالَتْ عَائِشَۃُ: وَالنَّاسُ یَقُولُونَ لَقَدْ سَمِعُوا، مَا قُلْتُ لَہُمْ، وَإِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَقَدْ عَلِمُوا۔)) (مسند احمد: ۲۶۸۹۳)
سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مقتولینِ بدر کو کنوئیں میں پھینک دئیے جانے کا حکم صادر فرمایا، پس ان کو اس میں پھینک دیا گیا۔ البتہ امیہ بن خلف اپنی زرہ کے اندر اس قدر پھول چکا تھا اور اس کے اندر پھنس گیا، جب صحابہ کرام نے اسے کھینچا تو اس کے اعضاء الگ ہو گئے، سو انھوں نے اسے ویسے ہی رہنے دیا اور اس پر پتھر اور مٹی ڈال کر اسے چھپا دیا، جب ان مقتولین کو کنوئیں میں ڈالا جا چکا تھا تو رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے اوپر جا کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے کنوئیں والو! کیا تم نے اپنے رب کے وعدہ کو سچا پا لیاہے؟ میرے رب نے میرے ساتھ جو وعدہ کیا تھا، میں نے تو اسے سچا پالیا ہے۔ صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا آپ مردوں سے کلام کرتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ لوگ جانتے ہیں کہ میں نے ان سے جو وعدہ کیا تھا یعنی ان سے جو کچھ کہا تھا وہ حق تھا۔ سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے یہ بھی فرمایا کہ لوگ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان مقتولین نے آپ کی باتیں سن لی تھیں، میں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کہی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایاتھا کہ یہ لوگ اس بات کو جانتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10714

۔ (۱۰۷۱۴)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: انْطَلَقَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ مُعْتَمِرًا، فَنَزَلَ عَلٰی صَفْوَانَ بْنِ أُمَیَّۃَ بْنِ خَلَفٍ، وَکَانَ أُمَیَّۃُ إِذَا انْطَلَقَ إِلَی الشَّامِ فَمَرَّ بِالْمَدِینَۃِ نَزَلَ عَلٰی سَعْدٍ، فَقَالَ أُمَیَّۃُ لِسَعْدٍ: انْتَظِرْ حَتّٰی إِذَا انْتَصَفَ النَّہَارُ وَغَفَلَ النَّاسُ انْطَلَقْتَ فَطُفْتَ، فَبَیْنَمَا سَعْدٌ یَطُوفُ إِذْ أَتَاہُ أَبُو جَہْلٍ فَقَالَ: مَنْ ہٰذَا یَطُوفُ بِالْکَعْبَۃِ آمِنًا، قَالَ سَعْدٌ: أَنَا سَعْدٌ، فَقَالَ أَبُو جَہْلٍ: تَطُوفُ بِالْکَعْبَۃِ آمِنًا: وَقَدْ آوَیْتُمْ مُحَمَّدًا عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ فَتَلَاحَیَا، فَقَالَ أُمَیَّۃُ لِسَعْدٍ: لَا تَرْفَعَنَّ صَوْتَکَ عَلٰی أَبِی الْحَکَمِ فَإِنَّہُ سَیِّدُ أَہْلِ الْوَادِی، فَقَالَ لَہُ سَعْدٌ: وَاللّٰہِ! إِنْ مَنَعْتَنِی أَنْ أَطُوفَ بِالْبَیْتِ لَأَقْطَعَنَّ إِلَیْکَ مَتْجَرَکَ إِلَی الشَّأْمِ، فَجَعَلَ أُمَیَّۃُیَقُولُ: لَا تَرْفَعَنَّ صَوْتَکَ عَلٰی أَبِی الْحَکَمِ، وَجَعَلَ یُمْسِکُہُ، فَغَضِبَ سَعْدٌ فَقَالَ: دَعْنَا مِنْکَ، فَإِنِّی سَمِعْتُ مُحَمَّدًا یَزْعُمُ أَنَّہُ قَاتِلُکَ، قَالَ: إِیَّایَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَاللّٰہِ! مَا یَکْذِبُ مُحَمَّدٌ، فَلَمَّا خَرَجُوا رَجَعَ إِلَی امْرَأَتِہِ، فَقَالَ: أَمَا عَلِمْتِ؟ مَا قَالَ لِیَ الْیَثْرِبِیُّ، فَأَخْبَرَہَا فَلَمَّا جَائَ الصَّرِیخُ، وَخَرَجُوا إِلٰی بَدْرٍ، قَالَتِ امْرَأَتُہُ: أَمَا تَذْکُرُ مَا قَالَ أَخُوکَ الْیَثْرِبِیُّ؟ فَأَرَادَ أَنْ لَا یَخْرُجَ، فَقَالَ لَہُ أَبُو جَہْلٍ: إِنَّکَ مِنْ أَشْرَافِ الْوَادِی فَسِرْ مَعَنَا یَوْمًا أَوْ یَوْمَیْنِ، فَسَارَ مَعَہُمْ فَقَتَلَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ۔ (مسند احمد: ۳۷۹۴)
سیدناعبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ عمرہ کی غرض سے تشریف لے گئے، صفوان بن امیہ بن خلف کے ہاں مہمان ٹھہرے، امیہ بھی مکہ سے شام کی طرف جاتے ہوئے مدینہ منورہ سے گزرتے ہوئے سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں قیام کیا کرتا تھا، امیہ نے سعد سے کہا: تم ابھیانتظار کرو، جب دوپہر ہو گی اور لوگ تھک جائیں گے تب جا کر طواف کر لینا، سیدنا سعد طواف کر رہے تھے کہ ابو جہل ان کے پاس آگیا اور بولا یہ کون ہے، جو بڑے امن اور سکون کے ساتھ کعبہ کا طواف کر رہا ہے؟ سعد نے کہا: میں سعد ہوں۔ ابوجہل نے کہا: تو بڑے سکون سے طواف کر رہا ہے حالانکہ تم لوگوں نے محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کو پناہ دے رکھی ہے۔ دونوں میں تو تکار ہو گئی، تو امیہ نے سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: آپ ابو الحکم (یعنی ابوجہل) کے مقابلے میں آواز بلند نہ کریں،یہیہاں کا سردار ہے۔ لیکن سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! اگر تو نے مجھے بیت اللہ کا طواف کرنے سے روکا تو میں شام کی طرف تمہارا تجارتی راستہ بند کر دوں گا۔ امیہ پھر سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہنے لگا اور اسے پکڑ کر روکنے لگا کہ ابو الحکم (یعنی ابوجہل) کے سامنے آواز بلند نہ کرو، سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو غصہ آ گیا، وہ بولے مجھے چھوڑ دو، میں محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سن چکا ہوں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ تجھے قتل کر کے رہیں گے، امیہ نے کہا: کیا مجھے؟ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ہاں، ہاں، امیہ نے کہا: اللہ کی قسم! محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات غلط نہیں ہو سکتی، جب لوگ چلے گئے تو وہ اپنی بیوی کے پاس گیا اور کہا: کیا تیرے علم میں وہ بات آئی جو یثربی مہمان نے کہی ہے؟ اور پھر اسے ساری بات بتلائی، جب لڑائی کا اعلان ہوا اور لوگ بدر کی طرف جانے لگے تو امیہ کی بیوی نے اس سے کہا: کیا تمہیں وہ بات یاد نہیں ہے جو تمہارے یثربی بھائی نے کہی تھی؟ اس نے ایک دفعہ تو ارادہ کیا کہ لڑائی کے لیے نہ جائے، لیکن ابوجہل نے اس سے کہا تم یہاں کے سرداروں میں سے ہو، سو ہمارے ساتھ ایک دو دن کے لیے ضرور چلو، پس وہ ان کے ساتھ چل پڑا اور اللہ تعالیٰ نے اسے (بدر میں) ہلاکت سے دو چار کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10715

۔ (۱۰۷۱۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ قَالَ: إِنَّ أَہْلَ بَدْرٍ کَانُوا ثَلَاثَ مِائَۃٍ وَثَلَاثَۃَ عَشَرَ رَجُلًا، وَکَانَ الْمُہَاجِرُونَ سِتَّۃً وَسَبْعِینَ، وَکَانَ ہَزِیمَۃُ أَہْلِ بَدْرٍ لِسَبْعَ عَشْرَۃَ مَضَیْنَیَوْمَ الْجُمُعَۃِ فِی شَہْرِ رَمَضَانَ۔ (مسند احمد: ۲۲۳۲)
سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ اہل بدر کی کل تعداد تین سو تیرہ تھی، ان میں سے چھہتر(۷۶) مہاجرین تھے، کفار سترہ رمضان کو جمعہ کے دن ہزیمت سے دو چار ہو ئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10716

۔ (۱۰۷۱۶)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قِیلَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ فَرَغَ مِنْ بَدْرٍ: عَلَیْکَ الْعِیرَ لَیْسَ دُونَہَا شَیْئٌ، قَالَ فَنَادَاہُ الْعَبَّاسُ وَہُوَ أَسِیرٌ فِی وَثَاقِہِ: لَا یَصْلُحُ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لِمَ؟)) قَالَ: لِأَنَّ اللّٰہَ قَدْ وَعَدَکَ إِحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ، وَقَدْ أَعْطَاکَ مَا وَعَدَکَ۔ (مسند احمد: ۲۸۷۳)
سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غزوۂ بدر سے فارغ ہوئے تو کسی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: آپ ابو سفیان کے قافلہ کی خبر لیں، اب کوئی آپ کی مزاحمت نہیں کر سکے گا ، لیکن عباس جو کہ اس وقت اسیر تھے اور بندھے ہوئے تھے، انہوں نے کہا: اب ابو سفیان کا پیچھا کرنا آپ کے شایانِ شان نہیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: وہ کیوں؟ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ دو گروہوں میں سے ایک کا وعدہ کیا تھا اور اس نے اپنے وعدے کے مطابق آپ کو ایک گروہ پر غلبہ دے دیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10717

۔ (۱۰۷۱۷)۔ عَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَہْلٍ عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ أَبِی أُسَیْدٍ عَنْ أَبِیہِ قَالَ: لَمَّا الْتَقَیْنَا نَحْنُ وَالْقَوْمُ یَوْمَ بَدْرٍ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَئِذٍ لَنَا: ((إِذَا أَکْثَبُوکُمْ (یَعْنِی غَشُوکُمْ) فَارْمُوہُمْ بِالنَّبْلِ۔)) وَأُرَاہُ قَالَ: ((وَاسْتَبْقُوا نَبْلَکُمْ۔))۔ (مسند احمد: ۱۶۱۵۷)
سیدنا ابو اسید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بدر کے دن جب ہماری اور کفار کی مڈبھیڑ ہوئی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم سے فرمایا: جب دشمن تمہارے اوپر چڑھ آئے یعنی بالکل قریب آجائے تو تب تم ان پر تیر چلانا۔ اور میرا خیال ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اندھا دھند تیر اندازی کرنے کی بجائے احتیاط سے تیر چلانا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10718

۔ (۱۰۷۱۸)۔ عَنْ اَبِیْ اَیُوْبَ الْاَنْصَارِیِّ قَالَ: صَفَفْنَا یَوْمَ بَدْرٍ فَنَدَرَتْ مِنَّا نَادِرَۃٌ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَبَدَرَتْ مِنَّا بَادِرَۃٌ) اَمَامَ الصَّفِّ، فَنَظَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِلَیْہِمْ فَقَالَ: ((مَعِیْ مَعِیْ۔))۔ (مسند احمد: ۲۳۹۶۵)
سیدناابو ایوب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بدر کے دن ہم نے صف بندی کی تو ہم میں سے بعض جلد بازوں نے جلدی کی اور صف سے آگے نکل گئے،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: میرے ساتھ ساتھ رہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10719

۔ (۱۰۷۱۹)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ اَنَّ اَبَا طَلْحَۃَ قَالَ: غَشِیَنَا النُّعَاسُ وَنَحْنُ فِیْ مَصَافِّنَا یَوْمَ بَدْرٍ، قَالَ اَبُوْ طَلْحَۃَ: فَکُنْتُ فِیْمَنْ غَشِیَہُ النُّعَاسُ یَوْمَئِذٍ، فَجَعَلَ سَیْفِیْیَسْقُطُ مِنْ یَدِیْ وَآخُذُہُ، وَیَسْقُطُ وَآخُذُہُ۔ (مسند احمد: ۱۶۴۷۰)
سیدناانس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ بدر کے دن ہم میدان جنگ میں تھے کہ ہمیں اونگھ نے آلیا، وہ کہتے ہیں کہ میں بھی اس دن انہی لوگوں میں شامل تھا ،جن کو اونگھ آگئی تھی، میری تلوار بار بار میرے ہاتھ سے چھوٹ کر جاتی تھی اور میں اسے سنبھالنے کی کوشش کرتا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10720

۔ (۱۰۷۲۰)۔ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: اسْتَصْغَرَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَا وَابْنَ عُمْرَ، فَرُدِدْنَا یَوْمَ بَدْرٍ۔ (مسند احمد: ۱۸۸۳۶)
سیدنابراء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بدر کے موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے اور ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو کم عمر قرار دے کر ہمیں لڑائی سے واپس بھیج دیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10721

۔ (۱۰۷۲۱)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ ثَعْلَبَۃَ بْنِ صُعَیْرٍ اَنَّ اَبَا جَہْلٍ قَالَ حِیْنَ اِلْتَقَی الْقَوْمُ: اَللّٰھُمَّ اَقْطَعَنَا الرَّحِمَ، وَاَتَانَا بِمَا لَانَعْرِفُہُ، فَاَحِنْہُ الْغَدَاۃَ فَکَانَ الْمُسْتَفْتِحُ۔ (مسند احمد: ۲۴۰۶۱)
سیدناعبداللہ بن ثعلبہ بن صعیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بدر کے دن جب کفار اور مسلمان ایک دوسرے کے بالمقابل ہوئے تو ابو جہل نے کہا: یا اللہ! ہم میں سے جس نے قطع رحمی کی اور ہمارے پاس ایسی چیز لایا جسے ہم پہنچانتے نہیں تو اسے کل صبح رسوا کر، چنانچہ اس کییہی دعا مسلمانوں کی فتح کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10722

۔ (۱۰۷۲۲)۔ (۶۹۳۶)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: أَرَدْتُ أَنْ أَخْطُبَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابْنَتَہ، فَقُلْتُ: مَا لِیْ مِنْ شَیْئٍ فَکَیْفَ؟ ثُمَّ ذَکَرْتُ صِلَتَہ، وَعَائِدَتَہ، فَخَطَبْتُہَا اِلَیْہِ، فَقَالَ: ((ھَلْ لَکَ مِنْ شَیْئٍ؟)) قُلْتُ: لَا، قَالَ: ((فَأَیْنَ دِرْعُکَ الْحَطْمِیَّۃُ الَّتِیْ أَعْطَیْتُکَیَوْمَ کَذَا وَکَذَا؟)) قَالَ: ھِیَ عِنْدِیْ، قَالَ: ((فَأَعْطِہَا اِیَّاہُ۔)) (مسند احمد: ۶۰۳)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے ارادہ کیا کہ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیٹی کے بارے میں پیغام بھیجوں، لیکن پھر میں نے سوچا کہ میرے پاس تو کوئی مال نہیں ہے، سو میں کیا کروں، پھر مجھے یاد آیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو صلہ رحمی کرتے ہیں اور بار بار ہمارے گھر آتے جاتے رہتے ہیں، پس میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ پیغام بھیج دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیرے پاس کوئی چیز ہے؟ میں نے کہا: جی نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ حطمی زرہ کہاں ہے، جو میں نے تجھے فلاں دن دی تھی؟ میں نے کہا: وہ میرے پاس ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہی فاطمہ کو دے دو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10723

۔ (۱۰۷۲۳)۔ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا زَوَّجَہُ فَاطِمَۃَ، بَعَثَ مَعَہَ بِخَمِیْلَۃٍ وَوِسَادَۃٍ مِنْ اَدَمٍ حَشْوُھَا لِیْفٌ (وَفِیْ لَفْظٍ: لَیْفُ الْاِذْخَرِ) وَرَحْیَیْنِ وَسِقَائً وَ جَرَّتَیْنِ، فَقَالَ عَلِیٌّ لِفَاطِمَۃَ ذَاتَ یَوْمٍ: وَاللّٰہِ! لَقَدْ سَنَوْتُ حَتّٰی لَقَدِ اشْتَکَیْتُ صَدْرِیْ، قَالَ: وَقَدْ جَائَ اللّٰہُ اَبَاکَ بِسَبْیٍ، فَاذْھَبِیْ فَاسْتَخْدِمِیْہِ، فَقَالَتْ: وَاَنَا وَاللّٰہِ! قَدْ طَحَنْتُ حَتّٰی مَجَلَتْ یَدِیْ، فَاَتَتِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((مَا جَائَ بِکِ اَیْ بُنَیَّۃَ؟)) قَالَتْ: جِئْتُ لِاُسَلِّمَ عَلَیْکَ، وَاسْتَحْیَتْ اَنْ تَسْاَلَہُ وَرَجَعَتْ، فَقَالَ: مَا فَعَلْتِ؟ قَالَتْ: اسْتَحْیَیْتُ اَنْ اَسْاَلَہُ، فَاَتَیْنَا جَمِیْعاً، فَقَال عَلِیٌّ: یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ، وَاللّٰہِ! لَقَدْ سَنَوْتُ حَتَّی اشْتَکَیْتُ صَدْرِیْ، وَقَالَتْ فَاطِمَۃُ: قَدْ طَحَنْتُ حَتّٰی مَجَلَتْ یَدَایَ وَقد جَائَکَ اللّٰہُ بِسَبْیٍ وَسِعَۃٍ فَاَخْدِمْنَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَاللّٰہِ! لَا اُعْطِیْکُمَا وَاَدَعُ اَھْلَ الصُّفَّۃَ تَطْوِیْ بُطُوْنُہُمْ لَا اَجِدُ مَا اُنْفِقُ عَلَیْہِمْ، وَلٰکِنِّیْ اَبِیْعُہُمْ وَاُنْفِقُ عَلَیْہِمْ اَثْمَانَہُمْ۔)) فَرَجَعَا فَاَتَاھُمَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَدْ دَخَلَا فِیْ قَطِیْفَتِہِمَا اِذَا غَطَّتْ رُئُ وْسَہُمَا تَکَشَّفَتْ اَقْدَامُھُمَا، وَإِذَا غَطَّیَا اَقْدَامَہَمَا تَکَشَّفَتْ رُئُ ْوسُہُمَا فَثَارَا، فَقَالَ: ((مَکَانَکُمَا۔)) ثُمَّ قَالَ: ((اَلَا اُخْبِرُ کُمَا بِخَیْرِ مِمَّا سَاَلْتُمَانِیْ؟)) قَالَا: بَلٰی! فَقَالَ: ((کَلِمَاتٍ عَلَّمَنِیْہِنَّ جِبْرِیْلُ علیہ السلام ، فَقَالَ: تُسَبِّحَانِ فِیْ دُبُرِ کُلِّ صَلَاۃٍ عَشْرًا، وَتَحْمَدَانِ عَشْرًا، وَتُکَبِّرَانِ عَشْرًا، وَإِذَا اٰوَیْتُمَا اِلٰی فِرَاشِکُمَا فَسَبِّحَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِیْنَ، وَاحْمَدَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِیْنَ، وَکَبِّرَا اَرْبَعًا وَثَلَاثِیْنَ۔)) قَال: فَوَ اللّٰہِ! مَا تَرَکْتُہُنَّ مُنْذُ عَلَّمَنِیْہِنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ ابْنُ الْکَوَائِ: وَلَا لَیْلَۃَ صِفِّیْنَ، فَقَالَ قَاتَلَکُمُ اللّٰہُ، یَا اَھْلَ الْعَرَاقِ! نَعَمْ، وَلَا لَیْلَۃَ صِفِّیْنَ۔ (مسند احمد: ۸۳۸)
سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیّدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے نکاح کیا تو آپ نے ان کے ہمراہ ایک اونی چادر، چمڑے کا ایک تکیہ، جس میں کھجور کے درخت کی چھال بھری ہوئی تھی، دو چکیاں، ایک مشک اور دو مٹکے بھیجے، ایک دن سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیّدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے کہا کہ باہر سے پانی لالا کر اب تو میرا سینہ دکھنے لگا ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کے والد کے پاس کچھ قیدی بھیج دئیے ہیں، تم جا کر ان سے ایک خادم طلب کر لو، انہوں نے کہا اللہ کی قسم! میرا بھی اب تو یہ حال ہو چکا ہے کہ آٹا پیسنے کے لیے چکی چلا چلا کر میرے ہاتھوں پر گٹے پڑ گئے ہیںیعنی ہاتھ بہت سخت ہو گئے ہیں۔ چنانچہ سیّدہ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گئیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت کیا: بیٹی! کیسے آنا ہوا؟ انہوں نے کہا میں تو محض سلام کہنے کی غرض سے آئی ہوں، اور کوئی چیز طلب کرنے سے جھجک گئیں۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پوچھا کہ کیا بنا؟ انہوں نے بتلایا:میں تو شرم کے مارے آپ سے کچھ نہیں مانگ سکی، پھر ہم دونوں آپ کی خدمت میں گئے، اس بار سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! باہر سے پانی لالا کر میرا سینہ دکھنے لگا ہے، اور سیّدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا کہ چکی چلاچلا کر میرے ہاتھوں پر گٹے پڑ گئے ہیں، اب اللہ نے آپ کے پاس قیدی بھیجے ہیں اور آپ کو مالی طور پر خوش حال کر دیا ہے، پس آپ ہمیں ایک خادم عنایت کر دیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہیں خادم نہیں دے سکتا، جب کہ اہلِ صفہ کا حال یہ ہے کہ بھوک کے مارے ان کے پیٹ بل کھاتے ہیں اور میرے پاس اس قدر گنجائش نہیں کہ ان پر کچھ خرچ کر سکوں، یہ جو قیدی آئے ہیں، میں انہیں فروخت کر کے ان سے حاصل ہونے والی رقم اصحاب صفہ پر خرچ کروں گا۔ یہ سن کر وہ دونوں لوٹ آئے، بعد میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ہاں ایسے وقت تشریف لے گئے، جب وہ اپنی چادر میں داخل ہو چکے تھے، اور اس چادر کا بھییہ حال تھا کہ وہ چادر ان کے سروں کو ڈھانپتی تو ان کے پاؤں ننگے ہو جاتے اور جب وہ دونوں اپنے کے پاؤں ڈھانپتے تو ان کے سر ننگے رہ جاتے، وہ اٹھ کر بیٹھنے لگے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کوئی بات نہیں، تم اپنی جگہ پرہی رہو۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آپ لوگوں نے مجھ سے جو کچھ طلب کیا تھا، اب کیا میں تمہیں اس سے بہتر بات نہ بتلاؤں؟ دونوں نے کہا: ضرور، ضرور، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ چند کلمات ہیں جو جبریل علیہ السلام نے مجھے سکھائے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ہر نماز کے بعد دس مرتبہ سُبْحانَ اللّٰہ، دس مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، اور دس مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَر کہہ لیا کرو اور جب تم سونے کے لیے بستر پر آؤ تو ۳۳ مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰہ، ۳۳ مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اور ۳۴ مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَر کہہ لیا کرو۔ سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب سے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یہ کلمات سکھائے ہیں، میں نے انہیں ترک نہیں کیا۔ یہ سن کر عبداللہ بن کواء نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: کیا آپ نے جنگ صفین والی رات کو بھی انہیں ترک نہیں کیا تھا؟ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اہل ِ عراق! اللہ تمہیں ہلاک کرے، ہاں صفین کی شب کو بھی میںنے اس عمل کو ترک نہیں کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10724

۔ (۱۰۷۲۴)۔ أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ حَدَّثَنِی ابْنُ شِہَابٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ أَبِیہِ حُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ عَلِیٌّ: أَصَبْتُ شَارِفًا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْمَغْنَمِ یَوْمَ بَدْرٍ، وَأَعْطَانِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَارِفًا أُخْرٰی، فَأَنَخْتُہُمَا یَوْمًا عِنْدَ بَابِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَأَنَا أُرِیدُ أَنْ أَحْمِلَ عَلَیْہِمَا إِذْخِرًا لِأَبِیعَہُ وَمَعِی صَائِغٌ مِنْ بَنِی قَیْنُقَاعَ لِأَسْتَعِینَ بِہِ عَلٰی وَلِیمَۃِ فَاطِمَۃَ، وَحَمْزَۃُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ یَشْرَبُ فِی ذٰلِکَ الْبَیْتِ، فَثَارَ إِلَیْہِمَا حَمْزَۃُ بِالسَّیْفِ فَجَبَّ أَسْنِمَتَہُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَہُمَا، ثُمَّ أَخَذَ مِنْ أَکْبَادِہِمَا، قُلْتُ لِابْنِ شِہَابٍ: وَمِنَ السَّنَامِ؟ قَالَ: جَبَّ أَسْنِمَتَہُمَا، فَذَہَبَ بِہَا، قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلٰی مَنْظَرٍ أَفْظَعَنِی، فَأَتَیْتُ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعِنْدَہُ زَیْدُ بْنُ حَارِثَۃَ فَأَخْبَرْتُہُ الْخَبَرَ، فَخَرَجَ وَمَعَہُ زَیْدٌ فَانْطَلَقَ مَعَہُ فَدَخَلَ عَلٰی حَمْزَۃَ فَتَغَیَّظَ عَلَیْہِ، فَرَفَعَ حَمْزَۃُ بَصَرَہُ فَقَالَ: ہَلْ أَنْتُمْ إِلَّا عَبِیدٌ لِأَبِی، فَرَجَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُقَہْقِرُ حَتّٰی خَرَجَ عَنْہُمْ وَذٰلِکَ قَبْلَ تَحْرِیمِ الْخَمْرِ۔ (مسند احمد: ۱۲۰۱)
سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بدر کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میںمجھے مالِ غنیمت میں سے ایک اونٹ ملا، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ایک اور اونٹ عطا فرمایا تھا، میں نے ایک دن دونوں اونٹوں کو ایک انصاری کے دروازے کے پاس بٹھایا۔ میں اذخرگھاس کاٹ کر ان پر لاد کر لے جا کر بیچنا چاہتا تھا۔ میرے ہمراہ بنو قینقاع کا ایک صراف شخص بھی تھا، میں اس سے حاصل ہونے والی رقم کو سیّدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ولیمہ پرخرچ کرنا چاہتا تھا۔ انصاری کے اس گھر میں سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیٹھے شراب نوشی کر رہے تھے کہ اچانک وہ تلوار لے کر اُٹھے اور اونٹوں کی طرف لپک کر ان کے کوہان کاٹ ڈالے اور ان کی کوکھیں چاک کر دیں اور ان کے جگر نکال کر چلتے بنے۔ ابن جریج راوی کہتے ہیں: میں نے اپنے شیخ زہری سے دریافت کیا کہ کوہانوں کا کیا بنا؟ انہوں نے کہا: انہیں بھی وہ کاٹ کر ساتھ لے گئے۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں یہ منظر دیکھ کر خوف زدہ ہو گیا اور گھبرا گیا، میں اسی وقت نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچا، اس وقت سیدنا زید بن حارثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی وہاں موجود تھے۔ میں نے سارا واقعہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گوش گزار کیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ وہاں سے روانہ ہو کر سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف گئے اور ناراضگی کا اظہار فرمایا، سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنی نظروں کو گھمایا اور کہنے لگے: تم لوگ تو میرے باپ کے غلام ہو۔ سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کییہ بات سن کر رسول اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ الٹے پاؤں واپس ہو کر واپس لوٹ آئے۔ یہ واقعہ شراب کی حرمت سے پہلے کاہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10725

۔ (۱۰۷۲۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَشٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِلٰی بَقِیْعِ الْغَرْقَدِ، ثُمَّ وَجَّہَہُمْ وَقَالَ: ((انْطَلِقُوْا عَلَی اسْمِ اللّٰہِ، وَقَالَ اَللّٰھُمَّ اَعِنْہُمْ۔)) (یَعْنِی النَّفَرَ الَّذِیْنَ وَجَّہَہُمْ اِلٰی کَعْبِ بْنِ الْاَشْرَفِ)۔ (مسند احمد: ۲۳۹۱)
سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بقیع الغرفد میں تشریف لے گئے اور صحابہ کرام کو ان کے مشن کے لیے روانہ کرتے ہوئے فرمایا: تم اللہ کا نام لے کر چل پڑو۔ اور یہ دعا فرمائی: یا اللہ ان کی مدد فرمانا۔ (یہ وہ گروہ تھا، جس کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کعب بن اشرف کی طرف روانہ کیا تھا۔)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10726

۔ (۱۰۷۲۶)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ تَنَفَّلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَیْفَہُ ذَا الْفَقَارِ یَوْمَ بَدْرٍ وَہُوَ الَّذِی رَأٰی فِیہِ الرُّؤْیَایَوْمَ أُحُدٍ فَقَالَ رَأَیْتُ فِی سَیْفِی ذِی الْفَقَارِ فَلًّا فَأَوَّلْتُہُ فَلًّا یَکُونُ فِیکُمْ وَرَأَیْتُأَنِّی مُرْدِفٌ کَبْشًا فَأَوَّلْتُہُ کَبْشَ الْکَتِیبَۃِ وَرَأَیْتُ أَنِّی فِی دِرْعٍ حَصِینَۃٍ فَأَوَّلْتُہَا الْمَدِینَۃَ وَرَأَیْتُ بَقَرًا تُذْبَحُ فَبَقَرٌ وَاللّٰہِ خَیْرٌ فَبَقَرٌ وَاللّٰہِ خَیْرٌ فَکَانَ الَّذِی قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّیاللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (مسند احمد: ۲۴۴۵)
سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی ذوالفقار تلوار جنگ بدر کے دن بطور نفل حاصل کییہ وہی تلوار ہے جس کے بارے میں آپ نے احد کے دن خواب دیکھا تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے اپنی اس تلوار ذوالفقار میں ایک دندانہ دیکھا ہے اس کی تعبیریہ ہے کہ تمہیں شکست ہوگی میں نے دیکھا ہے کہ میں نے مینڈھے کو پیچھے سوار کیا ہوا ہے میں نے تاویل کی ہے کہ لشکر کا بہادر شہید ہوگا میں نے دیکھا ہے کہ میں نے محفوظ زرہ پہنی ہوئی ہے میں نے اس کی تاویلیہ کی ہے کہ مدینہ محفوظ رہے گا میں نے دیکھا ہے کہ گائے ذبح کی جارہی ہے اللہ کی قسم یہ بہتر ہے۔ وہی ہوا جو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کہا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10727

۔ (۱۰۷۲۷)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((رَأَیْتُ کَأَنِّی فِی دِرْعٍ حَصِینَۃٍ، وَرَأَیْتُ بَقَرًا مُنَحَّرَۃً، فَأَوَّلْتُ أَنَّ الدِّرْعَ الْحَصِینَۃَ الْمَدِینَۃُ، وَأَنَّ الْبَقَرَ ہُوَ وَاللّٰہِ خَیْرٌ۔)) قَالَ: فَقَالَ لِأَصْحَابِہِ: ((لَوْ أَنَّا أَقَمْنَا بِالْمَدِینَۃِ فَإِنْ دَخَلُوا عَلَیْنَا فِیہَا قَاتَلْنَاہُمْ۔)) فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَاللّٰہِ، مَا دُخِلَ عَلَیْنَا فِیہَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، فَکَیْفَیُدْخَلُ عَلَیْنَا فِیہَا فِی الْإِسْلَامِ؟ قَالَ عَفَّانُ فِی حَدِیثِہِ: فَقَالَ: ((شَأْنَکُمْ إِذًا۔)) قَالَ: فَلَبِسَ لَأْمَتَہُ، قَالَ: فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: رَدَدْنَا عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَأْیَہُ، فَجَائُ وْا فَقَالُوا: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! شَأْنَکَ إِذًا، فَقَالَ: ((إِنَّہُ لَیْسَ لِنَبِیٍّ إِذَا لَبِسَ لَأْمَتَہُ أَنْ یَضَعَہَا حَتَّییُقَاتِلَ۔)) (مسند احمد: ۱۴۸۴۷)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میں ایک محفوظ مضبوط قلعہ کے اندر ہوں، اور میں نے ایک ذبح شدہ گائے دیکھی، میں نے اس کی تعبیریہ کی کہ مضبوط ومحفوظ قلعہ سے مراد مدینہ منورہ ہے، اور اللہ کی قسم گائے کا دیکھنا بھی بہتر ہے۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ سے مشورہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر ہم مدینہ میں ٹھہریں، پھر اگر دشمن ہم پر حملہ آور ہو تو ہم ان سے قتال کریں، اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ تو صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے رسول! دشمن ہم پر ہمارے شہر میں اس وقت بھی نہیں آیا تھا، جب ہم کافر تھے، اب جب کہ ہم اسلام میں داخل ہو چکے ہیں، وہ ہمارے اوپر ہمارے شہر میں کیونکر آسکتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ کی بات سن کر فرمایا: چلو ٹھیک ہے، جیسے چاہو کر لو۔ چنانچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ہتھیار اپنے جسم پر سجالئے، سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ یہ منظر دیکھ کر انصاریوں نے آپس میں کہا کہ ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رائے کے برعکس عمل کیا ہے۔ (اللہ خیر کرے) چنانچہ انہوں نے آکر عرض کیا کہ اللہ کے نبی! آپ اپنی رائے پر ہی عمل کریں، لیکن اب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نبی کے لیےیہ روا نہیں کہ جب وہ ہتھیاروں سے مسلح ہو جائے تو دشمن سے قتال کیے بغیر انہیں اتا دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10728

۔ (۱۰۷۲۸)۔ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((رَأَیْتُ فِیمَایَرَی النَّائِمُ کَأَنِّی مُرْدِفٌ کَبْشًا، وَکَأَنَّ ظُبَۃَ سَیْفِی انْکَسَرَتْ، فَأَوَّلْتُ أَنِّی أَقْتُلُ صَاحِبَ الْکَتِیبَۃِ، وَأَنَّ رَجُلًا مِنْ أَہْلِ بَیْتِییُقْتَلُ۔)) (مسند احمد: ۱۳۸۶۱)
انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا ہے گویا کہ ایک مینڈھا میرے پیچھے ہے اور گویا میری تلوار کی دھار ٹوٹ گئی ہے، تو میں نے ان خوابوں کی تعبیریہ کی کہ میں مشرکین کے جھنڈا بردار (طلحہ بن ابی طلحہ) کو قتل کروں گا اور میرےاہل بیت میں سے ایک آدمی قتل ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10729

۔ (۱۰۷۲۹)۔ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ أَنَّ الْبَرَاء َ بْنَ عَازِبٍ قَالَ: جَعَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الرُّمَاۃِیَوْمَ أُحُدٍ وَکَانُوا خَمْسِینَ رَجُلًا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ جُبَیْرٍ، قَالَ: وَوَضَعَہُمْ مَوْضِعًا، وَقَالَ: ((إِنْ رَأَیْتُمُونَا تَخْطَفُنَا الطَّیْرُ فَلَا تَبْرَحُوا حَتّٰی أُرْسِلَ إِلَیْکُمْ، وَإِنْ رَأَیْتُمُونَا ظَہَرْنَا عَلَی الْعَدُوِّ وَأَوْطَأْنَاہُمْ فَلَا تَبْرَحُوا حَتّٰی أُرْسِلَ إِلَیْکُمْ۔)) قَالَ: فَہَزَمُوہُمْ، قَالَ: فَأَنَا وَاللّٰہِ! رَأَیْتُ النِّسَائَ یَشْتَدِدْنَ عَلَی الْجَبَلِ، وَقَدْ بَدَتْ سُوْقُہُنَّ وَخَلَاخِلُہُنَّ رَافِعَاتٍ ثِیَابَہُنَّ، فَقَالَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جُبَیْرٍ: الْغَنِیمَۃَ أَیْ قَوْمُ الْغَنِیمَۃَ، ظَہَرَ أَصْحَابُکُمْ فَمَا تَنْظُرُونَ؟ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ جُبَیْرٍ: أَنَسِیتُمْ، مَا قَالَ لَکُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالُوا: إِنَّا وَاللّٰہِ لَنَأْتِیَنَّ النَّاسَ فَلَنُصِیبَنَّ مِنَ الْغَنِیمَۃِ، فَلَمَّا أَتَوْہُمْ صُرِفَتْ وُجُوہُہُمْ، فَأَقْبَلُوا مُنْہَزِمِینَ، فَذٰلِکَ الَّذِییَدْعُوہُمُ الرَّسُولُ فِی أُخْرٰاہُمْ، فَلَمْ یَبْقَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَیْرُ اثْنَیْ عَشَرَ رَجُلًا، فَأَصَابُوا مِنَّا سَبْعِینَ رَجُلًا، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابُہُ أَصَابَ مِنْ الْمُشْرِکِینَیَوْمَ بَدرٍ أَرْبَعِینَ وَمِائَۃً، سَبْعِینَ أَسِیرًا وَسَبْعِینَ قَتِیلًا، فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ: أَفِی الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ؟ أَ فِی الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ؟ أَ فِی الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ؟ ثَلَاثًا، فَنَہَاہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یُجِیبُوہُ، ثُمَّ قَالَ: أَفِی الْقَوْمِ ابْنُ أَبِی قُحَافَۃَ؟ أَ فِی الْقَوْمِ ابْنُ أَبِی قُحَافَۃَ؟ أَ فِی الْقَوْمِ ابْنُ الْخَطَّابِ؟ أَ فِی الْقَوْمِ ابْنُ الْخَطَّابِ؟ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلٰی أَصْحَابِہِ، فَقَالَ: أَمَّا ہٰؤُلَائِ فَقَدْ قُتِلُوا وَقَدْ کُفِیتُمُوہُمْ، فَمَا مَلَکَ عُمَرُ نَفْسَہُ أَنْ قَالَ: کَذَبْتَ وَاللّٰہِ، یَا عَدُوَّ اللّٰہِ! إِنَّ الَّذِینَ عَدَدْتَ لَأَحْیَائٌ کُلُّہُمْ، وَقَدْ بَقِیَ لَکَ مَا یَسُوئُکَ، فَقَالَ: یَوْمٌ بِیَوْمِ بَدْرٍ، وَالْحَرْبُ سِجَالٌ، إِنَّکُمْ سَتَجِدُونَ فِی الْقَوْمِ مُثْلَۃً لَمْ آمُرْ بِہَا وَلَمْ تَسُؤْنِی، ثُمَّ أَخَذَ یَرْتَجِزُ: اعْلُ ہُبَلُ، اعْلُ ہُبَلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَلَا تُجِیبُونَہُ؟)) قَالُوا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَمَا نَقُولُ؟ قَالَ: ((قُولُوا: اَللَّہُ أَعْلٰی وَأَجَلُّ۔)) قَالَ: إِنَّ الْعُزّٰی لَنَا وَلَا عُزّٰی لَکُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَلَا تُجِیبُونَہُ۔)) قَالُوا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَمَا نَقُولُ؟ قَالَ: ((قُولُوا: اللّٰہُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلٰی لَکُمْ۔))۔ (مسند احمد: ۱۸۷۹۴)
سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ غزوۂ احد کے روز رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پچاس تیر اندازوں پر عبداللہ بن جبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو امیر مقرر فرمایا اور انہیں ایک مقام پر ٹھہرایا اور فرمایا: اگر تم دیکھو کہ پرندے ہماری لاشوں کو آکر کھا رہے ہیں تم تب بھییہاں سے نہ ہٹنا، تاآنکہ میں خود تمہارے پاس پیغام بھیجوں اور اگر تم دیکھو کہ ہم دشمن پر غالب آ چکے اور اسے روند چکے ہیں تم تب بھییہاں سے اِدھر اُدھر نہ جانا، جب تک کہ میں خود تمہارے پاس پیغام نہ بھیج دوں۔ سیدنا براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:مسلمانوں نے کفار کو شکست سے دو چار کیا۔ اللہ کی قسم! میں نے عورتوں کو پہاڑ کے اوپر دوڑتے ہوئے یعنی گھبراہٹ میں تیز تیز چلتے دیکھا ان کی حالت یہ تھی کہ ان کی پنڈلیاں اور پازیبیں دکھائی دے رہی تھیں اور انہوں نے اپنے کپڑوں کو اٹھایا ہوا تھا۔ یہ صورت حال دیکھ کر سیدنا عبداللہ بن جبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے تیر انداز ساتھیوں نے کہا: لوگو! چلو مالِ غنیمت اکٹھا کریں، مسلمانوں کو فتح حاصل ہو چکی ہے، اب تم کس چیز کے منتظر ہو؟ سیدنا عبداللہ بن جبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے بہت کہا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تم سے جو فرمایا تھا، کیا تم اسے بھول گئے ہو؟ یہ لوگ جب میدان میں پہنچے، صورت حالات بدل گئی اور شکست خوردہ ہو کر واپس ہوئے۔ یہی وہ وقت تھا جب رسول ان کو ان کے پیچھے سے آوازیں دے دے کر بلا رہے تھے اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ محض بارہ آدمی رہ گئے تھے اور کفار نے ہمارے ستر آدمیوں کو قتل کیا تھا، جب کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابہ کرام نے بدر کے دن ستر کافر وں کو قتل اور ستر کافروں کو قیدی بنایا تھا، لڑائی کے بعد ابو سفیان نے پکار کر دریافت کیا: کیا تمہارے اندر محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم موجود ہیں؟ کیا تمہارے اندر محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم موجود ہیں؟ کیا تمہارے اندر محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم موجود ہیں؟ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسلمانوں کو اس کی بات کا جواب دینے سے منع فرما دیا۔ اس کے بعد اس نے پکار کر پوچھا کیا تمہارے ابن ابی قحافہ یعنی ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ موجود ہیں؟ کیا تمہارے اندر ابو قحافہ کے بیٹے موجود ہیں؟ کیا تمہارے اندر ابن خطاب ہیں؟ کیا تمہارے اندر خطاب کا بیٹا ہے؟ پھر اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھ کر خوشی سے کہا یہ سب لوگ مارے جا چکے ہیں اور ان کی بابت تمہارا کام مکمل ہو چکا ہے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس کییہ باتیں سن کر کنٹرول نہ کر سکے اور فرمایا: اے اللہ کے دشمن! تو جھوٹ کہہ رہا ہے، تو نے جن جن لوگوں کے نام لیے ہیں وہ سب زندہ ہیں، اور تیرے لیے بری خبر باقی ہے۔ ابو سفیان نے کہا: آج کا دن، بدر کا بدلہ ہے، اور لڑائی میں ایسا ہوتا رہتا ہے، کبھی کوئی غالب اورکبھی کوئی، تم دیکھوگے کہ تمہارے مسلمانوں کے مقتولین کا مُثلہ کیا گیا ہے، مگر میں نے کسی کو ایسا کرنے کانہیں کہا۔ مگر مجھے یہ کام بُرا بھی نہیں لگا، پھر وہ خوشی سے اس قسم کے رجز یہ کلمات کہنے لگا۔ اے ہُبل! تو سر بلند ہو، اے ہبل! تو سربلند ہو، تب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم اس کی باتوں کا جواب نہ دو گے؟ صحابہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے دریافت کیا، اللہ کے رسول! اس کے جواب میں ہم کیا کہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم یوں کہو اَللَّہُ أَعْلٰی وَأَجَلُّ (اللہ ہی بلند وبالا اور بزرگی والا ہے)۔ ابو سفیان نے کہا: ہمارے پاس تو ایک عُزی ہے، جب کہ تمہارا کوئی عزی نہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اسے اس کی بات کا جواب کیوں نہیں دیتے ہو؟ صحابہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کیا کہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تم یوں کہو: اَللّٰہُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلٰی لَکُمْ (ہمارا مدد گار تو اللہ ہے، تمہارا کوئی مدد گار نہیں)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10730

۔ (۱۰۷۳۰)۔ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ قَالَ: مَا نَصَرَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فِی مَوْطِنٍ کَمَا نَصَرَ یَوْمَ أُحُدٍ، قَالَ: فَأَنْکَرْنَا ذٰلِکَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بَیْنِی وَبَیْنَ مَنْ أَنْکَرَ ذٰلِکَ کِتَابُ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ فِییَوْمِ أُحُد: {وَلَقَدْ صَدَقَکُمْ اللّٰہُ وَعْدَہُ إِذْ تَحُسُّونَہُمْ بِإِذْنِہِ } یَقُولُ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَالْحَسُّ الْقَتْلُ، {حَتّٰی إِذَا فَشِلْتُمْ إِلٰی قَوْلِہِ وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ وَاللّٰہُ ذُو فَضْلٍ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ} وَإِنَّمَا عَنٰی بِہٰذَا الرُّمَاۃَ، وَذٰلِکَ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَقَامَہُمْ فِی مَوْضِعٍ، ثُمَّ قَالَ: ((احْمُوا ظُہُورَنَا فَإِنْ رَأَیْتُمُونَا نُقْتَلُ فَلَا تَنْصُرُونَا، وَإِنْ رَأَیْتُمُونَا قَدْ غَنِمْنَا فَلَا تَشْرَکُونَا۔)) فَلَمَّا غَنِمَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَبَاحُوا عَسْکَرَ الْمُشْرِکِینَ أَکَبَّ الرُّمَاۃُ جَمِیعًا فَدَخَلُوا فِی الْعَسْکَرِ یَنْہَبُونَ، وَقَدِ الْتَقَتْ صُفُوفُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَہُمْ کَذَا وَشَبَّکَ بَیْنَ أَصَابِعِ یَدَیْہِ، وَالْتَبَسُوا فَلَمَّا أَخَلَّ الرُّمَاۃُ تِلْکَ الْخَلَّۃَ الَّتِی کَانُوا فِیہَا دَخَلَتِ الْخَیْلُ مِنْ ذٰلِکَ الْمَوْضِعِ عَلٰی أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَضَرَبَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا وَالْتَبَسُوا وَقُتِلَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ نَاسٌ کَثِیرٌ، وَقَدْ کَانَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابِہِ أَوَّلُ النَّہَارِ حَتّٰی قُتِلَ مِنْ أَصْحَابِ لِوَائِ الْمُشْرِکِینَ سَبْعَۃٌ أَوْ تِسْعَۃٌ، وَجَالَ الْمُسْلِمُونَ جَوْلَۃً نَحْوَ الْجَبَلِ وَلَمْ یَبْلُغُوا حَیْثُیَقُولُ النَّاسُ الْغَارَ، إِنَّمَا کَانُوا تَحْتَ الْمِہْرَاسِ وَصَاحَ الشَّیْطَانُ: قُتِلَ مُحَمَّدٌ، فَلَمْ یُشَکَّ فِیہِ أَنَّہُ حَقٌّ، فَمَا زِلْنَا کَذٰلِکَ مَا نَشُکُّ أَنَّہُ قَدْ قُتِلَ حَتّٰی طَلَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَ السَّعْدَیْنِ نَعْرِفُہُ بِتَکَفُّئِہِ إِذَا مَشٰی، قَالَ: فَفَرِحْنَا حَتّٰی کَأَنَّہُ لَمْ یُصِبْنَا مَا أَصَابَنَا، قَالَ: فَرَقِیَ نَحْوَنَا وَہُوَ یَقُولُ: ((اشْتَدَّ غَضَبُ اللّٰہِ عَلٰی قَوْمٍ دَمَّوْا وَجْہَ رَسُولِہِ۔)) قَالَ: وَیَقُولُ مَرَّۃً أُخْرٰی: اللّٰہُمَّ إِنَّہُ لَیْسَ لَہُمْ أَنْ یَعْلُونَا حَتَّی انْتَہَی إِلَیْنَا، فَمَکَثَ سَاعَۃً فَإِذَا أَبُو سُفْیَانَیَصِیحُ فِی أَسْفَلِ الْجَبَلِ: اعْلُ ہُبَلُ، مَرَّتَیْنِیَعْنِی آلِہَتَہُ، أَیْنَ ابْنُ أَبِیکَبْشَۃَ؟ أَیْنَ ابْنُ أَبِی قُحَافَۃَ؟ أَیْنَ ابْنُ الْخَطَّابِ؟ فَقَالَ عُمَرُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَلَا أُجِیبُہُ؟ قَالَ: ((بَلٰی۔)) فَلَمَّا قَالَ: اعْلُ ہُبَلُ، قَالَ عُمَرُ: اللّٰہُ أَعْلَی وَأَجَلُّ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ: یَا ابْنَ الْخَطَّابِ! إِنَّہُ قَدْ أَنْعَمَتْ عَیْنُہَا فَعَادِ عَنْہَا أَوْ فَعَالِ عَنْہَا، فَقَالَ أَیْنَ ابْنُ أَبِی کَبْشَۃَ؟ أَیْنَ ابْنُ أَبِی قُحَافَۃَ؟ أَیْنَ ابْنُ الْخَطَّابِ؟ فَقَالَ عُمَرُ: ہٰذَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہٰذَا أَبُوبَکْرٍ، وَہَا أَنَا ذَا عُمَرُ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ: یَوْمٌ بِیَوْمِ بَدْرٍ، الْأَیَّامُ دُوَلٌ، وَإِنَّ الْحَرْبَ سِجَالٌ، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ:لَا سَوَائً قَتْلَانَا فِی الْجَنَّۃِ وَقَتْلَاکُمْ فِی النَّارِ، قَالَ: إِنَّکُمْ لَتَزْعُمُونَ ذٰلِکَ لَقَدْ خِبْنَا إِذَنْ وَخَسِرْنَا، ثُمَّ قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: أَمَا إِنَّکُمْ سَوْفَ تَجِدُونَ فِی قَتْلَاکُمْ مُثْلًا، وَلَمْ یَکُنْ ذَاکَ عَنْ رَأْیِ سَرَاتِنَا، قَالَ: ثُمَّ أَدْرَکَتْہُ حَمِیَّۃُ الْجَاہِلِیَّۃِ، قَالَ: فَقَالَ: أَمَا إِنَّہُ قَدْ کَانَ ذَاکَ وَلَمْ نَکْرَہُّ۔ (مسند احمد: ۲۶۰۹)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے جیسے احد کے موقع پر مسلمانوں کی مدد کی، ایسی کسی بھی موقع پر نہیں کی، عبیداللہ کہتے ہیں: سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کییہ بات سن کر ہم سب کو تعجب ہوا۔ انھوں نے کہا: جو لوگ اس بات کے انکاری ہیں ان کے اور میرے درمیان اللہ کی کتاب فیصلہ کرے گی۔ اللہ تعالیٰ نے احد والے دن کے متعلق فرمایا ہے:{وَلَقَدْ صَدَقَکُمْ اللّٰہُ وَعْدَہُ إِذْ تَحُسُّونَہُمْ بِإِذْنِہِ} … اللہ نے تمہارے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا کیا تم ان کافروں کو قتل کر رہے تھے۔ یہاں الحسّ سے مراد قتل کرنا ہے۔ مزید فرمایا: {حَتّٰی اِذَا فَشِلْتُمْ وَ تَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَعَصَیْتُمْ مِّنْ بَعْدِ مَآ اَرٰیکُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْھُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ وَاللّٰہُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ۔}… مگر جب تم نے کمزوری دکھائی اور اپنے کام میں باہم اختلاف کیا، اور جونہی کہ وہ چیز اللہ نے تمہیں دکھائی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے (یعنی مالِ غنیمت اور دشمن کی شکست)تم اپنے سردار کے حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھے، اس لیے کہ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے، تب اللہ نے تمہیں کافروں کے مقابلہ میں پسپا کر دیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے۔ اور حق یہ ہے کہ اللہ نے پھر بھی تمہیں معاف ہی کر دیا کیونکہ مومنوں پر اللہ بڑی نظر عنایت رکھتا ہے۔ اس سے وہ تیر انداز مراد ہیں جنہیں اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک مقام پر متعین کیا تھا، اور فرمایا تھا کہ تم ادھر سے یعنی ہماری پشت کی جانب سے ہماری حفاظت کرنا، اگر تم دیکھو کہ ہم مارے جا رہے ہیں تب بھی تم ہماری مدد کو نہ آنا، اگر تم دیکھو کہ ہم غنیمتیں جمع کر رہے ہیں تب بھی تم ہمارے ساتھ شریک نہ ہونا۔ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غنیمتیں جمع کرنے لگے اور انہوں نے مشرکین کے لشکر کو شکست سے دو چار کیا تم تمام تیر انداز اُدھر امڈ آئے اور لشکر میں شامل ہو کر لوٹ مار کرنے لگے، اصحاب رسول کی صفیں آپس میں اس طرح گڈ مڈ ہو گئیں اور ساتھ ہی ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کر کے دکھایا، جب ان تیر اندازوں نے اس مقررہ مقام کو غیر محفوظ چھوڑ دیا جہاں انہیں متعین کیا گیا تھا تو دشمنوں کا لشکر ادھر ہی سے اصحاب نبی پر حملہ آور ہو گیا۔ انہوں نے ایک دوسرے کو مارا اور گتھم گتھا ہو گئے اوربہت سے مسلمان شہید ہو گئے۔ دن کے ابتدائی حصہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابہ کرام کا پلہ بھاری رہا، یہاں تک کہ مشرکین کے سات یا نو جھنڈا بردار قتل ہوئے اور مسلمان پہاڑ کی جانب بڑھتے گئے، وہ اس غار تک نہیں پہنچے تھے جس کے متعلق لوگ بیان کرتے ہیں کہ مسلمان غار تک پہنچ گئے تھے بلکہ وہ مہر اس نامی چشمہ تک پہنچے تھے جس کے قریب ہی سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دفن کیا گیا تھا۔اور شیطان نے زور دار آواز سے چیخ کر کہا تھا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قتل ہو گئے۔ اس بات کے حق ہونے میں کسی کو شک بھی نہ گزرا، ہمیں بھی اس بات کا پورا یقین ہو چکا تھا، یہاں تک کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سعدین کے درمیان سے نظر آئے۔ ہم آپ کو آپ کے چلنے کے انداز سے پہچان لیتے تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چلتے وقت سامنے کی طرف تھوڑا سا جھک کر چلتے تھے، صحابہ کہتے ہیں: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھ کر ہمیں اس قدر خوشی ہوئی گویا کہ ہمیں کوئی دکھ پہنچا ہی نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پہاڑ کے اوپر ہماری طرف چڑھ آئے اور اس وقت آپ یوں کہہ رہے تھے: ان لوگوں پر اللہ کا سخت غضب ہو، جنہوں نے اس کے رسول کے چہرے کو خون آلود کیا۔ اور کبھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں کہا: یہ لوگ کبھی بھی ہم پر غالب نہیں ہو سکتے۔ آپ اسی طرح کے کلمات کہتے کہتے ہمارے پاس آن پہنچے۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ پہاڑ کے نیچے سے ابو سفیان نے زور سے چیخ کر دو مرتبہ کہا، اے ہُبُل، تو سربلند ہو۔ ابن ابی کبشہ کہاں ہے؟(اس سے اس کی مراد نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تھے) ابو قحافہ کا بیٹا ابوبکر کہاں ہے؟ خطاب کا بیٹا عمر کہاں ہے؟ اس کی باتیں سن کر عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول! کیا میں اس کی باتوں کا جواب نہ دوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ضرور دو۔ ابو سفیان نے جب کہا کہ اے ہبل تو سر بلند ہو۔ تو اس کے جواب میں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللّٰہُ أَعْلٰی وَأَجَلُّ (صرف اللہ ہی سب سے بلند اور بزرگ ترین ہے۔) ابو سفیان نے کہا: اے ابن خطاب! ہبل کی بات پوری ہو چکی ہے۔ اب تم اس کے ذکر کو چھوڑو، ابو سفیان نے کہا تھا: ابو کبشہ کا بیٹا محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کہاں ہے؟ ابو قحافہ کا بیٹا کہاں ہے؟ اور خطاب کا بیٹا کہاں ہے؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ ہیں اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، یہ ہیں ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور یہ میں ہوں عمر، ابو سفیان نے کہا: آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے، یہ ایام پانی کے ڈول کی مانند ہوتے ہیں کبھی کوئی غالب آتا ہے اور کوئی مغلوب اور لڑائی میں باریاں ہوتی ہیں، غالب ہونے والے کبھی مغلوب اور مغلوب ہونے والے کبھی غالب آجاتے ہیں۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: نہیں، برابری نہیں ہے، ہمارے مقتول تو جنت میں جائیں گے اور تمہارے مقتول جہنمی ہیں۔ ابو سفیان بولا: یہ تو تمہارا خیال ہے، اگر بات ایسی ہی ہو تو ہم سراسر ناکام اور خسارہ پانے والے ہیں۔ پھر ابو سفیان نے کہا: اے عمر! تم دیکھو گے کہ تمہارے مقتولین کا مثلہ کیا گیا ہے۔ مگر یہ ہمارے لیڈروں کا فیصلہ قطعاً نہ تھا، یہ بات کرنے کے ساتھ ہی اسے جاہلی حمیتنے آن لیا اور کہنے لگا: اگر چہ بات ایسے ہی ہے کہ یہ ہمارے لیڈروں کا فیصلہ نہ تھا، تاہم ہم اس پر خوش ہیں اور اسے ناپسند نہیں کرتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10731

۔ (۱۰۷۳۱)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النِّسَائَ کُنَّ یَوْمَ أُحُدٍ خَلْفَ الْمُسْلِمِینَیُجْہِزْنَ عَلٰی جَرْحٰی الْمُشْرِکِینَ، فَلَوْ حَلَفْتُ یَوْمَئِذٍ رَجَوْتُ أَنْ أَبَرَّ إِنَّہُ لَیْسَ أَحَدٌ مِنَّا یُرِیدُ الدُّنْیَا، حَتَّی أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {مِنْکُمْ مَنْ یُرِیدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَنْ یُرِیدُ الْآخِرَۃَ ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْہُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ} فَلَمَّا خَالَفَ أَصْحَابُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعَصَوْا مَا أُمِرُوا بِہِ، أُفْرِدَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی تِسْعَۃٍ سَبْعَۃٍ مِنَ الْأَنْصَارِ وَرَجُلَیْنِ مِنْ قُرَیْشٍ وَہُوَ عَاشِرُہُمْ، فَلَمَّا رَہِقُوہُ، قَالَ: ((رَحِمَ اللّٰہُ رَجُلًا رَدَّہُمْ عَنَّا۔)) قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَاتَلَ سَاعَۃً حَتّٰی قُتِلَ، فَلَمَّا رَہِقُوہُ أَیْضًا قَالَ: ((یَرْحَمُ اللّٰہُ رَجُلًا رَدَّہُمْ عَنَّا۔)) فَلَمْ یَزَلْیَقُولُ ذَا حَتّٰی قُتِلَ السَّبْعَۃُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِصَاحِبَیْہِ: ((مَا أَنْصَفْنَا أَصْحَابَنَا۔)) فَجَائَ أَبُو سُفْیَانَ فَقَالَ: اعْلُ ہُبَلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((قُولُوا: اَللَّہُ أَعْلٰی وَأَجَلُّ۔)) فَقَالُوا: اللّٰہُ أَعْلٰی وَأَجَلُّ، فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ: لَنَا عُزّٰی وَلَا عُزّٰی لَکُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((قُولُوا: اللّٰہُ مَوْلَانَا وَالْکَافِرُونَ لَا مَوْلٰی لَہُمْ۔)) ثُمَّ قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: یَوْمٌ بِیَوْمِ بَدْرٍ، یَوْمٌ لَنَا وَیَوْمٌ عَلَیْنَا، وَیَوْمٌ نُسَائُ وَیَوْمٌ نُسَرُّ، حَنْظَلَۃُ بِحَنْظَلَۃَ، وَفُلَانٌ بِفُلَانٍ، وَفُلَانٌ بِفُلَانٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَا سَوَائً أَمَّا قَتْلَانَا فَأَحْیَائٌیُرْزَقُونَ، وَقَتْلَاکُمْ فِی النَّارِ یُعَذَّبُونَ۔)) قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: قَدْ کَانَتْ فِی الْقَوْمِ مُثْلَۃٌ، وَإِنْ کَانَتْ لَعَنْ غَیْرِ مَلَإٍ مِنَّا مَا أَمَرْتُ وَلَا نَہَیْتُ وَلَا أَحْبَبْتُ وَلَا کَرِہْتُ وَلَا سَائَ نِیْ وَلَا سَرَّنِی، قَالَ: فَنَظَرُوا فَإِذَا حَمْزَۃُ قَدْ بُقِرَ بَطْنُہُ وَأَخَذَتْ ہِنْدُ کَبِدَہُ فَلَاکَتْہَا فَلَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تَأْکُلَہَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَأَکَلَتْ مِنْہُ شَیْئًا؟)) قَالُوا: لَا، قَالَ: ((مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُدْخِلَ شَیْئًا مِنْ حَمْزَۃَ النَّارَ۔)) فَوَضَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَمْزَۃَ فَصَلَّی عَلَیْہِ، وَجِیئَ بِرَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَوُضِعَ إِلَی جَنْبِہِ،فَصَلَّی عَلَیْہِ، فَرُفِعَ الْأَنْصَارِیُّ وَتُرِکَ حَمْزَۃُ، ثُمَّ جِیء َ بِآخَرَ فَوَضَعَہُ إِلَی جَنْبِ حَمْزَۃَ فَصَلَّی عَلَیْہِ، ثُمَّ رُفِعَ وَتُرِکَ حَمْزَۃُ، حَتَّی صَلَّی عَلَیْہِیَوْمَئِذٍ سَبْعِینَ صَلَاۃ۔ (مسند احمد: ۴۴۱۴)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ احد کے دن خواتین مسلمانوں کے پیچھے تھیں اور وہ مشرکین کے زخمی لوگوں کی مرہم پٹی اور خدمت کر رہی تھیں، میں اس روز قسم اُٹھا کر کہہ سکتا تھا کہ ہم میں سے ایک بھی آدمی دنیا کا خواہش مند اور طالب نہ تھا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {مِنْکُمْ مَنْ یُرِیدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَنْ یُرِیدُ الْآخِرَۃَ ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْہُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ}… اس لیے کہ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے، تب اللہ نے تمہیں کافروں کے مقابلہ میں پسپا کر دیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے۔ جب بعض صحابہ سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حکم کی خلاف ورزی ہو گئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حکم عدولی کے مرتکب ہوئے اور حالات نے رخ بدلا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سات انصار اور دو قریشیوں کے ایک گروپ میں علیحدہ ہو گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان میں دسویں فرد تھے، جب کفار آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر چڑھ آئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس آدمی پر اللہ کی رحمت ہو جو ان حملہ آوروں کو ہم سے ہٹائے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم برابر یہ بات کہتے رہے تاآنکہ ان میں سے سات آدمی شہید ہو گئے اور صرف دو آدمی باقی بچے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ان دونوں ساتھیوں سے فرمایا: ہم نے اپنے ان ساتھیوں سے انصاف نہیں کیا (یعنی قریشیوں نے انصاریوں سے انصاف نہیں کیا کہ انصاری ہییکے بعد دیگرے نکل نکل کر شہید ہوتے گئے یا ہمارے جو لوگ میدان سے راہِ فرار اختیار کر گئے ہیں انہوں نے ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا)۔ ابو سفیان نے آکر کہا: اے ہبل! تو سربلند ہو تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے جواب میں تم یوں کہو اَللّٰہُ أَعْلَی وَأَجَلُّ (اللہ ہی بلند شان والا اور بزرگی والا ہے۔) صحابہ نے بلند آواز سے کہا: اَللّٰہُ أَعْلَی وَأَجَلّ۔ُپھر ابو سفیان نے کہا: ہمارا تو ایک عزی ہے اور تمہارا کوئی عزی نہیں ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کہو اللہ ہمارا مدد گار ہے اور کافروں کا کوئی بھی مدد گار نہیں ہے۔ پھر ابو سفیان نے کہا: آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے، آج ہمیں فتح ہوئی ہے، اس روز ہمیں شکست ہوئی تھی، ایک دن ہمیں برا لگا اور ایک دن ہمیں اچھا لگا، حنظلہ کے مقابلے میں حنظلہ، فلاں کے فلان مقابلے میں اور فلاں بالمقابل فلاں، یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہمارے تمہارے درمیان کوئی برابری نہیں، ہمارے مقتولین زندہ ہیں، انہیں اللہ کی طرف سے رزق دیا جاتا ہے اور تمہارے مقتولین جہنم میں ہیں، انہیں عذاب سے دو چار کیا جاتا ہے۔ ابو سفیان نے کہا: تمہارے یعنی مسلمانوں کے مقتولین کا مثلہ کیا گیا ہے ،یہ کام ہماری رائے یا مشاورت کے بغیر ہوا ہے، میں نے نہ اس کا حکم دیا اور نہ اس سے روکا۔ اور میں نے اسے پسند یا نا پسند بھی نہیں کیا، مجھے اس کا نہ غم ہوا ہے اور نہ خوشی۔ صحابہ کرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جب شہدائے کرام کو دیکھاتو سیّد نا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا پیٹ چاک کیا گیا تھا، ابو سفیان کی بیوی ہند نے ان کا جگر نکال کر اسے چبایا، مگر وہ اسے کھا نہ سکی،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا اس نے اس میں سے کچھ کھایا تھا؟ صحابہ نے عرض کیا: جی نہیں ،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ حمزہ کے جسم کے کسی بھی حصہ یا اس کے جزء کو جہنم میں داخل کرنے والا نہیں ہے۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی میت کو سامنے رکھ کر ان کی نماز جنازہ ادا کی، بعد ازاں ایک انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی میت کو لایا گیا، اسے سیّدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پہلو میں رکھ کر اس کی نماز جنازہ ادا کی گئی، انصاری کی میت کو اُٹھا لیا گیا اور سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی میت کو وہیں رہنے دیا گیا، پھر ایک اور شہید کو لایا گیا، اسے بھی سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پہلو میں رکھ کر اس کی نماز جنازہ ادا کی گئی، پھر اسے اُٹھا لیا گیا اور سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو وہیں رہنے دیا گیا،یہاں تک کہ اس روز نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی نماز جنازہ ستر بار ادا فرمائی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10732

۔ (۱۰۷۳۲)۔ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شُجَّ یَوْمَ أُحُدٍ وَکَسَرُوا رَبَاعِیَتَہُ، فَجَعَلَ یَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْہِہِ وَہُوَ یَقُولُ: ((کَیْفَیُفْلِحُ قَوْمٌ خَضَّبُوا وَجْہَ نَبِیِّہِمْ بِالدَّمِ، وَہُوَ یَدْعُوہُمْ إِلٰی رَبِّہِمْ عَزَّ وَجَلَّ۔)) فَأُنْزِلَتْ: {لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْئٌ أَوْ یَتُوبَ عَلَیْہِمْ أَوْ یُعَذِّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُونَ}۔ [آل عمران: ۱۲۸] (مسند احمد: ۱۱۹۷۸)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ غزوۂ احد کے موقع پر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے والے دو دانتوں اور کچلیوں کے درمیان والا دانت شہید ہوگیا اور آپ کا رُخ انور اس قدر زخمی ہو گیا کہ خون آپ کے چہرے پر بہہ پڑا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسی اثناء میں فرما رہے تھے: وہ قوم کیسے کامیاب ہو گی، جنہوں نے اپنے نبی کے ساتھ یہ سلوک کیا، حالانکہ وہ نبی تو انہیں ان کے رب کی طرف بلا رہا تھا۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: {لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْئٌ أَوْ یَتُوبَ عَلَیْہِمْ أَوْ یُعَذِّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُونَ}… آپ کو اس بارے میںکچھ بھی اختیار نہیں،یہ اللہ کی مرضی ہے کہ ان پر توجہ کرےیا انہیں عذاب سے دو چار کرے، بے شک وہ ظالم ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10733

۔ (۱۰۷۳۳)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ بِنَحْوِہِ) وَفِیْہِ: شُجَّ فِی وَجْہِہِ یَوْمَ أُحُدٍ، وَکُسِرَتْ رَبَاعِیَتُہُ، وَرُمِیَ رَمْیَۃً عَلٰی کَتِفَیْہِ، فَجَعَلَ الدَّمُ یَسِیلُ عَلٰی وَجْہِہِ، وَہُوَ یَمْسَحُہُ عَنْ وَجْہِہِ وَہُوَ یَقُولُ: ((کَیْفَتُفْلِحُ أُمَّۃٌ فَعَلُوا ہَذَا بِنَبِیِّہِمْ، وَہُوَ یَدْعُوہُمْ إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ۔)) فَأَنْزَلَ: {لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْئٌ أَوْ یَتُوبَ عَلَیْہِمْ} [آل عمران: ۱۲۸] إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ۔ (مسند احمد: ۱۳۱۱۴)
۔( دوسری سند) اسی طرح کی روایت ہے، البتہ اس میں ہے: احد کے دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ زخمی ہو گیا، سامنے والے دانتوں اور کچلیوں کے درمیان والا دانت ٹوٹ گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کندھے پر بھی ایک تیر آکر لگا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے پر بھی خون بہنے لگا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس عالم میں اپنے چہرے سے خون صاف کر رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ وہ وہ امت کیسے فلاح یاب ہو سکتی ہے، جنہوں نے اپنے نبی کے ساتھ یہ سلوک کیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی: {لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْئٌ أَوْ یَتُوبَ عَلَیْہِمْ أَوْ یُعَذِّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُونَ}… تیرے اختیارمیں اس معاملے سے کچھ بھی نہیں،یا وہ ان پر مہربانی فرمائے، یا انھیں عذاب دے، کیوں کہ بلا شبہ وہ ظالم ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10734

۔ (۱۰۷۳۴)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِشْتَدَّ غَضَبُ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ عَلٰی قَوْمٍ فَعَلُوْا بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔)) وَھُوَ حِیْنَئِذٍیُشِیْرُ اِلٰی رَبَاعِیَتِہِ وَقَالَ: ((اِشْتَدَّ غَضَبُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی رَجُلٍ یَقْتُلُہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔))۔ (مسند احمد: ۸۱۹۸)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ٹوٹے رباعی دانت کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ان لوگوں پر اللہ کا شدید غضب ہوا،جنہوں نے اللہ کے رسول کے ساتھ ایسا سلوک کیاا ور اس آدمی پر بھی اللہ کا شدید غضب ہے، جسے اللہ کا رسول اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے قتل کرے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10735

۔ (۱۰۷۳۵)۔ عَنْ سَعْدِ بْنِ اَبِیْ وَقَّاصٍ قَالَ: لَقَدْ رَاَیْتُ عَنْ یَمِیْنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعَنْ یَسَارِہِیَوْمَ اُحُدٍ رَجُلَیْنِ، عَلَیْہِمَا ثِیَابٌ بِیْضٌیُقَاتِلَانِ عَنْہُ کَاَشَدِّ الْقِتَالِ، مَا رَاَیْتُہُمَا قَبْلُ وَلَا بَعْدُ۔ (مسند احمد: ۱۴۶۸)
سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:احد کے دن میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دائیں بائیں دو آدمیوں کو دیکھا، وہ سفید لباس میں ملبوس تھے، وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا بھر پور دفاع کر رہے تھے، ان دونوں کو میں نے اس سے پہلے یا بعد میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10736

۔ (۱۰۷۳۶)۔ عَنْ اَنَسٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَخَذَ سَیْفًایَوْمَ اُحُدٍ فَقَالَ: ((مَنْ یَاْخُذُ ھٰذَا السَّیْفَ؟)) فَاَخَذَہُ قَوْمٌ فَجَعَلُوْا یَنْظُرُوْنَ اِلَیْہِ، فَقَالَ: ((مَنْ یَاْخُذُہُ بِحَقِّہِ؟)) فَاَحْجَمَ الْقَوْمُ، فَقَالَ اَبُوْ دُجَانَۃَ سِمَّاکٌ: اَنَا آخُذُہُ بِحَقِّہِ، فَفَلَقَ ھَامَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ (مسند احمد: ۱۲۲۶۰)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ غزوۂ احد کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا: اس تلوار کو کون لے گا؟ لوگ اسے لے کر دیکھنے لگ گئے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کون ہے جو اسے لے کر اس کا حق بھی ادا کرے۔ تو لوگ پیچھے ہٹ گئے، سیدنا ابو دجانہ سماک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: میں اسے لے کر اس کا حق ادا کر وں گا، چنانچہ انہوں نے مشرکین کی کھوپڑیاں اتارنا شروع کر دیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10737

۔ (۱۰۷۳۷)۔ عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ انَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ظَاھَرَ بَیْنَ دِرْعَیْنِیَوْمَ اُحُدٍ۔ (مسند احمد: ۱۵۸۱۳)
سائب بن یزید سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے احد کے دن دو زرہیں اوپر نیچے پہنی ہوئی تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10738

۔ (۱۰۷۳۸)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ إِذَ ذُکِرَ أَصْحَابُ أُحُدٍ: ((أَمَا وَاللّٰہِ! لَوَدِدْتُ أَنِّی غُودِرْتُ مَعَ أَصْحَابِ نُحْصَ الْجَبَلِ۔)) یَعْنِی سَفْحَ الْجَبَلِ۔ (مسند احمد: ۱۵۰۸۹)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سنا کہ جب شہدائے احد کا تذکرہ ہوتا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے: اللہ کی قسم! میں یہ پسند کرتا ہوں کہ مجھے بھی ان کے ہمراہ پہاڑ کے دامن میں دفن کر دیا جاتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10739

۔ (۱۰۷۳۹)۔ وَعَنْہُ: اَنَّ قَتْلٰی اُحُدٍ حُمِلُوْا مِنْ مَکَانِہِمْ، فَنَادٰی مُنَادِیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنْ رُدُّوْا الْقَتْلٰی اِلٰی مَضَاجِعِہَا۔ (مسند احمد: ۱۴۲۱۶)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ شہدائے احد کو وہاں سے اُٹھا کر مدینہ منورہ کی طرف لایا جانے لگا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے ایک اعلان کرنے والے نے اعلان کیا کہ ان مقتولین کو ان کی جگہ پریعنی میدان احد میں واپس لے آؤ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10740

۔ (۱۰۷۴۰)۔ وَعَنْہُ أَیْضًا قَالَ: اسْتُشْہِدَ اَبِیْ بِاُحُدٍ، فَاَرْسَلْنَنِیْ اَخَوَاتِیْ اِلَیْہِ بِنَاضِحٍ لَھُنَّ، فَقُلْنَ اذْھَبْ فَاحْتَمِلْ اَبَاکَ عَلٰی ھٰذَا الْجَمَلِ فَادْفُنْہُ فِیْ مَقْبَرَۃِ بَنِیْ سَلِمَۃَ، قَالَ فَجِئْتُہُ وَاَعْوَانٌ لِیْ فَبَلَغَ ذٰلِکَ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ جَالِسٌ بِاُحُدٍ فَدَعَانِیْ وَقَالَ: ((وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ! لَا یُدْفَنُ اِلَّا مَعَ اِخْوَتِہِ۔)) فَدُفِنَ مَعَ اَصْحَابِہِ بِاُحُدٍ۔ (مسند احمد: ۱۵۳۳۱)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب احد کے دن میرے والد شہید ہو گئے، تو میری بہنوں نے اونٹ دے کر مجھے بھیجا اور کہا کہ جاؤ اور ابا جان کی میت کو اس پر لاد کر لے آؤ اور انہیں بنو سلمہ کے قبرستان میں دفن کرو، میں اور میرے معاونین وہا ں پہنچے، لیکن جب اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ہمارے منصوبے کی اطلاع ہوئی تو آپ نے مجھے بلوایا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابھی وہیں احد کے مقام پر ہی تشریف فرما تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اسے اس کے باقی شہید بھائیوں کے ساتھ ہی دفن کیا جائے گا۔ پھر ایسے ہی ہوا کہ ان کو دیگر شہداء کے ساتھ ہی احد میں دفن کیا گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10741

۔ (۱۰۷۴۱)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: اَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ اُحُدٍ بِالشُّہَدَائِ اَنْ یُنْزَعَ عَنْہُمُ الْحَدِیْدُ وَالْجُلُوْدُ وَقَالَ: ((اُدْفُنُوْھُمْ بِدِمَائِہِمْ وَثِیَابِہِمْ۔))۔ (مسند احمد: ۲۲۱۷)
سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے احد کے دن شہداء کے بارے میں حکم دیا کہ ان کے اجساد سے لوہا اور چمڑے کا لباس الگ کر دیا جائے اور ان کو خون اور کپڑوں سمیت دفن کر دو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10742

۔ (۱۰۷۴۲)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِیَعْنِی ابْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِی سَلَمَۃَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَمْرٍو الضَّمْرِیِّ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ الْخِیَارِ إِلَی الشَّامِ، فَلَمَّا قَدِمْنَا حِمْصَ، قَالَ لِی عُبَیْدُ اللّٰہِ: ہَلْ لَکَ فِی وَحْشِیٍّ، نَسْأَلُہُ عَنْ قَتْلِ حَمْزَۃَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، وَکَانَ وَحْشِیٌّیَسْکُنُ حِمْصَ، قَالَ: فَسَأَلْنَا عَنْہُ، فَقِیلَ لَنَا: ہُوَ ذَاکَ فِی ظِلِّ قَصْرِہِ کَأَنَّہُ حَمِیتٌ، قَالَ: فَجِئْنَا حَتّٰی وَقَفْنَا عَلَیْہِ فَسَلَّمْنَا فَرَدَّ عَلَیْنَا السَّلَامَ، قَالَ: وَعُبَیْدُ اللّٰہِ مُعْتَجِرٌ بِعِمَامَتِہِ مَا یَرٰی وَحْشِیٌّ إِلَّا عَیْنَیْہِ وَرِجْلَیْہِ، فَقَالَ عُبَیْدُ اللّٰہِ: یَا وَحْشِیُّ! أَتَعْرِفُنِی؟ قَالَ: فَنَظَرَ إِلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: لَا وَاللّٰہِ! إِلَّا أَنِّی أَعْلَمُ أَنَّ عَدِیَّ بْنَ الْخِیَارِ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً،یُقَالُ لَہَا: أُمُّ قِتَالٍ، ابْنَۃُ أَبِی الْعِیصِ، فَوَلَدَتْ لَہُ غُلَامًا بِمَکَّۃَ فَاسْتَرْضَعَہُ، فَحَمَلْتُ ذٰلِکَ الْغُلَامَ مَعَ أُمِّہِ فَنَاوَلْتُہَا إِیَّاہُ، فَلَکَأَنِّی نَظَرْتُ إِلٰی قَدَمَیْکَ، قَالَ: فَکَشَفَ عُبَیْدُ اللّٰہِ وَجْہَہُ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا تُخْبِرُنَا بِقَتْلِ حَمْزَۃَ؟ قَالَ: نَعَمْ، إِنَّ حَمْزَۃَ قَتَلَ طُعَیْمَۃَ بْنَ عَدِیٍّ بِبَدْرٍ، فَقَالَ لِی مَوْلَایَ جُبَیْرُ بْنُ مُطْعِمٍ: إِنْ قَتَلْتَ حَمْزَۃَ بِعَمِّی فَأَنْتَ حُرٌّ، فَلَمَّا خَرَجَ النَّاسُ یَوْمَ عَینِینَ، قَالَ: وَعَینِینُ جُبَیْلٌ تَحْتَ أُحُدٍ وَبَیْنَہُ وَادٍ، خَرَجْتُ مَعَ النَّاسِ إِلَی الْقِتَالِ، فَلَمَّا أَنِ اصْطَفُّوا لِلْقِتَالِ، قَالَ: خَرَجَ سِبَاعٌ: مَنْ مُبَارِزٌ؟ قَالَ: فَخَرَجَ إِلَیْہِ حَمْزَۃُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ: سِبَاعُ بْنُ أُمِّ أَنْمَارٍ؟ یَا ابْنَ مُقَطِّعَۃِ الْبُظُورِ! أَتُحَادُّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ؟ ثُمَّ شَدَّ عَلَیْہِ فَکَانَ کَأَمْسِ الذَّاہِبِ، وَأَکْمَنْتُ لِحَمْزَۃَ تَحْتَ صَخْرَۃٍ حَتّٰی إِذَا مَرَّ عَلَیَّ، فَلَمَّا أَنْ دَنَا مِنِّی رَمَیْتُہُ بِحَرْبَتِی فَأَضَعُہَا فِی ثُنَّتِہِ حَتّٰی خَرَجَتْ مِنْ بَیْنِ وَرِکَیْہِ، قَالَ: فَکَانَ ذٰلِکَ الْعَہْدُ بِہِ، قَالَ: فَلَمَّا رَجَعَ النَّاسُ رَجَعْتُ مَعَہُمْ، قَالَ: فَأَقَمْتُ بِمَکَّۃَ حَتّٰی فَشَا فِیہَا الْإِسْلَامُ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ إِلَی الطَّائِفِ، قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: وَقِیلَ لَہُ: إِنَّہُ لَایَہِیجُ لِلرُّسُلِ، قَالَ: فَخَرَجْتُ مَعَہُمْ حَتّٰی قَدِمْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَلَمَّا رَآنِی، قَالَ: ((أَنْتَ وَحْشِیٌّ؟)) قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ((أَنْتَ قَتَلْتَ حَمْزَۃَ؟)) قَالَ: قُلْتُ: قَدْ کَانَ مِنَ الْأَمْرِ مَا بَلَغَکَیَا رَسُولَ اللّٰہِ إِذْ قَالَ: ((مَا تَسْتَطِیعُ أَنْ تُغَیِّبَ عَنِّی وَجْہَکَ؟)) قَالَ: فَرَجَعْتُ، فَلَمَّا تُوُفِّیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَخَرَجَ مُسَیْلِمَۃُ الْکَذَّابُ، قَالَ: قُلْتُ: لَأَخْرُجَنَّ إِلٰی مُسَیْلِمَۃَ لَعَلِّی أَقْتُلُہُ فَأُکَافِئَ بِہِ حَمْزَۃَ، قَالَ: فَخَرَجْتُ مَعَ النَّاسِ فَکَانَ مِنْ أَمْرِہِمْ مَا کَانَ، قَالَ: فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِی ثَلْمَۃِ جِدَارٍ کَأَنَّہُ جَمَلٌ أَوْرَقُ ثَائِرٌ رَأْسُہُ، قَالَ: فَأَرْمِیہِ بِحَرْبَتِی فَأَضَعُہَا بَیْنَ ثَدْیَیْہِ حَتّٰی خَرَجَتْ مِنْ بَیْنِ کَتِفَیْہِ، قَالَ: وَوَثَبَ إِلَیْہِ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: فَضَرَبَہُ بِالسَّیْفِ عَلٰی ہَامَتِہِ، قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْفَضْلِ: فَأَخْبَرَنِی سُلَیْمَانُ بْنُ یَسَارٍ أَنَّہُ سَمِعَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ فَقَالَتْ جَارِیَۃٌ عَلٰی ظَہْرِ بَیْتٍ، وَأَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ قَتَلَہُ الْعَبْدُ الْأَسْوَدُ۔ (مسند احمد: ۱۶۱۷۴)
جعفر بن عمرو ضمری سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں عبید اللہ بن عدی بن خیار کی معیت میں شام کی طرف گیا، جب ہم حمص میں پہنچے تو عبید اللہ نے مجھ سے کہا: کیا تم سیّدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قاتل وحشی بن حرب کو دیکھنا چاہتے ہو؟ ہم اس سے سیّد نا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قتل کے متعلق دریافت کریں گے۔ میں نے کہا: جی ہاں ان دنوں وحشی حمص میں مقیم تھا۔ ہم نے اس کے متعلق لوگوں سے دریافت کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ وہ سامنے اپنے محل کے سایہ میں ہے، اس کا جسم ایک مشک کی طرح (موٹا) تھا، جعفر کہتے ہیں: ہم اس کے قریب جا کر رک گئے اور ہم نے اسے سلام کہا، اس نے ہمیں سلام کا جواب دیا۔اس وقت عبید اللہ اپنے عمامہ کو اچھی طرح لپیٹا ہوا تھا، وحشی کو ان کی آنکھیں اور پاؤں ہی نظر آئے تھے۔ عبیداللہ نے کہا: وحشی! کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ اس نے اس کی طرف دیکھ کر کہا: اللہ کی قسم! نہیں، البتہ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ عدی بن الخیار نے ابو العیص کی دختر ام قتال سے شادی کی تھی، اس کے بطن سے مکہ میں اس کا ایک بیٹا پیدا ہوا تھا، میں اس بچے کے لیے کسی عورت کی تلاش میں تھا، جو اسے دودھ پلائے، میں نے اس بچے کو اس کی ماں کے ہمراہ اٹھایا تھا اور اسے پکڑ کر اس عورت کو تھمایا تھا، مجھے تمہارے قدم اس بچے کے سے لگتے ہیں، اس کے بعد عبیداللہ نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور کہا: کیا آپ ہمیں سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قتل کا واقعہ سنائیں گے؟ اس نے کہا: ہاں، حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بدر میں طیمہ بن عدی کو قتل کیا تھا، میرے آقا جبیر بن مطعم نے مجھ سے کہا کہ اگر تم میرے چچا کے بدلے میں سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کر دو تو تم آزاد ہو گے۔ جب لوگ عینین کے دن جنگ کے لیے روانہ ہوئے، احد کے قریب ہی ایک چھوٹا سا پہاڑ ہے، جس کا نام عینین ہے۔ ان دونوں کے درمیان صرف ایک وادی ہے،لوگ قتال کے لیے نکلے اور قتال کے لیے صف آراء ہو گئے تو سباع بن عبدالعزی خزاعی سامنے نکلا اور اس نے للکارا کہ ہے کوئی میرے مدمقابل؟ سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس کے مقابلے میں نکلے اور کہا کیا تو سباع بن ام انمار ہے؟ اے اس عورت کے بیٹے جو بچیوں کے فرج کے ساتھ بڑھے ہوئے چمڑے کا ٹا کرتی تھی! کیا تو اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں آیا ہے؟ اور یہ کہتے ہی اس پر حملہ کر دیا۔ میں سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کرنے کے ارادے سے ایک چٹان کے پیچھے گھات میں تھا، تاکہ جب وہ میرے پاس سے گزریں تو حملہ کر سکوں۔ جب وہ میرے قریب پہنچے تو میں نے ان کے مثانے پر وار کیا، جوان کے جسم سے پار ہو گیا۔ یہی وار ان کی موت کا سبب بنا، لوگ جب جنگ سے واپس ہوئے تو میں بھی واپس گیا اور میں مکہ میں مقیم رہا تاآ نکہ وہاں بھی اسلام پھیل گیا، میں وہاں سے طائف کو نکل گیا، اہل طائف نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں اپنا ایک قاصد بھیجا، کہا گیا کہ آپ کسی کے قاصد کو کچھ نہیں کہتے، میں بھی لوگوں کے ہمراہ آپ کی خدمت میں جا پہنچا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا: تم ہی وحشی ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ہی نے حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کیا تھا؟ میں نے کہا:اے اللہ کے رسول! وہی ہوا تھا جس کی اطلاع آپ تک پہنچ چکی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم اپنے آپ کو مجھ سے دور نہیں رکھ سکتے؟ چنانچہ میں وہاں سے چلا آیا، جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا اور مسیلمہ کذاب مدعی نبوت بن کر ظاہر ہوا تو میں نے سوچا کہ میں مسیلمہ کی طرف جا کر دیکھوں شاید میں اسے قتل کرنے میں کامیاب ہو جاؤں اور اس طرح حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قتل کی تلافی کر سکوں، چنانچہ میں لوگوں کے ہمراہ مسیلمہ کے مقابلے کو نکلا، پس جو ہونا تھا وہی ہوا، میں نے دیکھا کہ ایک آدمی ایک دیوار کے شگاف میں کھڑا تھا یوں لگتا تھا، جیسے وہ خاکستری رنگ کا اونٹ ہو، اس کے سر کے بال پراگندہ تھے، میں نے اپنا نیزہ اس پر پھینکا، جو اس کے پستانوں کے درمیان جا کر لگا، اور کندھوں کے درمیان سے پار ہو گیا، پھر ایک انصاری اس کی طرف لپکا اور اس کے سر پر تلوار چلائی۔ عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ ایک گھر کی چھت پر سے ایک لڑکی نے کہا کہ ایک سیاہ فام غلام نے امیر المؤمنین مسیلمہ کو قتل کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10743

۔ (۱۰۷۴۳)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَشَرَۃَ رَہْطٍ عَیْنًا، وَأَمَّرَ عَلَیْہِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتِ بْنِ أَبِی الْأَقْلَحِ جَدَّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَانْطَلَقُوا حَتّٰی إِذَا کَانُوا بِالْہَدَّۃِ بَیْنَ عُسْفَانَ وَمَکَّۃَ ذُکِرُوا لِحَیٍّ مِنْ ہُذَیْلٍ،یُقَالُ لَہُمْ: بَنُو لِحْیَانَ، فَنَفَرُوا لَہُمْ بِقَرِیبٍ مِنْ مِائَۃِ رَجُلٍ رَامٍ، فَاقْتَصُّوا آثَارَہُمْ حَتَّی وَجَدُوا مَأْکَلَہُمْ التَّمْرَ فِی مَنْزِلٍ نَزَلُوہُ، قَالُوا: نَوَی تَمْرِ یَثْرِبَ فَاتَّبَعُوا آثَارَہُمْ، فَلَمَّا أُخْبِرَ بِہِمْ عَاصِمٌ وَأَصْحَابُہُ لَجَئُوا إِلٰی فَدْفَدٍ فَأَحَاطَ بِہِمُ الْقَوْمُ، فَقَالُوا: لَہُمْ انْزِلُوا وَأَعْطُونَا بِأَیْدِیکُمْ وَلَکُمُ الْعَہْدُ وَالْمِیثَاقُ أَنْ لَا نَقْتُلَ مِنْکُمْ أَحَدًا، فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ أَمِیرُ الْقَوْمِ: أَمَّا أَنَا وَاللّٰہِ! لَا أَنْزِلُ فِی ذِمَّۃِ کَافِرٍ، اللَّہُمَّ أَخْبِرْ عَنَّا نَبِیَّکَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَمَوْہُمْ بِالنَّبْلِ فَقَتَلُوا عَاصِمًا فِی سَبْعَۃٍ، وَنَزَلَ إِلَیْہِمْ ثَلَاثَۃُ نَفَرٍ عَلَی الْعَہْدِ وَالْمِیثَاقِ، مِنْہُمْ خُبَیْبٌ الْأَنْصَارِیُّ وَزَیْدُ بْنُ الدَّثِنَۃِ وَرَجُلٌ آخَرُ، فَلَمَّا تَمَکَّنُوا مِنْہُمْ أَطْلَقُوا أَوْتَارَ قِسِیِّہِمْ فَرَبَطُوہُمْ بِہَا، فَقَالَ الرَّجُلُ الثَّالِثُ: ہٰذَا أَوَّلُ الْغَدْرِ، وَاللّٰہِ! لَا أَصْحَبُکُمْ إِنَّ لِی بِہٰؤُلَائِ لَأُسْوَۃًیُرِیدُ الْقَتْلَ، فَجَرَّرُوہُ وَعَالَجُوہُ فَأَبٰی أَنْ یَصْحَبَہُمْ فَقَتَلُوہُ، فَانْطَلَقُوا بِخُبَیْبٍ وَزَیْدِ بْنِ الدَّثِنَۃِ حَتّٰی بَاعُوہُمَا بِمَکَّۃَ بَعْدَ وَقْعَۃِ بَدْرٍ، فَابْتَاعَ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ خُبَیْبًا، وَکَانَ خُبَیْبٌ ہُوَ قَتَلَ الْحَارِثَ بْنَ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلٍ یَوْمَ بَدْرٍ فَلَبِثَ خُبَیْبٌ عِنْدَہُمْ أَسِیرًا حَتّٰی أَجْمَعُوا قَتْلَہُ، فَاسْتَعَارَ مِنْ بَعْضِ بَنَاتِ الْحَارِثِ مُوسٰییَسْتَحِدُّ بِہَا لِلْقَتْلِ فَأَعَارَتْہُ إِیَّاہَا، فَدَرَجَ بُنَیٌّ لَہَا، قَالَتْ: وَأَنَا غَافِلَۃٌ حَتّٰی أَتَاہُ فَوَجَدْتُہُ یُجْلِسُہُ عَلٰی فَخِذِہِ وَالْمُوسٰی بِیَدِہِ، قَالَتْ: فَفَزِعْتُ فَزْعَۃً عَرَفَہَا خُبَیْبٌ، قَالَ: أَتَخْشَیْنَ أَنِّی أَقْتُلُہُ؟ مَا کُنْتُ لِأَفْعَلَ، فَقَالَتْ: وَاللّٰہِ! مَا رَأَیْتُ أَسِیرًا قَطُّ خَیْرًا مِنْ خُبَیْبٍ، قَالَتْ: وَاللّٰہِ! لَقَدْ وَجَدْتُہُ یَوْمًایَأْکُلُ قِطْفًا مِنْ عِنَبٍ فِییَدِہِ، وَإِنَّہُ لَمُوثَقٌ فِی الْحَدِیدِ وَمَا بِمَکَّۃَ مِنْ ثَمَرَۃٍ، وَکَانَتْ تَقُولُ: إِنَّہُ لَرِزْقٌ رَزَقَہُ اللّٰہُ خُبَیْبًا،فَلَمَّا خَرَجُوا بِہِ مِنَ الْحَرَمِ لِیَقْتُلُوہُ فِی الْحِلِّ، قَالَ لَہُمْ خُبَیْبٌ: دَعُونِی أَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ، فَتَرَکُوہُ فَرَکَعَ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ قَالَ: وَاللّٰہِ! لَوْلَا أَنْ تَحْسِبُوا أَنَّ مَا بِی جَزَعًا مِنَ الْقَتْلِ لَزِدْتُ، اللَّہُمَّ أَحْصِہِمْ عَدَدًا وَاقْتُلْہُمْ بَدَدًا وَلَا تُبْقِ مِنْہُمْ أَحَدًا، فَلَسْتُ أُبَالِی حِینَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا، عَلٰی أَیِّ جَنْبٍ کَانَ لِلَّہِ مَصْرَعِی، وَذٰلِکَ فِی ذَاتِ الْإِلٰہِ وَإِنْ یَشَأْیُبَارِکْ عَلٰی أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ، ثُمَّ قَامَ إِلَیْہِ أَبُو سِرْوَعَۃَ عُقْبَۃُ بْنُ الْحَارِثِ فَقَتَلَہُ، وَکَانَ خُبَیْبٌ ہُوَ سَنَّ لِکُلِّ مُسْلِمٍ قُتِلَ صَبْرًا الصَّلَاۃَ، وَاسْتَجَابَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِعَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ یَوْمَ أُصِیبَ، فَأَخْبَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَصْحَابَہُ یَوْمَ أُصِیبُواخَبَرَہُمْ، وَبَعَثَ نَاسٌ مِنْ قُرَیْشٍ إِلٰی عَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ حِینَ حُدِّثُوا أَنَّہُ قُتِلَ لِیُؤْتٰی بِشَیْئٍ مِنْہُ یُعْرَفُ، وَکَانَ قَتَلَ رَجُلًا مِنْ عُظَمَائِہِمْ یَوْمَ بَدْرٍ، فَبَعَثَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی عَاصِمٍ مِثْلَ الظُّلَّۃِ مِنَ الدَّبْرِ، فَحَمَتْہُ مِنْ رُسُلِہِمْ فَلَمْ یَقْدِرُوا عَلٰی أَنْ یَقْطَعُوا مِنْہُ شَیْئًا۔ (مسند احمد: ۸۰۸۲)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دس آدمیوں کی ایک جماعت کو روانہ فرمایا تاکہ وہ قریش کے حالات کو معلوم کریں کہ وہ آج کل کیا منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عاصم بن عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے نانا عاصم بن ثابت بن ابی اقلح کو ان پر امیر مقرر فرمایا،یہلوگ اپنے مشن پر روانہ ہوئے جب عسفان اور مکہ مکرمہ کے درمیان ایک مقام الھدۃ پر پہنچے تو بنو ہذیل کے ایک قبیلے بنولحیان کے لیے ان کا ذکر کیا گیا۔ اس قبیلے کے ایک سو کے لگ بھگ تیر اندازوں نے ان کا پیچھا کیا،یہ مسلمان ایک مقام پر ٹھہرے تھے، بنو لحیان کے لوگوں نے وہاں ان کے طعام میں دیکھا کہ انہوں نے وہاں کھجوریں کھائی ہیں، کہنے لگے یہ تو یثرب کی کھجوروں کی گٹھلیاں ہیں، وہ ان کے قدموں کے آثار پر ان کا پیچھا کرتے کرتے، ان تک جا پہنچے۔ جب عاصم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اوران کے ساتھیوں کو ان کے بارے میں خبر دی گئی تو یہ ایک بلند ٹیلے پر چڑھ گئے۔ دشمن نے ان کا محاصرہ کر لیا اور کہا تم نیچے اتر آؤ تمہارے پاس جو کچھ ہے، ہمیں دے دو، ہم تمہارے ساتھ پختہ عہد کرتے ہیں کہ ہم تم میں سے کسی کو بھی قتل نہیں کریں گے، تو عاصم بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ امیر قافلہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو کسی کافر کی امان میں نہیں جاتا، یا اللہ! ہمارے متعلق اپنے نبی کو مطلع کر دے، پھر کافروں نے ان مسلمانوں پر تیر برسانا شروع کر دیئے اور سات مسلمانوں کو شہید کر دیا، ان میں سے ایک سیدنا عاصم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تھے۔ باقی تین آدمی سیدنا خبیب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا زید بن دثنہ اور ایک تیسرا آدمییہ ان کے عہدو پیمان کے نتیجے میں نیچے آگئے۔ کافروں نے جب ان تینوں کو قابو کر لیا تو ان کی کمانوں کی رسیاں کھول کر انہیں انہی سے باندھ دیا۔ ان تین میں سے تیسرے صحابی نے کافروں سے کہا: یہ تمہارا دھوکا ہے، اللہ کی قسم! میں تو تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا، میرے لیے ان شہیدوں میں بہترین نمونہ ہے۔ کافروں نے اسے گھسیٹا اور ساتھ لے جانے کی پوری کوشش کی، مگر اس نے ساتھ جانے سے صاف صاف انکار کر دیا، بالآخر انھوں نے اسے بھی قتل کر ڈالا اور سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا زید بن دثنہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ساتھ لے گئے او رجا کر مکہ میں فروخت کر دیا،یہ بدر کے بعد کا واقعہ ہے، سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بدر کے دن حارث بن عامر بن نوفل کو قتل کیا تھا، اس کی اولاد نے سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خرید لیا، سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے ہاں قیدی کی حیثیت سے رہے حتی کہ انہوں نے ان کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ اپنے قتل سے قبل سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے حارث کی کسی بیٹی سے استرا طلب کیا، اس نے انہیں استرا لا دیا، اس دوران اس عورت کا چھوٹا سا بیٹا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس چلا گیا، وہ کہتی ہے کہ میں بچے کی طرف سے غافل تھی، مجھے اس کا پتہ نہ چل سکا اور وہ خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس جا پہنچا، جب میں نے خبیب کو دیکھا کہ انہوں نے بچے کو اپنی ران پر بٹھایا ہوا تھا اور استرا ان کے ہاتھ میں تھا۔ وہ کہتی ہے: میں یہ منظر دیکھ کر خوف زدہ ہو گئی، خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میری گھبراہٹ کو جان گئے۔ کہنے لگے: کیا تمہیں اس بات کا خدشہ لاحق ہوا کہ میں اسے قتل کردوں گا؟ میں یہ کام نہیں کر سکتا، وہ کہتی ہے کہ اللہ کی قسم! میں نے خبیب سے بہتر کوئی قیدی نہیں دیکھا۔ان کا بیان ہے کہ اللہ کی قسم! میں نے ان کو ایک دن انگور کھاتے دیکھا، جو ان کے ہاتھ میں تھے۔ حالانکہ وہ تو زنجیروں میںبندھے ہوئے تھے اور ان دنوں مکہ میں پھل تھے ہی نہیں۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خصوصی رزق عطا فرمایا تھا، وہ لوگ قتل کرنے کے لیے سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ساتھ لے کر حرم کی حدود سے باہر گئے تاکہ ان کو وہاں جا کر قتل کریں، سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: مجھے اجازت دو، تاکہ میں دو رکعت نماز ادا کروں۔ چنانچہ انہوں نے دو رکعت نماز ادا کی۔ پھر کہا اللہ کی قسم! اگر یہ اندیشہ نہ ہو کہ تم سمجھو گے کہ میں قتل سے گھبرا رہا ہوں تو میں مزید نماز پڑھتا، یا اللہ ان میں سے ایک ایک کو شمار کر اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہلاک کر، اور ان میں سے کسی کو بھی باقی نہ چھوڑ، پھر انھوں نے یہ اشعار پڑھے: فَلَسْتُ أُبَالِی حِینَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا، عَلَی أَیِّ جَنْبٍ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِی، وَذٰلِکَ فِی ذَاتِ الْإِلٰہِ وَإِنْ یَشَأْیُبَارِکْ عَلٰی أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ۔ (میں جب اسلام کی حالت میں قتل ہوںکر مر رہا ہوں تو مجھے اس بات کی قطعاً کوئی پروا نہیں کہ اللہ کی خاطر میں کس پہلو پر گرتا ہوں، میرے ساتھ یہ سلوک اللہ تعالیٰ کی ذات کی وجہ سے ہو رہا ہے کہ میں اس پر اور اس کے رسول پر ایمان لایا ہوں، اگر وہ چاہے گا تو میرے جسم کے کٹے ہوئے اعضاء کو برکتوں سے نواز دے گا۔) اس کے بعد ابو سروعہ عقبہ بن حارث نے آگے بڑھ کر ان کو شہید کر دیا۔ سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے باندھ کر قتل کئے جانے والے ہر مسلمان کے لیے قتل سے قبل نماز کا طریقہ جاری کیا اور اللہ تعالیٰ نے سیدنا عاصم بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت کے دن کی دعا کو قبول کیا اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسی دن صحابہ کرام کو ان کے واقعہ کی خبر دی۔ قریش کو پتہ چلا کر عاصم بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ قتل ہو گئے ہیں تو انہوں نے کچھ قریشی لوگوںکو بھیجا تاکہ وہ جا کر عاصم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے جسم کے کچھ اعضاء کاٹ لائیں تاکہ انہیں مزیدیقین ہو جائے کہ وہ واقعی قتل ہو چکے ہیں۔ دراصل عاصم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بدر کے دن قریش کے ایک سردار کو قتل کیا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے بھڑ جیسے زہریلے جانوروں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دئیے، جنہوں نے عاصم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے اوپر چھتری کی مانند سایہ کر دیا اور قریش کے بھیجے ہوئے لوگوں کے برے ارادے سے ان کو بچا لیا، وہ ان کے جسم کے کسی بھی حصہ کو کاٹنے کی جرأت نہ کر سکے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10744

۔ (۱۰۷۴۴)۔ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا بَعَثَ حَرَامًا خَالَہُ أَخَا أُمِّ سُلَیْمٍ فِی سَبْعِینَ رَجُلًا، فَقُتِلُوا یَوْمَ بِئْرِ مَعُونَۃَ، وَکَانَ رَئِیسُ الْمُشْرِکِینَیَوْمَئِذٍ عَامِرَ بْنَ الطُّفَیْلِ، وَکَانَ ہُوَ أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: اخْتَرْ مِنِّی ثَلَاثَ خِصَالٍ یَکُونُ لَکَ أَہْلُ السَّہْلِ وَیَکُونُ لِی أَہْلُ الْوَبَرِ، أَوْ أَکُونُ خَلِیفَۃً مِنْ بَعْدِکَ أَوْ أَغْزُوکَ بِغَطَفَانَ أَلْفِ أَشْقَرَ وَأَلْفِ شَقْرَائ، قَالَ: فَطُعِنَ فِی بَیْتِ امْرَأَۃٍ مِنْ بَنِی فُلَانٍ، فَقَالَ: غُدَّۃٌ کَغُدَّۃِ الْبَعِیرِ فِی بَیْتِ امْرَأَۃٍ مِنْ بَنِی فُلَانٍ ائْتُونِی بِفَرَسِی، فَأُتِیَ بِہِ فَرَکِبَہُ فَمَاتَ وَہُوَ عَلٰی ظَہْرِہِ، فَانْطَلَقَ حَرَامٌ أَخُو أُمِّ سُلَیْمٍ وَرَجُلَانِ مَعَہُ رَجُلٌ مِنْ بَنِی أُمَیَّۃَ، وَرَجُلٌ أَعْرَجُ، فَقَالَ لَہُمْ: کُونُوا قَرِیبًا مِنِّی حَتّٰی آتِیَہُمْ فَإِنْ آمَنُونِی وَإِلَّا کُنْتُمْ قَرِیبًا، فَإِنْ قَتَلُونِی أَعْلَمْتُمْ أَصْحَابَکُمْ، قَالَ: فَأَتَاہُمْ حَرَامٌ، فَقَالَ: أَتُؤْمِنُونِی أُبَلِّغْکُمْ رِسَالَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَیْکُمْ، قَالُوا: نَعَمْ، فَجَعَلَ یُحَدِّثُہُمْ وَأَوْمَئُوا إِلٰی رَجُلٍ مِنْہُمْ مِنْ خَلْفِہِ فَطَعَنَہُ حَتّٰی أَنْفَذَہُ بِالرُّمْحِ، قَالَ: اللّٰہُ أَکْبَرُ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ، قَالَ: ثُمَّ قَتَلُوہُمْ کُلَّہُمْ غَیْرَ الْأَعْرَجِ، کَانَ فِی رَأْسِ جَبَلٍ، قَالَ أَنَسٌ: فَأُنْزِلَ عَلَیْنَا وَکَانَ مِمَّا یُقْرَأُ فَنُسِخَ أَنْ بَلِّغُوا قَوْمَنَا أَنَّا لَقِینَا رَبَّنَا فَرَضِیَ عَنَّا وَأَرْضَانَا، قَالَ: فَدَعَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَیْہِمْ أَرْبَعِینَ صَبَاحًا عَلٰی رِعْلٍ وَذَکْوَانَ وَبَنِی لِحْیَانَ، وَعُصَیَّۃَ الَّذِینَ عَصَوُا اللّٰہَ وَرَسُولَہُ۔ (مسند احمد: ۱۳۲۲۷)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے بھائی میرے ماموں حرام کو ستر افراد کے ایک دستہ کے ہمراہ بھیجا تھا اور یہ لوگ بئر معونہ کے دن قتل کر دئیے گئے تھے۔ ان دنوں مشرکین کا لیڈر عامر بن طفیل بن مالک عامری تھا، اس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آکر پیش کش کی تھی کہ آپ میری طرف سے تین میں سے کوئی ایک بات قبول کر لیں: (۱) دیہاتی علاقے آپ کے اور شہری علاقے میرے ہوں، یا (۲) آپ کے بعد خلافت مجھے دی جائے، یا (۳)میں بنو غطفان کو ساتھ ملا کر ایک ہزار اونٹوں اور ایک ہزار اونٹنیوں کے ساتھ آپ سے لڑوں گا۔ ( اس موقعہ پر آپ نے دعا کی کہ یا اللہ عامر کے مقابلے میں میری مدد فرما) چنانچہ وہ بنو سلول کے ایک گھرانے میں تھا کہ اسے طاعون نے آلیا، وہ کہنے لگا: یہ تو بنو فلاں کی عورت کے گھر میں اونٹوں کی گلٹی جیسی گلٹی ہے، میرا گھوڑا میرے پاس لاؤ۔ اس کا گھوڑا اس کے پاس لایا گیا،یہ اس پر سوار ہو ا اور اس کی پشت پر ہی اسے موت آگئی۔ سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بھائی سیدنا حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور اس کے ساتھ دو آدمی ان میں سے ایک کا تعلق بنو امیہ سے تھا اور دوسرا اعرج یعنی لنگڑا تھا، کو ساتھ لئے چلا، اور اس نے ان تینوں سے کہا: تم میرے قریب قریب رہنا تاآنکہ میں ان کے پاس جا پہنچوں، انہوں نے اگر مجھے کچھ نہ کہا تو بہتر اور اگر کوئی دوسری صورت پیدا ہوئی تو تم میرے قریب ہی ہو گئے اور اگر انہوں نے مجھے قتل کر ڈالا تو تم پیچھے والے اپنے ساتھیوں کواطلاع تو دے سکو گے۔ چنانچہ حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے قریب پہنچے اور ان سے کہا: کیا تم مجھے اس بات کی اجازت دو گے کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پیغام تم لوگوں تک پہنچا سکوں۔ انہوں نے کہا: جی ہاں، یہ ان کے سامنے گفتگو کرنے لگے اور ان لوگوں نے حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پیچھے سے اپنے ایک آدمی کو اشارہ کیا ور اس نے ان پر نیزے کا وار کیا، جوان کے جسم سے پار ہو گیا۔ سیدنا حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس وقت کہا: اللہ اکبر، رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا۔ پھر انہوں نے اعرج کے سوا باقی دو کو قتل کر دیا، وہ پہاڑ کی چوٹی پر تھا اس لئے بچ گیا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں اسی واقعہ کے سلسلہ میں ہم پر یہ آیت نازل ہوئی، اس کی باقاعدہ تلاوت کی جاتی تھی،یہ بعد میں منسوخ کر دی گئی: بَلِّغُوا قَوْمَنَا أَنَّا لَقِینَا رَبَّنَا فَرَضِیَ عَنَّا وَأَرْضَانَا۔ (ہماری قوم تک یہ پیغام پہنچا دو کہ ہم اپنے رب سے جا ملے ہیں اور وہ ہم سے راضی ہو گیا ہے اور اس نے ہمیں بھی راضی کر دیا ہے۔)نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان رِعل، ذکوان، بنو لحیان اور بنو عصیہ پر چالیس دن تک بددعا کی، جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معصیت کی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10745

۔ (۱۰۷۴۵)۔ عَنْ ثَابِتٍ قَالَ کُنَّا عِنْدَ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ فَکَتَبَ کِتَابًا بَیْنَ أَہْلِہِ فَقَالَ: اشْہَدُوا، یَا مَعْشَرَ الْقُرَّائِ! قَالَ: ثَابِتٌ فَکَأَنِّی کَرِہْتُ ذَلِکَ، فَقُلْتُ: یَا أَبَا حَمْزَۃَ! لَوْ سَمَّیْتَہُمْ بِأَسْمَائِہِمْ، قَالَ: وَمَا بَأْسُ ذَلِکَ أَنْ أَقُلْ لَکُمْ قُرَّائُ، أَفَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنْ إِخْوَانِکُمْ الَّذِینَ کُنَّا نُسَمِّیہِمْ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْقُرَّائَ، فَذَکَرَ أَنَّہُمْ کَانُوا سَبْعِینَ فَکَانُوا إِذَا جَنَّہُمْ اللَّیْلُ انْطَلَقُوا إِلٰی مُعَلِّمٍ لَہُمْ بِالْمَدِینَۃِ، فَیَدْرُسُونَ اللَّیْلَ حَتَّییُصْبِحُوا، فَإِذَا أَصْبَحُوا فَمَنْ کَانَتْ لَہُ قُوَّۃٌ اسْتَعْذَبَ مِنَ الْمَائِ وَأَصَابَ مِنَ الْحَطَبِ، وَمَنْ کَانَتْ عِنْدَہُ سَعَۃٌ اجْتَمَعُوا فَاشْتَرَوُا الشَّاۃَ وَأَصْلَحُوہَا، فَیُصْبِحُ ذٰلِکَ مُعَلَّقًا بِحُجَرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّا أُصِیبَ خُبَیْبٌ بَعَثَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَتَوْا عَلٰی حَیٍّ مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ وَفِیہِمْ خَالِی حَرَامٌ، فَقَالَ حَرَامٌ لِأَمِیرِہِمْ: دَعْنِی فَلْأُخْبِرْ ہٰؤُلَائِ أَنَّا لَسْنَا إِیَّاہُمْ نُرِیدُ حَتّٰییُخْلُوا وَجْہَنَا، وَقَالَ عَفَّانُ: فَیُخْلُونَ وَجْہَنَا، فَقَالَ لَہُمْ حَرَامٌ: إِنَّا لَسْنَا إِیَّاکُمْ نُرِیدُ فَخَلُّوا وَجْہَنَا، فَاسْتَقْبَلَہُ رَجُلٌ بِالرُّمْحِ فَأَنْفَذَہُ مِنْہُ، فَلَمَّا وَجَدَ الرُّمْحَ فِی جَوْفِہِ، قَالَ: اللّٰہُ أَکْبَرُ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ، قَالَ: فَانْطَوَوْا عَلَیْہِمْ فَمَا بَقِیَ أَحَدٌ مِنْہُمْ، فَقَالَ أَنَسٌ: فَمَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَجَدَ عَلٰی شَیْئٍ قَطُّ وَجْدَہُ عَلَیْہِمْ، فَلَقَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی صَلَاۃِالْغَدَاۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ فَدَعَا عَلَیْہِمْ، فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ ذٰلِکَ إِذَا أَبُو طَلْحَۃَیَقُولُ لِی: ہَلْ لَکَ فِی قَاتِلِ حَرَامٍ؟ قَالَ: قُلْتُ لَہُ: مَا لَہُ فَعَلَ اللّٰہُ بِہِ وَفَعَلَ، قَالَ: مَہْلًا فَإِنَّہُ قَدْ أَسْلَمَ، وَقَالَ عَفَّانُ: رَفَعَ یَدَیْہِیَدْعُو عَلَیْہِمْ و قَالَ أَبُو النَّضْرِ رَفَعَ یَدَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۲۴۲۹)
ثابت سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:ہم سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں تھے، انہوں نے اپنے اہل کے درمیان بیٹھ کر ایک مکتوب لکھا اور کہا: اے قراء کی جماعت! حاضر ہو جاؤ، ثابت کہتے ہیں:مجھے یہ لفظ کچھ اچھا نہ لگا، سو میں نے عرض کیا: اے ابو حمزہ! کیا ہی بہتر ہوتا کہ آپ ان لوگوں کو ان کے ناموں سے پکارتے، سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اس میں تو کوئی حرج نہیں کہ میں تمہیں قراء کہوں، کیا میں تمہیں تمہارے ان بھائیوں کے متعلق نہ بتلاؤں، جنہیں ہم عہدِ رسالت میں قراء کہا کرتے تھے۔ پھر انہو ں نے بیان کیا کہ وہ ستر افراد تھے، ان کی حالت یہ تھی کہ جب رات ہوتی تو وہ مدینہ میں اپنے ایک استاد کی خدمت میں پہنچ جاتے اور وہاں ساری رات صبح تک قرآن کا سبق لیتے اور جب صبح ہوتی تو جس میں استطاعت ہوتی وہ شیریں پانی لاتا۔( اور اسے فروخت کرتا) اور کوئی ایندھن کی لکڑیاں لا کر بیچ لیتا اور جس میں استطاعت ہوتی وہ مل کر بکری خرید لیتے، اسے خوب بنا سنوار کر ذبح کر کے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حجروں کے پاس لٹکا دیتے، جب سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت ہوئی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان قراء کو ایک مہم پر روانہ فرمایا،یہ بنو سلیم کے ایک قبیلے میں گئے، ان کے ہمراہ میرے ماموں سیدنا حرام بن ملحان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تھے۔ سیدنا حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے امیرِ قافلہ سے گزارش کی کہ مجھے اجازت دیں تاکہ میں ان لوگوں کو بتا دوں کہ ہم ان سے لڑائی کرنے کے لیے نہیں آئے، تاکہ وہ ہمارا راستہ نہ روکیں، پس سیدنا حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جا کر ان سے کہا: ہم تمہارے ساتھ لڑنے کے لیے نہیں آئے، لہٰذا تم ہمارا راستہ نہ روکو۔ ایک آدمی نیزہ لے کر سیدنا حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سامنے آیا اور اس نے ان پر نیزے کا وار کر دیا، نیزہ ان کے جسم سے پار ہو گیا۔ انہوں نے جب اپنے پیٹ پر نیزے کا وار محسوس کیا تو زور سے کہا: اللہ اکبر، ربِّ کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا ہوں۔ پھر وہ لوگ باقی قافلہ والوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ان میں سے ایک بھی باقی نہ بچا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کسی موقع پر اس قدر غمگین نہیں دیکھا، جس قدر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس واقعہ سے غمگین ہوئے۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز فجر میں ہاتھ اُٹھا کر ان ظالموں پر بددعا کرتے تھے، سیدنا ابو طلحہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مجھ سے کہا کرتے تھے: کیا میں تمہیں تمہارے ماموں سیدنا حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قاتل کے متعلق بتلاؤں؟ میں نے کہا: اللہ نے اس کے ساتھ جو کرنا تھا کر لیا،اس نے کہا وہ تو اسلام قبول کر چکا ہے۔ عفان کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دونوں ہاتھ اُٹھا کر ان پر بددعائیں کیں۔اور ابو النضر نے یوں کہا کہ آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10746

۔ (۱۰۷۴۶)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ یَہُودَ بَنِی النَّضِیرِ وَقُرَیْظَۃَ حَارَبُوا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَجْلٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَنِی النَّضِیرِ وَأَقَرَّ قُرَیْظَۃَ، وَمَنَّ عَلَیْہِمْ حَتّٰی حَارَبَتْ قُرَیْظَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ، فَقَتَلَ رِجَالَہُمْ وَقَسَمَ نِسَائَ ہُمْ وَأَوْلَادَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ إِلَّا بَعْضَہُمْ لَحِقُوا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَمَّنَہُمْ وَأَسْلَمُوا وَأَجْلٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَہُودَ الْمَدِینَۃِ کُلَّہُمْ، بَنِی قَیْنُقَاعَ وَہُمْ قَوْمُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَلَامٍ، وَیَہُودَ بَنِی حَارِثَۃَ، وَکُلَّ یَہُودِیٍّ کَانَ بِالْمَدِینَۃِ۔ (مسند احمد: ۶۳۶۷)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بنو نضیر اور بنو قریظہ کے یہود نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جنگ کی ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو نضیر کو مدینہ منورہ سے جلا وطن کر دیا اور بنو قریظہ کو وہیں رہنے کی اجازت دے دی اور ان پر احسان فرمایا، لیکن جب بنو قریظہ نے لڑائی کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے مردوں کو قتل کرو ادیا اوران کی عورتوں ، بچوں اور مالوں کومسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دیا، البتہ ان میں سے بعض آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مل گئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں امان دے دی اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مدینہ منورہ کے سارے یہودیوں کو جلا وطن کر دیا، بنو قینقاع کو بھی،یہ سیدنا عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی قوم تھی اور بنو حارثہ کے یہودیوں کو اور باقی تمام یہودی جو جو مدینہ میں موجود تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سب کو جلا وطن کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10747

۔ (۱۰۷۴۷)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَرَّقَ نَخْلَ بَنِی النَّضِیرِ وَقَطَّعَ وَہِیَ الْبُوَیْرَۃُ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: {مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَۃٍ أَوْ تَرَکْتُمُوہَا قَائِمَۃً عَلٰی أُصُولِہَا فَبِإِذْنِ اللّٰہِ وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِینَ}۔ (مسند احمد: ۶۰۵۴)
سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو نضیر کے بویرہ نخلستان کی کھجوروں کو جلایا اور کاٹ ڈالا، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: {مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَۃٍ أَوْ تَرَکْتُمُوہَا قَائِمَۃً عَلٰی أُصُولِہَا فَبِإِذْنِ اللّٰہِ وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِینَ} … تم نے بنو نضیر کے کھجوروں کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جن کو تم نے ان کی جڑوں پر کھڑا چھوڑ دیا تو یہ سب اللہ کے حکم سے تھا، یہ اس لیے ہوا کہ اللہ فاسقین کو رسوا کرنا چاہتا تھا۔ (سورۂ حشر: ۵)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10748

۔ (۱۰۷۴۸)۔ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ: أَتَانِی أَبُو سَلَمَۃَیَوْمًا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: لَقَدْ سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَوْلًا فَسُرِرْتُ بِہِ، قَالَ: ((لَا تُصِیبُ أَحَدًا مِنْ الْمُسْلِمِینَ مُصِیبَۃٌ فَیَسْتَرْجِعَ عِنْدَ مُصِیبَتِہِ، ثُمَّ یَقُولُ: اللَّہُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی وَاخْلُفْ لِی خَیْرًا مِنْہَا إِلَّا فُعِلَ ذٰلِکَ بِہِ۔)) قَالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ: فَحَفِظْتُ ذٰلِکَ مِنْہُ، فَلَمَّا تُوُفِّیَ أَبُو سَلَمَۃَ اسْتَرْجَعْتُ وَقُلْتُ: اَللّٰہُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی وَاخْلُفْنِی خَیْرًا مِنْہُ۔ ثُمَّ رَجَعْتُ إِلٰی نَفْسِی قُلْتُ: مِنْ أَیْنَ لِی خَیْرٌ مِنْ أَبِی سَلَمَۃَ؟ فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتِی اسْتَأْذَنَ عَلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا أَدْبُغُ إِہَابًا لِی، فَغَسَلْتُ یَدَیَّ مِنَ الْقَرَظِ وَأَذِنْتُ لَہُ، فَوَضَعْتُ لَہُ وِسَادَۃَ أَدَمٍ حَشْوُہَا لِیفٌ، فَقَعَدَ عَلَیْہَا فَخَطَبَنِی إِلٰی نَفْسِی، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ مَقَالَتِہِ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا بِی أَنْ لَا تَکُونَ بِکَ الرَّغْبَۃُ فِیَّ، وَلٰکِنِّی امْرَأَۃٌ فِیَّ غَیْرَۃٌ شَدِیدَۃٌ، فَأَخَافُ أَنْ تَرٰی مِنِّی شَیْئًایُعَذِّبُنِی اللّٰہُ بِہِ، وَأَنَا امْرَأَۃٌ دَخَلْتُ فِی السِّنِّ، وَأَنَا ذَاتُ عِیَالٍ، فَقَالَ: ((أَمَّا مَا ذَکَرْتِ مِنَ الْغَیْرَۃِ فَسَوْفَ یُذْہِبُہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْکِ، وَأَمَّا مَا ذَکَرْتِ مِنَ السِّنِّ، فَقَدْ أَصَابَنِی مِثْلُ الَّذِی أَصَابَکِ، وَأَمَّا مَا ذَکَرْتِ مِنَ الْعِیَالِ فَإِنَّمَا عِیَالُکِ عِیَالِی۔)) قَالَتْ: فَقَدْ سَلَّمْتُ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَتَزَوَّجَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ: فَقَدْ أَبْدَلَنِی اللّٰہُ بِأَبِی سَلَمَۃَ خَیْرًا مِنْہُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (مسند احمد: ۱۶۴۵۵)
اُمّ المؤمنین سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میرے شوہر ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے تشریف لائے اورکہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک ایسی بات کہتے سنا ہے کہ جس سے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کسی مسلمان کو کوئی مصیبت آئے اور وہ اس وقت (اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ) کہہ کہ یہ دعا پڑھے اللَّہُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی وَاخْلُفْ لِی خَیْرًا مِنْہَا (یا اللہ! مجھے اس مصیبت کا اجر دے اور اس کا نعم البدل عطا فرما) تو اللہ اسے یہ چیزیں عطا فرما دیتا ہے۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں نے ان کییہ بات یاد رکھی اور جب سیدنا ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا انتقال ہوا تو میں نے (اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ) کہہ کہ یہ دعا پڑھی اللَّہُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی وَاخْلُفْ لِی خَیْرًا مِنْہَا ۔ لیکن ساتھ ہی میرے دل میں خیال آیا کہ ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بہتر اور اچھا انسان کون ہو سکتا ہے؟ (بہرحال میں نے دعا جاری رکھی)، سو جب میری عدت پوری ہوئی تو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے ہاں داخل ہو نے کی اجازت طلب کی، اس وقت میں چمڑا رنگ رہی تھی، میں نے جلدی سے ہاتھ دھوئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اندر آنے کی اجازت دی، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے چمڑے کا ایک تکیہ رکھا، اس میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس پر بیٹھ گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے اپنے ساتھ شادی کا پیغام دیا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی بات سے فارغ ہوئے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایسی تو کوئی بات نہیں کہ مجھے آپ میں رغبت نہ ہو، درحقیقت بات یہ ہے کہ میرے اندر غیرت کا جذبہ بہت زیادہ ہے، مجھے ڈر ہے کہ مبادا آپ میرے اندر ایسی کوئی بات دیکھیں، جس کی وجہ سے اللہ مجھے عذاب سے دو چار کر دے، نیز میں اب کافی عمر رسیّدہ بھی ہو چکی ہوں اور میں اولاد والی بھی ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے جو غیرت کا ذکر کیا ہے، اللہ تعالیٰ اسے عنقریب ختم کر دے گا، تم نے عمر رسیدہ ہونے کی جو بات کی ہے تو میرا حال بھی ایسا ہی ہے اور جو تم نے اولاد کی بات کی ہے تو وہ میری اپنی اولاد ہو گی۔ چنانچہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات تسلیم کر لی اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے نکاح کر لیا، سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بدلے میں اس سے بہتر شوہر یعنی اللہ کے رسول عطا کر دئیے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10749

۔ (۱۰۷۴۹)۔ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ قَالَ أَبُو سَلَمَۃَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِذَا أَصَابَ أَحَدَکُمْ مُصِیبَۃٌ فَلْیَقُلْ: إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ، عِنْدَکَ احْتَسَبْتُ مُصِیبَتِی وَأْجُرْنِی فِیہَا وَأَبْدِلْنِی مَا ہُوَ خَیْرٌ مِنْہَا۔))، فَلَمَّا احْتُضِرَ أَبُو سَلَمَۃَ، قَالَ: اللَّہُمَّ اخْلُفْنِی فِی أَہْلِی بِخَیْرٍ، فَلَمَّا قُبِضَ قُلْتُ: إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ، اَللّٰہُمَّ عِنْدَکَ أَحْتَسِبُ مُصِیبَتِی فَأْجُرْنِی فِیہَا، قَالَتْ: وَأَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ وَأَبْدِلْنِی خَیْرًا مِنْہَا، فَقُلْتُ: وَمَنْ خَیْرٌ مِنْ أَبِی سَلَمَۃَ؟ فَمَا زِلْتُ حَتّٰی قُلْتُہَا، فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتُہَا، خَطَبَہَا أَبُو بَکْرٍ فَرَدَّتْہُ، ثُمَّ خَطَبَہَا عُمَرُ فَرَدَّتْہُ، فَبَعَثَ إِلَیْہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ: مَرْحَبًا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَبِرَسُولِہِ، أَخْبِرْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنِّی امْرَأَۃٌ غَیْرٰیوَأَنِّی مُصْبِیَۃٌ وَأَنَّہُ لَیْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِیَائِی شَاہِدًا، فَبَعَثَ إِلَیْہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَمَّا قَوْلُکِ إِنِّی مُصْبِیَۃٌ فَإِنَّ اللّٰہَ سَیَکْفِیکِ صِبْیَانَکِ، وَأَمَّا قَوْلُکِ إِنِّی غَیْرٰی فَسَأَدْعُو اللّٰہَ أَنْ یُذْہِبَ غَیْرَتَکِ، وَأَمَّا الْأَوْلِیَائُ فَلَیْسَ أَحَدٌ مِنْہُمْ شَاہِدٌ وَلَا غَائِبٌ إِلَّا سَیَرْضَانِی۔)) قُلْتُ: یَا عُمَرُ! قُمْ فَزَوِّجْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَمَا إِنِّی لَا أَنْقُصُکِ شَیْئًا مِمَّا أَعْطَیْتُ أُخْتَکِ فُلَانَۃَ، رَحَیَیْنِ وَجَرَّتَیْنِ وَوِسَادَۃً مِنْ أَدَمٍ حَشْوُہَا لِیفٌ۔)) قَالَ: وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَأْتِیہَا، فَإِذَا جَائَ أَخَذَتْ زَیْنَبَ فَوَضَعَتْہَا فِی حِجْرِہَا لِتُرْضِعَہَا، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَیِیًّا کَرِیمًایَسْتَحْیِی، فَرَجَعَ فَفَعَلَ ذٰلِکَ مِرَارًا فَفَطِنَ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ لِمَا تَصْنَعُ، فَأَقْبَلَ ذَاتَ یَوْمٍ وَجَائَ عَمَّارٌ وَکَانَ أَخَاہَا لِأُمِّہَا، فَدَخَلَ عَلَیْہَا فَانْتَشَطَہَا مِنْ حِجْرِہَا وَقَالَ: دَعِی ہٰذِہِ الْمَقْبُوحَۃَ الْمَشْقُوحَۃَ الَّتِی آذَیْتِ بِہَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: وَجَائَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَخَلَ فَجَعَلَ یُقَلِّبُ بَصَرَہُ فِی الْبَیْتِ، وَیَقُولُ: ((أَیْنَ زَنَابُ؟ مَا فَعَلَتْ زَنَابُ؟)) قَالَتْ: جَائَ عَمَّارٌ فَذَہَبَ بِہَا، قَالَ: فَبَنٰی بِأَہْلِہِ ثُمَّ قَالَ: ((إِنْ شِئْتِ أَنْ أُسَبِّعَ لَکِ سَبَّعْتُ لِلنِّسَائِ۔)) (مسند احمد: ۲۷۲۰۴)
سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے یہ بھی مروی ہے کہ سیدنا ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ارشاد ہے کہ جب تم میں سے کسی کو کوئی مصیبت آئے تو اسے چاہیے کہ وہ کہے: إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ، عِنْدَکَ اِحْتَسَبْتُ مُصِیبَتِی وَأْجُرْنِی فِیہَا وَأَبْدِلْنِی مَا ہُوَ خَیْرٌ مِنْہَا (بیشک ہم اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں اور بیشک ہم نے اسی کی طرف لوٹنا ہے، اے اللہ میں اپنی اس مصیبت کا تجھ سے اجر چاہتا ہوں، تو مجھے اس کا اجر اور اس کا نعم البدل عطا فرما)۔ جب میرے شوہر ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا انتقال ہونے لگا تو انہوں نے کہا: یا اللہ! میرے بعد میرے اہل میں اچھا نائب بنانا۔ جب ان کا انتقال ہوا تو میں نے کہا:إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ، عِنْدَکَ اِحْتَسَبْتُ مُصِیبَتِی وَأْجُرْنِی فِیہَا وَأَبْدِلْنِی مَا ہُوَ خَیْرٌ مِنْہَا۔سیّدہ فرماتی ہیں: میں نے یوں کہنا چاہا کہ وَأَبْدِلْنِی مَا ہُوَ خَیْرٌ مِنْہَا ( اور مجھے اس سے بہتر بدلہ عطا فرما)، لیکن ساتھ ہی مجھے یہ خیال آیا کہ ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بہتر کون ہو سکتا ہے؟ میں یہ سوچتی رہی، آخر کا میں نے یہ لفظ بھی کہہ ہی دئیے، جب ان کی عدت پوری ہوئی تو سیّدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے انہیں نکاح کا پیغام بھیجا، انہوں نے ان کو رد کر دیا، پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نکاح کا پیغام بھیجا، انہوں نے ان کو بھی رد کر دیا، پھر اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نکاح کا پیغام بھیجا تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ان کے قاصد کو خوش آمدید، لیکن تم جا کر اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کرو کہ میں تو بہت زیادہ غیرت والی ہوں اور میں صاحبِ اولاد بھی ہوں اور میرے سر پر ستوں میں سے یہاں کوئی بھی موجود نہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے واپسی جواب بھیجا کہ تمہارا یہ کہنا کہ تم صاحبِ اولاد ہو اس بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں، بچوں کے بارے میں اللہ تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہارا یہ کہنا کہ تم انتہائی غیرت مند ہو تو میں اللہ سے دعا کر وں گا کہ وہ تمہاری غیر ت کی اس شدت کو ختم کر دے اور تمہارا یہ کہنا کہ تمہارے سر پرستوں میں سے کوئی بھییہاں موجود نہیں، تو یاد رہے کہ تمہارا کوئی بھی سر پرست، وہ موجود ہو یا غائب، وہ میرے متعلق رضا مندی کا ہی اظہار کرے گا۔ یہ سن کر میں نے اپنے بیٹے عمر سے کہا کہ اٹھو اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے میرا نکاح کر دو۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے تمہاری فلاں بہن کوجو کچھ دیا ہے، تمہیں اس سے کم نہ دوں گا، اسے دو چکیاں، دو مٹکے، اور چمڑے کا ایک تکیہ، جس میں کھجور کی چھال بھری تھی، دئیے تھے۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ہاں آتے اور وہ اپنی دختر زینب کو گود میں اٹھائے دودھ پلا رہی ہوتی تو چوں کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی انتہائی حیا دار اور مہربان تھے، ان کو اس کیفیت میں دیکھتے تو واپس چلے جاتے، اس قسم کی صورت حال کئی مرتبہ پیش آئی، سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اس کا پتہ چل گیا وہ ان کا مادری بھائی تھا، تو ایک دن سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آکر زینب کو ان کی گود سے اٹھالے گئے اور کہا کہ تم اس بچی کو چھوڑو، جس کی وجہ سے تم اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پریشان کرتی ہو۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھر تشریف لائے تو ادھر ادھر دیکھنے لگے اور فرمایا: زناب کہاں ہے؟ زناب کدھر گئی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مراد زینب تھی، سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بتلایا کہ عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے تھے اور وہ اسے لے گئے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارا اور فرمایا: اگر تم چاہو تو تمہارے پاس سات دن قیام کروں گا، لیکنیاد رکھو پھر میں اپنی تمام ازواج کے ہاں سات سات دن قیام کرنے بعد میں تمہارے پاس آؤں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10750

۔ (۱۰۷۵۰)۔ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ بِنْتِ امِّ سَلَمَۃَ عَنْ اّمِّ سَلَمَۃَ بِنَحْوِہٖوَفِیْہِ: قَالَ: فَتَزَوَّجَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَاَتَاھَا فَوَجَدَھَا تُرْضِعُ فَانْصَرَفَ، ثُمَّ اَتَاھَا فَوَجَدَھَا تُرْضِعُ فَانْصَرَفَ، قَالَ: فبَلَغَ ذٰلِکَ عَمَّارَ بْنَ یَاسرٍ اَتَاھَا، فَقَالَ: حَلَّتْ بَیْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَبَیْنَ حَاجَتِہِ ھَلُمَّ الصَّبِیَّۃَ، قَالَ: فَاخَذَھَا فَاسْتَرْضَعَ لَھَا، فَاتَاھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((اَیْنَ زَنَابُ؟)) یَعْنِی زَیْنَبَ، قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَخَذَھَا عَمَّارٌ، فَدَخَلَ بِہَا وَقَالَ: ((اِنَّ بِکِ عَلٰی اَھْلِکِ کَرَامَۃً۔)) قَالَ: فَاقَامَ عِنْدَھَا اِلَی الْعَشِیِّ ثُمَّ قَالَ: ((اِنْ شِئْتِ سَبَّعْتُ لَکِ وَاِنْ سَبَّعْتُ لَکِ سَبَّعْتُ لِسَائِرِ نِسَائِیْ؟ وَاِنْ شِئْتِ قَسَمْتُ لَکِ؟)) قَالَتْ: لَا، بَلِ اقْسَمْ لِیْ۔ (مسند احمد: ۲۷۲۵۷)
سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے گذشتہ حدیث کی مانند ہی مروی ہے، البتہ اس میں ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے نکاح کر لیا،جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ہاں آئے تو دیکھا کہ وہ اپنی بیٹی کو دودھ پلا رہی ہیں، آپ واپس لوٹ گئے، اس کے بعد پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اورانہیں دیکھا کہ وہ اپنی بیٹی کو دودھ پلا رہی ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پھر واپس چلے گئے۔ جب سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اس بات کا پتہ چلا تو وہ ان کے ہاں آئے اور کہا: تم اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ان کی حاجت کے درمیان حائل ہو، تم یہ بچی مجھے دے دو، پس وہ اسے لے گئے اور اسے دودھ پلانے والی عورت کا بندوبست کر دیا، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں تشریف لے گئے تو دریافت فرمایا کہ زناب یعنی زینب کہاں ہے؟ سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اسے عمار لے گئے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں تشریف رکھی اور فرمایا: تم اپنے اہل خانہ کے ہاں معزز اور مکرم ہو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے ہاں پچھلے پہر تک قیام کیا اورپھر فرمایا: اگر تم چاہو تو میں تمہارے ہاں سات دن قیام کر سکتا ہوں، لیکن اگر میں تمہارے ہاں سات دن قیام کروں تو اپنی تمام ازواج کے ہاں سات سات دن گزاروں گا اور اگر چاہو تو تمہارے لیے باری مقرر کردوں؟ سیّدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عرض کیا کہ آپ میرے لیے باری ہی مقرر کر دیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10751

۔ (۱۰۷۵۱)۔ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ یُخْبِرُ: أَنَّ أُمَّ سَلَمَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَخْبَرَتْہُ، أَنَّہا لَمَّا قَدِمَتِ الْمَدِینَۃَ أَخْبَرَتْہُمْ، أَنَّہَا ابْنَۃُ أَبِی أُمَیَّۃَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ فَکَذَّبُوہَا، وَیَقُولُونَ: مَا أَکْذَبَ الْغَرَائِبَ حَتّٰی أَنْشَأَ نَاسٌ مِنْہُمْ إِلَی الْحَجِّ، فَقَالُوا: مَا تَکْتُبِینَ إِلٰی أَہْلِکِ، فَکَتَبَتْ مَعَہُمْ فَرَجَعُوا إِلَی الْمَدِینَۃِیُصَدِّقُونَہَا فَازْدَادَتْ عَلَیْہِمْ کَرَامَۃً، قَالَتْ: فَلَمَّا وَضَعْتُ زَیْنَبَ جَائَ نِی النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَخَطَبَنِی، فَقُلْتُ: مَا مِثْلِی نُکِحَ أَمَّا أَنَا فَلَا وَلَدَ فِیَّ وَأَنَا غَیُورٌ وَذَاتُ عِیَالٍ، فَقَالَ: ((أَنَا أَکْبَرُ مِنْکِ، وَأَمَّا الْغَیْرَۃُ فَیُذْہِبُہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَمَّا الْعِیَالُ فَإِلَی اللّٰہِ وَرَسُولِہِ۔)) فَتَزَوَّجَہَا فَجَعَلَ یَأْتِیہَا فَیَقُولُ: ((أَیْنَ زُنَابُ؟)) حَتّٰی جَائَ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍیَوْمًا فَاخْتَلَجَہَا، وَقَالَ: ہٰذِہِ تَمْنَعُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکَانَتْ تُرْضِعُہَا فَجَائَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((أَیْنَ زُنَابُ؟)) فَقَالَتْ قُرَیْبَۃُ ابْنَۃُ أَبِی أُمَیَّۃَ، وَوَافَقَہَا عِنْدَہَا أَخَذَہَا عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنِّی آتِیکُمُ اللَّیْلَۃَ۔)) قَالَتْ: فَقُمْتُ فَأَخْرَجْتُ حَبَّاتٍ مِنْ شَعِیرٍ کَانَتْ فِی جَرٍّ، وَأَخْرَجْتُ شَحْمًا فَعَصَدْتُہُ لَہُ، قَالَتْ: فَبَاتَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ أَصْبَحَ، فَقَالَ حِینَ أَصْبَحَ: ((إِنَّ لَکِ عَلٰی أَہْلِکِ کَرَامَۃً، فَإِنْ شِئْتِ سَبَّعْتُ لَکِ، فَإِنْ أُسَبِّعْ لَکِ أُسَبِّعْ لِنِسَائِی۔)) (مسند احمد: ۲۷۱۵۴)
ابوبکر بن عبدالرحمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زوجہ سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان کو بتلایا کہ وہ جب مدینہ منورہ آئیں تو انہوں نے لوگوں کو بتلایا: میں ابو امیہ بن مغیرہ کی دختر ہوں، لوگوں نے ان کو جھوٹا سمجھا اور انھوں نے کہا: یہ کیسی عجیب وغریب جھوٹی بات ہے، یہاں تک کہ وہاں سے کچھ لو گ حج کے لیے روانہ ہوئے، انہوں نے کہا: کیا آپ اپنے اہلِ خانہ کے نام خط نہیں لکھ دیتیں؟ سو انہوں نے انہیں خط لکھ دیا، پھر انہوں نے مدینہ واپس آکر ان کی باتوں کی تصدیق کی (کہ واقعی وہ ابو امیہ کی بیٹی ہیں)، پس لوگوں میں ان کا مقام مزید بڑھ گیا، سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: جب میں نے اپنی بیٹی زینب کو جنم دیا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے ہاں آکر مجھے نکاح کا پیغام دیا، میں نے عرض کیا: مجھ جیسی عورت سے نکاح نہیں کیا جاتا، اب مجھ سے اولاد ہونے کی امید نہیں اور پھر میں بہت زیادہ غیرت کھانے والی ہوں اور صاحبِ اولاد بھی ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تم سے زیادہ عمر رسیّدہ ہوں، باقی رہی غیرت کی بات تو اللہ اسے ختم کر دے گا اور اولاد تو اللہ اور اس کے رسول کے سپرد ہے۔ چنانچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے نکاح کر لیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں آنے لگے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے کہ زناب کہاں ہے؟ یہاں تک کہ ایک دن سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور اس بچی کو لے گئے اور انہوں نے کہا:یہ بچی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اور اُمّ المؤمنین سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے درمیان حائل ہے، کیونکہ سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اسے دودھ پلا رہی ہوتی تھیں، اس کے بعد اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ زناب یعنی زینب کہاں ہے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایسے وقت آئے تھے کہ قُریبہ بنت ابی امیہ بھی اپنی بہن کے ہاں آئی ہوئی تھیں، انہوں نے کہا:بچی کو عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لے گئے ہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہارے ہاں رات کو آؤں گا۔ سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے میں اٹھی اور ایک مٹکے میں کچھ جو تھے، میں نے انہیں نکال کر ان کا مغز نکالا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے کھانا تیار کیا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رات بسر کی، جب صبح ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنے اہل خانہ کے ہاں معزز اور مکرم ہو، اگر چاہو تو میں تمہارے ہاں سات دن راتیں گزاروں گا، اور اگر تمہارے ہاں سات راتیں گزاریں تو اپنی تمام ازواج کے ہاں سات سات راتیں گزاروں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10752

۔ (۱۰۷۵۲)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُولُ: کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَزْوَۃٍ، قَالَ: یَرَوْنَ أَنَّہَا غَزْوَۃُ بَنِی الْمُصْطَلِقِ، فَکَسَعَ رَجُلٌ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ الْأَنْصَارِیُّ: یَا لَلْأَنْصَارِ! وَقَالَ الْمُہَاجِرِیُّ: یَا لَلْمُہَاجِرِینَ! فَسَمِعَ ذٰلِکَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((مَا بَالُ دَعْوَی الْجَاہِلِیَّۃِ۔)) فَقِیلَ: رَجُلٌ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ کَسَعَ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((دَعُوہَا فَإِنَّہَا مُنْتِنَۃٌ۔)) قَالَ جَابِرٌ: وَکَانَ الْمُہَاجِرُونَ حِینَ قَدِمُوا الْمَدِینَۃَ أَقَلَّ مِنَ الْأَنْصَارِ، ثُمَّ إِنَّ الْمُہَاجِرِینَ کَثُرُوا، فَبَلَغَ ذٰلِکَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أُبَیٍّ، فَقَالَ: فَعَلُوہَا وَاللّٰہِ! لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِینَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْہَا الْأَذَلَّ، فَسَمِعَ ذٰلِکَ عُمَرُ فَأَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! دَعْنِی أَضْرِبُ عُنُقَ ہٰذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا عُمَرُ! دَعْہُ لَا یَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا یَقْتُلُ أَصْحَابَہُ۔))۔ (مسند احمد: ۱۵۲۹۳)
سیدنا جا بر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ تھے، لوگوں کا خیال ہے کہ یہ غزوہ بنی مصطلق تھا، اسی دوران ایک مہاجر شخص نے ایک انصاری کی دُبُر پر ہاتھ مار دیا تو انصاری نے دہائی دیتے ہوئے کہا: انصاریو! ذرا ادھر آنا اور مہاجر نے بھی مہاجرین کو اپنی مدد کے لیے پکارا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان لوگوں کییہ باتیں سنیں تو فرمایا: یہ جاہلیت والی پکاریں کس لیے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتایا گیا کہ مہاجرین میں سے کسی نے ایک انصاری کی دبرپر ہاتھ مار دیا ہے تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایسی باتوں کو دفع کرو، یہ بدبودار یعنی فتنہ انگیز اور شر انگیز باتیں ہیں۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:مہاجرین جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تھے تو ان کی تعداد انصار سے بہت تھوڑی تھی، بعد میں مہاجرین کی تعداد بڑھ گئی۔ جب مہاجرین اور انصاریوں والی بات رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی تک پہنچی تو وہ کہنے لگا: کیا مہاجرین اب اس حد تک آگے نکل گئے ہیں؟ اللہ کی قسم! اگر ہم مدینہ واپس گئے تو ہم معزز لوگ ان ذلیلوں کو مدینہ سے باہر نکال دیں گے۔ سیّدناعمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ سنا تو وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں، میں اس منافق کی گردن اتار دوں؟ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے عمر! اسے چھوڑو، لوگ یہ نہ کہنا شروع کر دیں کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10753

۔ (۱۰۷۵۳)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عَمِّی فِی غَزَاۃٍ فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أُبَیٍّ ابْنَ سَلُولَ یَقُولُ لِأَصْحَابِہِ: لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ، وَلَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِینَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْہَا الْأَذَلَّ، فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِعَمِّی فَذَکَرَہُ عَمِّی لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَرْسَلَ إِلَیَّ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَحَدَّثْتُہُ، فَأَرْسَلَ إِلَی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُبَیِّ ابْنِ سَلُولَ وَأَصْحَابِہِ فَحَلَفُوْا مَا قَالُوْا، فَکَذَّبَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَصَدَّقَہُ، فَأَصَابَنِی ہَمٌّ لَمْ یُصِیبُنِی مِثْلُہُ قَطُّ، وَجَلَسْتُ فِی الْبَیْتِ فَقَالَ عَمِّی: مَا أَرَدْتَ إِلٰی أَنْ کَذَّبَکَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَقَتَکَ، قَالَ: حَتّٰی أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِذَا جَائَ کَ الْمُنَافِقُونَ} [المنافقون: ۱] قَالَ: فَبَعَثَ إِلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَرَأَہَا ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ صَدَّقَکَ۔)) (مسند احمد: ۱۹۵۴۸)
سیدنا زید بن ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:میں ایک غزوہ میں اپنے چچا کے ساتھ نکلا، میں نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو سنا،وہ اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا: اس رسول کے ساتھیوں پر خرچ نہ کرو اور اگر ہم مدینہ میں لوٹے تو ہم عزت والے اِن ذلیل لوگوں کو باہر نکال دیں گے۔ میں نے یہ بات اپنے چچا کو بتائی اور میرے چچا نے اس کا ذکر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کر دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری طرف پیغام بھیجا، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آ کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس کی بات بتا دی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عبداللہ بن ابی ابن سلول اور اس کے ساتھیوں کی طرف پیغام بھیجا، سو وہ آگئے، لیکن انہوں نے قسم اٹھائی کہ انہوں نے یہ بات کہی ہی نہیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے جھوٹا اور عبداللہ بن ابی کو سچا قرار دیا، اس سے مجھے بہت پریشانی ہوئی، کبھی بھی اتنی پریشانی مجھے نہیں ہوئی تھی، پس میں گھر میں بیٹھ گیا، میرے چچا نے کہا: تجھے کس چیز نے آمادہ کیا تھا کہ تو ایسی بات کہتا، اب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تجھے جھوٹا قرار دے دیا ہے اور تجھ پر ناراض بھیہوئے ہیں،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اتار دیں: {إِذَا جَائَ کَ الْمُنَافِقُونَ …} … جب وہ منافق آپ کے پاس آتے ہیں، …۔ اب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری طرف پیغام بھیجا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ پر یہ آیات پڑھیں اور فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے تجھے سچا قرار دیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10754

۔ (۱۰۷۵۴)۔ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ قَالَتْ: لَمَّا قَسَمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَبَایَا بَنِی الْمُصْطَلِقِ، وَقَعَتْ جُوَیْرِیَۃُ بِنْتُ الْحَارِثِ فِی السَّہْمِ لِثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، أَوْ لِابْنِ عَمٍّ لَہُ وَکَاتَبَتْہُ عَلٰی نَفْسِہَا، وَکَانَتْ امْرَأَۃً حُلْوَۃً مُلَاحَۃً لَا یَرَاہَا أَحَدٌ إِلَّا أَخَذَتْ بِنَفْسِہِ، فَأَتَتْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَسْتَعِینُہُ فِی کِتَابَتِہَا، قَالَتْ: فَوَاللّٰہِ! مَا ہُوَ إِلَّا أَنْ رَأَیْتُہَا عَلٰی بَابِ حُجْرَتِی فَکَرِہْتُہَا، وَعَرَفْتُ أَنَّہُ سَیَرٰی مِنْہَا مَا رَأَیْتُ، فَدَخَلَتْ عَلَیْہِ فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَنَا جُوَیْرِیَۃُ بِنْتُ الْحَارِثِ بْنِ أَبِی ضِرَارٍ سَیِّدِ قَوْمِہِ، وَقَدْ أَصَابَنِی مِنَ الْبَلَائِ مَا لَمْ یَخْفَ عَلَیْکَ، فَوَقَعْتُ فِی السَّہْمِ لِثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ الشَّمَّاسِ أَوْ لِابْنِ عَمٍّ لَہُ فَکَاتَبْتُہُ عَلٰی نَفْسِی، فَجِئْتُکَ أَسْتَعِینُکَ عَلٰی کِتَابَتِی، قَالَ: ((فَہَلْ لَکِ فِی خَیْرٍ مِنْ ذٰلِکَ؟)) قَالَتْ: وَمَا ہُوَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((أَقْضِی کِتَابَتَکِ وَأَتَزَوَّجُکِ۔)) قَالَتْ: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: ((قَدْ فَعَلْتُ۔)) قَالَتْ: وَخَرَجَ الْخَبَرُ إِلَی النَّاسِ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَزَوَّجَ جُوَیْرِیَۃَ بِنْتَ الْحَارِثِ، فَقَالَ النَّاسُ: أَصْہَارُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَرْسَلُوْا مَا بِأَیْدِیہِمْ، قَالَتْ: فَلَقَدْ أَعْتَقَ بِتَزْوِیجِہِ إِیَّاہَا مِائَۃَ أَہْلِ بَیْتٍ مِنْ بَنِی الْمُصْطَلِقِ، فَمَا أَعْلَمُ امْرَأَۃً کَانَتْ أَعْظَمَ بَرَکَۃً عَلٰی قَوْمِہَا مِنْہَا۔ (مسند أحمد: ۲۶۸۹۷)
ام المومنین سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو مصطلق کے قیدی تقسیم کیے تو جویریہ بنت حارث، سیدنا ثابت بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا ان کے چچا زاد بھائی کے حصے میں آئی اور پھر اس نے ان سے مکاتبت بھی کر لی،یہ بڑی ہی خوب رو خاتون تھی، جس نے اس کو دیکھنا تھا، اس نے اس کو اپنے لیے لے لینا تھا، پس وہ اپنی مکاتبت میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مدد لینے کے لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئی، اللہ کی قسم! جب میں (عائشہ) نے اس کو اپنے حجرے کے دروازے پر دیکھا تو میں نے اس کے آنے کو ناپسند کیا اور میں جان گئی کہ جو چیز میں دیکھ رہی ہوں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نظر بھی اسی چیز پر پڑے گی، پس جب وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئی اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں جویریہ بنت حارث بن ابی ضرار ہوں، میرے باپ اپنی قوم کے سردار ہیں اور میں ایسی آزمائش میں پھنس گئی ہوں کہ اس کا معاملہ آپ پر بھی واضح ہے، میں سیدنا ثابت بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا ان کے چچا زاد بھائی کے حصے میں آئی ہوں اور میں نے ان سے مکاتبت کر لی ہے، اب میں آپ کے پاس آئی ہوں، تاکہ آپ مکاتبت پر میرا تعاون کریں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اچھا یہ بتاؤ کہ کیا تمہیں اس سے بہتر چیز کی رغبت ہے؟ اس نے کہا: جی وہ کیا؟ اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہاری مکاتبت کی قیمت ادا کر کے تم سے شادی کر لیتا ہوں۔ اس نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تحقیق میں نے ایسے ہی کر دیا ہے۔ اتنے میں لوگوں تک یہ خبر پہنچ گئی کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ جویریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے شادی کر لی ہے، لوگوں نے کہا: بنو مصطلق، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سسرال بن گئے ہیں، پس اس وجہ سے انھوں نے وہ غلام اور لونڈیاں آزاد کر دیں، جو ان کے ہاتھ میں تھے، سیدہ جویریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی اس شادی کی وجہ سے بنو مصطلق کے سو گھرانوں کے افراد کو آزاد کیا گیا، میں ایسی کوئی خاتون نہیں جانتی جو اپنی قوم کے لیےاس سے زیادہ برکت والی ثابت ہوئی ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10755

۔ (۱۰۷۵۵)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فِیْ حَدِیْثِ الْاِفِکِ قَالَتْ: وَاللّٰہِ! مَا کُنْتُ أَظُنُّ أَنْ یَنْزِلَ فِی شَأْنِی وَحْیٌیُتْلٰی وَلَشَأْنِی، کَانَ أَحْقَرَ فِی نَفْسِی مِنْ أَنْ یَتَکَلَّمَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیَّ بِأَمْرٍ یُتْلٰی، وَلٰکِنْ کُنْتُ أَرْجُو أَنْ یَرٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی النَّوْمِ رُؤْیَایُبَرِّئُنِی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہَا، قَالَتْ: فَوَاللّٰہِ! مَا رَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ مَجْلِسِہِ، وَلَا خَرَجَ مِنْ أَہْلِ الْبَیْتِ أَحَدٌ، حَتّٰی أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی نَبِیِّہِ، وَأَخَذَہُ مَا کَانَ یَأْخُذُہُ مِنَ الْبُرَحَائِ عِنْدَ الْوَحْیِ، حَتّٰی إِنَّہُ لَیَتَحَدَّرُ مِنْہُ مِثْلُ الْجُمَانِ مِنَ الْعَرَقِ فِی الْیَوْمِ الشَّاتِی مِنْ ثِقَلِ الْقَوْلِ الَّذِی أُنْزِلَ عَلَیْہِ، قَالَتْ: فَلَمَّا سُرِّیَعَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یَضْحَکُ، فَکَانَ أَوَّلُ کَلِمَۃٍ تَکَلَّمَ بِہَا أَنْ قَالَ: ((أَبْشِرِییَا عَائِشَۃُ! أَمَّا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فَقَدْ بَرَّأَکِ۔)) فَقَالَتْ لِی أُمِّی: قُومِی إِلَیْہِ، فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ! لَا أَقُومُ إِلَیْہِوَلَا أَحْمَدُ إِلَّا اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ ہُوَ الَّذِی أَنْزَلَ بَرَائَ تِی، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ {إِنَّ الَّذِینَ جَائُ وْا بِالْإِفْکِ عُصْبَۃٌ مِنْکُمْ} [النور: ۱۱] عَشْرَ آیَاتٍ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ہٰذِہِ الْآیَاتِ بَرَائَ تِی قَالَتْ: فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: وَکَانَ یُنْفِقُ عَلٰی مِسْطَحٍ لِقَرَابَتِہِ مِنْہُ وَفَقْرِہِ: وَاللّٰہِ! لَا أُنْفِقُ عَلَیْہِ شَیْئًا أَبَدًا بَعْدَ الَّذِی قَالَ لِعَائِشَۃَ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلَا یَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ} إِلٰی قَوْلِہِ: {أَلَا تُحِبُّوْنَ أَنْ یَغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ} [النور: ۲۲] فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأُحِبُّ أَنْ یَغْفِرَ اللّٰہُ لِی، فَرَجَعَ إِلٰی مِسْطَحٍ النَّفَقَۃَ الَّتِی کَانَ یُنْفِقُ عَلَیْہِ، وَقَالَ: لَا أَنْزِعُہَا مِنْہُ أَبَدًا، قَالَتْ عَائِشَۃُ: وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَأَلَ زَیْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ زَوْجَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ أَمْرِی: ((وَمَا عَلِمْتِ أَوْ مَا رَأَیْتِ أَوْ مَا بَلَغَکِ؟)) قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَحْمِی سَمْعِی وَبَصَرِی وَأَنَا مَا عَلِمْتُ إِلَّا خَیْرًا، قَالَتْ عَائِشَۃُ: وَہِیَ الَّتِیکَانَتْ تُسَامِینِی مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَعَصَمَہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِالْوَرَعِ، وَطَفِقَتْ أُخْتُہَا حَمْنَۃُ بِنْتُ جَحْشٍ تُحَارِبُ لَہَا فَہَلَکَتْ فِیمَنْ ہَلَکَ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شِہَابٍ: فَہٰذَا مَا انْتَہٰی إِلَیْنَا مِنْ أَمْرِ ہٰؤُلَائِ الرَّہْطِ۔ (مسند احمد: ۲۶۱۴۱)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ حدیث الافک (یعنی بہتان والی بات) بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں: اللہ کی قسم! یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ میرے بارے میں وحی نازل ہو گی، میں اپنے اس معاملہ کو اس سے کم تر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ خود اس کے بارے میں کلام کریں گے اور پھر اس کلام کی تلاوت کی جائے گی، ہاں یہ مجھے امید تھی کہ میرے بارے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خواب دیکھیں گے، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مجھے بری کر دیں گے، اللہ کی قسم! نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی نشست گاہ سے حرکت نہ کی تھی اور نہ ہی گھروالوں میں سے ابھی کوئی باہر گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی نازل کر دی اور وحی کے وقت سخت بوجھ کی وجہ سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پسینہ آنا شروع ہو گیا، سردی کے سخت دن میں بھی وحی کے نازل ہوتے وقت آپ کی پیشانی سے پسینہ لؤلؤ موتیوں کی طرح گرتا تھا، اس وحی کے بوجھ کی وجہ سے، جو آپ پر نازل ہو رہی ہوتی تھی، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے وحی کے نازل ہونے کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرا رہے تھے، سب سے پہلے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وحیکے بعد جو بات کی، وہ یہ تھی: اے عائشہ! خوش ہوجائو، اللہ تعالیٰ نے تمہیں بری قرار دیا ہے۔ یہ سن کرمیری ماں نے کہا: عائشہ! کھڑی ہوجا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا شکریہ ادا کر۔ لیکن میں نے کہا:میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کھڑی نہیں ہوں گی، میں اپنے اس اللہ کی تعریف کروں گی، جس نے میری براء ت نازل کی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر دیں: {إِنَّ الَّذِینَ جَائُ وْا بِالْإِفْکِ عُصْبَۃٌ مِنْکُمْ} [النور: ۱۱] یہ کل دس آیات تھیں۔ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مسطح پر خرچ کیا کرتے تھے کیونکہ وہ فقیر تھااور ان کا رشتہ دار بھی تھا، اس نے بھی سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے بارے میں تہمت والی بات کر دی تھی، اس لیے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں اس پر آئندہ خرچ نہیں کروں گا، یہ اس حد تک چلا گیا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر دی: {وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔} … اور تم میں سے فضیلت اور وسعت والے اس بات سے قسم نہ کھالیں کہ قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دیں اور لازم ہے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمھیں بخشے اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ یہ آیت سن کر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں پسند کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے، پس انہوں نے جو مسطح کا خرچہ لگا رکھا تھا وہ دوبارہ جاری کر دیااورکہا اب میں اسے کبھی نہیں روکوں گا۔سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ زینب بنت حجش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے میرے معاملہ کے بارے میں سوال کیا کہ تم اس بارے میں کیا جانتی ہو؟ یا کیا سمجھتی ہو؟ یا تم کو کون سی بات پہنچی ہے؟‘ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اس بات سے اپنے کان اورآنکھ کو محفوظ رکھنا چاہتی ہوں! اللہ کی قسم، میری معلومات کے مطابق عائشہ میں خیر ہی خیر ہے۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: یہ سیدہ زینب ہی امہات المومنین میں سے میرا مقابلہ کرتی تھیں،لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں تقویٰ کی بدولت اس معاملے میں پڑنے سے بچا لیا اور ان کی بہن سیدہ حمنہ بنت حجش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اپنی بہن کے ساتھ عصبیت اختیار کی اور ہلاک ہونے والوں میں شامل ہوگئی۔ ابن شہاب کہتے ہیں: اس گرو ہ کے بارے میں ہمیں یہی کچھ معلوم ہو سکا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10756

۔ (۱۰۷۵۶)۔ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ أُمِّ رُومَانَ، وَہِیَ أُمُّ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: کُنْتُ أَنَا وَعَائِشَۃُ قَاعِدَۃً فَدَخَلَتْ امْرَأَۃٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَتْ: فَعَلَ اللّٰہُ بِفُلَانٍ وَفَعَلَ تَعْنِی ابْنَہَا، قَالَتْ: فَقُلْتُ لَہَا: وَمَا ذٰلِکَ؟ قَالَتْ: ابْنِی کَانَ فِیمَنْ حَدَّثَ الْحَدِیثَ، قَالَتْ: فَقُلْتُ لَہَا: وَمَا الْحَدِیثُ؟ قَالَتْ: کَذَا وَکَذَا، فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: أَسَمِعَ بِذٰلِکَ أَبُو بَکْرٍ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَتْ: أَسَمِعَ بِذٰلِکَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: نَعَمْ، فَوَقَعَتْ أَوْ سَقَطَتْ مَغْشِیًّا عَلَیْہَا، فَأَفَاقَتْ حُمَّی بِنَافِضٍ فَأَلْقَیْتُ عَلَیْہَا الثِّیَابَ، فَدَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((مَا لِہٰذِہِ؟)) قَالَتْ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَخَذَتْہَا حُمّٰی بِنَافِضٍ، قَالَ: ((لَعَلَّہُ مِنَ الْحَدِیثِ الَّذِی تُحُدِّثَ بِہِ؟)) قَالَتْ: قُلْتُ: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَرَفَعَتْ عَائِشَۃُ رَأْسَہَا وَقَالَتْ: إِنْ قُلْتُ: لَمْ تَعْذِرُونِی، وَإِنْ حَلَفْتُ لَمْ تُصَدِّقُونِی، وَمَثَلِی وَمَثَلُکُمْ کَمَثَلِ یَعْقُوبَ وَبَنِیہِ حِینَ قَالَ: {فَصَبْرٌ جَمِیلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُونَ} فَلَمَّا نَزَلَ عُذْرُہَا أَتَاہَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرَہَا بِذَلِکَ، فَقَالَتْ: بِحَمْدِ اللّٰہِ لَا بِحَمْدِکَ أَوْ قَالَتْ: وَلَا بِحَمْدِ أَحَدٍ۔ (مسند احمد: ۲۷۶۱۰)
سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی ماں سیدہ ام رومان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں اور عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیٹھی تھیں کہ ایک انصاری خاتون آئی اور وہ اپنے بیٹے کے متعلق کہنے لگی کہ اللہ اسے ہلاک کرے، تباہ کرے، میں نے اس سے کہا: کیا بات ہے؟ اس نے کہا: وہ بات کرنے والوں میں میرا بیٹا بھی شامل ہے۔ ام رومان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: کونسی بات؟ اس نے کہا: فلاں بات، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے دریافت کیا کہ آیایہ بات ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی سنی ہے؟ اس عورت نے کہا: جی ہاں، انہوں نے پھر پوچھا: کیا اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بھی اس کا علم ہو چکا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! یہ سنتے ہی وہ گر گئی اور وہ بے ہوش ہو گئی اسے شدت کا بخار ہو گیا، اور جسم کانپنے لگا، میں نے اس پر کپڑے ڈالے، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے آئے اور پوچھا: اسے کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اسے شدید بخاری ہو گیا ہے اور اس کا جسم کانپ رہا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شاید اس کییہ کیفیت اس بات کی وجہ سے ہوئی ہے جو کہی جا رہی ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! یہ باتیں سن کر سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے سر اُٹھایا اور کہا: اگر میں اپنے حق میں کچھ کہوں تو آپ میری معذرت قبول نہیں کریں گے اور اگر میں قسم اُٹھاؤں تب بھی آپ میری بات نہیں مانیں گے، میری اور آپ کی مثال یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کی سی ہے، جنہوں نے بیٹوں کی بات سن کر کہا تھا: {فَصَبْرٌ جَمِیلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُونَ} … پس صبر کرنا ہی بہتر ہے، تم جو کچھ بیان کر رہے ہو اس پر اللہ ہی کی مدد درکار ہے۔ (سورۂ یوسف: ۱۸) پس جب اللہ کی طرف سے ان کی براء ت نازل ہوئی تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس آئے اور انہیں نزولِ براء ت کی اطلاع دی تو سیّدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: میں اللہ کی حمد کرتی ہوں، آپ کی نہیں،یایوں کہا کہ اللہ کے سوا کسی کی حمد نہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10757

۔ (۱۰۷۵۷)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ اُمِّ رُوْمَانٍ قَالَتْ: بَیْنَا اَنَا عِنْدَ عَائِشَۃَ اِذْ دَخَلَتْ عَلَیْنَا اِمْرَاَۃٌ مِنَ الْاَنْصَارِ، فَذَکَرَتْ نَحْوَ الْحَدِیْثِ الْمُتَقَدمِ وَفِیْہِ: قَالَتْ وَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عُذْرَہَا فَرَجَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَعَہُ أَبُو بَکْرٍ فَدَخَلَ فَقَالَ: ((یَا عَائِشَۃُ! إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَنْزَلَ عُذْرَکِ۔)) قَالَتْ: بِحَمْدِ اللّٰہِ لَا بِحَمْدِکَ، قَالَتْ: قَالَ لَہَا أَبُو بَکْرٍ: تَقُولِینَ ہٰذَا لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَتْ: فَکَانَ فِیمَنْ حَدَّثَ الْحَدِیثَ رَجُلٌ، کَانَ یَعُولُہُ أَبُو بَکْرٍ فَحَلَفَ أَبُو بَکْرٍ أَنْ لَا یَصِلَہُ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلَا یَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ، قَالَ أَبُو بَکْرٍ: بَلٰی! فَوَصَلَہُ۔ (مسند احمد: ۲۷۶۱۱)
۔(دوسری سند) سیدہ ام رومان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں تھی کہ ایک انصاری خاتون ہمارے ہاں آئی، اس سے آگے ساری حدیث گزشتہ حدیث کی مانند ہے، البتہ اس میں ہے: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی براء ت نازل کر دی ہے۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معیت میں واپس اندر آئے اور فرمایا: عائشہ ! بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہاری براء ت نازل کی ہے۔ انھوں نے کہا:اللہ کا شکر ہے، آپ کا نہیں۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کییہ بات سن کر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: تم ایسی بات اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہتی ہو؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، ام رومان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا پر الزام وتہمت لگانے والوں میں سے ایک شخص کی کفالت سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کرتے تھے، اس واقعہ کے بعد انہوں نے قسم اُٹھا لی کہ اب اس کے ساتھ پہلے والا برتاؤ نہیں کریں گے، اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔{وَلَا یَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ…} تم میں سے جو لوگ صاحبِ فضل اور مال دار ہیں وہ اس بات کی قسم نہ اُٹھائیں کہ وہ اپنے رشتہ داروں، مساکین اور اللہ کی راہ میں ہجرت کر کے آنے والوں کو کچھ نہ دیں گے۔ انہیں چاہیے کہ معاف کر دیںا ور درگزر کریں، کیا تمہیںیہ پسند نہیں کہ اللہ تمہاری خطائیں معاف کر دے۔ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیوں نہیں، چنانچہ انہوں نے اس کے ساتھ حسن برتاؤ کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10758

۔ (۱۰۷۵۸)۔ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلْبَرَائِ وَہُوَ یَمْزَحُ مَعَہُ: قَدْ فَرَرْتُمْ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنْتُمْ أَصْحَابُہُ؟ قَالَ الْبَرَائُ: إِنِّی لَأَشْہَدُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا فَرَّ یَوْمَئِذٍ، وَلَقَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ حُفِرَ الْخَنْدَقُ، وَہُوَ یَنْقُلُ مَعَ النَّاسِ التُّرَابَ، وَہُوَ یَتَمَثَّلُ کَلِمَۃَ ابْنِ رَوَاحَۃَ اَللّٰہُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اہْتَدَیْنَا،وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا،فَأَنْزِلَنْ سَکِینَۃً عَلَیْنَا،وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَیْنَا،فَإِنَّ الْأُلٰی قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا،وَإِنْ أَرَادُوا فِتْنَۃً أَبَیْنَا۔ یَمُدُّ بِہَا صَوْتَہُ۔ (مسند احمد: ۱۸۶۷۸)
ابو اسحاق سے مروی ہے کہ ایک شخص نے (ازراہِ مذاق) سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا کہ تم لوگ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھی تھے اور تم ہی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے تھے، سیدنا براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس روز فرار نہیں ہوئے تھے۔ اور میں نے خندق والے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں کے ساتھ مل کر مٹی اُٹھا رہے تھے۔ دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیںیہاں تک کہ مٹی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیٹ کی جلد کو چھپا دیا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابن رواحہ کے یہ کلمات زبان سے ادا فرما رہے تھے: اَللّٰہُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اہْتَدَیْنَا،وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا،فَأَنْزِلَنْ سَکِینَۃً عَلَیْنَا،وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَیْنَا،فَإِنَّ الْأُلٰی قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا،وَإِنْ أَرَادُوا فِتْنَۃً أَبَیْنَا (یا اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم راہِ ہدایت نہ پا سکتے اور ہم نہ صدقے کرتے اور نہ نمازیں پڑھتے، تو ہمارے اوپر سکون نازل فرما اور اگر ہمارا دشمن سے مقابلہ ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھنا، ان کفار نے ہمارے اوپر سرکشی کی ہے اور دین کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے، اگر انہوں نے کسی فتنہ وفساد کا ارادہ کیا تو ہم اس سے انکار کر دیں گے۔) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کلمات کے ساتھ اپنی آواز کو لمبا کر کے ادا کر رہے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10759

۔ (۱۰۷۵۹)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: خَرَجَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَدَاۃٍ قَرَّۃٍ أَوْ بَارِدَۃٍ، فَإِذَا الْمُہَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ یَحْفِرُونَ الْخَنْدَقَ، فَقَالَ: ((اللَّہُمَّ إِنَّ الْخَیْرَ خَیْرُ الْآخِرَہْ،فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُہَاجِرَہْ۔)) فَأَجَابُوہُ: نَحْنُ الَّذِینَ بَایَعُوا مُحَمَّدًا،عَلَی الْجِہَادِ مَا بَقِینَا أَبَدًا۔ (مسند احمد: ۱۲۹۸۱)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک سرد صبح کو باہر نکلے اور دیکھا کہ مہاجرین اورانصار خندق کھود رہے ہیں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یا اللہ! اصل بھلائی تو آخرت کی بھلائی ہے، پس تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما دے۔ صحابہ نے جواباً کہا: ہم وہ ہیں جنہوں نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر اس بات کی بیعت کی ہے کہ ہم جب تک زندہ رہیں گے جہاد کرتے رہیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10760

۔ (۱۰۷۶۰)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالْمُہَاجِرُونَ یَحْفِرُونَ الْخَنْدَقَ فِی غَدَاۃٍ بَارِدَۃٍ، قَالَ أَنَسٌ: وَلَمْ یَکُنْ لَہُمْ خَدَمٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اللَّہُمَّ إِنَّمَا الْخَیْرُ خَیْرُ الْآخِرَہْ،فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُہَاجِرَہْ۔)) قَالَ: فَأَجَابُوہُ: نَحْنُ الَّذِینَ بَایَعُوا مُحَمَّدًا،عَلَی الْجِہَادِ مَا بَقِینَا أَبَدًا، وَلَا نَفِرُّ وَلَا نَفِرُّ وَلَا نَفِرُّ۔ (مسند احمد: ۱۳۱۵۸)
۔( دوسری سند) سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر نکلے تو مہاجرین سخت سرد صبح کو خندق کھود رہے تھے، ان کے خادم نہیں تھے، (بلکہ وہ اپنا کام خود کیا کرتے تھے)، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اصل بھلائی تو آخرت کی بھلائی ہے، اے اللہ! تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما دے۔ صحابہ کرام نے جواباً کہا: ہم وہ لوگ ہیں، جنہوں نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر اس بات کی بیعت کی ہے کہ ہم جب تک زندہ رہیں گے جہاد کرتے رہیں گے، اور ہم میدان سے نہیں بھاگیں گے، اور ہم نہیں بھاگیں گے اور ہم نہیں بھاگیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10761

۔ (۱۰۷۶۱)۔ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَالْخَنْدَقِ، وَہُمْ یَحْفِرُونَ وَنَحْنُ نَنْقُلُ التُّرَابَ عَلٰی أَکْتَافِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اللَّہُمَّ لَا عَیْشَ إِلَّا عَیْشُ الْآخِرَۃِ، فَاغْفِرْ لِلْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ۔)) (مسند احمد: ۲۳۲۰۳)
سیدنا سہل بن سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ خندق کے موقع پر ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ تھے، صحابہ کرام خندق کھود رہے تھے اور ہم اپنے کندھوں پر مٹی اٹھا اٹھا کر منتقل کر رہے تھے، یہ منظر دیکھ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! نہیں ہے کوئی زندگی، مگرآخرت کی زندگی، پس تو مہاجرین اور انصار کو بخش دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10762

۔ (۱۰۷۶۲)۔ عَنِ ابْنِ عَوْنٍ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ أُمِّہِ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ: مَا نَسِیتُ قَوْلَہُ یَوْمَ الْخَنْدَقِ، وَہُوَ یُعَاطِیہِمُ اللَّبَنَ، وَقَدْ اغْبَرَّ شَعْرُ صَدْرِہِ وَہُوَ یَقُولُ: ((اللَّہُمَّ إِنَّ الْخَیْرَ خَیْرُ الْآخِرَہْ، فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُہَاجِرَہْ۔))قَالَ: فَرَأٰی عَمَّارًا، فَقَالَ: وَیْحَہُ ابْنُ سُمَیَّۃَ تَقْتُلُہُ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ، قَالَ: فَذَکَرْتُہُ لِمُحَمَّدٍ یَعْنِی ابْنَ سِیرِینَ، فَقَالَ: عَنْ أُمِّہِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، أَمَا إِنَّہَا کَانَتْ تُخَالِطُہَا تَلِجُ عَلَیْہَا۔ (مسند احمد: ۲۷۰۱۵)
سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: مجھے خندق والے دن کی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کییہ بات نہیںبھولی، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صحابہ کرام کو اینٹیں پکڑا رہے تھے اور آپ کے سینہ مبارک کے بال غبار آلود ہو چکے تھے اور آپ یوں فرما رہے تھے: اے اللہ! اصل بھلائی تو آخرت کی بھلائی ہے، تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما دے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا تو فرمایا: سمیہ کے بیٹے پر افسوس ہے کہ اسے ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ حسن ابن سیرین کہتے ہیں: میں نے اس حدیث کو محمد بن سیرین کے سامنے ذکر کیا تو انہوں نے کہا: کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی والدہ کا نام لے کر فرمایا تھا؟ میں نے کہا: جی ہاں، کیونکہ وہ( سمیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ) سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں آتی جاتی رہتی تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10763

۔ (۱۰۷۶۳)۔ عَنِ الْبَرَاء ِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِحَفْرِ الْخَنْدَقِ، قَالَ: وَعَرَضَ لَنَا صَخْرَۃٌ فِی مَکَانٍ مِنَ الخَنْدَقِ لَا تَأْخُذُ فِیہَا الْمَعَاوِلُ، قَالَ: فَشَکَوْہَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَائَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ عَوْفٌ: وَأَحْسِبُہُ قَالَ وَضَعَ ثَوْبَہُ، ثُمَّ ہَبَط إِلَی الصَّخْرَۃِ فَأَخَذَ الْمِعْوَلَ، فَقَالَ: ((بِسْمِ اللّٰہِ۔)) فَضَرَبَ ضَرْبَۃً فَکَسَرَ ثُلُثَ الْحَجَرِ، وَقَالَ: ((اللّٰہُ أَکْبَرُ! أُعْطِیتُ مَفَاتِیحَ الشَّامِ، وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأُبْصِرُ قُصُورَہَا الْحُمْرَ مِنْ مَکَانِی ہٰذَا۔)) ثُمَّ قَالَ: ((بِسْمِ اللّٰہِ۔)) وَضَرَبَ أُخْرٰی فَکَسَرَ ثُلُثَ الْحَجَرِ فَقَالَ: ((اللّٰہُ أَکْبَرُ! أُعْطِیتُ مَفَاتِیحَ فَارِسَ، وَاللّٰہِ! إِنِّیلَأُبْصِرُ الْمَدَائِنَ وَأُبْصِرُ قَصْرَہَا الْأَبْیَضَ مِنْ مَکَانِی ہٰذَا۔))، ثُمَّ قَالَ: ((بِسْمِ اللّٰہِ۔)) وَضَرَبَ ضَرْبَۃً أُخْرٰی فَقَلَعَ بَقِیَّۃَ الْحَجَرِ، فَقَالَ: ((اللّٰہُ أَکْبَرُ! أُعْطِیتُ مَفَاتِیحَ الْیَمَنِ، وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأُبْصِرُ أَبْوَابَ صَنْعَائَ مِنْ مَکَانِی ہٰذَا۔))۔ (مسند احمد: ۱۸۸۹۸)
سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں خندق کھودنے کا حکم دیا، کھدائی کے دوران ایک مقام پر چٹان آگئی، جہاں گینتیاں کام نہیں کرتی تھیں، صحابہ کرام نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس کا شکوہ کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے، سیدنا عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ سیدنا برائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ بھی بیان کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آکر اپنا کپڑا ایک طرف رکھا اور چٹان کی طرف گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے گینتی کو پکڑ کر بسم اللہ پڑھی اور اسے زور سے مارا ،چٹان کا ایک تہائی حصہ ٹوٹ گیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زور سے فرمایا: اللہ اکبر، مجھے شام کی کنجیاں دے دی گئیں ہیں، اللہ کی قسم! میں اپنی اس جگہ سے اس وقت وہاں کے سرخ محلات کو دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوبارہ بسم اللہ پڑھ کر دوبارہ گنتی چلائی، چٹان کا دوسرا ایک تہائی ٹوٹ گیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زور سے اللہ اکبر کہا اور فرمایا: مجھے ایران کیچابیاں دے دی گئی ہیں، اللہ کی قسم میں مدائن کو اور وہان کے سفید محل کو اپنی اس جگہ سے اس وقت دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپ نے بسم اللہ پڑھ کر تیسری مرتبہ گینتی چلائی تو باقی چٹان بھی ریزہ ریزہ ہوگئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زور سے اللہ اکبر کہا اور فرمایا: مجھے یمن کی چابیاں دے دی گئی ہیں اور میں اس وقت اس جگہ سے صنعاء کے دروازوں کو دیکھ رہا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10764

۔ (۱۰۷۶۴)۔ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِیہِ قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ الْخَنْدَقِ وَرَجُلٌ یَتَتَرَّسُ، جَعَلَ یَقُولُ بِالتُّرْسِ ہٰکَذَا، فَوَضَعَہُ فَوْقَ أَنْفِہِ ثُمَّ یَقُولُ: ہٰکَذَا، یُسَفِّلُہُ بَعْدُ، قَالَ: فَأَہْوَیْتُ إِلٰی کِنَانَتِی فَأَخْرَجْتُ مِنْہَا سَہْمًا مُدَمًّا، فَوَضَعْتُہُ فِی کَبِدِ الْقَوْسِ، فَلَمَّا قَالَ ہَکَذَا یُسَفِّلُ التُّرْسَ رَمَیْتُ، فَمَا نَسِیتُ وَقْعَ الْقِدْحِ عَلَی کَذَا وَکَذَا مِنَ التُّرْسِ، قَالَ: وَسَقَطَ، فَقَالَ بِرِجْلِہِ، فَضَحِکَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَحْسِبُہُ قَالَ: حَتَّی بَدَتْ نَوَاجِذُہُ، قَالَ: قُلْتُ: لِمَ؟ قَالَ: ((لِفِعْلِ الرَّجُلِ۔)) (مسند احمد: ۱۶۲۰)
سیّدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جس روز خندق کی لڑائی کا موقع تھا اور کفار کے لوگ اپنی اپنی ڈھال کی اوٹ میں چھپ رہے تھے، ساتھ ہی سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنی ڈھال کو اپنی ناک کے سامنے کر کے دکھایا کہ آدمی اپنی ڈھال کو یوں اپنے سامنے کرتا اور پھر کبھی اسے یوں نیچے کو کرتا تھا تاکہ مخالفین کی طرف دیکھ لے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ترکش کا قصد کر کے اس سے خون آلود تیرنکالا اور اسے کمان کی قوس پر رکھا، جب اس کا فر نے ڈھال کو ذرا نیچے کی طرف کیا تو میں نے فوراً تیر چلا دیا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ تیر اس ڈھال کے فلاںفلاں حصے پر جا کر لگا اور وہ نیچے گر گیا اور اُس کی ٹانگیں کانپنے لگ گئیں،یہ منظر دیکھ کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس قدر زور سے ہنسے کہ آپ کی داڑھیں دکھائی دینے لگیں، میں نے دریافت کیا: آپ کے ہنسنے کا سبب کیا تھا؟ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اس آدمی کی حالت دیکھ کر۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10765

۔ (۱۰۷۶۵)۔ عَنْ اَبِیْ اِسْحَاقَ قَالَ: سَمِعْتُ سُلَیْمَانَ بْنَ صُرَدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ الْاَحْزَابِ: ((اَلْیَوْمَ نَغْزُوْھُمْ وَلَا یَغْزُوْنَّا۔))۔ (مسند احمد: ۲۷۷۴۸)
سیدنا سلیمان بن صرد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غزوۂ احزاب کے موقع پر فرمایا: آج کے بعد ہم ان پر چڑھائی کریں گے، وہ اب ہم پر حملہ آور نہیں ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10766

۔ (۱۰۷۶۶)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ الْاَحْزَابِ: ((شَغَلُوْنَا عَنِ الصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی صَلَاۃِ الْعَصْرِ، مَلَاَ اللّٰہُ قُبُوْرَھُمْ وَبُیُوْتَہُمْ نَارًا۔)) (مسند احمد: ۱۱۵۱)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غزوۂ احزاب کے دن فرمایا: اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے، انہوں نے ہمیں نمازِ وسطییعنی نمازِ عصر سے مشغول کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10767

۔ (۱۰۷۶۷)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ عَنْ أَبِیہِ قَالَ: حُبِسْنَا یَوْمَ الْخَنْدَقِ عَنِ الصَّلَوَاتِ حَتّٰی کَانَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ ہَوِیًّا، وَذٰلِکَ قَبْلَ أَنْ یَنْزِلَ فِی الْقِتَالِ مَا نَزَلَ، فَلَمَّا کُفِینَا الْقِتَالَ وَذٰلِکَ قَوْلُہُ: {وَکَفَی اللّٰہُ الْمُؤْمِنِینَ الْقِتَالَ وَکَانَ اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیزًا} أَمَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِلَالًا فَأَقَامَ الظُّہْرَ، فَصَلَّاہَا کَمَا یُصَلِّیہَا فِی وَقْتِہَا، ثُمَّ أَقَامَ الْعَصْرَ فَصَلَّاہَا کَمَا یُصَلِّیہَا فِی وَقْتِہَا، ثُمَّ أَقَامَ الْمَغْرِبَ فَصَلَّاہَا کَمَا یُصَلِّیہَا فِی وَقْتِہَا۔ (مسند احمد: ۱۱۲۱۶)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ غزوۂ خندق کے دن ہمیں نماز سے روک دیا گیا،یہاں تک کہ مغرب کے بعد کا وقت ہو گیا، دوسری روایت میں ہے:یہاں تک کہ رات کا بھی کچھ حصہ بیت گیا،یہ اس وقت کی بات ہے جب قتال کے متعلق مفصل احکامات نازل نہیں ہوئے تھے، جب لڑائی میں اللہ کی طرف سے ہماری مدد کی گئی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَکَفیٰ اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ الْقِتَالَ وَکَانَ اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیْزًا۔} … لڑائی میںمومنین کے لیے اللہ کافی رہا اور اللہ بہت ہی قوت والا سب پر غالب ہے۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے ظہر کے لیے اقامت کہی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسی طرح نماز پڑھائی، جس طرح اس کے اصل وقت میں پڑھاتے تھے۔ پھر انھوں نے عصر کے لیے اقامت کہی تو آپ نے اسی طرح نماز پڑھائی جیسے وقت پر پڑھاتے تھے۔ پھر انھوں نے مغرب کے لیے اقامت کہی تو آپ نے مغرب کی نماز پڑھائی جس طرح اس کے وقت میں پڑھاتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10768

۔ (۱۰۷۶۸)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَتٰی إِلٰی مَسْجِدٍ یَعْنِی الْاَحْزَابَ، فَوَضَعَ رِدَائَہٗوَقَامَوَرَفَعَیَدَیْہِ مَدًّا، یَدْعُوْ عَلَیْہِمْ وَلَمْ یُصَلِّ، ثُمَّ جَائَ وَدَعَا عَلَیْہِمْ وَصَلّٰی۔ (مسند احمد: ۱۵۳۰۰)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غزوۂ احزاب کے دن مسجد کی طرف آئے، اپنی چادر رکھ دی اور کھڑے ہو کر کفار پر بددعا کے لیے ہاتھ پھیلادئیے اور نماز ادا نہ کی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دوبارہ آئے اور ان پر بددعا کی اور نماز پڑھائی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10769

۔ (۱۰۷۶۹)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اَبِیْ اَوْفٰی قَالَ: دَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الْاَحْزَابِ فَقَالَ: ((اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ، سَرِیْعَ الْحِسَابِ، ھَازِمِ الْاحْزَابَ، اِھْزِمْہُمْ وَزَلْزِلْھُمُ۔)) (مسند احمد: ۱۹۶۲۷)
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کفار کی جماعتو ں پر بددعا کی اور فرمایا: کتاب کو نازل کرنے والے، جلد حساب کرنے والے، لشکروں اور جماعتوں کو شکست دینے والے! تو انہیں شکست دے دے اور ان کے پاؤں اکھاڑ دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10770

۔ (۱۰۷۷۰)۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ الْقُرَظِیِّ قَالَ: قَالَ فَتًی مِنَّا مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ لِحُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ: یَا أَبَا عَبْدِ اللّٰہِ! رَأَیْتُمْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَصَحِبْتُمُوہُ؟ قَالَ: نَعَمْ، یَا ابْنَ أَخِی، قَالَ: فَکَیْفَ کُنْتُمْ تَصْنَعُونَ؟ قَالَ: وَاللّٰہِ! لَقَدْ کُنَّا نَجْہَدُ، قَالَ: وَاللّٰہِ! لَوْ أَدْرَکْنَاہُ مَا تَرَکْنَاہُ یَمْشِی عَلَی الْأَرْضِ وَلَجَعَلْنَاہُ عَلَی أَعْنَاقِنَا، قَالَ: فَقَالَ حُذَیْفَۃُ: یَا ابْنَ أَخِی! وَاللّٰہِ، لَقَدْ رَأَیْتُنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْخَنْدَقِ، وَصَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ اللَّیْلِ ہَوِیًّا، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَیْنَا، فَقَالَ: ((مَنْ رَجُلٌ یَقُومُ فَیَنْظُرَ لَنَا مَا فَعَلَ الْقَوْمُ، یَشْتَرِطُ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ یَرْجِعُ أَدْخَلَہُ اللّٰہُ الْجَنَّۃَ۔)) فَمَا قَامَ رَجُلٌ، ثُمَّ صَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہَوِیًّا مِنَ اللَّیْلِ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَیْنَا، فَقَالَ: ((مَنْ رَجُلٌ یَقُومُ، فَیَنْظُرَ لَنَا مَا فَعَلَ الْقَوْمُ، ثُمَّ یَرْجِعُیَشْرِطُ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الرَّجْعَۃَ، أَسْأَلُ اللّٰہَ أَنْ یَکُونَ رَفِیقِی فِی الْجَنَّۃِ۔)) فَمَا قَامَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ مَعَ شِدَّۃِ الْخَوْفِ وَشِدَّۃِالْجُوعِ وَشِدَّۃِ الْبَرْدِ، فَلَمَّا لَمْ یَقُمْ أَحَدٌ دَعَانِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمْ یَکُنْ لِی بُدٌّ مِنَ الْقِیَامِ حِینَ دَعَانِی، فَقَالَ: ((یَا حُذَیْفَۃُ! فَاذْہَبْ فَادْخُلْ فِیْ الْقَوْمِ فَانْظُرْ مَا یَفْعَلُونَ، وَلَا تُحْدِثَنَّ شَیْئًاحَتّٰی تَأْتِیَنَا۔)) قَالَ: فَذَہَبْتُ فَدَخَلْتُ فِی الْقَوْمِ، وَالرِّیحُ وَجُنُودُ اللّٰہِ تَفْعَلُ مَا تَفْعَلُ، لَا تَقِرُّ لَہُمْ قِدْرٌ وَلَا نَارٌ وَلَا بِنَائٌ، فَقَامَ أَبُو سُفْیَانَ بْنُ حَرْبٍ فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! لِیَنْظُرْ امْرُؤٌ مَنْ جَلِیسُہُ، فَقَالَ حُذَیْفَۃُ: فَأَخَذْتُ بِیَدِ الرَّجُلِ الَّذِی إِلٰی جَنْبِی، فَقُلْتُ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، ثُمَّ قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! إِنَّکُمْ وَاللّٰہِ! مَا أَصْبَحْتُمْ بِدَارِ مُقَامٍ، لَقَدْ ہَلَکَ الْکُرَاعُ وَأَخْلَفَتْنَا بَنُو قُرَیْظَۃَ، بَلَغَنَا مِنْہُمْ الَّذِی نَکْرَہُ، وَلَقِینَا مِنْ ہٰذِہِ الرِّیحِ مَا تَرَوْنَ، وَاللّٰہِ! مَا تَطْمَئِنُّ لَنَا قِدْرٌ وَلَا تَقُومُ لَنَا نَارٌ وَلَا یَسْتَمْسِکُ لَنَا بِنَائٌ، فَارْتَحِلُوا فَإِنِّی مُرْتَحِلٌ، ثُمَّ قَامَ إِلٰی جَمَلِہِ وَہُوَ مَعْقُولٌ فَجَلَسَ عَلَیْہِ، ثُمَّ ضَرَبَہُ فَوَثَبَ عَلٰی ثَلَاثٍ فَمَا أَطْلَقَ عِقَالَہُ إِلَّا وَہُوَ قَائِمٌ، وَلَوْلَا عَہْدُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا تُحْدِثْ شَیْئًا حَتّٰی تَأْتِیَنِی وَلَوْ شِئْتُ لَقَتَلْتُہُ بِسَہْمٍ، قَالَ حُذَیْفَۃُ: ثُمَّ رَجَعْتُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ قَائِمٌ یُصَلِّی فِی مِرْطٍ لِبَعْضِ نِسَائِہِ مُرَحَّلٍ، فَلَمَّا رَآنِی أَدْخَلَنِی إِلٰی رَحْلِہِ وَطَرَحَ عَلَیَّ طَرَفَ الْمِرْطِ، ثُمَّ رَکَعَ وَسَجَدَ وَإِنَّہُ لَفِیہِ، فَلَمَّا سَلَّمَ أَخْبَرْتُہُ الْخَبَرَ، وَسَمِعَتْ غَطَفَانُ بِمَا فَعَلَتْ قُرَیْشٌ، وَانْشَمَرُوا إِلٰی بِلَادِہِمْ۔ (مسند احمد: ۲۳۷۲۳)
محمد بن کعب قرظی سے مروی ہے کہ کوفہ کے ہمارے ایک جوان نے سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے ابو عبداللہ! آپ لوگوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا اور ان کی صحبت میں رہے؟ انہوں نے کہا: ہاں بھتیجے، اس نے پوچھا: تمہارا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ کیا رویہ اور برتاؤ ہوتا تھا؟ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم ان دنون سخت مشقت میں تھے، تو اس جوان نے کہا: اللہ کی قسم! اگر ہم آپ کے زمانہ کو پالیتے تو ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو زمین پر نہ چلنے دیتے اور ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنے کندھوں پر اُٹھاتے تو حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا اے بھتیجے میں نے ہم صحابہ کو خندق کے موقعہ پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ دیکھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رات کو کافی دیر تک نماز پڑھی، بعدازاں ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کون ہے جو اُٹھ کر جا کر دیکھ کر آئے کہ اب دشمن کیا کر رہا ہے؟ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بطور شرط (ضمانت) فرمایا کہ وہ واپس آئے تو اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا، کوئی آدمی بھی کھڑا نہ ہوا۔ پھر اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کافی دیر تک نماز پڑھی، بعدازاں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کون ہے جو جا کر دشمن کو دیکھ کر آئے کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بطور شرط، ضمانت فرمایا کہ وہ واپس آئے گا۔ میں اللہ سے دعا کروں گا کہ وہ جنت میں میرا ساتھی ہو۔ لیکن دشمن کے خوف کی شدت، بھوک کی شدت اور سردی کی شدت کی وجہ سے کوئی بھی نہ اُٹھا، جب کوئی بھی نہ اُٹھا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بلایا چوں کہ آپ نے مجھے ہی خاص طور پر بلایا تھا اس لیے میرے لیے اُٹھے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حذیفہ! تم جا کر دشمن کے افراد کے اندر گھس جاؤ۔ اور دیکھو کہ وہ کیا کرتے ہیں؟ اور تم ہمارے پاس واپس آنے تک کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کرنا، حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں میں جا کر ان میں شامل ہو گیا، تیز آندھی اور اللہ کے لشکران کی تباہی مچا رہے تھے، تیز آندھی کی وجہ سے نہ ان کی دیگیں ٹھہرتی تھیں نہ آگ نہ خیمے۔ اسی دوران ابو سفیان بن حرب نے کھڑے ہو کر کہا اے قریش! ہر آدمی دیکھے کہ اس کے ساتھ کون بیٹھا ہوا ہے؟ حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں میں نے جلدی سے اپنے قریب والے آدمی کا ہاتھ پکڑ لیا اور پوچھا تم کون ہو؟ اس نے بتایا کہ میں فلاں بن فلاں ہوں، پھر ابو سفیان نے کہا اے جماعت ِ قریش! اب تم اس مقام پر قرار نہیں کر سکتے۔ سارے گھوڑے ہلاک ہو گئے ہیں۔اور بنو قریظہ نے ہمارے ساتھ وعدہ خلافی کی ہے انہوں نے ہمارے ساتھ جو سلوک کیا وہ ہمیں انتہائی ناگوار گزرا اور تیز آندھی کی صورت حال بھی تم دیکھ رہے ہو۔ اللہ کی قسم! ہماری دیگیں کہیں ٹھہر نہیں رہیں۔ آگ جلتی نہیں اور خیمے بھی نہیں ٹھہر رہے۔ تم کوچ کی تیاری کرو۔ میں تو جا رہا ہوں۔ پھر وہ اپنے اونٹ کی طرف اُٹھ گیا جس کے پاؤں کو رسی سے باندھا ہوا تھا۔ وہ اس پر بیٹھا، اسے مارا اس نے اس کی رسی کو کھولا نہیں تھا، اس لیے اونٹ نے تین بار کود کر اُٹھنے کی کوشس کی، تاہم وہ اُٹھ کھڑا ہوا، اگر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ واپس آنے تک وہاں کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کرنے کا عہد نہ ہوتا تو میں چاہتا تو اسے ایک ہی تیر سے قتل کر سکتا تھا۔ حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں پھر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں واپس آیا، آپ اس وقت اپنی کسی اہلیہ کی منقش اونی چادر اوڑھے نماز پڑھ رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دیکھا تو مجھے اپنے خیمے میںداخل کر کے چادر کا ایک پہلو میرے اوپر دے دیا۔ آپ چادر ہی میں تھے۔ آپ نے اسی حالت میں رکوع اور سجدہ کیا۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز سے سلام پھیرا تو میں نے ساری بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گوش گزار کی اور جب بنو غطفان نے قریش کی ساری کار گزاری سنی تو انہوں نے اپنے اونٹوں کو اپنے وطن کی طرف موڑ لیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10771

۔ (۱۰۷۷۱)۔ حَدَّثَنَا یَزِیدُ قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ عَلْقَمَۃَ بْنِ وَقَّاصٍ قَالَ: أَخْبَرَتْنِی عَائِشَۃُ قَالَتْ: خَرَجْتُ یَوْمَ الْخَنْدَقِ أَقْفُو آثَارَ النَّاسِ، قَالَتْ: فَسَمِعْتُ وَئِیدَ الْأَرْضِ وَرَائِییَعْنِی حِسَّ الْأَرْضِ، قَالَتْ: فَالْتَفَتُّ فَإِذَا أَنَا بِسَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ وَمَعَہُ ابْنُ أَخِیہِ الْحَارِثُ بْنُ أَوْسٍ یَحْمِلُ مِجَنَّہُ، قَالَتْ: فَجَلَسْتُ إِلَی الْأَرْضِ فَمَرَّ سَعْدٌ وَعَلَیْہِ دِرْعٌ مِنْ حَدِیدٍ، قَدْ خَرَجَتْ مِنْہَا أَطْرَافُہُ فَأَنَا أَتَخَوَّفُ عَلٰی أَطْرَافِ سَعْدٍ، قَالَتْ: وَکَانَ سَعْدٌ مِنْ أَعْظَمِ النَّاسِ وَأَطْوَلِہِمْ، قَالَتْ: فَمَرَّ وَہُوَ یَرْتَجِزُ وَیَقُولُ: لَیْتَ قَلِیلًایُدْرِکُ الْہَیْجَاء جَمَلْ،مَا أَحْسَنَ الْمَوْتَ إِذَا حَانَ الْأَجَلْ، قَالَتْ: فَقُمْتُ فَاقْتَحَمْتُ حَدِیقَۃً، فَإِذَا فِیہَا نَفَرٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، وَإِذَا فِیہِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَفِیہِمْ رَجُلٌ عَلَیْہِ سَبْغَۃٌ لَہُ یَعْنِی مِغْفَرًا، فَقَالَ عُمَرُ، مَا جَائَ بِکِ لَعَمْرِی وَاللّٰہِ! إِنَّکِ لَجَرِیئَۃٌ، وَمَا یُؤْمِنُکِ أَنْ یَکُونَ بَلَائٌ أَوْ یَکُونَ تَحَوُّزٌ، قَالَتْ، فَمَا زَالَ یَلُومُنِی حَتّٰی تَمَنَّیْتُ أَنَّ الْأَرْضَ انْشَقَّتْ لِی سَاعَتَئِذٍ فَدَخَلْتُ فِیہَا، قَالَتْ: فَرَفَعَ الرَّجُلُ السَّبْغَۃَ عَنْ وَجْہِہِ فَإِذَا طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ، فَقَالَ، یَا عُمَرُ! وَیْحَکَ إِنَّکَ قَدْ أَکْثَرْتَ مُنْذُ الْیَوْمَ وَأَیْنَ التَّحَوُّزُ أَوْ الْفِرَارُ إِلَّا إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَتْ: وَیَرْمِی سَعْدًا رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ مِنْ قُرَیْشٍ،یُقَالُ لَہُ: ابْنُ الْعَرِقَۃِ بِسَہْمٍ لَہُ، فَقَالَ لَہُ: خُذْہَا وَأَنَا ابْنُ الْعَرَقَۃِ، فَأَصَابَ أَکْحَلَہُ فَقَطَعَہُ، فَدَعَا اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ سَعْدٌ فَقَالَ: اللَّہُمَّ لَا تُمِتْنِی حَتّٰی تُقِرَّ عَیْنِی مِنْ قُرَیْظَۃَ، قَالَتْ، وَکَانُوا حُلَفَائَہُ وَمَوَالِیَہُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، قَالَتْ: فَرَقَیَٔ کَلْمُہُ وَبَعَثَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الرِّیحَ عَلَی الْمُشْرِکِینَ، فَکَفَی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُؤْمِنِینَ الْقِتَالَ، وَکَانَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ قَوِیًّا عَزِیزًا، فَلَحِقَ أَبُو سُفْیَانَ وَمَنْ مَعَہُ بِتِہَامَۃَ، وَلَحِقَ عُیَیْنَۃُ بْنُ بَدْرٍ وَمَنْ مَعَہُ بِنَجْدٍ، وَرَجَعَتْ بَنُو قُرَیْظَۃَ فَتَحَصَّنُوا فِی صَیَاصِیہِمْ، وَرَجَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی الْمَدِینَۃِ، فَوَضَعَ السِّلَاحَ وَأَمَرَ بِقُبَّۃٍ مِنْ أَدَمٍ، فَضُرِبَتْ عَلٰی سَعْدٍ فِی الْمَسْجِدِ، قَالَتْ: فَجَائَ ہُ جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَام، وَإِنَّ عَلٰی ثَنَایَاہُ لَنَقْعَ الْغُبَارِ، فَقَالَ: أَقَدْ وَضَعْتَ السِّلَاحَ؟ وَاللّٰہِ! مَا وَضَعَتِ الْمَلَائِکَۃُ بَعْدُ السِّلَاحَ، اخْرُجْ إِلٰی بَنِی قُرَیْظَۃَ فَقَاتِلْہُمْ، قَالَتْ: فَلَبِسَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَأْمَتَہُ، وَأَذَّنَ فِی النَّاسِ بِالرَّحِیلِ أَنْ یَخْرُجُوا، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَمَرَّ عَلٰی بَنِی غَنْمٍ، وَہُمْ جِیرَانُ الْمَسْجِدِ حَوْلَہُ، فَقَالَ: ((مَنْ مَرَّ بِکُمْ؟)) فَقَالُوا: مَرَّ بِنَا دِحْیَۃُ الْکَلْبِیُّ، وَکَانَ دِحْیَۃُ الْکَلْبِیُّ تُشْبِہُ لِحْیَتُہُ وَسِنُّہُ وَوَجْہُہُ جِبْرِیلَ عَلَیْہِ السَّلَام، فَقَالَتْ: فَأَتَاہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَحَاصَرَہُمْ خَمْسًا وَعِشْرِینَ لَیْلَۃً، فَلَمَّا اشْتَدَّ حَصْرُہُمْ وَاشْتَدَّ الْبَلَائُ، قِیلَ لَہُمْ، انْزِلُوا عَلٰی حُکْمِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاسْتَشَارُوا أَبَا لُبَابَۃَ بْنَ عَبْدِ الْمُنْذِرِ، فَأَشَارَ إِلَیْہِمْ أَنَّہُ الذَّبْحُ، قَالُوا: نَنْزِلُ عَلٰی حُکْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((انْزِلُوا عَلٰی حُکْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ۔)) فَنَزَلُوا، وَبَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَأُتِیَ بِہِ عَلٰی حِمَارٍ، عَلَیْہِ إِکَافٌ مِنْ لِیفٍ قَدْ حُمِلَ عَلَیْہِ، وَحَفَّ بِہِ قَوْمُہُ، فَقَالُوا: یَا أَبَا عَمْرٍو! حُلَفَاؤُکَ وَمَوَالِیکَ وَأَہْلُ النِّکَایَۃِ، وَمَنْ قَدْ عَلِمْتَ، قَالَتْ: وَأَنَّی لَا یُرْجِعُ إِلَیْہِمْ شَیْئًا وَلَا یَلْتَفِتُ إِلَیْہِمْ، حَتّٰی إِذَا دَنَا مِنْ دُورِہِمْ الْتَفَتَ إِلٰی قَوْمِہِ، فَقَالَ: قَدْ آنَ لِی أَنْ لَا أُبَالِیَ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو سَعِیدٍ: فَلَمَّا طَلَعَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((قُومُوا إِلٰی سَیِّدِکُمْ۔)) فَأَنْزَلُوہُ، فَقَالَ عُمَرُ: سَیِّدُنَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: أَنْزِلُوہُ فَأَنْزَلُوہُ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((احْکُمْ فِیہِمْ۔)) قَالَ سَعْدٌ: فَإِنِّی أَحْکُمُ فِیہِمْ أَنْ تُقْتَلَ مُقَاتِلَتُہُمْ، وَتُسْبٰی ذَرَارِیُّہُمْ، وَتُقْسَمَ أَمْوَالُہُمْ، وَقَالَ یَزِیدُ بِبَغْدَادَ: وَیُقْسَمُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَقَدْ حَکَمْتَ فِیہِمْ بِحُکْمِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَحُکْمِ رَسُولِہِ۔)) قَالَتْ: ثُمَّ دَعَا سَعْدٌ: قَالَ: اللَّہُمَّ إِنْ کُنْتَ أَبْقَیْتَ عَلٰی نَبِیِّکَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ حَرْبِ قُرَیْشٍ شَیْئًا فَأَبْقِنِی لَہَا، وَإِنْ کُنْتَ قَطَعْتَ الْحَرْبَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُمْ فَاقْبِضْنِی إِلَیْکَ، قَالَتْ: فَانْفَجَرَ کَلْمُہُ، وَکَانَ قَدْ بَرِئَ حَتّٰی مَا یُرٰی مِنْہُ إِلَّا مِثْلُ الْخُرْصِ، وَرَجَعَ إِلٰی قُبَّتِہِ الَّتِی ضَرَبَ عَلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَحَضَرَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ، قَالَتْ: فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ، إِنِّی لَأَعْرِفُ بُکَائَ عُمَرَ مِنْ بُکَائِ أَبِی بَکْرٍ، وَأَنَا فِی حُجْرَتِی، وَکَانُوا کَمَا قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ} قَالَ عَلْقَمَۃُ: قُلْتُ: أَیْ أُمَّہْ! فَکَیْفَ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَصْنَعُ؟ قَالَتْ: کَانَتْ عَیْنُہُ لَا تَدْمَعُ عَلٰی أَحَدٍ وَلٰکِنَّہُ کَانَ إِذَا وَجِدَ فَإِنَّمَا ہُوَ آخِذٌ بِلِحْیَتِہِ۔ (مسند احمد: ۲۵۶۱۰)
یزید نے ہمیں بتلایا کہ ہمیں محمد بن عمر و نے اپنے والد سے اور انہوں نے اسے اس کے دادا علقمہ بن وقاص سے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بیان کیا کہ میں خندق والے دن لوگوں کے نقوش پا پر چلتی ہوئی روانہ ہوئی۔ مجھے اپنے پیچھے زمین پر کسیکے چلنے کی آہٹ سنائی دی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ سیدنا سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے اور ان کے ہمراہ ان کے برادر زادے سیدنا حارث بن اوس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ڈھال اُٹھائے ہوئے تھے۔ اُمّ المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں:انہیں دیکھ کر میں زمین پر بیٹھ گئی۔ سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ قریب سے گزرے تو میں نے دیکھا کہ انہوں نے لوہے کی ایک زرہ زیب تن کی ہوئی تھی۔ ان کے بازو اور ٹانگیں زرہ سے باہر تھیں مجھے سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ان اعضاء کے متعلق خدشہ ہوا کہ کہیں دشمن ان پر حملہ نہ کر دے۔ سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سب لوگوں سے طویل القامت تھے۔ وہ قریب سے گزرے تو یہ رجز پڑھتے جا رہے تھے: لَیتَ قَلیلًایُدْرِکُ الہَیْجَائَ جَمَلٌمَا اَحْسَنَ الموتَ اِذَا حَانَ الْاَجَلْ۔ …1 (کاش کہ اونٹ لڑائی میں اپنی قوت وبہادری کے کچھ جوہر دکھا ئے موت کتنی اچھی ہے جس کا وقت آجائے وہ تو آنی ہی ہے۔)اُمّ المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں: ان کے گزر جانے کے بعد میں اُٹھ کر ایک باغ میں چلی گئی۔ وہاں کچھ مسلمان موجود تھے، انہی میں عمربن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تھے۔ وہاں ایک آدمی تھا جس کے سر پر خود یعنی لوہے کی ٹوپی تھی ! شعر کے الفاظ کی تحقیق اور مفہوم کی وضاحت کے لیے دیکھیں مسند احمد محقق۔ ج: ۴۲، ص: ۲۷۔ ساتھ ہی اس نے لوہے کا حفاظتی سامان باندھا ہوا تھا جس سے گردن اور زرہ کے سامنے والے حصہ کو محفوظ کیا ہوا تھا۔مجھے دیکھ کر عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہنے لگے آپ کیوں آئی ہیں؟ مجھے اپنی زندگی کی قسم! اللہ کی قسم! آپ بڑی دلیر ہیں۔ کیا آپ اس بات سے نہیں ڈریں کہ کوئی پریشانی آسکتیہےیا شدید لڑائی ہو سکتی ہے یا دشمن گرفتار کر سکتا ہے؟ سیّدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں کہ وہ برابر مجھے سرزنش کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے تمنا کی کا کاش اسی وقت میرے لیے زمین پھٹ جائے اور میں اس میں چلی جاؤں۔ اس مسلح آدمی نے اپنے چہرے سے اوزار ہٹائے تو دیکھا کہ وہ طلحہ بن عبیداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، وہ بولے عمر! بڑے افسوس کی بات ہے۔ آپ نے آج بہت زیادتی کر ڈالی۔ کہاں ہے لڑائی اور اللہ تعالیٰ کے سوا فرار کس کی طرف ہو سکتا ہے؟ سیّدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں۔ وہ یہ بات کر ہی رہے تھے کہ ایک مشرک قریشی نے جس کا نام ابن العرقۃ تھا، نشانہ لے کر ان پر تیرچلا دیا۔ اور ساتھ ہی کہا میں ابن عرقہ ہوں، لے میری طرف سے یہ تیر،وہ تیر ان کے بازو کے اکحل نامی رگ پر آکر لگا۔ اور اسے کاٹ ڈالا۔ حضرت سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسی وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور کہا یا اللہ تو مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک تو بنو قریظہ کے بارے میں میری آنکھوں کو ٹھندا نہ کر دے۔ سیّدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں کہ بنو قریظہ جاہلیت کے دور میںیعنی قبل از اسلام ان کے حلیف اور ساتھی تھے، سیدہ اُمّ المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ ان کے زخم سے خون بہنے لگا، اللہ تعالیٰ نے مشرکین پر تیز آندھی بھیج دی اور اس نے لڑائی میں اہل ایمان کیکفایت کی، اللہ تعالیٰ بڑا ہی صاحب قوت اور سب پر غالب ہے۔ ابو سفیان اور اس کے ساتھی تہامہ کی طرف چلے گئے اور عیینہ بن بدر اور اس کے ساتھی نجد کی طرف چلے گئے اور بنو قریظہ واپس آکر اپنے قلعوں میں بند ہو گئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ کی طرف واپس آئے، ہتھیار اُٹھا کر رکھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے لیے مسجد میں چمڑے کا ایک خیمہ نصب کرنے کا حکم صادر فرمایا، اُمّ المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں کہ اسی دوران جبریل علیہ السلام نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے ان کے دانتوں پر ابھی غبار کے آثار تھے۔ انہوں نے کہا ( اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہتھیار اتار کر رکھ دئیے؟ اللہ کی قسم! فرشتوں نے تو ابھی تک ہتھیار نہیں اتارے۔ آپ بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوں اور ان سے قتال کریں۔ اُمّ المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہتھیار سجا لئے اور لوگوں کو (بنو قریظہ کی طرف) روانگی کا حکم دیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم روانہ ہوئے تو آپ بنو غنم کے پاس سے گزرے، وہ لوگ مسجد کے پڑوسی تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: ابھی تمہارے پاس سے کون گزر کر گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس سے دحیہ کلبی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ گزر کر گئے ہیں، دحیہ کلبی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی داڑھی، دانت اور چہرہ جبریل علیہ السلام سے مشابہت رکھتا تھا۔ اُمّ المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بنو قریظہ کی طرف تشریف لے گئے اور پچیس(۲۵) راتوں تک ان کا محاصرہ کیا۔ جب ان کا محاصرہ سخت اور ان کی مصیبت بھی فزوں ہوئی تو ان سے کہا گیا کہ تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فیصلہ پر راضی ہو جاؤ۔انہوں نے ابو لبابہ بن عبدالمندر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مشاورت کی تو انہوں نے اشارے سے ان کو بتلا دیا کہ وہ تو تمہیں ذبح، قتل، کریں گے بنو قریظہ نے کہا کہ ہم سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے فیصلہ پر راضی ہیں۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تم انہی کے فیصلہ کو تسلیم کر لو۔ انہوں نے بھی اس پر رضا مندی کا اظہار کر دیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیغامبھیج کر بلوایا۔ ان کو لایا گیا تو وہ گدھے پر سوار تھے جس پر کھجور کے پتوں کی بنی ہوئی کاٹھی تھی۔ انہیں گدھے پر سوار کیا گیا تھا اور ان کی قوم کے لوگ ان کے اردگرد تھے انہوں نے کہا اے بو عمرو ! وہ آپ کے حلیف اور دوست ہیں اور وہ بدعہدی بھی کر چکے ہیں ان کا مطلبیہ تھا کہ ذرا سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔ ان کے سارے احوال سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ وہ ان کی باتیں خاموشی سے سنتے آئے اور ان کی کسی بات کا انہیں جواب نہ دیا۔ اور نہ ہی ان کی طرف انہوں نے دیکھا۔ جب وہ بنو قریظہ کے گھروں کے قریب پہنچے تو اپنی قوم کی طرف رخ کر کے کہا اب مجھ پر ایسا موقعہ آیا ہے کہ میں اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہ کروں۔ابو سعید ( راوی) کہتے ہیں کہ سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنے سیّدیعنی سردار کی طرف اُٹھ کر جاؤ اور پکڑ کر انہیں گدھے سے اتار و،یہ سن کر عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہنے لگے کہ ہمارا سیّد ( مالک، آقا) تو اللہ ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انہیں اتارو، انہیں اتارو۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا تم ان کی بابت فیصلہ کرو۔ سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا میں ان کے متعلق یہ فیصلہ دیتا ہوں کہ ان میں سے جن لوگوں نے مسلمانوں سے قتال کیا انہیں قتل کر دیا جائے۔ اور ان کی اولادوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کے اموال بطور مالِ غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کر دئیے جائیں۔ ان کا فیصلہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تم نے ان کے متعلق ایسا فیصلہ دیا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے فیصلہ اور منشا کے عین مطابق ہے۔ اُمّ المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں پھر سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے دعا کییا اللہ ! اگر تیرے نبی اور قریش کے درمیان کوئی لڑائی ہونی باقی ہے تو مجھے اس لڑائی میں شرکت کے لیے زندہ رکھ اور اگر تیرے نبی اور قریش کے درمیان کوئی لڑائی ہونے والی نہیں تو مجھے اپنی طرف اُٹھا لے۔ ان کا زخم پھٹ گیا۔ حالانکہ وہ تقریباً ٹھیک ہو چکا تھا اور اس میں سے صرف ایک بالی، کان کے زیور کے بقدر زخمی باقی تھا۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے اس خیمہ کی طرف لوٹ آئے جو ان کے لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نصب کرایا تھا۔ اُمّ المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیّدنا ابوبکر اور سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے ہاں گئے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں اپنے کمرے میں ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دونوں کے رونے کی آوازوں کو الگ الگ شناخت کر رہی تھی۔ ان صحابہ کی آپس میں محبت ایسی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ {رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ} کہ یہ صحابہ آپس میں ایک دوسرے کے لیے از حد شفیق ومہربان ہیں۔ علقمہ کہتے ہیں میں نے دریافت کیا اماں جان! ایسے مواقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کس طرح کیا کرتے تھے؟ فرمایا ان کی آنکھیں کسی کی وفات پر آنسو نہیں بہاتی تھیں۔ لیکن جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غمگین ہوتے تو اپنی داڑھی مبارک کو ہاتھ میں پکڑ لیتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10772

۔ (۱۰۷۷۲)۔ عَنْ جَابِرٍ أَنَّہُ قَالَ: رُمِیَیَوْمَ الْأَحْزَابِ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَقَطَعُوا أَکْحَلَہُ، فَحَسَمَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالنَّارِ، فَانْتَفَخَتْ یَدُہُ فَحَسَمَہُ، فَانْتَفَخَتْ یَدُہُ فَحَسَمَہُ أُخْرٰی، فَانْتَفَخَتْ یَدُہُ فَنَزَفَہُ، فَلَمَّا رَأٰی ذٰلِکَ قَالَ: اللّٰہُمَّ لَا تُخْرِجْ نَفْسِی حَتّٰی تُقِرَّ عَیْنِی مِنْ بَنِی قُرَیْظَۃَ، فَاسْتَمْسَکَ عِرْقُہُ فَمَا قَطَرَ قَطْرَۃً حَتّٰی نَزَلُوا عَلٰی حُکْمِ سَعْدٍ فَأُرْسِلَ إِلَیْہِ، فَحَکَمَ أَنْ تُقْتَلَ رِجَالُہُمْ وَیُسْتَحْیَا نِسَاؤُہُمْ وَذَرَارِیُّہُمْ لِیَسْتَعِینَ بِہِمُ الْمُسْلِمُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَصَبْتَ حُکْمَ اللّٰہِ فِیہِمْ۔)) وَکَانُوا أَرْبَعَ مِائَۃٍ، فَلَمَّا فُرِغَ مِنْ قَتْلِہِمْ انْفَتَقَ عِرْقُہُ فَمَاتَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌۔ (مسند احمد: ۱۴۸۳۲)
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:غزوۂ احزاب کے موقع پر سیدنا سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ایک تیر لگا اور دشمن نے ان کے بازو کی اکحل رگ کاٹ ڈالی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خون روکنے کے لیے اسے آگ سے داغ دیا، لیکن اس سے ان کا بازو پھول گیا، اسے دوبارہ داغا تو وہ دوبارہ پھول گیا۔ اسے تیسری دفعہ داغا تو تب بھی وہ پھول گیا اور اس سے بہت زیادہ خون بہنے لگا۔ سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ کیفیت دیکھی تو دعا کی: یا اللہ مجھے اس وقت تک موت نہ آئے، جب تک کہ بنو قریظہ کے بارے میں میری آنکھیں ٹھنڈی نہ ہو جائیں، چنانچہ ان کی رگ کا خون بہنا بند ہو گیا اور اس سے اس وقت تک کوئی قطرۂ خون نہ نکلا، جب تک کہ وہ لوگ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے فیصلہ پر راضی نہ ہو گئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی طرف پیغام بھیج کر انہیں بلوایا تو انہوں نے فیصلہ دیا کہ ان کے مردوں کو قتل کر دیا جائے اور بچوں اور عورتوں کو زندہ رہنے دیا جائے تاکہ ان کے ذریعے مسلمان مدد حاصل کریں تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کے بارے میں تم نے اللہ کی پسند کا فیصلہ کیا ہے۔ بنو قریظہ کی تعداد چار سو تھی، جب ان کے قتل سے فارغ ہوئے تو سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رگ پھوٹ پڑی اور اس کے نتیجہ میں ان کی موت واقع ہوئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10773

۔ (۱۰۷۷۳)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ الْخَنْدَقِ، کُنْتُ أَنَا وَعُمَرُ بْنُ أَبِی سَلَمَۃَ فِی الْأُطُمِ الَّذِی فِیہِ نِسَائُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُطُمِ حَسَّانَ، فَکَانَ یَرْفَعُنِی وَأَرْفَعُہُ، فَإِذَا رَفَعَنِی عَرَفْتُ أَبِی حِینَیَمُرُّ إِلٰی بَنِی قُرَیْظَۃَ، وَکَانَ یُقَاتِلُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ الْخَنْدَقِ، فَقَالَ: مَنْ یَأْتِیبَنِی قُرَیْظَۃَ فَیُقَاتِلَہُمْ، فَقُلْتُ لَہُ حِینَ رَجَعَ: یَا أَبَتِ تَاللّٰہِ! إِنْ کُنْتُ لَأَعْرِفُکَ حِینَ تَمُرُّ ذَاہِبًا إِلٰی بَنِی قُرَیْظَۃَ، فَقَالَ: یَا بُنَیَّ أَمَا وَاللّٰہِ! إِنْ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیَجْمَعُ لِی أَبَوَیْہِ جَمِیعًایُفَدِّینِی بِہِمَا، یَقُولُ: ((فِدَاکَ أَبِی وَأُمِّیِِ۔))۔ (مسند احمد: ۱۴۰۹)
سیدنا عبداللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: غزوۂ خندق کے موقع پر میں اور سیدنا عمر بن ابی سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ حسان کے قلعوں میں سے اس قلعہ میں تھے، جہاں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ازواج مطہرات تھیں، وہ مجھے اور میں انہیں اوپر اُٹھاتا اور ہم باہر کے مناظر دیکھتے، جب اس نے مجھے اٹھایا تو میں نے اپنے والد کو پہچان لیا، وہ بنو قریظہ کی طرف جا رہے تھے اور وہ خندق والے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مل کر لڑ رہے تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کون ہے جو بنی قریظہ کی طرف جا کر ان سے قتال کرے؟ جب وہ واپس آئے تو میں نے عرض کیا: ابا جان اللہ کی قسم! جب آپ بنو قریظہ کی طرف جا رہے تھے تو میں آپ کو پہچان چکا تھا۔ انھوں نے کہا: بیٹا! اللہ کی قسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے داد اور دعا دیتے ہوئے یوں فرما رہے تھے کہ میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہو ں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10774

۔ (۱۰۷۷۴)۔ عَن جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ لَحَدَّثَنِی قَالَ: اشْتَدَّ الْأَمْرُ یَوْمَ الْخَنْدَقِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَلَا رَجُلٌ یَأْتِینَا بِخَبَرِ بَنِی قُرَیْظَۃَ؟)) فَانْطَلَقَ الزُّبَیْرُ فَجَائَ بِخَبَرِہِمْ، ثُمَّ اشْتَدَّ الْأَمْرُ أَیْضًا فَذَکَرَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ لِکُلِّ نَبِیٍّ حَوَارِیًّا وَابْنُ الزُّبَیْرِ حَوَارِیَّ۔))۔ (مسند احمد: ۱۴۴۲۸)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ غزوۂ خندق کے دن معاملہ سنگین ہو گیا اوررسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ہے: کوئی ایسا آدمی ہے، جو بنو قریظہ کی خبر لے کر آئے؟ سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ گئے اور ان کی خبریں لے کر آئے، پھر جب معاملہ سنگین ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر اسی طرح فرمایا، چنانچہ تین مرتبہ ایسے ہی ہوا، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر نبی کا ایک خاص آدمی ہوتا ہے اور زبیر میرا خاص آدمی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10775

۔ (۱۰۷۷۵)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: لَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ الْخَنْدَقِ، وَوَضَعَ السِّلَاحَ وَاغْتَسَلَ، فَأَتَاہُ جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَام وَعَلٰی رَأْسِہِ الْغُبَارُ، قَالَ: قَدْ وَضَعْتَ السِّلَاحَ، فَوَاللّٰہِ! مَا وَضَعْتُہَا اخْرُجْ إِلَیْہِمْ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((فَأَیْنَ؟)) قَالَ: ہَاہُنَا فَأَشَارَ إِلٰی بَنِی قُرَیْظَۃَ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَیْہِمْ، قَالَ ہِشَامٌ: فَأَخْبَرَنِی أَبِی: أَنَّہُمْ نَزَلُوا عَلٰی حُکْمِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَدَّ الْحُکْمَ فِیہِمْ إِلٰی سَعْدٍ، قَالَ: فَإِنِّی أَحْکُمُ أَنْ تُقَتَّلَ الْمُقَاتِلَۃُ وَتُسْبَی النِّسَائُ وَالذُّرِّیَّۃُ وَتُقَسَّمَ أَمْوَالُہُمْ، قَالَ ہِشَامٌ: قَالَ أَبِی: فَأُخْبِرْتُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَقَدْ حَکَمْتَ فِیہِمْ بِحُکْمِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔))۔ (مسند احمد: ۲۴۷۹۹)
سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب غزوۂ خندق سے واپس آئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہتھیار اتار کر غسل کیا تو جبریل علیہ السلام آپ کے پاس آئے، ان کے سر پر غبار تھا، انہوں نے کہا: کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہتھیار اتار دئیے؟ اللہ کی قسم میں نے تو ہتھیار نہیں اتارے ہیں، آپ بنو قریظہکی طرف روانہ ہوں۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ادھر روانہ ہو گئے۔ عروہ نے بیان کیا کہ بنو قریظہ کے لوگ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فیصلہ پر راضی ہو گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فیصلے کا اختیار سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دے دیا اور انہوں نے کہا: میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان میں سے لڑنے والوں کو قتل کر دیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کے اموال کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ یہ فیصلہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: ( اے سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) تو نے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ والا فیصلہ کیا ہے، یعنی ایسا فیصلہ کیا ہے جو اللہ کو بھی پسند اور منظور ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10776

۔ (۱۰۷۷۶)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: کَاَنَّیْ اَنْظُرُ إِلٰی غُبَارِ مَوْکِبِ جِبْرِیْلَ علیہ السلام سَاطِعًا فِیْ سِکَّۃِ بَنِیْ غَنَمٍ حِیْنَ سَارَ إِلٰی قُرَیْظَۃَ۔ (مسند احمد: ۱۳۲۶۲)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میں گویا کہ اس وقت بھی جبریل علیہ السلام کی سواری کا اُٹھنے والا غبار بنی غنم کی گلی میں آسمان کی طرف اُڑتا دیکھ رہا ہوں، جب وہ بنو قریظہ کی طرف جا رہے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10777

۔ (۱۰۷۷۷)۔ عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ قَالَتْ: لَمْ یَقْتُلْ مِنْ نِسَائِہِمْ إِلَّا امْرَأَۃً وَاحِدَۃً، قَالَتْ: وَاللّٰہِ! إِنَّہَا لَعِنْدِی تَحَدَّثُ مَعِی تَضْحَکُ ظَہْرًا وَبَطْنًا، وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقْتُلُ رِجَالَہُمْ بِالسُّوقِ إِذْ ہَتَفَ ہَاتِفٌ بِاسْمِہَا: أَیْنَ فُلَانَۃُ؟ قَالَتْ: أَنَا وَاللّٰہِ! قَالَتْ: قُلْتُ: وَیْلَکِ وَمَا لَکِ؟ قَالَتْ: أُقْتَلُ، قَالَتْ: قُلْتُ: وَلِمَ؟ قَالَتْ: حَدَثًا أَحْدَثْتُہُ، قَالَتْ: فَانْطُلِقَ بِہَا فَضُرِبَتْ عُنُقُہَا، وَکَانَتْ عَائِشَۃُ تَقُولُ: وَاللّٰہِ! مَا أَنْسٰی عَجَبِی مِنْ طِیبِ نَفْسِہَا وَکَثْرَۃِ ضِحْکِہَا، وَقَدْ عَرَفَتْ أَنَّہَا تُقْتَلُ۔ (مسند احمد: ۲۶۸۹۶)
سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ بنو قریظہ کی عورتوں میں سے صرف ایک عورت کو قتل کیا گیا، اللہ کی قسم وہ میرے پاس بیٹھی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہی تھی، جبکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بازار میں ان کے مردوں کو قتل کر رہے تھے، اچانک پکارنے والے نے اس کا نام لے کر پکارا تو وہ کہنے لگی: اللہ کی قسم! یہ تو میرے نام کی پکار ہے۔ میں نے کہا: تیرا بھلا ہو، تجھے کیا ہوا؟ وہ بولی: مجھے قتل کیا جائے گا۔ میں نے پوچھا: وہ کیوں؟ اس نے کہا: میں نے ایک جرم کیا تھا۔ اُمّ المؤمنین فرماتی ہیں: پس اسے لے جا کر اس کی گردن اُڑا دی گئی۔ سیّدہ کہا کرتی تھیں کہ اللہ کی قسم! مجھے اس کی خوش طبعی اور کثرت سے ہنسنا نہیں بھولتا، حالانکہ اسے معلوم تھا کہ اسے قتل کیا جانے والا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10778

۔ (۱۰۷۷۸)۔ حَدَّثَنَا بَہْزٌ وَحَدَّثَنَا ہَاشِمٌ قَالَا: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ عَنِ ثَابِتٍ عَنِ أَنَسٍ قَالَ: لَمَّا انْقَضَتْ عِدَّۃُ زَیْنَبَ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِزَیْدٍ: ((اذْہَبْ فَاذْکُرْہَا عَلَیَّ۔)) قَالَ: فَانْطَلَقَ حَتّٰی أَتَاہَا، قَالَ: وَہِیَ تُخَمِّرُ عَجِینَہَا، فَلَمَّا رَأَیْتُہَا عَظُمَتْ فِی صَدْرِی حَتّٰی مَا أَسْتَطِیعُ أَنْ أَنْظُرَ إِلَیْہَا أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَکَرَہَا، فَوَلَّیْتُہَا ظَہْرِی وَرَکَضْتُ عَلٰی عَقِبَیَّ، فَقُلْتُ: یَا زَیْنَبُ! أَبْشِرِی أَرْسَلَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَذْکُرُکِ، قَالَتْ: مَا أَنَا بِصَانِعَۃٍ شَیْئًا حَتّٰی أُؤَامِرَ رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ، فَقَامَتْ إِلَی مَسْجِدِہَا، وَنَزَلَ یَعْنِی الْقُرْآنَ وَجَائَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَخَلَ عَلَیْہَا بِغَیْرِ إِذْنٍ، قَالَ: وَلَقَدْ رَأَیْتُنَا أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَطْعَمَنَا الْخُبْزَ وَاللَّحْمَ، قَالَ ہَاشِمٌ: حِینَ عَرَفْتُ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَطَبَہَا، قَالَ ہَاشِمٌ فِی حَدِیثِہِ: لَقَدْ رَأَیْتُنَا حِینَ أُدْخِلَتْ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُطْعِمْنَا الْخُبْزَ وَاللَّحْم،َ فَخَرَجَ النَّاسُ وَبَقِیَ رِجَالٌ یَتَحَدَّثُونَ فِی الْبَیْتِ بَعْدَ الطَّعَامِ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاتَّبَعْتُہُ فَجَعَلَ یَتَتَبَّعُ حُجَرَ نِسَائِہِ فَجَعَلَ یُسَلِّمُ عَلَیْہِنَّ، وَیَقُلْنَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! کَیْفَ وَجَدْتَ أَہْلَکَ؟ قَالَ: فَمَا أَدْرِی أَنَا أَخْبَرْتُہُ أَنَّ الْقَوْمَ قَدْ خَرَجُوا أَوْ أُخْبِرَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ حَتّٰی دَخَلَ الْبَیْتَ، فَذَہَبْتُ أَدْخُلُ مَعَہُ فَأَلْقَی السِّتْرَ بَیْنِی وَبَیْنَہُ، وَنَزَلَ الْحِجَابُ، قَالَ: وَوُعِظَ الْقَوْمُ بِمَا وُعِظُوا بِہِ، قَالَ ہَاشِمٌ فِی حَدِیثِہِ: {لَا تَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلَّا أَنْ یُؤْذَنَ لَکُمْ إِلٰی طَعَامٍ غَیْرَ نَاظِرِینَ إِنَاہُ … … وَلَا مُسْتَأْنِسِینَ لِحَدِیثٍ إِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیِی مِنْکُمْ وَاللّٰہُ لَا یَسْتَحْیِی مِنَ الْحَقِّ}۔ (مسند احمد: ۱۳۰۵۶)
انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب سیّدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی عدت پوری ہوئی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: تم جا کر ان کو میری طرف سے نکاح کا پیغام دو۔ وہ ان کے ہاں گئے، وہ اس وقت آٹا گوندھ رہی تھیں۔ زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں میں نے ان کو دیکھا تو میرے سینے میں ان کا اس قدر عظیم مقام محسوس ہوا کہ مجھ میں ان کی طرف دیکھنے کی جرأت نہ ہو سکی، کیونکہ ان کو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی زوجہ بنانے کے ارادہ سے یاد فرمایا تھا، سو میں نے اپنی پشت ان کی طرف پھیری اور اپنی ایڑیوں پر پیچھے کو مڑا اور میں نے کہا: زینب! تمہیں خوش خبری ہو کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بھیجا ہے، وہ تمہیں اپنی بیوی بنانے کے لیےیاد کرتے ہیں۔ وہ بولیں میں جب تک اپنے رب سے مشورہ نہ کر لوں، اس وقت تک میں کوئی بات نہیں کروں گی۔ اس کے بعد وہ اپنے گھر میں نماز کے لیے مقرر کردہ جگہ پر کھڑی ہوئیں۔ اسی دوران قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ہاں بلا اجازت ہی چلے آئے۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں گوشت روٹی کھلائی۔ امام احمد کے شیخ ہاشم یوں بیان کرتے ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ کھانا دیا، تب مجھے علم ہوا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو نکاح کا پیغام دیا ہے۔ ہاشم اپنی حدیث میںیوں بھی بیان کرتے ہیں کہ جب سیّدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بھیجا گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں گوشت روٹی کھلائی، لوگ کھانا کھا کر چلے گئے تو کچھ لوگ کھانے کے بعد وہیں گھر میں بیٹھے باتوں میں مصروف ہو گئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھر سے باہر جا کر اپنی ازواج کے حجروں میں چکر لگانے لگے، میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہر حجرہ میں جا کر اپنی ازواج کو سلام کہتے اور وہ دریافت کرتیں: اے اللہ کے رسول! آپ نے اپنی بیوی کو کیسا پایا، سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں کہ میں نے آپ کو بتلایایا کسی نے آکر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اطلاع دی کہ لوگ چلے گئے ہیں، تب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے گھر میں آئے، میں بھی اندر جانے لگا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے اور میرے درمیان پردہ لٹکا دیا اور حجاب کا حکم نازل ہوا۔ اور لوگوں کو خوب نصیحت کی گئی۔ امام احمد کے شیخ ہاشم نے اپنی حدیث میں بیان کیا کہ یہاں حجاب کے حکم سے یہ آیات مراد ہیں: {لَا تَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلَّا أَنْ یُؤْذَنَ لَکُمْ إِلٰی طَعَامٍ غَیْرَ نَاظِرِینَ إِنَاہُ … … وَلَا مُسْتَأْنِسِینَ لِحَدِیثٍ إِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیِی مِنْکُمْ وَاللّٰہُ لَا یَسْتَحْیِی مِنَ الْحَقِّ…}… ایمان والو! تم نبی کے گھروں میں بلا اجازت داخل نہ ہوا کرو۔ الا یہ کہ تمہیں کھانے کے لئے بلایا جائے تو ایسے وقت جایا کرو کہ تمہیں اس کے پکنے کی انتظار نہ کرنی پڑے۔لیکن جب تمہیں بلایا جائے تب جاؤ اور کھانا کھا چکنے کے بعد وہاں سے آجاؤ اور وہاں بیٹھ کر باتوں میں مصروف نہ ہو جاؤ۔ بے شک تمہارایہ عمل نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایذا دیتا ہے اور وہ تم سے جھجکتا ہے۔ اس لئے تمہیں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ اور اللہ تو حق بات کہنے سے نہیں جھجکتا۔ اور جب تم نبی کی ازواج سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔ یہ حکم تمہارے اور ان کے دلوں کو شیطانی وساوس سے پاک کرنے کے لیے ہے۔ اور تمہیںیہ زیبا نہیں کہ تم اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایذاء پہنچاؤ۔ اور نہ تم اس کے بعد اس کی ازواج سے کبھی نکاح کر سکتے ہو۔ اللہ کے نزدیکیہ بہت بڑا ہے۔ (سورۂ احزاب: ۵۳)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10779

۔ (۱۰۷۷۹)۔ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ صُہَیْبٍ قَالَ: سَمِعْتُ اَنَسَ بْنَ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یَقُوْلُ: مَا اَوْلَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی امْرَاَۃٍ مِنْ نِسَائِہِ اَکْثَرَ وَاَفْضَلَ مِمَّا اَوْلَمَ عَلٰی زَیْنَبِ، فَقَالَ ثَابِتُ الْبَنَانِیُّ: فَمَا اَوْلَمَ؟ قَالَ: اَطْعَمَہُمْ خُبْزًا وَلَحْمًا حَتّٰی تَرَکُوْہٗ۔ (مسنداحمد: ۱۲۷۸۹)
عبدالعزیز بن صہیب سے مروی ہے کہ میں نے انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جیسا ولیمہ اُمّ المؤمنین سیّدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے نکاح کے بعد کیا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایسا ولیمہ دوسری کسی زوجہ کے موقع پر نہیں کیا۔ ثابت بنانی نے پوچھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کس چیز کا ولیمہ کیاتھا؟ انھوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کو اس قدر روٹی گوشت کھلایا کہ لوگوں نے سیر ہو کر کھایا، تب بھی وہ باقی چھوڑآئے یعنی کھانا بچ گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10780

۔ (۱۰۷۸۰)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ ثَابِتٍ عَنْ اَنَسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَوْلَمَ عَلَی امْرَاَۃٍ مِنْ نِسَائِہِ مَا اَوْلَمَ عَلٰی زَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، قَالَ: فَاَوْلَمَ بِشَاۃٍ اَوْ ذَبَحَ شَاۃً۔ (مسند احمد: ۱۳۴۱۱)
۔( دوسری سند) سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جس قدر ولیمہ سیّدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے شادی کرنے کے موقع پر کیا تھا، میں نے نہیں دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کسی دوسری زوجہ کے موقع پر ایسا ولیمہ کیا ہو، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک بکری ذبح کر کے ولیمہ کیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10781

۔ (۱۰۷۸۱)۔ عن حُمَیْدٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: أَوْلَمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِزَیْنَبَ فَأَشْبَعَ الْمُسْلِمِینَ خُبْزًا وَلَحْمًا، ثُمَّ خَرَجَ کَمَا کَانَ یَصْنَعُ، إِذَا تَزَوَّجَ فَیَأْتِی حُجَرَ أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِینَ فَیُسَلِّمُ عَلَیْہِنَّ وَیَدْعُو لَہُنَّ وَیُسَلِّمْنَ عَلَیْہِ وَیَدْعُونَ لَہُ، ثُمَّ رَجَعَ وَأَنَا مَعَہُ فَلَمَّا انْتَہٰی إِلَی الْبَابِ إِذَا رَجُلَانِ قَدْ جَرٰی بَیْنَہُمَا الْحَدِیثُ فِی نَاحِیَۃِ الْبَیْتِ، فَلَمَّا أَبْصَرَہُمَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انْصَرَفَ، فَلَمَّا رَأَی الرَّجُلَانِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ رَجَعَ وَثَبَا فَزِعَیْنِ فَخَرَجَا، فَلَا أَدْرِی أَنَا أَخْبَرْتُہُ أَوْ مَنْ أَخْبَرَہُ، فَرَجَعَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۳۱۰۳)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اُمّ المؤمنین سیّدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے تزویج کے موقع پر ولیمہ کیا اورمسلمانوں کو سیر کر کے روٹی گوشت کھلایا، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے معمول کے مطابق باہر نکلے، جیسے آپ قبل ازیں شادی کر کے باہر جایا کرتے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم امہات المؤمنین کے حجروں میں جا کر انہیں سلام کہتے، ان کے حق میں دعا کرتے اور جواباً وہ بھی آپ کو سلام کہتیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حق میں دعا کرتیں، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس تشریف لائے، میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دروازے کے قریب پہنچے تو گھر کے اندر دو آدمی ابھی تک محوِ گفتگو تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو دیکھا تو واپس لوٹ آئے، ان دونوں نے جب دیکھا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس تشریف لے گئے ہیں۔ تو وہ جلدی سے گھبرا کر اُٹھے اور چلے گئے، مجھے یاد نہیں کہ میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلایایا کسی دوسرے نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اطلاع دی (کہ وہ آدمی بھی چلے گئے ہیں)، تب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس آئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10782

۔ (۱۰۷۸۲)۔ عَنْ اَنَسٍ قَالَ: کَانَتْ زَیْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ تَفْخَرُ عَلٰی نِسَائِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَقُوْلُ: اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ اَنْکَحَنِیْ مِنَ السَّمَائِ۔ (مسند احمد: ۱۳۳۹۴)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ اُمّ المؤمنین سیّدہ زینب بنت جحش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا دیگر ازواج پر بطور فخر کہا کرتی تھیں:میرا نکاح آسمان سے اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10783

۔ (۱۰۷۸۳)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَیْلًا قِبَلَ نَجْدٍ، فَجَائَ تْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِی حَنِیفَۃَ ثُمَامَۃُ بْنُ أُثَالٍ سَیِّدُ أَہْلِ الْیَمَامَۃِ، فَرَبَطُوہُ بِسَارِیَۃٍ مِنْ سَوَارِی الْمَسْجِدِ، فَخَرَجَ إِلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ لَہُ: ((مَاذَا عِنْدَکَ؟ یَا ثُمَامَۃُ!)) قَالَ: عِنْدِییَا مُحَمَّدُ! خَیْرٌ، إِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلٰی شَاکِرٍ، وَإِنْ کُنْتَ تُرِیدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْہُ مَا شِئْتَ، فَتَرَکَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی إِذَا کَانَ الْغَدُ، قَالَ لَہُ: ((مَا عِنْدَکَ؟ یَا ثُمَامَۃُ!)) قَالَ: مَا قُلْتُ لَکَ: إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلٰی شَاکِرٍ، وَإِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ کُنْتَ تُرِیدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْہُ مَا شِئْتَ، فَتَرَکَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی کَانَ بَعْدَ الْغَدِ، فَقَالَ: ((مَا عِنْدَکَ؟ یَا ثُمَامَۃُ!)) فَقَالَ: عِنْدِی مَا قُلْتُ لَکَ: إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلٰی شَاکِرٍ وَإِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ کُنْتَ تُرِیدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْہُ مَا شِئْتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((انْطَلِقُوا بِثُمَامَۃَ۔)) فَانْطَلَقُوا بِہِ إِلَی نَخْلٍ قَرِیبٍ مِنْ الْمَسْجِدِ، فَاغْتَسَلَ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَقَالَ: أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰہِ، یَا مُحَمَّدُ! وَاللّٰہِ، مَا کَانَ عَلٰی وَجْہِ الْأَرْضِ أَبْغَضَ إِلَیَّ مِنْ وَجْہِکَ، فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْہُکَ أَحَبَّ الْوُجُوہِ کُلِّہَا إِلَیَّ، وَاللّٰہِ! مَا کَانَ مِنْ دِینٍ أَبْغَضَ إِلَیَّ مِنْ دِینِکَ، فَأَصْبَحَ دِینُکَ أَحَبَّ الْأَدْیَانِ إِلَیَّ، وَاللّٰہِ! مَا کَانَ مِنْ بَلَدٍ أَبْغَضَ إِلَیَّ مِنْ بَلَدِکَ فَأَصْبَحَ بَلَدُکَ أَحَبَّ الْبِلَادِ إِلَیَّ، وَإِنَّ خَیْلَکَ أَخَذَتْنِی وَإِنِّی أُرِیدُ الْعُمْرَۃَ فَمَاذَا تَرٰی؟ فَبَشَّرَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَمَرَہُ أَنْ یَعْتَمِرَ فَلَمَّا قَدِمَ مَکَّۃَ،قَالَ لَہُ قَائِلٌ: صَبَأْتَ؟ فَقَالَ: لَا، وَلٰکِنْ أَسْلَمْتُ مَعَ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَا وَاللّٰہِ! لَا یَأْتِیکُمْ مِنَ الْیَمَامَۃِ حَبَّۃُ حِنْطَۃٍ حَتّٰییَأْذَنَ فِیہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۹۸۳۲)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نجد کی طرف ایک گھڑسوار لشکر روانہ کیا، وہ قبیلہ بنو حنیفہ کے ایک شخص ثمامہ بن اثال کو گرفتار کر لائے، جو اہل ِ یمامہ کا سردار تھا۔ مسلمانوں نے اسے مسجد کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے دریافت فرمایا: ثمامہ! کیا پروگرام ہے؟ اس نے کہا: اے محمد! اچھا پروگرام ہے، اگر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے قتل کیا تو یہ نہ سمجھنا کہ میں معمولی آدمی ہوں، بلکہ میری قوم میرے خون کا بدلہ لے کر چھوڑے گی اور اگر آپ مجھ پر احسان کریں اور چھوڑ دیں تو میں آپ کا شکر گزار ہوں گا، اگر آپ کو مال کی ضرورت ہو تو فرمائیں جو مانگیں گے آپ کو دے دیا جائے گا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے چھوڑ دیا، دوسرے دن پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: ثمامہ! کیا پروگرام ہے؟ اس نے کہا: وہی جو میں آپ سے قبل ازیں کہہ چکا ہوں، اگر آپ احسان کریں گے تو آپ ایک شکر گزار پر احسان کریں گے اور اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو میرا خون معمولی نہیں، میری قوم بدلہ لے کر رہے گی اور اگر آپ کو مال کی ضرورت ہے تو مانگیں آپ جتنا مال چاہیں گے آپ کو دے دیا جائے گا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے اس کے حال پر رہنے دیا۔ تیسرا دن ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: ثمامہ! کیا پروگرام ہے؟ اس نے کہا: میرا پروگرام وہی ہے، جو قبل ازیں آپ سے کہہ چکا ہوں۔ اگر آپ مجھ پر احسان کریں تو آپ ایک شکر گزار پر احسان کریں گے، یعنی میں آپ کا احسان مند اور شکر گزار رہوں گا۔اور اگر آپ نے مجھے قتل کر دیا تو آپ ایک معزز کو قتل کریں گے، جس کی قوم آپ سے بدلہ لے کر رہے گی اور اگر آپ کو مال ودولت چاہیے تو فرمائیں، آپ جو چاہیں گے آپ کو دے دیا جائے گا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ثمامہ کو لے جاؤ۔ صحابہ کرام ثمامہ کو مسجد کے قریب کھجوروں کے ایک باغ میں لے گئے، اس نے غسل کیا اور مسجد میں آکر کہنے لگا : أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہ۔ِ اے محمد! اللہ کی قسم! میرے نزدیک روئے زمین پر آپ کے چہرے سے زیادہ ناپسند کوئی چہرہ نہ تھا، اب آپ کا چہرہ انور مجھے تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب وپسند ہے۔ اللہ کی قسم ! مجھے آپ کے دین سے زیادہ ناپسند دوسرا کوئی دین نہ تھا، اب آپ کا دین مجھے تمام ادیان سے بڑھ کر محبوب وپسند ہے۔ اللہ کی قسم! دنیا کا کوئی شہر مجھے آپ کے شہر سے زیادہ ناپسند نہ تھا، اب آپ کا شہر مجھے تمام شہروں سے بڑھ کر محبوب وپسند ہے۔ آپ کے گھڑ سوار لشکر نے مجھے پکڑ لیا تھا۔میں تو عمرہ کے لیے جا رہا تھا، اب آپ کا کیا ارشاد ہے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے خوش خبری دی اور اسے حکم دیا کہ وہ عمرہ کرے، وہ جب مکہ پہنچا تو کسی کہنے والے نے اس سے کہا: کیا تم بے دین ہو گئے ہو؟ انھوں نے کہا: نہیں میں بے دین نہیںہوا، بلکہ میں تو محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر مسلمان ہوا ہوں۔ اللہ کی قسم! تمہارے پاس یمامہ سے گندم کا ایک بھی دانہ نہیں آئے گا، جب تک اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10784

۔ (۱۰۷۸۴)۔ عَنْ أَبِیْ عَیَّاشٍ الزُّرَقِی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِعُسْفَانَ فَاسْتَقْبَلَنَا الْمُشْرِکُوْنَ عَلَیْہٖمْ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیْدِ وَہُمْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقِبْلَۃِ فَصَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الظُّہْرَ فَقَالُوْا: قَدْ کَانُوْا عَلٰی حَالٍ لَوْ أَصَبْنَا غِرَّتَہُمْ، قَالُوْا: تَأْتِیْ عَلَیْہِمُ الْآنَ صَلَاۃٌ ہِیَ أَحَبُّ إِلَیْہِمْ مِنْ أَبْنَائِہِمْ وَأَنْفُسِہِمْ، ثُمَّ قَالَ: فَنَزَلَ جِبْرَئِیْلَ عَلَیْہِ السَّلَامِ بِہٰذِہِ الْآیَاتِ بَیْنَ الظَّہْرِ وَالْعَصْرِ {وَاِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَأَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلَاۃَ …} قَالَ: فَحَضَرَتْ فَأَمَرَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأخَذُوْا السَّلَاحَ، قَالَ: فَصَفَفْنَا خَلْفَہُ صَفَّیْنِ، قَالَ: ثُمَّ رَکَعَ فَرَکَعْنَا جَمِیْعًا، ثُمَّ رَفَعَ فَرَفَعْنَا جَمِیْعًا، ثُمَّ سَجَدَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالصَّفِّ الَّذِیْیَلِیْہِ وَالآخَرُوْنَ قِیَامٌیحرُسُوْنَھُمْ فَلَمَّا سَجَدُو وَقَامُوْا جَلَسَ اْلآخَرُوْنَ فَسَجَدُوْا فِی مَکَانِھِمْ ثُمَّ تَقَدَّمَ ھٰؤُلَائِ إِلٰی مَصَافِّ ھٰؤُلَائِ وَجَائَ ھٰؤُلَائِ إِلٰی مَصَافِّ ھٰؤُلَائِ، قَالَ: ثُمَّ رَکَعَ فَرَکَعُوا جَمِیْعًا، ثُمَّ رَفَعَ فَرَفَعُوْا جَمِیْعًا، ثُمَّ سَجَدَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالصَّفُّ الَّذِییَلِیْہِ، وَالآخَرُوْنََ قِیَامٌیَحْرُسُوْنَھُمْ، فَلَمَّا جَلَسَ جَلَسَ الآخَرُوْنَ فَسَجَدُوْ فَسَلَّمَ عَلَیْھِمْ ثُمَّ انْصَرَفَ، قَالَ: فَصَلَّاھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہِ وَسَلَّمَ مَرَّتَیْنِ، مَرَّۃً بِعُسْفَانَ، وَمَرَّۃً بَأَرْضِ بَنِی سُلَیْم۔ (مسند احمد: ۱۶۶۹۶)
سیّدنا ابو عیاش زرقی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ عسفان کے مقام پر تھے، مشرکین ہمارے مدمقابل آ گئے، ان کی قیادت خالد بن ولید کر رہے تھے، وہ لوگ ہمارے اور قبلہ کے درمیان تھے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں ظہر کی نماز پڑھائی، وہ لوگ آپس میں کہنے لگے:یہ مسلمان نماز میں مشغول تھے، کاش کہ ہم ان کی غفلت سے فائدہ اٹھا لیتے۔ پھر انھوں نے کہا: ابھی کچھ دیر بعد ان کی ایک اور نماز کاوقت ہونے والا ہے، وہ ان کو اپنی جانوں اور اولادوں سے بھی زیادہ عزیز ہے۔اسی وقت ظہر اور عصر کے درمیان جبریل علیہ السلام یہ آیات لے کر نازل ہوئے: {وَاِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَأَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلٰوۃَ فَلْتَقُمْ طَائِفَۃٌ مِّنْہُمْ مَّعَکَ وَلْیَأْخُذُوْا اَسْلِحَتَہُمْ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَّرَائِکُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَۃٌ أُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ} … جب تم ان میں ہو اور ان کے لیے نماز کھڑی کرو تو چاہیے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لیے کھڑی ہو، پھر جب یہ سجدہ کر چکیں تو یہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آ جائیں اور وہ دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی وہ آ جائے اور تیرے ساتھ نماز ادا کرے۔ (النسائ: ۱۰۲)جب عصر کاوقت ہوا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم دیا کہ صحابہ کرام اسلحہ لے کر کھڑے ہوں، ہم نے آپ کے پیچھے دو صفیں بنا لیں، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رکوع کیا تو ہم سب نے رکوع کیا اور جب آپ رکوع سے اٹھے تو ہم بھی اٹھ گئے۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سجدہ کیا تو صرف آپ کے پیچھے والی پہلی صف والوں نے سجدہ کیا اور دوسری صف والے کھڑے ہو کر پہرہ دیتے رہے۔ جب وہ لوگ سجدے کرکے کھڑے ہوئے تو دوسری صف والوں نے بیٹھ کر اپنی اپنی جگہ سجدہ کیا، پھر (دوسری رکعت کے شروع میں) اگلی صف والے پیچھے اور پچھلی صف والے آگے آگئے۔ پھر اسی طرح سب نمازیوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ رکوع کیا اور رکوع سے سر اٹھایا، پھر جب آپ نے سجدہ کیا تو پہلی صف والوں نے آپ کے ساتھ سجدہ کیا اور دوسری صف والے کھڑے ہو کر پہرہ دیتے رہے، جب آپ اور پہلی صف والے لوگ سجدہ کرکے بیٹھ گئے تو دوسری صف والوں نے بیٹھ کر سجدہ کر لیا (اور سب تشہد میں بیٹھ گئے، پھر) سب نے مل کر سلام پھیر ا اور نماز سے فارغ ہوئے۔رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس انداز میں دو دفعہ نماز پڑھائی، ایک دفعہ عسفان میں اور دوسری دفعہ بنو سلیم کے علاقہ میں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10785

۔ (۱۰۷۸۵)۔ عَنْ أَبِی ہُرَْیرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌َٔنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَزَلَ بَیْنَ ضَجْنَانَ وَعُسْفَانَ فَقَالَ الْمُشْرِکُوْنَ: إِنَّ لَہُمْ صَلَاۃً ہِیَ أَحَبُّ إِلَیْہِمْ مِنْ آبَائِہِمْ وَاَبْنَائِہِمْ وَہِیَ الْعََصْرِ، فَأَجْمِعُوْا أَمْرَکُمْ فَمِیْلُوْا عَلَیْہِمْ مَیْلَۃً وَاحِدَۃً، وَأِنَّ جِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلَامُ أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَمَرَہُ أَنْ یَقْسِمَ أَصْحَابَہٗشَطْرَیْنِ فَیُصَلِّیَ بِبَعْضِہِمْ، وَتَقُوْمُ الطَّائِفَۃُ اْلأُخْرٰی وَرَائَ ہُمْ، وَلْیَأْخُذُوا حِذْرَہُمْ وَأَسْلِحَتَہُمْ، ثُمَّ تَأْتِیْ الأُخْرٰی فَیُصَلُّوْنَ مَعَہُ وَیَأْخُذُ ہٰؤُلَائِ حِذْرَہُمْ وَأَسْلِحَتَہُمْ لِتَکُوْنَ لَہُمْ رَکْعَۃٌ رَکْعَۃٌ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَکْعَتَانِ۔ (مسند احمد: ۱۰۷۷۵)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ضجنان اور عسفان کے درمیان پڑاؤ ڈالا۔ مشرکین نے کہا:مسلمانوں کو عصر کی نماز اپنے آباء و اجداد اور اولادسے بھی بڑھ کر محبوب ہے۔ تیاری مکمل کر لو، ان پر یکدم حملہ کرناہے۔ اُدھر جبریل علیہ السلام نے آ کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو حکم دیا کہ آپ اپنے صحابہ کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیں، ایک گروہ کو نماز پڑھائیں اوردوسرا گروہ ان کے پیچھے اپنی بچاؤ کی چیزیں اور اسلحہ پکڑ کر کھڑا ہو جائے، پھر وہ دوسرا گروہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نماز پڑھے اور یہ گروہ اپنی بچاؤ کی چیزیں اور اسلحہ پکڑ لے، اس طرح لوگوں کی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک ایک رکعت ہو جائے گی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دو رکعتیں ہو جائیں گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10786

۔ (۱۰۷۸۶)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَزْوَۃِ ذَاتِ الرِّقَاعِ، فَأُصِیبَتِ امْرَأَۃٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَافِلًا، وَجَائَ زَوْجُہَا وَکَانَ غَائِبًا، فَحَلَفَ أَنْ لَایَنْتَہِیَ حَتّٰییُہْرِیقَ دَمًا فِی أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَخَرَجَ یَتْبَعُ أَثَرَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَزَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَنْزِلًا، فَقَالَ: ((مَنْ رَجُلٌ یَکْلَؤُنَا لَیْلَتَنَا ہٰذِہِ؟)) فَانْتَدَبَ رَجُلٌ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَرَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَا: نَحْنُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((فَکُونُوا بِفَمِ الشِّعْبِ۔)) قَالَ: وَکَانُوا نَزَلُوا إِلٰی شِعْبٍ مِنَ الْوَادِی، فَلَمَّا خَرَجَ الرَّجُلَانِ إِلَی فَمِ الشِّعْبِ، قَالَ الْأَنْصَارِیُّ لِلْمُہَاجِرِیِّ: أَیُّ اللَّیْلِ أَحَبُّ إِلَیْکَ أَنْ أَکْفِیَکَہُ أَوَّلَہُ أَوْ آخِرَہُ؟ قَالَ: اکْفِنِی أَوَّلَہُ، فَاضْطَجَعَ الْمُہَاجِرِیُّ فَنَامَ، وَقَامَ الْأَنْصَارِیُّیُصَلِّی، وَأَتَی الرَّجُلُ، فَلَمَّا رَأٰی شَخْصَ الرَّجُلِ، عَرَفَ أَنَّہُ رَبِیئَۃُ الْقَوْمِ، فَرَمَاہُ بِسَہْمٍ فَوَضَعَہُ فِیہِ فَنَزَعَہُ فَوَضَعَہُ وَثَبَتَ قَائِمًا، ثُمَّ رَمَاہُ بِسَہْمٍ آخَرَ فَوَضَعَہُ فِیہِ فَنَزَعَہُ فَوَضَعَہُ وَثَبَتَ قَائِمًا، ثُمَّ عَادَ لَہُ بِثَالِثٍ فَوَضَعَہُ فِیہِ فَنَزَعَہُ فَوَضَعَہُ ثُمَّ رَکَعَ وَسَجَدَ ثُمَّ أَہَبَّ صَاحِبَہُ، فَقَالَ: اجْلِسْ فَقَدْ أُتِیتَ، فَوَثَبَ فَلَمَّا رَآہُمَا الرَّجُلُ عَرَفَ أَنْ قَدْ نَذَرُوا بِہِ فَہَرَبَ، فَلَمَّا رَأَی الْمُہَاجِرِیُّ مَا بِالْأَنْصَارِیِّ مِنَ الدِّمَائِ قَالَ: سُبْحَانَ اللّٰہِ! أَلَا أَہْبَبْتَنِی؟ قَالَ: کُنْتُ فِی سُورَۃٍ أَقْرَؤُہَا فَلَمْ أُحِبَّ أَنْ أَقْطَعَہَا حَتّٰی أُنْفِذَہَا، فَلَمَّا تَابَعَ الرَّمْیَ رَکَعْتُ فَأُرِیتُکَ، وَایْمُ اللّٰہِ! لَوْلَا أَنْ أُضَیِّعَ ثَغْرًا أَمَرَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِحِفْظِہِ، لَقَطَعَ نَفْسِی قَبْلَ أَنْ أَقْطَعَہَا أَوْ أُنْفِذَہَا۔ (مسند احمد: ۱۴۷۶۰)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ہم غزوۂ ذاتِ رقاع میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے، اس دوران مشرکین کی ایک عورت مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو گئی، جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس لوٹے تو اس عورت کا شوہر جو اس وقت موجود نہ تھا، وہ آچکا تھا، اس نے قسم اُٹھائی کہ وہ اپنی کارروائی سے اس وقت تک باز نہ آئے گا جب تک کہ اصحابِ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میں قتل وغارت نہ کر دے، چنانچہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پیچھا کرنے لگا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کون ہے جو ہمارا پہرہ دے گا؟ ایک مہاجر اور ایک انصاری کا نام لیا گیا،ان دونوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم پہرہ دیں گے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم گھاٹی کے سامنے رہنا۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: صحابہ کرام نے وادی کی ایک جانب میں نزول کیا تھا، جب یہ دونوں آدمی گھاٹی کی طرف گئے تو انصاری نے مہاجر ساتھی سے کہا: تمہیں رات کا اول حصہ پسند ہے یا آخری، تاکہ میں اس حصے میں تمہاری طرف سے پہرہ دوں اور تم آرام کر لو۔ اس نے کہا: تم رات کے اول حصہ میں ڈیوٹی دو، چنانچہ مہاجر لیٹ گیا اور اسے نیند آگئی اور انصاری کھڑا ہو کر نماز میں مشغول ہو گیا، وہ دشمن آیا اس نے دور سے ایک آدمی کا وجود دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ ضرور ان کا نگران ہے، اس نے تیر مارا تیر آکر انصاری کو لگا۔ اس نے ( نماز کے دوران ہی) تیر کو نکال کر رکھ دیا اور کھڑا نماز پڑھتا رہا، دشمن نے دوسرا تیر مارا، وہ بھی آ کر لگا، اس نے اسے نکال کر رکھ دیا اور نماز میں مشغول رہا، دشمن نے اسے تیسرا تیر مارا، وہ بھی آ لگا، اس نے اسے بھی نکال کر رکھ دیا۔ اس کے بعد رکوع اور سجدے کئے اور ( نماز سے فارغ ہو کر) اپنے ساتھی کو بیدار کیا اور کہا اُٹھ کر بیٹھو دشمن آگیا ہے۔ وہ جلدی سے اُٹھا دشمن نے ان دو آدمیوں کو دیکھا تو جان گیا کہ وہ سنبھل گئے ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ بھاگ گیا، مہاجر نے انصاری کو لہولہان دیکھا تو کہا: سبحان اللہ! تم نے مجھے شروع ہی میں بیدار کیوں نہ کر دیا؟ انصاری نے کہا: میں ایک سورت شروع کر چکا تھا، میں نے اسے ادھورا چھوڑنا مناسب نہ سمجھا، جب پے در پے تیر آئے، تب میں نے جلدی سے رکوع کیا۔ ( اور نماز مکمل کی) اور تمہیں آگاہ کیا۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے ذمہ جو اس طرف سے پہرہ کی ذمہ داری لگائی تھی اس میں کوتاہی کا اندیشہ نہ ہوتا تو میرے اس سورت کو مکمل کرنے سے پہلے میری جان چلی جاتی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10787

۔ (۱۰۷۸۷)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: قَاتَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُحَارِبَ خَصَفَۃَ بِنَخْلٍ فَرَأَوْا مِنَ الْمُسْلِمِینَ غِرَّۃً، فَجَائَ رَجُلٌ مِنْہُمْ یُقَالُ لَہُ غَوْرَثُ بْنُ الْحَارِثِ حَتّٰی قَامَ عَلٰی رَأْسِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالسَّیْفِ، فَقَالَ: مَنْ یَمْنَعُکَ مِنِّی؟ قَالَ: ((اَللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ۔)) فَسَقَطَ السَّیْفُ مِنْ یَدِہِ، فَأَخَذَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((مَنْ یَمْنَعُکَ مِنِّی؟)) قَالَ: کُنْ کَخَیْرِ آخِذٍ، قَالَ: ((أَتَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ؟)) قَالَ: لَا وَلٰکِنِّی أُعَاہِدُکَ أَنْ لَا أُقَاتِلَکَ وَلَا أَکُونَ مَعَ قَوْمٍ یُقَاتِلُونَکَ، فَخَلّٰی سَبِیلَہُ، قَالَ: فَذَہَبَ إِلٰی أَصْحَابِہِ، قَالَ: قَدْ جِئْتُکُمْ مِنْ عِنْدِ خَیْرِ النَّاسِ، فَلَمَّا کَانَ الظُّہْرُ أَوْ الْعَصْرُ صَلَّی بِہِمْ صَلَاۃَ الْخَوْفِ، فَکَانَ النَّاسُ طَائِفَتَیْنِ طَائِفَۃً بِإِزَائِ عَدُوِّہِمْ وَطَائِفَۃً صَلَّوْا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَصَلّٰی بِالطَّائِفَۃِ الَّذِینَکَانُوا مَعَہُ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ انْصَرَفُوا فَکَانُوا مَکَانَ أُولٰئِکَ الَّذِینَ کَانُوا بِإِزَائِ عَدُوِّہِمْ، وَجَائَ أُولَئِکَ فَصَلّٰی بِہِمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَکْعَتَیْنِ، فَکَانَ لِلْقَوْمِ رَکْعَتَانِ رَکْعَتَانِ، وَلِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَرْبَعُ رَکَعَاتٍ۔ (مسند احمد: ۱۴۹۹۱)
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خصفہ بن قیس بن عیلان بن الیاس بن مضر کے ساتھ نخل کے مقام پر لڑائی ہوئی، وہ لوگ مسلمانوں سے بدلہ لینے کی تاک میں رہتے تھے، اس قبیلہ کا غورث بن حارث نامی ایک شخص تھا، وہ تلوار لئے اچانک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب پہنچ گیا اور کہنے لگا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ بچائے گا۔ پس تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تلوار اُٹھالی اور فرمایا: اب تجھے مجھ سے کون بچائے گا؟ اس نے کہا: آپ اس آدمی کا ساسلوک کریں، جو غالب آکر اچھا سلوک کرتا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تو اللہ کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، البتہ میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ میں نہ تو خود آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے قتال کروں گا اور نہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے لڑنے والوں کا ساتھ دوں گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے چھوڑ دیا، وہ اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور ان سے کہامیں تمہارے پاس ایک ایسے آدمی کے پاس سے آ رہا ہوں ،جو لوگوں میں سب سے اچھا ہے، چنانچہ جب ظہر یا عصر کی نماز کا وقت ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ کو نمازِ خوف پڑھائی، صحابۂ کرام کے دو حصے ہو گئے، ایک گروہ دشمن کے سامنے کھڑا رہا اور ایک گروہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نماز ادا کی، جو لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو دو رکعات پڑھائیں، وہ لوگ دو رکعات پڑھ کر ان لوگوں کی جگہ چلے گئے، جو دشمن کے سامنے تھے اور وہ لوگ آئے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو بھی دو رکعات پڑھائیں، اس طرح لوگوں کی دو دو رکعات اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چار رکعات ہوئیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10788

۔ (۱۰۷۸۸)۔ عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتِ بْنِ جُبَیْرِ عَمَّنْ صَلّٰی مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ ذَاتِ الرِّقَاعِ صَلَاۃَ الْخَوْفِ أَنَّ طَائِفَۃً صَفَّتْ مَعَہُ وَطَائِفَۃً وِجَاہَ الْعَدُوِّ فَصَلّٰی بِالَّتِی مَعَہُ رَکْعَۃً، ثُمَّ ثَبَتَ قَائِمًا وَأَتَمُّوالِأَنْفُسِہِمْ ثُمَّ انْصَرَفُوْا فَصَفُّوْا وِجَاہَ الْعَدُوِّ وَجَائَ تِ الطَّائِفَۃُ اْلأُخْرٰی فَصَلّٰی بِہِمُ الرَّکْعَۃَ الَّتِی بَقِیَتْ مِنْ صَلَاتِہِ، ثُمَّ ثَبَتَ جَالِسًا وَاتَٔمُّوْا لِأَنْفُسِہِمْ ثُمَّ سَلَّمَ، قَالَ مَالِکٌ وَہٰذَا أَحَبُّ مَا سَمِعْتُ إِلَیَّ فِی صَلَاۃِ الْخَوْفِ۔ (مسند احمد: ۲۳۵۲۴)
صالح بن خوات ایسے صحابی سے بیان کرتے ہیں، جس نے ذات الرقاع والے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نمازِ خوف پڑھی تھی، اس نے بیان کیا کہ ایک گروہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ صف بنالی اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے رہا۔ جو لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں ایک رکعت پڑھائی، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس قدر کھڑے رہے کہ ان لوگوں نے خود دوسری رکعت ادا کر لی اور پھر چلے گئے اور دشمن کے سامنے صف بستہ ہو گئے، دوسرا گروہ آیا اور انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی باقی ماندہ رکعت پڑھی، پھر آپ بیٹھے رہے، یہاں تک کہ یہ لوگ دوسری رکعت ادا کرکے (تشہد میں بیٹھ گئے) پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سلام پھیرا۔ امام مالک ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌کہتے ہیں:نماز خوف کییہ صورت مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10789

۔ (۱۰۷۸۹)۔ عَنْ مَعْمَرٍ قَالَ الزُّہْرِیُّ: أَخْبَرَنِی عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ، یُصَدِّقُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا حَدِیثَ صَاحِبِہِ، قَالَا: خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زَمَانَ الْحُدَیْبِیَۃِ فِی بِضْعَ عَشْرَۃَ مِائَۃً مِنْ أَصْحَابِہِ حَتّٰی إِذَا کَانُوا بِذِی الْحُلَیْفَۃِ قَلَّدَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْہَدْیَ وَأَشْعَرَہُ وَأَحْرَمَ بِالْعُمْرَۃِ وَبَعَثَ بَیْنَیَدَیْہِ عَیْنًا لَہُ مِنْ خُزَاعَۃَیُخْبِرُہُ عَنْ قُرَیْشٍ، وَسَارَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی إِذَا کَانَ بِغَدِیرِ الْأَشْطَاطِ قَرِیبٌ مِنْ عُسْفَانَ أَتَاہُ عَیْنُہُ الْخُزَاعِیُّ، فَقَالَ: إِنِّی قَدْ تَرَکْتُ کَعْبَ بْنَ لُؤَیٍّ وَعَامِرَ بْنَ لُؤَیٍّ قَدْ جَمَعُوا لَکَ الْأَحَابِشَ، وَجَمَعُوا لَکَ جُمُوعًا، وَہُمْ مُقَاتِلُوکَ وَصَادُّوکَ عَنِ الْبَیْتِ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَشِیرُوا عَلَیَّ أَتَرَوْنَ أَنْ نَمِیلَ إِلٰی ذَرَارِیِّ ہٰؤُلَائِ الَّذِینَ أَعَانُوہُمْ فَنُصِیبَہُمْ، فَإِنْ قَعَدُوا قَعَدُوا مَوْتُورِینَ مَحْرُوبِینَ وَإِنْ نَجَوْا، وَقَالَ یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ: مَحْزُونِینَ وَإِنْ یَحْنُونَ، تَکُنْ عُنُقًا قَطَعَہَا اللَّہُ، أَوْ تَرَوْنَ أَنْ نَؤُمَّ الْبَیْتَ، فَمَنْ صَدَّنَا عَنْہُ قَاتَلْنَاہُ۔)) فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: اَللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! إِنَّمَا جِئْنَا مُعْتَمِرِینَ وَلَمْ نَجِئْ نُقَاتِلُ أَحَدًا، وَلٰکِنْ مَنْ حَالَ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْبَیْتِ قَاتَلْنَاہُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((فَرُوحُوا إِذًا۔)) قَالَ الزُّہْرِیُّ: وَکَانَ أَبُو ہُرَیْرَۃَیَقُولُ: مَا رَأَیْتُ أَحَدًا قَطُّ کَانَ أَکْثَرَ مَشُورَۃً لِأَصْحَابِہِ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ الزُّہْرِیُّ فِی حَدِیثِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ، وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ: فَرَاحُوا حَتّٰی إِذَا کَانُوا بِبَعْضِ الطَّرِیقِ: قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ بِالْغَمِیمِ فِی خَیْلٍ لِقُرَیْشٍ طَلِیعَۃً، فَخُذُوا ذَاتَ الْیَمِینِ۔)) فَوَاللّٰہِ! مَا شَعَرَ بِہِمْ خَالِدٌ حَتّٰی إِذَا ہُوَ بِقَتَرَۃِ الْجَیْشِ فَانْطَلَقَ یَرْکُضُ نَذِیرًا لِقُرَیْشٍ، وَسَارَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی إِذَا کَانَ بِالثَّنِیَّۃِ الَّتِییَہْبِطُ عَلَیْہِمْ مِنْہَا بَرَکَتْ بِہِ رَاحِلَتُہُ، وَقَالَ یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ: بَرَکَتْ بِہَا رَاحِلَتُہُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((حَلْ حَلْ۔)) فَأَلَحَّتْ فَقَالُوا: خَلَأَتِ الْقَصْوَائُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا خَلَأَتِ الْقَصْوَائُ وَمَا ذَاکَ لَہَا بِخُلُقٍ وَلٰکِنْ حَبَسَہَا حَابِسُ الْفِیلِ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَا یَسْأَلُونِّی خُطَّۃًیُعَظِّمُونَ فِیہَا حُرُمَاتِ اللّٰہِ إِلَّا أَعْطَیْتُہُمْ إِیَّاہَا۔)) ثُمَّ زَجَرَہَا فَوَثَبَتْ بِہِ، قَالَ: فَعَدَلَ عَنْہَا حَتّٰی نَزَلَ بِأَقْصَی الْحُدَیْبِیَۃِ عَلٰی ثَمَدٍ قَلِیلِ الْمَائِ، إِنَّمَا یَتَبَرَّضُہُ النَّاسُ تَبَرُّضًا فَلَمْ یَلْبَثْہُ النَّاسُ أَنْ نَزَحُوہُ، فَشُکِیَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْعَطَشُ فَانْتَزَعَ سَہْمًا مِنْ کِنَانَتِہِ، ثُمَّ أَمَرَہُمْ أَنْ یَجْعَلُوہُ فِیہِ، قَالَ: فَوَاللّٰہِ! مَا زَالَ یَجِیشُ لَہُمْ بِالرِّیِّ حَتّٰی صَدَرُوا عَنْہُ، قَالَ: فَبَیْنَمَا ہُمْ کَذَلِکَ إِذْ جَائَ بُدَیْلُ بْنُ وَرْقَائَ الْخُزَاعِیُّ فِی نَفَرٍ مِنْ قَوْمِہِ، وَکَانُوا عَیْبَۃَ نُصْحٍ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ أَہْلِ تِہَامَۃَ، وَقَالَ: إِنِّی تَرَکْتُ کَعْبَ بْنَ لُؤَیٍّ وَعَامِرَ بْنَ لُؤَیٍّ نَزَلُوا أَعْدَادَ مِیَاہِ الْحُدَیْبِیَۃِ مَعَہُمْ الْعُوذُ الْمَطَافِیلُ وَہُمْ مُقَاتِلُوکَ وَصَادُّوکَ عَنِ الْبَیْتِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّا لَمْ نَجِئْ لِقِتَالِ أَحَدٍ وَلٰکِنَّا جِئْنَا مُعْتَمِرِینَ، وَإِنَّ قُرَیْشًا قَدْ نَہَکَتْہُمُ الْحَرْبُ فَأَضَرَّتْ بِہِمْ، فَإِنْ شَائُ وا مَادَدْتُہُمْ مُدَّۃً وَیُخَلُّوا بَیْنِی وَبَیْنَ النَّاسِ، فَإِنْ أَظْہَرْ فَإِنْ شَائُ وْا أَنْ یَدْخُلُوا فِیمَا دَخَلَ فِیہِ النَّاسُ فَعَلُوا وَإِلَّا فَقَدْ جَمُّوْ وَإِنْ ہُمْ أَبَوْا، وَإِلَّا فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَأُقَاتِلَنَّہُمْ عَلٰی أَمْرِی ہٰذَا حَتّٰی تَنْفَرِدَ سَالِفَتِی، أَوْ لَیُنْفِذَنَّ اللّٰہُ أَمْرَہُ۔)) قَالَ یَحْیٰی عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ: ((حَتّٰی تَنْفَرِدَ، قَالَ: فَإِنْ شَائُ وْا مَادَدْنَاہُمْ مُدَّۃً۔))، قَالَ بُدَیْلٌ: سَأُبَلِّغُہُمْ مَا تَقُولُ، فَانْطَلَقَ حَتّٰی أَتٰی قُرَیْشًا فَقَالَ، إِنَّا قَدْ جِئْنَاکُمْ مِنْ عِنْدِ ہٰذَا الرَّجُلِ وَسَمِعْنَاہُ یَقُولُ قَوْلًا فَإِنْ شِئْتُمْ نَعْرِضُہُ عَلَیْکُمْ، فَقَالَ سُفَہَاؤُہُمْ: لَا حَاجَۃَ لَنَا فِی أَنْ تُحَدِّثَنَا عَنْہُ بِشَیْئٍ،وَقَالَ ذُو الرَّأْیِ مِنْہُمْ: ہَاتِ مَا سَمِعْتَہُ یَقُولُ، قَالَ: قَدْ سَمِعْتُہُ یَقُولُ: کَذَا وَکَذَا، فَحَدَّثَہُمْ بِمَا قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَامَ عُرْوَۃُ بْنُ مَسْعُودٍ الثَّقَفِیُّ فَقَالَ: أَیْ قَوْمُ! أَلَسْتُمْ بِالْوَلَدِ؟ قَالُوا: بَلٰی! قَالَ: أَوَلَسْتُ بِالْوَالِدِ؟ قَالُوا: بَلٰی! قَالَ: فَہَلْ تَتَّہِمُونِی، قَالُوْا: لَا، قَالَ: أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّی اسْتَنْفَرْتُ أَہْلَ عُکَاظٍ فَلَمَّا بَلَّحُوا عَلَیَّ جِئْتُکُمْ بِأَہْلِی وَمَنْ أَطَاعَنِی؟ قَالُوا: بَلٰی! فَقَالَ: إِنَّ ہٰذَا قَدْ عَرَضَ عَلَیْکُمْ خُطَّۃَ رُشْدٍ فَاقْبَلُوہَا وَدَعُونِی آتِہِ، فَقَالُوْا: ائْتِہِ فَأَتَاہُ، قَالَ: فَجَعَلَ یُکَلِّمُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ لَہُ نَحْوًا مِنْ قَوْلِہِ لِبُدَیْلٍ، فَقَالَ عُرْوَۃُ عِنْدَ ذٰلِکَ: أَیْ مُحَمَّدُ! أَرَأَیْتَ إِنْ اسْتَأْصَلْتَ قَوْمَکَ، ہَلْ سَمِعْتَ بِأَحَدٍ مِنَ الْعَرَبِ اجْتَاحَ أَہْلَہُ قَبْلَکَ، وَإِنْ تَکُنِ الْأُخْرٰی فَوَاللّٰہِ! إِنِّی لَأَرٰی وُجُوہًا وَأَرٰی أَوْبَاشًا مِنَ النَّاسِ خُلُقًا أَنْ یَفِرُّوا وَیَدَعُوکَ، فَقَالَ لَہُ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: امْصُصْ بَظْرَ اللَّاتِ، نَحْنُ نَفِرُّ عَنْہُ وَنَدَعُہُ فَقَالَ: مَنْ ذَا؟ قَالُوا: أَبُو بَکْرٍ، قَالَ: أَمَا وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْلَا یَدٌ کَانَتْ لَکَ عِنْدِی، لَمْ أَجْزِکَ بِہَا لَأَجَبْتُکَ، وَجَعَلَ یُکَلِّمُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکُلَّمَا کَلَّمَہُ أَخَذَ بِلِحْیَتِہِ، وَالْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ قَائِمٌ عَلٰی رَأْسِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَعَہُ السَّیْفُ وَعَلَیْہِ الْمِغْفَرُ، وَکُلَّمَا أَہْوٰی عُرْوَۃُ بِیَدِہِ إِلَی لِحْیَۃِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ضَرَبَ یَدَہُ بِنَصْلِ السَّیْفِ، وَقَالَ: أَخِّرْ یَدَکَ عَنْ لِحْیَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَفَعَ عُرْوَۃُیَدَہُ فَقَالَ: مَنْ ہٰذَا؟ قَالُوا: الْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ، قَالَ: أَیْ غُدَرُ أَوَلَسْتُ أَسْعٰی فِی غَدْرَتِکَ؟ وَکَانَ الْمُغِیرَۃُ صَحِبَ قَوْمًا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ فَقَتَلَہُمْ وَأَخَذَ أَمْوَالَہُمْ ثُمَّ جَائَ فَأَسْلَمَ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَمَّا الْإِسْلَامُ فَأَقْبَلُ وَأَمَّا الْمَالُ فَلَسْتُ مِنْہُ فِی شَیْئٍ۔)) ثُمَّ إِنَّ عُرْوَۃَ جَعَلَ یَرْمُقُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِعَیْنِہِ قَالَ: فَوَاللّٰہِ! مَا تَنَخَّمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نُخَامَۃً إِلَّا وَقَعَتْ فِی کَفِّ رَجُلٍ مِنْہُمْ فَدَلَکَ بِہَا وَجْہَہُ وَجِلْدَہُ، وَإِذَا أَمَرَہُمْ ابْتَدَرُوْا أَمْرَہُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوا یَقْتَتِلُونَ عَلٰی وَضُوئِہِ، وَإِذَا تَکَلَّمُوا خَفَضُوا أَصْوَاتَہُمْ عِنْدَہُ، وَمَا یُحِدُّونَ إِلَیْہِ النَّظَرَ تَعْظِیمًا لَہُ، فَرَجَعَ إِلٰی أَصْحَابِہِ، فَقَالَ: أَیْ قَوْمِ، وَاللّٰہِ! لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَی الْمُلُوکِ، وَوَفَدْتُ عَلٰی قَیْصَرَ وَکِسْرٰی وَالنَّجَاشِیِّ، وَاللّٰہِ! إِنْ رَأَیْتُ مَلِکًا قَطُّ یُعَظِّمُہُ أَصْحَابُہُ مَا یُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ مُحَمَّدًا ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاللّٰہِ! إِنْ یَتَنَخَّمُ نُخَامَۃً إِلَّا وَقَعَتْ فِی کَفِّ رَجُلٍ مِنْہُمْ فَدَلَکَ بِہَا وَجْہَہُ وَجِلْدَہُ، وَإِذَا أَمَرَہُمْ ابْتَدَرُوْا أَمْرَہُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوا یَقْتَتِلُونَ عَلٰی وَضُوئِہِ، وَإِذَا تَکَلَّمُوا خَفَضُوا أَصْوَاتَہُمْ عِنْدَہُ، وَمَا یُحِدُّونَ إِلَیْہِ النَّظَرَ تَعْظِیمًا لَہُ، وَإِنَّہُ قَدْ عَرَضَ عَلَیْکُمْ خُطَّۃَ رُشْدٍ فَاقْبَلُوہَا، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی کِنَانَۃَ: دَعُونِی آتِہِ، فَقَالُوْا: ائْتِہِ، فَلَمَّا أَشْرَفَ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابِہِ، قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((ہٰذَا فُلَانٌ وَہُوَ مِنْ قَوْمٍ یُعَظِّمُونَ الْبُدْنَ فَابْعَثُوْہَا لَہُ۔)) فَبُعِثَتْ لَہُ وَاسْتَقْبَلَہُ الْقَوْمُ یُلَبُّونَ، فَلَمَّا رَأٰی ذٰلِکَ قَالَ: سُبْحَانَ اللّٰہِ! مَا یَنْبَغِی لِہٰؤُلَائِ أَنْ یُصَدُّوْا عَنِ الْبَیْتِ، قَالَ: فَلَمَّا رَجَعَ إِلٰی أَصْحَابِہِ، قَالَ: رَأَیْتُ الْبُدْنَ قَدْ قُلِّدَتْ وَأُشْعِرَتْ، فَلَمْ أَرَ أَنْ یُصَدُّوا عَنِ الْبَیْتِ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْہُمْ یُقَالُ لَہُ: مِکْرَزُ بْنُ حَفْصٍ، فَقَالَ: دَعُونِی آتِہِ، فَقَالُوْا: ائْتِہِ، فَلَمَّا أَشْرَفَ عَلَیْہِمْ، قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((ہٰذَا مِکْرَزٌ وَہُوَ رَجُلٌ فَاجِرٌ۔)) فَجَعَلَ یُکَلِّمُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَبَیْنَا ہُوَ یُکَلِّمُہُ إِذْ جَائَہُ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ مَعْمَرٌ: وَأَخْبَرَنِیأَیُّوبُ عَنْ عِکْرِمَۃَ: أَنَّہُ لَمَّا جَائَ سُہَیْلٌ، قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((سَہُلَ مِنْ أَمْرِکُمْ۔)) قَالَ الزُّہْرِیُّ فِی حَدِیثِہِ: فَجَائَ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو فَقَالَ: ہَاتِ اکْتُبْ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ کِتَابًا، فَدَعَا الْکَاتِبَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اکْتُبْ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ۔)) فَقَالَ سُہَیْلٌ: أَمَّا الرَّحْمَنُ، فَوَاللّٰہِ! مَا أَدْرِی مَا ہُوَ؟ وَقَالَ ابْنُ الْمُبَارَکِ: مَا ہُوَ؟ وَلَکِنْ اکْتُبْ بِاسْمِکَ اللَّہُمَّ کَمَا کُنْتَ تَکْتُبُ، فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ: وَاللّٰہِ! مَا نَکْتُبُہَا إِلَّا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اکْتُبْ بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ۔)) ثُمَّ قَالَ: ہٰذَا مَا قَاضٰی عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ، فَقَالَ سُہَیْلٌ: وَاللّٰہِ! لَوْ کُنَّا نَعْلَمُ أَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ مَا صَدَدْنَاکَ عَنِ الْبَیْتِ وَلَا قَاتَلْنَاکَ، وَلٰکِنْ اکْتُبْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((وَاللّٰہِ! إِنِّی لَرَسُولُ اللّٰہِ وَإِنْ کَذَّبْتُمُونِی، اکْتُبْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ۔)) قَالَ الزُّہْرِیُّ: وَذٰلِکَ لِقَوْلِہِ لَایَسْأَلُونِّی خُطَّۃًیُعَظِّمُونَ فِیہَا حُرُمَاتِ اللّٰہِ إِلَّا أَعْطَیْتُہُمْ إِیَّاہَا، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((عَلٰی أَنْ تُخَلُّوا بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْبَیْتِ فَنَطُوفَ بِہِ۔)) فَقَالَ سُہَیْلٌ: وَاللّٰہِ! لَا تَتَحَدَّثُ الْعَرَبُ أَنَّا أُخِذْنَا ضُغْطَۃً وَلٰکِنْ لَکَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ فَکَتَبَ، فَقَالَ سُہَیْلٌ: عَلٰی أَنَّہُ لَا یَأْتِیکَ مِنَّا رَجُلٌ وَإِنْ کَانَ عَلٰی دِینِکَ إِلَّا رَدَدْتَہُ إِلَیْنَا، فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ: سُبْحَانَ اللّٰہِ! کَیْفَیُرَدُّ إِلَی الْمُشْرِکِینَ وَقَدْ جَائَ مُسْلِمًا؟ فَبَیْنَا ہُمْ کَذٰلِکَ إِذْ جَائَ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُہَیْلِ بْنِ عَمْرٍو یَرْسُفُ وَقَالَ یَحْیٰی عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ: یَرْصُفُ فِی قُیُودِہِ وَقَدْ خَرَجَ مِنْ أَسْفَلِ مَکَّۃَ حَتّٰی رَمٰی بِنَفْسِہِ بَیْنَ أَظْہُرِ الْمُسْلِمِینَ، فَقَالَ سُہَیْلٌ: ہٰذَا یَا مُحَمَّدُ! أَوَّلُ مَا أُقَاضِیکَ عَلَیْہِ أَنْ تَرُدَّہُ إِلَیَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّا لَمْ نَقْضِ الْکِتَابَ بَعْدُ۔)) قَالَ: فَوَاللّٰہِ! إِذًا لَا نُصَالِحُکَ عَلٰی شَیْئٍ أَبَدًا، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((فَأَجِزْہُ لِی۔)) قَالَ: مَا أَنَا بِمُجِیرِہِ لَکَ قَالَ: بَلَی، فَافْعَلْ، قَالَ: مَا أَنَا بِفَاعِلٍ، قَالَ مِکْرَزٌ: بَلٰی، قَدْ أَجَزْنَاہُ لَکَ، فَقَالَ أَبُو جَنْدَلٍ: أَیْ مَعَاشِرَ الْمُسْلِمِینَ أُرَدُّ إِلَی الْمُشْرِکِینَ، وَقَدْ جِئْتُ مُسْلِمًا أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ لَقِیتُ، وَکَانَ قَدْ عُذِّبَ عَذَابًا شَدِیدًا فِی اللّٰہِ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالَی عَنْہُ: فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ أَلَسْتَ نَبِیَّ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((بَلٰی۔)) قُلْتُ: أَلَسْنَا عَلَی الْحَقِّ؟ وَعَدُوُّنَا عَلَی الْبَاطِلِ؟ قَالَ: ((بَلٰی۔)) قُلْتُ: فَلِمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا إِذًا؟ قَالَ: ((إِنِّی رَسُولُ اللّٰہِ وَلَسْتُ أَعْصِیہِ وَہُوَ نَاصِرِی۔)) قُلْتُ: أَوَلَسْتَ کُنْتَ تُحَدِّثُنَا أَنَّا سَنَأْتِی الْبَیْتَ فَنَطُوفُ بِہِ؟ قَالَ: ((بَلٰی۔)) قَالَ: ((أَفَأَخْبَرْتُکَ أَنَّکَ تَأْتِیہِ الْعَامَ؟)) قُلْتُ: لَا، قَالَ: ((فَإِنَّکَ آتِیہِ وَمُتَطَوِّفٌ بِہِ۔)) قَالَ: فَأَتَیْتُ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، فَقُلْتُ: یَا أَبَا بَکْرٍ! أَلَیْسَ ہٰذَا نَبِیُّ اللّٰہِ حَقًّا؟ قَالَ: بَلٰی، قُلْتُ: أَلَسْنَا عَلَی الْحَقِّ وَعَدُوُّنَا عَلَی الْبَاطِلِ؟ قَالَ: بَلٰی، قُلْتُ: فَلِمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا إِذًا؟ قَالَ: أَیُّہَا الرَّجُلُ! إِنَّہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَیْسَیَعْصِیرَبَّہُ عَزَّ وَجَلَّ وَہُوَ نَاصِرُہُ فَاسْتَمْسِکْ، وَقَالَ یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ: بِغَرْزِہِ، وَقَالَ: تَطَوَّفْ بِغَرْزِہِ حَتّٰی تَمُوتَ فَوَاللّٰہِ! إِنَّہُ لَعَلَی الْحَقِّ، قُلْتُ: أَوَلَیْسَ کَانَ یُحَدِّثُنَا أَنَّا سَنَأْتِی الْبَیْتَ وَنَطُوفُ بِہِ؟ قَالَ: ((بَلٰی۔)) قَالَ: أَفَأَخْبَرَکَ أَنَّہُ یَأْتِیہِ الْعَامَ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ فَإِنَّکَ آتِیہِ وَمُتَطَوِّفٌ بِہِ، قَالَ الزُّہْرِیُّ: قَالَ عُمَرُ: فَعَمِلْتُ لِذَلِکَ أَعْمَالًا، قَالَ: فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَضِیَّۃِ الْکِتَابِ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِأَصْحَابِہِ: ((قُومُوْا فَانْحَرُوا ثُمَّ احْلِقُوا۔)) قَالَ: فَوَاللّٰہِ! مَا قَامَ مِنْہُمْ رَجُلٌ حَتّٰی قَالَ ذٰلِکَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا لَمْ یَقُمْ مِنْہُمْ أَحَدٌ قَامَ فَدَخَلَ عَلٰی أُمِّ سَلَمَۃَ فَذَکَرَ لَہَا مَا لَقِیَ مِنَ النَّاسِ، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَتُحِبُّ ذٰلِکَ اخْرُجْ ثُمَّ لَا تُکَلِّمْ أَحَدًا مِنْہُمْ کَلِمَۃً حَتّٰی تَنْحَرَ بُدْنَکَ وَتَدْعُوَ حَالِقَکَ فَیَحْلِقَکَ، فَقَامَ فَخَرَجَ فَلَمْ یُکَلِّمْ أَحَدًا مِنْہُمْ حَتّٰی فَعَلَ ذٰلِکَ نَحَرَ ہَدْیَہُ وَدَعَا حَالِقَہُ، فَلَمَّا رَأَوْا ذٰلِکَ قَامُوا فَنَحَرُوا وَجَعَلَ بَعْضُہُمْ یَحْلِقُ بَعْضًا، حَتّٰی کَادَ بَعْضُہُمْ یَقْتُلُ بَعْضًا غَمًّا، ثُمَّ جَائَہُ نِسْوَۃٌ مُؤْمِنَاتٌ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا جَاء َکُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ حَتّٰی بَلَغَ بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ} قَالَ: فَطَلَّقَ عُمَرُ یَوْمَئِذٍ امْرَأَتَیْنِ کَانَتَا لَہُ فِی الشِّرْکِ، فَتَزَوَّجَ إِحْدَاہُمَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ أَبِی سُفْیَانَ، وَالْأُخْرٰی صَفْوَانُ بْنُ أُمَیَّۃَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَی الْمَدِینَۃِ فَجَائَہُ أَبُو بَصِیرٍ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ وَہُوَ مُسْلِمٌ، وَقَالَ یَحْیٰی عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ: فَقَدِمَ عَلَیْہِ أَبُو بَصِیرِ بْنُ أُسَیْدٍ الثَّقَفِیُّ مُسْلِمًا مُہَاجِرًا، فَاسْتَأْجَرَ الْأَخْنَسُ بْنُ شَرِیقٍ رَجُلًا کَافِرًا مِنْ بَنِی عَامِرِ بْنِ لُؤَیٍّ، وَمَوْلًی مَعَہُ وَکَتَبَ مَعَہُمَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَسْأَلُہُ الْوَفَائَ فَأَرْسَلُوْا فِی طَلَبِہِ رَجُلَیْنِ، فَقَالُوْا: الْعَہْدَ الَّذِی جَعَلْتَ لَنَا فِیہِ، فَدَفَعَہُ إِلَی الرَّجُلَیْنِ فَخَرَجَا بِہِ حَتَّی بَلَغَا بِہِ ذَا الْحُلَیْفَۃِ فَنَزَلُوْا یَأْکُلُونَ مِنْ تَمْرٍ لَہُمْ، فَقَالَ أَبُو بَصِیرٍ لِأَحَدِ الرَّجُلَیْنِ: وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأَرٰی سَیْفَکَیَا فُلَانُ ہٰذَا جَیِّدًا، فَاسْتَلَّہُ الْآخَرُ، فَقَالَ: أَجَلْ وَاللّٰہِ! إِنَّہُ لَجَیِّدٌ لَقَدْ جَرَّبْتُ بِہِ ثُمَّ جَرَّبْتُ، فَقَالَ أَبُو بَصِیرٍ: أَرِنِی أَنْظُرْ إِلَیْہِ، فَأَمْکَنَہُ مِنْہُ فَضَرَبَہُ حَتّٰی بَرَدَ وَفَرَّ الْآخَرُ حَتّٰی أَتَی الْمَدِینَۃَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ یَعْدُو، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَقَدْ رَأٰی ہٰذَا ذُعْرًا۔)) فَلَمَّا انْتَہٰی إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قُتِلَ وَاللّٰہِ! صَاحِبِی وَإِنِّی لَمَقْتُولٌ، فَجَائَ أَبُو بَصِیرٍ، فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! قَدْ وَاللّٰہِ! أَوْفَی اللّٰہُ ذِمَّتَکَ قَدْ رَدَدْتَنِی إِلَیْہِمْ ثُمَّ أَنْجَانِی اللّٰہُ مِنْہُمْ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((وَیْلُ أُمِّہِ مِسْعَرُ حَرْبٍ لَوْ کَانَ لَہُ أَحَدٌ۔)) فَلَمَّا سَمِعَ ذٰلِکَ عَرَفَ أَنَّہُ سَیَرُدُّہُ إِلَیْہِمْ فَخَرَجَ حَتّٰی أَتٰی سِیفَ الْبَحْرِ، قَالَ: وَیَتَفَلَّتُ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُہَیْلٍ فَلَحِقَ بِأَبِی بَصِیرٍ، فَجَعَلَ لَا یَخْرُجُ مِنْ قُرَیْشٍ رَجُلٌ قَدْ أَسْلَمَ إِلَّا لَحِقَ بِأَبِی بَصِیرٍ حَتَّی اجْتَمَعَتْ مِنْہُمْ عِصَابَۃٌ، قَالَ: فَوَاللّٰہِ! مَا یَسْمَعُونَ بِعِیرٍ خَرَجَتْ لِقُرَیْشٍ إِلَی الشَّامِ إِلَّا اعْتَرَضُوا لَہَا فَقَتَلُوہُمْ وَأَخَذُوا أَمْوَالَہُمْ، فَأَرْسَلَتْ قُرَیْشٌ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تُنَاشِدُہُ اللّٰہَ وَالرَّحِمَ، لَمَّا أَرْسَلَ إِلَیْہِمْ فَمَنْ أَتَاہُ فَہُوَ آمِنٌ، فَأَرْسَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَیْہِمْ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَہُوَ الَّذِی کَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ حَتّٰی بَلَغَ حَمِیَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ} وَکَانَتْ حَمِیَّتُہُمْ أَنَّہُمْ لَمْ یُقِرُّوا أَنَّہُ نَبِیُّ اللّٰہِ، وَلَمْ یُقِرُّوا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، وَحَالُوا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْبَیْتِ۔ (مسند احمد: ۱۹۱۳۶)
"سیدنا مسور بن مخرمۃ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا مروان بن حکم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کے بیان کی تصدیق کرتا ہے، ان دونوں کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حدیبیہ کے دنوں میں چودہ پندرہ سو صحابہ کی معیت میں روانہ ہوئے۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذوالحلیفہ کے مقام پرپہنچے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قربانی کے جانوروں کے گلوں میں بطور علامت قلادے ڈالے اور ان کے پہلو کو چیرا دیا اور عمرہ کا احرام باندھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے آگے آگے بنو خزاعہ کے ایک شخص کو بطور جاسوس بھیجا تاکہ وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو قریش کے ارادوں اور پروگرام سے آگاہ کرتا رہے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سفر جاری رکھا، یہاں تک کہ جب آپ مقامِ عسفان کے قریب غدیرِ اشطاط پر پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خزاعی جاسوس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اطلاع دی کہ میں کعب بن لؤی اور عامر بن لؤی کو دیکھ کر آیا ہوں، وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مدمقابل آنے کے لیے بہت سے قبائل کو جمع کر چکے ہیں۔ وہ آپ سے قتال کرنے کے لیے تیار ہیں اور وہ آپ کوبیت اللہ کی طرف جانے سے روکنے کے درپے ہیں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو! مجھے مشورہ دو، کیا خیال ہے کہ جن لوگوں نے ان قریش کی مدد کی ہے، ہم ان کی عورتوں اور بچوں کی طرف چل پڑیں، اگر یہ لوگ وہیں قریش کے پاس ہی بیٹھے رہے تو ہم ان کے اموال حاصل کر لیں گے اور ان کے اہل وعیال کو گرفتار کر لیں گے اور اگر یہ کفار کا ساتھ چھوڑ کر اپنے اموال اور اہل وعیال کو بچانے کی خاطر ادھر سے واپس آگئے تو اس طرح اللہ تعالیٰ کفار کی معاون ایک جماعت کو ان سے الگ کر دے گا یا تم کیا مشورہ دیتے ہو کہ کیا ہم بیت اللہ کی طرف روا دواں رہیں، اور جس نے ہمیں اُدھر جانے سے روکا، ہم اس سے لڑ پڑیں گے، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:اے اللہ کے نبی! اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، بہرحال ہم تو عمرہ کے ارادہ سے آئے ہیں، ہم کسی سے قتال کرنے کے لیے تو نہیں آئے، البتہ جو شخص ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوا اس سے ہم قتال کر یں گے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اچھا پھر چلو۔ راویِ حدیث امام زہری کہتے ہیں: سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہا کرتے تھے کہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بڑھ کر اپنے ساتھیوں سے اس قدر مشورے کرتا ہو، چنانچہ لوگ چل پڑے حتیٰ کہ جب راستے کے درمیان میں ہی تھے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خالد بن ولید قریش کے ایک چھوٹے سے گھڑ سوار لشکر کے ہمراہ( رابغ اور جحفہ کے درمیان) غمیم کے مقام پر موجود ہے، پس تم دائیں طرف والے راستے سے چلو۔ اللہ کی قسم! خالد کو ان کا پتہ بھی نہ چل سکا، یہاں تک کہ اس نے اچانک لشکر کے چلنے کی وجہ سے اڑتا غبار دیکھا وہ تو اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا کر قریش کوخبردار کرنے کے لیے دوڑنکلااور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رواں دواں رہے، تاآنکہ اس گھاٹی پر پہنچ گئے جہاں سے اہلِ مکہ کی طرف اترتے ہیں، وہاں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اونٹنی بیٹھ گئی،تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چل چل۔ مگر وہ بیٹھی رہی اور کھڑی نہ ہوئی، صحابہ کہنے لگے کہ قصوا ضد کر گئی،قصواء اڑی کر گئی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قصواء نے ضدنہیں کی اور نہ ہییہ اس کی عادت ہے، دراصل اسے اس اللہ نے آگے جانے سے روکا ہے، جس نے ہاتھیوں کو روکا تھا۔ پھر فرمایا: اس ذات کی قسم! یہ کافر مجھ سے کوئی بھی ایسا مطالبہ کریں، جس سے وہ اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرتے ہوں تو میں ان کی ایسی ہر بات تسلیم کر لوں گا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اونٹنی کو کھڑا کرنے کے لیے ہانکا تو وہ کود کر اُٹھ کھڑی ہوئی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس راستے سے دوسرے راستے پر چل دئیے۔ یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حدیبیہ کے قریب ایک ایسی جگہ جا کر رکے جہاں قلیل مقدار میں پانی تھا، لوگ اسے چلووں سے تھوڑا تھوڑا جمع کر سکتے تھے، لوگوں نے اسے کچھ ہی دیر میں ختم کر دیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پیاس کی شکایت کی گئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکالا اور انہیں حکم دیا کہ اسے اس چشمے یا گڑھے میں گاڑ دیں۔اللہ کی قسم! صحابہ کی وہاں سے روانگیتک وہاں سے پانی جوش مار مار کر ابلتا رہا اور لوگوں کو سیراب کرتا رہا، صحابہ کرام وہیں اسی حال میں تھے کہ بدیل بن ورقاء خزاعی اپنی قوم کے افراد کے ہمراہ وہاں آگیا۔ اہلِ تہامہ میں سے یہ لوگ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خاص راز دار تھے۔ اس نے کہا میں نے کعب بن لوی اور عامر بن لوی کو حدیبیہ کے ختم نہ ہونے والے ذخیروں کے پاس چھوڑا ہے۔ ان کے پاس تازہ بچے دینے والی شیردار اونٹنیاں ہیں، جن کے بچے بھی ہم راہ ہیں، وہ آپ سے قتال کرنے اور آپ کو بیت اللہ کی طرف جانے سے روکنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم تو کسی سے لڑنے کے لیے نہیں آئے، ہم تو عمرہ کے ارادہ سے آئے ہیں، قریش کو لڑائیاں کم زور کر چکی ہیں اور ان کو شدید نقصان پہنچا چکی ہیں۔ وہ چاہیں گے تو میں انہیں ( جنگ نہ کرنے کے لیے) ایک لمبی مدت دے سکتا ہوں، بشرطیکہ وہ میرے اور لوگوں کے درمیان حائل نہ ہوں، اگر میں غالب رہوں تو ان کی مرضی ہے کہ یہ بھی اس دین میں آجائیں، جس میں دوسرے لوگ داخل ہو رہے ہیں، اگر وہ اسلام نہ بھی قبول کریں تب بھی جنگ کے سلسلہ میں تو مطمئن رہیں گے اور اگر ان سب باتوں کو ماننے سے انکار کریں تو اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں اس دین کے بارے میں ان لوگوں سے قتال کروں گایہاں تک کہ یا تو اس راہ میں میری گردن کٹ جائے یا اللہ اپنے دین کو غالب کر دے۔ نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر قریش چاہیں تو ہم انہیں جنگ نہ کرنے کی ایک طویل مدت دے سکتے ہیں۔ بدیل نے کہا: میں آپ کی باتیں قریش تک پہنچا دوں گا، وہ قریش کے ہاں گیا اور کہا کہ ہم تمہارے پاس اس آدمی کے ہاں سے آئے ہیں، ہم نے اسے ایک بات کہتے سنا ہے، اگر تم چاہو تو ہم اس کی بات تمہارے سامنے پیش کریں، ان قریش کے بعض کم عقل لوگوںنے کہا: ہمیں اس بات کی قطعاً ضرورت نہیں کہ تم ہمیں ان کی کوئی بات سناؤ۔ لیکن ان میں سے اصحابِ رائے نے کہا: ہاں ہاں بتاؤ وہ کیا کہتا ہے؟ بدیل نے کہا: میں نے اسے یہ کہتے سنا ہے اور اس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ساری بات ان کو بتا دی،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات سن کر عروہ بن مسعود ثقفی اُٹھا اور اس نے کہا: لوگو! کیا تم اولاد1 کی طرح نہیں ہو؟ اس نے کہا کیا میں باپ کی طرح نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا ہاں وہ بولا تو کیا تم میرے متعلق کوئی بدگمانی کرتے ہو؟ وہ بولے کہ نہیں۔ اس نے کہا تم جانتے ہو کہ میں نے اہلِ عکاظ کو تمہارے حق میں لڑائی کے لیے پکارا تھا۔ ان میں سے کسی نے میری پکار کا اثبات میں جواب نہیں دیا تھا تو میں اپنے اہل وعیال کو اور اپنی بات ماننے والے سب لوگوں کو لے آیا تھا۔ سب نے کہا ہاں درست ہے۔ وہ بولا بے شک اس محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تمہارے سامنے بہترین تجویز رکھی ہے۔ تم اسے قبول کر لو۔ اور مجھے اجازت دو تاکہ میں بات چیت کرنے کے لیے اس کے پاس چلوں انہوں نے کہا تم جا سکتے ہو۔ وہ عروہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا۔ اور آپ سے گفت وشنید کرنے لگا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے بھی ویسی ! جس طرح صحیح بخاری میں الفاظ ہیں، عربی بھی اسی انداز میں اور ترجمہ بھی اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔ مزید وضاحت کے لیے اسل کی طرف رجوع بہتر رہے گا۔ (عبداللہ رفیق) ہی بات کی جیسی بدیل سے کی تھی۔ تب اس موقعہ پر عروہ نے کہا اے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! کیا خیال ہے اگر آپ اپنی قوم کی جڑیں کاٹ ڈالیں گے تو کیا آپ نے سنا کہ آپ سے پہلے بھی کسی نے اپنی قوم کے ساتھ یہ سلوک کیاہو؟ اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو یعنی آپ کی قوم قریش غالب آجائے تو اللہ کی قسم میں آپ کے ساتھیوں میں ایسے چہرے اور ایسے مختلف اقوام وملل کے لوگوں کو دیکھ رہا ہوں جو وقت آنے پر آپ کو بے یارو مدد گار چھوڑ کر فرار ہو جائیں گے۔ یہ سن کر ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے غصے سے کہا جا جا تو لات کی شرم گاہ کو بوسے دے، کیایہ ہو سکتا ہے کہ ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یونہی بے یارومددگار چھور کر بھاگ جائیں۔ عروہ نے پوچھا۔ یہ بولنے والے کون ہیں؟لوگوں نے بتایایہ ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں تو عروہ نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تمہارا مجھ پر ایک احسان ہے میں اس کا بدلہ نہیں چکا سکا۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں تمہاری بات کا جواب دیتا۔ اور وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ محوِ گفتگو ہو گیا۔ وہ جب بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ہم کلام ہوتا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی داڑھی مبارک کو ہاتھ لگا تا۔ مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تلوار ہاتھ میں لئے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب کھڑے تھے۔ ان کے سر پر خود تھی۔ جب عروہ اپنا ہاتھ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی داڑھی مبارک کی طرف بڑھانا تو مغیرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تلوار کی نوک اس کے ہاتھ پر رکھتا اور فرماتا تم اپنا ہاتھ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی داڑھی سے دور رکھو۔ عروہ نے اپنا ہاتھ تو اُٹھالیا اور پوچھا یہ کون ہے؟ صحابہ نے بتلایا کہ یہ مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہے۔ وہ بولا ارے بے وفا؟ کیا میں تیری بے وفائی میں تیری معاونت نہیں کرتا رہا؟ دراصل مغیرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے قبل از اسلام کچھ لوگوں سے تعلق رکھا۔ پھر انہیں قتل کر کے اور ان کے اموال چھین کر آکر مسلمان ہو گیا تھا۔ تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا تمہارا اسلام تو قبول ہے البتہ اس مال سے میرا کچھ تعلق اور واسطہ نہیں۔ اس دوران عروہ صحابہ کا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ رویہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہا۔وہ کہتا ہے اللہ کی قسم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب بھی بلغم پھینکی تو ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ پر جا گری اور اس نے اسے اپنے چہرے یا جلد پر مل لیا۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب بھی انہیں کوئی حکم دیا تو سب اس کیتعمیل میں لپکے، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب وضوء کیا تو وضوء سے نیچے گرنے والے پانی کو حاصل کرنے کی خاطر وہ یوں جھپٹتے گویا کہ وہ لڑ پڑیں گے۔ وہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب کوئی بات کرتے تو احتراماً اپنی آوازوں کو انتہائی پست کر لیتے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تکریم کرتے ہوئے آپ کی طرف نظریں نہیں اُٹھاتے وہ اپنے ساتھیوں کی طرف واپس گیا تو اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی قسم! میں بڑے بڑے بادشاہوں قیصروکسریٰ اور نجاشی جیسے لوگوں کے پاس گیا ہوں اللہ کی قسم! میں نے نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے درباری اس کا اتنا احترام کرتے ہوں جتنا احترام اصحاب محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم! وہ اگر بلغم پھینکے تو وہ ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ پر گرتی ہے اور وہ اسے اپنے چہرے اور جلد پر مل لیتا ہے۔ وہ جب انہیں کوئی حکم دیتا ہے تو اس کی تعمیل میں سب لوگ لپک لپک جاتے ہیں۔ وہ جب وضو کرتا ہے تو وہ اس کے وضوء سے نیچے گرنے والے پانی کو حاصل کرنے کے لیےیوں جھپٹتے ہیں کہ شاید لڑ پڑیں گے۔ وہ جب بولتے ہیں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب اپنی آوازوں کو انتہائی پست کر لیتے ہیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا احترام کرتے ہوئے وہ لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف نظریں اُٹھا کر نہیں دیکھتے اس نے آپ لوگوں کے سامنے بہترین تجویز رکھی ہے تم لوگ اسے قبول کر لو۔ اس کی باتیں سن کر بنو کنانہ کا ایک آدمی بولا مجھے اجازت دو۔ اس ( محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے پاس میں جاتا ہوں۔ لوگوں نے کہا تم ہو آؤ۔ وہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اصحاب کے سامنے آیا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ فلان شخص ہے یہ لوگ قربانی کے اونٹوں کی خوب تعظیم کرتے ہیں۔ اس کے آنے پر تم اپنے قربانی کے ان اونٹوں کو کھڑا کر دو۔ چنانچہ اونٹوں کو کھڑا کر دیا گیا۔ اور صحابہ نے تلبیہ پڑھتے ہوئے اسکا استقبال کیا۔ وہ بولا سبحان اللہ ان جیسے لوگوں کو تو بیت اللہ کی طرف جانے سے نہیں روکا جانا چاہیے۔ وہ جب اپنے ساتھیوں کی طرف واپس ہوا تو اس نے کہا میں دیکھ آیا ہوں کہ قربانی کے اونٹوں کے گلوں میں بطور علامات ہار ڈالے گئے ہیں۔ اور ان کے دائیں پہلو پر چیرے دئیے گئے ہیں۔ ان کو بیت اللہ کی طرف آنے سے روکے جانے کو میں پسند نہیں کرتا۔ یہ سن کر ان میں سے مکرز بن حفص نامی ایک شخص اُٹھا اور بولا مجھے اجازت دو اس یعنی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس میں جاتا ہوں۔ اس کے ساتھیوں نے کہا تم ہو آؤ وہ جب مسلمانوں کے سامنے پہنچا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایایہ مکرز آرہا ہے یہ شریر آدمی ہے اور وہ آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کلام کرنے لگا۔ وہ ابھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے محوِ گفتگو ہی تھا کہ سہیل بن عمرو آگیا۔عکرمہ کہتے ہیں کہ جب سہیل آیا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا اب تمہارا کام آسان ہو گیا۔ زہری کی روایتمیں ہے کہ سہیل بن عمرو نے آکر کہا کوئی کاغذ لاؤ۔ میں اپنے اور آپ کے مابین ایک تحریر لکھ دیتا ہوں۔ تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک کاتب ( سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) کو بلایا۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا لکھو بسم اللہ الرحمن الرحیم، سہیل نے کہا اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ رحمان کون ہے؟ البتہ آپ بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ لکھیں جیسا کہ اس سے پہلے آپ لکھا کرتے تھے، تو مسلمانوں نے کہا اللہ کی قسم ! ہم تو بسم اللہ الرحمن الرحیم ہی لکھیں گے۔ تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ ہی لکھو۔ پھر فرمایایہ وہ تحریر ہے جس پر اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم معاہدہ کرتے ہیں۔ تب بھی سہیل نے کہا اللہ کی قسم اگر ہم یہ مانتے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واقعی اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں تو ہم آپ کو بیت اللہ کی طرف آنے سے نہ روکتے اور نہ آپ سے لڑائیاں کرتے۔ آپ لکھیں محمد بن عبداللہ زہری کہتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبل ازیں فرما چکے تھے کہ یہ لوگ مجھ سے کوئی بھی ایسا مطالبہ کریں جس میں وہ اللہ کی حرمات یعنی شعائر کی تعظیم کریں تو میں ان کی ایسی ہر بات تسلیم کر وں گا۔ اس لئے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا( لکھو) یہ معاہدہ ہے بشرطیکہ تم ہمارے بیت اللہ تک جانے سے رکاوٹ نہ ڈالو۔ تاکہ ہم وہاں جا کر طواف کر سکیں۔ تو سہیل نے کہا اللہ کی قسم! عرب یوں نہ کہیں کہ ہم پرزبردستی کی گئی ہے۔ لیکن آپ امسال کی بجائے اگلے سال تشریف لے آئیں۔ چنانچہ معاہدہ لکھا گیا۔ سہیل نے کہا یہ معاہدہ ہے کہ ہمارے ہاں سے( یعنی مکہ سے) کوئی آدمی اگر آپ کے ہاں( مدینہ) گیا تو آپ اسے واپس کریں گے خواہ وہ آپ کے دین پر ہی کیوں نہ ہو۔ یہ سن کر مسلمانوں نے کہا سبحان اللہ یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ مسلمان ہو کر آئے اور اسے مشرکین کے حوالے کر دیا جائے۔ وہ ابھی لکھ ہی رہے تھے کہ ابو جندل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بن سہیل بن عمرو اپنی بیڑیوں میں مقید آہستہ آہستہ چلتا ہوا وہاں پہنچ گئے۔ وہ مکہ کے نشیبی حصہ کی طرف سے نکل آئے تھے۔ وہ آکر مسلمانوں کے درمیان گر گئے۔ یہ دیکھ کر سہیل نے کہا اے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! معاہدہ کے مطابق میں پہلا مطالبہ یہ کرتا ہوں کہ آپ اسے میرے حوالے کریں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابھی تک تو ہم معاہدہ کی تحریر لکھ کر فارغ ہی نہیں ہوئے یعنی معاہدہ مکمل ہی نہیں ہوا۔ وہ بولا اللہ کی قسم! اگر یہ بات ہے تو ہم آپ کے ساتھ کسی بھی قسم کا معاہدہ نہیں کرتے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا۔ اسے نافذ ہونے دو وہ بولا میں اس معاہدہ کو آپ کے حق میں نافذ نہ ہونے دوں گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں، بہتر ہے کہ مان جاؤ۔ وہ بولا میں بالکل نہیں مان سکتا۔ تو مکرز نے کہا ٹھیک ہے ہم اس معاہدہ کو نافذ کرتے ہیں ابو جندل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ صورت حال دیکھی تو کہنے لگے مسلمانو! میں مسلمان ہوں کیا مجھے مشرکین کے حوالے کر دیا جائے گا؟ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں کس قدر مصائب اور ظلم وستم جھیل رہا ہوں؟ اسے اللہ کی راہ میں بہت زیادہ ایذائیں دی گئی تھیں۔ عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیںیہ مناظر دیکھ کر میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ کے نبی نہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کیوں نہیں؟ میں نے عرض کیا، کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ہاں۔ میں نے عرض کیا پھر ہم اپنے دین کے بارے میں کمزوری کیوں دکھائیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں۔میں اس کی نافرمانی اور حکم عدولی نہیں کر سکتا۔ وہی میرا ناصر اور مددگار ہے۔ میں نے عرض کیا، کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہم سے یوں نہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم عنقریب بیت اللہ جا کر اس کا طواف کریں گے؟ آپ نے فرمایا ہان لیکن کیا میں نے تم سے یہ کہا تھا کہ اسی سال؟ میں نے عرض کیا، نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا پس تم وہاں جاؤ گے اور طواف کرو گے۔ عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں سیّدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس چلا گیا۔ اور عرض کیا اے ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ کے سچے نبی نہیں؟ انہوں نے کہا ہاں میں نے عرض کیا کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں؟ انہوں نے کہا بالکل۔ میں نے کہا پھر ہم اپنے دین کے متعلق کمزوری کیوں دکھائیں؟ وہ بولے ارے وہ اللہ کے رسول ہیں اور وہ اپنے رب کی نافرمانییا حکم عدولی نہیں کرتے، اللہ ہی ان کی مدد کرے گا۔ تم ان کی بات کو مضبوطی سے تھام لو۔ اور مرتے دم تک اسی پر ثابت قدم رہو۔ اللہ کی قسم وہ (رسول) حق پر ہی ہیں۔ میں نے کہا کیا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہم سے یوں نہ کہا کرتے تھے کہ ہم عنقریب بیت اللہ جا کر اس کا طواف کریں گے؟ ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا، ہاں، لیکن کیا انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اسی سال؟ میں نے کہا کہ یہ تو نہیں کہا تھا۔ وہ بولے پس تم بیت اللہ جاؤ گے اور طواف کرو گے۔ زہری کی روایت میں ہے عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنی اس جسارت کی تلافی کے لیے ( نمازیں، روزے اور صدقات وغیرہ) بہت سے اعمال کئے۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم معاہدہ کی تحریر کے معاملہ سے فارغ ہوئے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ سے فرمایا اُٹھ کر اونٹوں کو نحر کرو اور اس کے بعدسر منڈوا دو۔ اللہ کی قسم! آپ نے اپنییہ بات تین دفعہ کہی لیکن اس کام کے لیے ایک بھی آدمی کھڑا نہ ہوا۔ جب کوئی بھی آدمی نہ اُٹھا تو آپ اُمّ المؤمنین سیّدہ ام سلمہ c کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے لوگوں کی حالت کا ذکر کیا۔ تو انہوں نے عرض کیا اللہ کے رسول ! کیا آپ واقعییہ کام کرنا چاہتے ہیں؟ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی سے کچھ نہ کہیں اور جا کر اپنا اونٹ نحر کر دیں۔ اور بال مونڈنے والے کو بلا کر بال منڈا لیں۔ چنانچہ آپ اُٹھ کر باہر تشریف لائے۔ اور آپ نے کسی سے کچھ نہ کہا۔ آپ نے اپنے اونٹ کو نحرکیا۔ اور بال مونڈنے والے کو بلوایا۔ جب صحابہ نے یہ منظر دیکھا تو انہوں نے بھی اُٹھ کر اپنے اپنے اونٹوں کو نحر کیا اور وہ ایک دوسرے کے بال مونڈنے لگے غم کی شدت اس قدر تھی کہ قریب تھا کہ وہ ایک دوسرے کے بال مونڈتے مونڈتے کہیں ایک دوسرے کو قتل نہ کردیں۔ پھر اہل ایمان خواتین آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا جَائَ کُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ حَتّٰی بَلَغَ بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ…} … ایمان والو! جب مسلمان خواتین ہجرت کر کے تمہارے پاس آئیں تو پہلے ان کو آزمالو، ان کے ایمان کے متعلق اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ پس اگر تم ان کو ایمان سے پختہ پاؤ تو انہیں کفار کی طرف واپس مت کرو۔ یہ اُن کے لیے اور وہ ان کے لیے حلال نہیں۔ اور ان کا فروں نے ان پر جو کچھ خرچ کیا ہو تو ان کو ادا کردو۔ اور اگر تم ان خواتین کو مہر ادا کر دو تو ان سے نکاح کرنے میں تم پر کوئی حرج نہیں۔ اور تم کافر عورتوں کو اپنے عقد میں مت رکھو۔ ان دنوں عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی زوجیت میں دو مشرک بیویاں تھیں، چنانچہ انہوں نے ان دونوں کو طلاق دے دی۔ تو ان میں سے ایک کے ساتھ معاویہ بن ابی سفیان نے اور دوسری کے ساتھ صفوان بن امیہ نے نکاح کر لیا تھا۔ پھر اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ آئے۔ تو ایک قریشی مسلمان ابو بصیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بن اسید ثقفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آگیا۔ اخنس بن شریق نے بنو عامر بن لؤی کے ایک کافر شخص کو اجرت پر تیار کیا اور اپنا ایک غلام اس کے ساتھ روانہ کیا اور اس نے ان دونوں کے ذریعے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے معاہدہ کو پورا کرنے کا لکھا۔ مشرکین مکہ نے ابو بصیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طلب میں ان دونوں کو بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے ہمارے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اس کے پیش ِنظر اسے ہمارے حوالے کریں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے ان کے سپرد کر دیا۔ وہ اسے اپنے ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ ذوالحلیفہ کے مقام پر پہنچے، تو وہ وہاں رک کر کھجوریں کھانے لگے ابو بصیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان میں سے ایک سے کہا بھئی اللہ کی قسم! میں دیکھ رہا ہوں تمہاری تلوار بڑی شاندار ہے۔اس شخص نے تلوار کو لہرا کر کہا ہاں بالکل اللہ کی قسم! یہ بڑی اچھی اور عمدہ تلوار ہے۔ میں نے اسے کئی مواقع پر آزمایا ہے۔ ابو بصیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا یار ذرا مجھے دکھانا، میں بھی دیکھوں تو سہییہ کیسی ہے؟ اس نے تلوار اسے پکڑا دی۔ ابو بصیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے تلوار لے کر اسے دے ماری اور وہ وہیں ٹھنڈا ہو گیا۔ اور دوسرا جان بچانے کی خاطر دوڑتا ہوا مدینہ منورہ جا پہنچا۔ وہ دوڑتا دوڑتا مسجد میں داخل ہوا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے دیکھا تو فرمایایہ شدید خوف سے دو چار ہوا ہے۔ اس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ کر بتلایا کہ اللہ کی قسم! میرا ساتھی تو قتل کر دیا گیا ہے اور میں بھی ابھی مارا جاؤں گا اتنے میں ابو بصیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی آگئے۔ انہوں نے کہا اے اللہ کے نبی ! اللہ قسم اللہ نے آپ سے عہد پورا کر ا دیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو مجھے واپس بھیج دیا تھا۔ پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دلا دی ہے۔ تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ے فرمایا اس کی ماں کا بھلا ہو، اگر اس کے ساتھ کوئی معاون ہو تو یہ ضرور لڑائی بھڑکائے گا۔ اس نے جب یہ سنا تو جان لیا کہ اللہ کے نبی ضرور اسے کفار کی طرف بھیج دیں گے۔ تو وہ وہاں سے نکل بھاگا اور سمندر کے کنارے جا ڈیرے ڈالے۔ ابو جندل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بن سہیل بھی کفار کی قید سے نکل کر ابو بصیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے آن ملا پھر تو ایسا ہوا کہ قریش کے ہاں سے جو بھی مسلمان بھاگتا وہ ابوبصیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آجاتا۔ یہاں تک کہ وہاں اچھے خاصے لوگ جمع ہو گئے اللہ کی قسم! وہ شام کی طرف جانے والے جس قریشی قافلے کی خبر پاتے اس کے راستے میں آجاتے۔ انہیں قتل کر ڈالتے اور ان کے اموال چھین لیتے آخر کار قریش نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پیغام بھیج کر آپ کو اللہ کے اور رشتے داری کے واسطے دے کر یہ اطلاع بھیجی کہ آئندہ جو بھی مسلمان مکہ سے آپ کی طرف آنا چاہے اسے امان، اجازت ہے۔ تب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان لوگوں کی طرف پیغام بھیج کر انہیں اپنے پاس مدینہ منورہ بلوایا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کیں۔ اور وہی اللہ ہے جس نے تمہیں فتح دینے کے بعد حدودِ مکہ میں کفار کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روکا۔ اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے جانوروں کو بھی ان کے قربان ہونے کے مقام تک پہنچنے سے روکا۔ اگر ان میں ایسے مومن مرد اور عورتیں نہ ہوتے جنہیں تم نہیں جانتے تو لا علمی میں ان کو قتل کر کے تمہیں پشیمانی ہوتی، اس لیے کہ اللہ جسے چاہے اپنی رحمت میں داخل کر لیتا ہے۔ اگر وہ مسلمان کفار سے الگ ہوئے تو ہم کافروں کو درد ناک عذاب سے دو چار کرتے۔ کیونکہ ان کافروں نے اپنے دلوں میں کفر کی حمیت کو جگہ دے رکھی ہے۔ ان کفار کی حمیتیہ تھی کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نبوت کا اقرار نہ کرتے تھے۔ نہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کا اقرار کرتے تھے اور انہوں نے مسلمانوں کے بیت اللہ تک جانے کے راستے میں رکاوٹ ڈالی تھی۔ "
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10790

۔ (۱۰۷۹۰)۔ (مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ یَسَارٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ شِہَابٍ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ قَالَا: خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَامَ الْحُدَیْبِیَۃِ،یُرِیدُ زِیَارَۃَ الْبَیْتِ لَا یُرِیدُ قِتَالًا، وَسَاقَ مَعَہُ الْہَدْیَ سَبْعِینَ بَدَنَۃً، وَکَانَ النَّاسُ سَبْعَ مِائَۃِ رَجُلٍ، فَکَانَتْ کُلُّ بَدَنَۃٍ عَنْ عَشَرَۃٍ، قَالَ: وَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی إِذَا کَانَ بِعُسْفَانَ لَقِیَہُ بِشْرُ بْنُ سُفْیَانَ الْکَعْبِیُّ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ہٰذِہِ قُرَیْشٌ قَدْ سَمِعَتْ بِمَسِیرِکَ فَخَرَجَتْ، مَعَہَا الْعُوذُ الْمَطَافِیلُ قَدْ لَبِسُوا جُلُودَ النُّمُورِ، یُعَاہِدُونَ اللّٰہَ أَنْ لَا تَدْخُلَہَا عَلَیْہِمْ عَنْوَۃً أَبَدًا، وَہٰذَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فِی خَیْلِہِمْ، قَدِمُوا إِلٰی کُرَاعِ الْغَمِیمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا وَیْحَ قُرَیْشٍ لَقَدْ أَکَلَتْہُمُ الْحَرْبُ، مَاذَا عَلَیْہِمْ لَوْ خَلَّوْا بَیْنِی وَبَیْنَ سَائِرِ النَّاسِ، فَإِنْ أَصَابُونِی کَانَ الَّذِی أَرَادُوْا وَإِنْ أَظْہَرَنِی اللّٰہُ عَلَیْہِمْ دَخَلُوا فِی الْإِسْلَامِ وَہُمْ وَافِرُونَ، وَإِنْ لَمْ یَفْعَلُوا قَاتَلُوا وَبِہِمْ قُوَّۃٌ فَمَاذَا تَظُنُّ قُرَیْشٌ؟ وَاللّٰہِ! إِنِّی لَا أَزَالُ أُجَاہِدُہُمْ عَلَی الَّذِی بَعَثَنِی اللّٰہُ لَہُ حَتّٰییُظْہِرَہُ اللّٰہُ لَہُ أَوْ تَنْفَرِدَ ہٰذِہِ السَّالِفَۃُ۔)) ثُمَّ أَمَرَ النَّاسَ فَسَلَکُوا ذَاتَ الْیَمِینِ بَیْنَ ظَہْرَیِ الْحَمْضِ عَلٰی طَرِیقٍ تُخْرِجُہُ عَلٰی ثَنِیَّۃِ الْمِرَارِ وَالْحُدَیْبِیَۃِ مِنْ أَسْفَلِ مَکَّۃَ، قَالَ: فَسَلَکَ بِالْجَیْشِ تِلْکَ الطَّرِیقَ، فَلَمَّا رَأَتْ خَیْلُ قُرَیْشٍ قَتَرَۃَ الْجَیْشِ قَدْ خَالَفُوا عَنْ طَرِیقِہِمْ، نَکَصُوا رَاجِعِینَ إِلٰی قُرَیْشٍ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی إِذَا سَلَکَ ثَنِیَّۃَ الْمُرَارِ بَرَکَتْ نَاقَتُہُ، فَقَالَ النَّاسُ: خَلَأَتْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا خَلَأَتْ وَمَا ہُوَ لَہَا بِخُلُقٍ وَلٰکِنْ حَبَسَہَا حَابِسُ الْفِیلِ عَنْ مَکَّۃَ، وَاللّٰہِ! لَا تَدْعُونِی قُرَیْشٌ الْیَوْمَ إِلٰی خُطَّۃٍیَسْأَلُونِی فِیہَا صِلَۃَ الرَّحِمِ إِلَّا أَعْطَیْتُہُمْ إِیَّاہَا، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ: انْزِلُوا۔)) فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا بِالْوَادِی مِنْ مَائٍ یَنْزِلُ عَلَیْہِ النَّاسُ، فَأَخْرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَہْمًا مِنْ کِنَانَتِہِ فَأَعْطَاہُ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِہِ، فَنَزَلَ فِی قَلِیبٍ مِنْ تِلْکَ الْقُلُبِ، فَغَرَزَہُ فِیہِ فَجَاشَ الْمَاء ُ بِالرَّوَائِ حَتّٰی ضَرَبَ النَّاسُ عَنْہُ بِعَطَنٍ، فَلَمَّا اطْمَأَنَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا بُدَیْلُ بْنُ وَرْقَائَ فِی رِجَالٍ مِنْ خُزَاعَۃَ، فَقَالَ لَہُمْ کَقَوْلِہِ لِبُشَیْرِ بْنِ سُفْیَانَ، فَرَجَعُوا إِلٰی قُرَیْشٍ: فَقَالُوْا: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! إِنَّکُمْ تَعْجَلُونَ عَلٰی مُحَمَّدٍ، وَإِنَّ مُحَمَّدًا لَمْ یَأْتِ لِقِتَالٍ، إِنَّمَا جَائَ زَائِرًا لِہٰذَا الْبَیْتِ مُعَظِّمًا لَحَقِّہِ فَاتَّہَمُوہُمْ، قَالَ مُحَمَّدٌ: یَعْنِی ابْنَ إِسْحَاقَ، قَالَ الزُّہْرِیُّ: وَکَانَتْ خُزَاعَۃُ فِی عَیْبَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُسْلِمُہَا وَمُشْرِکُہَا لَا یُخْفُونَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَیْئًا کَانَ بِمَکَّۃَ قَالُوا: وَإِنْ کَانَ إِنَّمَا جَائَ لِذٰلِکَ فَلَا وَاللّٰہِ! لَا یَدْخُلُہَا أَبَدًا عَلَیْنَا عَنْوَۃً وَلَا تَتَحَدَّثُ بِذٰلِکَ الْعَرَبُ، ثُمَّ بَعَثُوا إِلَیْہِ مِکْرَزَ بْنَ حَفْصِ بْنِ الْأَخْیَفِ أَحَدَ بَنِی عَامِرِ بْنِ لُؤَیٍّ، فَلَمَّا رَآہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((ہٰذَا رَجُلٌ غَادِرٌ۔)) فَلَمَّا انْتَہٰی إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَلَّمَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِنَحْوٍ مِمَّا کَلَّمَ بِہِ أَصْحَابَہُ، ثُمَّ رَجَعَ إِلٰی قُرَیْشٍ فَأَخْبَرَہُمْ بِمَا قَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَبَعَثُوا إِلَیْہِ الْحِلْسَ بْنَ عَلْقَمَۃَ الْکِنَانِیَّ، وَہُوَیَوْمَئِذٍ سَیِّدُ الْأَحَابِشِ، فَلَمَّا رَآہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((ہٰذَا مِنْ قَوْمٍ یَتَأَلَّہُونَ، فَابْعَثُوا الْہَدْیَ فِی وَجْہِہِ۔)) فَبَعَثُوا الْہَدْیَ فَلَمَّا رَأَی الْہَدْیَیَسِیلُ عَلَیْہِ مِنْ عَرْضِ الْوَادِی فِی قَلَائِدِہِ قَدْ أَکَلَ أَوْتَارَہُ مِنْ طُولِ الْحَبْسِ عَنْ مَحِلِّہِ، رَجَعَ وَلَمْ یَصِلْ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِعْظَامًا لِمَا رَأٰی، فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! قَدْ رَأَیْتُ مَا لَا یَحِلُّ صَدُّہُ الْہَدْیَ فِی قَلَائِدِہِ قَدْ أَکَلَ أَوْتَارَہُ مِنْ طُولِ الْحَبْسِ عَنْ مَحِلِّہِ، فَقَالُوا: اجْلِسْ إِنَّمَا أَنْتَ أَعْرَابِیٌّ لَا عِلْمَ لَکَ، فَبَعَثُوا إِلَیْہِ عُرْوَۃَ بْنَ مَسْعُودٍ الثَّقَفِیَّ، فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! إِنِّی قَدْ رَأَیْتُ مَا یَلْقٰی مِنْکُمْ مَنْ تَبْعَثُونَ إِلٰی مُحَمَّدٍ، إِذَا جَائَ کُمْ مِنَ التَّعْنِیفِ وَسُوئِ اللَّفْظِ، وَقَدْ عَرَفْتُمْ أَنَّکُمْ وَالِدٌ وَأَنِّی وَلَدٌ، وَقَدْ سَمِعْتُ بِالَّذِی نَابَکُمْ فَجَمَعْتُ مَنْ أَطَاعَنِی مِنْ قَوْمِی، ثُمَّ جِئْتُ حَتّٰی آسَیْتُکُمْ بِنَفْسِی، قَالُوْا: صَدَقْتَ مَا أَنْتَ عِنْدَنَا بِمُتَّہَمٍ، فَخَرَجَ حَتّٰی أَتٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَلَسَ بَیْنَیَدَیْہِ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! جَمَعْتَ أَوْبَاشَ النَّاسِ ثُمَّ جِئْتَ بِہِمْ لِبَیْضَتِکَ لِتَفُضَّہَا، إِنَّہَا قُرَیْشٌ قَدْ خَرَجَتْ مَعَہَا الْعُوذُ الْمَطَافِیلُ، قَدْ لَبِسُوا جُلُودَ النُّمُورِ، یُعَاہِدُونَ اللّٰہَ أَنْ لَا تَدْخُلَہَا عَلَیْہِمْ عَنْوَۃً أَبَدًا، وَأَیْمُ اللّٰہِ! لَکَأَنِّی بِہٰؤُلَائِ قَدِ انْکَشَفُوا عَنْکَ غَدًا، قَالَ، وَأَبُوبَکْرٍ الصِّدِّیقُ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالَی عَنْہُ خَلْفَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَاعِدٌ، فَقَالَ: امْصُصْ بَظْرَ اللَّاتِ! أَ نَحْنُ نَنْکَشِفُ عَنْہُ؟ قَالَ: مَنْ ہٰذَا؟ یَا مُحَمَّدُ! قَالَ: ((ہٰذَا ابْنُ أَبِی قُحَافَۃَ۔)) قَالَ: وَاللّٰہِ! لَوْلَا یَدٌ کَانَتْ لَکَ عِنْدِی لَکَافَأْتُکَ بِہَا وَلٰکِنَّ ہٰذِہِ بِہَا، ثُمَّ تَنَاوَلَ لِحْیَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ وَاقِفٌ عَلٰی رَأْسِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْحَدِیدِ، قَالَ: یَقْرَعُیَدَہُ، ثُمَّ قَالَ، أَمْسِکْ یَدَکَ عِنْ لِحْیَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَبْلُ وَاللّٰہِ! لَا تَصِلُ إِلَیْکَ، قَالَ: وَیْحَکَ مَا أَفَظَّکَ وَأَغْلَظَکَ؟ قَالَ: فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: مَنْ ہٰذَا؟ یَا مُحَمَّدُ! قَالَ: ((ہٰذَا ابْنُ أَخِیکَ الْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ۔)) قَالَ: أَغُدَرُ ہَلْ غَسَلْتَ سَوْأَتَکَ إِلَّا بِالْأَمْسِ، قَالَ: فَکَلَّمَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِمِثْلِ مَا کَلَّمَ بِہِ أَصْحَابَہُ فَأَخْبَرَہُ أَنَّہُ لَمْ یَأْتِیُرِیدُ حَرْبًا، قَالَ: فَقَامَ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَدْ رَأٰی مَا یَصْنَعُ بِہِ أَصْحَابُہُ لَا یَتَوَضَّأُ وُضُوئً إِلَّا ابْتَدَرُوہُ، وَلَا یَبْسُقُ بُسَاقًا إِلَّا ابْتَدَرُوہُ، وَلَا یَسْقُطُ مِنْ شَعَرِہِ شَیْئٌ إِلَّا أَخَذُوہُ، فَرَجَعَ إِلٰی قُرَیْشٍ فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! إِنِّی جِئْتُ کِسْرٰی فِی مُلْکِہِ، وَجِئْتُ قَیْصَرَ وَالنَّجَاشِیَّ فِی مُلْکِہِمَا، وَاللّٰہِ! مَا رَأَیْتُ مَلِکًا قَطُّ مِثْلَ مُحَمَّدٍ فِی أَصْحَابِہِ، وَلَقَدْ رَأَیْتُ قَوْمًا لَا یُسْلِمُونَہُ لِشَیْئٍ أَبَدًا فَرَوْا رَأْیَکُمْ، قَالَ: وَقَدْ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَبْلَ ذٰلِکَ بَعَثَ خِرَاشَ بْنَ أُمَیَّۃَ الْخُزَاعِیَّ إِلٰی مَکَّۃَ وَحَمَلَہُ عَلٰی جَمَلٍ لَہُ یُقَالُ لَہُ: الثَّعْلَبُ، فَلَمَّا دَخَلَ مَکَّۃَ عَقَرَتْ بِہِ قُرَیْشٌ وَأَرَادُوْا قَتْلَ خِرَاشٍ، فَمَنَعَہُمْ الْأَحَابِشُ حَتّٰی أَتٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَعَا عُمَرَ لِیَبْعَثَہُ إِلٰی مَکَّۃَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی أَخَافُ قُرَیْشًا عَلٰی نَفْسِی وَلَیْسَ بِہَا مِنْ بَنِی عَدِیٍّ أَحَدٌ یَمْنَعُنِی، وَقَدْ عَرَفَتْ قُرَیْشٌ عَدَاوَتِی إِیَّاہَا وَغِلْظَتِی عَلَیْہَا، وَلٰکِنْ أَدُلُّکَ عَلٰی رَجُلٍ ہُوَ أَعَزُّ مِنِّی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، قَالَ، فَدَعَاہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَبَعَثَہُ إِلٰی قُرَیْشٍ،یُخْبِرُہُمْ أَنَّہُ لَمْ یَأْتِ لِحَرْبٍ وَأَنَّہُ جَائَ زَائِرًا لِہٰذَا الْبَیْتِ مُعَظِّمًا لِحُرْمَتِہِ فَخَرَجَ عُثْمَانُ حَتّٰی أَتٰی مَکَّۃَ، وَلَقِیَہُ أَبَانُ بْنُ سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ فَنَزَلَ عَنْ دَابَّتِہِ وَحَمَلَہُ بَیْنَیَدَیْہِ وَرَدِفَ خَلْفَہُ وَأَجَارَہُ حَتّٰی بَلَّغَ رِسَالَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَانْطَلَقَ عُثْمَانُ حَتّٰی أَتٰی أَبَا سُفْیَانَ وَعُظَمَائَ قُرَیْشٍ، فَبَلَّغَہُمْ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا أَرْسَلَہُ بِہِ،فَقَالُوا لِعُثْمَانَ: إِنْ شِئْتَ أَنْ تَطُوفَ بِالْبَیْتِ فَطُفْ بِہِ، فَقَالَ: مَا کُنْتُ لِأَفْعَلَ حَتّٰییَطُوفَ بِہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَاحْتَبَسَتْہُ قُرَیْشٌ عِنْدَہَا، فَبَلَغَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالْمُسْلِمِینَ أَنَّ عُثْمَانَ قَدْ قُتِلَ، قَالَ مُحَمَّدٌ: فَحَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ: أَنَّ قُرَیْشًا بَعَثُوا سُہَیْلَ بْنَ عَمْرٍو أَحَدَ بَنِی عَامِرِ بْنِ لُؤَیٍّ، فَقَالُوا: ائْتِ مُحَمَّدًا فَصَالِحْہُ وَلَا یَکُونُ فِی صُلْحِہِ إِلَّا أَنْ یَرْجِعَ عَنَّا عَامَہُ ہٰذَا فَوَاللّٰہِ! لَا تَتَحَدَّثُ الْعَرَبُ أَنَّہُ دَخَلَہَا عَلَیْنَا عَنْوَۃً أَبَدًا، فَأَتَاہُ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو فَلَمَّا رَآہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((قَدْ أَرَادَ الْقَوْمُ الصُّلْحَ حِینَ بَعَثُوا ہٰذَا الرَّجُلَ۔)) فَلَمَّا انْتَہٰی إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَکَلَّمَا وَأَطَالَا الْکَلَامَ وَتَرَاجَعَا حَتّٰی جَرٰی بَیْنَہُمَا الصُّلْحُ، فَلَمَّا الْتَأَمَ الْأَمْرُ وَلَمْ یَبْقَ إِلَّا الْکِتَابُ، وَثَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَأَتٰی أَبَا بَکْرٍ، فَقَالَ: یَا أَبَا بَکْرٍ! أَوَلَیْسَ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَوَلَسْنَا بِالْمُسْلِمِینَ أَوَلَیْسُوا بِالْمُشْرِکِینَ؟ قَالَ، بَلٰی، قَالَ: فَعَلَامَ نُعْطِی الذِّلَّۃَ فِی دِینِنَا؟ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: یَا عُمَرُ الْزَمْ غَرْزَہُ حَیْثُ کَانَ، فَإِنِّی أَشْہَدُ أَنَّہُ رَسُولُ اللّٰہِ، قَالَ عُمَرُ: وَأَنَا أَشْہَدُ، ثُمَّ أَتٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَوَلَسْنَا بِالْمُسْلِمِینَ أَوَلَیْسُوا بِالْمُشْرِکِینَ؟ قَالَ: ((بَلٰی۔)) قَالَ: فَعَلَامَ نُعْطِی الذِّلَّۃَ فِی دِینِنَا؟ فَقَالَ: ((أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُولُہُ لَنْ أُخَالِفَ أَمْرَہُ وَلَنْ یُضَیِّعَنِی۔)) ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: مَا زِلْتُ أَصُومُ وَأَتَصَدَّقُ وَأُصَلِّی وَأَعْتِقُ مِنَ الَّذِی صَنَعْتُ مَخَافَۃَ کَلَامِی الَّذِی تَکَلَّمْتُ بِہِ یَوْمَئِذٍ حَتّٰی رَجَوْتُ أَنْ یَکُونَ خَیْرًا، قَالَ: وَدَعَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اکْتُبْ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ۔)) فَقَالَ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو: لَا أَعْرِفُ ہٰذَا وَلٰکِنْ اکْتُبْ بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اکْتُبْ بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ، ہٰذَا مَا صَالَحَ عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ سُہَیْلَ بْنَ عَمْرٍو۔)) فَقَالَ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو: لَوْ شَہِدْتُ أَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ لَمْ أُقَاتِلْکَ وَلٰکِنْ اکْتُبْ ہٰذَا مَا اصْطَلَحَ عَلَیْہِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ وَسُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو عَلٰی وَضْعِ الْحَرْبِ عَشْرَ سِنِینَ،یَأْمَنُ فِیہَا النَّاسُ وَیَکُفُّ بَعْضُہُمْ عَنْ بَعْضٍ، عَلٰی أَنَّہُ مَنْ أَتٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ أَصْحَابِہِ بِغَیْرِ إِذْنِ وَلِیِّہِ رَدَّہُ عَلَیْہِمْ، وَمَنْ أَتٰی قُرَیْشًا مِمَّنْ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یَرُدُّوہُ عَلَیْہِ، وَإِنَّ بَیْنَنَا عَیْبَۃً مَکْفُوفَۃً، وَإِنَّہُ لَا إِسْلَالَ وَلَا إِغْلَالَ، وَکَانَ فِی شَرْطِہِمْ حِینَ کَتَبُوا الْکِتَابَ أَنَّہُ مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَدْخُلَ فِی عَقْدِ مُحَمَّدٍ وَعَہْدِہِ دَخَلَ فِیہِ وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یَدْخُلَ فِی عَقْدِ قُرَیْشٍ وَعَہْدِہِمْ دَخَلَ فِیہِ، فَتَوَاثَبَتْ خُزَاعَۃُ فَقَالُوا: نَحْنُ مَعَ عَقْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعَہْدِہِ، وَتَوَاثَبَتْ بَنُو بَکْرٍ فَقَالُوا: نَحْنُ فِی عَقْدِ قُرَیْشٍ وَعَہْدِہِمْ، وَأَنَّکَ تَرْجِعُ عَنَّا عَامَنَا ہٰذَا فَلَا تَدْخُلْ عَلَیْنَا مَکَّۃَ، وَأَنَّہُ إِذَا کَانَ عَامُ قَابِلٍ خَرَجْنَا عَنْکَ فَتَدْخُلُہَا بِأَصْحَابِکَ وَأَقَمْتَ فِیہِمْ ثَلَاثًا مَعَکَ سِلَاحُ الرَّاکِبِ لَا تَدْخُلْہَا بِغَیْرِ السُّیُوفِ فِی الْقُرُبِ، فَبَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَکْتُبُ الْکِتَابَ إِذْ جَائَ ہُ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُہَیْلِ بْنِ عَمْرٍو فِی الْحَدِیدِ، قَدْ انْفَلَتَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: وَقَدْ کَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَرَجُوا وَہُمْ لَا یَشُکُّونَ فِی الْفَتْحِ لِرُؤْیَا رَآہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّا رَأَوْا مَا رَأَوْا مِنَ الصُّلْحِ وَالرُّجُوعِ وَمَا تَحَمَّلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی نَفْسِہِ، دَخَلَ النَّاسَ مِنْ ذَلِکَ أَمْرٌ عَظِیمٌ حَتّٰی کَادُوا أَنْ یَہْلَکُوا، فَلَمَّا رَأٰی سُہَیْلٌ أَبَا جَنْدَلٍ قَامَ إِلَیْہِ فَضَرَبَ وَجْہَہُ ثُمَّ قَالَ: یَا مُحَمَّدُ! قَدْ لُجَّتِ الْقَضِیَّۃُ بَیْنِی وَبَیْنَکَ قَبْلَ أَنْ یَأْتِیَکَ ہٰذَا، قَالَ: ((صَدَقْتَ۔)) فَقَامَ إِلَیْہِ فَأَخَذَ بِتَلْبِیبِہِ، قَالَ: وَصَرَخَ أَبُو جَنْدَلٍ بِأَعْلٰیصَوْتِہِیَا مَعَاشِرَ الْمُسْلِمِینَ! أَتَرُدُّونَنِی إِلٰی أَہْلِ الشِّرْکِ، فَیَفْتِنُونِی فِی دِینِی، قَالَ: فَزَادَ النَّاسُ شَرًّا إِلٰی مَا بِہِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا أَبَا جَنْدَلٍ! اصْبِرْ وَاحْتَسِبْ فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ جَاعِلٌ لَکَ وَلِمَنْ مَعَکَ مِنَ الْمُسْتَضْعَفِینَ فَرَجًا وَمَخْرَجًا، إِنَّا قَدْ عَقَدْنَا بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ صُلْحًا، فَأَعْطَیْنَاہُمْ عَلٰی ذٰلِکَ، وَأَعْطَوْنَا عَلَیْہِ عَہْدًا، وَإِنَّا لَنْ نَغْدِرَ بِہِمْ۔)) قَالَ: فَوَثَبَ إِلَیْہِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مَعَ أَبِی جَنْدَلٍ فَجَعَلَ یَمْشِی إِلٰی جَنْبِہِ وَہُوَ یَقُولُ: اصْبِرْ أَبَا جَنْدَلٍ فَإِنَّمَا ہُمُ الْمُشْرِکُونَ وَإِنَّمَا دَمُ أَحَدِہِمْ دَمُ کَلْبٍ، قَالَ: وَیُدْنِی قَائِمَ السَّیْفِ مِنْہُ قَالَ: یَقُولُ: رَجَوْتُ أَنْ یَأْخُذَ السَّیْفَ فَیَضْرِبَ بِہِ أَبَاہُ، قَالَ: فَضَنَّ الرَّجُلُ بِأَبِیہِ وَنَفَذَتِ الْقَضِیَّۃُ، فَلَمَّا فَرَغَا مِنْ الْکِتَابِ وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُصَلِّی فِی الْحَرَمِ وَہُوَ مُضْطَرِبٌ فِی الْحِلِّ، قَالَ: فَقَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ انْحَرُوا وَاحْلِقُوا۔)) قَالَ: فَمَا قَامَ أَحَدٌ، قَالَ: ثُمَّ عَادَ بِمِثْلِہَا فَمَا قَامَ رَجُلٌ حَتّٰی عَادَ بِمِثْلِہَا فَمَا قَامَ رَجُلٌ، فَرَجَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَخَلَ عَلٰی أُمِّ سَلَمَۃَ فَقَالَ: ((یَا أُمَّ سَلَمَۃَ مَا شَأْنُ النَّاسِ؟)) قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَدْ دَخَلَہُمْ مَا قَدْ رَأَیْتَ فَلَا تُکَلِّمَنَّ مِنْہُمْ إِنْسَانًا وَاعْمِدْ إِلٰی ہَدْیِکَ حَیْثُ کَانَ فَانْحَرْہُ وَاحْلِقْ، فَلَوْ قَدْ فَعَلْتَ ذٰلِکَ فَعَلَ النَّاسُ ذٰلِکَ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا یُکَلِّمُ أَحَدًا حَتّٰی أَتٰی ہَدْیَہُ فَنَحَرَہُ، ثُمَّ جَلَسَ فَحَلَقَ فَقَامَ النَّاسُ یَنْحَرُونَ وَیَحْلِقُونَ، قَالَ: حَتّٰی إِذَا کَانَ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِینَۃِ فِی وَسَطِ الطَّرِیقِ فَنَزَلَتْ سُورَۃُ الْفَتْحِ۔ (مسند احمد: ۱۹۱۱۷)
۔(دوسری سند) سیدنا مسور بن مخرمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا مروان بن حکم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ حدیبیہ کے سال رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زیارت بیت اللہ کے ارادہ سے روانہ ہوئے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا لڑائی کا کوئی ارادہ نہیں تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذبح کرنے کے لیے اپنے ساتھ ستر اونٹ بھی لے گئے، آپ کے رفقاء کی تعداد سات سو تھی۔ ہر دس آدمیوں کی طرف سے ایک اونٹ تھا،اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم روانہ ہوئے،جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عسفان کے مقام پر پہنچے تو بشر بن سفیان کعبی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملا۔ اس نے بتلایا کہ اللہ کے رسول! قریش کو آپ کی روانگی کی اطلاع ہو چکی ہے، وہ نئے نئے بچوں والی شیر دار اونٹنیاں لئے، چیتوں کی کھالیں اوڑھے آپ کے مقابلے اور راستہ روکنے کے لیے نکلے ہوئے ہیں اور وہ اللہ کے ساتھ عہد کر چکے ہیں کہ وہ ہمیں زبردستی مکہ میں بالکل داخل نہیں ہونے دیں گے اور خالد بن ولید اپنے گھڑ سواروں کے ساتھ کراع غمیم کی طرف بڑھتا آ رہا ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے قریش کی ہلاکت! لڑائیوں نے ان کا ستیاناس کر دیا ہے، اگر یہ لوگ میرے اور میرے ان صحابہ کے سامنے سے ہٹ جاتے اور (حرم میںجانے دیتے) تو ان کو کیا تکلیف تھی، اگر ان لوگوں نے اپنے ارادے کے مطابق مجھے تکلیف دی لی تو (ٹھیک ہے)، اور اگر اللہ تعالی نے مجھے ان پر غالب کر دیا اور یہ اسلام میں داخل ہو گئے، جبکہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، (تو ٹھیک)، بصورتِ دیگر اگر انھوں نے ایسا نہ کیا، تو یہ لڑیں گے، جبکہ ان کے پاس قوت بھی ہے، لیکن اب قریشی لوگ کیا گمان رکھتے ہیں؟ اللہ کی قسم! میں اس نکتے کو سامنے رکھ کر ان سے لڑتا رہوں،یہاں تک کہ اللہ تعالی اس دین کو غالب کر دے گا، یا پھر میری گردن کا یہ پہلو الگ ہو جائے گا (یعنی میں فوت ہو جاؤں گا)۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کو حکم دیا، پس حمض بوٹی سے ہوتے ہوئے اور اپنی دائیں طرف چلتے ہوئے ایسے راستے پر ہو لیے ، جو مرار گھاٹی اور حدیبیہکی طرف جار رہا تھا، یہ مکہ سے نشیبی جگہ تھی،یہ لشکر اس راستے پر ہو لیا، جب قریشیوں کے گھڑ سوار لشکر نے اِس لشکر کا غبار اور اس کے راستہ تبدیل کر لینے کو دیکھا تو وہ قریش کی طرف واپس پلٹ گئے۔ پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی روانہ ہو گئے اور جب مِرار گھاٹی میں چلے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اونٹنی بیٹھ گئے، لوگوں نے کہا: اونٹنی ضد کر گئی، اڑی کر گئی، نبی ٔ کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہ اس نے ضدکی ہے اور نہ یہ اس کی عادت ہے، دراصل اسے اس اللہ نے آگے جانے سے روکا ہے، جس نے ہاتھیوں کو روکا تھا۔ اللہ کی قسم! یہ کافر مجھ سے کوئی بھی ایسا مطالبہ کریں، جس کے ذریعے وہ مجھ سے صلہ رحمی کا سوال کریں گے تو میں ان کا وہ مطالبہ پورا کر دوں گا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں سے فرمایا: اتر جاؤ۔ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس علاقے میں تو پانی ہی نہیں ہے کہ اس کے پاس لشکر پڑاؤ ڈال سکے، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکالا اور اپنے صحابہ میں سے ایک آدمی کو دیا، اس نے وہ تیر کنویں میں گاڑھا اور بہت زیادہ پانی ابلنے لگا، (لوگوں نے پیا) یہاں تک کہ انھوں نے اپنے اونٹوں کو بھی سیراب کر لیا، ابھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مطمئن ہوئے ہی تھے کہ بنو خزاعہ کے چند افراد سمیت بدیل بن ورقا آ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے وہی بات کہی، جو بشیر بن سفیان کو کہی تھی، سو وہ قریشیوں کی طرف لوٹ گئے اور کہا: اے قریش کی جماعت! تم محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) پر جلدی کر رہے ہو، جبکہ وہ قتال کے لیے نہیں آئے، وہ تو صرف اس گھر کی زیارت اور اس کے حق کی تعظیم کے لیے آئے ہیں، لیکن قریشیوں نے اِن کی بات کی تصدیق نہیں کی، دراصل بنو خزاعہ کے مسلمان اور مشرک، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے راز دان تھے، مکہ میں جو کچھ ہوتا، یہ لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کوئی چیز مخفی نہیں رکھتے تھے۔ پس قریشیوں نے کہا: اگرچہ (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) اس مقصد کے لیے آئے ہوں گے، لیکن نہیں، بخدا! یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ ہم پر زبردستی گھس آئیں اور عرب لوگ مختلف باتیں کرنے لگیں۔ پھر انھوں نے بنو عامر بن لؤی کے ایک آدمی مکرز بن حفص بن اخیف کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف بھیجا، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو دیکھا تو (اپنے صحابہ کو متنبہ کرتے ہوئے) فرمایا: یہ دھوکے باز آدمی ہے۔ جب وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے وہی گفتگو جو اس سے پہلے اس کے ساتھیوں سے کی تھی،یہ بھی قریش کی طرف لوٹ گیا اور انھیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بیانات کی خبر دی، قریش نے اب کی بار حلس بن علقمہ کنانی کو بھیجا،یہ آدمی مختلف قبائل کی جماعتوں کا سردار تھا، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو دیکھا تو فرمایا: یہ آدمی ان لوگوں میں ہے، جو اللہ تعالی کے حق اور حرمت کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں، ہدی کے جانوروں کو اس کے سامنے لاؤ۔ صحابہ نے ایسے ہی کیا اور ہدیاں اس کے سامنے لے آئے، اب ہوا یوں کہ جب اس آدمینے وادی کے عرض میں ہدیاں اور ان کے گردنوں میں قلادے دیکھے اور دیکھا کہ زیادہ دیر ان کو ٹھہرانے کی وجہ سے ان کے تانت کھائے جا چکے ہیں، تو یہ آدمییہ منظر دیکھنے کے بعد ان چیزوں کی تعظیم کی وجہ سے واپس لوٹ گیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچا ہی نہیں، اس نے واپس آ کر کہا: اے قریش کی جماعت! میں ایسی چیزیں دیکھ آیا ہوں، جن کو روکنا حلال نہیں ہے، ہدی کے جانور ہیں، ان کے گردنوں میں قلادے ہیں اور زیادہ دیر ٹھہرائے جانے کی وجہ سے ان کے تانت کھائے جا چکے ہیں، قریش نے جواباً کہا: تو بیٹھ جا، تو تو بدّو ہے اور تجھے کوئی علم نہیں ہے، اب کی بار انھوں نے عروہ بن مسعود ثقفی کو بھیجا، اس نے کہا: قریش کی جماعت! تم لوگ جن افراد کو محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی طرف بھیج رہے ہو اور ان کے تبصروں کی وجہ سے تمہیں جو سرزنش اور برے الفاظ سننے پڑ رہے ہیں، میں وہ سب کچھ دیکھ رہا ہوں، تم جانتے ہو کہ تم والد کے اور میں تمہارا بیٹا ہونے کے قائم مقام ہوں (لہذا میں تمہارا پاس و لحاظ رکھوں گا)، جس معاملے کا تمہیں سامنا کرنا پڑا، میں وہ باتیں بھی سن چکا ہوں۔ پھر میں نے اپنی قوم میں سے ان لوگوں کو جمع کیا، جنہوں نے میری بات مان لی، پھر میں آیا اور میں نے اپنی جان کے ساتھ تمہارا تعاون کیا، قریشیوں نے کہا: تم سچ کہہ رہے ہو اور تم ہمارے نزدیک قابل اعتماد آدمی ہو، پس یہ آدمی نکل پڑا، یہاں تک کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے بیٹھ گیا اور کہا: اے محمد! آپ نے جنگوں میں ثابت قدم نہ رہنے والے مختلف لوگوں کو جمع کر لیا اور پھر ان کو لے کر یہاں آ گئے، تاکہ ان کی اصل کو ہی ختم کر دیں،یہ قریش نکل پڑے ہیں، ان کے ساتھ حاملہ اور دودھ والی اونٹنیاں موجود ہیں (مراد کہ یہ ان کا کھانا پینا ہے )، انھوں نے چیتوں کی کھالیں پہن رکھی ہیں اور انھوں نے اللہ تعالی سے معاہدہ کر رکھا ہے کہ آپ کبھی بھی ان پر زبردستی نہ گھس سکیں گے، اور اللہ کی قسم ہے، مجھے تو یوں لگ رہا ہے کہ یہ لوگ کل (جب میدان سجے گا) تو تجھے چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ سیدنا ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے بیٹھے تھے، انھوں نے اِس کییہ بات سن کر کہا: تو لات کے ختنے میں کٹ جانے چمڑے کے ٹکڑے کو چوسے، کیا ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو چھوڑ جائیں گے؟ اس نے کہا: اے محمد! یہ آدمی کون ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ ابن ابی قحافہ ہیں۔ عروہ بن مسعود نے کہا: اللہ کی قسم! اگر تیرا مجھ پر احسان نہ ہوتا تو میں تجھ سے اس بات کا بدلہ لیتا، چلو یہ بات اس احسان کے بدلے ہو گئے، پھر عروہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی داڑھی مبارک پکڑی، جبکہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اسلحہ سے لیس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر مبارک کے پاس کھڑے تھے، انھوں نے عروہ کے ہاتھ پر ضرب لگائی اور کہا: اپنے ہاتھ کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی داڑھی مبارک سے دور رکھ، اللہ کی قسم! وگرنہ تیرا ہاتھ تجھ تک نہ پہنچ پائے گا (یعنی میں اس کو کاٹ دوں گا)، عروہ نے آگے سے کہا: او تو ہلاک ہو جائے، تو تو کس قدر سخت گیر آدمی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرا دیئے، اس نے کہا: اے محمد! یہ کون ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تیرا بھتیجا مغیرہ بن شعبہ ہے۔ عروہ نے کہا: او دھوکے باز! تو نے تو کل اپنی شرمگاہ کو دھویا ہے (یعنی ماضی قریب میں ہی مال خرچ کر کے اپنی خیانت کے ضرر کودور کیا ہے)، بہرحال رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اِس آدمی سے اسی طرح کی گفتگو فرمائی، جیسے اس سے قبل اس کے ساتھیوں سے کی تھی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لڑائی کے ارادے سے نہیںآئے۔ پس یہ آدمی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے چلا گیا اور اس نے دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اصحاب، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وضو کرتے ہیں تو یہ لوگ (آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اعضائے شریفہ سے گرنے والے پانی کی طرف) لپک پڑتے ہیں اور جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تھوکتے ہیں تو یہ لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے تھوک کی طرف لپک پڑتے ہیں اور جب بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا کوئی بال گرتا ہے تو یہ اس کو اٹھا لیتے ہیں، پس عروہ قریش کی طرف لوٹ گیا اور کہا: اے قریش کی جماعت! میں کسریٰ کے ہاں اس کی مملکت میں اور قیصرونجاشی کے ہاں بھی ان کے ملکوں میں گیا ہوں، اللہ کی قسم! میں نے کبھی کسی بادشاہ کا اتنا احترام نہیں دیکھا جتنا احترام محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کا ان کے اصحاب میں ہے، میں نے ان کو دیکھا ہے کہ وہ اسے کسی ناگوار حالت کے سپرد نہ کریں گے، اب تم غور کر لو، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبل ازیں خراش بن امیہ خزاعی کو مکہ کی طرف بھیج چکے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے ثعلب نامی ایک اونٹ پر سوار کرایا تھا، وہ جب مکہ میں پہنچا تو قریش نے اس کے اونٹ کی کونچیں کاٹ دی تھیں اسے بھی قتل کرنا چاہتے تھے لیکن کچھ لوگوں نے انہیں ان کو قتل کرنے سے روک دیا، وہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خدمت میں واپس آگیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ کی طرف بطور سفیر بھیجنے کے لیے عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلوایا تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے قریش کی طرف سے اپنی جان کا خطرہ ہے اور وہاں بنو عدی کا کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو مجھے تحفظ دے سکے اور مجھے قریش سے جس قدر عداوت ہے، وہ سب اس سے بخوبی واقف ہیں، البتہ میں آپ کو ایک ایسے آدمی کے متعلق بتلاتا ہوں جو اہلِ مکہ کے ہاں مجھ سے زیادہ معزز اور محترم ہے اور وہ ہیں سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو بلوا کر قریش کی طرف اپنا سفیر بنا کر بھیجا تاکہ ان کو بتلائیں کہ ہم لوگ لڑائی کے لیے نہیں، محض بیت اللہ کی حرمت کی تعظیم کرنے کی خاطر صرف زیارت و طواف کے لیےآئے ہیں۔ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ روانہ ہو کر مکہ مکرمہ آئے۔ ان کی ابان بن سعید بن العاص سے ملاقات ہو گئی، وہ اپنی سواری سے نیچے اترا اور آپ کو اپنے آگے بٹھا کر خود پیچھے بیٹھا اور اس نے عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پناہ دی تاکہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پیغام پہنچا دیں۔ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ابو سفیان اور دیگر عظائے قریش کے پاس گئے اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو جو پیغام دے کر بھیجا تھا، وہ پیغام ان تک پہنچایا۔ انہوں نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اگر آپ بیت اللہ کا طواف کرنا چاہیں تو کر لیں، وہ بولے جب تک اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیت اللہ کا طواف نہ کریں میں نہیں کر سکتا۔ ان کو قریش نے اپنے ہاں روک لیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور مسلمانوں تک یہ افواہ پہنچی کہ عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کر دیا گیا ہے۔ قریش نے سہیل بن عمرو کو جو بنو عامر بن لؤی میں سے تھے کو بھیجا اور کہا کہ تم جا کر محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے صلح کی بات کرو۔ اس میںیہ شق ضرور ہو کہ وہ امسال بغیر عمرہ کئے واپس چلے جائیں، تاکہ عرب کبھی یہ نہ کہہ سکیں کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زبردستی ہمارے ہاں آگئے، پھر سہیل آیا، اس سے آگے سارا وہی بیان ہے جو قبل ازیں پہلی سند سے حدیث میں بیان ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ صلح ہو گئی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلا کر ان سے فرمایا لکھو۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم تو سہیل بن عمر ونے کہا میں تو اس کلام کو نہیں سمجھتا۔ اس کی بجائے آپ لکھیں: بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا تم بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ ہی لکھ دو،یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سہیل بن عمرو کے ساتھ کر رہے ہیں، سہیل بن عمرو پھر بولا کہ اگر میںیہ گواہی دیتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو میں آپ سے کبھی بھی قتال نہ کرتا۔ آپ یوں لکھیں کہ یہ وہ معاہدہ جس کے تحت محمد بن عبداللہ اور سہیل بن عمرو عہد کرتے ہیں کہ دس سال تک آپس میں کوئی لڑائی نہ کریں گے۔ اس عرصہ میں لوگ اطمینان اور امن سے رہیں گے اور ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے باز رہیں گے۔ نیزیہ کہ ( مکہ سے) کوئی مسلمان اپنے سر پرست کی اجازت کے بغیر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا تو وہ اسے اہل مکہ کی طرف واپس بھیجیں گے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھیوں میں سے اگر کوئی قریش کے پاس آیا تو وہ اسے واپس نہیں کریں گے، اس دوران ہمارے دل ایک دوسرے کی طرف سے صاف رہیں گے، خفیہ چوریاں نہ کریں گے اور نہ دلوں میں بغض رکھیں گے، معاہدہ صلح میںیہ شرط بھی تھی کہ دیگر قبائل میں سے جو محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا حلیف بننا چاہے بن سکے گا، اسی طرح جو قریش کا حلیف بننا چاہے بن سکے گا۔ خزاعہ قبیلہ نے جلدی سے کہا: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عقدوعہد میں آتے ہیں اور بنو بکر قبیلہ نے کہا کہ ہم قریش کے عقدوعہد میں آتے ہیں۔ نیزیہ کہ آپ اس سال عمرہ کئے بغیر واپس چلے جائیں اور مکہ میں نہ آئیں، جب آئندہ سال ہو گا ہم آپ کو نہیں روکیں گے۔ آپ اپنے اصحاب کی معیت میں مکہ میں آسکیں گے اور تین دن قیام کریں گے۔ آپ کے ہمراہ محض اس قدر ہتھیار ہوں گے، جس قدر کسی سوار کے پاس دورانِ سفر ہوتے ہیں، آپ کی تلواریں میانوں میں رہیں گی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابھییہ تحریر لکھوا رہے تھے کہ ابو جندل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بن سہیل بن عمر بیڑیوں میں مقید کسی طرح بچ بچا کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئے۔رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اصحاب جب مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تھے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خواب کی بنیاد پر انہیں فتح کا کامل یقین تھا، لیکن جب انہوں نے یہ صورت حال دیکھی کہ آپ کفار کے ساتھ صلح کر رہے ہیں اور عمرہ کئے بغیر واپسی کے لیے آمادہ ہوئے ہیں۔ اور آپ نے بظاہر اپنے خلاف شرائط کو قبول کر لیا ہے تو صحابہ کو شدید دھچکا لگا، قریب تھا کہ کچھ لوگ ہلاک ہو جاتے۔ سہیل نے ابو جندل کو دیکھا تو وہ اُٹھ کر ابو جندل کی طرف گیا اور اس کے چہرے پر تھپڑ مارا اور کہا: اے محمد! آپ کے اور میرے درمیان صلح کا معاہدہ اس کے آنے سے پہلے طے پا چکا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں ٹھیک ہے۔ تو وہ اُٹھ کر ابو جندل کی طرف گیا اور اس کے کپڑوں کو پکڑ کر سختی سے جھنجوڑا۔ ابو جندل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بلند آواز سے چیخے: ارے مسلمانو! کیا تم مجھے مشرکین کی طرف واپس کر دو گے تاکہ وہ دین کی وجہ سے مجھے مزید سزائیں دیں؟ لوگوں کے دلوں میں جو برے خیالات آچکے تھے، یہ دیکھ کر ان کے خیالات مزید منتشر ہو گئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابو جندل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: صبر کرو اور اللہ سے ثواب وجزا کی امید رکھو،تم اور تمہارے علاوہ جس قدر کمزور لوگ ہیں، اللہ تعالیٰ تم سب کی رہائی کی کوئی راہ نکال دے گا، ہم ان لوگوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ کر چکے ہیں، اس بارے میں ہم ان کو اور وہ ہمیں عہد دے چکے ہیں، ہم وعدہ خلافی ہرگز نہیں کریں گے۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا ابو جندل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف لپک کر گئے اور اس کے پہلو بہ پہلو چلنے لگے اور ان سے کہنے لگے: ابو جندل! صبر کرو، یہ لوگ مشرک ہیں، ان کا خون کتوں کا سا ہے۔ ساتھ ہی سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی تلوار کا دستہ ابو جندل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قریب کرتے گئے، مجھے لگتا تھا کہ وہ تلوار ابو جندل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے باپ کو مار دیں گے، اس نے اپنے باپ کو بچا لیا اور یہ قضیہ مکمل ہو گیا، اس کے بعد راوی نے ساری تفصیل ذکر کی کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ کو اونٹ نحر کرنے اور بال منڈوانے کا حکم دیا، انہوں نے تعمیل میں توقف کیا،یہاں تک کہ پہلے خود آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے اونٹ کو نحر کیا اور سر منڈوایا جیسا کہ پہلی سند سے مفصل بیان ہو چکا ہے، اس کے بعد لوگ اُٹھ کر اپنے اپنے اونٹوں کو نحر کرنے لگے اور بال منڈانے لگے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مکہ اور مدینہ کے درمیان ابھی راستہ ہی میں تھے کہ سورۂ فتح نازل ہوئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10791

۔ (۱۰۷۹۱)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: جَائَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُنَاسٌ مِنْ قُرَیْشٍ، فَقَالُوا: یَا مُحَمَّدُ! إِنَّا جِیرَانُکَ وَحُلَفَاؤُکَ وَإِنَّ نَاسًا مِنْ عَبِیدِنَا، قَدْ أَتَوْکَ لَیْسَ بِہِمْ رَغْبَۃٌ فِی الدِّینِ وَلَا رَغْبَۃٌ فِی الْفِقْہِ، إِنَّمَا فَرُّوا مِنْ ضِیَاعِنَا وَأَمْوَالِنَا فَارْدُدْہُمْ إِلَیْنَا، فَقَالَ لِأَبِی بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: ((مَا تَقُولُ؟)) قَالَ: صَدَقُوا إِنَّہُمْ جِیرَانُکَ، قَالَ: فَتَغَیَّرَ وَجْہُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ قَالَ لِعُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: ((مَا تَقُولُ؟)) قَالَ: صَدَقُوا إِنَّہُمْ لَجِیرَانُکَ وَحُلَفَاؤُکَ، فَتَغَیَّرَ وَجْہُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۳۳۶)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ قریش کے کچھ آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے اور انہوں نے کہا: اے محمد! ہم آپ کے ہمسائے اور حلیف ہیں، ہمارے کچھ غلام جنہیں نہ تو دین کا کچھ شوق ہے اور فقہ کی کچھ رغبت، وہ آپ کے پاس آگئے ہیں،یہ لوگ محض ہمارے اہل اور اموال میں سے فرار ہو کر آئے ہیں، آپ انہیں ہمارے حوالے کر دیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: ان کی بات تو درست ہے، یہ واقعی آپ کے ہمسائے ہیں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا اور پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: آپ کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے بھی کہا: ان کی بات تو درست ہے، یہ لوگ آپ کے ہمسائے اور حلیف بھی ہیں۔ یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ انور متغیر ہو گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10792

۔ (۱۰۷۹۲)۔ عَنِ الْبَرَائِ قَالَ: اعْتَمَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی ذِی الْقَعْدَۃِ، فَأَبٰی أَہْلُ مَکَّۃَ أَنْ یَدَعُوہُیَدْخُلُ مَکَّۃَ حَتّٰی قَاضَاہُمْ عَلٰی أَنْ یُقِیمَ بِہَا ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ، فَلَمَّا کَتَبُوا الْکِتَابَ کَتَبُوا ہٰذَا مَا قَاضٰی عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ، قَالُوا: لَا نُقِرُّ بِہٰذَا، لَوْ نَعْلَمُ أَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ مَا مَنَعْنَاکَ شَیْئًا، وَلٰکِنْ أَنْتَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ: ((أَنَا رَسُولُ اللّٰہِ وَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ۔)) قَالَ لِعَلِیٍّ: ((امْحُ رَسُولُ اللّٰہِ۔)) قَالَ: وَاللّٰہِ! لَا أَمْحُوکَ أَبَدًا، فَأَخَذَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْکِتَابَ وَلَیْسَیُحْسِنُ أَنْ یَکْتُبَ فَکَتَبَ مَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ہٰذَا مَا قَاضٰی عَلَیْہِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، أَنْ لَا یُدْخِلَ مَکَّۃَ السِّلَاحَ إِلَّا السَّیْفَ فِی الْقِرَابِ، وَلَا یَخْرُجَ مِنْ أَہْلِہَا أَحَدٌ إِلَّا مَنْ أَرَادَ أَنْ یَتَّبِعَہُ، وَلَا یَمْنَعَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِہِ أَنْ یُقِیمَ بِہَا، فَلَمَّا دَخَلَہَا وَمَضَی الْأَجَلُ أَتَوْا عَلِیًّا فَقَالُوْا: قُلْ لِصَاحِبِکَ فَلْیَخْرُجْ عَنَّا فَقَدْ مَضَی الْأَجَلُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۸۸۳۸)
سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ذوالقعدہ کے مہینے میں عمرہ کا قصد کیا، لیکن اہلِ مکہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا،یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ان سے یہ معاہدہ ہوا کہ آپ آئندہ سال مکہ میں تین دن قیام کر سکیں گے، جب معاہدہ کی عبارت لکھنے لگے تو انہوں نے لکھا: یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد رسول اللہ نے اتفاق کیا ہے، قریش کہنے لگے: ہم تو اس کا اقرار ہی نہیں کرتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول تسلیم کرتے تو ہم آپ کو کسی بھی بات سے نہ روکتے، آپ تو محمد بن عبداللہ ہیں ( یہی لکھو)، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں رسول اللہ بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: رسول اللہ کا لفظ کو مٹا دو۔ انہوں نے عرض کیا: اللہ کی قسم! میں کبھی بھییہ نہیں مٹاؤں گا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ کاغذ لے لیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اچھی طرح لکھ نہیں سکتے تھے۔ دوسری روایت کے الفاظ ہیں: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: اس لفظ کو مٹا دو۔ انہوں نے عرض کیا: میں تو ان الفاظ کو مٹا نہیں سکتا۔تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس لفظ کو مٹا دیا۔ اس کے بعد سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لفظ کی جگہ یوں لکھا: یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی ہے، وہ مکہ میں اسلحہ لے کر داخل نہ ہوں گے، ان کے پاس صرف تلواریں ہوں گی اور وہ بھی نیام کے اندر ہوں گی اور وہ اہل مکہ میں سے کسی کو بھی اپنے ساتھ نہیں لے جا سکیں گے، مگر وہ جو اس کی پیروی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو1 اور اگر ان کے ساتھیوں میں سے کوئی مستقل طور پرمکہ مکرمہ میں رہنا چاہے تو یہ اسے نہیں روکیں گے، اگلے سال جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ مکرمہ آئے اور مقرر وقت گزر گیا تو قریشی لوگ سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ اپنے رسول سے کہیں کہ مقرر وقت گزر گیا ہے، اب یہاں سے نکل لے جائیں۔ پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں سے روانہ ہو گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10793

۔ (۱۰۷۹۳)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: وَادَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمُشْرِکِینَیَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ عَلٰی ثَلَاثٍ، مَنْ أَتَاہُمْ مِنْ عِنْدِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَنْ یَرُدُّوہُ، وَمَنْ أَتٰی إِلَیْنَا مِنْہُمْ رَدُّوہُ إِلَیْہِمْ، وَعَلٰی أَنْ یَجِیئَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ، وَأَصْحَابُہُ فَیَدْخُلُونَ مَکَّۃَ مُعْتَمِرِینَ فَلَا یُقِیمُونَ إِلَّا ثَلَاثًا، وَلَا یُدْخِلُونَ إِلَّا جَلَبَ السِّلَاحِ السَّیْفِ وَالْقَوْسِ وَنَحْوِہِ۔ (مسند احمد: ۱۸۸۸۷)
۔( دوسری سند) سیدنا براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حدیبیہ کے دن مشرکین کے ساتھ تین باتوں کا معاہدہ کیا، ایکیہ کہ اگر کوئی شخص نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو چھوڑ کر قریش کے ساتھ آ ملا تو قریش اسے واپس نہیں کریں گے، لیکن اگر مکہ والوں میں سے کوئی مسلمانوں کے پاس آیا تو وہ اسے واپس کریں گے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اصحاب آئندہ سال مکہ میں عمرہ کے ارادے سے آئیں گے اور صرف تین دن قیام کریں گے اور وہ ہتھیاروں کی نمائش نہیں کریں گے، ان کے پاس صرف تلواریں ہوں گی اور وہ بھی نیاموں کے اندر اور صرف کمان وغیرہ ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10794

۔ (۱۰۷۹۴)۔ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ قُرَیْشًا صَالَحُوا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیہِمْ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعَلِیٍّ: ((اکْتُبْ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ۔)) فَقَالَ سُہَیْلٌ: أَمَّا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، فَلَا نَدْرِی مَا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ؟ وَلٰکِنْ اکْتُبْ مَا نَعْرِفُ بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ فَقَالَ: ((اُکْتُبْ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللّٰہِ۔)) قَالَ: لَوْ عَلِمْنَا أَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ لَاتَّبَعْنَاکَ وَلٰکِنْ اکْتُبْ اسْمَکَ وَاسْمَ أَبِیکَ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اکْتُبْ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ۔)) وَاشْتَرَطُوا عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّ مَنْ جَائَ مِنْکُمْ لَمْ نَرُدَّہُ عَلَیْکُمْ، وَمَنْ جَاء َ مِنَّا رَدَدْتُمُوہُ عَلَیْنَا، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَتَکْتُبُ ہٰذَا؟ قَالَ: ((نَعَمْ، إِنَّہُ مَنْ ذَہَبَ مِنَّا إِلَیْہِمْ فَأَبْعَدَہُ اللّٰہُ۔))۔ (مسند احمد: ۱۳۸۶۳)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ قریش نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، ان کے وفد میں سہیل بن عمرو بھی تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِلکھو ۔ سہیل نے کہا: ہم تو نہیں جانتے کہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِکیا ہے؟ آپ وہی کلمہ لکھیں جسے ہم جانتے ہیں، بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ لکھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لکھو یہ معاہدہ محمد رسول اللہ کی طرف سے ہے۔ ! اس جگہ یہ بات ہے جبکہ عام روایات میں یہ ہے کہ مکہ والوں میں اگر کوئی مسلمان ہو جائے تو وہ آپ کے ساتھ نہیں جا سکے گا۔ اس پر پھر سہیل بولا کہ اگر ہم یہ مانتے ہوتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کی اقتدا کر لیتے، آپ اس طرح کریں کہ اپنا اور اپنے والد کا نام لکھیں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لکھو یہ معاہدہ محمد بن عبداللہ کی طرف سے ہے۔ انہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ شرط طے کی کہ اگر آپ لوگوں میں سے کوئی (ہمارے پاس) آیا تو ہم اسے واپس نہیں کریں گے، لیکن ہمارا جو آدمی آپ کے پاس آیا، آپ اسے ہماری طرف واپس کر دیں گے۔ یہ سن کر سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم یہ شرط بھی لکھیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں ! جو آدمی ہمیں چھوڑ کر ان کی طرف جائے، اللہ تعالیٰ اسے ہم سے دور ہی رکھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10795

۔ (۱۰۷۹۵)۔ عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ أَنَّہُ شَہِدَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ، وَہُوَ رَافِعٌ غُصْنًا مِنْ أَغْصَانِ الشَّجَرَۃِ بِیَدِہِ عَنْ رَأْسِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُبَایِعُ النَّاسَ، فَبَایَعُوہُ عَلٰی أَنْ لَا یَفِرُّوا وَہُمْ یَوْمَئِذٍ أَلْفٌ وَاَرْبَعُ مِئَۃٍ۔ (مسند احمد: ۲۰۵۵۹)
معقل بن یسار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ حدیبیہ کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ حاضر تھے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب لوگوں سے بیعت لے رہے تھے تو یہ اپنے ہاتھوں سے درخت کی شاخوں میں سے ایک شاخ کو پکڑ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر مبارک سے اوپر کو اُٹھائے ہوئے تھے۔ صحابہ کرام نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بات کی بیعت کی تھی کہ وہ میدان سے فرار نہیں ہوں گے، اس روز صحابہ کی تعداد ایک ہزار چارسو تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10796

۔ (۱۰۷۹۶)۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: کُنَّا یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃَ اَلْفًا وَاَرْبَعَمِائَۃٍ فَبَایَعْنَاہٗ، وَعُمَرُ آخِذٌ بِیَدِہِ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ وَھِیَ سَمُرَۃٌ عَلٰی اَنْ لَا نَفِرَّ، وَلَمْ نُبَایِعْہُ عَلَی الْمَوْتِ۔ (مسند احمد: ۱۴۸۸۳)
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ حدیبیہ کے دن ہماری تعداد چودہ سو تھی، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ تھاما ہوا تھا، کیکریا ببول کے درخت کے نیچے ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بات کی بیعت کی تھی کہ ہم میدان سے فرار نہ ہوں گے، ہم نے موت پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت نہیں کی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10797

۔ (۱۰۷۹۷)۔ عَنِ جَابِرٍ قَالَ: کَانَ الْعَبَّاسُ آخِذًا بِیَدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُوَاثِقُنَا، فَلَمَّا فَرَغْنَا قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَخَذْتُ وَأَعْطَیْتُ۔)) قَالَ: فَسَأَلْتُ جَابِرًا یَوْمَئِذٍ: کَیْفَ بَایَعْتُمْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَعَلَی الْمَوْتِ؟ قَالَ: لَا، وَلٰکِنْ بَایَعْنَاہُ عَلٰی أَنْ لَا نَفِرَّ، قُلْتُ لَہُ: أَ فَرَأَیْتَیَوْمَ الشَّجَرَۃِ؟ قَالَ: کُنْتُ آخِذًا بِیَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ حَتّٰی بَایَعْنَاہُ، قُلْتُ: کَمْ کُنْتُمْ؟ قَالَ: کُنَّا أَرْبَعَ عَشَرَ مِائَۃً، فَبَایَعْنَاہُ کُلُّنَا إِلَّا الْجَدَّ بْنَ قَیْسٍ اخْتَبَأَ تَحْتَ بَطْنِ بَعِیرٍ، وَنَحَرْنَا یَوْمَئِذٍ سَبْعِینَ مِنَ الْبُدْنِ لِکُلِّ سَبْعَۃٍ جَزُورٌ۔ (مسند احمد: ۱۵۳۳۲)
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہم سے بیعت لے رہے تھے، جب ہم بیعت سے فارغ ہوئے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تم لوگوں سے بیعت لے چکا اور اللہ کا دین اور اس کے وعدے تمہیں دے چکا۔ ابو زبیر کہتے ہیں: میں نے سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ اس دن آپ لوگوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کس قسم کی بیعت کی تھی؟ کیا موت کی بیعت تھی؟ انہوں نے کہا: نہیں، ہم نے آپ سے اس بات کی بیعت کی تھی کہ ہم فرار نہیں ہوں گے۔ میں نے کہا: درخت والے دن کے متعلق بھی بتلائیں،انہوں نے کہا:اس د ن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا، میں نے دریافت کیا: اس دن آپ لوگوں کی تعداد کتنی تھی؟ انھوں نے کہا: ہم چودہ سو تھے، جد بن قیس کے سوا باقی سب لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، وہ اونٹ کے پیٹ کے پیچھے چھپ گیا تھا، اس دن ہم نے ستر اونٹ نحر کئے تھے، ہر سات آدمیوں کی طرف سے ایک اونٹ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10798

۔ (۱۰۷۹۸)۔ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ ابْنُ جُرَیْجٍ: أَخْبَرَنِی أَبُو الزُّبَیْرِ: أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرًا یُسْأَلُ ہَلْ بَایَعَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِذِی الْحُلَیْفَۃِ؟ قَالَ: لَا، وَلٰکِنْ صَلّٰی بِہَا وَلَمْ یُبَایِعْ عِنْدَ الشَّجَرَۃِ إِلَّا الشَّجَرَۃَ الَّتِی لِلْحُدَیْبِیَۃِ، و أَخْبَرَنَا أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرًا دَعَا عَلَی بِئْرِ الْحُدَیْبِیَۃِ۔ (مسند احمد: ۱۴۵۳۹)
ابو زبیر نے بیان کیا کہ انہوں نے سنا کہ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا گیا تھا کہ آیا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ذوالحلیفہ کے مقام پر بیعت لی تھی؟ انہوں نے کہا: نہیں، البتہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں نماز ادا کی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر درخت کے قریب بیعت ضرور لی تھی۔ ابو زبیر نے ہمیں خبر دی کہ انہوں نے سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سنا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حدیبیہ کے کنوئیں پر دعا کی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10799

۔ (۱۰۷۹۹)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُغَفَّلٍ وَکَانَ أَحَدَ الرَّہْطِ الَّذِینَ نَزَلَتْ فِیہِمْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {وَلَا عَلَی الَّذِینَ إِذَا مَا أَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ، قَالَ: إِنِّی لَآخِذٌ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِ الشَّجَرَۃِ أُظِلُّ بِہِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُمْ یُبَایِعُونَہُ فَقَالُوا: نُبَایِعُکَ عَلَی الْمَوْتِ، قَالَ: ((لَا وَلٰکِنْ لَا تَفِرُّوا۔)) (مسند احمد: ۲۰۸۲۰)
سیدنا عبداللہ بن مغفل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، یہ صحابی ان لوگوں میں سے ہیں جن کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی تھی: {وَلَا عَلَی الَّذِینَ إِذَا مَا أَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ} … اور نہ ان لوگوں پر کہ جب وہ آپ کے پاس آئے، تاکہ آپ ان کو سوار کریں۔ (سورۂ توبہ: ۹۲)، یہ صحابی بیان کرتے ہیں کہ ( حدیبیہ کے دن) صحابہ کرام ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کر رہے تھے اور میں درخت کی ایک شاخ پکڑے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر سایہ کئے ہوئے تھا، صحابہ نے کہا: ہم موت پر آپ کی بیعت کرتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم اس بات کی بیعت کرو کہ میدان سے فرار اختیار نہیں کرو گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10800

۔ (۱۰۸۰۰)۔ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ الْاکْوَعِ قَالَ: بَایَعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یَا ابْنَ الْاکْوَعِ اَلا تُبَایِعُ؟)) قال: قُلْتُ: قَدْ بَایَعْتُیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((اَیضًا۔)) قُلْتُ: عَلَامَ؟ قَالَ: ((عَلَی الْمَوْتِ۔)) (مسند احمد: ۱۶۶۲۳)
سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میں نے (حدیبیہ میں دوسرے لوگوں کے ساتھ) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی تھی، لیکن پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابن اکوع! کیا تم بیعت نہیں کرو گے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں تو آپ کی بیعت کر چکا ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر کرو۔ میں نے عرض کی: جی میںکس چیز پر بیعت کروں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: موت پر۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10801

۔ (۱۰۸۰۱)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ یَزِیْدَ بْنِ اَبِیْ عُبَیْدٍ قال: قُلْتُ لِسَلَمَۃَ بْنِ الْاَکْوَعِ: عَلٰی اَیِّ شَیْئٍ بَایَعْتُمْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ؟ قَالَ: بَایَعْنَا عَلَی الْمَوْتِ۔ (مسند احمد: ۱۶۶۴۸)
۔( دوسری سند) یزید بن ابی عبید سے مروی ہے کہ میں نے سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا:آپ لوگوں نے حدیبیہ کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کس بات پر بیعت کی تھی؟ انہوں نے کہا: موت پر۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10802

۔ (۱۰۸۰۲)۔ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ: کَانَ أَبِی مِمَّنْ بَایَعَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَحْتَ الشَّجَرَۃِ بَیْعَۃَ الرِّضْوَانِ، فَقَالَ: انْطَلَقْنَا فِی قَابِلٍ حَاجِّینَ فَعُمِّیَ عَلَیْنَا مَکَانُہَا، فَإِنْ کَانَتْ بَیَّنَتْ لَکُمْ فَأَنْتُمْ أَعْلَمُ۔ (مسند احمد: ۲۴۰۷۵)
سعید بن مسیب اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، ان کے باپ ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے درخت کے نیچے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت ِ رضوان کی تھی۔ انہوں نے کہا: جب ہم اگلے سال حج کے ارادے سے گئے تو اس درخت کی جگہ پہنچاننا ہمارے لیے مشکل ہو گیا۔( یعنییہ معلوم کرنا مشکل ہو گیا کہ ہم نے کس جگہ اور کس درخت کے نیچے بیعت کی تھی؟) اگر وہ جگہ تمہارے لیے واضح ہو گئی تو تم ہی پھر اس کے بارے میں بہتر جانتے ہو گے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابی کا بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں تو اگلے سال بھی اس درخت اور اس کی جگہ کا یقینی علم نہ ہو سکا۔ اگر کسی بعد والے شخص کو اس کا علم ہوا ہے تو پھر اس کا علم تو ہم سے زیادہ ہوا نا۔ مطلب یہ ہے کہ اس کا یقینی علم کسی کو نہیں۔ (عبداللہ رفیق)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10803

۔ (۱۰۸۰۳)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ طَارِقٍ یَعْنِی ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ: ذُکِرَ عِنْدَ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ الشَّجَرَۃُ فَقَالَ: حَدَّثَنِیْ اَبِیْ: اَنَّہُ کَانَ ذٰلِکَ الْعَامَ مَعَہُمْ فَنَسُوْھَا مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ۔ (مسند احمد: ۲۴۰۷۶)
۔(دوسری سند) طارق بن عبدالرحمن سے مروی ہے کہ سعید بن مسیب کے سامنے بیعت والے درخت کا ذکر کیا گیا،انہوں نے کہا: مجھے میرے والد نے بیان کیا کہ اس سال ( یعنی حدیبیہ والے سال) وہ بھی صحابہ کے ساتھ تھے، لیکن جب وہ صحابہ کے ساتھ اگلے سال گئے تو وہ اس درخت کو بھول چکے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10804

۔ (۱۰۸۰۴)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ اَنَّہُ قَالَ: کُنَّا یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ اَلْفًا وَاَرْبَعِمِائِۃٍ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَنْتُمُ الْیَوْمَ خَیْرُ اَھْلِ الْاَرْضِ۔))۔ (مسند احمد: ۱۴۳۶۴)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ حدیبیہ کے دن ہماری تعداد چودہ سو تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں فرمایا: تم آج روئے زمین کے تمام لوگوں سے افضل ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10805

۔ (۱۰۸۰۵)۔ وَعَنْہُ اَیْضًاعَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((لَا یَدْخُلُ النَّارَ اَحَدٌ مِمَّنْ بَایَعَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ۔))۔ (مسند احمد: ۱۴۸۳۷)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10806

۔ (۱۰۸۰۶)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ انَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعَثَ عُثْمَانَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ إِلٰی مَکَّۃَ وَکَانَتْ بَیْعَۃُ الرِّضْوَانِ بَعْدَ مَا ذَھَبَ عُثْمَانُ، فَضَرَبَ بِہَا یَدَہٗ عَلٰییَدِہِ وَقَالَ: ((ھٰذِہِ لِعُثْمَانَ۔)) (مسند احمد: ۵۷۷۲)
سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو مکہ مکرمہ بھیجا تھا، ان کے جانے کے بعد بیعتِ رضوان ہوئی تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس بیعت کے دوران اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا: یہ عثمان کی طرف سے ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10807

۔ (۱۰۸۰۷)۔ حَدَّثَنَا یَزِیدُ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ: أَنَّ شُرَحْبِیلَ بْنَ سَعْدٍ أَخْبَرَہُ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ الْحُدَیْبِیَۃِ حَتّٰی نَزَلْنَا السُّقْیَا، فَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: مَنْ یَسْقِینَا فِی أَسْقِیَتِنَا؟ قَالَ جَابِرٌ: فَخَرَجْتُ فِی فِئَۃٍ مِنَ الْأَنْصَارِ حَتّٰی أَتَیْنَا الْمَائَ الَّذِی بِالْأُثَایَۃِ وَبَیْنَہُمَا قَرِیبٌ مِنْ ثَلَاثَۃٍ وَعِشْرِینَ مِیلًا، فَسَقَیْنَا فِی أَسْقِیَتِنَا حَتّٰی إِذَا کَانَ بَعْدَ عَتَمَۃٍ إِذَا رَجُلٌ یُنَازِعُہُ بَعِیرُہُ إِلَی الْحَوْضِ، فَقَالَ: أَوْرِدْ فَإِذَا ہُوَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَوْرَدَ، ثُمَّ أَخَذْتُ بِزِمَامِ نَاقَتِہِ فَأَنَخْتُہَا، فَقَامَ فَصَلَّی الْعَتَمَۃَ، وَجَابِرٌ فِیمَا ذَکَرَ إِلٰی جَنْبِہِ، ثُمَّ صَلّٰی بَعْدَہَا ثَلَاثَ عَشْرَۃَ سَجْدَۃً۔ (مسند احمد: ۱۵۱۳۰)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ حدیبیہ سے واپس ہوئے تو ہم نے سقیا کے مقام پر نزول کیا۔(وہاں پانی کی قلت تھی) سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کون ہے جو ہمیں پانی پلائے گا؟ پس میں چند انصاری نوجوانوں کو لے کر روانہ ہوا، یہاں تک کہ ہم مقامِ اثایہ کے پانی پر پہنچے، جو وہاں سے تقریباً تئیس( ۲۳) میل دور تھا اور ہم اپنے مشکیزے بھر لائے، رات کا اندھیرا چھا چکا تھا، ہم نے دیکھا کہ ایک آدمی کو اس کا اونٹ پانی کے حوض کی طرف کھینچ رہا تھا، اس نے بھی کہاکہ پی لے۔ ہم نے دیکھا تو وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تھے، چنانچہ اس اونٹ نے پانی پیا، پھر میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اونٹنی کی مہار پکڑ کر اسے بٹھا دیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں کھڑے ہو کر عشاء کی نماز ادا کی، سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بیان کے مطابق انہوں نے بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پہلو میں نماز ادا کی، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تیرہ رکعت (رات کا قیام ) کیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10808

۔ (۱۰۸۰۸)۔ عَنْ إِیَاسٍ قَالَ: حَدَّثَنِی أَبِی: قَالَ: قَدِمْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْحُدَیْبِیَۃَ، وَنَحْنُ أَرْبَعَ عَشْرَۃَ مِائَۃً وَعَلَیْہَا خَمْسُونَ شَاۃً لَا تُرْوِیہَا، فَقَعَدَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی جَبَاہَا، فَإِمَّا دَعَا وَإِمَّا بَسَقَ، فَجَاشَتْ فَسَقَیْنَا وَاسْتَقَیْنَا، قَالَ: ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَعَا بِالْبَیْعَۃِ فِی أَصْلِ الشَّجَرَۃِ فَبَایَعْتُہُ أَوَّلَ النَّاسِ، وَبَایَعَ وَبَایَعَ حَتّٰی إِذَا کَانَ فِی وَسَطٍ مِنَ النَّاسِ، قَالَ: یَا سَلَمَۃُ! بَایِعْنِی، قَالَ: قَدْ بَایَعْتُکَ فِی أَوَّلِ النَّاسِ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((وَأَیْضًا فَبَایِعْ۔)) وَرَآنِی أَعْزَلًا فَأَعْطَانِی حَجَفَۃً أَوْ دَرَقَۃً، ثُمَّ بَایَعَ وَبَایَعَ حَتّٰی إِذَا کَانَ فِی آخِرِ النَّاسِ، قَالَ: ((أَلَا تُبَایِعُنِی؟)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَدْ بَایَعْتُ أَوَّلَ النَّاسِ وَأَوْسَطَہُمْ وَآخِرَہُمْ، قَالَ: ((وَأَیْضًا فَبَایِعْ۔)) فَبَایَعْتُہُ، ثُمَّ قَالَ: ((أَیْنَ دَرَقَتُکَ أَوْ حَجَفَتُکَ الَّتِی أَعْطَیْتُکَ؟)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! لَقِیَنِی عَمِّی عَامِرٌ أَعْزَلًا فَأَعْطَیْتُہُ إِیَّاہَا، قَالَ: فَقَالَ: ((إِنَّکَ کَالَّذِی قَالَ اللَّہُمَّ ابْغِنِی حَبِیبًا ہُوَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ نَفْسِی۔)) وَضَحِکَ، ثُمَّ إِنَّ الْمُشْرِکِینَ رَاسَلُونَا الصُّلْحَ حَتّٰی مَشَی بَعْضُنَا إِلٰی بَعْضٍ، قَالَ: وَکُنْتُ تَبِیعًا لِطَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ، أَحُسُّ فَرَسَہُ وَأَسْقِیہِ وَآکُلُ مِنْ طَعَامِہِ وَتَرَکْتُ أَہْلِی وَمَالِی مُہَاجِرًا إِلَی اللّٰہِ وَرَسُولِہِ، فَلَمَّا اصْطَلَحْنَا نَحْنُ وَأَہْلُ مَکَّۃَ، وَاخْتَلَطَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ، أَتَیْتُ الشَّجَرَۃَ فَکَسَحْتُ شَوْکَہَا وَاضْطَجَعْتُ فِی ظِلِّہَا، فَأَتَانِی أَرْبَعَۃٌ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ فَجَعَلُوا وَہُمْ مُشْرِکُونَ یَقَعُونَ فِی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَتَحَوَّلْتُ عَنْہُمْ إِلٰی شَجَرَۃٍ أُخْرٰی وَعَلَّقُوا سِلَاحَہُمْ وَاضْطَجَعُوا، فَبَیْنَمَا ہُمْ کَذٰلِکَ إِذْ نَادٰی مُنَادٍ مِنْ أَسْفَلِ الْوَادِی: یَا آلَ الْمُہَاجِرِینَ! قُتِلَ ابْنُ زُنَیْمٍ، فَاخْتَرَطْتُ سَیْفِی فَشَدَدْتُ عَلَی الْأَرْبَعَۃِ، فَأَخَذْتُ سِلَاحَہُمْ فَجَعَلْتُہُ ضِغْثًا، ثُمَّ قُلْتُ: وَالَّذِی أَکْرَمَ مُحَمَّدًا! لَایَرْفَعُ رَجُلٌ مِنْکُمْ رَأْسَہُ إِلَّا ضَرَبْتُ الَّذِییَعْنِی فِیہِ عَیْنَاہُ، فَجِئْتُ أَسُوقُہُمْ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَجَائَ عَمِّی عَامِرٌ بِابْنِ مِکْرَزٍ یَقُودُ بِہِ فَرَسَہُ یَقُودُ سَبْعِینَ حَتّٰی وَقَفْنَاہُمْ فَنَظَرَ إِلَیْہِمْ، فَقَالَ: ((دَعُوہُمْ یَکُونُ لَہُمْ بُدُوُّ الْفُجُورِ۔)) وَعَفَا عَنْہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأُنْزِلَتْ: {وَہُوَ الَّذِی کَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ} ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِینَۃِ فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا یُقَالُ لَہُ: لَحْیُ جَمَلٍ، فَاسْتَغْفَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِمَنْ رَقِیَ الْجَبَلَ فِی تِلْکَ اللَّیْلَۃِ، کَانَ طَلِیعَۃً لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابِہِ، فَرَقِیتُ تِلْکَ اللَّیْلَۃَ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثَۃً، ثُمَّ قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ، وَبَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِظَہْرِہِ مَعَ غُلَامِہِ رَبَاحٍ وَأَنَا مَعَہُ، وَخَرَجْتُ بِفَرَسِ طَلْحَۃَ أُنَدِّیہِ عَلٰی ظَہْرِہِ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا إِذَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عُیَیْنَۃَ الْفَزَارِیُّ قَدْ أَغَارَ عَلٰی ظَہْرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاسْتَاقَہُ أَجْمَعَ وَقَتَلَ رَاعِیَہُ۔ (مسند احمد: ۱۶۶۳۳)
ایاس سے مروی ہے، وہ کہتے ہیںمیرے والد سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں حدیبیہ کے مقام پر پہنچے، ہم چودہ سو کی تعداد میں تھے، وہاں پچاس بکریاں تھیں اور وہاں کا پانی ان کے لیے بھی نا کافی تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کنوئیں کے کنارے بیٹھ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یا تو دعا کییا اس میں اپنا لعاب مبارک ڈالا، پس کنواں تو جوش مارنے لگا۔ ہم نے پانی خود پیا اور جانوروں کو بھی پلایا، بعدازاں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک درخت کے نیچے سب لوگوں کو بیعت کے لیے پکارا، سب سے پہلے سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بیعت کی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں سے بیعت لیتے رہے، یہاں تک کہ جب آدھے لوگ بیعت کر چکے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سلمہ! تم بیعت کرو۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں تو سب سے پہلے بیعت کر چکا ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دوبارہ بیعت کرو۔ چنانچہ انہوں نے دوبارہ بیعت کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بغیر اسلحہ کے یعنی خالی ہاتھ دیکھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ڈھال عطا فرمائی اور پھر لوگوں سے بیعت لیتے رہے۔ یہاں تک کہ جب آخری لوگ بیعت کر رہے تھے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: ابن اکوع! کیا تم میری بیعت نہیں کر و گے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں تو سب سے پہلے بھی اور لوگوں کے وسط میں بھی بیعت کر چکا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر بیعت کرو۔ چنانچہ میں نے سہ بارہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں جو ڈھال دی ہے، وہ کہاں ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے میرا چچا عامر بغیر اسلحہ کے یعنی خالی ہاتھ ملے تو میں نے وہ ڈھال ان کو دے دی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم تو اس آدمی کی مانند ہو، جس نے کہا تھا یا اللہ مجھے ایسے دوست مہیا کر جو مجھے اپنے آپ سے بھی زیادہ محبوب ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ فرما کر مسکرا دئیے، اس کے بعد مشرکین ہمارے ساتھ صلح کی کوششیں کرتے رہے، یہاں تک کہ ہم میں سے بعض ایک دوسرے کی طرف بھی گئے۔ میں اس وقت سیدنا طلحہ بن عبیداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا خدمت گزار تھا، میں ان کے گھوڑے کو سہلاتا، اسے پانی پلاتا اور میں ان کے کھانے میں سے کھانا کھاتا اور میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرنے کی وجہ سے اپنے اہل وعیال اور اموال کو چھوڑ کر ان سے لا تعلق ہو چکا تھا۔ جب ہماری اہل مکہ سے صلح ہوئی اور ہم ایک دوسرے سے ملنے جلنے لگے، ایک درخت کے نیچے جا کر میں نے اس کے کانٹے صاف کئے اور اس کے سائے میں لیٹ گیا،مکہ کے باشندوں میں سے چار مشرک میرے پاس آگئے اور وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بارے میں نازیبا الفاظ کہنے لگے،میں ان کو چھوڑ کر ایک اور درخت کے نیچے چلا گیا، انہوں نے اپنے ہتھیار درخت کے ساتھ لٹکائے اور لیٹ گئے، وہ ابھی اسی حال میں تھے کہ وادی کے پست حصے کی جانب سے ایک پکارنے والے نے پکارا: اے مہاجرین! ابن زُنیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کر دیا گیا ہے۔ میں اپنی تلوار سونت کر ان چاروں کی طرف دوڑا، میں نے ان کے ہتھیار اپنے قبضہ میں لے لئے اور میں نے ان سے کہا: اس ذات کی قسم جس نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو عزت سے نوازا ہے! اگر تم میں سے کسی نے اپنا سر اوپر کو اُٹھایا تو میں اسے قتل کر دوں گا، میں ان کو ہانک کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لے آیا اور میرے چچا عامر نے ابن مکرز کو گرفتار کر لیا، وہ اسے اپنے گھوڑے پر کر رہا تھا، ان کے ساتھ مزید ستر مشرکین تھے، یہاں تک کہ ہم سب آکر رک گئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان لوگوں کی طرف دیکھ کر فرمایا: ان کو چھوڑ دو، گناہ کا آغاز انہی کے ذمہ ہے۔ اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے در گزر فرمایا اور یہ آیت نازل ہوئی: {وَہُوَ الَّذِی کَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ}… اور وہ ذات ہے جس نے ان کے ہاتھوں کوتم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روکا۔ (سورۂ فتح: ۲۴) اس کے بعد ہم مدینہ منورہ کی طرف واپس چل دئیے، ہم واپسی پر لحی جمل نامی ایک مقام پر ٹھہرے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں اس آدمی کے حق میں مغفرت کی دعا کی جو اس رات پہاڑ پر چڑھ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابہ کرام کا پہرہ دے، پس میں اس رات دو یا تین مرتبہ پہاڑ پر چڑھا، پھر ہم مدینہ منورہ پہنچ گئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا اونٹ دوسرے اونٹوں میں پہنچانے کے لیے اپنے غلام رباح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاتھ بھیجا، میں بھی سیدنا طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھوڑے پر سوار اسے دوڑاتا ہوا، رباح کے ہمراہ تھا، صبح ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ عبدالرحمن بن عیینہ فرازی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اونٹوں کو لوٹ کر ان سب کو لے گیا اور اونٹوں کے چرواہے کو قتل کر گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10809

۔ (۱۰۸۰۹)۔ قَالَ حَدَّثَنِی مَکِّیُّ بْنُ إِبْرَاہِیمَ قَالَ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ أَبِی عُبَیْدٍ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ، أَنَّہُ أَخْبَرَہُ قَالَ، خَرَجْتُ مِنَ الْمَدِینَۃِ ذَاہِبًا نَحْوَ الْغَابَۃِ حَتّٰی إِذَا کُنْتُ بِثَنِیَّۃِ الْغَابَۃِ، لَقِیَنِی غُلَامٌ لِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ: قُلْتُ: وَیْحَکَ! مَا لَکَ؟ قَالَ: أُخِذَتْ لِقَاحُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قُلْتُ: مَنْ أَخَذَہَا؟ قَالَ: غَطَفَانُ وفَزَارَۃُ، قَالَ: فَصَرَخْتُ ثَلَاثَ صَرَخَاتٍ أَسْمَعْتُ مَنْ بَیْنَ لَابَتَیْہَا،یَا صَبَاحَاہْ! یَا صَبَاحَاہْ! ثُمَّ انْدَفَعْتُ حَتّٰی أَلْقَاہُمْ وَقَدْ أَخَذُوہَا، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَرْمِیہِمْ وَأَقُولُ: أَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ وَالْیَوْمُیَوْمُ الرُّضَعِ، قَالَ: فَاسْتَنْقَذْتُہَا مِنْہُمْ قَبْلَ أَنْ یَشْرَبُوا، فَأَقْبَلْتُ بِہَا أَسُوقُہَا فَلَقِیَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ الْقَوْمَ عِطَاشٌ وَإِنِّی أَعْجَلْتُہُمْ قَبْلَ أَنْ یَشْرَبُوا فَاذْہَبْ فِی أَثَرِہِمْ، فَقَالَ: ((یَا ابْنَ الْأَکْوَعِ! مَلَکْتَ فَأَسْجِحْ إِنَّ الْقَوْمَ یُقْرَوْنَ فِی قَوْمِہِمْ۔)) (مسند احمد: ۱۶۶۲۸)
یزید بن ابی عبید سے مروی ہے کہ سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو بتلایا کہ میں غابہ کی طرف جانے کے لیے مدینہ منورہ سے روانہ ہوا، جب میں غابہ کی گھاٹییا راستہ میں تھا تو مجھ سے سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے لڑکے کی ملاقات ہوئی، میں نے کہا تیرا بھلا ہو، تجھے کیاہوا ہے؟ وہ بولا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اونٹنیوں کو لوٹ لیا گیا ہے، میں نے پوچھا: کس نے لوٹی ہیں؟ اس نے بتایا کہ غطفان اور فزارہ کے لوگوں نے، سیدنا سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: یہ سن کر میں نے بلند آواز سے تین بار یَا صَبَاحَاہ کی آواز دی،یہ آواز اس قدر اونچی اور تیز تھی کہ میں نے مدینہ کے دو حرّوں کے مابین لوگوں تک پہنچادی، پھر میں ان لوگوں کے پیچھے دوڑ پڑا، تاآنکہ میں نے ان کو جا لیا، وہ ان اونٹنیوں کو اپنے قبضے میں لے چکے تھے۔ میں ان پر تیر برسانے لگا اور میں یہ رجز پڑھتا جا تا تھا: أَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ وَالْیَوْمُیَوْمُ الرُّضَعِ (میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کمینوں کی ہلاکت کا دن ہے)۔ سیدنا سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:قبل اس کے کہ وہ کہیں جا کر پانی پیتے میں نے اونٹنیوں کو ان سے چھڑوا لیا۔ میں اونٹنیوں کو لے کر واپس ہوا اوررسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ لوگ ابھی تک پیاسے ہیں اور میں ان کے پانی پینے سے پہلے پہلے ان تک پہنچ گیا، آپ ان کے پیچھے تشریف لے چلیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابن اکوع! تو نے ان پر غلبہ پالیا اب نرمی کر، ان کی قوم میں ان کی ضیافت کی جا رہی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10810

۔ (۱۰۸۱۰)۔ حَدَّثَنَا إِیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ عَنْ أَبِیہِ قَالَ: قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ زَمَنَ الْحُدَیْبِیَۃِ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَخَرَجْنَا أَنَا وَرَبَاحٌ غُلَامُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِظَہْرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَخَرَجْتُ بِفَرَسٍ لِطَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ، کُنْتُ أُرِیدُ أَنْ أُبْدِیَہُ مَعَ الْإِبِلِ، فَلَمَّا کَانَ بِغَلَسٍ غَارَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَلٰی إِبِلِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَتَلَ رَاعِیَہَا وَخَرَجَیَطْرُدُہَا ہُوَ وَأُنَاسٌ مَعَہُ فِی خَیْلٍ، فَقُلْتُ: یَا رَبَاحُ! اقْعُدْ عَلٰی ہٰذَا الْفَرَسِ فَأَلْحِقْہُ بِطَلْحَۃَ وَأَخْبِرْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ قَدْ أُغِیرَ عَلٰی سَرْحِہِ، قَالَ: وَقُمْتُ عَلٰی تَلٍّ فَجَعَلْتُ وَجْھِیْ مِنْ قِبَلِ الْمَدِیْنَۃِ، ثُمَّ نَادَیْتُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ: یَا صَبَاحَاہ! ثُمَّ اتَّبَعْتُ الْقَوْمَ مَعِیَ سَیْفِیْ وَنَبَلِیْ فَجَعَلْتُ اَرْمِیْھِمْ وَاَعْقرُ بِھِمْ وَذٰلک حِیْنَیَکْثُرُ الشَّجَرُ، فَاِذَا رَجَعَ اِلَیَّ فَارِسٌ جَلَسْتُ لَہُ فِیْ اَصْلِ الشَّجَرَۃِ ثُمَّ رَمَیْتُ، فَلَا یَقْبَلُ عَلَیَّ فَارِسٌ إِلَّا عَقَرْتُ بِہِ فَجَعَلْتُ اَرْمِیْھِمْ رَاحِلَتِہِ وَاَقُوْلُ: أَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ وَالْیَوْمُیَوْمُ الرُّضَّع، فَاَلْحَقُ بِرَجْلٍ مِنْھُمْ فَاَرْمِیْہِ وَھُوَ عَلٰی رَاحِلَتِہِ فَیَقْعُ سَھْمِیْ فِی الرَّجُلِ حَتَّی انْتَظَمْتُ کَتِفَہُ فَقُلْتُ: خُذْھَا وَأَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ وَالْیَوْمُیَوْمُ الرُّضَّعِ فَاِذَا کُنْتُ فِی الشَّجَرِ اَحْرَقْتُھُمْ بِالنَّبَلِ فَاِذَا تَضَایَقَتِ الثَّنَایَا عَلَوْتُ الْجَبَلَ فَرَدَّیْتُھُمْ بِالْحِجَارَۃِ، فَمَا ذَاکَ شَاْنِیْ وَشَاْنُہُمْ اَتْبَعُہُمْ فَاَرْتَجِزُ حَتّٰی مَا خَلَقَ اللّٰہُ شَیْئاً مِنْ ظَہْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَّا خَلَفْتُہُ وَرَائَ ظَہْرِیْ فَاسْتَنْقَذْتُہُ مِنْ اَیْدِیْہِمْ، ثُمَّ لَمْ اَزَلْ اَرْمِیْہِمْ حَتّٰی اَلْقَوْا اَکْثَرَ مِنْ ثَلَاثِیْنَ رُمْحاً، وَاَکْثَرَ مِنْ ثَلَاثِیْنَ بُرْدَۃًیَسْتَخِفُّوْنَ مِنْہَا، وَلَا یُلْقَوْنَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا إِلَّا جَعَلْتُ عَلَیْہِ حِجَارَۃً وَجَمَعْتُ عَلٰی طَرِیْقِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی إِذَا امْتَدَّ الضُّحٰی اَتَاھُمْ عُیَیْنَۃُ بْنُ بَدْرٍ الْفَزَارِیُّ مَدَدًا لَھُمْ، وَھُمْ فِیْ ثَنِیَّۃٍ ضَیْقَۃٍ، ثُمَّ عَلَوْتُ الْجَبَلَ فَاَنَا فَوْقَہُمْ فَقَالَ عُیَیْنَۃُ: مَا ھٰذَا الَّذِیْ أرٰی قَالُوا: لَقِینَا مِنْ ہٰذَا الْبَرْحَ مَا فَارَقَنَا بِسَحَرٍ حَتّٰی الْآنَ وَأَخَذَ کُلَّ شَیْء ٍ فِی أَیْدِینَا وَجَعَلَہُ وَرَاء َ ظَہْرِہِ، قَالَ عُیَیْنَۃُ: لَوْلَا أَنَّ ہٰذَا یَرَی أَنَّ وَرَائَ ہُ طَلَبًا لَقَدْ تَرَکَکُمْ لِیَقُمْ إِلَیْہِ نَفَرٌ مِنْکُمْ، فَقَامَ إِلَیْہِ مِنْہُمْ أَرْبَعَۃٌ فَصَعِدُوْا فِی الْجَبَلِ، فَلَمَّا أَسْمَعْتُہُمْ الصَّوْتَ قُلْتُ: أَتَعْرِفُونِی؟ قَالُوا: وَمَنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: أَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ، وَالَّذِی کَرَّمَ وَجْہَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ! لَا یَطْلُبُنِی مِنْکُمْ رَجُلٌ فَیُدْرِکُنِی وَلَا أَطْلُبُہُ فَیَفُوتُنِی، قَالَ رَجُلٌ مِنْہُمْ: إِنْ أَظُنُّ قَالَ فَمَا بَرِحْتُ مَقْعَدِی ذٰلِکَ حَتّٰی نَظَرْتُ إِلٰی فَوَارِسِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَتَخَلَّلُونَ الشَّجَرَ، وَإِذَا أَوَّلُہُمْ الْأَخْرَمُ الْأَسَدِیُّ، وَعَلٰی أَثَرِہِ أَبُو قَتَادَۃَ فَارِسُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعَلٰی أَثَرِ أَبِی قَتَادَۃَ الْمِقْدَادُ الْکِنْدِیُّ فَوَلَّی الْمُشْرِکُونَ مُدْبِرِینَ، وَأَنْزِلُ مِنَ الْجَبَلِ فَأَعْرِضُ لِلْأَخْرَمِ فَآخُذُ بِعِنَانِ فَرَسِہِ، فَقُلْتُ: یَا أَخْرَمُ! ائْذَنِ الْقَوْمَ یَعْنِی احْذَرْہُمْ، فَإِنِّی لَا آمَنُ أَنْ یَقْطَعُوکَ فَاتَّئِدْ حَتّٰییَلْحَقَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابُہُ، قَالَ: یَا سَلَمَۃُ! إِنْ کُنْتَ تُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ، وَتَعْلَمُ أَنَّ الْجَنَّۃَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ، فَلَا تَحُلْ بَیْنِی وَبَیْنَ الشَّہَادَۃِ، قَالَ: فَخَلَّیْتُ عِنَانَ فَرَسِہِ فَیَلْحَقُ بِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عُیَیْنَۃَ، وَیَعْطِفُ عَلَیْہِ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ، فَاخْتَلَفَا طَعْنَتَیْنِ فَعَقَرَ الْأَخْرَمُ بِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ، وَطَعَنَہُ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ فَقَتَلَہُ، فَتَحَوَّلَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ عَنْ فَرَسِ الْأَخْرَمِ، فَیَلْحَقُ أَبُو قَتَادَۃَ بِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ، فَاخْتَلَفَا طَعْنَتَیْنِ فَعَقَرَ بِأَبِی قَتَادَۃَ وَقَتَلَہُ أَبُو قَتَادَۃَ، وَتَحَوَّلَ أَبُو قَتَادَۃَ عَلٰی فَرَسِ الْأَخْرَمِ، ثُمَّ إِنِّی خَرَجْتُ أَعْدُو فِی أَثَرِ الْقَوْمِ حَتّٰی مَا أَرٰی مِنْ غُبَارِ صَحَابَۃِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَیْئًا، وَیُعْرِضُونَ قَبْلَ غَیْبُوبَۃِ الشَّمْسِ إِلٰی شِعْبٍ فِیہِ مَائٌ یُقَالُ لَہُ: ذُو قَرَدٍ،فَأَرَادُوا أَنْ یَشْرَبُوا مِنْہُ، فَأَبْصَرُونِی أَعْدُو وَرَائَ ہُمْ، فَعَطَفُوا عَنْہُ وَاشْتَدُّوا فِی الثَّنِیَّۃِ ثَنِیَّۃِ ذِی بِئْرٍ وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَأَلْحَقُ رَجُلًا فَأَرْمِیہِ: فَقُلْتُ: خُذْہَا، وَأَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ، وَالْیَوْمُیَوْمُ الرُّضَّعِ، قَالَ: فَقَالَ: یَا ثُکْلَ أُمِّ أَکْوَعَ بَکْرَۃً، قُلْتُ: نَعَمْ، أَیْ عَدُوَّ نَفْسِہِ! وَکَانَ الَّذِی رَمَیْتُہُ بَکْرَۃً فَأَتْبَعْتُہُ سَہْمًا آخَرَ، فَعَلِقَ بِہِ سَہْمَانِ، وَیَخْلُفُونَ فَرَسَیْنِ، فَجِئْتُ بِہِمَا أَسُوقُہُمَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ عَلَی الْمَائِ الَّذِی جَلَّیْتُہُمْ عَنْہُ ذُوْ قَرَدٍ، فَإِذَا بِنَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی خَمْسِ مِائَۃٍ، وَإِذَا بِلَالٌ قَدْ نَحَرَ جَزُورًا مِمَّا خَلَّفْتُ فَہُوَ یَشْوِی لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ کَبِدِہَا وَسَنَامِہَا، فَأَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! خَلِّنِی فَأَنْتَخِبَ مِنْ أَصْحَابِکَ مِائَۃً فَآخُذَ عَلَی الْکُفَّارِ عَشْوَۃً فَلَا یَبْقٰی مِنْہُمْ مُخْبِرٌ إِلَّا قَتَلْتُہُ، قَالَ: ((أَکُنْتَ فَاعِلًا ذٰلِکَ یَا سَلَمَۃُ۔)) قَالَ: نَعَمْ، وَالَّذِی أَکْرَمَکَ! فَضَحِکَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی رَأَیْتُ نَوَاجِذَہُ فِی ضَوئِ النَّارِ، ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّہُمْ یُقْرَوْنَ الْآنَ بِأَرْضِ غَطَفَانَ۔)) فَجَائَ رَجُلٌ مِنْ غَطَفَانَ، فَقَالَ: مَرُّوا عَلَی فُلَانٍ الْغَطَفَانِیِّ فَنَحَرَ لَہُمْ جَزُورًا، قَالَ: فَلَمَّا أَخَذُوا یَکْشِطُونَ جِلْدَہَا رَأَوْا غَبَرَۃً فَتَرَکُوہَا وَخَرَجُوا ہَرَبًا، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((خَیْرُ فُرْسَانِنَا الْیَوْمَ أَبُو قَتَادَۃَ، وَخَیْرُ رَجَّالَتِنَا سَلَمَۃُ۔)) فَأَعْطَانِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَہْمَ الرَّاجِلِ وَالْفَارِسِ جَمِیعًا، ثُمَّ أَرْدَفَنِی وَرَائَ ہُ عَلَی الْعَضْبَائِ رَاجِعِینَ إِلَی الْمَدِینَۃِ، فَلَمَّا کَانَ بَیْنَنَا وَبَیْنَہَا قَرِیبًا مِنْ ضَحْوَۃٍ وَفِی الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ کَانَ لَا یُسْبَقُ، جَعَلَ یُنَادِی: ہَلْ مِنْ مُسَابِقٍ أَلَا رَجُلٌ یُسَابِقُ إِلَی الْمَدِینَۃِ؟ فَأَعَادَ ذٰلِکَ مِرَارًا وَأَنَا وَرَائَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُرْدِفِی قُلْتُ لَہُ: أَمَا تُکْرِمُ کَرِیمًا، وَلَا تَہَابُ شَرِیفًا؟)) قَالَ: لَا إِلَّا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، خَلِّنِی فَلَأُسَابِقُ الرَّجُلَ، قَالَ: ((إِنْ شِئْتَ۔)) قُلْتُ أَذْہَبُ إِلَیْکَ فَطَفَرَ عَنْ رَاحِلَتِہِ وَثَنَیْتُ رِجْلَیَّ فَطَفَرْتُ عَنِ النَّاقَۃِ، ثُمَّ إِنِّی رَبَطْتُ عَلَیْہَا شَرَفًا أَوْ شَرَفَیْنِیَعْنِی اسْتَبْقَیْتُ نَفْسِی،ثُمَّ إِنِّی عَدَوْتُ حَتّٰی أَلْحَقَہُ فَأَصُکَّ بَیْنَ کَتِفَیْہِ بِیَدَیَّ، قُلْتُ: سَبَقْتُکَ وَاللّٰہِ! أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَہَا، قَالَ: فَضَحِکَ، وَقَالَ: إِنْ أَظُنُّ حَتّٰی قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ۔ (مسند احمد: ۱۶۶۵۴)
ایاس بن سلمہ بن اکوع اپنے والد سلمہ بن اکوع سے بیان کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ حدیبیہ کے زمانہ میں ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ مدینہ منورہ آئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا غلام رباح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اونٹ کو لے کر روانہ ہوئے۔ میں طلحہ بن عبیداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھوڑے پر سوار اسے اونٹ کے ساتھ دوڑانا چاہتا تھا۔ صبح منہ اندھیرے عبدالرحمن بن عیینہ فزاری نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اونٹوں پر دھاوا بول دیا۔ ان کے چرواہے کو قتل کر دیا۔ وہ اور اس کے ساتھی جو گھوڑوں پر سوار تھے۔ اونٹوں کو بھگالے گئے۔ میں نے کہا اے رباح! تم اس گھوڑے پر سوار ہو کر جاؤ اور اسے طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تک پہنچا دو اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جا کر اطلاع دو کہ ان کے جانوروں کو لوٹ لیا گیا ہے۔ اور میں نے خود ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر مدینہ کی طرف رخ کر کے تین مرتبہ یا صباحاہ کی ندا دی۔ اور تیر تلوار لے کر میں نے ان لوگوں کا پیچھا شروع کر دیا۔ تو میں تیر چلا چلا کر جہاں درخت زیادہ ہوتے ان کو زخمی کرتا اور جب کوئی گھڑ سوار میری طرف رخ کرتا تو میں کسی درخت کے پیچھے بیٹھ جاتا اور پھر تیر چلانا شروع کر دیتا کوئی بھی گھڑ سوار میری طرف رخ کرتا تو میں اس کے گھوڑے کو زخمی کر دیتا، میں ان پر تیر برساتا اور یہ رجز پڑھتا تھا۔ أَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ وَالْیَوْمُیَوْمُ الرُّضَّع (اور میں اکوع کا بیٹا ہوں آج کمینوں (کی ہلاکت) کا دن ہے) میں ان میں سے کسی سے ملتا اس پر تیر چلاتا میرا تیر اسے جا لگتا اور میں تیر کو اس کے کندھے میں پیوست کر دیتا اور میں کہتا۔ أَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ وَالْیَوْمُیَوْمُ الرُّضَّع (اور میں اکوع کا بیٹا ہوں آج کمینوں (کی ہلاکت) کا دن ہے)میں جب درختوں کے کسی جھنڈ میں ہوتا تو ان پر تیر وں کی بوچھاڑ کر دیتا۔ اور جب تنگ راستے آتے تو میں پہاڑ کے اوپر چڑھ جاتا اور ان پر پتھر لڑھکانے لگتا۔ ان کی اور میرییہی حالت رہی۔ میں ان کے پیچھے لگا رہا۔ اور رجز پڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے جتنے اونٹ پیدا کئے تھے میں ان کو دشمنوں سے چھڑوا کر ان کو پیچھے چھوڑتا گیا۔ اور میں ان پر تیر برساتا رہا یہاں تک کہ وہ اپنا وزن ہلکا کرنے کے لیے تیس سے زیادہ نیزے اور تیس سے زائد چادریں بھی پھینک گئے۔ وہ جو چیز بھی اس طرح پھینکتے جاتے میں ان پر بطور علامت پتھر رکھ جاتا اور ان اشیاء کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے راستے پر جمع کر تا گیا۔ جب دن اچھی طرح چڑھ آیا تو عیینہ بن بدر فزاری ان کی مدد کو آگیا۔ اس وقت وہ ایک تنگ راستے پر جا رہے تھے۔ میں پہاڑ کے اوپر چڑھ گیا۔ تو عیینہ نے ان سے کہا میں تمہارا کیسا براحال دیکھ رہا ہوں۔ وہ بولے یہ ساری مصیبت اس کی طرف سے آئی ہے۔ یہ صبح سے اب تک ہمارا پیچھا کر رہا ہے۔ اس نے ہمارا سارا سامان ہم سے لے کر اسے پیچھے چھوڑ آیا ہے۔ عیینہ نے کہا اسے یقینا معلوم ہے کہ پیچھے سے اس کے ساتھی آرہے ہیں۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو یہ تمہیں چھوڑ جاتا۔ تم میں سے کچھ لوگ اس کی طرف جائیں تو سہی۔ تو ان میں سے چار آدمی اس کی طرف جانے کے لیے اُٹھے اور پہاڑ پر چڑھ گئے۔ میں نے بلند آواز سے ان کو کہا کیا تم لوگ مجھے پہنچانتے ہو؟ وہ بولے بتاؤ تم کون ہو؟ میں نے کہا کہ میں اکوع کا بیٹا ہوں۔ اس ذات کی قسم جس نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بے انتہا عزت سے نوازا ہے تم میں سے کوئی بھی مجھے نہیں پکڑ سکتا۔ اور میں تم میں سے جسے پکڑنا چاہوں وہ میرے ہاتھوں سے نکل نہیں سکتا۔ ان میں سے ایک نے کہا بات تو ایسی ہی ہے سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ میں بڑے آرام سے اپنی جگہ بیٹھا رہا۔ یہاں تک کہ میں نے درختوں کے بیچ میں سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گھڑ سواروں کو آتے دیکھ لیا۔ اخرم اسدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سب سے آگے تھے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گھڑ سوار ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس سے پیچھے تھے۔ اور ان سے پیچھے مقداد کندی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔ یہ منظر دیکھ کر مشرکین تو دُم دبا کر بھاگ اُٹھے اور میں پہاڑ سے نیچے اتر کر اخرم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سامنے آیا اور ان کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر میں نے کہا اخرم! ان لوگوں سے ذرا محتاط رہنا مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ آپ کو اچک نہ لیں۔ تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ کے اصحاب کے آنے تک ذرا رک جاؤ۔ تو اخرم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا اے سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ! اگر تم اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور یقین رکھتے ہو کہ جنت اور دوزخ حق ہیں تو تم میرے اور شہادت کے درمیان رکاوٹ نہ بنو۔ سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں ان کی بات سن کر میں نے ان کے گھوڑے کی باگ کو چھوڑ دیا۔ ان کا ٹکراؤ عبدالرحمن بن عیینہ سے ہو گیا۔ وہ ان پر الٹ الٹ کر حملے کرنے لگا۔ انہوں نے ایک دوسرے پر نیزے کے دو دو وار کئے اخرم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عبدالرحمن کے گھوڑے کی ٹانگوں کو زخمی کر دیا۔ اور عبدالرحمن نے ان کو نیزے کا وار کر کے شہید کر دیا۔ اس کے بعد عبدالرحمن اخرم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ پھر ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اس سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔ انہوں نے بھی ایک دوسرے پر نیزے چلائے۔ ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا گھوڑا تو زخمی ہو گیا تاہم انہوں نے عبدالرحمن کو قتل کر دیا۔ اور ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اخرم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ والے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ میں پھر دشمن کے پیچھے دوڑنے لگا۔ اور اس قدر آگے نکل گیا کہ مجھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ کا غبار بھی دکھائی نہ دے رہا تھا اور دشمن غروب آفتاب سے ذرا پہلے قرد نامی ایک گھاٹی پر پہنچے جہاں کچھ پانی موجود تھا۔ انہوں نے وہاں سے پانی پینے کا ارادہ کیا۔ اسی دوران انہوں نے مجھے دیکھا کہ میں ان کے پیچھے پیچھے دوڑتا آرہا ہوں وہ وہاں سے روانہ ہو گئے اور تیزتیز دوڑتے پہاڑی تنگ راستے پر چل دئیے۔ اس پہاڑی راستے کا نام ثینیہ ذی بئر ہے۔ سورج غروب ہو چکا تھا۔ میر ا ایک مشرک سے ٹکراؤ ہوا میں نے اس پر تیر چلاتے ہوئے کہا: أَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ وَالْیَوْمُیَوْمُ الرُّضَّع (اور میں اکوع کا بیٹا ہوں آج کمینوں (کی ہلاکت) کا دن ہے)وہ بولا اکوع کی ماں اسے گم پائے۔ ( یعنی وہ مر جائے) صبح سے تو ہی ہمارا پیچھا کر رہا ہے؟ میں نے کہا اللہ کے دشمن ! ہاں میں ہی تم پر صبح سے تیر بر سا رہا ہوں۔ اور ساتھ ہی میں نے اس پر دوسرا تیر چھوڑا۔ دونوں تیر اس پر پیوست ہو گئے اور وہ لوگ مزید دو گھوڑے پیچھے چھوڑ گئے۔ میں ان دونوں گھوڑوں کو لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف چل دیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پانی کے اس ذی قرد چشمے پر تھے جہاں سے میں نے دشمنوں کو دوڑایا تھا۔ میں نے دیکھا کہ اللہ کے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے پانچ سو جان نثاروں سمیت وہاں تشریف فرما تھے۔ اور میں جو اونٹ پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان میں سے ایک اونٹ کو ذبح کیا ہو اتھا اور وہ اس کا جگر اور کوہان رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے بھون رہے تھے۔ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچا اور عرض کیا اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے اجازت ہو تو میں آپ کے ان ساتھیوں سے ایک سوآدمیوں کو لیجاؤں اور جا کر اندھیرے اندھیرے میں کفار پر حملہ کر دوں اور ان سب کو قتل کر دوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کیا تو یہ کام کرنے کے لیے تیار ہے؟ انہوں نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو عزت واکرام سے نوازا ہے۔ میں اس کام کے لیے تیار ہوں۔ یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس قدر مسکرائے کہ آگ کی روشنی میں میں نے آپ کی داڑھ مبارک نمایاں دیکھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس وقت غطفان کے علاقے میں ان کی ضیافت ہو رہی ہے۔ بعد میں بنو غطفان سے ایک آدمی آیا اس نے بتلایا کہ وہ لوگ فلاں غطفانی کے پاس سے گزرے اس نے ان کے لیے ایک اونٹ ذبح کیا۔ جب وہ اس کا چمڑا اتار رہے تھے تو انہوں نے دور غبار اڑتے دیکھا تو وہ اونٹ کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا آج ہمارے گھڑ سواروں میں سب سے افضل ابوقتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں اور پیدل لوگوں میں سب سے افضل سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے پیدل اور گھڑ سوار دونوں قسم کے لوگوں سے حصہ دیا۔ پھر مدینہ منورہ کی طرف واپس ہوئے تو آپ نے اپنی عضباء اونٹنی پر مجھے بھی اپنے پیچھے سوار کر لیا جب ہمارے مدینہ منورہ پہنچنے میں چاشت کے بقدر وقت باقی رہ گیا تو لوگوں میں ایک انصاری شخص تھا جو بہت تیز رفتار تھا۔ کوئی شخص اس کامقابلہ کر کے اس سے آگے نہ نکل سکتا تھا۔ وہ آوازیں دینے لگا کوئی میرے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کرنے والا ہے کوئی ہے جو مدینہ منورہ تک میرے ساتھ دوڑ لگائے۔ اس نے یہ بات کئیمرتبہ دہرائی۔ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سواری پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے سوار تھا۔ میں نے اس سے کہا کیا تم کسی معزز کی عزت نہیں کر سکتے اور نہ کسی صاحبِ شرف سے ڈرتے ہو؟ وہ بولا میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سوا سب کو اس مقابلے کی دعوت دے رہا ہوں تو میں نے عرض کیا اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ مجھے اجازت دیجئے میں اس کے ساتھ دوڑ لگاؤں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تمہاری مرضی، میں نے عرض کیا میں اس کے مقابلے میں جاتا ہوں۔ وہ آدمی اپنی سواری سے کود کر نیچے آگیا۔ اور میں نے بھی اپنی ٹانگوں کو حرکت دی اور اونٹنی سے چھلانگ لگا دی۔ پھر میں ایک دو منزل تک جان بوجھ کر آہستہ دوڑاتاکہ اپنا سانس بچا لوں اور سانس نہ چڑھ جائے۔ اس کے بعد میں دوڑ کر اس تک پہنچا اور پیچھے سے اس کے کندھوں کے درمیان ہاتھ مار کر کہا اللہ کی قسم میں تجھ سے آگے نکل گیا۔ میں نے یہی لفظ کہے یا اس سے ملتے جلتے الفاظ کہے۔ یہ سن کر وہ ہنس پڑا اور بولا میرا بھییہی خیال ہے یہاں تک کہ ہم مدینہ منورہ پہنچ گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10811

۔ (۱۰۸۱۱)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَزَا خَیْبَرَ، فَصَلَّیْنَا عِنْدَہَا صَلَاۃَ الْغَدَاۃِ بِغَلَسٍ، فَرَکِبَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرَکِبَ أَبُو طَلْحَۃَ، وَأَنَا رَدِیفُ أَبِی طَلْحَۃَ، فَأَجْرٰی نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی زُقَاقِ خَیْبَرَ،وَإِنَّ رُکْبَتَیَّ لَتَمَسُّ فَخِذَیْ نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَانْحَسَرَ الْإِزَارُ عَنْ فَخِذَیْ نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِنِّی لَأَرٰی بَیَاضَ فَخِذَیْ نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّا دَخَلَ الْقَرْیَۃَ، قَالَ: ((اللّٰہُ أَکْبَرُ خَرِبَتْ خَیْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَۃِ قَوْمٍ فَسَائَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِینَ۔)) قَالَہَا ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ: وَقَدْ خَرَجَ الْقَوْمُ إِلٰی أَعْمَالِہِمْ، فَقَالُوا: مُحَمَّدٌ، قَالَ عَبْدُ الْعَزِیزِ: وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا: الْخُمُسُ، قَالَ: فَأَصَبْنَاہَا عَنْوَۃً، فَجُمِعَ السَّبْیُ، قَالَ: فَجَائَ دِحْیَۃُ، فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ أَعْطِنِی جَارِیَۃً مِنَ السَّبْیِ؟ قَالَ: ((اذْہَبْ فَخُذْ جَارِیَۃً۔)) قَالَ: فَأَخَذَ صَفِیَّۃَ بِنْتَ حُیَیٍّ، فَجَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَعْطَیْتَ دِحْیَۃَ صَفِیَّۃَ بِنْتَ حُیَیٍّ سَیِّدَۃَ قُرَیْظَۃَ وَالنَّضِیرِ وَاللّٰہِ! مَا تَصْلُحُ إِلَّا لَکَ، فَقَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((ادْعُوہُ بِہَا۔)) فَجَائَ بِہَا فَلَمَّا نَظَرَ إِلَیْہَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((خُذْ جَارِیَۃً مِنَ السَّبْیِ غَیْرَہَا۔)) ثُمَّ إِنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَعْتَقَہَا وَتَزَوَّجَہَا، فَقَالَ لَہُ ثَابِتٌ: یَا أَبَا حَمْزَۃَ مَا أَصْدَقَہَا؟ قَالَ: نَفْسَہَا أَعْتَقَہَا وَتَزَوَّجَہَا، حَتّٰی إِذَا کَانَ بِالطَّرِیقِ جَہَّزَتْہَا أُمُّ سُلَیْمٍ فَأَہْدَتْہَا لَہُ مِنَ اللَّیْلِ، وَأَصْبَحَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَرُوسًا، فَقَالَ: ((مَنْ کَانَ عِنْدَہُ شَیْئٌ فَلْیَجِئْ بِہِ۔)) وَبَسَطَ نِطَعًا، فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَجِیئُ بِالْأَقِطِ، وَجَعَلَ الرَّجُلُ یَجِیئُ بِالتَّمْرِ، وَجَعَلَ الرَّجُلُ یَجِیئُ بِالسَّمْنِ، قَالَ: وَأَحْسِبُہُ قَدْ ذَکَرَ السَّوِیقَ، قَالَ: فَحَاسُوا حَیْسًا وَکَانَتْ وَلِیمَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۲۰۱۵)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خیبر پر حملہ آور ہوئے تو ہم نے خیبر کے قریب جا کر منہ اندھیرے نمازِ فجر ادا کی، اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سواری پر سوار ہوئے، میں اور سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک سواری پر سوار ہو گئے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں ساتھ لے کر خیبر کی گلیوں میں چلنے لگے، چلتے وقت میرا گھٹنا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ران کو چھو رہا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چادر آپ کی رانوں سے ذرا ہٹی ہوئی تھی اور میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رانوں کی سفیدی کو دیکھ رہا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب خیبر کی بستی میں داخل ہوئے تو فرمایا: اللہ اکبر، خیبر ویران ہو گیا۔ ہم جب کسی قوم کے صحن میں اترتے ہیں تو ڈرائے گئے لوگوں کی صبح ان کے حق میں بری ہوتی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ الفاظ تین مرتبہ دہرائے، یہودی لوگ اپنے کاموں کے سلسلہ میں باہر نکلے تو یہ منظر دیکھ کر کہنے لگے یہ تو محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ان کا لشکر ہے، پس ہم نے خیبر کو حملہ کر کے فتح کر لیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قیدیوں کو ایک جگہ جمع کیا۔ تو سیدنا دحیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا: اللہ کے نبی! مجھے قیدیوں میں سے ایک لونڈی عنایت فرما دیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جا کر ایک لونڈی لے لو۔ انہوں نے صفیہ بنت حیی کو اپنے قبضے میں لے لیا، لیکن ایک آدمی نے آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو قریظہ اور بنو نضیر کے رئیس کی دختر دحیہ کو دے دی ہے، اللہ کی قسم! وہ تو صرف آپ ہی کے لائق ہے۔ آپ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فرمایا: دحیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلاؤ اور کہو کہ وہ اسے ساتھ لے کر آئے۔ سیدنا دحیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ صفیہ کو ساتھ لیے حاضر ہوئے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صفیہ کو دیکھا تو فرمایا: دحیہ! تم قیدیوں میں سے کوئی اور لے لو۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صفیہ کو آزاد کر کے اس سے نکاح کر لیا، جب راستے ہی میں تھے کہ سیّدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان کو تیار کیا اور رات کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے پیش کیا، صبح ہوئی تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی شادی ہو چکی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ سے فرمایا: جس آدمی کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ لے آئے۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چمڑے کا دستر خوان بچھا دیا، کوئی پنیر لے آیا، کوئی کھجور لایا اور کوئی گھی لے آیااور کوئی ستو لے کر حاضر ہو گیا۔ صحابہ نے ان سب چیزوں کو ملا کر کھانا تیار کیا،یہی کھانا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ولیمہ تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10812

۔ (۱۰۸۱۲)۔ حَدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ قَالَ: حَدَّثَنِی إِیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ، قَالَ: أَخْبَرَنِی أَبِی، قَالَ:بَارَزَ عَمِّییَوْمَ خَیْبَرَ مَرْحَبٌ الْیَہُودِیُّ، فَقَالَ مَرْحَبٌ: قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّی مَرْحَبُ، شَاکِی السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ، إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَہَّبُ، فَقَالَ عَمِّی عَامِرٌ: قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّی عَامِرُ، شَاکِی السِّلَاحِ بَطَلٌ مُغَامِرُ، فَاخْتَلَفَا ضَرْبَتَیْنِ فَوَقَعَ سَیْفُ مَرْحَبٍ فِی تُرْسِ عَامِرٍ، وَذَہَبَ یَسْفُلُ لَہُ، فَرَجَعَ السَّیْفُ عَلٰی سَاقِہِ، قَطَعَ أَکْحَلَہُ، فَکَانَتْ فِیہَا نَفْسُہُ، قَالَ سَلَمَۃُ بْنُ الْأَکْوَعِ: لَقِیتُ نَاسًا مِنْ صَحَابَۃِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوا: بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ قَتَلَ نَفْسَہُ، قَالَ سَلَمَۃُ: فَجِئْتُ إِلٰی نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَبْکِی، قُلْتُ: یَارَسُولَ اللّٰہِ! بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ، قَالَ: ((مَنْ قَالَ ذَاکَ؟)) قُلْتُ: نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِکَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((کَذَبَ مَنْ قَالَ ذَاکَ، بَلْ لَہُ أَجْرُہُ مَرَّتَیْنِ۔)) إِنَّہُ حِینَ خَرَجَ إِلٰی خَیْبَرَ جَعَلَ یَرْجُزُ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَفِیہِمُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَسُوقُ الرِّکَابَ، وَہُوَیَقُولُ: ((تَالَلَّہِ! لَوْلَا اللّٰہُ مَا اہْتَدَیْنَا، وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا، إِنَّ الَّذِینَ قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا، إِذَا أَرَادُوا فِتْنَۃً أَبَیْنَا، وَنَحْنُ عَنْ فَضْلِکَ مَا اسْتَغْنَیْنَا، فَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَیْنَا، وَأَنْزِلَنْ سَکِینَۃً عَلَیْنَا۔)) فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَنْ ہٰذَا؟)) قَالَ: عَامِرٌ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: ((غَفَرَ لَکَ رَبُّکَ۔)) قَالَ: وَمَا اسْتَغْفَرَ لِإِنْسَانٍ قَطُّ یَخُصُّہُ إِلَّا اسْتُشْہِدَ، فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِکَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! لَوْ مَتَّعْتَنَا بِعَامِرٍ فَقَدِمَ فَاسْتُشْہِدَ، قَالَ سَلَمَۃُ: ثُمَّ إِنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَرْسَلَنِی إِلٰی عَلِیٍّ، فَقَالَ: ((لَأُعْطِیَنَّ الرَّایَۃَ الْیَوْمَ رَجُلًا یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ، أَوَیُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ۔)) قَالَ: فَجِئْتُ بِہِ أَقُودُہُ أَرْمَدَ فَبَصَقَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی عَیْنِہِ، ثُمَّ أَعْطَاہُ الرَّایَۃَ، فَخَرَجَ مَرْحَبٌ یَخْطِرُ بِسَیْفِہِ، فَقَالَ: قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّی مَرْحَبُ، شَاکِی السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ، إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَہَّبُ، فَقَالَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ کَرَّمَ اللّٰہُ وَجْہَہُ: أَنَا الَّذِی سَمَّتْنِی أُمِّی حَیْدَرَہْ، کَلَیْثِ غَابَاتٍ کَرِیہِ الْمَنْظَرَہْ، أُوفِیہِمُ بِالصَّاعِ کَیْلَ السَّنْدَرَہْ، فَفَلَقَ رَأْسَ مَرْحَبٍ بِالسَّیْفِ، وَکَانَ الْفَتْحُ عَلَییَدَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۶۶۵۳)
سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ مرحب یہودی نے خیبر کے دن میرے چچا ( سیدنا عامر ) کو قابلہ کا چیلنج دیتے ہوئے کہا: قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ اَنِّيْ مَرْحَبٗ شَاکِيْ السَّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبٗ اِذَا الْحُرُوْبُ اَقْبَلَتْ تَلَھَّبٗ خیبر بخوبی جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں۔ ہتھیار بند، سورما اور منجھا ہوا ہوں۔ جب لڑائیاں بھڑک اٹھتی ہیں تو میں متوجہ ہوتا ہوں اس کے مقابلے کے لیے میرے چچا عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نکلے اور کہا: قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ اَنِّيْ عَامِرٗ شَاکِيْ السَّلَاحِ بَطَلٌ مُغَامِرٗ خیبر اچھی طرح جانتا ہے کہ میں عامر ہوں۔ مکمل طور پر تیار ہوں، دلیر ہوں، جان کی بازی لگانے والا ہوں دونوں نے ایک دوسرے پر ایک ایک وار کیا، مرحب کی تلوار عامر کی ڈھال پر جا لگی اور عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نیچے جھک کر اس پر حملہ آور ہوا، لیکن ان کی اپنی ڈھال اپنی پنڈلی کی بڑی رگ پر جا لگی، جس سے رگ کٹ گئی اور اسی کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا۔ سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میری بعض لوگوں سے ملاقات ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے اعمال ضائع ہو گئے، اس نے خود کشی کی ہے، یہ سن کر میں روتا ہوا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! عامر کے اعمال تو ضائع ہو گئے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کس نے کہا؟ میں نے عرض کیا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعض صحابہ نے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے بھییہ کہا غلط کہا، بلکہ اس کے لیے تو دو گنا اجر ہے۔ ( سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ) عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب خیبر کی طرف روانہ ہوئے تو وہ اصحابِ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مل کر رجز پڑھتے جاتے تھے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی ساتھ تھے اور عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ حدی خوانی کرتے ہوئے یوں کہہ رہے تھے۔ تَالَلَّہِ! لَوْلَا اللّٰہُ مَا اہْتَدَیْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا إِنَّ الَّذِینَ قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا إِذَا أَرَادُوا فِتْنَۃً أَبَیْنَا وَنَحْنُ عَنْ فَضْلِکَ مَا اسْتَغْنَیْنَا فَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَیْنَا وَأَنْزِلَنْ سَکِینَۃً عَلَیْنَا اللہ کی قسم! اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم نہ صدقے کرتے اور نہ نمازیں پڑھتے، بے شک جن لوگوں نے ہم پر زیادتی کی جب انہوں نے سرکشی کا ارادہ کیا تو ہم نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور ہم تیرے فضل سے مستغنی نہیں۔ اگر ہماری دشمن سے مڈ بھیڑ ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھنا، اور ہم پر سکون نازل فرمانا۔ یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کون ہے؟ اس نے کہ: اللہ کے رسول! میں عامر ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارا رب تمہاری مغفرت فرمائے۔ سیدنا سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ایسے مواقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جس کسی کو مخصوص طور پر دعائے مغفرت دی، وہ ضرور ہی شہید ہوا۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات سنی تو عرض کیا: اللہ کے رسول ! کاش آپ ہمیں عامر سے مزید متمتع ہونے دیتے،یہ آگے بڑھے اور شہادت سے ہم کنار ہو گئے، سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے، پھر اللہ کی نبی نے مجھے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف بھیجا اور فرمایا: آج میں یہ جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا، جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتا ہے۔ ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں، میں انہیں ساتھ لے کر آیا، اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی آنکھ میں لعاب مبارک لگایا تو وہ اسی وقت ٹھیک ہو گئے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو جھنڈا تھمایا،مرحبیہودی تلوار لہراتا ہوا اور یہ رجز پڑھتا ہوا سامنے آیا۔ فَقَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّیْ مَرْحَبٗ شَاکِیْ السَّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبٗ إِذَا الْحُرُوْبُ أَقْبَلَتْ تَلَھَّبٗ خیبر بخوبی جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں ہتھیار بندہوں، سورماہوں اور منجھا ہوا ہوں جب لڑائیاں بھڑک اٹھتی ہیں تو میں متوجہ ہوتا ہوں اس کے جواب میں سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فرمایا: أَنَا الَّذِیْ سَمَّتْنِیْ أُمِّیْ حَیْدَرَہ کَلَیْثِ غَابَاتٍ کَرِیْہِ الْمَنْظَرَہ أُوْفِیْھِمْ بِالصَّاعِ کَیْلَ السَّنْدَرَہ میں وہ ہوں جس کا نام میری ماں نے حیدر رکھا جنگلوں کا شیر ہوں، ہولناک منظر والا ہوں میں انہیں صاع کے بدلے نیزے کی ناپ پوری کر دوں گا۔ چنانچہ انہوں نے تلوار سے مرحب کا سر پھوڑ ڈالا اور انہی کے ہاتھوں خیبر فتح ہوا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10813

۔ ٍ(۱۰۸۱۳)۔ عَنْ أَبِیہِ بُرَیْدَۃَ الْأَسْلَمِیِّ قَالَ: لَمَّا نَزَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِحِصْنِ أَہْلِ خَیْبَرَ، أَعْطٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللِّوَائَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، وَنَہَضَ مَعَہُ مَنْ نَہَضَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، فَلَقُوا أَہْلَ خَیْبَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَأُعْطِیَنَّ اللِّوَائَ غَدًا رَجُلًا یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ، وَیُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ۔))، فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ دَعَا عَلِیًّا وَہُوَ أَرْمَدُ، فَتَفَلَ فِی عَیْنَیْہِ وَأَعْطَاہُ اللِّوَائَ، وَنَہَضَ النَّاسُ مَعَہُ فَلَقِیَ أَہْلَ خَیْبَرَ، وَإِذَا مَرْحَبٌ یَرْتَجِزُ بَیْنَ أَیْدِیہِمْ، وَہُوَ یَقُولُ: لَقَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّی مَرْحَبُ، شَاکِی السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ، أَطْعَنُ أَحْیَانًا وَحِینًا أَضْرِبُ، إِذَا اللُّیُوثُ أَقْبَلَتْ تَلَہَّبُ، قَالَ: فَاخْتَلَفَ ہُوَ وَعَلِیٌّ ضَرْبَتَیْنِ فَضَرَبَہُ عَلٰی ہَامَتِہِ حَتّٰی عَضَّ السَّیْفُ مِنْہَا بِأَضْرَاسِہِ، وَسَمِعَ أَہْلُ الْعَسْکَرِ صَوْتَ ضَرْبَتِہِ، قَالَ: وَمَا تَتَامَّ آخِرُ النَّاسِ مَعَ عَلِیٍّ حَتّٰی فُتِحَ لَہُ وَلَہُمْ۔ (مسند احمد: ۲۳۴۱۹)
سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب خیبر کے قلعہ کے قریب نزول فرما ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاتھ میں جھنڈا دیا، کچھ مسلمان بھی ان کے ہمراہ گئے، ان کی خیبر والوں کے ساتھ لڑائی ہوئی، لیکن کچھ نتیجہ نہ نکلا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں کل یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ جب دوسرا دن ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلوایا، ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی آنکھ میں لعاب مبارک لگایا اور انہیں جھنڈا تھما دیا، لوگ بھی ان کے ساتھ بھی گئے اور اہل خیبر سے ان کی لڑائی ہوئی، مرحب یہودی ان کے آگے آگے یہ رجز پڑھ رہا تھا: فَقَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّیْ مَرْحَبٗ شَاکِیْ السَّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبٗ أَطْعَنُ أَحْیَانًا وَحِینًا أَضْرِبُ إِذَا الْحُرُوْبُ أَقْبَلَتْ تَلَھَّبٗ خیبر بخوبی جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں ہتھیار بندہوں، سورماہوں اور منجھا ہوا ہوں میں کبھی نیزہ مارتا ہوں تو کبھی ضرب لگاتا ہوں جب لڑائیاں بھڑک اٹھتی ہیں تو میں متوجہ ہوتا ہوں سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور اس نے ایک دوسرے پر ایک ایک وار کیا، سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کی کھوپڑی پر تلوار چلائییہاں تک کہ تلوار اس کے سر کو چیر کر اس کی داڑھوں تک چلی گئی اور سارے اہل ِ لشکر نے اس ضرب کی شدت کی آواز سنی، ابھی سارے لوگ سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تک پہنچے ہی نہیں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو فتح عطا کر دی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10814

۔ (۱۰۸۱۴)۔ عَنْ أَبِی رَافِعٍ مَوْلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ عَلِیٍّ حِینَ بَعَثَہُ رَسُولُ اللّٰہِ بِرَایَتِہِ، فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْحِصْنِ، خَرَجَ إِلَیْہِ أَہْلُہُ فَقَاتَلَہُمْ، فَضَرَبَہُ رَجُلٌ مِنْ یَہُودَ، فَطَرَحَ تُرْسَہُ مِنْ یَدِہِ، فَتَنَاوَلَ عَلِیٌّ بَابًا، کَانَ عِنْدَ الْحِصْنِ، فَتَرَّسَ بِہِ نَفْسَہُ، فَلَمْ یَزَلْ فِییَدِہِ وَہُوَ یُقَاتِلُ، حَتّٰی فَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْہِ، ثُمَّ أَلْقَاہُ مِنْ یَدِہِ حِینَ فَرَغَ، فَلَقَدْ رَأَیْتُنِی فِی نَفَرٍ مَعِی سَبْعَۃٌ أَنَا ثَامِنُہُمْ، نَجْہَدُ عَلٰی أَنْ نَقْلِبَ ذٰلِکَ الْبَابَ فَمَا نَقْلِبُہُ۔ (مسند احمد: ۲۴۳۵۹)
مولائے رسول سیدنا ابو رافع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اپنا جھنڈا دے کر روانہ فرمایا تو ہم بھی ان کے ہمراہ گئے، جب وہ قلعہ کے قریب پہنچے تو قلعہ کے لوگ مقابلہ کے لیے باہر آئے، سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے قتال کیا، ایکیہودی نے بھی ان پر حملہ کیا اور ہوا یہ کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاتھ سے ڈھال گر گئی، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے قلعہ کے پاس پڑے ہوئے ایک دروازہ کو پکڑ کر اسی کو اپنے لیے ڈھال بنا لیا، فتح ہونے تک آپ یہود سے مقابلہ کرتے رہے اور لڑائی سے فارغ ہونے کے بعد اسے اپنے ہاتھ سے پھینکا، وہ اس قدر ثقیل تھا کہ ہم آٹھ آدمیوں نے اسے الٹنا پلٹنا چاہا تو اسے الٹ بھی نہ سکے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10815

۔ (۱۰۸۱۵)۔ عَنْ عَلِیٍّ قَالَ: لَمَّا قَتَلْتُ مَرْحَبًا جِئْتُ بِرَاْسِہِ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۸۸۸)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب میں نے مرحب کو قتل کیا تو میں اس کا سر لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10816

۔ (۱۰۸۱۶)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیِّ قَالَ: خَرَجَ مَرْحَبٌ الْیَہُودِیُّ مِنْ حِصْنِہِمْ، قَدْ جَمَعَ سِلَاحَہُ یَرْتَجِزُ وَیَقُولُ: قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّی مَرْحَبُ، شَاکِی السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ، أَطْعَنُ أَحْیَانًاوَحِینًا أَضْرِبُ،إِذَا اللُّیُوثُ أَقْبَلَتْ تَلَہَّبُ، کَانَ حِمَایَ لَحِمًی لَا یُقْرَبُ، وَہُوَ یَقُولُ: مَنْ مُبَارِزٌ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَنْ لِہٰذَا؟)) فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ: أَنَا لَہُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَأَنَا وَاللّٰہِ الْمَوْتُورُ الثَّائِرُ، قَتَلُوا أَخِی بِالْأَمْسِ، قَالَ: ((فَقُمْ إِلَیْہِ، اللَّہُمَّ أَعِنْہُ عَلَیْہِ۔)) فَلَمَّا دَنَا أَحَدُہُمَا مِنْ صَاحِبِہِ دَخَلَتْ بَیْنَہُمَا شَجَرَۃٌ عُمْرِیَّۃٌ مِنْ شَجَرِ الْعُشَرِ، فَجَعَلَ أَحَدُہُمَا یَلُوذُ بِہَا مِنْ صَاحِبِہِ، کُلَّمَا لَاذَ بِہَا مِنْہُ اقْتَطَعَ بِسَیْفِہِ مَا دُونَہُ حَتّٰی بَرَزَ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا لِصَاحِبِہِ، وَصَارَتْ بَیْنَہُمَا کَالرَّجُلِ الْقَائِمِ مَا فِیہَا فَنَنٌ، ثُمَّ حَمَلَ مَرْحَبٌ عَلٰی مُحَمَّدٍ فَضَرَبَہُ، فَاتَّقٰی بِالدَّرَقَۃِ فَوَقَعَ سَیْفُہُ فِیہَا فَعَضَّتْ بِہِ فَأَمْسَکَتْہُ، وَضَرَبَہُ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ حَتَّی قَتَلَہُ۔ (مسند احمد: ۱۵۲۰۱)
سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ مرحب یہودی ہتھیاروں سے مسلح ہو کر یہ رجز پڑھتا ہوا قلعہ سے باہر آیا: فَقَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّیْ مَرْحَبٗ شَاکِیْ السَّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبٗ أَطْعَنُ أَحْیَانًا وَحِینًا أَضْرِبُ إِذَا الْحُرُوْبُ أَقْبَلَتْ تَلَھَّبٗ کَانَ حِمَایَ لَحِمًی لَا یُقْرَبُ خیبر بخوبی جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں۔ ہتھیار بندہوں، سورماہوں اور منجھا ہوا ہوں۔ میں کبھی نیزہ مارتا ہوں تو کبھی ضرب لگاتا ہوں۔ جب لڑائیاں بھڑک اٹھتی ہیں تو میں متوجہ ہوتا ہوں۔ میرا دفاع ایسے لوگوں کے لیے ہے جو میرے قریب بھی نہیں پھٹکتے اور وہ چیلنج دیتا آرہا تھا کہ ہے کوئی میرا مدمقابل جو سامنے آئے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے مقابلے میں کون جائے گا؟ سیدنا محمد بن مسلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اس کے مقابلہ میں جا نے کے لیے تیار ہوں۔ اللہ کی قسم! میں ان سے بدلہ لینے کا خواہش مند ہوں، کیوں کہ انہوں نے کل میرے بھائی کو قتل کر دیا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تم ہی اُٹھو، یا اللہ ! اُس کے مقابلے میں اس کی مدد فرما۔ جب وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب ہوئے تو گونددار ایک بہت پرانا اور بڑا درخت ان کے درمیان حائل ہو گیا، ان میں سے ہر ایک دوسرے کے وارسے بچنے کے لیے درخت کی اوٹ میں ہو جاتا، جب ان میں سے ایک درخت کی اوٹ میں ہوتا تو دوسرا اپنی تلوار چلا کر اس درخت (کی شاخوں کو) کاٹ دیتا،یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کے سامنے آگئے اور وہ درخت ان دونوں کے درمیانیوں ہو گیا جیسے کوئی آدمی کھڑا ہو اور اس درخت پر کوئی شاخ نہ تھی۔ پھر مرحب، محمد بن مسلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر حملہ آور ہوا اور اس نے تلوار چلائی، سیدنا محمد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ڈھال سے وار کو روکا اور مرحب کی تلوار ان کی ڈھال پر جا لگی اور اس میں دھنس کر رہ گئی پھر محمد بن مسلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس پر وار کر کے اسے قتل کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10817

۔ (۱۰۸۱۷)۔ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مُغَّفَلٍ قَالَ: کُنَّا مُحَاصِرِیْنَ قَصْرَ خَیْبَرَ، فَاَلْقٰی اِلَیْنَا رَجُلٌ جِرَابًا فِیْہِ شَحْمٌ، فَذَھَبْتُ آخُذُہٗفَرَاَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاسْتَحْیَیْتُ۔ (مسند احمد: ۲۰۸۲۹)
سیدنا عبداللہ بن مغفل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم خیبر کا محاصرہ کئے ہوئے تھے کہ ایک آدمی نے چربی سے بھرا مشکیزہ ہماری طرف پھینکا، میں اسے اُٹھانے لگا، لیکن جب میری نگاہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر پڑی تو میں شرما گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10818

۔ (۱۰۸۱۸)۔ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ قَالَ: سَمِعْتُ ثَابِتًایُحَدِّثُ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: لَمَّا افْتَتَحَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَیْبَرَ، قَالَ الْحَجَّاجُ بْنُ عِلَاطٍ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ لِی بِمَکَّۃَ مَالًا، وَإِنَّ لِی بِہَا أَہْلًا، وَإِنِّی أُرِیدُ أَنْ آتِیَہُمْ، فَأَنَا فِی حِلٍّ إِنْ أَنَا نِلْتُ مِنْکَ، أَوْ قُلْتُ شَیْئًا، فَأَذِنَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یَقُولَ مَا شَائَ، فَأَتٰی امْرَأَتَہُ حِینَ قَدِمَ، فَقَالَ: اجْمَعِی لِی مَا کَانَ عِنْدَکِ، فَإِنِّی أُرِیدُ أَنْ أَشْتَرِیَ مِنْ غَنَائِمِ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابِہِ، فَإِنَّہُمْ قَدْ اسْتُبِیحُوا وَأُصِیبَتْ أَمْوَالُہُمْ، قَالَ: فَفَشَا ذٰلِکَ فِی مَکَّۃَ، وَانْقَمَعَ الْمُسْلِمُونَ وَأَظْہَرَ الْمُشْرِکُونَ فَرَحًا وَسُرُورًا، قَالَ: وَبَلَغَ الْخَبَرُ الْعَبَّاسَ فَعَقِرَ وَجَعَلَ لَا یَسْتَطِیعُ أَنْ یَقُومَ، قَالَ مَعْمَرٌ: فَأَخْبَرَنِی عُثْمَانُ الْجَزَرِیُّ عَنْ مِقْسَمٍ، قَالَ: فَأَخَذَ ابْنًا لَہُ یُقَالُ لَہُ قُثَمُ فَاسْتَلْقٰی فَوَضَعَہُ عَلٰی صَدْرِہِ وَہُوَ یَقُولُ: حَیَّ قُثَمْ حَیَّ قُثَمْ، شَبِیہَ ذِی الْأَنْفِ الْأَشَمَّ، بَنِی ذِیالنَّعَمْ، یَرْغَمْ مَنْ رَغَمْ، قَالَ ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ: ثُمَّ أَرْسَلَ غُلَامًا إِلَی الْحَجَّاجِ بْنِ عِلَاطٍ، وَیْلَکَ مَا جِئْتَ بِہِ وَمَاذَا تَقُولُ فَمَا وَعَدَ اللّٰہُ خَیْرٌ مِمَّا جِئْتَ بِہِ، قَالَ الْحَجَّاجُ بْنُ عِلَاطٍ لِغُلَامِہِ: اقْرَأْ عَلٰی أَبِی الْفَضْلِ السَّلَامَ، وَقُلْ لَہُ: فَلْیَخْلُ لِی فِی بَعْضِ بُیُوتِہِ لِآتِیَہُ، فَإِنَّ الْخَبَرَ عَلٰی مَا یَسُرُّہُ، فَجَائَ غُلَامُہُ فَلَمَّا بَلَغَ بَابَ الدَّارِ، قَالَ: أَبْشِرْ، یَا أَبَا الْفَضْلِ! قَالَ: فَوَثَبَ الْعَبَّاسُ فَرَحًا حَتّٰی قَبَّلَ بَیْنَ عَیْنَیْہِ، فَأَخْبَرَہُ مَا قَالَ الْحَجَّاجُ فَأَعْتَقَہُ، ثُمَّ جَائَ ہُ الْحَجَّاجُ فَأَخْبَرَہُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدِ افْتَتَحَ خَیْبَرَ، وَغَنِمَ أَمْوَالَہُمْ، وَجَرَتْ سِہَامُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فِی أَمْوَالِہِمْ، وَاصْطَفٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَفِیَّۃَ بِنْتَ حُیَیٍّ فَاتَّخَذَہَا لِنَفْسِہِ، وَخَیَّرَہَا أَنْ یُعْتِقَہَا، وَتَکُونَ زَوْجَتَہُ أَوْ تَلْحَقَ بِأَہْلِہَا، فَاخْتَارَتْ أَنْ یُعْتِقَہَا وَتَکُونَ زَوْجَتَہُ، وَلٰکِنِّی جِئْتُ لِمَالٍ کَانَ لِی ہَاہُنَا، أَرَدْتُ أَنْ أَجْمَعَہُ، فَأَذْہَبَ بِہِ، فَاسْتَأْذَنْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَذِنَ لِی، أَنْ أَقُولَ مَا شِئْتُ، فَأَخْفِ عَنِّی ثَلَاثًا، ثُمَّ اذْکُرْ مَا بَدَا لَکَ، قَالَ: فَجَمَعَتْ امْرَأَتُہُ مَا کَانَ عِنْدَہَا مِنْ حُلِیٍّ وَمَتَاعٍ فَجَمَعَتْہُ فَدَفَعَتْہُ إِلَیْہِ، ثُمَّ اسْتَمَرَّ بِہِ، فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ ثَلَاثٍ أَتَی الْعَبَّاسُ امْرَأَۃَ الْحَجَّاجِ، فَقَالَ: مَا فَعَلَ زَوْجُکِ؟ فَأَخْبَرَتْہُ أَنَّہُ قَدْ ذَہَبَ یَوْمَ کَذَا وَکَذَا، وَقَالَتْ: لَا یُخْزِیکَ اللَّہُ، یَا أَبَا الْفَضْلِ! لَقَدْ شَقَّ عَلَیْنَا الَّذِی بَلَغَکَ، قَالَ: أَجَلْ لَا یُخْزِیْنِی اللَّہُ، وَلَمْ یَکُنْ بِحَمْدِ اللّٰہِ إِلَّا مَا أَحْبَبْنَا فَتَحَ اللّٰہُ خَیْبَرَ عَلٰی رَسُولِہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَجَرَتْ فِیہَا سِہَامُ اللّٰہِ، وَاصْطَفٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَفِیَّۃَ بِنْتَ حُیَیٍّ لِنَفْسِہِ، فَإِنْ کَانَتْ لَکِ حَاجَۃٌ فِی زَوْجِکِ، فَالْحَقِی بِہِ، قَالَتْ: أَظُنُّکَ وَاللّٰہِ صَادِقًا، قَالَ: فَإِنِّی صَادِقٌ الْأَمْرُ عَلَی مَا أَخْبَرْتُکِ، فَذَہَبَ حَتّٰی أَتٰی مَجَالِسَ قُرَیْشٍ، وَہُمْ یَقُولُونَ إِذَا مَرَّ بِہِمْ لَا یُصِیبُکَ إِلَّا خَیْرٌ،یَا أَبَا الْفَضْلِ! قَالَ لَہُمْ: لَمْ یُصِبْنِی إِلَّا خَیْرٌ بِحَمْدِ اللّٰہِ، قَدْ أَخْبَرَنِی الْحَجَّاجُ بْنُ عِلَاطٍ أَنَّ خَیْبَرَ قَدْ فَتَحَہَا اللّٰہُ عَلٰی رَسُولِہِ، وَجَرَتْ فِیہَا سِہَامُ اللّٰہِ، وَاصْطَفٰی صَفِیَّۃَ لِنَفْسِہِ، وَقَدْ سَأَلَنِی أَنْ أُخْفِیَ عَلَیْہِ ثَلَاثًا، وَإِنَّمَا جَائَ لِیَأْخُذَ مَالَہُ، وَمَا کَانَ لَہُ مِنْ شَیْئٍ ہَاہُنَا، ثُمَّ یَذْہَبَ، قَالَ: فَرَدَّ اللّٰہُ الْکَآبَۃَ الَّتِی کَانَتْ بِالْمُسْلِمِینَعَلَی الْمُشْرِکِینَ، وَخَرَجَ الْمُسْلِمُونَ وَمَنْ کَانَ دَخَلَ بَیْتَہُ مُکْتَئِبًا، حَتّٰی أَتَوُا الْعَبَّاسَ، فَأَخْبَرَہُمُ الْخَبَرَ فَسُرَّ الْمُسْلِمُونَ وَرَدَّ اللّٰہُ یَعْنِی مَا کَانَ مِنْ کَآبَۃٍ أَوْ غَیْظٍ أَوْ حُزْنٍ عَلَی الْمُشْرِکِینَ۔ (مسند احمد: ۱۲۴۳۶)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غزوۂ خیبر میں فتح سے ہم کنار ہوئے تو سیدنا حجاج بن علاط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے اہل وعیال مکہ مکرمہ میں ہیں اور وہاں میرا کافی سارا مال بھی ہے، میں اسے حاصل کرنے کے لیے وہاں جانا چاہتا ہوں، تو کیا مجھے اجازت ہے کہ وہاں جا کر محض کفار کو خوش کرنے کے لیے کچھ باتیں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خلاف کر لوں؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو ایسا کرنے کی اجازت دے دی کہ وہ جو کہنا چاہیں کہہ لیں، وہ مکہ مکرمہ جا کر اپنی بیوی کے پاس گئے اور اس سے کہا: تمہارے پاس جس قدر بھی دولت ہے، سب ایک جگہ جمع کرو، میں محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ان کے اصحاب سے لوٹے ہوئے اموالِ غنیمت خریدنا چاہتا ہوں، وہ لوگ شکست کھا گئے اور ان کے اموال لوٹ لئے گئے ہیں، اس کییہ خبر مکہ مکرمہ میں پھیل گئی، اس خبر سے وہاں کے مسلمان شرمندہ ہو گئے اور مشرکین خوشی اور شادمانی کا اظہار کرنے لگے، جب یہ خبر عباس تک بھی پہنچ گئی تو وہ یہ سن کر گر ہی گئے اور ان میں اُٹھنے کی سکت ہی نہ رہی، مقسم نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے اپنے ایک بیٹے قثم کو پکڑا، خود لیٹ گئے اور اسے اپنے سینے پر بیٹھا لیا اور یوں کہتے جاتے: اے قثم، تو میری طرف آ، اے قثم تو میری طرف آ، تو محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے مشابہ ہے، ان کی طرح تیری ناک بھی ذرا بلند ہے، وہ اس اللہ کے نبی ہیں جس نے مخلوقات پر بے حدو حساب انعامات کئے ہیں، جسے اللہ خاک آلود اور رسوا کرے وہی ذلیل ورسوا ہو کر رہے گا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ پھر انہوں نے ایک غلام، حجاج بن علاط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بھیجا اور پوچھا کہ تم کیا خبر لائے ہو اور کیا باتیں کر رہے ہو؟ تم جو کچھ بیان کر رہے ہو، اللہ تعالیٰ نے تو ان کے ساتھ اس سے بہت بہتر بات کا وعدہ کیا تھا، سیدنا حجاج بن علاط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کے قاصد غلام سے کہا: تم ابو الفضل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو میرا سلام پہنچا دو اور ان سے کہو کہ وہ اپنے کسی گھر میں مجھ سے علیحدگی میں مل لیں،میرے پاس ان کے لیے خوشخبری ہے، ان کا غلام واپس آیا، وہ گھر کے دروازے پر پہنچا تو اس نے کہا: اے ابو الفضل! تمہیں خوشخبری مبارک ہو، سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یہ سنتے ہی خوشی سے اچھل کر اُٹھے اور اس کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا، اس غلام نے ان کو حجاج بن علاط کی بات سے مطلع کیا، عباس نے اسے آزاد کر دیا۔ پھر سیدنا حجاج ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور ان کو بتلایا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خیبر کو فتح کر چکے ہیں اور یہود کے اموال کو بطور غنیمت حاصل کر چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق وہاں سے حاصل شدہ مالِ غنیمت ہر حصہ دار میں تقسیم کیاجا چکا ہے اور اللہ کے رسول نے حیی کی دختر صفیہ کو اپنے لئے منتخب کر لیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے اختیار دیا تھا کہ اگر وہ چاہتی ہے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کو آزاد کر دیتے ہیں اور اس سے شادی کر لیتے ہیں،یا اگر وہ چاہتی ہے تو اپنے اہلِ خانہ کے ہاں چلی جائے۔ اس نے اس بات کو اختیار کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسے آزاد کر کے اپنی زوجیت میں لے لیں، میں تو یہاں پر چھوڑا ہوا اپنا مال لینے آیا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ اسے جمع کر کے لے جاؤںاور میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بات کی اجازت لے لی تھی اور آپ نے مجھے اجازت مرحمت فرما دی تھی کہ میں محض کفار کو خوش کرنے کے لیے اس سلسلہ میں جو چاہوں کہہ سکتا ہوں۔ تم میری ان باتوں کو تین دن تک پوشیدہ رکھنا، اس کے بعد جیسے مناسب ہو ان کا ذکر لوگوں سے کر دینا۔ چنانچہ سیدنا حجاج ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیوی کے پاس جس قدر زیورات اور سامان تھا، اس نے وہ سب جمع کر دیا اور اسے اس کے سپرد کر دیا، پھر وہ یہ سامان لے کر وہاں سے چل پڑے، تین دن بعد عباس، حجاج کی اہلیہ کے پاس آئے اور پوچھا تمہارا شوہر کیا کر گیا؟ اس نے بتلایا کہ وہ تو فلاں دن چلا گیا تھا اور بولی کہ ابو الفضل! اللہ آپ کو رسوا نہ کرے، آپ تک جو باتیں پہنچی ہیں وہ ہم پر انتہائی شاق گزری ہیں۔ انہوں نے کہا: ہاں، اللہ مجھے کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا اور اللہ کا شکر ہے کہ وہی ہوا ہے جو ہمیں پسند ہے۔ اللہ نے اپنے رسول کے ہاتھوں خیبر فتح کرادیا ہے، وہاں سے حاصل ہونے والے مالِ غنیمت کو اللہ کے حکم کے مطابق حصوں میں تقسیم کر کے بانٹ دیا گیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صفیہ بنت حیی کو اپنے لئے منتخب کیا ہے اور پھر اس سے فرمایا: تم اگر اپنے شوہر کے پاس جانا چاہو تو جا سکتی ہو۔ وہ کہنے لگی: اللہ کی قسم! میرا خیال ہے کہ تمہاری ساری باتیں درست ہیں۔ عباس نے مزید کہا: میں سچ کہہ رہا ہوں، بات وہی ہے جو میں تمہیں بتلا رہا ہوں۔ اس کے بعد عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ قریش کی مجالس میں گئے، یہ جب بھی ان کے پاس سے گزرتے تو وہ کہتے: اے ابو الفضل! آپ کو بھلائی ملے، وہ کہتے اللہ کا شکر ہے مجھے بھلائی ہی بھلائی ملتی ہے۔ مجھے حجاج بن علاط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بتلایا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کے ہاتھوں خیبر فتح کرا دیا ہے اور وہاں سے حاصل شدہ مالِ غنیمت کو اللہ کے مقرر کردہ حصوں میں تقسیم کر کے بانٹ دیا گیا ہے اور محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) نے صفیہ بنت حیی کو اپنے لیے رکھ لیا ہے۔ حجاج ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے کہا تھا کہ میں ان باتوں کو تین دن تک پوشیدہ رکھوں، وہ تو یہاں اپنا مال اور سامان لینے آئے تھے، وہ لے کر چلے گئے ہیں، حجاج ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی باتوں سے مسلمانوں میں جو افسردگی پھیلی ہوئی تھی، وہ مشرکین کی طرف لوٹ گئی اور وہ افسردہ خاطر ہوئے، مسلمان اور دوسرے لوگ جو ان کے گھر میں غمگین اور افسردہ گئے تھے، وہ وہاں سے نکل کر عباس کے پاس گئے، پھر انہوں نے ان کو اصل احوال سے آگاہ کیا،یہ تفصیل سن کر تمام مسلمان دلی طور پر مسرور ہو ئے اور سارا رنج وغم اور افسردگی مشرکین کی طرف لوٹ گئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10819

۔ (۱۰۸۱۹)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ خَیْبَرُ أُہْدِیَتْ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَاۃٌ فِیہَا سُمٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اجْمَعُوا لِی مَنْ کَانَ ہَاہُنَا مِنَ الْیَہُودِ۔)) فَجَمَعُوا لَہُ، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنِّی سَائِلُکُمْ عَنْ شَیْئٍ، فَہَلْ أَنْتُمْ صَادِقِیَّ عَنْہُ؟)) قَالُوا: نَعَمْ، یَا أَبَا الْقَاسِمِ!، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَنْ أَبُوکُمْ؟)) قَالُوا: أَبُونَا فُلَانٌ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((کَذَبْتُمْ، أَبُوکُمْ فُلَانٌ۔)) قَالُوا: صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ، قَالَ لَہُمْ: ((ہَلْ أَنْتُمْ صَادِقِیَّ عَنْ شَیْئٍ سَأَلْتُکُمْ عَنْہُ؟)) قَالُوا: نَعَمْ، یَا أَبَا الْقَاسِمِ، وَإِنْ کَذَبْنَاکَ عَرَفْتَ کَذِبَنَا کَمَا عَرَفْتَہُ فِی أَبِینَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَنْ أَہْلُ النَّارِ؟)) قَالُوا: نَکُونُ فِیہَایَسِیرًا ثُمَّ تَخْلُفُونَنَا فِیہَا، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَا نَخْلُفُکُمْ فِیہَا أَبَدًا۔)) ثُمَّ قَالَ لَہُمْ: ((ہَلْ أَنْتُمْ صَادِقِیَّ عَنْ شَیْئٍ سَأَلْتُکُمْ عَنْہُ؟)) فَقَالُوا: نَعَمْ، یَا أَبَا الْقَاسِمِ!، فَقَالَ: ((ہَلْ جَعَلْتُمْ فِی ہٰذِہِ الشَّاۃِ سُمًّا؟)) قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: ((فَمَا حَمَلَکُمْ عَلٰی ذٰلِکَ؟)) قَالُوْا: أَرَدْنَا إِنْ کُنْتَ کَاذِبًا نَسْتَرِیحُ مِنْکَ، وَإِنْ کُنْتَ نَبِیًّا لَمْ تَضُرَّکَ۔ (مسند احمد: ۹۸۲۶)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب خیبر فتح ہوا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں یہودیوں کی طرف سے ایک زہر آلود بکری بھیجی گئی،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہاں جتنے یہودی ہیں، سب کو اکٹھا کرو ۔ پس ان کو جمع کیا گیا، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: میں تم لوگوں سے ایک چیز کے متعلق پوچھنے والا ہوں، کیا تم اس کے متعلق میرے ساتھ صحیح صحیح بات کرو گے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں اے ابو القاسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: تمہارا باپ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا باپ فلاں ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم غلط کہہ رہے ہو، تمہارا باپ تو فلاں ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات سن کر وہ بولے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بالکل درست فرمایا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے پھر فرمایا: میں تم سے ایک چیز کے متعلق پوچھتا ہوں، کیاتم مجھے سچ سچ بتلاؤ گے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں اے ابو القاسم! اور اگر ہم نے آپ سے غلط بیانی کی تو آپ کو اس کا علم ہو ہی جائے گا، جیسا کہ آپ ہمارے والد کے متعلق بیان میں جان چکے ہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: اہلِ نار کون ہیں؟ وہ بولے کہ ہم اس میں کچھ عرصہ رہیں گے، ہمارے بعد آپ لوگ اس میں جائیں گے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے بعد ہم اس میں کبھی بھی نہیں جائیں گے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: میں تم سے ایک چیز کے متعلق دریافت کرتا ہوں، کیا تم مجھ سے سچ بولو گے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں اے ابو القاسم! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اس بکری میں زہر ڈالا ہے؟ انھوں نے کہا:جی ہاں، ڈالا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہیں اس کا م پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ انھوں نے کہا: ہم نے سوچا کہ آپ اگر جھوٹے ہیں تو ہمیں آپ سے راحت مل جائے گی اور اگر آپ سچے نبی ہیں تو یہ آپ کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکے گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10820

۔ (۱۰۸۲۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ امْرَأَۃً مِنَ الْیَہُودِ أَہْدَتْ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَاۃً مَسْمُومَۃً، فَأَرْسَلَ إِلَیْہَا فَقَالَ: ((مَا حَمَلَکِ عَلٰی مَا صَنَعْتِ؟)) قَالَتْ: أَحْبَبْتُ أَوْ أَرَدْتُ إِنْ کُنْتَ نَبِیًّا فَإِنَّ اللّٰہَ سَیُطْلِعُکَ عَلَیْہِ، وَإِنْ لَمْ تَکُنْ نَبِیًّا أُرِیحُ النَّاسَ مِنْکَ، قَالَ: وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا وَجَدَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا اِحْتَجَمَ، قَالَ: فَسَافَرَ مَرَّۃً فلَمَّا اَحْرَمَ وَجَدَ مِنْ ذٰلِکَ فَاحْتَجَمَ۔ (مسند احمد: ۲۷۸۴)
سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایکیہودی عورت نے ایک زہریلی بکری رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے علم ہونے پر اسے پیغام بھیج کر بلوایا اور دریافت فرمایا: تجھے اس حرکت پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ اس نے کہا: میں نے ارادہ کیا تھا کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس کے بارے میں مطلع کر دے گا اور اگر آپ سچے نبی نہیں ہیں تو اس طرح میں لوگوں کو آپ سے راحت دلا دوں گی۔ سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بعد میں جب بھی اس زہر کا اثر محسوس کرتے تو سینگی لگوا لیتے، ایک دفعہ آپ سفر میںتھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے احرام باندھا تو اس زہر کا اثر محسوس ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سینگی لگوالی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10821

۔ (۱۰۸۲۱)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ فِی الْمَسْجِدِ، خَرَجَ إِلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((انْطَلِقُوا إِلٰییَہُودَ؟)) فَخَرَجْنَا مَعَہُ حَتّٰی جِئْنَا بَیْتَ الْمِدْرَاسِ، فَقَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَادَاہُمْ: ((یَا مَعْشَرَ الْیَہُودِ! أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا۔)) فَقَالُوا: قَدْ بَلَّغْتَ، یَا أَبَا الْقَاسِمِ! قَالَ: ((ذَاکَ أُرِیدُ۔)) ثُمَّ قَالَہَا الثَّالِثَۃَ، فَقَالَ: ((اعْلَمُوا أَنَّ الْأَرْضَ لِلّٰہِ وَرَسُولِہِ، وَإِنِّی أُرِیدُ أَنْ أُجْلِیَکُمْ مِنْ ہٰذِہِ الْأَرْضِ، فَمَنْ وَجَدَ مِنْکُمْ بِمَالِہِ شَیْئًا فَلْیَبِعْہُ، وَإِلَّا فَاعْلَمُوا أَنَّ الْأَرْضَ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولِہِ۔)) (مسند احمد: ۹۸۲۵)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ ہم مسجد میں تھے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے اور فرمایا: چلو،یہودیوں کی طرف چلتے ہیں۔ پس ہم آپ کے ساتھ چلے اور ان کے بیت المدراس میں پہنچ گئے،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں کھڑے ہوئے اور ان یہودیوں سے فرمایا: اے یہودیو! اسلام قبول کر لو، سلامتی پا جاؤ گے۔ انھوں نے کہا: اے ابو القاسم! آپ نے اپنی بات ہم تک پہنچا دی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں بھییہی چاہتا ہوں کہ تم اس بات کا اعتراف کرو کہ میں نے واقعی اپنی بات تم لوگوں تک پہنچا دی ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا: یاد رکھو کہیہ زمین اللہ کی اور اس کے رسول کی ملکیت ہے اور میں تمہیں اس سر زمین سے جلا وطن کرنا چاہتا ہوں، پس تم میں سے جو کوئی اپنا مال فروخت کر سکتا ہے، فروخت کر لے، ورنہ یاد رکھو کہ یہ سر زمین اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی ملکیت ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10822

۔ (۱۰۸۲۲)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَجْلَی الْیَہُودَ وَالنَّصَارٰی مِنْ أَرْضِ الْحِجَازِ، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا ظَہَرَ عَلٰی خَیْبَرَ أَرَادَ إِخْرَاجَ الْیَہُودِ مِنْہَا، وَکَانَتْ الْأَرْضُ حِینَ ظَہَرَ عَلَیْہَا لِلّٰہِ تَعَالٰی وَلِرَسُولِہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلِلْمُسْلِمِینَ، فَأَرَادَ إِخْرَاجَ الْیَہُودِ مِنْہَا، فَسَأَلَتِ الْیَہُودُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یُقِرَّہُمْ بِہَا عَلٰی أَنْ یَکْفُوا عَمَلَہَا وَلَہُمْ نِصْفُ الثَّمَرِ، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((نُقِرُّکُمْ بِہَا عَلٰی ذٰلِکَ مَا شِئْنَا؟)) فَقَرُّوا بِہَا حَتّٰی أَجْلَاہُمْ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلٰی تَیْمَائَ وَأَرِیحَائَ۔ (مسند احمد: ۶۳۶۸)
سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نےیہود و نصاریٰ کو ارضِ حجاز سے جلا وطن کر دیا تھا، اصل واقعہ یوں ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیبر پر غلبہ حاصل کر لیا تو یہودیوں کو وہاں سے جلا وطن کرنے کا ارادہ فرمایا،کیونکہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس علاقہ پر قابض ہوئے تو وہ سر زمین اللہ تعالیٰ،اس کے رسول اور مسلمانوں کی ملکیت ہو گئی، بہرحال آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہود کو وہاں سے نکالنے اور جلا وطن کرنے کا ارادہ فرمایا، لیکن انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے درخواست کی کہ آپ ان کو وہیں قیام کرنے کی اجازت دے دیں، زمینوں اور باغات کے سارے کام اور خدمات یہودی سرانجام دیتے رہیں گے اور اس کے عوض ان کو نصف پھل ملے گا، باقی نصف مسلمانوں کا ہو گا۔ پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم جب تک چاہیں گے، تمہیںیہاں رہنے کی اجازت ہو گی۔ پھر وہ لوگ وہیں مقیم رہے، یہاں تک کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو تیماء اور اریحاء کی طرف جلاوطن کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10823

۔ (۱۰۸۲۳)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّہُ قَالَ: أَفَائَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ خَیْبَرَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَقَرَّہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَمَا کَانُوا، وَجَعَلَہَا بَیْنَہُ وَبَیْنَہُمْ، فَبَعَثَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ رَوَاحَۃَ فَخَرَصَہَا عَلَیْہِمْ، ثُمَّ قَالَ لَہُمْ: یَا مَعْشَرَ الْیَہُودِ! أَنْتُمْ أَبْغَضُ الْخَلْقِ إِلَیَّ، قَتَلْتُمْ أَنْبِیَائَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَکَذَبْتُمْ عَلَی اللّٰہِ، وَلَیْسَیَحْمِلُنِی بُغْضِی إِیَّاکُمْ عَلَی أَنْ أَحِیفَ عَلَیْکُمْ، قَدْ خَرَصْتُ عِشْرِینَ أَلْفَ وَسْقٍ مِنْ تَمْرٍ، فَإِنْ شِئْتُمْ فَلَکُمْ وَإِنْ أَبَیْتُمْ فَلِی، فَقَالُوا: بِہٰذَا قَامَتِ السَّمٰوَاتُ وَالْأَرْضُ قَدْ أَخَذْنَا فَاخْرُجُوْا عَنَّا۔ (مسند احمد: ۱۵۰۱۶)
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خیبر کا علاقہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو عطا فرما دیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہودیوں کو وہاں حسب سابق آباد رہنے کی اجازت مرحمت فرمائی، اور وہاں کی زمین کو یہودیوں اور مسلمانوں میں تقسیم کر دیا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو وہاں بھیجا، انہوں نے وہاں جا کر باغات کے پھلوں کا تخمینہ لگایا اور کہا: اے یہودیو! تم میری نظر میں اللہ کی سب سے زیادہ نا پسندیدہ مخلوق ہو، تم نے اللہ کے نبیوں کو قتل کیا اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بھی باندھے، لیکن اس قدر بُغض کے باوجود میں تم پر ظلم وزیادتی نہیں کروں گا، اب میں نے بیس ہزار وسق کھجور کا تخمینہ لگایا ہے، اگر تم چاہو تو اپنے لیے اس فیصلہ کو قبول کر لو، اگر تمہیںیہ منظور نہ ہو تو میں قبول کر لیتا ہوں، یہودیوں نے کہا: اسی عدل کی بدولت تو زمین وآسمان قائم ہیں، ہم آپ کے تخمینہ کو قبول کرتے ہیں، آپ اس سے الگ رہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10824

۔ (۱۰۸۲۴)۔ عَنْ بُشَیْرِ بْنِ یَسَارٍ، عَنْ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَدْرَکَہُمْ یَذْکُرُونَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ ظَہَرَ عَلٰی خَیْبَرَ، وَصَارَتْ خَیْبَرُ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالْمُسْلِمِینَ، ضَعُفُوا عَنْ عَمَلِہَا، فَدَفَعُوہَا إِلَی الْیَہُودِ،یَقُومُونَ عَلَیْہَا وَیُنْفِقُونَ عَلَیْہَا عَلٰی أَنَّ لَہُمْ نِصْفَ مَا یَخْرُجُ مِنْہَا، فَقَسَمَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی سِتَّۃٍ وَثَلَاثِینَ سَہْمًا، جَمَعَ کُلُّ سَہْمٍ مِائَۃَ سَہْمٍ، فَجَعَلَ نِصْفَ ذٰلِکَ کُلِّہِ لِلْمُسْلِمِینَ،وَکَانَ فِی ذٰلِکَ النِّصْفِ سِہَامُ الْمُسْلِمِینَ، وَسَہْمُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَعَہَا، وَجَعَلَ النِّصْفَ الْآخَرَ لِمَنْ یَنْزِلُ بِہِ مِنَ الْوُفُودِ وَالْأُمُورِ وَنَوَائِبِ النَّاسِ۔ (مسند أحمد: ۱۶۵۳۰)
بُشیر بن یسار سے مروی ہے کہ انھوں نے اصحاب ِ رسول میں سے بعض افراد کو اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے پایا کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیبر کو فتح کر لیا اور خیبر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور مسلمانوں کی ملکیت ہو گیا، جبکہ مسلمان اس سرزمین کا سارا کام کاج کرنے سے عاجز تھے، تو انھوں نے اس کو یہودیوں کے ہی سپرد کر دیا کہ وہی اس کی ذمہ داری ادا کریں گے اور اس پر خرچ کریں گے، اس کے عوض ان کو نصف پیداوار ملے گی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے، اس کو چھتیس حصوں پر تقسیم کیا، ہر حصہ سو حصوں پر مشتمل تھا، خیبر کی زمین سے جو حصہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ملتا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے نصف کو مسلمانوں میں اس طرح تقسیم کر دیتے تھے کہ اس میں مسلمانوں کے حصے بھی ہوتے تھے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا حصہ بھی، باقی نصف کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفود، دوسرے امور اور لوگوں کے دوسرے حوادث و مہمات میں خرچ کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10825

۔ (۱۰۸۲۵)۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اَبِی الْمُجَالِدِ قَالَ: بَعَثَنِیْ اَھْلُ الْمَسْجِدِ اِلَی ابْنِ اَبِیْ اَوْفٰی اَسْاَلُہُ مَا صَنَعَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ طَعَامِ خَیْبَرَ فَأَتَیْتُہُ فَسَاَلْتُہُ عَنْ ذٰلِکَ، قَالَ: وَقُلْتُ: ھَلْ خُمُسُہُ؟ قَاَلَ: لَا، کَانَ اَقَلُّ مِنْ ذٰلِکَ، وَکَانَ اَحَدُنَا اِذَا اَرَادَ مِنْہُ شَیْئًا اَخَذَ مِنْہُ حَاجَتَہُ۔ (مسند احمد: ۱۹۳۳۵)
محمد بن ابی مجالد سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے مجھے سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں بھیجا کہ ان سے پوچھ کر آؤں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیبر کے پھلوں کے متعلق کیا فیصلہ فرمایا تھا، میں نے ان کی خدمت میں جا کر یہ بات ان سے دریافت کی اور میں نے یہ بھی پوچھا کہ آیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کا خمس(پانچواں حصہ) الگ کیا تھا، انہوں نے کہا : جی نہیں، وہ تو اس سے بہت کم تھا، ہم میں سے کوئی بھی آدمی جب چاہتا حسبِ ضرورت اس میں سے لے سکتا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10826

۔ (۱۰۸۲۶)۔ عَنْ مُجَمِّعِ ابْنِ جَارِیَۃَ الْأَنْصَارِیِّ، وَکَانَ أَحَدَ الْقُرَّائِ الَّذِینَ قَرَئُ وْا الْقُرْآنَ، قَالَ: شَہِدْنَا الْحُدَیْبِیَۃَ فَلَمَّا انْصَرَفْنَا عَنْہَا إِذَا النَّاسُ یُنْفِرُونَ الْأَبَاعِرَ، فَقَالَ النَّاسُ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ: مَا لِلنَّاسِ؟ قَالُوْا: أُوحِیَ إِلَی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَخَرَجْنَا مَعَ النَّاسِ نُوجِفُ حَتَّی وَجَدْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی رَاحِلَتِہِ عِنْدَ کُرَاعِ الْغَمِیمِ، وَاجْتَمَعَ النَّاسُ إِلَیْہِ، فَقَرَأَ عَلَیْہِمْ: {إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا} فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَیْ رَسُولَ اللّٰہِ! وَفَتْحٌ ہُوَ؟ قَالَ: ((أَیْ وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ إِنَّہُ لَفَتْحٌ۔)) فَقُسِمَتْ خَیْبَرُ عَلَی أَہْلِ الْحُدَیْبِیَۃِ، لَمْ یُدْخِلْ مَعَہُمْ فِیہَا أَحَدًا إِلَّا مَنْ شَہِدَ الْحُدَیْبِیَۃَ، فَقَسَمَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی ثَمَانِیَۃَ عَشَرَ سَہْمًا، وَکَانَ الْجَیْشُ أَلْفًا وَخَمْسَ مِائَۃٍ، فِیہِمْ ثَلَاثُ مِائَۃِ فَارِسٍ، فَأَعْطَی الْفَارِسَ سَہْمَیْنِ وَأَعْطَی الرَّاجِلَ سَہْمًا۔ (مسند احمد: ۱۵۵۴۹)
سیدنا مجمع بن جاریہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ،جو ان قراء میں سے تھے، جنھوں نے قرآن پڑھا ہوا تھا،سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم حدیبیہ میں حاضر ہوئے، جب ہم وہاں سے واپس ہوئے تو لوگ اچانک اپنے اپنے اونٹوں کو تیز تیز چلانے لگے، لوگوں نے ایک دوسرے سے پوچھا: کیا بات ہوئی؟ تو دوسروں نے بتایا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی کا نزول ہوا ہے، ہم بھی اونٹوں کو دوڑاتے ہوئے دوسرے لوگوں کے ساتھ چل دئیے، ہم نے کراع غمیم مقام پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سواری پر موجود پایا، لوگ آپ کے اردگرد جمع تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے سامنے {اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنَا۔} یعنی سورۂ فتح کی تلاوت کی۔ صحابہ میں سے ایک آدمی نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول ! کیایہ ہمارے حق میں واقعی فتح ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! یہیقینا فتح ہے۔ اس کے بعد غزوۂ خیبر کی غنیمتیں صرف ان لوگوں میں تقسیم کی گئیں، جو حدیبیہ میں حاضر تھے، ان کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہ کیا گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان غنیمتوں کو اٹھارہ حصوں میں بانٹ دیا، لشکر میں پندرہ سو آدمی تھے، ان میں سے تین سو گھڑ سوار بھی تھے، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے گھڑ سواروں کو دو دو حصے اور پیدل لوگوں کو ایک ایک حصہ دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10827

۔ (۱۰۸۲۷)۔ عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِی عَمَّارٍ قَالَ: قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: مَا شَہِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَغْنَمًا قَطُّ إِلَّا قَسَمَ لِی إِلَّا خَیْبَرَ، فَإِنَّہَا کَانَتْ لِأَہْلِ الْحُدَیْبِیَۃِ خَاصَّۃً، وَکَانَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ وَأَبُو مُوسَی جَائَ ا بَیْنَ الْحُدَیْبِیَۃِ وَخَیْبَرَ۔ (مسند احمد: ۱۰۹۲۵)
عمار بن ابی عمار سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ غزوۂ خیبر کے علاوہ جس غزوہ میں بھی حاضر ہوا، آپ نے مجھے مالِ غنیمت میں سے حصہ عطا فرمایا، غزوۂ خیبر کی غنیمتیں اہلِ حدیبیہ کے لیے مختص تھیں۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ حدیبیہ اور خیبر کے درمیانی عرصہ میں آئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10828

۔ (۱۰۸۲۸)۔ عن خُثَیْمٍیَعْنِی ابْنَ عِرَاکٍ عَنْ أَبِیہِ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ قَدِمَ الْمَدِینَۃَ فِی رَہْطٍ مِنْ قَوْمِہِ، وَالنَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِخَیْبَرَ وَقَدِ اسْتَخْلَفَ سِبَاعَ بْنَ عُرْفُطَۃَ عَلَی الْمَدِینَۃِ، قَالَ: فَانْتَہَیْتُ إِلَیْہِ وَہُوَ یَقْرَأُ فِی صَلَاۃِ الصُّبْحِ فِی الرَّکْعَۃِ الْأُولٰی بِـ{کٓہٰیٰعٓصٓ} وَفِی الثَّانِیَۃِ {وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِینَ} قَالَ: فَقُلْتُ لِنَفْسِی: وَیْلٌ لِفُلَانٍ إِذَا اکْتَالَ اکْتَالَ بِالْوَافِی، وَإِذَا کَالَ کَالَ بِالنَّاقِصِ، قَالَ: فَلَمَّا صَلّٰی زَوَّدَنَا شَیْئًا حَتّٰی أَتَیْنَا خَیْبَرَ، وَقَدِ افْتَتَحَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَیْبَرَ، قَالَ: فَکَلَّمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمُسْلِمِینَ، فَأَشْرَکُونَا فِی سِہَامِہِمْ۔ (مسند احمد: ۸۵۳۳)
عراک سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی قوم کی ایک جماعت کے ساتھ ان دنوں مدینہ منورہ پہنچے تھے، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غزوۂ خیبر میں مصروف تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا سباع بن عرفطہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو مدینہ منورہ میں اپنا نائب مقرر کیا تھا۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں ان کے ہاں پہنچا تو وہ صبح کی نماز کی پہلی رکعت میں کٰھٰیٰعٓصٓ (یعنی سورۂ مریم) اور دوسری رکعت میں وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ سورت کی تلاوت کر رہے تھے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ فلاں آدمی تباہ ہو گیا، وہ جب اپنے لیے تولتا ہے تو پورا تول لیتا ہے اور جب کسی کے لیے تولتا ہے تو کم کر دیتا ہے،وہ جب نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے ہمیں کچھ زادِ سفر دیا، اور ہم خیبر کے لیے روانہ ہو گئے، یہاں تک کہ ہم خیبر پہنچ گئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسلمانوں سے ہمارے بارے میں بات کی اور انہوں نے مالِ غنیمت کے اپنے حصوں میں ہمیں بھی شریک کر لیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10829

۔ (۱۰۸۲۹)۔ عَنْ اَبِیْ مُوْسَی الْاَشْعَرِیِّ قَالَ: قَدِمْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ نَاسٍ مِنْ قوْمِیْ بَعْدَ مَا فُتِحَ خَیْبَرُ بِثَلَاثٍ، فَاَسْہَمَ لَنَا وَلَمْ یَقْسِمْ لِاَحَدٍ لَمْ یَشْہَدِ الْفَتْحَ غَیْرَنَا۔ (مسند احمد: ۱۹۸۶۸)
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میں اپنی قوم کے لوگوں کے ہمراہ فتح خیبر سے تین دن بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیںمالِ غنیمت میں سے حصہ دیا، خیبر کی غنیمتوں کو صرف اہلِ حدیبیہ میں تقسیم کیا گیا تھا، صرف ہم ہی لوگ تھے جن کو حدیبیہ میں شریک نہ ہونے کے باوجود خیبر کی غنائم سے حصہ ملا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10830

۔ (۱۰۸۳۰)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَقْبَلَ مِنْ خَیْبَرَ فَلَمَّا رَاٰی اُحُدًا قال: ((ھٰذَا جَبَلٌ یُحِبُّنَا وَنُحِبُّہُ۔)) فَلَمَّا اَشْرَفَ عَلَی الْمَدِیْنَۃِ قَالَ: ((اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُحَرِّمُ مَا بَیْنَ لَابَتَیْہَا کَمَّا حَرَّمَ اِبْرَاہِیْمُ مَکَّۃَ۔))۔ (مسند احمد: ۱۳۵۵۹)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خیبر سے واپس ہوئے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے احد پہاڑ کو دیکھا تو فرمایا: یہ پہاڑ ہے، یہ ہم سے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھرجب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو فرمایا: یا اللہ! جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم والا قرار دیا تھا، اسی طرح میںبھی مدینہ منورہ کے دو حرّوں کے درمیان والے حصے کو حرم قرار دیتا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10831

۔ (۱۰۸۳۱)۔ إِیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ قَالَ: حَدَّثَنِی أَبِی، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی قُحَافَۃَ، وَأَمَّرَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَیْنَا، قَالَ: غَزَوْنَا فَزَارَۃَ، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنَ الْمَائِ أَمَرَنَا أَبُو بَکْرٍ فَعَرَّسْنَا، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّیْنَا الصُّبْحَ أَمَرَنَا أَبُو بَکْرٍ فَشَنَنَّا الْغَارَۃَ، فَقَتَلْنَا عَلَی الْمَائِ مَنْ قَتَلْنَا، قَالَ سَلَمَۃُ: ثُمَّ نَظَرْتُ إِلٰی عُنُقٍ مِنَ النَّاسِ، فِیہِ الذُّرِّیَّۃُ وَالنِّسَائُ نَحْوَ الْجَبَلِ، وَأَنَا أَعْدُو فِی آثَارِہِمْ، فَخَشِیتُ أَنْ یَسْبِقُونِی إِلَی الْجَبَلِ، فَرَمَیْتُ بِسَہْمٍ فَوَقَع بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ الْجَبَلِ، قَالَ: فَجِئْتُ بِہِمْ أَسُوقُہُمْ إِلَی أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَتّٰی أَتَیْتُہُ عَلَی الْمَائِ، وَفِیہِمْ امْرَأَۃٌمِنْ فَزَارَۃَ، عَلَیْہَا قَشْعٌ مِنْ أَدَمٍ، وَمَعَہَا ابْنَۃٌ لَہَا مِنْ أَحْسَنِ الْعَرَبِ، قَالَ: فَنَفَّلَنِی أَبُو بَکْرٍ ابْنَتَہَا، قَالَ: فَمَا کَشَفْتُ لَہَا ثَوْبًا حَتّٰی قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ، ثُمَّ بِتُّ فَلَمْ أَکْشِفْ لَہَا ثَوْبًا، قَالَ: فَلَقِیَنِیرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی السُّوقِ، فَقَالَ لِی: ((یَا سَلَمَۃُ! ہَبْ لِیَ الْمَرْأَۃَ۔)) قَالَ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ وَاللّٰہِ! لَقَدْ أَعْجَبَتْنِی وَمَا کَشَفْتُ لَہَا ثَوْبًا، قَالَ: فَسَکَتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَتَرَکَنِی حَتّٰی إِذَا کَانَ مِنَ الْغَدِ لَقِیَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی السُّوقِ، فَقَالَ: ((یَا سَلَمَۃُ! ہَبْ لِیَ الْمَرْأَۃَ لِلّٰہِ أَبُوکَ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ، وَاللّٰہِ أَعْجَبَتْنِی، مَاکَشَفْتُ لَہَا ثَوْبًا، وَہِیَ لَکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: فَبَعَثَ بِہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی أَہْلِ مَکَّۃَ وَفِی أَیْدِیہِمْ أُسَارٰی مِنْ الْمُسْلِمِینَ، فَفَدَاہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِتِلْکَ الْمَرْأَۃِ۔ (مسند احمد: ۱۶۶۱۶)
سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا ابوبکر بن ابی قحافہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معیت میں روانہ ہوئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو ہم پر امیر مقرر فرمایا تھا۔ ہم فزارہ پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔ جب ہم اپنی منزل مقصود کے پانی کے قریب پہنچے تو سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہمیں حکم دیا اور ہم نے رات کے آخری حصہ میں کچھ دیر آرام کر لیا، جب ہم نے فجر کی نماز ادا کی تو ہم نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حکم سے یکبارگی حملہ کر دیا اور ہم نے اس پانی کے قریب بہت سے لوگوں کو قتل کر دیا۔ سیدنا سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: پھر میں نے پہاڑ کی جانب جانے والے لوگوں کی ایک جماعت دیکھی، اس میں عورتیں بھی تھیں اور بچے بھی، میں ان کے پیچھے دوڑنے لگا مجھے خطرہ تھا کہ وہ مجھ سے پہلے پہاڑ پر پہنچ جائیں گے، سو میں نے ان پر تیر برسائے جو ان کے اور پہاڑ کے درمیان گرے، پھر میں ان لوگوں کو گرفتار کر کے ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں پانی کے قریب لے آیا، ان میں بنو فزارہ کی ایک عورت بھی تھی، جس پر چمڑے کی ایک پرانی سی چادر تھی، اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی، جو عرب کی ایک خوبصورت ترین لڑکی تھی، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کی بیٹی میرے حصہ سے زائد کے طور پر مجھے عنایت کی۔ میں نے مدینہ منورہ آنے تک اس سے کوئی تعلق قائم نہ کیا، رات بھی اسی طرح گزر گئی، جب بازار میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملاقات ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے سلمہ ! وہ عورت مجھے ہبہ کر دو۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! وہ مجھے بہت اچھی لگی ہے، لیکن ابھی تک میں نے اس کا کپڑا تک نہیں اٹھایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش رہے اور مجھے چھوڑ دیا، اگلے دن پھر آپ کی مجھ سے بازار میں ملاقات ہوئی، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے سلمہ! تیرے باپ کا بھلا ہو، وہ عورت مجھے ہبہ کر دو۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! وہ مجھے بہت پسند آئی ہے اور میں نے تاحال اس کا کپڑا تک نہیں اُٹھایا۔اے اللہ کے رسول! وہ اب آپ کے لیے ہی ہے۔ اہل مکہ کے ہاں کچھ مسلمان قیدی تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس عورت کو ان مسلمانوں کے فدیہ کے طور پر اہلِ مکہ کی طرف بھیج دیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10832

۔ (۱۰۸۳۲)۔ عَنْ جُنْدُبِ بْنِ مَکِیثٍ الْجُہَنِیِّ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَالِبَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ الْکَلْبِیَّ کَلْبَ لَیْثٍ إِلٰی بَنِی مُلَوِّحٍ بِالْکَدِیدِ، وَأَمَرَہُ أَنْ یُغِیرَ عَلَیْہِمْ فَخَرَجَ فَکُنْتُ فِی سَرِیَّتِہِ فَمَضَیْنَا حَتّٰی إِذَا کُنَّا بِقُدَیْدٍ لَقِینَا بِہِ الْحَارِثَ بْنَ مَالِکٍ وَہُوَ ابْنُ الْبَرْصَائِ اللَّیْثِیُّ، فَأَخَذْنَاہُ فَقَالَ: إِنَّمَا جِئْتُ لِأُسْلِمَ فَقَالَ غَالِبُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ: إِنْ کُنْتَ إِنَّمَا جِئْتَ مُسْلِمًا فَلَنْ یَضُرَّکَ رِبَاطُ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ، وَإِنْ کُنْتَ عَلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ اسْتَوْثَقْنَا مِنْکَ، قَالَ: فَأَوْثَقَہُ رِبَاطًا، ثُمَّ خَلَّفَ عَلَیْہِ رَجُلًا أَسْوَدَ کَانَ مَعَنَا، فَقَالَ: امْکُثْ مَعَہُ حَتّٰی نَمُرَّ عَلَیْکَ، فَإِنْ نَازَعَکَ فَاجْتَزَّ رَأْسَہُ، قَالَ: ثُمَّ مَضَیْنَا حَتّٰی أَتَیْنَا بَطْنَ الْکَدِیدِ، فَنَزَلْنَا عُشَیْشِیَۃً بَعْدَ الْعَصْرِ، فَبَعَثَنِی أَصْحَابِی فِی رَبِیئَۃٍ، فَعَمَدْتُ إِلٰی تَلٍّ یُطْلِعُنِی عَلَی الْحَاضِرِ فَانْبَطَحْتُ عَلَیْہِ وَذٰلِکَ الْمَغْرِبَ، فَخَرَجَ رَجُلٌ مِنْہُمْ فَنَظَرَ فَرَآنِی مُنْبَطِحًا عَلَی التَّلِّ، فَقَالَ لِامْرَأَتِہِ: وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأَرٰی عَلٰی ہٰذَا التَّلِّ سَوَادًا، مَا رَأَیْتُہُ أَوَّلَ النَّہَارِ، فَانْظُرِی لَا تَکُونُ الْکِلَابُ اجْتَرَّتْ بَعْضَ أَوْعِیَتِکِ، قَالَ: فَنَظَرَتْ فَقَالَتْ: لَا وَاللّٰہِ! مَا أَفْقِدُ شَیْئًا، قَالَ: فَنَاوِلِینِی قَوْسِی وَسَہْمَیْنِ مِنْ کِنَانَتِی، قَالَ: فَنَاوَلَتْہُ فَرَمَانِی بِسَہْمٍ فَوَضَعَہُ فِیْ جَنْبِیْ، قَالَ: فَنَزَعْتُہٗفَوَضَعْتُہُوَلَمْ اَتَحَرَّکْ ثّمَّ رَمَانِیْ بِآخَرَ فَوَضَعَہُ فِیْ رَاْسِ مَنْکِبِیْ فَنَزَعْتُہُ فَوَضَعْتُہُ وَلَمْ أَتَحَرَّکْ، فَقَالَ لِامْرَأَتِہِ: وَاللّٰہِ! لَقَدْ خَالَطَہُ سَہْمَایَ وَلَوْ کَانَ دَابَّۃً لَتَحَرَّکَ فَإِذَا أَصْبَحْتِ فَابْتَغِی سَہْمَیَّ فَخُذِیہِمَا لَا تَمْضُغُہُمَا عَلَیَّ الْکِلَابُ، قَالَ: وَأَمْہَلْنَاہُمْ حَتّٰی رَاحَتْ رَائِحَتُہُمْ حَتّٰی إِذَا احْتَلَبُوا وَعَطَنُوا أَوْ سَکَنُوا وَذَہَبَتْ عَتَمَۃٌ مِنَ اللَّیْلِ، شَنَنَّا عَلَیْہِمْ الْغَارَۃَ فَقَتَلْنَا مَنْ قَتَلْنَا مِنْہُمْ وَاسْتَقْنَا النَّعَمَ فَتَوَجَّہْنَا قَافِلِینَ، وَخَرَجَ صَرِیخُ الْقَوْمِ إِلٰی قَوْمِہِمْ مُغَوِّثًا وَخَرَجْنَا سِرَاعًا حَتّٰی نَمُرَّ بِالْحَارِثِ ابْنِ الْبَرْصَائِ وَصَاحِبِہِ، فَانْطَلَقْنَا بِہِ مَعَنَا وَأَتَانَا صَرِیخُ النَّاسِ فَجَائَنَا مَا لَا قِبَلَ لَنَا بِہِ حَتّٰی إِذَا لَمْ یَکُنْ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ إِلَّا بَطْنُ الْوَادِی، أَقْبَلَ سَیْلٌ حَالَ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ، بَعَثَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی مِنْ حَیْثُ شَائَ، مَا رَأَیْنَا قَبْلَ ذٰلِکَ مَطَرًا وَلَا حَالًا، فَجَائَ بِمَا لَا یَقْدِرُ أَحَدٌ أَنْ یَقُومَ عَلَیْہِ، فَلَقَدْ رَأَیْنَاہُمْ وُقُوفًا یَنْظُرُونَ إِلَیْنَا مَا یَقْدِرُ أَحَدٌ مِنْہُمْ أَنْ یَتَقَدَّمَ، وَنَحْنُ نُحَوِّزُہَا سِرَاعًا حَتّٰی أَسْنَدْنَاہَا فِی الْمُشَلَّلِ، ثُمَّ حَدَرْنَاہَا عَنَّا فَأَعْجَزْنَا الْقَوْمَ بِمَا فِی أَیْدِینَا۔ (مسند احمد: ۱۵۹۳۸)
سیدنا جندب بن مکیث جُہنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا غالب بن عبداللہ کلبی لیثی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو کدید کے مقام پر مقیم قبیلہ بنو ملوح پر حملہ کے لیے روانہ فرمایا، چنانچہ یہ روانہ ہوئے، میں بھی اسی لشکر میں شامل تھا، چلتے چلتے جب ہم کدید کے مقام پر پہنچے تو وہاں ہمیں حارث بن مالک ابن برصاء لیثی مل گیا۔ ہم نے اسے پکڑ لیا، اس نے کہا: میں تو مسلمان ہونے کے لیے آیا ہوں۔ سیدنا غالب بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر تم مسلمان ہونے کے ارادہ سے آئے ہو تو ایک دن رات کی قید تمہیں کچھ ضرر نہیں پہنچائے گی اور اگر تمہارا کچھ اور پروگرام ہے تو ہم اس بارے میں تحقیق کریں گے، چنانچہ سیدنا غالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کو قید کر لیا اور ایک سیاہ فام کو جو ہمارے ساتھ ہی تھا، اس کی نگرانی پر مامور فرما دیا اور کہا: ہمارے واپس آنے تک تم اس کے ساتھ ہی رہو، اگر یہ تمہارے ساتھ جھگڑا کرے تو اس کا سر اڑا دینا۔ اس کے بعد ہم وہاں سے روانہ ہو کر کدید کے درمیان میں پہنچے اور ہم عصر کے بعد عشیشیہ میں جا اترے۔ میرے ساتھیوں نے مجھے پہرہ کی ذمہ داری سونپ دی۔ میں ایک ٹیلہ کی طرف گیا جہاں سے ادھر اُدھر موجود لوگوں پر نظر جا سکتی تھی۔ میں ٹیلے پر لیٹ گیا۔ مغرب کا وقت ہو چکا تھا۔ ان میں سے ایک آدمی نکلا اس نے مجھے ٹیلے پر لیٹا ہوا دیکھا تو اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں ٹیلے پر ایک ایسا ہیولا دیکھ رہا ہوں جسے میں نے دن کے وقت نہیں دیکھا۔ خیال کرنا کتے نہ ہوں؟ اور تمہارے برتن نہ لے گئے ہوں۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھ کر کہا اللہ کی قسم! میں کسی چیز کو گم تو نہیں پاتی، اس نے کہا اچھا تم میری کمان اور میرے ترکش سے دو تیر مجھے لا دو۔ اس نے تیر اور کمان اسے لا دئیے۔ اس نے ایک تیر مجھ پر مارا اور اسے میرے پہلو میں پیوست کردیا۔ میں نے اسے کھینچ کر نکالا اور ایک طرف رکھ دیا۔ اور خود کوئی حرکت نہ کی,، اس نے دوسرا تیر چلا کر میرے کندھے کے اوپر والے حصے میں پیوست کر دیا۔ میں نے اسے نکال کر رکھ دیا اور کوئی حرکت نہ کی۔ وہ اپنی بیوی سے کہنے لگا اللہ کی قسم! میرے دو تیر اسے جا لگے ہیںیہ اگر کوئی جان دار چیز ہوتی تو ضرور حرکت کرتی۔ صبح ہو تو میرے ان دونوں تیروں کو تلاش کر رکھنا اور انہیں کتوں کے لیے نہ پڑے رہنے دینا۔ ہم نے ان لوگوں کو مہلت دی۔ یہاں تک کہ ان کے جانور شام گھروں میں واپس آگئے اور انہوں نے جانوروں کا دودھ دوھ لیا اور وہ اپنی اپنی جگہوں پر مطمئن ہو گئے اور رات کا کچھ حصہ گزر گیا تو ہم نے ان پر حملہ کر دیا۔ تو ہم سے جس قدر ہو سکا ان کو قتل کیا اور ہم جانوروں کو لے کر روانہ ہوئے۔ اور واپس چلے۔ اتنے میں ان لوگوں کی طرف سے اس قسم کی چیخ وپکار شروع ہو گئی جیسے کوئی مدد کے لیے پکارتا ہے۔ ہم تیزی سے چلتے گئے۔ یہاں تک ہم حارث بن برصاء اور اس کے ساتھی کے پاس آگئے۔ ہم ان کو بھی ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ لوگوں کی چیخ وپکار کی آوازیں ہم تک آرہی تھیں۔ تو ایسی صورت حال پیدا ہو گئی کہ جس کا مقابلہ کرنے کی ہم میں ہمت نہ تھی۔ یہاں تک کہ جب ہمارے اور ان کے درمیان وادی رہ گئی تو اچانک زور دار سیلاب ان کے اور ہمارے درمیان حائل ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں سے چاہا اسے بھیج دیا اس کے آنے سے پہلے ہم نے نہ تو بارش دیکھی اور نہ بادل، سیلاب اس قدر تیز تھا کہ کوئی آدمی اس کے سامنے کھڑے ہونے کی تاب نہ رکھتا تھا۔ ہم نے بنو الملوح کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ سیلاب سے دوسری طرف بے بسی سے کھڑے ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے کسی کو آگے بڑھنے کی ہمت نہ تھی اور ہم اسے تیزی سے پار کرتے جا رہے تھے۔ یہاں تک کہ ہم اس کے ساتھ ساتھ جبلِ مشلل تک گئے۔ اس کے بعد ہم اس سے ایک طرف ہو کر دوسرے راستے پر چل دئیے۔ ہمارے پاس ان لوگوں سے حاصل شدہ جو مالِ غنیمت تھا ہم نے اسے واپس لینے سے ان لوگوں کو عاجز کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10833

۔ (۱۰۸۳۳)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَرَجَ مُعْتَمِرًا، فَحَالَ کُفَّارُ قُرَیْشٍ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْبَیْتِ، فَنَحَرَ ہَدْیَہُ وَحَلَقَ رَأْسَہُ بِالْحُدَیْبِیَۃِ، فَصَالَحَہُمْ عَلٰی أَنْ یَعْتَمِرُوا الْعَامَ الْمُقْبِلَ، وَلَا یَحْمِلَ السِّلَاحَ عَلَیْہِمْ، وَقَالَ سُرَیْجٌ: وَلَا یَحْمِلَ سِلَاحًا إِلَّا سُیُوفًا، وَلَا یُقِیمَ بِہَا إِلَّا مَا أَحَبُّوا، فَاعْتَمَرَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ فَدَخَلَہَا کَمَا کَانَ صَالَحَہُمْ، فَلَمَّا أَنْ أَقَامَ ثَلَاثًا أَمَرُوہُ أَنْ یَخْرُجَ فَخَرَجَ۔ (مسند احمد: ۶۰۶۷)
عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عمرہ کے ارادہ سے روانہ ہوئے تو کفار قریش آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہو گئے آپ نے وہیں حدیبیہ کے مقام پر اپنے قربانی کے اونٹوں کو نحر کیا۔ سر منڈوایا اور ان سے معاہدہ کیا جس میں طے ہوا کہ آپ آئندہ سال آکر عمرہ کریں گے اور قریش مکہ کے خلاف ہتھیار نہ اُٹھائیں گے۔ مسلمانوں کے پاس صرف تلواریں ہو گی اور وہ مکہ میں صرف اتنے دن گزار سکیں گے جن کی قریش اجازت دیں گے چنانچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اگلے سال آکر عمرہ اداکیا۔ اور حسبِ معاہدہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ جب تین دن گزر گئے تو قریش نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی روانگی کا مطالبہ کیا، سو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں سے چلے آئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10834

۔ (۱۰۸۳۴)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِی أَوْفٰییَقُولُ: کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ اعْتَمَرَ، فَطَافَ وَطُفْنَا مَعَہُ، وَصَلّٰی وَصَلَّیْنَا مَعَہُ، وَسَعٰی بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ وَکُنَّا نَسْتُرُہُ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ، لَا یُصِیبُہُ أَحَدٌ بِشَیْئٍ، زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ: قَالَ: فَسَمِعْتُہُ یَدْعُوْ عَلَی الْاَحْزَابِ یَقُوْلُ: ((اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ ھَازِمَ الْاَحْزَابِ، اَللّٰہُمَّ اھْزِمْہُمْ وَزَلْزِلْھُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۹۶۲۷)
عبداللہ بن ابی اوفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب عمرہ ادا کیا تو ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے طواف کیا تو ہم نے بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ طواف کیا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نمازادا کی تو ہم نے بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صفا اور مروہ کے مابین سعی کی تو ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ سعی کی، ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ارد گردرہ کر اہل مکہ سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا دفاع کر رہے تھے، تاکہ اہل مکہ میں سے کوئی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تکلیف نہ پہنچا دے، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اسلام دشمن جماعتوں کے خلاف یہ دعا کرتے سنا: اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ ھَازِمَ الْاَحْزَابِ، اَللّٰہُمَّ اھْزِمْہُمْ وَزَلْزِلْھُمْ ( اے اللہ! کتاب نازل کرنے والے، جلد حساب لینے والے، تمام جماعتوں کو شکست سے دو چار کرنے والے، یا اللہ انہیں شکست سے دو چار کر اور ان کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ )
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10835

۔ (۱۰۸۳۵)۔ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا دَخَلَ مَکَّۃَ فِیْ عُمْرَۃِ الْقَضَائِ اَتَوْا عَلِیًّا فَقَالُوْا: قُلْ لِصَاحِبِکَ فَلْیَخْرُجْ عَنَّا فَقَدْ مَضَی الْاَجَلُ، فَخَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۸۸۳۸)
سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ عمرۂ قضاء کے موقع پر جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ مکرمہ تشریف لائے تو ( مقرر وقت گزرنے پر ) قریشِ مکہ نے سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو آکر کہا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے ساتھی سے کہیں کہ مقرر وقت ختم ہو چکا ہے، لہٰذا وہ یہاں سے روانہ ہو جائیں، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ مکرمہ سے روانہ ہو گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10836

۔ (۱۰۸۳۶)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا نَزَلَ مَرَّ الظَّہْرَانِ فِی عُمْرَتِہِ، بَلَغَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّ قُرَیْشًا تَقُولُ: مَا یَتَبَاعَثُونَ مِنَ الْعَجَفِ، فَقَالَ أَصْحَابُہُ: لَوِ انْتَحَرْنَا مِنْ ظَہْرِنَا، فَأَکَلْنَا مِنْ لَحْمِہِ، وَحَسَوْنَا مِنْ مَرَقِہِ، أَصْبَحْنَا غَدًا حِینَ نَدْخُلُ عَلَی الْقَوْمِ، وَبِنَا جَمَامَۃٌ، قَالَ: ((لَا تَفْعَلُوا وَلٰکِنْ اجْمَعُوا لِی مِنْ أَزْوَادِکُمْ۔)) فَجَمَعُوا لَہُ وَبَسَطُوا الْأَنْطَاعَ، فَأَکَلُوا حَتّٰی تَوَلَّوْا وَحَثَا کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ فِی جِرَابِہِ، ثُمَّ أَقْبَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَقَعَدَتْ قُرَیْشٌ نَحْوَ الْحِجْرِ، فَاضْطَبَعَ بِرِدَائِہِ ثُمَّ قَالَ: ((لَا یَرَی الْقَوْمُ فِیکُمْ غَمِیزَۃً۔)) فَاسْتَلَمَ الرُّکْنَ ثُمَّ دَخَلَ حَتّٰی إِذَا تَغَیَّبَ بِالرُّکْنِ الْیَمَانِی مَشٰی إِلَی الرُّکْنِ الْأَسْوَدِ، فَقَالَتْ قُرَیْشٌ: مَا یَرْضَوْنَ بِالْمَشْیِ أَنَّہُمْ لَیَنْقُزُونَ نَقْزَ الظِّبَائِ فَفَعَلَ ذٰلِکَ ثَلَاثَۃَ أَطْوَافٍ، فَکَانَتْ سُنَّۃً، قَالَ أَبُو الطُّفَیْلِ: وَأَخْبَرَنِی ابْنُ عَبَّاسٍ: أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَعَلَ ذٰلِکَ فِی حَجَّۃِ الْوَدَاعِ۔ (مسند احمد: ۲۷۸۲)
ابو طفیل سے مروی ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ عمرۂ قضا ء کے موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مرالظہران کے مقام پر پہنچے تو صحابہ کو یہ بات پہنچی کہ قریش مسلمانوں کے جسموں کے نحیف ہونے کی باتیں کر رہے ہیں، پس صحابہ نے گزارش کی اگر ہم اپنے کچھ اونٹوں کو ذبح کر کے ان کا گوشت کھائیں اور شوربا یعنییخنی بنا کر پئیں تو جب ہم ان کے سامنے جائیں تو ہم خوب سیراب اور سیر نظر آئیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ایسے نہ کرو بلکہ تم اپنا زادِ راہ ایک جگہ میں جمع کرو۔ صحابہ نے کھانے کا سارا سامان ایک جگہ جمع کر دیا اور چمڑے کے دستر خوان بچھا دئیے اور سب نے کھانا کھایا،یہاں تک کہ کھا کھا کر وہ اُٹھ گئے اور ہر ایک نے اپنے اپنے تھیلے بھی کھانے سے بھر لیے، اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد حرام میں آئے، جبکہ قریشی حجر یعنی حطیم کی جانب بیٹھے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی چادر سے اضطباع کیا۔ (یعنی طواف کے وقت چادر کا درمیا ن والا حصہ دائیں کندھے کے نیچے بغل سے نکال کر چادر کے دونوں سروں کو بائیں کندھے پر ڈال دیا اور اس طرح دایاں کندھا ننگا ہو گیا، اس عمل کو اضطباع کہتے ہیں) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ قریشی لوگ تمہارے اندر کمزوری محسوس نہ کریں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حجر اسود کا استلام کیا اور (رمل کرتے ہوئے) طواف شروع کیا،یہاں تک کہ جب آپ رکن یمانی کی جانب قریش کی آنکھوں سے اوجھل ہوئے تو حجرِاسود تک عام رفتار سے چل کر گئے، قریش نے ان کی کیفیات دیکھ کر کہا کہ یہ لوگ طواف کرتے ہوئے عام رفتار سے چلنے پر مطمئن نہیں، بلکہ اچھل اچھل کر اور کود کود کر طواف کرتے ہیں، جیسے ہرن اچھلتے کودتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین چکروں میں ایسے ہی رمل کیا، (رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان عام چال چلے)، پس یہ عمل سنت ٹھہرا، ابو طفیل کہتے ہیں: سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بتلایا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ عمل حجۃ الوداع میں (بھی) کیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10837

۔ (۱۰۸۳۷)۔ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابُہُ وَقَدْ وَہَنَتْہُمْ حُمّٰییَثْرِبَ، قَالَ: فَقَالَ الْمُشْرِکُونَ: إِنَّہُ یَقْدُمُ عَلَیْکُمْ قَوْمٌ قَدْ وَہَنَتْہُمُ الْحُمّٰی، قَالَ: فَأَطْلَعَ اللّٰہُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی ذٰلِکَ، فَأَمَرَ أَصْحَابَہُ أَنْ یَرْمُلُوْا، وَقَعَدَ الْمُشْرِکُونَ نَاحِیَۃَ الْحَجَرِ یَنْظُرُونَ إِلَیْہِمْ فَرَمَلُوا وَمَشَوْا مَا بَیْنَ الرُّکْنَیْنِ، قَالَ: فَقَالَ الْمُشْرِکُونَ: ہٰؤُلَائِ الَّذِینَ تَزْعُمُونَ أَنَّ الْحُمّٰی وَہَنَتْہُمْ، ہٰؤُلَائِ أَقْوٰی مِنْ کَذَا وَکَذَا ذَکَرُوا قَوْلَہُمْ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَلَمْ یَمْنَعْہُ أَنْ یَأْمُرَہُمْ أَنْ یَرْمُلُوا الْأَشْوَاطَ کُلَّہَا إِلَّا إِبْقَائٌ عَلَیْہِمْ، وَقَدْ سَمِعْتُ حَمَادًا یُحَدِّثُہُ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ، لا شَکَّ فِیْہِ عَنْہُ۔ (مسند احمد: ۲۶۳۹)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابۂ کرام عمرۂ قضا کے موقع پر مکہ مکرمہ تشریف لائے تو مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ یثرب کے بخار نے ان کو کمزور کر رکھا تھا، اسی وجہ سے مشرکوںنے کہا: ایسے لوگ تمہارے پاس آرہے ہیں جنہیںیثرب کے بخار نے کمزور کر دیا ہے، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس بات کی اطلاع دے دی، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ کو طواف کے دوران رمل کرنے کا حکم دیا، مشرکین حطیم کی جانب بیٹھے مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے۔ مسلمانوں نے رمل کیا، البتہ رکن یمانی اور حجراسود کے درمیان عام رفتار سے چلتے رہے، یہ صورتحال دیکھ کر مشرکین نے کہا: یہی وہ لوگ ہیں جن کی بابت تم کہہ رہے تھے کہ ان کو بخار نے کمزور کر رکھا ہے، یہ تو انتہائی طاقت ور ہیں، سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صرف ابتدائی تین چکروں میں رمل کیا اور بعد میں نہیں کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسلمانوں پر ترس کھاتے ہوئے تمام چکروں میں دوڑنے کا حکم نہیں فرمایا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10838

۔ (۱۰۸۳۸)۔ عَنْ مَیْمُوْنَۃَ قَالَتْ: تَزَوَّجَنِیْ رَسُوْل اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَنَحْنُ حَلَالٌ بَعْدَ مَا رَجَعْنَا مِنْ مَکَّۃَ۔ (مسند احمد: ۲۷۳۵۲)
اُمّ المؤمنین سیّدہ میمونہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مکہ مکرمہ سے واپسی پر مجھ سے نکاح کیا، جب کہ ہم احرام کی حالت میں نہیں تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10839

۔ (۱۰۸۳۹)۔ عَنْ اَبِیْ رَافِعٍ مَوْلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: کُنْتُ فِیْ بَعْثٍ مَرَّۃً فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اذْھَبْ فَاْتِنِیْ بِمَیْمُوْنَۃَ۔)) فَقُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! إِنِّیْ فِیْ الْبَعْثِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((الَسْتَ تُحِبُّ مَا اُحِبُّ؟)) قَالَ: بَلٰی،یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((اذْھَبْ فَاْتِنِیْ بِہَا۔)) فَذَھَبْتُ فَجِئْتُ بِہَا۔ (مسند احمد: ۲۷۷۲۷)
مولائے رسول سیدنا ابو رافع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ایک دفعہ ایک دستے میں میرے نام کا بھی اندراج کیا گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم جا کر میمونہ کو لے آؤ۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میرا نام تو فلاں دستے میں لکھا جا چکا ہے۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں وہ کام پسند نہیں، جو مجھے پسند ہے؟ میںنے عرض کیا: جی بالکل، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تم جا کر میمونہ کو میرے پاس لے کر آؤ۔ چنانچہ میں گیا اور ان کو لے آیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10840

۔ (۱۰۸۴۰)۔ عَنْ أَبِی رَافِعٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌مَوْلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَزَوَّجَ مَیْمُوْنَۃَ حَلَالاً وَبَنٰی بِہَا حَلَالاً وَکُنْتُ الرَّسُوْلَ بَیْنَہُمَا۔ (مسند احمد: ۲۷۷۳۹)
مولائے رسول سیدنا ابو رافع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ میمونہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے نکاح کیا اور جب ان کے ساتھ خلوت اختیار کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حلال تھے یعنی احرام کی حالت میں نہ تھے اور میں ان دونوں کے درمیان قاصد تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10841

۔ (۱۰۸۴۱)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ مِنْ فِیْہِ قَالَ: لَمَّا انْصَرَفْنَا مِنَ الْأَحْزَابِ عَنِ الْخَنْدَقِ جَمَعْتُ رِجَالًا مِنْ قُرَیْشٍ، کَانُوا یَرَوْنَ مَکَانِی وَیَسْمَعُونَ مِنِّی، فَقُلْتُ لَہُمْ: تَعْلَمُونَ وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأَرٰی أَمْرَ مُحَمَّدٍیَعْلُو الْأُمُورَ عُلُوًّا کَبِیرًا مُنْکَرًا، وَإِنِّی قَدْ رَأَیْتُ رَأْیًا فَمَا تَرَوْنَ فِیہِ؟ قَالُوا: وَمَا رَأَیْتَ؟ قَالَ: رَأَیْتُ أَنْ نَلْحَقَ بِالنَّجَاشِیِّ فَنَکُونَ عِنْدَہُ فَإِنْ ظَہَرَ مُحَمَّدٌ عَلٰی قَوْمِنَا کُنَّا عِنْدَ النَّجَاشِیِّ فَإِنَّا أَنْ نَکُونَ تَحْتَ یَدَیْہِ أَحَبُّ إِلَیْنَا مِنْ أَنْ نَکُونَ تَحْتَ یَدَیْ مُحَمَّدٍ، وَإِنْ ظَہَرَ قَوْمُنَا فَنَحْنُ مَنْ قَدْ عُرِفَ فَلَنْ یَأْتِیَنَا مِنْہُمْ إِلَّا خَیْرٌ، فَقَالُوا: إِنَّ ہٰذَا الرَّأْیُ، قَالَ: فَقُلْتُ لَہُمْ: فَاجْمَعُوا لَہُ مَا نُہْدِی لَہُ، وَکَانَ أَحَبَّ مَا یُہْدٰی إِلَیْہِ مِنْ أَرْضِنَا الْأَدَمُ، فَجَمَعْنَا لَہُ أُدْمًا کَثِیرًا، فَخَرَجْنَا حَتّٰی قَدِمْنَا عَلَیْہِ، فَوَاللّٰہِ! إِنَّا لَعِنْدَہُ إِذْ جَائَ عَمْرُو بْنُ أُمَیَّۃَ الضَّمْرِیُّ، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ بَعَثَہُ إِلَیْہِ فِی شَأْنِ جَعْفَرٍ وَأَصْحَابِہِ، قَالَ: فَدَخَلَ عَلَیْہِ ثُمَّ خَرَجَ مِنْ عِنْدِہِ، قَالَ: فَقُلْتُ لِأَصْحَابِی: ہٰذَا عَمْرُو بْنُ أُمَیَّۃَ الضَّمْرِیُّ، لَوْ قَدْ دَخَلْتُ عَلَی النَّجَاشِیِّ فَسَأَلْتُہُ إِیَّاہُ فَأَعْطَانِیہِ فَضَرَبْتُ عُنُقَہُ، فَإِذَا فَعَلْتُ ذٰلِکَ رَأَتْ قُرَیْشٌ أَنِّی قَدْ أَجْزَأْتُ عَنْہَا حِینَ قَتَلْتُ رَسُولَ مُحَمَّدٍ، قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَیْہِ فَسَجَدْتُ لَہُ کَمَا کُنْتُ أَصْنَعُ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِصَدِیقِی أَہْدَیْتَ لِی مِنْ بِلَادِکَ شَیْئًا؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، أَیُّہَا الْمَلِکُ، قَدْ أَہْدَیْتُ لَکَ أُدْمًا کَثِیرًا، قَالَ: ثُمَّ قَدَّمْتُہُ إِلَیْہِ فَأَعْجَبَہُ وَاشْتَہَاہُ ثُمَّ قُلْتُ لَہُ: أَیُّہَا الْمَلِکُ! إِنِّی قَدْ رَأَیْتُ رَجُلًا خَرَجَ مِنْ عِنْدِکَ وَہُوَ رَسُولُ رَجُلٍ عَدُوٍّ لَنَا فَأَعْطِنِیہِ لِأَقْتُلَہُ فَإِنَّہُ قَدْ أَصَابَ مِنْ أَشْرَافِنَا وَخِیَارِنَا، قَالَ: فَغَضِبَ ثُمَّ مَدَّ یَدَہُ فَضَرَبَ بِہَا أَنْفَہُ ضَرْبَۃً، ظَنَنْتُ أَنْ قَدْ کَسَرَہُ، فَلَوِ انْشَقَّتْ لِیَ الْأَرْضُ لَدَخَلْتُ فِیہَا فَرَقًا مِنْہُ ثُمَّ قُلْتُ: أَیُّہَا الْمَلِکُ وَاللّٰہِ! لَوْ ظَنَنْتُ أَنَّکَ تَکْرَہُ ہٰذَا مَا سَأَلْتُکَہُ، فَقَالَ لَہُ: أَتَسْأَلُنِی أَنْ أُعْطِیَکَ رَسُولَ رَجُلٍ یَأْتِیہِ النَّامُوسُ الْأَکْبَرُ الَّذِی کَانَ یَأْتِی مُوسٰی لِتَقْتُلَہُ؟ قَالَ: قُلْتُ، أَیُّہَا الْمَلِکُ أَکَذَاکَ ہُوَ؟ فَقَالَ: وَیْحَکَیَا عَمْرُو! أَطِعْنِی وَاتَّبِعْہُ فَإِنَّہُ وَاللّٰہِ لَعَلَی الْحَقِّ وَلَیَظْہَرَنَّ عَلٰی مَنْ خَالَفَہُ کَمَا ظَہَرَ مُوسٰی عَلٰی فِرْعَوْنَ وَجُنُودِہِ، قَالَ: قُلْتُ: فَبَایِعْنِی لَہُ عَلَی الْإِسْلَامِ، قَالَ: نَعَمْ فَبَسَطَ یَدَہُ وَبَایَعْتُہُ عَلَی الْإِسْلَامِ ثُمَّ خَرَجْتُ إِلٰی أَصْحَابِی، وَقَدْ حَالَ رَأْیِی عَمَّا کَانَ عَلَیْہِ وَکَتَمْتُ أَصْحَابِی إِسْلَامِی، ثُمَّ خَرَجْتُ عَامِدًا لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِأُسْلِمَ، فَلَقِیتُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ وَذٰلِکَ قُبَیْلَ الْفَتْحِ وَہُوَ مُقْبِلٌ مِنْ مَکَّۃَ، فَقُلْتُ: أَیْنَیَا أَبَا سُلَیْمَانَ؟ وَاللّٰہِ! لَقَدْ اسْتَقَامَ الْمَنْسِمُ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَنَبِیٌّ أَذْہَبُ وَاللّٰہِ أُسْلِمُ فَحَتّٰی مَتٰی؟ قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ! مَا جِئْتُ إِلَّا لِأُسْلِمَ، قَالَ: فَقَدِمْنَا عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَدِمَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فَأَسْلَمَ وَبَایَعَ، ثُمَّ دَنَوْتُ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی أُبَایِعُکَ عَلٰی أَنْ تَغْفِرَ لِی مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِی وَلَا أَذْکُرُ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا عَمْرُو بَایِعْ فَإِنَّ الْإِسْلَامَ یَجُبُّ مَا کَانَ قَبْلَہُ، وَإِنَّ الْہِجْرَۃَ تَجُبُّ مَا کَانَ قَبْلَہَا۔)) قَالَ: فَبَایَعْتُہُ ثُمَّ انْصَرَفْتُ، قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: وَقَدْ حَدَّثَنِی مَنْ لَا أَتَّہِمُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ طَلْحَۃَ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ کَانَ مَعَہُمَا أَسْلَمَ حِینَ أَسْلَمَا۔ (مسند احمد: ۱۷۹۳۰)
حبیب بن اوس سے مروی ہے کہ سیدنا عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے براہ راست بیان کیا کہ جب ہم غزوۂ احزاب میں خندق سے واپس ہوئے، تو میں نے چند ان قریشی لوگوں کو جمع کیا، جو میرا مقام سمجھتے اور میری بات کو توجہ سے سنتے تھے، میں نے ان سے کہا: اللہ کی قسم! تم جانتے ہو کہ میری نظر میں محمد کی دعوت سب پر غالب ہو کر رہے گی اور ہم لوگ اسے پسند بھی نہیں کرتے، میری ایک رائے ہے، اب تم بتاؤ کہ اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا: جی آپ کی رائے کیا ہے؟ میں نے کہا: میرا خیال ہے کہ ہم نجاشی کے پاس چلے جائیں اور وہیں رہیں، اگر محمد ہماری قوم پر غالب آ گئے، تو ہم نجاشی کے ہاں ہوں گے اور محمد کے ماتحت رہنے کی نسبت نجاشی کے ماتحت رہنا ہمیں زیادہ پسند ہے اور اگر ہماری قوم غالب ہوئی تو ہم معروف ہیں،ہمیں ان کے ہاں خیر ہی خیر ملے گی۔ لوگوں نے کہا: واقعی آپ کی رائے مناسب ہے۔پھر میں نے ان سے کہا: تم اس کو تحائف دینے کے لیے مال جمع کرو، اسے ہمارے علاقے کا چمڑا بطور ہدیہ بہت پسند تھا، پس ہم نے اسے دینے کے لیے بہت سے چمڑے جمع کر لئے اور ہم روانہ ہو گئے اور اس کے ہاں پہنچ گئے، اللہ کی قسم !ہم اس کے پاس موجود تھے کہ عمرو بن امیہ ضمریبھی وہاں آگئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو جعفر اور ان کے ساتھیوںکے سلسلہ میں بات چیت کے سلسلہ میں وہاں بھیجا تھا، وہ اس کے پاس آئے اور اس کے ہاں سے چلے گئے، اب میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: یہ عمرو بن امیہ ضمری ہے، اگر میں نجاشی کے ہاں جا کر اس سے اس کا مطالبہ کروں کہ اسے میرے حوالے کر دے تو وہ اسے میرے حوالے کر دے گا اور میں اسے قتل کر دوں گا تو قریش اعتراف کریں گے کہ میں نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سفیر کو قتل کر کے ان کی نیابت کا حق ادا کر دیا۔ چنانچہ میں اس کے دربار میں گیا اور جاتے ہی اسے تعظیمی سجدہ کیا، جیسا کہ میں اس سے پہلے بھی کیا کرتا تھا،اس نے کہا: دوست کی آمد مبارک، تم اپنے وطن سے میرے لیے کچھ تحفہ لائے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں ! بادشاہ سلامت! میں آپ کے لیے کثیر مقدار میں چمڑے لے کر حاضر ہوا ہوں۔ پھر میں نے وہ اس کی خدمت میں پیش کئے، اس نے ان کو خوب پسند کیا اور یہ بھی اظہار کیا کہ اس کو ان کی ضرورت تھی، اس کے بعد میں نے کہا: بادشاہ سلامت! میں نے یہاں ایک آدمی کو دیکھا ہے، جو آپ کے ہاں سے باہر گیا ہے، وہ تو ہمارے دشمن کا قاصد ہے، آپ اسے میرے حوالے کر دیں تاکہ میں اسے قتل کر سکوں، وہ تو ہمارے معزز اور بہترین لوگوں کا قاتل ہے، یہ سن کر نجاشی غضبناک ہو گیا۔ اس نے اپنا ہاتھ لمبا کر کے اپنے ہی ناک پر اس قدر زور سے مارا کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ اس نے اپنے ناک کی ہڈی توڑ دی ہو گی، اس کے خوف کی وجہ سے میرییہ حالت ہوئی کہ اگر زمین پھٹ جاتی تو میں اس میں داخل ہو جاتا۔ پھر میں نے کہا: بادشاہ سلامت! اللہ کی قسم اگر مجھے علم ہوتا کہ یہ بات آپ کو اس قدر ناگوار گزرے گی تو میں آپ سے اس کا مطالبہ ہی نہ کرتا۔ نجاشی نے کہا: جو فرشتہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا کرتا تھا، اب وہ جس آدمی کے پاس آتا ہے، کیا میں اس کے قاصد کو تمہارے حوالے کر دوں تاکہ تم اسے قتل کر سکو؟ میں نے کہا: بادشاہ سلامت! کیا وہ واقعی ایسا ہی ہے؟ وہ بولا: اے عمرو! تجھ پر افسوس ہے، تم میری بات مان لو اور اس کی اتباع کر لو، اللہ کی قسم وہ یقینا حق پر ہے اور وہ ضرور بالضرور اپنے مخالفین پر غالب آئے گا، جیسے موسیٰ علیہ السلام ، فرعون اور اس کے لشکروں پر غالب آئے تھے۔ میں نے کہا: آپ مجھ سے اس کے حق میں قبولِ اسلام کی بیعت لے لیں۔ نجاشی نے کہا: ٹھیک ہے۔ چنانچہ اس نے اپنا ہاتھ پھیلا دیا اور میں نے اس کے ہاتھ پر قبولِ اسلام کی بیعت کر لی۔ پھر میں اپنے ساتھیوں کی طرف گیا، جبکہ میری رائے سابقہ رائے سے یکسر بدل چکی تھی، لیکن میں نے اپنے ساتھیوں سے اپنے قبولِ اسلام کو چھپائے رکھا، پھر میں مسلمان ہونے کے لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف چل دیا، خالد بن ولید سے میری ملاقات ہوئی، وہ مکہ مکرمہ سے آرہے تھے، یہ فتح مکہ سے پہلے کی بات ہے اور میں نے ان سے دریافت کیا: ابو سلیمان! کہاں سے آرہے ہو؟ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! راستہ خوب واضح ہو چکا ہے، وہ محمد یقینا نبی ہے، اللہ کی قسم میں تو جا کر مسلمان ہوتا ہوں۔ کب تک یوں ہی ادھر ادھربھٹکتا رہوں گا، میں نے کہا: اللہ کی قسم میں بھی اسلام قبول کرنے کے لیے ہی آیاہوں۔ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچے۔ خالد بن ولید آگے بڑھے۔ انہوں نے اسلام قبول کیا اوربیعت کی، ان کے بعد میں بھی قریب ہوا اور میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں آپ سے اس شرط پر بیعت کرتا ہوں کہ میرے سابقہ سارے گناہ معاف ہو جائیں اور مجھے بعد میں سرزد ہونے والے گناہوں کانام لینایاد نہ رہا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے عمرو! تم بیعت کرو، بے شک اسلام پہلے کے سارے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور ہجرت سابقہ تمام گناہوں کو ختم کر دیتی ہے، پس میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کر لی اور پھر میں واپس آگیا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں: مجھ سے ایک ایسے آدمی نے بیان کیا جومیرے نزدیک قابلِ اعتماد ہے، اس نے کہا کہ سیدنا عثمان بن طلحہ بن ابی طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی ان دونوں کے ہم راہ تھے، جب یہ دونوں اسلام میں داخل ہوئے تو وہ بھی ان کے ساتھ ہی مسلمان ہوئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10842

۔ (۱۰۸۴۲)۔ عن خَالِدِ بْنِ شُمَیْرٍ قَالَ: قَدِمَ عَلَیْنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَبَاحٍ فَوَجَدْتُہُ قَدِ اجْتَمَعَ إِلَیْہِ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو قَتَادَۃَ فَارِسُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَیْشَ الْأُمَرَائِ وَقَالَ: ((عَلَیْکُمْ زَیْدُ بْنُ حَارِثَۃَ فَإِنْ أُصِیبَ زَیْدٌ فجَعْفَرٌ فَإِنْ أُصِیبَ جَعْفَرٌ فعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ الْأَنْصَارِیُّ۔)) فَوَثَبَ جَعْفَرٌ فَقَالَ: بِأَبِی أَنْتَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ وَأُمِّی مَا کُنْتُ أَرْہَبُ أَنْ تَسْتَعْمِلَ عَلَیَّ زَیْدًا، قَالَ: ((امْضُوا فَإِنَّکَ لَا تَدْرِی أَیُّ ذٰلِکَ خَیْرٌ۔)) قَالَ: فَانْطَلَقَ الْجَیْشُ فَلَبِثُوا مَا شَائَ اللَّہُ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَعِدَ الْمِنْبَرَ وَأَمَرَ أَنْ یُنَادَی الصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((نَابَ خَیْرٌ أَوْ ثَابَ خَیْرٌ (شَکَّ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ) أَلَا أُخْبِرُکُمْ عَنْ جَیْشِکُمْ ہٰذَا الْغَازِی! إِنَّہُمْ انْطَلَقُوا حَتّٰی لَقُوا الْعَدُوَّ فَأُصِیبَ زَیْدٌ شَہِیدًا فَاسْتَغْفِرُوا لَہُ۔)) فَاسْتَغْفَرَ لَہُ النَّاسُ، ((ثُمَّ أَخَذَ اللِّوَائَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ فَشَدَّ عَلَی الْقَوْمِ حَتّٰی قُتِلَ شَہِیدًا أَشْہَدُ لَہُ بِالشَّہَادَۃِ فَاسْتَغْفِرُوا لَہُ، ثُمَّ أَخَذَ اللِّوَائَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ فَأَثْبَتَ قَدَمَیْہِ حَتّٰی أُصِیبَ شَہِیدًا فَاسْتَغْفِرُوا لَہُ، ثُمَّ أَخَذَ اللِّوَائَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ۔)) وَلَمْ یَکُنْ مِنَ الْأُمَرَائِ ہُوَ أَمَّرَ نَفْسَہُ فَرَفَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُصْبُعَیْہِ وَقَالَ: ((اللَّہُمَّ ہُوَ سَیْفٌ مِنْ سُیُوفِکَ فَانْصُرْہُ۔)) وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ مَرَّۃً: فَانْتَصِرْ بِہِ، فَیَوْمَئِذٍ سُمِّیَ خَالِدٌ سَیْفَ اللّٰہِ ثُمَّ قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((انْفِرُوا فَأَمِدُّوا إِخْوَانَکُمْ وَلَا یَتَخَلَّفَنَّ أَحَدٌ۔)) فَنَفَرَ النَّاسُ فِی حَرٍّ شَدِیدٍ مُشَاۃً وَرُکْبَانًا۔ (مسند احمد: ۲۲۹۱۸)
خالد بن شمیر سے مروی ہے کہ عبداللہ بن رباح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہمارے ہاں تشریف لائے۔ تو میں نے ان کو اس حال میں پایا کہ لوگ ان کے اردگرد جمع تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے شہسوار ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جیش الامراء بھیجا اور فرمایا تمہارے اوپر زید بن حارثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ امیر ہیں۔ اگر وہ شہید ہو جائیں تو ان کے بعد جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ امیر ہوں گے۔ وہ بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ امیر ہوں گے۔ یہ سن کر جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اچھل کر بولے اے اللہ کے نبی میرا والد آپ پر فدا ہو مجھے یہ توقع نہ تھی کہ آپ زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو مجھ پر امیر مقرر فرمائیں گے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تم روانہ ہو جاؤ۔ تم نہیں جانتے کہ کونسی بات زیادہ بہتر ہے۔ لشکر روانہ ہو گیا۔ جب تک اللہ کو منظور تھا وہ لوگ سفر میں رہے پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تشریف لائے۔ اور آپ نے حکم دیا کہ نماز ہونے کا اعلان کیا جائے۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ ایک خبر پھیلی ہے۔ کیا میں تمہیں غزوہ میں مصروف اس لشکر کے متعلق نہ بتلاؤں؟ یہ لوگ گئے ان کی دشمن سے مڈبھیڑ ہوئی۔ اور زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شہید ہو گئے۔ تم ان کی مغفرت کی دعاء کرو۔ تو لوگوں نے ان کے حق میں دعائے مغفرت کی۔ ان کے بعد جعفر بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا تھام لیا۔ وہ دشمن پر حملہ آور ہوئے۔ یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہو گئے۔ تم ان کی شہادت کی گواہی دو۔ لوگوں نے ان کے حق میں بھی مغفرت کی دعا کی۔ پھر عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا اُٹھا لیا۔ وہ بھی دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہے یہاں تک کہ وہ بھی شہادت سے سرفراز ہوئے۔ صحابہ نے ان کے حق میں بھی دعائے مغفرت کی۔ ان کے بعد خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا اُٹھایا۔ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مقرر کردہ امیروں میں سے نہ تھے۔ پیش آمدہ حالات کے پیش ِنظر وہ از خود امیر بن گئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی انگلیاں اُٹھا کر فرمایا: یا اللہ ! یہ تیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔ تو اس کی مدد فرما۔ عبدالرحمن راوی نے ایک دفعہ کہا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعا کی برکت سے وہ فتح یاب ہوئے۔ اس روز سے خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سیف اللہ کہلائے۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تم روانہ ہو جاؤ اور جا کر اپنے بھائیوں کی مدد کرو۔ اور تم میں سے کوئی پیچھے نہ رہے۔ لوگ شدید گرمی میں پیدل اور سوار روانہ ہو گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10843

۔ (۱۰۸۴۳)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَیْشًا اسْتَعْمَلَ عَلَیْہِمْ زَیْدَ بْنَ حَارِثَۃَ، وَقَالَ: ((فَإِنْ قُتِلَ زَیْدٌ أَوِ اسْتُشْہِدَ فَأَمِیرُکُمْ جَعْفَرٌ فَإِنْ قُتِلَ أَوِ اسْتُشْہِدَ فَأَمِیرُکُمْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ۔)) فَلَقُوا الْعَدُوَّ فَأَخَذَ الرَّایَۃَ زَیْدٌ فَقَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّایَۃَ جَعْفَرٌ فَقَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ، ثُمَّ أَخَذَہَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ فَقَاتَلَ حَتّٰیقُتِلَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّایَۃَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فَفَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْہِ، وَأَتٰی خَبَرُہُمْ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَخَرَجَ إِلَی النَّاسِ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ وَقَالَ: ((إِنَّ إِخْوَانَکُمْ لَقُوا الْعَدُوَّ وَإِنَّ زَیْدًا أَخَذَ الرَّایَۃَ فَقَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ أَوِ اسْتُشْہِدَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّایَۃَ بَعْدَہُ جَعْفَرُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ فَقَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ اَوِ اسْتُشْہِدَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّایَۃَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ فَقَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ اَوِ اسْتُشْہِدَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّایَۃَ سَیْفٌ مِنْ سُیُوفِ اللّٰہِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فَفَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْہِ۔)) فَأَمْہَلَ ثُمَّ أَمْہَلَ آلَ جَعْفَرٍ ثَلَاثًا أَنْ یَأْتِیَہُمْ ثُمَّ أَتَاہُمْ فَقَالَ: ((لَا تَبْکُوا عَلٰی أَخِی بَعْدَ الْیَوْمِ أَوْ غَدٍ ادْعُوا لِی ابْنَیْ أَخِی۔)) قَالَ، فَجِیئَ بِنَا کَأَنَّا أَفْرُخٌ، فَقَالَ: ((ادْعُوا إِلَیَّ الْحَلَّاقَ۔)) فَجِیئَ بِالْحَلَّاقِ فَحَلَقَ رُئُ وْسَنَا، ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا مُحَمَّدٌ فَشَبِیہُ عَمِّنَا أَبِی طَالِبٍ وَأَمَّا عَبْدُ اللّٰہِ فَشَبِیہُ خَلْقِی وَخُلُقِی۔)) ثُمَّ أَخَذَ بِیَدِی فَأَشَالَہَا فَقَالَ: ((اللَّہُمَّ اخْلُفْ جَعْفَرًا فِی أَہْلِہِ وَبَارِکْ لِعَبْدِ اللّٰہِ فِی صَفْقَۃِیَمِینِہِ۔)) قَالَہَا ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ: فَجَاء َتْ أُمُّنَا فَذَکَرَتْ لَہُ یُتْمَنَا وَجَعَلَتْ تُفْرِحُ لَہُ، فَقَالَ: ((الْعَیْلَۃَ تَخَافِینَ عَلَیْہِمْ وَأَنَا وَلِیُّہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔))۔ (مسند احمد: ۱۷۵۰)
عبداللہ بن جعفر سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور ان پر زید بن حارثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو امیر مقرر کیا۔ اور فرمایا اگر زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شہید ہو جائیں تو جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بن ابی طالب تمہارے امیر ہوں گے۔ اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تمہارے امیر ہوں گے۔ مسلمانوں کا دشمن سے مقابلہ ہوا۔ تو جھنڈا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اُٹھایا۔ وہ دشمن سے لڑتے رہے بالآخر شہید ہو گئے۔ ان کے بعد جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا تھام لیا۔ وہ بھی دشمن سے لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ ان کے بعد عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا سنبھالا۔ وہ بھی دشمن سے لڑتے لڑتے شہادت سے سرفراز ہوگئے۔ ان کے بعد خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا سنبھال لیا۔ اور اللہ نے ان کے ہاتھوں فتح نصیب فرمائی۔ ان کی اطلاع نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی۔ آپ لوگوں کی طرف باہر تشریف لائے۔ اور اللہ کی حمد وثناء کے بعد فرمایا کہ تمہارے بھائیوں کا دشمن سے مقابلہ ہوا۔ سب سے پہلے زید نے جھنڈا اُٹھایا۔ وہ لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ ان کے بعد جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بن ابی طالب نے جھنڈا اُٹھایا وہ بھی لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ ان کے بعد عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا سنبھالا لیا۔ وہ بھی لڑتے لڑتے شہادت کے رتبہ پر فائز ہو گئے۔ ان کے بعد اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا سنبھالا اور ان کے ہاتھوں اللہ نے فتح نصیب فرمائی۔ آل جعفر تین روز تک اس انتظار میں رہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ہاں تشریف لے جائیں تیسرے دن کے بعد آپ ان کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا تم آج کے بعد میرے بھائی پر مت رونا، میرے بھتیجوں کوبلاؤ ہمیں لایا گیا تو ہم چوزوں کی طرح بالکل چھوٹے چھوٹے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا نائی کو بلاؤ اسے بلایا گیا تو اس نے ہمارے سر مونڈ دئیے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایایہ محمد تو ہمارے چچا ابو طالب کے مشابہ ہے۔ اور عبداللہ شکل وصورت اور مزاج میں میرے ساتھ مشابہت رکھتا ہے۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر اوپر کو اُٹھا کر فرمایایا اللہ جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے اہل وعیال میں اس کا نائب بنا اور عبداللہ کی تجارت میں برکت فرما۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ دعا تین مرتبہ کی۔ ہماری والدہ آپ کے پاس آئی اور اس نے اس قسم کا اظہار کیاکہیہ بچے اب بے آسرا ہیں۔ تو آپ نے فرمایا کیا تم ان کے بارے میں فقروفاقہ کا اندیشہ کرتی ہو؟ دنیا اور آخرت میں میں ان کا سرپرست ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10844

۔ (۱۰۸۴۴)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ رَوَاحَۃَ فِی سَرِیَّۃٍ فَوَافَقَ ذٰلِکَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، قَالَ: فَقَدَّمَ أَصْحَابَہُ، وَقَالَ: أَتَخَلَّفُ فَأُصَلِّی مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْجُمُعَۃَ ثُمَّ أَلْحَقُہُمْ، قَالَ: فَلَمَّا رَآہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَا مَنَعَکَ أَنْ تَغْدُوَ مَعَ أَصْحَابِکَ؟)) قَالَ: فَقَالَ: أَرَدْتُ أَنْ أُصَلِّیَ مَعَکَ الْجُمُعَۃَ ثُمَّ أَلْحَقَہُمْ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِی الْأَرْضِ مَا أَدْرَکْتَ غَدْوَتَہُمْ۔)) (مسند أحمد: ۱۹۶۶)
سیدنا عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدناعبد اللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ایک لشکر میں بھیجا،یہ جمعہ کا دن تھا، انھوں نے اپنے ساتھیوں کو بھیج دیا اور اپنے بارے میں کہا: میں پیچھے رہ جاتا ہوں، تاکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نمازِ جمعہ ادا کر لوں، پھر ان کو جا ملوں گا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو دیکھا تو فرمایا: کس چیز نے تجھے صبح کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ نکل جانے سے روک لیا؟ انھوں نے کہا: جی میرا ارادہ یہ تھا کہ آپ کے ساتھ نمازِ جمعہ ادا کر کے ان کو جا ملوں گا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زمین میں جو کچھ ہے، اگر تو وہ سارا کچھ خرچ کر دے تو ان کے صبح کو روانہ ہو جانے کے اجر کو نہیں پا سکتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10845

۔ (۱۰۸۴۵)۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ عَنْ دَاوُدَ عَنْ عَامِرٍ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَیْشَ ذَاتِ السَّلَاسِلِ، فَاسْتَعْمَلَ أَبَا عُبَیْدَۃَ عَلَی الْمُہَاجِرِینَ، وَاسْتَعْمَلَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ عَلَی الْأَعْرَابِ، فَقَالَ لَہُمَا: تَطَاوَعَا، قَالَ: وَکَانُوا یُؤْمَرُونَ أَنْ یُغِیرُوْا عَلٰی بَکْرٍ، فَانْطَلَقَ عَمْرٌو فَأَغَارَ عَلٰی قُضَاعَۃَ لِأَنَّ بَکْرًا أَخْوَالُہُ، فَانْطَلَقَ الْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ إِلٰی أَبِی عُبَیْدَۃَ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسْتَعْمَلَکَ عَلَیْنَا وَإِنَّ ابْنَ فُلَانٍ قَدْ ارْتَبَعَ أَمْرَ الْقَوْمِ وَلَیْسَ لَکَ مَعَہُ أَمْرٌ، فَقَالَ أَبُو عُبَیْدَۃَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَمَرَنَا أَنْ نَتَطَاوَعَ فَأَنَا أُطِیعُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَإِنْ عَصَاہُ عَمْرٌو۔ (مسند احمد: ۱۶۹۸)
عامر سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ذات السلاسل کے لیے لشکر روانہ کیا، مہاجرین پر سیدنا ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اور دیہاتیوں پر سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو امیر مقرر فرمایا، سیدنا عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جا کر بنو قضاعہ پر چڑھای کر دی کیونکہ بنو بکر ان کے ماموں تھے۔ سیدنا مغیر ہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس جا کر ان سے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آپ کو ہم پر امیر مقرر فرمایا ہے، جب کہ عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنی قوم کی رعایت کی ہے اور آپ کا تو ان سے کچھ بھی معاملہ نہیں ہے۔ تو سیدنا ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں جو حکم دیا ہم اس کی اطاعت کریں گے، پس میں تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حکم کی اطاعت کروں گا، خواہ عمر و ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ کی بات نہ مانی ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10846

۔ (۱۰۸۴۶)۔ عن عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: بَعَثَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی جَیْشِ ذَاتِ السَّلَاسِلِ، قَالَ: فَأَتَیْتُہُ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَیُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَیْکَ؟ قَالَ: ((عَائِشَۃُ۔)) قَالَ: قُلْتُ: فَمِنْ الرِّجَالِ؟ قَالَ: ((أَبُوہَا۔)) إِذًا قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ((عُمَرُ۔)) قَالَ: فَعَدَّ رِجَالًا۔ (مسند احمد: ۱۷۹۶۴)
سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ذات السلاسل کی طرف بھیجے گئے لشکر پر امیر مقرر فرماکر روانہ کیا، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا: اللہ کے رسول!آپ کو لوگوں میں سے کونسا آدمی سب سے زیادہ محبوب ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عائشہ۔ میں نے عرض کیا: اور مردوں میں سے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کا باپ (یعنی سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ )۔ میں نے دریافت کیا: اور ان کے بعد؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عمر۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزید مردوں کانام لیے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10847

۔ (۱۰۸۴۷)۔ عن عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ یَقُولُ: بَعَثَ إِلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((خُذْ عَلَیْکَ ثِیَابَکَ وَسِلَاحَکَ ثُمَّ ائْتِنِی۔)) فَأَتَیْتُہُ وَہُوَ یَتَوَضَّأُ فَصَعَّدَ فِیَّ النَّظَرَ ثُمَّ طَأْطَأَہُ، فَقَالَ: ((إِنِّی أُرِیدُ أَنْ أَبْعَثَکَ عَلٰی جَیْشٍ فَیُسَلِّمَکَ اللّٰہُ وَیُغْنِمَکَ وَأَرْغَبُ لَکَ مِنْ الْمَالِ رَغْبَۃً صَالِحَۃً۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا أَسْلَمْتُ مِنْ أَجْلِ الْمَالِ وَلٰکِنِّی أَسْلَمْتُ رَغْبَۃً فِی الْإِسْلَامِ، وَأَنْ أَکُونَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((یَا عَمْرُو! نِعْمَ الْمَالُ الصَّالِحُ لِلْمَرْئِ الصَّالِحِ۔))۔ (مسند احمد: ۱۷۹۱۵)
سیدنا عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری طرف پیغام بھیجا کہ اپنے کپڑے اور اسلحہ لے کر میرے پاس پہنچو، میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وضو کر رہے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نظر میری طرف اُٹھا کر جھکالی اور پھر فرمایا: میں تمہیں ایک لشکر پر امیر مقرر کر کے بھیجنا چاہتا ہوں۔ اللہ تمہاری حفاظت کرے گا اور تمہیں غنیمت سے نوازے گا۔ اور میں تمہارے حق میں مال کی اچھی رغبت رکھتا ہوں۔ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میں مال ودولت حاصل کرنے کے لیے تو مسلمان نہیں ہوا۔ میں تو محض اسلام کی رغبت کی وجہ سے مسلمان ہوا ہوں۔ اور میری خواہش ہے کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ساتھ رہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اچھا مال ، نیک آدمی کے لیے بہتر ہوتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10848

۔ (۱۰۸۴۸)۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَمَّرَ عَلَیْنَا أَبَا عُبَیْدَۃَ نَتَلَقّٰی عِیرًا لِقُرَیْشٍ، وَزَوَّدَنَا جِرَابًا مِنْ تَمْرٍ لَمْ یَجِدْ لَنَا غَیْرَہُ، قَالَ: فَکَانَ أَبُو عُبَیْدَۃَیُعْطِینَا تَمْرَۃً تَمْرَۃً، قَالَ: قُلْتُ: کَیْفَ کُنْتُمْ تَصْنَعُونَ بِہَا؟ قَالَ: نَمَصُّہَا کَمَا یَمَصُّ الصَّبِیُّ ثُمَّ نَشْرَبُ عَلَیْہَا مِنَ الْمَائِ فَیَکْفِینَایَوْمَنَا إِلَی اللَّیْلِ، قَالَ: وَکُنَّا نَضْرِبُ بِعِصِیِّنَا الْخَبَطَ ثُمَّ نَبُلُّہُ بِالْمَائِ فَنَأْکُلُہُ، قَالَ: وَانْطَلَقْنَا عَلٰی سَاحِلِ الْبَحْرِ فَرُفِعَ لَنَا عَلٰی سَاحِلِ الْبَحْرِ کَہَیْئَۃِ الْکَثِیبِ الضَّخْمِ فَأَتَیْنَاہُ فَإِذَا ہُوَ دَابَّۃٌیُدْعَی الْعَنْبَرُ، قَالَ أَبُو عُبَیْدَۃَ، مَیْتَۃٌ، قَالَ حَسَنُ بْنُ مُوسٰی: ثُمَّ قَالَ: لَا بَلْ نَحْنُ رُسُلُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ ہَاشِمٌ فِی حَدِیثِہِ: قَالَ: لَا بَلْ نَحْنُ رُسُلُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَفِی سَبِیلِ اللّٰہِ، وَقَدْ اضْطُرِرْتُمْ فَکُلُوا، وَأَقَمْنَا عَلَیْہِ شَہْرًا، وَنَحْنُ ثَلَاثُ مِائَۃٍ حَتّٰی سَمِنَّا، وَلَقَدْ رَأَیْتُنَا نَغْتَرِفُ مِنْ وَقْبِ عَیْنَیْہِ بِالْقِلَالِ الدُّہْنَ، وَنَقْتَطِعُ مِنْہُ الْفِدَرَ کَالثَّوْرِ أَوْ کَقَدْرِ الثَّوْرِ، قَالَ: وَلَقَدْ أَخَذَ مِنَّا أَبُو عُبَیْدَۃَ ثَلَاثَۃَ عَشَرَ رَجُلًا فَأَقْعَدَہُمْ فِی وَقْبِ عَیْنِہِ وَأَخَذَ ضِلَعًا مِنْ أَضْلَاعِہِ فَأَقَامَہَا ثُمَّ رَحَلَ أَعْظَمَ بَعِیرٍ مَعَنَا، قَالَ حَسَنٌ: ثُمَّ رَحَلَ أَعْظَمَ بَعِیرٍ کَانَ مَعَنَا فَمَرَّ مِنْ تَحْتِہَا، وَتَزَوَّدْنَا مِنْ لَحْمِہِ وَشَائِقَ،فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ أَتَیْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَذَکَرْنَا ذَلِکَ لَہُ، فَقَالَ: ((ہُوَ رِزْقٌ أَخْرَجَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لَکُمْ، فَہَلْ مَعَکُمْ مِنْ لَحْمِہِ شَیْئٌ؟ فَتُطْعِمُونَا۔)) قَالَ: فَأَرْسَلْنَا إِلَی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْہُ فَأَکَلَہُ۔ (مسند احمد: ۱۴۳۹۰)
جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں تین سو آدمیوں کے ایک دستہ کی صورت میں روانہ کیا اور ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ہمارے اوپر مقرر فرمایا۔ تاکہ ہم قریش کے ایک قافلہ کا مقابلہ کریں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں کھجوروں کی ایک تھیلی عنایت فرمائی۔ آپ کے پاس ہمیں دینے کے لیے اس علاوہ کے او رکچھ نہ تھا۔ سیدنا ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہمیں روزانہ ایک ایک کھجور دیا کرتے تھے۔ ابوالزبیر کہتے ہیں میں نے پوچھا آپ اس کا کیا کرتے تھے؟ فرمایا ہم اسے چوستے رہتے تھے جیسے بچے کسی چیز کو چوستے رہتے ہیں۔ اور اس کے بعد ہم پانی نوش کر لیتے۔ سارا دن ہمارییہی خوراک ہوتی۔ اور ہم لاٹھیوں سے درختوں کے پتے جھاڑ تے اور انہیں پانی میں بھگو بھگو کر کھاتے۔ ہم ساحلِ سمندر پر چلے، ہمیں سمندر کے ساحل پر ایک بہت بڑا ٹیلہ سا دکھائی دیا۔ ہم وہاں پہنچے تو وہ عنبر نامی ایک جانور تھا۔ ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ یہ تو مردہ ہے۔ ( یعنی مردہ ہونے کی وجہ سے ہمارے لیے اس کو کھانا حلال نہیں) امام احمد کے شیخ حسن بن موسیٰ کہتے ہیں۔ ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پھر کہا، یہ حرام نہیں بلکہ ہم تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نمائندے ہیں۔ امام احمد کے دوسرے شیخ ھاشم نے اپنی حدیث میںیوں بیان کیا کہ بلکہ ہم تو اللہ کے نمائندے ہیں اور اللہ کی راہ میں نکلے ہوئے ہیں۔ اور تم اس وقت اضطرار کی کیفیت میں ہو پس اسے کھالو۔ ہم تین سو آدمی تھے۔ ہم نے وہاں ایک ماہ قیام کیا۔ ہم نے وہ اس قدر کھایا کہ ہم خوب موٹے تازے ہو گئے۔ ہم اس کی آنکھ کے گڑھے سے مٹکوں کے ذریعے چربی نکالتے تھے۔ اور اونٹو ں کے برابر برابر اس سے گوشت کے ٹکڑے کاٹتے تھے۔ ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہم میں سے تیرہ آدمیوں کو لے کر اس کی آنکھ کے گڑھے میں بٹھا دیا۔ اور اس کی ایک پسلی کو سیّدھا کھڑا کیا۔ پھر لشکر میں سے سب سے بڑے اونٹ پر پالان کسا تو اس کے نیچے سے گزر گئے۔ اور ہم اس کے گوشت کے ٹکرے نیم پختہ کر کے ساتھ لے گئے۔ مدینہ منورہ پہنچ کر ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ خصوصی رزق تھا جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بھیجا تھا۔ تمہارے پاس اس کے گوشت میں سے کچھ بچا ہوا موجود ہو تو ہمیں بھی کھلاؤ گے؟ چنانچہ ہم نے اس میں سے کچھ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بھجوادیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10849

۔ (۱۰۸۴۹)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَامَ الْفَتْحِ إِلٰی مَکَّۃَ فِی شَہْرِ رَمَضَانَ(وَفِی لَفْظٍ لِعَشْرٍ مَضَیْنَ مِنْ رَمَضَانَ) فَصَامَ حَتّٰی مَرَّ بِغَدِیْرٍ فِی الطَّرِیْقِ وَذَالِکَ فِی نَحْرِ الظَّہِیْرَۃِ، قَالَ: فَعَطِشَ النَّاسُ وَجَعَلُوْا یَمُدُّوْنَ اَعْنَاقَہُمْ وَتَتُوْقُ اَنْفُسُہُمْ اِلَیْہِ، قَالَ: فَدَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِقَدَحٍ فِیْہِ مَائٌ فَاَمْسَکَہُ عَلٰییَدِہِ حَتّٰی رَآہُ النَّاسُ ثُمَّ شَرِبَ فَشَرِبَ النَّاسُ۔ (مسند احمد: ۳۴۶۰)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فتح مکہ والے سال ماہِ رمضان میں مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے تھے، ایک روایت میں ہے کہ ماہِ رمضان کے دس دن گزر چکے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے روزہ رکھا ہوا تھا،عین دوپہر کے وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پانی کے ایک تالاب کے پاس سے گزرے، چونکہ لوگ پیاسے تھے، اس لیے وہ گردنیں لمبی کر کے دیکھ رہے تھے اور ان کے نفس پانی کو چاہ رہے تھے، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پانی کا پیالہ منگوا کر اپنے ہاتھ میں پکڑے رکھا، یہاں تک کہ سب لوگوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس حال میں دیکھ لیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے پی لیا اور لوگوں نے بھی پانی پی لیا (اور اس طرح روزہ توڑ دیا)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10850

۔ (۱۰۸۵۰)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: ثُمَّ مَضٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِسَفَرِہِ، وَاسْتَخْلَفَ عَلَی الْمَدِینَۃِ أَبَا رُہْمٍ کُلْثُومَ بْنَ حُصَیْنِ بْنِ عُتْبَۃَ بْنِ خَلَفٍ الْغِفَارِیَّ، وَخَرَجَ لِعَشْرٍ مَضَیْنَ مِنْ رَمَضَانَ، فَصَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَصَامَ النَّاسُ مَعَہُ، حَتّٰی إِذَا کَانَ بِالْکَدِیدِ مَائٍ بَیْنَ عُسْفَانَ وَأَمْجٍ أَفْطَرَ، ثُمَّ مَضٰی حَتّٰی نَزَلَ بِمَرِّ الظَّہْرَانِ فِی عَشَرَۃِ آلَافٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ۔ (مسند احمد: ۲۳۹۲)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سفر پر روانہ ہو گئے اور مدینہ منورہ میں سیدنا ابو رُھم کلثوم بن حصین غفاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اپنا نائب مقرر کر گئے، آپ نے دس رمضان کو سفر شروع کیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سب صحابہ نے روزہ رکھا ہوا تھا،جب عسفان اور امج کے درمیان کدید کے مقام پر پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے روزہ افطار کر لیا، اس کے بعد چل کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مرالظہران میں جا کر ٹھہرے، دس ہزار مسلمان آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہم سفر تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10851

۔ (۱۰۸۵۱)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، أَنَّ حَاطِبَ بْنَ أَبِی بَلْتَعَۃَ کَتَبَ إِلٰی أَہْلِ مَکَّۃَ،یَذْکُرُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَرَادَ غَزْوَہُمْ، فَدُلَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الْمَرْأَۃِ الَّتِی مَعَہَا الْکِتَابُ، فَأَرْسَلَ إِلَیْہَا فَأُخِذَ کِتَابُہَا مِنْ رَأْسِہَا، وَقَالَ: ((یَا حَاطِبُ أَفَعَلْتَ۔)) قَالَ: نَعَمْ، أَمَا إِنِّی لَمْ أَفْعَلْہُ غِشًّا لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ یُونُسُ: غِشًّا، یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَلَا نِفَاقًا، قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ اللّٰہَ مُظْہِرٌ رَسُولَہُ وَمُتِمٌّ لَہُ أَمْرَہُ غَیْرَ أَنِّی کُنْتُ عَزِیزًا بَیْنَ ظَہْرَیْہِمْ، وَکَانَتْ وَالِدَتِی مِنْہُمْ فَأَرَدْتُ أَنْ أَتَّخِذَ ہٰذَا عِنْدَہُمْ، فَقَالَ لَہُ: عُمَرُ أَلَا أَضْرِبُ رَأْسَ ہٰذَا؟ قَالَ: ((أَتَقْتُلُ رَجُلًا مِنْ أَہْلِ بَدْرٍ، مَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدِ اطَّلَعَ عَلٰی أَہْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ۔))۔ (مسند احمد: ۱۴۸۳۳)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اہل مکہ کے نام خط لکھ کر ان کو مطلع کر دیا کہ (رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ پر چڑھائی کرنے والے ہیں)۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس عورت کے متعلق اطلاع دے دی گئی جو یہ خط لئے مکہ مکرمہ کی طرف جا رہی تھی۔ آپ نے چند صحابہ کو اس کے پیچھے روانہ کیا۔ اور وہ خط اس کے سر کے بالوں میں سے برآمد کر لیا گیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا حاطب! کیا واقعی تم نے ہییہ کام کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں! اللہ کے رسول میں نے یہ کام دھوکہ دہییا نفاق کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو ضرور غالب کرے گا اور ان کو کامیابی نصیب ہو گی اصل بات یوں ہے کہ میں باہر سے آکر مکہ مکرمہ میں آباد ہوا تھا۔ میری والدہ انہی کے درمیان مقیم تھی۔ میں اس طرح اہلِ مکہ پر احسان دھرنا چاہتا تھا۔ یہ باتیں سن کر عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا کیا میں اس کا سر قلم نہ کر دوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کیا تم ایک بدری کو قتل کر دو گے؟ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی طرف دیکھ کر فرمایا: اب تم جو چاہو عمل کرتے رہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10852

۔ (۱۰۸۵۲)۔ حَدَّثَنَا بَہْزٌ وَہَاشِمٌ قَالَا: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ عَنْ ثَابِتٍ، قَالَ ہَاشِمٌ: قَالَ: حَدَّثَنِی ثَابِتٌ الْبُنَانِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَبَاحٍ، قَالَ: وَفَدَتْ وُفُودٌ إِلٰی مُعَاوِیَۃَ أَنَا فِیہِمْ وَأَبُو ہُرَیْرَۃَ فِی رَمَضَانَ، فَجَعَلَ بَعْضُنَا یَصْنَعُ لِبَعْضٍ الطَّعَامَ، قَالَ: وَکَانَ أَبُو ہُرَیْرَۃَیُکْثِرُ مَا یَدْعُونَا، قَالَ ہَاشِمٌ، یُکْثِرُ أَنْ یَدْعُوَنَا إِلَی رَحْلِہِ، قَالَ: فَقُلْتُ: أَلَا أَصْنَعُ طَعَامًا فَأَدْعُوَہُمْ إِلَی رَحْلِی، قَالَ: فَأَمَرْتُ بِطَعَامٍ یُصْنَعُ وَلَقِیتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ مِنَ الْعِشَائِ، قَالَ: قُلْتُ: یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ الدَّعْوَۃُ عِنْدِی اللَّیْلَۃَ، قَالَ: أَسَبَقْتَنِی؟ قَالَ ہَاشِمٌ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَدَعَوْتُہُمْ فَہُمْ عِنْدِی، قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: أَلَا أُعْلِمُکُمْ بِحَدِیثٍ مِنْ حَدِیثِکُمْیَا مَعَاشِرَ الْأَنْصَارِ؟ قَالَ: فَذَکَرَ فَتْحَ مَکَّۃَ، قَالَ: أَقْبَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَخَلَ مَکَّۃَ، قَالَ: فَبَعَثَ الزُّبَیْرَ عَلٰی إِحْدَی الْمُجَنِّبَتَیْنِ وَبَعَثَ خَالِدًا عَلَی الْمُجَنِّبَۃِ الْأُخْرٰی، وَبَعَثَ أَبَا عُبَیْدَۃَ عَلَی الْحُسَّرِ، فَأَخَذُوا بَطْنَ الْوَادِی وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی کَتِیبَتِہِ، قَالَ: وَقَدْ وَبَّشَتْ قُرَیْشٌ أَوْبَاشَہَا، قَالَ: فَقَالُوا: نُقَدِّمُ ہٰؤُلَائِ فَإِنْ کَانَ لَہُمْ شَیْئٌ کُنَّا مَعَہُمْ، وَإِنْ أُصِیبُوا أَعْطَیْنَا الَّذِی سُئِلْنَا، قَالَ: فَقَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: فَنَظَرَ فَرَآنِی، فَقَالَ: ((یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ!)) فَقُلْتُ: لَبَّیْکَ رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: فَقَالَ: ((اہْتِفْ لِی بِالْأَنْصَارِ وَلَا یَأْتِینِی إِلَّا أَنْصَارِیٌّ۔)) فَہَتَفْتُ بِہِمْ فَجَائُ وْا فَأَطَافُوا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((تَرَوْنَ إِلٰی أَوْبَاشِ قُرَیْشٍ وَأَتْبَاعِہِمْ۔)) ثُمَّ قَالَ: بِیَدَیْہِ إِحْدَاہُمَا عَلَی الْأُخْرَی حَصْدًا حَتّٰی تُوَافُونِی بِالصَّفَا، قَالَ: فَقَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: فَانْطَلَقْنَا فَمَا یَشَائُ أَحَدٌ مِنَّا أَنْ یَقْتُلَ مِنْہُمْ مَا شَائَ، وَمَا أَحَدٌ یُوَجِّہُ إِلَیْنَا مِنْہُمْ شَیْئًا، قَالَ: فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أُبِیحَتْ خَضْرَائُ قُرَیْشٍ لَا قُرَیْشَ بَعْدَ الْیَوْمِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَنْ أَغْلَقَ بَابَہُ فَہُوَ آمِنٌ، وَمَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِی سُفْیَانَ فَہُوَ آمِنٌ۔))، قَالَ: فَغَلَّقَ النَّاسُ أَبْوَابَہُمْ، قَالَ: فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی الْحَجَرِ فَاسْتَلَمَہُ ثُمَّ طَافَ بِالْبَیْتِ، قَالَ: وَفِییَدِہِ قَوْسٌ أَخَذَ بِسِیَۃِ الْقَوْسِ، قَالَ: فَأَتٰی فِی طَوَافِہِ عَلٰی صَنَمٍ إِلٰی جَنْبٍ یَعْبُدُونَہُ قَالَ: فَجَعَلَ یَطْعَنُ بِہَا فِی عَیْنِہِ وَیَقُولُ: {جَاء َ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ} قَالَ: ثُمَّ أَتَی الصَّفَا، فَعَلَاہُ حَیْثُیُنْظَرُ إِلَی الْبَیْتِ فَرَفَعَ یَدَیْہِ فَجَعَلَ یَذْکُرُ اللّٰہَ بِمَا شَائَ أَنْ یَذْکُرَہُ وَیَدْعُوہُ، قَالَ: وَالْأَنْصَارُ تَحْتَہُ، قَالَ: یَقُولُ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ: أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَکَتْہُ رَغْبَۃٌ فِی قَرْیَتِہِ وَرَأْفَۃٌ بِعَشِیرَتِہِ، قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: وَجَائَ الْوَحْیُ، وَکَانَ إِذَا جَائَ لَمْ یَخْفَ عَلَیْنَا، فَلَیْسَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ یَرْفَعُ طَرْفَہُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰییُقْضٰی، قَالَ ہَاشِمٌ: فَلَمَّا قُضِیَ الْوَحْیُ رَفَعَ رَأْسَہُ ثُمََ قَالَ: ((یَا مَعَاشِرَ الْأَنْصَارِ! أَقُلْتُمْ أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَکَتْہُ رَغْبَۃٌ فِی قَرْیَتِہِ وَرَأْفَۃٌ بِعَشِیرَتِہِ۔)) قَالُوا: قُلْنَا ذٰلِکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((فَمَا اسْمِی إِذًا کَلَّا إِنِّی عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُولُہُ ہَاجَرْتُ إِلَی اللّٰہِ وَإِلَیْکُمْ، فَالْمَحْیَا مَحْیَاکُمْ وَالْمَمَاتُ مَمَاتُکُمْ۔))، قَالَ: فَأَقْبَلُوا إِلَیْہِیَبْکُونَ وَیَقُولُونَ: وَاللّٰہِ! مَا قُلْنَا الَّذِی قُلْنَا إِلَّا الضِّنَّ بِاللّٰہِ وَرَسُولِہِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((فَإِنَّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ یُصَدِّقَانِکُمْ وَیَعْذُرَانِکُمْ۔))۔ (مسند احمد: ۱۰۹۶۱)
عبداللہ بن رباح سے مروی ہے کہ سیّدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں رمضان کے مہینہ میں کئی وفود آئے میں بھی ان میں شامل تھا ہم ایک کو کھانے کے لیے بلاتے تھے۔ سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اکثر وبیشتر ہمیں اپنے گھر بلا لیا کرتے تھے۔ تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں بھی کھانا تیار کر وں اور ان حضرات کو اپنے پاس آنے کی دعوت دوں؟ چنانچہ میں نے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا۔ عشاء کے وقت میری سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ملاقات ہوئی تو میں نے عرض کیا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آج رات میرے ہاں دعوت ہے؟ وہ بولے تم تو مجھ پر سبقت لے گئے۔ میں نے عرض کیا جی ہاں! میں نے ان کو بلایا۔ وہ لوگ میرے ہاں تشریف لے آئے۔ ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فرمانے لگے اے انصاریو! کیا میں تمہیں تم سے متعلقہ ایک بات نہ سناؤں؟ پھر انہوں نے فتح مکہ کا ذکر کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے۔ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے آپ نے زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لشکر کے داہنے یا بائیں طرف والے ایکحصے پر اور خالد بن ولید کو دوسرے حصے پر اور ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ان لوگوں پر امیر مقرر کیا جو زرہ پوش نہ تھے۔ ان حضرات نے بطن الوادی والا راستہ اختیار کیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے دستہ میں تھے۔ قریش نے بھی بہت سے قبائل کو جمع کر لیا تھا۔ لوگوں نے کہا کہ ہم ان کو آگے آگے جانے دیں۔ اگر انہیں کچھ ملا تو ہم بھی ساتھ ہی ہوں گے۔ اور اگر ان پر حملہ ہوا تو ہم سے جو مطالبہ کیا جائے گا۔ دے دیں گے۔ ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دیکھ کر آواز دی اور فرمایا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ! میں نے عرض کیا اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں۔ فرمایا: انصار کو میری طرف بلاؤ، اور یاد رکھو صرف انصاری ہی میرے پاس آئیں۔ میں نے انصار کو پکارا تو وہ آگئے۔ اور انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم قریش کے قبائل اور لوگوں کو دیکھ رہے ہو؟ آپ نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے پر رکھ کر یوں اشارہ کیا کہ ان کو نیست ونابود کر کے میرے پاس کوہِ صفا پر آجاؤ۔ ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں ہم وہاں سے چل دئیے۔ اور ہم میں سے ہر ایک نے ان میں سے جتنے آدمیوں کو قتل کرنا چاہا قتل کیا۔ ان میں سے کسی نے بھی ہم سے تعرض نہ کیا۔ ابو سفیان نے کہا اے اللہ کے رسول! قریش کی جماعتوں کو تو قتل کر دیا گیا۔ یہی صورت رہی تو آج کے بعد کوئی قریشی باقی نہ رہے گا۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:جو کوئی اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے اسے امان ہے، اور جو ابو سفیان کے گھر میں چلا جائے اسے بھی امان ہے، چنانچہ لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے بند کر لئے۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حجر اسود کے پاس آئے۔ آپ نے اسے بوسہ دیا اور پھر بیت اللہ کا طواف کیا۔ آپ کے ہاتھ میں کمان تھی۔ آپ نے کمان کا ایک کنارہ پکڑا ہوا تھا طواف کے دوران آپ بیت اللہ کی ایک جانب میں پڑے ایک بت کے پاس پہنچے وہ لوگ اس کی پوچا کیا کرتے تھے۔ آپ اپنی کمان اس بت کی آنکھ میں مارنے لگے اور فرمایا {جَاء َ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ} حق آگیا اور باطل دم دبا کر بھا گ گیا۔ (سورۂ بنی اسرائیل: ۸۱) اس کے بعد آپ کوہ صفا پر گئے اور اس کے اوپر چڑھ گئے یہاں تک کہ آپ کو بیت اللہ دکھائی دینے لگا آپ ہاتھ اُٹھا کر اللہ کا ذکر اور دعا کرتے رہے۔ اور انصار آپ کے سامنے نیچے کھڑے تھے۔ ان میں سے بعض ایک دوسرے سے کہنے لگے اس آدمی کو( یعنی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو) اپنے شہر کی اور اپنے خاندان کی رغبت اور یاد آگئی ہے۔ وہیں پر آپ پر وحی کا نزول شروع ہو گیا۔ جب آپ پر وحی کا نزول شروع ہوتا تو ہمیں پتہ چل جاتا تھا۔ انقطاعِ وحی تک کوئی بھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف نظر اُٹھا کر نہ دیکھتا تھا جب وحی کا سلسلہ منقطع ہواتو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا سر اُٹھا کر فرمایا: اے انصار! تم نے کہا ہے کہ اسے اپنے شہر کی رغبت اور خاندان کی محبت نے آلیا ہے۔ وہ بولے یا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واقعی ہم نے اس قسم کی باتیں کی ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر ایسا ہو تو پھر میرا نام کیا ہو گا؟ خبردار! میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں نے اللہ کی رضا کی خاطر تمہاری طرف ہجرت کی ہے۔ میرا جینا مرنا تمہارے ساتھ ہے۔ تو انصار بلکتے ہوئے آپ کی طرف بڑھے اور کہنے لگے اللہ کی قسم ہم نے جو باتیں کی ہیں وہ محض اللہ اور اس کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ شدید محبت کی وجہ سے کی ہیں مبادا کہ آپ ہمیں چھوڑ کر مکہ واپس آجائیں۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ اور اس کا رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تمہاری باتوں کی تصدیق کرتے اور تمہاری معذرت قبول کرتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10853

۔ (۱۰۸۵۳)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا دَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ الْفَتْحِ مِنْ کَدَائَ مِنْ اَعْلٰی مَکَّۃَ، وَدَخَلَ فِی الْعُمْرَۃِ مِنْ کُدٰی، (وَفِیْ لَفْظٍ آخَرَ) دَخَلَ مَکَّۃَ مِنْ اَعْلٰی مَکَّۃَ، وَخَرَجَ مِنْ اَسْفَلِہَا۔ (مسند احمد: ۲۴۸۱۵)
اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فتح مکہ والے دن مکہ کے بالائی حصے کداء کی جانب سے اور عمرہ کے موقع پر کدیٰ کی جانب سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے، دوسری روایت کے الفاظ ہیں:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ مکرمہ میں بالائی جانب سے داخل ہوئے اور نشیبی جانب سے باہر گئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10854

۔ (۱۰۸۵۴)۔ وَعَنْہَا اَیْضًا انَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَخَلَ عَامَ الْفَتْحِ مِنْ ثَنِیَّۃِ الْاِذْخَرِ۔ (مسند احمد: ۲۶۷۶۸)
سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ فتح مکہ والے سال رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثنیۃ الاذخر کی جانب سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10855

۔ (۱۰۸۵۵)۔ عَنْ جَابِرٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَخَلَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ، وَعَلَیْہِ عِمَامَۃٌ سَوْدَائُ۔ (مسند احمد: ۱۴۹۶۶)
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ والے سال نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ مکرمہ میں اس حال میں داخل ہوئے تھے کہ آپ نے سیاہ پگڑی باندھی ہوئی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10856

۔ (۱۰۸۵۶)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَخَلَ مَکَّۃَ عَامَ الْفَتْحِ، وَعَلٰی رَاْسِہِ الْمِغْفَرُ،فَلَمَّا نَزَعَہٗجَائَرَجُلٌ،وَقَالَ: اِبْنُخَطَلٍمُتَعَلَّقٌبِاسْتَارِالْکَعْبَۃِ، فَقَالَ: ((اُقْتُلُوْہٗ۔)) قَالَمَالِکٌ: وَلَمْیَکُنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَئِذٍ مُحْرِمًا، وَاللّٰہُ اَعْلَمُ۔ (مسند احمد: ۱۲۹۶۲)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے، اس وقت آپ کے سر پر خود تھا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے اتارا تو ایک آدمی نے آکر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا کہ ابن خطل کافر کعبہ کے پردوں کے ساتھ لٹکا ہوا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے قتل کر دو۔ امام مالک کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس روز احرام کی حالت میں نہیں تھے۔ واللہ اعلم۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10857

۔ (۱۰۸۵۷)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْزِلُنَا غَدًا إِنْ شَائَ اللّٰہُ اِذَا فَتَحَ اللّٰہُ الَْخَیْفَ حَیْثُ تَقَاسَمُوْا عَلَی الْکُفْرِ۔))۔ (مسند احمد: ۸۲۶۱) (۱۰۸۵۸)۔ عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِی بَکْرٍ قَالَتْ: لَمَّا وَقَفَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِذِی طُوًی، قَالَ أَبُو قُحَافَۃَ لِابْنَۃٍ لَہُ مِنْ أَصْغَرِ وَلَدِہِ: أَیْ بُنَیَّۃُ اظْہَرِی بِی عَلٰی أَبِی قُبَیْسٍ، قَالَتْ: وَقَدْ کُفَّ بَصَرُہُ، قَالَتْ: فَأَشْرَفْتُ بِہِ عَلَیْہِ، فَقَالَ: یَا بُنَیَّۃُ مَاذَا تَرَیْنَ؟ قَالَتْ: أَرٰی سَوَادًا مُجْتَمِعًا، قَالَ: تِلْکَ الْخَیْلُ، قَالَتْ: وَأَرٰی رَجُلًا یَسْعٰی بَیْنَ ذٰلِکَ السَّوَادِ مُقْبِلًا وَمُدْبِرًا، قَالَ: یَا بُنَیَّۃُ ذٰلِکَ الْوَازِعُ یَعْنِی الَّذِییَأْمُرُ الْخَیْلَ وَیَتَقَدَّمُ إِلَیْہَا، ثُمَّ قَالَتْ: قَدْ وَاللّٰہِ! انْتَشَرَ السَّوَادُ، فَقَالَ: قَدْ وَاللّٰہِ! إِذَا دَفَعَتِ الْخَیْلُ فَأَسْرِعِی بِی إِلٰی بَیْتِی، فَانْحَطَّتْ بِہِ وَتَلَقَّاہُ الْخَیْلُ قَبْلَ أَنْ یَصِلَ إِلَی بَیْتِہِ، وَفِی عُنُقِ الْجَارِیَۃِ طَوْقٌ لَہَا مِنْ وَرِقٍ فَتَلَقَّاہُ الرَّجُلُ فَاقْتَلَعَہُ مِنْ عُنُقِہَا، قَالَتْ: فَلَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَکَّۃَ وَدَخَلَ الْمَسْجِدَ أَتَاہُ أَبُوبَکْرٍ بِأَبِیہِیَعُودُہُ، فَلَمَّا رَآہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((ہَلَّا تَرَکْتَ الشَّیْخَ فِی بَیْتِہِ حَتّٰی أَکُونَ أَنَا آتِیہِ فِیہِ۔)) قَالَ أَبُو بَکْرٍ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ہُوَ أَحَقُّ أَنْ یَمْشِیَ إِلَیْکَ مِنْ أَنْ تَمْشِیَ أَنْتَ إِلَیْہِ، قَالَ: فَأَجْلَسَہُ بَیْنَیَدَیْہِ ثُمَّ مَسَحَ صَدْرَہُ ثُمَّ قَالَ لَہُ: ((أَسْلِمْ۔)) فَأَسْلَمَ وَدَخَلَ بِہِ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرَأْسُہُ کَأَنَّہُ ثَغَامَۃٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((غَیِّرُوا ہٰذَا مِنْ شَعْرِہِ۔)) ثُمَّ قَامَ أَبُو بَکْرٍ فَأَخَذَ بِیَدِ أُخْتِہِ، فَقَالَ: أَنْشُدُ بِاللّٰہِ وَبِالْإِسْلَامِ طَوْقَ أُخْتِی؟ فَلَمْ یُجِبْہُ أَحَدٌ، فَقَالَ: یَا أُخَیَّۃُ! احْتَسِبِی طَوْقَکِ۔ (مسند احمد: ۲۷۴۹۶)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ نے چاہا تو کل جب اللہ تعالیٰ ہمیں فتح سے نوازے گا تو ہمارا قیام خیف وادی میں ہو گا، جہاں کفار قریش نے (ہمارے خلاف) کفر کی مدد کی قسمیں اُٹھائی تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10858

۔
سیدہ اسماء بنت ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ذی طوی میں قیام کیا تو ابو قحافہ نے اپنی سب سے چھوٹی بچی سے کہا: بیٹی! تم مجھے جبل ابی قبیس پر لے چلو، ان دنوں وہ نابینا ہو چکے تھے، وہ بیان کرتی ہے کہ میں ان کو پہاڑ پر لے گئی۔ انھوں نے کہا: بیٹی تم کیا دیکھ رہی ہو؟ بیٹی نے کہا: میں ایک اکٹھا لشکر دیکھ رہی ہوں، انہوں نے کہا: یہ گھوڑے ہیں، اس نے کہا: میں ایک آدمی کو دیکھ رہی ہوں جوا ن لشکروں میں آگے پیچھے دوڑتا پھر رہا ہے۔ انھوں نے کہا: بیٹی! یہ آدمی گھڑ سواروں کو ہدایات دے رہا ہے۔ پھر اللہ کی قسم! دیکھا کہ لشکر بکھر گیا ہے، انھوں نے کہا:اللہ کی قسم تب تو گھوڑے دوڑ پڑے ہیں۔ تم جلدی سے مجھے گھر لے چلو، میں انہیں ساتھ لئے پہاڑ سے نیچے اتر آئی، وہ ابھی گھر تک نہ پہنچے تھے کہ ان کی گھڑ سواروں سے ملاقات ہو گئی۔ اس لڑکی کی گردن میں چاندی کا ایک ہار تھا، ایک آدمی نے اسے پکڑ کر اس کی گردن سے اتار لیا، جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ مکرمہ آکر مسجد حرام میں داخل ہوئے تو سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے والد کا ہاتھ تھامے ہوئے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لائے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو اس طرح آتے دیکھا تو فرمایا: آپ نے بزرگ کو گھر میں ہی رہنے دیا ہوتا،میں خود ان کے ہاں چلا جاتا۔ لیکن سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے ان کی طرف چل کر جانے کی نسبت وہ اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ وہ آپ کی طرف چل کر آئیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابو قحافہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اپنے سامنے بٹھا لیا اور ان کے سینے پر ہاتھ پھیر کر فرمایا: اسلام میں آجاؤ۔ پس انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ جب سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے والد کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لائے تھے تو ان کے بال بڑھاپے کی وجہ سے ثغامہ بوٹی کی طرح سفید ہو چکے تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کے بالوں کی سفیدی کو بدل دو۔ پھر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی بہن کا ہاتھ تھامے اُٹھے اور کہا: لوگو! میں تمہیں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ میری بہن کا ہار جس کے پاس ہو وہ واپس کر دے۔ لیکن جب کسی نے ان کی بات کا اثبات میں جواب نہ دیا۔ تو انہوں نے کہا: بہن! ہار سے محرومی پر اللہ سے اجر کی امید رکھو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10859

۔ (۱۰۸۵۹)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ عَلٰی نَاقَۃٍ لِأُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ حَتّٰی أَنَاخَ بِفِنَائِ الْکَعْبَۃِ، فَدَعَا عُثْمَانَ بْنَ طَلْحَۃَ بِالْمِفْتَاحِ فَجَائَ بِہِ، فَفَتَحَ فَدَخَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأُسَامَۃُ وَبِلَالٌ وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَۃَ، فَأَجَافُوْا عَلَیْہِمُ الْبَابَ مَلِیًّا ثُمَّ فَتَحُوہُ، قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: فَبَادَرْتُ النَّاسَ فَوَجَدْتُ بِلَالًا عَلَی الْبَابِ قَائِمًا، فَقُلْتُ: أَیْنَ صَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: بَیْنَ الْعَمُودَیْنِ الْمُقَدَّمَیْنِ، قَالَ: وَنَسِیتُ أَنْ أَسْأَلَہُ کَمْ صَلّٰی۔ (مسند احمد: ۲۴۴۱۹)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے روز رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ،سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اونٹنی پر سوار تھے، آپ اسی طرح مکہ میں داخل ہوئے اور آکر کعبہ کے قریب اونٹنی کو بٹھا دیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عثمان بن طلحہ کو بلوایا کہ کعبہ کی چابی لے کر آؤ، وہ چابی لے آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کعبہ کا دروازہ کھولا اور کعبہ کے اندر داخل ہو گئے۔ سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا عثمان بن طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ کعبہ میں داخل ہو گئے۔ انہوں نے کافی دیر تک کعبہ کا دروازہ بند کئے رکھا، سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ میں قوی نوجوان تھا، میں نے کوشش کی اور لوگوں سے آگے نکل گیا۔ میں نے سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دروازے پر کھڑے پا کر ان سے پوچھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کس مقام پر نماز ادا فرمائی ہے؟ انہوں نے بتلایا کہ آگے والے دو ستونوں کے درمیان، مجھے یہ پوچھنا یاد نہ رہا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کتنی رکعات ادا کی ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10860

۔ (۱۰۸۶۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا قَدِمَ مَکَّۃَ أَبٰی أَنْ یَدْخُلَ الْبَیْتَ وَفِیہِ الْآلِہَۃُ، فَأَمَرَ بِہَا فَأُخْرِجَتْ فَأَخْرَجَ صُورَۃَ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ عَلَیْہِمَا السَّلَام فِی أَیْدِیہِمَا الْأَزْلَامُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((قَاتَلَہُمُ اللّٰہُ أَمَا وَاللّٰہِ لَقَدْ عَلِمُوا مَا اقْتَسَمَا بِہَا قَطُّ۔)) قَالَ: ثُمَّ دَخَلَ الْبَیْتَ فَکَبَّرَ فِی نَوَاحِی الْبَیْتِ وَخَرَجَ، وَلَمْ یُصَلِّ فِی الْبَیْتِ۔ (مسند احمد: ۳۰۹۳)
سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بتوں کی موجودگی کی وجہ سے بیت اللہ میں داخل ہونے سے انکار کر دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو باہر نکال دینے کا حکم دیا، چنانچہ ان کو باہر نکال دیا گیا، ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کی مورتیوں کے ہاتھوں میں قسمت آزمائی والے تیر پکڑائے گئے تھے،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ ان لوگوں کو تباہ کرے، اللہ کی قسم ہے کہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ یہ ان دونوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں نکالی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیت اللہ کے اندر تشریف لے گئے، اس کے سارے کونوں میں تکبیرات کہیںاور پھر باہر تشریف لے آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کعبہ میں نماز نہیں پڑھی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10861

۔ (۱۰۸۶۱)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ دَخَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَحَوْلَ الْکَعْبَۃِ سِتُّوْنَ وَثَلٰثُمِائَۃِ نُصُبٍ، فَجَعَلَ یَطْعَنُہَا بِعُوْدٍ کَانَ بِیَدِہِ وَیَقُوْلُ: (({جَائَ الْحَقُّ وَمَا یُبْدِیئُ الْبَاطِلُ وَمَا یُعِیْدُ}، {جَائَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا}۔)) [الاسرائ: ۸۱]۔))۔ (مسند احمد: ۳۵۸۴)
عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو کعبہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ میں لکڑی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان بتوں کو وہ لکڑی مارتے جاتے اور یہ آیات تلاوت کرتے جاتے: {جَائَ الْحَقُّ وَمَا یُبْدِیئُ الْبَاطِلُ وَمَا یُعِیْدُ} … کہہ دیجئے کہ حق آچکا اورباطل نہ پہلے کچھ کر سکا ہے اور نہ کرسکے گا۔ (سورۂ سبا: ۴۹) {جَائَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا} … حق آگیا اور باطل دم دبا کر بھاگ گیا، بے شک باطل ہے ہی بھاگ جانے والا۔ (سورۂ بنی اسرائیل:۸۱)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10862

۔ (۱۰۸۶۲)۔ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَطَائٍ: اَسَمِعْتَ ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُوْلُ: اِنَّمَا اُمِرْتُمْ بِالطَّوَافِ وَلَمْ تُاْمَرُوْا بِالدُّخُوْلِ؟ قَالَ: لَمْ یَکُنْیَنْہٰی عَنْ دُخُوْلِہِ وَلٰکِنِّیْ سَمِعْتُہُ یَقُوْلُ: اَخْبَرَنِیْ اُسَامَۃُبْنُ زَیْدٍ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا دَخَلَ الْبَیْتَ دَعَا فِیْ نَوَاحِیْہِ کّلِّہَا وَلَمْ یُصَلِّ فِیْہِ حَتّٰی خَرَجَ، فَلَمَّا خَرَجَ رَکَعَ رَکْعَتَیْنِ فِیْ قِبَلِ الْکَعْبَۃِ، قَالَ عَبْدُ الرَّازَّقِ: وَقَالَ: ھٰذِہِ الْقِبْلَۃُ۔ (مسند احمد: ۲۲۱۵۲)
ابن جریج سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے عطاء سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ کہتے سنا ہے کہ تمہیں بیت اللہ کے طواف کا حکم دیا گیا ہے، اس کے اندر جانے کا حکم تمہیں نہیں دیا گیا؟ عطاء نے جواب دیا کہ ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیت اللہ میں داخل ہونے سے کسی کو نہیں روکتے تھے، البتہ میں نے ان کو یوں کہتے ہوئے سنا ہے کہ ان کو سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب بیت اللہ میں داخل ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے تمام کونوں میں دعائیں کیں اور اس کے اندر نماز ادا نہیں کی،یہاں تک کہ باہر تشریف لے آئے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے باہر آکر کعبہ کے عین سامنے دو رکعتیں ادا کیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ قبلہ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10863

۔ (۱۰۸۶۳)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ اَنَّ ابْنَ عُمَرَ حَدَّثَ عَنْ بِلَالٍ: اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَلّٰی فِی الْبَیْتِ، قَالَ: وَکَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَقُوْلُ: لَمْ یُصَلِّ فِیْہِ وَلٰکِنْ کَبَّرَ فِیْ نَوَاحِیْہِ۔ (مسند احمد: ۲۴۴۱۶)
عمرو بن دینار سے مروی ہے کہ سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیت اللہ کے اندر نماز ادا کی، سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ بھی کہا کہ ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہا کرتے تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیت اللہ کے اندر نماز ادا نہیں کی تھی، البتہ اس کے تمام گوشوں میں اللہ کی تکبیر بیان کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10864

۔ (۱۰۸۶۴)۔ عَنِ الْفَضْل بْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَامَ فِی الْکَعْبَۃِ فَسَبَّحَ وَکَبَّرَ، وَدَعَا اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ، وَاسْتَغَفَرَ وَلَمْ یَرْکَعْ وَلَمْ یَسْجُدْ۔ (مسند احمد: ۱۷۹۵)
سیدنا فضل بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کعبہ کے اندر کھڑے ہو کر اللہ کی تسبیح اور تکبیر بیان کی، اللہ تعالیٰ سے دعائیں اور استغفار کیا اور رکوع و سجود نہیں کیے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10865

۔ (۱۰۸۶۵)۔ (وَعَنْہٗاَیْضًا) انَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا دَخَلَہَا وَقَعَ سَاجِدًا بَیْنَ الْعَمُوْدَیْنِ، ثُمَّ جَلَسَ یَدْعُوْ۔ (مسند احمد: ۱۸۰۱)
فضل بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب کعبہ کے اندر داخل ہوئے تو دو ستونوں کے مابین سجدے میں گر گئے، پھر بیٹھ کر دعائیں کیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10866

۔ (۱۰۸۶۶)۔ (وَعَنْہٗاَیْضًا) اَنَّہٗدَخَلَمَعَالنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْبَیْتَ، وَاَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یُصَلِّ فِی الْبَیْتِ حِیْنَ دَخَلَہٗ،وَلٰکِنَّہٗلَمَّاخَرَجَفَنَزَلَرَکَعَرَکْعَتَیْنِ عِنْدَ بَابِ الْبَیْتِ۔ (مسند احمد: ۱۸۱۹)
سیدنا فضل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ بیت اللہ کے اندر داخل ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اندر جا کر نماز ادا نہیں کی تھی، البتہ جب باہر تشریف لائے تو بیت اللہ کے دروازے سے نیچے اتر کر دروازے کے قریب ہی دو رکعتیں ادا کی تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10867

۔ (۱۰۸۶۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ دَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْکَعْبَۃَ، وَفِیْہَا سِتُّ سَوَارٍ، فَقَامَ عِنْدَ کُلِّ سَارِیَۃٍ وَلَمْ یُصَلِّ۔ (مسند احمد: ۲۱۲۶)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کعبہ کے اندر تشریف لے گئے، اس میں چھ ستون تھے، آپ ہر ستون کے پاس جا کر کھڑے ہوئے اور نماز ادا نہیں کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10868

۔ (۱۰۸۶۸)۔ (وَعَنْہٗمِنْطَرِیْقٍ ثَانٍ) اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یُصَلِّ فِیْہِیَعْنِی الْبَیْتَ، وَلٰکِنَّہُ اسْتَقْبَلَ زَوَایَاہٗ۔ (مسند احمد: ۳۳۹۶)
۔( دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیت اللہ کے اندر نماز ادا نہیں کی تھی، البتہ اس کے ہر گوشے کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10869

۔ (۱۰۸۶۹)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) حَدَّثَنِیْ اَخِی الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ وَکَانَ مَعَہٗحِیْنَ دَخَلَہَا: اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ لَمْ یُصَلِّ فِیْ الْکَعْبَۃِ، وَلٰکِنَّہٗلَمَّادَخَلَہَاوَقَعَسَاجِدًابَیْنَ الْعَمُوْدَیْنِ، ثُمَّ جَلَسَ یَدْعُوْ۔ (مسند احمد: ۱۸۰۱)
سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیت اللہ کے اندر داخل ہوئے تو میرے بھائی سیدنا فضل بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کعبہ کے اندر نماز ادا نہیں کی تھی،ہاں جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اندر تشریف لے گئے تو دو ستونوں کے درمیان آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سجدہ کیا، اور پھر بیٹھ کر دعائیں کیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10870

۔ (۱۰۸۷۰)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ عَلٰی نَاقَۃٍ لِأُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ حَتّٰی أَنَاخَ بِفِنَائِ الْکَعْبَۃِ، فَدَعَا عُثْمَانَ بْنَ طَلْحَۃَ بِالْمِفْتَاحِ، فَجَائَ بِہِ فَفَتَحَ، فَدَخَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأُسَامَۃُ وَبِلَالٌ وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَۃَ، فَأَجَافُوا عَلَیْہِمْ الْبَابَ مَلِیًّا، ثُمَّ فَتَحُوہُ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: فَبَادَرْتُ النَّاسَ فَوَجَدْتُ بِلَالًا عَلَی الْبَابِ قَائِمًا، فَقُلْتُ: أَیْنَ صَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: بَیْنَ الْعَمُودَیْنِ الْمُقَدَّمَیْنِ، قَالَ: وَنَسِیتُ أَنْ أَسْأَلَہُ کَمْ صَلّٰی۔ (مسند احمد: ۴۸۹۱)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فتح مکہ والے دن سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اونٹنی پر سوار ہو کر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور آگے بڑھ کر کعبہ کے صحن میں اسے بٹھا دیا، پھر عثمان بن طلحہ کو بلایا کہ وہ بیت اللہ کی چابی لے کر آئے، پس وہ چابی لے کر آئے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیت اللہ کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئے۔ سیدنا اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا عثمان بن طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ( اور ایک روایت کے مطابق سیدنا فضل بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ )آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ بیت اللہ کے اندر چلے گئے، انہوں نے کافی دیر دروازہ بند رکھا، اس کے بعد جب کھولا تو میں (عبداللہ بن عمر)تیزی کے ساتھ لوگوں سے آگے نکل گیا اور میں نے سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دروازے کے قریب کھڑے پایا۔ میں نے پوچھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کس جگہ نماز ادا کی ہے؟ انہوں نے بتلایا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سامنے والے دو ستونوں کے درمیان نماز ادا کی ہے، لیکن میں یہ پوچھنا بھول گیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کتنی رکعتیں ادا کی تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10871

۔ (۱۰۸۷۱)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ بِنَحْوِہِ وَفِیْہِ): فَلَمَّا خَرَجَ سَاَلْتُ بِلَالًا مَاذَا صَنَعَ رَسُوْلُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَ: تَرَکَ عَمُوْدَیْنِ عَنْ یَمِیْنِہٖ وَعَمُوْدًا عَنْ یَسَارِہِ وَثَلاثَۃَ اَعْمِدَۃٍ خَلْفَہٗ،ثُمَّصَلّٰی وَبَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْقِبْلَۃِ ثَلَاثَۃُ اَذْرُعٍ، قَالَ اِسْحَاقُ: وَکَانَ الْبَیْتُیَوْمَئِذٍ عَلٰی سِتَّۃِ اَعْمِدَۃٍ، وَلَمْ یَذْکُرِ الَّذِیْ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْقِبْلَۃِ۔ (مسند احمد: ۵۹۲۷)
۔(دوسری سند) اسی طرح کی حدیث مروی ہے، البتہ اس میں ہے: جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیت اللہ سے باہر تشریف لائے تو میں نے سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیت اللہ کے اندر کیا کچھ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سامنے والے تین ستونوں میں سے دو ستون اپنی داہنی جانب، ایک ستون بائیں جانب اور پچھلے تینوں ستون پیچھے چھوڑ کر اس طرح کھڑے ہو کر نماز ادا کی آپ کے اور قبلہ کی دیوار کے درمیان تقریباً تین ہاتھ جتنا فاصلہ تھا۔ اسحاق راوی نے بیان کیا کہ ان دنوں بیت اللہ کی عمارت چھ ستونوں پر قائم تھی، اس راوی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اور قبلہ کے درمیانی فاصلہ کا ذکر نہیں کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10872

۔ (۱۰۸۷۲)۔ عَنْ أَبِی الشَّعْثَائِ قَالَ: خَرَجْتُ حَاجًّا فَدَخَلْتُ الْبَیْتَ، فَلَمَّا کُنْتُ عِنْدَ السَّارِیَتَیْنِ مَضَیْتُ حَتّٰی لَزِقْتُ بِالْحَائِطِ، قَالَ: وَجَائَ ابْنُ عُمَرَ حَتّٰی قَامَ إِلٰی جَنْبِی فَصَلّٰی أَرْبَعًا، قَالَ: فَلَمَّا صَلّٰی، قُلْتُ لَہُ: أَیْنَ صَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ الْبَیْتِ؟ قَالَ: فَقَالَ: ہَاہُنَا أَخْبَرَنِی أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ أَنَّہُ صَلّٰی، قَالَ: قُلْتُ: فَکَمْ صَلّٰی؟ قَالَ: عَلٰی ہٰذَا أَجِدُنِی أَلُومُ نَفْسِی أَنِّی مَکَثْتُ مَعَہُ عُمُرًا ثُمَّ لَمْ أَسْأَلْہُ کَمْ صَلّٰی، فَلَمَّا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، قَالَ: خَرَجْتُ حَاجًّا، قَالَ: فَجِئْتُ حَتّٰی قُمْتُ فِی مَقَامِہِ، قَالَ: فَجَائَ ابْنُ الزُّبَیْرِ حَتّٰی قَامَ إِلٰی جَنْبِی فَلَمْ یَزَلْیُزَاحِمُنِی حَتّٰی أَخْرَجَنِی مِنْہُ، ثُمَّ صَلّٰی فِیہِ أَرْبَعًا۔ (مسند احمد: ۲۲۱۲۳)
ابو شعثاء سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں حج کے ارادہ سے گیا اور بیت اللہ کے اندر بھی داخل ہوا، میں جب دو ستونوں کے درمیان پہنچا تو آگے آگے ہوتا گیا حتی کہ دیوار کے ساتھ جا لگا، پھر سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگئے، وہ آکر میرے پہلو میں کھڑے ہو گئے اور انہوں نے چار رکعات ادا کیں، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے ان سے دریافت کیا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیت اللہ کے اندر کس جگہ نماز ادا کی تھی؟ انہوں نے بتایا کہ اس جگہ یعنی جہاں خود انہوں نے نماز ادا کی ہے۔ مزید انھوں نے کہا کہ اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو بتلایا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیتاللہ کے اندر نماز ادا کی تھی۔ ابو شعثاء کہتے ہیں: میں نے ان سے پوچھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کتنی رکعات ادا کی تھیں۔ انھوں نے کہا: اس بات پر تو میں خود کو ملامت کرتا ہوں کہ میں نے سیدنا اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ ایک طویل عرصہ گزارا، مگر میں ان سے یہ نہ پوچھ سکا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کتنی رکعت نماز ادا کی تھی؟ جب اگلا سال آیا اور میںپھر حج کے لیے گیا اور میں نے سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ والی جگہ پرنماز ادا کر رہا تھا تو سیدنا ابن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آکر میرے پہلو میں کھڑے ہو گئے، وہ مجھے دھکیلتے رہے،یہاں تک کہ انہوں نے مجھے وہاں سے نکال ہی دیا، پھر انہوں نے چار رکعات ادا کیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10873

۔ (۱۰۸۷۳)۔ حَدَّثَنِی ابْنُ أَبِی مُلَیْکَۃَ أَنَّ مُعَاوِیَۃَ حَجَّ فَأَرْسَلَ إِلَی شَیْبَۃَ بْنِ عُثْمَانَ أَنِ افْتَحْ بَابَ الْکَعْبَۃِ، فَقَالَ: عَلَیَّ بِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: فَجَائَ ابْنُ عُمَرَ: فَقَالَ لَہُ مُعَاوِیَۃُ: ہَلْ بَلَغَکَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَلّٰی فِی الْکَعْبَۃِ، فَقَالَ: نَعَمْ، دَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْکَعْبَۃَ، فَتَأَخَّرَ خُرُوجُہُ فَوَجَدْتُ شَیْئًا، فَذَہَبْتُ ثُمَّ جِئْتُ سَرِیعًا، فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَارِجًا، فَسَأَلْتُ بِلَالَ بْنَ رَبَاحٍ، ہَلْ صَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْکَعْبَۃِ؟ قَالَ: نَعَمْ، رَکَعَ رَکْعَتَیْنِ بَیْنَ السَّارِیَتَیْنِ، زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ: فَقَامَ مُعَاوِیَۃُ فَصَلّٰی بَیْنَہُمَا۔ (مسند احمد: ۲۴۳۸۲)
ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ حج کے لیے تشریف لائے اور انہوں نے شیبہ بن عثمان کو پیغام بھیجا کہ وہ کعبہ کا دروازہ کھولے۔ پھر انھوں نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو میرے پاس بلاؤ، سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے پوچھا کیایہبات آپ کے علم میں ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کعبہ کے اندر نماز ادا کی تھی؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کعبہ کے اندر داخل ہوئے تھے اور جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے باہر آنے میں کافی دیر کر دی تو میں نے کوئی چیز محسوس کی، پس میں گیا پھر میں جلدی واپس آیا، لیکن میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف لا چکے تھے، میں نے سیدنا بلال بن رباح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ کیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیت اللہ کے اندر نماز ادا کی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو ستونوں کے درمیان دو رکعتیں ادا کی ہیں۔پس سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اُٹھے اور دونوں ستونوں کے درمیان نماز ادا کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10874

۔ (۱۰۸۷۴)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) اَنَّ مُعَاوِیَۃَ قَدِمَ مَکَّۃَ فَدَخَلَ الْکَعْبَۃَ فَبَعَثَ اِلَی ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَیْنَ صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ فَقَالَ: صَلّٰی بَیَْن السَّارِیَتَیْنِ بِحَیَالِ الْبَابِ، فَجَائَ ابْنُ الزُّبَیْرِ فَرَجَّ الْبَابَ رَجًّا شَدِیْدًا، فَفُتِحَ لَہٗفَقَالَلِمُعَاوِیَۃَ: اَمَا اَنَّکَ قَدْ عَلِمْتَ اَنِّیْ کُنْتُ اَعْلَمُ مِثْلَ الَّذِیْیَعْلَمُ وَلٰکِنَّکَ حَسَدْتَّنِیْ۔ (مسند احمد: ۵۴۴۹)
۔(دوسری سند) سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مکہ مکرمہ تشریف لائے اور کعبہ کے اندر داخل ہونے لگے تو عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیغام بھیج کر دریافت کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کس مقام پر نماز ادا کی تھی؟ انہوں نے بتلایا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دروازے کے سامنے دو ستونوں کے درمیان نماز ادا کی تھی۔ اتنے میں سیدنا ابن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگئے اور انہوں نے بیت اللہ کے دروازے کو زور زور سے پیٹا، سو ان کے لیے دروازہ کھول دیا گیا،انہوں نے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: آپ تو جانتے ہیں کہ میں بھی اس بات کو سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرح جانتا ہوں، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے حسد کیا ہے (اور مجھے نہیں بلایا)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10875

۔ (۱۰۸۷۵)۔ عَنْ سِمَاکٍ الْحَنَفِیِّ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَلّٰی فِی الْبَیْتِ، وَسَتَأْتُونَ مَنْ یَنْہَاکُمْ عَنْہُ، فَتَسْمَعُونَ مِنْہُ یَعْنِی ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ حَجَّاجٌ: فَتَسْمَعُونَ مِنْ قَوْلِہِ، قَالَ: ابْنُ جَعْفَرٍ وَابْنُ عَبَّاسٍ جَالِسٌ قَرِیبًا مِنْہُ۔ (مسند احمد: ۵۰۵۳)
سماک حنفی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیت اللہ کے اندر نماز ادا کی تھی، عنقریب کچھ لوگ آئیں گے جو تمہیں بیت اللہ کے اندر نماز ادا کرنے سے روکیں گے۔ سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے قریب ہی بیٹھے تھے، سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کی طرف اشارہ کر کے کہا: ان سے بھی تم ایسی ہی بات سنو گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10876

۔ (۱۰۸۷۶)۔ عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ، قَالَ : صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِي الْبَیْتِ۔ (مسند احمد: ۲۲۱۰۲)
سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیت اللہ میں نماز ادا کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10877

۔ (۱۰۸۷۷)۔ عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ أَنَّہُ دَخَلَ ہُوَ وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْبَیْتَ، فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَجَافَ الْبَابَ، وَالْبَیْتُ إِذْ ذَاکَ عَلٰی سِتَّۃِ أَعْمِدَۃٍ فَمَضٰی حَتّٰی أَتَی الْأُسْطُوَانَتَیْنِ اللَّتَیْنِ تَلِیَانِ الْبَابَ بَابَ الْکَعْبَۃِ، فَجَلَسَ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ وَسَأَلَہُ وَاسْتَغْفَرَہُ، ثُمَّ قَامَ حَتّٰی أَتٰی مَا اسْتَقْبَلَ مِنْ دُبُرِ الْکَعْبَۃِ فَوَضَعَ وَجْہَہُ وَجَسَدَہُ عَلَی الْکَعْبَۃِ، فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ وَسَأَلَہُ وَاسْتَغْفَرَہُ، ثُمَّ انْصَرَفَ حَتّٰی أَتٰی کُلَّ رُکْنٍ مِنْ أَرْکَانِ الْبَیْتِ فَاسْتَقْبَلَہُ بِالتَّکْبِیرِ وَالتَّہْلِیلِ وَالتَّسْبِیحِ وَالثَّنَائِ عَلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَالِاسْتِغْفَارِ وَالْمَسْأَلَۃِ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ خَارِجًا مِنَ الْبَیْتِ مُسْتَقْبِلَ وَجْہِ الْکَعْبَۃِ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَقَالَ: ((ہٰذِہِ الْقِبْلَۃُ ہٰذِہِ الْقِبْلَۃُ۔))، وَفِیْ رِوَایَۃٍ: مَرَّتَیْنِ اَوْ ثَلَاثًا۔ (مسند احمد: ۲۲۱۷۳)
سیدنااسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیت اللہ کے اندر داخل ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حکم دیا اور انہوں نے دروازہ بند کر دیا، ان دنوں بیت اللہ کی عمارت چھ ستونوں پر قائم تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اندر داخل ہوکر آگے بڑھے، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کعبہ کے قریب والے دو ستونوں کے درمیان پہنچ گئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء بیان کی، دعائیں کی اور استغفار کیا، پھر اُٹھ کر کعبہ کی سامنے والی دیوار کے قریب آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا چہرہ مبارک اور اپنا جسد اطہر کعبہ کی دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا سینہ، جسم اور دونوں ہاتھ کعبہ کی دیوار کے ساتھ لگا دئیے اور اسی حال میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء کی، دعائیں اور استغفار کیا۔ پھر واپس ہو کر بیت اللہ کے ہر گوشے میں گئے اور وہاں اللہ تعالیٰ کی تکبیر، تہلیل، تسبیح اور حمد و ثناء بیان کی، استغفار کیا اور اللہ تعالیٰ سے سوال کیے، پھر باہر آکر کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر دو رکعات ادا کیں اور پھر واپس ہوئے اور دو تین بار فرمایا: یہی قبلہ ہے۔ یہی قبلہ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10878

۔ (۱۰۸۷۸)۔ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ صَفْوَانَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُلْتَزِمًا الْبَیْتَ مَا بَیْنَ الْحَجَرِ وَالْبَابِ، وَرَأَیْتُ النَّاسَ مُلْتَزِمِیْنَ الْبَیْتَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہِ وَصَحْبِہِ وَسَلَّمَ۔ (مسند احمد: ۱۵۶۳۷)
سیدنا عبدالرحمن بن صفوان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو حجراسود اور کعبہ کے دروازے کے درمیان والی جگہ پر بیت اللہ کے ساتھ چمٹے ہوئے دیکھا اور میں نے دوسرے لوگوں کو بھی دیکھا کہ وہ بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ بیت اللہ کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10879

۔ (۱۰۸۷۹)۔ (وَعَنْہٗاَیْضًا) قَالَ: لَمَّا افْتَتَحَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَکَّۃَ، قُلْتُ: لَأَلْبَسَنَّ ثِیَابِی، وَکَانَ دَارِی عَلَی الطَّرِیقِ، فَلَأَنْظُرَنَّ مَا یَصْنَعُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَانْطَلَقْتُ فَوَافَقْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ خَرَجَ مِنَ الْکَعْبَۃِ وَأَصْحَابُہُ، قَدِ اسْتَلَمُوا الْبَیْتَ مِنَ الْبَابِ إِلَی الْحَطِیمِ، وَقَدْ وَضَعُوا خُدُودَہُمْ عَلَی الْبَیْتِ، وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَسْطَہُمْ، فَقُلْتُ لِعُمَرَ: کَیْفَ صَنَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ دَخَلَ الْکَعْبَۃَ؟ قَالَ: صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ۔ (مسند احمد: ۱۵۶۳۸)
سیدنا عبدالرحمن بن صفوان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب مکہ مکرمہ کو فتح کیا تو میں نے کہا کہ میں لباس پہن لوں، میرا گھر راستہ ہی میں تھا، اور میں جا کر دیکھوں کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آج کیا کچھ کرتے ہیں؟ جب میں وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کعبہ سے باہر آچکے تھے اور صحابہ کرام باب کعبہ سے حطیم تک کعبہ کے ساتھ لپٹے اور چمٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے رخسار بیت اللہ کے ساتھ لگا رکھے تھے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی انہی کے درمیان تھے، میں نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کعبہ کے اندر کیا کام سر انجام دیا ہے؟ انہوں نے بتلایا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں دو رکعت نماز ادا کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10880

۔ (۱۰۸۸۰)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَخَلَ مَکَّۃَ عَامَ الْفَتْحِ، وَعَلٰی رَاْسِہِ الْمِغْفَرُ،فَلَمَّا نَزَعَہٗجَائَرَجُلٌ،وَقَالَ: اِبْنُخَطَلٍمُتَعَلَّقٌبِاسْتَارِالْکَعْبَۃِ، فَقَالَ: ((اُقْتُلُوْہٗ۔)) قَالَمَالِکٌ: وَلَمْیَکُنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَئِذٍ مُحْرِمًا، وَاللّٰہُ اَعْلَمُ۔ (مسند احمد: ۱۲۹۶۲)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے، اس وقت آپ کے سر پر خود تھا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے اتارا تو ایک آدمی نے آکر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا کہ ابن خطل کافر کعبہ کے پردوں کے ساتھ لٹکا ہوا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے قتل کر دو۔ امام مالک کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس روز احرام کی حالت میں نہیں تھے۔ واللہ اعلم۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10881

۔ (۱۰۸۸۱)۔ عَنْ اَبِیْ بَرْزَۃَ الْاَسْلَمِیِّ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ: ((اَلنَّاسُ آمِنُوْنَ غَیْرَ عَبْدِ الْعُزَّی بْنِ خَطَلٍ۔))۔ (مسند احمد: ۲۰۰۴۱)
ابوبرزہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فتح مکہ کے دن اعلان فرمایا کہ عبدالعزی بن خطل کے علاوہ باقی سب لوگوں کو امن دیا جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10882

۔ (۱۰۸۸۲)۔ عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِیِّ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُطِیعِ بْنِ الْأَسْوَدِ أَخِی بَنِی عَدِیِّ بْنِ کَعْبٍ عَنْ أَبِیہِ مُطِیعٍ، وَکَانَ اسْمُہُ الْعَاصُ، فَسَمَّاہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُطِیعًا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ أَمَرَ بِقَتْلِ ہٰؤُلَائِ الرَّہْطِ بِمَکَّۃَ،یَقُولُ: ((لَا تُغْزٰی مَکَّۃُ بَعْدَ ہٰذَا الْعَامِ أَبَدًا، وَلَا یُقْتَلُ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ بَعْدَ الْعَامِ صَبْرًا أَبَدًا۔)) زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ: وَلَمْ یُدْرِکِ الْاِسْلَامُ اَحَدًا مِنْ عُصَاۃِ قُرَیْشٍ غَیْرَ مُطِیْعٍ۔ (مسند احمد: ۱۵۴۸۴)
عامر شعبی سے مروی ہے کہ وہ بنو عدی بن کعب کے ایک فرد عبداللہ بن مطیع بن اسود سے اور وہ اپنے والد سیدنا مطیع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت کرتے ہیں، سیدنا مطیع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا سابقہ نام عاص تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کا نام تبدیل کر کے مطیع رکھا تھا،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مکہ میں جب ان لوگوں کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا تو میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: آج کے بعد کبھی بھی مکہ پر چڑھائی نہیں کی جائے گی اور اس سال کے بعد کبھی کوئی قریشی اس طرح ( یعنی کفر اور ارتداد کی وجہ سے ) قتل نہ ہو گا۔ ایک روایت میں ہے: اور اسلام نے قریش کے عاص نامی لوگوں میں سے کسی کو نہیں پایا، ما سوائے سیدنا مطیع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10883

۔ (۱۰۸۸۳)۔ عَنْ أَبِی مُرَّۃَ، مَوْلَی فَاخِتَۃَ أُمِّ ہَانِئٍ، عَنْ فَاخِتَۃَ أُمِّ ہَانِئٍ بِنْتِ أَبِی طَالِبٍ، قَالَتْ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ فَتْحِ مَکَّۃَ، أَجَرْتُ رَجُلَیْنِ مِنْ أَحْمَائِی، فَأَدْخَلْتُہُمَا بَیْتًا وَأَغْلَقْتُ عَلَیْہِمَا بَابًا، فَجَائَ ابْنُ أُمِّی عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ، فَتَفَلَّتَ عَلَیْہِمَا بِالسَّیْفِ، قَالَتْ: فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمْ أَجِدْہُ، وَوَجَدْتُ فَاطِمَۃَ فَکَانَتْ أَشَدَّ عَلَیَّ مِنْ زَوْجِہَا، قَالَتْ: فَجَائَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعَلَیْہِ أَثَرُ الْغُبَارِ فَأَخْبَرْتُہُ، فَقَالَ: ((یَا أُمَّ ہَانِئٍ قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ، وَأَمَّنَّا مَنْ أَمَّنْتِ۔)) (مسند أحمد: ۲۷۴۴۵)
سیدہ ام ہانی فاختہ بنت ابو طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: فتح مکہ والے دن میں نے اپنے دو سسرالی رشتہ داروں کو پناہ دی اور ان کو گھر میں داخل کر کے دروازہ بند کر دیا، میری اپنی ماں کا بیٹا سیدنا علی بن ابو طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور ان پر تلوار سونت لی، میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گئی، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے نہ مل سکے، البتہ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا موجود تھیں، لیکن وہ میرے معاملے میں مجھ پر اپنے خاوند سے بھی زیادہ سختی کرنے والی تھیں، اتنے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے آئے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر گردو غبار کا اثر تھا، جب میں نے اپنی بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتائی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ام ہانی! جن کو تو نے پناہ دی، ہم نے بھی ان کو پناہ دی اور جن کو تو نے امن دیا، ہم نے بھی ان کو امن دے دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10884

۔ (۱۰۸۸۴)۔ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ مَالِکِ بْنِ بَرْصَائَ قال: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَیَقُوْلُ: ((لَا یُغْزٰی ھٰذَا۔ یَعْنِی بَعْدَ الْیَوْمِ۔ إِلٰییَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۵۴۸۱)
سیدنا حارث بن مالک بن برصاء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فتح مکہ والے دن فرمایا: (آج کے بعد قیامت تک) اس مکہ پر چڑھائی نہیں کی جائے گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10885

۔ (۱۰۸۸۵)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ مَکَّۃُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((کُفُّوا السِّلَاحَ إِلَّا خُزَاعَۃَ عَنْ بَنِی بَکْرٍ۔)) فَأَذِنَ لَہُمْ حَتّٰی صَلَّی الْعَصْرَ ثُمَّ قَالَ: ((کُفُّوا السِّلَاحَ۔)) فَلَقِیَ رَجُلٌ مِنْ خُزَاعَۃَ رَجُلًا مِنْ بَنِی بَکْرٍ مِنْ غَدٍ بِالْمُزْدَلِفَۃِ فَقَتَلَہُ، فَبَلَغَ ذٰلِکَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَامَ خَطِیبًا، فَقَالَ: وَرَأَیْتُہُ وَہُوَ مُسْنِدٌ ظَہْرَہُ إِلَی الْکَعْبَۃِ، قَالَ: ((إِنَّ أَعْدَی النَّاسِ عَلَی اللّٰہِ مَنْ قَتَلَ فِی الْحَرَمِ، أَوْ قَتَلَ غَیْرَ قَاتِلِہِ، أَوْ قَتَلَ بِذُحُولِ الْجَاہِلِیَّۃِ۔)) فَقَامَ إِلَیْہِ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنَّ فُلَانًا ابْنِی، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَا دَعْوَۃَ فِی الْإِسْلَامِ، ذَہَبَ أَمْرُ الْجَاہِلِیَّۃِ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاہِرِ الْأَثْلَبُ۔)) قَالُوا: وَمَا الْأَثْلَبُ؟ قَالَ: ((الْحَجَرُ۔)) قَالَ: ((وَفِی الْأَصَابِعِ عَشْرٌ عَشْرٌ، وَفِی الْمَوَاضِحِ خَمْسٌ خَمْسٌ۔))، قَالَ: وَقَالَ: ((لَا صَلَاۃَ بَعْدَ الْغَدَاۃِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَلَا صَلَاۃَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتّٰی تَغْرُبَ الشَّمْسُ۔)) قَالَ: ((وَلَا تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ عَلٰی عَمَّتِہَا، وَلَا عَلٰی خَالَتِہَا، وَلَا یَجُوزُ لِامْرَأَۃٍ عَطِیَّۃٌ إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِہَا۔))۔ (مسند احمد: ۶۶۸۱)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھوں مکہ مکرمہ فتح ہو گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم لوگ اپنے ہتھیاروں کو روک لو( یعنی کسی کو قتل نہ کرو)۔ البتہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صرف خزاعہ قبیلہ کو قبیلہ بنو بکر پر حملہ سے نہ روکا، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عصر کی نماز ادا کر لی۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب تم بھی ہتھیاروں کو روک لو۔ لیکن ہوا یوں کہ اس کے بعد دوسرے دن بنو خراعہ کے ایک آدمی کا بنو بکر کے ایک آدمی سے مزدلفہ میں سامنا ہو گیا تو اس نے قتل کر دیا، جب یہ بات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس وقت اپنی پشت مبارک کعبہ مشرفہ کے ساتھ لگائے ہوئے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کے ہاں لوگوں میں اللہ کا سب سے بڑا دشمن وہ ہے جو حرم میں کسی کو قتل کرے یا اپنے قاتل کے سوا کسی دوسرے کو قتل کرے یا قبل از اسلام کی کسی دشمنی کے سبب کسی کو قتل کرے۔ ایک آدمی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف اُٹھ کر گیا اور اس نے کہا: فلاں لڑکا میرا بیٹا ہے، (کیونکہ میں نے قبل از اسلام اس کی ماں کے ساتھ زنا کیا تھا)۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسلام میں کسی دوسرے باپ یا قبیلہ کی طرف انتساب کی کوئی گنجائش نہیں۔ جاہلیتیعنی قبل از اسلام کی ساری باتیں ختم ہو چکیں، بچہ اسی کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہو گا اور زانی کے لیے پتھر یعنی رجم کی سزا ہو گی۔ میں نے کہا: اثلب کے معانی کیا ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پتھر۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انگلیوں کی دیت میں ہر انگلی کے عوض دس دس اونٹ ہیں اور ایسا زخم جس سے ہڈی ننگی ہو جائے، اس کے عوض پانچ پانچ اونٹ ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزید فرمایا: نمازِ فجر کے بعد طلوعِ آفتاب تک اور نمازِعصر کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نماز نہیں پڑھی جا سکتی اور کسی ایسی عورت کے ساتھ نکاح کرنا بھی درست نہیں، جس کی پھوپھییا خالہ پہلے سے نکاح میں موجود ہو۔ (یعنی خالہ اور اس کی بھانجی اور پھوپھی اور اس کی بھتیجی ایک نکاح میں جمع نہیں ہو سکتیں)اور کسی عورت کے لیےیہ بھی جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر کی کوئی چیز کسی کو بطور عطیہ دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10886

۔ (۱۰۸۸۶)۔ قَالَ الْاِمَامُ اَحْمَدُ: سَمِعْتُ یُونُسَیُحَدِّثُ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ یَزِیدَ أَحَدِ بَنِی سَعْدِ بْنِ بَکْرٍ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا شُرَیْحٍ الْخُزَاعِیَّ ثُمَّ الْکَعْبِیَّ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یَقُولُ: أَذِنَ لَنَا رَسُولُ اللّٰہِ یَوْمَ الْفَتْحِ فِی قِتَالِ بَنِی بَکْرٍ حَتَّی أَصَبْنَا مِنْہُمْ ثَأْرَنَا وَہُوَ بِمَکَّۃَ، ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِرَفْعِ السَّیْفِ، فَلَقِیَ رَہْطٌ مِنَّا الْغَدَ رَجُلًا مِنْ ہُذَیْلٍ فِی الْحَرَمِ یَؤُمُّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِیُسْلِمَ، وَکَانَ قَدْ وَتَرَہُمْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ وَکَانُوا یَطْلُبُونَہُ، فَقَتَلُوہُ وَبَادَرُوْا أَنْ یَخْلُصَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَیَأْمَنَ، فَلَمَّا بَلَغَ ذٰلِکَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَضِبَ غَضَبًا شَدِیدًا، وَاللّٰہِ مَا رَأَیْتُہُ غَضِبَ غَضَبًا أَشَدَّ مِنْہُ، فَسَعَیْنَا إِلٰی أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ نَسْتَشْفِعُہُمْ، وَخَشِینَا أَنْ نَکُونَ قَدْ ہَلَکْنَا، فَلَمَّا صَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَامَ فَأَثْنٰی عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ ہُوَ حَرَّمَ مَکَّۃَ، وَلَمْ یُحَرِّمْہَا النَّاسُ، وَإِنَّمَا أَحَلَّہَا لِی سَاعَۃً مِنَ النَّہَارِ أَمْسِ، وَہِیَ الْیَوْمَ حَرَامٌ کَمَا حَرَّمَہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ أَوَّلَ مَرَّۃٍ، وَإِنَّ أَعْتَی النَّاسِ عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ثَلَاثَۃٌ، رَجُلٌ قَتَلَ فِیہَا، وَرَجُلٌ قَتَلَ غَیْرَ قَاتِلِہِ، وَرَجُلٌ طَلَبَ بِذَحْلٍ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، وَإِنِّی وَاللّٰہِ! لَأَدِیَنَّ ہٰذَا الرَّجُلَ الَّذِی قَتَلْتُمْ۔)) فَوَدَاہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۶۴۸۹)
سیدنا ابو شریح خزاعی کعبی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ،جو کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اصحاب میں سے تھے، سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فتح مکہ والے دن ہمیں بنو بکر سے قتال کی(خصوصی) اجازت مرحمت فرمائی تھی، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابھی تک مکہ مکرمہ ہی میں تھے، چنانچہ ہم نے ان کے لوگوں کو قتل کر کے اپنا انتقام خوب لیا، اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تلواروں کو اُٹھا لینے سے منع فرما دیایعنی قتال کو مکمل طور پر روک دینے کا حکم دے دیا، لیکن اگلے دن ہمارے قبیلے کے کچھ لوگوں کو بنو ہذیل کا ایک آدمی حدودِ حرم ہی میں مل گیا، وہ اسلام قبول کرنے کے ارادے سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف آرہا تھا، وہ اس سے قبل جاہلیت کے دورِ میں ان لوگوں کے ساتھ کسی جرم کا مرتکب ہو چکا تھا، یہ اس کی تلاش میں تھے، چنانچہ انہوں نے اسے قتل کر دیا اور انہوں نے اس کام میں عجلت کا مظاہرہ کیا مبادا کہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچ جائے اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو اسے قتل کرنے سے منع فرما دیں، جب اس بات کی اطلاع رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شدید غضب ناک ہوئے، اللہ کی قسم! میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس سے زیادہ غصہ کی حالت میں کبھی نہیں دیکھا، ہم سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں گئے اور ان کی سفارش چاہی، ہمیں اندیشہ ہوا کہ ہم اپنی اس کو تاہی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ناراضگی کے نتیجہ میں تباہ نہ ہو جائیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز ادا کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی کما حقہ حمد و ثناء بیان کی اور پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو حرم والا قرار دیا، اسے لوگوں نے حرم نہیں بنایا، اللہ تعالیٰ نے گزشتہ کل کچھ دیر کے لیے اس حرم میں مجھے قتال کی اجازت دی تھی، اب یہ آج سے اسی طرح حرم ہے اور یہاں قتال کرنا حرام ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پہلے حرام ٹھہرایا تھا اور تین قسم کے لوگ اللہ تعالیٰ کے سخت سرکش اور باغی ہیں، ایک وہ جو حدودِ حرم میں کسی کو قتل کرے، دوسرا وہ جو اپنے قاتل کے علاوہ کسی دوسرے کو قتل کرے اور تیسرا وہ جو قبل از اسلام کے کسی جرم کا بدلہ لے، تم نے جس آدمی کو قتل کیا ہے، اللہ کی قسم! میں اس کی دیتیعنی خون بہا ضرور ادا کروں گا۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی دیت ادا کی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10887

۔ (۱۰۸۸۷)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: لَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَکَّۃَ عَامَ الْفَتْحِ، قَامَ فِی النَّاسِ خَطِیبًا، فَقَالَ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ! إِنَّہُ مَا کَانَ مِنْ حِلْفٍ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، فَإِنَّ الْإِسْلَامَ لَمْ یَزِدْہُ إِلَّا شِدَّۃً، وَلَا حِلْفَ فِی الْإِسْلَامِ، (فِیْ رِوَایَۃٍ: وَلَا تُحْدِثُوْا حِلْفًا فِی الْاِسْلَامِ) وَفِیْ رِوَایَۃٍ: (وَلاہِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ)، وَالْمُسْلِمُونَ یَدٌ عَلٰی مَنْ سِوَاہُمْ، تَکَافَأُ دِمَاؤُہُمْ، یُجِیرُ عَلَیْہِمْ أَدْنَاہُمْ، وَیَرُدُّ عَلَیْہِمْ أَقْصَاہُمْ، تُرَدُّ سَرَایَاہُمْ عَلٰی قَعَدِہِمْ، لَا یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِکَافِرٍ، دِیَۃُ الْکَافِرِ نِصْفُ دِیَۃِ الْمُسْلِمِ، لَا جَلَبَ وَلَا جَنَبَ، وَلَا تُؤْخَذُ صَدَقَاتُہُمْ إِلَّا فِی دِیَارِہِمْ۔))۔ (مسند احمد: ۶۶۹۲)
سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فتح مکہ کے سال جب مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں میں کھڑے ہوئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو! قبل از اسلام کے ایسے معاہدے جن کی رو سے معاہدہ کرنے والے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیںتو اسلام ایسے معاہدوں کو مزید مضبوط کرتا ہے، البتہ اب اسلام میں کسی ایسے نئے معاہدہ کی ضرورت نہیں کہ ہم ایک دوسرے کے حلیف ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں گے۔ ایک روایت میںیوں ہے کہ تم اسلام میں ایسا کوئی نیا معاہدہ نہ کرو۔ ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ مکہ فتح ہو جانے کے بعد اب یہاں سے ہجرت نہیں کی جا سکتی، اور تمام مسلمان کفار کے مقابلے میں ایک ہاتھ کی مانند ہیںاور ان سب کے خون( یعنی ان کی حرمت) برابر ہے، مسلمانوں کا ادنیٰ آدمی بھی کسی دشمن کو پناہ دے تو یہ تمام مسلمانوں کی طرف سے سمجھی جائے گی اور جہاد میں حاصل ہونے والا مالِ غنیمت مسلمانوں میں تقسیم ہو گا خواہ وہ بہت دور ہی کیوں نہ ہو اور جہاد کے قیدی ان لوگوں میں بھی تقسیم کئے جائیں گے، جو گھروں میں بیٹھے رہے اور میدانِ جہاد میںعملی طور پر شریک نہ ہو سکے اور کسی مومن کو کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جا سکتا، کافر کی دیت مسلم کے مقابلے میں نصف ہے، کوئی مسلمان سرکاری اہل کار زکوۃ وصول کے لیے جائے تو اسے یہ روا نہیں کہ وہ کسی ایک جگہ قیام کر کے لوگوں سے کہے کہ تم اپنے اپنے تمام جانوروں کو میرے پاس لے کر آؤ تاکہ میں ان کا حساب کر کے زکوۃ وصول کر وں، اس طرح ان لوگوں کو مشقت ہو گی اور یہ بھی جائز نہیں کہ سرکاری اہل کار زکوۃ وصول کرنے کے لیے لوگوں کی قیام گاہوں پر جائے تو وہ زکوۃ سے بچنے کے لیے اِدھر اُدھر ہو جائیںاور لوگوں سے ان کی زکوتیں ان کے گھروں یا قیام گاہوں پر ہی وصول کی جائیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10888

۔ (۱۰۸۸۸)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ، وَہُوَ عَلٰی دَرَجِ الْکَعْبَۃِ: ((اَلْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی صَدَقَ وَعْدَہُ، وَنَصَرَ عَبْدَہُ، وَہَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ، أَلَا إِنَّ قَتِیلَ الْعَمْدِ الْخَطَإِ بِالسَّوْطِ أَوِ الْعَصَا فِیہِ مِائَۃٌ مِنَ الْإِبِلِ، وَقَالَ مَرَّۃً: الْمُغَلَّظَۃُ فِیہَا أَرْبَعُونَ خَلِفَۃً فِی بُطُونِہَا أَوْلَادُہَا، إِنَّ کُلَّ مَأْثُرَۃٍ کَانَتْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ وَدَمٍ وَدَعْوٰی، وَقَالَ مَرَّۃً: وَدَمٍ وَمَالٍ تَحْتَ قَدَمَیَّ ہَاتَیْنِ إِلَّا مَا کَانَ مِنْ سِقَایَۃِ الْحَاجِّ وَسِدَانَۃِ الْبَیْتِ، فَإِنِّی أُمْضِیہِمَا لِأَہْلِہِمَا عَلٰی مَا کَانَتْ۔))۔ (مسند احمد: ۴۵۸۳)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فتح مکہ کے روز کعبہ کی سیڑھی پر موجود تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں، جس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے نے کفار کے تمام لشکروں کو شکست سے دو چار کیا، خبر دار قتل خطا یعنی جو کوڑے یا لاٹھی سے ہو،ا اس کی دیت ایک سو اونٹ ہیں،ایک دفعہ یوں فرمایا کہ اس کا خوں بہا سخت ہے، اس میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہیں، جاہلیت کے تمام غرور، خون کے مطالبے اور دعوے اور اموال یہ سب میرے ان دونوں قدموں کے نیچے ہیں، البتہ حجاج کرام کو پانی پلانے اور بیت اللہ کی نگرانی کی ذمہ داری حسب ِ سابق بحال رہیں گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10889

۔ (۱۰۸۸۹)۔ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ أَوْسٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَطَبَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ فَقَالَ: ((لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ نَصَرَ عَبْدَہُ، وَہَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ۔)) قَالَ ہُشَیْمٌ مَرَّۃً أُخْرٰی: ((الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی صَدَقَ وَعْدَہُ، وَنَصَرَ عَبْدَہُ، أَلَا إِنَّ کُلَّ مَأْثَرَۃٍ کَانَتْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ تُعَدُّ وَتُدَّعٰی، وَکُلَّ دَمٍ أَوْ دَعْوٰی مَوْضُوعَۃٌ تَحْتَ قَدَمَیَّ ہَاتَیْنِ إِلَّا سِدَانَۃَ الْبَیْتِ وَسِقَایَۃَ الْحَاجِّ، أَلَا وَإِنَّ قَتِیلَ خَطَإِ الْعَمْدِ، قَالَ ہُشَیْمٌ مَرَّۃً: بِالسَّوْطِ وَالْعَصَا وَالْحَجَرِ، دِیَۃٌ مُغَلَّظَۃٌ مِائَۃٌ مِنَ الْإِبِلِ، مِنْہَا أَرْبَعُونَ فِی بُطُونِہَا أَوْلَادُہَا، وَقَالَ مَرَّۃً: أَرْبَعُونَ مِنْ ثَنِیَّۃٍ إِلٰی بَازِلِ عَامِہَا کُلُّہُنَّ خَلِفَۃٌ۔)) (مسند احمد: ۱۵۴۶۳)
عقبہ بن اوس ،ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فتح مکہ کے دن خطبہ دیا اور فرمایا: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا و یگانہ ہے، اس نے اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے نے کفار کی جماعتوں کو شکست سے دو چار کیا، حدیث کے راوی ہیثم نے ایک دفعہ یوں بیان کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمام تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کو سزاوار ہیں، جس نے اپنا وعدہ پورا کیااور اپنے بندے کی مدد کی۔ خبردار دورِ جاہلیت کی غرور اور فخر والی تمام باتیں، جو ظلم وتعدی پر مشتمل تھیں اور اُس دور کا ہر خون اور ہر قسم کا دعوی میرے قدموں کے نیچے ہے، یعنی اب ان کی کچھ حیثیت نہیں وہ کا لعدم ہیں۔ البتہ بیت اللہ کی نگرانی اور حجاج کرام کو پانی پلانے کی خدمات وہ حسب سابق بحال ہیں۔ خبردار! قتلِ خطا یعنی کوڑے، عصا اور پتھر وغیرہ لگنے سے جو مر جائے اس میں شدید قسم کا خون بہا ہے، یعنی کل سو اونٹ ہیں، ان میں سے چالیس حاملہ اونٹنیاں ہو ں گی۔ اور ہیثم نے ایک دفعہ یوں روایت کیا: چالیس اونٹنیاں ثنیہ سے بازل کے درمیان درمیان ہوں گی اور سب کی سب حاملہ ہوں گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10890

۔ (۱۰۸۹۰)۔ عَنْ اَبِيْ شُرَیْحٍ رَضِيَاللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْغَدَ مِنْ یَوْمِ الْفَتْحِ، یَقُوْلُ قَوْلًا، سَمِعَتْہُ اُذُنَايَ وَ وَعَاہُ قَلْبِيْ، وَاَبْصَرَتْہُ عَیْنَايَحِیْنَ تَکَلَّمَ بِہٖ: حَمِدَاللّٰہَوَاَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: ((اِنَّ مَکَّۃَ حَرَّمَھَا اللّٰہُ، فَلَا یَحِلُّ لِأِمْرِیئٍیُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ یَّسْفِکَ بِھَا دَمًا، وَلَمْ یَعْضُدْ بِھَا شَجَرَۃً، فَاِنْ اَحَدٌ تَرَخَّصَ لِقِتَالِ رَسُوْلِ اللّٰہ فیْھَا، فَقُوْلُوْا: اِنَّ اللّٰہَ قَدْ اَذِنَ لِرَسُوْلِہٖ وَلَمْ یَاْذَنْ لَکُمْ، وَاِنَّمَا اَذِنَ لِيْ فِیْھَاسَاعَۃً مِّنْ نَّھَارٍ، ثُمَّ عَادَتْ حُرْمَتُھَا الْیَوْمَ کَحُرْمَتِھَا بِالْاَمْسِ، وَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ۔)) فَقِیلَ لِأَبِی شُرَیْحٍ: مَا قَالَ لَکَ عَمْرٌو؟ قَالَ: قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِذٰلِکَ مِنْکَ یَا أَبَا شُرَیْحٍ، إِنَّ الْحَرَمَ لَا یُعِیذُ عَاصِیًا وَلَا فَارًّا بِدَمٍ وَلَا فَارًّا بِجِزْیَۃٍ1، وَکَذٰلِکَ قَالَ حَجَّاجٌ: بِجِزْیَۃٍ، وَقَالَ یَعْقُوبُ عَنْ أَبِیہِ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ: وَلَا مَانِعَ جِزْیَۃٍ۔ (مسند احمد: ۲۷۷۰۶)
حضرت ابو شریح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ (انھوں نے یزید کی طرف مقرر کردہ والی ٔ مدینہ عمرو بن سعید بن عاص سے کہا، جبکہ عمرو بن سعید، سیدنا عبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے لڑنے کے لیے مکہ کہ طرف لشکر بھیج رہا تھا،) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن ایک بات ارشاد فرمائی، میرے کانوں نے اسے سنا، میرے دل نے اسے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بات ارشاد فرماتے ہوئے دیکھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا: بیشک مکہ کو لوگوں نے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے حرمت والا قرار دیا، اب کسی ایسے شخص کے لیے حلال نہیں، جو اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو، کہ وہ یہاں خون بہائے یا درخت کاٹے۔ اگر کوئی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قتال (کو دلیل بنا کر اپنے لیے) رخصت نکالنا چاہے تو اسے کہہ دینا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مکہ میں (قتال کی) اجازت دی اور تمھیں نہیں دی اور مجھے بھی دن کے کچھ وقت کے لیے (لڑائی کرنے کی) اجازت ملی ہے ، اس کے بعد اس کی حرمت اسی طرح ہو گئی جس طرح کل تھی۔ موجودہ لوگ (یہ احکام) غائب لوگوں تک پہنچا دیں۔ ابو شریح سے دریافت کیا گیا کہ پھر عمرو بن سعید نے آپ کو کیا جواب دیا؟ انہوں نے بتلایا کہ اس نے کہا ابو شریح! میں ان باتوں کو تم سے بہتر جانتا ہوں، بے شک حرم کسی نافرمان کو اور قتل کر کے فرار ہونے والے کو اور جزیہ کی ادائیگی سے بچنے کی خاطر فرار ہونے والوں کو اور جزیہ ادا نہ کرنے والوں کو پناہ نہیں دیتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10891

۔ (۱۰۸۹۱)۔ عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عُقْبَۃَ قَالَ: لَمَّا فَتَحَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَکَّۃَ، جَعَلَ أَہْلُ مَکَّۃَیَأْتُونَہُ بِصِبْیَانِہِمْ، فَیَمْسَحُ عَلٰی رُؤُوْسِہِمْ، وَیَدْعُو لَہُمْ فَجِیئَ بِی إِلَیْہِ، وَإِنِّی مُطَیَّبٌ بِالْخَلُوقِ، وَلَمْ یَمْسَحْ عَلٰی رَأْسِی، وَلَمْ یَمْنَعْہُ مِنْ ذٰلِکَ إِلَّا أَنَّ أُمِّی خَلَّقَتْنِی بِالْخَلُوقِ، فَلَمْ یَمَسَّنِی مِنْ أَجْلِ الْخَلُوقِ۔ (مسند احمد: ۱۶۴۹۲)
سیدنا ولید بن عقبہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مکہ فتح کیا تو اہلِ مکہ اپنے بچوں کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لانے لگے تاکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے سروں پر بابرکت ہاتھ پھیر دیں اور ان کے حق میں دعا کر دیں۔ مجھے بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لایا گیا، چونکہ مجھے خلوق خوشبو لگیہوئی تھی، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے سر پر ہاتھ نہیں ! بخاری اور مسلم میں اس جگہ یہ الفاظ ہیں وَلَا فَارًّا بِجِزْیَۃٍ اور نہ ہی فساد کرکے بھاگنے والے کو (حرم پناہ دیتا ہے)۔ (عبداللہ رفیق) پھیرا، میری والدہ نے مجھے یہ خوشبو لگا دی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی وجہ سے میرے سر پر ہاتھ نہیں پھیرا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10892

۔ (۱۰۸۹۲)۔ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِی عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَیْمٍ: أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ الْأَسْوَدِ بْنِ خَلَفٍ أَخْبَرَہُ: أَنَّ أَبَاہُ الْأَسْوَدَ رَأَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُبَایِعُ النَّاسَ یَوْمَ الْفَتْحِ، قَالَ: جَلَسَ عِنْدَ قَرْنِ مَسْقَلَۃَ، فَبَایَعَ النَّاسَ عَلَی الْإِسْلَامِ وَالشَّہَادَۃِ، قَالَ: قُلْتُ: وَمَا الشَّہَادَۃُ؟ قَالَ: أَخْبَرَنِی مُحَمَّدُ بْنُ الْأَسْوَدِ بْنِ خَلَفٍ: أَنَّہُ بَایَعَہُمْ عَلَی الْإِیمَانِ بِاللّٰہِ وَشَہَادَۃِ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَکُنْتُ اَقُوْلُ کَمَا یَقُلْنَ۔ (مسند احمد: ۱۵۵۰۹)
عبداللہ بن عثمان بن خثیم سے مروی ہے کہ ان کو محمد بن اسود بن خلف نے بیان کیا کہ ان کے والد اور اسود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فتح مکہ کے دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو لوگوں سے بیعت لیتے دیکھا۔ آپ قرن مسقلہ نامی جگہ پر تشریف فرما تھے۔ آپ نے لوگوں سے اسلام اور شہادت کی بیعت لی، عبداللہ بن عثمان کہتے ہیں میں نے ان سے دریافت کیا کہ شہادت سے کیا مراد ہے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں سے اللہ پر ایمان لانے اور اللہ کی وحدانیت اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عبدیت اور رسالت کی گواہی کی بیعت لی۔ پس میں بھی اسی طرح کہتا تھا جیسے وہ کہتی تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10893

۔ (۱۰۸۹۳)۔ عَنْ مُجَاشِعِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ھٰذَا مُجَالِدُ بْنُ مَسْعُوْدٍ یُبَابِعُکَ عَلَی الْھِجْرَۃِ، فَقَالَ: ((لَاھِجْرَۃَ بَعْدَ فَتْحِ مَکَّۃَ وَلٰکِنْ اُبَایِعُہٗ عَلَی الْاِسْلَامِ۔)) (مسند احمد: ۲۰۹۶۰)
سیدنا مجاشع بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ مجالد بن مسعود آپ سے ہجرت کی بیعت کرنا چاہتا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے، البتہ میں اس سے اسلام کی بیعت لے لیتا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10894

۔ (۱۰۸۹۴)۔ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: جَاء َتْ فَاطِمَۃُ بِنْتُ عُتْبَۃَ بْنِ رَبِیعَۃَ تُبَایِعُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخَذَ عَلَیْہَا {أَنْ لَا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِینَ} الْآیَۃَ، قَالَتْ: فَوَضَعَتْ یَدَہَا عَلٰی رَأْسِہَا حَیَائً فَأَعْجَبَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا رَأٰی مِنْہَا فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: أَقِرِّی أَیَّتُہَا الْمَرْأَۃُ! فَوَاللّٰہِ، مَا بَایَعَنَا إِلَّا عَلٰی ہٰذَا، قَالَتْ: فَنَعَمْ إِذًا فَبَایَعَہَا بِالْآیَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۵۶۹۰)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ سیدہ فاطمہ بنت عتبہ بن ربیعہ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے (سورۂ ممتحنہ والی آیت) {أَنْ لَا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِینَ} کے مطابق بیعت لی، تو انہوں نے شرم وحیاء کی بنا پر اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کییہ کیفیت خوب پسند کی، اُدھر سے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: ارے عورت! تم ان باتوں کا کھل کر اقرار کرو، اللہ کی قسم! ہم نے بھی انہی باتوں کی بیعت کی ہے، وہ بولیں اچھا ٹھیک ہے ، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آیت کی روشنی میں اس سے بیعت کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10895

۔ (۱۰۸۹۵)۔ عَنْ عَائِشَۃَ بِنْتِ قُدَامَۃَ قَالَتْ: کُنْتُ أَنَا مَعَ أُمِّی رَائِطَۃَ بِنْتِ سُفْیَانَ الْخُزَاعِیَّۃِ وَالنَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُبَایِعُ النِّسْوَۃَ، وَیَقُولُ: ((أُبَایِعُکُنَّ عَلٰی أَنْ لَا تُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا، وَلَا تَسْرِقْنَ، وَلَا تَزْنِینَ، وَلَا تَقْتُلْنَ أَوْلَادَکُنَّ، وَلَا تَأْتِینَ بِبُہْتَانٍ تَفْتَرِینَہُ بَیْنَ أَیْدِیکُنَّ وَأَرْجُلِکُنَّ، وَلَا تَعْصِینَ فِی مَعْرُوفٍ۔)) قَالَتْ: فَأَطْرَقْنَ، فَقَالَ لَہُنَّ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((قُلْنَ: نَعَمْ، فِیمَا اسْتَطَعْتُنَّ۔)) فَکُنَّیَقُلْنَ وَأَقُولُ مَعَہُنَّ، وَأُمِّی تُلَقِّنُنِی: قُولِی أَیْ بُنَیَّۃُ! فِیمَا اسْتَطَعْتُ۔ (مسند احمد: ۲۷۶۰۲)
سیدہ عائشہ بنت قدامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں:میں اپنی والدہ سیدہ رائطہ بنت سفیان خزاعیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ساتھ تھی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خواتین سے بیعت لے رہے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یوں فرما رہے تھے: میں تم سے اس بات کی بیعت لیتا ہوں کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گی، چوری نہیں کرو گی، زنا نہیں کرو گی، اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گی، بہتان تراشی نہیں کرو گی اور نیکی میں نافرمانی نہیں کرو گی۔ عورتوں نے یہ باتیں سن کر سر جھکا لیے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: کہہ دو کہ ٹھیک ہے، تمہارییہ بیعت صرف اس حد تک ہے کہ جس کی تم کو استطاعت ہو۔ پس انھوں نے جی ہاں کہنا شروع کر دیا اور میں بھی ان کے ساتھ کہہ رہی تھی، پھر میری والدہ نے مجھے تلقین کی اور کہا: میری پیاری بیٹی! یہ بھی کہو کہ جتنی میری طاقت ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10896

۔ (۱۰۸۹۶)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: بَعَثَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ إِلٰی بَنِی أَحْسِبُہُ قَالَ: جَذِیمَۃَ، فَدَعَاہُمْ إِلَی الْإِسْلَامِ، فَلَمْ یُحْسِنُوا أَنْ یَقُولُوا أَسْلَمْنَا فَجَعَلُوا یَقُولُونَ صَبَأْنَا صَبَأْنَا، وَجَعَلَ خَالِدٌ بِہِمْ أَسْرًا وَقَتْلًا، قَالَ: وَدَفَعَ إِلٰی کُلِّ رَجُلٍ مِنَّا أَسِیرًا حَتّٰی إِذَا أَصْبَح یَوْمًا أَمَرَ خَالِدٌ أَنْ یَقْتُلَ کُلُّ رَجُلٍ مِنَّا أَسِیرَہُ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ لَا أَقْتُلُ أَسِیرِی، وَلَا یَقْتُلُرَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِی أَسِیرَہُ، قَالَ: فَقَدِمُوا عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَذَکَرُوا لَہُ صَنِیعَ خَالِدٍ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرَفَعَ یَدَیْہِ: ((اللّٰہُمَّ إِنِّی أَبْرَأُ إِلَیْکَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ۔)) مَرَّتَیْنِ۔ (مسند احمد: ۶۳۸۲)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بنو جزیمہ کی طرف روانہ کیا، انہوں نے جا کر انہیں اسلام کی دعوت پیش کی، وہ اچھی طرح اَسْلَمْنَا ( ہم مسلمان ہیں) نہ کہہ سکے، اس کی بجائے انہوں نے صَبَأْنَا صَبَأْنَا (ہم صابی ہو گئے، صابی ہو گئے) کہا۔ ان کییہ بات سن کر سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان میں سے بعض کو قتل اور بعض کو قیدی بنانا شروع کیا اور انہوں نے ایک ایک قیدی کو ہمارے حوالے کیایہاں تک کہ ایک دن صبح ہوئی تو انھوں نے ہمیں حکم دیا کہ ہم میں سے ہر آدمی اپنے اپنے قیدی کو قتل کر دے۔ ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم! میں تو اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گا اور نہ ہی میرے ساتھیوں میں سے کوئی اپنے قیدی کو قتل کرے گا۔ پھر جب صحابہ کرام نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے تو انہوں نے خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بات کا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کیا،یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر کو اُٹھا کر دو دفعہ فرمایا: یا اللہ ! خالد نے جو کچھ کیا ہے، میں اس سے برائت اور لا تعلقی کا اظہار کرتا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10897

۔ (۱۰۸۹۷)۔ عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْفِہْرِیِّ قَالَ: کُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَزْوَۃِ حُنَیْنٍ، فَسِرْنَا فِییَوْمٍ قَائِظٍ شَدِیدِ الْحَرِّ، فَنَزَلْنَا تَحْتَ ظِلَالِ الشَّجَرِ، فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ لَبِسْتُ لَأْمَتِی وَرَکِبْتُ فَرَسِی فَانْطَلَقْتُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ فِی فُسْطَاطِہِ، فَقُلْتُ: السَّلَامُ عَلَیْکَیَا رَسُولَ اللّٰہِ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ حَانَ الرَّوَاحُ، فَقَالَ: ((أَجَلْ۔)) فَقَالَ: ((یَا بِلَالُ!)) فَثَارَ مِنْ تَحْتِ سَمُرَۃٍ کَأَنَّ ظِلَّہُ ظِلُّ طَائِرٍ، فَقَالَ: لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ، وَأَنَا فِدَاؤُکَ فَقَالَ: ((أَسْرِجْ لِی فَرَسِی۔)) فَأَخْرَجَ سَرْجًا دَفَّتَاہُ مِنْ لِیفٍ لَیْسَ فِیہِمَا أَشَرٌ وَلَا بَطَرٌ، قَالَ: فَأَسْرَجَ قَالَ: فَرَکِبَ وَرَکِبْنَا فَصَافَفْنَاہُمْ عَشِیَّتَنَا وَلَیْلَتَنَا فَتَشَامَّتِ الْخَیْلَانِ فَوَلَّی الْمُسْلِمُونَ مُدْبِرِینَ کَمَا قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا عِبَادَ اللّٰہِ أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُولُہُ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ! أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُولُہُ۔)) قَالَ: ثُمَّ اقْتَحَمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ فَرَسِہِ فَأَخَذَ کَفًّا مِنْ تُرَابٍ فَأَخْبَرَنِی الَّذِی کَانَ أَدْنَی إِلَیْہِ مِنِّی ضَرَبَ بِہِ وُجُوہَہُمْ، وَقَالَ: ((شَاہَتِ الْوُجُوہُ۔)) فَہَزَمَہُمُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ یَعْلَی بْنُ عَطَائٍ: فَحَدَّثَنِی أَبْنَاؤُہُمْ عَنْ آبَائِہِمْ أَنَّہُمْ قَالُوا: لَمْ یَبْقَ مِنَّا أَحَدٌ إِلَّا امْتَلَأَتْ عَیْنَاہُ وَفَمُہُ تُرَابًا، وَسَمِعْنَا صَلْصَلَۃً بَیْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ کَإِمْرَارِ الْحَدِیدِ عَلَی الطَّسْتِ الْحَدِیدِ۔ (مسند احمد: ۲۲۸۳۴)
سیدنا ابو عبدالرحمن فہری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں غزوۂ حنین میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، ہم شدید گرمی والے ایک دن میں چلتے رہے، ہم نے درختوں کے سائے کے نیچے قیام کیا، جب سورج ڈھل گیا تو میں نے اپنے ہتھیار سجا لیے اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف روانہ ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک خیمہ میں تھے، میں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت ہو، روانگی کا وقت ہو چکا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں،پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو آواز دی، وہ ایک کیکریا ببول کے نیچے سے جلدی سے اُٹھ کر آئے، اس کا سایہ پرندے کے سائے کی طرح تھا، انہوں نے کہا: میں آپ پر قربان جاؤں، میں حاضر ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے گھوڑے پر زین کسو۔ انہوں نے زین نکالی، جس کے دونوں پہلو کھجور کی جالی دار جھلی کے تھے، جن میں فخروغرور کا کوئی عنصر نہ تھا، پس انہوں نے زین کس دی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھوڑے پر سوار ہو گئے اور ہم بھی اپنی اپنی سواریوں پر سوار ہو گئے، جب ہم دن کے پچھلے پہر اور ساری رات دشمن کے بالمقابل صف آراء رہے۔ دونوں گروہوں کی انتہائی کوشش تھی کہ وہ اپنے فریق مخالف پر غالب رہے، مسلمان پیٹھ دے کر ہٹ آئے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا قرآن کریممیں تذکرہ کیا ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کے بندو! میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا: اے مہاجرین کی جماعت ! میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے گھوڑے سے اتر آئے اور جو آدمی میری نسبت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب تر تھا، اس نے بتایا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مٹھی بھر مٹی لے کر ان کے چہروں کی طرف پھینکی اور فرمایا: یہ چہرے رسوا اور ذلیل ہو گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کفار کو ہزیمت دی۔ یحییٰ بن عطاء نے حماد بن سلمہ کو بیان کیا کہ کفار کی اولاد نے اپنے آباء سے روایت کیا کہ انہوں نے بتایا کہ ہم میں سے ہر ایک کی آنکھیں اور منہ مٹی سے بھر گئے اور ہم نے آسمان اور زمین کے درمیان ایسی آواز سنی، جیسے لوہے کے تھال پر لوہا گھسیٹنے سے پیدا ہوتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10898

۔ (۱۰۸۹۸)۔ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ قَالَ: شَہِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حُنَیْنًا، قَالَ: فَلَقَدْ رَأَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَا مَعَہُ إِلَّا أَنَا وَأَبُو سُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَلَزِمْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمْ نُفَارِقْہُ، وَہُوَ عَلٰی بَغْلَۃٍ شَہْبَائَ، وَرُبَّمَا قَالَ مَعْمَرٌ: بَیْضَائَ، أَہْدَاہَا لَہُ فَرْوَۃُ بْنُ نَعَامَۃَ الْجُذَامِیُّ، فَلَمَّا الْتَقَی الْمُسْلِمُونَ وَالْکُفَّارُ وَلَّی الْمُسْلِمُونَ مُدْبِرِینَ، وَطَفِقَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَرْکُضُ بَغْلَتَہُ قِبَلَ الْکُفَّارِ، قَالَ الْعَبَّاسُ: وَأَنَا آخِذٌ بِلِجَامِ بَغْلَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَکُفُّہَا، وَہُوَ لَا یَأْلُو مَا أَسْرَعَ نَحْوَ الْمُشْرِکِینَ، وَأَبُو سُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ آخِذٌ بِغَرْزِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا عَبَّاسُ! نَادِ یَا أَصْحَابَ السَّمُرَۃِ۔)) قَالَ وَکُنْتُ رَجُلًا صَیِّتًا فَقُلْتُ بِأَعْلَی صَوْتِی: أَیْنَ أَصْحَابُ السَّمُرَۃِ؟ قَالَ: فَوَاللّٰہِ لَکَأَنَّ عَطْفَتَہُمْ حِینَ سَمِعُوا صَوْتِی عَطْفَۃُ الْبَقَرِ عَلٰی أَوْلَادِہَا، فَقَالُوا: یَا لَبَّیْکَیَا لَبَّیْکَ، وَأَقْبَلَ الْمُسْلِمُونَ فَاقْتَتَلُوا ہُمْ وَالْکُفَّارُ، فَنَادَتِ الْأَنْصَارُ یَقُولُونَ: یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ ثُمَّ قَصَّرَتِ الدَّاعُونَ عَلٰی بَنِی الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ فَنَادَوْا: یَا بَنِی الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، قَالَ: فَنَظَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ عَلٰی بَغْلَتِہِ کَالْمُتَطَاوِلِ عَلَیْہَا إِلٰی قِتَالِہِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((ہٰذَا حِینَ حَمِیَ الْوَطِیسُ۔)) قَالَ: ثُمَّ أَخَذَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَصَیَاتٍ فَرَمٰی بِہِنَّ وُجُوہَ الْکُفَّارِ، ثُمَّ قَالَ: ((انْہَزَمُوا وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ، انْہَزَمُوا وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔)) قَالَ: فَذَہَبْتُ أَنْظُرُ فَإِذَا الْقِتَالُ عَلٰی ہَیْئَتِہِ فِیمَا أَرٰی، قَالَ: فَوَاللّٰہِ! مَا ہُوَ إِلَّا أَنْ رَمَاہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِحَصَیَاتِہِ فَمَا زِلْتُ أَرٰی حَدَّہُمْ کَلِیلًا وَأَمْرَہُمْ مُدْبِرًا حَتّٰی ہَزَمَہُمُ اللّٰہُ، قَالَ: وَکَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَرْکُضُ خَلْفَہُمْ عَلٰی بَغْلَتِہِ۔ (مسند احمد: ۱۷۷۵) (۱۰۸۹۹)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ کَثِیرِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: کَانَ عَبَّاسٌ وَأَبُو سُفْیَانَ مَعَہُ یَعْنِی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَخَطَبَہُمْ وَقَالَ: ((الْآنَ حَمِیَ الْوَطِیسُ۔)) وَقَالَ: ((نَادِ: یَا أَصْحَابَ سُورَۃِ الْبَقَرَۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۷۷۶)
سیدنا عباس بن عبدالمطلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ غزوۂ حنین میں شریک تھا، میں نے دیکھا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ صرف میں اور سیدنا ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رہ گئے تھے، ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ساتھ رہے اور ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جدا نہیں ہوئے، آپ اپنے سفید خچر پر سوار تھے، یہ خچر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فروہ بن نعامہ جزامی نے بطور ہدیہ بھیجا تھا، جب مسلمانوں اور کفار کا مقابلہ ہوا تو مسلمان پیٹھ دے کر بھاگ اُٹھے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے خچر کو ایڑ لگا کر کفار کی طرف بڑھنے لگنے، سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خچر کی باگ کو پکڑے ہوئے تھا، اسے ذرا روکنے کی کوشش کرتا لیکن آپ کو شش کرکے تیزی سے مشرکین کی طرف بڑھتے رہے۔ ابو سفیان بن حارث رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رکاب کو تھامے ہوئے تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عباس! اصحاب سمرہ کو آواز دو۔ ( یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے کیکریا ببول کے درخت کے نیچے بیعت کی تھی) ، وہ بلند آواز والے آدمی تھے، انھوں نے کہا: اصحاب سمرہ کہاں ہیں؟ اللہ کی قسم ان لوگوں نے میری آواز سنی تو فوراً اس طرح واپس آئے، جیسے گائے اپنے بچے کی طرف دوڑ کر آتی ہے اور انہوں نے آتے ہی کہا: جی ہم حاضر ہیں، جی ہم حاضر ہیں، باقی مسلمان بھی لوٹ آئے، ان کے اور کفار کے درمیان لڑائی ہوئی۔ انصار نے ایک دوسرے کو بلایا: اے انصار کی جماعت! پھر بلانے والوں نے اپنے جدااعلیٰ کے نام سے پکارنے پر اکتفا کیا اور کہا: اے حارث بن خزرج کی اولاد! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے خچر کے اوپر سے نظر لمبی کر کے میدانِ قتال کی طرف دیکھا اور فرمایا: اب میدان گرم ہوا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چند کنکریاں لے کر ان کو کفار کے چہروں پر پھینکا اور فرمایا: رب کعبہ کی قسم! رب کعبہ کی قسم! وہ شکست خوردہ ہو کر فرار ہو گئے۔ میں نے دیکھا تو مجھے یوں لگا جیسے لڑائی اسی طرح جا ری ہے، اللہ کی قسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کنکریاں پھینکنے کی دیر تھی کہ میں نے ان کی دھار کو کند دیکھا،یعنی ان کے حوصلے پست ہو گئے اور ان کی حالت کمزور ہو گئی،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست سے دو چار کر دیا، گویایہ منظر اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پیچھے اپنے خچر کو ایڑ لگا رہے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10899

۔
۔( دوسری سند) کثیر بن عباس سے مروی ہے کہ سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا ابو سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ رہ گئے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب تنور یعنی میدان گرم ہوا ہے۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم یوں آواز دو: اے سورۂ بقرہ والو!
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10900

۔ (۱۰۹۰۰)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ کُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ حُنَیْنٍ، قَالَ: فَوَلّٰی عَنْہُ النَّاسُ وَثَبَتَ مَعَہُ ثَمَانُونَ رَجُلًا مِنَ الْمُہَاجِرِین وَالْأَنْصَارِ، فَنَکَصْنَا عَلٰی أَقْدَامِنَا نَحْوًا مِنْ ثَمَانِینَ قَدَمًا وَلَمْ نُوَلِّہِمُ الدُّبُرَ، وَہُمُ الَّذِینَ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْہِمُ السَّکِینَۃَ، قَالَ: وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی بَغْلَتِہِ یَمْضِی قُدُمًا فَحَادَتْ بِہِ بَغْلَتُہُ، فَمَالَ عَنِ السَّرْجِ فَقُلْتُ لَہُ: ارْتَفِعْ رَفَعَکَ اللَّہُ، فَقَالَ: ((نَاوِلْنِی کَفًّا مِنْ تُرَابٍ۔)) فَضَرَبَ بِہِ وُجُوہَہُمْ فَامْتَلَأَتْ أَعْیُنُہُمْ تُرَابًا، ثُمَّ قَالَ: ((أَیْنَ الْمُہَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ؟)) قُلْتُ: ہُمْ أُولَائِ قَالَ: ((اہْتِفْ بِہِمْ۔)) فَہَتَفْتُ بِہِمْ فَجَائُ وْا وَسُیُوفُہُمْ بِأَیْمَانِہِمْ کَأَنَّہَا الشُّہُبُ، وَوَلَّی الْمُشْرِکُونَ أَدْبَارَہُمْ۔ (مسند احمد: ۴۳۳۶)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ حنین کے دن میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ تھا، لوگ پیٹھ دے کر اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو میدان میں چھوڑ کر فرار ہو نے لگے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ صرف اسی مہاجرین اور انصار باقی رہ گئے تھے، ہم اپنے قدموں پر تقریباً اسی قدم پیچھے ہٹے تھے اور ہم نے کفار کو پیٹھ نہیں دکھائی تھی، انہی لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے سکینت نازل کی تھی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے خچر پر سوار ہو کر آگے بڑھتے گئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خچر بدکا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی کاٹھی سے ذرا اُچھکے، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا: آپ سیدھے ہو جائیں، اللہ آپ کو مزید بلند کرے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے ایک مٹھی بھر مٹی پکڑاؤ۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ مٹی کفار کے چہروں کی طرف پھینکی، ان کی آنکھیں مٹی سے بھر گئی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مہاجرین اور انصار کہاں ہیں؟ میں نے عرض کیا: وہ لوگ ادھر ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کو آواز دے کر بلاؤ۔ میں نے ان کو آواز دے کر بلایا، وہ سب آگئے، ان کی تلواریں ان کے ہاتھوں میں تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ وہ آگ کے شعلے ہیں، اس کے بعد مشرکین پیٹھ دکھا کر بھاگ گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10901

۔ (۱۰۹۰۱)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: فَتَحْنَا مَکَّۃَ ثُمَّ إِنَّا غَزَوْنَا حُنَیْنًا: فَجَائَ الْمُشْرِکُونَ بِأَحْسَنِ صُفُوفٍ رَأَیْتُ أَوْ رَأَیْتَ، فَصُفَّ الْخَیْلُ، ثُمَّ صُفَّتِ الْمُقَاتِلَۃُ، ثُمَّ صُفَّتِ النِّسَائُ مِنْ وَرَائِ ذٰلِکَ، ثُمَّ صُفَّتِ الْغَنَمُ، ثُمَّ صُفَّتِ النَّعَمُ، قَالَ: وَنَحْنُ بَشَرٌ کَثِیرٌ قَدْ بَلَغْنَا سِتَّۃَ آلَافٍ وَعَلٰی مُجَنِّبَۃِ خَیْلِنَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ، قَالَ: فَجَعَلَتْ خُیُولُنَا تَلُوذُ خَلْفَ ظُہُورِنَا، قَالَ: فَلَمْ نَلْبَثْ أَنِ انْکَشَفَتْ خُیُولُنَا، وَفَرَّتِ الْأَعْرَابُ وَمَنْ نَعْلَمُ مِنَ النَّاسِ، قَالَ: فَنَادٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا لَلْمُہَاجِرِینَ! یَا لَلْمُہَاجِرِینَ!)) ثُمَّ قَالَ: ((یَا لَلْأَنْصَارِ! یَا لَلْأَنْصَارِ!)) قَالَ أَنَسٌ: ہٰذَا حَدِیثُ1 عِمِّیَّۃٍ، قَالَ: قُلْنَا: لَبَّیْکَیَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَیْمُ اللّٰہِ! مَا أَتَیْنَاہُمْ حَتّٰی ہَزَمَہُمُ اللَّہُ، قَالَ: فَقَبَضْنَا ذٰلِکَ الْمَالَ ثُمَّ انْطَلَقْنَا إِلَی الطَّائِفِ فَحَاصَرْنَاہُمْ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً، ثُمَّ رَجَعْنَا إِلٰی مَکَّۃَ، قَالَ: فَنَزَلْنَا فَجَعَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُعْطِی الرَّجُلَ الْمِائَۃَ، وَیُعْطِی الرَّجُلَ الْمِائَۃَ، قَالَ: فَتَحَدَّثَ الْأَنْصَارُ بَیْنَہَا أَمَّا مَنْ قَاتَلَہُ فَیُعْطِیہِ، وَأَمَّا مَنْ لَمْ یُقَاتِلْہُ فَلَا یُعْطِیہِ، قَالَ: فَرُفِعَ الْحَدِیثُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ أَمَرَ بِسَرَاۃِ الْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ أَنْ یَدْخُلُوا عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ: ((لَا یَدْخُلْ عَلَیَّ إِلَّا أَنْصَارِیٌّ أَوِ الْأَنْصَارُ۔)) قَالَ: فَدَخَلْنَا الْقُبَّۃَ حَتَّی مَلَأْنَا الْقُبَّۃَ، قَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ! (أَوْ کَمَا قَالَ) مَا حَدِیثٌ أَتَانِی؟)) قَالُوْا: مَا أَتَاکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((مَا حَدِیثٌ أَتَانِی؟)) قَالُوا: مَا أَتَاکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((أَلَا تَرْضَوْنَ أَنْ یَذْہَبَ النَّاسُ بِالْأَمْوَالِ، وَتَذْہَبُونَ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی تَدْخُلُوا بُیُوتَکُمْ؟)) قَالُوْا: رَضِینَایَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَوْ أَخَذَ النَّاسُ شِعْبًا وَأَخَذَتِ الْأَنْصَارُ شِعْبًا لَأَخَذْتُ شِعْبَ الْأَنْصَارِ۔)) قَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! رَضِینَا، قَالَ: ((فَارْضَوْا۔)) أَوْ کَمَا قَالَ۔ (مسند احمد: ۱۲۶۳۵)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے مکہ مکرمہ کو فتح کر لیا، پھر ہم نے حنین پر چڑھائی کی، اس موقع پر مشرکین اس قدر عمدہ صف بندی کر کے آئے کہ میں نے اور تم نے اس سے بہتر صف بندی نہیں دیکھی ہو گی۔ سب سے پہلے گھوڑوں کی قطار بنائی گئی، پھر پیدل جنگ جو لوگوں کی قطار تھی، ان کے پیچھے عورتوں کی قطار تھی، ان کے پیچھے بکریوں کی اور ان سے پیچھے اونٹوں کی، ہماری بھی بہت تعداد تھی، ہم چھ ہزار کی تعداد کو پہنچ رہے تھے اور ہمارے گھڑ سواروں کے جو دستے لشکر کے دونوں پہلوؤں میں تھے، ان کے سربراہ سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، ہمارے گھوڑے ہماری سواریوں اونٹوں کی پناہ ڈھونڈنے لگے، تھوڑی دیر گزری تھی کہ ہمارے گھوڑے بھاگ اُٹھے اور دیہاتی لوگ اور جن لوگوں کو ہم پہنچانتے تھے، وہ سب فرار ہونے لگے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آوازیں دیں: او مہاجرو! او مہاجرو! پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انصار کو آواز دی اور فرمایا: او انصاریو! او انصاریو! سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث ان احادیث میں سے ہے جو مجھے میرے چچا نے بیان کی ہیں، (اور قاضی عیاض نے لکھا ہے کہ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ یہ حدیث ان احادیث میں سے ہے جو مجھے بہت سے لوگوں نے بیان کی ہے۔) وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پکار پر ہم سب نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!ہم حاضر ہیں، تب اللہ کے رسول آگے بڑھے، اللہ کی قسم! ہمارے ان کے پاس پہنچتے ہی اللہ تعالیٰ نے ان دشمنوں کو شکست سے دو چار کر دیا۔ ہم نے وہ سارا مال اپنے قبضے میں لے لیا، پھر ہم طائف کی طرف چل دئیے، ہم نے چالیس دن تک ان کا محاصرہ کئے رکھا، اس کے بعد ہم مکہ مکرمہ کی طرف واپس لوٹ آئے، ہم یہاں پہنچے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک ایک آدمی کو سو سو (اونٹ) دینا شروع کیے، انصار آپس میں کچھ ایسی باتیں کرنے لگے کہ جن لوگوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے لڑائیاں کیں،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان ہی کو دے رہے ہیں اور جن لوگوں نے آپ سے کبھی لڑائی نہیں کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو نہیں دے ! حَدِیثُ عِمِّیَّۃٍ کے حوالے سے مختلف وجوہات کے لیے شرح النووی ملاحظہ فرمائیں۔ (عبداللہ رفیق) رہے۔ جب یہ بات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک جا پہنچی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مہاجرین اور انصار کے سرکردہ لوگوں کو اپنے پاس بلوا کر فرمایا: انصار کے سوا کوئی دوسرا آدمی میرے پاس نہ آئے۔ ہم خیمہ کے اندر چلے گئے، خیمہ بھر گیا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے انصار کی جماعت! یہ مجھ تک کیا بات پہنچی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ تک کون سی بات پہنچی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ اموال لے کر جائیں اور تم اللہ کے رسول کو اپنے گھروں میں ساتھ لے کر جاؤ؟ وہ سب کہنے لگے: اے اللہ کے رسول ! ہم راضی ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تم اسی پر راضی رہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10902

۔ (۱۰۹۰۲)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: لَمَّا اِسْتَقْبَلْنَا وَادِیَ حُنَیْنٍ قَالَ: اِنْحَدَرْنَا فِیْ وَادٍ مِنْ اَوْدِیَۃِ تِہَامَۃَ اَجْوَفَ حَطُوْطٍ، إِنَّمَا نَنْحَدِرُ فِیْہِ اِنْحِدَارًا، قَالَ: وَفِیْ عِمَایَۃِ الْصُبْحِ، وَقَدْ کَانَ الْقَوْمُ کَمَنُوْا لَنَا فِیْ شِعَابِہِ وَفِی أَجْنَابِہِ وَمَضَایِقِہِ قَدْ أَجْمَعُوا وَتَہَیَّئُوا وَأَعَدُّوا، قَالَ: فَوَاللّٰہِ! مَا رَاعَنَا وَنَحْنُ مُنْحَطُّونَ إِلَّا الْکَتَائِبُ، قَدْ شَدَّتْ عَلَیْنَا شَدَّۃَ رَجُلٍ وَاحِدٍ، وَانْہَزَمَ النَّاسُ رَاجِعِینَ، فَاسْتَمَرُّوا لَا یَلْوِی أَحَدٌ مِنْہُمْ عَلٰی أَحَدٍ، وَانْحَازَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ الْیَمِینِ، ثُمَّ قَالَ: ((إِلَیَّ أَیُّہَا النَّاسُ، ہَلُمَّ إِلَیَّ، أَنَا رَسُولُ اللّٰہِ، أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ۔)) قَالَ: فَلَا شَیْئَ احْتَمَلَتِ الْإِبِلُ بَعْضُہَا بَعْضًا فَانْطَلَقَ النَّاسُ إِلَّا أَنَّ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَہْطًا مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ،وَأَہْلِ بَیْتِہِ غَیْرَ کَثِیرٍ، وَفِیمَنْ ثَبَتَ مَعَہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ، وَمِنْ أَہْلِ بَیْتِہِ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ وَالْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَابْنُہُ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ، وَأَبُو سُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ، وَرَبِیعَۃُ بْنُ الْحَارِثِ، وأَیْمَنُ بْنُ عُبَیْدٍ وَہُوَ ابْنُ أُمِّ أَیْمَنَ، وَأُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ، قَالَ: وَرَجُلٌ مِنْ ہَوَازِنَ عَلَی جَمَلٍ لَہُ أَحْمَرَ، فِییَدِہِ رَایَۃٌ لَہُ سَوْدَائُ فِی رَأْسِ رُمْحٍ طَوِیلٍ لَہُ أَمَامَ النَّاسِ، وَہَوَازِنُ خَلْفَہُ، فَإِذَا أَدْرَکَ طَعَنَ بِرُمْحِہِ وَإِذَا فَاتَہُ النَّاسُ رَفَعَہُ لِمَنْ وَرَائَ ہُ فَاتَّبَعُوہُ۔ (مسند احمد: ۱۵۰۹۱)
عبدالرحمن بن جابر سے مروی ہے، وہ اپنے والد سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: جب ہم وادیٔ حنین کے سامنے پہنچے تو ہمارا گزر تہامہ کی ایک ایسی وادی سے ہوا، جو کافی وسیع اور چوڑی تھی اور بلندی سے پستی کی طرف مائل تھی،ہم اس میں اوپر سے نیچے کی طرف اترے جا رہے تھے، صبح کے جھٹ پٹے کا وقت تھا، دشمن ہمارے مقابلہ کے لیے وادی کے پہاڑوں کی گھاٹیوں میں مختلف مقامات اور تنگ جگہوں میں چھپے ہوئے تھے، وہ ہمارے مقابلہ کے لیے جمع تھے اور پوری طرح تیار تھے۔ اللہ کی قسم! ہم وادی میں نیچے کو اترتے جا رہے تھے کہ ان کے دستوں نے ہم پر یک بار گی حملہ کر دیا، ہمارے لوگ اس اچانک حملے سے بدحواس ہو کر شکست خوردہ ہو کر دوڑ گئے۔ کوئی کسی کی طرف دیکھتا نہیں تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی راستے سے داہنی طرف ہو گئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو! میری طرف آجاؤ، میرے پاس آجاؤ، میں اللہ کا رسول ہوں، میں محمد بن عبداللہ ہوں۔ وقتی طور پر کسی نے جواب نہ دیا، اونٹ ایک دوسرے پر غضبانک ہوکر بھاگ رہے تھے لوگ چل رہے تھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ کچھ مہاجرین وانصار اور اہل بیت کے کچھ افراد رہ گئے۔ آپ کے پاس رہ جانے والوں میں سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما اور اہل بیت میں سے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، سیدنا عباس بن عبدالمطلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، ان کے فرزند سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ، سیدنا ابو سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بن حارث، سیدنا ربیعہ بن حارث رضی اللہ عنہ، سیدہ ام ایمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے بیٹے سیدنا ایمن بن عبید اور سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے نام ہیں۔ بنو ہوازن کا ایک فرد جو سرخ اونٹ پر سوار تھا، اور اس کے ہاتھ میں طویل نیزے کے سرے پر سیاہ علم لہرا رہا تھا، وہ اپنے قبیلہ کے آگے آگے تھا اور باقی سارا بنو ہوازن اس کی اقتداء میں چلا جا رہا تھا، جب راستے میں کوئی مسلمان ملتا وہ اس پر نیزے کا وار کر دیتا اور جب لوگ گزر جاتے تو اپنے جھنڈے کو اپنے پیچھے والوں کی راہنمائی کے لیے بلند کر دیتا اور لوگ اس کے پیچھے پیچھے چلتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10903

۔ (۱۰۹۰۳)۔ قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ وَحَدَّثَنِی عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ جَابِرٍ عَنْ أَبِیہِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: بَیْنَا ذٰلِکَ الرَّجُلُ مِنْ ہَوَازِنَ صَاحِبُ الرَّایَۃِ عَلَی جَمَلِہِ، ذٰلِکَ یَصْنَعُ مَا یَصْنَعُ، إِذْ ہَوٰی لَہُ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ وَرَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ یُرِیدَانِہِ، قَالَ: فَیَأْتِیہِ عَلِیٌّ مِنْ خَلْفِہِ فَضَرَبَ عُرْقُوبَیِ الْجَمَلِ فَوَقَعَ عَلٰی عَجُزِہِ، وَوَثَبَ الْأَنْصَارِیُّعَلَی الرَّجُلِ فَضَرَبَہُ ضَرْبَۃً أَطَنَّ قَدَمَہُ بِنِصْفِ سَاقِہِ، فَانْعَجَفَ عَنْ رَحْلِہِ، وَاجْتَلَدَ النَّاسُ فَوَاللّٰہِ! مَا رَجَعَتْ رَاجِعَۃُ النَّاسِ مِنْ ہَزِیمَتِہِمْ حَتّٰی وَجَدُوْا الْأَسْرٰی مُکَتَّفِینَ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۵۰۹۲)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: وہ ہوازن کا علم بردار آدمی اپنے اونٹ پر سوار ایسی ہی کاروائیاں کرتا جا رہا تھا کہ سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ایک انصاری شخص اس کی طرف گئے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کے پیچھے جا کر اونٹ کی کونچوں پر وار کیا، اونٹ اپنے پیچھے کے بل گر پڑا، انصاری نے پھرتی سے دوڑ کر اس پر وار کر کے نصف پنڈلی سے اس کا پاؤں کاٹ ڈالا، جس سے ہڈی کے ٹوٹنے کی آواز بھی آئی، پس وہ اپنے اونٹ سے نیچے جا گرا اور مسلمانوں نے جرأت وبہادری کا مظاہرہ کیا،اللہ کی قسم! یہ شکست خوردہ مسلمان جب پلٹ کر آئے تو انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس دشمن قیدیوں کو اس حال میں پایا کہ ان کے ہاتھ بندھے ہو ئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10904

۔ (۱۰۹۰۴)۔ عَنْ اَبِیْ اِسْحٰقَ قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَائَ وَسَأَلَہُ رَجُلٌ مِنْ قَیْسٍ فَقَالَ: أَفَرَرْتُمْ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ حُنَیْنٍ؟ فَقَالَ الْبَرَائُ: وَلٰکِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یَفِرَّ، کَانَتْ ہَوَازِنُ نَاسًا رُمَاۃً، وَإِنَّا لَمَّا حَمَلْنَا عَلَیْہِمْ انْکَشَفُوا، فَأَکْبَبْنَا عَلَی الْغَنَائِمِ فَاسْتَقْبَلُونَا بِالسِّہَامِ، وَلَقَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی بَغْلَتِہِ الْبَیْضَائِ، وَإِنَّ أَبَا سُفْیَانَ بْنَ الْحَارِثِ آخِذٌ بِلِجَامِہَا، وَہُوَ یَقُولُ: ((أَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ۔)) (مسند احمد: ۱۸۶۶۷)
ابو اسحاق سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سنا، جبکہ بنو قیس کے ایک آدمی نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ لوگ غزوۂ حنین کے موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے؟ انھوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو فرار نہیں ہو ئے تھے، دراصل بنو ہوازن ماہر تیر انداز تھے، جب ہم نے ان پر حملہ کیا تو وہ تتر بترہو گئے۔ ہم اموالِ غنیمت جمع کرنے لگے، انہوں نے تیروں کے ذریعے ہمارا سامنا کیا، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا آپ اپنے سفید خچر پر سوار تھے، اور ابو سفیان بن حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس کی باگ کو تھامے ہوئے تھے، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ رجز کہتے جاتے تھے۔ أَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ ( میں اللہ کا نبی ہوں، اس میں کوئی جھوٹ نہیں اور میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10905

۔ (۱۰۹۰۵)۔ حَدَّثَنَا إِیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہَوَازِنَ وَغَطَفَانَ، فَبَیْنَمَا نَحْنُ کَذٰلِکَ إِذْ جَائَ رَجُلٌ عَلٰی جَمَلٍ أَحْمَرَ فَانْتَزَعَ شَیْئًا مِنْ حَقَبِ الْبَعِیرِ فَقَیَّدَ بِہِ الْبَعِیرَ، ثُمَّ جَاء َ یَمْشِی حَتّٰی قَعَدَ مَعَنَایَتَغَدّٰی، قَالَ: فَنَظَرَ فِی الْقَوْمِ فَإِذَا ظَہْرُہُمْ فِیہِ قِلَّۃٌ، وَأَکْثَرُہُمْ مُشَاۃٌ، فَلَمَّا نَظَرَ إِلَی الْقَوْمِ خَرَجَ یَعْدُو، قَالَ: فَأَتٰی بَعِیرَہُ فَقَعَدَ عَلَیْہِ، قَالَ: فَخَرَجَ یَرْکُضُہُ وَہُوَ طَلِیعَۃٌ لِلْکُفَّارِ، فَاتَّبَعَہُ رَجُلٌ مِنَّا مِنْ أَسْلَمَ عَلٰی نَاقَۃٍ لَہُ وَرْقَائَ، قَالَ إِیَاسٌ: قَالَ أَبِی: فَاتَّبَعْتُہُ أَعْدُو عَلَی رِجْلَیَّ، قَالَ: وَرَأْسُ النَّاقَۃِ عِنْدَ وَرِکِ الْجَمَلِ، قَالَ: وَلَحِقْتُہُ فَکُنْتُ عِنْدَ وَرِکِ النَّاقَۃِ، وَتَقَدَّمْتُ حَتّٰی کُنْتُ عِنْدَ وَرِکِ الْجَمَلِ، ثُمَّ تَقَدَّمْتُ حَتّٰی أَخَذْتُ بِخِطَامِ الْجَمَلِ، فَقُلْتُ لَہُ: إِخْ، فَلَمَّا وَضَعَ الْجَمَلُ رُکْبَتَہُ إِلَی الْأَرْضِ اخْتَرَطْتُ سَیْفِی فَضَرَبْتُ رَأْسَہُ فَنَدَرَ، ثُمَّ جِئْتُ بِرَاحِلَتِہِ أَقُودُہَا فَاسْتَقْبَلَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَعَ النَّاسِ، قَالَ: ((مَنْ قَتَلَ ہٰذَا الرَّجُلَ؟)) قَالُوا: ابْنُ الْأَکْوَعِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَہُ سَلَبُہُ أَجْمَعُ۔)) (مسند احمد: ۱۶۶۵۱)
سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مل کر بنو ہوازن اور غطفان پر حملہ کیا، ہم لڑائی میں مصروف تھے کہ ایک آدمی اپنے سرخ اونٹ پر سوار آیا، اس نے اونٹ کے اوپر بندھی تھیلی سے کوئی چیز نکال کر اس کے ساتھ اونٹ کو باندھا، پھر وہ چلتا چلتا آکر ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے لگا، اس سے لوگوں پر نظر ڈالی اس نے دیکھا کہ تعداد بہت کم ہے، اور اکثر لوگ پیدل ہیں، اس نے جب یہ حالت دیکھی تو بھاگ کھڑا ہوا، اونٹ کے پاس پہنچ کر اس پر بیٹھا اور اسے ایڑ لگا دی، درحقیقت وہ کفار کا جاسوس تھا، ہم میں سے بنو اسلم کا ایک آدمی اپنی سفید اونٹنی پر سوار ہو کر اس کے پیچھے ہو لیا۔ سیدنا سلمہ کہتے ہیں: میں بھی پیدل اس کے پیچھے دوڑا، مسلمان کی اونٹنی کا سر کافر کے اونٹ کے پچھلے حصے کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ ( یعنی دونوں قریب قریب تھے) میں آگے بڑھ کر اونٹ کے پیچھے پہنچ گیا۔ پھر میں نے اونٹ سے آگے نکل کر اس کی لگام پکڑ لی، اورمیں نے مخصوص آواز دے کر اونٹ کو بٹھایا، جب اونٹ نے اپنے گھٹنے زمین پر رکھ دئیے تو میں نے اپنی تلوار لہرا کر اس کے سر پر ماری، اس کا سر اڑ گیا، پھر میں اس کا اونٹ لیے آیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے لوگوں کے ہمراہ ملے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: اس آدمیکو کس نے قتل کیا؟ لوگوں نے بتلایا کہ سیدنا ابن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس سے چھینا ہوا سارا مال اسی کا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10906

۔ (۱۰۹۰۶)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ حُنَیْنٍ: ((مَنْ تَفَرَّدَ بِدَمِ رَجُلٍ فَقَتَلَہُ فَلَہُ سَلَبُہُ۔)) قَالَ: فَجَائَ أَبُو طَلْحَۃَ بِسَلَبِ أَحَدٍ وَعِشْرِینَ رَجُلًا۔ (مسند أحمد: ۱۳۰۷۲)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غزوۂ حنین کے موقع پر فرمایا: جو آدمی جس کو قتل کرنے میں اکیلا ہو گا، تو اس سے چھینا ہوا مال اسی کے لیے ہو گا۔ اس دن سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اکیس افراد کا سلب لے کر آئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10907

۔ (۱۰۹۰۷)۔ (وَعَنْہٗمِنْطَرِیْقٍ ثَانٍ) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ یَوْمَ حُنَیْنٍ: ((مَنْ قَتَلَ کَافِرًا فَلَہٗسَلَبُہٗ۔)) قَالَ: فَقَتَلَاَبُوْطَلْحَۃَ عِشْرِیْنَ۔ (مسند أحمد: ۱۲۱۵۵)
۔(دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غزوۂ حنین کے موقع پر فرمایا: جس نے کسی کافر کو قتل کیا، اسی کے لیے اس کا سلب ہو گا۔ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیس کافر قتل کیے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10908

۔ (۱۰۹۰۸)۔ وَعَنْہٗاَیْضًا، قَالَ: وَقَالَ أَبُوقَتَادَۃَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی ضَرَبْتُ رَجُلًا عَلَی حَبْلِ الْعَاتِقِ، وَعَلَیْہِ دِرْعٌ لَہُ: وَأُجْہِضْتُ عَنْہُ، وَقَدْ قَالَ حَمَّادٌ أَیْضًا: فَأُعْجِلْتُ عَنْہُ، فَانْظُرْ مَنْ أَخَذَہَا، قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: أَنَا أَخَذْتُہَا فَأَرْضِہِ مِنْہَا وَأَعْطِنِیہَا، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا یُسْأَلُ شَیْئًا إِلَّا أَعْطَاہُ أَوْ سَکَتَ، قَالَ فَسَکَتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: وَاللّٰہِ لَا یُفِیئُہَا اللّٰہُ عَلٰی أَسَدٍ مِنْ أُسْدِہِ وَیُعْطِیکَہَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((صَدَقَ عُمَرُ۔)) فَضَحِکَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ: ((صَدَقَ عُمَرُ۔)) وَلَقِیَ أَبُو طَلْحَۃَ أُمَّ سُلَیْمٍ وَمَعَہَا خَنْجَرٌ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَۃَ: مَا ہٰذَا مَعَکِ؟ قَالَتْ: أَرَدْتُ إِنْ دَنَا مِنِّی بَعْضُ الْمُشْرِکِینَ أَنْ أَبْعَجَ بِہِ بَطْنَہُ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَۃَ: أَلَا تَسْمَعُ؟ مَا تَقُولُ أُمُّ سُلَیْمٍ؟ قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ اقْتُلْ مَنْ بَعْدَنَا مِنَ الطُّلَقَائِ انْہَزَمُوا بِکَ، فَقَالَ: ((إِنَّ اللّٰہَ قَدْ کَفٰی وَأَحْسَنَ یَا أُمَّ سُلَیْمٍ!)) (مسند احمد: ۱۴۰۲۰)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ غزوۂ حنین کے دن سیدنا ابوقتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میں نے ایک کافر کی گردن پر وار کر کے اس کی گردن کاٹی ہے، وہ مقتول ایک زرہ پہنے ہوئے تھا، میں وہ نہیں اتار سکا، آپ ذرا دیکھیں کہ کس آدمی نے وہ زرہ اتار لی ہے، ( وہ تو میرا حق تھا)۔ایک آدمی نے کہا: وہ زرہ میرے پاس ہے، لیکن اے اللہ کے رسول! اس زرہ کے متعلق آپ اسے راضی کریں اور یہ میرے پاس ہی رہنے دیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عادت ِ مبارکہ تھی کہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کوئی چیز مانگی جاتی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہ دے دیتےیا خاموش رہتے۔ اس آدمی کییہ بات سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش رہے، لیکن سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ نہیں ہو گا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ کے ایک شیر سے یہ زرہ لے کر تمہیں دے دیں۔ یہ بات سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہنس دئیے اور فرمایا: عمر نے ٹھیک کہا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:اس روز سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاتھ میں خنجر تھا، ان کے شوہر سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پوچھا: تمہارے پاس یہ کیا ہے؟ انہوں نے بتلایا کہ میں نے اسے اپنے پاس رکھا ہوا ہے کہ اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا تو میں اس کے ساتھ اس کا پیٹ چیر ڈالوں گی۔ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ ام سلیم کی بات سن رہے ہیں ؟ اتنے میں سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بولیں: اللہ کے رسول! آپ پیچھے رہ جانے والے ان طلقاء کو قتل کر دیں، جو آپ کے ساتھ شکست کھا گے۔ لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ام سلیم! اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد کی اور کیا خوب مدد کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10909

۔ (۱۰۹۰۹)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نُعَیْمٍ الْقَیْسِیِّ قَالَ: حَدَّثَنِی الضَّحَّاکُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَرْزَبٍ الْأَشْعَرِیُّ أَنَّ أَبَا مُوسٰی حَدَّثَہُمْ قَالَ: لَمَّا ہَزَمَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ہَوَازِنَ بِحُنَیْنٍ عَقَدَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِأَبِی عَامِرٍ الْأَشْعَرِیِّ عَلٰی خَیْلِ الطَّلَبِ، فَطَلَبَ فَکُنْتُ فِیمَنْ طَلَبَہُمْ فَأَسْرَعَ بِہِ فَرَسُہُ فَأَدْرَکَ ابْنَ دُرَیْدِ بْنِ الصِّمَّۃِ فَقَتَلَ أَبَا عَامِرٍ وَأَخَذَ اللِّوَائَ، وَشَدَدْتُ عَلَی ابْنِ دُرَیْدٍ فَقَتَلْتُہُ وَأَخَذْتُ اللِّوَائَ، وَانْصَرَفْتُ بِالنَّاسِ، فَلَمَّا رَآنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَحْمِلُ اللِّوَائَ قَالَ: ((یَا أَبَا مُوسٰی! قُتِلَ أَبُو عَامِرٍ؟)) قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: فَرَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَفَعَ یَدَیْہِیَدْعُویَقُولُ: ((اللَّہُمَّ عُبَیْدَکَ عُبَیْدًا أَبَا عَامِرٍ اجْعَلْہُ مِنَ الْأَکْثَرِینَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۹۷۹۶)
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے حنین میں بنو ھوازن کو ہزیمت سے دو چار کیا، تو رسول اللہ نے بھاگ جانے والے مشرکین کا پیچھا کرنے کے لیے سیدنا ابو عامر اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو گھڑ سواروں کے ایک دستہ پر مامور فرمایا،یہ ان کے پیچھے روانہ ہوئے، میں بھی ان کے ہمراہ تھا، سیدنا ابو عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا گھوڑا تیزی سے ان کو لے کر آگے نکل گیا، انہوں نے ابن درید بن کو جا لیا، ابن درید نے ابو عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کر دیا اور ان کا جھنڈا قبضے میں لے لیا، میں نے ابن درید کا پیچھا کر کے اسے قتل کر دیا اور جھنڈا دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیا، اور میں لوگوں کے ہمراہ واپس ہوا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے جھنڈا اُٹھائے دیکھا تو فرمایا: اے ابو موسیٰ ! کیا ابو عامر قتل ہو گئے ہیں؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کے رسول! میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے دونوںہاتھ اٹھائے یہ دعا کر رہے تھے: اے اللہ اپنے پیارےبندے عبید ابو عامر کو قیامت کے روز ان لوگوں میں بنانا جن کے صالح اعمال بہت اور بے شمار بلند درجات ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10910

۔ (۱۰۹۱۰)۔ عَن أَبِی وَائِلٍ عَن أَبِی مُوسٰی قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اللَّہُمَّ اجْعَلْ عُبَیْدًا أَبَا عَامِرٍ فَوْقَ أَکْثَرِ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) قَالَ: فَقُتِلَ عُبَیْدٌیَوْمَ أَوْطَاسٍ وَقَتَلَ أَبُو مُوسَی قَاتِلَ عُبَیْدٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو وَائِلٍ: وَإِنِّی لَأَرْجُوْ أَنْ لَا یَجْمَعَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بَیْنَ قَاتِلِ عُبَیْدٍ وَبَیْنَ أَبِی مُوسَی فِی النَّارِ۔ (مسند احمد: ۱۹۹۲۹)
سیدنا ابو موسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! ابو عامر عبید کو قیامت کے دن اکثر لوگوں پر مرتبہ کے لحاظ سے فوقیت عطا کرنا۔ یہ سیدنا عبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ او طاس کے دن شہید ہو گئے تھے اور سیدنا ابو موسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عبید کے قاتل (ابن درید) کو قتل کر دیاتھا،ابو وائل کہتے ہیں مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ عبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قاتل اور میرے والد کو جہنم میں جمع نہیں کرے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10911

۔ (۱۰۹۱۱)۔ عَنْ اَبِی نَجِیْحٍ السُّلَمِیِّ قَالَ: حَاصَرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِصْنَ الْطَائِفِ اَوْ قَصْرَ الطَّائِفِ، فَقَالَ: ((مَنْ بَلَغَ بِسَہْمٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَلَہٗدَرَجَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ۔)) فَبَلَغْتُ یَوْمَئِذٍ سِتَّۃَعَشَرَ سَہْمًا، ((وَمَنْ رَمٰی بِسَہْمٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَہُوَ لَہٗعِدْلُمُحَرَّرٍ،وَمَنْاَصَابَہٗشَیْبٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَہُوَ لَہٗنُوْرٌیَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۹۶۴۸)
سیدنا ابونجیح سلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں طائف کے قلعہ یا محل کا محاصرہ کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ کی راہ میں ایک تیر چلایا، اسے جنت میں ایک درجہ ملے گا۔ چنانچہ میں نے اس دن سولہ تیر چلائے۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزید فرمایا: اور جس نے اللہ کی راہ میں دشمن کو تیر مارا، اسے ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنے کے برابر ثواب ہو گا اور جو آدمی اللہ کی راہ میں بوڑھا ہو گیا تو بڑھاپے کییہ سفیدی قیامت کے دن اس کے لیے نور کا سبب ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10912

۔ (۱۰۹۱۲)۔ عَنْ اَبِیْ طَرِیْفٍ قَالَ: کُنْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِیْنَ حَاصَرَ الطَّائِفَ، وَکَانَ یُصَلِّی بِنَا صَلَاۃَ الْعَصْرِ حَتّٰی لَوْ اَنَّ رَجُلًا رَمٰی لَرَاٰی مَوْقِعَ نَبْلِہٖ۔ (مسند احمد: ۱۵۵۱۶)
سیدنا ابو طریف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے طائف کا محاصرہ کیا تو میں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں عصرکی نماز ایسے وقت پڑھاتے تھے کہ اگر کوئی آدمی اس نماز سے فارغ ہو کر تیر کے گرنے کی جگہ کو دیکھنا چاہتا تو ( باآسانی ) دیکھ سکتا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10913

۔ (۱۰۹۱۳)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: حَاصَرَ رَسُْوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَھْلَ الطَّائِفِ، فَخَرَجَ اِلَیْہِ عَبْدَانِ فَاَعْتَقَہُمَا، اَحَدُھُمَا اَبُوْ بَکْرَۃَ، وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُعْتِقُ الْعَبِیْدَ إِذَا خَرَجُوْا إِلَیْہِ۔ (مسند احمد: ۲۱۷۶)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اہلِ طائف کا محاصرہ کیا تو ان میں سے دو غلام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ آملے، ان میں سے ایک کا نام ابو بکرہ تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان دونوں کو آزاد کر دیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عادت ِ مبارکہ یہی تھی کہ جب دشمن کی طرف سے کوئی غلام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ آ ملتا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کو آزاد فرما دیتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10914

۔ (۱۰۹۱۴)۔ (وَعَنْہٗمِنْطَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ الطَّائِفِ: ((مَنْ خَرَجَ إِلَیْنَا مِنَ الْعَبِیدِ فَہُوَ حُرٌّ۔)) فَخَرَجَ عَبِیدٌ مِنَ الْعَبِیدِ فِیہِمْ أَبُو بَکْرَۃَ، فَأَعْتَقَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند أحمد: ۲۲۲۹)
۔(دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے طائف والے دن فرمایا: جو غلام ہمارے پاس آ جائیں گے، وہ آزاد ہوں گے۔ پھر سیدنا ابو بکرہ سمیت کچھ غلام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آگئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو آزاد کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10915

۔ (۱۰۹۱۵)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا اَحْصَرَ اَھْلَ الطَّائِفِ وَلَمْ یُقَدِّرْ مِنْہُمْ عَلٰی شَیْئٍ، قَالَ: ((إِنَّا قَافِلُوْنَ غَدًا إِنْ شَائَ اللّٰہُ۔)) فَکَاَنَّ الْمُسْلِمِیْنَ کَرِھُوْا ذٰلِکَ، فَقَالَ: ((اغْدُوْا۔)) فَغَدَوْا عَلَی الْقِتَالِ، فَاَصَابَہُمْ جِرَاحٌ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ: ((إِنَّا قَافِلُوْنَ غَدًا اِنْ شَائَ اللّٰہُ۔)) فَسُرَّ الْمُسْلِمُوْنَ فَضَحِکَ رَسُوْلُ اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۴۵۸۸)
سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب اہلِ طائف کا محاصرہ کیا اور کامیابی نہیں ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم ان شاء اللہ کل واپس روانہ ہو جائیں گے۔ یوں محسوس ہوا کہ گویا مسلمانوں نے اس فیصلہ کو پسند نہیں کیا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے صبح لڑائی کرنا۔ جب صبح ہوئی تو مسلمانوں نے لڑائی کی، جس کے نتیجہ میں کافی مسلمان زخمی ہوئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: ہم ان شاء اللہ کل واپس روانہ ہو جائیں گے۔ یہ سن کر مسلمان خوش ہو گئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کییہ کیفیت دیکھ کر ہنس دئیے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10916

۔ (۱۰۹۱۶)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَسَمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَنَائِمَ حُنَیْنٍ بِالْجِعِرَّانَۃِ، قَالَ: فَازْدَحَمُوا عَلَیْہِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِ اللّٰہِ بَعَثَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ إِلٰی قَوْمِہِ فَکَذَّبُوہُ وَشَجُّوہُ۔)) فَجَعَلَ یَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ جَبِینِہِ وَیَقُولُ: ((رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِی فَإِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُونَ۔)) قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: فَکَأَنِّی أَنْظُرُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَمْسَحُ جَبْہَتَہُ یَحْکِی الرَّجُلَ۔ (مسند احمد: ۴۰۵۷)
سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حنین کے اموالِ غنیمت جعرانہ کے مقام پر تقسیم کیے، لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اردگر جمع ہو گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ہجوم کیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر مبعوث کیا، جب قوم نے اس کی تکذیب کی اور اس کا سر زخمی، خون آلود کیا، تو وہ اپنی پیشانی سے خون صاف کرتا اور کہتا تھا، اے میرے رب! میری قوم کو معاف کر دے، وہ حقیقت سے واقف نہیں۔ ابو وائل کہتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: گویا میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ اس بندے کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی پیشانی کو صاف کرنے کا اشارہ بھی کر رہے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10917

۔ (۱۰۹۱۷)۔ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَیَّۃَ قَالَ: أَعْطَانِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ حُنَیْنٍ، وَإِنَّہُ لَأَبْغَضُ النَّاسِ إِلَیَّ، فَمَا زَالَ یُعْطِینِی حَتّٰی صَارَ وَإِنَّہُ لَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَیَّ۔ (مسند احمد: ۱۵۳۷۸)
سیدنا صفوان بن امیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ بغض تھا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حنین کے دن مجھے مالِ غنیمت میں سے حصہ دیا اور مجھے برابر عنایت فرماتے رہے تاآنکہ وہ میری نظروں میں سب لوگوں سے زیادہ محبوب ٹھہرے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10918

۔ (۱۰۹۱۸)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: کُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَامَ الْجِعْرَانَۃِ، وَہُوَ یَقْسِمُ فِضَّۃً فِی ثَوْبِ بِلَالٍ لِلنَّاسِ، فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ اعْدِلْ، فَقَالَ: ((وَیْلَکَ وَمَنْ یَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ؟ لَقَدْ خِبْتُ إِنْ لَمْ أَکُنْ أَعْدِلُ۔)) فَقَالَ عُمَرُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! دَعْنِی أَقْتُلْ ہٰذَا الْمُنَافِقَ، فَقَالَ: ((مَعَاذَ اللّٰہِ أَنْ یَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنِّی أَقْتُلُ أَصْحَابِی، إِنَّ ہٰذَا وَأَصْحَابَہُ یَقْرَئُ وْنَ الْقُرْآنَ، لَا یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ، أَوْ تَرَاقِیَہُمْ،یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ مُرُوقَ السَّہْمِ مِنَ الرَّمِیَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۴۸۶۴)
جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میں جعرانہ والے سال رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں آیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے کپڑے میں چاندی ڈال کر لوگوں میں تقسیم فرما رہے تھے، تو ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! انصاف کرو، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تجھ پر بڑا افسوس ہے، اگر میں نے انصاف نہیں کیا تو اور کون کرے گا؟ اگر میں انصاف نہیں کیا تو تو میںیقینا سر ا سر خسارے میں ہوں۔ اس آدمی کی بات سن کر عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے میں اس منافق کا کام تمام کر دوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس بات سے اللہ کی پناہ، لوگ باتیں بنائیں گے کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہوں۔ بے شک یہ اور اس کے دوسرے ساتھی (بظاہر) قرآن تو پڑھتے ہیں۔ لیکن وہ ان کے حلق سے یا سینے سے نیچے نہیں اترتا۔ یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جاتے ہیں جیسے تیر شکار میں سے پار گزر جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10919

۔ (۱۰۹۱۹)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ: شَہِدْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ حُنَیْنٍ، وَجَائَتْہُ وُفُودُ ہَوَازِنَ، فَقَالُوا: یَا مُحَمَّدُ! إِنَّا أَصْلٌ وَعَشِیرَۃٌ فَمُنَّ عَلَیْنَا مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْکَ، فَإِنَّہُ قَدْ نَزَلَ بِنَا مِنْ الْبَلَائِ مَا لَا یَخْفٰی عَلَیْکَ، فَقَالَ: ((اخْتَارُوا بَیْنَ نِسَائِکُمْ وَأَمْوَالِکُمْ وَأَبْنَائِکُمْ۔)) قَالُوا: خَیَّرْتَنَا بَیْنَ أَحْسَابِنَا وَأَمْوَالِنَا نَخْتَارُ أَبْنَائَ نَا، فَقَالَ: ((أَمَّا مَا کَانَ لِی وَلِبَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَہُوَ لَکُمْ، فَإِذَا صَلَّیْتُ الظُّہْرَ فَقُولُوا: إِنَّا نَسْتَشْفِعُ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الْمُؤْمِنِینَ، وَبِالْمُؤْمِنِینَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی نِسَائِنَا وَأَبْنَائِنَا۔)) قَالَ: فَفَعَلُوْا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَمَّا مَا کَانَ لِی وَلِبَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَہُوَ لَکُمْ۔)) وَقَالَ الْمُہَاجِرُونَ: وَمَا کَانَ لَنَا فَہُوَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: مِثْلَ ذٰلِکَ، وَقَالَ عُیَیْنَۃُ بْنُ بَدْرٍ: أَمَّا مَا کَانَ لِی ولِبَنِی فَزَارَۃَ فَلَا،وَقَالَ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ: أَمَّا أَنَا وَبَنُو تَمِیمٍ فَلَا، وَقَالَ عَبَّاسُ بْنُ مِرْدَاسٍ: أَمَّا أَنَا وَبَنُو سُلَیْمٍ فَلَا، فَقَالَتِ الْحَیَّانِ: کَذَبْتَ بَلْ ہُوَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ رُدُّوا عَلَیْہِمْ نِسَائَہُمْ وَأَبْنَائَہُمْ، فَمَنْ تَمَسَّکَ بِشَیْئٍ مِنَ الْفَیْئِ فَلَہُ عَلَیْنَا سِتَّۃُ فَرَائِضَ، مِنْ أَوَّلِ شَیْئٍیُفِیئُہُ اللّٰہُ عَلَیْنَا۔)) ثُمَّ رَکِبَ رَاحِلَتَہُ وَتَعَلَّقَ بِہِ النَّاسُ یَقُولُونَ: اقْسِمْ عَلَیْنَا فَیْئَنَا بَیْنَنَا حَتّٰی أَلْجَئُوہُ إِلٰی سَمُرَۃٍ فَخَطَفَتْ رِدَائَہُ، فَقَالَ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ رُدُّوا عَلَیَّ رِدَائِی، فَوَاللّٰہِ! لَوْ کَانَ لَکُمْ بِعَدَدِ شَجَرِ تِہَامَۃَ نَعَمٌ لَقَسَمْتُہُ بَیْنَکُمْ ثُمَّ لَا تُلْفُونِی بَخِیلًا وَلَا جَبَانًا وَلَا کَذُوبًا۔)) ثُمَّ دَنَا مِنْ بَعِیرِہِ فَأَخَذَ وَبَرَۃً مِنْ سَنَامِہِ فَجَعَلَہَا بَیْنَ أَصَابِعِہِ السَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطٰی ثُمَّ رَفَعَہَا فَقَالَ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ لَیْسَ لِی مِنْ ہٰذَا الْفَیْئِ وَلَا ہٰذِہِ إِلَّا الْخُمُسُ، وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَیْکُمْ، فَرُدُّوْا الْخِیَاطَ وَالْمِضْیَطَ، فَإِنَّ الْغُلُولَ یَکُونُ عَلٰی أَہْلِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَارًا وَنَارًا وَشَنَارًا۔)) فَقَامَ رَجُلٌ مَعَہُ کُبَّۃٌ مِنْ شَعْرٍ، فَقَالَ: إِنِّی أَخَذْتُ ہٰذِہِ أُصْلِحُ بِہَا بَرْدَعَۃَ بَعِیرٍ لِی دَبِرَ، قَالَ: ((أَمَّا مَا کَانَ لِی وَلِبَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَہُوَ لَکَ۔)) فَقَالَ الرَّجُلُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَمَّا إِذْ بَلَغَتْ مَا أَرٰی فَلَا أَرَبَ لِی بِہَا وَنَبَذَہَا۔ (مسند احمد: ۶۷۲۹)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں غزوۂ حنین کے موقعہ پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، کہ بنو ہوازن کے وفود آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے۔ انہوں نے عرض کیا: اے محمد! ہم آپ ہی کا خون اور قبیلہ ہیں، آپ ہم پر احسان کریں، اللہ آپ پر احسان کرے گا۔ بے شک ہم پر ایک ایسی آزمائش آن پڑی ہے، جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مخفی نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنی عورتوں، اموال اور بیٹوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لو۔ انھوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں اپنے حسب ونسب اور اموال کے بارے میں اختیار دیا ہے تو ہم اپنے بیٹوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے اور بنو عبدالمطلب کے حصہ میں جوکچھ آتا ہے، وہ تمہیں واپس کرتا ہوں، جب میں ظہر کی نماز ادا کر لوں تو تم کہنا کہ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مومنین کے سامنے اور مومنین کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے سفارشی کے طور پر پیش کرتے ہوئے اپنی عورتوں اور اولادوں کے بارے میں درخواست گزار ہیں۔ انھوں نے ایسے ہی کیا اور جب انھوں نے کہا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو کچھ میرے اور بنو عبدالمطلب کے حصہ میں آتا ہے، میں وہ تمہیں واپس کرتا ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات سن کر مہاجرین نے کہا: جو کچھ ہمارے حصہ میں آتا ہے، ہم وہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیتے ہیں۔ انصار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی ایسے ہی کہا، عیینہ بن بدر بولا کہ جو میرا اور بنو فزارہ کا حصہ ہے ہم تو وہ نہیں دیں گے۔ اقرع بن حابس نے بھی کہا کہ میں اور بنو تمیم بھی اپنے حصے واپس نہیں کریں گے۔ عباس بن مرداس نے کہا کہ میں اور بنو سلیم بھی اپنے حصے واپس نہیں کرتے۔ اس پر دونوں قبائل نے کہا تم نے غلط کہا: بلکہ ہمارے حصے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے ہیں۔ تب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو!تم ان کی عورتیں اور بیٹے انہیں لوٹا دو، جو آدمی مالِ فے میں سے کچھ رکھنا چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں سب سے پہلے جو مالِ فے دے گا، ہم اسے اس میں سے چھ چھ حصے دیں گے، اس کے بعد آپ اپنے اونٹ پر سوار ہو گئے اور لوگ آپ کو چمٹ گئے، وہ کہہ رہے تھے کہ آپ مال فے ہمارے درمیان تقسیم کریں۔ انہوں نے آپ کو کیکریا ببول کی طرف جانے پر مجبور کر دیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چادر اچک لی گئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو! میری چادر تو واپس کرو۔ اللہ کی قسم! اگر تہامہ کے درختوں کے برابر بھی اونٹ ہوں تو میں ان کو تمہارے درمیان بانٹ دوں گا اور تم مجھے بخیل، بزدل اور جھوٹا نہیں پاؤ گے۔ پھر آپ نے اپنے اونٹ کے قریب ہو کر اس کے کوہان کے چند بال پکڑ کر اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کے درمیان پکڑ کر انگلی کو اوپر کی طرف اُٹھا کر فرمایا: لوگو! اس مال فے میں سے اتنی سی چیز بھی میری نہیں، سوائے خمس کے، اور وہ بھی تم میں تقسیم کر دیا جاتا ہے، تم دھاگہ اور سوئی تک یعنی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی واپس کرو۔ بے شک مال غنیمتیا مالِ فے کی تقسیم سے پہلے کوئی چیز لینا اس آدمی کے لیے قیامت کے دن عار، نار اور عیب کا سبب ہو گا، ایک آدمی جس کے پاس بالوں کا ایک گچھا تھا، وہ اٹھا اور اس نے کہا: میں نے اپنے اونٹ کی پشت پر آئے ہوئے زخم کے اوپر رکھے جانے والے کپڑے کی مرمت کے لیےیہ گچھا لے لیا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس گچھے میں جو میرا اور بنو عبدالمطلب کا حصہ ہے، میں تمہیں وہ معاف کرتا ہوں۔ وہ کہنے لگا: یارسول اللہ! جب بات اس حد تک جا پہنچی ہے، جو میں دیکھ رہا ہوں تو مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں، یہ کہہ کر اس نے وہ گچھا پھینک دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10920

۔ (۱۰۹۲۰)۔ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ أَنَّ مَرْوَانَ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَۃَ أَخْبَرَاہُ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَامَ حِینَ جَائَہُ وَفْدُ ہَوَازِنَ مُسْلِمِینَ، فَسَأَلُوا أَنْ یَرُدَّ إِلَیْہِمْ أَمْوَالَہُمْ وَسَبْیَہُمْ، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَعِی مَنْ تَرَوْنَ وَأَحَبُّ الْحَدِیثِ إِلَیَّ أَصْدَقُہُ، فَاخْتَارُوا إِحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ إِمَّا السَّبْیُ وَإِمَّا الْمَالُ، وَقَدْ کُنْتُ اسْتَأْنَیْتُ بِکُمْ۔)) وَکَانَ أَنْظَرَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِضْعَ عَشْرَۃَ لَیْلَۃً حِینَ قَفَلَ مِنَ الطَّائِفِ، فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَیْرُ رَادٍّ إِلَیْہِمْ إِلَّا إِحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ، قَالُوا: فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْیَنَا فَقَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْمُسْلِمِینَ فَأَثْنٰی عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ إِخْوَانَکُمْ قَدْ جَائُ وْا تَائِبِینَ، وَإِنِّی قَدْ رَأَیْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَیْہِمْ سَبْیَہُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ یُطَیِّبَ ذٰلِکَ فَلْیَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ یَکُونَ عَلٰی حَظِّہِ حَتَّی نُعْطِیَہُ إِیَّاہُ مِنْ أَوَّلِ مَا یُفِیئُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْنَا فَلْیَفْعَلْ۔)) فَقَالَ النَّاسُ: قَدْ طَیَّبْنَا ذٰلِکَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّا لَا نَدْرِی مَنْ أَذِنَ مِنْکُمْ فِی ذٰلِکَ مِمَّنْ لَمْ یَأْذَنْ، فَارْجِعُوا حَتّٰییَرْفَعَ إِلَیْنَا عُرَفَاؤُکُمْ أَمْرَکُمْ۔)) فَجَمَعَ النَّاسُ فَکَلَّمَہُمْ عُرَفَاؤُہُمْ ثُمَّ رَجَعُوا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرُوہُ أَنَّہُمْ قَدْ طَیَّبُوا وَأَذِنُوا، ہٰذَا الَّذِی بَلَغَنِی عَنْ سَبْیِ ہَوَازِنَ۔ (مسند احمد: ۱۹۱۲۱)
عروہ بن زبیر سے مروی ہے کہ سیدنا مروان اور سیدنا مسور بن مخرمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے اسے خبردی کہ جب ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا اور انہوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے درخواست کی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے اموال اور قیدی واپس لوٹا دیں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: تم دیکھ رہے ہو کہ میرے ساتھ کتنے لوگ ہیں، سچی بات کرنا مجھے بہت اچھا لگتا ہے، لہٰذا تم قیدیوںیا مال میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرو، میں اس سے پہلے تمہیں کچھ مہلت دے چکا ہوں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے طائف سے واپسی پر انہیں دس سے زائد راتوں کی مہلت دی تھی،یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اتنا عرصہ ان کا انتظار کرتے رہے، جب انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو دو میں سے کوئی ایک چیز ہی واپس کریں گے، تو انہوں نے کہا: ہم اپنے قیدیوں کا انتخاب کرتے ہیں کہ وہ ہمیں واپس کر دئیے جائیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسلمانوں میں کھڑے ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالیٰ کی ان الفاظ کے ساتھ حمد وثناء بیان کی جس کا حقدار ہے اور پھر فرمایا: تمہارےیہ بھائی تائب ہو کر آئے ہیں، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں ان کے قیدیوں کو ان کے حوالے کر دوں، تم میں سے جو کوئی خوشی سے ایسا کرنا چاہیے تو کرلے اور تم میں سے جو اپنا حصہ لینا چاہتا ہو تو ہمارے پاس سب سے پہلے جو مالِ فے آئے گا، ہم اس سے ان کو حصہ ادا کر دیں گے، جو کوئی ایسا کرنا چاہتا ہو وہ ایسے کر لے۔ لوگوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم بھی بخوشی ایسا ہی کرتے ہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: ہمیں پتہ نہیں چل رہا کہ تم میں سے کس نے اس بات کی اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی، تم لوگ واپس جاؤ اور تمہاری طرف سے تمہارے نمائندے ہمارے پاس آکر تمہاری بات پہنچائیں گے۔ ان نمائندوں نے لوگوں کو جمع کر کے ان سے گفتگو کی، انہوں نے آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو خبر دی کہ انہوں نے بخوشی اس کی اجازت دے دی ہے۔ عروہ نے کہا کہ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق مجھے یہ حدیث پہنچی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10921

۔ (۱۰۹۲۱)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ فَقَالَ الْعَلَاء ُ بْنُ زِیَادٍ الْعَدَوِیُّ: یَا أَبَا حَمْزَۃَ سِنُّ أَیِّ الرِّجَالِ کَانَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذْ بُعِثَ، قَالَ: ابْنَ أَرْبَعِینَ سَنَۃً، قَالَ: ثُمَّ کَانَ مَاذَا؟ قَالَ: کَانَ بِمَکَّۃَ عَشْرَ سِنِینَ وَبِالْمَدِینَۃِ عَشْرَ سِنِینَ، فَتَمَّتْ لَہُ سِتُّونَ سَنَۃً، ثُمَّ قَبَضَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَیْہِ، قَالَ: سِنُّ أَیِّ الرِّجَالِ ہُوَ یَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: کَأَشَبِّ الرِّجَالِ وَأَحْسَنِہِ وَأَجْمَلِہِ وَأَلْحَمِہِ، قَالَ: یَا أَبَا حَمْزَۃَ! ہَلْ غَزَوْتَ مَعَ نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: نَعَمْ، غَزَوْتُ مَعَہُ یَوْمَ حُنَیْنٍ فَخَرَجَ الْمُشْرِکُونَ بِکَثْرَۃٍ، فَحَمَلُوا عَلَیْنَا حَتّٰی رَأَیْنَا خَیْلَنَا وَرَائَ ظُہُورِنَا، وَفِی الْمُشْرِکِینَ رَجُلٌ یَحْمِلُ عَلَیْنَا فَیَدُقُّنَا وَیُحَطِّمُنَا، فَلَمَّا رَأٰی ذَلِکَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَزَلَ، فَہَزَمَہُمُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فَوَلَّوْا، فَقَامَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ رَأَی الْفَتْحَ، فَجَعَلَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُجَائُ بِہِمْ أُسَارٰی رَجُلًا رَجُلًا، فَیُبَایِعُونَہُ عَلَی الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِنَّ عَلَیَّ نَذْرًا لَئِنْ جِیئَ بِالرَّجُلِ الَّذِی کَانَ مُنْذُ الْیَوْمِیُحَطِّمُنَا لَأَضْرِبَنَّ عُنُقَہُ، قَالَ: فَسَکَتَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَجِیئَ بِالرَّجُلِ، فَلَمَّا رَأٰی نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! تُبْتُ إِلَی اللّٰہِ، یَا نَبِیَّ اللّٰہِ تُبْتُ إِلَی اللّٰہِ، فَأَمْسَکَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمْ یُبَایِعْہُ لِیُوفِیَ الْآخَرُ نَذْرَہُ، قَالَ: فَجَعَلَ یَنْظُرُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِیَأْمُرَہُ بِقَتْلِہِ وَجَعَلَ یَہَابُ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یَقْتُلَہُ، فَلَمَّا رَأٰی نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا یَصْنَعُ شَیْئًایَأْتِیہِ فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ نَذْرِی؟ قَالَ: ((لَمْ أُمْسِکْ عَنْہُ مُنْذُ الْیَوْمِ إِلَّا لِتُوفِیَ نَذْرَکَ۔)) فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! أَلَا أَوْمَضْتَ إِلَیَّ؟ فَقَالَ: ((إِنَّہُ لَیْسَ لِنَبِیٍّ أَنْ یُومِضَ۔)) (مسند احمد: ۱۲۵۵۷)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ان سے علاء بن زیاد عدوی نے دریافت کیا اور کہا: اے ابو حمزہ! کیا آپ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ کسی غزوہ میں شرکت کی؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ غزوۂ حنین میں شرکت کی تھی۔ مشرکین بہت بڑی تعداد میں ہمارے مقابلے کو نکلے اور ہمارے اوپر حملہ آور ہوئے، یہاں تک کہ ہم نے اپنے گھوڑوں کو اپنے پیچھے دیکھا، مشرکین میں سے ایک آدمی بڑھ چڑھ کر ہم پر حملے کر رہا اور نقصان پہنچا رہا تھا، اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ منظر دیکھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خچر سے نیچے اترے اور اللہ تعالیٰ نے مشرکینکو ہزیمت سے دوچار کیا اور وہ پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب فتح دیکھی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہو گئے، ان کے قیدیوں کو ایک ایک کر کے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو وہ قبولِ اسلام کی بیعت کرنے لگے۔ اصحابِ رسول میں سے ایک آدمی نے کہا: میری نذر ہے کہ اگر وہ آدمی لایا گیا جو آج سارا دن ہم پر حملے کر کے شدید نقصان پہنچاتا رہا تو میں اس کی گردن اُڑا دوں گا۔ ا س کی بات سن کر اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش رہے، بالآخر وہی آدمی لایا گیا، اس نے جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا تو فوراً کہنے لگا: اے اللہ کے نبی! میں اللہ کی طرف توبہ کرتا ہوں، اے اللہ کے نبی! میں اللہ کی طرف توبہ کرتا ہوں۔ اللہ کے نبی کچھ دیر تک رکے رہے اور اس کی بیعت قبول نہیں کی تاکہ دوسرا آدمی اپنی نذر پوری کر لے اور وہ آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف دیکھنے لگا کہ آپ اسے قتل کا حکم دیں تو وہ اسے قتل کرے۔ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مرعوب ہو کر اسے قتل کرنے کی جسارت نہیں کر سکا، جب اللہ کے نبی نے دیکھا کہ وہ آدمی کچھ کارروائی نہیں کر رہا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی بیعت قبول کر لی۔ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اور میری نذر؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں آج اس کی بیعت قبول کرنے میں دیر کرتا رہا تاکہ تم اپنی نذر پوری کر لو۔ وہ بولا: اے اللہ کے نبی! آپ نے مجھے اشارہ ہی کر دیا ہوتا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نبی کو روانہیں کہ وہ اس طرح خفیہ اشارے کر ے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10922

۔ (۱۰۹۲۲)۔ عَنْ مُحَرِّشٍ الْکَعْبِیِّ، أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَرَجَ لَیْلًا مِنَ الْجِعْرَانَۃِ حِینَ أَمْسٰی مُعْتَمِرًا، فَدَخَلَ مَکَّۃَ لَیْلًا، فَقَضٰی عُمْرَتَہُ، ثُمَّ خَرَجَ مِنْ تَحْتِ لَیْلَتِہِ، فَأَصْبَحَ بِالْجِعْرَانَۃِ کَبَائِتٍ، حَتّٰی إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ، خَرَجَ مِنَ الْجِعْرَانَۃِ فِی بَطْنِ سَرِفَ حَتّٰی جَامَعَ الطَّرِیقُ طَرِیقَ الْمَدِینَۃِ بِسَرِفَ، قَالَ مُحَرِّشٌ: فَلِذٰلِکَ خَفِیَتْ عُمْرَتُہُ عَلٰی کَثِیرٍ مِنَ النَّاسِ (زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ بَعْدَ قَوْلِہِ کَبَائِتٍ): فَنَظَرْتُ إِلٰی ظَہْرِہِ کَأَنَّہُ سَبِیکَۃُ فِضَّۃٍ۔ (مسند احمد: ۱۵۶۰۴)
سیدنا محرش کعبی خزاعی سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب عمرہ کے لیے روانہ ہوئے تو جعرانہ سے رات کے وقت چلے، آپ نے مکہ مکرمہ جا کر عمرہ ادا کیا اور راتوں رات واپس جعرانہ پہنچ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جعرانہ میں اس طرح صبح کی، جیسے وہاں ہی رات بسر کی ہو، حتیٰ کہ جب سورج ڈھل گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جعرانہ سے روانہ ہو کر سرف کے درمیان میں آئے تاآنکہ آپ مدینہ کے راستہ پر پہنچ گئے، محرش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اسی لیے بہت سے لوگوں کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عمرہ کی اطلاع نہیں ہو سکی، میں نے آپ کی پشت مبارک کو دیکھا، وہ یوں نظر آرہی تھی، جیسے چاندی کی پلیٹ ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10923

۔ (۱۰۹۲۳)۔ عَنْ اُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی الْحُرَقَۃِ مِنْ جُہَیْنَۃَ قَالَ: فَصَبَّحْنَاہُمْ فَقَاتَلْنَاہُمْ، فَکَانَ مِنْہُمْ رَجُلٌ، إِذَا أَقْبَلَ الْقَوْمُ کَانَ مِنْ أَشَدِّہِمْ عَلَیْنَا، وَإِذَا أَدْبَرُوا کَانَ حَامِیَتَہُمْ، قَالَ: فَغَشِیتُہُ أَنَا وَرَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: فَلَمَّا غَشِینَاہُ قَالَ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہُ، فَکَفَّ عَنْہُ الْأَنْصَارِیُّ وَقَتَلْتُہُ، فَبَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((یَا أُسَامَۃُ! أَقَتَلْتَہُ بَعْدَ مَا قَالَ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّمَا کَانَ مُتَعَوِّذًا مِنَ الْقَتْلِ، فَکَرَّرَہَا عَلَیَّ حَتّٰی تَمَنَّیْتُ أَنِّی لَمْ أَکُنْ أَسْلَمْتُ إِلَّا یَوْمَئِذٍ۔ (مسند احمد: ۲۲۰۸۸)
سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں بنو جہینہ کے قبیلہ حرقہ کی طرف روانہ فرمایا، ہم صبح سویرے ان کے ہاں جا پہنچے اور ان سے قتال کیا، ان میں ایک آدمی ایسا تھا کہ جب وہ لوگ مقابلے کے لیے سامنے آتے تو وہ بے جگری سے لڑتا اور جب وہ لوگ کسی وقت پیٹھ دے کر بھاگتے تو وہ ان کی طرف سے دفاع کرتا، میں اور ایک انصاری اس پر غالب آگئے۔ جب ہم نے اسے قابو میں کر لیا تو اس نے لَا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہُ پڑھ لیا۔ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے تو اسے قتل کرنے سے اپنے ہاتھ روک لیے، مگر میں نے اسے قتل کر ڈالا، جب یہ بات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اسامہ! کیااس کے کلمہ پڑھ لینے کے بعد بھی تم نے اسے قتل کر دیا؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! اس نے دلی طور پر کلمہ نہیں پڑھا تھا، وہ تو صرف جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھ رہا تھا، لیکن (میرا ردّ کرنے کے لیے) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بات اس قدر تکرار سے فرمائی کہ میں نے یہ پسند کیا کہ کاش میں اس سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا، بلکہ آج مسلمان ہوا ہوتا ( اور مجھ سے یہ خطا سرزد نہیں ہوئی ہوتییا قبولیت ِ اسلام کی وجہ سے یہ معاف ہو جاتی)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10924

۔ (۱۰۹۲۴)۔ (وَعَنْہٗعَنْطَرِیْقٍ ثَانٍ بِنَحْوِہِ) وَفِیْہِ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّمَا قَالَھَا مَخَافَۃَ الْمَلَامِ وَالْقَتْلِ، فَقَالَ: ((اَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَبْلِہٖ؟حَتّٰی تَعْلَمَ مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ اَمْ لَا؟ مَنْ لَکَ بِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ؟)) فَمَازَالَ یَقُوْلُ ذٰلِکَ حَتّٰی وَدِدْتُ اَنِّی لَمْ اُسْلِمْ اِلَّا یَوْمَئِذٍ۔ (مسند احمد: ۲۲۱۴۵)
۔( دوسری سند) سیدنا اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس نے تو محض ملامت یا قتل سے بچنے کی خاطر یہ کلمہ پڑھا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ اس نے اس وجہ سے کلمہ پڑھا یا کسی دوسری وجہ سے ؟ قیامت کے دن لَا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہُ کا سامنا کرنے کے لیے تمہارے ساتھ کون ہو گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی بات کو اس حد تک دہراتے رہے کہ میں نے پسند کیا کہ کاش میںآج ہی مسلمان ہوا ہوتا ( اور مجھ سے یہ غلطی سرزد نہ ہوئی ہوتی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ملامت سے بچ جاتا)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10925

۔ (۱۰۹۲۵)۔ عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: جَاء َتْ خَیْلُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَوْ قَالَ: رُسُلُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا بِعَقْرَبَ، فَأَخَذُوا عَمَّتِی وَنَاسًا، قَالَ: فَلَمَّا أَتَوْا بِہِمْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((فَصَفُّوا لَہُ۔)) قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! نَأَی الْوَافِدُ وَانْقَطَعَ الْوَلَدُ وَأَنَا عَجُوزٌ کَبِیرَۃٌ مَا بِی مِنْ خِدْمَۃٍ فَمُنَّ عَلَیَّ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْکَ، قَالَ: ((مَنْ وَافِدُکِ؟)) قَالَتْ: عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ: ((الَّذِی فَرَّ مِنَ اللّٰہِ وَرَسُولِہِ۔)) قَالَتْ: فَمَنَّ عَلَیَّ، قَالَتْ: فَلَمَّا رَجَعَ وَرَجُلٌ إِلٰی جَنْبِہِ نَرٰی أَنَّہُ عَلِیٌّ، قَالَ: سَلِیہِ حِمْلَانًا، قَالَ: فَسَأَلَتْہُ، فَأَمَرَ لَہَا، قَالَتْ: فَأَتَتْنِی، فَقَالَتْ: لَقَدْ فَعَلْتَ فَعْلَۃً مَا کَانَ أَبُوکَ یَفْعَلُہَا، قَالَتْ: ائْتِہِ رَاغِبًا أَوْ رَاہِبًا، فَقَدْ أَتَاہُ فُلَانٌ فَأَصَابَ مِنْہُ وَأَتَاہُ فُلَانٌ فَأَصَابَ مِنْہُ، قَالَ: فَأَتَیْتُہُ فَإِذَا عِنْدَہُ امْرَأَۃٌ وَصِبْیَانٌ أَوْ صَبِیٌّ فَذَکَرَ قُرْبَہُمْ مِنَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَعَرَفْتُ أَنَّہُ لَیْسَ مَلِکَ کِسْرٰی وَلَا قَیْصَرَ، فَقَالَ لَہُ: ((یَا عَدِیُّ بْنَ حَاتِمٍ مَا أَفَرَّکَ أَنْ یُقَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہُ، فَہَلْ مِنْ إِلٰہٍ إِلَّا اللَّہُ، مَا أَفَرَّکَ أَنْ یُقَالَ اللّٰہُ أَکْبَرُ، فَہَلْ شَیْئٌ ہُوَ أَکْبَرُ مِنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ؟)) قَالَ: فَأَسْلَمْتُ فَرَأَیْتُ وَجْہَہُ اسْتَبْشَرَ وَقَالَ: ((إِنَّ الْمَغْضُوبَ عَلَیْہِمْ الْیَہُودُ،وَالضَّالِّینَ النَّصَارٰی۔)) ثُمَّ سَأَلُوہُ، فَحَمِدَ اللّٰہَ تَعَالٰی وَأَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ فَلَکُمْ أَیُّہَا النَّاسُ! أَنْ تَرْضَخُوا مِنْ الْفَضْلِ۔)) ارْتَضَخَ امْرُؤٌ بِصَاعٍ بِبَعْضِ صَاعٍ بِقَبْضَۃٍ بِبَعْضِ قَبْضَۃٍ، قَالَ شُعْبَۃُ: وَأَکْثَرُ عِلْمِی أَنَّہُ قَالَ: بِتَمْرَۃٍ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ، إِنَّ أَحَدَکُمْ لَاقِی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَائِلٌ: مَا أَقُولُ أَلَمْ أَجْعَلْکَ سَمِیعًا بَصِیرًا، أَلَمْ أَجْعَلْ لَکَ مَالًا وَوَلَدًا، فَمَاذَا قَدَّمْتَ؟ فَیَنْظُرُ مِنْ بَیْنِیَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ وَعَنْ یَمِینِہِ وَعَنْ شِمَالِہِ فَلَا یَجِدُ شَیْئًا، فَمَا یَتَّقِی النَّارَ إِلَّا بِوَجْہِہِ، فَاتَّقُوا النَّارَ، وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوہُ فَبِکَلِمَۃٍ لَیِّنَۃٍ، إِنِّی لَا أَخْشٰی عَلَیْکُمُ الْفَاقَۃَ، لَیَنْصُرَنَّکُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی وَلَیُعْطِیَنَّکُمْ أَوْ لَیَفْتَحَنَّ لَکُمْ حَتّٰی تَسِیرَ الظَّعِینَۃُ بَیْنَ الْحِیرَۃِ ویَثْرِبَ، أَوْ أَکْثَرَ مَا تَخَافُ السَّرَقَ عَلٰی ظَعِینَتِہَا، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ثَنَاہُ شُعْبَۃُ مَا لَا أُحْصِیہِ وَقَرَأْتُہُ عَلَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۹۶۰۰)
سیدنا عدی بن حاتم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے روانہ کئے ہوئے گھڑ سوار آئے تو میں ان دنوں یمامہ کے علاقے میں عقرب کے مقام پر تھا، وہ لوگ میری پھوپھی اور چند لوگوں کو پکڑ کر لے گئے، جب وہ ان کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے لے گئے تو ان کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے کھڑا کر دیا گیا،میری پھوپھی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمارے مردوں میں سے جو آپ کی خدمت میں آسکتا تھا، وہ بہت دور ہے، بچے جدا ہو گئے، میں بہت بوڑھی ہوں، میں کچھ کر بھی نہیں سکتی، آپ مجھ پر احسان کریں، اللہ آپ پر احسان کرے گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: تمہاری طرف سے کون مرد آسکتا تھا؟ اس نے کہا: عدی بن حاتم، آپ نے فرمایا: وہی جو اللہ اور اس کے رسول سے بچتے ہوئے فرار ہو گیا ہے؟ اس نے کہا: بہرحال آپ مجھ پر احسان کریں، وہ کہتی ہیں: جب اللہ کے رسول واپس آئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک اور آدمی بھی تھا، ہمارا خیال ہے کہ وہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، اس آدمی نے میری پھوپھی سے کہا: تم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سواری طلب کرو، اس نے سواری کی درخواست کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم دیا کہ اسے سواری مہیا کر دی جائے۔ عدی کہتے ہیں: میری پھوپھی میرے پاس آئیتو اس نے کہا کہ تو نے جنگ سے فرار ہو کر ایسا بزدلانہ کام کیا ہے کہ تمہارا باپ ایسا نہیں کرتا تھا۔ تم دین کی رغبت کے ساتھ یا ڈرتے ہوئے جیسے بھی ہو، اس نبی کے پا س پہنچو، فلاں اور فلاں آدمی ان کے پاس گیا تو اسے بہت کچھ ملا، عدی کہتے ہیں: میں آپ کی خدمت میں آیا تو اس وقت آپ کے پاس ایک عورت اور چند بچے، یا ایک بچہ موجود تھا، عدی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب ہونے کا ذکر کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں جان گیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسریٰ اور قیصر جیسے بادشاہ نہیں ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عدی سے فرمایا: تم لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہنے کے ڈر سے کیوں فرار ہو ئے؟ کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہے، تم اللہ اکبر کہنے سے کیوں بھاگ گئے؟ کیا اللہ تعالیٰ سے بھی بڑا کوئی ہے؟ عدی کہتے ہیں، چنانچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی باتیں سن کر میں مسلمان ہو گیا، میں نے دیکھا کہ آپ کا چہرہ دمک اُٹھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مغضوب علیمیعنی جن لوگوں پر اللہ کا غضب ہوا، ان سے مراد یہودی ہیں اور ضالینیعنی گمراہ لوگوں سے عیسائی مراد ہیں۔ کچھ بدوؤں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کچھ مانگا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء بیان کی اور فرمایا: لوگو! تم اپنی ضرورت سے زائد اشیاء میں سے کچھ نہ کچھ دو۔‘ یہ سن کر کوئی ایک صاع اور کوئی اس سے بھی کم اور کوئی مٹھی بھر لے کر آیا کوئی اس سے کم لایا۔ شعبہ نے بیان کیا کہ میرے علم کے مطابق کوئی کھجور لایا اور کوئی کھجور کا ایک ٹکڑا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنے والا ہے تو اللہ اس سے فرمائے گا کیا میں نے تجھے سننے والا دیکھنے والا نہیں بنایا تھا؟ کیا میں نے تجھے مال و اولاد سے نہیں نوازا تھا؟ تو کیا کر کے آیا ہے؟ یہ آدمی اپنے آگے پیچھے، دائیں بائیں دیکھے گا تو اپنے لیے کچھ بھی نہیں پائے گا، وہ اپنے چہرے سے ہی آگ سے بچنے کی کوشس کرے گا، مگر بچ نہیں سکے گا، لہذا لوگو! تم جہنم سے بچنے کا سامان کر لو، اگر چہ وہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہیں ہو، اگر تم اتنی چیز بھی نہیں پاؤ تو اچھی بات کر کے ہی جہنم سے بچاؤ کا سامان کر لو، مجھے تم پر فقرو فاقہ کا ڈر نہیں، اللہ تعالیٰ ضرورتمہاری مدد کرے گا اور تمہیں بہت کچھ عطا فرمائے گا، یایوں فرمایا کہ تمہیں ضرور فتوحات سے نوازے گا، یہاں تک کہ ایک اونٹ سوار خاتون حیرہ سے یثرب تک کا یا اس سے بھی زیادہ سفر کر ے گی اور اسے چوری کا کوئی ڈر خوف ہو گا۔ امام احمد کے شیخ محمد بن جعفر کہتے ہیں کہ ہمارے استاز شعبہ نے بے شمار مرتبہ یہ حدیث ہمیں سنائی اور میں نے بھی ان کے سامنے بہت مرتبہ پڑھی،یعنییہ حدیث اہل علم کے ہاں ثابت اور مشہور ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10926

۔ (۱۰۹۲۶)۔ حَدَّثَنَا یَزِیدُ أَخْبَرَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ عَنْ رَجُلٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ: حَدِیثٌ بَلَغَنِی عَنْکَ أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَہُ مِنْکَ، قَالَ: نَعَمْ، لَمَّا بَلَغَنِی خُرُوجُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَکَرِہْتُ خُرُوجَہُ کَرَاہَۃً شَدِیدَۃً، خَرَجْتُ حَتّٰی وَقَعْتُ نَاحِیَۃَ الرُّومِ، وَقَالَ یَعْنِییَزِیدَ: بِبَغْدَادَ حَتّٰی قَدِمْتُ عَلٰی قَیْصَرَ، قَالَ: فَکَرِہْتُ مَکَانِی ذٰلِکَ أَشَدَّ مِنْ کَرَاہِیَتِی لِخُرُوجِہِ، قَالَ، فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ! لَوْلَا أَتَیْتُ ہٰذَا الرَّجُلَ، فَإِنْ کَانَ کَاذِبًا لَمْ یَضُرَّنِی، وَإِنْ کَانَ صَادِقًا عَلِمْتُ، قَالَ: فَقَدِمْتُ فَأَتَیْتُہُ فَلَمَّا قَدِمْتُ قَالَ النَّاسُ: عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ لِی: ((یَا عَدِیُّ بْنَ حَاتِمٍ أَسْلِمْ تَسْلَمْ۔)) ثَلَاثًا، قَالَ: قُلْتُ: إِنِّی عَلٰی دِینٍ، قَالَ: ((أَنَا أَعْلَمُ بِدِینِکَ مِنْکَ۔)) فَقُلْتُ: أَنْتَ أَعْلَمُ بِدِینِی مِنِّی؟ قَالَ: ((نَعَمْ، أَلَسْتَ مِنْ الرَّکُوسِیَّۃِ، وَأَنْتَ تَأْکُلُ مِرْبَاعَ قَوْمِکَ۔)) قُلْتُ: بَلٰی، قَالَ: ((فَإِنَّ ہٰذَا لَا یَحِلُّ لَکَ فِی دِینِکَ۔)) قَالَ: فَلَمْ یَعْدُ أَنْ قَالَہَا فَتَوَاضَعْتُ لَہَا، فَقَالَ: ((أَمَا إِنِّی أَعْلَمُ مَا الَّذِییَمْنَعُکَ مِنَ الْإِسْلَامِ، تَقُولُ: إِنَّمَا اتَّبَعَہُ ضَعَفَۃُ النَّاسِ وَمَنْ لَا قُوَّۃَ لَہُ وَقَدْ رَمَتْہُمُ الْعَرَبُ، أَتَعْرِفُ الْحِیرَۃَ؟)) قُلْتُ: لَمْ أَرَہَا وَقَدْ سَمِعْتُ بِہَا، قَالَ: ((فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ، لَیُتِمَّنَّ اللّٰہُ ہٰذَا الْأَمْرَ حَتّٰی تَخْرُجَ الظَّعِینَۃُ مِنَ الْحِیرَۃِ حَتّٰی تَطُوفَ بِالْبَیْتِ فِی غَیْرِ جِوَارِ أَحَدٍ، وَلَیَفْتَحَنَّ کُنُوزَ کِسْرٰی بْنِ ہُرْمُزَ۔)) قَالَ: قُلْتُ: کِسْرَی بْنُ ہُرْمُزَ؟ قَالَ: ((نَعَمْ کِسْرَی بْنُ ہُرْمُزَ، وَلَیُبْذَلَنَّ الْمَالُ حَتّٰی لَا یَقْبَلَہُ أَحَدٌ۔)) قَالَ عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ: فَہٰذِہِ الظَّعِینَۃُ تَخْرُجُ مِنَ الْحِیرَۃِ فَتَطُوفُ بِالْبَیْتِ فِی غَیْرِ جِوَارٍ، وَلَقَدْ کُنْتُ فِیمَنْ فَتَحَ کُنُوزَ کِسْرَی بْنِ ہُرْمُزَ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَتَکُونَنَّ الثَّالِثَۃُ لِأَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ قَالَہَا۔ (مسنداحمد:۱۸۴۴۹)
ایک آدمی کہتا ہے: میں نے سیدنا عدی بن حاتم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے عرض کیا کہ مجھے آپ کے بارے میں ایک حدیث پہنچی ہے، میں وہ حدیث براہ راست آپ سے سننا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، جب مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بارے میں یہ اطلاع ملی کہ آپ کا ظہور ہوا ہے تو مجھے اس سے شدید کراہت ہوئی اور میں وہاں سے نکل کر روم کے علاقوں کی طرف چلا گیا،یزید راوی نے بتایا کہ وہ بغداد چلے گئے، میں قیصر کے ہاں چلا گیا، مجھے جس قدر نفرت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ظہور پر ہوئی تھی، مجھے اپنی وہاں آمد پر اس سے بھی زیادہ نفرت ہوئی، پھر میں نے سوچا کہ اللہ کی قسم! میں خود کیوں نہ اس آدمی کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں، اگر وہ جھوٹا ہوا تو مجھے اس سے کچھ ضرر نہیں ہو گا اور اگر وہ سچا ہوا تو میں اس کے سچ کو جان لوں گا۔ چنانچہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا، میں جب پہنچا تو لوگ کہنے لگے: عدی بن حاتم آ گئے، عدی بن حاتم آ گئے، میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے تین بار فرمایا: عدی بن حاتم! اسلام قبول کر لو، سلامتی پاؤ گے۔ میں نے عرض کیا: میں پہلے ہی ایک دین پر کار بند ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہارے دین کو تم سے بہتر جانتا ہوں۔ میں نے کہا: کیا آپ میرے دین کو مجھ سے بہتر طور پر جانتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، کیا تو رکوسیۂ میں سے نہیں ہے اور کیا تم اپنی قوم کی غنیمتوں میں سے ایک چوتھائی حصہ نہیں کھاتا؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے ہی دین کی رو سے تو یہ تمہارے لیے حلال نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کییہ بات کہنے کی دیر تھی کہ میں اس بات کے آگے جھک گیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں جانتا ہوں کہ قبول اسلام سے تمہیں کیا رکاوٹ ہے، تم سمجھتے ہو کہ لوگوں میں سے ایسے کمزور طبقے نے میری پیروی کی ہے، جنہیں دنیاوی طور پر کسی قسم کی قوت حاصل نہیں اور عرب نے ان لوگوں کو دھتکار دیا ہے، کیا تم حیرہ کو جانتے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی میں نے اسے دیکھا تو نہیں، البتہ اس کے متعلق سنا ضرور ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اللہ تعالیٰ ضرور اس دین کو اس حد تک غالب کرے گا کہ ایک شتر سوار خاتون بے خوف وخطر حیرہ سے آکر بیت اللہ کا طواف کرے گی اور کسریٰ بن ہرمز کے خزانے مفتوح ہوں گے۔ میں نے عرض کیا: کیا کسریٰ بن ہرمز کے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں ہاں، کسری بن ہرمز کے اور مال ودولت اس قدر عام ہو جائے گا کہ کوئی شخص اسے لینے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔ سیدناعدی بن حاتم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: واقعی شتر سوار خاتون تن تنہا حیرہ سے بے خوف وخطر چل کر بیت اللہ کا طواف کرتی ہے اور کسریٰ بن ھرمز کے خزانوں کو فتح کیا گیا اور میں خود ان لوگوں میں سے ہوں، جنہوں نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانوں کو فتح کیا، اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تیسری بات بھی ضرور پوری ہو گی، کیونکہ وہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کہی ہوئی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10927

۔ (۱۰۹۲۷)۔ عن کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ یَقُولُ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَلَّمَا یُرِیدُ غَزْوَۃًیَغْزُوہَا إِلَّا وَرّٰی بِغَیْرِہَا حَتَّی کَانَ غَزْوَۃُ تَبُوکَ، فَغَزَاہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی حَرٍّ شَدِیدٍ، اسْتَقْبَلَ سَفَرًا بَعِیدًا وَمَفَازًا، وَاسْتَقْبَلَ غَزْوَ عَدُوٍّ کَثِیرٍ، فَجَلَا لِلْمُسْلِمِینَ أَمَرَہُمْ لِیَتَأَہَّبُوا أُہْبَۃَ عَدُوِّہِمْ، أَخْبَرَہُمْ بِوَجْہِہِ الَّذِییُرِیدُ۔ (مسند احمد: ۱۵۸۷۴)
سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب کسی غزوہ کا قصد فرماتے تو توریہ کرتے تھے، لیکن جب غزوۂ تبوک کا موقع آیا، چونکہ یہ شدید گرمی کا موسم تھا اور طویل اور صحراء کا سفر تھا، نیز تعداد کے لحاظ سے بہت بڑے دشمن لشکر کا مقابلہ درپیش تھا، اس لیےآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسلمانوں کے سامنے ساری صورتحال کھول کر واضح فرما دی تاکہ وہ اپنے دشمن کے مقابلہ کے لیے تیاری کر لیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10928

۔ (۱۰۹۲۸)۔ عَنِ ابْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ اَبِیْہِ: اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَرَجَ یَوْمَ الْخَمِیْسِ فِیْ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ۔ (مسند احمد: ۱۵۸۷۱)
سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غزوۂ تبوک کے لیے جمعرات کے دن سفر شروع کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10929

۔ (۱۰۹۲۹)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ خَبَّابٍ السُّلَمِیِّ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَحَثَّ عَلٰی جَیْشِ الْعُسْرَۃِ، فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ: عَلَیَّ مِائَۃُ بَعِیرٍ بِأَحْلَاسِہَا وَأَقْتَابِہَا، قَالَ: ثُمَّ حَثَّ فَقَالَ عُثْمَانُ: عَلَیَّ مِائَۃٌ أُخْرٰی بِأَحْلَاسِہَا وَأَقْتَابِہَا، قَالَ: ثُمَّ نَزَلَ مِرْقَاۃً مِنَ الْمِنْبَرِ، ثُمَّ حَثَّ فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ: عَلَیَّ مِائَۃٌ أُخْرٰی بِأَحْلَاسِہَا وَأَقْتَابِہَا، قَالَ: فَرَأَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ بِیَدِہِ ہٰکَذَایُحَرِّکُہَا، وَأَخْرَجَ عَبْدُ الصَّمَدِ یَدَہُ کَالْمُتَعَجِّبِ: ((مَا عَلٰی عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ ہٰذَا۔)) (مسند احمد: ۱۶۸۱۶)
سیدنا عبدالرحمن بن خباب سلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سفر کا ارادہ کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جیش العسرۃ (تنگ دست لشکر، مراد غزوۂ تبوک ہے) کی مدد کے لیے لوگوں کو ترغیب دلائی،سیدنا عثما ن بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں ایک سو اونٹ ان کے پالانوں اور پالانوں کے نیچے رکھے جانے والے نمدوں سمیت دوں گا۔ آپ نے لوگوں کو مدد کے لیے مزید ترغیب دلائی، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پھر کہا: مزید ایک سو اونٹ مع پالان ونمدوں کے میرے ذمے ہیں، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے منبر کی ایک سیڑھی نیچے اتر کر مزید ترغیب دلائی تو عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا مزید ایک سو اونٹ ان کے پالانوں اور نمدوں سمیت میرے ذمہ ہیں۔ میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھ کو اس طرح حرکت دے رہے تھے۔ عبدالصمد(اسنادِ حدیث کے ایک راوی) نے انتہائی خوش ہونے والے آدمی کے انداز میں ہاتھ کو نکالا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس طرح اپنے ہاتھ کو ہلاتے اور حرکت دیتے ہوئے فرمایا: آج کے بعد عثمان جو بھی کرتا رہے، اس پر کوئی حرج نہیں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10930

۔ (۱۰۹۳۰)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ سَمُرَۃَ قَالَ: جَائَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِأَلْفِ دِینَارٍ فِی ثَوْبِہِ حِینَ جَہَّزَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَیْشَ الْعُسْرَۃِ، قَالَ: فَصَبَّہَا فِی حِجْرِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَعَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُقَلِّبُہَا بِیَدِہِ، وَیَقُولُ: ((مَا ضَرَّ ابْنَ عَفَّانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْیَوْمِ۔)) یُرَدِّدُہَا مِرَارًا۔ (مسند احمد: ۲۰۹۰۶)
سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جیش العسرۃیعنی غزوۂ تبوک کی مدد کے لیے صحابہ کرام سے اپیل کی تو سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک ہزار دینار ایک کپڑے میں ڈال کر لائے اور ان کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جھولی میں ڈھیر کر دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے ہاتھوں میں ان دیناروں کو الٹتے پلٹتے اور فرماتے: آج کے بعد عثمان جو کام بھی کرے، اسے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس بات کو بار بار دہرایا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10931

۔ (۱۰۹۳۱)۔ عَنْ شُرَیْحِ بْنِ عُبَیْدٍ أَنَّ فَضَالَۃَ بْنَ عُبَیْدٍ الْأَنْصَارِیَّ کَانَ یَقُولُ: غَزَوْنَا مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَزْوَۃَ تَبُوکَ، فَجَہَدَ بِالظَّہْرِ جَہْدًا شَدِیدًا، فَشَکَوْا إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا بِظَہْرِہِمْ مِنَ الْجَہْدِ فَتَحَیَّنَ بِہِمْ مَضِیقًا، فَسَارَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیہِ فَقَالَ: ((مُرُّوا بِسْمِ اللّٰہِ۔)) فَمَرَّ النَّاسُ عَلَیْہِ بِظَہْرِہِمْ، فَجَعَلَ یَنْفُخُ بِظَہْرِہِمْ: ((اللَّہُمَّ احْمِلْ عَلَیْہَا فِی سَبِیلِکَ، إِنَّکَ تَحْمِلُ عَلَی الْقَوِیِّ وَالضَّعِیفِ، وَعَلَی الرَّطْبِ وَالْیَابِسِ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۔)) قَالَ: فَمَا بَلَغْنَا الْمَدِینَۃَ حَتّٰی جَعَلَتْ تُنَازِعُنَا أَزِمَّتَہَا، قَالَ فَضَالَۃُ: ہٰذِہِ دَعْوَۃُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الْقَوِیِّ وَالضَّعِیفِ، فَمَا بَالُ الرَّطْبِ وَالْیَابِسِ؟ فَلَمَّا قَدِمْنَا الشَّامَ غَزَوْنَا غَزْوَۃَ قُبْرُسَ فِی الْبَحْرِ، فَلَمَّا رَأَیْتُ السُّفُنَ فِی الْبَحْرِ وَمَا یَدْخُلُ فِیہَا، عَرَفْتُ دَعْوَۃَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۴۴۵۵)
سیدنا فضالہ بن عبید انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں غزوۂ تبوک میں شرکت کی، سواریوں کی بڑی قلت تھی، جب صحابہ کرام نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس کی شکایت کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو ایک تنگ سے راستہ پر لے چلے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس راستے پر چلے،اور فرمایا : تم اللہ کا نام لے کر یہاں سے گزرو۔ لوگ اپنی سواریاں لے کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے گزرے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی سواریوں پر پھونک مارتے اور یہ دعا کرتے جاتے: یا اللہ اس سے اپنی راہ میں کام لے تو ہی قوی اور ضعیف کو طاقت دینے والا ہے۔ اور تو ہی بروبحر یعنی خشکی اور تری اور ہر رطب و یابسیعنی تازہ اور خشک پر قدرت رکھتا ہے۔ سیدنا فضالہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ ہماری مدینہ منورہ واپسی تک ہمارے اونٹ ہم سے اپنی مہاریں کھینچتےتھے۔ یہ قوی اور ضعیف کے متعلق نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعاء کی برکت اور اس کا نتیجہ تھا۔ لیکن میں رطب ویابسیعنی خشک وتر کا مفہوم نہیں سمجھ سکا کہ یہاں اس سے کیا مراد ہو سکتی ہے؟ جب ہم ملکِ شام میں گئے اور ہم نے سمندر میں قبرص کی لڑائی لڑی اور میں نے سمندر میں کشتیوں کو چلتے اور سمندروں میں داخل ہوتے دیکھا تو مجھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعاء کی حقیقت معلوم ہوئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10932

۔ (۱۰۹۳۲)۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اَبِیْ کَبْشَۃَ الْاَنْمَارِیِّ، عَنْ اَبِیْہِ قَالَ: لَمَّا کَانَ فِیْ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ تَسَارَعَ النَّاسُ اِلٰی اَھْلِ الْحِجْرِ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ فَبَلَغَ ذٰلِکَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَادٰی فِیْ النَّاسِ: اَلصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ، قَالَ: فَاَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَ ھُوَ مُمْسِکٌ بَعِیْرَہُ وَ ھُوَ یَقُوْلُ : ((مَا تَدْخُلُوْنَ عَلٰی قَوْمٍ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ۔)) فَنَادَاہُ رَجُلٌ مِنْھُمْ: نَعْجِبُ مِنْھُمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِِ! قَالَ: ((اَفَلَا اُنْذِرُکُمْ بِاَعْجَبَ مِنْ ذٰلِکَ؟ رَجُلٌ مِنْ اَنْفُسِکُمْ یُنَبِّئُکُمْ بِمَا کَانَ قَبْلَکُمْ وَ مَا کَانَ ھُوَ کَائِنٌ بَعْدَکُمْ، فَاسْتَقِیْمُوْا وَسَدِّدُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَا یَعْبَاُ بِعَذَابِکُمْ شَیْئًا، وَ سَیَاْتِیْ قَوْمٌ لَا یَدْفَعُوْنَ عَنْ اَنْفُسِھِمْ بِشَیْئٍ۔)) (مسند احمد: ۱۸۱۹۲)
سیدنا ابو کبشہ انماری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ غزوۂ تبوک کے سفر کے دوران لوگوں نے (ثمود کی منازل) حِجر کی طرف جلدی کی اور وہ ان میں داخل ہونے لگ گئے، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس بات کا پتہ چلا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں میں یہ اعلان کیا: اَلصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ ، وہ کہتے ہیں: جب میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے اونٹ کو روکا ہوا تھا اور فرما رہے تھے: تم ایسی قوم پر کیوں داخل ہوتے ہو، جس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوا ہے؟ ایک بندے نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیںان سے تعجب ہوتا ہے، اس لیے ان کے پاس جاتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں نے تم کو اس سے زیادہ تعجب والے سے نہ ڈرائو؟ تم میں ہی ایک آدمی ہے، وہ تم کو ان کی امور کی بھی خبر دیتا ہے، جو تم سے پہلے گزر گئے ہیں اور ان امور کی بھی، جو تم سے بعد میں ہونے والے ہیں، پس تم سیدھے ہو جاؤ اور راہِ صواب پر چلتے رہو، پس بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے عذاب کی پرواہ نہیں کرے گے اور عنقریب ایسے لوگ آئیں گے، جو کسی چیز کو اپنے نفسوں سے دفع نہیں کریں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10933

۔ (۱۰۹۳۳)۔ عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَۃَ أَنَّ مُعَاذًا أَخْبَرَہُ: أَنَّہُمْ خَرَجُوا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَامَ تَبُوکَ، فَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَجْمَعُ بَیْنَ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ، قَالَ: وَأَخَّرَ الصَّلَاۃَ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّی الظُّہْرَ وَالْعَصْرَ جَمِیعًا، ثُمَّ دَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّی الْمَغْرِبَ وَالْعِشَائَ جَمِیعًا، ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّکُمْ سَتَأْتُونَ غَدًا إِنْ شَائَ اللّٰہُ عَیْنَ تَبُوکَ، وَإِنَّکُمْ لَنْ تَأْتُوا بِہَا حَتّٰییَضْحَی النَّہَارُ، فَمَنْ جَائَ فَلَا یَمَسَّ مِنْ مَائِہَا شَیْئًا حَتّٰی آتِیَ۔)) فَجِئْنَا وَقَدْ سَبَقَنَا إِلَیْہَا رَجُلَانِ، وَالْعَیْنُ مِثْلُ الشِّرَاکِ تَبِضُّ بِشَیْئٍ مِنْ مَائٍ، فَسَأَلَہُمَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((ہَلْ مَسِسْتُمَا مِنْ مَائِہَا شَیْئًا؟)) فَقَالَا: نَعَمْ، فَسَبَّہُمَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ لَہُمَا مَا شَائَ اللّٰہُ أَنْ یَقُولَ، ثُمَّ غَرَفُوا بِأَیْدِیہِمْ مِنَ الْعَیْنِ قَلِیلًا قَلِیلًا حَتَّی اجْتَمَعَ فِی شَیْئٍ، ثُمَّ غَسَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیہِ وَجْہَہُ وَیَدَیْہِ، ثُمَّ أَعَادَہُ فِیہَا فَجَرَتِ الْعَیْنُ بِمَائٍ کَثِیرٍ، فَاسْتَقَی النَّاسُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یُوشِکُیَا مُعَاذُ! إِنْ طَالَتْ بِکَ حَیَاۃٌ، أَنْ تَرٰی مَائً ہَاہُنَا قَدْ مَلَأَ جِنَانًا۔)) (مسند احمد: ۲۲۴۲۰)
سیدنا ابو طفیل عامر بن واثلہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو خبردی کہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں غزوۂ تبوک کے موقع پر سفر پر روانہ ہوئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر لیتے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز کو مؤخر کیا اور خیمہ سے باہر تشریف لائے اور ظہر و عصر کی نماز یںجمع کر کے ادا کیں، پھر اندر تشریف لے گئے، پھرباہر تشریف لائے اور مغرب وعشاء کو جمع کر کے ادا کیا، پھر ارشاد فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تم کل خوب دن چڑھے تبوک کے چشمہ پر پہنچو گے، تم میں سے جو کوئی وہاں پہنچ جائے تو وہ میرے آنے تک پانی کو ہاتھ نہ لگائے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ہم سے پہلے دو آدمی وہاں پہنچ چکے تھے اور چشمہ سے تسمہ کی مانند پانی کی باریک دھار نکل رہی تھی اور پانی انتہائی قلیل مقدار میں آرہا تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان دونوں سے دریافت کیا کہ کیا تم نے پانی کو ہاتھ لگایا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان دونوں کو بہت برا بھلا کہا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جو کچھ کہہ سکتے تھے ان سے کہا، اس کے بعد صحابہ کرام نے اپنے ہاتھوں کے ذریعے چشمے سے تھوڑا تھوڑا پانی جمع کر کے ایک برتن میں کچھ پانی اکٹھا کر لیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس میں اپنا چہرہ مبارک اور ہاتھ دھوئے اور اس دھوون کو اس میں واپس ڈال دیا، پھر تو اس چشمہ سے کثیر مقدار میں پانی نکلنے لگا، لوگ خوب سیراب ہوئے، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے معاذ! اگر تجھے زندگی ملی تو تو دیکھے گا کہ یہ صحراء باغات سے بھرا ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10934

۔ (۱۰۹۳۴)۔ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِی صَالِحٍ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ أَوْ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ شَکَّ الْأَعْمَشُ قَالَ: لَمَّا کَانَ غَزْوَۃُ تَبُوکَ، أَصَابَ النَّاسَ مَجَاعَۃٌ، فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! لَوْ أَذِنْتَ لَنَا فَنَحَرْنَا نَوَاضِحَنَا فَأَکَلْنَا وَادَّہَنَّا، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((افْعَلُوا۔)) فَجَائَ عُمَرُ: فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّہُمْ إِنْ فَعَلُوا قَلَّ الظَّہْرُ، وَلٰکِنْ ادْعُہُمْ بِفَضْلِ أَزْوَادِہِمْ، ثُمَّ ادْعُ لَہُمْ عَلَیْہِ بِالْبَرَکَۃِ، لَعَلَّ اللّٰہَ أَنْ یَجْعَلَ فِی ذٰلِکَ، فَدَعَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِنِطَعٍ فَبَسَطَہُ، ثُمَّ دَعَاہُمْ بِفَضْلِ أَزْوَادِہِمْ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَجِیئُ بِکَفِّ الذُّرَۃِ، وَالْآخَرُ بِکَفِّ التَّمْرِ، وَالْآخَرُ بِالْکِسْرَۃِ، حَتَّی اجْتَمَعَ عَلَی النِّطْعِ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئٌیَسِیرٌ، ثُمَّ دَعَا عَلَیْہِ بِالْبَرَکَۃِ، ثُمَّ قَالَ لَہُمْ: ((خُذُوا فِی أَوْعِیَتِکُمْ۔)) قَالَ: فَأَخَذُوا فِی أَوْعِیَتِہِمْ حَتّٰی مَا تَرَکُوا مِنَ الْعَسْکَرِ وِعَائً إِلَّا مَلَئُوہُ وَأَکَلُوا حَتّٰی شَبِعُوا وَفَضَلَتْ مِنْہُ فَضْلَۃٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّی رَسُولُ اللّٰہِ، لَا یَلْقَی اللّٰہَ بِہَا عَبْدٌ غَیْرُ شَاکٍّ فَتُحْجَبَ عَنْہُ الْجَنَّۃُ۔)) (مسند احمد: ۱۱۰۹۶)
سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سے مروی ہے کہ جب غزوۂ تبوک پیش آیا تو لوگوں شدید بھوک میں مبتلا ہو گئے، انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اجازت ہو تو ہم اپنے اونٹوں کو نحر کر کے کھانے کا اور چربی کا انتظام کر لیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: ٹھیک ہے۔ لیکن سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر لوگوں نے اونٹوں کو نحر کیا تو سواریاں تھوڑی پڑ جائیں گی، آپ انہیں حکم دیں کہ وہ اپنے زائد از ضرورت خوردونوش کا سامان لے آئیں اور آپ ان کے لیے اس میں برکت کی دعا فرمائیں، امید ہے کہ اللہ اس میں برکت فرمائے گا، سو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چمڑے کا دسترخوان منگوا کر اسے بچھا دیا، پھر صحابہ کو بلا کر فرمایا: خوردونوش کا زائد سامان لے آئیں۔ کوئی ایک مٹھی مکئی لایا، کوئی ایک مٹھی کھجور لے آیا اور کوئی روٹی کے بچے کھچے ٹکڑے لے کر حاضر ہوا، یہاں تک کہ دسترخوان پر کچھ اشیاء جمع ہو گئیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان چیزوں پر برکت کی دعا کی اورآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب تم یہ سامان اپنے برتنوں( اور تھیلوں وغیرہ) میں ڈالو۔ چنانچہ صحابہ کرام اس سامان کو اپنے برتنوں میں بھرنے لگے، یہاں تک کہ انہوں نے پورے لشکر میں جو برتن بھی پایا، اسے بھرلیا، اور خوب پیٹ بھر کر کھا بھی لیا، لیکن پھر بھی اس میں کافی بچ بھی رہا۔ یہ منظر دیکھ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، جو آدمی صدقِ دل سے ان دوباتوں کی گواہی دیتا ہو، جب اس کی اللہ سے ملاقات ہو گی تو اسے جنت میں جانے سے روکا نہیں جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10935

۔ (۱۰۹۳۵)۔ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِیسٰی قَالَ: حَدَّثَنِییَحْیَی بْنُ سُلَیْمٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَیْمٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی رَاشِدٍ، قَالَ: لَقِیتُ التَّنُوخِیَّ رَسُولَ ہِرَقْلَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِحِمْصَ، وَکَانَ جَارًا لِی شَیْخًا کَبِیرًا، قَدْ بَلَغَ الْفَنَدَ أَوْ قَرُبَ، فَقُلْتُ: أَلَا تُخْبِرُنِی عَنْ رِسَالَۃِ ہِرَقْلَ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرِسَالَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی ہِرَقْلَ؟ فَقَالَ: بَلٰی، قَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَبُوکَ، فَبَعَثَ دِحْیَۃَ الْکَلْبِیَّ إِلٰی ہِرَقْلَ، فَلَمَّا أَنْ جَائَہُ کِتَابُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَعَا قِسِّیسِی الرُّومِ وَبَطَارِقَتَہَا، ثُمَّ أَغْلَقَ عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمْ بَابًا، فَقَالَ: قَدْ نَزَلَ ہٰذَا الرَّجُلُ حَیْثُ رَأَیْتُمْ، وَقَدْ أَرْسَلَ إِلَیَّیَدْعُونِی إِلٰی ثَلَاثِ خِصَالٍ، یَدْعُونِی إِلٰی أَنْ أَتَّبِعَہُ عَلَی دِینِہِ، أَوْ عَلٰی أَنْ نُعْطِیَہُ مَالَنَا عَلٰی أَرْضِنَا وَالْأَرْضُ أَرْضُنَا، أَوْ نُلْقِیَ إِلَیْہِ الْحَرْبَ، وَاللّٰہِ لَقَدْ عَرَفْتُمْ فِیمَا تَقْرَئُ وْنَ مِنَ الْکُتُبِ لَیَأْخُذَنَّ مَا تَحْتَ قَدَمَیَّ، فَہَلُمَّ نَتَّبِعْہُ عَلٰی دِینِہِأَوْ نُعْطِیہِ مَالَنَا عَلٰی أَرْضِنَا، فَنَخَرُوا نَخْرَۃَ رَجُلٍ وَاحِدٍ حَتّٰی خَرَجُوا مِنْ بَرَانِسِہِمْ، وَقَالُوا: تَدْعُونَا إِلٰی أَنْ نَدَعَ النَّصْرَانِیَّۃَ، أَوْ نَکُونَ عَبِیدًا لِأَعْرَابِیٍّ جَائَ مِنَ الْحِجَازِ، فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّہُمْ إِنْ خَرَجُوْا مِنْ عِنْدِہِ أَفْسَدُوْا عَلَیْہِ الرُّومَ، رَفَأَہُمْ وَلَمْ یَکَدْ وَقَالَ: إِنَّمَا قُلْتُ ذَلِکَ لَکُمْ لِأَعْلَمَ صَلَابَتَکُمْ عَلٰی أَمْرِکُمْ، ثُمَّ دَعَا رَجُلًا مِنْ عَرَبِ تُجِیبَ کَانَ عَلٰی نَصَارَی الْعَرَبِ، فَقَالَ: ادْعُ لِی رَجُلًا حَافِظًا لِلْحَدِیثِ عَرَبِیَّ اللِّسَانِ أَبْعَثْہُ إِلٰی ہٰذَا الرَّجُلِ بِجَوَابِ کِتَابِہِ، فَجَائَ بِی فَدَفَعَ إِلَیَّ ہِرَقْلُ کِتَابًا، فَقَالَ: اذْہَبْ بِکِتَابِی إِلٰی ہٰذَا الرَّجُلِ فَمَا ضَیَّعْتُ مِنْ حَدِیثِہِ فَاحْفَظْ لِی مِنْہُ ثَلَاثَ خِصَالٍ، انْظُرْ ہَلْ یَذْکُرُ صَحِیفَتَہُ الَّتِی کَتَبَ إِلَیَّ بِشَیْئٍ، وَانْظُرْ إِذَا قَرَأَ کِتَابِی فَہَلْ یَذْکُرُ اللَّیْلَ، وَانْظُرْ فِی ظَہْرِہِ ہَلْ بِہِ شَیْئٌیَرِیبُکَ، فَانْطَلَقْتُ بِکِتَابِہِ حَتّٰی جِئْتُ تَبُوکَ فَإِذَا ہُوَ جَالِسٌ بَیْنَ ظَہْرَانَیْ أَصْحَابِہِ مُحْتَبِیًا عَلَی الْمَائِ، فَقُلْتُ: أَیْنَ صَاحِبُکُمْ؟ قِیلَ ہَا ہُوَ ذَا، فَأَقْبَلْتُ أَمْشِی حَتّٰی جَلَسْتُ بَیْنَیَدَیْہِ فَنَاوَلْتُہُ کِتَابِی فَوَضَعَہُ فِی حَجْرِہِ، ثُمَّ قَالَ: ((مِمَّنْ أَنْتَ۔)) فَقُلْتُ: أَنَا أَحَدُ تَنُوخَ، قَالَ: ((ہَلْ لَکَ فِی الْإِسْلَامِ الْحَنِیفِیَّۃِ مِلَّۃِ أَبِیکَ إِبْرَاہِیمَ؟)) قُلْتُ: إِنِّی رَسُولُ قَوْمٍ وَعَلٰی دِینِ قَوْمٍ لَا أَرْجِعُ عَنْہُ حَتّٰی أَرْجِعَ إِلَیْہِمْ، فَضَحِکَ وَقَالَ: {إِنَّکَ لَا تَہْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِی مَنْ یَشَائُ وَہُوَ أَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِینَ} یَا أَخَا تَنُوخَ! إِنِّی کَتَبْتُ بِکِتَابٍ إِلٰی کِسْرٰی فَمَزَّقَہُ وَاللّٰہُ مُمَزِّقُہُ وَمُمَزِّقٌ مُلْکَہُ، وَکَتَبْتُ إِلَی النَّجَاشِیِّ بِصَحِیفَۃٍ فَخَرَقَہَا وَاللّٰہُ مُخْرِقُہُ وَمُخْرِقٌ مُلْکَہُ، وَکَتَبْتُ إِلَی صَاحِبِکَ بِصَحِیفَۃٍ فَأَمْسَکَہَا، فَلَنْ یَزَالَ النَّاسُ یَجِدُونَ مِنْہُ بَأْسًا مَا دَامَ فِی الْعَیْشِ خَیْرٌ۔)) قُلْتُ: ہٰذِہِ إِحْدَی الثَّلَاثَۃِ الَّتِی أَوْصَانِی بِہَا صَاحِبِی، وَأَخَذْتُ سَہْمًا مِنْ جَعْبَتِی فَکَتَبْتُہَا فِی جِلْدِ سَیْفِی، ثُمَّ إِنَّہُ نَاوَلَ الصَّحِیفَۃَ رَجُلًا عَنْ یَسَارِہِ، قُلْتُ: مَنْ صَاحِبُ کِتَابِکُمُ الَّذِییُقْرَأُ لَکُمْ؟ قَالُوا: مُعَاوِیَۃُ، فَإِذَا فِی کِتَابِ صَاحِبِی تَدْعُونِی إِلٰی جَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمٰوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِینَ فَأَیْنَ النَّارُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((سُبْحَانَ اللّٰہِ أَیْنَ اللَّیْلُ إِذَا جَائَ النَّہَارُ؟)) قَالَ: فَأَخَذْتُ سَہْمًا مِنْ جَعْبَتِی فَکَتَبْتُہُ فِی جِلْدِ سَیْفِی، فَلَمَّا أَنْ فَرَغَ مِنْ قِرَائَۃِ کِتَابِی، قَالَ: ((إِنَّ لَکَ حَقًّا، وَإِنَّکَ رَسُولٌ فَلَوْ وُجِدَتْ عِنْدَنَا جَائِزَۃٌ جَوَّزْنَاکَ بِہَا، إِنَّا سَفْرٌ مُرْمِلُونَ۔)) قَالَ: فَنَادَاہُ رَجُلٌ مِنْ طَائِفَۃِ النَّاسِ قَالَ: أَنَا أُجَوِّزُہُ، فَفَتَحَ رَحْلَہُ فَإِذَا ہُوَ یَأْتِی بِحُلَّۃٍ صَفُورِیَّۃٍ فَوَضَعَہَا فِی حَجْرِی، قُلْتُ: مَنْ صَاحِبُ الْجَائِزَۃِ؟ قِیلَ لِی: عُثْمَانُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَیُّکُمْیُنْزِلُ ہٰذَا الرَّجُلَ۔)) فَقَالَ فَتًی مِنَ الْأَنْصَارِ: أَنَا، فَقَامَ الْأَنْصَارِیُّ وَقُمْتُ مَعَہُ حَتّٰی إِذَا خَرَجْتُ مِنْ طَائِفَۃِ الْمَجْلِسِ نَادَانِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ: ((تَعَالَ یَا أَخَا تَنُوخَ۔)) فَأَقْبَلْتُ أَہْوِی إِلَیْہِ حَتّٰی کُنْتُ قَائِمًا فِی مَجْلِسِی الَّذِی کُنْتُ بَیْنَیَدَیْہِ، فَحَلَّ حَبْوَتَہُ عَنْ ظَہْرِہِ وَقَالَ: ((ہَاہُنَا امْضِ لِمَا أُمِرْتَ لَہُ۔)) فَجُلْتُ فِی ظَہْرِہِ فَإِذَا أَنَا بِخَاتَمٍ فِیْ مَوْضِعِ غُضُونِ الْکَتِفِ مِثْلِ الْحَجْمَۃِ الضَّخْمَۃِ۔ (مسند احمد: ۱۵۷۴۰)
سعید بن ابی راشد سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں ہرقل کے قاصد تنوخی کو حمص میں ملا،جسے اس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف بھیجا تھا، وہ میرا ہمسایہ تھا، وہ بہت بوڑھا ہو چکا تھا، یا شدید بڑھاپے کے قریب پہنچ چکا تھا، میں نے اس سے کہا: کیا آپ مجھے ہرقل کی طرف سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نام اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے ہرقل کے نام ہونے والے نامہ پیام سے آگاہ کر سکتے ہیں؟ اس نے کہا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تبوک میں وارد ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دحیہ کلبی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ہرقل کی طرف قاصد بنا کر روانہ فرمایا، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا مکتوب اس کے پاس پہنچا تو اس نے روم کے عیسائی پادریوں اور زعماء کو بلوایا، دروازے بند کر لیے، اور کہا تم دیکھ رہے ہو کہ یہ شخص یعنی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کیسا مقام حاصل کر گیا ہے۔ اس نے میرے نام پیغام بھیج کر مجھے بھی تین باتوں کی دعوت دی ہے: میں اس کے دین کے بارے میں اس کا پیروکار بن جاؤں، یا پھر میں اسے اپنا مال بطور جزیہ ادا کروں اور یہ سر زمین ہمارے کنٹرول ہی میں رہے یا ہم اس کے ساتھ قتال کے لیے تیار رہیں۔ اللہ کی قسم تم اللہ کی کتابوں میں پڑھ کر جان چکے ہو کہ وہ ضرور بالضرور میرے اس تخت پر قابض ہو گا۔ پس آؤ ہم دین کے بارے میں اس کی پیروی کر لیںیا اس سرزمین کے عوض جزیہ دینے کا فیصلہ کر لیں،یہ سن کر وہ سب قائدینشدت غضب سے مغلوب ہو کر بیک آواز دھاڑے، لگتا تھا کہ وہ اپنے لباس سے باہر نکل آئیں گے، وہ سب کہنے لگے: کیا آپ ہمیں اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ ہم نصرانیت کو ترک کر کے حجاز سے آنے والے ایک دیہاتی کی پیروی اختیار کر لیں؟ جب اسے یقین ہو گیا کہ اگر یہ لوگ یہاں سے باہر گئے تو اہلِ روم کو وہ اس کے خلاف اُکسا اور بھڑکا سکتے ہیں، تو اس نے ان سے کچھ تکرار نہیں کیا، بلکہ ان کو حوصلہ دلاتے ہوئے کہا، میں نے تو تم سے یہ بات صرف آزمانے کے لیے کہی تھی، میں دیکھنا چاہتا تھا کہ تم اپنے دین پر کس حد تک پختہ ہو، پھر اس نے عرب کے تجیب قبیلہ کے ایک آدمی کو بلوایا جو عرب کے نصرانیوں پر مقرر تھا، اور اس سے کہا: تم میرے لیے عربی جاننے والے کسی ایسے آدمی کو بلاؤ جو ذمہ دار قسم کا ہو، میں اسے اس شخص رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف اس کے خط کا جواب دے کر بھیجنا چاہتا ہوں، وہ مجھے ہرقل کی طرف لے گیا اور ہرقل نے ایک خط میرے حوالے کیا اور کہا تم میرایہ خط اس آدمی کے پاس لے جاؤ، اس نے مجھ سے جو کچھ کہا مجھے اس میں سے کوئی بات بھولی نہیں، تو وہاں جا کر میرے لیے اس کی تین باتوں کا خیال رکھنا۔ (۱) دیکھنا کہ اس نے میرے نام جو خط لکھا تھا، وہ اس کا کسی حوالہ سے ذکر بھی کرتا ہے؟ (۲) اور دیکھنا کہ جب وہ میرا خط پڑھے تو رات کو یاد کرتا ہے ؟(۳) اور یہ بھی دیکھنا کہ اس کی پشت پر تمہیں کچھ اجنبی سی چیز محسوس ہوتی ہے ؟میں ہرقل کا خط لے کر تبوک آیا، آپ پانی کے ایک چشمے کے قریب آلتی پالتی مارے صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے۔ میں نے دریافت کیا کہ آپ لوگوں کے سردار کہاں ہیں؟ مجھے بتایا گیا کہ وہ یہ ہیں۔ میں چلتا ہوا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے بیٹھ گیا، اور اپنا خط آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حوالے کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے اپنی گود میں رکھ لیا، اور دریافت فرمایا کہ تم کس قبیلہ سے ہو؟ میں نے عرض کیا: میں تنوخ قبیلہ کا فرد ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں اپنے روحانی باپ ابراہیم علیہ السلام کی ملت حنیفہ اسلام کی رغبت ہے؟ میں نے عرض کیا: میں ایک قوم کا قاصد ہوں اور اسی قوم کے دین کا حامل ہوں۔ میں اپنی قوم کے پاس واپس جانے تک تو اپنے دین سے واپس نہیں آسکتا۔ میرییہ بات سن کر آپ ہنس دیے اور فرمایا: {إِنَّکَ لَا تَہْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِی مَنْ یَشَائُ وَہُوَ أَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِینَ} … آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، البتہ اللہ جسے چاہے ہدایت سے سرفراز کرتا ہے اور وہی راہ یاب ہونے والوں کو بہتر طور پر جانتا ہے۔ (سورۂ قصص: ۵۶) پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے تنوخی! میں نے کسری کے نام ایک خط لکھا تھا، اس نے اسے پھاڑ ڈالا، اللہ اسے اور اس کی حکومت کو ٹکڑے ٹکڑے کرے گا اور میں نے نجاشی کے نام مکتوب لکھا تھا، اس نے اسے پھاڑ ڈالا، اللہ کی قسم، اللہ اسے اور اس کی حکومت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور میں نے تیرے بادشاہ ہرقل کے نام خط لکھا، اس نے اسے احترام سے پکڑا، جب تک اس کی حکومت ہے، لوگوں کو اس کی طرف سے ہمیشہ تکالیف پہنچتی رہیں گی۔ میں نے دل میں کہا کہ میرے آقا نے مجھ سے جو تین باتیں کہی تھیں،یہ ان میں سے ایک ہے، اور میں نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکال کر اس جواب کو اپنی تلوار کی میان پر لکھ لیا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ خط اپنے بائیں طرف بیٹھے ہوئے ایک آدمی کو دیا میں نے کہا اس خط کو کون پڑھے گا؟ لوگوں نے کہا: سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، میرے آقا کے خط میں لکھا ہوا تھا کہ آپ مجھے آسمانوں اور زمینوں کے برابر عرض والی جنت کی طرف بلاتے ہیں، جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے تو جہنم کہاں ہے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ، یہ کیسی بات ہوئی؟ جب دن آتا ہے تو رات کہاں جاتی ہے؟ یہ سن کر میں نے اپنے ترکش سے ایک تیرنکال کر اپنی تلوار کی میان پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جواب کو لکھ لیا، جب آپ میرے لائے ہوئے مکتوب کے پڑھنے سے فارغ ہوئے تو فرمایا: تم ایک قاصد ہو اور تمہارا ایک حق ہے، اگر میرے پاس تمہیں دینے کے لیے کچھ ہوتا تو ضرور عنایت کرتا، ہم اس وقت سفر میں ہیں اور سارا سامان ختم ہو چکا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کییہ بات سن کر لوگوں کے گروہ میں سے ایک آدمی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پکار کر کہا: میں اسے تحفہ دیتا ہوں، اس نے اپنا سامان کھولا اور وہ اردن کے علاقے صفوریہ کا تیار شدہ ایک شان دار سوٹ لایا اور اس نے اسے میری گود میں رکھ دیا، میںنے پوچھا یہ تحفہ دینے والے کا کیا تعارف ہے؟ تو مجھے بتلایا گیا کہ یہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے کون ہے جو اس کی میزبانی کرے گا؟ ایک انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کھڑے ہو کر کہا: جی میں ،وہ انصاری اُٹھا اور میں بھی اس کے ساتھ اُٹھ کھڑا ہوا۔ جب میں لوگوں کے گروہ میں سے ذرا باہر پہنچا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے پکار کر فرمایا: اے تنوخی! ذرا ادھر آنا۔ میں جلدی سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آکر، اپنی اسی جگہ پر کھڑا ہو گیا، جہاں پہلے میں بیٹھا تھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی پشت سے چادر ہٹا دی اور فرمایا: تمہیں جو بات کہی گئی تھی، ادھر آکر دیکھ لو۔ میں نے آپ کیپشت مبارک کو دیکھا تو وہاں کندھے کے قریب سینگی کے نشان جیسی بڑی جگہ تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10936

۔ (۱۰۹۳۶)۔ قَالَ ثَنَا سُرَیْجٍُ بْنُ یُوْنُسَ مِنْ کِتَابِہِ قَالَ: ثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ یَعْنِی الْمُھَلَّبِیَّ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَیْمٍ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ اَبِیْ رَاشِدٍ مَوْلٰی لِآلِ مُعَاوِیَۃَ، فَذَکَرَ نَحْوَ الْحَدِیْثِ الْمُتَقَدَّمِ وَقَالُوا: لَا نَتَّبِعُہُ عَلٰی دِینِہِ وَنَدَعُ دِینَنَا وَدِینَ آبَائِنَا، وَلَا نُقِرُّ لَہُ بِخَرَاجٍ یَجْرِی لَہُ عَلَیْنَا وَلٰکِنْ نُلْقِی إِلَیْہِ الْحَرْبَ، (وَفِیْہِ اَیْضًا) قَالَ: قَالَ عَبَّادٌ: فَقُلْتُ لِابْنِ خُثَیْمٍ: أَلَیْسَ قَدْ أَسْلَمَ النَّجَاشِیُّ وَنَعَاہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْمَدِینَۃِ إِلٰی أَصْحَابِہِ فَصَلّٰی عَلَیْہِ؟ قَالَ: بَلٰی، ذَاکَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ وَہٰذَا فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، قَدْ ذَکَرَہُمْ ابْنُ خُثَیْمٍ جَمِیعًا وَنَسِیتُہُمَا، (وَفِیْہِ اَیْضًا) قَالَ رَسُوْلُ قَیْصَرَ فَلَمَّا وَلَّیْتُ دَعَانِی (یَعْنِی النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) فَقَالَ: ((یَا أَخَا تَنُوخٍ ہَلُمَّ فَامْضِ لِلَّذِی أُمِرْتَ بِہِ۔)) قَالَ: وَکُنْتُ قَدْ نَسِیتُہَا فَاسْتَدَرْتُ مِنْ وَرَائِ الْحَلْقَۃِ، وَیَلْقٰی بُرْدَۃً کَانَتْ عَلَیْہِ عَنْ ظَہْرِہِ، فَرَأَیْتُ غُضْرُوفَ کَتِفِہِ مِثْلَ الْمِحْجَمِ الضَّخْمِ۔ (مسند احمد: ۱۶۸۱۳)
آلِ معاویہ کے ایک غلام سعید بن ابی راشد سے مروی ہے، پھر انھوں نے سا بقہ روایت کی طرح کی روایت بیان کی، البتہ اس میں یہ بھی ہے: عیسائی پادریوں اور زعماء نے کہا کہ ہم دین کے بارے میں اس کی اتباع نہیں کریں گے، نہ ہی ہم اپنے اور اپنے آباء کے دین کو چھوڑ یں گے، نہ ہی ہم اسے خراج دینا قبول کرتے ہیں، البتہ ہم اس کے ساتھ لڑنے کو تیار ہیں۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ عباد نے بیان کیا کہ میں نے ابن خثیم سے کہا: کیا نجاشی نے اسلام قبول کر لیا تھا؟ اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مدینہ منورہ میں صحابہ کرام کو اس کی وفات کی خبر دیتے ہوئے( غائبانہ ) نماز جنازہ نہیں پڑھائی تھی؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، وہ فلاں بن فلاں تھا اور یہ فلاں بن فلاں تھا۔ ابن خثیم نے ان سب کے نام لیے تھے، میں یہ نام بھول چکا ہوں۔ (اس روایت میں یہ بھی ہے کہ) قیصر کے قاصد نے کہا: جب میں واپس ہو کر جانے لگا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بلایااور فرمایا: اے تنوخی ادھر آ، وہ کام بھی کر جا جس کا تجھے حکم دیا گیا تھا۔ دراصل میں اس کام کو بھول چکا تھا، میں لوگوں کے پیچھے سے چکر لگا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے آگیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پشت پر جو چادر تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے ہٹایا، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کندھے کی ہڈی پر سینگی کے نشان جیسا بڑا نشان دیکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10937

۔ (۱۰۹۳۷)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَامَ غَزْوَۃِ تَبُوکَ قَامَ مِنَ اللَّیْلِیُصَلِّی، فَاجْتَمَعَ وَرَائَہُ رِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِہِ، یَحْرُسُونَہُ حَتّٰی إِذَا صَلّٰی وَانْصَرَفَ إِلَیْہِمْ فَقَالَ لَہُمْ: ((لَقَدْ أُعْطِیتُ اللَّیْلَۃَ خَمْسًا، مَا أُعْطِیَہُنَّ أَحَدٌ قَبْلِی، أَمَّا أَنَا فَأُرْسِلْتُ إِلَی النَّاسِ کُلِّہِمْ عَامَّۃً، وَکَانَ مَنْ قَبْلِی إِنَّمَا یُرْسَلُ إِلٰی قَوْمِہِ، وَنُصِرْتُ عَلَی الْعَدُوِّ بِالرُّعْبِ، وَلَوْ کَانَ بَیْنِی وَبَیْنَہُمْ مَسِیرَۃُ شَہْرٍ لَمُلِئَ مِنْہُ رُعْبًا، وَأُحِلَّتْ لِی الْغَنَائِمُ آکُلُہَا، وَکَانَ مَنْ قَبْلِییُعَظِّمُونَ أَکْلَہَا کَانُوا یُحْرِقُونَہَا، وَجُعِلَتْ لِی الْأَرْضُ مَسَاجِدَ وَطَہُورًا، أَیْنَمَا أَدْرَکَتْنِی الصَّلَاۃُ تَمَسَّحْتُ وَصَلَّیْتُ، وَکَانَ مَنْ قَبْلِییُعَظِّمُونَ ذٰلِکَ، إِنَّمَا کَانُوا یُصَلُّونَ فِی کَنَائِسِہِمْ وَبِیَعِہِمْ، وَالْخَامِسَۃُ ہِیَ مَا ہِیَ قِیلَ لِی سَلْ فَإِنَّ کُلَّ نَبِیٍّ قَدْ سَأَلَ، فَأَخَّرْتُ مَسْأَلَتِی إِلٰییَوْمِ الْقِیَامَۃِ، فَہِیَ لَکُمْ وَلِمَنْ شَہِدَ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ۔)) (مسند احمد: ۷۰۶۸)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ غزوۂ تبوک والے سال اللہ کے رسول قیام اللیل کے لیے کھڑے ہوئے،صحابہ کرام آپ کا پہرہ دینے کے لیے آپ کے پیچھے جمع ہو گئے، یہاں تک کہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز سے فارغ ہو کر ان کی طرف متوجہ ہوئے تو فرمایا: آج رات مجھے پانچ ایسی خصوصیات سے نوازا گیا ہے کہ مجھ سے پہلے کسی بھی نبی کو وہ خصوصیات عطا نہیں کی گئیں، مجھے روئے زمین کے تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر مبعوث کیا گیا ہے، مجھ سے پہلے محض اپنی اپنی قوم کی طرف رسول بنا کر مبعوث کیے جاتے تھے، دشمن پر رعب اور ہیبت کے ذریعے میریمدد کی گئی ہے، اگر چہ میرے اور اس کے درمیان ایک ماہ کی مسافت کیوں نہیں ہو، وہ اس کے باوجود مرعوب ہو جاتا ہے اور میرے لیے غنیمتیں حلال کر دی گئی ہیں اور میں اور میری امت اس مال کو کھا سکتے ہیں اور پوری زمین کو میرے لیے مسجد اور طہارت کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے، مجھے جہاں بھی نماز کا وقت ہو جائے تو تیمم کر کے نماز ادا کر سکتا ہوں، مجھ سے پہلے لوگ اس خصوصیت سے محروم تھے، وہ اپنے گرجا گھروں اور مقررہ عبادت گاہوں میں ہی نماز ادا کر سکتے تھے اور پانچویں خصوصیت کے تو کیا ہی کہنے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے کہا گیا کہ آپ سوال کریں، ہر نبی اللہ تعالیٰ سے درخواست کر چکا ہے، تو میں نے اپنی درخواست کو قیامت کے دن تک مؤخر کر دیا ہے، میرییہ درخواست تمہارے حق میں اور ہر اس آدمی کے حق میں ہو گی جو صدق دل سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10938

۔ (۱۰۹۳۸)۔ عَنْ أَبِی ہَمَّامٍ الشَّعْبَانِیِّ قَالَ: حَدَّثَنِی رَجُلٌ مِنْ خَثْعَمَ، قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ، فَوَقَفَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ، وَاجْتَمَعَ عَلَیْہِ أَصْحَابُہُ، فَقَالَ: ((إِنَّ اللّٰہَ أَعْطَانِی اللَّیْلَۃَ الْکَنْزَیْنِ کَنْزَ فَارِسَ وَالرُّومِ، وَأَمَدَّنِی بِالْمُلُوکِ مُلُوکِ حِمْیَرَ الْأَحْمَرِیْنَ، وَلَا مُلْکَ إِلَّا لِلَّہِ یَأْتُونَیَأْخُذُونَ مِنْ مَالِ اللّٰہِ، وَیُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ۔)) قَالَہَا ثَلَاثًا۔ (مسند احمد: ۲۲۶۹۱)
ابو ہمام شعبانی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بنو خثعم کے ایک شخص نے مجھے بیان کیا کہ ہم غزوۂ تبوک میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رات کو قیام کیا، صحابہ کرام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب اکٹھے ہو گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے آج رات مجھے فارس اور روم کے دو خزانے عطا فرما دئیے ہیں اور سرخ رنگ کے شاہانِ حمیر کے ذریعہ میری مدد فرمائی ہے، درحقیقت بادشاہت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، یہ بادشاہ آتے ہیں اور اللہ کا مال لے کر اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے۔ یہ بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10939

۔ (۱۰۹۳۹)۔ عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ قَالَ: لَمَّا أَقْبَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ غَزْوَۃِ تَبُوکَ أَمَرَ مُنَادِیًا فَنَادٰی: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَخَذَ الْعَقَبَۃَ فَلَا یَأْخُذْہَا أَحَدٌ، فَبَیْنَمَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُودُہُ حُذَیْفَۃُ وَیَسُوقُبِہِ عَمَّارٌ، إِذْ أَقْبَلَ رَہْطٌ مُتَلَثِّمُونَ عَلَی الرَّوَاحِلِ غَشُوْا عَمَّارًا، وَہُوَ یَسُوقُ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَقْبَلَ عَمَّارٌ یَضْرِبُ وُجُوہَ الرَّوَاحِلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِحُذَیْفَۃَ: ((قَدْ قَدْ۔)) حَتّٰی ہَبَطَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّا ہَبَطَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَزَلَ وَرَجَعَ عَمَّارٌ فَقَالَ: ((یَا عَمَّارُ ہَلْ عَرَفْتَ الْقَوْمَ؟)) فَقَالَ: قَدْ عَرَفْتُ عَامَّۃَ الرَّوَاحِلِ، وَالْقَوْمُ مُتَلَثِّمُونَ قَالَ: ((ہَلْ تَدْرِی مَا أَرَادُوا؟)) قَالَ: اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: ((أَرَادُوا أَنْ یَنْفِرُوا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَیَطْرَحُوہُ۔)) قَالَ: فَسَأَلَ عَمَّارٌ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: نَشَدْتُکَ بِاللّٰہِ، کَمْ تَعْلَمُ کَانَ أَصْحَابُ الْعَقَبَۃِ؟ فَقَالَ: أَرْبَعَۃَ عَشَرَ، فَقَالَ: إِنْ کُنْتَ فِیہِمْ فَقَدْ کَانُوا خَمْسَۃَ عَشَرَ فَعَدَّدَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْہُمْ ثَلَاثَۃً، قَالُوا: وَاللّٰہِ، مَا سَمِعْنَا مُنَادِیَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَا عَلِمْنَا مَاأَرَادَ الْقَوْمُ، فَقَالَ: عَمَّارٌ أَشْہَدُ أَنَّ الِاثْنَیْ عَشَرَ الْبَاقِینَ حَرْبٌ لِلَّہِ وَلِرَسُولِہِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَیَقُومُ الْأَشْہَادُ، قَالَ الْوَلِیدُ: وَذَکَرَ أَبُو الطُّفَیْلِ فِی تِلْکَ الْغَزْوَۃِ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لِلنَّاسِ وَذُکِرَ لَہُ أَنَّ فِی الْمَائِ قِلَّۃً، فَأَمَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُنَادِیًا فَنَادٰی أَنْ لَا یَرِدَ الْمَائَ أَحَدٌ قَبْلَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَوَرَدَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَوَجَدَ رَہْطًا قَدْ وَرَدُوہُ قَبْلَہُ فَلَعَنَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَئِذٍ۔ (مسند احمد: ۲۴۲۰۲)
سیدنا ابو طفیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تبوک سے واپس ہوئے توآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک اعلان کرنے والے کو حکم دیا اور اس نے اعلان کیا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پہاڑ کے اوپر والا راستہ اختیار کریں گے، لہٰذا کوئی دوسراآدمییہ راستہ اختیار نہ کرے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے آگے آگے سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ او رپیچھے پیچھے سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، منہ چھپائے اونٹوں پر سوار کچھ لوگ اچانک آگئے اور سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر ازدحام کر لیا اور وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اونٹ کو ہانک رہے تھے، سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان حملہ آوروں کے اونٹوں کے مونہوں پر مارنا شروع کیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: بس، بس۔ یہاں تک کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نیچے اتر آئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب نیچے اترے تو سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ واپس آگئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عمار ! کیا آپ نے ان لوگوں کو پہنچانا؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں اکثر اونٹوں کو تو پہچان چکا ہوں، البتہ وہ لوگ منہ چھپائے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جانتے ہو کہ ان کا کیا ارادہ تھا؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کا ارادہ تھا کہ وہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو الگ کر کے لے جائیں اور ان کو نیچے گرا دیں، سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے چپکے سے ایک صحابی سے بات کی اور پوچھا: میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ ان لوگوں کی تعداد کتنی تھی؟ اس نے کہا: چودہ، انہوں نے کہا کہ اگر تم بھی انہی میں سے ہو تو یہ کل تعداد پندرہ ہوئی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان میں سے تین آدمیوں کا نام لیا، جنہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم نے اللہ کے رسول کی طرف سے اعلان کرنے والے کا اعلان نہیں سنا تھا، اور نہ ہی ہمیں ان لوگوں کے ارادہ کا علم تھا۔ سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ ان میں سے باقی پندرہ آدمی سب ہی دنیا اور آخرت میں اللہ اور اس کے رسول کے مخالف ہیں۔ ولید نے کہا کہ سیدنا ابو طفیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس غزوہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے جب پانی کی قلت کا ذکر کیا گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں سے فرمایا اور اعلان کرایا کہ اللہ کے رسول سے پہلے کوئی آدمی پانی کے قریب نہ جائے۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب پانی کے قریب پہنچے تو آپ نے کچھ لوگوں کو دیکھا، جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پہلے وہاں پہنچ چکے تھے۔ تو اس روز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان پر لعن طعن کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10940

۔ (۱۰۹۴۰)۔ حَدَّثَنَا وُہَیْبُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ یَحْیٰی عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ عَنْ أَبِی حُمَیْدٍ السَّاعِدِیِّ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَامَ تَبُوکَ حَتّٰی جِئْنَا وَادِیَ الْقُرٰی، فَإِذَا امْرَأَۃٌ فِی حَدِیقَۃٍ لَہَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِأَصْحَابِہِ: ((اخْرُصُوا۔)) فَخَرَصَ الْقَوْمُ وَخَرَصَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَشَرَۃَ أَوْسُقٍ، وَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِلْمَرْأَۃِ: ((أَحْصِی مَا یَخْرُجُ مِنْہَا حَتّٰی أَرْجِعَ إِلَیْکِ إِنْ شَائَ اللّٰہُ۔)) قَالَ: فَخَرَجَ حَتّٰی قَدِمَ تَبُوکَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّہَا سَتَبِیتُ عَلَیْکُمْ اللَّیْلَۃَ رِیحٌ شَدِیدَۃٌ، فَلَا یَقُومُ مِنْکُمْ فِیہَا رَجُلٌ، فَمَنْ کَانَ لَہُ بَعِیرٌ فَلْیُوثِقْ عِقَالَہُ۔)) قَالَ: قَالَ أَبُو حُمَیْدٍ: فَعَقَلْنَاہَا فَلَمَّا کَانَ مِنَ اللَّیْلِ ہَبَّتْ عَلَیْنَا رِیحٌ شَدِیدَۃٌ، فَقَامَ فِیہَا رَجُلٌ فَأَلْقَتْہُ فِی جَبَلِ طَیِّئٍ، ثُمَّ جَائَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَلِکُ أَیْلَۃَ، فَأَہْدٰی لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَغْلَۃً بَیْضَائَ، فَکَسَاہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بُرْدًا، وَکَتَبَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِبَحْرِہِ، قَالَ: ثُمَّ أَقْبَلَ وَأَقْبَلْنَا مَعَہُ حَتّٰی جِئْنَا وَادِیَ الْقُرٰی فَقَالَ لِلْمَرْأَۃِ: ((کَمْ حَدِیقَتُکِ؟)) قَالَتْ: عَشَرَۃُ أَوْسُقٍ، خَرْصُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنِّی مُتَعَجِّلٌ فَمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ یَتَعَجَّلَ فَلْیَفْعَلْ۔)) قَالَ فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَخَرَجْنَا مَعَہُ حَتّٰی إِذَا أَوْفٰی عَلَی الْمَدِینَۃِ، قَالَ: ((ہِیَ ہٰذِہِ طَابَۃُ۔)) فَلَمَّا رَأٰی أُحُدًا قَالَ: ((ہٰذَا أُحُدٌ یُحِبُّنَا وَنُحِبُّہُ، أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِخَیْرِ دُورِ الْأَنْصَارِ؟)) قَالَ: قُلْنَا: بَلٰی،یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((خَیْرُ دُورِ الْأَنْصَارِ بَنُو النَّجَّارِ، ثُمَّ دَارُ بَنِی عَبْدِ الْأَشْہَلِ، ثُمَّ دَارُ بَنِی سَاعِدَۃَ، ثُمَّ فِی کُلِّ دُورِ الْأَنْصَارِ خَیْرٌ۔)) (مسند احمد: ۲۴۰۰۲)
سیدنا ابو حمید ساعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں روانہ ہوئے، جب ہم وادی ٔ قریٰ میں پہنچے تو وہاں ایک خاتون اپنے باغ میں موجود تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ سے فرمایا: تم اس باغ کے پھل کا تخمینہ لگاؤ۔ لوگوں نے اندازے لگائے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دس وسق کا تخمینہ لگایا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس خاتون سے فرمایا: اس باغ سے جو فصل حاصل ہو،اس کو یاد رکھنا، تاآنکہ میں تمہارے پاس ان شاء اللہ واپس آؤں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں سے روانہ ہو کر تبوک پہنچے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آج رات انتہائی تیز ہوا اور آندھی چلے گی، تم میں سے کوئی آدمی آندھی میں کھڑا نہ ہو، جس کے پاس اونٹ ہے وہ اس کے پاؤں کی رسی کو مضبوط باندھ دے۔ سیدنا ابو حمید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم نے اونٹوں کو مضبوط باندھ دیا، جب رات ہوئی تو تیز آندھی چلی، ایک آدمی اس میں کھڑا ہو گیا تو آندھی نے اسے قبیلہ طے کے پہاڑوں میں جا گرا یا، بعدازاں ایلہ کا حاکم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا، اس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک سفید خچر بطور ہدیہ پیش کیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے ایک چادر عنایت فرمائی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی بستی اور علاقہ اس کو لکھ دیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ہم واپسی پر وادیٔ قری میں پہنچے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس عورت سے دریافت فرمایا: تمہارے باغ سے کتنا پھل حاصل ہوا؟ اس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے تخمینہ کے مطابق بتایا کہ دس وسق حاصل ہوا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں جلدی میں ہوں، میرے ساتھ جو کوئی جلدی جانا چاہتا ہے، تیار ہو جائے۔ آتے آتے جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو فرمایا: وہ مدینہ منورہ طابہ ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نظر احدپہاڑ پر پڑی تو فرمایا: یہ احد پہاڑ ہے، یہ ہم سے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں، کیا میں تمہیں انصار کے بہترین قبائل سے آگاہ نہ کروں؟ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ضرور آگاہ فرمائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انصار کے قبائل میں سب سے بہتر بنو نجار، ان کے بعد بنو عبدالاشھل اور ان کے بعد بنو ساعدہ ہے، پھر انصار کے تمام ہی قبائل میں خیر ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10941

۔ (۱۰۹۴۱)۔ عَنْ اَنَسٍ قَالَ: لَمَّا رَجَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ فَدَنَا مِنَ الْمَدِیْنَۃِ قَالَ: ((إِنَّ بِالْمَدِیْنَۃِ لَقَوْمًا مَاسِرْتُمْ مَسِیْرًا وَلَاقَطَعْتُمْ وَادِیًا إِلَّا کَانُوْا مَعَکُمْ فِیْہِ۔)) قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَھُمْ بِالْمَدِیْنَۃِ؟ قَالَ: ((وَھُمْ بِالْمَدِیْنَۃِ حَبَسَہُمُ الْعُذْرُ۔)) (مسند احمد: ۱۲۰۳۲)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غزوۂ تبوک سے واپس تشریف لاتے ہوئے مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو فرمایا: مدینہ منورہ میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ تم نے جہاں بھی سفر کیا اور جس وادی کو طے کیا، وہ تمہارے ساتھ نہ جانے کے باوجود اجرو ثواب میں تمہارے ساتھ برابر شریک رہے ہیں۔ صحابہ کرام نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! جبکہ وہ مدینہ منورہ ہی میں رہے اور سفر کے لیے نہیں نکلے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، وہ مدینہ میں ہی رہے، دراصل بات یہ ہے کہ عذر نے ان کو روکا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10942

۔ (۱۰۹۴۲)۔ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ: قُلْتُ لِسَعْدِ بْنِ مَالِکٍ: إِنِّی أُرِیدُ أَنْ أَسْأَلَکَ عَنْ حَدِیثٍ وَأَنَا أَہَابُکَ أَنْ أَسْأَلَکَ عَنْہُ، فَقَالَ: لَا تَفْعَلْ یَا ابْنَ أَخِی! إِذَا عَلِمْتَ أَنَّ عِنْدِی عِلْمًا فَسَلْنِی عَنْہُ وَلَا تَہَبْنِی، قَالَ: فَقُلْتُ: قَوْلُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعَلِیٍّ حِینَ خَلَّفَہُ بِالْمَدِینَۃِ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ، فَقَالَ سَعْدٌ: خَلَّفَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلِیًّا بِالْمَدِینَۃِ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَتُخَلِّفُنِی فِی الْخَالِفَۃِ فِی النِّسَائِ وَالصِّبْیَانِ؟ فَقَالَ: ((أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُونَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ہَارُونَ مِنْ مُوسَی؟)) قَالَ: بَلَی،یَارَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: فَأَدْبَرَ عَلِیٌّ مُسْرِعًا کَأَنِّی أَنْظُرُ إِلٰی غُبَارِ قَدَمَیْہِیَسْطَعُ، وَقَدْ قَالَ حَمَّادٌ: فَرَجَعَ عَلِیٌّ مُسْرِعًا۔ (مسند احمد: ۱۴۹۰)
سعید بن مسبب سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا سعد بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: میں آپ سے ایک بات دریافت کرنا چاہتا ہوں، لیکن آپ سے پوچھتے ہوئے ڈرتا بھی ہوں۔ انہوں نے کہا: بھتیجے! ایسا نہ کرو، جب تم جانتے ہو کہ میرے پاس کسی بات کا علم ہے تو مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، پوچھو، میں نے کہا: غزوۂ تبوک کے موقع پر جب اللہ کے رسول نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو مدینہ منورہ میں اپنے پیچھے چھوڑ کر جا رہے تھے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کیا فرمایا تھا؟ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اپنے پیچھے مدینہ منورہ میں چھوڑنے کا اظہار فرمایا تو انہوں نے عرض کیا: کیا آپ مجھے یہاں غزوہ سے پیچھے رہ جانے والی عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ تمہاری میرے ساتھ وہی نسبت ہو جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام کو تھی؟ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ٹھیک ہے، پھر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یوںتیزی سے واپس ہوئے کہ گویا میں ان کے قدموں سے اُڑنے والے غبار کو اب بھی دیکھ رہا ہوں، دوسری روایت میں ہے: سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جلدی جلدی واپس لوٹ گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10943

۔ (۱۰۹۴۳)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُٔونٍ قَالَ: إِنِّی لَجَالِسٌ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ إِذْ أَتَاہُ تِسْعَۃُ رَہْطٍ، فَقَالُوْا: یَا أَبَا عَبَّاسٍ! إِمَّا أَنْ تَقُومَ مَعَنَا، ٔوَإِمَّا أَنْ یُخْلُونَا ہٰؤُلَائِ، قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بَلْ أَقُومُ مَعَکُمْ، قَالَ: وَہُوَ یَوْمَئِذٍ صَحِیحٌ قَبْلَ أَنْ یَعْمٰی، قَالَ فَابْتَدَء ُوا فَتَحَدَّثُوا فَلَا نَدْرِی مَا قَالُوْا، قَالَ: فَجَائَ یَنْفُضُ ثَوْبَہُ وَیَقُولُ: أُفْ وَتُفْ وَقَعُوا فِی رَجُلٍ لَہُ عَشْرٌ، وَقَعُوا فِی رَجُلٍ قَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَأَبْعَثَنَّ رَجُلًا لَا یُخْزِیہِ اللّٰہُ أَبَدًا، یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ۔)) قَالَ: فَاسْتَشْرَفَ لَہَا مَنِ اسْتَشْرَفَ، قَالَ: ((أَیْنَ عَلِیٌّ؟)) قَالُوْا: ہُوَ فِی الرَّحْلِ یَطْحَنُ، قَالَ: وَمَا کَانَ أَحَدُکُمْ لِیَطْحَنَ، قَالَ: فَجَائَ وَہُوَ أَرْمَدُ لَا یَکَادُیُبْصِرُ، قَالَ: فَنَفَثَ فِی عَیْنَیْہِ ثُمَّ ہَزَّ الرَّایَۃَ ثَلَاثًا فَأَعْطَاہَا إِیَّاہُ، فَجَائَ بِصَفِیَّۃَ بِنْتِ حُیَیٍّ، قَالَ: ثُمَّ بَعَثَ فُلَانًا بِسُورَۃِ التَّوْبَۃِ، فَبَعَثَ عَلِیًّا خَلْفَہُ فَأَخَذَہَا مِنْہُ، قَالَ: ((لَا یَذْہَبُ بِہَا إِلَّا رَجُلٌ مِنِّی وَأَنَا مِنْہُ۔)) قَالَ: وَقَالَ لِبَنِی عَمِّہِ: ((أَیُّکُمْیُوَالِینِی فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ؟)) قَالَ: وَعَلِیٌّ مَعَہُ جَالِسٌ فَأَبَوْا فَقَالَ عَلِیٌّ: أَنَا أُوَالِیکَ فِیالدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، قَالَ: ((أَنْتَ وَلِیِّی فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔)) قَالَ: فَتَرَکَہُ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی رَجُلٍ مِنْہُمْ، فَقَالَ: ((أَیُّکُمْیُوَالِینِی فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ؟)) فَأَبَوْا قَالَ: فَقَالَ عَلِیٌّ: أَنَا أُوَالِیکَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، فَقَالَ: ((أَنْتَ وَلِیِّی فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔)) َقَالَ: وَکَانَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ النَّاسِ بَعْدَ خَدِیجَۃَ، قَالَ: وَأَخَذَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثَوْبَہُ فَوَضَعَہُ عَلٰی عَلِیٍّ وَفَاطِمَۃَ وَحَسَنٍ وَحُسَیْنٍ فَقَالَ {إِنَّمَا یُرِیدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا} قَالَ: وَشَرٰی عَلِیٌّ نَفْسَہُ لَبِسَ ثَوْبَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ نَامَ مَکَانَہُ، قَالَ: وَکَانَ الْمُشْرِکُونَ یَرْمُونَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَائَ أَبُو بَکْرٍ وَعَلِیٌّ نَائِمٌ، قَالَ: وَأَبُو بَکْرٍ یَحْسَبُ أَنَّہُ نَبِیُّ اللّٰہِ، قَالَ: فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ: إِنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدِ انْطَلَقَ نَحْوَ بِئْرِ مَیْمُونٍ فَأَدْرِکْہُ، قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو بَکْرٍ فَدَخَلَ مَعَہُ الْغَارَ، قَالَ: وَجَعَلَ عَلِیٌّیُرْمٰی بِالْحِجَارَۃِ کَمَا کَانَ یُرْمٰی نَبِیُّ اللّٰہِ وَہُوَ یَتَضَوَّرُ قَدْ لَفَّ رَأْسَہُ فِی الثَّوْبِ لَا یُخْرِجُہُ حَتّٰی أَصْبَحَ، ثُمَّ کَشَفَ عَنْ رَأْسِہِ فَقَالُوْا: إِنَّکَ لَلَئِیمٌ کَانَ صَاحِبُکَ نَرْمِیہِ فَلَا یَتَضَوَّرُ، وَأَنْتَ تَتَضَوَّرُ، وَقَدْ اسْتَنْکَرْنَا ذٰلِکَ، قَالَ: وَخَرَجَ بِالنَّاسِ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ: أَخْرُجُ مَعَکَ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ نَبِیُّ اللّٰہِ: ((لَا۔)) فَبَکٰی عَلِیٌّ، فَقَالَ لَہُ: ((أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُونَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ہَارُونَ مِنْ مُوسٰی إِلَّا أَنَّکَ لَسْتَ بِنَبِیٍّ، إِنَّہُ لَا یَنْبَغِی أَنْ أَذْہَبَ إِلَّا وَأَنْتَ خَلِیفَتِی۔)) قَالَ: وَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ: أَنْتَ ((وَلِیِّی فِی کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِی۔)) وَقَالَ: ((سُدُّوا أَبْوَابَ الْمَسْجِدِ غَیْرَ بَابِ عَلِیٍّ۔)) فَقَالَ: فَیَدْخُلُ الْمَسْجِدَ جُنُبًا وَہُوَ طَرِیقُہُ لَیْسَ لَہُ طَرِیقٌ غَیْرُہُ، قَالَ: وَقَالَ: ((مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَإِنَّ مَوْلَاہُ عَلِیٌّ۔)) قَالَ: وَأَخْبَرَنَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِی الْقُرْآنِ أَنَّہُ قَدْ رَضِیَ عَنْہُمْ عَنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَۃِ، فَعَلِمَ مَا فِی قُلُوبِہِمْ، ہَلْ حَدَّثَنَا أَنَّہُ سَخِطَ عَلَیْہِمْ بَعْدُ، قَالَ: وَقَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعُمَرَ حِینَ قَالَ: ائْذَنْ لِی فَلْأَضْرِبْ عُنُقَہُ، قَالَ: ((أَوَکُنْتَ فَاعِلًا، وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ اللّٰہَ قَدِ اطَّلَعَ إِلٰی أَہْلِ ٔبَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ۔)) (مسند احمد: ۳۰۶۱)
عمرو بن میمون سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کی خدمت میںبیٹھا تھا کہ نو آدمی ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوںنے کہا: اے ابو العباس! یا تو آپ اٹھ کر ہمارے ساتھ چلیںیایہ لوگ اٹھ جائیں اور ہمیں خلوت دیں، سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: میں تمہارے ساتھ اٹھ جاتا ہوں، عمر و بن میمون کہتے ہیں: ان دنوں سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما صحت مند تھے، یہ ان کے نابینا ہونے سے قبل کی بات ہے، عمرو کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے ابتداء کرتے ہوئے بات کی، ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے کیا کہا؟ کچھ دیر بعد سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے آگئے، وہ کہہ رہے تھے، ہائے افسوس یہ لوگ اس آدمی پر طعن و تشنیع کرتے ہیں، جسے دس امتیازات حاصل ہوں، یہ اس شخصیت پر معترض ہیں، جس کی بابت نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: میں اب ایک ایسے آدمی کو بھیجوں گا کہ جسے اللہ کبھی ناکام نہیں کرے گا، وہ اللہ سے اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: آپ کییہ بات سن کر بہت سے لوگوں نے گردنیں اوپر کو اٹھائیں، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہاں ہیں؟ بتانے والے نے بتلایا کہ وہ اپنے خیمے میںآٹا پیس رہے ہیں، سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: اب تم میں سے کوئی آدمییہ کام نہیں کرتا، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں اور وہ دیکھ بھی نہیں سکتے تھے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی آنکھو ںمیں لعاب ڈالا، پھر جھنڈے کو تین بار لہرا کر ان کے حوالے کیا، وہ فتح یاب واپس ہوئے اور قیدیوں میں صفیہ بنت حیی بھی تھیں، سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فلاں آدمی کو سورۂ توبہ دے کر روانہ کیا، اس کے بعد سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ان کے پیچھے روانہ فرمایا، انہوں نے جا کر اس سے سورۂ توبہ لے لی، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ اس سورت کو ایسا آدمی لے جائے، جو مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی برادری سے فرمایا تھا کہ تم میں سے کون ہے جو دنیا و آخرت میں میرا ساتھ دے اور میرے ساتھ رہے؟ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی وہیں بیٹھے تھے، لوگوں نے انکار کیا تو علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں دنیا و آخرت میں آپ کے ساتھ رہوں گا،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دنیا و آخرت میں تم میرے ساتھ ہی ہو، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انہیں چھوڑ کر دوسرے آدمی کی طرف متوجہ ہوئے، اور فرمایا: تم میں سے کون دنیا و آخرت میں میرا ساتھ دے گا؟ لوگوں نے انکار کیا تو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ دنیا و آخرت میں میں آپ کے ساتھ رہوں گا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم دنیا اور آخرت میں میرے ساتھی ہو۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا:سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے بعد انہوں نے ہی سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی چادر لے کر سیدنا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن اور سیدنا حسین کے اوپر ڈال دی اور فرمایا:{اِنَّمَایُرِیْدُ اللّٰہَ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الِّرجْسَ اَھْلَ الْبَیِتَ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا} … صرف اللہ تعالیٰیہ چاہتا ہے کہ وہ اے اہل بیت تم سے گندگی کو دور کر دے اور تم کو پاک صاف کر دے۔ اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے اپنی جان کا نذرانہ یوں پیش کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا لباس زیب تن کر کے ان کی جگہ پر سوگئے اور مشرکین رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پتھر مار رہے تھے، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سوئے ہوئے تھے، انہوںنے سمجھا کہ یہ اللہ کے نبی ہیں، انہوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! تو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کے نبی تو بئر میمون کی طرف تشریف لے گئے ہیں،یہ ایک کنویں کا نام تھا، آپ ان کے پاس مل جائیں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی پیچھے پہنچ گئے، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ساتھ چلے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہم راہ غار میں جا داخل ہوئے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بھی اسی طرح پتھر مارے گئے، جیسے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مارے جاتے تھے، اور وہ کپڑے ہی میں کپڑے کے نیچے ہی الٹ پلٹ رہے تھے، انہوں نے اپنا سر کپڑے میں اچھی طرح چھپا لیا، سر کو باہر نہیں نکالتے تھے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی، اس کے بعد انہوں نے اپنے سر سے کپڑا ہٹایا، تو مشرکین نے کہا: تم بڑے ذلیل ہو، ہم تمہارے ساتھی کو پتھر مارتے تھے تو وہ اس طرح الٹتے پلٹتے نہیں تھے اور تم تو پتھر لگنے پر الٹے سیدھے ہوتے تھے، اور ہمیں یہ بات کچھ عجیب سی لگتی تھی، اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صحابہ کو ساتھ لیے تبو ک کی طرف روانہ ہوئے، تو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں بھی آپ کے ہمراہ جاؤں گا، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انکار کیا تو وہ رونے لگے،پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا : تم اس بات پر راضی نہیں کہ تمہارا میرے ساتھ وہی تعلق ہو، جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام کا تھا، فرق صرف اتنا ہے کہ تم نبی نہیں ہو، میں جاؤں تو تم میرے خلیفہ اور نائب کی حیثیت سے یہاں رہو۔ اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے مزید فرمایا: میرے بعد تم ہر مومن کے دوست ہو۔ نیز فرمایا: علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے دروازے کو چھوڑ کر باقی تم سب لوگ اپنے اپنے دروازے بند کر دو۔ اس طرح سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جنابت کی حالت میں بھی مسجد میں داخل ہوجاتے تھے، کیونکہ ان کا ا س کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا، نیز رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس کا میں دوست ہوں، علی بھی اس کا دوست ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن مجید میں بتلایا کہ کہ وہ اصحاب شجرہ یعنی صلح حدیبیہ کے موقع پر درخت کے نیچے رسول اکرم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں سے راضی ہے، اور ان لوگوں کے دلوں میںجو کچھ تھا، اللہ اس سے بھی واقف تھا، کیا اللہ نے اس کے بعد کسی موقع پر فرمایا کہ اب وہ ان سے ناراض ہو گیا ہے؟ نیز جب سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک شخص سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے میں اس کی گردن اڑادوں تو اللہ کے نبی نے فرمایا تھا: کیا تم ایسا کرو گے؟ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر پر نظر ڈالی اور فرمایا :اب تم جو چاہو کرتے رہو، (میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10944

۔ (۱۰۹۴۴)۔ عَنِ الزُّہْرِیِّ أَخْبَرَنِی ابْنُ أَخِی أَبِی رُہْمٍ، أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا رُہْمٍ الْغِفَارِیَّ، وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الَّذِینَ بَایَعُوا تَحْتَ الشَّجَرَۃِیَقُولُ: غَزَوْتُ مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَزْوَۃَ تَبُوکَ، فَلَمَّا فَصَلَ سَرٰی لَیْلَۃً فَسِرْتُ قَرِیبًا مِنْہُ، وَأُلْقِیَ عَلَیَّ النُّعَاسُ فَطَفِقْتُ أَسْتَیْقِظُ، وَقَدْ دَنَتْ رَاحِلَتِی مِنْ رَاحِلَتِہِ، فَیُفْزِعُنِی دُنُوُّہَا خَشْیَۃَ أَنْ أُصِیبَ رِجْلَہُ فِی الْغَرْزِ، فَأُؤَخِّرُ رَاحِلَتِی حَتّٰی غَلَبَتْنِی عَیْنِی فِی نِصْفِ اللَّیْلِ، فَرَکِبَتْ رَاحِلَتِی رَاحِلَتَہُ، وَرِجْلُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْغَرْزِ فَأَصَابَتْ رِجْلَہُ، فَلَمْ أَسْتَیْقِظْ إِلَّا بِقَوْلِہِ حَسِّ، فَرَفَعْتُ رَأْسِی فَقُلْتُ: اسْتَغْفِرْ لِییَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَقَالَ: سَلْ، فَقَالَ: فَطَفِقَ یَسْأَلُنِی عَمَّنْ تَخَلَّفَ مِنْ بَنِی غِفَارٍ، فَأُخْبِرُہُ فَإِذَا ہُوَ یَسْأَلُنِی: ((مَا فَعَلَ النَّفَرُ الْحُمْرُ الطُّوَالُ الْقِطَاطُ؟ (أَوْ قَالَ: الْقِصَارُ، عَبْدُ الرَّزَّاقِ یَشُکُّ) الَّذِینَ لَہُمْ نَعَمٌ بِشَظِیَّۃِ شَرْخٍ۔)) قَالَ: فَذَکَرْتُہُمْ فِی بَنِی غِفَارٍ، فَلَمْ أَذْکُرْہُمْ حَتّٰی ذَکَرْتُ رَہْطًا مِنْ أَسْلَمَ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا یَمْنَعُ أَحَدَ أُولٰئِکَ حِینَ تَخَلَّفَ، أَنْ یَحْمِلَ عَلٰی بَعِیرٍ مِنْ إِبِلِہِ امْرَأً نَشِیطًا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، فَادْعُوا ہَلْ أَنْ یَتَخَلَّفَ عَنِ الْمُہَاجِرِینَ مِنْ قُرَیْشٍ وَالْأَنْصَارِ وَأَسْلَمَ وَغِفَارٍ۔ (مسند احمد: ۱۹۲۸۲)
سیدنا ابور ہم غفاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، یہ ان صحابہ میں سے ہیں جنہوںنے درخت کے نیچے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں غزوۂ تبوک میں شرکت کی، جب آپ روانہ ہوئے تو آپ رات کو چلتے رہے، میں بھی آپ کے قریب چلتا رہا، مجھے اونگھ آگئی، میں جاگنے کی کوشس کرنے لگا، میری سواری آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سواری کے قریب تھی، مجھے اس بات کا اندیشہ تھا کہ مبادا میں رکاب میں رکھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاؤں سے ٹکرا نہ جاؤں، اس لیے میں اپنی سواری کو ذرا پیچھے رکھتا، یہاں تک کہ جب نصف رات ہوئی تو میری آنکھ مجھ پر غالب آگئی اور میری سواری آپ کی سواری پر جا چڑھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پاؤں رکاب میں تھا، میری سواری آپ کے پاؤں کے ساتھ جا ٹکرائی اور میں تب بیدار ہوا جب میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حَسِّ کے الفاظ سنے (جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تکلیف محسوس کرنے پر کہے)، سو میں نے اپنا سر اوپر کو اُٹھایا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے لیے مغفرت (اس گستاخی کی معافی) کی دعا فرمائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آپ بھی سوال کرو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھ سے بنو غفار کے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کے متعلق دریافت کرنے لگے اور میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتانے لگا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ ان سرخ رنگ، طویل قامت سخت گھونگھر یالے بالوں والوں نے کیا کیا؟یا آپ نے فرمایا کہ چھوٹے بالوں والوں نے کیا کیا؟ یہ شک عبدالرزاق کو ہوا ہے۔ وہ لوگ جن کی حجاز میں مقامِ شرخ پر پہاڑوں کی چوٹیوں پر بکریاں ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ وہ بنو غفار میں سے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد نہیں آیا پھر مجھے بنو اسلم کا خیال آیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ خود تو پیچھے رہ گئے، انہیں کیا مانع تھا کہ وہ اپنے اونٹوں میں سے کسی اونٹ پر اپنی بجائے دوسرے کسی چست سے آدمی کو اللہ کی راہ میں روانہ کر دیتے۔ میں پکار کر معلوم کرتا ہوں کہ قریش، انصار، بنو اسلم اور بنو غفار میں سے کون لوگ مہاجرین سے پیچھے رہ گئے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10945

۔ (۱۰۹۴۵)۔ (وَعَنْہٗمِنْطَرِیْقٍ ثَانٍ) قال فَطَفِقْتُ أُؤَخِّرُ رَاحِلَتِی عَنْہُ حَتّٰی غَلَبَتْنِی عَیْنِی، وَقَالَ: ((مَا فَعَلَ النَّفَرُ السُّودُ الْجِعَادُ الْقِصَارُ۔)) قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ! مَا أَعْرِفُ ہٰؤُلَائِ مِنَّا حَتّٰی قَالَ: ((بَلٰی الَّذِینَ لَہُمْ نَعَمٌ بِشَبَکَۃِ شَرْخٍ۔)) قَالَ: فَتَذَکَّرْتُہُمْ فِی بَنِی غِفَارٍ فَلَمْ أَذْکُرْہُمْ حَتَّی ذَکَرْتُ أَنَّہُمْ رَہْطٌ مِنْ أَسْلَمَ کَانُوا حِلْفًا فِینَا، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أُولَئِکَ رَہْطٌ مِنْ أَسْلَمَ کَانُوا حُلَفَائَنَا۔ (مسند احمد: ۱۹۲۸۴)
۔( دوسری سند) سیدنا ابور ہم غفاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اپنی سواری کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پیچھے رکھنے کی کوشش کرنے لگا، تاآنکہ میری آنکھ مجھ پر غالب آگئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان سیاہ فام، پست قد، سخت گھونگریالے بالوں والوں نے کیا کیا؟ میں نے عرض کیا: اللہ کیقسم! میں اپنے لوگوں میں ایسے لوگوں کو نہیں جانتا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ لوگ جن کی مقام شبکہ شرخ میں بکریاں ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ ایسے لوگ تو بنو غفار میں ہیں، پھر مجھے یاد آیا کہ ایسے لوگ بنو اسلم کے ہیں، وہ لوگ ہمارے حلیف تھے، تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ لوگ بنو اسلم سے ہیں اور وہ ہمارے حلیف تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10946

۔ (۱۰۹۴۶)۔ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ کَثِیرِ بْنِ أَفْلَحَ قَالَ: قَالَ کَعْبُ بْنُ مَالِکٍ: مَا کُنْتُ فِی غَزَاۃٍ أَیْسَرَ لِلظَّہْرِ وَالنَّفَقَۃِ مِنِّی فِی تِلْکَ الْغَزَاۃِ، قَالَ: لَمَّا خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُلْتُ: أَتَجَہَّزُ غَدًا، ثُمَّ أَلْحَقُہُ فَأَخَذْتُ فِی جَہَازِی فَأَمْسَیْتُ وَلَمْ أَفْرُغْ، فَقُلْتُ: آخُذُ فِی جَہَازِی غَدًا وَالنَّاسُ قَرِیبٌ بَعْدُ ثُمَّ أَلْحَقُہُمْ فَأَمْسَیْتُ وَلَمْ أَفْرُغْ، فَلَمَّا کَانَ الْیَوْمُ الثَّالِثُ، أَخَذْتُ فِی جَہَازِی فَأَمْسَیْتُ فَلَمْ أَفْرُغْ، فَقُلْتُ: أَیْہَاتَ سَارَ النَّاسُ ثَلَاثًا فَأَقَمْتُ، فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَعَلَ النَّاسُ یَعْتَذِرُونَ إِلَیْہِ فَجِئْتُ حَتّٰی قُمْتُ بَیْنَیَدَیْہِ، فَقُلْتُ: مَا کُنْتُ فِی غَزَاۃٍ أَیْسَرَ لِلظَّہْرِ وَالنَّفَقَۃِ مِنِّی فِی ہٰذِہِ الْغَزَاۃِ، فَأَعْرَضَ عَنِّی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ لَا یُکَلِّمُونَا، وَأُمِرَتْ نِسَاؤُنَا أَنْ یَتَحَوَّلْنَ عَنَّا، قَالَ: فَتَسَوَّرْتُ حَائِطًا ذَاتَ یَوْمٍ، فَإِذَا أَنَا بِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ فَقُلْتُ: أَیْ جَابِرُ نَشَدْتُکَ بِاللّٰہِ، ہَلْ عَلِمْتَنِی غَشَشْتُ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ یَوْمًا قَطُّ؟ قَالَ: فَسَکَتَ عَنِّی فَجَعَلَ لَا یُکَلِّمُنِی، قَالَ: فَبَیْنَا أَنَا ذَاتَ یَوْمٍ إِذْ سَمِعْتُ رَجُلًا عَلَی الثَّنِیَّۃِیَقُولُ: کَعْبًا کَعْبًا، حَتّٰی دَنَا مِنِّی فَقَالَ: بَشِّرُوا! کَعْبًا۔ (مسند احمد: ۱۵۸۶۳)
عمر بن کثیر سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بیان کیا میں غزوۂ تبوک کے موقع پر سواری اور اخراجات کے لحاظ سے جس قدر خوش حال تھا، اس سے قبل کبھی بھی اس قدر خوش حال نہیں تھا، جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم روانہ ہو گئے تو میں نے سوچا کہ میں کل تیاری کر کے روانہ ہو کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جا ملوں گا۔ تو میں اپنے کاموں میں مصروف ہو گیا، تاآنکہ شام ہو گئی اور میں اپنی مصروفیات سے فارغ نہ ہو سکا، میں نے سوچا کہ کوئی بات نہیں، میں کل تیاری کر لوں گا، لوگ ابھی قریب ہی ہیں، پس میں ان سے جا ملوں گا، دوسرے دن بھی شام تک کاموں سے فارغ نہیں ہو سکا، جب تیسرا دن ہوا تو میں پھر کاموں میں مصروف رہا اور شام تک کاموں سے فارغ نہ ہو سکا، میں نے سوچا کہ اب تو دیر ہو گئی، لوگ تین دن سفر کر چکے ہیں،یہ سوچ کر میں نے سفر کا ارادہ ملتوی کر دیا اور یہیں ٹھہرا رہا، جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس تشریف لائے تو لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر معذرتیں کرنے لگے۔ میں بھی آکر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے کھڑا ہو گیا، میں نے عرض کیا میں اس غزوہ کے موقع پر سواری اور اخراجات کے لحاظ سے جس قدر خوشحال تھا، اتنا کسی دوسرے غزوہ کے موقع پر خوش حال نہیں تھا۔ ( یعنی میرا کوئی شرعی عذر نہیں تھا، بلکہ غفلت ہوئی) تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے منہ موڑ لیا، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کو حکم صادر فرمایا کہ کوئی بھی شخص ہمارے ساتھ کلام نہ کرے۔ اور ہماری بیویوں کو ہم سے الگ رہنے کا حکم دیا گیا۔ سیدنا کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: انہی ایام میں میں ایک دن باغ کی دیوار پر چڑھ کر سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا اور میں نے کہا: اے جابر ! میں تم سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا تمہارے علم میں ہے کہ میں نے کبھی اللہ اور اس کے رسول کو دھوکہ دیا ہو؟ وہ میری بات سن کر خاموش رہے اور مجھ سے کو ئی بات نہیں کی۔ میں اسی طرح دن گزار رہا تھا کہ ایک دن پہاڑ کی گھاٹی کی طرف سے میں نے ایک آدمی کو سنا جو میرا نام لے کر کعب کعب پکار رہا تھا۔ یہاں تک کہ وہ میرے قریب آگیا اور کہنے لگا کہ کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خوشخبری دو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10947

۔ (۱۰۹۴۷)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ لَمَّا تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ أَتَی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: إِنَّ اللّٰہَ لَمْ یُنْجِنِی إِلَّا بِالصِّدْقِ، وَإِنَّ مِنْ تَوْبَتِی إِلَی اللّٰہِ أَنْ لَا أَکْذِبَ أَبَدًا، وَإِنِّی أَنْخَلِعُ مِنْ مَالِی صَدَقَۃً لِلّٰہِ تَعَالٰی وَرَسُولِہِ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَمْسِکْ عَلَیْکَ بَعْضَ مَالِکَ، فَإِنَّہُ خَیْرٌ لَکَ۔)) قَالَ: فَإِنِّی أُمْسِکُ سَہْمِی مِنْ خَیْبَرَ۔ (مسند احمد: ۱۵۸۶۲)
عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک سے مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی توبہ قبول کی تو وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے اور کہا: اللہ نے مجھے محض سچ بولنے کی برکت سے اس آزمائش سے نجات دی ہے، اب میری توبہ میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ میں آئندہ کبھی بھی جھوٹ نہیں بولوں گا اور میں اپنا سارا مال اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی خدمت میں بطور صدقہ پیش کر دوں گا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنا کچھ مال رکھ لو، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ انہوں نے کہا: جی میں خیبر سے ملنے والا حصہ رکھ لیتا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10948

۔ (۱۰۹۴۸)۔ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی الْعَاصِ أَنَّ وَفْدَ ثَقِیفٍ قَدِمُوا عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَنْزَلَہُمْ الْمَسْجِدَ لِیَکُونَ أَرَقَّ لِقُلُوبِہِمْ، فَاشْتَرَطُوا عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ لَا یُحْشَرُوا وَلَا یُعْشَرُوا وَلَا یُجَبُّوا وَلَا یُسْتَعْمَلَ عَلَیْہِمْ غَیْرُہُمْ، قَالَ: فَقَالَ: ((إِنَّ لَکُمْ أَنْ لَا تُحْشَرُوا وَلَا تُعْشَرُوا وَلَا یُسْتَعْمَلَ عَلَیْکُمْ غَیْرُکُمْ۔)) وَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَا خَیْرَ فِی دِینٍ لَا رُکُوعَ فِیہِ۔)) وَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ اَبِی الْعَاصِ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ عَلِّمْنِی الْقُرْآنَ وَاجْعَلْنِیْ إِمَامَ قوْمِیْ۔ (مسند احمد:۱۸۰۷۴ )
سیدنا عثمان بن ابی العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بنو ثقیف کا وفد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو مسجد میں ٹھہرایا، تاکہ اس طرح ان کے دل اسلام کے لیے مزید نرم ہو جائیں، ان لوگوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے یہ شرط پیش کی کہ جب سرکاری اہل کار ان کے پاس زکوۃ کی وصولی کے لیے آئیں تو وہ ان کو اس بات پرمجبور نہیں کریں گے کہ ہم اپنے اموال وہاں لے جائیں جہاں وہ بیٹھا ہو ا ہو بلکہ وہ ہماری قیام گاہوں پر آکر زکوۃ وصول کرے، اور ان سے مال کا عشر(دسواں حصہ) بھی نہ لیا جائے اور ان کو نماز کی پابندی سے مستثنیٰ کیا جائے اور یہ کہ ان پر باہر کا کوئی آدمی عامل یا امیر مقرر نہ کیا جائے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وصولی زکوۃ کے لیے عامل تمہاری اقامت گاہوں پر پہنچے گا اور تمہیں اپنے اموال اس کے پاس نہیں لے جانا ہوں گے اور تم سے اموال کا دسواں حصہ بھی نہیں لیا جائے گا اور تمہارے اوپر تمہارے قبیلے کے علاوہ کسی دوسرے قبیلے کے آدمی کو عامل یا امیر مقرر نہیں کیا جائے گا۔ لیکن جس دین میں رکوع (یعنی نماز) نہ ہو، اس میں کوئی خیر نہیں۔ سیدنا عثمان بن ابی العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے درخواست کی کہ اللہ کے رسول ! مجھے قرآن سکھائیں اور مجھے میری قوم کا امام مقرر کر دیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10949

۔ (۱۰۹۴۹)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: بَعَثَتْ بَنُوْ سَعْدِ بْنِ بَکْرٍ ضِمَامَ بْنَ ثَعْلَبَۃَ وَافِدًا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَدِمَ عَلَیْہِ وَأَنَاخَ بَعِیرَہُ عَلٰی بَابِ الْمَسْجِدِ، ثُمَّ عَقَلَہُ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَالِسٌ فِی أَصْحَابِہِ، وَکَانَ ضِمَامٌ رَجُلًا جَلْدًا أَشْعَرَ ذَا غَدِیرَتَیْنِ فَأَقْبَلَ حَتّٰی وَقَفَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی أَصْحَابِہِ، فَقَالَ: أَیُّکُمْ ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ۔)) قَالَ: مُحَمَّدٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ: ابْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنِّی سَائِلُکَ وَمُغَلِّظٌ فِی الْمَسْأَلَۃِ فَلَا تَجِدَنَّ فِی نَفْسِکَ، قَالَ: ((لَا أَجِدُ فِی نَفْسِی فَسَلْ عَمَّا بَدَا لَکَ۔)) قَالَ: أَنْشُدُکَ اللّٰہَ إِلٰہَکَ وَإِلٰہَ مَنْ کَانَ قَبْلَکَ وَإِلٰہَ مَنْ ہُوَ کَائِنٌ بَعْدَکَ، آللَّہُ بَعَثَکَ إِلَیْنَا رَسُولًا؟ فَقَالَ: ((اللّٰہُمَّ نَعَمْ۔)) قَالَ فَأَنْشُدُکَ اللّٰہَ إِلٰہَکَ وَإِلٰہَ مَنْ کَانَ قَبْلَکَ وَإِلٰہَ مَنْ ہُوَ کَائِنٌ بَعْدَکَ، آللَّہُ أَمَرَکَ أَنْ تَأْمُرَنَا أَنْ نَعْبُدَہُ وَحْدَہُ لَا نُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا، وَأَنْ نَخْلَعَ ہٰذِہِ الْأَنْدَادَ الَّتِی کَانَتْ آبَاؤُنَا یَعْبُدُونَ مَعَہُ؟ قَالَ: ((اللّٰہُمَّ نَعَمْ۔)) قَالَ: فَأَنْشُدُکَ اللّٰہَ إِلٰہَکَ وَإِلٰہَ مَنْ کَانَ قَبْلَکَ وَإِلٰہَ مَنْ ہُوَ کَائِنٌ بَعْدَکَ، آللّٰہُ أَمَرَکَ أَنْ نُصَلِّیَ ہٰذِہِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ؟ قَالَ: ((اللَّہُمَّ نَعَمْ۔)) قَالَ: ثُمَّ جَعَلَ یَذْکُرُ فَرَائِضَ الْإِسْلَامِ فَرِیضَۃً فَرِیضَۃً الزَّکَاۃَ وَالصِّیَامَ وَالْحَجَّ وَشَرَائِعَ الْإِسْلَامِ کُلَّہَا، یُنَاشِدُہُ عِنْدَ کُلِّ فَرِیضَۃٍ کَمَا یُنَاشِدُہُ فِی الَّتِی قَبْلَہَا حَتّٰی إِذَا فَرَغَ، قَالَ: فَإِنِّی أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ سَیِّدَنَا مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰہِ، وَسَأُؤَدِّی ہٰذِہِ الْفَرَائِضَ وَأَجْتَنِبُ مَا نَہَیْتَنِی عَنْہُ، ثُمَّ لَا أَزِیدُ وَلَا أَنْقُصُ، قَالَ: ثُمَّ انْصَرَفَ رَاجِعًا إِلٰی بَعِیرِہِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ وَلّٰی: ((إِنْیَصْدُقْ ذُو الْعَقِیصَتَیْنِیَدْخُلِ الْجَنَّۃ۔)) قَالَ: فَأَتٰی إِلٰی بَعِیرِہِ فَأَطْلَقَ عِقَالَہُ، ثُمَّ خَرَجَ حَتّٰی قَدِمَ عَلٰی قَوْمِہِ فَاجْتَمَعُوا إِلَیْہِ، فَکَانَ أَوَّلَ مَا تَکَلَّمَ بِہِ أَنْ قَالَ: بِئْسَتِ اللَّاتُ وَالْعُزّٰی، قَالُوا: مَہْ یَا ضِمَامُ! اتَّقِ الْبَرَصَ وَالْجُذَامَ اتَّقِ الْجُنُونَ، قَالَ: وَیْلَکُمْ إِنَّہُمَا وَاللّٰہِ! لَا یَضُرَّانِ وَلَا یَنْفَعَانِ، إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ بَعَثَ رَسُولًا، وَأَنْزَلَ عَلَیْہِ کِتَابًا اسْتَنْقَذَکُمْ بِہِ مِمَّا کُنْتُمْ فِیہِ، وَإِنِّی أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ، إِنِّی قَدْ جِئْتُکُمْ مِنْ عِنْدِہِ بِمَا أَمَرَکُمْ بِہِ وَنَہَاکُمْ عَنْہُ، قَالَ: فَوَاللّٰہِ مَا أَمْسٰی مِنْ ذٰلِکَ الْیَوْمِ وَفِی حَاضِرِہِ رَجُلٌ وَلَا امْرَأَۃٌ إِلَّا مُسْلِمًا، قَالَ یَقُولُ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَمَا سَمِعْنَا بِوَافِدِ قَوْمٍ کَانَ أَفْضَلَ مِنْ ضِمَامِ بْنِ ثَعْلَبَۃ۔ (مسند احمد: ۲۳۸۰)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بنو سعد بن بکر نے سیدنا ضمام بن ثعلبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اپنا نمائندہ بنا کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں روانہ کیا، وہ آیا اور اس نے اپنے اونٹ کو مسجد کے دروازہ کے قریب باندھ دیا اور پھر مسجد کے اندر آگیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے، سیدنا ضمام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ قوی الجثہ، لمبے بالوں والے تھے اور انھوںنے بالوں کی لٹیں بنا رکھی تھی، وہ صحابہ کے قریب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے آکر کھڑے ہو گئے اور دریافت کیا کہ تم میں ابن عبدالمطلب کون ہیں؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں ابن عبدالمطلب ہوں۔ انھوں نے پوچھا: محمد آپ ہی ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ وہ کہنے لگا: اے ابن عبدالمطلب! میں آپ سے کچھ باتیں پوچھنے والا ہوں، کچھ سختی بھی کروں گا، آپ میری باتوں کو محسوس نہیں کریں گے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں کسی بات کو محسوس نہیں کروں گا، تم جو چاہو پوچھو۔ اس نے کہا: میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جو آپ کا اور آپ سے پہلے لوگوں کا اور آپ کے بعد میں آنے والوں کا معبود ہے، کیا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ ہمیں اکیلے اللہ کی عبادت کا حکم دیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہمارے آباء واجداد اللہ کے ساتھ ساتھ جن بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے، ہم ان کو بالکل چھوڑ کر ان سے لا تعلق ہو جائیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، اللہ تعالیٰ اس پرگواہ ہے۔ اس نے کہا: میں آپ کو اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جو آپ کا اور آپ سے پہلے والے لوگوں کا اور آپ کے بعد والے لوگوں کا معبو د ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ ہم یہ پنجگانہ نمازیں ادا کریں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں! اس پر بھی اللہ گواہ ہے۔ اس کے بعد اس نے فرائضِ اسلام زکوۃ، روزہ اور حج کا ایک ایک کر کے اور باقی احکام اسلام کے متعلق دریافت کیا اور پہلے کی طرح ہر فریضہ کے متعلق پوچھنے سے پہلے حسب سابق اللہ کا واسطہ دیتا رہا۔ سوال وجواب سے فارغ ہونے کے بعد اس نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ کے رسول ہیں، میں ان تمام فرائض کو بجا لاؤں گا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جن باتوں سے منع فرمایا ہے، ان سے اجتناب کروں گا۔ پھر میں نہ اس میں کچھ اضافہ کروں گا اور نہ کمی کروں گا، اس کے بعد وہ اپنے اونٹ کی طرف واپس چلا گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ لٹوں والا شخص اگر اپنی بات پر ثابت رہا تو جنت میں جائے گا، وہ اپنے اونٹ کے پاس گیا اور اسے کھول کر چل دیا، جب وہ اپنی قوم کے پاس پہنچا تو سب لوگ اس کے اردگرد اکٹھے ہو گئے، اس نے سب سے پہلے یہ کہا کہ لات و عزی بہت برے ہیں۔ قوم کے لوگوں نے کہا: ضمام ! ذرا رکو، برص، کوڑھ اور پاگل بن سے ڈرو، کہیںیہ بت تمہیں ایسی بری بیماریوں میں مبتلا نہ کر دیں۔ وہ کہنے لگا: اللہ کی قسم یہ دونوں نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان، بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول مبعوث کیا ہے، اس نے اس پر ایسی کتاب نازل کی ہے، جس کے ذریعے اللہ نے تمہیں اس گمراہی سے بچا لیا، جس میں تم مبتلا تھے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ اکیلے کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملاقات کرنے کے بعد تمہارے پاس آیا ہوں اور اس نے تمہیں جن باتوں کا حکم دیا اور جن باتوں سے روکا ہے، وہ احکام تمہارے پاس لایا ہوں۔ سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ اللہ کی قسم اسی روز شام تک اس کی قوم کے تمام خواتین و حضرات اسلام قبول کر چکے تھے۔ سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہا کرتے تھے کہ ہم نے کسی قوم کے نمائندے کے متعلق نہیں سنا کہ وہ ضمام بن ثعلبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے زیادہ فضیلت والا ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10950

۔ (۱۰۹۵۰)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: نَعٰی لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم النَّجَاشِیَّ فِی الْیَوْمِ الَّذِی مَاتَ فِیْہِ فَخَرَجَ إِلَی الْمُصَلّٰی فَصَفَّ أَصْحَابَہُ وَکَبَّرَ عَلَیْہِ أَرْبَعًا۔ (مسند احمد: ۹۶۴۴)
سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ جس روز نجاشی کا انتقال ہوا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسی دن ہمیں اس کی وفات کی اطلاع دی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جنازہ گاہ یا عید گاہ کی طرف تشریف لے گئے اور پس اپنے صحابہ کرام کی صفیں بنائیںاور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چار تکبیرات کہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10951

۔ (۱۰۹۵۱)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَاتَ الْیَوْمَ رَجُلٌ صَالِحٌ مِنَ الْحَبْشِ، ہَلُمَّ فَصُفُّوْا۔۔)) فَصَفَفْنَا، قَالَ: فَصَلَّی النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَنَحْنُ۔ (مسند احمد: ۱۴۱۹۷)
سیّدناجابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آج حبشہ کا ایک نیک آدمی فوت ہو گیا ہے، اس لیے آؤ اور صفیں بناؤ۔ پس ہم نے صفیں بنائیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ہم نے نماز جنازہ پڑھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10952

۔ (۱۰۹۵۲)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: لَمَّا مَاتَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أُبَیٍّ جَائَ ابْنُہُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَعْطِنِی قَمِیصَکَ حَتّٰی أُکَفِّنَہُ فِیہِ وَصَلِّ عَلَیْہِ وَاسْتَغْفِرْ لَہُ، فَأَعْطَاہُ قَمِیصَہُ وَقَالَ: ((آذِنِّی بِہِ۔)) فَلَمَّا ذَہَبَ لِیُصَلِّیَ عَلَیْہِ، قَالَ یَعْنِی عُمَرَ: قَدْ نَہَاکَ اللّٰہُ أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی الْمُنَافِقِینَ، فَقَالَ: ((أَنَا بَیْنَ خِیرَتَیْنِ {اسْتَغْفِرْ لَہُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ} [التوبۃ: ۸۰]۔)) فَصَلّٰی عَلَیْہِ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {وَلَا تُصَلِّ عَلٰی أَحَدٍ مِنْہُمْ مَاتَ أَبَدًا} [التوبۃ: ۸۴] قَالَ: فَتُرِکَتِ الصَّلَاۃُ عَلَیْہِمْ۔ (مسند احمد: ۴۶۸۰)
سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب عبد اللہ بن ابی منافق مرا تو اس کا بیٹا سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ،جو مسلمان تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اپنی قمیص عنایت فرمائیں تا کہ میں اپنے باپ کو اس میں کفن دوں اور آپ اس کی نماز جنازہ بھی پڑھائیں اوراس کے لئے استغفار کریں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے قمیص عطا کر دی اور فرمایا: مجھے وقت پر اطلاع دینا۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز کے لئے آگے ہوئے تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: آپ کو اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع کیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے دواختیار ملے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آپ ان کے لیے استغفار کریںیا نہ کریں۔ سو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی، اور پھر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل کر دیا: {وَلَا تُصَلِّ عَلٰی أَحَدٍ مِنْہُمْ مَاتَ أَبَدًا} … اور آپ ان میں سے کسی کی کبھی بھی نماز جنازہ نہ پڑھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10953

۔ (۱۰۹۵۳)۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: لَمَّا مَاتَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أُبَیٍّ أَتَی ابْنُہُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّکَ إِنْ لَمْ تَأْتِہِ لَمْ نَزَلْ نُعَیَّرُ بِہٰذَا، فَأَتَاہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَوَجَدَہُ قَدْ أُدْخِلَ فِی حُفْرَتِہِ، فَقَالَ: ((أَفَلَا قَبْلَ أَنْ تُدْخِلُوہُ۔)) فَأُخْرِجَ مِنْ حُفْرَتِہِ فَتَفَلَ عَلَیْہِ مِنْ قَرْنِہِ إِلَی قَدَمِہِ وَأَلْبَسَہُ قَمِیصَہُ۔ (مسند احمد: ۱۵۰۴۹)
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب عبداللہ بن ابی کی وفات ہوئی تو اس کے بیٹے نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ میرے والد کی نماز جنازہ کے لیے تشریف نہ لائے تو ہمیں ہمیشہ کے لیے اس کی عار دلائی جاتیرہے گی، پس نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے گئے اور دیکھا کہ اسے قبر کے اندر رکھا جا چکا ہے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے اسے قبر میں رکھنے سے پہلے مجھے کیوں نہیں بلا لیا۔ پھر اسے اس کی قبر سے نکالا گیا، آپ نے اس کے سر سے قدم تک اپنا لعاب مبارک لگایا، اور اسے اپنی قمیض پہنائی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10954

۔ (۱۰۹۵۴)۔ عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُبَیٍّ فِی مَرَضِہِ نَعُودُہُ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((قَدْ کُنْتُ أَنْہَاکَ عَنْ حُبِّ یَہُودَ۔)) فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: فَقَدْ أَبْغَضَہُمْ أَسْعَدُ بْنُ زُرَارَۃَ فَمَاتَ۔ (مسند احمد: ۲۲۱۰۱)
سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں عبداللہ بن ابی کے مرض الموت کے دنوں میں اس کی بیمار پرسی کو گیا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: میں تجھے یہود کی محبت سے منع کیا کرتا تھا۔ اس نے آگے سے کہا: اسعد بن زرارہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تو ان یہودیوںسے بغض رکھتے تھے، لیکن وہ بھی بالآخر مر ہی گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10955

۔ (۱۰۹۵۵)۔ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ عَشْرُ آیَاتٍ مِنْ بَرَائَ ۃٍ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَعَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَبَعَثَہُ بِہَا لِیَقْرَأَہَا عَلٰی أَہْلِ مَکَّۃَ، ثُمَّ دَعَانِی النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ لِی: ((أَدْرِکْ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَحَیْثُمَا لَحِقْتَہُ فَخُذِ الْکِتَابَ مِنْہُ، فَاذْہَبْ بِہِ إِلٰی أَہْلِ مَکَّۃَ فَاقْرَأْہُ عَلَیْہِمْ۔)) فَلَحِقْتُہُ بِالْجُحْفَۃِ فَأَخَذْتُ الْکِتَابَ مِنْہُ، وَرَجَعَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! نَزَلَ فِیَّ شَیْئٌ؟ قَالَ: ((لَا وَلٰکِنَّ جِبْرِیلَ جَائَ نِیْ فَقَالَ: لَنْ یُؤَدِّیَ عَنْکَ إِلَّا أَنْتَ أَوْ رَجُلٌ مِنْکَ۔)) (مسند احمد: ۱۲۹۷)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب سورۂ براء ت کی دس آیات نازل ہوئیں تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلایا اور ان کو یہ آیات دے کر بھیجا کہ وہ مکہ والوں کے سامنے ان کی تلاوت کریں، پھر میں (علی) کو بلایا اور فرمایا: ابو بکر کو جا ملو، جہاں بھی تم ان کو ملو، ان سے یہ پیغام لے لینا اور پھر اہل مکہ کے سامنے جا کر پڑھ دینا۔ پس میں نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حجفہ میں جا ملا اور ان سے خط لے لیا۔ پھر جب سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لوٹے تو پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا میرے بارے میں کوئی حکم نازل ہوا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، کوئی حکم نہیں ہے، بس جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور کہا کہ پیغامیا تو آپ خود پہنچائیںیا آپ کے خاندان کا کوئی آدمی پہنچائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10956

۔ (۱۰۹۵۶)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: کُنْتُ مَعَ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ حَیْثُ بَعَثَہٗرَسُوْلُاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِلٰی اَھْلِ مَکَّۃَ بِبَرَائَۃٍ، فَقَالَ: مَا کُنْتُ تُنَادُوْنَ؟ قَالَ: کُنَّا نُنَادِیْ اَنْ لَّا یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مُوْمِنٌ وَلَا یَطُوْفُ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ، وَمَنْ کَانَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَہْدٌ، فَاِنَّ اَجَلَہٗاَوْاَمَدَہٗاِلٰی اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ، فَإِذَا مَضَتِ الْاَرْبَعَۃُ الْاَشْہُرُ، فَاِنَّ اللّٰہَ بَرِیْئٌ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُوْلُہُ، وَلَا یَحُجُّ ھٰذَا الْبَیْتَ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِکٌ، قَالَ: فَکُنْتُ اُنَادِیْ حَتّٰی صَحَلَ صَوْتِیْ۔ (مسند احمد: ۷۹۶۴)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو براء ت کا اعلان کرنے کے لیے اہلِ مکہ کی طرف روانہ کیا تو میں بھی سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہم راہ تھا، محرر کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ آپ کیا اعلان کرتے تھے؟ انھوں نے کہا: ہم یہ اعلان کرتے تھے کہ صرف اہل ایمان ہی جنت میں جائیں گے اور آئندہ کوئی شخص برہنہ حالت میں بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا اور جس آدمی کا بھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ کسی قسم کا کوئی عہد ہے تو اس کی مدت چار ماہ ہے، چار ماہ کے بعد اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے یکسر لا تعلق ہو جائیں گے، اس سال کے بعد آئندہ کوئی مشرک بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکے گا۔ میں اس قدر بلند آواز سے اعلان کرتا تھا کہ میری آواز بیٹھ گئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10957

۔ (۱۰۹۵۷)۔ عَنْ اَنَسٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعَثَ بِبَرَائَ ۃٍ مَعَ اَبِیْ بَکْرٍ، فَلَمَّا بَلَغَ ذَا الْحُلَیْفَۃِ قَالَ: ((لَا یَبْلُغُہَا اِلَّا اَنَا اَوْ رَجْلٌ مِنْ اَھْلِ بَیْتِیْ۔)) فَبَعَثَ بِہَا مَعَ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌۔ (مسند احمد: ۱۳۲۴۶)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہمراہ اعلانِ براء ت کے لیے روانہ کیا، جب وہ ذوالحلیفہ کے مقام پر پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اہل مکہ کے سامنے یہ اعلان میں خود یا میرے اہل بیت میں سے کوئی کر سکتا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ پیغام دے کر سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ان کے پیچھے روانہ فرمایا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10958

۔ (۱۰۹۵۸)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ بُرَیْدَۃَ قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ عَلِیٍّ الْیَمَنَ فَرَأَیْتُ مِنْہُ جَفْوَۃً، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَکَرْتُ عَلِیًّا فَتَنَقَّصْتُہُ، فَرَأَیْتُ وَجْہَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَتَغَیَّرُ، فَقَالَ: ((یَا بُرَیْدَۃُ! أَلَسْتُ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنْفُسِہِمْ۔)) قُلْتُ: بَلٰییَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ، مَنْ کُنْتُ وَلِیَّہٗ فَعَلِیٌّ وَلِیُّہٗ۔)) (مسند احمد: ۲۳۳۳۳)
سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میں علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معیت میںیمن کی طرف ایک غزوہ میں گیا، میں نے ان کے رویہ میں سختی دیکھی، سو جب میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا تو میں نے آپ کے سامنے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ذکر کر کے ان کی شان میں کچھ نازیبا الفاظ کہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ متغیر ہو نے لگا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے بریدہ! کیا میں مومنین پر ان کی جانوں سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں جس کامولیٰ ہوں، علی بھی اس کا مولیٰ ہے۔ دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: میں جس کا دوست ہوں، علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی اس کا دوست ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10959

۔ (۱۰۹۵۹)۔ فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ حَدَّثَنِی أَبِی بُرَیْدَۃُ قَالَ أَبْغَضْتُ عَلِیًّا بُغْضًا لَمْ یُبْغِضْہُ أَحَدٌ قَطُّ قَالَ وَأَحْبَبْتُ رَجُلًا مِنْ قُرَیْشٍ لَمْ أُحِبَّہُ إِلَّا عَلٰی بُغْضِہِ عَلِیًّا قَالَ فَبُعِثَ ذٰلِکَ الرَّجُلُ عَلٰی خَیْلٍ فَصَحِبْتُہُ مَا أَصْحَبُہُ إِلَّا عَلٰی بُغْضِہِ عَلِیًّا قَالَ فَأَصَبْنَا سَبْیًا، قَالَ فَکَتَبَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابْعَثْ إِلَیْنَا مَنْ یُخَمِّسُہُ قَالَ فَبَعَثَ إِلَیْنَا عَلِیًّا وَفِی السَّبْیِ وَصِیفَۃٌ ہِیَ أَفْضَلُ مِنَ السَّبْیِ فَخَمَّسَ وَقَسَمَ فَخَرَجَ رَأْسُہُ مُغَطًّی فَقُلْنَا: یَا أَبَا الْحَسَنِ! مَا ہٰذَا؟ قَالَ: أَلَمْ تَرَوْا إِلَی الْوَصِیفَۃِ الَّتِی کَانَتْ فِی السَّبْیِ؟ فَإِنِّی قَسَمْتُ وَخَمَّسْتُ فَصَارَتْ فِی الْخُمُسِ ثُمَّ صَارَتْ فِی أَہْلِ بَیْتِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ صَارَتْ فِی آلِ عَلِیٍّ وَوَقَعْتُ بِہَا، قَالَ فَکَتَبَ الرَّجُلُ إِلٰی نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ ابْعَثْنِی فَبَعَثَنِی مُصَدِّقًا قَالَ فَجَعَلْتُ أَقْرَأُ الْکِتَابَ وَأَقُولُ صَدَقَ قَالَ فَأَمْسَکَ یَدِی وَالْکِتَابَ وَقَالَ أَتُبْغِضُ عَلِیًّا قَالَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَلَا تُبْغِضْہُ وَإِنْ کُنْتَ تُحِبُّہُ فَازْدَدْ لَہُ حُبًّا فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَنَصِیبُ آلِ عَلِیٍّ فِی الْخُمُسِ أَفْضَلُ مِنْ وَصِیفَۃٍ قَالَ فَمَا کَانَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ بَعْدَ قَوْلِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ عَلِیٍّ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ فَوَالَّذِی لَا إِلٰہَ غَیْرُہُ مَا بَیْنِی وَبَیْنَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی ہٰذَا الْحَدِیثِ غَیْرُأَبِی بُرَیْدَۃَ۔ (مسند احمد: ۲۳۳۵۵)
سیدنا عبد اللہ بن بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مجھ سے میرے باپ سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: مجھے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سخت بغض تھا، اتنا کسی بھی دوسرے سے نہیں تھا حتیٰ کہ مجھے قریش کے ایک آدمی سے بہت زیادہ محبت صرف اس لیے تھی کہ وہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بغض رکھتا تھا، اس آدمی کو امیر کا لشکر بنا کر بھیجا گیا،میں صرف اس لیے اس کا ہمرکاب ہوا کہ اسے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بغض تھا، ہم نے لونڈیاں حاصل کیں، امیر لشکر نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پیغام بھیجا کہ ہمارے پاس وہ آدمی بھیج دیں، جو مال غنیمت کے پانچ حصے کرے اور اسے تقسیم کرے، آپ نے ہمارے پاس سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بھیج دیا، انہوں نے مال تقسیم کیا، قیدی عورتوں میں ایک ایسی لونڈی تھی، جو کہ سب قیدیوں میں سے بہتر تھی، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مال غنیمتکے پانچ حصے کئے اور پھر اسے تقسیم کر دیا۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب باہر آئے تھے تو ان کے سر سے پانی کے قطرے گر رہے تھے اور سر ڈھانپا ہوا تھا۔ ہم نے کہا: اے ابو حسن! یہ کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے کہا: کیا تم نے دیکھا نہیں کہ قیدیوں میں یہ لونڈی میرے حصہ میں آئی ہے، میںنے مال غنیمت پانچ حصے کرکے تقسیم کر دیا ہے، یہ پانچویں حصہ میں آئی ہے جو کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اہل بیت کے لیے ہے اور پھر اہل بیت میں سے ایک حصہ آل علی کا ہے اور یہ لونڈی اس میں سے میرے حصہ میں آئی ہے اور میں نے اس سے جماع کیا ہے، اس آدمی نے جو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بغض رکھتا تھا، اس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جانب خط لکھا، سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے اس سے کہا: یہ خط مجھے دے کر بھیجو، اس نے مجھے ہی بھیج دیا تاکہ اس خط کی تصدیق و تائید کروں، سیدنا بریدہ کہتے ہیں: میں نے وہ خط نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر پڑھنا شروع کر دیا اور میں نے کہا: اس میں جو بھی درج ہے وہ صحیح ہے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے ہاتھ سے خط پکڑ لیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر کہا: کیا تم علی سے بغض رکھتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علی سے بغض نہ رکھو اور اگر تم اس سے محبت رکھتے ہو تو اس میں اور اضافہ کرو،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی جان ہے؟ خمس میں آل علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا حصہ تو اس افضل لونڈی سے بھی زیادہ بنتا ہے۔ سیدنا بریدہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اس فرمان کے بعد لوگوں میں سے ان سے بڑھ کر مجھے کوئی اور محبوب نہیں تھا۔عبد اللہ بن بریدہ کہتے ہیں: اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! اس حدیث کے بیان کرنے میں اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے درمیان صرف میرے باپ سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا واسطہ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10960

۔ (۱۰۹۶۰)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ بُرَیْدَۃَ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْثَیْنِ إِلَی الْیَمَنِ عَلٰی اَحَدِھِمَا عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ وَعَلَی الْآخَرِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیْدِ: فَقَالَ: ((إِذَا الْتَقَیْتُمْ فَعَلِیٌّ عَلَی النَّاسِ، وَإِنِ افْتَرَقْتُمَا فَکُلُّ وَاحِدٍ مِنْکُمَا عَلٰی جُنْدِہِ۔)) قَالَ: فَلَقِیْنَا بَنِیْ زَیْدٍ مِنْ اَھْلِ الْیَمَنِ فَاقْتَتَلْنَا، فَظَہَرَ الْمُسْلِمُوْنَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ، فَقَتَلْنَا الْمُقَاتِلَۃَ، وَسَبَیْنَا الذُّرِّّیَّۃَ، فَاصْطَفٰی عَلِیٌّ امْرَاَۃً مِنَ السَّبْیِ لِنَفْسِہٖ،قَالَبُرَیْدَۃُ: فَکَتَبَ مَعِیْ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدُ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُخْبِرُہُ بِذٰلِکَ، فَلَمَّا اَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَفَعْتُ الْکِتَابَ فُقُرِئَ عَلَیہٖ، فَرَاَیْتُ الْغَضَبَ فِیْ وَجْہِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ھٰذَا مَکَانُ الْعَائِذِ بَعَثْتَنِیْ مَعَ رَجُلٍ وَاَمَرْتَنِیْ اَنْ اُطِیْعَہٗ فَفَعَلْتُ مَا اُرْسِلْتُ بِہِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا تَقَعْ فِیْ عَلِیٍّ فَاِنَّہٗمِنِّیْ وَاَنَا مِنْہٗوَھُوَوَلِیُّکُمْ بَعْدِیْ، وَاِنَّہٗمِنِّیْ وَاَنَا مِنْہٗوَھُوَوَلِیُّکُمْ بَعْدِیْ۔)) (مسند احمد: ۲۳۴۰۰)
عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یمن کی طرف دو دستے روانہ فرمائے تھے ،ایک دستے پر سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اور دوسرے پر سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو امیر مقرر کیا گیا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم آپس میں ملو تو سب لوگوں پر نگران علی ہوں گے اور اگر تم الگ الگ رہو تو تم میں سے ہر ایک اپنے اپنے لشکر پر امیر ہو گا۔ سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ ہمارا اہل یمن کے قبیلہ بنو زید سے آمنا سامنا ہوا اور ان سے لڑائی ہوئی، مسلمان مشرکوں پر غالب رہے، ہم نے جنگ جو لوگوں کو قتل کیا اور بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے قیدی عورتوں میں سے ایک کو اپنے لیے چُن لیا۔ سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ اس صورت حال پر سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو خط لکھ کر مطلع کیا، میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر وہ خط آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حوالے کیا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے خط پڑھا گیا تو میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے پر غصے کے آثار دیکھے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ پناہ کے طالب کی جگہ ہے یعنی میں آپ سے گستاخی کی معافی چاہتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ایک شخص کی زیرِ امارت بھیجا اور پابند کیا ہے کہ میں اس کی اطاعت کروں، میں نے تو وہی کام کیا جس کے لیے مجھے بھیجا گیا،یعنی میں نے تو کوئی غلطی نہیں کی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم علی پر کسی قسم کی انگشت نمائی نہ کرو، وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں اور میرے بعد وہی تمہارا دوست ہو گا، وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں اور میرے بعد وہی تمہارا دوست ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10961

۔ (۱۰۹۶۱)۔ عَنْ عَاصِمِ بْنِ حَمِیْدٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: لَمَّا بَعَثَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی الْیَمَنِ خَرَجَ مَعَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُوصِیہِ، وَمُعَاذٌ رَاکِبٌ وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَمْشِی تَحْتَ رَاحِلَتِہِ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: ((یَا مُعَاذُ إِنَّکَ عَسَی أَنْ لَا تَلْقَانِی بَعْدَ عَامِی ہٰذَا، أَوْ لَعَلَّکَ أَنْ تَمُرَّ بِمَسْجِدِی ہٰذَا أَوْ قَبْرِی۔)) فَبَکٰی مُعَاذٌ جَشَعًا لِفِرَاقِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ الْتَفَتَ فَأَقْبَلَ بِوَجْہِہِ نَحْوَ الْمَدِینَۃِ، فَقَالَ: ((إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِی الْمُتَّقُونَ مَنْ کَانُوا وَحَیْثُ کَانُوا۔)) (مسند احمد: ۲۲۴۰۲)
سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو یمن کی طرف روانہ فرمایا تو ان کو وصیتیں کرتے ہوئے گئے، سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سوار تھے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی سواری کے ساتھ ساتھ چلتے جا رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی گفتگو سے فارغ ہونے کے بعد فرمایا: معاذ! ممکن ہے کہ اس سال کے بعد تمہاری مجھ سے ملاقات نہ ہو سکے اور ہو سکتا ہے کہ تم میری اس مسجد یا قبر کے پاس سے گزرو۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جدائی کے خیال سے رنجیدہ ہو کر سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ روپڑے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف منہ کر کے فرمایا: سب لوگوں میں میرے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے، جو تقویٰ کی صفت سے متصف ہوں، وہ جو بھی ہوں اور جہاں بھی ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10962

۔ (۱۰۹۶۲)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا بَعَثَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ إِلَی الْیَمَنِ قَالَ: ((إِنَّکَ تَأْتِیْ قَوْمًا أَہْلَ کِتَابٍ فَادْعُہُمْ اِلٰی شَہَادَۃِ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَ أَنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ، فَإِنْ ہُمْ أَطَاعُوْکَ لِذَالِکَ فَأَعْلِمْہُمْ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اِفْتَرَضَ عَلَیْہِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِی کُلِّ یَوْمٍ وَ لَیْلَۃٍ، فَإِنْ ہُمْ أَطَاعُوْکَ لِذَالِکَ فَأَعْلِمْہُمْ أَنَّ اللّٰہَ اِفْتَرَضَ عَلَیْہِمْ صَدَقَۃً فِی أَمْوَالِہِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِہِمْ وَ تُرَدُّ فِی فُقَرَائِہِمْ، فَإِنْ ہُمْ أَطَاعُوْکَ لِذَالِکَ فَإِیَّاکَ وَ کَرَائِمَ أَمْوَالِہِمْ وَاتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ فَإِنَّہَا لَیْسَ بَیْنَہَا وَ بَیْنَ اللّٰہِ حِجَابٌ۔)) (مسند أحمد: ۲۰۷۱)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو ان سے فرمایا: تم اہل کتاب لوگوں کی طرف جا رہے ہو، پس ان کو سب سے پہلے یہ دعوت دینا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہی معبودِ بر حق ہونے اور میرے رسول اللہ ہونے کی شہادت دیں، اگر وہ اس معاملے میں تیری اطاعت کر لیں تو ان کو بتلانا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دن اور رات میں ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ یہ بات بھی تسلیم کر جائیں تو ان کویہ تعلیم دینا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مالوں پرزکوۃ فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لے کر ان کے فقیروں میں تقسیم کی جائے گی،ا گر وہ یہ بات بھی مان جائیں تو پھر تم نے ان کے عمدہ مالوں سے بچ کر رہنا ہے اور مظلوم کی بد دعا سے بچنا ہے، کیونکہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے مابین کوئی پردہ نہیں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10963

۔ (۱۰۹۶۳)۔ عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شِبْلٍ قَالَ: وَقَالَ جَرِیرٌ: لَمَّا دَنَوْتُ مِنَ الْمَدِینَۃِ أَنَخْتُ رَاحِلَتِی، ثُمَّ حَلَلْتُ عَیْبَتِی، ثُمَّ لَبِسْتُ حُلَّتِی، ثُمَّ دَخَلْتُ فَإِذَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَخْطُبُ، فَرَمَانِی النَّاسُ بِالْحَدَقِ، فَقُلْتُ لِجَلِیسِی: یَا عَبْدَ اللّٰہِ! ذَکَرَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: نَعَمْ ذَکَرَکَ آنِفًا بِأَحْسَنِ ذِکْرٍ فَبَیْنَمَا ہُوَ یَخْطُبُ إِذْ عَرَضَ لَہُ فِی خُطْبَتِہِ، وَقَالَ: ((یَدْخُلُ عَلَیْکُمْ مِنْ ہٰذَا الْبَابِ أَوْ مِنْ ہٰذَا الْفَجِّ مِنْ خَیْرِ ذِییَمَنٍ إِلَّا أَنَّ عَلَی وَجْہِہِ مَسْحَۃَ مَلَکٍ۔)) قَالَ جَرِیرٌ: فَحَمِدْتُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی مَا أَبْلَانِی، و قَالَ أَبُو قَطَنٍ: فَقُلْتُ لَہُ: سَمِعْتَہُ مِنْہُ أَوْ سَمِعْتَہُ مِنَ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شِبْلٍ؟ قَالَ: نَعَمْ۔ (مسند احمد: ۱۹۳۹۴)
مغیرہ بن شبل سے مروی ہے کہ سیدنا جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ جب میں مدینہ منورہ کے قریب آیا تو میں نے اپنی سواری کو بٹھا کر اپنا سامان کھول کر ایک طرف رکھ کر شان دار لباس زیب تن کیا اور میں مسجد میں داخل ہوا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، لوگوں نے میری طرف تیز نظروں سے دیکھا، میں نے اپنے قریب بیٹھے آدمی سے دریافت کیا کہ آیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یاد کیا ہے؟ اس نے بتایا: جی ہاں، آپ نے ابھی ابھی بڑے خوبصورت الفاظ سے تمہیںیاد کیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، دورانِ خطبہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تمہارا ذکرکیا اور فرمایا کہ اس دروازے سے یا اس راستے سے تمہارے پاس فضلائے اہلِ یمن میں سے ایک آدمی داخل ہونے والا ہے، اس کے چہرے سے بادشاہوں کی سی شان جھلکتی ہے۔ سیدنا جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:میں نے اپنے اس اعزاز پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10964

۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10965

۔ (۱۰۹۶۵)۔ عَنْ جَرِیْرٍ قَالَ: بَایَعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی اِقَامِ الصَّلَاۃِ، وَإِیْتَائِ الزَّکَاۃِ، وَالنُّصْحِ لِکُلِّ مُسْلِمٍ، وَعَلٰی فِرَاقِ الشِّرْکِ، اَوْ کَلِمَۃٍ مَعْنَاھَا۔ (مسند احمد: ۱۹۳۷۷)
سیدنا جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اقامت ِ صلوۃ، ادائے زکوۃ، ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے اور شرک سے مکمل اجتنا ب کرنے کی بیعت کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10966

۔ (۱۰۹۶۶)۔ (وَعَنْہٗمِنْطَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اشْتَرِطْ عَلَیَّ! قَالَ: ((تَعْبُدُ اللّٰہَ لَا تُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا، وَتُصَلِّی الصَّلَاۃَ الْمَکْتُوْبَۃَ، وَتُودِّی الزَّکَاۃَ الْمَفْرُوْضَۃَ، وَتَنْصَحُ الْمُسْلِمَ، وَتَبْرَاُ مِنَ الْکَافِرِ۔)) (مسند احمد: ۱۹۳۶۶)
۔( دوسری سند) سیدنا جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھ پر کوئی شرط عائد کریں،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اللہ کی عبادت کرنا، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا، فرض نماز ادا کرنا، فرض زکوۃ ادا کرنا اور ہر مسلم کے ساتھ خیر خواہی کرنا اور کافروں سے لا تعلق رہنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10967

۔ (۱۰۹۶۷)۔ عَنْ قَیْسٍ قَالَ: قَالَ جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ: قَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَلَا تُرِیحُنِی مِنْ ذِی الْخَلَصَۃِ۔)) وَکَانَ بَیْتًا فِی خَثْعَمَ یُسَمَّی کَعْبَۃَ الْیَمَانِیَۃِ، فَنَفَرْتُ إِلَیْہِ فِی سَبْعِینَ وَمِائَۃِ فَارِسٍ مِنْ أَحْمَسَ، (وَفِیْ رِوَایَۃٍ فِیْ سَبْعِیْنَ وَمِائَۃِ فَارِسٍ) وَکَانُوْا اَصْحَابِ خَیْل فَاَخْبَرْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِنِّیْ لَا اَثْبُتُ عَلَی الْخَیْلِ فَضَرَبَ فِیْ صَدْرِیْ حَتّٰی رَأَیْتُ اَثَرَ اَصَابِیِہِ فِیْ صَدْرِیَ وَقَالَ اَللّٰہُمَّ ثَبِّتْہُ واَجْعَلْہُ ہَادِیًا مَہْدِیًّا فَانْطَلَقَ اِلَیْھَا فَکَسَرَ قَالَ: فَأَتَاہَا فَحَرَّقَہَا بِالنَّارِ وَبَعَثَ جَرِیرٌ بَشِیرًا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا أَتَیْتُکَ حَتّٰی تَرَکْتُہَا کَأَنَّہَا جَمَلٌ أَجْرَبُ، فَبَرَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی خَیْلِ أَحْمَسَ وَرِجَالِہَا خَمْسَ مَرَّاتٍ۔ (مسند احمد: ۱۹۴۰۲)
سیدنا جریر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: کیا تم مجھے ذوالخلصہ بت خانہ سے راحت نہیں پہنچا سکتے؟ وہ یمن کے قبیلہ خثعم میں ایک بت خانہ تھا، جسے یمنی کعبہ کہا جاتا تھا، چنانچہ میں ایک سو پچاس (اور ایک روایت کے مطابق ایک سو ستر) گھوڑ سواروں کو ساتھ لے کر روانہ ہوا، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا میں گھوڑے پر جم کر نہیں بیٹھ سکتا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے سینہ پر اپنا ہاتھ مبارک اس قدر زور سے مارا کہ میں نے آپ کی انگلیوں کے نشانات اپنے سینہ پر محسوس کئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ دعا دی: یا اللہ اسے جم کر بیٹھنے کی توفیق دے اور اسے راہ ہدایت دکھانے والا اور ہدایتیافتہ بنا دے۔ یہ اس بت خانے کی طرف گئے، جا کر اسے توڑ ڈالا اور جلا کر خاکستر کر دیا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف ایک آدمی کو خوشخبری دینے کے لیے روانہ کیا، سیدنا جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قاصد نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلایا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث فرمایا ہے، میں آپ کی طرف اس وقت تک روانہ نہیں ہوا، جب تک کہ میں نے اسے جلنے کے بعد خارش زدہ اونٹ کی طرح بالکل سیاہ شدہ نہیں دیکھ لیا، تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے احمس قبیلے کے گھڑ سواروں اور پا پیادہ لوگوں کے لیے پانچ مرتبہ برکت کی دعا کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10968

۔ (۱۰۹۶۸)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ حَدَّثَنِی أَبِیْ حَدَّثَنَا یَحْیٰی حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ حَدَّثَنِی أَبِی قَالَ: أَتَیْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما وَہُوَ فِیْ بَنِی سَلَمَۃَ فَسَأَلْنَاہُ عَنْ حَجَّۃِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَحَدَّثَنَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَکَثَ بِالْمَدِیْنَۃِ تِسْعَ سِنِیْنَ لَمْ یَحُجَّ ثُمَّ أُذِّنَ فِیْ النَّاسِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَاجٌّ ہٰذَا الْعَامَ، قَالَ: فَنَزَلَ الْمَدِیْنَۃَ بَشَرٌ کَثِیْرٌ کُلُّہُمْ یَلْتَمِسُ أَنْ یَحُجَّ وَیَأْتَمَّ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَیَفْعَلَ مِثْلَ مَا یَفْعَلُ، فَخَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعَشْرٍ بَقِیْنَ مِنْ ذِیْ الْقَعْدَۃِ وَخَرَجْنَا مَعَہُ حَتّٰی أَتٰی ذَا الْحُلَیْفَۃِ نَفِسَتْ أَسْمَائُ بِنْتُ عُمَیْسٍ بِمُحَمَّدِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ، فَأَرْسَلَتْ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : کَیْفَ أَصْنَعُ؟ قَالَ: ((اِغْتَسِلِیْ، ثُمَّ اسْتَذْفِرِی بِثَوْبٍ ثُمَّ أَہِلِّی۔)) فَخَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی إِذَا اسْتَوَتْ بِہِ نَاقَتُہُ عَلَی الْبَیْدَائِ أَہَلَّ بِالتَّوْحِیْدِ ((لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ، لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ۔)) وَلَبَّی النَّاسُ، وَالنَّاسُ یَزِیْدُوْنَ ذَا الْمَعَارِجِ، وَنَحْوَہُ مِنَ الْکَلَامِ وَالنَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَسْمَعُ فَلَمْ یَقُلْ لَہُمْ شَیْئًا، فَنَظَرْتُ مَدَّ بَصَرِی، وَبَیْنَیَدَی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ رَاکِبٍ وَمَاشٍ، وَمِنْ خَلْفِہِ مِثْلُ ذَالِکَ، وَعَنْ یَمِیْنِہِ مِثْلُ ذَالِکَ وَعَنْ شِمَالِہِ مِثْلُ ذَالِکَ، قَالَ جَابِرٌ: رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَ أَظْہُرِنَا عَلَیْہِیَنْزِلُ الْقُرْاَنَ وَہُوَ یَعْرِفُ تَأْوِیْلَہُ وَمَا عَمِلَ بِہِ مِنْ شَیْئٍ عَمِلْنَا بِہِ، فَخَرَجْنَا لَا نَنْوِی إِلَّا الْحَجَّ حَتّٰی أَتَیْنَا الْکَعْبَۃَ فَاسْتَلَمَ نَبِیُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہِ وَسَلَّمَ الْحَجَرَ الْأَسْوَدَ، ثُمَّ رَمَلَ ثَلَاثَۃً وَمَشٰی أَرْبَعَۃً حَتّٰی إِذَا فَرَغَ عَمَدَ إِلٰی مَقَامِ إِبْرَاہِیْمَ فَصَلّٰی خَلْفَہُ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ قَرَأَ {وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی} قَالَ أَبِی: قَالَ أَبُوْ عَبْدِ اللّٰہِ یَعْنِی جَعْفَرًا، فَقَرَأَ فِیْہِمَا بِالتَّوْحِیْدِ، وَ {قُلْ یَآ أَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ} ثُمَّ اسْتَلَمَ الْحَجَرَ، وَخَرَجَ إِلَی الصَّفَا ثُمَّ قَرَأَ: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ} ثُمَّ قَالَ: ((نَبَدَأُ بِمَا بَدَأَ اللّٰہُ بِہِ۔)) فَرَقِیَ عَلَی الصَّفَا حَتّٰی إِذَا نَظَرَ إِلَی الْبَیْتِ کَبَّرَ قَالَ: ((لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، أَنْجَزَ وَعْدَہُ وَصَدَّقَ عَبْدَہُ، وَغَلَبَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ۔)) ثُمَّ دَعَا، ثُمَّ رَجَعَ إِلٰی ہٰذَا الْکَلَامِ ، ثُمَّ نَزَلَ حَتّٰی إِذَا انْصَبَّتْ قَدَمَاہُ فِی الْوادِی رَمَلَ، حَتّٰی إِذَا صَعِدَ مَشٰی حَتّٰی أَتٰی الْمَرْوَۃَ فَرَقِیَ عَلَیْہَا حَتّٰی نَظَرَ إِلَی الْبَیْتِ فَقََالَ عَلَیْہَا کَمَا قَالَ عَلَی الصَّفَا، فَلَمَّا کَانَ السَّابِعُ عِنْدَ الْمَرْوَۃِ، قَالَ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ! إِنِّی لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِی مَا اسْتَدْبَرْتُہٗ لَمْ أَسُقِ الْہَدْیَ، وَلَجَعَلْتُہَا عُمْرَۃً فَمَنْ لَمْ یَکُنْ مَعَہُ ہَدْیٌ فَلْیَحْلِلْ، وَلْیَجْعَلْہَا عُمْرَۃً۔)) فَحَلَّ النَّاسُ کُلُّہُمْ، فَقَالَ سَرَاقَۃُ بْنُ مَالِکِ بْنِ جُعْشُمٍ وَہُوَ فِیْ أَسْفَلِ الْمَرْوَۃِ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَلِعَامِنَا ہٰذَا أَمْ لِلْاَبَدِ؟ فَشَبَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَصَابِعَہُ فَقَالَ: ((لِلْاَبَدِ۔)) ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ: ((دَخَلَتِ الْعُمْرَۃُ فِی الْحَجِّ إِلٰییَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔)) قَالَ: وَقَدِمَ عَلِیٌّ مِنَ الْیَمَنِ فَقَدِمَ بِہَدْیٍ، وَسَاقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَعَہُ مِنَ الْمَدِیْنَۃِ ہَدْیًا، فَإِذَا فَاطِمَۃُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَدْ حَلَّتْ وَلَبِسَتْ ثِیَابَہَا صَبِیْغًا، وَاکْتَحَلَتْ فَأَنْکَرَ ذَالِکَ عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَلَیْہَا، فَقَالَتْ: أَمَرَنِی بِہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: قَالَ عَلِیٌّ بِالْکُوْفَۃِ، قَالَ جَعْفَرٌ قَالَ أَبِی ہٰذَا الْحَرْفُ لَمْ یَذْکُرْہُ جَابِرٌ، فَذَہَبْتُ مُحَرِّشًا، أَسْتَفْتِی بِہِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الَّذِیْ ذَکَرَتْ فَاطِمَۃُ، قُلْتُ إِنَّ فَاطِمَۃُ لَبِسَتْ ثِیَابَہَا صَبِیْغًا وَ اکْتَحَلَتْ وَقَالَتْ: أَمَرَنِی بِہِ أَبِی، قَالَ: ((صَدَقَتْ صَدَقَتْ أَنَا أَمَرَتُہَا بِہِ۔)) قَالَ جَابِرٌ: وَقَالَ لِعَلِیٍّ: ((بِمَ أَہْلَلْتَ؟)) قَالَ: قُلْتُ: اَللّٰہُمَّ إِنِّی اُھِلُّ بِمَا أَہَلَّ بِہِ رَسُوْلُکَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: وَمَعَی الْہَدْیُ، قَالَ: ((فَلَا تَحِلَّ۔)) قَالَ: فَکَانَتْ جَمَاعَۃُ الْہَدْیِ الَّذِیْ أَتٰی بِہِ عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِنَ الْیَمِنْ ِوَالَّذِی أَتٰی بِہِ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَائَۃً فَنَحَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِیَدِ ہِ ثَلَاثَۃً وَسِتِّیْنَ، ثُمَّ أَعْطٰی عَلِیًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ، وَأَشْرَکَہُ فِی ہَدْیِہِ، ثُمَّ اََمَرَ مِنْ کُلِّ بَدَنَۃٍ بِبَضْعَۃٍ، فَجُعِلَتْ فِیْ قِدْرٍ َأَکَلَا مِنْ لَحْمِھَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِہَا، ثُمَّ قَالَ نَبِیُّ اللّٰہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہٖوَصَحْبِہِوَسَلَّمَ: ((قَدْنَحَرْتُھٰھُنَاوَمِنًی کُلُّھَا مَنْحَرٌ۔)) وَوَقَفَ بِعَرَفَۃَ ‘ فَقَالَ: ((وَقَفْتُ ھٰھُنَا وَعَرَفَۃُ کُلُّہَا مَوْقِفٌ۔)) وَوَقَفَ بِالْمُزْدَلِفَۃِ، فَقَالَ: ((وَقَفْتُ ہٰہُنَا، وَالْمُزْدَلِفَۃُ کُلُّہَا مَوْقِفٌ۔)) (مسند احمد: ۱۴۴۹۳)
جعفر کے والد کہتے ہیں: ہم سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گئے، جبکہ وہ ان دنوں بنو سلمہ محلے میں مقیم تھے، ہم نے ان سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حج کے متعلق پوچھا، انہوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مدینہ منورہ میں نو سال بسر کئے اور اس عرصہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حج نہیں کیا،اس کے بعد لوگوں میں اعلان کر دیا گیا کہ اس سال رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حج کے لئے تشریف لے جا رہے ہیں،یہ اعلان سن کر بے شمار لوگ مدینہ منورہ میں جمع ہو گئے، ہر آدمی چاہتا تھا کہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اقتدا کرے اور وہی افعال کرے جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سر انجام دیں، چنانچہ ذی قعدہ کے دس روز باقی تھے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سفر شروع کر دیا،ہم بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں روانہ ہو گئے۔ جب ہم ذوالحلیفہ مقام پر پہنچے تھے کہ سیدہ اسماء بنت عمیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے محمد بن ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو جنم دیا، انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف یہ پیغام بھیجا کہ اب وہ کیا کرے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: غسل کرکے لنگوٹ کس لے اور احرام باندھ لے۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں سے آگے بڑھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سواری بیدائ پر سیدھی ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ کلمہٗتوحید پڑھا: لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ، لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ (میں حاضر ہوں، اے اللہ ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریکنہیں، میں حاضر ہوں، تمام تعریفیں اور نعمتیں تیرے لیے ہیں اور بادشاہت بھی تیرے لیے ہے، تیرا کوئی شریک نہیں) ،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ لوگوں نے بھی تلبیہ پڑھا، لوگ اپنے تلبیہ میں ذَا الْمَعَارِجِ (اے بلندیوں والے) وغیرہ کے الفاظ بھی بڑھا رہے تھے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے یہ الفاظ سنے، مگر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو کچھ نہیں کہا، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں دیکھا، تاحدِّ نظر انسان ہی انسان تھے، کوئی سوار تھا اورکوئی پیدل۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے درمیان تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر قرآن نازل ہوتا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہی اس کی بہترین تفسیر جانتے تھے، جیسے جیسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عمل کئے، ہم بھی اسی کے مطابق کرتے گئے، ہم حج کی نیت سے روانہ ہوئے تھے، جب ہم کعبہ پہنچے تونبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حجر اسود کو بوسہ دیا، پھر تین چکروں میں ذرا تیز اور چار چکروں میں ذرا آہستہ چال چل کر بیت اللہ کا طواف کیا، اس سے فارغ ہو کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مقام ابراہیم کے پاس آئے اور اس کے پیچھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی اور پھر یہ آیت تلاوت کی: {وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی} …( تم مقام ابراہیم کے پاس نماز ادا کرو۔) ((سورۂ بقرہ : ۱۲۵۔)) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے طواف کی دو رکعتوں میں سورۂ اخلاص اور سورۂ کافرون کی تلاوت کی، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حجر اسود کا بوسہ لیا اور صفاکی طرف چلے گئے اور یہ آیت تلاوت کی: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ} … (بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں) (سورۂ بقرہ: ۱۵۸) پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس سے اللہ نے ابتدا کی، ہم بھی اسی سے آغاز کریں گے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صفا کے اوپر اس قدر چڑھ گئے کہ بیت اللہ دکھائی دینے لگا، وہاں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ اکبر کہا اور یہ دعا پڑھی: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، أَنْجَزَ وَعْدَہُ وَصَدَّقَ عَبْدَہُ، وَغَلَبَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ۔(اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلاہے، اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہت اسی کی ہے اور تعریف بھی اسی کی ہے، وہی ہر چیز پر قادر ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اس نے اپنے بندے یعنی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سچا کر دکھایا اور وہ اکیلا تمام جماعتوں اور گروہوں پر غالب رہا)اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں دعائیں کیں۔ بعد ازاں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صفا سے نیچےتشریف لائے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وادی کے درمیان پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دوڑے، جب بلندی شروع ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آہستہ آہستہ چلنے لگے تاآنکہ مروہ پر پہنچ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مروہ کے اوپر چلے گئے یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بیت اللہ دکھائی دینے لگا،وہاں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسی طرح دعائیں کیں جیسے صفا پر کی تھیں۔ جب مروہ کے پاس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ساتواں چکر تھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو! جو بات مجھے اب معلوم ہوئی ہے، اگر یہ مجھے پہلے معلوم ہوتی تو میںقربانی کا جانور ساتھ لے کر نہ آتا اور اس عمل کو عمرہ بنا دیتا، اب جن لوگوں کے پاس قربانی کا جانور نہیں ہے، وہ اپنے اس عمل کو عمرہ بنا لیں اور احرام کھول دیں، چنانچہ سب لوگ حلال ہو گئے۔سیدنا سراقہ بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو اس وقت مروہ سے نیچے تھے، نے کہا: اے اللہ کے رسول! ان دنوں میں عمرہ کییہ اجازت اسی سال کے لئے ہے یا ہمیشہ کیلئے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر تین مرتبہ فرمایا: ہمیشہ کے لئے ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت تک عمرہ حج میں داخل ہو گیا ہے۔ اُدھر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یمن سے قربانی کے جانور ساتھ لے کر آئے تھے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ یہ جانور لے کر آئے تھے۔سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عمرہ کے بعد احرام کھول دیا تھا اور رنگین لباس پہن لیا تھا اور سرمہ بھی ڈال لیا تھا، لیکن ان کا یہ عمل سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اچھا نہیں لگا، جب انہوںنے اس پر انکار کیا تو انہوں نے کہا: مجھے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کا حکم دیا ہے۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کوفہ میں یہ بات بیان کی تھی کہ وہ غصے کی حالت میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گیا اور کہا کہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے رنگ دار کپڑے پہن لئے ہیں اور سرمہ بھی ڈال لیا ہے اور کہتی ہے کہ اس کو اس کے والد( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ ٹھیک کہتی ہے، (تین بار فرمایا) میں نے ہی اسے یہ حکم دیا تھا۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے پوچھا: تم نے تلبیہ پڑھتے وقت کیا کہا تھا؟ انہوں نے کہا:میں نے کہا تھا کہ جس طرح کی نیت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ہے، میری بھی وہی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر میرے پاس تو قربانی کا جانور ہے، لہٰذا تم بھی احرام کی حالت میں ہی ٹھہرو۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ سے اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یمن سے جو جانور لے کر آئے تھے، ان کی مجموعی تعداد (۱۰۰) تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے (۶۳) اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر کئے اور باقی اونٹ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نحر کئے،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں قربانی میں شریک کیا تھا، پھرآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہر اونٹ کا ایک ایک ٹکڑا لے کر پکانے کا حکم دیا، چنانچہ وہ گوشت ایک ہنڈیا میں ڈال کر پکایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے وہ گوشت کھایا اور اس کا شوربہ نوش کیا۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے تو یہاں جانور ذبح کئے ہیں،تاہم پورامنی قربان گاہ ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عرفہ میں ایک مقام پر قیام کیا اورفرمایا: میں نے تو یہاں وقوف کیا ہے، تاہم پورا عرفہ وقوف کی جگہ ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزدلفہ میں ایک مقام پر وقوف کیا اور فرمایا: میں تو یہاں ٹھہرا ہوا ہوں، تاہم پورا مزدلفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10969

۔ (۱۰۹۶۹)۔ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: تَمَتَّعَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ وَأَہْدٰی فَسَاقَ مَعَہُ الْہَدْیَ مِنْ ذِی الْحُلَیْفَۃَ، وَبَدَأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَہَلَّ بِالْعُمْرَۃِ، ثُمَّ أَہَلَّ بِالْحَجِّ وَتَمَتَّعَ النَّاسُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ، فَإِنَّ مِنَ النَّاسِ مَنْ أَہْدٰی فَسَاقَ الْہَدْیَ وَمِنْہُمْ مَنْ لَمْ یُہْدِ، فَلَمَّا قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لِلنَّاسِ: ((مَنْ کَانَ مِنْکُمْ أَہْدٰی فَإِنَّہُ لَا یَحِلُّ مِنْ شَیْئٍ حَرُمَ مِنْہُ حَتَّییَقْضِیَ حَجَّہ، وَمَنْ لَمْ یَکُنْ مِنْکُمْ أَہْدٰی فَلْیَطُفْ بِالْبَیْتِ وَبالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ وَلْیُقَصِّرْ وَلْیَحْلِلْ، ثُمَّ لِیُہِلَّ بِالْحَجِّ وَلْیُہْدِ، فَمَنْ لَمْ یَجِدْ ہَدْیًا فَلْیَصُمْ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ فِیْ الْحَجِّ وَسَبَعَۃً إِذَا رَجَعَ إِلٰی أَہْلِہِ۔)) وَطَافَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِیْنَ قَدِمَ مَکَّۃَ اسْتَلَمَ الرُّکْنَ أَوَّلَ شَیْئٍ ثُمَّ خَبَّ ثَلَاثَۃَ أَطْوَافٍ مِنَ السَّبْعِ وَمَشٰی أَرْبَعَۃَ أَطْوَافٍ، ثُمَّ رَکَعَ حِیْنَ قَضٰی طَوَافَہُ بِالْبَیْتِ عِنْدَ الْمَقَامِ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ سَلَّمَ فَانْصَرَفَ، فَأَتَی الصَّفَا فَطَافَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ ثُمَّ لَمْ یَحْلِلْ مِنْ شَیْئٍ حَرُمَ مِنْہُ حَتّٰی قَضٰی حَجَّہُ وَنَحَرَ ہَدْیَہُیَوْمَ النَّحْرِ وَأَفَاضَ فَطَافَ بِالْبَیْتِ ثُمَّ حَلَّ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ حَرُمَ مِنْہُ، وَفَعَلَ مِثْلَ مَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَنْ أَہْدٰی وَسَاقَ الْہَدْیَ مِنَ النَّاسِ۔ (مسند احمد: ۶۲۴۷)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر حج کے ساتھ عمرہ کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذوالحلیفہ سے قربانی کا جانور ہمراہ لے گئے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے احرام کے دوران پہلے عمرہ اور پھر حج کا تلبیہ پڑھا اور لوگوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں حج کے ساتھ عمرہ بھی کیا، کچھ لوگ تو قربانی کا جانور ہمراہ لے گئے تھے، لیکن کچھ لوگوں کے پاس قربانی کے جانور نہیں تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مکہ مکرمہ پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں سے فرمایا: جن کے ساتھ قربانی کا جانور ہے، ان پر احرام کی وجہ سے جو حلال چیز حرام ہو چکی ہے، وہ حج پورا ہونے تک حلال نہیں ہو گی، لیکن جن کے ہمراہ قربانی کا جانور نہیں ہے، وہ بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کے بعد بال کٹوا کر احرام کھول دیں، پھر وہ حج کے لیے علیحدہ احرام باندھیں گے اور قربانی کریں گے، جو آدمی قربانی کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہو وہ تین روزے حج کے ایام میںاور سات روزے گھر جا کر رکھے گا۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مکہ مکرمہ آئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیت اللہ کا طواف کیا، سب سے پہلے حجر اسود کا بوسہ لیا، اس کے بعد بیت اللہ کے گرد سات چکروں میں سے پہلے تین میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رمل کیا اور باقی چار میں عام رفتار سے چلے، طواف مکمل کرنے کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مقام ابراہیم کے قریب دو رکعتیں ادا کی اور جب سلام پھیر کر فارغ ہوئے تو صفا پر تشریف لے گئے، اور صفا مروہ کی سعی کی اور حج سے فارغ ہونے تک احرام کی وجہ سے حرام ہونے والی کوئی چیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر حلال نہیں ہوئی، دس ذوالحجہ کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قربانی کی اور بیت اللہ کا طواف کیا، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر احرام کی وجہ سے حرام ہونے والی ہر چیز حلال ہو گئی،جو لوگ قربانی کے جانور اپنے ساتھ لائے تھے، انھوں نے بھی اسی طرح کے اعمال سرانجام دیئے، جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ادا کیے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10970

۔ (۱۰۹۷۰)۔ عَنْ اَبِیْ أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیَّیَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی خُطْبَتِہِ عَامَّ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ: ((إِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَعْطٰی کُلَّ ذِی حَقٍّ حَقَّہُ فَلَا وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ وَالْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاہِرِ الْحَجَرُ وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللّٰہِ، وَمَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَیْرِ أَبِیہِ أَوِ انْتَمَی إِلٰی غَیْرِ مَوَالِیہِ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ التَّابِعَۃُ إِلَییَوْمِ الْقِیَامَۃِ، لَا تُنْفِقُ الْمَرْأَۃُ شَیْئًا مِنْ بَیْتِہَا إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِہَا۔)) فَقِیلَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَلَا الطَّعَامَ؟ قَالَ: ((ذٰلِکَ أَفْضَلُ أَمْوَالِنَا۔)) قَالَ: ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((الْعَارِیَۃُ مُؤَدَّاۃٌ وَالْمِنْحَۃُ مَرْدُودَۃٌ وَالدَّیْنَ مَقْضِیٌّ وَالزَّعِیمُ غَارِمٌ۔)) (مسند احمد: ۲۲۶۵۰)
سیدنا ابو امامہ باہلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ میںیوں ارشاد فرماتے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے، پس اب کسی وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جا سکتی، بچہ اسی کی طرف منسوب ہو گا، جس کے بستر پر یعنی جس کے گھر میں پیدا ہو ا اور زانی کے لیے سنگ ساری کی سزا ہے اور ان کا اصل حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ جو شخص اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی دوسرے کا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرے گا یا اپنے اصل مالکوں کے علاوہ اپنے آپ کو کسی دوسرے کی طرف نسبت کرے تو اس پر قیامت تک اللہ کی لعنت برابر برستی رہے گی۔کوئی عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے گھر میں سے کوئی چیز خرچ نہ کرے۔ کسی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا کھانا بھی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تو ہمارے اموال میں سب سے قیمتی چیز ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ادھار لی ہوئی چیز کا واپس کرنا ضروری ہے، کسی نے دودھ کا جانور بطور عطیہ دیا ہو کہ تم اس کا دودھ پیتے رہو، ایسے جانور کی واپسی بھی ضروری ہے، قرض کی ادائیگی بھی ضروری ہے، اور جو کوئی کسی کی ضمانت دے تو اصل کی بجائے یہ آدمی مقروض ہے۔ یعنی اگر وہ شخص ادا نہ کرے تو ضامن اس کی ادائیگیکا پابند ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10971

۔ (۱۰۹۷۱)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ قَالَ: سَمِعْتُ مُرَّۃَ قَالَ حَدَّثَنِی رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قَامَ فِینَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی نَاقَۃٍ حَمْرَائَ مُخَضْرَمَۃٍ، فَقَالَ: ((أَتَدْرُونَ أَیُّیَوْمِکُمْ ہٰذَا؟)) قَالَ: قُلْنَا: یَوْمُ النَّحْرِ، قَالَ: ((صَدَقْتُمْ یَوْمُ الْحَجِّ الْأَکْبَرِ، أَتَدْرُونَ أَیُّ شَہْرٍ شَہْرُکُمْ ہٰذَا؟)) قُلْنَا: ذُو الْحِجَّۃِ، قَالَ: ((صَدَقْتُمْ شَہْرُ اللّٰہِ الْأَصَمُّ، أَتَدْرُونَ أَیُّ بَلَدٍ بَلَدُکُمْ ہٰذَا؟)) قَالَ: قُلْنَا: الْمَشْعَرُ الْحَرَامُ، قَالَ: ((صَدَقْتُمْ۔)) قَالَ: ((فَإِنَّ دِمَاء َکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِیَوْمِکُمْ ہٰذَا، فِی شَہْرِکُمْ ہٰذَا، فِی بَلَدِکُمْ ہٰذَا، (أَوْ قَالَ) کَحُرْمَۃِیَوْمِکُمْ ہٰذَا، وَشَہْرِکُمْ ہٰذَا، وَبَلَدِکُمْ ہٰذَا، أَلَا وَإِنِّی فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ أَنْظُرُکُمْ، وَإِنِّی مُکَاثِرٌ بِکُمُ الْأُمَمَ فَلَا تُسَوِّدُوا وَجْہِی، أَلَا وَقَدْ رَأَیْتُمُونِی وَسَمِعْتُمْ مِنِّی وَسَتُسْأَلُونَ عَنِّی، فَمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنْ النَّارِ، أَلَا وَإِنِّی مُسْتَنْقِذٌ رِجَالًا أَوْ اُنَاثًا وَمُسْتَنْقَذٌ مِنِّی آخَرُونَ، فَأَقُولُ: یَا رَبِّ أَصْحَابِی، فَیُقَالُ: إِنَّکَ لَا تَدْرِی مَا أَحْدَثُوا بَعْدَکَ۔)) (مسند احمد: ۲۳۸۹۳)
مرہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے ایک صحابی نے بیان کیا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک کان بریدہ، سرخ رنگ کی اونٹنی پر سوار ہو کر ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آیا تم جانتے ہو کہ آج کون سا دن ہے؟ ہم نے عرض کیا: آج یوم النحر ( دس ذوالحجہ) ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے ٹھیک کہا، یہ حج اکبر کا دن ہے، اچھا تو کیا تم یہ جانتے ہو یہ کونسا مہینہ ہے؟ ہم نے عرض کیا: یہ ذوالحجہ کا مہینہ ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے ٹھیک بتایا،یہ اللہ کا محترم مہینہ ہے، کیا تم جانتے ہو یہ کونسا شہر ہے؟ ہم نے عرض کیا: یہ مشعر حرام ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے، تمہارے خون اور اموال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں، جیسے آج کے دن کی، اس مہینے اور اس شہر میں حرمت ہے۔ خبردار میں حوض پر تم سے پہلے جاؤں گا اور تمہاری انتظار کروں گا اور میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا، پس تم اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے مجھے رسوا نہ کر دینا، خبردار تم مجھے دیکھ چکے ہو اور میری باتیں سن چکے ہو، عنقریب تم سے میری بابت پوچھا جائے گا۔ جس نے کوئی بات جھوٹ موٹ میری طرف نسبت کی، وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لے، خبردار کچھ لوگوں کو تو میں شر اور آزمائش سے بچالوں گا کہ وہ میرے ہاتھوں میں حوض سے پانی نوش کریں گے اور کچھ لوگوں کو میرے ہاتھ سے اچک لیا جائے گا۔ یعنی انہیں حوض پر میرے قریب آنے سے روک دیا جائے گا، میں کہوں گا: اے میرے رب! یہ تو میرے ساتھی ہیں، اللہ کی طرف سے جواب دیا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد دین میں کس قدر خرابیاں پیدا کیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10972

۔ (۱۰۹۷۲)۔ عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُدْرِکٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَۃَیُحَدِّثُ عَنْ جَرِیرٍ وَہُوَ جَدُّہُ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ فِی حَجَّۃِ الْوَدَاعِ: ((یَا جَرِیرُ اسْتَنْصِتِ النَّاسَ۔)) ثُمَّ قَالَ فِی خُطْبَتِہِ: ((لَا تَرْجِعُوا بَعْدِی کُفَّارًا، یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ۔)) (مسند احمد: ۱۹۳۸۱)
سیدنا جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حجۃ الوداع میں ایک موقع پر فرمایا: اے جریر! لوگوں کو خاموش کراؤ۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا: تم میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10973

۔ (۱۰۹۷۳)۔ عَنْ جَرِیرٍ قَالَ: بَعَثَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی الْیَمَنِ، فَلَقِیتُ بِہَا رَجُلَیْنِ ذَا کَلَاعٍ وَذَا عَمْرٍو، قَالَ: وَأَخْبَرْتُہُمَا شَیْئًا مِنْ خَبَرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ثُمَّ أَقْبَلْنَا فَإِذَا قَدْ رُفِعَ لَنَا رَکْبٌ مِنْ قِبَلِ الْمَدِینَۃِ، قَالَ: فَسَأَلْنَاہُمْ مَا الْخَبَرُ؟ قَالَ: فَقَالُوا: قُبِضَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَالنَّاسُ صَالِحُونَ، قَالَ: فَقَالَ لِی، أَخْبِرْ صَاحِبَکَ، قَالَ: فَرَجَعَا ثُمَّ لَقِیتُ ذَا عَمْرٍو فَقَالَ لِی،یَا جَرِیرُ إِنَّکُمْ لَنْ تَزَالُوا بِخَیْرٍ مَا إِذَا ہَلَکَ أَمِیرٌ ثُمَّ تَأَمَّرْتُمْ فِی آخَرَ، فَإِذَا کَانَتْ بِالسَّیْفِ غَضِبْتُمْ غَضَبَ الْمُلُوکِ وَرَضِیتُمْ رِضَا الْمُلُوکِ۔ (مسند احمد: ۱۹۴۳۷)
سیدنا جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یمن کی طرف روانہ فرمایا، وہاں میری ذوکلاع اور ذوعمرو نامی دو آدمیوں سے ملاقات ہوئی، میں نے انہیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے متعلق کچھ باتوں سے آگاہ کیا، پھر ہم آئے تو ہمیں مدینہ کی طرف سے کچھ سوار آتے دکھائی دئیے،ہم نے ان سے دریافت کیا: کیا بات ہے؟ تو انہوں نے بتلایا: اللہ کے رسول کا انتقال ہو گیا ہے اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خلیفہ منتخب ہو ئے ہیں اور لوگ مطمئن ہیں،یعنی حالات پرسکون اور تسلی بخش ہیں۔ ذوکلاع اور ذوعمرو نے مجھ سے کہا: آپ اپنے خلیفہ کو اطلاع دے دیں۔ ( کہ ہم آئے تھے) اس کے بعد وہ دوبارہ میرے پاس آئے، میری ذوعمرو سے ملاقات ہوئی تو اس نے مجھ سے کہا: جریر! تم ایک وقت تک بھلائی پر رہو گے، تاآنکہ پہلا امیر فوت ہو جائے اور تم دوسرے شخص کو امیر منتخب کرو گے، جب تلوار نکل آئی تو تم عام بادشاہوں کی طرح ہو جاؤ گے، جیسےوہ بات بات پر ناراض ہو جاتے ہیں، تم بھی ان کی طرح کرنے لگو گے اور جیسے وہ معمولی باتوں پر خوش ہو جاتے ہیں، تم بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہونے لگو گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10974

۔ (۱۰۹۷۴)۔ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ أَمَّرَ أُسَامَۃَ بَلَغَہُ أَنَّ النَّاسَ یَعِیبُونَ أُسَامَۃَ وَیَطْعَنُونَ فِی إِمَارَتِہِ، فَقَامَ کَمَا حَدَّثَنِی سَالِمٌ فَقَالَ: ((إِنَّکُمْ تَعِیبُونَ أُسَامَۃَ وَتَطْعَنُونَ فِی إِمَارَتِہِ، وَقَدْ فَعَلْتُمْ ذٰلِکَ فِی أَبِیہِ مِنْ قَبْلُ، وَإِنْ کَانَ لَخَلِیقًا لِلْإِمَارَۃِ، وَإِنْ کَانَ لَأَحَبَّ النَّاسِ کُلِّہِمْ إِلَیَّ، وَإِنَّ ابْنَہُ ہٰذَا بَعْدَہُ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَیَّ، فَاسْتَوْصُوا بِہِ خَیْرًا، فَإِنَّہُ مِنْ خِیَارِکُمْ۔)) (مسند احمد: ۵۶۳۰)
سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لشکر کا سربراہ مقرر فرمایا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ لوگ اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سربراہ بننے پر اعتراض کرتے ہیں اور ان کو امیر بنائے جانے پر طعن کرتے ہیں، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھڑے ہو کر فرمایا: تم لوگ اسامہ کو سربراہِ لشکر بنائے جانے پر اعتراض کرتے ہو اور ان کو امیر بنائے جانے پر طنز کرتے ہو، یہی کام تم نے اس سے قبل اس کے والد کے بارے میں بھی کیا تھا، حالانکہ وہ امیر بنائے جانے کا بجا طور پر حق دار تھا۔ اور وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب بھی تھا، اس کے بعد اس کا یہ بیٹامجھے سب سے زیادہ پیارے لوگوں میں سے ہے، میں تمہیں اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں، یہ تمہارے بہترین لوگوں میں سے ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10975

۔ (۱۰۹۷۵)۔ عَنْ أَبِی مُوَیْہِبَۃَ مَوْلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: أُمِرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یُصَلِّیَ عَلَی أَہْلِ الْبَقِیعِ، فَصَلّٰی عَلَیْہِمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیْلَۃً ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا کَانَتِ اللَّیْلَۃُ الثَّانِیَۃُ قَالَ: ((یَا أَبَا مُوَیْہِبَۃَ! أَسْرِجْ لِی دَابَّتِی۔)) قَالَ: فَرَکِبَ فَمَشَیْتُ حَتَّی انْتَہٰی إِلَیْہِمْ فَنَزَلَ عَنْ دَابَّتِہِ وَأَمْسَکَتْ الدَّابَّۃُ وَوَقَفَ عَلَیْہِمْ (أَوْ قَالَ: قَامَ عَلَیْہِمْ) فَقَالَ: ((لِیَہْنِیکُمْ مَا أَنْتُمْ فِیہِ مِمَّا فِیہِ النَّاسُ، أَتَتِ الْفِتَنُ کَقِطَعِ اللَّیْلِیَرْکَبُ بَعْضُہَا بَعْضًا، الْآخِرَۃُ أَشَدُّ مِنَ الْأُولٰی فَلْیَہْنِیکُمْ مَا أَنْتُمْ فِیہِ۔)) ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ: ((یَا أَبَا مُوَیْہِبَۃَ! إِنِّی أُعْطِیتُ (أَوْ قَالَ: خُیِّرْتُ) مَفَاتِیحَ مَا یُفْتَحُ عَلٰی أُمَّتِی مِنْ بَعْدِی وَالْجَنَّۃَ أَوْ لِقَائَ رَبِّی۔)) فَقُلْتُ: بِأَبِی وَأُمِّییَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَأَخْبِرْنِی قَالَ: ((لَأَنْ تُرَدَّ عَلٰیعَقِبِہَا مَا شَاء َ اللَّہُ، فَاخْتَرْتُ لِقَائَ رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ۔)) فَمَا لَبِثَ بَعْدَ ذٰلِکَ إِلَّا سَبْعًا أَوْ ثَمَانِیًا حَتّٰی قُبِضَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ أَبُو النَّضْرِ مَرَّۃً:تُرَدُّ عَلٰی عَقِبَیْہَا۔ (مسند احمد: ۱۶۰۹۲)
مولائے رسول سیدنا ابو مویہبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ( زندگی کے آخری ایام میں) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ( اللہ کی طرف سے) حکم دیا گیا کہ آپ ( جا کر) بقیع قبرستان والوں کے حق میں دعا فرمائیں، چنانچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک رات وہاں جا کر ان کے حق میں تین مرتبہ دعائیں کیں۔ دوسری رات ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابو مویہبہ! تم میرے لیے میری سواری پر زین کسو۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس پر سوار ہوئے اور میں پیدل چلتا رہا تاآنکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبرستان جا پہنچے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سواری سے نیچے اترے اور میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کیسواری کو تھام لیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اہل بقیع کے پاس جا کھڑے ہوئے اور فرمایا: لوگ جس کیفیت میں ہیں ان کی نسبت تم جس حال میں ہو، تمہیں مبارک ہو، فتنے اور آزمائشیں رات کے اندھیروں کی طرح ایک دوسرے پر چڑھے آرہے ہیں، بعد والا فتنہ پہلے سے زیادہ شدید ہو گا، تم جس حال میں ہو تمہیں مبارک ہو۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس آگئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابو مویہبہ! مجھے دو میں سے ایک بات کا اختیار دیا گیا ہے، میں اپنے بعد اپنی امت پر ہونے والی فتوحات کی کنجیاں لے لوں یا جنت اور اپنے رب کی ملاقات کو اختیار کروں۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، مجھے تو بتا دیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان میں سے کس چیز کا انتخاب کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اللہ کو منظور ہوا تو دنیا واپس اور ختم ہو جائے گی، اس لیے میں نے اپنے رب تعالیٰ کی ملاقات کا انتخاب کیا ہے۔ اس کے بعد سات آٹھ دن گزرے تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفات پا گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10976

۔ (۱۰۹۷۶)۔ (وَعَنْہٗمِنْطَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ أَبِی مُوَیْہِبَۃَ مَوْلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: بَعَثَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ جَوْفِ اللَّیْلِ، فَقَالَ: ((یَا أَبَا مُوَیْہِبَۃَ! إِنِّی قَدْ أُمِرْتُ أَنْ أَسْتَغْفِرَ لِأَہْلِ الْبَقِیعِ فَانْطَلِقْ مَعِی۔)) فَانْطَلَقْتُ مَعَہُ فَلَمَّا وَقَفَ بَیْنَ أَظْہُرِہِمْ قَالَ: ((السَّلَامُ عَلَیْکُمْیَا أَہْلَ الْمَقَابِرِ، لِیَہْنِ لَکُمْ مَا أَصْبَحْتُمْ فِیہِ مِمَّا أَصْبَحَ فِیہِ النَّاسُ، لَوْ تَعْلَمُونَ مَا نَجَّاکُمُ اللّٰہُ مِنْہُ، أَقْبَلَتِ الْفِتَنُ کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ یَتْبَعُ أَوَّلُہَا آخِرَہَا، الْآخِرَۃُ شَرٌّ مِنَ الْأُولٰی۔)) قَالَ: ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَیَّ فَقَالَ: ((یَا أَبَا مُوَیْہِبَۃَ! إِنِّی قَدْ أُوتِیتُ مَفَاتِیحَ خَزَائِنِ الدُّنْیَا وَالْخُلْدَ فِیہَا ثُمَّ الْجَنَّۃَ، وَخُیِّرْتُ بَیْنَ ذٰلِکَ وَبَیْنَ لِقَائِ رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ وَالْجَنَّۃِ۔)) قَالَ: قُلْتُ: بِأَبِی وَأُمِّی فَخُذْ مَفَاتِیحَ الدُّنْیَا وَالْخُلْدَ فِیہَا ثُمَّ الْجَنَّۃَ، قَالَ: ((لَا وَاللّٰہِ، یَا أَبَا مُوَیْہِبَۃَ! لَقَدِ اخْتَرْتُ لِقَائَ رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ وَالْجَنَّۃَ، ثُمَّ اسْتَغْفَرَ لِأَہْلِ الْبَقِیعِ۔)) ثُمَّ انْصَرَفَ فَبُدِیئَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ وَجْعِہِ الَّذِیْ قَبَضَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ حَیْنَ اَصْبَحَ۔ (مسند احمد: ۱۶۰۹۳)
۔( دوسری سند) سیدنا ابو مویہبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رات کے وقت مجھے پیغام بھیجا کہ ابو مویھبہ! مجھے اللہ کی طرف سے حکم دیا گیا ہے کہ میں اہل بقیع کے لیے مغفرت کی دعا کروں، تم بھی میرے ساتھ چلو، میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں جا کر جب کھڑے ہوئے تو فرمایا: اے قبروں والو! تم پر سلام ہو، اگر تم جان لو کہ اللہ نے تمہیں کیسے حالات سے بچا رکھا ہے اور زندہ لوگ اس وقت کس کیفیت میں ہیں، ان کی نسبت تم جس حال میں ہو، تمہیں وہ مبارک ہو، فتنے اور آزمائشیں رات کے اندھیروں کے ٹکڑوں کی طرح پے در پے آرہے ہیں، بعد والی آزمائش اور فتنہ پہلے فتنہ سے شدید تر ہوتا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ابو مویہبہ! مجھے دنیا کے خزانوں اور اس میں ہمیشہ رہنے اور بعد ازاں جنت اور اپنے رب کی ملاقات اور جنت، ان دو میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا گیا ہے۔ سیدنا ابو مویہبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دنیا کے خزانوں، ان میں دائمی زندگی اور بعدازاں جنت کا انتخاب کریں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابو مویہبہ! نہیں، اللہ کی قسم ! میں نے اپنے رب کی ملاقات او رجنت کا انتخاب کر لیا ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اہل بقیع کے حق میں مغفرت کی دعائیں کیں، اور واپس تشریف لائے، اس کے بعد صبح کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وہ تکلیف شروع ہو گئی، جس میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10977

۔ (۱۰۹۷۷)۔ عَنْ یَزِیدَ بْنِ بَابَنُوسَ قَالَ: ذَہَبْتُ أَنَا وَصَاحِبٌ لِی إِلٰی عَائِشَۃَ، فَاسْتَأْذَنَّا عَلَیْہَا، فَأَلْقَتْ لَنَا وِسَادَۃً، وَجَذَبَتْ إِلَیْہَا الْحِجَابَ، فَقَالَ صَاحِبِی: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ! مَا تَقُولِینَ فِی الْعِرَاکِ؟ قَالَتْ: وَمَا الْعِرَاکُ؟ وَضَرَبْتُ مَنْکِبَ صَاحِبِی، فَقَالَتْ: مَہْ آذَیْتَ أَخَاکَ، ثُمَّ قَالَتْ: مَا الْعِرَاکُ الْمَحِیضُ، قُولُوا: مَا قَالَ اللّٰہُ الْمَحِیضُ، ثُمَّ قَالَتْ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَتَوَشَّحُنِی وَیَنَالُ مِنْ رَأْسِی وَبَیْنِی وَبَیْنَہُ ثَوْبٌ وَأَنَا حَائِضٌ، ثُمَّ قَالَتْ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا مَرَّ بِبَابِی مِمَّا یُلْقِی الْکَلِمَۃَیَنْفَعُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہَا، فَمَرَّ ذَاتَیَوْمٍ فَلَمْ یَقُلْ شَیْئًا، ثُمَّ مَرَّ أَیْضًا فَلَمْ یَقُلْ شَیْئًا مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا، قُلْتُ: یَا جَارِیَۃُ! ضَعِی لِی وِسَادَۃً عَلَی الْبَابِ وَعَصَبْتُ رَأْسِی فَمَرَّ بِی فَقَالَ: ((یَا عَائِشَۃُ! مَا شَأْنُکِ؟)) فَقُلْتُ: أَشْتَکِی رَأْسِی، فَقَالَ: ((أَنَا وَا رَأْسَاہْ۔)) فَذَہَبَ فَلَمْ یَلْبَثْ إِلَّا یَسِیرًا حَتّٰی جِیئَ بِہِ مَحْمُولًا فِی کِسَائٍ، فَدَخَلَ عَلَیَّ وَبَعَثَ إِلَی النِّسَائِ، فَقَالَ: ((إِنِّی قَدِ اشْتَکَیْتُ وَإِنِّی لَا أَسْتَطِیعُ أَنْ أَدُورَ بَیْنَکُنَّ، فَأْذَنَّ لِی فَلْأَکُنْ عِنْدَ عَائِشَۃَ أَوْ صَفِیَّۃَ۔)) وَلَمْ أُمَرِّضْ أَحَدًا قَبْلَہُ، فَبَیْنَمَا رَأْسُہُ ذَاتَ یَوْمٍ عَلَی مَنْکِبَیَّ، إِذْ مَالَ رَأْسُہُ نَحْوَ رَأْسِی، فَظَنَنْتُ أَنَّہُ یُرِیدُ مِنْ رَأْسِی حَاجَۃً فَخَرَجَتْ مِنْ فِیہِ نُطْفَۃٌ بَارِدَۃٌ فَوَقَعَتْ عَلَی ثُغْرَۃِ نَحْرِی، فَاقْشَعَرَّ لَہَا جِلْدِی، فَظَنَنْتُ أَنَّہُ غُشِیَ عَلَیْہِ، فَسَجَّیْتُہُ ثَوْبًا، فَجَائَ عُمَرُ وَالْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ فَاسْتَأْذَنَا فَأَذِنْتُ لَہُمَا، وَجَذَبْتُ إِلَیَّ الْحِجَابَ، فَنَظَرَ عُمَرُ إِلَیْہِ فَقَالَ وَا غَشْیَاہْ مَا أَشَدَّ غَشْیَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ قَامَا فَلَمَّا دَنَوَا مِنَ الْبَابِ، قَالَ الْمُغِیرَۃُ: یَا عُمَرُ! مَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: کَذَبْتَ بَلْ أَنْتَ رَجُلٌ تَحُوسُکَ فِتْنَۃٌ إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا یَمُوتُ حَتّٰییُفْنِیَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُنَافِقِینَ، ثُمَّ جَائَ أَبُو بَکْرٍ فَرَفَعْتُ الْحِجَابَ فَنَظَرَ إِلَیْہِ، فَقَالَ: إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ، مَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِوَسَلَّمَ،ثُمَّ أَتَاہُ مِنْ قِبَلِ رَأْسِہِ فَحَدَرَ فَاہُ وَقَبَّلَ جَبْہَتَہُ، ثُمَّ قَالَ: وَا نَبِیَّاہْ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ ثُمَّ حَدَرَ فَاہُ وَقَبَّلَ جَبْہَتَہُ، ثُمَّ قَالَ: وَا صَفِیَّاہْ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ وَحَدَرَ فَاہُ وَقَبَّلَ جَبْہَتَہُ، وَقَالَ: وَا خَلِیلَاہْ، مَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَخَرَجَ إِلَی الْمَسْجِدِ، وَعُمَرُ یَخْطُبُ النَّاسَ وَیَتَکَلَّمُ وَیَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا یَمُوتُ حَتّٰییُفْنِیَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُنَافِقِینَ، فَتَکَلَّمَ أَبُو بَکْرٍ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ: {إِنَّکَ مَیِّتٌ وَإِنَّہُمْ مَیِّتُونَ} حَتّٰی فَرَغَ مِنَ الْآیَۃِ: {وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی أَعْقَابِکُمْ} حَتّٰی فَرَغَ مِنَ الْآیَۃِ، فَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ فَإِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ، وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، فَقَالَ عُمَرُ: وَإِنَّہَا لَفِی کِتَابِ اللّٰہِ مَا شَعَرْتُ أَنَّہَا فِی کِتَابِ اللّٰہِ، ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ! ہٰذَا أَبُو بَکْرٍ وَہُوَ ذُو شَیْبَۃِ الْمُسْلِمِینَ فَبَایِعُوہُ فَبَایَعُوہُ۔ (مسند احمد: ۲۶۳۶۵)
یزید بن بابنوس سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اور میرا ایک ساتھی ہم دونوں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی خدمت میں گئے، ہم نے ان کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی، انہوں نے ہمارے لیے تکیہ رکھ دیا اور اپنے سامنے پردہ کھینچ لیا، میرے ساتھی نے کہا: ام المؤمنین! آپ عراک کے متعلق کیا فرماتی ہیں؟ انہوں نے پوچھا: عراک سے کیا مراد ہے؟ یہ سن کر میں نے اپنے ساتھی کے کندھے پر ہاتھ مارا تو انہوں نے یعنی سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: یہ کیا؟ تم نے اپنے بھائی کو ایذاء پہنچائی ہے؟ پھر خود ہی فرمایا: کیا عراک سے مراد حیض لے رہے ہو؟ تم وہی لفظ کہو جو اللہ نے کہا ہے یعنی المحیض ، پھر کہا: میں حیض کی حالت میں ہوتی اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھ سے لپٹ جاتے اور میرے سر کو چھو لیتے، میر ے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے درمیان ایککپڑا حائل ہوتا، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب میرے دروازے کے پاس سے گزرتے تو کوئی مفید بات ارشاد فرما جاتے، ایک دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گزرے تو آپ نے کوئی لفظ ادا نہیں کیا، پھر گزرے تب بھی کوئی لفظ ارشاد نہیں فرمایا، دو یا تین مرتبہ ایسے ہی ہوا، میں نے خادمہ سے کہا: تم میرے لیے دروازے کے قریب تکیہ لگا دو اور میں نے اپنے سر پر کپڑا باندھ لیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس سے گزرے تو فرمایا: عائشہ ! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا: میرا سر دکھتا ہے، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہائے میرا سر۔ اور پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے گئے، کچھ دن گزرے تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اٹھا کر لایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک چادر زیب تن کئے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ہاں تشریف لے آئے اور دوسری ازواج کو پیغام بھجوایا کہ میں بیمار ہوں، میں تم سب کے پاس باری باری آنے کی استطاعت نہیں رکھتا، تم سب مجھے اجازت دے دو کہ میں عائشہ یا صفیہ کے پاس رہ لوں، مجھے اس سے قبل کسی مریض کی تیمار داری کرنے کا موقع نہیں ملا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سر میرے سر کی طرف جھکا ہوا تھا کہ اچانک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سر مبارک میرے کندھے سے آلگا، میں نے سمجھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے سر کا آسرا لینا چاہتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منہ مبارک سے تھوڑا سا ٹھنڈا پانی سا نکل کر میری گردن پر آپڑا۔ یہ حالت دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں سمجھی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر غشی طاری ہوئی ہے۔ میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کوکپڑے سے ڈھانپ دیا، اتنے میں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لے آئے۔ انہوں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی، میں نے انہیں داخلے کی اجازت دے دی اور میں نے پردہ اپنی طرف کھینچ لیا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا تو کہا: ہائے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر کس قدر شدید غشی طاری ہے۔ اس کے بعد وہ دونوں اُٹھے، دروازے کے قریب پہنچے تو سیدنا مغیرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے عمر! اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہو گیا ہے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تو غلط کہہ رہا ہے، تجھے تو غلط باتیں ہی سوجھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب تک منافقین کو نیست ونابود نہیں کر دے گا، تب تک اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال نہیں ہو گا، پھر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے، میں نے پردہ اُٹھایا، انہوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف دیکھ کر إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ پڑھا اور کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انتقال فرما گئے ہیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر مبارک کی طرف آکر انہوں نے اپنا منہ جھکا یا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیشانی پر بوسہ دیا اور بے اختیار کہہ اُٹھے، ہائے اللہ کے نبی ! پھر اپنا سر اوپر کو اٹھایا پھر اپنا منہ جھکا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیشانی کو دوبارہ بوسہ دیا، اور کہا: ہائے اللہ کے رسول! پھر اپنا سر اوپر کو اُٹھایا، اور اپنا منہ جھکا کر سہ بارہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا: ہائے اللہ کے خلیل! اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو انتقال فرما گئے ہیں۔ اس کے بعد وہ مسجد کی طرف چلے گئے، وہاں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لوگوں سے مخاطب ہو کر کہہ رہے تھے کہ جب تک اللہ تعالیٰ منافقین کا خاتمہ نہیں کرد ے گا، تب تک اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال نہیں ہو گا، پھر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بات شروع کی، اللہ کی حمدوثناء بیان کر کے کہا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: {إِنَّکَ مَیِّتٌ وَإِنَّہُمْ مَیِّتُونَ…} … بے شک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی فوت ہونے والے ہیں اور یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے یہ آیت تلاوت کی {وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ}… اور محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) تو اللہ کے رسول ہیں۔ ان سے پہلے بھی بہت سے رسول ہو گزرے ہیں، اگر یہ رسول فوت ہو جائے یا قتل ہو جائے تو کیا تم الٹے پاؤں پھر کر مرتد ہو جاؤ گے؟ اور جو کوئی مرتد ہو گا وہ اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گا اور جو لوگ شکر گزار ہیں اللہ ان کو اجر عظیم سے نوازے گا۔ نیز سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: جو کوئی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا تو یاد رکھے اللہ تو ابد سے زندہ ہے ازل تک زندہ رہے گا، اسے کبھی موت نہیں آئے گی، اور جو کوئی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عبادت کیا کرتا تھا تو وہ جان لے کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فوت ہو چکے ہیں۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ آیت اگرچہ اللہ کی کتاب میں تھی، لیکن مجھے کچھ یاد نہیں رہا تھا کہ یہ اللہ کی کتاب میں ہے، پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: لوگو! یہ ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں، جو تمام مسلمانوں میں سے بزرگ ترین اور معززہیں، تم ان کی بیعت کر لو، چنانچہ لوگوں نے ان کی بیعت کر لی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10978

۔ (۱۰۹۷۸)۔ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: دَخَلَ عَلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْیَوْمِ الَّذِی بُدِئَ فِیہِ، فَقُلْتُ: وَا رَأْسَاہْ، فَقَالَ: ((وَدِدْتُ أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ وَأَنَا حَیٌّ فَہَیَّأْتُکِ وَدَفَنْتُکِ۔)) قَالَتْ: فَقُلْتُ غَیْرٰی: کَأَنِّی بِکَ فِی ذٰلِکَ الْیَوْمِ عَرُوسًا بِبَعْضِ نِسَائِکَ، قَالَ: ((وَأَنَا وَا رَأْسَاہْ ادْعُوا إِلَیَّ أَبَاکِ وَأَخَاکِ حَتّٰی أَکْتُبَ لِأَبِی بَکْرٍ کِتَابًا، فَإِنِّی أَخَافُ أَنْ یَقُولَ قَائِلٌ وَیَتَمَنَّی مُتَمَنٍّ أَنَا أَوْلٰی، وَیَأْبَی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَّا أَبَا بَکْرٍ۔)) (مسند احمد: ۲۵۶۲۶)
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جس روز رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیماری کا آغاز ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس تشریف لائے: میں نے کہا:ہائے میرا سر، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ تمہارے ساتھ یہ کام میری زندگی میں ہو تو میں تمہاری آخرت کی تیاری کر کے خود تمہیں دفن کروں۔ تو میں نے غیرت کے انداز سے کہا تو میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یوں محسوس کر رہی ہوں، گویا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسی دن اپنی دوسری کسی بیوی کے ساتھ شب باشی میں مصروف ہو جائیں گے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہائے میرا سر، تم اپنے والد اور بھائی کو میرے پاس بلواؤ۔ میں ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں ایک تحریر لکھ دوں، مجھے ڈر ہے کہ کوئی دوسرا کہنے والا کہے یا تمنا کرنے والا تمنا کرے کہ میں ( خلافتِ نبوت) کا زیادہ حق دار ہوں۔ اللہ تعالیٰ اور مومنین ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سوا کسی دوسرے پر راصی نہیں ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10979

۔ (۱۰۹۷۹)۔ (وَعَنْہَا مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَتْ رَجَعَ إِلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ یَوْمٍ مِنْ جَنَازَۃٍ بِالْبَقِیعِ وَأَنَا أَجِدُ صُدَاعًا فِی رَأْسِی وَأَنَا أَقُولُ: وَا رَأْسَاہْ! قَالَ: ((بَلْ أَنَا وَا رَأْسَاہْ۔)) قَالَ: ((مَا ضَرَّکِ لَوْ مِتِّ قَبْلِی فَغَسَّلْتُکِ وَکَفَّنْتُکِ ثُمَّ صَلَّیْتُ عَلَیْکِ وَدَفَنْتُکِ۔)) قُلْتُ: لٰکِنِّی أَوْ لَکَأَنِّی بِکَ وَاللّٰہِ! لَوْ فَعَلْتَ ذٰلِکَ لَقَدْ رَجَعْتَ إِلٰی بَیْتِی فَأَعْرَسْتَ فِیہِ بِبَعْضِ نِسَائِکَ، قَالَتْ: فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ بُدِئَ بِوَجَعِہِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ۔ (مسند احمد: ۲۶۴۳۳)
۔( دوسری سند) سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک دن البقیع قبرستان میں نماز جنازہ پڑھا کر واپس میرے ہاں تشریف لائے، میرے سر میں درد تھا اور میںیوں کہہ رہی تھی: ہائے میرا سر، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نہ کہو، بلکہ( میں کہتا ہوں) ہائے میرا سر۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم مجھ سے پہلے فوت ہو جاؤ تو تمہیں کوئی ضرر نہیں، میں خود تمہیں غسل دے کر کفن پہنا کر، تمہاری نماز جنازہ پڑھا کر تمہیں دفن کروں گا۔ میں نے کہہ دیا: اللہ کی قسم! آپ یہ سارے کام کرنے کے بعد میرے ہی گھر آکر اسی گھر میں اپنی کسی بھی زوجہ کے ساتھ شب باشی کریں گے، یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرا دئیے۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مرض الموت کا آغاز ہو گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10980

۔ (۱۰۹۸۰)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَ سُفْیَانُ: سَمِعْتُ مِنْہُ حَدِیثًا طَوِیلًا لَیْسَ أَحْفَظُہُ مِنْ أَوَّلِہِ إِلَّا قَلِیلًا، دَخَلْنَا عَلَی عَائِشَۃَ فَقُلْنَا: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ! أَخْبِرِینَا عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: اشْتَکٰی، فَجَعَلَیَنْفُثُ فَجَعَلْنَا نُشَبِّہُ نَفْثَہُ نَفْثَ آکِلِ الزَّبِیبِ، وَکَانَ یَدُورُ عَلٰی نِسَائِہِ، فَلَمَّا اشْتَکٰی شَکْوَاہُ اسْتَأْذَنَہُنَّ أَنَّ یَکُونَ فِی بَیْتِ عَائِشَۃَ وَیَدُرْنَ عَلَیْہِ، فَأَذِنَّ لَہُ فَدَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَرَجُلَیْنِ مُتَّکِئًا عَلَیْہِمَا، أَحَدُہُمَا عَبَّاسٌ، وَرِجْلَاہُ تَخُطَّانِ فِی الْأَرْضِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَفَمَا أَخْبَرَتْکَ مَنِ الْآخَرُ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: ہُوَ عَلِیٌّ۔ (مسند احمد: ۲۴۶۰۴)
عبید اللہ کا بیان ہے کہ ہم ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں گئے اور ہم نے عرص کیا: اے ام المؤمنین آپ ہمیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مرض الموت کے بارے میں بتائیں، انہوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیمار ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منہ سے ایک آواز آئی، ہم منقی کھانے والے سے اس آواز کی تشبیہ دے سکتے ہیں، اس سے قبل اور بیماری کے دنوں میں بھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی ازواج کے ہاں باری باری جاتے رہے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زیادہ نڈھال ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی ازواج سے بیتِ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا میں وقت گزارنے کی اجازت طلب کی کہ وہ سب وہیں آکر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خبر گیری کرلیا کریں، سب نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس بات کی اجازت دے دی، پس اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دو آدمیوں کے سہارے تشریف لائے، ان دو میں سے ایک سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے۔ سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عبیداللہ سے کہا: کیا ام المؤمنین نے تمہیں دوسرے آدمی کے نام سے آگاہ نہیں کیا کہ عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ دوسرا آدمی کون تھا؟ عبیداللہ نے کہا: جی نہیں، تو انھوں نے بتلایا کہ دوسرے آدمی سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10981

۔ (۱۰۹۸۱)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی بَیْتِ مَیْمُونَۃَ فَاسْتَأْذَنَ نِسَائَہُ أَنْ یُمَرَّضَ فِی بَیْتِی فَأَذِنَّ لَہُ، فَخَرَجَ رَسُولُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُعْتَمِدًا عَلَی الْعَبَّاسِ وَعَلَی رَجُلٍ آخَرَ وَرِجْلَاہُ تَخُطَّانِ فِی الْأَرْضِ، وَقَالَ عُبَیْدُ اللّٰہِ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَتَدْرِی مَنْ ذٰلِکَ الرَّجُلُ؟ ہُوَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ وَلٰکِنَّ عَائِشَۃَ لَا تَطِیبُ لَہَا نَفْسًا، قَالَ الزُّہْرِیُّ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ فِی بَیْتِ مَیْمُونَۃَ لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَمْعَۃَ: ((مُرِ النَّاسَ فَلْیُصَلُّوا۔)) فَلَقِیَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقَالَ: یَا عُمَرُ! صَلِّ بِالنَّاسِ فَصَلّٰی بِہِمْ، فَسَمِعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَوْتَہُ فَعَرَفَہُ، وَکَانَ جَہِیرَ الصَّوْتِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَلَیْسَ ہٰذَا صَوْتَ عُمَرَ؟)) قَالُوا: بَلٰی، قَالَ: ((یَأْبَی اللّٰہُ جَلَّ وَعَزَّ ذٰلِکَ وَالْمُؤْمِنُونَ، مُرُوْا أَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ۔)) قَالَتْ عَائِشَۃُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ أَبَا بَکْرٍ رَجُلٌ رَقِیقٌ لَا یَمْلِکُ دَمْعَہُ وَإِنَّہُ إِذَا قَرَأَ الْقُرْآنَ بَکٰی، قَالَ: ((وَمَا قُلْتِ ذٰلِکَ إِلَّا کَرَاہِیَۃَ أَنْ یَتَأَثَّمَ النَّاسُ بِأَبِی بَکْرٍ أَنْ یَکُونَ أَوَّلَ مَنْ قَامَ مَقَامَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔)) فَقَالَ: ((مُرُوْا أَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ۔)) فَرَاجَعَتْہُ فَقَالَ: ((مُرُوْا أَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ إِنَّکُمْ صَوَاحِبُ یُوسُفَ۔)) (مسند احمد: ۲۴۵۶۲)
۔( دوسری سند) ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب ام المؤمنین سیدہ میمونہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے گھر بیمار تھے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی ازواج سے اجازت طلب کی کہ تم میرے بیماری پرسی عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے گھر میں کر لیا کرو،سب ازواج نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بخوشی اس بات کی اجازت دے دی، تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ایک دوسرے آدمی کے آسرے سے اس حال میں تشریف لائے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے۔ عبیداللہ کہتے ہیں: یہ سن کر ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ دوسرا آدمی کون تھا؟ وہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔ مگر ام المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا چونکہ ان سے ناخوش تھیں، اس لیے ان کا نام نہیں لیا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ میمونہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھر میں تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عبداللہ بن زمعہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے فرمایا: تم جا کر لوگوں سے کہو کہ وہ نماز ادا کر لیں۔ وہ جا کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ملے اور کہا: اے عمر! آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ جب انہوں نے نماز پڑھانا شروع کی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی آواز سن لی، کیونکہ وہ بلند آہنگ تھے، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیایہ عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی آواز نہیں؟ صحابہ نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول!آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اور اہلِ ایمان اسے قبول نہیں کریں گے، تم ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عرض کیا: اللہ کے رسول! سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تو رقیق القلب ہیں، جب وہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو رو پڑتے ہیں، وہ اپنے آنسوؤں پر کنٹرول نہیں کر سکتے، سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ میں نے یہ بات صرف اس لیے کہی تھی کہ مبادا لوگ ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں ایسی باتیں کر کے گناہ گار نہ ہوں کہ یہی وہ پہلا شخص ہے جو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جگہ پر کھڑا ہوا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوبارہ فرمایا: تم ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے۔ میں نے بھی اپنی بات دوبارہ دہرا دی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے تم تو یوسف علیہ السلام کو بہکانے والی عورتوں جیسی ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10982

۔ (۱۰۹۸۲)۔ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَمْعَۃَ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَسَدٍ قَالَ: لَمَّا اسْتُعِزَّ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا عِنْدَہُ فِی نَفَرٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، قَالَ: دَعَا بِلَالٌ لِلصَّلَاۃِ، فَقَالَ: ((مُرُوا مَنْ یُصَلِّی بِالنَّاسِ۔)) قَالَ: فَخَرَجْتُ فَإِذَا عُمَرُ فِی النَّاسِ وَکَانَ أَبُو بَکْرٍ غَائِبًا، فَقَالَ: قُمْ یَا عُمَرُ! فَصَلِّ بِالنَّاسِ، قَالَ: فَقَامَ فَلَمَّا کَبَّرَ عُمَرُ سَمِعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَوْتَہُ وَکَانَ عُمَرُ رَجُلًا مُجْہِرًا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((فَأَیْنَ أَبُو بَکْرٍ؟ یَأْبَی اللّٰہُ ذٰلِکَ وَالْمُسْلِمُونَ، یَأْبَی اللّٰہُ ذٰلِکَ وَالْمُسْلِمُونَ۔)) قَالَ: فَبَعَثَ إِلَی أَبِی بَکْرٍ فَجَائَ بَعْدَ أَنْ صَلَّی عُمَرُ تِلْکَ الصَّلَاۃَ فَصَلّٰی بِالنَّاسِ، قَالَ: وَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ زَمْعَۃَ: قَالَ لِی عُمَرُ: وَیْحَکَ مَاذَا صَنَعْتَ بِییَا ابْنَ زَمْعَۃَ، وَاللّٰہِ! مَا ظَنَنْتُ حِینَ أَمَرْتَنِی إِلَّا أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَمَرَکَ بِذٰلِکَ، وَلَوْلَا ذٰلِکَ مَا صَلَّیْتُ بِالنَّاسِ، قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ! مَا أَمَرَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلٰکِنْ حِینَ لَمْ أَرَ أَبَا بَکْرٍ رَأَیْتُکَ أَحَقَّ مَنْ حَضَرَ بِالصَّلَاۃِ۔ (مسند احمد: ۱۹۱۱۳)
سیدنا عبداللہ بن زمعہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو میں چند دیگر مسلمانوں کے ہمراہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نماز کے لیے اذان کہی اورآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کسی سے کہو کہ وہ نماز پڑھا دے۔ میں باہر نکلا تو سیدناعمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لوگوں میں موجود تھے اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ موجود نہیں تھے، میں نے عرض کیا: عمر! آپ اُٹھ کر نماز پڑھا دیں۔ وہ اُٹھے انہوں نے تکبیر تحریمہ کہی، ان کی آواز بہت بلند تھی، اس لیے جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی آواز سنی توفرمایا: ابوبکر کہاں ہیں؟اللہ اور اہل اسلام ابوبکر کی بجائے کسی دوسرے کو قبول نہیں کریں گے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف پیغام بھیجا، لیکن جب وہ آئے تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ وہ نماز پڑھا چکے تھے۔ پھر انہوں نے آکر لوگوں کو باقی نمازیں پڑھائیں۔ سیدنا عبداللہ بن زمعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے کہا: اے ابن زمعہ! تمہارا بھلا ہو، تم نے میرے ساتھ کیا کیا؟ اللہ کی قسم! تم نے جب مجھے نماز پڑھانے کو کہا تو میں یہی سمجھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہی تمہیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ مجھے کہا جائے، اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں لوگوں کو نماز نہ پڑھاتا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کی قسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو واقعی مجھے یہ حکم نہیں دیا تھا، لیکن جب مجھے ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دکھائی نہیں دیے تو میں نے حاضر لوگوں میں سے آپ کو امامت کا سب سے زیادہ حق دار سمجھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10983

۔ (۱۰۹۸۳)۔ عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ: مَرِضَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((مُرُوْا أَبَا بَکْرٍ یُصَلِّی بِالنَّاسِ۔)) فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ أَبِی رَجُلٌ رَقِیقٌ، فَقَالَ: ((مُرُوْا أَبَا بَکْرٍ أَنْ یُصَلِّیَ بِالنَّاسِ، فَإِنَّکُنَّ صَوَاحِبَاتُ یُوسُفَ۔)) فَأَمَّ أَبُو بَکْرٍ النَّاسَ وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَیٌّ۔ (مسند احمد: ۲۳۴۴۸)
سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیمار پڑ گئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ابوبکر تو انتہائی رقیق القلب اور نرم دل ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بس ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، تم تو سیدنایوسف علیہ السلام والی خواتین لگ رہی ہو۔ چنانچہ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حیات میں لوگوں کو نمازیں پڑھائیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10984

۔ (۱۰۹۸۴)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی مَرَضِہِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ: ((مُرُوْا أَبَا بَکْرٍ یُصَلِّی بِالنَّاسِ۔)) قُلْتُ: إِنَّ أَبَا بَکْرٍ إِذَا قَامَ مَقَامَکَ لَمْ یُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ الْبُکَائ،ِ قَالَ: ((مُرُوْا أَبَا بَکْرٍ۔)) فَقُلْتُ لِحَفْصَۃَ: قُولِی إِنَّ أَبَا بَکْرٍ لَا یُسْمِعُ النَّاسَ مِنَ الْبُکَائِ فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ، فَقَالَ: ((صَوَاحِبَ یُوسُفَ، مُرُوْا أَبَا بَکْرٍ یُصَلِّی بِالنَّاسِ۔)) فَالْتَفَتَتْ إِلَیَّ حَفْصَۃُ: فَقَالَتْ: لَمْ أَکُنْ لِأُصِیبَ مِنْکِ خَیْرًا۔ (مسند احمد: ۲۶۱۸۲)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مرض الموت کے دنوں میں فرمایا: ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ میں نے عرض کیا: ابوبکر تو رونے لگیں گے اور لوگوں تک ان کی آواز نہیں پہنچ پائے گی، کیا ہی بہتر ہو کہ آپ عمر کو حکم فرما دیں۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! ابوبکر تو انتہائی نرم مزاج ہیں، جب وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں تک ان کی آواز ہی پہنچ نہیں سکے گی، کیا ہی اچھا ہو کہ آپ عمر کو یہ حکم دے دیں۔لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم تو یوسف علیہ السلام والی خواتین کی طرح لگ رہی ہو، میں کہہ رہا ہوں کہ ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ یہ سن کر سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا میری طرف متوجہ ہو کر بولیں: میں تمہاری طرف سے اچھائی نہیں پا سکتی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10985

۔ (۱۰۹۸۵)۔ عَن أَبِی مُوسٰی قَالَ: مَرِضَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاشْتَدَّ مَرَضُہُ، فَقَالَ: ((مُرُوْا أَبَا بَکْرٍ یُصَلِّ بِالنَّاسِ۔)) فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ أَبَا بَکْرٍ رَجُلٌ رَقِیقٌ، مَتٰییَقُومُ مَقَامَکَ لَا یَسْتَطِیعُ أَنْیُصَلِّیَ بِالنَّاسِ، فَقَالَ: ((مُرُوْا أَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَإِنَّکُنَّ صَوَاحِبَاتُ یُوسُفَ۔)) فَأَتَاہُ الرَّسُولُ فَصَلّٰی أَبُو بَکْرٍ بِالنَّاسِ فِی حَیَاۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۹۹۳۶)
سیدنا ابو موسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیمار ہوئے اور بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ابوبکر تو انتہائی نرم دل ہیں، وہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو نماز پڑھا ہی نہیں سکیں گے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں کہہ رہا ہوں کہ ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، تم تو ان عورتوں جیسی ہو جو یوسف علیہ السلام کو ورغلا رہی تھیں۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا قاصد سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گیا اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حیات ہی میں لوگوں کو نمازیں پڑھائیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10986

۔ (۱۰۹۸۶)۔ عَنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَائَ بِلَالٌ یُؤْذِنُہُ بِالصَّلَاۃِ، فَقَالَ: ((مُرُوْا أَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ۔)) قَالَتْ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ أَبَا بَکْرٍ رَجُلٌ أَسِیفٌ، وَإِنَّہُ مَتٰییَقُومُ مَقَامَکَ لَا یُسْمِعُ النَّاسَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ، فَقَالَ: ((مُرُوا أَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ۔)) قَالَتْ: فَقُلْتُ لِحَفْصَۃَ: قُولِی لَہُ، فَقَالَتْ لَہُ حَفْصَۃُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ أَبَا بَکْرٍ رَجُلٌ أَسِیفٌ، وَإِنَّہُ مَتٰییَقُومُ مَقَامَکَ لَا یُسْمِعُ النَّاسَ فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ، فَقَالَ: ((إِنَّکُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ یُوسُفَ، مُرُوْا أَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ۔)) قَالَتْ: فَأَمَرُوْا أَبَا بَکْرٍ یُصَلِّی بِالنَّاسِ، فَلَمَّا دَخَلَ فِی الصَّلَاۃِ وَجَدَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ نَفْسِہِ خِفَّۃً، فَقَالَتْ: فَقَامَ یُہَادٰی بَیْنَ رَجُلَیْنِ وَرِجْلَاہُ تَخُطَّانِ فِی الْأَرْضِ حَتّٰی دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَلَمَّا سَمِعَ أَبُو بَکْرٍ حِسَّہُ ذَہَبَ لِیَتَأَخَّرَ فَأَوْمَأَ إِلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ قُمْ کَمَا أَنْتَ، فَجَائَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی جَلَسَ عَنْ یَسَارِ أَبِی بَکْرٍ، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُصَلِّی بِالنَّاسِ قَاعِدًا، وَأَبُو بَکْرٍ قَائِمًا، یَقْتَدِی أَبُو بَکْرٍ بِصَلَاۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالنَّاسُ یَقْتَدُونَ بِصَلَاۃِ أَبِی بَکْرٍ۔ (مسند احمد: ۲۶۲۸۰)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مرض الموت میں مبتلا تھے تو سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نماز کے وقت کی اطلاع دینے کے لیے آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ابوبکر تو انتہائی نرم دل ہیں، جب وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو رونے لگیں گے اور نماز نہیں پڑھا سکیں گے، کیا ہی اچھا ہو کہ آپ عمر کو حکم فرمائیں۔ لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ابوبکر تو انتہائی رقیق القلب اور نرم دل ہیں، جب وہ آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو رونے لگیں گے اور نماز نہیں پڑھا سکیں گے، اگر آپ عمر کو یہ حکم فرمائیں تو بہتر رہے گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں تم تو ان عورتوں جیسی ہو جو یوسف علیہ السلام کو ورغلا رہی تھیں۔ چنانچہ ہم نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیغام بھیج کر بلوایا اور انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی طبیعت میں بہتری محسوس کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دو آدمیوں کے آسرے سے مسجد کی طرف لے جایا گیا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاؤں زمین پر گھسٹتے جا رہے تھے۔ جب سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آمد کو محسوس کیا تو وہ پیچھے کو ہٹنے لگے، لیکن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں اشارہ سے کہا کہ اپنی جگہ پر کھڑے رہو، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آکر ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پہلو میں بیٹھ گئے، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اور باقی لوگ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اقتداء کرنے لگے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10987

۔ (۱۰۹۸۷)۔ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: دَخَلْتُ عَلٰی عَائِشَۃَ، فَقُلْتُ: أَلَا تُحَدِّثِینِی عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: بَلٰی، ثَقُلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((أَصَلَّی النَّاسُ؟)) فَقُلْنَا: لَا ہُمْ یَنْتَظِرُونَکَیَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: ((ضَعُوا لِی مَائً فِی الْمِخْضَبِ۔)) فَفَعَلْنَا فَاغْتَسَلَ ثُمَّ ذَہَبَ لِیَنُوئَ فَأُغْمِیَ عَلَیْہِ ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ: ((أَصَلَّی النَّاسُ؟)) قُلْنَا: لَا ہُمْ یَنْتَظِرُونَکَیَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: ((ضَعُوْا لِی مَائً فِی الْمِخْضَبِ۔)) فَذَہَبَ لِیَنُوئَ فَغُشِیَ عَلَیْہِ، قَالَتْ: وَالنَّاسُ عُکُوفٌ فِی الْمَسْجِدِ یَنْتَظِرُونَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِصَلَاۃِ الْعِشَائِ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی أَبِی بَکْرٍ بِأَنْ یُصَلِّیَ بِالنَّاسِ، وَکَانَ أَبُوبَکْرٍ رَجُلًا رَقِیقًا، فَقَالَ: یَا عُمَرُ! صَلِّ بِالنَّاسِ، فَقَالَ: أَنْتَ أَحَقُّ بِذٰلِکَ، فَصَلَّی بِہِمْ أَبُو بَکْرٍ تِلْکَ الْأَیَّامَ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَجَدَ خِفَّۃً، فَخَرَجَ بَیْنَ رَجُلَیْنِ أَحَدُہُمَا الْعَبَّاسُ لِصَلَاۃِ الظُّہْرِ، فَلَمَّا رَآہُ أَبُو بَکْرٍ ذَہَبَ لِیَتَأَخَّرَ فَأَوْمَأَ إِلَیْہِ أَنْ لَا یَتَأَخَّرَ وَأَمَرَہُمَا فَأَجْلَسَاہُ إِلٰی جَنْبِہِ، فَجَعَلَ أَبُو بَکْرٍ یُصَلِّی قَائِمًا وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُصَلِّی قَاعِدًا، فَدَخَلْتُ عَلَی ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ: أَلَا أَعْرِضُ عَلَیْکَ مَا حَدَّثَتْنِی عَائِشَۃُ عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ہَاتِ فَحَدَّثْتُہُ فَمَا أَنْکَرَ مِنْہُ شَیْئًا غَیْرَ أَنَّہُ قَالَ: ہَلْ سَمَّتْ لَکَ الرَّجُلَ الَّذِی کَانَ مَعَ الْعَبَّاسِ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: ہُوَ عَلِیٌّ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ۔ (مسند احمد: ۵۱۴۱)
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی خدمت میں جا کر عرض کیا: کیا آپ مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیماری کے بارے میں بیان فرمائیں گی؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، کیوں نہیں، تفصیلیہ ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شدید بیمار تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کیا لوگوں نے نماز ادا کر لی ہے؟ ہم نے عرض کیا: جی نہیں، اے اللہ کے رسول! وہ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میرے لیے برتن میں پانی رکھو۔ ہم نے پانی رکھ دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غسل کیا،لیکن جب اٹھنے لگے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر غشی طاری ہو گئی، پھر افاقہ ہوا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا کیا لوگوں نے نماز ادا کر لی ہے؟ ہم نے عرض کیا: جی نہیں، اے اللہ کے رسول! وہ تو آپ کے منتظر ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میرے لیے برتن میں پانی رکھ دو۔ ( آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غسل کیا) بعدازاں جب اُٹھنے لگے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر غشی طاری ہو گئی، جبکہ لوگ مسجد میں نماز عشاء کے لیے جمع تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی انتظار کر رہے تھے۔ بالآخر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیغام بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھادیں۔ ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ انتہائی رقیق القلب تھے، انہوں نے کہا: عمر ! آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں، لیکن انھوں نے کہا: آپ اس امر کے زیادہ حق دار ہیں۔ تو ان دنوں سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لوگوں کو نمازیں پڑھاتے رہے۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بہتری محسوس کی تو دو آدمیوں کے آسرے ظہر کی نماز کے لیے مسجد کی طرف چلے، ان دو میں سے ایک سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے،جب سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آمد کا احساس ہوا تو وہ پیچھے کو ہٹنے لگے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اشارہ کیا کہ پیچھے نہ جائیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان دونوں آدمیوں سے فرمایا اور انہوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پہلو میں بٹھا دیا۔ سیدنا ابوبکر کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیٹھ کر پڑھتے رہے۔ میں ( عبیداللہ بن عبداللہ) سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے ان سے عرض کیا: آیا میں آپ سے وہ واقعہ بیان نہ کروں ،جو سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے مجھے بیان کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: جی بیان کرو، پھر انہوں نے اس میں سے کسی بھی بات کا انکار نہیں کیا، صرف اتنا کہا کہ کیا انہوں نے اس دوسرے آدمی کا نام بھی بیان کیا جو سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ تھا؟ میں نے کہا: جی نہیں۔ انہوں نے کہا: وہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10988

۔ (۱۰۹۸۸)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَرَضَہُ الَّذِی مَاتَ فِیہِ کَانَ فِی بَیْتِ عَائِشَۃَ، فَقَالَ: ((ادْعُوْا لِی عَلِیًّا۔)) قَالَتْ عَائِشَۃُ: ((نَدْعُوْ لَکَ أَبَا بَکْرٍ۔)) قَالَ: ((ادْعُوہُ۔)) قَالَتْ حَفْصَۃُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ نَدْعُو لَکَ عُمَرَ، قَالَ: ((ادْعُوہُ۔)) قَالَتْ أُمُّ الْفَضْلِ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ نَدْعُو لَکَ الْعَبَّاسَ، قَالَ: ((ادْعُوہُ۔)) فَلَمَّا اجْتَمَعُوا رَفَعَ رَأْسَہُ فَلَمْ یَرَ عَلِیًّا فَسَکَتَ، فَقَالَ عُمَرُ: قُومُوْا عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَائَ بِلَالٌ یُؤْذِنُہُ بِالصَّلَاۃِ، فَقَالَ: ((مُرُوا أَبَا بَکْرٍ یُصَلِّی بِالنَّاسِ۔)) فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: إِنَّ أَبَا بَکْرٍ رَجُلٌ حَصِرٌ وَمَتٰی مَا لَا یَرَاکَ النَّاسُ یَبْکُونَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ یُصَلِّی بِالنَّاسِ، فَخَرَج أَبُو بَکْرٍ فَصَلّٰی بِالنَّاسِ، وَوَجَدَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ نَفْسِہِ خِفَّۃً، فَخَرَجَ یُہَادٰی بَیْنَ رَجُلَیْنِ وَرِجْلَاہُ تَخُطَّانِ فِی الْأَرْضِ، فَلَمَّا رَآہُ النَّاسُ سَبَّحُوا أَبَا بَکْرٍ فَذَہَبَ یَتَأَخَّرُ فَأَوْمَأَ إِلَیْہِ أَیْ مَکَانَکَ، فَجَائَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی جَلَسَ، قَالَ: وَقَامَ أَبُو بَکْرٍ عَنْ یَمِینِہِ وَکَانَ أَبُو بَکْرٍ یَأْتَمُّ بِالنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالنَّاسُ یَأْتَمُّونَ بِأَبِی بَکْرٍ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَأَخَذَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ الْقِرَائَ ۃِ مِنْ حَیْثُ بَلَغَ أَبُو بَکْرٍ، وَمَاتَ فِی مَرَضِہِ ذَاکَ عَلَیْہِ السَّلَام، وَقَالَ وَکِیعٌ مَرَّۃً: فَکَانَ أَبُوبَکْرٍ یَأْتَمُّ بِالنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالنَّاسُ یَأْتَمُّونَ بِأَبِی بَکْرٍ۔ (مسند احمد: ۳۳۵۵)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مرض الموت میں بیمار ہوئے، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے گھر تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علی کو میرے پاس بلواؤ۔ لیکن سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عرض کیا: کیا ہم سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلا لیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بلا لو۔ اُدھر سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلا لیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کو بھی بلا لو۔ سیدہ ام الفضل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلا لیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کو بھی بلا لو۔ جب یہ لوگ جمع ہو گئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا سر مبارک اُٹھایا اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دکھائی نہ دئیے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش ہو گئے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: لوگو تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے اُٹھ جاؤ۔ سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نماز کے وقت کی اطلاع دینے آئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عرض کیا :ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تو انتہائی رقیق القلب اور رونے والے آدمی ہیں، لوگ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نہیں دیکھیں گے تو رونے لگیں گے، (اور ان کو دیکھ کر ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی رو پڑیں گے اور نماز نہیں پڑھا سکیں گے)، بہتر ہو گا کہ آپ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حکم فرمادیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ بہرحال پھر ہوا یوں کہ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جا کر نماز پڑھا نا شروع کی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی طبیعت میں کچھ بہتری محسوس کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دو آدمیوں کے درمیان آسرا کے ساتھ چلا کر لے جایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاؤں زمین پر گھسٹتے جا رہے تھے۔ لوگوں نے آپ کو تشریف لاتے دیکھا تو ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو متوجہ کرنے کے لیے سبحان اللہ، سبحان اللہ کہنے لگے۔ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پیچھے کو ہٹنے لگے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو وہیں ٹھہرنے کا اشارہ فرمایا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آکر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پہلو میں بیٹھ گئے اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی داہنی جانب کھڑے رہے۔ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نماز کی اقتداء کرتے اور لوگ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اقتداء کرتے، سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں سے قراء ت شروع کی جہاں تک سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پہنچ چکے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا اسی بیماری میں انتقال ہو گیا۔ وکیع راوی نے ایک مرتبہ یوں بیان کیا کہ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اور لوگ ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اقتداء کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10989

۔ (۱۰۹۸۹)۔ عَنْ اَنَسٍ وَالْحَسَنِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَرَجَ مُتَوَکِّئًا عَلٰی اُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ وَعَلَیْہِ ثَوْبُ قُطْنٍ، قَدْ خَالَفَ بَیْنَ طَرَفَیْہِ فَصَلّٰی بِہِمْ۔ (مسند احمد: ۱۳۵۴۴)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا آسرا لے کر تشریف لے گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک سوتی کپڑا زیب تن کئے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے دونوں پلوں کو آگے پیچھے ڈالا ہوا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جا کر نماز پڑھائی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10990

۔ (۱۰۹۹۰)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی مَرَضِہِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ، وَہُوَ عَاصِبٌ رَأْسَہُ، قَالَ: فَاتَّبَعْتُہُ حَتّٰی صَعِدَ عَلَی الْمِنْبَرِ، قَالَ: فَقَالَ: ((إِنِّی السَّاعَۃَ لَقَائِمٌ عَلَی الْحَوْضِ۔)) قَالَ: ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ عَبْدًا عُرِضَتْ عَلَیْہِ الدُّنْیَا وَزِینَتُہَا فَاخْتَارَ الْآخِرَۃَ، فَلَمْ یَفْطَنْ لَہَا أَحَدٌ مِنَ الْقَوْمِ إِلَّا أَبُو بَکْرٍ۔)) فَقَالَ: بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی بَلْ نَفْدِیکَ بِأَمْوَالِنَا وَأَنْفُسِنَا وَأَوْلَادِنَا، قَالَ: ثُمَّ ہَبَطَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنِ الْمِنْبَرِ فَمَا رُئِیَ عَلَیْہِ حَتَّی السَّاعَۃِ، (زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ) فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ أَمَنَّ النَّاسِ عَلَیَّ فِی صُحْبَتِہِ وَمَالِہِ أَبُو بَکْرٍ، وَلَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا مِنَ النَّاسِ خَلِیلًا غَیْرَ رَبِّی لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَکْرٍ، وَلٰکِنْ أُخُوَّۃُ الْإِسْلَامِ أَوْ مَوَدَّتُہُ لَا یَبْقٰی بَابٌ فِی الْمَسْجِدِ إِلَّا سُدَّ إِلَّا بَابَ أَبِی بَکْرٍ۔)) (مسند احمد: ۱۱۸۸۵)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مرض الموت کے دنوں میں ہمارے ہاں باہر تشریف لائے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سر پر کپڑا باندھا ہوا تھا، میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے چلا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تشریف لائے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (گویا) میں اس وقت حوض( کوثر) پر کھڑا ہوں۔ پھر آپ نے فرمایا: ایک بندے پر دنیا اور اس کی زینت پیش کی گئی ہے، لیکن اس نے آخرت کا انتخاب کر لیا ہے۔ لوگوں میں سے ابوبکر کے سوا کوئی بھی اس بات کو نہ سمجھ سکا، انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، بلکہ ہم سب کے اموال، جانیں اور اولادیں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر نثار ہوں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر سے نیچے اترے، اس کے بعد آخری دم تک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کومسجد میں نہیں دیکھا گیا۔ نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں میں اپنی صحبت اور مال کے لحاظ سے مجھ پر سب سے زیادہ احسان ابوبکر کے ہیں، اگر میں نے اپنے رب کے سوا لوگوں میں سے کسی کو خلیل بنانا ہوتا تو ابوبکر کو بناتا، البتہ سب کے ساتھ اسلامی اخوت اور مودت ضرور ہے، مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کر دئیے جائیں، ما سوائے ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے دروازے کے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10991

۔ (۱۰۹۹۱)۔ عَنِ ابْنِ أَبِی الْمُعَلَّی عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَطَبَ یَوْمًا، فَقَالَ: ((إِنَّ رَجُلًا خَیَّرَہُ رَبُّہُ عَزَّ وَجَلَّ بَیْنَ أَنْ یَعِیشَ فِی الدُّنْیَا مَا شَائَ أَنْ یَعِیشَ فِیہَا،یَأْکُلُ مِنَ الدُّنْیَا مَا شَائَ أَنْ یَأْکُلَ مِنْہَا، وَبَیْنَ لِقَائِ رَبِّہِ عَزَّ وَجَلَّ، فَاخْتَارَ لِقَائَ رَبِّہِ۔)) قَالَ فَبَکٰی أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَلَا تَعْجَبُونَ مِنْ ہٰذَا الشَّیْخِ، أَنْ ذَکَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَجُلًا صَالِحًا خَیَّرَہُ رَبُّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی بَیْنَ الدُّنْیَا وَبَیْنَ لِقَائِ رَبِّہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی، فَاخْتَارَ لِقَائَ رَبِّہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَکَانَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَعْلَمَہُمْ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: بَلْ نَفْدِیکَ بِأَمْوَالِنَا وَأَبْنَائِنَا أَوْ بِآبَائِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَمَنُّ عَلَیْنَا فِی صُحْبَتِہِ وَذَاتِ یَدِہِ مِنْ ابْنِ أَبِی قُحَافَۃَ، وَلَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیلًا لَاتَّخَذْتُ ابْنَ أَبِی قُحَافَۃَ، وَلٰکِنْ وُدٌّ وَإِخَائُ إِیمَانٍ، وَلٰکِنْ وُدٌّ وَإِخَائُ إِیمَانٍ مَرَّتَیْنِ، وَإِنَّ صَاحِبَکُمْ خَلِیلُ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔)) (مسند احمد: ۱۶۰۱۸)
ابن ابی المعلی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خطاب کیا اور فرمایا: ایک بندے کو اس کے رب نے اس بات کا اختیار دیا ہے کہ وہ یا تو جب تک دنیا میں چاہے رہے اور یہاں سے جو چاہے کھائے یا اپنے رب سے ملاقات کرے، اس نے اپنے رب کی ملاقات کو اختیار کیا ہے۔ یہ سن کر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رونے لگے، صحابۂ کرام نے کہا کہ اس بزرگ کو دیکھو کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو کسی نیک بندے کا ذکر کیا ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے دنیایا رب کی ملاقات میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیا اور اس نے اپنے رب کی ملاقات کا انتخاب کر لیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات کو ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اچھی طرح جان گئے تھے۔ انہوں نے کہا:ہم سب اپنے اموال، اور اولادوں یا (کہا، راوی کو شک ہے) باپوں سمیت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر فدا ہیں،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کسی نے اپنی صحبت اور اپنے مال کے ذریعے ابوبکر ابن ابی قحافہ سے بڑھ کر مجھ پر احسان نہیں کیا، اگر میں نے کسی کو خلیل بنانا ہوتا تو میں ابو قحافہ کے بیٹے کو خلیل بناتا، لیکن سب سے مودت، اخوت اور ایمان کا تعلق ہے اور بے شک میں اللہ تعالیٰ کا خلیل ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10992

۔ (۱۰۹۹۲)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَطَبَ النَّاسَ، وَعَلَیْہِ عِصَابَۃٌ دَسِمَۃٌ۔ (مسند احمد: ۲۰۷۴)
سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا تو اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر پر سیاہ رنگ کی پگڑی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10993

۔ (۱۰۹۹۳)۔ عَنْ وَاثِلَۃَ بْنَ الْأَسْقَعِ یَقُولُ: خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((أَتَزْعُمُونَ أَنِّی آخِرُکُمْ وَفَاۃً، أَلَا إِنِّی مِنْ أَوَّلِکُمْ وَفَاۃً، وَتَتْبَعُونِی أَفْنَادًا، یُہْلِکُ بَعْضُکُمْ بَعْضًا۔)) (مسند احمد: ۱۷۱۰۳)
سیدنا واثلہ بن اسقع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: کیا تم سمجھتے ہو کہ میں تم سب سے آخر میں فوت ہو ں گا؟ خبردار! میں تم میں پہلے وفات پانے والے لوگوں میں سے ہوں اور تم میرے بعد گروہ در گروہ فوت ہو کر آؤ گے اور تمہارا بعض بعض کو ہلاک بھی کرے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10994

۔ (۱۰۹۹۴)۔ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ اَبِیْ مُسْلِمٍ خَالِ ابْنِ اَبِیْ نَجِیْحٍ سَمِعَ سَعِیْدَ بْنَ جُبَیْرٍیَقُوْلُ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَوْمُ الْخَمِیسِ: وَمَا یَوْمُ الْخَمِیسِ، ثُمَّ بَکٰی حَتَّی بَلَّ دَمْعُہُ، وَقَالَ مَرَّۃً: دُمُوعُہُ الْحَصَی، قُلْنَا: یَا أَبَا الْعَبَّاسِ وَمَا یَوْمُ الْخَمِیسِ، قَالَ: اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَجَعُہُ، فَقَالَ: ((ائْتُونِی أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَہُ أَبَدًا۔)) فَتَنَازَعُوا وَلَا یَنْبَغِی عِنْدَ نَبِیٍّ تَنَازُعٌ فَقَالُوا: مَا شَأْنُہُ أَہَجَرَ، قَالَ سُفْیَانُ: یَعْنِی ہَذَی اسْتَفْہِمُوہُ، فَذَہَبُوا یُعِیدُونَ عَلَیْہِ، فَقَالَ: ((دَعُونِی فَالَّذِی أَنَا فِیہِ خَیْرٌ مِمَّا تَدْعُونِّی إِلَیْہِ۔)) وَأَمَرَ بِثَلَاثٍ، وَقَالَ سُفْیَانُ مَرَّۃً: أَوْصٰی بِثَلَاثٍ، قَالَ: ((أَخْرِجُوا الْمُشْرِکِینَ مِنْ جَزِیرَۃِ الْعَرَبِ، وَأَجِیزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا کُنْتُ أُجِیزُہُمْ۔)) وَسَکَتَ سَعِیدٌ عَنِ الثَّالِثَۃِ فَلَا أَدْرِی أَسَکَتَ عَنْہَا عَمْدًا، وَقَالَ مَرَّۃً: أَوْ نَسِیَہَا، و قَالَ سُفْیَانُ مَرَّۃً: وَإِمَّا أَنْ یَکُونَ تَرَکَہَا أَوْ نَسِیَہَا۔ (مسند احمد: ۱۹۳۵)
سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جمعرات کا دن، کیسا جمعرات کا دن؟ یہ کہہ کر وہ رونے لگے اور اس قدر روئے کہ ان کے آنسوؤں سے کنکریاں بھیگ گئیں، ہم نے عرض کیا: اے ابو العباس ! جمعرات کے دن کیا ہوا تھا؟ انھوں نے کہا: اس روز رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تم( کاغذ، قلم) میرے پاس لے آؤ۔ میں تمہیں ایک ایسی تحریر لکھ دوں کہ تم اس کے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے، حاضرین کا آپس میں تنازعہ ہو گیا، حالانکہ نبی کے پاس آپس میں تنازعہ کرنا مناسب نہیں تھا، لوگ ایک دوسرے سے کہنے لگے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کیا ہوا؟ کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیماری کی شدت یا غشی میں کچھ کہہ رہے ہیں؟ امام سفیان نے ایک مرتبہ یوں کہاکہ آیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ہذیان ہوا ہے؟ ذرا آپ سے دوبارہ پوچھو، لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف متوجہ ہوئے اور بار باردریافت کرنے لگے۔ ( کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے میرے حال پر رہنے دو، تم مجھے جس طرف بلانا چاہتے ہو، اس کی نسبت میں جس حال میں میں ہوں، وہ بہتر ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین باتوں کا حکم دیا، سفیان راوی نے کہا کہ تین باتوں کی وصیت فرمائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مشرکین کو جزیرۂ عرب سے نکال دینا اور باہر سے آنے والے وفود کا اسی طرح خیال رکھنا جس طرح میں ان کا خیال رکھتا تھا۔ اور تیسری بات کے ذکر کرنے سے سعید بن جبیر نے سکوت اختیار کیا، ان کے شاگرد کہتے ہیں: میں نہیں جانتا کہ آیا وہ عمداً خاموش رہے تھے یا تیسری بات کو بھول گئے تھے۔ سفیان نے ایک مرتبہ کہا کہ یا تو انہوں نے عمداً تیسری بات کو چھوڑ دیا تھا یا بھول گئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10995

۔ (۱۰۹۹۵)۔ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: أَمَرَنِی النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ آتِیَہُ بِطَبَقٍ یَکْتُبُ فِیہِ مَا لَا تَضِلُّ أُمَّتُہُ مِنْ بَعْدِہِ، قَالَ: فَخَشِیتُ أَنْ تَفُوتَنِی نَفْسُہُ، قَالَ: قُلْتُ: إِنِّی أَحْفَظُ وَأَعِی، قَالَ: ((أُوصِی بِالصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ وَمَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ۔)) (مسند احمد: ۶۹۳)
سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے پاس ایک چوڑی ہڈی لے آؤں، جس پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک اہم بات لکھوا دیں تاکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی امت گمراہ نہ ہو۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مجھے اندیشہ ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ میں ہڈی لینے جاؤں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی روح پرواز کر جائے۔ میں نے عرض کیا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے بتلا دیں، میںیاد کر کے محفوظ کر لوں گا۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نماز، زکوۃ اور اس چیز کے بارے وصیت کرتا ہوں کہ تمہارے دائیں ہاتھ جس کے مالک ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10996

۔ (۱۰۹۹۶)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ: ((ائْتِنِی بِکَتِفٍ أَوْ لَوْحٍ حَتّٰی أَکْتُبَ لِأَبِی بَکْرٍ کِتَابًا لَا یُخْتَلَفُ عَلَیْہِ۔)) فَلَمَّا ذَہَبَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ لِیَقُومَ، قَالَ: ((أَبَی اللّٰہُ وَالْمُؤْمِنُونَ أَنْ یُخْتَلَفَ عَلَیْکَیَا أَبَا بَکْرٍ۔)) (مسند احمد: ۲۴۷۰۳)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا:تم شانے کی کوئی چوڑی ہڈییا کوئی تختی میرے پاس لاؤ تاکہ میں ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں وصیت لکھ دوں تاکہ انپر اختلاف نہ ہو۔ جب عبدالرحمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اُٹھنے لگے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! اللہ اور مومنوں نے تجھ پر اختلاف کرنے کا انکار کر دیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10997

۔ (۱۰۹۹۷)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: لَمَّا کَانَ وَجْعُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الَّذِیْ قُبِضَ فِیْہِ قَالَ: ((ادْعُوْا لِیْ اَبَا بَکْرٍ وَابْنَہٗفَلْیَکْتُبْ، لِکَیْلَایَطْمَعَ فِیْ اَمْرِ اَبِیْ بَکْرٍ طَامِعٌ وَلَا یَتَمَنّٰی مُتَمَنٍّ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((یَاْبَی اللّٰہُ ذٰلِکَ وَالْمُسْلِمُوْنَ۔)) مَرَّتَیْنَ، وَقَالَ مُؤَمَّلٌ مَرَّۃً: وَالْمُوْمِنُوْنَ، قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَاَبَی اللّٰہُ وَالْمُسْلِمُوْنَ، وَقَالَ مُوَمَّلٌ مَرَّۃً: وَالْمُوْمِنُوْنَ إِلَّا اَنْ یَکُوْنَ اَبِیْ فَکَانَ اَبِیْ۔ (مسند احمد: ۲۵۲۵۸)
۔(دوسری سند) سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر مرض الموت طاری تھی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابوبکر اور ان کے صاحبزادے کو میرے پاس بلا لاؤ، اور لکھنے والا لکھے تاکہ کوئی لالچییا خواہش مند ابوبکر کی خلافت کے بارے میں لالچ یا تمنا نہ کرے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود دو مرتبہ فرمایا کہ اللہ اور اہل اسلام ( ابوبکر کے سوا کسی دسرے کو) قبول نہیں کریں گے۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: (اسی طرح ہوا اور) اللہ اور مسلمانوں اور مومنوں نے انکار کر دیا، الا یہ کہ میرے ابو (خلیفہ بنیں)، پس پھر میرے ابو ہی بنے۔ ! یہ سند کے درمیان میں ایک راوی ہیں جن کے باپ کا نام بھی ابوبکر ہے اس جگہ ابوبکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بیٹے عبدالرحمن مراد نہیں ہیں۔ (عبداللہ رفیق)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10998

۔ (۱۰۹۹۸)۔ عَنْ جَابِرٍ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَعَا عِنْدَ مَوْتِہِ بِصَحِیْفَۃٍ لِیَکْتُبَ فِیْہَا کِتَابًا لَایَضِلُّوْنَ بَعْدَہَا، قَالَ: فَخَالَفَ عَلَیْہَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ حَتّٰی رَفَضَہَا۔ (مسند احمد: ۱۴۷۸۳)
سیدناجابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وفات سے قبل ایک صحیفہ منگوایا تاکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ا س پر ایک ایسی بات لکھوا دیں تاکہ لوگ آپ کے بعد گمراہ نہ ہوں، لیکن سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس سے اختلاف کیا، تاآنکہ خود رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بھی اس ارادہ کو موقوف کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10999

۔ (۱۰۹۹۹)۔ عَنْ اَنَسٍ قَالَ: کَانَتْ عَامَّۃُ وَصِیَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِیْنَ حَضَرَہُ الْمَوْتُ الصَّلَاۃَ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ، حَتّٰی جَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُغَرْغِرُ بِہَا صَدْرُہُ، وَمَا یَکَادُیُفِیْضُ بِہَا بِلِسَانِہِ۔ (مسند احمد: ۱۲۱۹۳)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وفات سے قبل رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عمومی وصیتیہ تھی کہ نماز کی پابندی کرنا اور غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کرنا، تاآنکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سینہ میں کھڑکھڑانے لگیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زبان سے یہ الفاظ صاف طور پر ادا نہیں ہو رہے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11000

۔ (۱۱۰۰۰)۔ عن طَلْحَۃَ قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِی أَوْفٰی: أَوْصٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: لَا، قُلْتُ: فَکَیْفَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِینَ بِالْوَصِیَّۃِ وَلَمْ یُوصِ، قَالَ: أَوْصٰی بِکِتَابِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ۔ (مسند احمد: ۱۹۶۲۸)
سیدنا طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبدالرحمن بن ابی اوفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: آیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کوئی وصیت بھی کی تھی؟ انہوں نے کہا: نہیں کی۔ میں نے کہا: تو پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اہلِ ایمان کو وصیت کرنے کا حکم کیوں دیا ہے، جبکہ خود تو وصیت نہیں کی؟ انھوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ کی کتاب کے بارے میں وصیت کی تھی (یعنی اس کو مضبوطی سے تھامے رکھیں)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11001

۔ (۱۱۰۰۱)۔ عَنِ الْأَسْوَدِ قَالَ: ذَکَرُوا عِنْدَ عَائِشَۃَ أَنَّ عَلِیًّا کَانَ وَصِیًّا، فَقَالَتْ: مَتٰی أَوْصٰی إِلَیْہِ؟ فَقَدْ کُنْتُ مُسْنِدَتَہُ إِلٰی صَدْرِی، أَوْ قَالَتْ: فِی حِجْرِی، فَدَعَا بِالطَّسْتِ فَلَقَدِ انْخَنَثَ فِی حِجْرِی، وَمَا شَعَرْتُ أَنَّہُ مَاتَ، فَمَتٰی أَوْصٰی إِلَیْہِ۔ (مسند احمد: ۲۴۵۴۰)
اسود سے مروی ہے کہ لوگوں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے سامنے ذکر کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں وصیت کی ہے (کہ وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کے بعد خلیفہ ہوں گے)، انہوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں کس وقت وصیت کی؟ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنے سینے سے ٹیک دئیے ہوئے تھی،یایوں کہا کہ میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنی گودمیں لیا ہوا تھا، آپ نے پانی کا برتن طلب فرمایا اور میری گود ہی میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی روح پرواز کر گئی اور مجھے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کا بھی پتہ نہیں چلا، اب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں وصیت کب کر دی؟
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11002

۔ (۱۱۰۰۲)۔ عَنِ الْأَرْقَمِ بْنِ شُرَحْبِیلَ قَالَ: سَافَرْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ مِنَ الْمَدِینَۃِ إِلَی الشَّامِ فَسَأَلْتُہُ أَوْصَی النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَذَکَرَ مَعْنَاہُ، وَقَالَ: مَا قَضٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الصَّلَاۃَ حَتّٰی ثَقُلَ جِدًّا، فَخَرَجَ یُہَادٰیبَیْنَ رَجُلَیْنِ، وَإِنَّ رِجْلَیْہِ لَتَخُطَّانِ فِی الْأَرْضِ، فَمَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَمْ یُوصِ۔ (مسند احمد: ۳۳۵۶)
ارقم بن شرحبیل سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معیت میں مدینہ منورہ سے شام تک کا سفر کیا، میں نے ان سے دریافت کیا کہ آیا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کوئی وصیت کی تھی؟ انہوں نے کہا:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابھی تک نماز بھی ادا نہیں کی تھی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شدید بیمار پڑ گئے،پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دو آدمیوں کے سہارے چلا کر لے جایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفات پا گئے اور ایسی کوئی وصیت نہیں کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11003

۔ (۱۱۰۰۳)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: قُبِضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَمْ یَسْتَخْلِفْ اَحَدًا، وَلَوْ کَانَ مُسْتَخْلِفًا لَاسْتَخْلَفَ اَبَا بَکْرٍ اَوْ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌۔ (مسند احمد: ۲۴۸۵۰)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دنیا سے تشریف لے گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا، اگر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کسی کو خلیفہ بنانا ہوتا تو سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بناتےیا سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11004

۔ (۱۱۰۰۴)۔ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قِیلَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَنْ یُؤَمَّرُ بَعْدَکَ؟ قَالَ: ((إِنْ تُؤَمِّرُوْا أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ تَجِدُوہُ أَمِینًا زَاہِدًا فِی الدُّنْیَا رَاغِبًا فِی الْآخِرَۃِ، وَإِنْ تُؤَمِّرُوا عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ تَجِدُوہُ قَوِیًّا أَمِینًا لَا یَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ، وَإِنْ تُؤَمِّرُوْا عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَلَا أُرَاکُمْ فَاعِلِینَ، تَجِدُوہُ ہَادِیًا مَہْدِیًّایَأْخُذُ بِکُمُ الطَّرِیقَ الْمُسْتَقِیمَ۔)) (مسند احمد: ۸۵۹)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد کس کو امیر بنایا جائے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو امیر بنا لو تو اسے امانت دار پاؤ گے، جو دنیا سے بے رغبت اور آخرت میں رغبت رکھنے والا ہو گا اور اگر تم عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو امیر بناؤ گے تو تم اسے طاقت ور، دیانت دار پاؤ گے، جو اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہ کرے گا، اور اگر تم نے علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو امیر بنایا جب کہ میں نہیں سمجھتا کہ تم اسے امیر بناؤ گے، تو تم اسے ایسا راہ دکھانے والا اور ہدایتیافتہ پاؤ گے جو تمہیں صراطِ مستقیم پر لے چلے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11005

۔ (۱۱۰۰۵)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: کَانَ آخِرُ مَا عَہِدَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا یُتْرَکُ بِجَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ دِیْنَانِ۔)) (مسند احمد: ۲۶۸۸۴)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آخری بات یہ ارشاد فرمائی تھی: جزیرۂ عرب میں دو دین نہ رہنے دئیے جائیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11006

۔ (۱۱۰۰۶)۔ عَنْ عَائِشَۃَ، لَدَدْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی مَرَضِہِ، فَأَشَارَ أَنْ لَا تَلُدُّونِی، قُلْتُ: کَرَاہِیَۃُ الْمَرِیضِ الدَّوَائَ، فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ: ((أَلَمْ أَنْہَکُمْ أَنْ لَا تَلُدُّونِی۔)) قَالَ:((لَا یَبْقٰی مِنْکُمْ أَحَدٌ إِلَّا لُدَّ غَیْرُ الْعَبَّاسِ فَإِنَّہُ لَمْ یَشْہَدْکُنَّ۔)) (مسند احمد: ۲۴۷۶۷)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیماری کے دوران آپ کے منہ میں دوا ڈالنے کی کوشش کی، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اشارہ کیا کہ مجھے اس طرح دوا نہ دو۔ میں نے کہا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عام مریض کی طرح دوا کونا پسند کر رہے ہیں، لیکن جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو افاقہ ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں نے تم لوگوں کو منع نہیں کیا تھا کہ مجھے دوا نہ ڈالو۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب ہر ایک کے منہ میں دوا ڈالی جائے، ما سوائے عباس کے، کیونکہ وہ اس وقت موجود نہیں تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11007

۔ (۱۱۰۰۷)۔ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ قَالَ: أَخْبَرَنِی أَبِی: أَنَّ عَائِشَۃَ قَالَتْ لَہُ: یَا ابْنَ أُخْتِی! لَقَدْ رَأَیْتُ مِنْ تَعْظِیمِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَمَّہُ أَمْرًا عَجِیبًا، وَذٰلِکَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَتْ تَأْخُذُہُ الْخَاصِرَۃُ فَیَشْتَدُّ بِہِ جِدًّا، فَکُنَّا نَقُولُ: أَخَذَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عِرْقُ الْکُلْیَۃِ لَا نَہْتَدِی أَنْ نَقُولَ الْخَاصِرَۃَ، ثُمَّ أَخَذَتْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمًا فَاشْتَدَّتْ بِہِ جِدًّا حَتّٰی أُغْمِیَ عَلَیْہِ، وَخِفْنَا عَلَیْہِ، وَفَزِعَ النَّاسُ إِلَیْہِ، فَظَنَنَّا أَنَّ بِہِ ذَاتَ الْجَنْبِ فَلَدَدْنَاہُ، ثُمَّ سُرِّیَ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَفَاقَ، فَعَرَفَ أَنَّہُ قَدْ لُدَّ وَوَجَدَ أَثَرَ اللَّدُودِ، فَقَالَ: ((ظَنَنْتُمْ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ سَلَّطَہَا عَلَیَّ مَا کَانَ اللّٰہُ یُسَلِّطُہَا عَلَیَّ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَا یَبْقٰی فِی الْبَیْتِ أَحَدٌ إِلَّا لُدَّ إِلَّا عَمِّی۔)) فَرَأَیْتُہُمْیَلُدُّونَہُمْ رَجُلًا رَجُلًا قَالَتْ عَائِشَۃُ: وَمَنْ فِی الْبَیْتِیَوْمَئِذٍ فَتَذْکُرُ فَضْلَہُمْ فَلُدَّ الرِّجَالُ أَجْمَعُونَ، وَبَلَغَ اللُّدُودُ أَزْوَاجَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلُدِدْنَ امْرَأَۃٌ امْرَأَۃٌ حَتّٰی بَلَغَ اللُّدُودُ امْرَأَۃً مِنَّا، قَالَ ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ: لَا أَعْلَمُہَا إِلَّا مَیْمُونَۃَ، قَالَ: وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: أُمُّ سَلَمَۃَ، قَالَتْ: إِنِّی وَاللّٰہِ! صَائِمَۃٌ، فَقُلْنَا: بِئْسَمَا ظَنَنْتِ أَنْ نَتْرُکَکِ، وَقَدْ أَقْسَمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَدَدْنَاہَا، وَاللّٰہِ! یَا ابْنَ أُخْتِی! وَإِنَّہَا لَصَائِمَۃٌ۔ (مسند احمد: ۲۵۳۸۲)
ہشام بن عروہ سے مروی ہے کہ میرے والد( عروہ) نے مجھے بتلایا کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان ( عروہ) سے کہا: میرے بھانجے! میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے اپنے چچا (عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) کی تعظیم کے حوالے سے ایک عجیب بات دیکھی، آپ کو کوکھ میں شدید درد ہوا کرتا تھا، ہم کہتے کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گردے کی تکلیف ہے، ہم اسے کوکھ کا درد نہیں کہتے تھے، ایک دن اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پھر یہ درد اس قدر شدت سے اٹھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر غشی طاری ہو گئی اور ہمیں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زندگی کا خطرہ محسوس ہونے لگا، سب لوگ گھبرا کر آپ کی طرف لپکے، ہم نے سمجھا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ذات الجنب کی بیماری لاحق ہو گئی ہے، اس لیے ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منہ کے ایک گوشے میں دوا ڈال دی، کچھ دیر بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وہ کیفیت زائل ہو گئی، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو افاقہ ہونے پر احساس ہوا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منہ میں دوا ڈالی گئی تھی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے منہ میں دوا کا اثر بھی محسوس کیا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بیماری کو مجھ پر مسلط کیا ہے، اللہ تعالیٰ ہرگز اسے مجھ پر مسلط نہیں کرے گا، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، گھر میں جس قدر افراد ہیں، میرے چچا یعنی عباس بن عبدالمطلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سوا باقی ہر شخص کے منہ میں یہی دوا ڈالی جائے۔ میں نے دیکھا کہ ایک ایک کے منہ میں وہ دوا ڈال رہے تھے، اس روز گھر میں جتنے لوگ موجود تھے، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے تمام افراد کے نام اور ان کے فضائل بھی ذکر کئے، سب مردوں کے منہ میں دوا ڈالی جا چکی تو ازواج مطہرات کی باری آئی۔ ان میں سے ہر اک کے منہ میں بھی دوا ڈالی گئی۔ ابن ابی لزناد کی روایت کے مطابق سیدہ میمونہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اور دوسرے حضرات کے بیان کے مطابق ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی باری آئی تو انہوں نے کہا: للہ کی قسم میں نے توروزہ رکھا ہوا ہے، لیکن ہم نے کہا: تم نے غلط سمجھا کہ ہم تمہیں چھوڑ دیں گی، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو اس بات کی قسم اٹھائی ہوئی ہے۔ دختر زادے! اللہ کی قسم! وہ روزہ سے تھیں اور ہم نے ان کے منہ میں بھی دوا انڈیل دی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11008

۔ (۱۱۰۰۸)۔ عَنْ اَبِیْ بَکْرٍ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ عُمَیْسٍ قَالَتْ: أَوَّلُ مَا اشْتَکٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی بَیْتِ مَیْمُونَۃَ، فَاشْتَدَّ مَرَضُہُ حَتّٰی أُغْمِیَ عَلَیْہِ فَتَشَاوَرَ نِسَاؤُہُ فِی لَدِّہِ فَلَدُّوہُ، فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ: ((مَا ہٰذَا؟)) فَقُلْنَا: ہٰذَا فِعْلُ نِسَائٍ جِئْنَ مِنْ ہَاہُنَا وَأَشَارَ إِلٰی أَرْضِ الْحَبَشَۃِ، وَکَانَتْ أَسْمَائُ بِنْتُ عُمَیْسٍ فِیہِنَّ، قَالُوا: کُنَّا نَتَّہِمُ فِیکَ ذَاتَ الْجَنْبِ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((إِنَّ ذٰلِکَ لَدَائٌ، مَا کَانَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لَیَقْرَفُنِی بِہِ، لَا یَبْقَیَنَّ فِی ہٰذَا الْبَیْتِ أَحَدٌ إِلَّا الْتَدَّ إِلَّا عَمُّ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔)) یَعْنِی الْعَبَّاسَ، قَالَ: فَلَقَدِ الْتَدَّتْ مَیْمُونَۃُیَوْمَئِذٍ وَإِنَّہَا لَصَائِمَۃٌ لِعَزْمَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۸۰۱۷)
سیدہ اسماء بنت عمیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیماری کا آغاز ام المؤمنین سیدہ میمونہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے گھر ہوا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیماری اس قدر شدت اختیار کر گئی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر بے ہوشی طاری ہو گئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ازواج نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منہ میں دوا ڈالنے کا مشورہ کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منہ میں دوا انڈیل دی۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو افاقہ ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ ہم نے عرض کیا:یہ ارضِ حبشہ سے آئی ہوئی عورتوں کا کام ہے، سیدہ اسماء بنت عمیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بھی ان خواتین میں سے تھیں۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے سمجھا کہ آپ کو نمونیا کی شکایت ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نمونیا ایسی بیماری ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس میں مبتلا نہیں کرے گا، اب گھر میں جتنے بھی لوگ ہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چچا سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سوا ان سب کے منہ میں یہ دوا انڈیلی جائے۔ راوی کہتے ہیں:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قسم کے پیش نظر سیدہ میمونہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے منہ میں بھی دوا ڈالی گئی حالانکہ وہ روزے سے تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11009

۔ (۱۱۰۰۹)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ إِذَا اشْتَکٰی، وَفِیْ رِوَایَۃٍ: کَانَ فِیْ مَرَضِہِ الَّذِیْ قُبِضَ فِیْہِ،یَقْرَاُ عَلٰی نَفْسِہِ بِالْمُعَوِّذَاتِ وَیَنْفُثُ، قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَلَمَّا اشْتَدَّ وَجْعُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کُنْتُ اَنَا اَقْرَاُ عَلَیْہِ وَاَمْسَحُ عَنْہُ بِیَدِہِ رَجَائَ بَرَکَتِہَا۔ (مسند احمد: ۲۶۷۹۳)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم معوذات پڑھ کر اپنے اوپر پھونک مارتے، سیدہ کہتی ہیں:جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو میں یہ سورتیں پڑھ کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ کی برکت کی وجہ سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جسم پرپھیرتی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11010

۔ (۱۱۰۱۰)۔ وَعَنْہَا اَیْضًا قَالَتْ: لَمَّا مَرِضَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَخَذْتُ بِیَدِہِ فَجَعَلْتُ اَمُرُّھَا عَلٰی صَدْرِہِ وَدَعَوْتُ بِہٰذِہِ الْکَلِمَاتِ: اَذْھِبِ الْبَاْسِ رَبِّ النَّاسِ، فَانْتَزَعَ یَدَہٗ مِنْ یَدَیَّ وَقَالَ: ((اَسْاَلُ اللّٰہَ الرَّفِیْقَ الْاَعْلَی الْاسْعَدَ۔)) (مسند احمد: ۲۵۴۰۳)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیمار پڑے تو میںآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ کو پکڑکر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سینہ مبارک پر پھیرتی اور ان کلمات کے ساتھ دعا کرتی، اَذْھِبِ الْبَاْسِ رَبِّ النَّاسِ (اے لوگوں کے رب! بیماری کو دور کر دے) ، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑا کر فرمایا: اَسْاَلُ اللّٰہَ الرَّفِیْقَ الْاَعْلَی الْاسْعَدَ (میں اللہ تعالیٰ سے بلند مرتبہ با سعادت حضرات کی رفاقت کی دعا کرتا ہوں۔)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11011

۔ (۱۱۰۱۱)۔ (وَعَنْہَا اَیْضًا)قَالَتْ: کُنْتُ أُعَوِّذُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِدُعَائٍ إِذَا مَرِضَ کَانَ جِبْرِیلُیُعِیذُہُ بِہِ وَیَدْعُو لَہُ بِہِ إِذَا مَرِضَ، قَالَتْ: فَذَہَبْتُ أُعَوِّذُہُ بِہِ أَذْہِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ بِیَدِکَ الشِّفَائُ لَا شَافِیَ إِلَّا أَنْتَ اشْفِ شِفَائً لَا یُغَادِرُ سَقَمًا، قَالَتْ: فَذَہَبْتُ أَدْعُو لَہُ بِہِ فِی مَرَضِہِ الَّذِی تُوُفِّیَ فِیہِ، فَقَالَ: ((ارْفَعِی عَنِّی۔)) قَالَ: ((فَإِنَّمَا کَانَ یَنْفَعُنِی فِی الْمُدَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۶۷۷۳)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب بیمار ہوتے تو میں آپ کو وہ دعا پڑھ کر دم کرتی تھی کہ جس دعا کے ساتھ جبریل علیہ السلام آپ کو دم کرتے اور دعا کیا کرتے تھے، میں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر یہ دعا پڑھنے لگی: أَذْہِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ بِیَدِکَ الشِّفَائُ لَا شَافِیَ إِلَّا أَنْتَ اشْفِ شِفَائً لَا یُغَادِرُ سَقَمًا (لوگوں کے رب! بیماری کو زائل فرما، شفا تیرے ہی ہاتھ میں ہے، تیرے سوا کوئی شفا نہیں دے سکتا، ایسی شفا عطا فرما جو کسی بھی بیماری کو باقی نہیں چھوڑے۔) جب میں مرض الموت میں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیےیہ دعا کرنے لگی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میرے پاس سے اُٹھ جاؤ، یہ دعا مجھے آج سے پہلی بیماریوں میں فائدہ دیتی تھی ( اب اس سے کچھ فائدہ نہیں ہو گا، کیونکہ اب موت کا وقت آ چکا ہے اور وہ ٹلنے والا نہیں ہے) ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11012

۔ (۱۱۰۱۲)۔ عَنْ عُرْوَۃَ أَوْ عَمْرَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی مَرَضِہِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ: ((صُبُّوا عَلَیَّ مِنْ سَبْعِ قِرَبٍ لَمْ تُحْلَلْ أَوْکِیَتُہُنَّ، لَعَلِّی أَسْتَرِیحُ فَأَعْہَدَ إِلَی النَّاسِ۔)) قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَأَجْلَسْنَاہُ فِی مِخْضَبٍ لِحَفْصَۃَ مِنْ نُحَاسٍ، وَسَکَبْنَا عَلَیْہِ الْمَائَ مِنْہُنَّ، حَتَّیطَفِقَیُشِیرُ إِلَیْنَا أَنْ قَدْ فَعَلْتُنَّ ثُمَّ خَرَجَ۔ (مسند احمد: ۲۶۴۴۰)
سید ہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مرض الموت کے دوران فرمایا: مجھ پر سات ایسی مشکوں کاپانی ڈالو، جن کے منہ کے بندھن کو نہ کھولا گیا ہو، شاید اس طرح مجھے کچھ راحت ہو، اور میں لوگوں سے ہم کلام ہو سکوں۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ایک ٹب میں بٹھا دیا، جو تانبے کا بنا ہوا تھا، اور ہم نے آپ پر ان مشکوں سے پانی ڈالنا شروع کیا، تاآنکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہماری طرف اشارہ کرنے لگے کہ تم نے کام پورا کر دیا ہے،پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر( مسجد کی طرف) تشریف لے گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11013

۔ (۱۱۰۱۳)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ اُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ، وَھِیْ اُمُّ وَلَدِ الْعَبَّاسِ اُخْتُ مَیْمُوْنَۃَ، قَالَتْ: اَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ مَرَضِہِ فَجَعَلْتُ اَبْکِیْ، فَرَفَعَ رَاْسَہٗفَقَالَ: ((مَایُبْکِیْکِ؟)) قُلْتُ: خِفْنَا عَلَیْکَ وَمَا نَدْرِیْ مَا نَلْقٰی مِنَ النَّاسِ بَعْدَکَ؟ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((اَنْتُمُ الْمُسْتَضْعَفُوْنَ بَعْدِیْ۔)) (مسند احمد: ۲۷۴۱۳)
سیدہ ام فضل بنت حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، یہ سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی ام ولد اور سیدہ میمونہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی ہمشیرہ تھیں، سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مرض الموت کے دنوں میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حالت دیکھ کر رونے لگی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا سر مبارک اُٹھا کر فرمایا: تم کیوں رو رہی ہو؟ میں نے عرض کیا: ہمیں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جدائی کا اندیشہ ہے، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد ہمیں کن لوگوں سے سابقہ پڑے گا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے بعد تم لوگ انتہائی کمزور سمجھے جاؤ گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11014

۔ (۱۱۰۱۴)۔ عَنْ عَائِشَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَعَا فَاطِمَۃَ ابْنَتَہُ فَسَارَّہَا فَبَکَتْ، ثُمَّ سَارَّہَا فَضَحِکَتْ، فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: فَقُلْتُ لِفَاطِمَۃَ: مَا ہٰذَا الَّذِی سَارَّکِ بِہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَبَکَیْتِ ثُمَّ سَارَّکِ فَضَحِکْتِ؟ قَالَتْ: سَارَّنِی فَأَخْبَرَنِی بِمَوْتِہِ فَبَکَیْتُ، ثُمَّ سَارَّنِی فَأَخْبَرَنِی أَنِّی أَوَّلُ مَنْ أَتْبَعُہُ مِنْ أَہْلِہِ فَضَحِکْتُ۔ (مسند احمد: ۲۴۹۸۸)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی صاحب زادی سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو بلوا کر ان سے راز داری میں کوئی بات کہی، وہ رونے لگ گئیں، پھر اس کے بعد دوبارہ اسی طرح آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کچھ کہا تو وہ ہنس دیں۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں نے سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے دریافت کیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آپ سے راز داری سے کیا بات کی تھی کہ آپ رو دی تھیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رازداری سے کچھ فرمایا تو آپ ہنسنے لگ گئی تھیں؟ انہوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے چپکے سے اپنی وفات کی اطلاع دی تھی، اس لیے میں رونے لگ گئی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چپکے سے مجھ سے فرمایا تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اہلِ خانہ میں سے میں سب سے پہلے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جا کر ملو ں گی، تو میں یہ سن کر ہنسنے لگی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11015

۔ (۱۱۰۱۵)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ اَنَّ اللٰہَ عَزَّوَجَلَّ تَابَعَ الْوَحْیَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَبْلَ وَفَاتِہِ حَتّٰی تُوُفِّیَ، وَاَکْثَرُ مَا کَانَ الْوَحْیُیَوْمَ تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۳۵۱۳)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات سے پہلے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف وحی کا ایک طویل سلسلہ شروع کر دیا تھا، تاآنکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات ہو گئی، جس دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات ہوئی اس روز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سب سے زیادہ مرتبہ وحی نازل ہوئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11016

۔ (۱۱۰۱۶)۔ (وَعَنْہٗاَیْضًا) قَالَ: لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَرَضَہُ الَّذِی تُوُفِّیَ فِیہِ، أَتَاہُ بِلَالٌ یُؤْذِنُہُ بِالصَّلَاۃِ، فَقَالَ بَعْدَ مَرَّتَیْنِ: ((یَا بِلَالُ! قَدْ بَلَّغْتَ فَمَنْ شَائَ فَلْیُصَلِّ وَمَنْ شَائَ فَلْیَدَعْ۔)) فَرَجَعَ إِلَیْہِ بِلَالٌ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، مَنْ یُصَلِّی بِالنَّاسِ؟ قَالَ: ((مُرْ أَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ۔)) فَلَمَّا أَنْ تَقَدَّمَ أَبُو بَکْرٍ رُفِعَتْ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم السُّتُورُ، قَالَ: فَنَظَرْنَا إِلَیْہِ کَأَنَّہُ وَرَقَۃٌ بَیْضَائُ عَلَیْہِ خَمِیصَۃٌ، فَذَہَبَ أَبُو بَکْرٍ یَتَأَخَّرُ وَظَنَّ أَنَّہُ یُرِیدُ الْخُرُوجَ إِلَی الصَّلَاۃِ، فَأَشَارَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی أَبِی بَکْرٍ أَنْ یَقُومَ فَیُصَلِّیَ، فَصَلَّی أَبُو بَکْرٍ بِالنَّاسِ فَمَا رَأَیْنَاہُ بَعْدُ۔ (مسند احمد: ۱۳۱۲۴)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مرض الموت میں مبتلا تھے، سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نماز کی اطلاع دینے آئے، ان کی طرف سے دوسری مرتبہ اطلاع کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے بلال! تم نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی، جو نماز پڑھنا چاہے گا، پڑھ لے گا اور جو چاہے گا وہ چھوڑ دے گا۔ پھر سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ کی طرف واپس آئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر نثار ہوں، لوگوں کو نماز کون پڑھائے ؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ جب سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے سے پردے ہٹا دئیے گئے، ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف دیکھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرۂ انور سفید کاغذ کی مانند (انتہائی سفید، چمک دار) تھا، اور آپ پر ایک سیاہ دھاری دار چادر تھی، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سمجھا کہ شاید آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز کے لیے تشریف لانا چاہتے ہیں، وہ پیچھے ہٹنے لگے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اشارہ کیا کہ وہ کھڑے رہیں اور نماز پڑھائیں، چنانچہ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، ہم اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا دیدار نہیں کر سکے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11017

۔ (۱۱۰۱۷)۔ (وَعَنْہٗاَیْضًا) قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ الِاثْنَیْنِ کَشَفَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سِتْرَ الْحُجْرَۃِ، فَرَأٰی أَبَا بَکْرٍ وَہُوَ یُصَلِّی بِالنَّاسِ، قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلٰی وَجْہِہِ کَأَنَّہُ وَرَقَۃُ مُصْحَفٍ وَہُوَ یَتَبَسَّمُ، قَالَ: وَکِدْنَا أَنْ نُفْتَتَنَ فِی صَلَاتِنَا فَرَحًا لِرُؤْیَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَرَادَ أَبُو بَکْرٍ أَنْ یَنْکُصَ، فَأَشَارَ إِلَیْہِ أَنْ کَمَا أَنْتَ، ثُمَّ أَرْخَی السِّتْرَ فَقُبِضَ مِنْیَوْمِہِ ذٰلِکَ، فَقَامَ عُمَرُ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یَمُتْ وَلٰکِنَّ رَبَّہُ أَرْسَلَ إِلَیْہِ کَمَا أَرْسَلَ إِلٰی مُوسَی، فَمَکَثَ عَنْ قَوْمِہِ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً، وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأَرْجُو أَنْ یَعِیشَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰییَقْطَعَ أَیْدِیَ رِجَالٍ مِنَ الْمُنَافِقِینَ وَأَلْسِنَتَہُمْ، یَزْعُمُونَ أَوْ قَالَ: یَقُولُونَ، إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ مَاتَ۔ (مسند احمد: ۱۳۰۵۹)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سوموار کا دن تھا، ایک روایت میں ہے کہ میں نے سوموار کے دن آخری مرتبہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا دیدار کیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حجرے کا پردہ ہٹا کر دیکھا تو سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرہ انور کو دیکھا، وہ قرآنی ورق کی مانند انتہائی حسین تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرا رہے تھے، ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دیکھنے کی خوشی میں نماز کے اندر ہی فرط مسرت سے فتنہ میں مبتلا ہونے کے قریب ہو گئے، مراد یہ ہے کہ آپ کو صحت یاب دیکھ کر ہمیں اس قدر خوشی ہوئی کہ قریب تھا کہ ہم نماز توڑ بیٹھتے، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اشارہ سے فرمایا کہ نماز تم ہی پڑھاؤ، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پردہ نیچے گرا دیا اور اسی دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی روح پرواز کر گئی۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال نہیں ہوا، بلکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے رب نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وہی کیفیت طاری کی ہے، جیسے موسیٰ علیہ السلام چالیس راتیں اپنی قوم سے الگ تھلگ رہے تھے۔ اللہ کی قسم ! مجھے توقع ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منافقین کے ہاتھ اور زبانیں کاٹنے تک زندہ رہیں گے، وہ تو کہہ رہے ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہو گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11018

۔ (۱۱۰۱۸)۔ عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: صَلّٰی بَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی بَیْتِہِ مُتَوَشِّحًا فِی ثَوْبٍ الْمَغْرِبَ فَقَرَأَ الْمُرْسَلَاتِ، مَا صَلّٰی بَعْدَھَا حَتَّی قُبِضَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۷۴۰۸)
سیدہ ام فضل بنت حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے گھر میں ایک کپڑے میں لپٹ کر ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی اور سورۂ مرسلات کی تلاوت کی، اس کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھی، حتی کہ فوت ہو گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11019

۔ (۱۱۰۱۹)۔ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ: وَالَّذِی أَحْلِفُ بِہِ إِنْ کَانَ عَلِیٌّ لَأَقْرَبَ النَّاسِ عَہْدًا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: عُدْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَدَاۃً بَعْدَ غَدَاۃٍ،یَقُولُ: جَائَ عَلِیٌّ مِرَارًا، قَالَتْ: وَأَظُنُّہُ کَانَ بَعَثَہُ فِی حَاجَۃٍ، قَالَتْ: فَجَائَ بَعْدُ فَظَنَنْتُ أَنَّ لَہُ إِلَیْہِ حَاجَۃً، فَخَرَجْنَا مِنَ الْبَیْتِ فَقَعَدْنَا عِنْدَ الْبَابِ، فَکُنْتُ مِنْ أَدْنَاہُمْ إِلَی الْبَابِ، فَأَکَبَّ عَلَیْہِ عَلِیٌّ، فَجَعَلَ یُسَارُّہُ وَیُنَاجِیہِ، ثُمَّ قُبِضَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ یَوْمِہِ ذٰلِکَ، فَکَانَ أَقْرَبَ النَّاسِ بِہِ عَہْدًا۔ (مسند احمد: ۲۷۱۰۰)
سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے نام کی قسم اُٹھائی جاتی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سب سے آخری ملاقات سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی ہوئی تھی، ہم روزانہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تیمارداری کیا کرتی تھیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بار بار دریافت فرماتے کہ علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے ہیں؟ سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں کسی کام کے لیے بھیجا ہوا تھا، چنانچہ وہ تشریف لے آئے، میں سمجھی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ان سے کوئی کام ہے، ہم کمرے سے نکل کر دروازے کے قریب بیٹھ گئیں۔ میں سب سے زیادہ کمرے کے دروازے کے قریب تھی، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اوپر جھک سے گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ساتھ راز داری کے ساتھ سر گوشی سی کرنے لگے اور اسی دن اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہو گیا، اس طرح رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سب سے آخری ملاقات علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11020

۔ (۱۱۰۲۰)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ اُمِّہِ اُمِّ مُبَشِّرٍ دَخَلَتْ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ وَجَعِہِ الَّذِیْ قُبِضَ فِیْہِ، فَقَالَتْ: بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْیَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا تَتَہِّمُ بِنَفْسِکَ؟ فَاِنِّیْ لَا اَتَّہِمُ إِلَّا الطَّعَامَ الَّذِیْ اَکَلَ مَعَکَ بِخَیْبَرَ، وَکاَنَ ابْنُہَا ماَتَ قَبْلَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ: ((وَاَنَا لَا اَتَّہِمُ غَیْرَہُ ھٰذَا اَوَانُ قَطْعِِ اَبْہَرِیْ۔)) (مسند احمد: ۲۴۴۳۰)
عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب اپنی والدہ سیدہ ام مبشر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں:میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مرض الموت کے دنوں میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں گئی، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اپنے بارے میں کیا رائے ہے؟ یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خیال میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیماری کا سبب کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے اور تو کسی چیز پر شک نہیں، البتہ جو کھانا میں نے خیبر میں کھایا تھا، ( یہ اس کا اثر معلوم ہوتا ہے۔) ام مبشر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیٹا( مبشر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) بھی اس کھانے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا اور اسی زہریلے کھانے کے سبب سے اس کا انتقال ہو گیا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے علاوہ تو مجھے کسی اور چیز پر شک نہیں، اب میری شہ رگ کے کٹنے کا یعنی زندگی کا آخری وقت آچکا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11021

۔ (۱۱۰۲۱)۔ عَنْ عَبدِ اللّٰہِ قَالَ: لَأَنْ أَحْلِفَ تِسْعًا أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُتِلَ قَتْلًا أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَحْلِفَ وَاحِدَۃً أَنَّہُ لَمْ یُقْتَلْ، وَذٰلِکَ بِأَنَّ اللّٰہَ جَعَلَہُ نَبِیًّا وَاتَّخَذَہُ شَہِیدًا، قَالَ الْأَعْمَشُ: فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِإِبْرَاہِیمَ، فَقَالَ: کَانُوا یَرَوْنَ أَنَّ الْیَہُودَ سَمُّوہُ وَأَبَا بَکْرٍ۔ (مسند احمد: ۴۱۳۹)
سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اس بات کی تو نو بار قسمیں اُٹھاؤں کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شہید ہوئے ہیں، مجھے یہ بات اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں ایک قسم اُٹھا کر یوں کہوں کہ آپ شہید نہیں ہوئے، اللہ تعالیٰ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کونبی اور شہید بنایا ہے، حدیث کے ایک راوی اعمش کہتے ہیں:جب میں نے اس بات کا ذکر اپنے شیخ ابراہیم تیمی سے کیا تو انہوں نے کہا کہ علماء کا خیال ہے کہ یہودیوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو زہر دیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11022

۔ (۱۱۰۲۲)۔ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَابْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ سُلَیْمَانَ عَنْ أَبِی الضُّحٰی عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُعَوِّذُ بِہٰذِہِ الْکَلِمَاتِ: ((أَذْہِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ! اِشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِی لَا شِفَائَ إِلَّا شِفَاؤُکَ شِفَائً لَا یُغَادِرُ سَقَمًا۔)) قَالَتْ: فَلَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی مَرَضِہِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ أَخَذْتُ بِیَدِہِ فَجَعَلْتُ أَمْسَحُہُ بِہَا وَأَقُولُہَا، قَالَتْ: فَنَزَعَ یَدَہُ مِنِّی، ثُمَّ قَالَ: ((رَبِّ اغْفِرْ لِی وَأَلْحِقْنِی بِالرَّفِیقِ۔)) قَالَ أَبُو مُعَاوِیَۃَ: قَالَتْ: فَکَانَ ہٰذَا آخِرَ مَا سَمِعْتُ مِنْ کَلَامِہِ، قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: إِنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ إِذَا عَادَ مَرِیضًا مَسَحَہُ بِیَدِہِ وَقَالَ: ((أَذْہِبْ……۔)) (مسند احمد: ۲۴۶۸۶)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیماروں کو ان الفاظ کے ساتھ دم کیا کرتے تھے: أَذْہِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ! اِشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِی لَا شِفَائَ إِلَّا شِفَاؤُکَ شِفَائً لَا یُغَادِرُ سَقَمًا (اے لوگوں کے رب !بیماری کو دور فرما، شفاء عطا کر، تو ہی شفاء دینے والا ہے، تیری شفاء کے سوا کوئی شفاء نہیں، ایسی شفاء دے جو تمام بیماریوں کو ختم کر دے۔) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مرض الموت میں شدید بیمار ہوئے تو میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ تھام کر اسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جسد مبارک پر پھیرتی اور ان کلمات کو زبان سے ادا کرتی تھی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور فرمایا: اے میرے رب! میری مغفرت فرما اور مجھے رفیق اعلی کے ساتھ ملا دے۔ امام احمد کے شیخ ابو معاویہ نے کہا کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بیان کیا کہ یہ آخری الفاظ تھے، جو میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنے۔ امام احمد کے دوسرے استاذ ابن جعفر نے یوں کہا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب کسی مریض کی بیمار پرسی کرتے تو اپنا ہاتھ اس کے جسم پر پھیرتے اور یہ دعا فرماتے: أَذْہِبْ……۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11023

۔ (۱۱۰۲۳)۔ عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ قَالَ: قَالَتْ عَائِشَۃُ: مَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی بَیْتِی وَیَوْمِی وَبَیْنَ سَحْرِی وَنَحْرِی، فَدَخَلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی بَکْرٍ وَمَعَہُ سِوَاکٌ رَطْبٌ فَنَظَرَ إِلَیْہِ، فَظَنَنْتُ أَنَّ لَہُ فِیہِ حَاجَۃً، قَالَتْ: فَأَخَذْتُہُ فَمَضَغْتُہُ وَنَفَضْتُہُ وَطَیَّبْتُہُ ثُمَّ دَفَعْتُہُ إِلَیْہِ،فَاسْتَنَّ کَأَحْسَنِ مَا رَأَیْتُہُ مُسْتَنًّا قَطُّ، ثُمَّ ذَہَبَ یَرْفَعُہُ إِلَیَّ فَسَقَطَ مِنْ یَدِہِ فَأَخَذْتُ أَدْعُو اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ بِدُعَائٍ، کَانَ یَدْعُو لَہُ بِہِ جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَام، وَکَانَ ہُوَ یَدْعُوْ بِہِ إِذَا مَرِضَ، فَلَمْ یَدْعُ بِہِ فِی مَرَضِہِ ذٰلِکَ، فَرَفَعَ بَصَرَہُ إِلَی السَّمَائِ وَقَالَ: ((الرَّفِیقُ الْأَعْلَی، الرَّفِیقُ الْأَعْلَی۔)) یَعْنِی وَفَاضَتْ نَفْسُہُ، فَالْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی جَمَعَ بَیْنَ رِیقِی وَرِیقِہِ فِی آخِرِ یَوْمٍ مِنْ أَیَّامِ الدُّنْیَا۔ (مسند احمد: ۲۴۷۲۰)
ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال میرے گھر میں اور میری باری کے دن ہوا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے سینہ اور گردن کے درمیان تھے، اس وقت میرے بھائی سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے، ان کے پاس ایک تازہ مسواک تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس مسواک کی طرف دیکھا، میں سمجھ گئی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مسواک کی ضرورت ہے۔ میں نے ان سے مسواک لے کر اسے چبا یا اور جھاڑ کر صاف کر کے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے خوبصورت انداز سے مسواک کی کہ میں نے کبھی اس طرح خوبصورت انداز سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مسواک کرتے نہیں دیکھا تھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہ مجھے پکڑانے لگے تو وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ سے چھوٹ گئی، میں نے اسے اُٹھا یا اور میں اللہ تعالیٰ سے وہ دعا کرنے لگی جو دعا جبریل علیہ السلام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے کیا کرتے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی جب کبھی بیمار ہوتے تو وہی دعا پڑھا کرتے تھے۔ لیکن اس بیماری میں آپ نے وہ دعا نہیں پڑھی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آسمان کی طرف نظر اُٹھا کر فرمایا: رفیقِ اعلی، رفیقِ اعلی۔ اور ساتھ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی روح پرواز کر گئی، اللہ کا بڑاشکر ہے، جس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے آخری دن میرے لعاب کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لعاب کے ساتھ جمع کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11024

۔ (۱۱۰۲۴)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: لَمَّا قَالَتْ فَاطِمَۃُ: ذٰلِکَ یَعْنِی لَمَّا وَجَدَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ کَرْبِ الْمَوْتِ مَا وَجَدَ، قَالَتْ فَاطِمَۃُ: وَا کَرْبَاہُ! قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا بُنَیَّۃُ! إِنَّہُ قَدْ حَضَرَ بِأَبِیکِ مَا لَیْسَ اللّٰہُ بِتَارِکٍ مِنْہُ أَحَدًا لِمُوَافَاۃِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۲۴۶۱)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر موت کے آثار نمودار ہوئے، تو سیدہ فاطمۃ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بے اختیار کہنے لگیں: ہائے مصیبت! تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیٹی ! تمہارے باپ پر اب وہ وقت آچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت تک کسی کو بھی اس سے مستثنیٰ نہیں کرے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11025

۔ (۱۱۰۲۵)۔ أَخْبَرَنَا شُعَیْبٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ: قَالَ عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ: إِنَّ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ صَحِیحٌیَقُولُ: ((إِنَّہُ لَمْ یُقْبَضْ نَبِیٌّ قَطُّ، حَتّٰییَرٰی مَقْعَدَہُ مِنَ الْجَنَّۃِ۔)) ثُمَّ یُحَیَّا فَلَمَّا اشْتَکٰی، وَحَضَرَہُ الْقَبْضُ، وَرَأْسُہُ عَلٰی فَخْذِ عَائِشَۃَ، غُشِیَ عَلَیْہِ، فَلَمَّا أَفَاقَ شَخَصَ بَصَرَہُ نَحْوَ سَقْفِ الْبَیْتِ، ثُمَّ قَالَ: ((اللَّہُمَّ الرَّفِیقَ الْأَعْلٰی۔)) قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَقُلْتُ: إِنَّہُ حَدِیثُہُ الَّذِی کَانَ یُحَدِّثُنَا وَہُوَ صَحِیحٌ۔ (مسند احمد: ۲۵۰۹۰)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب تندرست تھے تو فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی کا جنت میں جو مقام ہے، اس کی وفات سے قبل اسے وہ دکھا دیا جاتا ہے۔ پھر اسے دنیا اورآخرت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا جاتا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب بیمار ہوئے اور وفات کا وقت قریب آیا، اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سر مبارک سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی ران پر تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر غشی طاری ہوئی، پھر جب افاقہ ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کمرے کی چھت کی طرف نظر اُٹھائی اور فرمایا: اے اللہ! رفیق اعلی میں منتقل ہونا چاہتا ہوں۔ میں جان گئی کہ یہ اسی بات پر عمل ہوا ہے، جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہم سے اپنی صحت کے دنوں میں بیان کیا کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11026

۔ (۱۱۰۲۶)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَا مِنْ نَبِیٍّیَمْرَضُ إِلَّا خُیِّرَ بَیْنَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔)) قَالَتْ: فَلَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَرَضَ الَّذِی قُبِضَ فِیہِ، أَخَذَتْہُ بُحَّۃٌ، فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ: {مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاء ِ وَالصَّالِحِینَ۔} قَالَتْ: فَعَلِمْتُ أَنَّہُ خُیِّرَ۔ (مسند احمد: ۲۶۸۵۰)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا کہ جب بھی کوئی نبی بیمار ہوتا ہے تو اسے دنیا اور آخرت میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کھانسی آئی، پھر میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا: {مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاء ِ وَالصَّالِحِینَ۔} ان انبیائ، اصدقائ،شہداء اور صلحاء کے ساتھ، جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا۔ میں یہ سن کر جان گئی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دنیااور آخرت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا گیا ( اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آخرت کا انتخاب کیا ہے۔ )
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11027

۔ (۱۱۰۲۷)۔ (وَعَنْہَا اَیْضًا) قَالَتْ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَا مِنْ نَبِیٍّ إِلَّا تُقْبَضُ نَفْسُہُ، ثُمَّ یَرَی الثَّوَابَ، ثُمَّ تُرَدُّ إِلَیْہِ، فَیُخَیَّرُ بَیْنَ أَنْ تُرَدَّ إِلَیْہِ إِلٰی أَنْ یَلْحَقَ۔)) فَکُنْتُ قَدْ حَفِظْتُ ذٰلِکَ مِنْہُ فَإِنِّی لَمُسْنِدَتُہُ إِلٰی صَدْرِی، فَنَظَرْتُ إِلَیْہِ حَتّٰی مَالَتْ عُنُقُہُ، فَقُلْتُ: قَدْ قَضٰی، قَالَتْ: فَعَرَفْتُ الَّذِی قَالَ، فَنَظَرْتُ إِلَیْہِ حَتَّی ارْتَفَعَ فَنَظَرَ، قَالَتْ: قُلْتُ: إِذَنْ وَاللّٰہِ لَا یَخْتَارُنَا فَقَالَ: ((مَعَ الرَّفِیقِ الْأَعْلٰی فِی الْجَنَّۃِ، {مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمَ مِنْ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۴۹۵۸)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ( اپنی حیات طیبہ میں) فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی کی روح کچھ دیر کے لیے قبض کر کے اسے اس کا ثواب دکھانے کے بعد اس کی روح کو لوٹا دیا جاتا ہے، اور اسے اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ اب دنیا اور آخرت میں سے جس کا چاہیں، انتخاب کر لیں۔ مجھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہوئییہ بات یاد تھی۔ مرض الموت کے دوران میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی گردن ڈھلک گئی، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف دیکھا تو میں سمجھی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفات پا گئے ہیں، مجھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی فرمائی ہوئی بات یاد آ گئی، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف دیکھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طبیعت سنبھل گئی، میں جان گئی کہ اب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارا انتخاب نہیں کریں گے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: {مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاء ِ وَالصَّالِحِینَ۔} ان انبیائ، اصدقائ،شہداء اور صلحاء کے ساتھ، جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا۔ آیت کے آخر تک۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11028

۔ (۱۱۰۲۸)۔ (وَعَنْہَا مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَتْ: کُنْتُ أَسْمَعُ لَا یَمُوتُ نَبِیٌّ إِلَّا خُیِّرَ بَیْنَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، قَالَتْ: فَأَصَابَتْہُ بُحَّۃٌ فِی مَرَضِہِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ، فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ: {مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولٰئِکَ رَفِیقًا} فَظَنَنْتُ أَنَّہُ خُیِّرَ۔ (مسند احمد: ۲۶۲۲۰)
۔( دوسری سند) سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنتی رہتی تھی کہ ہر نبی کو وفات سے پہلے دنیا اورآخرت میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔ مرض الموت کے دوران ایک دفعہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کھانسی آئی اور میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا: {مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولٰئِکَ رَفِیقًا} … ان انبیائ، اصدقائ،شہداء اور صلحاء کے ساتھ، جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا،یہ لوگ بلحاظ رفاقت کے کتنے اچھے ہیں۔ پس میں جان گئی کہ آپ کو دنیا وآخرت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دے دیا گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11029

۔ (۱۱۰۲۹)۔ (وَعَنْہَا اَیْضًا) قَالَتْ: رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعِنْدَہٗقَدَحٌفِیْہِ مَائٌ، فَیُدْخِلُیَدَہُ فِی الْقَدَحِ، ثُمَّ یَمْسَحُ وَجْہَہُ بِالْمَائِ، ثُمَّ یَقُوْلُ: ((اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی سَکَرَاتِ الْمَوْتِ۔)) (مسند احمد: ۲۴۸۶۰)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا، پانی کا پیالہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب رکھا ہوا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنا ہاتھ پیالے میں ڈال کر اسے گیلا کر کے اپنے چہرہ اقدس پر پھیرتے اور یہ دعا کر تے جا رہے تھے: اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی سَکَرَاتِ الْمَوْتِ (اے اللہ! موت کی سختیوں میںمیری مدد فرما۔)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11030

۔ (۱۱۰۳۰)۔ (وَعَنْہَا اَیْضًا) قٰلَتْ: تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَوْ قُبِضَ اَوْ مَاتَ وَھُوَ بَیْنَ حَاقِنَتِیْ وَذَاقِنَتِیْ، فَلَا اَکْرَہُ شِدَّۃَ الْمَوْتِ لِاَحَدٍ اَبَدًا بَعْدَ الَّذِیْ رَاَیْتُ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۴۹۸۷)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات اس حال میں ہوئی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے سینہ اور گردن کے درمیان تھے، چونکہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حالت نزع کی شدت کو دیکھا ہے، لہذا اب میں کسی کے لیے موت کی سختی کو ناپسند نہیں کرتی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11031

۔ (۱۱۰۳۱)۔ اِبْرَاہِیْمُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ: ثَنَا رِبَاحٌ قَالَ: قُلْتُ لِمَعْمَرٍ: قُبِضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ جَالِسٌ؟ قاَلَ: نَعَمْ۔ (مسند احمد: ۲۶۸۸۳)
رباح سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے معمر سے دریافت کیا: آیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال اس حال میں ہوا تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیٹھے ہوئے تھے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11032

۔ (۱۱۰۳۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: کَانَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَمِیْصَۃٌ سَوْدَائُ حِیْنَ اشْتَدَّ بِہِ وَجَعُہُ، قَالَتْ: فَہُوْ یَضَعُہَا مَرَّۃً عَلٰی وَجْہِہِ وَمَرَّۃًیَکْشِفُہَا عَنْہُ وَیَقُوْلُ: ((قَاتَلَ اللّٰہُ قَوْمًا اتِّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ۔)) یُحَرِّمُ ذٰلِکَ عَلٰی اُمَّتِہِ۔ (مسند احمد: ۲۶۸۸۲)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک سیاہ چادر زیب تن کیے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کبھی اسے اپنے چہرے پر ڈالتے اور کبھی ہٹا لیتے اور فرماتے: اللہ ان لوگوں کو ہلاک کرے، جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا۔ دراصل آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ ارشاد فرما کر اپنی امت کے لیے اس کام کو حرام قرار دے رہے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11033

۔ (۱۱۰۳۳)۔ (وَعَنْہَا اَیْضًا) اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِیْنَ تُوُفِّیَ سُجِّیَ بِثَوْبِ حِبَرَۃٍ۔ (مسند احمد: ۲۵۰۸۸)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک دھاری دار چادر میں ڈھانپ دیا گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11034

۔ (۱۱۰۳۴)۔ (وَعَنْہَا اَیْضًا) قَالَتْ: قُبِضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرَاْسُہُ بَیْنَ سَحْرِیْ وَنَحْرِیْ، قَالَتْ: فَلَمَّا خَرَجَتْ نَفْسُہُ لَمْ اَجِدْ اَطْیَبَ مِنْہَا۔ (مسند احمد: ۲۵۴۱۷)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال اس حال میں ہوا تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سر مبارک میرے سینے اور گردن کے درمیان تھا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی روح پروراز کر گئی تو اس سے عمدہ کیفیت میں نے کسی کی نہیں دیکھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11035

۔ (۱۱۰۳۵)۔ عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ قَالَ: دَخَلْتُ عَلٰی عَائِشَۃَ، فَأَخْرَجَتْ إِلَیْنَا إِزَارًا غَلِیظًا مِمَّا صُنِعَ بِالْیَمَنِ، وَکِسَائً مِنَ الَّتِییَدْعُونَ الْمُلَبَّدَۃَ، قَالَ بَہْزٌ: تَدْعُونَ، فَقَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُبِضَ فِی ہٰذَیْنِ الثَّوْبَیْنِ۔ (مسند احمد: ۲۵۵۱۱)
سیدنا ابو بردہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی خدمت میں گیا، انہوں نے ہمیںیمن میں تیار ہونے والی ایک موٹی سی چادر اور ایک ایسی چادر نکال کر دکھائی جسے تم لوگ مُلَبَّدَۃ کہتے ہو اور کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ دو چادریں زیب تن کئے ہوئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11036

۔ (۱۱۰۳۶)۔ عَنْ عَائِشَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِنَّہُ لَیُہَوَّنُ عَلَیَّ أَنِّی رَأَیْتُ بَیَاضَ کَفِّ عَائِشَۃَ فِی الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۵۵۹۰)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے لیےیہ امر اطمینان بخش ہے کہ میں نے عائشہ کی ہتھیلی کی سفیدی جنت میں دیکھی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11037

۔ (۱۱۰۳۷)۔ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُحَدِّثُ: أَنَّ رِجَالًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ تُوُفِّیَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَزِنُوا عَلَیْہِ، حَتّٰی کَادَ بَعْضُہُمْ یُوَسْوِسُ، قَالَ عُثْمَانُ: وَکُنْتُ مِنْہُمْ فَبَیْنَا أَنَا جَالِسٌ فِی ظِلِّ أُطُمٍ مِنَ الْآطَامِ، مَرَّ عَلَیَّ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَسَلَّمَ عَلَیَّ فَلَمْ أَشْعُرْ أَنَّہُ مَرَّ وَلَا سَلَّمَ، فَانْطَلَقَ عُمَرُ حَتّٰی دَخَلَ عَلٰی أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ لَہُ: مَا یُعْجِبُکَ أَنِّی مَرَرْتُ عَلٰی عُثْمَانَ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ السَّلَامَ، وَأَقْبَلَ ہُوَ وَأَبُو بَکْرٍ فِی وِلَایَۃِ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَتّٰی سَلَّمَا عَلَیَّ جَمِیعًا، ثُمَّ قَالَ أَبُو بَکْرٍ: جَائَنِی أَخُوکَ عُمَرُ فَذَکَرَ أَنَّہُ مَرَّ عَلَیْکَ فَسَلَّمَ فَلَمْ تَرُدَّ عَلَیْہِ السَّلَامَ، فَمَا الَّذِی حَمَلَکَ عَلٰی ذٰلِکَ؟ قَالَ: قُلْتُ: مَا فَعَلْتُ، فَقَالَ عُمَرُ: بَلٰی وَاللّٰہِ! لَقَدْ فَعَلْتَ وَلٰکِنَّہَا عُبِّیَّتُکُمْیَا بَنِی أُمَیَّۃَ، قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ مَا شَعَرْتُ أَنَّکَ مَرَرْتَ وَلَا سَلَّمْتَ، قَالَ أَبُو بَکْرٍ: صَدَقَ عُثْمَانُ وَقَدْ شَغَلَکَ عَنْ ذٰلِکَ أَمْرٌ، فَقُلْتُ: أَجَلْ، قَالَ: مَا ہُوَ؟ فَقَالَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: تَوَفَّی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ نَبِیَّہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَبْلَ أَنْ نَسْأَلَہُ عَنْ نَجَاۃِ ہٰذَا الْأَمْرِ، قَالَ أَبُو بَکْرٍ: قَدْ سَأَلْتُہُ عَنْ ذٰلِکَ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَیْہِ، فَقُلْتُ لَہُ: بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی أَنْتَ أَحَقُّ بِہَا، قَالَ أَبُو بَکْرٍ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ مَا نَجَاۃُ ہٰذَا الْأَمْرِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَنْ قَبِلَ مِنِّی الْکَلِمَۃَ الَّتِی عَرَضْتُ عَلٰی عَمِّی فَرَدَّہَا عَلَیَّ فَہِیَ لَہُ نَجَاۃٌ۔)) (مسند احمد: ۲۰)
سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا تو بعض صحابہ پر اس کا شدید اثر ہوا اور قریب تھا کہ ان میں سے بعض کی حالت غیر ہو جاتی، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:میں بھی ایسے ہی لوگوں میں سے تھا، میں ایک مکان کے سائے میں بیٹھا تھا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میرے پاس سے گزرے، انہوں نے مجھے سلام کہا، لیکن مجھے ان سے گزرنے اور سلام کہنے کا علم ہی نہیں ہوا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جا کر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے شکایت کی اور کہا: کیایہ بات آپ کے لیے تعجب انگیز نہیں کہ میں سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس سے گزرا، میں نے انہیں سلام کہا، لیکن انہوں نے سلام کا جواب تک نہیں دیا۔ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خلیفہ منتخب ہو چکے تھے، وہ دونوں میرے پاس آئے، دونوں نے مجھے سلام کہا اور پھر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تمہارے بھائی عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے میرے پاس آکر شکایت کی ہے کہ وہ تمہارے پاس سے گزرے اور سلام کہا، مگر آپ نے انہیں سلام کا جواب نہیں دیا، اس کی کیا وجہ تھی؟ میں نے عرض کیا:میں نے تو ایسا کیا ہی نہیں، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیوں نہیں؟ اللہ کی قسم ! میں نے سلام کہا ہے اور آپ نے جواب نہیں دیا، اے بنو امیہ! یہ تمہاری متکبرانہ عادت ہے، میں نے عرض کیا:اللہ کی قسم! مجھے تو پتہ ہی نہیں کہ آپ میرے پاس سے گزرے ہوں یا سلام کہا ہو۔ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ درست کہتے ہیں، آپ کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جدائی کا غم تھا، اس لیے آپ ادھر توجہ نہیں دے سکے، میں نے بھی کہا: جی ہاں ایسے ہی ہے، انہوں نے کہا، کیا ؟ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو موت دے دی اور ہم آپ سے یہ تو دریافت ہی نہیں کر سکے کہ قیامت کے دن اللہ کے عذاب سے نجات کیسے ہو گی؟ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بارے میں دریافت کر چکا ہو ں، پس میں اٹھ کر ان کی طرف گیا اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! واقعی آپ ہی اس بات کو دریافت کرنے کے زیادہ حق دار تھے، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:میں نے دریافت کیا تھا کہ اے اللہ کے رسول! قیامت کے دن اللہ کے عذاب سے نجات کیونکر ہو گی؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: میں نے جو کلمۂ اسلام اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا، مگر اس نے اسے قبول نہیں کیا تھا، جو آدمی بھی میری طرف سے اس کلمہ کو قبول کر لے یعنی اس کا دلی طور پر اقرار کر لے تو یہی کلمہ( توحید) اس کی نجات کا ذریعہ ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11038

۔ (۱۱۰۳۸)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، أَنَّ فَاطِمَۃَ بَکَتْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ: یَا أَبَتَاہُ! مِنْ رَبِّہِ مَا أَدْنَاہُ، یَا أَبَتَاہُ! إِلٰی جِبْرِیلَ اَنْعَاہُ، یَا أَبَتَاہُ! جَنَّۃُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاہُ۔ (مسند احمد: ۱۳۰۶۲)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات پر سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا روتے ہوئے یوں کہہ رہی تھی: اے میرے ابا جان! آپ اپنے رب کے کس قدر قریب پہنچ گئے، اے میرے ابا جان! میں جبریل کو آپ کی موت کی خبر دوں گی، اے میرے ابا جان! جنت الفردوس آپ کا ٹھکانا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11039

۔ (۱۱۰۳۹)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) أَنَّ أُمَّ أَیْمَنَ بَکَتْ لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقِیلَ لَہَا: مَا یُبْکِیکِ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ: إِنِّی قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَیَمُوتُ، وَلٰکِنْ إِنَّمَا أَبْکِی عَلَی الْوَحْیِ الَّذِی رُفِعَ عَنَّا۔ (مسند احمد: ۱۳۲۴۷)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات ہوئی تو سیدہ ام ایمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا رونے لگیں، ان سے کہا گیا کہ آپ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پرکیوں گریہ کرتی ہیں؟ انھوں نے کہا: میں یہ تو جانتی ہی تھی کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا عنقریب انتقال ہو جائے گا، لیکن میں تو اس لیے رو رہی ہوں کہ اب وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11040

۔ (۱۱۰۴۰)۔ عَنْ یَحْیَ بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ اَبِیْہِ عَبَّادٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَۃَ تَقُوْلُ: مَاتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَ سَحْرِیْ وَنَحْرِیْ وَفِیْ دَوْلَتِیْ لَمْ اَظْلِمْ فِیْہِ اَحَدًا، فَمِنْ سَفَہِیْ وَحَدَاثَۃِ سِنِّیْ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُبِضَ وَھُوَ فِیْ حِجْرِیْ، ثُمَّ وَضَعْتُ رَاْسَہٗعَلٰی وِسَادَۃٍ، وَقُمْتُ اَلْتَدِمُ مَعَ النِّسَائِ وَاَضْرِبُ وَجْہِیْ۔ (مسند احمد: ۲۶۸۸۰)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے،انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال میری گردن اور سینے کے درمیان میری ہی باری کے دن ہوا، میں نے اس دن کسی سے کچھ بھی زیادتی نہیں کی،یہ میری نا سمجھی اور نو عمری تھی کہ میری گود میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فوت ہوئے۔ پھر میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سر مبارک تکیہ پر رکھ دیا اور میں عورتوں کے ساتھ مل کر رونے لگی اور اپنے چہرے پر ہاتھ مارنے لگی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11041

۔ (۱۱۰۴۱)۔ عَنْ عَائِشَۃَ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ دَخَلَ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْدَ وَفَاتِہِ فَوَضَعَ فَمَہُ بَیْنَ عَیْنَیْہِ، وَوَضَعَ یَدَیْہِ عَلَی صُدْغَیْہِ، وَقَالَ وَا نَبِیَّاہْ، وَا خَلِیلَاہْ، وَا صَفِیَّاہْ۔ (مسند احمد: ۲۴۵۳۰)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور اپنا منہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دونوں آنکھوں کے درمیان اور اپنے ہاتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کنپٹیوں پر رکھے اور کہا: ہائے میرے نبی ! ہائے میرے خلیل ! ہائے اللہ کے منتخب نبی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11042

۔ (۱۱۰۴۲)۔ (وَعَنْہَا اَیْضًًا) أَنَّ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّیقَ دَخَلَ عَلَیْہَا فَتَیَمَّمَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ مُسَجًّی بِبُرْدِ حِبَرَۃٍ فَکَشَفَ عَنْ وَجْہِہِ، ثُمَّ أَکَبَّ عَلَیْہِ فَقَبَّلَہُ وَبَکٰی، ثُمَّ قَالَ: بِأَبِی وَأُمِّی وَاللّٰہِ! لَا یَجْمَعُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْکَ مَوْتَتَیْنِ أَبَدًا، أَمَّا الْمَوْتَۃُ الَّتِی قَدْ کُتِبَتْ عَلَیْکَ فَقَدْ مِتَّہَا۔ (مسند احمد: ۲۵۳۷۵)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ (نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے انتقال کے بعد) سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے ہاں آئے اور سیدھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر دھاری دارچادر ڈالی گئی تھی، انہوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرۂ انور سے کپڑا ہٹایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اوپر جھک گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بوسہ دیا اور رونے لگے، پھر کہا: میرا باپ اور ماں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر فدا ہوں، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر دو موتیں کبھی بھی جمع نہیں کرے گا، پہلی موت جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے مقدر تھی وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر آچکی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11043

۔ (۱۱۰۴۳)۔ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ: کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یُحَدِّثُ: أَنَّ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّیقَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، وَعُمَرُ یُحَدِّثُ النَّاسَ، فَمَضٰی حَتّٰی أَتَی الْبَیْتَ الَّذِی تُوُفِّیَ فِیہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ فِی بَیْتِ عَائِشَۃَ، فَکَشَفَ عَنْ وَجْہِہِ بُرْدَ حِبَرَۃٍ کَانَ مُسَجًّی بِہِ، فَنَظَرَ إِلٰی وَجْہِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ أَکَبَّ عَلَیْہِیُقَبِّلُہُ، ثُمَّ قَالَ: وَاللّٰہِ! لَا یَجْمَعُ اللّٰہُ عَلَیْہِ مَوْتَتَیْنِ، لَقَدْ مِتَّ الْمَوْتَۃَ الَّتِی لَا تَمُوتُ بَعْدَہَا۔ (مسند احمد: ۳۰۹۰)
سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے تھے کہ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مسجد میں داخل ہوئے، وہاں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لوگوں سے محوِ کلام تھے، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگے چلتے گئے، یہاں تک کہ وہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے گھر داخل ہو گئے، جہاں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہو چکا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک دھاری دار چادر سے ڈھانپا گیا تھا، انہوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرہ اقدس سے کپڑا ہٹا کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرہ کی طرف دیکھا اور بوسہ دینے کے لیے نیچے کو جھکے اور پھر کہا: اللہ کی قسم!اللہ تعالیٰ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر دو موتوں کو جمع نہیں کرے گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وہ موت طاری ہو چکی ہے، جس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر موت طاری نہیں ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11044

۔ (۱۱۰۴۴)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا اجْتَمَعَ الْقَوْمُ لِغُسْلِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَیْسَ فِی الْبَیْتِ إِلَّا أَہْلُہُ عَمُّہُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَعَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ، وَالْفَضْلُ بْنُ الْعَبَّاسِ، وَقُثَمُ بْنُ الْعَبَّاسِ، وَأُسَامَۃُ بْنُ زَیْدِ بْنِ حَارِثَۃَ، وَصَالِحٌ مَوْلَاہُ، فَلَمَّا اجْتَمَعُوا لِغُسْلِہِ نَادٰی مِنْ وَرَائِ الْبَابِ أَوْسُ بْنُ خَوْلِیِّ نِ الْأَنْصَارِیُّ، ثُمَّ أَحَدُ بَنِی عَوْفِ بْنِ الْخَزْرَجِ، وَکَانَ بَدْرِیًّا عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقَالَ لَہُ: یَا عَلِیُّ نَشَدْتُکَ اللّٰہَ! وَحَظَّنَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ: ادْخُلْ، فَدَخَلَ فَحَضَرَ غُسْلَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَمْ یَلِ مِنْ غُسْلِہِ شَیْئًا، قَالَ: فَأَسْنَدَہُ إِلٰی صَدْرِہِ وَعَلَیْہِ قَمِیصُہُ، وَکَانَ الْعَبَّاسُ وَالْفَضْلُ وَقُثَمُ یُقَلِّبُونَہُ مَعَ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَکَانَ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ وَصَالِحٌ مَوْلَاہُمَا یَصُبَّانِ الْمَائَ، وَجَعَلَ عَلِیٌّیَغْسِلُہُ، وَلَمْ یُرَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ شَیْئٌ مِمَّا یُرٰی مِنَ الْمَیِّتِ، وَہُوَ یَقُولُ: بِأَبِی وَأُمِّی مَا أَطْیَبَکَ حَیًّا وَمَیِّتًا، حَتّٰی إِذَا فَرَغُوا مِنْ غُسْلِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکَانَ یُغَسَّلُ بِالْمَائِ وَالسِّدْرِ جَفَّفُوہُ، ثُمَّ صُنِعَ بِہِ مَا یُصْنَعُ بِالْمَیِّتِ، ثُمَّ أُدْرِجَ فِی ثَلَاثَۃِ أَثْوَابٍ ثَوْبَیْنِ أَبْیَضَیْنِ وَبُرْدِ حِبَرَۃٍ، ثُمَُُُُّ دَعَا الْعَبَّاسُ رَجُلَیْنِ، فَقَالَ: لِیَذْہَبْ أَحَدُکُمَا إِلَی أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ، وَکَانَ أَبُو عُبَیْدَۃَیَضْرَحُ لِأَہْلِ مَکَّۃَ، وَلْیَذْہَبْ الْآخَرُ إِلَی أَبِی طَلْحَۃَ بْنِ سَہْلٍ الْأَنْصَارِیِّ، وَکَانَ أَبُو طَلْحَۃَیَلْحَدُ لِأَہْلِ الْمَدِینَۃِ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ الْعَبَّاسُ لَہُمَا حِینَ سَرَّحَہُمَا: اللَّہُمَّ خِرْ لِرَسُولِکَ، قَالَ: فَذَہَبَا فَلَمْ یَجِدْ صَاحِبُ أَبِی عُبَیْدَۃَ أَبَا عُبَیْدَۃَ وَوَجَدَ صَاحِبُ أَبِی طَلْحَۃَ أَبَا طَلْحَۃَ فَجَائَ بِہِ، فَلَحَدَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۳۵۷)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو غسل دینے کے لیے لوگ جمع ہوئے، گھر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اہل خانہ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چچا سیدنا عباس بن عبدالمطلب، سیدنا علی بن ابی طالب، سیدنا فضل بن عباس، سیدنا قثم بن عباس، سیدنا اسامہ بن زید بن حار ثہ اجمعین اور ان کا غلام سیدنا صالح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، یہ لوگ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو غسل دینے کے لیے جمع ہوئے تو دروازہ کے باہر سے بنو عوف بن خزرج کے ایک فرد سیدنا اوس بن خولی انصاری بدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو آواز دیتے ہوئے کہا: اے علی! میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، ہمارا بھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر حق اور حصہ ہے۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: اندر آجاؤ، سو وہ اندر آگئے، وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے غسل کے موقع پر حاضر رہے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو غسل دینے میں شریک نہیں ہو سکے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر قمیض اسی طرح رہی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے سینے سے لگا لیا، سیدنا عباس، سیدنا فضل اور سیدنا قثم ، سیدنا علی بن ابی طالب کے ساتھ مل کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پہلو کو بدلتے اور سیدنا اسامہ بن زید اور ان کا غلام سیدنا صالح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پانی ڈالتے اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو غسل دیتے، عام طور پر فوت ہونے والوں کے جسم میں جو ناروا باتیں دیکھی جاتی ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو غسل دیتے جاتے اور کہتے: میرے ماں باپ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر فدا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی زندگی میں اور زندگی کے بعد بھی کس قدر پاکیزہ ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بیری کے پتے ملے پانی سے غسل دیا گیا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو غسل دینے سے فارغ ہوئے تو انہوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جسم کو خشک کیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ وہ سارے کام کئے گئے جو میت کے ساتھ کئے جاتے ہیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تین کپڑوں میں داخل کیا گیا، ان میں سے دو سفید تھے اور ایک دھاری دار چادر تھی، اس کے بعد سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے دو آدمیوں کو بلوا کر ایک کو سیدنا ابو عبیدہ بن جراح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف اور دوسرے کو سیدنا ابو طلحہ بن سھل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ انصاری کو بلانے کے لیے بھیجا، سیدنا ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مکہ میں اہل مکہ کے لیے قبر کھودا کرتے تھے، یہ صندوقییعنی شق والی قبر بناتے تھے اور سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اہل مدینہ کے لیے بغلییعنی لحد والی قبر تیار کیا کرتے تھے، سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان دونوں کو روانہ کرنے کے بعد کہا: اے اللہ ! ان دونوں میں سے تو جسے چاہے، اپنے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے اختیار فرما، وہ دونو ں گئے، جو آدمی سیدنا عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلانے گیا تھا، وہ اسے نہیں مل سکے، اور جو آدمی سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلانے گیا تھا، وہ اسے مل گئے، چنانچہ وہ ان کو ساتھ لے آئے اور انہوں نے آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے لحدوالی (بغلی قبر) تیار کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11045

۔ (۱۱۰۴۵)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: لَمَّا أَرَادُوا غُسْلَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اخْتَلَفُوا فِیہِ، فَقَالُوا: وَاللّٰہِ! مَا نَرٰی کَیْفَ نَصْنَعُ أَنُجَرِّدُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَمَا نُجَرِّدُ مَوْتَانَا أَمْ نُغَسِّلُہُ وَعَلَیْہِ ثِیَابُہُ؟ قَالَتْ: فَلَمَّا اخْتَلَفُوا أَرْسَلَ اللّٰہُ عَلَیْہِمُ السِّنَۃَ حَتّٰی وَاللّٰہِ مَا مِنَ الْقَوْمِ مِنْ رَجُلٍ إِلَّا ذَقْنُہُ فِی صَدْرِہِ نَائِمًا، قَالَتْ: ثُمَّ کَلَّمَہُمْ مِنْ نَاحِیَۃِ الْبَیْتِ لَا یَدْرُونَ مَنْ ہُوَ، فَقَالَ: اغْسِلُوا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعَلَیْہِ ثِیَابُہُ، قَالَتْ: فَثَارُوْا إِلَیْہِ فَغَسَّلُوا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ فِی قَمِیصِہِ،یُفَاضُ عَلَیْہِ الْمَائُ وَالسِّدْرُ وَیُدَلِّکُہُ الرِّجَالُ بِالْقَمِیصِ، وَکَانَتْ تَقُولُ: لَوْ اسْتَقْبَلْتُ مِنَ الْأَمْرِ مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا غَسَّلَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَّا نِسَاؤُہُ۔ (مسند احمد: ۲۶۸۳۷)
سیدنا عبداللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ جب اہل خانہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو غسل دینے کا ارادہ کیا تو ان کا آپس میں اختلاف ہو گیا، وہ کہنے لگے: اللہ کی قسم ہم نہیں جانتے کہ ہم کیا کریں؟ کیا ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بھی اسی طرح برہنہ کریں، جیسے ہم اپنے مردوں کو برہنہ کیا کرتے ہیں؟یا ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کپڑوں سمیت ہی غسل دے دیں؟ سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے: جب ان میں اس بات پر اختلاف ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ان سب پر اونگھ سی طاری کر دی،یہاں تک کہ نیند کی حالت میں سب لوگوں کی ٹھوڑیاں ان کے سینوں پر جا لگیں، پھر گھر کے ایک کونے سے کسی نے ان سے بات کی، ان کو پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کون تھا؟ اس نے کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کپڑوں سمیت غسل دو، وہ سب جلدی سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف گئے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو قمیص سمیت غسل دیا، اس کے اوپر سے ہی پانی اور بیری کے پتوں کو بہایا گیا، اور مرد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جسم کو قمیص سمیت ملتے تھے۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی تھیں کہ جو بات مجھے بعد میں معلوم ہوئی اگر پہلے معلوم ہو جاتی تورسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ازواج ہی غسل دیتیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11046

۔ (۱۱۰۴۶)۔ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ: کَانَ الْمَائُ مَائُ غُسْلِہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ غَسَّلُوہُ، بَعْدَ وَفَاتِہِ یَسْتَنْقِعُ فِی جُفُونِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَکَانَ عَلِیٌّیَحْسُوہُ۔ (مسند احمد: ۲۴۰۳)
جعفر بن محمد سے مروی ہے کہ صحابۂ کرام نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جب غسل دیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے غسل کا پانی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے برتنوں میں جمع ہو گیا اور علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اسے گھونٹ بھر بھر نوش کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11047

۔ (۱۱۰۴۷)۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیِّ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ عَنْ أَبِیْہِ (عَلِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) قَالَ: کُفِّنَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی سَبْعَۃِ أَثْوَابٍ ۔ (مسند احمد: ۷۲۸)
سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سات کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11048

۔ (۱۱۰۴۸)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کُفِّنَ فِی ثَـلَاثَۃِ أَثْوَبٍ: فِی قَمِیْصِہِ الَّذِی مَاتَ فِیْہِ، وَحُلَّۃٍ نَجْرَانِیَّۃٍ، اَلْحُلَّۃُ ثَوْبَانِ۔ (مسند احمد: ۱۹۴۲)
سیّدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تین کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا، ایک قمیص تھی، جس میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فوت ہوئے تھے اور نجرانی حُلّہ (جوڑا) تھا، حلہ دو کپڑوں کا ہوتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11049

۔ (۱۱۰۴۹)۔ وَعَنْہُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَیْضًا قَالَ: کُفِّنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہِ وَصَحْبِہِ وَسَلَّمَ فِی بُرْدَیْنِ أَبْیَضَیْنِ وَبُرْدٍ أَحْمَرَ۔ (مسند احمد: ۲۸۶۳)
سیّدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سفید رنگ کی دو اور سرخ رنگ کی ایک چادر میں کفن دیا گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11050

۔ (۱۱۰۵۰)۔ عَنْ عَائِشَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کُفِّنَ فِی ثَلَاثَۃِ أَثْوَابٍ سُحُولِیَّۃٍ بِیضٍ، وَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: فِی أَیِّ شَیْئٍ کُفِّنَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُلْتُ: فِی ثَلَاثَۃِ أَثْوَابٍ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فِیْ ثَلَاثَۃِ رِیَاطٍیَمَانِیَّۃٍ) قَالَ: کَفِّنُونِی فِی ثَوْبَیَّ ہٰذَیْنِ وَاشْتَرُوا ثَوْبًا آخَرَ۔ (مسند احمد: ۲۴۶۲۳)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سحول مقام کے بنے ہوئے تین سفید کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا، اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے (اپنی وفات کے وقت) دریافت کیا تھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کتنے کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ تین کپڑوں میں، ایک روایت میں ہے کہ تینیمنی چادروں میں،یہ سن کر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم مجھے میرے ان دو ( زیر استعمال) کپڑوں میں کفن دینا اور مزید ایک کپڑا خرید لینا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11051

۔ (۱۱۰۵۱)۔ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: أُدْرِجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی ثَوْبٍ حِبَرَۃٍ، ثُمَّ أُخِذَ عَنْہُ، قَالَ الْقَاسِمُ: إِنَّ بَقَایَا ذٰلِکَ الثَّوْبِ لَعِنْدَنَا بَعْدُ۔ (مسند احمد: ۲۵۷۹۴)
قاسم بن محمد سے مروی ہے کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دھاری دار کپڑے سے ڈھانپا گیا تھا، پھر اس کپڑے کو اتار لیا گیا تھا۔ قاسم بن محمد نے بیان کیا : اس کپڑے کے کچھ بچے ہوئے ٹکڑے تاحال ہمارے پاس موجود ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11052

۔ (۱۱۰۵۲)۔ حَدَّثَنَا بَہْزٌ وَأَبُو کَامِلٍ قَالَا: ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِی عِمْرَانَ یَعْنِی الْجَوْنِیَّ عَنْ أَبِی عَسِیبٍ أَوْ أَبِی عَسِیمٍ قَالَ بَہْزٌ: إِنَّہُ شَہِدَ الصَّلَاۃَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالُوْا: کَیْفَ نُصَلِّی عَلَیْہِ، قَالَ: ادْخُلُوْا أَرْسَالًا أَرْسَالًا، قَالَ: فَکَانُوا یَدْخُلُونَ مِنْ ہٰذَا الْبَابِ فَیُصَلُّونَ عَلَیْہِ، ثُمَّ یَخْرُجُونَ مِنَ الْبَابِ الْآخَرِ، قَالَ: فَلَمَّا وُضِعَ فِی لَحْدِہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ الْمُغِیرَۃُ: قَدْ بَقِیَ مِنْ رِجْلَیْہِ شَیْئٌ لَمْ یُصْلِحُوہُ، قَالُوْا: فَادْخُلْ فَأَصْلِحْہُ، فَدَخَلَ وَأَدْخَلَ یَدَہُ فَمَسَّ قَدَمَیْہِ، فَقَالَ: أَہِیلُوْا عَلَیَّ التُّرَابَ، فَأَہَالُوْا عَلَیْہِ التُّرَابَ حَتَّی بَلَغَ أَنْصَافَ سَاقَیْہِ ثُمَّ خَرَجَ، فَکَانَ یَقُولُ: أَنَا أَحْدَثُکُمْ عَہْدًا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۱۰۴۷)
سیدنا ابو عسیبیا ابو عسیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ،جو کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نماز جنازہ کے موقع پر حاضر تھے، بیان کرتے ہیں: صحابہ کہنے لگے کہ ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر نماز کیسے پڑھیں، انھوں نے کہا: تم گروہوں کی صورت میں اندر جاؤ، سو وہ اس دروازے سے داخل ہوتے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نماز ادا کرتے اور پھر دوسرے دروازے سے باہر چلے جاتے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو لحد میں رکھ دیا گیا، تو سیدنا مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاؤں کی جانب کچھ جگہ قابلِ اصلاح رہ گئی ہے، صحابہ نے ان سے کہا: تم لحد میں داخل ہو کر اسے ٹھیک کر آؤ، وہ اندر گئے، اپنا ہاتھ اندر داخل کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قدم مبارک کو مس کیا اور ساتھ ہی کہا کہ تم میرے اوپر مٹی ڈال دو، صحابہ نے ان کے اوپر مٹی ڈال دی،یہاں تک کہ ان کی نصف پنڈلیوں تک مٹیآگئی، اس کے بعد وہ باہر آگئے، وہ کہا کرتے تھے تم سب کی نسبت میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سب سے آخر میں مس کرنے کا اعزاز حاصل کر چکا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11053

۔ (۱۱۰۵۳)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ: اعْتَمَرْتُ مَعَ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی زَمَانِ عُمَرَ أَوْ زَمَانِ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَنَزَلَ عَلٰی أُخْتِہِ أُمِّ ہَانِئٍ بِنْتِ أَبِی طَالِبٍ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ عُمْرَتِہِ رَجَعَ فَسُکِبَ لَہُ غُسْلٌ فَاغْتَسَلَ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِہِ دَخَلَ عَلَیْہِ نَفَرٌ مِنْ أَہْلِ الْعِرَاقِ، فَقَالُوا: یَا أَبَا حَسَنٍ جِئْنَاکَ نَسْأَلُکَ عَنْ أَمْرٍ نُحِبُّ أَنْ تُخْبِرَنَا عَنْہُ، قَالَ: أَظُنُّ الْمُغِیرَۃَ بْنَ شُعْبَۃَیُحَدِّثُکُمْ أَنَّہُ کَانَ أَحْدَثَ النَّاسِ عَہْدًا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالُوا: أَجَلْ عَنْ ذٰلِکَ جِئْنَا نَسْأَلُکَ، قَالَ: أَحْدَثُ النَّاسِ عَہْدًا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُثَمُ بْنُ الْعَبَّاسِ۔ (مسند احمد: ۷۸۷)
عبداللہ بن حارث سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے دورِ خلافت میں سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معیت میں عمرہ کیا، آپ اپنی ہمشیرہ سیدہ ام ہانی بنت ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں مہمان ٹھہرے، جب آپ عمرہ سے فارغ ہوئے تو آپ کے غسل کے لیے پانی رکھا گیا، چنانچہ آپ نے غسل کیا، جب آپ غسل سے فارغ ہوئے تو عراق کے کچھ لوگ آپ سے ملنے آئے، انہوں نے کہا: اے ابو الحسن! ہم آپ سے ایک بات پوچھنے آئے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں اس کے متعلق بتلائیں، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میرا خیال ہے کہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ لوگوں سے کہتے ہوں گے کہ ان کو سب سے آخر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو چھونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے؟ ان لوگوں نے کہا: جی ہاں، ہم اسی کے متعلق آپ سے دریافت کرنے آئے ہیں، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سب سے آخر میں سیدنا قثم بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے چھونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11054

۔ (۱۱۰۵۴)۔ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِی أَبِی: أَنَّ أَصْحَابَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یَدْرُوْا أَیْنَیَقْبُرُونَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی قَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((لَنْ یُقْبَرَ نَبِیٌّ إِلَّا حَیْثُیَمُوتُ۔)) فَأَخَّرُوْا فِرَاشَہُ وَحَفَرُوْا لَہُ تَحْتَ فِرَاشِہِ۔ (مسند احمد: ۲۷)
ابن جریح سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے میرے والد نے بتلایا ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کہاں دفن کریں،یہاں تک کہ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یوں فرماتے سنا تھا کہ نبی جہاں فوت ہوتا ہے، اسے وہیںدفن کیا جاتا ہے۔ چنانچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بستر کو ہٹا کر اسی کے نیچے والی جگہ کو قبر کے لیے کھودا گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11055

۔ (۱۱۰۵۵)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: لَمَّا تُوُفِّیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: کَانَ رَجُلٌ یَلْحَدُ وَآخَرُ یَضْرَحُ فَقَالُوْا: نَسْتَخِیرُ رَبَّنَا، فَبَعَثَ إِلَیْہِمَا فَأَیُّہُمَا سُبِقَ تَرَکْنَاہُ، فَأَرْسَلَ إِلَیْہِمَا فَسَبَقَ صَاحِبُ اللَّحْدِ فَأَلْحَدُوا لَہُ۔ (مسند احمد: ۱۲۴۴۲)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات ہوئی تو مدینہ منورہ میں ایک آدمی لحد والییعنی بغلی قبر بناتا تھا اور دوسرا صندوقییعنی شق والی قبر بناتا تھا، صحابۂ کرام نے مشورہ کیا کہ اس بارے میں ہم اللہ تعالیٰ سے استخارہ ( یعنی خیر طلب) کرتے ہیں اور ہم ان دونوں کی طرف پیغام بھیج کر انہیں بلواتے ہیں، جو پیچھے رہ گیا ہم اسے رہنے دیں گے، سو دونوں کی طرف پیغام بھیجا گیا اور لحد والی قبر بنانے والا پہلے آگیا، پس انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے لحد تیار کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11056

۔ (۱۱۰۵۶)۔ حَدَّثَنَا وَکِیعٌ حَدَّثَنَا الْعُمَرِیُّ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَائِشَۃَ: أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُلْحِدَ لَہُ لَحْدٌََََ۔ (مسند احمد: ۴۷۶۲)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے لحد تیار کی گئی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11057

۔ (۱۱۰۵۷)۔ عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ المُؤْمِنِینَ قَالَتْ: مَا عَلِمْنَا بِدَفْنِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی سَمِعْنَا صَوْتَ الْمَسَاحِی مِنْ جَوْفِ اللَّیْلِ لَیْلَۃَ الْأَرْبِعَائ،ِ قَالَ مَحَمَّدٌ: وَقَدْ حَدَّثَتْنِی فَاطِمَۃُ: بِہٰذَا الْحَدِیثِ۔ (مسند احمد: ۲۶۸۸۱)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دفن کئے جانے کا علم نہ ہو سکا تاآنکہ ہم نے بدھ کے دن رات کے وقت گینتیوں کی آوازیں سنیں۔ صاحب ِ مغازی محمد بن اسحاق نے بیان ہے کہ مجھ سے یہ حدیث عبداللہ بن ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی زوجہ فاطمہ بنت محمد نے بیان کی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11058

۔ (۱۱۰۵۸)۔ (وَعَنْہَا اَیْضًا) قَالَتْ: تُوُفِّیَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ الِاثْنَیْنِ، وَدُفِنَ لَیْلَۃَ الْأَرْبِعَائِ۔ (مسند احمد: ۲۵۳۰۰)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات سوموار کے دن ہوئی تھی اور تدفین بدھ کی رات کو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11059

۔ (۱۱۰۵۹)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جُعِلَ فِی قَبْرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَطِیفَۃٌ حَمْرَائُ۔ (مسند احمد: ۳۳۴۱)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قبر کے اندر ایک سرخ رنگ کی چادر رکھی گئی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11060

۔ (۱۱۰۶۰)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَا تَتَّخِذُوا قَبْرِی عِیدًا، وَلَا تَجْعَلُوا بُیُوتَکُمْ قُبُورًا، وَحَیْثُمَا کُنْتُمْ فَصَلُّوا عَلَیَّ فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ تَبْلُغُنِیْ۔)) (مسند أحمد: ۸۷۹۰)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہ میری قبر کو عید بناؤ اور نہ اپنے گھروں کو قبرستان بناؤ اور تم جہاں کہیں بھی ہو، مجھ پر درود پڑھا کرو، کیونکہ تمہارا درود مجھ تک پہنچ جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11061

۔ (۱۱۰۶۱)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: لَمَّا کَانَ الْیَوْمُ الَّذِی دَخَلَ فِیہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَدِینَۃَ أَضَائَ مِنَ الْمَدِینَۃِ کُلُّ شَیْئٍ، فَلَمَّا کَانَ الْیَوْمُ الَّذِی مَاتَ فِیہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَظْلَمَ مِنَ الْمَدِینَۃِ کُلُّ شَیْئٍ، وَمَا فَرَغْنَا مِنْ دَفْنِہِ حَتّٰی أَنْکَرْنَا قُلُوبَنَا۔ (مسند احمد: ۱۳۳۴۵)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جس دن اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے تھے، مدینہ منورہ کی ہر چیز روشن ہو گئی، لیکن جس روز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہو،ا اس دن مدینہ منورہ کی ہر چیز پر اندھیرا چھایا ہوا تھا اور ہم ابھی تک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دفن سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ ہم نے اپنے دلوں میں تبدیلی محسوس کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11062

۔ (۱۱۰۶۲)۔ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِیَّ قَالَ أَنَسٌ: فَلَمَّا دَفَنَّا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرَجَعْنَا قَالَتْ فَاطِمَۃُ: یَا أَنَسُ! أَطَابَتْ أَنْفُسُکُمْ أَنْ دَفَنْتُمْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی التُّرَابِ وَرَجَعْتُمْ۔ (مسند احمد: ۱۳۱۴۸)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دفن کر کے واپس آئے تو سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: ارے انس! تمہارے دلوں نے اس بات کو کیسے گوارا کر لیا کہ تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مٹی میں دفن کر کے واپس چلے آئے۔ (۱۱۰۶۲)۔ اس جسد اطہر کو دفن کرنے کے لیے مٹی تو ڈالنی ہی تھی، بس سیدہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عظمت اور اپنے غم کا اظہار کر رہی تھی، سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بظاہر تو خاموش ہو گئے، لیکن وہ زبانِ حال سے یہ کہہ رہے تھے کہ یہ مٹی ڈالنا ہمیں بھی گوارا نہ تھا، لیکن کیا کرتے، آخر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا حکم جو یہی تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11063

۔ (۱۱۰۶۳)۔ (۱۰۴۶۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: وُلِدَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ الْإِثْنَیْنِ وَاسْتُنْبِیئَیَوْمَ الْإِثْنَیْنِ، وَتُوُفِّیَیَوْمَ الْإِثْنَیْنِ، وَخَرَجَ مُھَاجِرًا مِنْ مَکَّۃَ اِلَی الْمَدِیْنَۃِیَوْمَ الْإِثْنَیْنِ، وَقَدِمَ الْمَدِیْنَۃَیَوْمَ الْإِثْنَیْنِ، وَرَفَعَ الْحَجَرَ الْأَسْوَدَ یَوْمَ الْإِثْنَیْنِ۔ (مسند احمد: ۲۵۰۶)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سوموار کے دن پیدا ہوئے، سوموار کے دن نبوت ملی اور سوموار کو ہی وفات پائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے لیے سوموار کو نکلے اور سوموار کو ہی مدینہ منورہ پہنچے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سوموار کے دن ہیحجرِ اسود کو اٹھایا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11064

۔ (۱۱۰۶۴)۔ عَنْ جَرِیرٍ قَالَ: قَالَ لِی حَبْرٌ بِالْیَمَنِ: إِنْ کَانَ صَاحِبُکُمْ نَبِیًّا فَقَدْ مَاتَ الْیَوْمَ، قَالَ جَرِیرٌ: فَمَاتَ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۹۴۴۵)
سیدناجریر بن عبداللہ بَجَلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: یمن میں ایکیہودی عالم نے مجھ سے کہا کہ اگر تمہارا ساتھی سچا نبی تھا تو آج ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ سیدنا جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: واقعی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سوموار کے دن فوت ہوئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11065

۔ (۱۱۰۶۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قُبِضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ ابْنُ خَمْسٍ وَسِتِّیْنَ۔ (مسند احمد: ۱۸۴۶)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال پینسٹھ برس کی عمر میں ہوا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11066

۔ (۱۱۰۶۶)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ: أُنْزِلَ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَأَرْبَعِینَ، فَمَکَثَ بِمَکَّۃَ عَشْرًا وَبِالْمَدِینَۃِ عَشْرًا، وَقُبِضَ وَہُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّینَ۔ (مسند احمد: ۲۰۱۷)
سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر نزولِ وحی کا آغاز ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عمر مبارک تینتالیس برس تھی، اس کے بعد آپ نے مکہ مکرمہ میں دس سال اور مدینہ منورہ دس سال قیام کیا اور تریسٹھ برس کی عمر میں آپ کا انتقال ہوا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11067

۔ (۱۱۰۶۷)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: قُبِضَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَّسِتِّیْنَ سَنَۃً۔ (مسند احمد: ۲۵۱۲۵)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا تریسٹھ برس کی عمر میں انتقال ہوا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11068

۔ (۱۱۰۶۸)۔ جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُولُ: سَمِعْتُ مُعَاوِیَۃَ بْنَ أَبِی سُفْیَانَ،یَقُولُ: وَہُوَ یَخْطُبُ تُوُفِّیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّینَ، وَتُوُفِّیَ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ وَہُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّینَ، وَتُوُفِّیَ عُمَرُ وَہُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّینَ، قَالَ مُعَاوِیَۃُ: وَأَنَا الْیَوْمَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّینَ۔ (مسند احمد: ۱۶۹۹۸)
سیدنا جریر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا معاویہ بن ابی سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خطبہ میںیوں کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات تریسٹھ سال کی عمر میں اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی وفات بھی تریسٹھ سال کی عمر میں اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا انتقال بھی تریسٹھ سال کیعمر میں ہوا۔ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مزید کہا کہ اب میری عمر بھی تریسٹھ سال ہو چکی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11069

۔ (۱۱۰۶۹)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: مَا تَرَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دِیْنَارًا، وَلَا دِرْھَمًا، وَلَا شَاۃً، وَلَا بَعِیْرًا، وَلَا اَوْصٰی بِشَیْئٍ۔ (مسند احمد: ۲۴۶۷۹)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دینار، درہم، بکری اور اونٹ ترکہ میں کچھ نہیں چھوڑا اور نہ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایسی کسی چیز کے بارے میں کوئی وصیت کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11070

۔ (۱۱۰۷۰)۔ عَنْ سُفْیَانَ وَاِسْحٰقَ یَعْنِی الْاَزْرَقَ قَالَ: قَالَ: ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ اَبِیْ اِسْحٰقَ قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ الْحَارِثِ قَالَ: اِسْحٰقُ ابْنِ الْمُصْطَلِقِ یَقُوْلُ: مَا تَرَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَّا سَلَاحَہٗ،وَبَغْلَۃً بَیْضَائَ، وَاَرْضًا جَعَلَہَا صَدَقَۃً۔ (مسند احمد: ۱۸۶۴۹)
سیدنا عمرو بن الحارث بن مصطلق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صرف اسلحہ، سفید خچر اور کچھ زمین چھوڑی تھی اور ان کی حیثیت بھی صدقہ کی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11071

۔ (۱۱۰۷۱)۔ عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ قَالَ: دَخَلْتُ عَلٰی عَائِشَۃَ، فَأَخْرَجَتْ إِلَیْنَا إِزَارًا غَلِیظًا مِمَّا صُنِعَ بِالْیَمَنِ، وَکِسَائً مِنَ الَّتِییَدْعُونَ الْمُلَبَّدَۃَ، قَالَ بَہْزٌ: تَدْعُونَ، فَقَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُبِضَ فِی ہٰذَیْنِ الثَّوْبَیْنِ۔ (مسند احمد: ۲۵۵۱۱)
سیدنا ابو بردہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی خدمت میں گیا، انہوں نے ہمیںیمن میں تیار ہونے والی ایک موٹی سی چادر اور ایک ایسی چادر نکال کر دکھائی جسے تم لوگ مُلَبَّدَۃ کہتے ہو اور کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ دو چادریں زیب تن کئے ہوئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11072

۔ (۱۱۰۷۲)۔ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اَنَّ اَزْوَاجَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِیْنَ تُوُفِیِّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَرَدْنَ أَنْ یُرْسِلْنَ عُثْمَانَ إِلٰی اَبِیْ بَکْرٍ یَسْأَلْنَہُ مِیْرَاثَہُنَّ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فقَالَتْ لَھُنَّ عَائِشَۃُ: أَوَ لَیْسَ قَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا نُوْرَثُ، مَا تَرَکْنَاہُ فَہُوَ صَدَقَۃٌ۔)) (مسند احمد: ۲۶۷۹۰)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفات پاگئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ازواج مطہرات نے چاہا کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف بھیجیں، تاکہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اپنی میراث کا مطالبہ کر سکیں، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان سے کہا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ ہمارے وارث نہیں بنتے، ہم جو کچھ چھوڑکر جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11073

۔ (۱۱۰۷۳)۔ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّا مَعْشَرَ الْأَنْبِیَائِ لَا نُوْرَثُ، مَا تَرَکْتُ بَعْدَ مَئُوْنَۃِ عَامِلِیْ وَنَفَقَۃِ نِسَائِیْ صَدَقَۃٌ۔)) (مسند احمد: ۹۹۷۳)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم جو انبیاء کی جماعت ہیں،ہمارا کوئی وارث نہیں بنتا، میں اپنے عاملوں اور بیویوں کے اخراجات کے بعد جو کچھ چھوڑوں، وہ صدقہ ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11074

۔ (۱۱۰۷۴)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: کَانَتْ دِرْعُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَرْہُونَۃً، مَا وَجَدَ مَا یَفْتَکُّہَا حَتّٰی مَاتَ۔ (مسند احمد: ۱۲۰۱۶)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ایک زرہ کسی کے پاس گروی رکھی ہوئی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات تک اتنی گنجائش نہیں تھی کہ آپ اسے واپس لے سکتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11075

۔ (۱۱۰۷۵)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَیَبْلُغُ بِہِ وَقَالَ مَرَّۃً: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَا تَقْتَسِمُ وَرَثَتِی دِینَارًا وَلَا دِرْہَمًا، مَا تَرَکْتُ بَعْدَ نَفَقَۃِ نِسَائِی وَمَئُونَۃِ عَامِلِی فَہُوَ صَدَقَۃٌ۔)) زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ بَعْدَ قَوْلِہِ: ((وَمَئُونَۃِ عَامِلِی۔)) قَالَ یَعْنِی عَامِلَ اَرْضِہِ۔ (مسند احمد: ۷۳۰۱)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے ورثاء دینار اور درہم تقسیم نہیں کریں گے، میں اپنی ازواج کے نان و نفقہ اور اپنے زرعی رقبہ پر مقرر کردہ عامل کے اخراجات کے بعد جو کچھ چھوڑ جاؤں، وہ صدقہ ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11076

۔ (۱۱۰۷۶)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا : أَنَّ فَاطِمَۃَ وَالْعَبَّاسَ أَتَیَا أَبَا بَکْرٍ یَلْتَمِسَانِ مِیرَاثَہُمَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُمَا حِینَئِذٍیَطْلُبَانِ أَرْضَہُ مِنْ فَدَکَ وَسَہْمَہُ مِنْ خَیْبَرَ، فَقَالَ لَہُمَا أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((لَا نُورَثُ، مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ۔)) وَإِنَّمَا یَأْکُلُ آلُ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی ہٰذَا الْمَالِ، وَإِنِّی وَاللّٰہِ لَا أَدَعُ أَمْرًا رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَصْنَعُہُ فِیہِ إِلَّا صَنَعْتُہُ۔ (مسند احمد: ۹)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی فدک والی زمین اور خیبر والے حصہ میں سے اپنا میراث والا حق طلب کیا، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے فرمایا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ہمارے وارث نہیں بنتے، ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتاہے۔ البتہ آل محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس مال میں سے کھاتے رہیں گے، اللہ کی قسم! میں نے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جو کام جس طرح کرتے دیکھا، میںبھی ویسے ہی کروں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11077

۔ (۱۱۰۷۷)۔ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہَا أَخْبَرَتْہُ: أَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَرْسَلَتْ إِلٰی أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، تَسْأَلُہُ مِیرَاثَہَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِمَّا أَفَائَ اللّٰہُ عَلَیْہِ بِالْمَدِینَۃِ وَفَدَکَ وَمَا بَقِیَ مِنْ خُمُسِ خَیْبَرَ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ۔)) إِنَّمَا یَأْکُلُ آلُ مُحَمَّدٍ فِی ہٰذَا الْمَالِ، وَإِنِّی وَاللّٰہِ! لَا أُغَیِّرُ شَیْئًا مِنْ صَدَقَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ حَالِہَا الَّتِی کَانَتْ عَلَیْہَا فِی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَأَعْمَلَنَّ فِیہَا بِمَا عَمِلَ بِہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَبٰی أَبُو بَکْرٍ أَنْ یَدْفَعَ إِلٰی فَاطِمَۃَ مِنْہَا شَیْئًا، فَوَجَدَتْ فَاطِمَۃُ عَلٰی أَبِی بَکْرٍ فِی ذٰلِکَ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَقَرَابَۃُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَحَبُّ إِلَیَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِی، وَأَمَّا الَّذِی شَجَرَ بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ مِنْ ہٰذِہِ الْأَمْوَالِ، فَإِنِّی لَمْ آلُ فِیہَا عَنِ الْحَقِّ، وَلَمْ أَتْرُکْ أَمْرًا رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَصْنَعُہُ فِیہَا إِلَّا صَنَعْتُہُ۔ (مسند احمد: ۵۵)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ دخترِ رسول سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیغام بھیج کر مدینہ منورہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مالِ فے والے حصے، فدک اور خیبر والے خمس کے بقیہ حصہ سے اپنا حصہ طلب کیا، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ارشاد ہے کہ دنیوی طور پر کوئی ہمارا وارث نہیں ہوتا، ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ البتہ آل محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس میں سے کھا سکتے ہیں۔ اللہ کی قسم! اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اس صدقہ کی جو حالت اور کیفیت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عہد میں تھی، میںاس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کروں گا اور میں بھی اس میں اسی طرح عمل کروں گا، جیسے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عمل کرتے تھے، اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو کچھ دینے سے انکار کر دیا، اس وجہ سے سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے دل میں سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میںکچھ ناراضگی اورغصہ آگیا، تو سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فرمایا: اس اللہ کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مجھے اپنے رشتہ داروں کی بہ نسبت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے رشتہ داروں کی صلہ رحمی زیادہ محبوب ہے، مگر اس مال کے سلسلہ میں میرے اور آپ کے درمیان جو رنجش آگئی ہے تو حقیقتیہی ہے کہ میں نے اس بارے میں راہِ صواب سے ذرہ بھی انحراف نہیں کیا اور میں نے اس میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جو عمل کرتے دیکھا ہے میں نے اسے نہیں چھوڑا بلکہ میں نے بھی اسی طرح کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11078

۔ (۱۱۰۷۸)۔ (وَعَنْہَا مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَتْ: فَغَضِبَتْ فَاطِمَۃُ عَلَیْہَا السَّلَامُ فَہَجَرَتْ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَلَمْ تَزَلْ مُہَاجِرَتَہُ حَتّٰی تُوُفِّیَتْ، قَالَ: وَعَاشَتْ بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سِتَّۃَ أَشْہُرٍ، قَالَ: وَکَانَتْ فَاطِمَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا تَسْأَلُ أَبَا بَکْرٍ نَصِیبَہَا مِمَّا تَرَکَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ خَیْبَرَ وَفَدَکَ وَصَدَقَتِہِ بِالْمَدِینَۃِ، فَأَبٰی أَبُو بَکْرٍ عَلَیْہَا ذٰلِکَ وَقَالَ: لَسْتُ تَارِکًا شَیْئًا، کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَعْمَلُ بِہِ إِلَّا عَمِلْتُ بِہِ، وَإِنِّی أَخْشٰی إِنْ تَرَکْتُ شَیْئًا مِنْ أَمْرِہِ أَنْ أَزِیغَ، فَأَمَّا صَدَقَتُہُ بِالْمَدِینَۃِ فَدَفَعَہَا عُمَرُ إِلٰی عَلِیٍّ وَعَبَّاسٍ فَغَلَبَہُ عَلَیْہَا عَلِیٌّ، وَأَمَّا خَیْبَرُ وَفَدَکُ فَأَمْسَکَہُمَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَقَالَ: ہُمَا صَدَقَۃُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَتَا لِحُقُوقِہِ الَّتِی تَعْرُوْہُ وَنَوَائِبِہِ، وَأَمْرُہُمَا إِلٰی مَنْ وَلِیَ الْأَمْرَ، قَالَ: فَہُمَا عَلٰی ذٰلِکَ الْیَوْمَ۔ (مسند احمد: ۲۵)
۔(دوسری سند) سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے یہی حدیث سابق روایت کی مانند مروی ہے، البتہ اس میں تفصیل اس طرح ہے:سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بیان کیا کہ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ناراض ہو گئیں اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے قطع تعلق کر لیا اور یہ سلسلہ ان کی وفات تک جاری رہا، سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کے بعد چھ ماہ تک زندہ رہی تھیں۔ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خیبر والے اور فدک والے اور مدینہ میں موجود حصے سے اپنے حصے کا مطالبہ کرتی تھیں۔ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو حصہ دینے سے انکار کیا اور کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جس طرح کیا کرتے تھے، میں بھی اسی طرح کروں گا اور اس میں سے کسی بھی عمل کو ترک نہیں کروں گا، مجھے ڈر ہے کہ اگر میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے طرز عمل میں سے کچھ بھی چھوڑ دیا تو میں راہ راست سے بھٹک جاؤں گا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا جو صدقہ یعنی مال مدینہ منورہ میں تھا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سپرد کر دیا تھا اور اس پر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غالب آگئے تھے۔ البتہ خیبر اور فدک والے حصوں کو عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے کنٹرول میں ہی رکھا اور کہا کہ یہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے صدقہ ہیں،یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پیش آنے والی ضروریات اور حقوق کے لیے تھے، ان کا انتظام اور کنٹرول حاکمِ وقت کے پاس رہے گا، وہ اب تک اسی طرح چلے آرہے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11079

۔ (۱۱۰۷۹)۔ عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ قَالَ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَرْسَلَتْ فَاطِمَۃُ إِلٰی أَبِی بَکْرٍ: أَنْتَ وَرِثْتَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَمْ أَہْلُہُ؟ قَالَ: فَقَالَ: لَا، بَلْ أَہْلُہُ، قَالَتْ: فَأَیْنَ سَہْمُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَقَالَ أَبُوبَکْرٍ: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَطْعَمَ نَبِیًّا طُعْمَۃً ثُمَّ قَبَضَہُ جَعَلَہُ لِلَّذِییَقُومُ مِنْ بَعْدِہِ۔)) فَرَأَیْتُ أَنْ أَرُدَّہُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ، فَقَالَتْ: فَأَنْتَ وَمَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَعْلَمُ۔ (مسند احمد: ۱۴)
سیدنا ابو طفیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا تو سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیغام بھیج کر کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے وارث آپ ہیںیا ان کے اہل خانہ ہیں؟ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جواب دیا:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے وارث تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اہل خانہ ہی ہیں ،سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: مال فے میں سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم والا حصہ کہاں ہے؟ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی نبی کو کچھ عطا فرماتا ہے پھر نبی کی وفات ہوتی ہے تو اس کے بعد اس کا نائب ہی اس چیز کا حق دار ہوتا ہے۔ میں نے سوچا ہے کہ اس حصہ کو مسلمانوں کی طرف لوٹا دوں تو سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے یہ سن کر کہا آپ ہی بہتر جانتے ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ سنا ہے یا نہیں؟
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11080

۔ (۱۱۰۸۰)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ رُفَیْعٍ قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَشَدَّادُ بْنُ مَعْقِلٍ عَلَی ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مَا تَرَکَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَّا مَا بَیْنَ ہٰذَیْنِ اللَّوْحَیْنِ، وَدَخَلْنَا عَلٰی مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ فَقَالَ: مِثْلَ ذٰلِکَ، قَالَ: وَکَانَ الْمُخْتَارُ یَقُولُ: الْوَحْیُ۔ (مسند احمد: ۱۹۰۹)
عبدالعزیز بن رُفیع سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اور شداد بن معقل ہم دونوں سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں گئے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صرف یہ چیز چھوڑ کر گئے ہیں جو ان دو گتوں کے درمیان ہے۔ ( یعنی قرآن کریم) اور ہم محمد بن علی کی خدمت میں گئے تو انہوں نے بھی ایسے ہی کہا، عبدالعزیز نے کہا کہ مختار بن ثقفی کہا کرتا تھا کہ اس کی طرف وحی نازل ہوتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11081

۔ (۱۱۰۸۱)۔ قَالَ الْعَبَّاسُ: بَلَغَہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْضُ مَا یَقُولُ النَّاسُ، قَالَ: فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ: ((مَنْ أَنَا؟)) قَالُوْا: أَنْتَ رَسُولُ اللّٰہِ، فَقَالَ: ((أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِی فِی خَیْرِ خَلْقِہِ، وَجَعَلَہُمْ فِرْقَتَیْنِ فَجَعَلَنِی فِی خَیْرِ فِرْقَۃٍ، وَخَلَقَ الْقَبَائِلَ فَجَعَلَنِی فِی خَیْرِ قَبِیلَۃٍ، وَجَعَلَہُمْ بُیُوتًا فَجَعَلَنِی فِی خَیْرِہِمْ بَیْتًا، فَأَنَا خَیْرُکُمْ بَیْتًا وَخَیْرُکُمْ نَفْسًا۔)) (مسند احمد: ۱۷۸۸)
سیدنا عباس بن عبدالمطلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بات پہنچی کہ کچھ لوگوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نسب کے متعلق نازیبا اور ناروا باتیں کی ہیں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: لوگو بتلاؤ! میں کون ہوں؟ صحابہ نے عرض کیا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں، اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اس نے انسانوں کے بہترین گروہ میں بنایا، اس نے قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلہ میں بنایا، اس نے ان کے گھرانے بنائے تو اس نے مجھے بہترین گھرانے میں بنایا۔ میں گھرانے اور اپنی ذات کے لحاظ سے( یعنی ہر لحاظ سے) تم سب سے افضل ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11082

۔ (۱۱۰۸۲)۔ (۲۷۸۵) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَحَمِدَ اللّٰہِ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ بِمَا ھُوَ لَہُ أَھْلٌ، ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ فَاِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہِ، وَاِنَّ أَفْضَلَ الْھُدَی ھُدَی مُحَمَّدٍ ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) وَشَرَّ الْأُمُوْرِ مُحْدَثَاتُہَا وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ۔)) ثُمَّ یَرْفَعُ صَوْتَہُ وَتَحْمَرُّ وَجْنَتَاہُ وَیَشْتَدُّ غَضَبُہُ اِذَا ذَکَرَ السَّاعَۃَ کَأَنَّہُ مُنْذِرُ جَیْشٍ، قَالَ: ثُمَّ یَقُوْلُ: ((أَتَتْکُمُ السَّاعَۃُ، بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَۃُ ھٰکَذَا وَأَشَارَ بِاِصْبَعَیْہِ السَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطٰی صَبَّحَتْکُمُ السَّاعَۃُ وَمَسَّتْکُمْ مَنْ تَرَکَ مَالًا فَلِأَھْلِہِ وَمَنْ تَرَکَ دَیْنًا أَوْ ضَیَاعًا فَاِلَیَّ وَعَلَیَّ۔۔)) وَالضَّیَاعُیَعْنِی وَلدَہُ الْمَسَاکِیْنَ۔ (مسند احمد: ۱۴۳۸۶)
سیّدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں خطبہ ارشادفرمایا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ کے لائق اس کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: بے شک سچی ترین بات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، سب سے افضل رہنمائی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رہنمائی ہے، بدترین امور بدعات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قیامت کا ذکر کرتے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آواز بلند ہوجاتی، رخسار سرخ ہو جاتے اور غصہ بڑھ جاتا اور یوں لگتا کہ کسی لشکر سے ڈرا رہے ہیں، پھر فرماتے: تمہارے پاس قیامت آ چکی ہے، مجھے اور قیامت کو (ان دو انگلیوں کی طرح قریب قریب) بھیجا گیا ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شہادت والی اور درمیانی انگلیوں سے اشارہ کیا۔ قیامت تمہارے پاس صبح کو آ جائے گییا شام کو، جو مال چھوڑ کر مر گیا وہ اس کے اہل (یعنی ورثائ) کو ملے گا اور جس نے قرض یا اولاد چھوڑی تو وہ میری طرف ہے اور مجھ پر ہے۔ ضَیَاع سے مراد مسکین اولاد ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11083

۔ (۱۱۰۸۳)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: عَلَّمَنَا خُطْبَۃَ الْحَاجَۃِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَسْتَعِیْنُہُ وَنَسْتَغْفِرُہُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا، مَنْ یَہْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہُ، وَمَنْ یُضْلِلْ فَلَا ھَادِیَ لَہُ، أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ، ثُمَّ یَقْرَأُ ثَلَاثَ آیَاتٍ: {یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْ اتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ۔ یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَنِسَائً، وَاتَّقُوْا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَائَ لُوْنَ بِہِ وَالْأَرْحَامَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا۔ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَقُوْلُوْا قُوْلًا سَدِیْدًایُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا} ثُمَّ تَذْکُرُ حَاجَتَکَ۔ (مسند احمد: ۳۷۲۰)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں خطبۂ حاجت کی تعلیم دی، اور وہ خطبہ یہ تھا: تمام تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں، ہم اس سے مدد طلب کرتے ہیں، ہم اس سے بخشش مانگتے ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں اپنی جانوں کے شرور سے، اللہ تعالیٰ جس کو ہدایت دے دے، اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں ہے اور وہ جسے گمراہ کردے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے،میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان تین آیات کی تلاوت کرتے تھے: {یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْ اتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ۔ یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَنِسَائً، وَاتَّقُوْا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَائَ لُوْنَ بِہِ وَالْأَرْحَامَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا۔ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَقُوْلُوْا قُوْلًا سَدِیْدًایُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا} اے ایماندارو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں ہر گزر موت نہ آئے، مگر اسلام کی حالت میں۔ (سورۂ آل عمران:۱۰۲) اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہیں پیدا کیا ایک جان سے اور پیدا کیا اس سے اس کی بیوی کو اور پھیلا دیئے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں۔ تم ڈرو اس اللہ سے جس کے ساتھ تم آپس میں سوال کرتے ہو اور رشتہ داریوں کو توڑنے سے بچو، بے شک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہیں۔ (سورۂ نسائ: ۱) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور کہو بات سیدھی وہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے، وہ بڑی کامیابی کو پا لیتا ہے۔ (سورۂ احزاب: ۷۰) پھر تم اپنی حاجت و ضرورت کا ذکر کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11084

۔ (۱۱۰۸۴)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: عَلَّمَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خُطْبَتَیْنِ خُطْبَۃَ الْحَاجَۃِ وَخُطْبَۃَ الصَّلَاۃِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ أَوْ إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ نَسْتَعِیْنُہُ، فَذَکَرَ مَعْنَاہُ۔ (مسند احمد: ۳۷۲۱)
۔(دوسری سند) سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں دو قسم کے خطبات سکھائے، ایک خطبۂ حاجت اور دوسرا خطبۂ نماز،خطبۂ حاجت یہ ہیں: بیشک ساری تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، ہم اس سے مدد طلب کرتے ہیں، … …۔ پھر مذکورہ بالا حدیث کے ہم معنی روایت ذکر کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11085

۔ (۱۱۰۸۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَلَّمَ رَجُلًا فِیْ شِیْئٍ فَقَالَ: ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہ، وَنَسْتَعِیْنُہ، مَنْ یَّہْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہُ، وَمَنْ یُضْلِلْ فَلَا ھَادِیَ لَہُ وَأَشْھَدُ أَّنْ لَّا إِلٰہُ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ۔)) (مسند احمد: ۳۲۷۵)
سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک آدمی سے کسی چیز کے بارے میں بات کی تو فرمایا: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہ، وَنَسْتَعِیْنُہ، مَنْ یَّہْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہُ، وَمَنْ یُضْلِلْ فَلَا ھَادِیَ لَہُ وَأَشْھَدُ أَّنْ لَّا إِلٰہُ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ۔ پھر اپنی بات پیش کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11086

۔ (۱۱۰۸۶)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خُطْبَۃً بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَی مُغَیْرِبَانِ الشَّمْسِ، حَفِظَہَا مِنَّا مَنْ حَفِظَہَا، وَنَسِیَہَا مِنَّا مَنْ نَسِیَہَا، فَحَمِدَ اللّٰہَ، قَالَ عَفَّانُ: وَقَالَ حَمَّادٌ: وَأَکْثَرُ حِفْظِی أَنَّہُ قَالَ بِمَا ہُوَ کَائِنٌ إِلٰییَوْمِ الْقِیَامَۃِ، فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ! فَإِنَّ الدُّنْیَا خَضِرَۃٌ حُلْوَۃٌ، وَإِنَّ اللّٰہَ مُسْتَخْلِفُکُمْ فِیہَا فَنَاظِرٌ کَیْفَ تَعْمَلُونَ، أَلَا فَاتَّقُوا الدُّنْیَا وَاتَّقُوا النِّسَائَ، أَلَا إِنَّ بَنِی آدَمَ خُلِقُوا عَلٰی طَبَقَاتٍ شَتّٰی، مِنْہُمْ مَنْ یُولَدُ مُؤْمِنًا وَیَحْیَا مُؤْمِنًا وَیَمُوتُ مُؤْمِنًا، وَمِنْہُمْ مَنْ یُولَدُ کَافِرًا وَیَحْیَا کَافِرًا وَیَمُوتُ کَافِرًا، وَمِنْہُمْ مَنْ یُولَدُ مُؤْمِنًا وَیَحْیَا مُؤْمِنًا وَیَمُوتُ کَافِرًا، وَمِنْہُمْ مَنْ یُولَدُ کَافِرًا وَیَحْیَا کَافِرًا وَیَمُوتُ مُؤْمِنًا، أَلَا إِنَّ الْغَضَبَ جَمْرَۃٌ تُوقَدُ فِی جَوْفِ ابْنِ آدَمَ، أَلَا تَرَوْنَ إِلٰی حُمْرَۃِ عَیْنَیْہِ وَانْتِفَاخِ أَوْدَاجِہِ فَإِذَا وَجَدَ أَحَدُکُمْ شَیْئًا مِنْ ذٰلِکَ فَالْأَرْضَ الْأَرْضَ، أَلَا إِنَّ خَیْرَ الرِّجَالِ مَنْ کَانَ بَطِیئَ الْغَضَبِ سَرِیعَ الرِّضَا، وَشَرَّ الرِّجَالِ مَنْ کَانَ سَرِیعَ الْغَضَبِ بَطِیئَ الرِّضَا، فَإِذَا کَانَ الرَّجُلُ بَطِیئَ الْغَضَبِ بَطِیئَ الْفَیْئِ، وَسَرِیعَ الْغَضَبِ وَسَرِیعَ الْفَیْئِ فَإِنَّہَا بِہَا، أَلَا إِنَّ خَیْرَ التُّجَّارِ مَنْ کَانَ حَسَنَ الْقَضَائِ حَسَنَ الطَّلَبََََِ، وَشَرَّ التُّجَّارِ مَنْ کَانَ سَیِّئَ الْقَضَائِ سَیِّئَ الطَّلَبِ، فَإِذَا کَانَ الرَّجُلُ حَسَنَ الْقَضَائِ سَیِّئَ الطَّلَبِ أَوْ کَانَ سَیِّئَ الْقَضَائِ حَسَنَ الطَّلَبِ فَإِنَّہَا بِہَا، أَلَا إِنَّ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَائً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقَدْرِ غَدْرَتِہِ، أَلَا وَأَکْبَرُ الْغَدْرِ غَدْرُ أَمِیرِ عَامَّۃٍ، أَلَا لَا یَمْنَعَنَّ رَجُلًا مَہَابَۃُ النَّاسِ أَنْ یَتَکَلَّمَ بِالْحَقِّ إِذَا عَلِمَہُ، أَلَا إِنَّ أَفْضَلَ الْجِہَادِ کَلِمَۃُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ۔)) فَلَمَّا کَانَ عِنْدَ مُغَیْرِبَانِ الشَّمْسِ قَالَ: ((أَلَا إِنَّ مِثْلَ مَا بَقِیَ مِنَ الدُّنْیَا فِیمَا مَضٰی مِنْہَا مِثْلُ مَا بَقِیَ مِنْ یَوْمِکُمْ ہٰذَا فِیمَا مَضٰی مِنْہُ۔)) (مسند احمد: ۱۱۱۶۰)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں عصر کے بعد غروب آفتاب کے قریب تک خطبہ ارشاد فرمایا، ہم میں سے کسی نے اسے یاد رکھا اور کسی نے اسے بھلا دیا، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس خطبہ میں قیامت تک رونما ہونے والے اہم اہم امور کا ذکر کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ دنیا سر سبز یعنی خوش نما، میٹھی اور دل پسند ہے، اللہ اس دنیا میں تمہیں ایک دوسرے کا خلیفہ بناتا ہے، یعنی ایک نسل جاتی ہے تو دوسری نسل اس کی جگہ آجاتی ہے، وہ دیکھتا ہے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو؟ خبردار! تم دنیا کو جمع کرنے سے اور عورتوں کے ساتھ زیادہ دل لگانے سے بچو۔ خبردار ! اولاد آدم کو مختلف طبقات میں پیدا کیا گیا ہے، ان میں سے بعض ایمان کی حالت میں پیدا ہوتے ہیں، ایمان کی حالت میں زندگی گزارتے ہیں اور ایما ن کی حالت ہی میں انہیں موت آتی ہے اور بعض کفر کی حالت میں پیدا ہوتے، کفر کی حالت میں زندگی گزارتے اور کفر پر ہی ان کو موت آتی ہے۔ اور ان میں سے بعض کفر کی حالت میں پیدا ہوتے، کفر پر زندگی گزارتے ہیں اور ان کو موت ایمان پر آتی ہے۔ اور ان میں سے بعض ایمان کی حالت میں پیدا ہوتے، ایمان پر زندگی گزارتے ہیں اور ان کو موت کفر پر آتی ہے۔ خبردار! غصہ ایک انگار اہے، جو انسان کے پیٹ میں جلتا ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ غصے کے وقت آدمی کی آنکھیں سرخ اور رگیں پھول جاتی ہیں، جب تم میں سے کسی پر ایسی کیفیت طاری ہو تو وہ زمین پر لیٹ جائے۔ خبردار! لوگوں میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے جسے غصہ دیر سے آئے اور وہ جلد راضی ہو جائے اور بدترین آدمی وہ ہے جسے غصہ جلد آئے اور دیر سے ختم ہو اور جس آدمی کو دیر سے غصہ آئے اور دیر سے ختم ہو یا جسے جلد غصہ آئے اور جلد ختم ہو جائے تو یہ صفات ایک دوسری کے بالمقابل ہیںیعنی اچھی صفت بری صفت کی برائی کا ازالہ کر دیتی ہے۔ تاجروں میں سے اچھا وہ ہے ادائیگی اچھی طرح کرے اور اپنے حق کا مطالبہ بھی اچھی طرح کرے۔ اور بدترین تاجر وہ ہے جس کا ادائیگی کا انداز بھی بھونڈا اور اپنے حق کا مطالبہ بھی بھونڈے انداز سے کرے۔ اور جو کوئی ادائیگی اچھی کرے اور مطالبہ کا انداز غلط ہو یا ادائیگی کا انداز برا اور مطالبہ کا انداز اچھا ہو تو اچھی صفت بری صفت کی تلافی کر دیتی ہے۔ خبردار! ہر دھوکہ باز کے لیے قیامت کے دن بطورِ علامت ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا، اس کا دھوکہ جس قدر ہو گا اس کا جھنڈا بھی اسی حساب سے بلند ہو گا سب سے بڑا دھوکا عام لوگوں کے حاکم کا ہوتا ہے۔ خبردار!جو کوئی حق بات کو جانتا ہو اسے لوگوں کا ڈر حق بات کے کہنے سے نہیں روکے۔ خبردار! یاد رکھو کہ ظالم حکم ران کے سامنے کلمۂ حق کہنا افضل جہاد ہے۔ اور جب سورج غروب ہونے کے قریب پہنچا تو فرمایا گزری ہوئی مدتِ دنیا اور باقی مدت دنیا کی مثال ایسے ہی ہے جیسے گزرے ہوئے دن کے مقابلہ میں دن کاباقی حصہ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11087

۔ (۱۱۰۸۷)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: صَلَّی بِنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَلَاۃَ الْعَصْرِ ذَاتَ یَوْمٍ بِنَہَارٍ، ثُمَّ قَامَ یَخْطُبُنَا إِلٰی أَنْ غَابَتْ الشَّمْسُ، فَلَمْ یَدَعْ شَیْئًا مِمَّا یَکُونُ إِلٰییَوْمِ الْقِیَامَۃِ إِلَّا حَدَّثَنَاہُ، حَفِظَ ذٰلِکَ مَنْ حَفِظَ وَنَسِیَ ذٰلِکَ مَنْ نَسِیَ، (ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَ الْحَدِیْثِ الْمُتَقَدِّمِ) وَفِیْہِ: ((أَلَا إِنَّ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَائً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقَدْرِ غَدْرَتِہِ یُنْصَبُ عِنْدَ اِسْتِہِ۔)) وفیہ: ((أَلَمْ تَرَوْا إِلٰی حُمْرَۃِ عَیْنَیْہِ وَانْتِفَاخِ أَوْدَاجِہِ فَإِذَا وَجَدَ أَحَدُکُمْ ذٰلِکَ فَلْیَجْلِسْ (أَوْ قَالَ) فَلْیَلْصَقْ بِالْأَرْضِ۔)) وَفِیْہِ: ((وَمَا شَیْئٌ أَفْضَلَ مِنْ کَلِمَۃِ عَدْلٍ تُقَالُ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ فَلَا یَمْنَعَنَّ أَحَدَکُمْ اتِّقَائُ النَّاسِ أَنْ یَتَکَلَّمَ بِالْحَقِّ إِذَا رَآہُ أَوْ شَہِدَہُ۔)) ثُمَّ بَکٰی أَبُو سَعِیدٍ فَقَالَ: قَدْ وَاللّٰہِ مَنَعَنَا ذٰلِکَ قَالَ: ((وَإِنَّکُمْ تُتِمُّونَ سَبْعِینَ أُمَّۃً أَنْتُمْ خَیْرُہَا وَأَکْرَمُہَا عَلَی اللّٰہِ۔)) ثُمَّ دَنَتِ الشَّمْسُ أَنْ تَغْرُبَ فَقَالَ: ((وَإِنَّ مَا بَقِیَ مِنَ الدُّنْیَا فِیمَا مَضٰی مِنْہَا مِثْلُ مَا بَقِیَ مِنْ یَوْمِکُمْ ہٰذَا فِیمَا مَضٰی مِنْہُ۔)) (مسند احمد: ۱۱۶۰۸)
۔(دوسری سند) سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک دن ہمیں نماز عصر اول ترین وقت میں پڑھائی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھڑے ہو کر غروب آفتاب تک ہم سے خطاب فرمایا، قیامت تک جو کچھ ہونے والا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم سے وہ سب کچھ بیان فرمایا، کسی کو یاد رہا اور کسینے بھلا دیا، اس سے آگے گزشتہ حدیث کی مانند ہے، البتہ اس میں ہے:قیامت کے دن ہر دھوکہ باز کی دبر کے قریب اس کے دھوکہ کے لحاظ سے بلند جھنڈا نصب کیا جائے گا، اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کیا تم غصے والے آدمی کی آنکھوں کو سرخ ہوتے اور اس کی رگوں کو پھولتے نہیں دیکھتے، جب تم میں سے کسی کو شدید غصہ آئے تو وہ زمین پر بیٹھ جائے۔ اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنے سے بڑھ کر کوئی بات افضل نہیں، جب تم میں سے کوئی آدمی حق بات کہنے کا موقع دیکھےیا ایسی جگہ پر موجود ہو جہاں حق بات کہنے کی ضرورت ہو تو لوگوں کا ڈرتمہیں حق کہنے سے نہیں روکے۔ اس کے بعد سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رو پڑے اور کہنے لگے: اللہ کی قسم! لوگوں کے خوف نے ہمیں کلمۂ حق کہنے سے روکا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے ذریعے امتوں کا ستر کا عدد پورا ہو رہا ہے۔ یعنی تم ستر ویں امت ہو، تم سب سے افضل اور اللہ کے ہاں سب سے بڑھ کر معزز ہو۔ اس کے بعد سورج غروب ہونے لگا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دنیا کی گزری ہوئی مدت اور باقی مدت میں وہی نسبت ہے، جو گزرے ہوئے دن کے مقابلہ میں غروب تک کے بقیہ وقت کو نسبت ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11088

۔ (۱۱۰۸۸)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وھُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ: ((اِنَّ اَخْوَفَ مَااَخَافُ عَلَیْکُمْ مَا یُخْرِجُ اللّٰہُ مِنْ نَبَاتِ الْاَرْضِ وَزَھْرَۃِ الدُّنْیَا۔)) فَقَالَ رَجُلٌ: اَیْ رَسُوْلَ اللّٰہ! اَوَ یَاْتِی الْخَیْرُ بِالشَّرِّ؟ فَسَکَتَ حَتّٰی رَاَیْنَا اَنَّہُ یَنْزِلُ عَلَیْہِ قَالَ: وَغَشِیَہُ بُھْرٌ وَعَرَقَ فَقَالَ: ((اَیْنَ السَّائِلُ؟)) فَقَالَ: ھَا اَنَا وَلَمْ اُرِدْ اِلَّا خَیْرًا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ الْخَیْرَ لَا یَاْتِیْ اِلَّا بِالْخَیْرِ، اِنَّ الْخَیْرَ لَایَاْتِیْ اِلَّا بِالْخَیْرِ، اِنَّ الْخَیْرَ لَا یَاْتِیْ اِلَّا بِالْخَیْرِ، وَلٰکِنَّ الدُّنْیَا خَضِرَۃٌ حُلْوَۃٌ وَکُلُّ مَا یُنْبِتُ الرَّبِیْعُیَقْتُلُ حَبَطًا اَوْ یُلِمُّ اِلَّا آکِلَۃَ الْخَضِرِ فَاِنَّھَا اَکَلَتْ حَتَّی امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاھَا وَاسْتَقْبَلَتِ الشَّمْسَ فَثَلَطَتْ وَبَالَتْ ثُمَّ عَادَتْ فَاَکَلَتْ فَمَنْ اَخَذَھَا بِحَقِّھَا بُوْرِکَ لَہُ فِیْہِ، وَمَنْ اَخَذَھَا بِغَیْرِ حَقِّھَا لَمْ یُبَارَکْ لَہُ۔)) وَکَانَ کَالَّذِیْیَاْ کُلُ وَلَا یَشْبَعُ۔)) قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ (یَعْنِیْ ابْنَ الْاِمَامِ اَحْمَدِ بْنِ حَنْبَلٍ رحمہ اللہ): قَالَ اَبِیْ: قَالَ سُفْیَانُ: وَکَانَ الْاَعْمَشُ یَسْاَلُنِیْ عَنْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ۔ (مسند احمد: ۱۱۰۴۹)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے منبر پر فرمایا: بیشک مجھے سب سے زیادہ ڈر اس چیز کے بارے میں ہے، جو اللہ تعالیٰ زمین کی انگوریوں اور دنیا کے مال و متاع کی صورت میں نکالے گا۔ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا خیر بھی شرّ کو لاتی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش ہو گئے، یہاں تک کہ ہم نے دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی نازل ہونے لگی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سانس پھولنے لگا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بہت زیادہ پسینہ آ گیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: سائل کہاں ہے؟ اس نے کہا: جی میں ہوں اور میرا ارادہ صرف خیر کا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک خیر صرف خیر لاتی ہے، بیشک خیر صرف خیر کو لاتی ہے، بیشک خیر صرف خیر کو ہی لاتی ہے، اصل بات یہ ہے کہ یہ دنیا سر سبزو شاداب اور میٹھی ہے، موسم بہار جو کچھ اگاتا ہے، وہ پیٹ پھولنے کی وجہ سے یا تو قتل کر دیتا ہے، یا قتل کے قریب کر دیتا ہے، ایک جانور چارہ کھاتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کی کوکھیں بھر جاتی ہیں، پھر وہ سورج کے سامنے لیٹ جاتا ہے اورپتلا پاخانہ اور پیشاب کر کے پھر کھانا شروع کر دیتا ہے، بات یہ ہے کہ جو آدمی دنیا کو اس کے حق کے ساتھ حاصل کرے گا، اس کے لیے اس میں برکت کی جائے گی اور جو بغیر حق کے لے گا، اس کے لیے اس میں برکت نہیں کی جائے گی، بلکہ وہ اس آدمی کی طرح ہو گا جو کھاتا ہے اور سیر نہیں ہوتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11089

۔ (۱۱۰۸۹)۔ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَرَجَ حِینَ زَاغَتِ الشَّمْسُ فَصَلَّی الظُّہْرَ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ عَلَی الْمِنْبَرِ، فَذَکَرَ السَّاعَۃَ، وَذَکَرَ أَنَّ بَیْنَیَدَیْہَا أُمُورًا عِظَامًا، ثُمَّ قَالَ: ((مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَسْأَلَ عَنْ شَیْئٍ فَلْیَسْأَلْ عَنْہُ، فَوَاللّٰہِ لَا تَسْأَلُونِی عَنْ شَیْئٍ إِلَّا أَخْبَرْتُکُمْ بِہِ مَا دُمْتُ فِی مَقَامِیہٰذَا۔)) قَالَ أَنَسٌ: فَأَکْثَرَ النَّاسُ الْبُکَائَ حِینَ سَمِعُوا ذٰلِکَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَکْثَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یَقُولَ: ((سَلُونِی۔)) قَالَ أَنَسٌ: فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: أَیْنَ مَدْخَلِییَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ فَقَالَ: ((النَّارُ۔)) قَالَ: فَقَامَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ حُذَافَۃَ فَقَالَ: ((مَنْ أَبِییَا رَسُولَ اللّٰہِ؟)) قَالَ: ((أَبُوکَ حُذَافَۃُ۔)) قَالَ: ثُمَّ أَکْثَرَ أَنْ یَقُولَ: ((سَلُونِی۔)) قَالَ: فَبَرَکَ عُمَرُ عَلَی رُکْبَتَیْہِ، فَقَالَ: ((رَضِینَا بِاللّٰہِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِینًا، وَبِمُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَسُولًا۔)) قَالَ: فَسَکَتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ قَالَ عُمَرُ ذٰلِکَ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَیَّ الْجَنَّۃُ وَالنَّارُ آنِفًا فِی عُرْضِ ہٰذَا الْحَائِطِ، وَأَنَا أُصَلِّی فَلَمْ أَرَ کَالْیَوْمِ فِی الْخَیْرِ وَالشَّرِّ۔)) (مسند احمد: ۱۲۶۸۸)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن جب سورج ڈھل گیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی، نماز سے سلام پھیرا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر کھڑے ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قیامت کا اور قیامت تک رونما ہونے والے بڑے بڑے واقعات کا ذکر کیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو کوئی کسی بھی چیز کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا ہو وہ پوچھ لے، اللہ کی قسم! میں جب تک اس1 جگہ پر ہوں تم جو بھی پوچھو گے، میں تمہیں اس کے بارے میں بتا دوں گا؟ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ لوگوں نے جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ باتیں سنیں تو سب لوگ بہت زیادہ رو دئیے، اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی بار بار کہتے جاتے کہ مجھ سے پوچھو، مجھ سے پوچھو، سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر دریافت کیا:اللہ کے رسول! آخرت میں میرا انجام کیا ہو گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم۔ سیدنا عبداللہ بن حذافہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اُٹھے اور انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ! یہ محدود انداز میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بات کی تھی کہ میں جب تک اس جگہ پر موجود ہوں آپ کے سوالوں کے جوابات دوں گا۔ ظاہر ہے کہ آپ کو ایک خاص حد تک لوگوں کو آگاہ کرنے کا بتایا گیا۔ اس سے آپ کا عالم الغیب ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہیہ اللہ کی صفت ہے جس پر بہت سی قرآنی نصوص دلالت کرتی ہیں اور بہت سارے واقعات و احادیث سے آپ کے متعلق عالم الغیب ہونے کی نفی ہوتی ہے۔ تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ (عبداللہ رفیق) میرا باپ کون ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حذافہ۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بھی بار بار فرمایا: پوچھو، اور پوچھو۔ یہ کیفیت دیکھ کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور کہنے لگے:ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہیں۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ کہا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ابھی میں نماز پڑھا رہا تھا تو اس دیوار کی طرف میرے سامنے جنت اور جہنم کو پیش کیا گیا، اچھا اور برا ہونے کے لحاظ سے میں نے آج جیسا دن کبھی نہیں دیکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11090

۔ (۱۱۰۹۰)۔ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْکَعْبَۃِ قَالَ: انْتَہَیْتُ إِلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَہُوَ جَالِسٌ فِی ظِلِّ الْکَعْبَۃِ فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ: بَیْنَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی سَفَرٍ إِذْ نَزَلَ مَنْزِلًا، فَمِنَّا مَنْ یَضْرِبُ خِبَائَہُ، وَمِنَّا مَنْ ہُوَ فِی جَشَرِہِ، وَمِنَّا مَنْ یَنْتَضِلُ، إِذْ نَادَی مُنَادِیہِ: الصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ! قَالَ: فَاجْتَمَعْنَا، قَالَ: فَقَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَخَطَبَنَا فَقَالَ: ((إِنَّہُ لَمْ یَکُنْ نَبِیٌّ قَبْلِی إِلَّا دَلَّ أُمَّتَہُ عَلٰی مَا یَعْلَمُہُ خَیْرًا لَہُمْ، وَیُحَذِّرُہُمْ مَا یَعْلَمُہُ شَرًّا لَہُمْ، وَإِنَّ أُمَّتَکُمْ ہٰذِہِ جُعِلَتْ عَافِیَتُہَا فِی أَوَّلِہَا، وَإِنَّ آخِرَہَا سَیُصِیبُہُمْ بَلَائٌ شَدِیدٌ وَأُمُورٌ تُنْکِرُونَہَا، تَجِیئُ فِتَنٌ یُرَقِّقُ بَعْضُہَا لِبَعْضٍ، تَجِیئُ الْفِتْنَۃُ فَیَقُولُ الْمُؤْمِنُ: ہٰذِہِ مُہْلِکَتِی، ثُمَّ تَنْکَشِفُ، ثُمَّ تَجِیئُ الْفِتْنَۃُ فَیَقُولُ الْمُؤْمِنُ: ہٰذِہِ، ثُمَّ تَنْکَشِفُ، فَمَنْ سَرَّہُ مِنْکُمْ أَنْ یُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ وَأَنْ یُدْخَلَ الْجَنَّۃَ فَلْتُدْرِکْہُ مَوْتَتُہُ وَہُوَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ، وَلْیَأْتِ إِلَی النَّاسِ الَّذِییُحِبُّ أَنْ یُؤْتٰی إِلَیْہِ، وَمَنْ بَایَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاہُ صَفْقَۃَیَدِہِ وَثَمَرَۃَ قَلْبِہِ، فَلْیُطِعْہُ مَا اسْتَطَاعَ، فَإِنْ جَائَ آخَرُ یُنَازِعُہُ فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ۔)) قَالَ: فَأَدْخَلْتُ رَأْسِی مِنْ بَیْنِ النَّاسِ فَقُلْتُ أَنْشُدُکَ بِاللّٰہِ آنْتَ سَمِعْتَ ہٰذَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَأَشَارَ بِیَدِہِ إِلَی أُذُنَیْہِ فَقَالَ سَمِعَتْہُ أُذُنَایَ وَوَعَاہُ قَلْبِی، قَالَ: فَقُلْتُ: ہٰذَا ابْنُ عَمِّکَ مُعَاوِیَۃُیَعْنِییَأْمُرُنَا بِأَکْلِ أَمْوَالِنَا بَیْنَنَا بِالْبَاطِلِ، وَأَنْ نَقْتُلَ أَنْفُسَنَا وَقَدْ قَالَ اللّٰہُ تَعَالَی: {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ} قَالَ: فَجَمَعَ یَدَیْہِ فَوَضَعَہُمَا عَلٰی جَبْہَتِہِ، ثُمَّ نَکَسَ ہُنَیَّۃً ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ، فَقَالَ: أَطِعْہُ فِی طَاعَۃِ اللّٰہِ وَاعْصِہِ فِی مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ۔ (مسند احمد: ۶۵۰۳)
عبد الرحمن بن عبد رب کعبہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے، میں نے ان کو کہتے سنا کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ سفر میں تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک مقام پر نزول فرما ہوئے، ہم میں سے کوئی اپنا خیمہ نصب کرنے لگا، کوئی اپنے جانوروں کو کھول کر چرانے لگا، کوئی تیر اندازی کی مشق کرنے لگا۔ اتنے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منادی نے اعلان کیا کہ نماز کھڑی ہونے والی ہے، ہم سب جمع ہو گئے، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا اور فرمایا: مجھ سے پہلے آنے والے ہر نبی نے اپنی امت کو ہر اس بات کی تعلیم دی جو وہ ان کے لیے بہتر سمجھتا تھا اور اس نے اپنی امت کو ہر اس بات سے ڈرایا جسے وہ ان کے لیے بری سمجھتا تھا تمہاری اس امت کے اولین حصے میں تو عافیت ہی عافیت رکھی گئی ہے۔ اور امت کے آخری حصے کو شدید مصائب اور تکالیف کا سامنا ہو گا ایسے ایسے فتنے اور مصیبتیں آئیں گی کہ بعد والے فتنے کی شدت پہلے فتنے کو ہلکا کر دے گی، کوئی فتنہ آئے گا تو مومن کہے گا کہ یہ فتنہ تو مجھے تباہ کر دے گا، پھر وہ ٹل جائے گا، پھر اور فتنہ آئے گا تو مومن پھر وہی بات کہے گا پھر وہ بھی ٹل جائے گا تم میں سے جو کوئی چاہتا ہو کہ اسے جہنم سے بچا کر جنت میں داخل کر دیا جائے تو اسے موت اس حال میں آنی چاہیے کہ اللہ پر اور آخرت پر کما حقہ ایمان رکھتا ہو۔ اور وہ دوسروں کی طرف سے اپنے بارے میں جیسا رویہ پسند کرتا ہے اسے چاہیے کہ وہ بھی دوسروں کے ساتھ ویسا ہی رویہ رکھے، اور جو کوئی کسی حاکم کی بیعت کر کے اس کے ساتھ وفا داری کا عہدوپیمان کر لے تو اسے چاہیے کہ حسبِ استطاعت اس کی مکمل اطاعت کرے، اگر کوئی دوسرا آدمی آکر اس حاکم کے ساتھ اختلاف کرے تو تم بعد والے کی گردن اڑادو۔ عبدالرحمن بن عبد رب الکعبہ کا بیان ہے کہ میں نے ان کییہ باتیں سن کر اپنا سر لوگوں کے اندر داخل کر کے عرض کیا کہ میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر دریافت کرتا ہوں کہ آیایہ باتیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آپ نے خود سنی ہیں؟ تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے دونوں کانوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ میرے کانوں نے یہ باتیں سن کر اپنا سر لوگوں کے اندر داخل کر کے عرض کیا کہ میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر دریافت کرتا ہوں کہ آیایہ باتیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آپ نے خود سنی ہیں؟ تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے دونوں کانوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ میرے کانوں نے یہ باتیں سنیں اور میرے دل نے ان کو یاد رکھا ہے تو میں نے عرض کیا کہ یہ آپ کا چچا زاد معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تو ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے اموال ناحق کھالیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کو قتل کریں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ}… ایمان والو تم آپس میں ایک دوسرے کے اموال ناحق مت کھاؤ۔ ( سورۂ نسائ: ۲۹) تو سیدنا عبداللہ بن عمر و بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے دونوں ہاتھوں کو اکٹھا کر کے اپنی پیشانی پر رکھ سر کو کچھ دیر تک جھکائے رکھا پھر سر اُٹھا کر کہا وہ اللہ کی اطاعت کاحکم دے تو اس کی اطاعت کرو اور اللہ کی نافرمانی کا حکم دے تو اس کی بات نہیں مانو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11091

۔ (۱۱۰۹۱)۔ عَنْ عِیَاضِ بْنِ حِمَارٍ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَطَبَ ذَاتَ یَوْمٍ فَقَالَ فِیْ خُطْبَتِہِ: ((اِنَّ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ اَمَرَنِیْ اَنْ اُعَلِّمَکُمْ مَا جَہِلْتُمْ، مِمَّا عَمَّلَنِیْ فِیْیَوْمِ ھٰذَا، کُلُّ مَالٍ نَحَلْتُہُ عِبَادِی حَلَالٌ، وَإِنِّیْ خَلَقْتُ عِبَادِیْ حُنَفَائَ کُلَّہُمْ، وَإِنَّہُمْ أَتَتْہُمُ الشَّیَاطِینُ فَأَضَلَّتْہُمْ عَنْ دِینِہِمْ، وَحَرَّمَتْ عَلَیْہِمْ مَا أَحْلَلْتُ لَہُمْ، وَأَمَرَتْہُمْ أَنْ یُشْرِکُوا بِی مَا لَمْ أُنَزِّلْ بِہِ سُلْطَانًا، ثُمَّ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ نَظَرَ إِلٰی أَہْلِ الْأَرْضِ فَمَقَتَہُمْ عَجَمِیَّہُمْ وَعَرَبِیَّہُمْ إِلَّا بَقَایَا مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ، وَقَالَ: إِنَّمَا بَعَثْتُکَ لِأَبْتَلِیَکَ وَأَبْتَلِیَ بِکَ، وَأَنْزَلْتُ عَلَیْکَ کِتَابًا لَا یَغْسِلُہُ الْمَائُ تَقْرَؤُہُ نَائِمًا وَیَقْظَانًا، ثُمَّ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ أَمَرَنِی أَنْ أُحَرِّقَ قُرَیْشًا، فَقُلْتُ: یَا رَبِّ! إِذَنْ یَثْلَغُوا رَأْسِی فَیَدَعُوہُ خُبْزَۃً، فَقَالَ: اسْتَخْرِجْہُمْ کَمَا اسْتَخْرَجُوکَ، فَاغْزُہُمْ نُغْزِکَ، وَأَنْفِقْ عَلَیْہِمْ فَسَنُنْفِقَ عَلَیْکَ، وَابْعَثْ جُنْدًا نَبْعَثْ خَمْسَۃً مِثْلَہُ، وَقَاتِلْ بِمَنْ أَطَاعَکَ مَنْ عَصَاکَ، وَأَہْلُ الْجَنَّۃِ ثَلَاثَۃٌ ذُو سُلْطَانٍ مُقْسِطٌ مُتَصَدِّقٌ مُوَفَّقٌ، وَرَجُلٌ رَحِیمٌ رَقِیقُ الْقَلْبِ لِکُلِّ ذِی قُرْبٰی وَمُسْلِمٍ، وَرَجُلٌ فَقِیرٌ عَفِیفٌ مُتَصَدِّقٌ، وَأَہْلُ النَّارِ خَمْسَۃٌ: الضَّعِیفُ الَّذِیْ لَا زَبْرَ لَہُ الَّذِینَ ہُمْ فِیکُمْ تَبَعًا أَوْ تُبَعَائَ (شَکَّ یَحْیٰی) لَا یَبْتَغُونَ أَہْلًا وَلَا مَالًا، وَالْخَائِنُ الَّذِی لَا یَخْفٰی عَلَیْہِ طَمَعٌ وَإِنْ دَقَّ إِلَّا خَانَہُ، وَرَجُلٌ لَا یُصْبِحُ وَلَا یُمْسِی إِلَّا وَہُوَ یُخَادِعُکَ عَنْ أَہْلِکَ وَمَالِکَ، وَذَکَرَ الْبُخْل، وَالْکَذِبَ، وَالشِّنْظِیْرَ الْفَاحِشَ۔)) (مسند احمد: ۱۷۶۲۳)
سیدنا عیاض بن حمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک دن خطبہ دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خطبہ میں فرمایا:میرے رب عزوجل نے مجھے حکم دیا ہے کہ اس نے آج مجھے جو کچھ بتایا ہے، اس میں سے تم جو باتیںنہیں جانتے ہیں، وہ تمہیں وہ سکھا دوں۔ اللہ تعالیٰ نے کہا: میں نے اپنے بندوں کو جو مال بھی دیا ہے وہ ان کے لیے حلال ہے اور میں نے اپنے تمام بندوں کو موحد پیدا کیا ہے، شیاطین نے ان کے پاس آکر انہیں راہ ہدایت سے گمراہ کیا ہے۔ میں نے ان کے لیے جو کچھ حلال ٹھہرایا تھا، شیاطین نے دھوکے سے ان پر اسے حرام کر دیا، اور میں نے جس شرک کے حق میں کوئی دلیل نازل نہیں کی تھی، شیطانوں نے انہیں میرے ساتھ ان کو شریک کرنے کا حکم دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اہلِ زمین پر نظر ڈالی، وہ اہل کتاب کے چند بچے کھچے افرادکے سوا باقی تمام عجمیوں اور عربوں پر ناراض ہو گیا، اور اللہ نے کہا کہ میں نے آپ کو ( یعنی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ) آزمانے کے لیے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ذریعے لوگوں کو آزمانے کے لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مبعوث کیا، اور میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ایسی کتاب نازل کی ہے جسے پانی نہیں مٹا سکتا، آپ نیند اور بیداری کی حالت میں اس کی تلاوت کریں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا کہ میں قریش کو جلا ڈالوں۔ (یعنی ان کا خاتمہ کر دوں) تو میں نے عرض کیا: اے رب ! پھر تو یہ لوگ میرا سر پھوڑ ڈالیں گے اور اسے روٹی کی مانند بنا ڈالیں گے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جس طرح انہوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو شہر بدر کیا، آپ بھی اسی طرح ان کو جلا وطن کریں گے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان سے قتال کریں اور ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مدد کریں گے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان پر خرچ کریں اور ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مزید عطا کریں گے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک لشکر بھیجیں اور ہم اس جیسے پانچ لشکر بھیجیں گے، جو لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اطاعت کرتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو ساتھ لے کر اپنے نافرمانوں سے قتال کریں۔ تین قسم کے لوگ جنتی ہیں۔ انصاف کرنے والے اور خرچ کرنے والے حکمران، رحم کرنے والے اور ہر رشتہ دار اور مسلمان کے حق میں نرم دل رکھنے والے اور غریب لوگ جو گناہوں سے بچنے والے اور اللہ کی توفیق سے اس کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں اور پانچ قسم کے لوگ جہنمی ہیں: بے عقل غریب، جو تمہارے پیچھے پیچھے رہتے ہیں، انہیں اہل یا مال کی تمنا نہیں ہوتی،وہ خائن کہ جس پر طمع کی کوئی چیز مخفی نہ رہتی ہو، اگرچہ وہ چھوٹی ہو، مگر اس میں خیانت کر جاتا ہو، وہ آدمی جو صبح شام یعنی ہر لمحہ تجھے تیرے اہل و مال میں دھوکہ دینا چاہتا ہو۔ آپ نے بخل، کذب( جھوٹ) اور بدخلقی کا بھی ذکر کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11092

۔ (۱۱۰۹۲)۔ عَنْ اَبِیْ زَیْدٍ الْاَنْصَارِیِّ قَالَ: صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَلَاۃَ الْصُبْحِ، ثُمَّ سَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتّٰی حَضَرَتِ الظُّہْرُ، ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّی الظُّہْرَ، ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتّٰی حَضَرَتِ الْعَصْرُ، ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّی الْعَصْرَ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتّٰی غَابَتِ الشَّمْسُ، فَحَدَّثَنَا بِمَا کَانَ وَمَا ھُوَ کَائِنٌ فَاَعْلَمْنَا اَحْفَظْنَا۔ (مسند احمد: ۲۳۲۷۶)
سیدنا ابو زید انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تشریف لائے اور خطبہ ارشاد فرماتے رہے تاآنکہ نمازِ ظہر کا وقت ہو گیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اترے اور ظہر کی نماز پڑھائی، پھر منبر پر تشریف لے گئے اور خطبہ جاری رکھا،یہاں تک کہ عصر کا وقت ہو گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نیچے اتر کر عصر کی نماز پڑھائی، اس کے بعد پھر منبر پر تشریف لے گئے، اور خطبہ دیا،یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں ماضی اور مستقبل کے سارے احوال بیان فرمائے، ہم میں سے جس نے وہ باتیں زیادہیاد رکھیں، وہ ہم میں سے زیادہ علم والا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11093

۔ (۱۱۰۹۳)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: لَمَّا أَعْطٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا أَعْطٰی مِنْ تِلْکَ الْعَطَایَا فِی قُرَیْشٍ وَقَبَائِلِ الْعَرَبِ، وَلَمْ یَکُنْ فِی الْأَنْصَارِ مِنْہَا شَیْئٌ، وَجَدَ ہٰذَا الْحَیُّ مِنَ الْأَنْصَارِ فِی أَنْفُسِہِمْ حَتّٰی کَثُرَتْ فِیہِمُ الْقَالَۃُ حَتّٰی قَالَ قَائِلُہُمْ: لَقِیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَوْمَہُ فَدَخَلَ عَلَیْہِ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ ہٰذَا الْحَیَّ قَدْ وَجَدُوْا عَلَیْکَ فِی أَنْفُسِہِمْ لِمَا صَنَعْتَ فِی ہٰذَا الْفَیْئِ الَّذِی أَصَبْتَ، قَسَمْتَ فِی قَوْمِکَ وَأَعْطَیْتَ عَطَایَا عِظَامًا فِی قَبَائِلِ الْعَرَبِ، وَلَمْ یَکُنْ فِی ہٰذَا الْحَیِّ مِنَ الْأَنْصَارِ شَیْئٌ، قَالَ: ((فَأَیْنَ أَنْتَ مِنْ ذٰلِکَ یَا سَعْدُ!)) قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ مَا أَنَا إِلَّا امْرُؤٌ مِنْ قَوْمِی وَمَا أَنَا، قَالَ: ((فَاجْمَعْ لِی قَوْمَکَ فِی ہٰذِہِ الْحَظِیرَۃِ۔)) قَالَ: فَخَرَجَ سَعْدٌ فَجَمَعَ النَّاسَ فِی تِلْکَ الْحَظِیرَۃِ، قَالَ، فَجَائَ رِجَالٌ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ فَتَرَکَہُمْ فَدَخَلُوا، وَجَائَ آخَرُونَ فَرَدَّہُمْ، فَلَمَّا اجْتَمَعُوا أَتَاہُ سَعْدٌ فَقَالَ: قَدِ اجْتَمَعَ لَکَ ہٰذَا الْحَیُّ مِنْ الْأَنْصَارِ، قَالَ: فَأَتَاہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ بِالَّذِی ہُوَ لَہُ أَہْلٌ ثُمَّ قَالَ: ((یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ! مَا قَالَۃٌ بَلَغَتْنِی عَنْکُمْ، وَجِدَۃٌ وَجَدْتُمُوہَا فِی أَنْفُسِکُمْ، أَلَمْ آتِکُمْ ضُلَّالًا فَہَدَاکُمُ اللّٰہُ، وَعَالَۃً فَأَغْنَاکُمُ اللّٰہُ، وَأَعْدَائً فَأَلَّفَ اللّٰہُ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ؟)) قَالُوا: بَلْ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَمَنُّ وَأَفْضَلُ، قَالَ: ((أَلَا تُجِیبُونَنِییَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ!)) قَالُوْا: وَبِمَاذَا نُجِیبُکَیَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ وَلِلّٰہِ وَلِرَسُولِہِ الْمَنُّ وَالْفَضْلُ، قَالَ: ((أَمَا وَاللّٰہِ! لَوْ شِئْتُمْ لَقُلْتُمْ فَلَصَدَقْتُمْ وَصُدِّقْتُمْ: أَتَیْتَنَا مُکَذَّبًا فَصَدَّقْنَاکَ، وَمَخْذُولًا فَنَصَرْنَاکَ، وَطَرِیدًا فَآوَیْنَاکَ، وَعَائِلًا فَأَغْنَیْنَاکَ، أَوَجَدْتُمْ فِی أَنْفُسِکُمْ یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ فِی لُعَاعَۃٍ مِنَ الدُّنْیَا؟ تَأَلَّفْتُ بِہَا قَوْمًا لِیُسْلِمُوا وَوَکَلْتُکُمْ إِلٰی إِسْلَامِکُمْ، أَفَلَا تَرْضَوْنَ یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ! أَنْ یَذْہَبَ النَّاسُ بِالشَّاۃِ وَالْبَعِیرِ،وَتَرْجِعُونَ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی رِحَالِکُمْ؟ فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ! لَوْلَا الْہِجْرَۃُ لَکُنْتُ امْرَأً مِنْ الْأَنْصَارِ، وَلَوْ سَلَکَ النَّاسُ شِعْبًا وَسَلَکَتِ الْأَنْصَارُ شِعْبًا لَسَلَکْتُ شِعْبَ الْأَنْصَارِ، اللَّہُمَّ ارْحَمِ الْأَنْصَارَ وَأَبْنَائَ الْأَنْصَارِ وَأَبْنَاء َ أَبْنَائِ الْأَنْصَارِ۔)) قَالَ: فَبَکَی الْقَوْمُ حَتّٰی أَخْضَلُوا لِحَاہُمْ وَقَالُوْا: رَضِینَا بِرَسُولِ اللّٰہِ قِسْمًا وَحَظًّا، ثُمَّ انْصَرَفَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَتَفَرَّقْنَا۔ (مسند احمد: ۱۱۷۵۳)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اموالِ غنیمت میں سے قریش اور دیگر عرب قبائل کو بہت کچھ عنایت فرمایا اور ان میں سے انصار کو کچھ بھی نہ ملا تو اس کی وجہ سے انصار کے اس گروہ نے اپنے دلوں میں کچھ انقباض محسوس کیایہاں تک کہ اس سلسلہ میں بہت سی باتیں ہونے لگیںیہاں تک کہ بعض نے تو یہ تک کہہ دیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ان کی قوم کی محبت غالب آگئی ہے۔ سعد بن عبادہ خزرجی انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ کی خدمت میں آکر عرض کیا اللہ کے رسول آپ نے اس مال غنیمت کی جس انداز سے تقسیم کی ہے لوگوں کے دلوں میں اس کی وجہ سے وسوسے پیدا ہوئے ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی قوم، قریش اور دیگر عرب قبائل کو تو بڑے بڑے عطیے عنایت فرما دئیے اور انصار کے قبیلہ کو کچھ بھی نہیں ملا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ! ایسی باتیں ہو رہی ہیں تو تم کہاں ہو ؟ انہوں نے عرض کیااللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میں تو اپنی ہی قوم کا فرد ہوں۔ لیکن میرے دل میں تو ایسی کوئی بات نہیں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنی قوم ( انصار) کو اس باڑے میں جمع کرو۔ سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ گئے اور اپنی ساری قوم جو جمع کر کے اس باڑے میں لے آئے۔ کچھ مہاجرین آئے تو سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو اندر آنے کی اجازت دے دی، وہ اندر آگئے کچھ اور بھی آنا چاہا تو سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے انہیں واپس بھیج دیا، جب سب لوگ جمع ہو گئے تو سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آکر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حکم کے مطابق انصار جمع ہو چکے ہیں۔ تو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس تشریف لائے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سب سے پہلے اللہ کے شایانِ شان تعریف کی پھر فرمایا، اے انصار کی جماعت ! تمہاری طرف سے یہ کیسی بات مجھ تک پہنچی ہے؟ کیا تم نے اپنے دلوں میں کچھ رنجش محسوس کی ہے ؟ کیایہ حقیقت نہیں کہ میں تمہارے پاس آیا تو تم راہ راست سے بھٹکے ہوئے تھے تو اللہ نے تمہیں ہدایت سے سرفراز کیا؟ اور تم تنگ درست تھے تو اللہ نے تمہیں مال دار بنا دیا؟ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اللہ نے تمہارے دلوں کو آپس میں جوڑ دیا ؟ سب انصار نے کہا کہ یہ بالکل صحیح ہے اللہ اور اس کے رسول کا ہم پر بہت فضل اور احسان ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا اے انصار! کیا تم میری ایک بات نہیں مانو گے؟ وہ بولے اللہ کے رسول! کونسی بات؟ ہم پر تو اللہ اور اس کے رسول کا بہت احسان اور فضل ہے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم! اگر تم چاہو تو کہہ سکتے ہو اور تمہاری بات ہو گی بھی درست ( کہ تم یوں کہو) کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس ایسی حالت میں آئے جب لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ( یعنی رسول کی ) تکذیب کرتے تھے ہم ( انصار) نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تصدیق کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ( آپ کی قوم نے) بے یارومددگارچھوڑا ہوا تھا۔ ہم ( انصار) نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مدد کی، قوم نے آپ کو اپنے شہر اور وطن سے بے دخل کر دیا تھا ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو رہنے کی جگہ دی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ( رسول اور مسلمان،مہاجرین) تنگ دست تھے، ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مال دار کیا تو اے انصار کیا تم نے دنیوی معمولی متاع کی وجہ سے دلوں میں رنجش پیدا کر لی، میں نے تو ان لوگوں کو یہ مال اس لیے دیا ہے تاکہ وہ اسلام میں پختہ ہو جائیں اور میں نے تمہیںتو تمہارے اسلام کے سپرد کیا، اے انصار! کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کر لوگ بکریاں اور اونٹ لے کر اپنے گھروں کو جائیں اور تم اللہ کے رسول کو ساتھ لے کر گھروں کو واپس لوٹو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جان ہے اگر ہجرت والی سعادت نہیں ہوتی تو میں بھی انصار ہی کا ایک فرد ہوتا۔ اگر لوگ ایک گھاٹی میں چلیں اور انصار کسی دوسری گھاٹی میں سے گزریں تو میں بھی اس گھاٹی میں چلوں گا جہاں سے انصار چلیں گے۔ یا اللہ انصار پر، ان کی اولادوں پر اور ان کی اولادوں کی اولادوں پر سب پر رحم فرما۔ ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی باتیں سن کر وہ لوگ اس قدر بلک بلک کر رونے لگے کہ آنسوؤں سے ان کی داڑھیاں تر ہو گئیں۔ اور وہ کہنے لگے ہم اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تقسیم اور اپنے حصہ پر راضی ہیں۔ اس کے بعد اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس تشریف لے آئے اور ہم بھی چلے آئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11094

۔ (۱۱۰۹۴)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: جَمَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْأَنْصَارَ فَقَالَ، ((أَفِیکُمْ أَحَدٌ مِنْ غَیْرِکُمْ۔)) قَالُوا: لَا إِلَّا ابْنَ أُخْتٍ لَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((ابْنُ أُخْتِ الْقَوْمِ مِنْہُمْ۔)) قَالَ حَجَّاجٌ: أَوْ مِنْ أَنْفُسِہِمْ، فَقَالَ: ((إِنَّ قُرَیْشًا حَدِیثُ عَہْدٍ بِجَاہِلِیَّۃٍ وَمُصِیبَۃٍ، وَإِنِّی أَرَدْتُ أَنْ أَجْبُرَہُمْ وَأَتَأَلَّفَہُمْ، أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ یَرْجِعَ النَّاسُ بِالدُّنْیَا، وَتَرْجِعُونَ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی بُیُوتِکُمْ؟ لَوْ سَلَکَ النَّاسُ وَادِیًا وَسَلَکَتِ الْأَنْصَارُ شِعْبًا لَسَلَکْتُ شِعْبَ الْأَنْصَارِ۔)) (مسند احمد: ۱۲۷۹۶)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انصار کو ایک جگہ جمع کیا اور دریافت فرمایا: کیا تمہارے اندر تمہارے علاوہ کوئی دوسرا فرد تو نہیں ہے؟ انہوں نے بتلایا: جی نہیں، صرف ہمارا ایک بھانجا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بھانجا تو اسی قوم کا ہی فرد ہوتا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قریش تازہ تازہ کفر چھوڑ کر اور شکست کی مصیبت سے دوچار ہوئے ہیں، میں ان کو کچھ دے دلا کر ان کی تالیف قلبی کرنا چاہتا ہوں، کیا تم اس بات سے راضی ہو کہ لوگ دنیا کا مال لے کر جائیں اور تم اپنے گھروں کو جاتے ہوئے اللہ کے رسول کو ساتھ لے کر جاؤ، اگر عام لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار کسی پہاڑی گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی گھاٹی کو ترجیح دیتے ہوئے اسی میں چلوں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11095

۔ (۱۱۰۹۵)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَۃَ قَالَ: خَطَبَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ عَلٰی نَاقَتِہِ، (فی روایۃ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِمِنًی وَہُوَ عَلٰی رَاحِلَتِہِ) وَأَنَا تَحْتَ جِرَانِہَا، وَہِیَ تَقْصَعُ بِجِرَّتِہَا وَلُعَابُہَا یَسِیلُ بَیْنَ کَتِفَیَّ، قَالَ: ((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ أَعْطٰی لِکُلِّ ذِی حَقٍّ حَقَّہُ، وَلَا وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ، وَالْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاہِرِ الْحَجَرُ، وَمَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَیْرِ أَبِیہِ، أَوْ انْتَمٰی إِلٰی غَیْرِ مَوَالِیہِ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ، لَا یُقْبَلُ مِنْہُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ۔)) (مسند احمد: ۱۸۲۵۱)
سیدنا عمرو بن خارجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر منی میں خطبہ ارشاد فرمایا، میں اس وقت اونٹنی کی گردن کے نیچے کھڑا تھا اور وہ انتہائی مطمئن کھڑی جگالی کر رہی تھی اور اس کا لعاب مجھ پر گر بھی رہا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے، کسی بھی شرعی وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جا سکتی، بچہ اسی کی طرف منسوب ہو گا، جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا، اس بچے کی ولدیت کا دعویٰ کرنے والا زانی سنگساری کا مستحق ہے اور جس کسی نے خود کو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف منسوب کیا، اس پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو گی، اس کی کوئی بھی فرض یا نفل عبادت قبول نہیں ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11096

۔ (۱۱۰۹۶)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) خَطَبَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ عَلٰی نَاقَتِہِ فَقَالَ: ((أَلَا إِنَّ الصَّدَقَۃَ لَا تَحِلُّ لِی وَلَا لِأَہْلِ بَیْتِی۔)) وَأَخَذَ وَبَرَۃً مِنْ کَاہِلِ نَاقَتِہِ فَقَالَ: ((وَلَا مَا یُسَاوِی ہٰذِہِ أَوْ مَایَزِنُ ہٰذِہِ، لَعَنَ اللّٰہُ مَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَیْرِ أَبِیہِ…۔)) اَلْحَدِیْثَ کَمَا تَقَدَّمَ۔ (مسند احمد: ۱۷۸۱۴)
۔(دوسری سند ) سیدنا عمرو بن خارجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی اونٹنی پر سوار تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: صدقہ کا مال میرے لیے اور میرے اہل بیت کے لیے حلال نہیں۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اونٹنی کے کاندھے کے بالوں کا ایک گچھا پکڑ کر فرمایا: بلکہ میرےلیے تو صدقہ میں سے اس مقدار جتنی چیز بھی حلال نہیں اور جس نے خود کو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف منسوب کیا اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ ( باقی حدیث، گذشتہ حدیث کی مانند ہے۔)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11097

۔ (۱۱۰۹۷)۔ حَدَّثَنَا ہِلَالُ بْنُ عَامِرٍ الْمُزَنِیُّ عَنْ أَبِیہِ قَالَ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَخْطُبُ النَّاسَ بِمِنًی عَلٰی بَغْلَۃٍ وَعَلَیْہِ بُرْدٌ أَحْمَرُ، قَالَ: وَرَجُلٌ مِنْ أَہْلِ بَدْرٍ بَیْنَیَدَیْہِیُعَبِّرُ عَنْہُ، قَالَ: فَجِئْتُ حَتَّی أَدْخَلْتُ یَدِی بَیْنَ قَدَمِہِ وَشِرَاکِہِ، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَعْجَبُ مِنْ بَرَدِہَا۔ (مسند احمد: ۱۶۰۱۶)
سیدنا عامر مزنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے منیٰ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو خچر پر سوار خطبہ دیتے سنا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سرخ رنگ کی چادر زیب تن کئے ہوئے تھے، ایک بدری صحابی آپ کے سامنے تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آواز سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات کو (بلند آواز میں) دہرا کر لوگوں تک پہنچا رہا تھا۔ میں نے آکر اپنا ہاتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قدم اور تسمے میں داخل کر دیا، مجھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قدم کی ٹھنڈک سے از حد تعجب ہوا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11098

۔ (۱۱۰۹۸)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَیْخٌ مِنْ بَنِیْ فَزَارَۃَ عَنْ ہِلَالِ بْنِ عَامِرٍ الْمُزَنِیِّ عَنْ أَبِیہِ: قَالَ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَخْطُبُ النَّاسَ عَلٰی بَغْلَۃٍ شَہْبَائَ، وَعَلِیٌّیُعَبِّرُ عَنْہُ۔ (مسند احمد: ۱۶۰۱۷)
۔( دوسری سند) سیدنا عامر مزنی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک سفید خچر پر سوار تھے اور لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ کی آواز سن کر اسے دہرا کر لوگوں تک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خطاب پہنچا رہے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11099

۔ (۱۱۰۹۹)۔ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ أَخْبَرَنَا أَیُّوبُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ: أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَطَبَ فِی حَجَّتِہِ، فَقَالَ: ((أَلَا إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ کَہَیْئَتِہِیَوْمَ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ، السَّنَۃُ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا، مِنْہَا أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ، ثَلَاثٌ مُتَوَالِیَاتٌ ذُو الْقَعْدَۃِ وَذُو الْحِجَّۃِ وَالْمُحَرَّمُ وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِی بَیْنَ جُمَادٰی وَشَعْبَانَ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((أَلَا أَیُّیَوْمٍ ہٰذَا؟)) قُلْنَا: اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، فَسَکَتَ حَتّٰی ظَنَنَّا أَنَّہُ سَیُسَمِّیہِ بِغَیْرِ اسْمِہِ، قَالَ: ((أَلَیْسَیَوْمَ النَّحْرِ؟)) قُلْنَا: بَلٰی، ثُمَّ قَالَ: ((أَیُّ شَہْرٍ ہٰذَا؟)) قُلْنَا: اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، فَسَکَتَ حَتّٰی ظَنَنَّا أَنَّہُ سَیُسَمِّیہِ بِغَیْرِ اسْمِہِ، فَقَالَ: ((أَلَیْسَ ذَا الْحِجَّۃِ؟)) قُلْنَا: بَلٰی، ثُمَّ قَالَ: ((أَیُّ بَلَدٍ ہٰذَا؟)) قُلْنَا: اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، فَسَکَتَ حَتّٰی ظَنَنَّا أَنَّہُ سَیُسَمِّیہِ بِغَیْرِ اسْمِہِ، قَالَ: ((أَلَیْسَتِ الْبَلْدَۃَ؟ قُلْنَا: بَلٰی، قَالَ: ((فَإِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ (قَالَ: وَأَحْسَبُہُ قَالَ) وَأَعْرَاضَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ، کَحُرْمَۃِیَوْمِکُمْ ہٰذَا، فِی شَہْرِکُمْ ہٰذَا، فِی بَلَدِکُمْ ہٰذَا، وَسَتَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ فَیَسْأَلُکُمْ عَنْ أَعْمَالِکُمْ، أَلَا لَا تَرْجِعُوا بَعْدِی ضُلَّالًا، یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ، أَلَا ہَلْ بَلَّغْتُ أَلَا لِیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ مِنْکُمْ، فَلَعَلَّ مَنْ یُبَلَّغُہُیَکُونُ أَوْعٰی لَہُ مِنْ بَعْضِ مَنْ یَسْمَعُہُ۔)) قَالَ مُحَمَّدٌ: وَقَدْ کَانَ ذَاکَ قَالَ: قَدْ کَانَ بَعْضُ مَنْ بُلِّغَہُ أَوْعٰی لَہُ مِنْ بَعْضِ مَنْ سَمِعَہُ۔ (مسند احمد: ۲۰۶۵۷)
سیدنا ابوبکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ حج کے موقع پر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا: خبردار! بے شک، زمانہ اپنی اسی کیفیت اور ہیئت پر لوٹ آیا ہے، جس کیفیت اور ہیئت پر اللہ نے اسے اس دن بنایا تھا، جس دن اس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا تھا، سال کے بارہ مہینے ہیں ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ ان میں سے ذوالقعدہ، ذوالحجہ، اور محرم متواتر ہیں اور چوتھا مہینہ رجب ہے،جو کہ جمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان ہے اور قبیلہ مضر کے لوگ جس کا بہت زیادہ احترام کرتے ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: آج کون سا دن ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں،یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس قدر خاموش رہے کہ ہم نے سمجھا کہ شاید آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کا کوئی نیانام تجویز کریں گے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا آج یوم النحر (یعنی دس ذوالحجہ والا قربانی کا دن) نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا: جی ہاں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب کونسا مہینہ ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس حد تک خاموش رہے کہ ہم نے سمجھا شاید آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کاکوئی نیا نام تجویز کریں گے،پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیایہ ذوالحجہ کا مہینہ نہیں ہے ؟ ہم نے عرض کیا: جی ہاں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کونسا شہر ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس قدر خاموش رہے کہ ہم نے سمجھا کہ شاید آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کا کوئی نیا نام تجویز کریں گے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیایہ بلدۂ طیبہ( یعنی پاکیزہ شہر) نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بے شک تمہارے خون، اموال اور عزتیں ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جیسے آج کے دن کی، اس مہینے اور اس شہر میں حرمت ہے، عنقریب تمہاری اپنے رب سے ملاقات ہو گی، وہ تم سے تمہارے کاموں کا محاسبہ کرے گا خبردار تم میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو، خبردار! کیا میں نے اللہ کا دین تم تک پہنچا دیا ؟( یا نہیں) خبردار! تم میں سے جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ ان باتوں کو ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ عین ممکن ہے کہ براہ راست سننے والے بعض لوگوں کی نسبت وہ لوگ انہیں بہتر طور پر سمجھیں اور یاد رکھیں جن تک یہ باتیں پہنچائی جائیں۔ ( محمد بن سیرین راویٔ حدیث نے کہا کہ) واقعی ایسا ہوا۔ براہ راست سننے والے بعض لوگوں کی نسبت ان بعض لوگوں نے ان باتوں کو زیادہیاد رکھا جن تک یہ باتیں پہنچیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11100

۔ (۱۱۱۰۰)۔ (وَعَنْہٗمِنْطَرِیْقٍ ثَانٍ بِنَحْوِہِ وَزَاہٗبَعْدَقَوْلِہٖ: ((یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ۔)) فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ حَرْقِ ابْنِ الْحَضْرَمِیِّ حَرَّقَہُ جَارِیَۃُ بْنُ قُدَامَۃَ قَالَ: أَشْرِفُوا عَلٰی أَبِی بَکْرَۃَ، فَقَالُوا: ہٰذَا أَبُو بَکْرَۃَ؟ فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ: فَحَدَّثَتْنِی أُمِّی أَنَّ أَبَا بَکْرَۃَ قَالَ: لَوْ دَخَلُوْا عَلَیَّ مَا بَہَشْتُ إِلَیْہِمْ بِقَصَبَۃٍ۔ (مسند احمد: ۲۰۶۷۸)
۔(دوسری سند) یہ حدیث اسی طرح ہی مروی ہے، البتہ اس میں ان الفاظ: تم ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو گے۔ کے بعد ہے: جس دن جاریہ بن قدامہ نے ابن حضرمی کو جلا یا تو اس نے برے ارادہ سے اپنے ساتھیوں سے کہا: اب ابوبکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف چلو، لوگوں نے کہا: یہ ابوبکر ہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہے، عبد الرحمن یعنی ابوبکرہ کے بیٹے نے کہا: میری ماں نے مجھے بیان کیا کہ ابوبکرہ نے کہا: اگر وہ لوگ میری طرف آتے تو میں اپنے دفاع کے لیے ان کی طرف ایک سر کنڈے کا بھی اشارہ نہ کرتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11101

۔ (۱۱۱۰۱)۔ عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ قَالَ: لَمَّا کَانَ ذَلِکَ الْیَوْمُ، قَعَدَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی بَعِیرٍ وَأَخَذَ رَجُلٌ بِزِمَامِہِ أَوْ بِخِطَامِہِ، فَقَالَ: ((أَیُّیَوْمٍیَوْمُکُمْ ہٰذَا؟)) قَالَ: فَسَکَتْنَا حَتّٰی ظَنَنَّا أَنَّہُ سَیُسَمِّیہِ سِوَی اسْمِہِ، قَالَ: ((أَلَیْسَ بِالنَّحْرِ؟)) فَذَکَرَ نَحْوَ الطَّرِیْقِ الْاوْلٰی مِنَ الْحَدِیْثِ الْمُتَقَدِّمِ۔ (مسند احمد: ۲۰۶۵۸)
سیدنا ابوبکر ہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ منی میں جب دس ذوالحجہ کا دن تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اونٹ پر سوار ہوئے، ایک آدمی نے اس کی مہار پکڑی ہوئی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آج کونسا دن ہے؟ ہم خاموش رہے، ہم نے سمجھا کہ شاید آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس دن کا کوئی اور نام تجویز فرمائیں گے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود ہی فرمایا: کیایہیوم النحر نہیں ہے؟ اس نے آگے گذشتہ حدیث کی طرح حدیث ذکر کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11102

۔ (۱۱۱۰۲)۔ (وَعَنْہٗمِنْطَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ قَالَ: لَمَّا کَانَ ذَاکَ الْیَوْمُ، رَکِبَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَاقَتَہُ، ثُمَّ وَقَفَ فَقَالَ: ((تَدْرُونَ أَیُّیَوْمٍ ہٰذَا؟)) فَذَکَرَ مَعْنَی حَدِیثِ ابْنِ أَبِی عَدِیٍّ وَقَالَ فِیہِ: ((أَلَا لِیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ۔)) مَرَّتَیْنِ، ((فَرُبَّ مُبَلَّغٍ ہُوَ أَوْعٰی مِنْ مُبَلِّغٍ۔)) مِثْلَہُ ثُمَّ مَالَ عَلٰی نَاقَتِہِ إِلٰی غُنَیْمَاتٍ فَجَعَلَ یَقْسِمُہُنَّ بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ الشَّاۃَ وَالثَّلَاثَۃِ الشَّاۃَ۔ (مسند احمد: ۲۰۷۲۷)
۔( دوسری سند) سیدنا ابوبکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب منی میں دس ذوالحجہ کا دن تھا، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر ا س پر کھڑے ہو گئے اور فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ آج کونسا دن ہے؟ پھر امام احمد کے استاد ہوذہ بن خلیفہ نے امام احمد کے دوسرے استاذ محمد بن ابی عدی کی حدیث کی طرح بیان حدیث کی)، اس میں یہ الفاظ بھی ہیں: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! جو لوگ یہاں موجود ہیں، وہ یہ باتیں ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ دو بار یہ بات ارشاد فرمائی اور پھر فرمایا: بسااوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ جن لوگوں تک بات پہنچائی جائے، وہ اسے پہنچانے والے سے بہتر یاد رکھتے ہیں۔ اس کے بعد آپ اونٹنی کو لے کر بکریوں کی طرف تشریف لے گئے اور دو دو تین آدمیوں میں ایک ایک بکری تقسیم کرنے لگے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11103

۔ (۱۱۱۰۳)۔ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ! أَیُّیَوْمٍ ھٰذَا؟)) قَالُوْا: ھٰذَا یَوْمٌ حَرَامٌ، قَالَ: ((أَیُّ بَلَدٍ ھٰذَا؟)) قَالُوْا: بَلْدٌ حَرَامٌ، قَالَ: ((فَأَیُّ شَہْرٍ ھٰذَا؟)) قَالُوْا: شَہْرٌ حَرَامٌ، قَالَ: ((إِنَّ أَمْوَالَکُمْ وَ ِدَمائَ کُمْ وَأَعْرَاضَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِیَوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَہْرِ کُمْ ھٰذَا۔)) ثُمَّ أَعَادَھَا مِرَارًا، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ إِلَی السَّمَائِ فَقَالَ: ((اَللّٰہُمَّ ھَلْ بَلَّغْتُ؟)) مِرَارًا، قَالَ: یَقُوْلُ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَاللّٰہِ! إِنَّہَا لَوَصِیَّۃٌ إِلٰی رَبِّہِ عَزَّوَجَلَّ، ثُمَّ قَالَ: ((أَلَافَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ، لَاتَرْجِعُوْا بَعْدِی کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ۔)) (مسند احمد: ۲۰۳۶)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: لوگو! یہ کونسا دن ہے؟ صحابہ نے کہا: یہ حرمت والا دن ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: یہ کونسا شہر ہے؟ صحابہ نے کہا: یہ حرمت والا شہر ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر پوچھا: یہ کون سا مہینہ ہے؟ صحابہ نے کہا: یہ حرمت والا مہینہ ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے مال، تمہارے خون اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں، جیسے اس شہر اور اس مہینے میں آج کے دن کی حرمت ہے۔ آپ نے یہ الفاظ متعدد مرتبہ دہرائے، اس کے بعدآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آسمان کی طرف سر اٹھاکر متعدد بار فرمایا: کیا میں نے لوگوں تک پیغام پہنچادیا ہے؟ سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہا کرتے تھے: اللہ کی قسم! یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے امت کے حق میں اللہ تعالیٰ کو وصیت تھی۔ اسکے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار ! جو لوگ اس وقت موجود ہیں، وہ یہ باتیں ان لوگوں تک پہنچادیں، جو یہاں موجود نہیں ہیں، لوگو! تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11104

۔ (۱۱۱۰۴)۔ حَدَّثَنَا یُونُسُ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْیَشْکُرِیُّ، حَدَّثَنَا شَیْخٌ کَبِیرٌ مِنْ بَنِی عُقَیْلٍیُقَالُ لَہُ: عَبْدُ الْمَجِیدِ الْعُقَیْلِیُّ، قَالَ: انْطَلَقْنَا حُجَّاجًا لَیَالِیَ خَرَجَ یَزِیدُ بْنُ الْمُہَلَّبِ، وَقَدْ ذُکِرَ لَنَا أَنَّ مَائً بِالْعَالِیَۃِ، یُقَالُ لَہُ: الزُّجَیْجُ، فَلَمَّا قَضَیْنَا مَنَاسِکَنَا جِئْنَا حَتّٰی أَتَیْنَا الزُّجَیْجَ، فَأَنَخْنَا رَوَاحِلَنَا، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا حَتّی أَتَیْنَا عَلٰی بِئْرٍ، عَلَیْہِ أَشْیَاخٌ مُخَضَّبُونَ یَتَحَدَّثُونَ، قَالَ: قُلْنَا: ہٰذَا الَّذِی صَحِبَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَیْنَ بَیْتُہُ؟ قَالُوْا: نَعَمْ، صَحِبَہُ وَہٰذَاکَ بَیْتُہُ، فَانْطَلَقْنَا حَتّٰی أَتَیْنَا الْبَیْتَ فَسَلَّمْنَا، قَالَ: فَأَذِنَ لَنَا فَإِذَا ہُوَ شَیْخٌ کَبِیرٌ مُضْطَجِعٌ، یُقَالُ لَہُ: الْعَدَّائُ بْنُ خَالِدٍ الْکِلَابِیُّ، قُلْتُ: أَنْتَ الَّذِی صَحِبْتَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: نَعَمْ، وَلَوْلَا أَنَّہُ اللَّیْلُ لَأَقْرَأْتُکُمْ کِتَابَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَیَّ، قَالَ: فَمَنْ أَنْتُمْ؟ قُلْنَا: مِنْ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ، قَالَ: مَرْحَبًا بِکُمْ مَا فَعَلَ یَزِیدُ بْنُ الْمُہَلَّبِ؟ قُلْنَا: ہُوَ ہُنَاکَ یَدْعُو إِلٰی کِتَابِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَإِلٰی سُنَّۃِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فِیمَا ہُوَ مِنْ ذَاکَ؟ فِیمَا ہُوَ مِنْ ذَاکَ؟ قَالَ: قُلْتُ: أَیًّا نَتَّبِعُ ہٰؤُلَائِ أَوْ ہٰؤُلَائِ یَعْنِی أَہْلَ الشَّامِ أَوْ یَزِیدَ؟ قَالَ: إِنْ تَقْعُدُوْا تُفْلِحُوْا وَتَرْشُدُوْا، إِنْ تَقْعُدُوْا تُفْلِحُوْا وَتَرْشُدُوا، لَا أَعْلَمُہُ إِلَّا قَالَ: ثَلَاثَ مَرَّاتٍ رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ عَرَفَۃَ، وَہُوَ قَائِمٌ فِی الرِّکَابَیْنِیُنَادِی بِأَعْلٰی صَوْتِہِ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ! أَیُّیَوْمِکُمْ ہٰذَا؟)) قَالُوْا: اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: ((فَأَیُّ شَہْرٍ شَہْرُکُمْ ہٰذَا؟)) قَالُوْا: اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: ((فَأَیُّ بَلَدٍ بَلَدُکُمْ ہٰذَا؟)) قَالُوْا: اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: ۔))یَوْمُکُمْیَوْمٌ حَرَامٌ وَشَہْرُکُمْ شَہْرٌ حَرَامٌ وَبَلَدُکُمْ بَلَدٌ حَرَامٌ۔)) قَالَ: فَقَالَ: ((أَلَا إِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِیَوْمِکُمْ ہٰذَا، فِی شَہْرِکُمْ ہٰذَا، فِی بَلَدِکُمْ ہٰذَا، إِلَییَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی، فَیَسْأَلُکُمْ عَنْ أَعْمَالِکُمْ۔)) قَالَ: ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ إِلَی السَّمَائِ فَقَالَ: ((اللَّہُمَّ اشْہَدْ عَلَیْہِمْ، اللَّہُمَّ اشْہَدْ عَلَیْہِمْ۔)) ذَکَرَ مِرَارًا فَلَا أَدْرِی کَمْ ذَکَرَہُ۔ (مسند احمد: ۲۰۶۰۲)
عبدالمجید عقیلی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم یزید بن مہلب کے عہد میں حج کے ارادہ سے روانہ ہوئے، انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ العالیہ کے علاقہ میں ایک مقام ہے، جس کا نام الزجیج ہے، ہم مناسکِ حج کی ادائیگی کے بعد الزجیج‘ ‘ پہنچے، ہم نے اپنی سواریوں کو بٹھایا، ہم چل کر ایک کنوئیں پر پہنچے، جہاں بہت سے بزرگ تشریف فرما تھے، انہوں نے اپنی داڑھیوں کو رنگا ہوا تھا، وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے، عبدالمجید کہتے ہیں: ہم نے ان سے دریافت کیا کہ یہاںایک صاحب ہیں جو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صحبت کا شرف حاصل کر چکے ہیں۔ ان کا گھر کہا ں ہے؟ انہوں نے بتایا کہ وہ واقعی صحابیٔ رسول ہیں اور یہ ان کا گھر ہے، ہم چل کر ان کے گھر پہنچے، ہم نے انہیں سلام کہا، انہوں نے ہمیں اندر داخل ہونے کی اجازت دی، وہ کافی بزرگ ہو چکے تھے، لیٹے ہوئے تھے، ان کا نام عداء بن خالد کلابی تھا، میں نے عرض کیا: کیا آپ ہی وہ بزرگ ہیں، جنہیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہے؟انہوں نے کہا: جی ہاں، اگر اب رات کا وقت نہ ہوتا تو میں آپ لوگوں کو وہ خط پڑھاتا جو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے نام تحریر فرمایا تھا، انہوں نے دریافت کیا تم لوگ کون ہو؟ ہم نے عرض کیا: ہم بصرہ سے آئے ہیں۔ انھوں نے کہا: خوش آمدید،یزید بن مہلب کیا کرتا ہے؟ ہم نے عرض کیا: وہ وہاں اللہ تعالیٰ کی کتاب اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سنت کی طرف دعوت دیتے ہیں، وہ کہنے لگے، اسے ان سے کیا کام ؟ اس کا ان سے کیا تعلق ؟ میں نے عرض کیا:پھر ہم کس کا ساتھ دیں، شام والوں کا یایزید کا؟ انھوں نے کہا: اگر تم غیر جانب دار ہو کر الگ بیٹھ رہو تو کامیاب رہو گے، عبدالمجید نے بتایا: مجھے یاد ہے کہ انہوں نے یہ بات تین بار دہرائی، پھر کہا:میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو عرفہ کے دن دیکھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اونٹنی کی رکابوں میں پاؤں رکھے کھڑے تھے اور بلند آواز سے فرما رہے تھے، لوگو! آج کونسا دن ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کونسا مہینہ ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کونسا شہر ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ دن حرمت والا دن ہے، یہ مہینہ حرمت والا مہینہ ہے، یہ شہر حرمت والا شہر ہے، خبردار! بے شک تمہارے خون اور اموال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں، جیسے آج کے دن کی اس شہر میں اور اس مہینے میں قیامت تک حرمت ہے، وہ قیامت کے دن تم سے تمہارے اعمال کا محاسبہ کرے گا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھائے اور کہا: اے اللہ ! تو ان پر گواہ رہنا،اے اللہ! تو ان پر گواہ رہنا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بات بار بار ارشاد فرمائی، مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بات کتنی مرتبہ کہی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11105

۔ (۱۱۱۰۵)۔ عَنْ أَبِی حُرَّۃَ الرَّقَاشِیِّ عَنْ عَمِّہِ قَالَ: کُنْتُ آخِذًا بِزِمَامِ نَاقَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی أَوْسَطِ أَیَّامِ التَّشْرِیقِ أَذُودُ عَنْہُ النَّاسَ، فَقَالَ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ! أَتَدْرُونَ فِی أَیِّ شَہْرٍ أَنْتُمْ، وَفِی أَیِّیَوْمٍ أَنْتُمْ، وَفِی أَیِّ بَلَدٍ أَنْتُمْ؟)) قَالُوْا: فِییَوْمٍ حَرَامٍ وَشَہْرٍ حَرَامٍ وَبَلَدٍ حَرَامٍ، قَالَ: ((فَإِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وَأَعْرَاضَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِیَوْمِکُمْ ہٰذَا، فِی شَہْرِکُمْ ہٰذَا، فِی بَلَدِکُمْ ہٰذَا، إِلٰییَوْمِ تَلْقَوْنَہُ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((اسْمَعُوْا مِنِّی تَعِیشُوا أَلَا لَا تَظْلِمُوا أَلَا لَا تَظْلِمُوا أَلَا لَا تَظْلِمُوا، إِنَّہُ لَا یَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ إِلَّا بِطِیبِ نَفْسٍ مِنْہُ، أَلَا وَإِنَّ کُلَّ دَمٍ وَمَالٍ وَمَأْثَرَۃٍ کَانَتْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ تَحْتَ قَدَمِی ہٰذِہِ إِلٰییَوْمِ الْقِیَامَۃِ، وَإِنَّ أَوَّلَ دَمٍ یُوضَعُ دَمُ رَبِیعَۃَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، کَانَ مُسْتَرْضَعًا فِی بَنِی لَیْثٍ فَقَتَلَتْہُ ہُذَیْلٌ، أَلَا وَإِنَّ کُلَّ رِبًا کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ مَوْضُوعٌ، وَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَضَی أَنَّ أَوَّلَ رِبًا یُوضَعُ رِبَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَکُمْ رُء ُوسُ أَمْوَالِکُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ، أَلَا وَإِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ کَہَیْئَتِہِیَوْمَ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ، ثُمَّ قَرَا:َٔ {إِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُورِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِی کِتَابِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْہَا أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِیہِنَّ أَنْفُسَکُمْ} أَلَا لَا تَرْجِعُوْا بَعْدِی کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ، أَلَا إِنَّ الشَّیْطَانَ قَدْ أَیِسَ أَنْ یَعْبُدَہُ الْمُصَلُّونَ، وَلٰکِنَّہُ فِی التَّحْرِیشِ بَیْنَکُمْ، فَاتَّقُوا اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ فِی النِّسَائِ، فَإِنَّہُنَّ عِنْدَکُمْ عَوَانٍ لَا یَمْلِکْنَ لِأَنْفُسِہِنَّ شَیْئًا، وَإِنَّ لَہُنَّ عَلَیْکُمْ وَلَکُمْ عَلَیْہِنَّ حَقًّا، أَنْ لَا یُوطِئْنَفُرُشَکُمْ أَحَدًا غَیْرَکُمْ وَلَا یَأْذَنَّ فِی بُیُوتِکُمْ لِأَحَدٍ تَکْرَہُونَہُ، فَإِنْ خِفْتُمْ نُشُوزَہُنَّ فَعِظُوہُنَّ وَاہْجُرُوہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرِّحٍ۔)) قَالَ حُمَیْدٌ: قُلْتُ لِلْحَسَنِ: مَا الْمُبَرِّحُ؟ قَالَ: الْمُؤَثِّرُ ((وَلَہُنَّ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَإِنَّمَا أَخَذْتُمُوہُنَّ بِأَمَانَۃِ اللّٰہِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَہُنَّ بِکَلِمَۃِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَنْ کَانَتْ عِنْدَہُ أَمَانَۃٌ فَلْیُؤَدِّہَا إِلٰی مَنْ ائْتَمَنَہُ عَلَیْہَا۔)) وَبَسَطَ یَدَیْہِ، فَقَالَ: ((أَلَا ہَلْ بَلَّغْتُ؟ أَلَا ہَلْ بَلَّغْتُ؟ أَلَا ہَلْ بَلَّغْتُ؟)) ثُمَّ قَالَ: ((لِیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ فَإِنَّہُ رُبَّ مُبَلَّغٍ أَسْعَدُ مِنْ سَامِعٍ۔)) قَالَ حُمَیْدٌ: قَالَ الْحَسَنُ حِینَ بَلَّغَ ہٰذِہِ الْکَلِمَۃَ: قَدْ وَاللّٰہِ! بَلَّغُوْا أَقْوَامًا کَانُوا أَسْعَدَ بِہِ۔ (مسند احمد: ۲۰۹۷۱)
ابو حرہ رقاشی سے مروی ہے، وہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا:ایام تشریق کے دوران میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اونٹنی کی مہار تھامے ہوئے لوگوں کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ہٹا رہا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو! کیا تم جانتے ہو کہ تم اس وقت کس مہینے کس دن اور کس شہر میں ہو؟ صحابہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: ہم حرمت والے دن، حرمت والے مہینے اور حرمت والے شہر میں ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے خون، اموال اور عزتیں ایک دوسرے پر قیامت تک اسی طرح حرام ہیں، جیسے آج کے دن کی اس مہینے اور شہر میں حرمت ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میری بات سنو، تم میرےبعد زندہ رہو گے، خبردار! کسی پر ظلم نہ کرنا، خبردار! زیادتی نہ کرنا، خبردار! ظلم نہیں کرنا، کسی کے لیے کسی دوسرے کا مال اس کی دلی خوشی کے بغیر حلال نہیں۔ خبردار! ہر خون، مال اور جاہلیت والی قابلِ فخر بات اب قیامت تک میرے ان قدموں کے نیچے ہے، ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب جو کہ بنو لیث کے ہاں زیر پرورش تھا اور اسے بنو ھذیل نے قتل کر دیا تھا، ہم نے اس کا بدلہ لینا تھا مگر میں سب سے پہلے اس کا قتل معاف کرتا ہوں۔ اور دورِ جاہلیت کا ہر سود معاف ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس کا فیصلہ کر دیا ہے۔ سب سے پہلے میں عباس بن عبدالمطلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے وہ سود جو انہوں نے لوگوں سے وصول کرنے ہیں، معاف کرتا ہوں۔ تم اپنے اصل مال لے سکتے ہو۔ تمہیں کسی پر ظلم کرنے کا اور کسی کو تمہارے اوپر ظلم کرنے کا حق نہیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت کی {إِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُورِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِی کِتَابِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْہَا أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِیہِنَّ أَنْفُسَکُمْ} … جس دن سے اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا بے شک اسی دن سے اللہ کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیںیہی دین کا سیدھا راستہ ہے تم ان مہینوں کی حرمت کو پامال کر کے اپنے اوپر ظلم نہ کرنا۔ (سورۂ توبہ: ۳۶) خبردار ! تم میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ کر کافر نہیں ہو جانا، خبردار شیطان اب اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ نمازی اس کی عبادت کریں۔ لیکن وہ تمہارے درمیان لڑائی اور اختلاف کے بیج بونے کی کوشش کرتا رہے گا۔ تم بیویوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ وہ تمہاری خدمت گار ہیں۔ انہیں اپنی جانوں کا کچھ اختیار نہیں۔ بے شک ان کے تمہارے ذمے اور تمہارے ان کے ذمہ بہت سے حقوق ہیں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ جس آدمی کو تم پسند کرتے ہو وہ اسے تمہارے بستر پر کسی کو بیٹھنے کی اجازت نہ دیں، اور جسے تم پسند نہیں کرتے وہ اسے تمہارے گھر کے اندر آنے کی اجازت نہ دیں۔ اگر تمہیں اپنی بیویوں کی سرکشی کا اندیشہ ہو تو پہلے انہیں وعظ ونصیحت کرو اور ان سے بستر الگ کر لو، ان کو مارو تو بہت زیادہ نہ مارو۔ حمید کہتے ہیں: میں نے حسن بصری سے دریافت کیا کہ مبرح کا کیا مفہوم ہے؟ کہا اتنا نہ مارو کہ ان کے جسم پرنشانات پڑ جائیں۔ ان کا حق ہے کہ تم انہیں معروف یعنی رواج کے مطابق یااپنی استطاعت کے مطابق کھانا اور لباس دو۔ تم انہیں اللہ کی امانت کا واسطہ دے کر لائے ہو۔ اور تم نے اللہ تعالیٰ کے دین کے مطابق ان کی شرم گاہوں کو اپنے لیے حلال سمجھتا ہے۔ کسی نے تم میں سے کسی کو امین سمجھ کر اس کے پاس امانت رکھی ہو تو اسے واپس کرے، پھر فرمایا خبردار! کیا میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا؟خبردار کیا میں نے اللہ کا دین تم تک پہنچا دیا؟ پھر فرمایا: جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ یہ باتیں ان تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں۔ بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ جن تک بات پہنچائی جائے۔ وہ براہ راست سننے والوں کی نسبت اسے بہتر سمجھنے اور یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔ حمید نے بیان کیا کہ حسن بصری جب اس کلمہ پر پہنچے تو انہوں نے کہا اللہ کی قسم صحابہ کرام نے یہ باتیںایسے لوگوں تک پہنچائیں جنہوں نے ان کو بہتر طور پر سمجھا اور یاد رکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11106

۔ (۱۱۱۰۶)۔ عَنْ قَیْسِ بْنِ عَائِذٍ قَالَ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَخْطُبُ عَلٰی نَاقَۃٍ خَرْمَائَ، وَعَبْدٌ حَبَشِیٌّ مُمْسِکٌ بِخِطَامِہِ، وَھَلَکَ قَیْسٌ اَیَّامَ الْمُخْتَارِ۔ (مسند احمد: ۱۶۸۳۵)
سیدنا قیس بن عائذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک ناک کٹییا کان کٹی اونٹنی پر سوار خطبہ دیتے دیکھا، ایک حبشی غلام (سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) اس کی مہار کو تھامے ہوا تھا۔ جن دنوں مختار بن ابی عبید ثقفی کا عروج تھا، سیدنا قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان دنوں فوت ہوئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11107

۔ (۱۱۱۰۷)۔ (وَعَنْہٗمِنْطَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ اَبِیْ کَاھِلٍ قَالَ: رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَخْطُبُ النَّاسَ یَوْمَ عِیْدٍ عَلٰی نَاقَۃٍ خَرْمَائَ، وَحَبَشِیٌّ مُمْسِکٌ بِخِطَامِہَا۔ (مسند احمد: ۱۸۹۳۲)
۔( دوسری سند) ابو کاہل سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے عید کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک کان کٹییا ناک کٹی اونٹنی پر سوار خطبہ دیتے دیکھا، ایک حبشی غلام اس کی مہار تھامے ہوا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11108

۔ (۱۱۱۰۸)۔ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ کُنْتُ اِمَامَ النَّبِیِّیْنَ وَخَطِیْبَھُمْ وَصَاحِبَ شَفَاعَتِھِمْ وَلَا فَخْرَ۔)) (مسند احمد: ۲۱۵۷۶)
سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب قیامت کا دن ہو گا تو میں انبیاء کا امام اور ان کا خطیب ہوں گا اور میں ان کی سفارش کرنے والا ہوں گا، جبکہ مجھے اس پر فخر نہیں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11109

۔ (۱۱۱۰۹)۔ عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((فَضَّلَنِی رَبِّی عَلَی الْأَنْبِیَائِ عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ، أَوْ قَالَ: عَلَی الْأُمَمِ بِأَرْبَعٍ۔)) قَالَ: ((أُرْسِلْتُ إِلَی النَّاسِ کَافَّۃً، وَجُعِلَتِ الْأَرْضُ کُلُّہَا لِی وَلِأُمَّتِی مَسْجِدًا وَطَہُورًا، فَأَیْنَمَا أَدْرَکَتْ رَجُلًا مِنْ أُمَّتِی الصَّلَاۃُ، فَعِنْدَہُ مَسْجِدُہُ وَعِنْدَہُ طَہُورُہٗ،وَنُصِرْتُبِالرُّعْبِمَسِیرَۃَ شَہْرٍ یَقْذِفُہُ فِی قُلُوبِ أَعْدَائِی، وَأَحَلَّ لَنَا الْغَنَائِمَ۔)) (مسند احمد: ۲۲۴۸۸)
سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے رب نے مجھے باقی انبیاء (یا باقی امتوں) پر چار چیزوں میں فضیلت دی ہے، مجھے سب لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہے، ساری روئے زمین میرے لیے اور میری امت کے لیے سجدہ گاہ اور ذریعۂ طہارت بنا دی گئی ہے، جس آدمی کے لیے جہاں بھی نماز کا وقت ہو جائے اس کی مسجد اور ذریعۂ طہارت اس کے پاس ہی ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے رعب ودبدبہ کے ذریعہ میری نصرت کی ہے، میں ابھی دشمن سے ایک ماہ کی مسافت پر ہوتا ہوں کہ اللہ میرے دشمنوں کے دلوں میںمیرا دبدبہ ڈال دیتا ہے اور اس نے ہمارے لیے اموالِ غنیمت کو حلال کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11110

۔ (۱۱۱۱۰)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ غَالِبٍ عَنْ حُذَیْفَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مُحَمَّدٌ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۳۶۸۵)
سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، انھوں نے کہا: قیامت کے دن محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ساری اولادِ آدم کے سردار ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11111

۔ (۱۱۱۱۱)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَا مِنَ الْاَنْبِیَائِ نَبِیٌّ اِلَّا وَقَدْ اُعْطِیَ مِنَ الْآیَاتِ مَا مِثْلُہٗآمَنَعَلَیْہِ الْبَشَرُ، وَاِنَّمَا کَانَ الَّذِیْ اُوْتِیْتُ وَحْیًا اَوْحَاہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ اِلَیَّ، وَاَرْجُوْ اَنْ اَکُوْنَ اَکْثَرَھُمْ تَبَعًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند احمد: ۸۴۷۲)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر نبی کو اتنے معجزات اور نشانیاں عطا کی گئی ہیں کہ لوگ اس پر ایمان لاتے رہے، جو چیز مجھے عطا کی گئی ہے، وہ وحی ہے، اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی ہے، مجھے امید ہے کہ روز قیامت میرے فرمانبرداروں کی تعداد سب سے زیادہ ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11112

۔ (۱۱۱۱۲)۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اُوْتِیْتُ بِمَقَالِیْدِ الدُّنْیَا عَلٰی فَرَسٍ اَبْلَقَ، عَلَیْہِ قَطِیْفَۃٌ مِنْ سُنْدُسٍ۔)) (مسند احمد: ۱۴۵۶۷)
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ( مجھے ایسا منظر دکھایا گیا گویا کہ) ایک خوبصورت گھوڑا ہے، اس پر نفیس قسم کا ریشم ہے، اور اس پر دنیا بھر کے خزانوں کی چابیان رکھی ہوئی ہیں اور وہ مجھے عطا کی گئی ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11113

۔ (۱۱۱۱۳)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ! لَیَأْتِیَنَّ عَلٰی أَحَدِکُمْ یَوْمٌ، لَأَنْ یَرَانِی ثُمَّ لَأَنْ یَرَانِی1، أَحَبُّ إِلَیْہِ مِنْ أَہْلِہِ وَمَالِہِ وَمِثْلِہِمْ مَعَہُمْ۔)) (مسند احمد: ۸۱۲۶)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے اوپر ضرور ایک ایسا دن آئے گا کہ تم مجھے دیکھنا چاہو گے مگر نہیں دیکھ سکو گے، اس وقت مجھے دیکھنا اور میرا دیدار کرنا اسے اہل و مال سے اور ساتھ اتنے ہی اور سے بھی زیادہ محبوب ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11114

۔ (۱۱۱۱۴)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِذَا صَلَّیْتُمْ عَلَیَّ فَاسْأَلُوا اللّٰہَ لِیَ الْوَسِیلَۃَ۔)) قِیلَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَمَا الْوَسِیلَۃُ؟ قَالَ: ((أَعْلَی دَرَجَۃٍ فِی الْجَنَّۃِ، لَا یَنَالُہَا إِلَّا رَجُلٌ وَاحِدٌ، وَأَرْجُو أَنْ أَکُونَ أَنَا ہُوَ۔)) (مسند احمد: ۷۵۸۸)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم مجھ پر درود بھیجو تو تم اللہ سے میرے لیے مقامِ وسیلہ کی دعا بھی کیا کرو۔ دریافت کیا گیا: اللہ کے رسول! وسیلہ کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ ایک انتہائی اعلیٰ مقام ہے، جو پوری کائنات میں صرف ایکآدمی کو ملے گا، مجھے امید ہے کہ وہ میں ہی ہوں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11115

۔ (۱۱۱۱۵)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیلٍ عَنِ الطُّفَیْلِ بْنِ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَثَلِی فِی النَّبِیِّینَ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی دَارًا فَأَحْسَنَہَا وَأَکْمَلَہَا وَتَرَکَ فِیہَا مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ لَمْ یَضَعْہَا، فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوفُونَ بِالْبُنْیَانِ وَیَعْجَبُونَ مِنْہُ وَیَقُولُونَ: لَوْ تَمَّ مَوْضِعُ ہٰذِہِ اللَّبِنَۃِ! فَأَنَا فِی النَّبِیِّینَ مَوْضِعُ تِلْکَ اللَّبِنَۃِ۔)) (سند احمد: ۲۱۵۶۳)
سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ارشاد فرمایا: انبیاء میں میری مثال اس آدمی کی مانند ہے، جو ایک انتہائی خوبصورت مکمل گھر بنائے اور اس میں صرف ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑدے، لوگ اس گھر کے چکر لگا لگا کر تعجب کا اظہار کریں اور کہیں: کاش کہ اس اینٹ کی جگہ بھی پوری ہوتی، پس قیصرِ نبوت میں اس اینٹ والی خالی جگہ کو میں پر کرنے والا ہوں۔ ! صحیح مسلم میں اس جگہ یہ لفظ ہے وَلَا یَرَانِیْ فاضل مترجم نے غالبًا اسی کو سامنے رکھ کر ترجمہ کیا ہے۔ (عبداللہ رفیق)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11116

۔ (۱۱۱۱۶)۔ وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِثْلُہٗوَزَادَفِیْہِ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَأَنَا مَوْضِعُ اللَّبِنَۃِ جِئْتُ فَخَتَمْتُ الْأَنْبِیَائَ۔)) (مسند احمد: ۱۴۹۴۹)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسی طرح کی حدیث ِ نبوی بیان کی ہے، البتہ اس میں یہ الفاظ زائد ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اس اینٹ کی جگہ پر آیا ہوں اور میں نے آکر انبیاء کے سلسلہ کو مکمل کر دیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11117

۔ (۱۱۱۱۷)۔ (وَعَنْہٗاَیْضًا) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَثَلِی وَمَثَلُ الْأَنْبِیَائِ کَمَثَلِ رَجُلٍ أَوْقَدَ نَارًا، فَجَعَلَ الْفَرَاشُ وَالْجَنَادِبُ یَقَعْنَ فِیہَا، قَالَ: وَہُوَ یَذُبُّہُنَّ عَنْہَا، قَالَ: وَأَنَا آخِذٌ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ، وَاَنْتُمْ تَفَلَّتُوْنَ مِنْ یَدِیْ۔)) (مسند احمد: ۱۴۹۴۸)
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری اور دوسرے انبیاء کی مثال اس آدمی کی مانند ہے، جس نے آگ جلائی اور پتنگے اور پروانے آگ میں گرنے لگے اور وہ انہیں ہٹانے لگا، پس میں تمہیں تمہاری کمروں سے پکڑ پکڑ کر تم کو آگ سے بچانے کی کوشش کر رہا ہوں اور تم میرے ہاتھ سے چھوٹ چھوٹ کر آگ میں گھستے ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11118

۔ (۱۱۱۱۸)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((طَعَامُ الِاثْنَیْنِ کَافِی الثَّلَاثَۃِ، وَالثَّلَاثَۃِ کَافِی الْأَرْبَعَۃِ، إِنَّمَا مَثَلِی وَمَثَلُ النَّاسِ کَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا، فَلَمَّا أَضَائَ تْ مَا حَوْلَہُ، جَعَلَ الْفَرَاشُ وَالدَّوَابُّ تَتَقَحَّمُ فِیہَا، فَأَنَا آخِذٌ بِحُجَزِکُمْ وَأَنْتُمْ تَوَاقَعُونَ فِیہَا، وَمَثَلُ الْأَنْبِیَائِ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی بُنْیَانًا فَأَحْسَنَہُ وَأَکْمَلَہُ وَأَجْمَلَہُ، فَجَعَلَ النَّاسُ یُطِیفُونَ بِہِ یَقُولُونَ: مَا رَأَیْنَابُنْیَانًا أَحْسَنَ مِنْ ہٰذَا إِلَّا ہٰذِہِ الثُّلْمَۃَ فَأَنَا تِلْکَ الثُّلْمَۃُ۔)) وَقِیلَ لِسُفْیَانَ: مَنْ ذَکَرَ ہٰذِہِ؟ قَالَ: أَبُو الزِّنَادِ عَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ۔ (مسند احمد: ۷۳۱۸)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دو آدمیوں کا کھانا تین کے لیے اور تین آدمیوں کا کھانا چار آدمیوں کے لیے کافی ہے میری اور لوگوں کی مثال ایسے ہے، جیسے کوئی آدمی آگ جلائے، جب آگ خوب روشن ہو جائے تو پتنگے اور پروانے آکر آگ میں گرنے لگیں، میں بھی تمہیں تمہاری کمروں سے پکڑ پکڑ کر آگ سے بچانے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن تم چھڑا چھڑا کے آگ میں جاتے ہو، انبیاء کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک مکمل خوبصورت گھر بنایا، لوگ اس کے گرد گھوم گھوم کر اسے دیکھتے اور کہتے ہیں کہ ہم نے اس سے بڑھ کر کوئی خوبصورت گھر نہیں دیکھا۔ اس میں صرف یہ تھوڑی سی کمی ہے، پس میں اس کمی کو پورا کرنے والا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11119

۔ (۱۱۱۱۹)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ الرِّسَالَۃَ وَالنُّبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِی وَلَا نَبِیَّ۔)) قَالَ: فَشَقَّ ذٰلِکَ عَلَی النَّاسِ قَالَ: قَالَ: ((وَلٰکِنِ الْمُبَشِّرَاتُ۔)) قَالُوا: یَارَسُولَ اللّٰہِ! وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ: ((رُؤْیَا الرَّجُلِ الْمُسْلِمِ وَہِیَ جُزْئٌ مِنْ أَجْزَاء ِ النُّبُوَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۳۸۶۰)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رسالت اور نبوت کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے، میرے بعد کوئی رسول یا نبی نہیں آئے گا۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ یہ بات لوگوں پر شاق گزری تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (نبوت ورسالت کا سلسلہ تو بہرحال ختم ہو چکا ہے) تاہم خوش خبریوں کا سلسلہ باقی ہے۔ صحابہ نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! خوشخبروں سے کیا مراد ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مسلمان آدمی کا خواب، جو کہ نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزء ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11120

۔ (۱۱۱۲۰)۔ حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِیٍّ، حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَیْسٍ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ قَیْسٍ، عَنْ یُوسُفَ بْنِ مَازِنٍ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقَالَ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ! انْعَتْ لَنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صِفْہُ لَنَا؟ فَقَالَ: کَانَ لَیْسَ بِالذَّاہِبِ طُولًا وَفَوْقَ الرَّبْعَۃِ، إِذَا جَائَ مَعَ الْقَوْمِ غَمَرَہُمْ أَبْیَضَ شَدِیدَ الْوَضَحِ، ضَخْمَ الْہَامَۃِ، أَغَرَّ أَبْلَجَ ہَدِبَ الْأَشْفَارِ، شَثْنَ الْکَفَّیْنِ وَالْقَدَمَیْنِ، إِذَا مَشَییَتَقَلَّعُ کَأَنَّمَا یَنْحَدِرُ فِی صَبَبٍ، کَأَنَّ الْعَرَقَ فِی وَجْہِہِ اللُّؤْلُؤُ، لَمْ أَرَ قَبْلَہُ وَلَا بَعْدَہُ مِثْلَہُ، بِأَبِی وَأُمِّی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۳۰۰)
یوسف بن مازن سے روایت ہے کہ ایک شخص نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے عرض کیا: اے امیر المؤمنین! آپ ہمیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا حلیہ مبارک بیان کریں، انہوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بہت زیادہ طویل قامت نہ تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم متوسط قد سے قدرے دراز تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دوسروں کے ساتھ کھڑے ہوتے توان سے نمایاں لگتے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رنگت چمکیلی سفید تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سر مبارک بڑا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ انور خوب روشن تھا، ابرو آپس میں ملے ہوئے نہ تھے، پلکیں گھنی اور طویل تھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ہتھیلیاں اور قدم مبارک بھرے بھرے تھے،جب چلتے تو قوت سے یوں چلتے جیسے بلندی سے پستی کی طرف جا رہے ہوں، آپ کے چہرے پرپسینہ موتیوں کی طرح چمکتا تھا، میرے ماں باپ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر فدا ہوں۔ میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پہلے یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جیسا کوئی آدمی نہیں دیکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11121

۔ (۱۱۱۲۱)۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ أَبِیہِ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ضَخْمَ الرَّأْسِ، عَظِیمَ الْعَیْنَیْنِ، ہَدِبَ الْأَشْفَارِ، مُشْرَبَ الْعَیْنِ بِحُمْرَۃٍ، کَثَّ اللِّحْیَۃِ، أَزْہَرَ اللَّوْنِ، إِذَا مَشٰی تَکَفَّأَ، کَأَنَّمَا یَمْشِی فِی صُعُدٍ، وَإِذَا الْتَفَتَ الْتَفَتَ جَمِیعًا، شَثْنَ الْکَفَّیْنِ وَالْقَدَمَیْنِ۔ (مسند احمد: ۶۸۴)
محمد بن علی اپنے باپ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سر مبارک بڑا، آنکھیں خوب موٹی، پلکیں طویل اور آنکھوں میں سرخ ڈورے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی داڑھی گھنی تھی، رنگ خوب روشن تھا، آپ چلتے تو ذرا سامنے کو جھک کر چلتے، گویا آپ بلندی سے اتر رہے ہیں، کسی طرف متوجہ ہوتے تو پوری طرح ادھر مڑتے، آپ کی ہتھیلیاں اور قدم بھرے بھرے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11122

۔ (۱۱۱۲۲)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیْسَ بِالطَّوِیلِ، وَلَا بِالْقَصِیرِ، ضَخْمُ الرَّأْسِ وَاللِّحْیَۃِ، شَثْنُ الْکَفَّیْنِ وَالْقَدَمَیْنِ مُشْرَبٌ وَجْہُہُ حُمْرَۃً طَوِیلُ الْمَسْرُبَۃِ، ضَخْمُ الْکَرَادِیسِ، إِذَا مَشٰی تَکَفَّأَ تَکَفُّؤًا، کَأَنَّمَا یَنْحَطُّ مِنْ صَبَبٍ، لَمْ أَرَ قَبْلَہُ وَلَا بَعْدَہُ مِثْلَہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۹۴۷)
۔(دوسری سند) نافع بن جبیربن مطعم سے روایت ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نہ تو بہت زیادہ دراز قد تھے اور نہ ہی پست قد تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سر بڑا اور داڑھی گھنی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ہتھیلیاں اور پائوں پر گوشت تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ انور سرخی مائل سفید تھا، اعضاء کی ہڈیاں مضبوط تھیں، سینہ سے ناف تک بالوں کی لمبی لکیر تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چلتے تو ذرا جھک کر یوں چلتے گویا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بلندی سے اتر رہے ہیں، میں نے آپ سے پہلے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جیسا کوئی آدمی نہیں دیکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11123

۔ (۱۱۱۲۳)۔ عَنْ صَالِحٍ مَوْلَی التَّوْأَمَۃِ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَیَنْعَتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: کَانَ شَبْحَ الذِّرَاعَیْنِ، أَہْدَبَ أَشْفَارِ الْعَیْنَیْنِ، بَعِیدَ مَا بَیْنَ الْمَنْکِبَیْنِ،یُقْبِلُ إِذَا أَقْبَلَ جَمِیعًا، وَیُدْبِرُ إِذَا أَدْبَرَ جَمِیعًا، قَالَ رَوْحٌ فِی حَدِیثِہِ: بِأَبِی وَأُمِّی لَمْ یَکُنْ فَاحِشًا، وَلَا مُتَفَحِّشًا وَلَا سَخَّابًا بِالْأَسْوَاقِ،زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ: ضَخْمَ الْکَفَّیْنِ وَالْقَدَمَیْنِ، لَمْ أَرَ بَعْدَہٗمِثْلَہٗ۔ (مسند احمد: ۹۷۸۶)
ابو صالح مولی التوأمہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سنا، وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا حلیہ مبارک بیان کر رہے تھے، انھوں نے کہا:آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ طویل (یا عریض) تھے، آنکھوں کی پلکیں بھی طویل تھیں، کندھوں کے درمیان تھوڑا سا نمایاں فاصلہ تھا (یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سینہ چوڑا تھا)، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جس طرف بھی مڑتے، پوری طرح مڑتے اور متوجہ ہوتے۔روح راوی نے اپنی حدیث میں کہا: میرے ماں باپ آپ پر نثار ہوں، آپ عادۃًیا تکلفاً فحش گو نہ تھے، نہ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بازاروں (اور گلیوں) میں بلند آواز سے بولتے تھے، آپ کی ہتھیلیاں اور قدم مبارک گوشت سے بھرے ہوئے تھے، میں نے آپ کے بعد آپ جیسا کوئی نہیں دیکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11124

۔ (۱۱۱۲۴)۔ عَنِ الْبَرَائِ یَقُولُ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَجِلًا مَرْبُوعًا بَعِیدَ مَا بَیْنَ الْمَنْکِبَیْنِ، عَظِیمَ الْجُمَّۃِ إِلٰی شَحْمَۃِ أُذُنَیْہِ، عَلَیْہِ حُلَّۃٌ حَمْرَائُ، مَا رَأَیْتُ شَیْئًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِوَسَلَّمَ۔ (مسند احمد: ۱۸۶۶۵)
سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدھے بالوں والے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا قد درمیانہ تھا، آپ کے کندھوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ تھا (یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سینہ کشادہ تھا)، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر کے بال کانوں کی لووں تک طویل تھے، ایک بار آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سرخ پوشاک زیب تن کی ہوئی تھی، میںنے آپ سے بڑھ کر خوبصورت آدمی کبھی نہیں دیکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11125

۔ (۱۱۱۲۵)۔ عَنْ رَبِیعَۃِ بْنِ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّہُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یَنْعَتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِمَا شَائَ أَنْ یَنْعَتَہُ، قَالَ: ثُمَّ سَمِعْتُ أَنَسًا یَقُولُ: وَکَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَبْعَۃً مِنْ الْقَوْمِ، لَیْسَ بِالْقَصِیرِ وَلَا بِالطَّوِیلِ الْبَائِنِ، أَزْہَرَ لَیْسَ بِالْآدَمِ وَلَا بِالْأَبْیَضِ وَلَا الْأَمْہَقِ، رَجِلَ الشَّعْرِ لَیْسَ بِالسَّبْطِ وَلَا الْجَعْدِ الْقَطَطِ، بُعِثَ عَلٰی رَأْسِ أَرْبَعِینَ، أَقَامَ بِمَکَّۃَ عَشْرًا وَبِالْمَدِینَۃِ عَشْرًا، وَتُوُفِّیَعَلٰی رَأْسِ سِتِّینَ سَنَۃً، لَیْسَ فِی رَأْسِہِ وَلِحْیَتِہِ عِشْرُونَ شَعَرَۃً بَیْضَائَ۔ (مسند احمد: ۱۳۵۵۳)
ربیعہ بن ابی عبدالرحمن سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سنا وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا حلیہ مبارک اپنے ہی انداز میں بیان کر رہے تھے، میں نے سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سنا، انھوں نے کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں میں میانہ قد والے تھے، نہ بہت پست قد تھے، نہ بہت زیادہ طویل قامت، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا رنگ چمکیلا تھا، نہ گندم گوںتھا، نہ بالکل سفید، بلکہ گورا چمک دار تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بال نہ بالکل سیدھے تھے اور نہ سخت گھنگھریالے، بلکہ ہلکا سا خم لیے ہوئے تھے۔ چالیس برس کی عمر میں نبوت سے سرفراز ہوئے، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دس سال مکہ مکرمہ میں اور دس سال مدینہ منورہ میں قیام کیا، ساٹھ برس کی عمر میں وفات پائی،آپ کے سر اور داڑھی میں سفید بال بیس بھی نہ تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11126

۔ (۱۱۱۲۶)۔ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ سِمَاکٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَۃَ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ضَلِیعَ الْفَمِ، أَشْکَلَ الْعَیْنِ، مَنْہُوسَ الْعَقِبَیْنِ، قُلْتُ لِسِمَاکٍ: مَا ضَلِیعُ الْفَمِ؟ قَالَ: عَظِیمُ الْفَمِ، قُلْتُ: مَا أَشْکَلُ الْعَیْنِ؟ قَالَ: طَوِیلُ شُفْرِ الْعَیْنِ، قُلْتُ: مَا مَنْہُوسُ الْعَقِبِ؟ قَالَ: قَلِیلُ لَحْمِ الْعَقِبِ۔ (مسند احمد: ۲۱۲۹۷)
سماک کہتے ہیں: میں نے سیدنا جابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا منہ کشادہ تھا، آنکھوں کی سفیدی میں سرخی تھی اور ایڑیوں کا گوشت کم تھا۔ امام شعبہ کہتے ہیں: میں نے سماک سے دریافت کیا کہ ضَلِیعُ الْفَمِ کا کیا معنی ہے؟ انہوں نے کہا: کشادہ منہ والا۔ میں نے پوچھا: أَشْکَلُ الْعَیْنِ سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: طویل پلکوں والا۔میں نے دریافت کیا کہ مَنْہُوسُ الْعَقِبِ کا کیا معنیٰ ہے؟ انہوں نے کہا: وہ جس کی ایڑیوں کا گوشت کم ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11127

۔ (۱۱۱۲۷)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ قَالَ: کَانَ فِی سَاقَیْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حُمُوشَۃٌ، وَکَانَ لَا یَضْحَکُ إِلَّا تَبَسُّمًا، وَکُنْتُ إِذَا رَأَیْتُہُ قُلْتُ: أَکْحَلُ الْعَیْنَیْنِ وَلَیْسَ بِأَکْحَلَ۔ (مسند احمد: ۲۱۲۲۴)
سیدنا جابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پنڈلیاں دوسرے اعضا کے مطابق مناسب حد تک باریک تھیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھلکھلا نہیں ہنستے تھے، بلکہ صرف مسکراتے تھے۔ جب میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھتاتویوں محسوس ہوتا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آنکھوں میں سرمہ ڈالا ہوا ہے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سرمہ نہ ڈالا ہوتا تھا۔ (یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آنکھیں قدرتی طور پر سرمگیں تھیں)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11128

۔ (۱۱۱۲۷)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ قَالَ: کَانَ فِی سَاقَیْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حُمُوشَۃٌ، وَکَانَ لَا یَضْحَکُ إِلَّا تَبَسُّمًا، وَکُنْتُ إِذَا رَأَیْتُہُ قُلْتُ: أَکْحَلُ الْعَیْنَیْنِ وَلَیْسَ بِأَکْحَلَ۔ (مسند احمد: ۲۱۲۲۴)
سیدنا جابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہی کا بیان ہے کہ نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پائوں کے انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی، انگوٹھے سے لمبی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11129

۔ (۱۱۱۲۷)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ قَالَ: کَانَ فِی سَاقَیْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حُمُوشَۃٌ، وَکَانَ لَا یَضْحَکُ إِلَّا تَبَسُّمًا، وَکُنْتُ إِذَا رَأَیْتُہُ قُلْتُ: أَکْحَلُ الْعَیْنَیْنِ وَلَیْسَ بِأَکْحَلَ۔ (مسند احمد: ۲۱۲۲۴)
اشعث نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھنے والے بنو مالک بن کنانہ کے ایک بزرگ سے کہا: تم ہمارے سامنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا حلیہ بیان کرو، اس نے کہا: آپ سرخ رنگ کی دو چادریں زیب تن کیے، میانہ قامت، پرگوشت جسم، خوب رو، بال ازحد سیاہ، رنگ انتہائی گورا، اور سر کے بال لمبے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11130

۔ (۱۱۱۳۰)۔ عَنْ مُحَرِّشِ نِ الْخُزَاعِیِّ: أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَرَجَ مِنَ الْجِعْرَانَۃِ لَیْلًا فَاعْتَمَرَ، ثُمَّ رَجَعَ فَأَصْبَحَ کَبَائِتٍ بِہَا، فَنَظَرْتُ إِلٰی ظَہْرِہِ کَأَنَّہُ سَبِیکَۃُ فِضَّۃٍ۔ (مسند احمد: ۱۵۵۹۷)
سیدنا محرش خزاعی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رات کے وقت جعرانہ سے روانہ ہو کر جا کر عمرہ ادا کیا اور واپس آگئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جعرانہ میں صبح کی اور یوں لگتا تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رات یہیں جعرانہ میں ہی بسر کی ہے،میں نے آپ کی پشت پر دیکھا،یوں لگتا تھا کہ وہ چاندی کی تختی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11131

۔ (۱۱۱۳۱)۔ عَنْ أَبِیْ اِسْحٰقَ قَالَ: قِیلَ لِلْبَرَائِ: أَکَانَ وَجْہُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَدِیدًا ہٰکَذَا مِثْلَ السَّیْفِ؟ قَالَ: لَا، بَلْ کَانَ مِثْلَ الْقَمَرِ۔ (مسند احمد: ۱۸۶۷۰)
ابو اسحاق کا بیان ہے کہ سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا گیا کہ آیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا رخ انور تلوار کی مانند لمبا اور چمک دار تھا؟ انہوں نے کہا: نہیں، بلکہ چاند کی طرح تابناک اور گول تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11132

۔ (۱۱۱۳۲)۔ عَنْ سِمَاکٍ أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَۃَیَقُولُ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ شَمِطَ مُقَدَّمُ رَأْسِہِ وَلِحْیَتِہِ، فَإِذَا ادَّہَنَ وَمَشَطَ لَمْ یَتَبَیَّنْ، وَإِذَا شَعِثَ رَأْسُہُ تَبَیَّنَ، وَکَانَ کَثِیرَ الشَّعْرِ وَاللِّحْیَۃِ، فَقَالَ رَجُلٌ: وَجْہُہُ مِثْلُ السَّیْفِ؟ قَالَ: لَا، بَلْ کَانَ مِثْلَ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ مُسْتَدِیرًا، قَالَ: وَرَأَیْتُ خَاتَمَہُ عِنْدَ کَتِفِہِ مِثْلَ بَیْضَۃِ الْحَمَامَۃِیُشْبِہُ جَسَدَہُ۔ (مسند احمد: ۲۱۳۰۹)
سماک سے روایت ہے کہ انہوں نے جابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی داڑھی اور سر کے اگلے حصہ کے بال سفید ہونے لگے تھے، جب آپ تیل لگا کر کنگھی کر لیتے تو ان کی رنگت نمایاں نہ ہوتی تھی، لیکن جب نہ تیل لگایا ہوتا اور نہ کنگھی کی ہوتی تو وہ سفیدبال نمایاں ہو جاتے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سراور داڑھی کے بال گھنے تھے۔ ایک آدمی نے کہا کہ آپ کا چہرہ تلوار کی مانند لمبا اور چمک دار تھا؟ لیکن سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: نہیں، تلوار کی طرح نہیں تھا، بلکہ سورج اور چاند کی طرح روشن اور گول تھا۔ سیدناجابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مہر نبوت کو آپ کے کندھے کے قریب دیکھا، وہ کبوتری کے انڈے کے برابر باقی جسم کے مشابہ تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11133

۔ (۱۱۱۳۳)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: کَانَ شَعْرُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی أَنْصَافِ أُذُنَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۲۱۴۲)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بال آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کانوں کے نصف تک لمبے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11134

۔ (۱۱۱۳۴)۔ قَالَ کَانَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَعْرٌ یُصِیْبُ، وَفِیْ رِوَایَۃٍ: یَضْرِبُ مَنْکِبَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۲۱۹۹)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بال آپ کے کاندھوں تک لمبے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11135

۔ (۱۱۱۳۵)۔ عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسًا عَنْ شَعْرِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: کَانَ شَعْرُہُ رَجِلًا، لَیْسَ بِالْجَعْدِ وَلَا بِالسَّبْطِ، کَانَ بَیْنَ أُذُنَیْہِ وَعَاتِقِہِ۔ (مسند احمد: ۱۲۴۰۹)
قتادہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بالوں کی بابت دریافت کیاتو انھوں نے کہا: آپ کے بال نہ سخت گھنگھریالے تھے اور نہ بالکل سیدھے، بلکہ قدرے خمیدہ تھے، آپ کے بال کندھوں اور کانوں کے درمیان ہوتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11136

۔ (۱۱۱۳۶)۔ عَنْ حُمَیْدٍ: أَنَّ أَنَسًا سُئِلَ عَنْ شَعَرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: مَا رَأَیْتُ شَعْرًا أَشْبَہَ بِشَعْرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ شَعَرِ قَتَادَۃَ، فَفَرِحَ یَوْمَئِذٍ قَتَادَۃُ۔ (مسند احمد: ۱۳۲۷۱)
حمید سے روایت ہے کہ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بالوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انھوں نے کہا:میں نے قتادہ کے بالوں سے بڑھ کر کسی کے بالوں کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بالوں کے مشابہ نہیں دیکھا۔اس دن قتادہ بہت زیادہ خوش تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11137

۔ (۱۱۱۳۷)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ لَا یُجَاوِزُ شَعْرُہٗأُذُنَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۲۴۷۲)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بال طوالت میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کانوں سے نہیں بڑھتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11138

۔ (۱۱۱۳۸)۔ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: مَا رَأَیْتُ مِنْ ذِیْ لِمَّۃٍ أَحْسَنَ فِیْ حُلَّۃٍ حَمْرَائَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، لَہٗشَعْرٌیَضْرِبُ مَنْکِبَیْہِ، بَعِیْدَ مَا بَیْنَ الْمَنْکِبَیْنِ، لَیْسَ بِالْقَصِیْرِ وَلَا بِالطَّوِیْلِ۔ (مسند احمد: ۱۸۷۵۷)
سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ کسی ایسے آدمی کو جس کے بال کندھوں تک طویل ہوں اور وہ سرخ لباس زیب تن کیے ہوئے ہو، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بڑھ کر حسین نہیں پایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گیسو کندھوں تک ہوتے، کندھوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ تھا، یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سینہ کشادہ تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا قد نہ بہت پست تھا، نہ بہت زیادہ طویل ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11139

۔ (۱۱۱۳۹)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: کَانَ شَعْرُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دُوْنَ الْجُمَّۃِ وَفَوْقَ الْوَفْرَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۵۳۸۳)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بال کندھوں سے اوپر اور کانوں سے نیچے تک ہوتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11140

۔ (۱۱۱۴۰)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: کُنْتُ اِذَا فَرَقْتُ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَاْسَہٗصَدَعْتُفَرْقَہُعَنْیَافُوْخِہِ، وَاَرْسَلْتُ نَاصِیَتَہُ بَیْنَ عَیْنَیْہِ۔ (مسند احمد: ۲۶۸۸۷)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: جب میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بالوں کی مانگ نکالا کرتی تھی تو آپ کے سر کی چوٹی سے بالوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتی تھی اور پیشانی کے بال آپ کی آنکھوں کے درمیانیعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیشانی پر چھوڑ دیتی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11141

۔ (۱۱۱۴۱)۔ عَنْ اَبِیْ رِمْثَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَخْضِبُ بِالْحِنَّائِ وَالْکَتَمِ، وَکَانَ شَعْرُہٗیَبْلُغُ کَتِفَیْہِ اَوْ مَنْکِبَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۷۶۳۶)
سیدنا ابو رمثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مہندی اور کتم کے ساتھ بال رنگتے تھے، آپ کے بال کندھوں تک پہنچتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11142

۔ (۱۱۱۴۲)۔ عَنْ اُمِّ ھَانِیٍّ قَالَتْ: قَدِمَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَکَّۃَ مَرَّۃً وَلَہُ اَرْبَعُ غَدَائِرَ۔ (مسند احمد: ۲۷۴۲۸)
سیدہ ام ہانی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ میں آئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چار مینڈھیاں تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11143

۔ (۱۱۱۴۳)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یَخْضِبْ قَطُّ، اِنَّمَا کَانَ الْبِیَاضُ فِیْ مُقَدَّمِ لِحْیَتِہِ وَفِی الْعَنَفَقَۃِ وَفِی الرَّاْسِ وَفِی الصُّدْغَیْنِ شَیْئًا لَا یُکَادُیُرٰی، وَاِنّ اَبَا بَکْرٍ خَضَبَ بِالْحِنَّائِ۔ (مسند احمد: ۱۳۲۹۶)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کبھی خضاب نہیں لگایا، بس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی داڑھی مبارک کے سامنے والے حصے میں، داڑھی بچے میں، کنپٹیوں میں اتنے معمولی بال سفید تھے کہ ان کو دیکھنا بھی مشکل ہوتا تھا، البتہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مہندی سے رنگا کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11144

۔ (۱۱۱۴۴)۔ عَنْ حَرِیزِ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ: کُنَّا غِلْمَانًا جُلُوسًا عِنْدَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُسْرٍ، وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَمْ نَکُنْ نُحْسِنُ نَسْأَلُہُ، فَقُلْتُ: أَشَیْخًا کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: کَانَ فِی عَنْفَقَتِہِ شَعَرَاتٌ بِیضٌ۔ (مسند احمد: ۱۷۸۲۴)
حریز بن عثمان سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم بچے تھے اور صحابی ٔ رسول سیدنا عبداللہ بن بسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں بیٹھے تھے اور ہم ان سے اچھے انداز میں سوال و جواب نہیں کرسکتے تھے۔ میں نے عرض کیا: آیا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بوڑھے ہوگئے تھے؟ انہوں نے کہا: بس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے داڑھی بچہ میں چند سفید بال تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11145

۔ (۱۱۱۴۵)۔ عَنْ سِمَاکٍ قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَۃَ، وَسُئِلَ عَنْ شَیْبِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: کَانَ فِی رَأْسِہِ شَعَرَاتٌ، إِذَا دَہَنَ رَأْسَہُ لَمْ تَتَبَیَّنْ، وَإِذَا لَمْ یَدْھَنْہُ تَتَبَیَّنُ۔ (مسند احمد: ۲۱۰۹۲)
سماک سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سنا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سفید بالوں کے بارے میں دریافت کیا گیا، انھوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر میں چند سفید بال تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تیل لگاتے تو وہ نمایاں نہ ہوتے تھے اور جب تیل نہ لگایا ہوتا تو وہ نظر آتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11146

۔ (۱۱۱۴۶)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: کَانَ شَیْبُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَحْوًا مِنْ عِشْرِیْنَ شَعْرَۃً۔ (مسند احمد: ۵۶۳۳)
سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بیس کے قریب بال سفید تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11147

۔ (۱۱۱۴۷)۔ عَنْ أَبِیْ رِمْثَۃَ التَّیْمِیِّ، أَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَعِیَ ابْنٌ لِیْ فَقَالَ: ((اِبْنُکَ ھٰذَا؟)) قُلْتُ: أَشْہَدُ بِہِ قَالَ: ((لَا یَجْنِیْ عَلَیْکَ وَلَا تَجْنِیْ عَلَیْہِ)) قَالَ: وَرَأَیْتُ الشَّیْبَ أَحْمَرَ۔ (مسند احمد: ۷۱۱۳)
سیدنا ابو رمثہ تیمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا، میرا بیٹا بھی میرے ساتھ تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: کیایہ تمہارا بیٹا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں (کہ یہ واقعی میرا بیٹا ہے)، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کے جرم کا وبال دوسرے پر نہیں آتا۔ ابو رمثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سفید بالوں کو سرخ دیکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11148

۔ (۱۱۱۴۸)۔ (وَعَنْہٗ) قَالَخَرَجْتُمَعَأَبِیْ حَتّٰی أَتَیْنَا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَرَأَیْتُ بِرَأْسِہِ رِدْعَ حِنَّائٍ۔ (مسند احمد: ۷۱۰۴)
سیدنا ابو رمثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ میں اپنے والدکے ہمراہ روانہ ہوا، ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر کے بالوں میں مہندی کا رنگ دیکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11149

۔ (۱۱۱۴۹)۔ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَوْھَبٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلٰی اُمِّ سَلَمَۃَ (زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) فَاَخْرَجَتْ اِلَیْنَا شَعْرًا مِنْ شَعْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَخْضُوْبًا بِالْحِنَّائِ وَالْکَتَمِ۔ (مسند احمد: ۲۷۲۴۹)
عثمان بن عبداللہ کہتے ہیں: میں ام المومنین سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس گیا، انہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کچھ بال نکالے، وہ مہندی اور کتم بوئی سے رنگے ہوئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11150

۔ (۱۱۱۵۰)۔ عَنْ أَبِی جُحَیْفَۃَ وَہْبِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ السُّوَائِیِّ قَالَ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَلَّی بِالْأَبْطَحِ الْعَصْرَ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ قَدَّمَ بَیْنَیَدَیْہِ عَنَزَۃً بَیْنَہُ وَبَیْنَ مَارَّۃِ الطَّرِیقِ، وَرَأَیْتُ الشَّیْبَ بِعَنْفَقَتِہِ أَسْفَلَ مِنْ شَفَتِہِ السُّفْلٰی۔ (مسند احمد: ۱۸۹۵۹)
ابو جحیفہ وہب بن عبداللہ سوائی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ابطح کے مقام پر دیکھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں عصر کی نماز دو رکعتیں ادا کی اور اپنے سامنے اور گزرنے والوں کے درمیان ایک نیزہ گاڑھا اور میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نچلے ہونٹ کے نیچے داڑھی بچہ میں کچھ سفید بال بھی دیکھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11151

۔ (۱۱۱۵۱)۔ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرَبٍ قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَۃَ قَالَ: رَأَیْتُ خَاتَمًا فِیْ ظَہْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَأَنَّہٗبَیْضَۃُ حَمَامٍ، زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ: وَلَوْنُہَا لَوْنُ جَسَدِہِ۔ (مسند احمد: ۲۱۱۲۴)
سیدنا جابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پشت مبارک پر مہر نبوت دیکھی، وہ کبوتری کے انڈے جیسی تھی۔ ایک روایت میں ہے کہ اس کا رنگ جسم کے رنگ کی مانند تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11152

۔ (۱۱۱۵۲)۔ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ سَرْجِسَ قَالَ: أَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَکَلْتُ مَعَہُ مِنْ طَعَامِہِ، فَقُلْتُ: غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَقُلْتُ: أَسْتَغْفَرَ لَکَ؟ قَالَ شُعْبَۃُ: أَوْ قَالَ لَہُ رَجُلٌ، قَالَ: ((نَعَمْ وَلَکُمْ وَقَرَأَ {وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ} ثُمَّ نَظَرْتُ إِلٰی نُغْضِ کَتِفِہِ الْأَیْمَنِ أَوْ کَتِفِہِ الْأَیْسَرِ، (شُعْبَۃُ الَّذِییَشُکُّ) فَإِذَا ہُوَ کَہَیْئَۃِ الْجُمْعِ عَلَیْہِ الثَّآلِیلُ، (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: وَرَأَیْتُ خَاتَمَ النُّبُوَّۃِ فِی نُغْضِ کَتِفِہِ الْیُسْرٰی کَأَنَّہُ جُمْعٌ، فِیہَا خِیلَانٌ سُودٌ کَأَنَّہَا الثَّآلِیلُ)۔ (مسند احمد: ۲۱۰۶۱)
سیدنا عبداللہ بن سر جس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے آپ کے ساتھ کھانا کھایا اور پانی پیا، پھر میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے۔ عاصم کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ سے دریافت کیا کہ کیااللہ کے رسول نے بھی تمہارے لیے مغفرت کی دعا کی تھی؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے میرےلیے اور تم سب اہل ایمان کے لیے مغفرت کی دعا کی تھی،پھر اس آیت کی تلاوت کی: {وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ}… اور آپ اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور جملہ اہل ایمان خواتین و حضرات کے لیے بھی مغفرت کی دعا کریں۔ (سورۂ محمد : ۱۹) پھر میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دائیںیا بائیں کندھے (یہ شک شعبہ کو ہے) کی نرم ہڈی کو دیکھا، ایسے لگ رہا تھا کہ بند مٹھی کی طرح وہاں گوشت جمع ہو اور اس پر مسّے ہوں۔ایک روایت میں ہے: میں نے آپ کے بائیں کندھے کی نرم ہڈی کے قریب بند مٹھی کی مانند گوشت دیکھا، وہ مہر نبوت تھی اس پرکالے تل تھے، جیسے وہ مسّے ہوتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11153

۔ (۱۱۱۵۳)۔ (وَعَنْہٗمِنْطَرِیْقٍ ثَانٍ)عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَرْجِسَ قَالَ: تَرَوْنَ ہٰذَا الشَّیْخَیَعْنِی نَفْسَہُ، کَلَّمْتُ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَکَلْتُ مَعَہُ، وَرَأَیْتُ الْعَلَامَۃَ الَّتِی بَیْنَ کَتِفَیْہِ، وَہِیَ فِی طَرَفِ نُغْضِ کَتِفِہِ الْیُسْرٰی، کَأَنَّہُ جُمْعٌ یَعْنِی الْکَفَّ الْمُجْتَمِعَ، وَقَالَ بِیَدِہِ فَقَبَضَہَا: عَلَیْہِ خِیلَانٌ کَہَیْئَۃِ الثَّآلِیلِ۔ (مسند احمد: ۲۱۰۵۱)
۔(دوسری سند) سیدنا عبداللہ بن سر جس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، انہوں نے اپنی ذات کو پیش کرتے ہوئے لوگوں سے کہا: آیا تم اس بزرگ کو دیکھ رہے ہو؟ میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ کلام کیا اور میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ کھانا کھانے کا شرف حاصل کیا اور میں نے وہ علامت دیکھی، جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کندھوں کے درمیان تھی، وہ آپ کی بائیں کندھے کی نرم ہڈی کے قریب بند مٹھی کی طرح تھی، ساتھ ہی انہوں نے مٹھی بند کرکے دکھلائی، اس پر تل تھے، جیسے چھوٹے چھوٹے سے ہوتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11154

۔ (۱۱۱۵۴)۔ عَنْ عَتَّابٍ1 الْبِکْرِیِّ قَالَ: کُنَّا نُجَالِسُ أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ بِالْمَدِینَۃِ، فَسَأَلْتُہُ عَنْ خَاتَمِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الَّذِی کَانَ بَیْنَ کَتِفَیْہِ، فَقَالَ بِأُصْبُعِہِ السَّبَّابَۃِ: ہٰکَذَا لَحْمٌ نَاشِزٌ بَیْنَ کَتِفَیْہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (مسند احمد: ۱۱۶۷۹)
عتاب بِکری سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم مدینہ منورہ میں سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے، میں نے ان سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کاندھوں کے درمیان والی مہر نبوت کے متعلق دریافت کیا، انہوں نے اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کرکے بتلایا کہ وہ آپ کے کندھوں کے درمیان اس طرح ابھرے ہوئے گوشت کی مانند تھی۔ ! بعض کتب احادیث میں اس مقام پر عتاب کی جگہ غیاث راوی ہے تفصیل مسند محقق میں دیکھیں ص: ۱۹۸، جلد: ۱۸۔ (عبداللہ رفیق)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11155

۔ (۱۱۱۵۵)۔ حَدَّثَنَا عِلْبَائُ بْنُ أَحْمَرَ، حَدَّثَنَا أَبُو زَیْدٍ، قَالَ: قَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اقْتَرِبْ مِنِّی۔)) فَاقْتَرَبْتُ مِنْہُ، فَقَالَ: ((أَدْخِلْ یَدَکَ فَامْسَحْ ظَہْرِی۔)) قَالَ: فَأَدْخَلْتُ یَدِی فِی قَمِیصِہِ فَمَسَحْتُ ظَہْرَہُ، فَوَقَعَ خَاتَمُ النُّبُوَّۃِ بَیْنَ إِصْبَعَیَّ، قَالَ: فَسُئِلَ عَنْ خَاتَمِ النُّبُوَّۃِ، فَقَالَ: شَعَرَاتٌ بَیْنَ کَتِفَیْہِ۔ (مسند احمد: ۲۱۰۱۲)
سیدنا ابو زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: میرے قریب آجائو۔ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب ہو گیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنا ہاتھ قمیص کے نیچے داخل کرکے میری کمر پر پھیرو۔ پس جب میں نے اپنا ہاتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قمیص میں داخل کرکے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پشت پر پھیرا تو مہر نبوت میری دو انگلیوں کے درمیان آگئی۔ پھر جب ان سے مہر نبوت کے متعلق دریافت کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ وہ آپ کے کندھوں کے درمیان کچھ بال تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11156

۔ (۱۱۱۵۶)۔ عَنْ مُعَاوِیَۃُ بْنُ قُرَّۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ: أَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی رَہْطٍ مِنْ مُزَیْنَۃَ فَبَایَعْنَاہُ، وَإِنَّ قَمِیصَہُ لَمُطْلَقٌ، قَالَ: فَبَایَعْنَاہُ ثُمَّ أَدْخَلْتُ یَدِی فِی جَیْبِ قَمِیصِہِ فَمَسِسْتُ الْخَاتَمَ، ثُمَّ قَالَ عُرْوَۃُ: فَمَا رَأَیْتُ مُعَاوِیَۃَ وَلَا ابْنَہُ، (قَالَ حَسَنٌ: یَعْنِی إِیَاسًا) فِی شِتَائٍ قَطُّ وَلَا حَرٍّ إِلَّا مُطْلِقَیْ اَزْرَارِہِمَا لَا یَزُرَّانِہِ أَبَدًا۔ (مسند احمد: ۱۵۶۶۶)
سیدنا قرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں بنو مزینہ کے ایک وفد کے ہمراہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قمیص کے بٹن کھلے ہوئے تھے، جب ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کر چکے تو میں نے اپنا ہاتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کیقمیص کے اندر داخل کرکے مہر نبوت کو چھوا۔ عروہ کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ اور اس کے بیٹے ایاس کو سردی اور گرمی میں دیکھا کہ وہ اپنی قمیصوں کے بٹن ہمیشہ کھلے رکھتے اورکبھی بند نہ کیا کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11157

۔ (۱۱۱۵۷)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیہِ قَالَ: أَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاسْتَأْذَنْتُہُ أَنْ أُدْخِلَ یَدِی فِی جُرُبَّانِہِ، وَإِنَّہُ لَیَدْعُو لِی فَمَا مَنَعَہُ أَنْ أَلْمِسَہُ أَنْ دَعَا لِی، قَالَ: فَوَجَدْتُ عَلَی نُغْضِ کَتِفِہِ مِثْلَ السِّلْعَۃِ۔ (مسند احمد: ۱۵۶۶۷)
۔(دوسری سند) سیدنا قرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے اپنا ہاتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قمیص کے اندر داخل کرنے کی اجازت چاہی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے لیے دعا فرما رہے تھے، جب میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جسد اطہر کو چھو رہا تھا تو میرے اس عمل نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو میرے حق میں دعا کرنے سے نہ روکا، یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے حق میں مسلسل دعا فرماتے رہے، میں نے آپ کے کندھوں کی نرم ہڈی کے قریب ابھرے ہوئے پٹھے کی مانند ابھری ہوئی جگہ محسوس کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11158

۔ (۱۱۱۵۸)۔ عَنْ أَبِی رِمْثَۃَ التَّیْمِیِّ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ أَبِی حَتّٰی أَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَأَیْتُ بِرَأْسِہِ رَدْعَ حِنَّائٍ، وَرَأَیْتُ عَلٰی کَتِفِہِ مِثْلَ التُّفَّاحَۃِ، قَالَ أَبِی: إِنِّی طَبِیبٌ أَلَا أَبُطُّہَا لَکَ؟ قَالَ: ((طَبِیْبُھَا الَّذِی خَلَقَہَا۔)) قَالَ: وَقَالَ لِأَبِی: ((ہٰذَا ابْنُکَ؟)) قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ((أَمَا إِنَّہُ لَا یَجْنِیْ عَلَیْک وَلَا تَجْنِی عَلَیْہِ))۔ (مسند احمد: ۱۷۶۳۲)
سیدنا ابو رمثہ تیمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اپنے والد کے ہمراہ روانہ ہو کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچا، میں نے آپ کے سر پر مہندی کے رنگ کا اثر محسوس کیا، میں نے آپ کے کندھے کے قریب سیب کی مانند ابھری ہوئی جگہ دیکھی، میرے والد نے عرض کیا: میں ایک طبیب ہوں، کیا میں جراحی کرکے اسے الگ نہ کردوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کا طبیب وہ اللہ ہے، جس نے اس کو پیدا کیا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے والد سے فرمایا: کیایہ تمہارا فرزند ہے؟ میرے والد نے عرض کیا:جی ہاں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! وہ تیرے حق میں جرم نہیں کرے گا اور تو اس کے حق میں جرم نہیں کرے گا، (یعنی دونوں اپنے اپنے جرائم کے خود ذمہ دار ہوں گے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11159

۔ (۱۱۱۵۹)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا قَالَ: اِنْطَلَقْتُ مَعَ اَبِیْ نَحْوَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّا رَأَیْتُہُ قَالَ اَبِیْ: ھَلْ تَدْرِیْ مَنْ ھٰذَا؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: ھٰذَا مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: فَاقْشَعْرَرْتُ حِیْنَ قَالَ ذٰلِکَ، وَکُنْتُ أَظُنُّ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَیْئًا لَا یُشْبِہُ النَّاسَ فَاِذَا بَشَرٌ ذُوْ وَفْرَۃٍ وَبِہَا رَدْعٌ مِنْ حِنَّائٍ وَعَلَیْہِ بُرْدَانِ أَخْضَرَانِ فَسَلَّمَ عَلَیْہِ اَبِیْ، ثُمَّ جَلَسْنَا فَتَحَدَّثَنَا سَاعَۃً، ثُمَّ انَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لِأَبِیْ: ((اِبْنُکَ ھٰذَا؟))قَالَ: اِیْ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ! قَالَ: ((حَقًّا۔)) قَالَ: لَأَشْھَدُ بِہِ، فَتَبَسَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ضَاحِکًا فِیْ تَثْبِیْتِ شَبَہِیْ بِأَبِیْ وَمِنْ حَلْفِ اَبِیْ عَلَیَّ، ثُمَّ قَالَ: ((اَمَا إِنَّہُ لَا یَجْنِیْ عَلَیْکَ وَلَا تَجْنِیْ عَلَیْہِ۔)) وَقَرَأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : {وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرٰی} [الاسرائ: ۱۵] الحدیث۔ (مسند احمد: ۷۱۱۶)
سیدنا ابو رمثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں اپنے ابو جان کے ساتھ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حاضر ہوا، جب میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا تو میرے ابا جان نے کہا: ابو رمثہ ! تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جانتا ہے؟ میں نے کہا: جی نہیں، انھوں نے کہا: یہ محمد رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، پس میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے، میرا خیال تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ذات گرامی کی عام انسانوں سے الگ تھلگ حیثیت ہوگی، مگر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک انسان تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بال کانوں تک آ رہے تھے، بالوں پر مہندی کے نشان تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سبز رنگ کی دو چادریں پہن رکھی تھیں، میرے ابونے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر سلام کہا اور ہم بیٹھ گئے، آپ نے کچھ دیر تک ہم سے باتیںکیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تمہارا بیٹا ہے؟ میرے ابا جان نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: واقعی؟ انھوں نے کہا: کعبہ کے رب کی قسم! یہی بات درست ہے کہ یہ میرا بیٹا ہے، میں اس پر گواہی دیتا ہوں۔ یہ ساری باتیں سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھل کر مسکرا پڑے، کیونکہ میری اپنے باپ کے ساتھ مشابہت بالکل واضح تھی، لیکن اس کے باوجود وہ قسم اٹھا رہے تھے، پھرآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! یہ تیرے حق میں جرم نہیں کرے گا اور تو اس کے حق میں جرم نہیں کرے گا۔ ساتھ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی: {وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرٰی} … کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11160

۔ (۱۱۱۶۰)۔ قَالَ: اَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَعَ أَبِیْ فَرَأَی الَّتِیْ بِظَہْرِہِ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَلَا أُعَالِجُہَا لَکَ فَاِنِّیْ طَبِیْبٌ؟ قَالَ: ((أَنْتَ رَفِیْقٌ وَاللّٰہُ الطَّبِیْبُ۔)) قَالَ: ((مَنْ ھٰذَا مَعَکَ؟)) قَالَ: اِبْنِیْ، قَالَ: اَشْہَدُ بِہِ،قَالَ: ((أَمَا اِنَّہٗلَاتَجْنِیْ عَلَیْہِ وَلَا یَجْنِیْ عَلَیْکَ)) قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: قَالَ أَبِیْ: اِسْمُ أَبِیْ رِمْثَۃَ رِفَاعَۃُ بْنُ یَثْرَبِیٍّ۔ (مسند احمد: ۱۷۶۳۱)
سیدنا ابو رمثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ میں اپنے والد کے ہمراہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میرے والد نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پشت پر ابھری ہوئی جگہ دیکھی تو عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں طبیب ہوں، کیا میں اس کا علاج کردوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم تو ایک ساتھی ہو، حقیقی طبیب اللہ ہی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے ساتھ یہ کون ہے؟ میرے والد نے بتایا کہ یہ میرا بیٹا ہے اور کہا کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ واقعییہ میرا بیٹا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے کسی بھی جرم کا اس پر یا اس کے کسی جرم کا وبال تم پر نہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11161

۔ (۱۱۱۶۱)۔ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ رَاشِدٍ عَنِ التَّنُوْخِیِّ رَسُوْلِ ہِرَقْلَ اَنَّہٗقَالَ: فَجُلْتُفِیْ ظَہْرِہِ یَعْنِی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَاِذَا أَنَا بِخَاتَمٍ فِیْ مَوْضِعِ غُضُونِ الْکَتِفِ مِثْلِ الْحَجْمَۃِ الضَّخْمَۃِ (وَفِیْ لَفْظٍ: فَرَأَیْتُ غُضْرُوفَ کَتِفِہِ مِثْلَ الْمِحْجَمِ الضَّخْمِ) (مسند احمد: ۱۵۷۴۰)
سعید بن ابی راشد ہرقل کے قاصد تنوخی سے بیان کرتے ہیں، انھوں نے کہا:میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پشت پر اپنا ہاتھ پھیرا تو کندھے کی نرم ہڈی کے قریب مجھے بڑی سینگی جیسی ابھری ہوئی جگہ یعنی مہر نبوت محسوس ہوئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11162

۔ (۱۱۱۶۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہَا قَالَتْ: مَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَطُّ مُسْتَجْمِعًا ضَاحِکًا، قَالَ مُعَاوِیَۃُ: ضَحِکًا حَتّٰی أَرٰی مِنْہُ لَہَوَاتِہِ إِنَّمَا کَانَ یَتَبَسَّمُ، وَقَالَتْ: کَانَ إِذَا رَأٰی غَیْمًا أَوْ رِیحًا عُرِفَ ذٰلِکَ فِی وَجْہِہِ، قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! النَّاسُ إِذَا رَأَوُا الْغَیْمَ فَرِحُوْا رَجَائَ أَنْ یَکُونَ فِیہِ الْمَطَرُ، وَأَرَاکَ إِذَا رَأَیْتَہُ عَرَفْتُ فِی وَجْہِکَ الْکَرَاہِیَۃَ، قَالَتْ: فَقَالَ: ((یَا عَائِشَۃُ! مَا یُؤْمِنِّی أَنْ یَکُونَ فِیہِ عَذَابٌ، قَدْ عُذِّبَ قَوْمٌ بِالرِّیحِ، وَقَدْ رَأٰی قَوْمٌ الْعَذَابَ، فَقَالُوْا: ہٰذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا۔)) (مسند احمد: ۲۴۸۷۳)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کبھی کھل کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گلے کا کوا دیکھ سکوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صرف زیر لب مسکراتے تھے اور جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بادلوں یا ہوا کو دیکھتے تو اس کے اثرات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرہ پر نمایاں ہو جاتے (یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پریشان ہو جاتے)، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! لوگ تو بادل یا ہوا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، کیونکہ انہیں بارش کے آنے کی امید ہوتی ہے،لیکن اس کے برعکس میں آپ کو دیکھتی ہوں کہ آپ کے چہرے پر تشویس کے آثار نظر آنے لگتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! مجھے اس سے کیا امن ہے کہ اس میں عذاب ہو، جبکہ ایک قوم (یعنی قوم ِ عاد) کو ہوا ہی کے ذریعہ ہلاک کیا گیا اوراس قوم کی نظر تو عذاب پر پڑ رہی تھی، لیکن وہ(ظاہری بادل کو دیکھ کر) کہہ رہے تھے: یہ بادل ہے جو ہم پر مینہ برسانے والا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11163

۔ (۱۱۱۶۳)۔ عَنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ تَقُولُ: کَانَ أَبُو الدَّرْدَائِ إِذَا حَدَّثَ حَدِیثًا تَبَسَّمَ فَقُلْتُ: لَا یَقُولُ النَّاسُ إِنَّکَ أَیْ أَحْمَقُ، فَقَالَ: مَا رَأَیْتُ أَوْ مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُحَدِّثُ حَدِیثًا إِلَّا تَبَسَّمَ۔ (مسند احمد: ۲۲۰۷۵)
سیدہ ام درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب کوئی بات کرتے تو مسکرا دیتے، میں نے ان سے عرض کیا: آپ اس قدر تبسم نہ کیا کریں، کہیں لوگ آپ کو احمق نہ کہنے لگیں۔ وہ بولے کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جب بھی بات کرتے دیکھایاسنا تو آپ مسکرا کر بات کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11164

۔ (۱۱۱۶۴)۔ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ جَزْئٍ یَقُولُ: مَا رَأَیْتُ أَحَدًا کَانَ أَکْثَرَ تَبَسُّمًا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۷۸۶۵)
سیدنا عبداللہ بن حارث بن جزء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے زیادہ تبسم کرتے کسی کو نہیں دیکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11165

۔ (۱۱۱۶۵)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: مَا شَمَمْتُ رِیْحًا قَطُّ مِسْکًا وَلَا عَنْبَرًا أَطْیَبَ مِنْ رِیْحِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَلَا مَسِسْتُ قَطُّ خَزًّا وَلَا حَرِیْرًا أَلْیَنَ مِنْ کَفِّ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۳۱۰۵)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، انھوں نے کہا: میں نے خوشبو میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جسم سے بڑھ کر کوئی کستورییا عنبر نہیں دیکھا اور نہ میں نے کوئی ایسا موٹا یا نفیس ریشم دیکھا ہے، جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11166

۔ (۱۱۱۶۶)۔ (وَعَنْہٗمِنْطَرِیْقٍ ثَانٍ) مِثْلُہُ وَزَادَ: قَالَ ثَابِتٌ: فَقُلْتُ: یَا أَبَا حَمْزَۃَ! أَلَسْتَ کَأَنَّکَ تَنْظُرُ إِلَی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکَأَنَّکَ تَسْمَعُ إِلٰی نَغَمَتِہِ؟ فَقَالَ: بَلٰی، وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأَرْجُو أَنْ أَلْقَاہُیَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَأَقُولَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ خُوَیْدِمُکَ، قَالَ: خَدَمْتُہُ عَشْرَ سِنِینَ بِالْمَدِینَۃِ وَأَنَا غُلَامٌ، لَیْسَ کُلُّ أَمْرِی کَمَا یَشْتَہِی صَاحِبِی أَنْ یَکُونَ، مَا قَالَ لِی فِیہَا أُفٍّ، وَلَا قَالَ لِی لِمَ فَعَلْتَ ہٰذَا وَأَلَّا فَعَلْتَ ہٰذَا۔ (مسند احمد: ۱۳۳۵۰)
۔(دوسری سند) یہ حدیث گزشتہ حدیث ہی کی مانند ہے، البتہ اس میں یہ اضافہ ہے: ثابت کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے ابو حمزہ! کیا آپ کو اب بھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ گویا آپ اب بھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھ اور سن رہے ہوں؟ انھوں نے کہا: جی بالکل، مجھے یہ بھی امید ہے کہ میری قیامت کے دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملاقات ہوگی تو میں عرض کروں گا: اللہ کے رسول ! میں آپ کا چھوٹا سا خادم۔ میں نے مدینہ منورہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دس برس خدمت کی ہے، جبکہ میں بچہ تھا اور میرا ہر کام اس طرح نہیں ہوتا تھا، جیسے میرے صاحب ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چاہتے تھے، لیکن (اس طویل دورانیے میں) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کبھی بھی مجھے اف تک نہ کہا اور کبھی میرے کام پر اعتراض کرتے ہوئے نہیں فرمایا کہ تو نے یہ کام کیوں کیا ہے؟ تو نے یہ کام کیوں نہیں کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11167

۔ (۱۱۱۶۷)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَسْمَرَ وَلَمْ أَشُمَّ مِسْکَۃً وَلَا عَنْبَرَۃً أَطْیَبَ رِیحًا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۳۸۵۴)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا رنگ گندمی تھا اور میں نے کبھی کوئی ایسی کستورییا عنبر نہیں سونگھا جو رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جسم سے زیادہ عمدہ خوشبودار ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11168

۔ (۱۱۱۶۸)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ إِذَا مَشٰی مَشٰی مُجْتَمِعًا لَیْسَ فِیْہِ کَسَلٌ۔ (مسند احمد: ۳۰۳۳)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب چلتے تو چستی سے چلتے، اس میں سستی کا مظاہرہ نہ ہوتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11169

۔ (۱۱۱۶۹)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: کُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی جَنَازَۃٍ، فَکُنْتُ إِذَا مَشَیْتُ سَبَقَنِی فَأُہَرْوِلُ فَإِذَا ہَرْوَلْتُ سَبَقْتُہُ، فَالْتَفَتُّ إِلٰی رَجُلٍ إِلٰی جَنْبِی، فَقُلْتُ: تُطْوٰی لَہُ الْأَرْضُ وَخَلِیلِ إِبْرَاہِیمَ! (مسند احمد: ۷۴۹۷)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں ایک جنازے میں تھا، جب میں عام رفتار سے چلتا تو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھ سے آگے نکل جاتے، جب میں ہلکا ہلکا دوڑنے کے انداز سے چلتا، تب میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آگے نکل جاتا، ایک آدمی میرے ساتھ ساتھ چلا جار ہا تھا، میں نے اس سے کہا: ابراہیم کے خلیل (یعنی اللہ) کی قسم! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے توزمین لپیٹ دی جاتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11170

۔ (۱۱۱۷۰)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَیَقُولُ: مَا رَأَیْتُ شَیْئًا أَحْسَنَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ کَأَنَّ الشَّمْسَ تَجْرِی فِی جَبْہَتِہِ، وَمَا رَأَیْتُ أَحَدًا أَسْرَعَ فِی مِشْیَتِہِ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَأَنَّمَا الْأَرْضُ تُطْوٰی لَہُ، إِنَّا لَنُجْہِدُ أَنْفُسَنَا وَإِنَّہُ لَغَیْرُ مُکْتَرِثٍ۔ (مسند احمد: ۸۵۸۸)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بڑھ کر کوئی حسین نہیں دیکھا،یوں لگتا تھا کہ آپ کی پیشانی میںسورج چلتا ہے اور میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بڑھ کر کسی کو تیز رفتار نہیں دیکھا،یوں لگتا تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے زمین لپیٹ دی جاتی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زیادہ تیز نہیں چلتے تھے، لیکن پھر بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ساتھ رہنے کے لیے ہمیں خوب تیز چلنا پڑتا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11171

۔ (۱۱۱۷۱)۔ عَنْ سَعْدِ بْنِ ہِشَامِ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: أَتَیْتُ عَائِشَۃَ فَقُلْتُ: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ! أَخْبِرِینِی بِخُلُقِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ، أَمَا تَقْرَأُ الْقُرْآنَ قَوْلَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ: {وَإِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیمٍ}؟ قُلْتُ: فَإِنِّی أُرِیدُ أَنْ أَتَبَتَّلَ، قَالَتْ: لَا تَفْعَلْ أَمَا تَقْرَأُ: {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} فَقَدْ تَزَوَّجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَدْ وُلِدَ لَہُ۔ (مسند احمد: ۲۵۱۰۸)
سعد بن ہشام سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے ام المؤمنین! آپ مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اخلاق سے آگاہ فرمائیں۔ انہوں نے کہا: قرآن ہی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا اخلاق تھا، کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {وَإِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیمٍ}… بے شک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اخلاق کی اعلیٰ قدروں پر فائز ہیں۔ (سورۂ قلم: ۴) میں نے عرض کیا:میں تبتّل کی زندگی اختیار کرنا چاہتا ہوں۔انھوں نے کہا: تم ایسا نہ کرو، کیا تم قرآن میں یہ نہیں پڑھتے: {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} … (یقینا تمہارے لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زندگی اسوہ ٔ حسنہ ہے۔ (سورۂ احزاب:۲۱) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے شادیاں کیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اولاد بھی ہوئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11172

۔ (۱۱۱۷۲)۔ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِی سُوَائَۃَ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَۃَ عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ: أَمَا تَقْرَأُ الْقُرْآنَ {إِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیمٍ} قَالَ: قُلْتُ: حَدِّثِینِی عَنْ ذَاکَ، قَالَتْ: صَنَعْتُ لَہُ طَعَامًا وَصَنَعَتْ لَہُ حَفْصَۃُ طَعَامًا، فَقُلْتُ لِجَارِیَتِی: اِذْہَبِی، فَإِنْ جَائَ تْ ہِیَ بِالطَّعَامِ فَوَضَعَتْہُ قَبْلُ فَاطْرَحِی الطَّعَامَ، قَالَتْ: فَجَائَ تْ بِالطَّعَامِ، قَالَتْ: فَأَلْقَتْہُ الْجَارِیَۃُ فَوَقَعَتِ الْقَصْعَۃُ فَانْکَسَرَتْ وَکَانَ نِطْعًا، قَالَتْ: فَجَمَعَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ: ((اقْتَصُّوا (أَوْ اقْتَصِّی شَکَّ أَسْوَدُ) ظَرْفًا مَکَانَ ظَرْفِکِ۔)) فَمَا قَالَ شَیْئٌ۔ (مسند احمد: ۲۵۳۱۱)
بنو سواء ۃ کے ایک فرد سے روایت ہے، وہ کہتا ہے: میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا، انہو ںنے کہا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَإِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیمٍ}… بے شک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اخلاق کی اعلیٰ قدروں پر فائز ہیں۔ (سورۂ قلم: ۴) وہ کہتاہے: میں نے عرض کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے اس کی کچھ تفصیل بیان کریں، انہوں نے کہا:میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے ایک کھانا تیار کیا اور ام المؤمنین سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے کھانا تیار کیا،میں نے اپنی خادمہ سے کہا کہ جائو اگر وہ کھانا لے کر آئے اور مجھ سے پہلے کھانا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے لا کر رکھے تو کھانا پھینک دینا۔ سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ وہ کھانا لے کر آئیں تو خادمہ نے کھانا پھینک دیا،پیالہ گرکر ٹوٹ گیا، ایک چمڑا بطور دستر خوان بچھا ہوا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بکھرا ہوا کھانا دستر خوان سے جمع کیا اور فرمایا: تم اس کے عوض دوسرا برتن ادا کرو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزید کچھ نہیں فرمایا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11173

۔ (۱۱۱۷۳)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدْخُلُ عَلَیْنَا (وَفِیْ لَفْظٍ: یُخَالِطُنَا) وَکَانَ لِی أَخٌ صَغِیرٌ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُضَاحِکُہٗ) وَکَانَ لَہُ نُغَیْرٌیَلْعَبُ بِہِ فَمَاتَ نُغَرُہُ الَّذِی کَانَ یَلْعَبُ بِہِ، فَدَخَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ یَوْمٍ فَرَآہُ حَزِینًا، فَقَالَ لَہُ: ((مَا شَأْنُ أَبِی عُمَیْرٍ حَزِینًا؟)) فَقَالُوْا: مَاتَ نُغَرُہُ الَّذِی کَانَ یَلْعَبُ بِہِ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَقَالَ: ((أَبَا عُمَیْرٍ مَا فَعَلَ النُّغَیْرُ۔)) (مسند احمد: ۱۲۱۶۱)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے ہاں تشریف لاتے اور ہمارے ساتھ گھل مل جاتے، میرا ایک چھوٹا بھائی تھا،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے ساتھ ہنسی مذاق بھی کرلیا کرتے تھے اور اسے ہنسایا کرتے تھے، اس نے ایک بلبل پال رکھا تھا اور وہ اس کے ساتھ کھیلا کرتا تھا، وہ مر گیا، ایک دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے تو اسے غمگین دیکھاا ور فرمایا: ابو عمیر کو کیا ہوا، یہ غمگین کیوں ہے؟ گھر والوں نے بتلایا کہ اے اللہ کے رسول! یہ جس بلبل کے ساتھ کھیلا کرتا تھا، وہ مر گیا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابو عمیر! بلبل نے کیا کیا؟
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11174

۔ (۱۱۱۷۴)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ أَبِی التَّیَّاحِ قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَحْسَنَ النَّاسِ خُلُقًا، وَکَانَ لِی أَخٌ یُقَالُ لَہُ: أَبُو عُمَیْرٍ، قَالَ: أَحْسِبُہُ قَالَ: فَطِیمًا، فَقَالَ: وَکَانَ إِذَا جَائَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَآہُ قَالَ: ((أَبَا عُمَیْرٍ مَا فَعَلَ النُّغَیْرُ؟)) قَالَ: نُغَرٌ کَانَ یَلْعَبُ بِہِ، قَالَ: فَرُبَّمَا تَحْضُرُہُ الصَّلَاۃُ وَہُوَ فِی بَیْتِنَا فَیَأْمُرُ بِالْبِسَاطِ الَّذِی تَحْتَہُ فَیُکْنَسُ ثُمَّ یُنْضَحُ بِالْمَائِ، ثُمَّ یَقُومُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَنَقُومُ خَلْفَہُ فَیُصَلِّی بِنَا، قَالَ: وَکَانَ بِسَاطُہُمْ مِنْ جَرِیدِ النَّخْلِ۔ (مسند احمد: ۱۳۲۴۱)
۔(دوسری سند) ابو تیاح سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سے سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سب سے بڑھ کر اچھے اخلاق کے مالک تھے، میرا ایک بھائی تھا، جسے ابوعمیر کہاجاتا تھا، ابو تیاح کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ بھی بتلایا کہ ابھی اس کا دودھ چھڑایا گیا تھا، رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پاس تشریف لاتے اور اسے دیکھ کر فرماتے: اے ابو عمیر! بلبل کہاں ہے؟ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بتایا کہ بلبل ایک پرندہ تھا، جس کے ساتھ وہ کھیلا کرتا تھا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے گھر ہی ہوتے اور نماز کا وقت ہو جاتا تو جو چٹائی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نیچے ہوتی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسی کے متعلق حکم فرماتے کہ اسی کو صاف کرکے اس پر پانی کے چھینٹے مار دیئے جائیں، پھر اللہ کے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے اور ہم بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے کھڑے ہو کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کرتے، وہ چٹائی کھجور کے پتوں کی ہوتی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11175

۔ (۱۱۱۷۵)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: کُنْتُ أَمْشِی مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعَلَیْہِ بُرْدٌ نَجْرَانِیٌّ غَلِیظُ الْحَاشِیَۃِ، فَأَدْرَکَہُ أَعْرَابِیٌّ فَجَبَذَہُ جَبْذَۃً حَتّٰی رَأَیْتُ صَفْحَ أَوْ صَفْحَۃَ عُنُقِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ أَثَّرَتْ بِہَا حَاشِیَۃُ الْبُرْدِ مِنْ شِدَّۃِ جَبْذَتِہِ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ أَعْطِنِی مِنْ مَالِ اللّٰہِ الَّذِی عِنْدَکَ! فَالْتَفَتَ إِلَیْہِ فَضَحِکَ ثُمَّ أَمَرَ لَہُ بِعَطَائٍ۔ (مسند احمد: ۱۲۵۷۶)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ جا رہا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم موٹے حاشیہ والی ایک نجرانی چادر زیب تن کیے ہوئے تھے، ایک بدو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملا، اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو چادر سے پکڑ کر اتنے زور سے کھینچا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی گردن پر چادر کے نشانات نمایاں نظر آنے لگے۔ اس بدو نے کہا: اے محمد! اللہ کا جو مال آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ہے، مجھے بھی اس میں سے عطا کریں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرا دیئے اور اسے کچھ عطیہ دینے کا حکم صادر فرمایا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11176

۔ (۱۱۱۷۶)۔ عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ أَنَّہُ بَیْنَا ہُوَ یَسِیرُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَعَہُ النَّاسُ مُقْبِلًا مِنْ حُنَیْنٍ، عَلِقَتْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْأَعْرَابُ یَسْأَلُونَہُ حَتَّی اضْطَرُّوہُ إِلٰی سَمُرَۃٍ، فَخَطِفَتْ رِدَائَہُ، فَوَقَفَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ قَالَ: ((أَعْطُونِی رِدَائِی، فَلَوْ کَانَ عَدَدُ ہٰذِہِ الْعِضَاہِ نَعَمًا لَقَسَمْتُہُ، ثُمَّ لَا تَجِدُونِی بَخِیلًا وَلَا کَذَّابًا وَلَا جَبَانًا۔)) (مسند احمد: ۱۶۸۷۸)
سیدنا جبیر بن مطعم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ چلے جا رہے تھے، یہ حنین سے واپسی کا واقعہ ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ کچھ دوسرے لوگ بھی تھے، اسی دوران دیہاتی لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آ چمٹے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مال مانگنے لگے اور آپ کو زور سے (کیکریا ببول کے) ایک خاردار درخت کی طرف کھینچے لے گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چادر اتر گئی، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رک گئے اور فرمایا: میری چادر تو مجھے دے دو، اگر ان کانٹوں کے برابر بھی جانور ہوتے تو میں ان کو تقسیم کر دیتا پھر تم مجھے بخیل، جھوٹا یا بزدل نہیں پائو گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11177

۔ (۱۱۱۷۷)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ تُلُقِّیَ بِالصِّبْیَانِ مِنْ أَہْلِ بَیْتِہِ، قَالَ: وَإِنَّہُ قَدِمَ مَرَّۃً مِنْ سَفَرٍ، قَالَ: فَسُبِقَ بِی إِلَیْہِ، قَالَ: فَحَمَلَنِی بَیْنَیَدَیْہِ، قَالَ: ثُمَّ جِیئَ بِأَحَدِ ابْنَیْ فَاطِمَۃَ إِمَّا حَسَنٍ وَإِمَّا حُسَیْنٍ فَأَرْدَفَہُ خَلْفَہُ، قَالَ: فَدَخَلْنَا الْمَدِینَۃَ ثَلَاثَۃً عَلٰی دَابَّۃٍ۔ (مسند احمد: ۱۷۴۳)
سیدنا عبداللہ بن جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب کسی سفر سے واپس تشریف لاتے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خاندان کے بچوں کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ملایا جاتا، ایک دفعہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سفر سے واپس تشریف لائے اور مجھے سب سے پہلے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف لے جایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے سواری پر اپنے آگے بٹھا لیا، پھر سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے بیٹے سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میں سے کسی ایک کو لایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے اپنے پیچھے بیٹھا لیا، پھر ہم اس طرح تین آدمی ایک سواری پر سوار ہو کر مدینہ منورہ میں داخل ہوئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11178

۔ (۱۱۱۷۸)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ جَعْفَرٍ لِابْنِ الزُّبَیْرِ: أَتَذْکُرُ إِذْ تَلَقَّیْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَا وَأَنْتَ وَابْنُ عَبَّاسٍ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَحَمَلَنَا وَتَرَکَکَ، وَقَالَ إِسْمَاعِیلُ مَرَّۃً: أَتَذْکُرُ إِذْ تَلَقَّیْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَا وَأَنْتَ وَابْنُ عَبَّاسٍ؟ فَقَالَ: نَعَمْ فَحَمَلَنَا وَتَرَکَکَ۔ (مسند احمد: ۱۷۴۲)
عبداللہ بن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: کیا تمہیںیاد ہے کہ جب میں، آپ اور سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، ہم تینوں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جا کر ملے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں یا د ہے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں سواری پر اپنے ساتھ سوار کر لیا تھا اور تمہیں رہنے دیاتھا۔امام احمد کے شیخ اسمعیل بن علیہ نے ایک دفعہ یوں روایت کیا: کیا تمہیںیاد ہے جب میں، آپ اور سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگے جا کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملے تھے؟ انہوں نے کہاں! جی ہاں یاد ہے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں اپنے ساتھ سوار کر لیا تھا اور تمہیں چھوڑ دیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11179

۔ (۱۱۱۷۹)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ: اَنَّ رَسُْوْلَ اللّٰہِ لَمْ یَکُ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا، وَکَانَ یَقُوْلُ: ((مِنْ خَیَارِکُمْ أَحْسَنُکُمْ أَخْلَاقًا۔)) (مسند احمد: ۶۵۰۴)
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عادۃًیا تکلفاً فحش گو نہ تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سب سے اچھا وہ ہے، جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11180

۔ (۱۱۱۸۰)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: خَدَمْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَشْرَ سِنِینَ، فَمَا أَمَرَنِی بِأَمْرٍ فَتَوَانَیْتُ عَنْہُ أَوْ ضَیَّعْتُہُ فَلَامَنِی، فَإِنْ لَامَنِی أَحَدٌ مِنْ أَہْلِ بَیْتِہِ إِلَّا قَالَ: ((دَعُوہُ فَلَوْ قُدِّرَ۔)) أَوْ قَالَ: ((لَوْ قُضِیَ أَنْ یَکُونَ کَانَ۔)) (مسند احمد: ۱۳۴۵۱)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دس برس تک خدمت کی۔ (ایک روایت میں نو سال کا ذکر ہے) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے جو حکم بھی دیا اور پھر مجھ سے اس بارے میں کوتاہی ہو گئییا نقصان ہو گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ملامت نہیں کی اور اگر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گھر میں سے کسی نے بھی مجھے برابھلا کہا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے: اسے چھوڑ دو،اگر ایسا ہونا مقدر میں ہے تو وہ ہو کر رہے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11181

۔ (۱۱۱۸۱)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: لَمْ یَکُنْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَبَّابًا وَلَا لَعَّانًا وَلَا فَحَّاشًا، کَانَ یَقُولُ لِأَحَدِنَا عِنْدَ الْمُعَاتَبَۃِ: ((مَا لَہُ، تَرِبَ جَبِینُہُ۔)) (مسند احمد: ۱۲۶۳۶)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گالیاں دینے والے، لعنت کرنے والے اور فحش گو نہیں تھے، جب کسی کو ڈانٹنا ہوتا تو صرف اتنا کہتے کہ اسے کیا ہو گیا ہے، اس کی پیشانی خاک آلود ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11182

۔ (۱۱۱۸۲)۔ قَالَ: قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَا ذَا الْأُذُنَیْنِ۔)) (مسند احمد: ۱۳۵۷۸)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: او دو کانوں والے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11183

۔ (۱۱۱۸۳)۔ عَنْ جَرِیْرٍ قَالَ: مَا حَجَبَنِیْ عَنْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُنْذُ أَسْلَمْتُ وَلَا رَآنِیْ اِلَّا تَبَسَّمَ۔ (مسند احمد: ۱۹۳۸۷)
سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں جب سے مسلمان ہوا ہوں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے پاس آنے سے مجھے کبھی نہیں روکا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب بھی مجھے دیکھا ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرا دیئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11184

۔ (۱۱۱۸۴)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: مَا لَعَنَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُسْلِمًا مِنْ لَعْنَۃٍ تُذْکَرُ، وَلَا انْتَقَمَ لِنَفْسِہِ شَیْئًایُؤْتٰی إِلَیْہِ إِلَّا أَنْ تُنْتَہَکَ حُرُمَاتُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَلَا ضَرَبَ بِیَدِہِ شَیْئًا قَطُّ إِلَّا أَنْ یَضْرِبَ بِہَا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، وَلَا سُئِلَ شَیْئًا قَطُّ فَمَنَعَہُ إِلَّا أَنْ یُسْأَلَ مَأْثَمًا فَإِنَّہُ کَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْہُ، وَلَا خُیِّرَ بَیْنَ أَمْرَیْنِ قَطُّ إِلَّا اخْتَارَ أَیْسَرَہُمَا، وَکَانَ إِذَا کَانَ حَدِیثَ عَہْدٍ بِجِبْرِیلَ عَلَیْہِ السَّلَام یُدَارِسُہُ، کَانَ أَجْوَدَ بِالْخَیْرِ مِنَ الرِّیحِ الْمُرْسَلَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۵۴۹۹)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کبھی کسی مسلمان کا نام لے کر اس پر لعنت نہیں کی، نہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ساتھ کی گئی بدسلوکی کا انتقام لیا، الایہ کی اللہ تعالیٰ کی حدود پامال ہوتی ہوں،نہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کسی کو اپنے ہاتھ سے مارا، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی راہ کا مسئلہ ہو، آپ سے جب بھی کوئی چیز طلب کی گئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کبھی بھی اس کا انکار نہیں کیا، الایہ کی وہ بات گناہ والی ہوتی، اگر گناہ والی بات ہوتی تو آپ اس سے سب سے زیادہ دور رہنے والے ہوتے اور جب بھی آپ کو دوباتوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا جاتا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان میں سے اس صورت کا انتخاب کرتے، جو ان میں سے آسان تر ہوتی اور جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کا دور کرکے فارغ ہوتے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چھوڑی ہوئی ہو اسے بھی زیادہ سخی ہوتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11185

۔ (۱۱۱۸۵)۔ عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَا سَیِّدَنَا وَابْنَ سَیِّدِنَا وَیَا خَیْرَنَا وَابْنَ خَیْرِنَا! فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ! قُولُوْا بِقَوْلِکُمْ وَلَا یَسْتَہْوِیَنَّکُمُ الشَّیْطَانُ، أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ وَرَسُولُ اللّٰہِ، وَاللّٰہِ! مَا أُحِبُّ أَنْ تَرْفَعُونِی فَوْقَ مَا رَفَعَنِی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ۔)) (مسند احمد: ۱۳۵۶۳)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مخاطب ہو کرکہا: اے ہمارے سردار! اور اے ہمارے سردار کے فرزند! اے وہ ذات جو ہم میں سب سے بہتر ہے اور ہم میں سے سب سے افضل کی اولاد ہے، لیکن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ سن کر فرمایا: لوگو! تم معروف بات ہی کر لیا کرو اور ہر گز شیطان تمہیں غلو میں مبتلا نہ کردے، میں محمد بن عبداللہ اور اس کا رسول ہوں، اللہ کی قسم! میں یہ پسند نہیںکرتا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو مقام دیا ہے، تم مجھے اس سے اوپر نہ لے جائو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11186

۔ (۱۱۱۸۶)۔ عَنْ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارٰی عِیْسَی بْنَ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ، فَاِنَّمَا أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہٗ۔)) (مسنداحمد: ۱۵۴)
سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میری مدح میں اس طرح غلو نہ کیا کرو، جس طرح نصاری نے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے بارے میں غلو کیا، میں تو محض اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11187

۔ (۱۱۱۸۷)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: جَلَسَ جِبْرِیلُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَظَرَ إِلَی السَّمَائِ فَإِذَا مَلَکٌ یَنْزِلُ، فَقَالَ جِبْرِیلُ: إِنَّ ہٰذَا الْمَلَکَ مَا نَزَلَ مُنْذُ یَوْمِ خُلِقَ قَبْلَ السَّاعَۃِ، فَلَمَّا نَزَلَ قَالَ: یَا مُحَمَّدُ! أَرْسَلَنِی إِلَیْکَ رَبُّکَ، قَالَ: أَفَمَلِکًا نَبِیًّایَجْعَلُکَ أَوْ عَبْدًا رَسُولًا؟ قَالَ جِبْرِیلُ: تَوَاضَعْ لِرَبِّکَ یَا مُحَمَّدُ، قَالَ: ((بَلْ عَبْدًا رَسُولًا۔)) (مسند احمد: ۷۱۶۰)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ جبریل علیہ السلام نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس تشریف فرما تھے, انہوں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی، پس اچانک اوپر سے ایک فرشتہ نیچے اتر رہا تھا، جبریل علیہ السلام نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کہا: یہ فرشتہ جب سے پیدا ہوا، تب سے اب تک یہ کبھی زمین پر نہیں آیا، جب وہ آیا تو اس نے کہا: اے محمد! آپ کے رب نے مجھے اس پیغام کے ساتھ آپ کی طرف بھیجا ہے کہ وہ آپ کو بادشاہ بنائے یا بندہ اور رسول؟ جبریل علیہ السلام نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: اے محمد! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے رب کے لیے تواضع اختیار کریں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اللہ کا بندہ رسول بننا چاہتا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11188

۔ (۱۱۱۸۸)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: اِنْ کَانَتِ الْأَمَۃُ مِنْ أَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ لَتَأْخُذُ بِیَدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَتَنْطَلِقُ بِہِ فِیْ حَاجَتِہَا۔ (مسند احمد: ۱۱۹۶۳)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ (رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ا سقدر متواضع تھے کہ) مدینہ کی ایک لونڈی آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ پکڑ کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنے کسی کام کے لیے لے جاتی (اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی بلا پس و پیش اس کے ہم راہ تشریف لے جاتے) ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11189

۔ (۱۱۱۸۹)۔ قَالَ: إِنَّ اِمْرَاَۃً لَقِیَتِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ طَرِیْقٍ مِنْ طُرُقِ الْمَدِیْنَۃِ فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ لِی إِلَیْکَ حَاجَۃً، قَالَ: ((یَا أُمَّ فُلَانٍ! اجْلِسِی فِی أَیِّ نَوَاحِی السِّکَکِ شِئْتِ أَجْلِسْ إِلَیْکِ۔)) قَالَ: فَقَعَدَتْ فَقَعَدَ إِلَیْہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی قَضَتْ حَاجَتَہَا۔ (مسند احمد: ۱۲۲۲۱)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہی کا بیان ہے کہ مدینہ منورہ کے ایک راستہ میں ایک خاتون، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ملی اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ! مجھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کام ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ام فلاں! تم مدینہ کی جس گلییا راستے میں چاہو بیٹھ جائو، میں بھی تمہارے پاس بیٹھ جائوں گا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ وہ بیٹھ گئی اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی اس کے پاس بیٹھ گئے، یہاں تک کہ اس کی ضرورت کو پورا کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11190

۔ (۱۱۱۹۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَتَی السِّقَایَۃَ فَقَالَ: ((اسْقُوْنِیْ۔)) فَقَالُوْا: إِنَّ ھٰذَا یَخُوْضُہُ النَّاسُ وَلٰکِنَّا نَأْتِیْکَ بِہِ مِنَ الْبَیْتِ، فَقَالَ: ((لَا حَاجَۃَ لِیْ فِیْہِ، اِسْقُوْنِیْ مِمَّا یَشْرَبُ مِنْہُ النَّاسُ۔)) (مسند احمد: ۱۸۴۱)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم طواف کے بعد وہاں تشریف لائے، جہاں زمزم کا پانی پلایا جا رہا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے بھی پلائو۔ انہوں نے کہا: اس پانی کو تو لوگ متأثر کرتے رہتے ہیں، ہم آپ کے لیے گھر سے (صاف) پانی لے آتے ہیں، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کی ضرورت نہیںہے، جہاں سے لوگ پی رہے ہیں، وہیں سے مجھے بھی پلا دیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11191

۔ (۱۱۱۹۱)۔ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ قَالَ یَہُودِیٌّ بِسُوقِ الْمَدِینَۃِ: وَالَّذِی اصْطَفٰی مُوسٰی عَلَی الْبَشَرِ، قَالَ: فَلَطَمَہُ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: تَقُولُ ہٰذَا وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِینَا، قَالَ: فَأَتَی الْیَہُودِیُّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم {وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوَاتِ وَمَنْ فِی الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَآئَ اللّٰہُ ثُمَّ نُفِخَ فِیہِ أُخْرٰی فَإِذَا ہُمْ قِیَامٌیَنْظُرُونَ} قَالَ: ((فَأَکُونُ أَوَّلَ مَنْ یَرْفَعُ رَأْسَہُ فَإِذَا مُوسٰی آخِذٌ بِقَائِمَۃٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِی أَرَفَعَ رَأْسَہُ قَبْلِی أَمْ کَانَ مِمَّنِ اسْتَثْنَی اللَّہُ، وَمَنْ قَالَ أَنِّی خَیْرٌ مِنْ یُونُسَ بْنِ مَتّٰی فَقَدْ کَذَبَ۔)) (مسند احمد: ۹۸۲۰)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ مدینہ منورہ کے بازار میں ایکیہودی نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ کو تمام انسانوں پر فضیلت دی ہے، اس کے یہ الفاظ سن کر غیرت کے مارے ایک انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسے تھپڑ رسید کر دیا اور کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہوتے ہوئے تمہیںیہ کہنے کی جرأت کیسے ہوئی؟ وہ یہودی شکایت لے کر رسول ا للہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جواباً اس آیت کی تلاوت کی: {وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوَاتِ وَمَنْ فِی الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَآئَ اللّٰہُ ثُمَّ نُفِخَ فِیہِ أُخْرٰی فَإِذَا ہُمْ قِیَامٌیَنْظُرُونَ} … اور صور پہلی بار صور پھونکا جائے گا تو آسمانوں کی مخلوق بے ہوش ہو جائے گی سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہئے گا۔ پھر اس میں دوبارہ پھونک ماری جائے گی تو سب لوگ دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس وقت سب سے پہلے میں ہوش میں آکر سر اٹھائوں گا، لیکن دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرش کے ایک پائے کو پکڑ کر کھڑے ہوں گے، مجھے اس چیز کا علم نہیں ہو گا کہ انھوںنے مجھ سے پہلے ہوش میں آکر سراٹھایا ہو گا یا وہ بے ہوش ہونے سے مستثنیٰ ہونے والوں میں سے ہوں گے۔ اور (یاد رکھو کہ) جس نے یوں کہا کہ میں (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) یونس بن متی سے افضل ہوں تو اس نے غلط کہا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11192

۔ (۱۱۱۹۲)۔ عَنْ أَبِی أُماَمَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: مَرَّ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِییَوْمٍ شَدِیْدِ الْحرِّ نَحْوَ بَقِیْعِ الْغَرْقَدِ، قَالَ: فَکَانَ النَّاسُ یَمْشُوْنَ خَلْفَہُ، قَالَ: فَلَمَّا سَمِعَ صَوْتَ النِّعَالِ وَقَرَ ذَالِکَ فِی نَفْسِہِ، فَجَلَسَ حَتّٰی قَدَّمَہُمْ أَمَامَہُ لِئَلاَّ یَقَعَ فِیْ نَفْسِہِ مِنَ الْکِبْرِ فَلَمَّا مَرَّ بِبَقِیْعِ الْغَرْقَدِ، إِذَا بِقَبْرِیْنَ قَدْ دَفَنُوْا فِیْہِمَا رَجُلَیْنِ، قَالَ: فَوَقَفَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((مَنْ دَفَنْتُمْ ہَاہُنَا الْیَوْمَ؟)) قَالُوْا: یَا نَبِیُّ اللّٰہِ! فُلَانٌ وَ فُلَانٌ، قَالَ: ((إِنَّہُمَا لَیَعُذَبَّاَنِ الْآنَ وَیُفْتَنَانِ فِی قَبْرَیْہِمَا۔)) قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فِیْمَ ذَالکَ؟ قَالَ: ((أَمَّا أَحَدُہُمَا فَکَانَ لَایَسْتَنْزِہُ مِنَ الْبَوْلِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَکَانَ یَمْشِیْ بِالنَّمِیْمِۃِ۔)) وَأَخَذَ جَرِیْدَۃً رَطْبَۃً، فَشَقَّہا ثُمَّ جَعَلَہَا عَلَی الْقَبْرَیْنِ، قَالُوْا: یَا نَبِیَّاللّٰہُ! وَلِمَ فَعَلْتَ؟ قَالَ: ((لَیُخَفَّفَنَّ عَنْہُمَا۔)) قَالُوْا: یَا نَبِیَّ اللّٰہُ! وَحَتّٰی مَتٰییُعَذِّبُہُمَا اللّٰہُ؟ قَالَ: ((غَیْبٌ لَا یَعْلَمُہُ إِلَّا اللّٰہُ وَلَولَا تََمْرِیْغُ قُلُوْبِکُمْ أَوْ تَزَیُّدُکُمْ فِی الْحَدِیْثِ لَسَمِعْتُمْ مَا اَسْمَعُ۔)) (مسند احمد: ۲۲۶۴۸)
سیّدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سخت گرمی والے ایک دن میں بقیع الغرقد کی جانب سے گزرے، لوگ آپ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کے جوتوں کی آہٹ سنی تو یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر گراں گزرا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہیں بیٹھ گئے، یہاں تک کہ لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آگے گزر گئے، تاکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دل میں تکبر پیدا نہ ہو (کہ لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں)۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بقیع الغرقد کے پاس سے گزرے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو قبریں دیکھیں، لوگوں نے ان میں دو آدمیوں کو دفن کیا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں رک گئے اور پوچھا: آج تم نے یہاں کن لوگوں کو دفن کیا ہے؟ صحابہ نے بتایا : اے اللہ کے نبی ! یہ فلاں دو آدمی ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کو اس وقت قبروں میں عذاب ہو رہا ہے۔ صحابہ نے پوچھا : اے اللہ کے رسول! انہیں عذاب دیئے جانے کی کیا وجہ ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان میں سے ایک آدمی پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک تر چھڑی لے کر اسے چیرا اور دونوں قبروں پر رکھ دیا۔ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے نبی! آپ نے یہ کام کس لیےکیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کی وجہ سے ان کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! اللہ تعالیٰ ان کو کب تک عذاب دے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ غیب کی بات ہے، جسے اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تمہارے دلوں کی بدلتی کیفیاتیا بہت زیادہ گفتگو نہ ہوتی تو تم بھی وہ کچھ سنتے جو میں سنتا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11193

۔ (۱۱۱۹۳)۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: کَانَ أَصْحَابُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَمْشُوْنَ اَمَامَہٗاِذَاخَرَجَ،وَیَدَعُوْنَ ظَہْرَہُ لِلْمَلَائِکَۃِ۔ (مسند احمد: ۱۴۲۸۵)
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی طرف جانے کے لیے نکلتے تو صحابہ کرام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آگے آگے چلتے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پشت کو فرشتوں کے لیے چھوڑ دیتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11194

۔ (۱۱۱۹۴)۔ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ: قِیْلَ لِعَائِشَۃَ: مَا کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَصْنَعُ فِیْ بَیْتِہِ؟ قَالَتْ: کَمَا یَصْنَعُ أَحَدُکُمْ یَخْصِفُ نَعْلَہٗ وَیَرْقَعُ ثَوْبَہٗ۔ (مسنداحمد: ۲۵۲۵۶)
عروہ بن زبیر سے مروی ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے دریافت کیا گیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھر آکر کس قسم کے کام کیا کرتے تھے؟ (یعنی گھر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مصروفیت کیا ہوتی تھی؟) انھوں نے کہا: (آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب گھر آتے تو ایسے ہی کام کیا کرتے تھے) جیسے تم کرتے ہو، مثلا اپنے جوتے کی مرمت کر لیتے اور کپڑا سی لیتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11195

۔ (۱۱۱۹۵)۔ (وَعَنْہٗمِنْطَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ عَائِشَۃَ، ھَلْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَعْمَلُ فِیْ بَیْتِہِ شَیْئًا؟ قَالَتْ: نَعَمْ کَانَ یَخْصِفُ نَعْلَہٗوَیَخِیْطُ ثَوْبَہٗوَیَعْمَلُ فِیْ بَیْتِہِ کَمَا یَعْمَلُ أَحَدُکُمْ فِیْ بَیْتِہِ۔ (مسند احمد: ۲۵۸۵۵)
۔(دوسری سند) عروہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے دریافت کیا کہ آیا اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھر میں کوئی کام کیا کرتے تھے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے جوتے کو مرمت کر لیتے، کپڑے کو سلائی کر لیتے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے گھر میں اسی طرح کام کرتے تھے، جیسے تم میںسے کوئی اپنے گھر میں کام کاج کرتا ہوتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11196

۔ (۱۱۱۹۶)۔ عَنِ الْقَاسِمِ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَ: سُئِلَتْ مَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَعْمَلُ فِیْ بَیْتِہِ؟ قَالَتْ: کَانَ بَشَرًا مِنَ الْبَشَرِ، یَفْلِیْ ثَوْبَہٗ،وَیَحْلُبُ شَاتَہٗ،وَیَخْدُمُ نَفْسَہٗ۔ (مسنداحمد: ۲۶۷۲۴)
قاسم سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے دریافت کیا گیا کہ گھر میں اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کیا مصروفیت ہوتی تھی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آپ بھی بشر ہی تھے، اس لیے (عام دوسرے انسانوں کی طرح) اپنے کپڑوں کو ٹٹول ٹٹول کر ان میں جوئیں دیکھتے، بکری کا دودھ دوہ لیتے اور اپنے کام کر لیتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11197

۔ (۱۱۱۹۷)۔ عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ یَہُودِیًّا دَعَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی خُبْزِ شَعِیرٍ وَإِہَالَۃٍ سَنِخَۃٍ فَأَجَابَہُ، وَقَدْ قَالَ أَبَانُ: أَیْضًا أَنَّ خَیَّاطًا۔ (مسند احمد: ۱۳۸۹۶)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایکیہودی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جو کی روٹی اور بو دار سالن کی دعوت دی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی دعوت قبول فرمائی۔ راوی حدیث ابان نے ایک دفعہ یوں ذکر کیا کہ دعوت دینے والا شخص درزی تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11198

۔ (۱۱۱۹۸)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اَبِیْ أَوْفٰی قَالَ: قَدِمَ مُعَاذٌ الْیَمَنَ اَوْ قَالَ: الشَّامَ، فَرَأَی النَّصَارٰی تَسْجُدُ لِبَطَارِقَتِہَا وَأَسَاقِفَتِہَا فَرَوَّأَ (أَیْ فَکَّرَ) فِیْ نَفْسِہِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَحَقُّ أَنْ یُعَظَّمَ، فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! رَاَیْتُ النَّصَارٰی تَسْجُدُ لِبَطَارِقَتِہَا وَاَسَاقِفَتِہَا فَرَوَّأْتُ فِیْ نَفْسِیْ أَنَّکَ أَحَقُّ أَنْ تُعَظَّمَ، فَقَالَ: ((لَوْ کُنْتُ آمُرَ أَحَدًا أَنْ یَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَۃَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِہَا، وَلَا تُؤَدِّی الْمَرْأَۃُ حَقَّ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ عَلَیْہَا کُلَّہُ حَتّٰی تُؤَدِّیَ حَقَّ زَوْجِہَا عَلَیْہَا کُلَّہُ، حَتّٰی لَوْسَأَلَھَا نَفْسَہَا وَھِیَ عَلٰی ظَہْرِ قَتَبٍ لَاَعْطَتْہُ اِیَّاہُ۔)) (مسند احمد: ۱۹۶۲۳)
سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یمنیا شام میں آئے اور عیسائیوں کو دیکھا کہ وہ اپنے لیڈروں اور پادریوں کو سجدہ کرتے ہیں، انھوں نے اپنے دل میں سوچا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس تعظیم کے زیادہ مستحق ہیں، پھر جب وہ واپس آئے تو انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے عیسائیوں کو دیکھا ہے کہ وہ اپنے لیڈروں اور پادریوں کو سجدہ کرتے ہیں اور مجھے اپنے دل میں خیال آیا کہ کہ آپ اس تعظیم کے زیادہ مستحق ہیں؟ لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر میں نے کسی کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دینا ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے، بیوی اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا نہیں کر سکتی، جب تک کہ وہ اپنے خاوند کے کما حقہ حقوق ادا نہ کرے، اگر خاوند عورت کو وظیفہ زوجیت کے لئے طلب کرے اور وہ پالان کے اوپر بیٹھی ہو تو اس عورت کو خاوند کا مطالبہ پورا کرنا پڑے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11199

۔ (۱۱۱۹۹)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِی لَیْلٰی، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: إِنَّہُ أَتَی الشَّامَ فَرَأَی النَّصَارٰی، فَذَکَرَ مَعْنَاہُ إِلَّا أَنَّہُ قَالَ: فَقُلْتُ: لِأَیِّ شَیْئٍ تَصْنَعُونَ ہٰذَا؟ قَالُوْا: ہٰذَا کَانَ تَحِیَّۃَ الْأَنْبِیَائِ قَبْلَنَا، فَقُلْتُ: نَحْنُ أَحَقُّ أَنْ نَصْنَعَ ہٰذَا بِنَبِیِّنَا، فَقَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّہُمْ کَذَبُوْا عَلٰی أَنْبِیَائِہِمْ کَمَا حَرَّفُوا کِتَابَہُمْ، إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ أَبْدَلَنَا خَیْرًا مِنْ ذٰلِکَ السَّلَامَ تَحِیَّۃَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۹۶۲۴)
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ وہ ارض شام میں گئے (اس سے آگے گزشتہ حدیث کی طرح ہے) یہ کہتے ہیں میں نے ان سے پوچھا تم اپنے ان پیشوائوں کو سجدے کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے بتلایا کہ ہم سے پہلے انبیاء (کی شریعتوں) میں سلام کا یہی طریقہ تھا۔ تو میں نے کہا (اگر بات یہی ہے) تو ہم اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ ہم اپنے نبی کے ساتھ یہ کام کریں ۔ یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان لوگوں نے جس طرح اپنی مذہبی کتابوں میں تحریف کی، اسی طرح اپنے انبیاء پر جھوٹ باندھے، بے شک اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کے سلام سے بہتر سلام، اہل جنت والا سلام ہمیں دیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11200

۔ (۱۱۲۰۰)۔ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: قُوْمُوْا بِنَا نَسْتَغِیْثُ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ ھٰذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : لَا یُقَامُ اِلَیَّ اِنَّمَا یُقَامُ لِلّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی۔ (مسند احمد: ۲۳۰۸۲)
سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہماری طرف تشریف لائے تو سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ہمارے ساتھ اٹھو تاکہ اس منافق کے بارے میں ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مدد حاصل کریں۔ یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مدد طلب کرنے کے لیے میرا ارادہ نہیں کیا جاتا، اللہ تعالیٰ کا قصد کیا جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11201

۔ (۱۱۲۰۱)۔ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ: قَالَ: جَائَ الطُّفَیْلُ بْنُ عَمْرٍو الدَّوْسِیُّ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: اِنَّ دَوْسًا قَدْ عَصَتْ وَأَبَتْ فَادْعُ اللّٰہَ عَلَیْہِمْ فَاسْتَقْبَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْقِبْلَۃَ وَرَفَعَ یَدَیْہِ فَقَالَ النَّاسُ: ھَلَکُوْا فَقَالَ: ((اَللّٰھُمَّ اھْدِ دَوْسًا وَائْتِ بِہِمْ، اَللّٰھُمَّ اھْدِ دَوْسًا وَائْتِ بِہِمْ۔)) (مسند احمد: ۷۳۱۳)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ طفیل بن عمرو دوسی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ قبیلہ دوس اللہ کا نافرمان ہے اور انہوں نے دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان پر بددعا فرمائیں۔ لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا رخ قبلہ کی طرف کر لیا اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا شروع کی، لوگوں نے سوچا کہ اب قبیلۂ دوس تباہ ہو جائے گا (کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان پر بد دعا کرنے لگے ہیں)۔ لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں دعا کی: یا اللہ! دوس قبیلہ کو ہدایت عطا فرما، اور انہیں مطیع بنا کر ہمارے پاس لے آ،یا اللہ! قبیلہ دوس کو ہدایت عطا فرما اور انہیں مطیع بنا کر ہمارے پاس لے آ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11202

۔ (۱۱۲۰۲)۔ عَنْ بَہْزِ بْنِ حَکَیْمِ بْنِ مُعَاوِیَۃ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ: أَخَذَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَاسًا مِنْ قَوْمِیْ فِی تُہْمَۃٍ فَحَبَسَہُمْ، فجَائَ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِیْ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ یَخْطُبُ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! عَلَامَ تَحْبِسُ جِیْرَتِی؟ فَصَمَتَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْہُ، فَقَالَ: إِنَّ نَاسًا لَیَقُوْلُوْنَ: إِنَّکَ تَنْہٰی عَنِ الشَّرِّ وَتَسْتَخْلِی بِہِ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا یَقُوْلُ؟)) قَالَ: فَجَعَلْتُ أُعَرِّضُ بَیْنَہُمَا بِالْکَلَامِ مَخَافَۃَ أَنْ یَسْمَعَہَا، فَیَدْعُوَ عَلٰی قَوْمِیْ دَعْوَۃً لَا یُفْلِحُوْنَ بَعْدَھَا أَبَدًا، فَلَمْ یَزَلِ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِہِ حَتّٰی فَہِمَہَا، فَقَالَ: قَدْ قَالُوْھَا أَوْ قَائِلُہَا مِنْہُمْ؟ وَاللّٰہِ! لَوْ فَعَلْتُ لَکَانَ عَلَیَّ وَمَا کَانَ عَلَیْہِمْ، خَلُّوْا لَہُ عَنْ جِیْرَانِہِ۔ (مسند احمد: ۲۰۲۶۸)
سیدنا معاویہ بن حیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہماری قوم کے کچھ لوگ تہمت کے جرم میں پکڑ کر قید کر دئیے، پھر ہماری قوم کا ایک آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، اس نے کہا: اے محمد! آپ نے میرے پڑوسیوں کو قید کیوں کر رکھا ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے خاموشی اختیار کی، وہ پھر کہنے لگا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ شر سے منع کرتے ہیں، جبکہ آپ تو شرّ پھیلا رہے ہیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کیا کہتا ہے؟ سیدنا معاویہ کہتے ہیں :میں نے دونوں کے درمیان بات کو واضح نہ ہونے دیا، ڈر یہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی بات سن لیں اورمیری قوم پر بددعا کر دیں، پھر میری قوم کبھی بھی فلاں نہیں پا سکے گی، لیکن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے ساتھ لگے رہے، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کوسمجھ گئے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا واقعی ان لوگوں نے یہ تہمت والی بات کہی ہے، اللہ کی قسم! اگر میں وہ کام کر دوں، جس سے میں نے منع کیا ہے، تو اس کا بوجھ مجھ پر ہو گا، تم اس کے پڑوسیوں کو چھوڑ دو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11203

۔ (۱۱۲۰۳)۔ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْرَائِیلَ، قَالَ: سَمِعْتُ جَعْدَۃَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرَأَی رَجُلًا سَمِینًا، فَجَعَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُومِئُ إِلَی بَطْنِہِ بِیَدِہِ وَیَقُولُ: ((لَوْ کَانَ ہٰذَا فِی غَیْرِ ہٰذَا الْمَکَانِ لَکَانَ خَیْرًا لَکَ)) قَالَ: وَأُتِیَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِرَجُلٍ، فَقَالُوْا: ہٰذَا أَرَادَ أَنْ یَقْتُلَکَ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَمْ تُرَعْ لَمْ تُرَعْ وَلَوْ أَرَدْتَ ذٰلِکَ لَمْ یُسَلِّطْکَ اللّٰہُ عَلَیَّ۔)) (مسند احمد: ۱۵۹۶۲)
سیدنا جعدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک موٹے آدمی کو دیکھا تو آپ اپنے ہاتھ سے اس کے بطن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ موٹاپا پیٹ کی بجائے کسی دوسرے حصہ میں ہوتا تو تمہارے لیے بہتر ہوتا۔ جعدہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلایا گیا کہ اس آدمی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: ڈرو نہیں، خوف زدہ مت ہو، اگر تم نے مجھے قتل کرنے کا پرورگرام بنایا تھا،تو اللہ تعالیٰ نے تجھے مجھ پر مسلط نہیں کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11204

۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11205

۔ (۱۱۲۰۵)۔ حَدَّثَنِی سِنَانُ بْنُ أَبِی سِنَانٍ الدُّؤَلِیُّ وَأَبُو سَلَمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیَّ، وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَخْبَرَ أَنَّہُ غَزَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَزْوَۃً قِبَلَ نَجْدٍ، فَلَمَّا قَفَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَفَلَ مَعَہُمْ، فَأَدْرَکَتْہُمْ الْقَائِلَۃُیَوْمًا فِی وَادٍ کَثِیرِ الْعِضَاہِ، فَنَزَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَتَفَرَّقَ النَّاسُ فِی الْعِضَاہِ یَسْتَظِلُّونَ بِالشَّجَرِ، وَنَزَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَسْتَظِلُّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ، فَعَلَّقَ بِہَا سَیْفَہُ قَالَ جَابِرٌ: فَنِمْنَا بِہَا نَوْمَۃً، ثُمَّ إِنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدْعُونَا فَأَتَیْنَاہُ فَإِذَا عِنْدَہُ أَعْرَابِیٌّ جَالِسٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ ہٰذَا اخْتَرَطَ سَیْفَہُ وَأَنَا نَائِمٌ فَاسْتَیْقَظْتُ وَہُوَ فِییَدِہِ صَلْتًا، فَقَالَ: مَنْ یَمْنَعُکَ مِنِّی؟ فَقُلْتُ: اللَّہُ، فَقَالَ: مَنْ یَمْنَعُکَ مِنِّی؟ فَقُلْتُ: اللّٰہُ۔)) فَشَامَ السَّیْفَ وَجَلَسَ فَلَمْ یُعَاقِبْہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَدْ فَعَلَ ذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۱۴۳۸۷)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں نجد کی جانب ایک غزوہ کیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غزوہ سے واپس ہوئے تو سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی لوگوں کے ساتھ واپس آئے، واپسی پر دوران سفر قافلہ ایک ایسی وادی میں ٹھہرا جہاں خاردار درخت بکثرت تھے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک جگہ نزول فرما ہوئے اور لوگ خاردار درختوں کے نیچے سائے کی تلاش میں ادھر ادھر بکھر گئے، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی ایک درخت کے نیچے سائے میں ٹھہرے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی تلوار درخت کے ساتھ لٹکا دی۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم اپنی اپنی جگہ جا کر سو گئے، اتنے میں ہم نے سنا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں پکار رہے تھے، ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریبآئے تو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ایک بدو بیٹھا ہوا ہے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا، اس نے آکر میری تلوار سونت لی، میں بیدارہوا تو تلوار اس کے ہاتھ میں لہرا رہی تھی،یہ کہنے لگا کہ تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ تو میں نے کہا، مجھے تیرے شرسے اللہ بچائے گا، اس نے پھر کہا کہ تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے کہاکہ اللہ تعالی۔ اس نے تلوار کو واپس نیام میں رکھ دیا اور بیٹھ گیا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے کچھ نہ کہا حالانکہ وہ اتنا بڑا کام کر چکا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11206

۔ (۱۱۲۰۶)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: لَمْ یَکُنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاحِشًا، وَلَا مُتَفَحِّشًا، وَلَا صَخَّابًا فِی الْأَسْوَاقِ، وَلَا یَجْزِیْ بِالسَّیِّئَۃِ مِثْلَہَا، وَلٰکِنْ یَعْفُوْ وَیَصْفَحُ۔ (مسند احمد: ۲۵۹۳۱)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عادۃًیا تکلفاً بد کلام نہ تھے، نہ ہی بازاروں میں بلند آواز سے باتیں کرتے تھی، نہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے، لیکن معاف فرما دیتے اور در گزر فرما دیتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11207

۔ (۱۱۲۰۷)۔ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَشَدَّ حَیَائً مِنَ الْعَذْرَائِ فِیْ خِدْرِھَا، وَکَانَ إِذَا کَرِہَ شَیْئًا عَرَفْنَاہٗفِیْ وَجْہِہ۔ (مسند احمد: ۱۱۸۸۴)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے اور جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کوئی بات نا پسند ہوتی تو اسے ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرہ انور سے پہچان لیتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11208

۔ (۱۱۲۰۸)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَتْرُکُ الْعَمَلَ وَھُوَ یُحِبُّ أَنْ یَعْمَلَہٗ کَرَاھِیَۃَ أَنْ یَسْتَنَّ النَّاسُ بِہِ فَیُفْرَضَ عَلَیْہِمْ، فَکَانَ یُحِبُّ مَا خُفِّفَ عَلَیْہِمْ مِنَ الْفَرَائِضِ۔ (مسند احمد: ۲۴۵۵۷)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ بعض کام ایسے ہوتے تھے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس پر دائمی عمل کرنا چاہتے تو تھے، لیکن محض اس لیے اسے ترک کر دیتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ لوگ اس پر عمل کرنے لگیں اور اللہ کی طرف سے اسے ان پر فرض ہی کر دیا جائے، اللہ کے فرائض میں سے لوگوں پر جو تخفیف کر دی جاتی تھی، وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پسند تھی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11209

۔ (۱۱۲۰۹)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَادِمًا لَہُ قَطُّ، وَلَا امْرَأَۃً لَہُ قَطُّ، وَلَا ضَرَبَ بِیَدِہِ إِلَّا أَنْ یُجَاہِدَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، وَمَا نِیلَ مِنْہُ شَیْئٌ فَانْتَقَمَہُ مِنْ صَاحِبِہِ إِلَّا أَنْ تُنْتَہَکَ مَحَارِمُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فَیَنْتَقِمُ لِلَّہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَا عُرِضَ عَلَیْہِ أَمْرَانِ أَحَدُہُمَا أَیْسَرُ مِنَ الْآخَرِ إِلَّا أَخَذَ بِأَیْسَرِہِمَا إِلَّا أَنْ یَکُونَ مَأْثَمًا، فَإِنْ کَانَ مَأْثَمًا کَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْہُ۔ (مسند احمد: ۲۴۵۳۵)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے کسی خادم یا اہلیہ کو کبھی نہیں مارا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جہاد کے علاوہ کبھی بھی کسی کو اپنے ہاتھ سے ضرب نہیں لگائی اور اگر کسی نے کبھی آپ سے کوئی بد سلوکی کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کبھی اس کا بدلہ نہیں لیا، الایہ کہ اللہ تعالیٰ کی حدود کی پامالی ہوتی ہو اور جب بھی آپ کو دو سے کسی ایک بات کو منتخب کرنے کی پیش کش کی جاتی اور ان میں سے ایک صورت دوسری کی نسبت آسان ہوتی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دونوں میں سے اس کا انتخاب کرتے جو زیادہ آسان ہوتی، الایہ کہ کوئی گناہ کی بات ہوتی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کا انتخاب نہ فرماتے، اگر وہ بات گناہ والی ہوتی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس سے سب سے زیادہ دور ہوتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11210

۔ (۱۱۲۱۰)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِیدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: مَا رَأَیْتُ أَحَدًا کَانَ أَرْحَمَ بِالْعِیَالِ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ إِبْرَاہِیمُ مُسْتَرْضَعًا فِی عَوَالِی الْمَدِینَۃِ وَکَانَ یَنْطَلِقُ، وَنَحْنُ مَعَہُ، فَیَدْخُلُ الْبَیْتَ وَإِنَّہُ لَیُدَّخَنُ وَکَانَ ظِئْرُہُ قَیْنًا، فَیَأْخُذُہُ فَیُقَبِّلُہُ ثُمَّ یَرْجِعُ، قَالَ عَمْرٌو: فَلَمَّا تُوُفِّیَ إِبْرَاہِیمُ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ إِبْرَاہِیمَ ابْنِی وَإِنَّہُ مَاتَ فِی الثَّدْیِ، فَإِنَّ لَہُ ظِئْرَیْنِیُکْمِلَانِ رَضَاعَہُ فِی الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۲۱۲۶)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بڑھ کر اپنے اہل و عیال کے حق میں مہربان کسی کو نہیں پایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بیٹے سیدنا ابراہیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مدینہ منورہ کی بالائی بستیوں میں رضاعت کے لیے بھیجے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو دیکھنے کے لیے تشریف لے جاتے، ہم بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ہوتے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے گھر میں داخل ہو جاتے، حالانکہ اس گھر میں دھواں اٹھ رہا ہوتا تھا، کیونکہ ان کا رضاعی والد لوہار تھا، پھر رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا ابراہیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اٹھاتے، اسے بوسے دیتے اور پھر واپس تشریف لے آتے۔ عمرو راوی کہتے ہیں: جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا انتقال ہوا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک ابراہیم میرا بیٹا ہے، چونکہ یہ دودھ پینے کی مدت کے اندر اندر فوت ہوا ہے، اس لیے اس کی جنت میں دور رضاعی مائیں ہوں گی، جو اس کی رضاعت کو پورا کریں گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11211

۔ (۱۱۲۱۱)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: دَخَلَ عُیَیْنَۃُ بْنُ حِصْنٍ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَآہُ یُقَبِّلُ حَسَنًا أَوْ حُسَیْنًا، فَقَالَ لَہُ: لَا تُقَبِّلْہُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! لَقَدْ وُلِدَ لِی عَشَرَۃٌ مَا قَبَّلْتُ أَحَدًا مِنْہُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ مَنْ لَا یَرْحَمُ لَا یُرْحَمُ۔)) (مسند احمد: ۷۱۲۱)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ سیدنا عینیہ بن حصن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں آئے، جب انھوں نے دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بوسہ دے رہے تھے، تو کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اس بچے کو بوسہ نہ دیں، میرے تو دس بچے پیدا ہوئے ہیں، میں نے ان میں سے ایک کو بھیبوسہ نہیں دیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا، اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11212

۔ (۱۱۲۱۲)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جِہَارًا غَیْرَ سِرٍّ یَقُوْلُ: ((إِنَّ آلَ أَبِی فُلَانٍ لَیْسُوْا لِیْ بِأَوْلِیَائ، إِنَّمَا وَلِیِّیَ اللّٰہُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔)) (مسند احمد: ۱۷۹۵۷)
سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مخفی طور پر نہیں، بلکہ برسر عام فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بیشک ابی فلاں کی آل میرے اولیاء نہیںہیں،میرے اولیاء تو اللہ تعالیٰ اور نیک مومن ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11213

۔ (۱۱۲۱۳)۔ عَنْ یَحْیَی بْنِ الْجَزَّارِ قَالَ: دَخَلَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی أُمِّ سَلَمَۃَ، فَقَالُوْا: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ حَدِّثِینَا عَنْ سِرِّ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: کَانَ سِرُّہُ وَعَلَانِیَتُہُ سَوَائً ثُمَّ نَدِمْتُ، فَقُلْتُ: أَفْشَیْتُ سِرَّ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: فَلَمَّا دَخَلَ أَخْبَرَتْہُ فَقَالَ: ((أَحْسَنْتِ۔)) (مسند احمد: ۲۷۱۷۲)
یحییٰ بن جزار کہتے ہیں: کہ کچھ صحابہ کرام نے ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی خدمت میں جا کر عرض کیا: اے ام المؤمنین! آپ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہمیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم راز دارانہ امور کے بارے ارشاد فرمائیں، انہوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ظاہر و باطن ایک جیسا ہے، پھر انہیں اپنی اس بات پر ندامت ہوئی اور انھوں نے کہا: میں نے تو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا رازفاش کر دیا ہے، پھر جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اورمیں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس بات سے آگاہ کیا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے ٹھیک کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11214

۔ (۱۱۲۱۴)۔ حَدَّثَنِی عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ: خَرَجَ إِلَیْنَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمًا فَنَادٰی ثَلَاثَ مِرَارٍ، فَقَالَ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ تَدْرُونَ مَا مَثَلِی وَمَثَلُکُمْ؟)) قَالُوْا: اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: ((إِنَّمَا مَثَلِی وَمَثَلُکُمْ مَثَلُ قَوْمٍ خَافُوْا عَدُوًّا یَأْتِیہِمْ، فَبَعَثُوا رَجُلًا یَتَرَایَا لَہُمْ فَبَیْنَمَا ہُمْ کَذَلِکَ أَبْصَرَ الْعَدُوَّ فَأَقْبَلَ لِیُنْذِرَہُمْ، وَخَشِیَ أَنْ یُدْرِکَہُ الْعَدُوُّ قَبْلَ أَنْ یُنْذِرَ قَوْمَہُ، فَأَہْوٰی بِثَوْبِہِ، أَیُّہَا النَّاسُ أُتِیتُمْ! أَیُّہَا النَّاسُ أُتِیتُمْ!)) ثَلَاثَ مِرَارٍ۔ (مسند احمد: ۲۳۳۳۶)
سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ ایک دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین بار پکار کر فرمایا: لوگو! کیا تم جانتے ہو کہ میری اور تمہاری مثال کیا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری اور تمہاری مثال ان لوگوں کی سی ہے جو اپنے اوپر حملہ آور دشمن سے خائف ہوںتو وہ کسی کو صورت احوال معلوم کرنے کے لیے بھیجیں، ابھی وہ ادھر جاہی رہا ہو کہ دشمن کو دیکھ لے، وہ قوم کو متنبہ کرنے کے لیے واپس لوٹے اور اسے ڈر ہو کہ اس کے قوم کے پاس پہنچنے سے اور خبر دار کرنے سے پہلے ہی دشمن اس کی قوم تک نہ پہنچ جائے، پس وہ اپنا کپڑا لہرا لہرا کر کہے: لوگو! دشمن آگیا، دشمن تمہارے سرپر چڑھ آیا، (سنبھل جاؤ)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11215

۔ (۱۱۲۱۵)۔ عَنْ اَبِی اُمَامَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((عَرَضَ عَلَیَّ رَبِّی عَزَّوَجَلَّ لِیَجْعَلَ لِی بَطْحَائَ مَکَّۃَ ذَھَبًا، فَقُلْتُ: لا یَارَبِّ، اَشْبَعُ یَوْمًا وَاَجُوْعُ یَوْمًا اَوْ نَحْوَ ذٰلِکَ، فَاِذَا جُعْتُ تَضَرَّعْتُ اِلَیْکَ وَذَکَرْتُکَ، وَاِذَا شَبِعْتُ حَمِدْتُکَ وَشَکَرْتُکَ۔)) (مسند احمد: ۲۲۵۴۳)
سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے ربّ نے مجھ پر یہ چیز پیش کی کہ وہ مکہ مکرمہ کی وادیٔ بطحاء کو میرے لیے سونا بنا دے، لیکن میں نے کہا: نہیں، اے میرے ربّ! میں ایک دن سیر ہوں گا اور ایک دن بھوکا رہوں گا، جب میں بھوکا ہوں گا تو تیرے سامنے لاچاری و بے بسی کا اظہار کروں گا اور تجھے یاد کروں گا، اور جب سیر ہوں گا تو سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے ربّ نے مجھ پر یہ چیز پیش کی کہ وہ مکہ مکرمہ کی وادیٔ بطحاء کو میرے لیے سونا بنا دے، لیکن میں نے کہا: نہیں، اے میرے ربّ! میں ایک دن سیر ہوں گا اور ایک دن بھوکا رہوں گا، جب میں بھوکا ہوں گا تو تیرے سامنے لاچاری و بے بسی کا اظہار کروں گا اور تجھے یاد کروں گا، اور جب سیر ہوں گا تو
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11216

۔ (۱۱۲۱۶)۔ عَنْ عَلِیِّ بْنِ رَبَاحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو ابْنَ الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، یَقُوْلُ: لَقَدْ اَصْبَحْتُمْ وَاَمْسَیْتُمْ تَرْغَبُوْنَ فِیْمَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَزْھَدُ فِیْہِ، اَصْبَحْتُمْ تَرْغَبُوْنَ فِی الدُّنْیَا، وَکاَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَزْھَدُ فِیْھَا، وَاللّٰہِ! مَا اَتَتْْ عَلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیْلَۃٌ مِنْ دَھْرِہِ اِلاَّ کَانَ الَّذِیْ عَلَیْہِ اَکْثَرَ مِمَّا لَہُ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ بَعْضُ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : قَدْ رَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَسْتَسْلِفُ۔ وَقاَلَ: غَیْرُیَحْيٰ: وَاللّٰہِ! مَا مَرَّ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثَلَاثَۃٌ مِنَ الدَّھْرِ اِلاَّ وَالَّذِیْ عَلَیْہِ اَکْثْرُ مِنَ الَّذِیْ لَہُ۔ (مسند احمد: ۱۷۹۷۰)
سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم تو صبح و شام ایسی چیزوں کی رغبت کرنے لگ گئے، جن سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بے رغبتی کرتے تھے، تم دنیا میں راغب ہونے لگ گئے ہو، جبکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو اس سے دور رہنے والے تھے، اللہ کی قسم! ہر آنے والی رات کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جو قرض دینا ہوتا تھا، اس کی مقدار اس سے زیادہ ہوتی تھی، جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لینا ہوتا تھا، بعض صحابہ نے کہا: تحقیق ہم نے بھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ قرض لیتے تھے، یحیی کے علاوہ دوسرے راویوں نے کہا: اللہ کی قسم! تین دن نہیں گزرتے تھے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جو قرض دینا ہوتا تھا، اس کی مقدار اس سے زیادہ ہوتی تھی، جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لینا ہوتاتھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11216

۔ (۱۱۲۱۶م)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ۔) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یَزِیْدَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُوْسیٰ قَالَ: سَمِعْتُ اَبِییَقُوْلُ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ یَخْطُبُ النَّاسَ بِمْصَرَ یَقُوْلُ: مَا اَبْعَدَ ھَدْیَکُمْ مِنْ ھَدْیِ نَبِیِّکُمْ! اَمَّا ھُوَ فَکَانَ اَزْھَدَ النَّاسِ فِی الدِّنْیَا وَاَمَّا اَنْتُمْ فَاَرْغَبُ النَّاسِ فِیْھَا۔ (مسند احمد: ۱۷۹۲۵)
۔(دوسری سند) سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مصر میں خطاب کرتے ہوئے کہا: کس چیز نے تمہارے طرزِ حیات کو تمہارے نبی کی سیرت سے دور کر دیا ہے! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو دنیا سے سب سے زیادہ بے رغبتی کرنے والے تھے، لیکن تم اس میں سب سے زیادہ رغبت کرنے والے ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11217

۔ (۱۱۲۱۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْتَفَتَ إِلٰی أُحُدٍ فَقَالَ: ((وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ! مَا یَسُرُّنِی أَنَّ أُحُدًا یُحَوَّلُ لِآلِ مُحَمَّدٍ ذَہَبًا أُنْفِقُہُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، أَمُوتُ یَوْمَ أَمُوتُ أَدَعُ مِنْہُ دِینَارَیْنِ إِلَّا دِینَارَیْنِ أُعِدُّہُمَا لِدَیْنٍ۔)) إِنْ کَانَ فَمَاتَ وَمَا تَرَکَ دِینَارًا وَلَا دِرْہَمًا وَلَا عَبْدًا وَلَا وَلِیدَۃً، وَتَرَکَ دِرْعَہُ مَرْہُونَۃً عِنْدَ یَہُودِیٍّ عَلٰی ثَلَاثِینَ صَاعًا مِنْ شَعِیرٍ، (زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ: أَخَذَھَا رِزْقًا لِعَیَالِہِ)۔ (مسند احمد: ۲۱۰۹)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے احد پہاڑ کی طرف دیکھ کر فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی جان ہے، مجھے یہ بات پسند نہیں کہ احد پہاڑ کو آل محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے سونا بنا دیا جائے اور میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہوں اور جس دن مروں تو میں دو دینار چھوٹ کر مروں،الایہ کہ ادائے قرض کے لیے دو دینار چھوڑ جائوں تو الگ بات ہے۔ پس جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دینار، درہم، غلام یا لونڈی وغیرہ چھوڑ کر نہ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صرف ایک زرہ چھوڑ کر دینا سے رخصت ہوئے، وہ بھی تیس صاع جو کے عوض ایکیہودی کے پاس گروی رکھی ہوئی تھی۔ایک روایت میں ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ جو اہل خانہ کی خوراک کے لیے حاصل کیے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11218

۔ (۱۱۲۱۸)۔ عَنْ مَالِکِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الزَّیَادِیِّیُحَدِّثُ عَنْ أَبِی ذَرٍّ، أَنَّہُ جَائَ یَسْتَأْذِنُ عَلٰی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَأَذِنَ لَہُ وَبِیَدِہِ عَصَاہُ، فَقَالَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: یَا کَعْبُ إِنَّ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ تُوُفِّیَ وَتَرَکَ مَالًا فَمَا تَرٰی فِیہِ؟ فَقَالَ: إِنْ کَانَ یَصِلُ فِیہِ حَقَّ اللّٰہِ فَلَا بَأْسَ عَلَیْہِ، فَرَفَعَ أَبُو ذَرٍّ عَصَاہُ فَضَرَبَ کَعْبًا وَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَا أُحِبُّ لَوْ أَنَّ لِی ہٰذَا الْجَبَلَ ذَہَبًا أُنْفِقُہُ وَیُتَقَبَّلُ مِنِّی أَذَرُ خَلْفِی مِنْہُ سِتَّ أَوَاقٍ۔)) أَنْشُدُکَ اللّٰہَ یَا عُثْمَانُ! أَسَمِعْتَہُ؟ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَالَ: نَعَم۔ (مسند احمد: ۴۵۳)
مالک بن عبداللہ زیادی بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابو ذر عفاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے اور سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں گھر داخل ہونے کی اجازت طلب کی، انھوں نے انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی، ان کے ہاتھ میں ایک لاٹھی تھی، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے کعب! عبدالرحمن کافی مال چھوڑ کر انتقال کر گئے ہیں۔ اس بارے میں آپ کا کیاخیال ہے؟ انہوں نے کہا: اگر وہ اس مال سے اللہ کے حقوق ادا کرتے تھے پھر تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ یہ سن کر سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی لاٹھی اٹھا کر سیدنا کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ماری اور کہا: میں نے سنا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میںتویہ بھی پسند نہیں کرتا کہ یہ احد کا پہاڑ سونے کا ہو اور میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کروں اور میرا وہ صدقہ اللہ کے ہاں مقبول ہو اور میں اپنے لیے اس میں سے صرف چھ اوقیہ سونا باقی چھوڑ جائوں۔ اے عثمان! میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ کے رسول سے یہ حدیث سنی ہے ؟ (یہ بات سیدناابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے تین مرتبہ دہرائی)، بالآخر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی ہاں، میں نے بھییہ حدیث سنی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11219

۔ (۱۱۲۱۹)۔ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ جُبَیْرٍ عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلٍ قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَعُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِیَوْمًا عَلٰی عَائِشَۃَ فَقَالَتْ: لَوْ رَأَیْتُمَا نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ یَوْمٍ فِی مَرَضٍ مَرِضَہُ، قَالَتْ: وَکَانَ لَہُ عِنْدِی سِتَّۃُ دَنَانِیرَ، قَالَ مُوسٰی: أَوْ سَبْعَۃٌ، قَالَتْ: فَأَمَرَنِی نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ أُفَرِّقَہَا، قَالَتْ: فَشَغَلَنِی وَجَعُ نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی عَافَاہُ اللّٰہُ قَالَتْ، ثُمَّ سَأَلَنِی عَنْہَا، فَقَالَ: ((مَا فَعَلَتِ السِّتَّۃُ؟)) قَالَ: أَوْ السَّبْعَۃُ، قُلْتُ: لَا وَاللّٰہِ! لَقَدْ کَانَ شَغَلَنِی وَجَعُکَ، قَالَتْ: فَدَعَا بِہَا ثُمَّ صَفَّہَا فِی کَفِّہِ، فَقَالَ: ((مَا ظَنُّ نَبِیِّ اللّٰہِ لَوْ لَقِیَ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَہٰذِہِ عِنْدَہُ۔)) (مسند احمد: ۲۵۲۴۰)
ابو امامہ بن سہل سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: انہوں نے کہا کہ میں اور عروہ بن زبیر ایک دن سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں گئے، انہوں نے کہا: کاش کہ تم اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مرض الموت کے دوران دیکھتے، میرے پاس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چھ (یا سات) دینار تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں انہیں تقسیم کردوں، آپ کی بیماری نے مجھے مشغول رکھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو افاقہ دیا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے ان کی بابت پوچھا اور فرمایا: ان چھ دینار وں کا کیا بنا؟ میں نے عرض کیا: اللہ کی قسم، میں آپ کی بیماری میں مصروف رہی اور تقسیم نہ کر سکی۔ آپ نے وہ دینار منگوا کر اپنی ہتھیلی پر رکھ کر فرمایا: اللہ کے بنی کا کیا حال ہوگا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں جا ملے کہ یہ دولت اس کی ملکیت ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11220

۔ (۱۱۲۲۰)۔ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: أَکْثَرُ مَا عَلِمْتُ أُتِیَ بِہِ نِبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ الْمَالِ بِخَرِیْطَۃٍ فِیْہَا ثَمَانُمِئَۃِ دِرْھَمٍ۔ (مسند احمد: ۲۷۱۰۸)
سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے،، وہ کہتے ہیں: میرے علم کے مطابق اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس تھیلے میں زیادہ سے زیادہ آٹھ سو درہم لائے گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11221

۔ (۱۱۲۲۱)۔ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ: أَنَّ امْرَأَۃً أَتَتْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِبُرْدَۃٍ مَنْسُوجَۃٍ فِیہَا حَاشِیَتَاہَا، قَالَ سَہْلٌ: وَہَلْ تَدْرُونَ مَا الْبُرْدَۃُ؟ قَالُوْا: نَعَمْ ہِیَ الشَّمْلَۃُ، قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ نَسَجْتُ ہٰذِہِ بِیَدِی فَجِئْتُ بِہَا لِأَکْسُوَکَہَا، فَأَخَذَہَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُحْتَاجًا إِلَیْہَا فَخَرَجَ عَلَیْنَا وَإِنَّہَا لَإِزَارُہُ، فَجَسَّہَا فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ رَجُلٌ سَمَّاہُ فَقَالَ: مَا أَحْسَنَ ہٰذِہِ الْبُرْدَۃَ! اکْسُنِیہَایَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((نَعَمْ۔)) فَلَمَّا دَخَلَ طَوَاہَا وَأَرْسَلَ بِہَا إِلَیْہِ، فَقَالَ لَہُ الْقَوْمُ: وَاللّٰہِ مَا أَحْسَنْتَ کُسِیَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُحْتَاجًا إِلَیْہَا، ثُمَّ سَأَلْتَہُ إِیَّاہَا وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّہُ لَا یَرُدُّ سَائِلًا، فَقَالَ: وَاللّٰہِ! إِنِّی مَا سَأَلْتُہُ لِأَلْبَسَہَا وَلٰکِنْ سَأَلْتُہُ إِیَّاہَا لِتَکُونَ کَفَنِییَوْمَ أَمُوتُ، قَالَ سَہْلٌ: فَکَانَتْ کَفَنَہُ یَوْمَ مَاتَ۔ (مسند احمد: ۲۳۲۱۳)
سیدنا سہل بن سعد ساعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک خاتون رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بُنی ہوئی ایک حاشیہ دار چادر لے کر حاضر ہو ئی۔ پھر سیدنا سہل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا کہ آیا تم جانتے ہو کہ بردۃ کیا ہوتی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، چادر کو کہتے ہیں۔ انھوں نے کہا: جی ٹھیک ہے،اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں اپنے ہاتھ سے یہ چادر بن کر حاضر ہوئی ہوں تاکہ آپ کے پہننے کے لیے اسے آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے پسند کرتے ہوئے قبول فرمایا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے زیب تن کیا اور ہمارے پاس تشریف لائے، سیدنا سہل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک آدمی کا نام لے کر بیان کیا کہ اس نے اس چادر کو ہاتھ لگا کر دیکھا اور کہا: یہ کتنی عمدہ چادر ہے، اے اللہ کے رسول! آپ یہ مجھے دے دیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اندر تشریف لے گئے اور اس چادر کو لپیٹ کر اس کی طرف بھجوا دیا۔ لوگوں نے اس سے کہا: اللہ کی قسم! تم نے یہ اچھا کام نہیں کیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ چادر پہننے کے لیے دی گئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ پسند بھی آئی تھی، لیکن تم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ مانگ لی، جبکہ تم جانتے ہو کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی سائل کو خالی واپس نہیں لوٹاتے۔اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے آپ سے یہ چادر پہننے کے لیے نہیں مانگی، میں نے تو صرف اس لیے مانگی ہے کہ جب میں مروں گا تو یہ چادر میرا کفن ہو گی۔ سیدنا سہل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب وہ فوت ہوا تو وہ چادر اس کا کفن بنائی گئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11222

۔ (۱۱۲۲۲)۔ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّ الرَّجُلَ کَانَ جَعَلَ لَہُ، قَالَ عَفَّانُ: یَجْعَلُ لَہُ مِنْ مَالِہِ النَّخَلَاتِ أَوْ کَمَا شَائَ اللّٰہُ حَتّٰی فُتِحَتْ عَلَیْہِ قُرَیْظَۃُ وَالنَّضِیرُ، قَالَ: فَجَعَلَ یَرُدُّ بَعْدَ ذٰلِکَ، وَإِنَّ أَہْلِی أَمَرُونِی أَنْ آتِیَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَسْأَلَہُ الَّذِی کَانَ أَہْلُہُ أَعْطَوْہُ أَوْ بَعْضَہُ، وَکَانَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ أَعْطَاہُ أُمَّ أَیْمَنَ أَوْ کَمَا شَائَ اللَّہُ، قَالَ: فَسَأَلْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَعْطَانِیہِنَّ، فَجَاء َتْ أُمُّ أَیْمَنَ فَجَعَلَتِ الثَّوْبَ فِی عُنُقِی وَجَعَلَتْ تَقُولُ: کَلَّا وَاللّٰہِ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ لَا یُعْطِیکَہُنَّ وَقَدْ أَعْطَانِیہِنَّ، أَوْ کَمَا قَالَ: فَقَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَکِ کَذَا وَکَذَا۔)) وَتَقُولُ: کَلَّا وَاللّٰہِ! قَالَ: وَیَقُولُ: ((لَکِ کَذَا وَکَذَا)) قَالَ: حَتّٰی أَعْطَاہَا فَحَسِبْتُ أَنَّہُ قَالَ: ((عَشْرَ أَمْثَالِہَا۔)) أَوْ قَالَ: ((قَرِیبًا مِنْ عَشْرَۃِ أَمْثَالِہَا)) أَوْ کَمَا قَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۳۳۲۴)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ کوئی آدمی اپنے باغات میں سے حسب توفیق کھجوروں کے کچھ درخت نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے مخصوص کر دیا کرتا تھا یہاں تک کہ بنو قریظہ اور بنو نصیر پر فتح پا لی گئی، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں کو ان کی طرف سے دی گئی کھجوریں لوٹانے لگے، میرے گھر والوں نے بھی مجھ سے کہا کہ انہوں نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کھجوریں دی ہوئی ہیں، وہ سب یا ان میں سے کچھ واپس مانگوں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہ کھجوریں ام ایمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو یا کسی دوسرے کو دے چکے تھے، میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کھجوروں کا مطالبہ کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے وہ کھجوریں دے دیں۔ سیدہ ام ایمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا میرے پاس آئیں اور انہوں نے میری گردن میں کپڑا ڈال دیا اور بولیں: ہر گز نہیں، ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! اللہ کے نبی وہ کھجوریں مجھے دے چکے ہیں، اب وہ تمہیں نہ دیں گے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں آپ کو اس کے عوض اتنی اتنی کھجوریں دے دیتا ہوں۔ وہ کہنے لگیں: اللہ کی قسم! ہر گز نہیں، آپ فرماتے رہے کہ میں تمہیں مزید اتنی کھجوریں دیتا ہوں۔ یہاں تک کہ آپ نے ان کو وہ دے دیں، معتمر کے والد سلیمان بن طرخان کا بیان ہے کہ میں نے شمار کیا تو سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اصل تعداد سے دس گنا زائد یا اس کے قریب قریب فرمایا ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11223

۔ (۱۱۲۲۳)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: مَا سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَیْئًا قَطُّ فَقَالَ: لَا۔ (مسند احمد: ۱۴۳۴۵)
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کبھی کوئی چیز طلب کی گئی ہو اور آپ نے جواباً نہیں فرمایا ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11224

۔ (۱۱۲۲۴)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِی لَیْلٰی، عَنِ الْمِقْدَادِ قَالَ: أَقْبَلْتُ أَنَا وَصَاحِبَانِ لِی قَدْ ذَہَبَتْ أَسْمَاعُنَا وَأَبْصَارُنَا مِنَ الْجَہْدِ، قَالَ: فَجَعَلْنَا نَعْرِضُ أَنْفُسَنَا عَلٰی أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیْسَ أَحَدٌ یَقْبَلُنَا، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَانْطَلَقَ بِنَا إِلٰی أَہْلِہِ فَإِذَا ثَلَاثُ أَعْنُزٍ، وَفِیْ رِوَایَۃٍ اَرْبَعُ اَعْنُزٍ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((احْتَلِبُوا ہٰذَا اللَّبَنَ بَیْنَنَا)) قَالَ: فَکُنَّا نَحْتَلِبُ فَیَشْرَبُ کُلُّ إِنْسَانٍ نَصِیبَہُ، وَنَرْفَعُ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَصِیبَہُ، فَیَجِیئُ مِنَ اللَّیْلِ فَیُسَلِّمُ تَسْلِیمًا لَا یُوقِظُ نَائِمًا وَیُسْمِعُ الْیَقْظَانَ، ثُمَّ یَأْتِی الْمَسْجِدَ فَیُصَلِّی، ثُمَّ یَأْتِی شَرَابَہُ فَیَشْرَبُہُ، قَالَ: فَأَتَانِی الشَّیْطَانُ ذَاتَ لَیْلَۃٍ، فَقَالَ: مُحَمَّدٌ یَأْتِی الْأَنْصَارَ فَیُتْحِفُونَہُ وَیُصِیبُ عِنْدَہُمْ مَا بِہِ حَاجَۃٌ إِلٰی ہٰذِہِ الْجُرْعَۃِ فَاشْرَبْہَا، قَالَ: مَا زَالَ یُزَیِّنُ لِی حَتّٰی شَرِبْتُہَا، فَلَمَّا وَغَلَتْ فِی بَطْنِی وَعَرَفَ أَنَّہُ لَیْسَ إِلَیْہَا سَبِیلٌ، قَالَ: نَدَّمَنِی، فَقَالَ: وَیْحَکَ مَا صَنَعْتَ شَرِبْتَ شَرَابَ مُحَمَّدٍ فَیَجِیئُ وَلَا یَرَاہُ فَیَدْعُو عَلَیْکَ فَتَہْلِکَ فَتَذْہَبُ دُنْیَاکَ وَآخِرَتُکَ، قَالَ: وَعَلَیَّ شَمْلَۃٌ مِنْ صُوفٍ کُلَّمَا رَفَعْتُہَا عَلٰی رَأْسِی خَرَجَتْ قَدَمَایَ وَإِذَا أَرْسَلْتُ عَلٰی قَدَمَیَّ خَرَجَ رَأْسِی وَجَعَلَ لَایَجِیئُ لِی نَوْمٌ، قَالَ: وَأَمَّا صَاحِبَایَ فَنَامَا، فَجَائَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَلَّمَ کَمَا کَانَ یُسَلِّمُ، ثُمَّ أَتَی الْمَسْجِدَ فَصَلّٰی فَأَتٰی شَرَابَہُ فَکَشَفَ عَنْہُ فَلَمْ یَجِدْ فِیہِ شَیْئًا فَرَفَعَ رَأْسَہُ إِلَی السَّمَائِ، قَالَ: قُلْتُ: الْآنَ یَدْعُو عَلَیَّ فَأَہْلِکُ، فَقَالَ: ((اَللّّٰہُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِی وَاسْقِ مَنْ سَقَانِی)) قَالَ: فَعَمَدْتُ إِلَی الشَّمْلَۃِ فَشَدَدْتُہَا عَلیَّ فَأَخَذْتُ الشَّفْرَۃَ فَانْطَلَقْتُ إِلَی الْأَعْنُزِ أَجُسُّہُنَّ أَیُّہُنَّ أَسْمَنُ فَأَذْبَحُ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِذَا ہُنَّ حُفَّلٌ کُلُّہُنَّ فَعَمَدْتُ إِلٰی إِنَائٍ لِآلِ مُحَمَّدٍ، مَا کَانُوا یَطْمَعُونَ أَنْ یَحْلِبُوا فِیہِ، وَقَالَ أَبُو النَّضْرِ مَرَّۃً أُخْرٰی: أَنْ یَحْتَلِبُوا فِیہِ، فَحَلَبْتُ فِیہِ حَتّٰی عَلَتْہُ الرَّغْوَۃُ، ثُمَّ جِئْتُ بِہِ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((أَمَا شَرِبْتُمْ شَرَابَکُمُ اللَّیْلَۃَیَا مِقْدَادُ؟)) قَالَ: قُلْتُ اشْرَبْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَنِی، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ اشْرَبْ فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَنِی، فَأَخَذْتُ مَا بَقِیَ فَشَرِبْتُ، فَلَمَّا عَرَفْتُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ رَوِیَ فَأَصَابَتْنِی دَعْوَتُہُ ضَحِکْتُ حَتّٰی أُلْقِیتُ إِلَی الْأَرْضِ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِحْدٰی سَوْآتِکَ یَا مِقْدَادُ! قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ کَانَ مِنْ أَمْرِی کَذَا صَنَعْتُ کَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا کَانَتْ ہٰذِہِ إِلَّا رَحْمَۃً مِنَ اللّٰہِ، أَلَا کُنْتَ آذَنْتَنِی نُوقِظُ صَاحِبَیْکَ ہٰذَیْنِ فَیُصِیبَانِ مِنْہَا؟)) قَالَ: قُلْتُ: وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا أُبَالِی إِذَا أَصَبْتَہَا وَأَصَبْتُہَا مَعَکَ مَنْ أَصَابَہَا مِنَ النَّاسِ،(وَفِیْ لَفْظٍ: إِذَا أَصَابَتْنِی وَإِیَّاکَ الْبَرَکَۃُ فَمَا أُبَالِی مَنْ أَخْطَأَتْ)۔ (مسند احمد: ۲۴۳۱۳)
سیدنا مقداد بن اسود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اور میرے دو ساتھی اس حال میں آئے کہ بھوک کی شدت کی وجہ سے ہمارے کان اور آنکھیں کام کرنے سے جواب دے چکے تھے (ایک روایت میں ہے کہ ہم شدید بھوک سے دو چار تھے) ہم اپنے آپ کو صحابہ کرام کے سامنے پیش کرنے لگے (تاکہ کوئی ہمیں اپنامہمان بنالے) لیکن کوئی بھی ہمیں بطورِ مہمان لے جانے کے لیے تیار نہ ہوا، ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں چلے گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں اپنے گھر لے گئے، وہاں تین (اور ایک راویت کے مطابق چار) بکریاں موجود تھیں۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ان بکریوں کا دودھ دوہ کر ہمارے درمیان تقسیم کرو۔ پس ہم دودھ دوہتے اور ہر آدمی اپنا حصہ نوش کر لیتا اور ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا حصہ بچا رکھتے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رات کو کسی وقت تشریف لاتے تو اس قدر آواز سے سلام کہتے کہ کسی سوئے ہوئے کو بیدار نہ کرتے اور جاگتا آدمی سن لیتا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی نماز والی جگہ پر تشریف لاتے، نماز ادا فرماتے، پھر آپ دودھ والی جگہ جا کر دودھ نوش فرماتے۔ سیدنا مقداد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ ایک رات شیطان نے میرے دل میں وسوسہ ڈالا کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو انصارکے ساتھ جاتے ہیں، وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تحائف پیش کرتے ہیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ہاں سے کچھ نہ کچھ کھا پی آتے ہیں، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ان چند گھونٹوں کی چنداں حاجت نہیں ہوتی۔میں یہ پی لوں تو اس سے کیا ہو گا؟ وہ بار بار مجھے یہ خیال دلاتا اور اس بات کو میرے لیے خوش نما کرتا رہا، حتی کہ میں وہ دودھ پی گیا۔ جب دودھ میرے پیٹ میں پہنچ گیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ اب اس کے نکلنے کی کوئی بھی صورت نہیں تو شیطان مجھے چھوڑ کر فرار ہو گیا۔ اور کہہ گیا کہ تجھ پر افسوس ہے۔ یہ تو نے کیا کیا؟ تم محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حصے کا دودھ پی گئے، وہ آکر دودھ نہ پائیں گے تو تجھ پر بددعا کریں گے اور تم ہلاک ہو جائو گے، تمہاری تو دنیا بھی تباہ اور آخرت بھی برباد ہو جائے گی، میرے اوپر ایک چھوٹی سی ادنی چادر تھی، میں اسے سر پر ڈالتااتو پائوں ننگے ہو جاتے اور اگر پائوں پر ڈالتا تو سر چادر سے باہر نکل آتا،بس میں اسی کشمکش میں رہا اور مجھے نیند نہ آئی، میرے دونوں ساتھی آرام سے سوئے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اور حسب معمول سلام کہا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز کی جگہ پر نماز ادا کی۔ اس کے بعد آپ دودھ کے پاس گئے۔ ڈھکنا اٹھایا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے برتن میں کچھ نہ پایا۔ آپ نے آسمان کی طرف سر اٹھایا، میں نے سوچا کہ اب آپ مجھ پر بد دعا کریں گے اور میں تباہ و برباد ہو جائوں گا۔ مگر آپ نے فرمایا: اَللّّٰہُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِی وَاسْقِ مَنْ سَقَانِی (یا اللہ! جس نے مجھے کھانا کھلایا تو اسے کھانا عطا فرما اور جس نے مجھے کچھ پلایاتو اسے پلا)۔ سیدنا مقداد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ میں نے چادر کھینچ کر اپنے اوپر کس لی اور چھری سنبھالی اور میں بکریوں کو ٹٹولنے لگا کہ دیکھوں ان میں سے کونسی بکری زیادہ موٹی تازی ہے کہ تاکہ اسے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے ذبح کروں۔ میں نے دیکھا تو ان سب کے تھن دودھ سے لبریز تھے، میں نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خانوادہ کے ایک ایسے برتن کا قصد کیا، جس میں دودھ دوھنے کی انہیں امید نہ تھی۔1 میں نے اس میں دودھ دوہایہاں تک کہ اس پر جھاگ آگئی، پھر میں وہ دودھ لے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: مقداد! کیا آج رات آپ لوگوں نے دودھ نوش نہیں کیا؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نوش فرمائیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دودھ پیا ! یعنی اتنا زیادہ دودھ نہیں ہوتا تھا کہ ان کو امید ہو کہ اس برتن میں بھی دودھ ڈالنے کی ضرورت محسوس ہو گی گویا وہ دودھ والا برتن زائد پڑا رہتا تھا۔ (عبداللہ رفیق) اور پھر مجھے عنایت فرمایا۔ میں نے پھر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ مزید پئیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نوش فرما کر برتن مجھے تھما دیا، اس کے بعد جو بچاوہ میں نے پیا، جب مجھے یقین ہوا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خوب سیر ہو چکے ہیں اور میں آپ کی دعا کا حق دار بن چکا ہوں۔ میں اس قدر ہنسا کہ ہنستے ہنستے زمین پر لیٹ گیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مقداد! یہ تمہاری ایک نا مناسب حرکت ہے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ساتھ تو آج یہ معاملہ پیش آیا اور میں یہ کام کر بیٹھا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اللہ کی رحمت تھی (اور دوسری روایت کے لفظ ہیں: یہ آسمان سے نازل شدہ برکت تھی) تم نے پہلے مجھے کیوں نہ بتلایا، ہم تمہارے ان دونوں ساتھیوں کو بھی بیدار کر لیتے اور وہ بھی اس سے فیضیاب ہو جاتے۔ مقداد کہتے ہیں:میں نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے!جب آپ اور آپ کا ساتھ میںاس برکت کو حاصل کر چکا ہوں تو اب مجھے اس بات کی کچھ پرواہ نہیں کہ کسی اور کو ملی ہے یا نہیں۔ ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ جب آپ کو اور مجھے یہ برکت نصیب ہو چکی ہے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ کون اس سے محروم رہا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11225

۔ (۱۱۲۲۵)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ عَنْہٗأَیْضًا) عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ: قَدِمْتُ أَنَا وَصَاحِبَانِ لِی عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَصَابَنَا جُوعٌ شَدِیدٌ، فَتَعَرَّضْنَا لِلنَّاسِ فَلَمْ یُضِفْنَا أَحَدٌ، فَانْطَلَقَ بِنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی مَنْزِلِہِ، وَعِنْدَہُ أَرْبَعُ أَعْنُزٍ، فَقَالَ: ((لِییَا مِقْدَادُ جَزِّئْ أَلْبَانَہَا بَیْنَنَا أَرْبَاعًا۔))، فَکُنْتُ أُجَزِّئُہُ بَیْنَنَا أَرْبَاعًا فَاحْتَبَسَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ لَیْلَۃٍ فَحَدَّثْتُ نَفْسِی أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ أَتٰی بَعْضَ الْأَنْصَارِ، فَأَکَلَ حَتّٰی شَبِعَ وَشَرِبَ حَتّٰی رَوِیَ، فَلَوْ شَرِبْتُ نَصِیْبَہٗ، فَذَکَرَ نَحْوَ الْحَدِیْثِالْمُتَقَدِّمِ۔ (مسند احمد: ۲۴۳۱۱)
۔(دوسری سند) سیدنا مقداد بن اسود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اور میرے ساتھ دو دوست، ہم سب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں پہنچے، ہمیں شدید بھوک لگی ہوئی تھی، ہم لوگوں کے سامنے گئے مگر کسی نے ہماری مہمانی نہ کی، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں اپنے گھر لے گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس چار بکریاں تھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: مقداد! تم ان بکریوں کا دودھ ہمارے درمیان چار حصوں میں تقسیم کرو۔ پس میں اس دودھ کو ان چاروں کے درمیان تقسیم کرتا تھا۔ ایک رات اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کہیں مصروف ہوگئے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی انصاری کے گھر تشریف لے گئے ہوں گے، آپ نے ان کے ہاں سیر ہو کر کھا پی لیا ہوگا، اگر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حصے کا دودھ پی لوں تو کچھ نہیں ہوگا۔ اس سے آگے گزشتہ حدیث کی مانندہی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11226

۔ (۱۱۲۲۶)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَالِثٍ) عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ: لَمَّا نَزَلْنَا الْمَدِینَۃَ عَشَّرَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَشَرَۃً عَشَرَۃًیَعْنِی فِی کُلِّ بَیْتٍ، قَالَ: فَکُنْتُ فِی الْعَشَرَۃِ الَّتِی کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیہِمْ، قَالَ: وَلَمْ یَکُنْ لَنَا إِلَّا شَاۃٌ نَتَحَرّٰی لَبَنَہَا، قَالَ: فَکُنَّا إِذَا أَبْطَأَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَرِبْنَا وَبَقَّیْنَا لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَصِیبَہُ، فَلَمَّا کَانَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ أَبْطَأَ عَلَیْنَا، فَذَکَرَ نَحْوَہٗوَفِیْہِ: قَالَ(یَعْنِی الْمِقْدَادَ): وَثَبْتُ وَأَخَذْتُ السِّکِّینَ وَقُمْتُ إِلَی الشَّاۃِ قَالَ (یَعْنِی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ): ((مَا لَکَ؟)) قُلْتُ: أَذْبَحُ؟ قَالَ: ((لَا ائْتِنِی بِالشَّاۃِ)) فَأَتَیْتُہُ بِہَا فَمَسَحَ ضَرْعَہَا فَخَرَجَ شَیْئًا ثُمَّ شَرِبَ وَنَامَ۔ (مسند احمد: ۲۴۳۱۹)
۔(تیسری سند) سیدنا مقداد بن اسود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب ہم مدینہ منورہ آئے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم میں سے دس دس آدمیوں کو ایک ایک گھرانے کا مہمان بنا دیا، میں ان دس آدمیوں کے گروہ میں تھا، جس میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی تھے، ہمارے پاس صرف ایک بکری تھی، ہم اسی کے دودھ کے منتظر رہتے تھے، اگر اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیر ہو جاتی تو ہم دودھ پی لیتے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے ان کا حصہ رکھ دیتے۔ ایک رات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا فی دیر تک تشریف نہ لائے۔ (اس کے بعد حدیث، گزشتہ حدیث کی مانند ہے، البتہ اس طریق میں ہے:) سیدنا مقداد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے چھری لی اور بکری کی طرف چلا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا: میں اسے ذبح کرتا ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، تم اسے ذبح نہ کرو، اسے میرے پاس لائو۔ میں اس کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لے آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے تھنوں کو ہاتھ لگایا، پھر اس سے کچھ دودھ نکالا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہ دودھ پی کر سو گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11227

۔ (۱۱۲۲۷)۔ عَنْ عَاصِمِ بْنِ لَقِیطِ بْنِ صَبِرَۃَ، عَنْ أَبِیہِ وَافِدِ بَنِی الْمُنْتَفِقِ قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا وَصَاحِبٌ لِی، حَتَّی انْتَہَیْنَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمْ نَجِدْہُ فَأَطْعَمَتْنَا عَائِشَۃُ تَمْرًا وَعَصَدَتْ لَنَا عَصِیدَۃً، إِذْ جَائَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَتَقَلَّعُ، فَقَالَ: ((ہَلْ أُطْعِمْتُمْ مِنْ شَیْئٍ؟)) قُلْنَا: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ، فَبَیْنَا نَحْنُ کَذٰلِکَ دَفَعَ رَاعِی الْغَنَمِ فِی الْمُرَاحِ عَلٰییَدِہِ سَخْلَۃٌ، قَالَ: ((ہَلْ وَلَدَتْ۔)) قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ((فَاذْبَحْ لَنَا شَاۃً۔)) ثُمَّ أَقْبِلْ عَلَیْنَا فَقَالَ: ((لَا تَحْسَبَنَّ وَلَمْ یَقُلْ لَا یَحْسَبَنَّ إِنَّا ذَبَحْنَا الشَّاۃَ مِنْ أَجْلِکُمَا، لَنَا غَنَمٌ مِائَۃٌ لَا نُرِیدُ أَنْ تَزِیدَ عَلَیْہَا فَإِذَا وَلَّدَ الرَّاعِی بَہْمَۃً أَمَرْنَاہُ بِذَبْحِ شَاۃٍ۔)) فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ أَخْبِرْنِی عَنِ الْوُضُوئِ؟ قَالَ: ((إِذَا تَوَضَّأْتَ فَأَسْبِغْ وَخَلِّلِ الْأَصَابِعَ وَإِذَا اسْتَنْثَرْتَ فَأَبْلِغْ إِلَّا أَنْ تَکُونَ صَائِمًا)) قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ، إِنَّ لِی امْرَأَۃً فَذَکَرَ مِنْ طُولِ لِسَانِہَا وَإِیذَائِہَا، فَقَالَ: ((طَلِّقْہَا)) قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ، إِنَّہَا ذَاتُ صُحْبَۃٍ وَوَلَدٍ، قَالَ: ((فَأَمْسِکْہَا وَأْمُرْہَا فَإِنْ یَکُ فِیہَا خَیْرٌ فَسَتَفْعَلْ، وَلَا تَضْرِبْ ظَعِینَتَکَ ضَرْبَکَ أَمَتَکَ۔)) (مسند احمد: ۱۶۴۹۷)
سیدنا لقیط بن صبرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ،جو کہ بنومنتفق کے وفد میں شامل تھے، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں اور میرا ایک دوست اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گئے، لیکن ہماری آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملاقات نہ ہو سکی۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ہمیں کھجوریں کھلائیں اور آٹے اور گھی کا حلوہ بھی پیش کیا، اتنے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی جواں مردوں کی طرح چلتے تشریف لے آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آتے ہی دریافت فرمایا کہ کیاآپ لوگوں نے کچھ کھایا پیا بھی ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جی ہاں ہم وہیں بیٹھے تھے کہ بکریوں کا چرواہا باڑے میں اپنے ہاتھ پر بکری کا بچہ لیے کھڑا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: کیا بکری نے بچہ جنم دیا ہے؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تو اب تم ہمارے لیے ایک بکری ذبح کرو، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: آپ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ہم آپ کی خاطر بکری ذبح کر رہے ہیں، ہمارے پاس ایک سو بکریاں ہیں، ہم اس سے زیادہ نہیں چاہتے، جب بھی بکریوں میں سے کوئی بکری بچہ جنتی ہے تو ہم اس چرواہے کو ایک بکری ذبح کرنے کا حکم دے دیتے ہیں۔ سیدنا صبرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں وضوء کے مسائل سے آگاہ فرمائیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم وضو کرو تو تمام اعضاء کو اچھی طرح دھوئو، انگلیوں کا خلال کیا کرو اور جب ناک میں پانی چڑھائو تو خوب مبالغہ کیا کرو، الایہ کو تم روزے کی حالت میں ہو (یعنی روزے کی حالت میں وضو کرتے وقت ناک میں پانی چڑھانے میں زیادہ مبالغہ نہ کرو)۔ انہوں نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! میری ایکبیوی بڑی بدزبان ہے اور مجھے ایذاء پہنچاتی رہتی ہے۔ (میں کیا کروں؟) وہ ایک عرصہ سے میرے ساتھ رہ رہی ہے اور بچوں کی ماں بھی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر اسے قابو رکھو اور اسے سمجھاتے رہو، اگر اس میں کچھ خیر ہوئی تو سمجھ جائے گی اور اگر اسے مارنا پڑ جائے تو اس طرح نہ مارنا جیسے لونڈیوں کو مارتے ہیں ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11228

۔ (۱۱۲۲۸)۔ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَیَّۃَ قَالَ: أَعْطَانِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یَوْمَ حُنَیْنٍ، وَإِنَّہٗلَأَبْغَضُالنَّاسِإِلَیَّ، فَمَا زَالَ یُعْطِِنِیْ حَتّٰی صَارَ وَإِنَّہٗأَحَبُّالنَّاسِإِلَیَّ۔ (مسند احمد: ۱۵۳۷۸)
سیدنا صفوان بن امیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ مجھے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بہت زیادہ بغض تھا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غزوۂ حنین کے دن مجھے اس قدر دیا اور عنایت فرماتے گئے یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہو گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11229

۔ (۱۱۲۲۹)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، یَقُولُ: کُنْتُ فِی ظِلِّ دَارِی فَمَرَّ بِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّا رَأَیْتُہُ وَثَبْتُ إِلَیْہِ فَجَعَلْتُ أَمْشِی خَلْفَہُ، فَقَالَ: ((ادْنُ فَدَنَوْتُ مِنْہُ)) فَأَخَذَ بِیَدِی فَانْطَلَقْنَا حَتّٰی أَتٰی بَعْضَ حُجَرِ نِسَائِہِ أُمِّ سَلَمَۃَ أَوْ زَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَدَخَلَ ثُمَّ أَذِنَ لِی فَدَخَلْتُ وَعَلَیْہَا الْحِجَابُ، فَقَالَ: ((أَعِنْدَکُمْ غَدَائٌ؟)) فَقَالُوْا: نَعَمْ، فَأُتِیَ بِثَلَاثَۃِ أَقْرِصَۃٍ فَوُضِعَتْ عَلٰی نَقِیٍّ، فَقَالَ: ((ہَلْ عِنْدَکُمْ مِنْ أُدُمٍ؟)) فَقَالُوْا: لَا إِلَّا شَیْئٌ مِنْ خَلٍّ، قَالَ: ((ہَاتُوہُ۔)) فَأَتَوْہُ بِہِ فَأَخَذَ قُرْصًا فَوَضَعَہُ بَیْنَیَدَیْہِ، وَقُرْصًا بَیْنَیَدَیَّ، وَکَسَرَ الثَّالِثَ بِاثْنَیْنِ، فَوَضَعَ نِصْفًا بَیْنَیَدَیْہِ وَنِصْفًا بَیْنَیَدَیَّ۔ (مسند احمد: ۱۵۱۲۴)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اپنے گھر کے سائے میں بیٹھا تھا، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس سے گزرے۔ میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا تو میں لپک کر آپ کی طرف گیا اور آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قریب آجائو۔ پس میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب پہنچا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ تھام لیا،یہاں تک کہ آپ اپنی بیوی سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا یا سیدہ زینب بنت جحش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے حجرہ کے پاس تشریف لے گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اندر چلے گئے اور پھر مجھے بھی اندر آنے کی اجازت دے دی۔ میں اندر گیا تو وہ پردہ میں تھیں ۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بیوی سے پوچھا: کیا تمہارے پاس کھانے کے لیے کچھ ہے؟ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے تین روٹیاں پیش کی گئیں اور ان کو دستر خوان پر رکھ دیا گیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کوئی سالن ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ سر کے کے علاوہ تو کچھ نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہی لے آئو۔ پس انہوں نے وہی پیش کر دیا ۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک روٹی اپنے سامنے اور ایک میرے سامنے رکھی اور تیسری کے دو ٹکڑے کرکے ایک اپنے اور ایک میرے سامنے رکھ دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11230

۔ (۱۱۲۳۰)۔ حَدَّثَنِی عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِی بَکْرٍ: أَنَّ أَبَا أُسَیْدٍ کَانَ یَقُولُ: أَصَبْتُ یَوْمَ بَدْرٍ سَیْفَ ابْنِ عَابِدٍ الْمَرْزُبَانِ، فَلَمَّا أَمَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یَرُدُّوْا مَا فِی أَیْدِیہِمْ، أَقْبَلْتُ بِہِ حَتّٰی أَلْقَیْتُہُ فِی النَّفْلِ، قَالَ: وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا یَمْنَعُ شَیْئًایُسْأَلُہُ، قَالَ: فَعَرَفَہُ الْأَرْقَمُ بْنُ أَبِی الْأَرْقَمِ الْمَخْزُومِیُّ، فَسَأَلَہُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَعْطَاہُ إِیَّاہُ۔ (مسند احمد: ۱۶۱۵۳)
سیدنا ابو اسید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ غزوۂ بدر کے دن ابن عابد مر زبان کی تلوار مجھے ملی، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم فرمایا کہ مجاہدین کے پاس جو جو چیز ہے وہ واپس کر دیں،تو میں وہ تلوار لے آیا اور اسے مال غنیمت میں ڈالادیا۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عادت تھی کہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کوئی چیز طلب کی جاتی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انکار نہ فرماتے تھے۔سیدنا ارقم بن ابی ارقم مخزومی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس تلوار کو پہچان لیااور اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے وہ مانگ لی اورآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ اسی کو عطا فرما دی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11231

۔ (۱۱۲۳۱)۔ عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَسْأَلُہُ فَأَعْطَاہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَنَمًا بَیْنَ جَبَلَیْنِ، فَأَتَی الرَّجُلُ قَوْمَہُ فَقَالَ: أَیْ قَوْمِی أَسْلِمُوا، فَوَاللّٰہِ! إِنَّ مُحَمَّدًا لَیُعْطِی عَطِیَّۃَ رَجُلٍ مَا یَخَافُ الْفَاقَۃَ، أَوْ قَالَ: الْفَقْرَ، قَالَ: وَحَدَّثَنَاہُ ثَابِتٌ قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: إِنْ کَانَ الرَّجُلُ لَیَأْتِی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُسْلِمُ مَا یُرِیدُ إِلَّا أَنْ یُصِیبَ عَرَضًا مِنَ الدُّنْیَا، أَوْ قَالَ: دُنْیَایُصِیبُہَا فَمَا یُمْسِی مِنْ یَوْمِہِ ذٰلِکَ حَتّٰییَکُونَ دِینُہُ أَحَبَّ إِلَیْہِ، أَوْ قَالَ أَکْبَرَ عَلَیْہِ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا۔ (مسند احمد: ۱۲۸۲۱)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں کچھ مانگنے کے لیے آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس دوپہاڑوں کے درمیان وادی میں جتنی بکریاں تھیں، وہ سب اس کو دے دیں، اس نے اپنی قوم سے جا کر کہا: اے میری قوم! اسلام قبول کر لو، اللہ کی قسم! محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو اس قدر عطا فرماتے ہیں کہ وہ فقر و فاقہ کی بھی پروا نہیں کرتے۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ کوئی آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں مسلمان ہونے آتا اور اس کا مقصد حصول دنیا ہی ہوتا، شام ہونے سے پہلے پہلے دین اس کی نظر میں دنیا بھر کی دولت سے بھی بڑھ کر عزیز تر اور محبوب تر ہو جاتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11232

۔ (۱۱۲۳۲)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَحْسَنَ النَّاسِ، وَکَانَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَکَانَ أَشْجَعَ النَّاسِ قَالَ: وَلَقَدْ فَزِعَ أَہْلُ الْمَدِینَۃِ لَیْلَۃً، فَانْطَلَقَ قِبَلَ الصَّوْتِ، فَرَجَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَاجِعًا، قَدِ اسْتَبْرَأَ لَہُمُ الصَّوْتَ، وَہُوَ عَلٰی فَرَسٍ لِأَبِی طَلْحَۃَ عُرْیٍ، مَا عَلَیْہِ سَرْجٌ، وَفِی عُنُقِہِ السَّیْفُ، وَہُوَ یَقُولُ لِلنَّاسِ: ((لَمْ تُرَاعُوْا لَمْ تُرَاعُوا۔)) وَقَالَ لِلْفَرَسِ: ((وَجَدْنَاہُ بَحْرًا أَوْ إِنَّہُ لَبَحْرٌ۔)) قَالَ أَنَسٌ: وَکَانَ الْفَرَسُ قَبْلَ ذٰلِکَ یُبَطَّأُ قَالَ مَا سُبِقَ بَعْدَ ذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۱۲۵۲۲)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سب سے زیادہ حسین و جمیل، سب سے بڑھ کر سخی اور بہادر تھے۔ ایک رات اہل مدینہ کسی وجہ سے گھبرا گئے اور خوف زدہ سے ہوگئے، لوگ صورت حال معلوم کرنے کے لیے جس سمت سے آواز آئی تھی، اُدھر روانہ ہو گئے، لیکن کیا دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو اُدھر سے واپس تشریف لا رہے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھوڑے پر سوار تھے، وہ ننگا تھا، اس پر زین نہ تھی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس آنے والی آواز کا جائزہ لے کر آرہے تھے، آپ کی گردن میں تلوار تھی اور آپ بآواز بلند لوگوں سے فرما رہے تھے: گھبرائو نہیں، گھبرائو نہیں۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے گھوڑے کے متعلق فرمایا: ہم نے اسے سمندر کی طرح پایا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اس سے قبل یہ گھوڑا انتہائی سست رفتار تھا، اس کے بعد وہ کبھی دوسرے گھوڑوں سے پیچھے نہ رہا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11233

۔ (۱۱۲۳۳)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ قَتَادَۃَ،یُحَدِّثُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: کَانَ فَزَعٌ بِالْمَدِینَۃِ فَاسْتَعَارَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَسًا لَنَا یُقَالُ لَہُ: مَنْدُوبٌ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا رَأَیْنَا مِنْ فَزَعٍ۔)) وَإِنْ وَجَدْنَاہُ لَبَحْرًا۔ (مسند احمد: ۱۲۸۸۲)
۔(دوسری سند) سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ مدینہ منورہ میں خوف کی صورت حال تھی۔اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم سے ہمارا مندوب نامی گھوڑا عاریۃً لیا اور واپس آ کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم نے خوف کی کوئی بات نہیں دیکھی اور ہم نے اس گھوڑے کو سمندر کی طرح پایا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11234

۔ (۱۱۲۳۴)۔ عَنْ اَبِیْ اِسْحٰقَ قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَائَ وَسَأَلَہُ رَجُلٌ مِنْ قَیْسٍ فَقَالَ: أَفَرَرْتُمْ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ حُنَیْنٍ؟ فَقَالَ الْبَرَائُ: وَلٰکِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یَفِرَّ، کَانَتْ ہَوَازِنُ نَاسًا رُمَاۃً، وَإِنَّا لَمَّا حَمَلْنَا عَلَیْہِمْ انْکَشَفُوا، فَأَکْبَبْنَا عَلَی الْغَنَائِمِ فَاسْتَقْبَلُونَا بِالسِّہَامِ، وَلَقَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی بَغْلَتِہِ الْبَیْضَائِ، وَإِنَّ أَبَا سُفْیَانَ بْنَ الْحَارِثِ آخِذٌ بِلِجَامِہَا، وَہُوَ یَقُولُ: ((أَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ۔)) (مسند احمد: ۱۸۶۶۷)
ابو اسحاق سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سنا، جبکہ بنو قیس کے ایک آدمی نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ لوگ غزوۂ حنین کے موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے؟ انھوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو فرار نہیں ہو ئے تھے، دراصل بنو ہوازن ماہر تیر انداز تھے، جب ہم نے ان پر حملہ کیا تو وہ تتر بترہو گئے۔ ہم اموالِ غنیمت جمع کرنے لگے، انہوں نے تیروں کے ذریعے ہمارا سامنا کیا، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا آپ اپنے سفید خچر پر سوار تھے، اور ابو سفیان بن حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس کی باگ کو تھامے ہوئے تھے، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ رجز کہتے جاتے تھے۔ أَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ ( میں اللہ کا نبی ہوں، اس میں کوئی جھوٹ نہیں اور میں میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11235

۔ (۱۱۲۳۵)۔ عَنْ عَلِیٍّ قَالَ: لَمَّا حَضَرَ الْبَأْسُ یَوْمَ بَدْرٍ اتَّقَیْنَا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکَانَ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ، مَا کَانَ أَوْ لَمْ یَکُنْ أَحَدٌ أَقْرَبَ إِلَی الْمُشْرِکِینَ مِنْہُ۔ (مسند احمد: ۱۰۴۲)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ غزوۂ بدر کے دن جب معرکہ بپا ہوا تو ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ذریعے پناہ ڈھونڈنے لگے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سب سے قوی بہادر تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سب سے زیادہ مشرکین کے قریب ہوتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11236

۔ (۱۱۲۳۶)۔ (وَعَنْہٗمِنْطَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: لَقَدْ رَأَیْتُنَایَوْمَ بَدْرٍ وَنَحْنُ نَلُوْذُ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَھُوَ أَقْرَبُنَا إِلَی الْعَدُوِّ، وَکَانَ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ یَوْمَئِذٍ بَأْسًا۔ (مسند احمد: ۶۵۴)
۔(دوسری سند) سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے صحابہ کو بدر کے دن دیکھا کہ ہم اللہ کے رسول کے ذریعے پناہ ڈھونڈھ رہے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہم سب سے زیادہ مشرکین کے قریب تھے اور آپ نے اس دن سب سے بڑھ کر لڑائی لڑی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11237

۔ (۱۱۲۳۷)۔ عَنْ أَبِی رَافِعٍ قاَلَ: بَعَثَنِی قُرَیْشٌ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ فَلَمَّا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُلْقِیَ فِی قَلْبِیَ اْلإِسْلَامُ، فَقُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنِّی وَاللّٰہِ لَا أَرْجِعُ إِلَیْھِمْ أَبَداً۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنِّی لَاأَخِیْسُ بِالْعَھْدِ، وَلَا أَحْبِسُ الْبَرْدَ وَلٰکِنِ ارْجِعْ فَإِنْ کَانَ الَّذِی فِی نَفْسِکَ الآنَ فَارْجِعْ۔)) قَالَ بُکَیْرٌ وَأَخْبَرَنِی الْحَسَنُ: أَنَّ أَبَا رَافِعٍ کَانَ قِبْطِیًّا۔ (مسند احمد: ۲۴۳۵۸)
سیدنا ابورافع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ مجھے قریشیوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بھیجا، جب میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا تو میرے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی گئی۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! اللہ کی قسم! میں کبھی بھی ان کے پاس لوٹ کر نہیں جاؤں گے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں عہد شکنی نہیں کرتا اور نہ قاصدوں کو روکتا ہوں۔ تم لوٹ جاؤ اور اگر دل میں وہی (قبولیتِ اسلام کی چاہت) رہی، جو اب ہے تو لوٹ آنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11238

۔ (۱۱۲۳۸)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ کَلَامُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَصْلًا یَفْقَہُہٗ کُلُّ أَحَدٍِ، لَمْ یَکُنْیَسْرُدُہُ سَرْدًا۔ (مسند احمد: ۲۵۵۹۱)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی گفتگو اس قدر واضح ہوتی تھی کہ اسے ہر کوئی بخوبی سمجھ سکتا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تیز تیز نہ بولتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11239

۔ (۱۱۲۳۹)۔ عَنْ سِمَاکٍ، قَالَ: قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ: أَکُنْتَ تُجَالِسُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: نَعَمْ، فَکَانَ طَوِیلَ الصَّمْتِ قَلِیلَ الضَّحِکِ، وَکَانَ أَصْحَابُہُ یَذْکُرُونَ عِنْدَہُ الشِّعْرَ وَأَشْیَائَ مِنْ أُمُورِہِمْ، فَیَضْحَکُونَ وَرُبَّمَا یَتَبَسَّمُ۔ (مسند احمد: ۲۱۰۹۵)
سماک کہتے ہیں: میں نے سیدنا جابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے عرض کیا: کیا آپ کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی محفل میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوتا رہا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ زیادہ تر خاموش رہنے والے اور کم ہنسنے والے تھے، صحابۂ کرام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی موجودگی میں اشعار اور اپنے امور سے متعلقہ باتوں کا ذکر کر کے ہنستے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بسااوقات تبسم فرماتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11240

۔ (۱۱۲۴۰)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((اِنِّیْ لَا اَقُوْلُ اِلَّا حَقًّا۔)) قَالَ بَعْضُ اَصْحَابِہِ: فَاِنَّکَ تُدَاعِبُنَا یارَسُوْلُ اللّٰہِ؟ فَقَالَ: ((اِنِّیْ لَا اَقُوْلُ اِلَّا حَقًّا۔)) (مسند احمد: ۸۴۶۲)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک میں صرف حق ہی کہتا ہوں۔ بعض صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! بیشک آپ بھی ہمارے ساتھ ہنسی مذاق کرتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں صرف حق ہی کہتا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11241

۔ (۱۱۲۴۱)۔ عَنْ اَنَسٍ ابْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ رَجُلًا اَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاسْتَحْمَلَہُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّا حَامِلُوْکَ عَلٰی وَلَدِ نَاقَۃٍ۔)) قَالَ: یارَسُوْل اللّٰہِ! مَا اَصْنَعُ بِوَلَدِ نَاقَۃٍ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَھَلْ تَلِدُ الْاِبِلَ اِلَّا النُّوْقُ۔)) (مسند احمد: ۱۳۸۵۳)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سواری طلب کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم تجھے اونٹنی کے بچے پر سوار کریں گے۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اونٹنی کے بچے کو کیا کروں گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اوہو، اونٹوں کو اونٹنیاں ہی جنم دیتی ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11242

۔ (۱۱۲۴۲)۔ عَنْ عَبْدِ الْحُمَیْدِ بْنِ صَیْفِیٍّ، عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ، قَالَ: اِنَّ صُھَیْبًا قَدِمَ عَلَیَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَبَیْنَیَدَیْہِ تَمْرٌ وَخُبْزٌ، فَقَالَ: ((ادْنُ فَکُلْ)) فَاَخَذَ یَاْکُلُ مِنَ التَّمْرِ۔ فقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ بِعَیْنِکَ رَمَدًا۔)) فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنّمَا آکُلُ مِنَ النَّاحِیَۃِ الْاُخْرٰی، قَالَ: فَتَبَسَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۳۵۶۷)
عبد الحمید بن صیفی اپنے باپ اپنے دادے سے بیان کرتے ہیں کہ سیدنا صہیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے خشک کھجوراور روٹی پڑی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قریب ہو جا اور کھا۔ پس اس نے کھانا شروع کر دیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے کہا: بیشک تیری آنکھ بیمار ہے۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں دوسرے کنارے سے کھا لیتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ بات سن کر مسکرا پڑے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11243

۔ (۱۱۲۴۲)۔ عَنْ عَبْدِ الْحُمَیْدِ بْنِ صَیْفِیٍّ، عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ، قَالَ: اِنَّ صُھَیْبًا قَدِمَ عَلَیَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَبَیْنَیَدَیْہِ تَمْرٌ وَخُبْزٌ، فَقَالَ: ((ادْنُ فَکُلْ)) فَاَخَذَ یَاْکُلُ مِنَ التَّمْرِ۔ فقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ بِعَیْنِکَ رَمَدًا۔)) فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنّمَا آکُلُ مِنَ النَّاحِیَۃِ الْاُخْرٰی، قَالَ: فَتَبَسَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۳۵۶۷)
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک بکری کا گوشت پکایا گیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے اس کی ذراع (اگلی ٹانگ )کا گوشت لا دو۔ انہوںنے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو لادی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے اس کی دوسری اگلی ٹانگ کا گوشت لا دو۔ انہوں نے وہ بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو لا کر دے دی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: مجھے اس کی اگلی ٹانگ کا گوشت لا دو۔ اب کی بار سیدناابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! بکری کی اگلی تو دوہی ٹانگیں ہوتی ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! اگر تم تلاش کرتے تو تمہیں اور بھی مل جاتی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11244

۔ (۱۱۲۴۴)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ: أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُولُ: لَمَّا بُنِیَتِ الْکَعْبَۃُ کَانَ الْعَبَّاسُ وَالنَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَنْقُلَانِ حِجَارَۃً، فَقَالَ الْعَبَّاسُ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اجْعَلْ إِزَارَکَ، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: عَلٰی رَقَبَتِکَ، مِنَ الْحِجَارَۃِ فَخَرَّ إِلَی الْأَرْضِ وَطَمَحَتْ عَیْنَاہُ إِلَی السَّمَائِ فَقَامَ، فَقَالَ: ((إِزَارِی إِزَارِی)) فَقَامَ فَشَدَّہُ عَلَیْہِ۔ (وَفِیْ لَفْظٍ: فَسَقَطَ مَغْشِیًّا عَلَیْہِ فَمَا رُؤِیَ بَعْدَ ذٰلِکَ الْیَوْمِ عُرْیَانًا)۔ (مسند احمد: ۱۴۱۸۷)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب (قبل از نبوت) کعبہ کی تعمیر کی گئی تو عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی پتھر لانے لگے۔ سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: آپ پتھروں کی تکلیف سے بچنے کے لیے تہبند اتار کر گردن پر رکھ لیں، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی بات مان لی، لیکن ساتھ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھ گئیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اٹھے اورفرمایا: میری چادر، میری چادر مجھے دو۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہوئے اور چادر باندھ لی۔ ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں: آپ بے ہوش ہو کر گر پڑے، اس کے بعد کبھی بھی آپ کوبرہنہ حالت میںنہیں دیکھا گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11245

۔ (۱۱۲۴۵)۔ عَنْ ہِشَامِ یَعْنِی ابْنَ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ: حَدَّثَنِی جَارٌ لِخَدِیجَۃَ بِنْتِ خُوَیْلِدٍ، أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یَقُولُ لِخَدِیجَۃَ: ((أَیْ خَدِیجَۃُ وَاللّٰہِ! لَا أَعْبُدُ اللَّاتَ وَالْعُزّٰی، وَاللّٰہِ! لَا أَعْبُدُ أَبَدًا۔)) قَالَ: فَتَقُولُ خَدِیجَۃُ: خَلِّ الْعُزّٰی، قَالَ: کَانَتْ صَنَمَہُمُ الَّتِی کَانُوا یَعْبُدُونَ ثُمَّ یَضْطَجِعُونَ۔ (مسند احمد: ۱۸۱۱۱)
عروہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ام المؤمنین سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ایک ہمسائے نے ہمیں بیان کیا کہ اس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ فرماتے ہوئے سنا: خدیجہ! اللہ کی قسم! میں لات اور عزی کی عبادت نہیں کرتا، اللہ کی قسم! میں کبھی بھی ان کی عبادت نہیں کروں گا۔ سیدہ نے جواباً کہا: آپ چھوڑیں اس عزی کی عبادت کو (اور پریشان نہ ہوں)۔ راوی کہتے ہیں: عزی ان کا ایک بت تھا، عرب لوگ اس کی عبادت کرکے سویا کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11246

۔ (۱۱۲۴۶)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أُعْطِیْتُ مَالَمْ یُعْطَ أَحَدٌ مِنَ الْأَنْبِیَائِ۔)) فَقُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! مَاہُوَ؟ قَالَ: ((نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَأُعْطِیْتُ مَفَاتِیْحَ الْاََرْضِ وَسُمِّیْتُ أَحْمَدَ وَجُعِلَ التُّرَابُ لِیْ طَہُوْرًا وَجُعِلَتْ أُمَّتِیْ خَیْرَ الْأُمَمِ۔)) (مسند أحمد: ۷۶۳)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے وہ چیزیں عطا کی گئی ہیں، جو کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ کون سی ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے، مجھے زمین کی چابیاںعطا کی گئی ہیں، میرا نام احمد رکھا گیا ہے، مٹی کو میرے لیے پاک کرنے والا بنا دیا گیا ہے اور میری امت کو سب سے بہترین امت بنایا گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11247

۔ (۱۱۲۴۷)۔ عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أُوتِیتُ خَمْسًا لَمْ یُؤْتَہُنَّ نَبِیٌّ کَانَ قَبْلِی، نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ فَیُرْعَبُ مِنِّی الْعَدُوُّ عَنْ مَسِیرَۃِ شَہْرٍ، وَجُعِلَتْ لِی الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَہُورًا، وَأُحِلَّتْ لِیَالْغَنَائِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ کَانَ قَبْلِی، وَبُعِثْتُ إِلَی الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ، وَقِیلَ لِی سَلْ تُعْطَہْ، فَاخْتَبَأْتُہَا شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی وَہِیَ نَائِلَۃٌ مِنْکُمْ إِنْ شَائَ اللّٰہُ مَنْ لَقِیَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَا یُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا۔)) قَالَ الْاَعْمَشُ: فَکَانَ مُجَاہِدٌ یَرٰی أَنَّ الْاَحْمَرَ الْإِنْسُ وَالْأَسْوَدَ الْجِنُّ۔ (مسند احمد: ۲۱۶۲۴)
سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے پانچ ایسی خصوصیات سے نوازا گیا ہے کہ وہ مجھ سے پہلے کسی بھی نبی کو نہیںدی گئیں، دشمن پر میری ہیبت اور رعب کے ذریعے مدد کی گئی ہے، اس لیے دشمن مجھ سے ایک ماہ کی مسافت پر ہی مرعوب ہو جاتا ہے۔میرے لیےساری زمین کو نماز کی جگہ اور طہارت کا ذریعہ بنایا گیا ہے، میرے لیے اموال غنیمت کو حلال کر دیا گیا ہے، جبکہ مجھ سے پہلے کسی نبی کے لیے غنیمتیں حلال نہیں تھیں، مجھے سرخ و سیاہیعنی تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر مبعوث کیا گیا، مجھ سے کہا گیا کہ آپ کو ئی دعا کریں جو مانگیں گے ملے گا، لیکن میں نے اس دعا کو آخرت میں اپنی امت کے حق میں سفارش کے طور پر محفوظ کر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تم میں سے جس آدمی نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا ہوگا، اسے اس دعا (شفاعت) کا فائدہ ہوگا۔ اعمش راوی کہتے ہیں کہ مجاہد کہا کرتے تھے: سرخ و سیاہ میں سرخ سے انسان اور سیاہ سے مراد جن ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11248

۔ (۱۱۲۴۸)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((أُعْطِیتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَہُنَّ نَبِیٌّ قَبْلِی وَلَا أَقُولُہُنَّ فَخْرًا، بُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ کَافَّۃً الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِیرَۃَ شَہْرٍ، وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی، وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَہُورًا، وَأُعْطِیتُ الشَّفَاعَۃَ فَأَخَّرْتُہَا لِأُمَّتِی، فَہِیَ لِمَنْ لَا یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْئًا۔)) (مسند احمد: ۲۷۴۲)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے پانچ ایسی خصوصیات عطا کی گئی ہیں، جو مجھ سے پہلے کسی بھی نبی کو عطا نہیں کی گئیں تھیں، میں اس کا اظہار فخر کے طور پر نہیں، بلکہ اللہ کی نعمت اور احسان کے طور پر کر رہا ہوں۔ مجھے سرخ و سیاہیعنی تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہے،ایک ماہ کی مسافت سے میرا رعب و ہیبت دشمن پر طاری کرکے میری مدد کی گئی ہے،اموال غنیمت کو میرے لیے حلال کر دیا گیا ہے، جبکہ مجھ سے پہلے غنیمت کے اموال کسی کے لیے بھی حلال نہیں کیے گئے تھے، میرے لیے ساری زمین کو نماز کیجگہ اور طہارت کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے اور مجھے شفاعت کا اختیار دیا گیا ہے اور میں نے اس دعا کو اپنی امت کے ایسے لوگوں کے لیے مؤخر کر دیا ہے، جو اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب نہیں کریں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11249

۔ (۱۱۲۴۹)۔ وَعَنْ أَبِیْ مُوْسٰی بِنَحْوِہِ) وَفِیْہِ: ((وَأُعْطِیتُ الشَّفَاعَۃَ وَلَیْسَ مِنْ نَبِیٍّ إِلَّا وَقَدْ سَأَلَ شَفَاعَۃً، وَإِنِّی أَخْبَأْتُ شَفَاعَتِی، ثُمَّ جَعَلْتُہَا لِمَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِیْ لَمْ یُشْرِکْ بِاللّٰہِ شَیْئًا۔)) (مسند احمد: ۱۹۹۷۳)
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، (یہ حدیث گزشتہ حدیث کی مانندہے) البتہ اس میں ہے: مجھے شفاعت کا اختیار دیا گیا ہے اور ہر نبی نے اپنی زندگی میں ہی شفاعت کر لی، لیکن میں نے اپنی شفاعت کو چھپا لیا، (یعنی محفوظ اور مؤخر کر لیا)، اب یہ شفاعت میں اپنی امت کے ایسے لوگوں کے حق میں کروں گا، جنہوں نے اللہ کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11250

۔ (۱۱۲۵۰)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِنَحْوِہِ۔ (مسند احمد: ۷۰۶۸)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسی طرح کی حدیث نبوی بیان کی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11251

۔ (۱۱۲۵۱)۔ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ سَلَمَۃَیَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُودٍ یَقُولُ: أُوتِیَ نَبِیُّکُمْ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَفَاتِیحَ کُلِّ شَیْئٍ غَیْرَ الْخَمْسِ {إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ} قَالَ: قُلْتُ لَہُ: أَنْتَ سَمِعْتَہُ مِنْ عَبْدِ اللّٰہِ؟ قَالَ: نَعَمْ أَکْثَرَ مِنْ خَمْسِینَ مَرَّۃً۔ (مسند احمد: ۴۱۶۷)
سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: تمہارے نبی کو پانچ چیزوں کے علاوہ ہر چیز کی چابیاں عطا کی گئی ہیں۔ وہ پانچ چیزیںیہ ہیں: {إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوتُ، إِنَّ اللّٰہَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ}… قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پا رہا ہے، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کی موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔ (سورۂ لقمان: ۲۴) عمرو بن مرہ کہتے ہیں: میں نے اپنے شیخ عبداللہ بن سلمہ سے دریافت کیا کہ آیا آپ نے یہ حدیث سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے خودسنی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، پچاس سے بھی زائد مرتبہ سنی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11252

۔ (۱۱۲۵۲)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بُعِثْتُ بَیْنَیَدَیِ السَّاعَۃِ بِالسَّیْفِ حَتّٰییُعْبَدَ اللّٰہُ وَحْدَہٗلاشَرِیْکَ لَہٗ،وَجُعِلَرِزْقِیْ تَحْتَ ظِلِّ رُمْحِیْ، وَجُعِلَ الذُّلَّ وَالصِّغَارَ عَلٰی مَنْ خَالَفَ أَمْرِیْ، وَمَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوْ مِنْھُمْ۔)) (مسند احمد: ۵۶۶۷)
سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے تلوار دے کر قیامت سے قبل مبعوث کیا گیا ہے، تاکہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے، جس کا کوئی شریک نہیں اور میرا رزق میرے نیزے کی انی کے نیچے رکھا گیا ہے اور جس نے میرے دین کی مخالفت کی، ذلت و رسوائی اس کا مقدر ٹھہری اور جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی، وہ انہی میں سے شمار ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11253

۔ (۱۱۲۵۳)۔ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلَامِ، وَبَیْنَا أَنَا نَائِمٌ إِذْ جِیْئَ بِمَفَاتِیْحِ خَزَائِنِ الْأَرْضِ فَوُضِعَتْ فِیْیَدِیْ۔)) فَقَال أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ: لَقَدْ ذَھَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنْتُمْ تَنْتَشِلُوْنَہَا۔ (مسند احمد: ۷۶۲۰)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دشمن پر میری ہیبت کے ذریعے میری مدد کی گئی، مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے ہیں، میں سویا ہوا تھا کہ روئے زمین کے خزانوں کی چابیاں لا کر میرے ہاتھ میں تھما دی گئیں۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو تشریف لے گئے ہیں اور تم ان خزانوں کو سمیٹ رہے ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11254

۔ (۱۱۲۵۴)۔ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ أَنَّہٗقَالَ: قَامَفِیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَقَامًا، فَاَخْبَرَنَا بِمَا یَکُوْنُ فِیْ أُمَّتِہِ إِلٰی الْیَوْمِ الْقِیَامَۃِ، وَعَاہٗمَنْوَعَاہٗوَنَسِیَہٗ مَنْ نَسِیَہٗ۔ (مسند احمد: ۱۸۴۱۱)
سیدنا مغیرہ میں شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے امت میں قیامت تک بپا ہونے والے تمام واقعات بیان فرما دیئے،یاد رکھنے والوں نے یاد رکھا اور بھلا دینے والوں نے بھلا دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11255

۔ (۱۱۲۵۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ: ((اِنِّیْ نُصِرْتُ بِالصَّبَا، وَاِنَّ عَادًا اُھْلِکَتْ بِالدَّبُوْرِ۔)) (مسند احمد: ۱۹۵۵)
ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: باد صبا کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے۔ اور قوم عاد کو مغرب کی طرف سے آنے والی تیز ہوا یعنی شدید آندھی کے ذریعے ہلاک کیا گیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11256

۔ (۱۱۲۵۶)۔ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((ثَلَاثٌ ھُنَّ عَلَیَّ فَرْضٌ وَلَکُمْ تَطَوُّعٌ، اَلْوِتْرُ وَالنَّحْرُ وَصَلَاۃُ الضُّحٰی۔)) (مسند احمد: ۲۰۵۰)
سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تین کام مجھ پر فرض اور تمہارے لیے نفل ہیں، وتر، قربانی اور چاشت کی نماز۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11257

۔ (۱۱۲۵۷)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: صَلّٰی بِنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الظُّہْرَ، وَفِی مُؤَخَّرِ الصُّفُوفِ رَجُلٌ فَأَسَائَ الصَّلَاۃَ، فَلَمَّا سَلَّمَ نَادَاہُ رَسُولُ اِلّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا فُلَانُ أَلَا تَتَّقِی اللّٰہَ أَلَا تَرٰی کَیْفَ تُصَلِّی، إِنَّکُمْ تَرَوْنَ أَنَّہُ یَخْفٰی عَلَیَّ شَیْئٌ مِمَّا تَصْنَعُونَ، وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأَرٰی مِنْ خَلْفِی کَمَا أَرٰی مِنْ بَیْنِیَدَیَّ۔)) (مسند احمد: ۹۷۹۵)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں ظہر کی نماز پڑھائی، صفوں کے آخر میں ایک آدمی نے نماز اچھی طرح ادا نہیں کی تھی، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سلام پھیراتو اس سے فرمایا: ارے فلاں! کیا تمہیں اللہ کا خوف نہیں ہے، تم نماز کس طرح ادا کرتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ تم جو کچھ کرتے ہو وہ مجھ سے پوشیدہ ہے، اللہ کی قسم! میں جس طرح آگے دیکھتا ہوں، اسی طرح پیچھے بھی دیکھتا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11258

۔ (۱۱۲۵۸)۔ عَنْ وَاثِلَۃَ بْنِ الْأَسْقَعِ: أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((أُعْطِیتُ مَکَانَ التَّوْرَاۃِ السَّبْعَ، وَأُعْطِیتُ مَکَانَ الزَّبُورِ الْمِئِینَ، وَأُعْطِیتُ مَکَانَ الْإِنْجِیلِ الْمَثَانِیَ، وَفُضِّلْتُ بِالْمُفَصَّلِ۔)) (مسند احمد: ۱۷۱۰۷)
سیدنا واثلہ بن اسقع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے تورات کے عوض سبع طوال (سات مفصل سورتیں)،زبور کے عوض مئیں،انجیل کے عوض مثانی دی گئی ہیں اور مفصل سورتوں کے ذریعے باقی انبیاء پر مجھے فضیلت دی گئی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11259

۔ (۱۱۲۵۹)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: مَا مَاتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی اُحِلَّ لَہُ النِّسَائُ۔ (مسند احمد: ۲۴۶۳۸)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات سے پہلے آپ کے لئے مزید عورتوں سے نکاح کرنا حلال کردیا گیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11260

۔ (۱۱۲۶۰)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ عَائَشَۃ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: مَا مَاتَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی أَحَلَّ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لَہٗأَنْیَنْکِحَ مَا شَائَ، قُلْتُ: عَمَّنْ تُؤْثِرُ ھٰذَا؟ قَالَ: لا أَدْرِیْ حَسِبْتُ أَنِّیْ سَمِعْتُ عُبَیْدَ بْنَ عُمَیْرٍیَقُوْلُ ذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۲۶۱۷۱)
۔(دوسری سند) سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے انتقال سے قبل اللہ تعالیٰ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس بات کی اجازت دے دی تھی کہ آپ جس قدر چاہیں، مزید عورتوں سے نکاح کر سکتے ہیں۔ میں نے اپنے شیخ سے دریافت کیایہ آپ کس سے روایت کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا مجھے یاد نہیں۔ میرا خیال ہے کہ میں نے عبید بن عمیر کو یہ بیان کرتے سنا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11261

۔ (۱۱۲۶۱)۔ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدُرْوُ عَلٰی نِسَائِہِ فِی السَّاعَۃِ الْوَاحِدَۃِ مِنَ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَھُنَّ إِحْدٰی عَشَرَۃَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: وَھَلْ کَانَ یُطِیْقُ ذٰلِکَ؟ قَالَ: کُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّہ أُعْطِیَ قُوَّۃَ ثَلَاثِیْنَ۔ (مسند احمد: ۱۴۱۵۵)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رات اور دن کی ایک گھڑی میں اپنی تمام بیویوں کے پاس جا کر (حق زوجیت ادا) کر لیتے تھے، اس وقت ان کی تعداد گیارہ تھی، میں نے سیدنا انس سے کہا: کیا آپ کو اتنی طاقت تھی، انہوں نے کہا: ہم آپس میں بیان کرتے تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تیس آدمیوں کی قوت عطا کی گئی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11262

۔ (۱۱۲۶۲)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَا مِنَ الْاَنْبِیَائِ نَبِیٌّ اِلَّا وَقَدْ اُعْطِیَ مِنَ الْآیَاتِ مَا مِثْلُہٗآمَنَعَلَیْہِ الْبَشَرُ، وَاِنَّمَا کَانَ الَّذِیْ اُوْتِیْتُ وَحْیًا اَوْحَاہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ اِلَیَّ، وَاَرْجُوْ اَنْ اَکُوْنَ اَکْثَرَھُمْ تَبَعًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند احمد: ۸۴۷۲)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر نبی کو معجزات اور نشانیوں میں سے وہ کچھ عطا کی گئی کہ لوگ اس پر ایمان لاتے رہے، اور جو چیز مجھے عطا کی گئی ہے، وہ صرف وحی1 ہے، اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی ہے، مجھے امید ہے کہ روز قیامت میرے فرمانبرداروں کی تعداد سب سے زیادہ ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11263

۔ (۱۱۲۶۳)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اَتَانِیْ جِبْرِیْلُ علیہ السلام فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! اِنَّ اُمَّتَکَ مُخْتَلِفَۃٌ بَعْدَکَ، قَالَ: فَقُلْتُ لَہُ: فَاَیْنَ الْمَخْرَجُ یَا جِبْرِیْلُ؟ قَالَ: فَقَالَ: کِتَابُ اللّٰہِ تَعَالٰی،بِہِیَقْصِمُ اللّٰہُ کُلَّ جَبَّارٍ، مَنِ اعْتَصَمَ بِہِ نَجَا، وَمَنْ تَرَکَہٗھَلَکَ،مَرَّتَیْنِ، قَوْلٌ فَصْلٌ وَلَیْسَ بِالْھَزْلِ، لَا تَخْتَلِقُہُ الْاَلْسُنُ، وَلَا تَفْنِی اَعَاجِیْبُہُ، فِیْہِ نَبَاُ مَا کَانَ قَبْلَکُمْ، وَفَصْلُ مَا بَیْنَکُمْ، وَخَبْرُ مَا ہُوَ کَائِنٌ بَعْدَکُمْ۔)) (مسند احمد: ۷۰۴)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور کہا: اے محمد! آپ کے بعد آپ کی امت اختلاف کا شکار ہو گی، میں نے کہا: اے جبریل! اس اختلاف سے نکلنے کا طریقہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے ہر سرکش کی شان توڑتا ہے، جو اس کو تھامے گا، وہ نجات پائے گا، جو اسے چھوڑ دے گا، وہ ہلاک ہوگا، یہ جملہ دو مرتبہ فرمایا،یہ سارا حق ہے، اس میں باطل کی آمیزش نہیں،زبانیںاس جیسا کلام پیش نہیں کر سکتیں، اس کے عجائبات اور اسرار ختم نہیں ہوتے، اس میں تم سے پہلوں کی خبریں ہیں،تمہارے مابین ہونے والے اختلافات کے فیصلے ہیں اور تمہارے بعد ہونے والی اخبار کا بیان ہے۔ ! وہ صرف وحی ہے کا مطلب یہ ہے کہ اعلیٰ درجہ کا معجزہ صرف وحییعنی قرآن مجید ہے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے باقی معجزات اس سے کم درجہ میں ہیں۔ (عبداللہ رفیق)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11264

۔ (۱۱۲۶۴)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ، اِنْشَقَّ الْقَمَرُ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شِقَّتَیْنِ حَتّٰی نَظَرُوْا إِلَیْہِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اشْہَدُوْا۔)) (مسند احمد: ۳۵۸۳)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عہد میں چانددو ٹکڑے ہوا، یہاں تک کہ لوگوں نے اسے دیکھ لیا،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: گواہ ہو جاؤ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11265

۔ (۱۱۲۶۵)۔ عَنْ أَنَسٍ سَأَلَ أَہْلُ مَکَّۃَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آیَۃً، فَانْشَقَّ الْقَمَرُ بِمَکَّۃَ مَرَّتَیْنِ فَقَالَ: {اقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَإِنْ یَرَوْْا آیَۃًیُعْرِضُوْا وَیَقُولُوْا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ} [القمر: ۱۔۲]۔ (مسند احمد: ۱۲۷۱۸)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ مکہ والوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے معجزہ طلب کیا تو مکہ میں دو بار چاند دو ٹکڑے ہوا، پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {اقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَإِنْ یَرَوْْا آیَۃًیُعْرِضُوْا وَیَقُولُوْا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ} … قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا، مگر ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ اگر وہ کوئی نشانی دیکھ لیں منہ موڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیںیہ تو چلتا ہوا جادو ہے۔ علامہ عبدالرحمن مبارکپوری نے ترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی (ج۴، ص۱۹۱) میں اور حافظ ابن حجر نے صحیح بخاری کی شرح فتح الباری (ج۷، ص۱۸۳) میں دیگر روایات کو سامنے رکھ کر اسی بات کو ترجیح دی ہے کہ مرتین کا معنی فِلْقَتَیْنِ ہے یعنی چاند دو ٹکڑے ہوا نہ کہ دو مرتبہ پھٹا۔ (عبداللہ رفیق)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11266

۔ (۱۱۲۶۶)۔ عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا یَقُوْلُ: انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۴۰۰۳)
قتادۃ کا بیان ہے کہ میں نے سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عہد میں چاند دو ٹکڑے ہوا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11267

۔ (۱۱۲۶۷)۔ عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعَمٍ قَالَ: انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَصَارَ فِرْقَتَیْنِ فِرْقَۃً عَلٰی ھٰذَا الْجَبَلِ وَفِرْقَۃً عَلٰی ھٰذَا الْجَبَلِ، فَقَالُوْا: سَحَرَنَا مُحَمَّدٌ، فَقَالُوْا: اِنْ کَانَ سَحَرَنَا فَاِنَّہُ لَایَسْتَطِیْعُ أَنْ یَسْحَرَ النَّاسَ کُلَّھُمْ۔ (مسند احمد: ۱۶۸۷۱)
سیدنا جبیر بن مطعم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ عہد نبوی میں چاند دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا، ایک ٹکڑا اس پہاڑ پر اور ایک ٹکڑا اس پہاڑ پر نظر آ رہا تھا، کافروں نے کہا: محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) نے ہم پر جادو کر دیا، لیکن بعض لوگوں نے کہا: اگر ہم پر جادو کر دیا ہے تو اس کو اتنی طاقت تو نہیں ہے کہ سب لوگوں پر جادو کر دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11268

۔ (۱۱۲۶۸)۔ عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّۃَ قَالَ: لَقَدْ رَأَیْتُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثَلَاثًا، مَا رَآہَا أَحَدٌ قَبْلِی وَلَا یَرَاہَا أَحَدٌ بَعْدِی، لَقَدْ خَرَجْتُ مَعَہُ فِی سَفَرٍ حَتّٰی إِذَا کُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِیقِ مَرَرْنَا بِامْرَأَۃٍ جَالِسَۃٍ مَعَہَا صَبِیٌّ لَہَا، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ہٰذَا صَبِیٌّ أَصَابَہُ بَلَائٌ، وَأَصَابَنَا مِنْہُ بَلَائٌ، یُؤْخَذُ فِی الْیَوْمِ، مَا أَدْرِی کَمْ مَرَّۃً، قَالَ: ((نَاوِلِینِیہِ۔)) فَرَفَعَتْہُ إِلَیْہِ فَجَعَلتْہُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ وَاسِطَۃِ الرَّحْلِ، ثُمَّ فَغَرَ فَاہُ فَنَفَثَ فِیہِ ثَلَاثًا وَقَالَ: ((بِسْمِ اللّٰہِ أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ اخْسَأْ عَدُوَّ اللّٰہِ۔)) ثُمَّ نَاوَلَہَا إِیَّاہُ فَقَالَ: ((الْقَیْنَا فِی الرَّجْعَۃِ فِی ہٰذَا الْمَکَانِ فَأَخْبِرِینَا مَا فَعَلَ۔)) قَالَ: فَذَہَبْنَا وَرَجَعْنَا فَوَجَدْنَاہَا فِی ذٰلِکَ الْمَکَانِ مَعَہَا شِیَاہٌ ثَلَاثٌ، فَقَالَ: ((مَا فَعَلَ صَبِیُّکِ؟)) فَقَالَتْ: وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، مَا حَسَسْنَا مِنْہُ شَیْئًا حَتَّی السَّاعَۃِ فَاجْتَرِرْ ہٰذِہِ الْغَنَمَ، قَالَ: ((انْزِلْ فَخُذْ مِنْہَا وَاحِدَۃً وَرُدَّ الْبَقِیَّۃَ وَفِیْ رِوَایَۃٍ فَاَھْدَتْ اِلَیْہِ کَبْشَیْنِ وَشَیْئٍ مِنق اَخِطٍ وَشَیْئٍ مِنَ السَّمَلِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خُذِ الْاَقِطَ وَالسَّمَنَ وَاَحَدَ الْکَبْشَیْنِ وَرُدَّ عَلَیْھَا الْاٰخَرَ)) قَالَ: وَخَرَجْتُ ذَاتَ یَوْمٍ إِلَی الْجَبَّانَۃِ حَتّٰی إِذَا بَرَزْنَا، قَالَ: ((انْظُرْ وَیْحَکَ ہَلْ تَرٰی مِنْ شَیْئٍیُوَارِینِی؟)) قُلْتُ: مَا أَرٰی شَیْئًایُوَارِیکَ إِلَّا شَجَرَۃً مَا أُرَاہَا تُوَارِیکَ، قَالَ: ((فَمَا بِقُرْبِہَا؟)) قُلْتُ: شَجَرَۃٌ مِثْلُہَا أَوْ قَرِیبٌ مِنْہَا، قَالَ: ((فَاذْہَبْ إِلَیْہِمَا فَقُلْ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَأْمُرُکُمَا أَنْ تَجْتَمِعَا بِإِذْنِ اللّٰہِ)) قَالَ: فَاجْتَمَعَتَا فَبَرَزَ لِحَاجَتِہِ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ: ((اذْہَبْ إِلَیْہِمَا فَقُلْ: لَہُمَا إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَأْمُرُکُمَا أَنْ تَرْجِعَ کُلُّ وَاحِدَۃٍ مِنْکُمَا إِلٰی مَکَانِہَا)) فَرَجَعَتْ، قَالَ: وَکُنْتُ عِنْدَہُ جَالِسًا ذَاتَ یَوْمٍ إِذْ جَائَہُ جَمَلٌ یُخَبِّبُ حَتّٰی صَوَّبَ بِجِرَانِہِ بَیْنَیَدَیْہِ ثُمَّ ذَرَفَتْ عَیْنَاہُ، فَقَالَ: ((وَیْحَکَ انْظُرْ لِمَنْ ہٰذَا الْجَمَلُ إِنَّ لَہُ لَشَأْنًا)) قَالَ: فَخَرَجْتُ أَلْتَمِسُ صَاحِبَہُ فَوَجَدْتُہُ لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَدَعَوْتُہُ إِلَیْہِ، فَقَالَ: ((مَا شَأْنُ جَمَلِکَ ہٰذَا؟)) فَقَالَ: وَمَا شَأْنُہُ، قَالَ: لَا أَدْرِی وَاللّٰہِ! مَا شَأْنُہُ عَمِلْنَا عَلَیْہِ وَنَضَحْنَا عَلَیْہِ حَتّٰی عَجَزَ عَنْ السِّقَایَۃِ فَأْتَمَرْنَا الْبَارِحَۃَ أَنْ نَنْحَرَہُ وَنُقَسِّمَ لَحْمَہُ، قَالَ: ((فَلَا تَفْعَلْ ہَبْہُ لِی أَوْ بِعْنِیہِ)) فَقَالَ: بَلْ ہُوَ لَکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: فَوَسَمَہُ بِسِمَۃِ الصَّدَقَۃِ ثُمَّ بَعَثَ بِہِ۔ (مسند احمد: ۱۷۶۹۰)
سیدنایعلی بن مرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تین ایسی باتیں ملاحظہ کی ہیں، جن کو نہ تو مجھ سے پہلے کسی نے دیکھا اور نہ میرے بعد ہی کوئی ان کا ملاحظہ کر سکے گا، ایک دفعہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ سفر میں تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دوران سفر راستہ پر بیٹھی ہوئی ایک عورت کے پاس سے گزرے، اس کے پاس اس کا ایک (چھوٹا سا) بچہ تھا۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس بچے کو جنات چمٹے ہوئے ہیں، اس کی وجہ سے ہم بہت زیادہ پریشان ہیں، اس کو ایک ایک دن میں کئی کئی بار دورہ پڑتا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ مجھے پکڑائو۔ اس نے بچے کو اٹھا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اور پالان کی لکڑی کے درمیان بٹھا دیا، آپ نے اس کا منہ کھول کر اس میں تین بار پھونک ماری، جس کے ساتھ تھوک بھی تھا اور یہ دعا پڑھی: بِسْمِ اللّٰہِ أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ اخْسَأْ عَدُوَّ اللّٰہِ۔ (میں اللہ کا نام لے کر کہتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ ہوں،تو ناکام ہو جا اے اللہ کے دشمن )پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ بچہ اس عورت کو تھما دیا اور فرمایا: تم واپسی پر ہمیں یہیں ملنا اور بتلانا کہ کیا نتیجہ نکلا ہے۔ سیدنایعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:۔ ہم آگے چلے گئے، پھر جب ہم واپس آئے تو ہم نے اس عورت کو اسی جگہ پایا۔ اس کے پاس تین بکریاں تھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: تمہارے بچے کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا:اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! ہم نے اُس وقت سے اب تک کوئی چیز محسوس نہیں کی۔ آپ یہ بکریاں بطور عطیہ (ہدیہ) قبول فرمائیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم اتر کر ایک بکری لے لو اور باقی واپس کردو۔ ایک روایت میں ہے: اس نے دو مینڈھے اور کچھ پنیر اور کچھ گھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم پنیر، گھی اور ایک مینڈھا رکھ لو اور دوسرا مینڈھا واپس لوٹا دیا۔ سیدنایعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں ایک روز جبانہ (ویرانے) کی طرف نکل گیا، جب ہم کھلی جگہ پر پہنچے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارا بھلا ہو، کوئی ایسی چیز دیکھوجو (قضائے حاجت کے وقت) میرے لیے آڑ بن سکے۔ میں نے عرض کیا: مجھے تو ایسی کوئی نظر نہیں آرہی، صرف ایک درخت ہے، میرے خیال میں وہ بھی آپ کی آڑ کا کام نہیں دے سکتا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے قریب کیا چیز ہے؟ میں نے عرض کیا: اس جیسا ایک درخت ہے یایوں کہا کہ اس کے قریب ہی ایک اور درخت ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ان درختوں کے پاس جا کر کہو کہ اللہ کے رسول تمہیں حکم دے رہے ہیں کہ تم اللہ کے حکم سے اکٹھے ہو جائو۔ سیدنایعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ یہ بات سن کر وہ دونوں درخت آپس میں مل گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی اوٹ میں قضائے حاجت کی اور پھر واپس آگئے اور فرمایا: تم ان درختوں کے پاس جا کر ان سے کہو کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم دونوں اپنی اپنی جگہ پہ واپس چلے جائو۔ چنانچہ وہ اپنی اپنی جگہ لوٹ گئے۔ سیدنایعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:ایک دن میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اونٹ دوڑتا ہوا آیا اور اس نے اپنی گردن کا نیچے والا حصہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے زمین پر رکھ دیا اور اس کی آنکھ سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیرا بھلا ہو، پتہ کرکے آئو کہ یہ اونٹ کس کا ہے؟ اس کا ایک کام ہے۔ میں اس کے مالک کی تلاش میں نکلا، وہ ایک انصاری کا تھا۔ میں اس کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بلا لایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیرے اونٹ کو کیا شکایت ہے؟ اس نے کہا:اسے کیا شکایت ہے؟ میں تو نہیں جانتا کہ اسے کیا شکایت ہے؟ ہم اس پر کام کرتے رہے اور پانی لاد کر لاتے رہے، اب یہ پانی اٹھا کر لانے سے قاصر ہے، تو ہم نے کل مشورہ کیا کہ اسے نحر (ذبح) کرکے اس کا گوشت تقسیم کر دیں۔ آپ نے فرمایا: تم ایسا نہ کرنا، تم یہ اونٹ مجھے ہبہ کر دو یا فروخت کردو۔ اس نے کہا:اے اللہ کے رسول! یہ آپ کا ہے، آپ رکھ لیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے بیت المال کے صدقہ والے اونٹوں والا نشاں لگا کر ادھر بھیج دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11269

۔ (۱۱۲۶۹)۔ (وَعَنْہُ عَنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ بِنَحْوِہِ) وَفِیْہِ: وَجَائَ بَعِیرٌ فَضَرَبَ بِجِرَانِہِ إِلَی الْأَرْضِ ثُمَّ جَرْجَرَ حَتَّی ابْتَلَّ مَا حَوْلَہُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَتَدْرُونَ مَا یَقُولُ الْبَعِیرُ؟ إِنَّہُ یَزْعُمُ أَنَّ صَاحِبَہُ یُرِیدُ نَحْرَہُ۔)) فَبَعَثَ إِلَیْہِ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((أَوَاہِبُہُ أَنْتَ لِی۔)) فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا لِی مَالٌ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْہُ، قَالَ: ((اسْتَوْصِ بِہِ مَعْرُوفًا۔)) فَقَالَ: لَا جَرَمَ لَا أُکْرِمُ مَالًا لِی کَرَامَتُہُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، وَأَتٰی عَلٰی قَبْرٍ یُعَذَّبُ صَاحِبُہُ فَقَالَ: ((إِنَّہُ یُعَذَّبُ فِی غَیْرِ کَبِیرٍ۔)) فَأَمَرَ بِجَرِیدَۃٍ فَوُضِعَتْ عَلٰی قَبْرِہِ فَقَالَ: ((عَسَی أَنْ یُخَفَّفَ عَنْہُ مَا دَامَتْ رَطْبَۃً۔)) (مسند احمد: ۱۷۷۰۲)
۔(دوسری سند) یہ حدیث بھی گزشتہ حدیث کی مانند مروی ہے، البتہ کچھ تفصیل اس میںیوں ہے: ایک اونٹ نے آکر اپنا سینہ زمین پر رکھ دیا اورپھر اس نے اس قدر جھاگ نکالی کہ اردگرد کی جگہ تر ہوگئی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: آیا تم جانتے ہو یہ اونٹ کیا کہہ رہاہے ؟ یہ کہہ رہا ہے کہ اس کا مالک اسے ذبح کرنا چاہتا ہے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے مالک کو پیغام بھیجا، جب وہ آ گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: کیا تم یہ اونٹ مجھے ہبہ کرتے ہو؟ اس نے کہا:اے اللہ کے رسول! یہ مجھے اپنے سارے مال میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اچھا تو پھر میں تمہیں اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیتاہوں۔ اس نے کہا: ٹھیک ہے اے اللہ کے رسول! میرا جس قدر بھی مال ہے، میں سب سے بڑھ کر اس کا اکرام کروں گا۔ سیدنایعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے، اس قبر والے کو عذاب ہو رہا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے کسی مشکل کام کی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی قبر پر ایک چھڑی رکھنے کا حکم دیا، پس وہ رکھ دی گئی،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: امید ہے کہ جب تک یہ تر رہے گی اس کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11270

۔ (۱۱۲۷۰)۔ (وَعَنْہٗمِنْطَرِیْقٍ ثَالِثٍ) قَالَ: قَالَ ثَلَاثَۃُ أَشْیَائَ، رَأَیْتُہُنَّ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَا نَحْنُ نَسِیرُ مَعَہُ إِذْ مَرَرْنَا بِبَعِیرٍیُسْنٰی عَلَیْہِ، فَلَمَّا رَآہُ الْبَعِیرُ جَرْجَرَ وَوَضَعَ جِرَانَہُ، فَوَقَفَ عَلَیْہِ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((أَیْنَ صَاحِبُ ہٰذَا الْبَعِیرِ؟)) فَجَائَ فَقَالَ: ((بِعْنِیہِ۔)) فَقَالَ: لَا بَلْ أَہَبُہُ لَکَ، فَقَالَ: ((لَا، بِعْنِیہِ۔)) قَالَ: لَا بَلْ أَہَبُہُ لَکَ وَإِنَّہُ لِأَہْلِ بَیْتٍ مَا لَہُمْ مَعِیشَۃٌ غَیْرُہُ، قَالَ: ((أَمَا إِذْ ذَکَرْتَ ہٰذَا مِنْ أَمْرِہِ فَإِنَّہُ شَکَا کَثْرَۃَ الْعَمَلِ وَقِلَّۃَ الْعَلَفِ فَأَحْسِنُوا إِلَیْہِ۔)) قَالَ: ثُمَّ سِرْنَا فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا فَنَامَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَائَ تْ شَجَرَۃٌ تَشُقُّ الْأَرْضَ حَتّٰی غَشِیَتْہُ ثُمَّ رَجَعَتْ إِلٰی مَکَانِہَا، فَلَمَّا اسْتَیْقَظَ ذَکَرْتُ لَہُ، فَقَالَ: ((ہِیَ شَجَرَۃٌ اسْتَأْذَنَتْ رَبَّہَا عَزَّوَجَلَّ أَنْ تُسَلِّمَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَذِنَ لَہَا۔)) قَالَ: ثُمَّ سِرْنَا فَمَرَرْنَا بِمَائٍ فَأَتَتْہُ امْرَأَۃٌ بِابْنٍ لَہَا بِہِ جِنَّۃٌ، فَأَخَذَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِمَنْخَرِہِ فَقَالَ: ((اخْرُجْ إِنِّی مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ۔)) قَالَ: ثُمَّ سِرْنَا فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ سَفَرِنَا مَرَرْنَا بِذٰلِکَ الْمَائِ، فَأَتَتْہُ الْمَرْأَۃُ بِجَزُورٍ وَلَبَنٍ، فَأَمَرَہَا أَنْ تَرُدَّ الْجَزُورَ وَأَمَرَ أَصْحَابَہُ فَشَرِبَ مِنَ اللَّبَنِ فَسَأَلَہَا عَنِ الصَّبِیِّ، فَقَالَتْ: وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا رَأَیْنَا مِنْہُ رَیْبًا بَعْدَکَ۔ (مسند احمد: ۱۷۷۰۸)
۔(تیسری سند ) سیدنایعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے تین امور مشاہدہ کئے، ایک دفعہ ہم آپ کے ساتھ جا رہے تھے، ہم ایک اونٹ کے پاس سے گزرے، جس پر کھیتی کو سیراب کرنے کے لیے پانی لادا جاتا تھا۔ اونٹ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا تو وہ جھاگ اگلنے لگا اور اس نے( زمین پر بیٹھ کر) اپنی گردن زمین پر لگا دی۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پاس کھڑ ے ہوگئے اور پوچھا: اس اونٹ کا مالک کہاں ہے؟ جب وہ آیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم یہ اونٹ مجھے فروخت کردو۔ اس نے کہا: میں اسے آپ کے ہاتھ فروخت نہیں کرتا، البتہ آپ کو ہبہ کر دیتا ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ تم اس کو میرے ہاتھ پر فروخت کردو۔ اس نے کہا: جی نہیں، میں اسے فروخت نہیں، بلکہ ہم اسے آپ کے نام ہبہ کرتے ہیں۔ وہ اونٹ ایسے گھرانے کا تھاکہ جن کا اس کے سوا کوئی اور ذریعۂ معاش نہیں تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے اس کے متعلق جو کچھ ذکر کیا ہے، وہ اپنی جگہ درست ہے، دراصل بات یہ ہے کہ اس نے کام کی کثرت اور گھاس کی کمی کی شکایت کی ہے، تم اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو۔ سیدنایعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اس کے بعد ہم آگے گئے اور ایک مقام پر رکے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سو گئے، ہم کیا دیکھتے ہیں کہ ایک درخت زمین کو چیرتا ہوا آیا اور اس نے آپ کو ڈھانپ لیا، پھر وہ اپنی جگہ واپس لوٹ گیا۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیدار ہوئے تو میں نے اس واقعہ کا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس درخت نے اپنے رب تعالیٰ سے اجازت طلب کی کہ وہ اللہ کے رسول کو سلام کہہ لے، تو اسے اجازت دے دی گئی۔ سیدنایعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم آگے گئے اور پانی کے ایک چشمے (یا تالاب) کے پاس سے گزرے۔ ایک عورت اپنے بیٹے کو لیے آئی، جسے جن چمٹے ہوئے تھے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس بچے کی ناک کو پکڑ کر فرمایا: نکل جا، میں اللہ کا رسول محمد (تجھے یہ حکم دے رہا) ہوں۔ سیدنایعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:پھر ہم آگے روانہ ہوگئے، ہم سفر سے واپس آئے اور اس چشمے یا تالاب کے پاس سے گزرے تو وہ عورت ایک موٹی تازی بکری اور دودھ لے کر حاضر ہوئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بکری واپس کر دینے کا حکم دیا اور صحابہ کو دودھ پی لینے کا امر صادر فرمایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے بچے کے متعلق دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! ہم نے آپ کے بعد اس میں بیماری کا کوئی اثر نہیں دیکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11271

۔ (۱۱۲۷۱)۔ (وَعَنْہٗمِنْطَرِیْقٍ رَابِعٍ) قَالَ: مَا أَظُنُّ أَنَّ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ رَأٰی مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَّا دُونَ مَا رَأَیْتُ، فَذَکَرَ أَمْرَ الصَّبِیِّ وَالنَّخْلَتَیْنِ، وَأَمْرَ الْبَعِیرِ إِلَّا أَنَّہُ قَالَ: ((مَا لِبَعِیرِکَیَشْکُوکَ زَعَمَ أَنَّکَ سَانِیہِ حَتّٰی إِذَا کَبُرَ تُرِیدُ أَنْ تَنْحَرَہُ۔)) قَالَ: صَدَقْتَ وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ نَبِیًّا، قَدْ أَرَدْتُ ذٰلِکَ وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَا أَفْعَلُ۔ (مسند احمد: ۱۷۷۱۰)
۔(چوتھی سند) سیدنایعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جو باتیں دیکھی ہیں، دوسروں نے ان سے کم ہی دیکھی ہوں گی۔ پھر انہوں نے بچے کا، دو کھجوروں کا اور اونٹ والا واقعہ ذکر کیا۔ البتہ اس روایت میں یوں ہے کہ آپ نے اونٹ کے مالک سے فرمایا: کیا بات ہے، یہ اونٹ تمہاری شکایت کر رہا ہے؟ یہ کہہ رہا ہے کہ تم اس پر پانی لاد لاد کر اس سے کام لیتے رہے اور اب جب یہ بوڑھا ہو گیا ہے تو تم اسے نحر کر دینا چاہتے ہو۔ اس نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر مبعوث کیا ہے! آپ کی بات واقعی درست ہے، میرایہی ارادہ ہے،اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! میں اسے نحر(ذبح) نہیں کروں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11272

۔ (۱۱۲۷۲)۔ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ الْأَزْدِیِّ قَالَ: حَدَّثَتْنِی أُمِّی أَنَّہَا رَأَتْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَرْمِی جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِی، وَخَلْفَہُ إِنْسَانٌ یَسْتُرُہُ مِنَ النَّاسِ أَنْ یُصِیبُوہُ بِالْحِجَارَۃِ وَہُوَ یَقُولُ: ((أَیُّہَا النَّاسُ لَا یَقْتُلْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا وَإِذَا رَمَیْتُمْ فَارْمُوْا بِمِثْلِ حَصَی الْخَذْفِ۔)) ثُمَّ أَقْبَلَ فَأَتَتْہُ امْرَأَۃٌ بِابْنٍ لَہَا فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ ابْنِی ہٰذَا ذَاہِبُ الْعَقْلِ فَادْعُ اللّٰہَ لَہُ، قَالَ لَہَا: ((ائْتِینِی بِمَائٍ۔)) فَأَتَتْہُ بِمَائٍ فِی تَوْرٍ مِنْ حِجَارَۃٍ، فَتَفَلَ فِیہِ وَغَسَلَ وَجْہَہُ، ثُمَّ دَعَا فِیہِ، ثُمَّ قَالَ: ((اذْہَبِی فَاغْسِلِیہِ بِہِ، وَاسْتَشْفِی اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ۔)) فَقُلْتُ لَہَا: ہَبِی لِی مِنْہُ قَلِیلًا لِابْنِی ہٰذَا فَأَخَذْتُ مِنْہُ قَلِیلًا بِأَصَابِعِیْ فَمَسَحْتُ بِہَا شِقَّۃَ ابْنِی، فَکَانَ مِنْ أَبَرِّ النَّاسِ، فَسَأَلْتُ الْمَرْأَۃَ بَعْدُ مَا فَعَلَ ابْنُہَا، قَالَتْ: بَرِئَ أَحْسَنَ بَرْئٍ۔ (مسند احمد: ۲۷۶۷۲)
سلیمان بن عمرو بن احوص ازدی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میری والدہ نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جمرۂ عقبہ کی رمی کرتے ہوئے دیکھا، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آگے بڑھے اورایک عورت اپنے بچے کو لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آگئی اور اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرایہبیٹا پاگل ہے، آپ اللہ تعالیٰ سے اس کے حق میں دعا فرمائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: پانی لائو۔ وہ پتھر کے ایک برتن میں پانی لے کر آئی، آپ نے اس میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور آپ نے اپنا چہرہ اس برتن کے اوپر دھویا، پانی نیچے اس برتن میں گرا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس برتن میں دعا پڑھی اور فرمایا : جائو بچے کو اس پانی کے ساتھ غسل دینا اور اللہ تعالیٰ سے شفا کی دعا کرنا۔ میں نے اس سے کہا: تو اس پانی میں سے تھوڑا سا مجھے بھی دے دے تاکہ میں اپنے بیٹے کو پلا لوں، پھر میں نے اپنی انگلی کے ساتھ اس میں سے تھوڑا سا پانی لے کر اپنے بیٹے کے ہونٹ پر لگا دیا۔ اس کے نتیجے میں وہ سب سے بڑھ کر نیک ہوا۔ میں نے اس کے بعد اس عورت سے اس کے بیٹے کے متعلق دریافت کیا کہ اس کا کیا حال ہے؟ اس نے بتلایاکہ وہ بالکل ٹھیک ہو گیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11273

۔ (۱۱۲۷۳)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ امْرَأَۃً جَاء َتْ بِوَلَدِہَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ بِہِ لَمَمًا وَإِنَّہُ یَأْخُذُہُ عِنْدَ طَعَامِنَا، فَیُفْسِدُ عَلَیْنَا طَعَامَنَا، قَالَ: فَمَسَحَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَدْرَہُ وَدَعَا لَہُ فَتَعَّ تَعَّۃً، فَخَرَجَ مِنْ فِیہِ مِثْلُ الْجَرْوِ الْأَسْوَدِ فَشُفِیَ۔ (مسند احمد: ۲۱۳۳)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت اپنے بیٹے کو لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئی اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس پر جنون یعنی پاگل پن کا اثر ہے اور اسے ہمارے کھانے کے وقت دورہ پڑتا ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے سینے پر ہاتھ پھیرا اور اس کے لیے دعا کی، تو اسے ایک قے آئی اور اس کے منہ سے کتے کے پلے کی سی کوئی سیاہ چیز نکلی اور و ہ شفا یاب ہوگیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11274

۔ (۱۱۲۷۴)۔ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ عُبَیْدٍ قَالَ: رَأََیْتُ أَثَرَ ضَرْبَۃٍ فِیْ سَاقِ سَلَمَۃَ بْنِ الْاَکْوَعِ فَقُلْتُ: یَا أَبَا مُسْلِمٍ! مَا ھٰذِہِ الضَّرْبَۃُ؟ قَالَ: ھٰذِہِ ضَرْبَۃٌ أُصِبْتُہَا یَوْمَ خَبْیَرَ، قَالَ: یَوْمَ أُصِبْتُہَا، قَالَ النَّاسُ: أُصِیْبَ سَلَمَۃُ، فَأُتِیَ بِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَفَثَ فِیْہِ ثَلَاثَ نَفَثَاتٍ، فَمَا اشْتَکَیْتُہَا حَتَّی السَّاعَۃِ۔ (مسند احمد: ۱۶۶۲۹)
یزید بن عبید سے مروی ہے،وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی پنڈلی پر زخم کا ایک نشان دیکھا، میں نے پوچھا: ابو مسلم! یہ نشان کیسا ہے؟ انہوں نے کہا: خیبر کے دن مجھے زخم لگا تھا، یہ اس کا نشان ہے، جس دن مجھے یہ زخم آیا تھا، لوگوں نے کہا: سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو شدید قسم کا زخم آیا ہے، مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لایا گیا، آپ نے اس زخم پر تھوک کے ساتھ تین پھونکیں ماریں، اس کے بعد اب تک مجھے اس میں کوئی درد محسوس نہیں ہوا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11275

۔ (۱۱۲۷۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أُتِیَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَجُلٌ مِنْ بَنِیْ عَامِرٍ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَرِنِی الْخَاتَمَ الَّذِیْ بَیْنَ کَتِفَیْکَ، فَأِنِّی مِنْ أَطَبِّ النَّاسِ، فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَلَا أُرِیْکَ آیَۃً؟)) قَالَ: بَلٰی، قَالَ: فَنَظَرَ إِلٰی نَخْلَۃٍ، فَقَالَ: ((أُدْعُ ذٰلِکَ الْعِذْقَ۔)) قَالَ: فَدَعَاہُ، فَجَائَ یَنْقُزُ حَتّٰی قَامَ بَیْنَیَدَیْہِ، فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِرْجِعْ۔)) فَرَجَعَ إِلٰی مَکَانِہِ، فَقَالَ الْعَامِرِیُّ: یَا آلَ بَنِی عَامِرٍ! مَا رَأَیْتُ کَالْیَوْمِ رَجُلاً أَسْحَرَ۔ (مسند احمد۱۹۵۴)
سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے،وہ کہتے ہیں : قبیلہ ٔ بنو عامر کا ایک فرد نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! آپ کے کندھوں کے درمیان جو ابھرا ہوا گوشت ہے، وہ مجھے دکھلائیں۔ میں ایک ماہر طبیب ہوں۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: آیا میں تجھے ایک نشانی نہ دکھلائوں؟ اس نے کہا ضرور دکھلائیں ۔ آپ نے کھجور کے ایک درخت کی طرف دیکھ کر فرمایا: کھجور کے اس درخت کو بلائو۔ اس نے اسے بلایا تو وہ چھلانگیں لگاتاہوا آیا اور آپ کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا ۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے واپس لوٹ جانے کا حکم دیا تو وہ اپنی جگہ واپس پلٹ گیا۔ تو اس عامری نے کہا :اے آل بنو عامر! میں نے اس سے بڑا جادو گر کبھی نہیں دیکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11276

۔ (۱۱۲۷۶)۔ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍقَالَ: أَرْدَفَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ یَوْمٍ خَلْفَہٗ،فَأَسَرَّإِلَیَّ حَدِیْثاً لَا أُخْبِرُ بِہِ أَحَداً أَبَداً، وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَحَبُّ مَا اسْتَتَرَبِہِ فِیْ حَاجَتِہِ ھَدَفٌ، أَوْحَائِشُ نَخْلٍ، فَدَخَلَ یَوْماً حَائِطاً مِنْ حِیْطَانِ الْأَنْصَارِ، فَاِذَا جَمَلٌ قَدْ أَتَاہٗفَجَرْجَرَ،وَذَرَفَتْعَیْنَاہٗ، قَالَ بَہْزٌوَعَفَّّانُ: فَلَمَّّا رَأَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَنَّ وَ ذَرَفَتْ عَیْنَاہٗ، فَمَسَحَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَرَاتَہٗوَذِفْرَاہٗ، فَسَکَنَ۔ فَقَالَ: ((مَنْ صَاحِبُ الْجَمَلِ؟)) فَجَائَ فَتًی مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: ھُوَ لِیْیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، فَقَالَ: ((أَمَا تَتَّقِی اللّٰہَ فِی ھٰذِہِ الْبَہِیْمَۃِ الَّتِیْ مَلَّّکَکَہَا اللّٰہٗ۔)) إِنَّہُشَکَااِلَیَّ أَنَّکَ تُجِیْعُہٗ وَتُدْئِبُہٗ۔ (مسنداحمد: ۱۷۴۵)
سیدناعبداللہ بن جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے،وہ کہتے ہیں : اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک دن مجھے سواری پر اپنے پیچھے سوار کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے راز دارانہ طور پر ایک بات فرمائی،جو میں کبھی بھی کسی کو نہیں بتلائوں گا۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قضائے حاجت کے وقت کسی بلند عمارت یا کھجوروں کے جھنڈکو پسند کیا کرتے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک دن انصاریوں کے کھجوروں کے باغات میں سے ایک باغ میں تشریف لے گئے، تو ایک اونٹ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آکر بلبلانا اور آنکھوں سے آنسو بہانا شرو ع کر دیا۔ جعفر اور عفان سے مروی ہے،وہ کہتے ہیں: اس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا تو رونے لگا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی پشت پر اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو وہ پر سکون ہوگیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا ـ: اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ ایک انصاری نو جوان نے آکر عرض کی: اے اللہ کے رسول! یہ اونٹ میرا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : اللہ نے تمہیں اس جانور کا مالک بنایا ہے۔ کیا تم اس کے بارے میں اللہ سے نہیں ڈرتے؟ اس نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور مشقت زیادہ لیتے ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11277

۔ (۱۱۲۷۷)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنِّی لَأَعْرِفُ حَجَرًا بِمَکَّۃَ کَانَ یُسَلِّمُ عَلَیَّ قَبْلَ أَنْ أُبْعَثَ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: لَیَالِیَ بُعِثْتُ) اِنِّی لَأَعِرُفُہُ الْآنَ۔)) (مسند احمد: ۲۱۱۱۳)
سیدنا جابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک میں مکہ مکرمہ میں ایک پتھر کو پہچانتا ہوں، وہ بعثت سے پہلے یا بعثت والی راتوں کو مجھ کو سلام کہتا تھا، میں اب بھی اس کو پہچانتا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11278

۔ (۱۱۲۷۸)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ قاَلَ: عَدَا الذِّئْبُ عَلٰی شَاۃٍ فَأَخَذَھَا فَطَلَبَہُ الرَّاعِیْ فَانْتَزَعَھَا مِنْہُ فَأَقْعَی الذِّئْبُ عَلٰی ذَنَبِہِ قَالَ: أَلَا تَتْقِی اللّٰہَ! تَنْزِعُ عَنِّیْ رِزْقًا سَاقَہُ اللّٰہُ اِلَیَّ؟ فَقَالَ: یَا عَجَبِیْ! ذِئْبٌ مُقْعٍ عَلٰی ذَنَبِہِ یُکَلِّمُنِیْ کَلَامَ الْإِنْسِ، فَقَالَ الذِّئْبُ: أَلَا أُخْبِرُکَ بِأَعْجَبَ مِنْ ذٰلِکَ؟ مُحَمَّدٌ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِیَثْرِبَیُخْبِرُ النَّاسَ بِاَنْبَائِ مَا قَدْ سَبَقَ، قَالَ: فَأَقْبَلَ الرَّاعِیْیَسُوْقُ غَنَمَہُ حَتّٰی دَخَلَ الْمَدِیْنَۃَ فَزَوَاھَا اِلٰی زَاوِیَۃِ مِنْ زَوَایَاھَا، ثُمَّّ أَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرَہُ، فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنُوْدِیَ اَلصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ، ثُمَّّ خَرَجَ فَقَالَ لِلرَّاعِیْ: ((أَخْبِرْھُمْ)) فَأَخْبَرَھُمْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((صَدَقَ، وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰییُکَلِّمَ السِّبَاعُ الْاِنْسَ، وَیُکَلِّمَ الرَجُلَ عَذَبَۃُ سَوْطِہِ وَشِرَاکُ نَعْلِہِ وَیُخْبِرُُہُ فَخِذُہُ بِمَا أَحْدَثَ أَھْلُہُ بَعْدَہُ۔)) (مسند احمد: ۱۱۸۱۴)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ایک بھیڑئیے نے ایک بکری پر حملہ کیا اور اس کو پکڑ لیا، لیکن چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور اس سے بکری چھین لی، وہ بھیڑیا اپنی دم پر بیٹھ گیا اور اس نے کہا: کیا تو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا، تو مجھ سے وہ رزق چھینتا ہے، جو اللہ تعالیٰ مجھے عطا کیا ہے؟ اس نے کہا: بڑا تعجب ہے، اپنی دم پر بیٹھا ہوا یہ بھیڑیا انسان کی طرح مجھ سے کلام کرتا ہے، اتنے میں بھیڑیئے نے پھر کہا: کیا میں تجھے اس سے زیادہ تعجب والی بات بتاؤں؟ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یثرب میں ظاہر ہو چکے ہیں اور لوگوں کو ماضی کی خبریں بتلاتے ہیں، چرواہے نے اپنے بکریوں کو ہانکنا شروع کیا،یہاں تک کہ مدینہ میں داخل ہوا اور مدینہ کے ایک کونے میں ان کو جمع کیا اور پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور سارے ماجرے کی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو خبر دی، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم دیا اور اَلصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ کی آواز لگائی گئی، جب لوگ جمع ہو گئے توآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف لائے اور چرواہے سے فرمایا: اِن لوگوں کو وہ بات بتلاؤ۔ پس اس نے ان کو یہ بات بتلائی، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ سچ کہہ رہا ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی، جب تک ایسا نہیں ہو گا کہ درندے لوگوں سے باتیں کریں گے، آدمی کے کوڑے کا کنارہ اور جوتے کا تسمہ اس سے کلام کرے گا اور بندے کی ران اس کو وہ کچھ بتلائے گی، جو اس کے اہل نے اس کے بعد کیا ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11279

۔ (۱۱۲۷۹)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: بَیْنَا رَجُلٌ مِنْ أَسْلَمَ فِیْ غُنَیمَۃٍ لَہُ یَھُشُّ عَلَیْھَا فِیْ بَیْدَائِ ذِی الْحُلَیْفَۃِ اِذْ عَدَا عَلَیْہِ الذِّئْبُ فَانْتَزَعَ شَاۃً مِنْ غَنَمِہِ فَجَھْجَأَہُ الرَجُلُ فَرَمَاہُ بِالْحِجَارَۃِ حَتَّی اسْتَنْقَذَ مِنْہُ شَاتَہُ، ثُمَّّ اِنَّ الذِّئْبَ أَقْبَلَ حَتّٰی أَقْعٰی مُسَتَذْفِرًا بِذَنَبِہِ مُقَابِلَ الرَّجُلِ، فَذَکَرَ نَحْوَ حَدِیْثِ شُعَیْبِ بْنِ أَبِیْ حَمْزَۃَ۔ (مسند احمد: ۱۱۸۶۶)
۔(دوسری سند) بنو اسلم قبیلے کا ایک آدمی ذو الحلیفہ میں بیداء مقام پر اپنی بکریوں پر درختوں کے پتے جھاڑ رہا تھا، اچانک ایک بھیڑ ئیے نے حملہ کیا اور ایک بکری لے گیا، لیکن اس بندے نے اس کو ڈانٹا، چلّایا اور اس کو پتھر مارا اور اس سے اپنی بکری چھڑا لی، پھر وہ بھیڑیا اپنی دم کو ٹانگوں کے درمیان کر کے اس آدمی کے سامنے بیٹھ گیا، ……۔ آگے وہی روایت ذکر کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11280

۔ (۱۱۲۸۰)۔ عَنْ مُجَاھِدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شَیْخٌ أَدْرَکَ الْجَاھِلِیَّۃَ وَنَحْنُ فِیْ غَزْوَۃِ رُوْدِسَ یُقَالُ لَہُ:اِبْنُ عَبْسٍ، قَالَ: کُنْتُ أَسُوْقُ لِآلٍ لَنَا بَقَرَۃً، قَالَ: فَسَمِعْتُ مِنْ جَوْفِھَا یَا آلَ ذَرِیْحٍٍ، قَوْلٌ فَصِیْحٌ، رَجُلٌ یَصِیْحُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، قَالَ: فَقَدِمْنَا مَکَّۃَ فَوَجَدْنَا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ خَرَجَ بِمَکَّۃَ۔ (مسند احمد: ۱۶۸۱۵)
مجاہد کہتے ہیں: جاہلیت کو پانے والے ایک شیخ نے ہم کو بیان کیا، جبکہ ہم غزوۂ رودِس میں تھے، اس شیخ کو ابن عبس کہتے تھے، اس نے کہا: میں اپنی آل کی ایک گائے کو ہانک رہا تھا کہ میں نے اس کے پیٹ سے یہ آواز سنی: اے آل ذریح! فصاحت والا کلام ہے، ایک آدمی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی آواز لگا رہا ہے، پھر جب ہم مکہ میں آئے تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس حال میں پایا کہ آپ مکہ میں نبوت کا اعلان کر چکے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11281

۔ (۱۱۲۸۱)۔ عَنِ الطُّفَیْلِ بْنِ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ، عَنْ أَبِیْہِ، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقْرُبُ، وَفِی رِوَایَۃٍ: یُصَلِّی، إِلٰی جِذْعٍ إِذْ کَانَ الْمَسْجِدُ عَرِیْشاً، وَکَانَ یَخْطُبُ إِلٰی ذٰلِکَ الْجِذْعِِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِہِ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ھَلْ لَّکَ أَنْ نَّجْعَلَ لَکَ شَیْئًا تَقُوْمُ عَلَیْہِیَوْمَ الْجُمُعَۃِ، حَتّٰییَرَاکَ النَّاسُ وَتُسْمِعَہُمْ خُطْبَتَکَ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) فَصُنِعَ لَہٗثَلَاثُدَرَجَاتٍاللٰاتِی عَلَی الْمِنْبَرِ، فَلَمَّا صُنِعَ الْمِنْبَرُوَوُضِعَ فِی مَوْضِعِہِ الَّذِی وَضَعَہٗفِیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ یَّأْتِیَ الْمِنْبَرَ مَرَّ عَلَیْہِ، فَلَمَّا جَاوَزَہٗخَارَالْجِذْعُحَتّٰی تَصَدَّعَ وَانْشَقَّ، فَرَجَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَمَسَحَہٗبِیَدِہِ حَتّٰی سَکَنَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَی الْمِنْبَرِ، وَکَانَ إِذَا صَلّٰی صَلّٰی إِلَیْہِ، فَلَمَّا ھُدِمَ الْمَسْجِدُ وَغُیِّرَ، أَخَذَ ذَاکَ الْجِذْعَ أُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ، فَکَانَ عِنْدَہٗحَتّٰی بَلِیَ وَأَکَلَتْہُ الْأَرْضَۃُ وَعَادَ رُفَاتاً۔ (مسند احمد: ۲۱۵۶۸)
سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:جب مسجد کھجور کے تنوں اور شاخوں سے بنی ہوئی تھی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھجور کے ایک تنے کے پاس نماز ادا کیا کرتے تھے اور اسی کے پاس کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ ایک صحابی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ اجازت دیں تو ہم آپ کے لیے ایک ایسی چیز تیار کردیں جس کے اوپر کھڑے ہو کرآپ جمعہ کے دن خطبہ دیا کریں ،تاکہ سب لوگ آپ کو دیکھ سکیں اور آپ اپنا خطاب (آسانی سے) سب لوگوں کو سنا سکیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے ۔ توآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے تین سیڑھیوں والا منبر بنا دیا گیا، جب منبر تیار ہوگیا اور اسے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی جگہ پر رکھوا دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر جانے کے لیے اس تنے کے پاس سے گزرے تو وہ تنا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، یہاں تک کہ وہ پھٹ گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی طرف واپس پلٹے، اپنا ہاتھ مبارک اس پر پھیرا،یہاں تک کہ وہ پر سکون ہوگیا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر کی طرف گئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب بھی نماز پڑھتے تو اسی تنے کے قریب پڑھا کرتے تھے۔ جب مسجد کو گرا کراس کی عمارت تبدیل کی گئی ،تب اس تنے کو ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لے گئے، وہ انہی کے پاس رہا یہاں تک کہ وہ بو سیدہ ہو گیا، اسے دیمک کھا گئی اور وہ ریزہ ریزہیعنی بھر بھرا ہوگیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11282

۔ (۱۱۲۸۲)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ بِنَحْوِہِ) وَفِیْہِ: فَصَنَعُوْالَہُ ثَلَاثَ دَرَجَاتٍ، فَقَامَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَمَا کَانَ یَقُوْمُ، فَصَغَی الْجِذْعُ إِلَیْہِ، فَقَالَ لَہٗ: ((اسْکُنْ۔)) ثُمَّقَالَلِأَصْحَابِہِ: ((ھٰذَاالْجِذْعُحَنَّإِلَیَّ۔)) فَقَالَ لَہٗالنَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اُسْکُنْ! إِنْ تَشَأْ غَرَسْتُکَ فِی الْجَنَّۃِ، فَتَأْکَلَ مِنْکَ الصَّالِحُوْنَ، وَإِنْ تَشَأْ أُعِیْدُکَ کَمَا کُنْتَ رَطْباً۔)) فَاخْتَارَ الآخِرَۃَ عَلَی الدُّنْیَا، فَلَمَّا قُبِضَ النَّبِیُّ دُفِعَ إِلٰی أُبَیٍّ، فَلَمْیَزَلْ عِنْدَہٗحَتّٰی أَکَلَتْہُ الأرْضَۃُ۔ (مسند احمد: (۲۱۵۸۰)
۔(دوسری سند) اس میں یہ ہے کہ صحابہ نے آپ کے لیے تین سیڑھیوں والا منبر تیار کیا، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حسب معمول خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو وہ تنا آپ سے جدائی پر رونے لگا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: خاموش ہو جا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ سے فرمایا: یہ تنا میری جدائی پر رویا ہے ۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: خاموش ہو جا، اگر تو چاہتاہے تو میں تجھے جنت میں لگا دوں تاکہ صالحین تیرا پھل کھائیں اور اگر تو چاہے تو تجھے پہلے کی طرح تروتازہ کردوں۔ پس اس نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دی، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وفات پائی تو وہ تنا سیدنا ابیبن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حوالے کر دیا گیا۔ وہ انہی کے پاس رہا یہاں تک کہ اسے دیمک چاٹ گئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11283

۔ (۱۱۲۸۳)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ: کَانَ النَّّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِذَا خَطَبَ یَسْتَنِدُ إِلٰی جِذْعِ نَخْلَۃٍ مِنْ سَوَارِی الْمَسْجِدِ، فَلَمَّا صُنِعَ لَہُ مِنْبَرُہٗإِسْتَوٰی عَلَیْہِ، فَاضْطَرَبَتْ تِلْکَ السَّارِیَۃُ کَحَنِیْنِ النَّاقَۃِ، حَتّٰی سَمِعَہَا أََھْلُ الْمَسْجِدِ، حَتّٰی نَزَلَ إِلَیْہَا فَاعْتَنَقَہَا، فَسَکَنَتْ، وَفِی رِوَایَۃٍ: فَسَکَتَتْ۔ (مسند احمد: ۱۴۱۸۹)
سیدناجابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ دیتے وقت مسجد کے ستونوں میں سے کھجور کے ایک تنے کا سہارا لیا کرتے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے منبر تیار کر دیا گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس پر کھڑے ہوئے تو وہ ستون (تنا) اونٹنی کی طرح بے چین ہو کر رونے لگا۔ یہاں تک کہ اس کی آواز مسجد میں موجود سب لوگوں نے سنی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے منبر سے نیچے اتر کر اس تنے کو اپنے سینے سے لگایا تو وہ خاموش ہو گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11284

۔ (۱۱۲۸۴)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَخْطُبُ إِلٰی جِذْعِ نَخْلَۃٍ، قَالَ: فَقَالَتِ امْرَأَۃٌ مِنَ الْأَنْصَارِکَانَ لَھَاغُلَامٌ نَّجَّارٌ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! إِنَّ لِی غُلَاماً نَّجَّاراً، أَفَآمُرُہٗأَنْیَتَّخِذَلَکَ مِنْبَراً تَخْطُبُ عَلَیْہِ؟ قَالَ: ((بَلٰی۔)) قَالَ: فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ خَطَبَ عَلَی الْمِنْبَرِ، قَالَ: فَأَنَّ الْجِذْعُ الَّذِی کَانَ یَقُوْمُ عَلَیْہِ کَمَا یَئِنُّ الصَّبِیُّ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ ھٰذَا بَکٰی لِمَا فَقَدَ مِنَ الذِّکْرِ۔)) (مسند احمد: ۱۴۲۵۵)
۔(دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھجور کے ایک تنے کے پاس کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، ایک انصاری خاتون ،جس کا غلام بڑھئی تھا، نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عر ض کیا: اے اللہ کے رسول! میرا ایک غلام بڑھئی ہے، کیا میں اس سے کہہ کر آپ کے خطبہ دینے کے لیے ایک منبر تیار کروا دوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی کیوں نہیں۔ ۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب جمعہ کے دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پرکھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرما نے لگے، تو وہ تنا جس کے قریب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہوا کرتے تھے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کے رونے لگا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے قریب جو اللہ کا ذکر کیا جاتا تھا،اس سعادت سے محرومی پر یہ رویا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11285

۔ (۱۱۲۸۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَخْطُبُ إِلٰی جِذْعٍ قَبْلَ أَنْ یَّتَّخِذَ الْمِنْبَرَ، فَلَمَّا اتَّخَذَالْمِنْبَرَ وَتَحَوَّلَ إِلَیْہِ حَنَّ عَلَیْہِ، فَأَتَاہٗفَاحْتَضَنَہٗفَسَکَنَ،قَالَ: ((وََلَوْلَمْأَحْتَضِنْہُلَحَنَّإِلٰییَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۲۳۶)
سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ منبر تیار ہونے سے قبل نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک ستون کے قریب کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، منبر تیارہونے پر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ادھر منتقل ہو گئے تو وہ تنا رونے لگا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے قریب آکر اسے اپنے سینے سے لگایا تو وہ خاموش ہو گیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر میں اسے سینے سے نہ لگاتا تو یہ قیامت تک روتا رہتا ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11286

۔ (۱۱۲۸۶)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: کَانَ أَھْلُ بَیْتٍ مِنَ الْأَنْصَارِ لَھُمْ جَمَلٌ یَسْنُوْنَ عَلَیْہِ، وَإِنَّ الْجَمَلَ اسْتُصْعِبَ عَلَیْہِمْ فَمَنَعَہُمْ ظَہْرَہٗ،وَإِنَّالْأَنْصَارَجَائُوْاإِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوْا: إِنَّہُ کَانَ لَنَا جَمَلٌ نُسْنِیْ عَلَیْہِ، وَإِنَّہُ اسْتُصْعِبَ عَلَیْنَا وَمَنَعَنَا ظَہْرَہٗ،وَقَدْعَطِشَالزَّرْعُوَالنَّخْلُ،فَقَالَرَسُوْلُاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِأَصْحَابِہِ: ((قُوْمُوْا۔)) فَقَامُوْا، فَدَخَلَ الْحَائِطَ وَالْجَمَلُ فِیْ نَاحِیَۃٍ، فَمَشَیالنَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَحْوَہٗ،فَقَالْتِالْأَنْصَارُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! إِنَّہُ قَدْ صَارَ مِثْلَ الْکَلْبِ الْکَلِبِ، وَإِنَّا نَخَافُ عَلَیْکَ صَوْلَتَہٗ،فَقَالَ: ((لَیْسَ عَلَیَّ مِنْہُ بَأْسٌ۔)) فَلَمَّّا نَظَرَ الْجَمَلُ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَقْبَلَ نَحْوَہُ حَتّٰی خَرَّ سَاجِداً بَیْنَیَدَیْہِ، فَأَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِنَا صِیَتِہِ أَذَلَّ مَا کَانَتْ قَطُّ حَتّٰی أَدْخَلَہُ فِی الْعَمَلِ، فَقَالَ لَہٗأَصْحَابُہٗ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ھٰذِہِ بَہِیْمَۃٌ لَا تَعْقِلُ تَسْجُدُ لَکَ وَنَحْنُ نَعْقِلُ فَنَحْنُ أَحَقُّ أَنْ نَّسْجُدَ لَکَ، فَقَالَ: ((لَا یَصْلُحُ لِبَشَرٍ، وَلَوْ صَلُحَ لِبَشَرٍأَن یَّسْجُدَ لِبَشَرٍلَأَمَرْتُ الْمَرْأَۃَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِہَا مِنْ عِظَمِ حَقِّہِ عَلَیْہَا، وَالَّذِی نَفْسِیْ بِیَدِہِ، لَوْ کَانَ مِنْ قَدَمِہِ إِلٰی مَفْرِقِ رَأْسِہِ قُرْحَۃً تَنْبَجِسُ بِالْقَیْحِ وَالصَّدِیْدِ، ثُمَّ اسْتَقْبَلَتْہُ فَلَحَسَتْہُ مَا أَدَّتْ حَقَّہٗ۔)) (مسنداحمد: ۱۲۶۴۱)
سیدنا سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ انصاریوں کے ایک گھرانے کا اونٹ تھا، جس پروہ پانی لاد کر لاتے اور فصلوں کو سیراب کیا کرتے تھے۔ اونٹ سر کش ہو گیا اور اپنی پشت پر کوئی وزن اٹھانے سے انکاری ہو گیا۔ انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آکر عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہمارا ایک اونٹ تھا ،جس پر ہم فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے پانی لاد کر لایا کرتے تھے، اب وہ ضدی اور سر کش ہو گیا ہے اور اپنی پشت پر کوئی وزن نہیں لادنے دیتا۔ ہماری کھیتیاں اور کھجوروں کے درخت خشک ہو رہے ہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایاـ: اٹھو۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باغ میں داخل ہوئے، وہ اونٹ باغ کے ایک کونے میں تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی طرف چل کر گئے، انصار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کی: اے اللہ کے نبی ! وہ باؤلے کتے کی طر ح باؤلا ہو چکا ہے۔ ہمیں خطرہ ہے کہ وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر حملہ نہ کردے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے اس کی طرف سے کوئی اندیشہ نہیں۔ اونٹ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف لپک کرآیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے سجدہ ریز ہو گیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی پیشانی کے بال پکڑے تووہ ازحد مطیع و تابع فرمان ہو گیا۔ یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے کام میں لگا دیا، صحابہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! یہ بے عقل جانور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے سجدہ کرتا ہے ،جبکہ ہم تو عقل مند ہیںاور ہمیں زیادہ حق پہنچتا ہے کہ ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سجدہ کریں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کسی انسان کے سامنے سجدہ کرنا روا نہیں، اگر کسی انسان کے لیے کسی انسان کے سامنے سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میںبیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، کیونکہ اس پر شوہر کے بہت حقوق ہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر شوہر پائوں سے سر کی چوٹی تک پھوڑوں سے بھرا ہوا ہو اور ان میں سے خون اور پیپ رستی ہو، اور بیوی آکر اسے چاٹ چاٹ کر صاف کرے، تب بھیوہ اپنے شوہر کا حق پوری طرح ادا نہیں کر سکتی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11287

۔ (۱۱۲۸۷)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ، قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ سَفَرٍ، حَتّٰی إِذَا دَفَعْنَا إِلٰی حَائِطٍ مِنْ حِیْطَانِ بَنِی النَّجََّارِ إِذَا فِیْہِ جَمَلٌ لَا یَدْخُلُ الْحَائِطَ أَحَدٌ إِلاَّ شَدَّ عَلَیْہِ، قَالَ: فَذَکَرُوْا ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَجَائَ حَتّٰی أَتَی الْحَائِطَ، فَدَعَا الْبَعِیْرَ، فَجَائَ وَاضِعًا مِشْفَرَہٗإِلَی الْأرْضِ حَتّٰیبَرَکَ بَیْنَیَدَیْہِ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ھَاتُوْاخِطَاماً۔)) فَخَطَمَہٗوَدَفَعَہٗإِلٰی صَاحِبِہِ، قَالَ: ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَی النَّاسِ، قَالَ: ((إِنَّہُ لَیْسَ شَیْئٌ بَیْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ إِلَّا یَعْلَمُ أَنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ، إِلَّاعَاصِیَ الْجِنِّ وَالْأِنْسِ۔)) (مسند احمد: ۱۴۳۸۵)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں ایک سفر سے واپس آئے، جب ہم بنو نجار کے ایک باغ کے پاس پہنچے تو وہاں ایک سرکش اونٹ تھا، جو کوئی بھی باغ میں جاتا اونٹ اس پر حملہ کر دیتا، انصار نے اس بات کا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باغ میں گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اونٹ کو بلایا، اس نے آکر اپنے ہونٹ زمین پر رکھ دیئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے بیٹھ گیا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ــ اس کی مہار لائو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی رسی اس سے باندھ کر اس کے سر پر رکھ دی اور اونٹ کو اس کے مالک کے سپرد کردیا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: سرکش اور نا فرمان جن و انس کے سوا زمین و آسمان کے درمیان موجود ہر چیز میرے متعلق جانتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11288

۔ (۱۱۲۸۸)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، قَالتْ: کَانَ لآلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَحْشٌ، فَإِذَا خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَعِبَ وَاشْتَدَّ وَ أَقْبَلَ وَأَدْبَرَ، فَإِذَا أَحَسَّ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ دَخَلَ، رَبَضَ فَلَمْ یَتَرَمْرَمْ مَا دَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْبَیْتِ کَرَاھِیَۃَ أَنْ یُّؤْذِیَہٗ۔ (مسند احمد: ۲۵۳۲۹)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ آل رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ایک وحشی جانور تھا، جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر چلے جاتے تووہ کھیلتا کو دتااور آگے پیچھے دوڑتا تھا۔ لیکن جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آمد محسوس کرتا تو پرسکون ہو جاتا، پھرجب تک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھر میں رہتے ،وہ کوئی حرکت نہ کرتا مباداکہ اس کی وجہ سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کوئی تکلیف پہنچے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11289

۔ (۱۱۲۸۹)۔ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، قَالَتْ: خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَلَمَّا کُنَّا بِالْحُرِّ إِنْصَرَفْنَا وَأَنَا عَلٰی جَمَلٍ، وَکَانَ آخِرُ الْعَہْدِ مِنْھُمْ وَأَنَا أَسْمَعُ صَوْتَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَھُوَ بَیْنَ ظَہْرَیْ ذٰلِکَ السَّمُرِ وَھُوَ یَقُوْلُ: ((وَا عَرُوْسَاہ!)) قَالَتْ: فَوَاللّٰہِ! إِنِّی لَعَلٰی ذٰلِکَ إِذْ نَادٰی مُنَادٍ: أَنْ أَلْقِی الْخِطَامَ، فَأَلْقَیْتُہُ فَأَعْلَقَہُ اللّٰہُ بِیَدِہِ۔ (مسند احمد: ۲۶۶۴۱)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سفر پر روانہ ہوئے، جب ہم وادی حُرّ میں پہنچے اور وہاں سے واپس ہوئے، میں ایک اونٹ پر سوارتھی، اس کے بعد وہ دوڑ پڑا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ببول کے درختوں کے درمیان زور زور سے پکار رہے تھے: ہائے دلہن! ہائے دلہن! اورمیں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آوازیں سن رہی تھی۔ اللہ کی قسم! میں اسی کیفیت سے دو چار تھی کہ کسی نے مجھے پکار کر اس کی مہار نیچے پھینکنے کا کہا: میں نے مہار کو نیچے پھینک دیا تو اللہ تعالیٰ نے اس مہار کو اونٹ کے اگلے پائوں میں الجھا دیا (اور وہ رک گیا)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11290

۔ (۱۱۲۹۰)۔ عَنِ الْبَرَاء ِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِحَفْرِ الْخَنْدَقِ، قَالَ: وَعَرَضَ لَنَا صَخْرَۃٌ فِی مَکَانٍ مِنَ الخَنْدَقِ لَا تَأْخُذُ فِیہَا الْمَعَاوِلُ، قَالَ: فَشَکَوْہَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَائَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ عَوْفٌ: وَأَحْسِبُہُ قَالَ وَضَعَ ثَوْبَہُ، ثُمَّ ہَبَط إِلَی الصَّخْرَۃِ فَأَخَذَ الْمِعْوَلَ، فَقَالَ: ((بِسْمِ اللّٰہِ)) فَضَرَبَ ضَرْبَۃً فَکَسَرَ ثُلُثَ الْحَجَرِ، وَقَالَ: ((اللّٰہُ أَکْبَرُ! أُعْطِیتُ مَفَاتِیحَ الشَّامِ، وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأُبْصِرُ قُصُورَہَا الْحُمْرَ مِنْ مَکَانِی ہٰذَا)) ثُمَّ قَالَ: ((بِسْمِ اللّٰہِ)) وَضَرَبَ أُخْرٰی فَکَسَرَ ثُلُثَ الْحَجَرِ فَقَالَ: ((اللّٰہُ أَکْبَرُ! أُعْطِیتُ مَفَاتِیحَ فَارِسَ، وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأُبْصِرُ الْمَدَائِنَ وَأُبْصِرُ قَصْرَہَا الْأَبْیَضَ مِنْ مَکَانِی ہٰذَا))، ثُمَّ قَالَ: ((بِسْمِ اللّٰہِ)) وَضَرَبَ ضَرْبَۃً أُخْرٰی فَقَلَعَ بَقِیَّۃَ الْحَجَرِ، فَقَالَ: ((اللّٰہُ أَکْبَرُ! أُعْطِیتُ مَفَاتِیحَ الْیَمَنِ، وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأُبْصِرُ أَبْوَابَ صَنْعَائَ مِنْ مَکَانِی ہٰذَا))۔ (مسند احمد: ۱۸۸۹۸)
سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں خندق کھودنے کا حکم دیا، کھدائی کے دوران ایک مقام پر چٹان آگئی، جہاں گینتیاں کام نہیں کرتی تھیں، صحابہ کرام نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس کا شکوہ کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے، سیدنا عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ سیدنا برائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ بھی بیان کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آکر اپنا کپڑا ایک طرف رکھا اور چٹان کی طرف گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے گینتی کو پکڑ کر بسم اللہ پڑھی اور اسے زور سے مارا ،چٹان کا ایک تہائی حصہ ٹوٹ گیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زور سے فرمایا: اللہ اکبر، مجھے شام کی کنجیاں دے دی گئیں ہیں، اللہ کی قسم! میں اپنی اس جگہ سے اس وقت وہاں کے سرخ محلات کو دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوبارہ بسم اللہ پڑھ کر دوبارہ گنتی چلائی، چٹان کا دوسرا ایک تہائی ٹوٹ گیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زور سے اللہ اکبر کہا اور فرمایا: مجھے ایران کی چابیاں دے دی گئی ہیں، اللہ کی قسم میں مدائن کو اور وہان کے سفید محل کو اپنی اس جگہ سے اس وقت دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپ نے بسم اللہ پڑھ کر تیسری مرتبہ گینتی چلائی تو باقی چٹان بھی ریزہ ریزہ ہوگئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زور سے اللہ اکبر کہا اور فرمایا: مجھے یمن کی چابیاں دے دی گئی ہیں اور میں اس وقت اس جگہ سے صنعاء کے دروازوں کو دیکھ رہا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11291

۔ (۱۱۲۹۱)۔ عَنْ عَبْدِالْوَاحِدِ بْنِ أَیْمَنَ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَابِرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: مَکَثَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابُہُ، وَہُمْ یَحْفِرُوْنَ الْخَنْدَقَ، ثَلَاثاً لَمْ یَذُوْقُوْا طَعَاماً، فَقَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّ ھَاھُنَا کُدْیَۃً مِنَ الْجَبَلِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((رُشُّوْھَا بِالْمَائِ فَرَشُّوْھَا۔)) ثُمَّ جَائَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخَذَ الْمِعْوَلَ أَوِ الْمِسْحَاۃَ ثُمَّ قَالَ: ((بِسْمِ اللّٰہِ!)) فَضَرَبَ ثَلَاثاً فَصَارَتْ کَثِیْباًیُّہَالُ، قَالَ جَابِرٌ: فَحَانَتْ مِنِّی الْتِفَاتَۃٌ فَإِذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ شَدَّ عَلٰی بَطْنِہِ حَجَراً۔ (مسند احمد: ۱۴۲۶۰)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابہ کرام بغیر کچھ کھائے تین روز تک خندق کھودتے رہے، کھدائی کے دوران صحابہ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! یہاں ایک پہاڑی چٹان ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس پر پانی چھڑک دو۔ صحابہ کرام نے اس پر پانی چھڑک دیا۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آکر گینتی اٹھائی اور فرمایا: بسم اللہ۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین بار گینتی چلائی تو وہ چٹان ریزہ ریزہ ہو گئی۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اچانک میری نظر پڑی تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے بطن مبارک پر پتھر باندھا ہوا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11292

۔ (۱۱۲۹۲)۔ عَنْ أَبِی عَبْدِالرَّحْمٰنِ الْحُبُلِیِّ،یَقُوْلُ: إِنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللّٰہِ الْأَنْصَارِیِّ بَرَکَ بِہِ بَعِیْرٌ قَدْْ أَزْحَفَ بِہِ، فَمَرَّ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ لَہٗ: ((مَالَکَیَا جَابِرُ؟)) فَأَخْبَرَہُ، فَنَزَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی الْبَعِیْرِ، ثُمَّ قَالَ: ((إِرْکَبْ یَا جَابِرُ۔)) فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّہُ لَا یَقُوْمُ، فَقَالَ لَہٗ: ((إِرْکَبْ۔)) فَرَکِبَجَابِرٌالْبَعِیْرَ، ثُمَّ ضَرَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْبَعِیْرَ بِرِجْلِہِ، فَوَثَبَ الْبَعِیْرُ وَثْبَۃً لَوْ لَا أَنَّ جَابِراً تَعَلَّقَ بِالْبَعِیْرِ لَسَقَطَ مِنْ فَوْقِہِ، ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِجَابِرٍ: ((تَقَدَّمْ یَا جَابِرُ الْآنَ عَلٰی أَھْلِکَ، إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَجِدْھُمْ قَدْیَسَّرُوْا لَکَ کَذَا وَکَذَا)) حَتّٰی ذَکَرَ الْفُرُشَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فِرَاشٌ لِلرَّجُلِ وَفِرَاشٌ لأمْرَأَتِہِ وَالثَّالِثُ لِلضَّیْفِ وَالرَّابِعُ لِلشَّیْطَانِ۔)) (مسند احمد: ۱۴۱۷۰)
سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ان کا اونٹ تھک ہار کر اور چلنے سے عاجز ہو کر بیٹھ گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پاس سے گزرے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: جابر! کیا بات ہے؟ انہوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ساری بات بتائی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی سواری سے اتر کر سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے اونٹ کی طرف گئے اور فرمایا: جابر! سوار ہو جائو۔ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ تو کھڑا ہی نہیں ہوتا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم سوار تو ہو جائو۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اونٹ پر سوار ہوگئے اورآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا پائوں اونٹ کو مارا اوروہ اچھل کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اگر سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اونٹ کو قابو کرکے پکڑ نہ لیتے تو اوپر سے نیچے جا گرتے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: اب تم چلو اور اپنے اہل خانہ میں پہنچو۔ تم گھر جا کر دیکھو گے کہ وہ تمہارے لیے فلاں فلاں چیز تیار کر چکے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بستروں تک کا بھی ذکر کیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (گھر میں) ایک بستر مرد کے لیے، ایک اس کی بیوی کے لیے، تیسرا مہمان کے لیے اور چوتھا شیطان کے لیے ہوتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11293

۔ (۱۱۲۹۳)۔ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: عَطِشَ النَّاسُ یَوْمَ الْحُدَیْبِیَّۃِ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَیَدَیْہِ رَکْوَۃٌیَتَوَضَّأُ مِنْہَا، إِذْ جَہَشَ النَّاسُ نَحْوَہٗ،فَقَالَ: ((مَاشَأْنُکُمْ؟)) قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!ِ إِنَّہُ لَیْسَ لَنَا مَائٌ نَشْرَبُ مِنْہُ وَلَا مَائٌ نَتَوَضَّأُبِہِ إِلَّامَا بَیْنَیَدَیْکَ، فَوَضَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدَیْہِ فِی الرَّکْوَۃِ، فَجَعَلَ الْمَائُ یَفُوْرُ مِنْ بَیْنِ أَصَابِعِہِ کَأَمْثَالِ الْعُیُوْنِ، فَشَرِبْنَا وَتَوَضَّأْنَا، فَقُلْتُ: کَمْ کُنْتُمْ؟ قَالَ: لَوْ کُنَّا مِائَۃَ أَلْفٍ لَکَفَانَا، کُنَّا خَمْسَ عَشْرَۃَ مِائَۃً۔ (مسند احمد: ۱۴۵۷۶)
سیدناجابربن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: حدیبیہ کے دن لوگوں کو شدید پیاس لگی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے چمڑے کا ایک چھوٹا سا برتن تھا، جس سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وضو کیا کرتے تھے، لوگ اس برتن کی طرف للچائی نظروں سے دیکھنے لگے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: کیا بات ہے؟ انہوں نے عر ض کیا: اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے موجود پانی کے علاوہ ہمارے پاس پینےیا وضو کرنے کے لیے پانی نہیں ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ چمڑے کے اس برتن میں رکھ دیئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی انگلیوں سے پانی چشموں کی مانند پھوٹنے لگا۔ہم نے پانی پیااور وضو کیا۔سالم بن ابی جعد کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ اس دن آپ لوگوں کی تعداد کتنی تھی؟ انہوں نے کہا: اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی ہمیں کافی رہتا ،ویسے ہماری تعداد پندرہ سو تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11294

۔ (۱۱۲۹۴)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُالرََّزَّاقِ، أنَا سُفْیَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاہِیْمَ، عَنْ عَلْقَمَۃَ، عَنْ عَبْدِاللّٰہِ، قَالَ: کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی سَفَرٍ، فَلَمْ یَجِدُوْا مَائً، فَأُتِیَ بِتَوْرٍ مِنْ مَائٍ، فَوَضَعَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْہِیَدَہٗ وَفَرَّجَ بََیْنَ أَصَابِعِہِ، قَالَ: فَرَأَیْتُ الْمَائَ یَتَفَجَّرُ مِنْ بَیْنِ أَصَابِعِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، ثُمَّ قَالَ: ((حَیَّ عَلَی الْوَضُوْئِ وَالْبَرَکَۃِ مِنَ اللّٰہِ۔)) قَالَ الْأَعْمَشُ: فَأَخْبَرَنِی سَالِمٌ بْنُ أَبِی الْجَعْدِ، قَالَ: قُلْتُ لِجَابِرٍ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ: کَمْ کَانَ النَّاسُیَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: کُنَّا أَلْفًا وَخَمْسَ مِائَۃٍ۔ (مسند احمد: ۳۸۰۷)
سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم ایک سفر میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، صحابہ کو پانی نہ ملا، پھر پانی سے بھرا ہوا پیتل کا ایک برتن لایا گیا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس میں اپنا ہاتھ مبارک رکھ دیا اور اپنی انگلیوں کو کشادہ کر لیا۔میں نے دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی انگلیوں سے پانی پھوٹ رہا ہے۔ پھر آپ نے ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا: وضو کے پانی اور اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی برکت کی طرف آئو۔ اعمش کہتے ہیں : مجھے سالم بن ابی جعد نے بتایا کہ انہوں نے جابربن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا: اس دن لوگوں کی تعداد کتنی تھی؟ انہوں نے بتایا: ہم پندرہ سو (1500) تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11295

۔ (۱۱۲۹۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَصْبَحَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَیْسَ فِی الْعَسْکَرِ مَائٌ، فَأَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! لَیْسَ فِی الْعَسْکَرِ مَائٌ، قَالَ: ((ھَلْ عِنْدَکَ شَیْئٌ؟)) قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ((فَأْتِنِیْ بِہِ۔)) قَالَ: فَأَتَاہُ بِإِنَائٍ فِیْہِ شَیْئٌ مِنْ مَّائٍ قَلِیْلٍ، قَالَ: فَجَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَصَابِعَہُ فِی فَمِ الْإِنَائِ وَفَتَحَ أَصَابِعَہُ، قَالَ: فَانْفَجَرَتْ مِنْ بَیْنِ أَصَابِعِہِ عُیُوْنٌ، وَأَمَرَ بِلَالاً فَقَالَ: ((نَادِ فِی النَّاسِ الْوَضُوْئَ الْمُبَارَکَ۔)) (مسند احمد: ۲۲۶۸)
سیدناعبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس حال میں صبح کی کہ لشکر میں (لوگوں کے پاس اپنی ضروریات کے لیے) پانی (بالکل ) نہ تھا۔ ایک آدمی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا: اللہ کے رسول! لشکرمیں پانی بالکل نہیںہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: کیا تمہارے پاس کچھ پانی ہے؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم وہ پانی میرے پاس لائو۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: وہ ایک برتن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لایا گیا، جس میں تھوڑا سا پانی تھا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی انگلیاں برتن کے منہ میں ڈال کر انگلیوں کو ذرا کھولا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی انگلیوں کے درمیان سے پانی کے چشمے پھوٹ پڑے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بلال کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کر دیں کہ وضو کے لیے بابرکت پانی موجود ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11296

۔ (۱۱۲۹۶)۔ عَنْ حُمَیْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: نُوْدِیَ بِالصَّلَاۃِ، فَقَامَ کُلُّ قَرِیْبِ الدَّارِ مِنَ الْمَسْجِدِ وَبَقِیَ مَنْ کَانَ أَھْلُہُ نَائِیَ الدَّارِ، فَأُتِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِمِخْضَبٍ مِنْ حِجَارَۃٍ فَصَغُرَ أَنْ یَّبْسُطَ أَکُفَّہُ فِیْہِ، قَالَ: فَضَمَّ أَصَابِعَہٗ،قَالَ: فَتَوَضَّأَبَقِیَّتُہُمْ۔ قَالَ حُمَیْدٌ: وَسُئِلَ أَنَسٌ: کَمْ کَانُوْا؟ قَالَ: ثَمَانِیْنَ أَوْزِیَادَۃً۔ (مسند احمد: ۱۲۰۵۵)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نماز کے لیے آواز دی گئی، جن لوگوں کے گھر مسجد کے قریب تھے، وہ سب اٹھ کر گھروں کو چلے گئے، (تاکہ وضو کر کے آئیں)۔ صرف وہ لوگ رہ گئے جن کے گھر مسجد سے دور تھے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پتھر کا ایک چھوٹا سا برتن لایا گیا، وہ اس قدر چھوٹا تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس میں ہتھیلی کو نہ پھیلا سکے۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انگلیوں کو آپس میں ملالیا، سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: سب لوگوں نے وضوء کر لیا۔ حمید کہتے ہیں: سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا گیا کہ آدمی کتنے تھے؟ انہوں نے بتایا کہ اسییا اس سے کچھ زائد افراد تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11297

۔ (۱۱۲۹۷)۔ عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، أَنَّّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ بِالزَّوْرَائِ، فَأُتِیَ بِإِنَائٍ فِیْہِ مَائٌ لَا یَغْمُرُ أَصَابِعَہٗ،فَأَمَرَأَصْحَابَہُأَنْیَّتَوَضَّؤُوْا، فَوَضَعَ کَفَّہُ فِی الْمَائِ، فَجَعَلَ الْمَائُ یَنْبُعُ مِنْ بَیْنِ أَصَابِعِہِ وَأَطْرَافِ أَصَابِعِہِ حَتّٰی تَوَضَّأَ الْقَوْمُ، قَالَ: فَقُلْتُ لِأَنَسٍ: کَمْ کُنْتُمْ؟ قَالَ: کُنَّا ثَلَاثَمِائَۃٍ۔ (مسند احمد: ۱۲۷۷۲)
سیدنا سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زوراء مقام پر تشریف فرما تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں ایک برتن لایا گیا، جس میں محض اس قدر پانی بھی نہیں تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی انگلیاں اس میں ڈوب جاتیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ کو وضو کرنے کا حکم دیااور اپنی ہتھیلی پانی میں رکھ دی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی انگلیوں کے درمیان سے اور ان کے کناروں سے پانی نکلنے لگا، یہاں تک کہ سب لوگوں نے وضوء کر لیا۔ قتادہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا : آپ لوگوں کی تعداد کتنی تھی؟ انہوں نے بتایا: ہم تین سو تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11298

۔ (۱۱۲۹۸)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَحَانَتْ صَلَاۃُ الْعَصْرِ، فَالْتَمَسَ النَّاسُ الْوَضُوْئَ فَلَمْ یَجِدُوْا، فَأُتِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِوَضُوْئِہِ، فَوَضَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی ذٰلِکَ الْإِنَائِ یَدَہٗ وَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ یَتَوَضَّؤُوْا مِنْہُ، فَرَأَیْتُ الْمَائَ یَنْبُعُ مِنْ تَحْتِ أَصَابِعِہِ، فَتَوَضَّأَ النَّاسُ حَتّٰی تَوَضَّؤُوْا مِنْ عِنْدِ آخِرِھِمْ۔ (مسند احمد: ۱۲۳۷۳)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ عصر کی نماز کے وقت میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا، لوگوں نے وضو کرنے کے لیے پانی تلاش کیا، مگر انہیں پانی نہ مل سکا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا وضوء کرنے کا پانی پیش کیا گیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک اس برتن میں رکھا اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس پانی سے وضوء کریں۔میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی انگشت ہائے مبارکہ کے نیچے سے پانی پھوٹتے دیکھا، لوگوں نے وضو کرنا شروع کیا،یہاں تک کہ سب لوگوں نے وضو کر لیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11299

۔ (۱۱۲۹۹)۔ عَنْ ثَابِتٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: حَدِّثْنَا یَا أَبَا حَمْزَۃَ مِنْ ھٰذِہِ الْأَعَاجِیْبِ شَیْئًا شَہِدْتَّہُ لَا تُحَدِّثُہُ عَنْ غَیْرِکَ، قَالَ: صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَلَاۃَ الظُّہْرِ یَوْمًا، ثُمَّ انْطَلَقَ حَتّٰی قَعَدَ عَلَی الْمَقَاعِدِ الَّتِی کَانَ یَأْتِیْہِ عَلَیْہَا جِبْرِیْلُ علیہ السلام ، فَجَائَ بِلَالٌ فَنَادَاہُ بِالْعَصْرِ، فَقَامَ کُلُّ مَنْ کَانَ لَہُ بِالْمَدِیْنَۃِأَھْلٌ یَقْضِی الْحَاجَۃَ وَیُصِیْبُ مِنَ الْوَضُوْئِ، وَبَقِیَ رِجَالٌ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ لَیْسَ لَھُمْ أَھَالِی بِالْمَدِیْنَۃِ، فَأُتِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِقَدْحٍ أَرْوَحَ فِیْہِ مَائٌ، فَوَضَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَفَّہُ فِی الْإِنَائِ فَمَا وَسِعَ الْإِنَائُ کَفَّ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ بِہٰؤُلائِ الْأَرْبَعِ فِی الْإِنَائِ، ثُمَّ قَالَ: ((أُدْنُوْا فَتَوَضَّئُوْا۔)) وَ یَدُہُ فِی الْإِنَائِ، فَتَوَضَّؤُوْا حَتّٰی مَا بَقِیَ مِنْہُمْ أَحَدٌ إِلَّا تَوَضَّأَ۔ قَالَ: قُلْتُ: یَا أَبَا حَمْزَۃَ! کَمْ تَرَاھُمْ؟ قَالَ: بَیْنَ السَّبْعِیْنَ وَالثَّمَانِیْنَ۔ (مسند احمد: ۱۲۴۳۹)
ثابت سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں سیدنا سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے ابو حمزہ! آپ ہمیں ان عجیب باتوں (یعنی معجزات) میں سے کچھ ایسے معجزات بیان فرمائیں جو آپ نے خودملاحظہ کئے ہوںاور وہ آپ کسی دوسرے سے روایت نہ کرتے ہوں۔ انہوں نے کہا: ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چل کر ان مقامات پر جا بیٹھے، جہاں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جبریل علیہ السلام آیا کرتے تھے۔ اتنے میں سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آکر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو عصر کی نماز کے لیے آواز دی۔ (یہ سن کر)جن لوگوں کے رہائش گاہیں مدینہ منورہ میں تھیں، وہ سب اپنے اپنے گھروں میں چلے گئے تاکہ قضائے حاجت کرکے باوضو ہو کر آئیں، کچھ مہاجرین جن کے اہل و عیال مدینہ منورہ میں نہ تھے، وہ رہ گئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پانی کا ایک کھلا برتن لایا گیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی مبارک ہتھیلی اس میں رکھ دی۔مگر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ہتھیلی برتن میں پوری نہ آسکی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چار انگلیاںاکٹھی کرکے برتن میں رکھ دیں اور فرمایا: قریب آجاؤاور وضو کرلو۔ اس دوران آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ برتن میں ہی رہا، یہاں تک کہ سب لوگوں نے وضو کر لیا۔ میں نے دریافت کیا: ابو حمزہ! کیا خیال ہے وہ کتنے لوگ تھے؟ انہوں نے جواب دیا: ستر سے اسی کے درمیان تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11300

۔ (۱۱۳۰۰)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: غَزَوْنَا أَوْ سَافَرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَنَحْنُ یَوْمَئِذٍ بِضْعَۃَ عَشَرَ وَمِائَتَانِ، فَحَضَرَتِ الصَّلَاۃُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ھَلْ فِی الْقَوْمِ مِنْ مَائٍ؟)) فَجَائَ رَجُلٌ یَسْعٰی بِإِدَاوَۃٍ فِیْہَا شَیْئٌ مِنْ مَائٍ، فَصَبَّہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی قَدَحٍ، قَالَ: فَتَوَضَّأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَحْسَنَ الْوُضُوْئَ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَتَرَکَ الْقَوْمَ، فَرَکِبَ النَّاسُ الْقَدَحَ یَمْسَحُوْا وَیَمْسَحُوْا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((عَلٰی رِسْلِکُمْ۔)) حِیْنَ سَمِعَہُمْ یَقُوْلُوْنَ ذٰلِکَ، قَالَ: فَوَضَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَفَّہٗفِی الْمَائِ وَالْقَدَحِ، ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بِسْمِ اللّٰہِ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((أَسْبِغُوْا الْوُضُوْئَ۔)) فَوَالَّذِیْ ہُوَ ابْتَلَانِی بِبَصَرِیْ! لَقَدْ رَأَیْتُ الْعُیُوْنَ، عُیُوْنَ الْمَائِ یَوْمَئِذٍ تَخْرُجُ مِنْ بَیْنِ أَصَابِعِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی تَوَضَّؤُوْا أَجْمَعُوْنَ۔ (مسند احمد: ۱۴۱۶۱)
سیدناجابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ ایک غزوہ یا سفر میں تھے، ہماری تعداد دو سو دس سے کچھ زائد تھی، اسی دوران نماز کا وقت ہوگیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: کیا کسی کے پاس پانی ہے؟ (یہ سن کر) ایک آدمی دوڑتا ہوا ایک برتن لے کر آیاجس میں معمولی سا پانی تھا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ پانی ایک پیالہ میں انڈیلا اور خوب اچھی طرح وضو کیا۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پیچھے کو ہٹ گئے اور لوگوں کو وہیں رہنے دیا، سب لوگ پیالے کے قریب اکٹھے ہوگئے اور پانی کو چھونے لگے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان لوگوں کا ازدحام اور شور دیکھا تو فرمایا: حوصلہ کرو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی ہتھیلی پانی اور پیالے میں رکھی اور فرمایا: بسم اللہ۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وضوء مکمل کرو۔ (جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ) اس ذات کی قسم جس نے مجھے بصارت کے متعلق آزمائش میں ڈالا ہے: اس دن میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی انگشت ہائے مبارکہ کے درمیان سے پانی کے چشمے رواں دیکھے،یہاں تک کہ سب لوگوں نے وضوء کر لیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11301

۔ (۱۱۳۰۱)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ، قَالَ: کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثَلَاثِیْنَ وَمِائَۃً، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ھَلْ مَعَ أَحَدٍ مِنْکُمْ طَعَامٌ؟)) فَإِذَا مَعَ رَجُلٍ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ أَوْنَحْوُہٗ،فَعُجِنَ،ثُمَّجَائَرَجُلٌمُشْرِکٌ مُشْعَانٌّ طَوِیْلٌ بِغَنَمٍ یَسُوْقُہَا، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَبَیْعًا أَمْ عَطِیَّۃً؟)) أَوْ قَالَ: ((أَمْ ہَدِیَّۃً؟)) قَالَ: لَا، بَلْ بَیْعٌ، فَاشْتَرٰی مِنْہُ شَاۃً، فَصُنِعَتْ، وَأَمَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِسَوَادِ الْبَطْنِ أَنْ یُشْوٰی، قَالَ: وَأَیْمُ اللّٰہِ! مَا مِنَ الثَّلَاثِیْنَ وَالْمِائَۃِ إِلَّاقَدْحَزَّلَہٗرَسُوْلُاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَزَّۃً مِنْ سَوَادِ بَطْنِہَا، إِنْ کَانَ شَاھِدًا أَعْطَاھَا إِیَّاہٗ، وَإِنْ کَانَ غَائِبًا خَبَأَلَہٗ،قَالَ: وَجَعَلَمِنْہَاقَصْعَتَیْنِ، قَالَ: فَأَکَلْنَا أَجْمَعُوْنَ وَشَبِعْنَا، وَفَضَلَ فِی الْقَصْعَتَیْنِ، فَجَعَلْنَاہُ عَلَی الْبَعِیْرِ، أَوْ کَمَا قَالَ۔ (مسند احمد: ۱۷۰۳)
سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ہم ایک سو تیس آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: کیا کسی کے پاس کھانا ہے؟ ایک آدمی کے پاس کھانے کی تقریباً ایک صاع کی مقدارتھی،پس اس کا آٹا گوندھا گیا، اس کے بعد ایک مشرک آدمی بکریاں ہانکتے ہوئے آیا، اس کے سر کے بال بکھرے ہوئے اور پرا گندہ تھے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بکریاں فروخت کرو گے یا عطیہ کرو گے؟ اس نے کہا: عطیہیا ہبہ نہیں، بلکہ فروخت کروں گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے ایک بکری خریدی، اسے ذبح کر کے تیار کیا گیا، پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی کلیجی گردے وغیرہ بھوننے کا حکم دیا۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بکری کی کلیجی کا حصہ ہر آدمی کے لیے رکھا، جو کوئی موجود تھا اسے دے دیااور جو موجود نہیں تھا، اس کے لیے رکھ چھوڑا۔ بکری کے گوشت کے دو تھال تیار کیے گئے۔ ہم سب نے سیر ہو کر کھایا اور دونوں میں گوشت بچا رہا، پھر ہم نے وہ بچا ہوا کھانا اونٹ پر لاد لیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11302

۔ (۱۱۳۰۲)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمًا بِتَمَرَاتٍ، فَقُلْتُ: أُدْعُ اللّٰہَ لِیْ فِیْہِنَّ بِالْبَرَکَۃِ، قَالَ: فَصَفَّہُنَّ بَیْنَیَدَیْہِ، قَالَ: ثُمَّ دَعَا، فَقَالَ لِیْ: ((إِجْعَلْہُنَّ فِیْ مِزْوَدٍ، فَأَدْخِلْ یَدَکَ وَلَا تَنْثُرْہُنَّ۔)) قَالَ: فَحَمَلْتُ مِنْہُ کَذَا وَکَذَا وَسْقاً فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَنَأْکُلُ وَنُطْعِمُ، وَکَانَ لَا یُفَارِقُ حَقْوِیْ، فَلَمَّا قُتِلَ عُثْمَانُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ انْقَطَعَ عَنْ حَقْوِیْ فَسَقَطَ۔ (مسند احمد: ۸۶۱۳)
سیدناابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میں ایک دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں کھجوریں لے کر حاضر ہوا اور عرض کی: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے لیے ان کھجوروں میں برکت کی دعا فرمائیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کھجوروں کو اپنے سامنے بکھیر لیا۔ پھر دعا فرمائی۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: ان کھجوروں کو چمڑے کے تھیلے میں ڈال لو۔ کھوریں نکالنے کے لیے اس کے اندر ہاتھ ڈال کر کھجوریں نکالنا اور اسے الٹ کر جھاڑنا نہیں۔ ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے اس تھیلے سے اتنے اتنے وسق (ایک وسق ساٹھ صاع اور ایک صاع تقریباً دو کلو سو گرام ہوتا ہے) اللہ کی راہ میں نکالے۔ہم خود کھاتے بھی اور کھلاتے بھی۔ وہ تھیلا کبھی بھی میری کمر سے جدا نہیں ہوتا تھا۔مگرجب سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قتل کا سانحہ پیش آیا تو وہ میری کمر سے کٹ کر گر گیا (اور گم ہوگیا)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11303

۔ (۱۱۳۰۳)۔ عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ، قَالَ: خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ غَزْوَۃٍ غَزَاھَا، فَأَرْمَلَ فِیْہَا الْمُسْلِمُوْنَ وَاحْتَاجُوْا إِلَی الطَّعَامِ، فَاسْتَأْذَنُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ نَحْرِ الْإِبِلِ فَأَذِنَ لَھُمْ، فَبَلَغَ ذٰلِکَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: فَجَائَ فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! إِبِلُہُمْ تَحْمِلُہُمْ وَتُبَلِّغُہُمْ عَدُوَّھُمْ یَنْحَرُوْنَہَا؟ بَلِ ادْعُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ بِغَبَرَاتِ الزَّادِ فَادْعُ اللّٰہَ عَزَّوَجََلَّ فِیْہَا بِالْبَرَکَۃِ، قَالَ: ((أَجَلْ۔)) قَالَ: فَدَعَا بِغَبَرَاتِ الزَّادِ، فَجَائَ النَّاسُ بِمَا بَقِیَ مَعَہُمْ فَجَمَعَہُ ثُمَّ دَعَا اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ فِیْہِ بِالْبَرَکَۃِ، وَدَعَا بِأَوْعِیَتِہِمْ فَمَلَأَھَا وَفَضَلَ فَضْلٌ کَثِیْرٌ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عِنْدَ ذٰلِکَ: ((أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَشْہَدُ أَنِّیْ عَبْدُاللّٰہِ وَرَسُوْلُہٗ،وَمَنْلَقِیَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ بِہِمَا غَیْرَ شَاکٍّ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔)) (مسند احمد: ۹۴۴۷)
سیدناابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک غزوہ میں تشریف لے گئے۔ اس دوران مسلمانوں کا زاد راہ ختم ہو گیا اور وہ کھانے کے سلسلہ میں محتاج ہوگئے۔ انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اونٹوں کو نحر کرنے کی اجازت طلب کی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں اس کی اجازت مرحمت فرما دی۔ اس کی اطلاع عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کوہوئی تو انہوں نے آکر عرض کی: اللہ کے رسول! یہ اونٹ مسلمانوں کو اپنے اوپرسوار کرکے دشمن تک پہنچاتے ہیںتو کیایہ ان کو ذبح کر لیں؟ اللہ کے رسول! آپ اس کی بجائے لوگوں کے پاس جو بچا کھچا زاد راہ ہے وہ منگوا کر اللہ عزوجل سے اس میں برکت کی دعا فرمائیں (تو زیادہ مناسب ہوگا)۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ ٹھیک ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوںسے ان کے پاس بچا ہوا زاد راہ طلب فرمایا۔ لوگوں کے پاس جو جو چیزیں بچی ہوئی تھیںوہ لے آئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سب کو ایک جگہ جمع کرکے اللہ عزوجل سے برکت کی دعا کی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے برتن (اور تھیلے وغیرہ) منگوا کر ان کو کھانے سے بھر دیااور بہت سا کھانا بچ رہا۔ اس موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ جو کوئی صدق دل سے ان دو باتوں کی گواہی دیتا ہوا اللہ سے جا ملے اور اسے ان میں کسی قسم کا تردد نہ ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11304

۔ (۱۱۳۰۴)۔ ثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ اَوْ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ شَکَّ الْأَعْمَشُ، قَالَ: لَمَّا کَانَ غَزْوَۃُ تَبُوْکِ اَصَابَ النَّاسَ مَجََاعَۃٌ فَذَکَرَ نَحْوَ الْحَدِیْثِ الْمُتَقَدِّمِ۔ (مسند احمد: ۱۱۰۹۶)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا سیدنا ابو ہر یرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ (یہ شک اعمش کو ہوا ہے) سے روایت ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر لوگوں کوشدید بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر گزشتہ حدیث کی طرح کی حدیث ذکر کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11305

۔ (۱۱۳۰۵)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِی عَمْرَۃَ الْأَنْصَارِیِّ، حَدَّثَنِی أَبِی، قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَزْوَۃٍ، فَأَصَابَ النَّاسَ مَخْمَصَۃٌ، فَاسْتَأْذَنَ النَّاسُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی نَحْرِ بَعْضِ ظُہُوْرِھِمْ وَقَالُوْا: یُبَلِّغُنَا اللّٰہُ بِہِ، فَلَمَّا رَأٰی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ ھَمَّ أَنْ یَأْذَنَ لَھُمْ فِی نَحْرِ بَعْضِ ظُہُوْرِھِمْ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! کَیْفَ بِنَا إِذَا نَحْنُ لَقِیْنَا الْقَوْمَ غَدًا جِیَاعًا أَوْ رِجَالًا؟ وَلٰکِنْ إِنْ رَأَیْتَیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَنْ تَدْعُوَ لَنَا بِبَقَایَا أَزْوَادِھِمْ فَنَجْمَعَھَا ثُمَّ تَدْعُوَ اللّٰہَ فِیْہَا بِالْبَرَکَۃِ، فَإِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی سَیُبَلِّغُنَا بِدَعْوَتِکَ، فَدَعَاالنَّبٍیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِبَقَایَا أَزْوَادِھِمْ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَجِیْئُوْنَ بِالْحَثْیَۃِ مِنَ الطَّعَامِ وَفَوْقَ ذٰلِکَ، وَکَانَ أَعْلَاھُمْ مَنْ جَائَ بِصَاعٍ مِنْ تَمْرٍ، فَجَمَعَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ قَامَ فَدَعَا مَا شَائَ اللّٰہُ أَنْ یَدْعُوَ، ثُمَّ دَعَا الْجَیْشَ بِأَوْعِیَتِہِمْ فَأَمَرَھُمْ أَنْ یَحْتَثُوْا، فَمَا بَقِیَ فِی الْجَیْشِ وِعَائٌ إِلَّا مَلَؤُوْہُ وَبَقِیَ مِثْلُہٗ،فَضَحِکَرَسُوْلُاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہُ فَقَالَ: ((أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ، لَا یَلْقَی اللّٰہَ عَبْدٌ مُؤْمِنٌ بِہِمَا إِلاَّ حُجِبَتْ عَنْہُ النَّارُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۵۵۲۸)
عبدالرحمن بن ابی عمرۃ انصاری اپنے والدسے روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک غزوہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، اس دوران لوگوں کوشدید بھوک کا سامنا کرنا پڑا، لوگوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سواری کے بعض اونٹوں کو نحر کرنے کی اجازت طلب کی اور کہا کہ ہمارے اپنی اگلی منزل تک پہنچنے کا اللہ مالک ہے۔ لیکن جب سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے دیکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو بعض اونٹوں کے نحر کرنے کی اجازت دینے کو تیار ہیں تو انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسو ل! کل جب ہم بھوکے یا پیدل دشمن کے مقابل ہوں گے تو ہمارا کیا بنے گا؟ اس کے بدلے اگر آپ مناسب سمجھیں تو لوگوں کے پاس کھانے پینے کی جو اشیاء بچی ہوئی ہوں،وہ منگوائیں ۔ہم ان اشیاء کو ایک جگہ جمع کر دیتے ہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ سے ان میں برکت کی دعا فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کی دعا سے ہمارے لیے برکت فرمائے گا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں سے کھانے پینے کی بچی ہوئی اشیاء منگوائیں، لوگ کھانے کی ایک ایک مٹھییا اس سے کچھ زیادہ لانے لگے، کوئی زیادہ سے زیادہ طعام لایا تو وہ ایک صاع کھجور تھی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان تمام اشیاء کو جمع کرکے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی رضا کے بقدردعائیں کیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لشکر کو بلوایا کہ وہ اپنے اپنے برتن (تھیلے، بوریاں وغیرہ) لے آئیں اور ان کو کھانے سے بھر لیں، پورے لشکر میں جتنے بھی برتن تھے، انہوں نے ان سب کو کھانے سے بھر لیااور اتنا ہی کھانا باقی بچا رہا، یہ دیکھ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شدت فرح سے اس حدتک مسکرائے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی داڑیں نظر آنے لگیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں،جو مومن ان دو باتوں کی شہادت اور دلی اقرار کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ملے گا، قیامت کے دن اس سے آگ کو دور ہٹا دیا جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11306

۔ (۱۱۳۰۶)۔ عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: عَمَدَتْ أُمُّ سُلَیْمٍ إِلٰی نِصْفِ مُدِّ شَعِیْرٍ فَطَحَنَتْہٗ،ثُمَّعَمَدَتْإِلٰی عُکَّۃٍ کَانَ فِیْہَا شَیْئٌ مِنْ سَمْنٍ، فَاتَّخَذَتْ مِنْہُ خَطِیْفَۃً، قَالَ: ثُمَّ أَرْسَلَتْنِیْ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: فَأَتَیْتُہُ وَھُوَ فِی أَصْحَابِہِ، فَقُلْتُ: إِنَّ أُمَّ سُلَیْمٍ أَرْسَلَتْنِیْ إِلَیْکَ تَدْعُوْکَ، فَقَالَ: ((أَنَا وَمَنْ مَعِی؟)) قَالَ: فَجَائَ ھُوَ وَمَنْ مَعَہٗ،قَالَ: فَدَخَلَتُفَقُلْتُلِأَبِی طَلْحَۃَ: قَدْ جَائَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَنْ مَعَہٗ،فَخَرَجَ أَبُو طَلْحَۃَ فَمَشٰی إِلٰی جَنْبِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّمَا ھِیَ خَطِیْفَۃٌ إِتَّخَذَتْہَا أُمُّ سُلَیْمٍ مِنْ نِصْفِ مُدِّ شَعِیْرٍ، قَالَ: فَدَخَلَ فَأُتِیَ بِہِ، قَالَ: فَوَضَعَ یَدَہُ فِیْہَا ثُمَّ قَالَ: ((أَدْخِلْ عَشَرَۃً۔)) قَالَ: فَدَخَلَ عَشَرَۃٌ فَأَکَلُوْا حَتّٰی شَبِعُوْا، ثُمَّ دَخَلَ عَشَرَۃٌ فَأَکَلُوْا، ثُمَّ عَشَرَۃٌ، ثُمَّ عَشَرَۃٌ، حَتّٰی أَکَلَ مِنْہَا أَرْبَعُوْنَ، کُلُّہُمْ أَکَلُوْا حَتّٰی شَبِعُوْا، قَالَ: وَبَقِیَتْ کَمَا ھِیَ، قَالَ: فَأَکَلْنَا۔ (مسند احمد: ۱۲۵۱۹)
سیدناسیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے نصف مد جو پیسے، پھرگھی کے لیے چمڑے کا بنا ہوا ڈبہ اٹھایا، اس میں تھوڑا ساگھی تھا۔ انہوں نے اس سے دلیہ سا بنایا، پھر انہوںنے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بلانے کے لیے مجھے بھیجا۔ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صحابہ کے درمیان تشریف فرماتھے۔ میں نے عرض کی: ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے مجھے بھیجا ہے، وہ آپ کو کھانے کے لئے بلا رہی ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے اور میرے ان ساتھیوں کو بھی؟ چنانچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ تشریف لائے۔ میں نے گھر جا کر سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ تشریف لا رہے ہیں۔ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ باہرنکلے اورنبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پہلو کے ساتھ چلنے لگے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ تو صرف دلیہ ہے، جو ام سلیم نے نصف مد جو سے تیار کیاہے (اتنی مقدار تو کھانے کی نہیں ہے کہ اتنے لوگ کھا لیں)۔ بہرحال رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اندرتشریف لائے، وہ کھانا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے پیش کیا گیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک اس میں رکھا اور فرمایا: دس آدمیوںکو اندر بلا لو۔ پس دس آدمیوں نے آکر پیٹ بھر کر کھایا، پھر دس آدمی آئے، انہوں نے بھی پیٹ بھر کر کھایا، پھر دس آدمی آئے،پھر دس آدمی آئے، یہاں تک کہ چالیس افراد نے سیر ہو کر کھاناکھایا اور وہ کھانا جیسے تھا، ویسے ہی باقی بچا رہا، پھر ہم گھر والوں نے وہ کھا لیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11307

۔ (۱۱۳۰۷)۔ عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذْ أُتِیَ بِقَصْعَۃٍ فِیْہَا ثَرِیْدٌ، قَالَ: فَأَکَلَ وَأَکَلَ الْقَوْمُ، فَلَمْ یَزَلْیَتَدَاوَلُوْنَہَا إِلٰی قَرِیْبٍ مِنَ الظُّہْرِ، یَأْکُلُ کُلُّ قَوْمٍ، ثُمَّ یَقُوْمُوْنَ وَیَجِیْئُ قَوْمٌ فَیَتَعَاقَبُوْہٗ، قَالَ: فَقَالَ لَہٗرَجُلٌ: ھَلْکَانَتْ تُمَدُّ بِطَعَامٍ؟ قَالَ: أَمَّا مِنَ الْأَرْضِ فَلَا، إِلَّا أَنْ تَکُوْنَ کَانَتْ تُمَدُّ مِنَ السَّمَائِ۔ (مسند احمد: ۲۰۳۹۷)
سیدنا سمرہ بن جندب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں ثرید (وہ کھانا جس میں روٹی شوربے میں بھگو کر نرم کرکے کھائی جاتی ہے) کا ایک پیالہ پیش کیاگیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اور دیگر لوگوں نے وہ کھایا، ظہر کے وقت تک لوگ کھاناکھاتے رہے، ایک گروہ کھانا کھا کر اٹھ جاتا تو ان کے بعد دوسرا گروہ آجاتا۔ ایک شخص نے سیدنا سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے پوچھا: کیاکھانے میں مزید کھانا شامل کیا جاتا رہا؟ انہوں نے جواب دیا: زمین سے تو شامل نہیں کیا گیا، البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ آسمان سے اس میں اضافہ کیا جاتا رہا ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11308

۔ (۱۱۳۰۸)۔ حَدَّثَنَا وَکِیْعٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیْلُ، عَنْ قَیْسٍ، عَنْ دُکَیْنِ بْنِ سَعِیْدٍ الْخَثْعَمِیِّ، قَالَ: أَتَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَنَحْنُ أَرْبَعُوْنَ وَأَرْبَعُمِائَۃٍ، نَسْأَلُہُ الطَّعَامَ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعُمَرَ: ((قُمْ فَأَعْطِہِمْ۔)) قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا عِنْدِیْ إِلَّا مَا یَقِیْظُنِیْ وَالصِّبْیَۃَ، قَالَ وَکِیْعٌ: اَلْقَیْظُ فِی کَلَامِ الْعَرَبِ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ، قَالَ: ((قُمْ فَأَعْطِہِمْ۔)) قَالَ عُمَرُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! سَمْعًا وَطَاعَۃً، قَالَ: فَقَامَ عُمَرُ وَ قُمْنَا مَعَہٗ،فَصَعِدَبِنَاإِلٰی غُرْفَۃٍ لَہٗ،فَأَخْرَجَالْمِفْتَاحَمِنْحُجْزَتِہِفَفَتَحَ الْبَابَ، قَالَ دُکَیْنٌ: فَإِذَا فِی الْغُرْفَۃِ مِنَ التَّمْرِ شَبِیْہٌ بِالْفَصِیْلِ الرَّابِضِ، قَالَ: شَأْنُکُمْ؟ قَالَ: فَأَخَذَ کُلُّ رَجُلٍ مِنَّا حَاجَتَہٗمَاشَائَ،قَالَ: ثُمَّالْتَفَتُّ،وَإِنِّی لَمِنْ آخِرِھِمْ وَکَأَنَّا لَمْ نَرْزَأْ مِنْہُ تَمْرَۃً۔ (مسند احمد: ۱۷۷۱۹)
سیدنادکین بن سعید خثعمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم چار سو چالیس آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خدمت میں آئے، ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کھانے کا مطالبہ کیا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: اٹھواور انہیں کھانا مہیا کرو۔ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے ہاں تو صرف اس قدر کھانا ہے جو میرے لیے اور میری اولاد کے لیے صرف چار ماہ تک کافی ہوگا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اٹھواوران کو کھانا دو۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! سنا اور اطاعت کی (یعنی آپ کا حکم سر آنکھوں پر)۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اٹھے اور ہم بھی ان کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے، وہ ہمیں اپنے ساتھ لے کر بالاخانے کی طرف گئے۔ انہوں نے اپنی کمر سے چابی نکال کر دروازہ کھولا۔ سیدنا دکین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ ان کے کمرے میں کم زور قسم کی کھجور پڑی تھی۔ انہوں نے کہا: تم یہاں سے جس قدر چاہو اٹھا لو، ہم میں سے ہر آدمی نے وہاں سے اپنی اپنی ضرورت کے مطابق کھجوریں اٹھا لیں، میں سب سے آخر میں تھا۔ میں نے غور کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ گویا ہم نے ان کی کھجوروں میں ایک کھجور بھی کم نہیں کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11309

۔ (۱۱۳۰۹)۔ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ، قَالَ: قَدِمْنَا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی أَرْبَعِمِائَۃٍ مِنْ مُزَیْنَۃَ، فَأَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِأَمْرِہِ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا لَنَا طَعَامٌ نَتَزَوَّدُہٗ،فَقَالَالنَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعُمَرَ: ((زَوِّدْھُمْ۔)) فَقَالَ: مَا عِنْدِیْ إِلَّا فَاضِلَۃٌ مِنْ تَمْرٍوَمَا أُرَاھَا تُغْنِیْ عَنْہُمْ شَیْئًا، فَقَالَ: ((انْطَلِقْ فَزَوِّدْھُمْ۔)) فَانْطَلَقَ بِنَا إِلٰی عُلِّیَّۃٍ لَہٗ،فَإِذَا فِیْہَا تَمْرٌ مِثْلُ الْبَکْرِ الْأَوْرَقِ، فَقَالَ: خُذُوْا، فَأَخَذَ الْقَوْمُ حَاجَتَہُمْ، قَالَ: وَکُنْتُ أَنَا فِی آخِرِالْقَوْمِ، قَالَ: فَالْتَفَتُّ وَمَا أَفْقِدُ مَوْضِعَ تَمْرَۃٍ، وَقَدِ احْتَمَلَ مِنْہُ أَرْبَعُمَائَۃِ رَجُلٍ۔ (مسند احمد: ۲۴۱۴۷)
سیدنا نعمان بن مقرن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم قبیلہ بنو مزینہ کے چار سو آدمی رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمارے لئے لوگوں کو حکم دیا۔ بعض لوگوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ان کو دینے کے لیے ہمارے پاس کھانا میسر نہیں ہے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عمربن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: تم انہیں کھانا مہیا کرو۔ انہوں نے عرض کی: میرے پاس تو کچھ ہلکی قسم کی کھجور ہے، میرا خیال ہے کہ وہ ان کو کفایت نہیں کرے گی۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جا کر انہیں دے دو۔ وہ ہمیں اپنے ساتھ بالا خانے میں لے گئے، وہاں مٹیالے رنگ کی سی کھجور تھی۔ انہوں نے کہا: یہاں سے اٹھا لو۔ لوگوں نے اپنی اپنی ضرورت کے مطابق کھجوریں اٹھا لیں، میں سب سے آخر میں تھا۔ میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ ہم نے ایک کھجور کے برابر بھی جگہ خالی نہیں کی۔ حالانکہ وہاں سے چار سو افراد نے کھجوریں اٹھائی تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11310

۔ (۱۱۳۱۰)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: قَالَتْ أُمُّ سُلَیْمٍ: إِذْھَبْ إِلٰی نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْ: إِنْ رَأَیْتَ أَنْ تَغَدّٰی عِنْدَنَا فَافْعَلْ، قَالَ: فَجِئْتُہُ فَبَلَّغْتُہُ، فَقَالَ: ((وَمَنْ عِنْدِی؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: ((انْہَضُوْا۔)) قَالَ: فَجِئْتُ فَدَخَلْتُ عَلٰی أُمِّ سُلَیْمٍ وَأَنَا لَدَھِشٌ لِمَنْ أَقْبَلَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: فَقَالَتْ أُمُّ سُلَیْمٍ: مَا صَنَعْتَ یَا أَنَسُ؟ فَدَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی إِثْرِ ذٰلِکَ، قَالَ: ((ھَلْ عِنْدَکَ سَمْنٌ؟)) قَالَتْ: نَعَمْ، قَدْ کَانَ مِنْہُ عِنْدِیْ عُکَّۃٌ فِیْہَا شَیْئٌ مِنْ سَمْنٍ، قَالَ: ((فَأْتِ بِہَا۔)) قَالَتْ: فَجِئْتُہُ بِہَا فَفَتَحَ رِبَاطَہَا ثُمَّ قَالَ: ((بِسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰہُمَّ أَعْظِمْ فِیْہَا الْبَرَکَۃَ۔)) قَالَ: فَقَالَ: ((اقْلِبِیْہَا۔)) فَقَلَبْتُہَا فَعَصَرَھَا نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ یُسَمِّی، قَالَ: فَأَخَذْتُ نَقْعَ قِدْرٍ، فَأَکَلَ مِنْہَا بِضْعٌ وَثَمَانُوْنَ رَجُلًا فَفَضَلَ فِیْہَا فَضْلٌ، فَدَفَعَہَا إِلٰی أُمِّ سُلَیْمٍ، فَقَالَ: ((کُلِی وَأَطْعِمِی جِیْرَانَکِ۔)) (مسند احمد: ۱۳۵۸۱)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان سے کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہو کہ ممکن ہو تو کھانا ہمارے ہاں تناول فرمائیں۔ میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جا کر یہ پیغام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچا دیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اور جو لوگ میرے پاس ہیں وہ؟ میں نے کہہ دیا: جی ہاں وہ بھی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو !اٹھو۔ میں نے جا کر سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ساری بات کہہ دی۔ مجھے ان لوگوں کا ڈر تھا جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ آرہے تھے کہ اتنے لوگوں کو کھانا کیسے کفایت کرے گا۔ سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: سیدنا انس! تم نے یہ کیا کیا؟ اتنے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریفلے آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: کیا آپ کے پاس گھی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں ! میرے پاس چمڑے کا ایک ڈبہ تھا،اس میں کچھ گھی تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ ڈبہ اٹھا لائیں۔ سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتی ہیں: میں نے وہ ڈبہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پیش کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کا ڈھکن کھولا اور فرمایا: بسم اللہ، یا اللہ! اس میں خوب برکت فرما۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب اس ڈبے کو پلٹ دو۔ انہوں نے اسے پلٹ دیا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ کا نام لیتے لیتے اسے اچھی طرح نچوڑا، انہوں نے وہ سارا گھی ہنڈیا میں ڈال دیا۔ اس سے اسی سے زائد آدمیوں نے کھانا کھایااورکافی کھانا بچا رہا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ ہنڈیا ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حوالے کی اور فرمایا: لو تم بھی کھائو اور ہمسایوں کو بھی کھلائو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11311

۔ (۱۱۳۱۱)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: أَتٰی أَبُوْ طَلْحَۃَ بِمُدَّیْنِ مِنْ شَعِیْرٍ، فَأَمَرَ بِہِ فَصُنِعَ طَعَامًا، ثُمَّ قَالَ لِیْ: یَا أَنَسُ! انْطَلِقْ ائْتِ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَادْعُہُ وَقَدْ تَعْلَمُ مَا عِنْدَنَا، قَالَ: فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابُہُ عِنْدَہُ، فَقُلْتُ: إِنَّ أَبَا طَلْحَۃَیَدْعُوْکَ إِلٰی طَعَامِہِ، فَقَامَ وَقَالَ لِلنَّاسِ: ((قُوْمُوْا۔)) فَقَامُوْا، فَجِئْتُ أَمْشِیْ بَیْنَیَدَیْہِ حَتّٰی دَخَلْتُ عَلٰی أَبِی طَلْحَۃَ فَأَخْبَرْتُہُ، قَالَ: فَضَحْتَنَا، قُلْتُ: إِنِّی لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ أَرُدَّ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَمْرَہٗ، فَلَمَّا انْتَہَی النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی الْبَابِ قَالَ لَھُمْ: ((اقْعُدُوْا۔)) وَدَخَلَ عَاشِرَعَشَرَۃً، فَلَمَّا دَخَلَ وَأُتِیَ بِالطَّعَامِ تَنَاوَلَ فَأَکَلَ، وَأَکَلَ مَعَہُ الْقَوْمُ حَتّٰی شَبِعُوْا، ثُمَّ قَالَ لَھُمْ: ((قُوْمُوْا، وَلْیَدْخُلْ عَشَرَۃٌ مَکَانَکُمْ۔)) حَتّٰی دَخَلَ الْقَوْمُ کُلُّہُمْ وَأَکَلُوْا، قَالَ: قُلْتُ: کَمْ کَانُوْا؟ قَالَ: کَانُوْا نَیْفًا وَ ثَمَانِیْنَ، قَالَ: وَفَضَلَ لِأَھْلِ الْبَیْتِ مَا أَشْبَعَہُمْ۔ (مسند احمد: ۱۳۴۶۱)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دو مد جولے کر آئے، انہوں نے اس سے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا، پھر مجھ سے کہا: انس! تم جا کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بلا لائو اور تم جانتے ہی ہو کہ کھانا تھوڑا سا ہے۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کیخدمت میں پہنچا تو صحابۂ کرام بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس تھے۔ میں نے عرض کیا کہ ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ کو کھانے کے لیے بلاتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہوئے اور لوگوں کو بھی کھڑے ہونے کا حکم دیا۔ وہ بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آگے آگے چلتا ہوا سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس پہنچا اور ان کو صورت حا ل سے باخبر کیا (کہ وہ تو سارے لوگ آ رہے ہیں)۔ انھوں نے کہا: تونے تو آج ہمیں رسوا کر دیا ہے۔ میں نے کہا کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات کو رد نہیں کر سکتا تھا، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دروازے پر پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ کو وہیں بیٹھ جانے کا حکم دیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خود نو صحابہ کے ہمراہ اندر چلے آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب اندر آئے اور کھانا پیش کیا گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ والوں نے خوب سیر ہو کر کھایا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: تم اٹھ جائو اور تمہاری جگہ مزید دس آدمی آجائیں ۔ یہاں تک کہ سب لوگوں نے آکر کھانا تناول کیا۔ عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں: میں نے سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ اس دن صحابۂ کرام کی تعداد کیا تھی؟ انہوں نے بتایا کہ اسی سے زائد افراد تھے، سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ پھر بھی اتنا کھانا بچ گیا جس نے گھر والوںکو سیر کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11312

۔ (۱۱۳۱۲)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: عَمِلْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْخَنْدَقِ، قَالَ: فَکَانَتْ عِنْدِیْ شُوَیْہَۃُ عَنْزٍ جَذْعٌ سَمِیْنَۃٌ، قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ لَوْ صَنَعْنَاھَا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: فَأَمَرْتُ إِمْرَأَتِی فَطَحَنَتْ لَنَا شَیْئًا مِنْ شَعِیْرٍ، وَصَنَعَتْ لَنَا مِنْہُ خُبْزًا، وَذَبَحَتْ تَلْکَ الشَّاۃَ فَشَوَیْنَاھَا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: فَلَمَّا أَمْسَیْنَا وَأَرَادَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْإِنْصِرَافَ عَنِ الْخَنْدَقِ، قَالَ: وَکُنَّا نَعْمَلُ فِیْہِ نَہَارًا فَإِذَا أَمْسَیْنَا رَجَعْنَا إِلٰی أَھْلِنَا، قاَلَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنِّی قَدْ صَنَعْتُ لَکَ شُوَیْہَۃً کَانَتْ عِنْدَنَا وَصَنَعْنَا مَعَہَا شَیْئًا مِنْ خُبْزِ ھٰذَا الشَّعِیْرِ، فَأُحِبُّ أَنْ تَنْصَرِفَ مَعِی إِلٰیمَنْزِلِی، وَإِنَّمَا أُرِیْدُ أَنْ یَنْصَرِفَ مَعِی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَحْدَہٗ،قَالَ: فَلَمَّاقُلْتُلَہُذٰلِکَقَالَ: ((نَعَمْ۔)) ثُمَّأَمَرَصَارِخًا،فَصَرَخَأَنِانْصَرِفُوْامَعَرَسُوْلِاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی بَیْتِ جَابِرٍ، قَالَ: قُلْتُ: إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، فَأَقْبَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَقْبَلَ النَّاسُ مَعَہٗ،قَالَ: فَجَلَسَوَأَخْرَجْنَاھَاإِلَیْہِ، قَالَ: فَبَرَکَ وَسَمّٰی ثُمَّ أَکَلَ، وَتَوَارَدَھَا النَّاسُ، کُلَّمَا فَرَغَ قَوْمٌ قَامُوْا وَجَائَ نَاسٌ حَتّٰی صَدَرَ أَھْلُ الْخَنْدَقِ عَنْہَا۔ (مسند احمد: ۱۵۰۹۳)
سیدناجابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ خندق میں کام کیا، میر ے ہاں موٹی تازی ایک کھیری عمر کی چھوٹی سی بکری تھی۔ میں نے سوچا کہ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کھانے کے لیے اس بکری کو پکا لیں۔ میں نے اپنی اہلیہ کو حکم دیاتو اس نے کچھ جو پیس کر آٹا تیارکیااور ہمارے لیے روٹیاں پکائیں۔ اس بکری کو ذبح کیا اور ہم نے اس کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے بھونا، جب شام ہوئی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خندق سے واپسی کا ارادہ فرمایا، سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم دن کو کام کیا کرتے اور شام کے وقت اہل و عیال میں واپس آجاتے تھے، میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول ! ہمارے ہاں ایک چھوٹی سی بکری تھی، میں نے آپ کے لیے وہ تیار کی ہے اور جو کی کچھ روٹیاں بھی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ میرے گھر تشریف لے چلیں۔ سیدنا جابر کہتے ہیں: میں چاہتا تھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اکیلے ہی میرے ساتھ تشریف لے چلیں ، لیکن جب میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے گزارش کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک اعلان کرنے والے کو حکم دیا تو اس نے اعلان کردیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ جابر کے گھر چلو۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا اعلان سن کر میں نے إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا۔ بہرحال آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ دوسرے لوگ آگئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیٹھ گئے، ہم نے تیار شدہ کھانا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے پیش کیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے برکت کی دعا کی اور اللہ کا نام لے کر کھانا کھایا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد لوگ باری باری آتے گئے، جب ایک گروہ فارغ ہو کر اٹھ جاتا تو دوسرے لوگ آجاتے یہاںتک کہ تمام اہل خندق کھانا کھا گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11313

۔ (۱۱۳۱۳)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قُتِلَ أَبِییَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَکَ حَدِیْقَتَیْنِ وَلِیَہُوْدِیٍّ عَلَیْہِ تَمْرٌ، وَتَمْرُ الْیَہُوْدِیِّیَسْتَوْعِبُ مَا فِی الْحَدِیْقَتَیْنِ، فَقَالَ لَہٗرَسُوْلُاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ھَلْ لَکَ أَنْ تَأْخُذَ الْعَامَ بَعْضًا وَتُؤَخِّرَ بَعْضًا إِلٰی قَابِلٍ؟)) فَأَبٰی، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِذَا حَضَرَ الْجِدَادُ فَآذِنِّی۔)) قَالَ: فَآذَنْتُہٗ،فَجَائَالنَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ فَجَعَلْنَا نَجُدُّ وَیُکَالُ لَہٗمِنْأَسْفَلِالنَّخْلِ، وَرَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدْعُوْ بِالْبَرَکَۃِ، حَتّٰی أَوْفَیْنَاہُ جَمِیْعَ حَقِّہِ مِنْ أَصْغَرِ الْحَدِیْقَتَیْنِ فِیْمَایَحْسِبُ عَمَّارٌ، ثُمَّ أَتَیْنَا ھُمْ بَرُطَبٍ وَمَائٍ فَأَکَلُوْا وَشَرِبُوْا، ثُمَّ قَالَ: ((ھٰذَا مِنَ النَّعِیْمِ الَّذِی تُسْأَلُوْنَ عَنْہٗ۔)) (مسنداحمد: ۱۵۲۷۶)
سیدناجابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ان کے والد احد کے دن شہید ہوگئے تھے، وہ اپنے ترکہ میں دو باغ چھوڑ گئے تھے، ان کے ذمہ ایکیہودی کا کھجوروں کی صورت میں قرضہ تھا، یہودی کا قرض دونوں باغوں کے پھل سے بھی زائد تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس یہودی سے فرمایا: کیا تم اتنی رعایت دے سکتے ہو کہ کچھ قرض اس سال لے لو اور کچھ آئندہ سال۔ اس نے انکار کر دیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: جب کھجور کا پھل تیار ہو تو مجھے اطلاع کرنا۔ جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اطلاع دی۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی آگئے۔ ہم پھل اتارنے لگے اور کھجور کے نیچےیہودی کے لیے کھجوروں کا وزن کیا جانے لگا۔ رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم برکت کی دعافرماتے رہے۔ ہم نے چھوٹے باغ کے پھل سے یہودی کو سارا قرض ادا کر دیا۔ اس کے بعد ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں تازہ کھجور اور پانی پیش کیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اور صحابہ نے کھجوریں کھائیں اور پانی پیا۔پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ بھی ان نعمتوں میں سے ہے، جن کی بابت تم سے پوچھ گچھ ہوگی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11314

۔ (۱۱۳۱۴)۔ (وََعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ): أَنَّ أَبَاہُ تُوُفِّیَ وَعَلَیْہِ دَیْنٌ، قَالَ: فَأَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقُلْتُ لَہٗ: إِنَّأَبِی تُوُفِّیَ وَعَلَیْہِ دَیْنٌ وَلَیْسَ عِنْدِی إِلَّا مَا یُخْرِجُ نَخْلُہٗ،فَلَایَبْلُغْ مَا یَخْرُجُ سُدُسَ مَا عَلَیْہِ، قَالَ: فَانْطَلِقْ مَعِی لِکَیْلَا تَفَحَّشَّ عَلَیَّ الْغُرَمَائُ، فَمَشٰی حَوْلَ بَیْدَرٍ مِنْ بَیَادِرِ التَّمْرِ ثُمَّ دَعَا وَجَلَسَ عَلَیْہِ، وَقَالَ: ((أَیْنَ غُرَمَاؤُہٗ؟)) فَأَوْفَاھُمُالَّذِی لَھُمْ، وَبَقِیَ مِثْلُ الَّذِی أَعْطَاھُمْ۔ (مسند احمد: ۱۴۹۹۷)
۔(دوسری سند) سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ ان کے والد مقروض شہید ہوئے۔ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جا کر عرض کی کہ میرے والد فوت ہوگئے ہیں اور ان کے ذمے قرض ہے،جبکہ میرے پاس کھجوروں کے پھل کے سوا ادائیگی کے لیے اور کچھ نہیں ہے اور کھجوروں کا پھل قرض کا چھٹا حصہ بھی نہیں ہوگا۔ تو آپ میرے ساتھ چلیں تاکہ قرض خواہ میرے ساتھ سخت کلام نہ کریں۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھجور کے ڈھیروں میں سے ایک ڈھیر کے گرد چکر کاٹنے لگے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دعا کی اور بیٹھ گئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: اس کے قرض خواہ کہاں ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے حق ان کو پورے کر دیئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جس قدر ان کو دیا اتنا ہی پھل باقی بچا رہا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11315

۔ (۱۱۳۱۵)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: جَائَ رَجُلٌ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَسْتَطْعِمُہُ، فَأَطْمَعَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَسْقَ شَعِیْرٍ، فَمَا زَالَ الرَّجُلُ یَأْکُلُ مِنْہُ ھُوَ وَامْرَأَتُہُ وَوَصِیْفٌ لَھُمْ حَتّٰی کَالُوْہُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَوْ لَمْ تَکِیْلُوْہُ لَأَکَلْتُمْ مِنْہُ وَلَقَامَ لَکُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۴۶۷۶)
سیدناجابربن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آکر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کھانا طلب کیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے ایک وسق (یعنی ساٹھ صاع) جو عطا فرمائے۔ کافی عرصہ تک وہ آدمی، اس کی بیوی اور ان کا ایک لڑکا اس سے کھاتے رہے۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ انہوں نے اس کو ماپ لیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم اس کی پیمائش نہ کرتے تو تم اس سے کھاتے رہتے اور وہ تمہارے پاس موجود رہتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11316

۔ (۱۱۳۱۶)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ، أَنَّ أُمَّ مَالِکٍ الْبَہْزِیَّۃَ کَانَتْ تُہْدِی فِی عُکَّۃٍ لَھَا سَمْنًا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَبَیْنَا بَنُوْھَا یَسْأَلُوْنَہَا الْإِدَامَ وَلَیْسَ عِنْدَھَا شَیْئٌ، فَعَمَدَتْ إِلٰی عُکَّتِہَا الَّتِی کَانَتْ تُہْدِی فِیْہَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَوَجَدَتْ فِیْہَا سَمْنًا، فَمَا زَالَ یَدُوْمُ لَہَا أُدْمُ بَنِیْہَا حَتّٰی عَصَرَتْہُ، وَ أَتَتْ رَسُوْلَ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((أَعَصَرْتِیْہِ؟)) قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: ((لَوْ تَرَکْتِیْہِ مَا زَالَ ذٰلِکِ لَکِ مُقِیْمًا۔)) (مسند احمد: ۱۴۷۱۹)
سیدناجابربن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ ام مالک بہزیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا چمڑے کے ایک برتن میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گھی بطور ہدیہ بھیجا کرتی تھیں۔ایک دفعہ ان کے بیٹوں نے ان سے سالن طلب کیا، ان کے پاس ایسی کوئی چیز نہ تھی، جسے وہ بطور سالن دیتیں، وہ جس برتن میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گھی بھیجا کرتی تھیں، اس میں انہوں نے تھوڑا سا گھی پایا، ایک عرصہ تک وہی گھی ان کے بیٹوں کے لیے سالن کا کام دیتا رہا۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ انہوں نے اسے نچوڑ دیا۔ پھر اس نے آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کیا (کہ برتن کا گھی تو ختم ہوگیا)۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تو نے اسے نچوڑا تھا؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تو اسے ویسے ہی استعمال کرتی رہتی تو وہ تیرے لیے کبھی ختم نہ ہوتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11317

۔ (۱۱۳۱۷)۔ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ، قَالَ: قَدِمْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْحُدَیْبِیَۃَ وَنَحْنُ أَرْبَعَ عَشْرَۃَ مِائَۃً، وَعَلَیْہَا خَمْسُوْنَ شَاۃً لَا تُرْوِیْہَا، فَقَعَدَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی حِیَالِھَا، فَإِمَّا دَعَا وَإِمَّا بَصَقَ، فَجَاشَتْ، فَسَقَیْنَا وَاسْتَقَیْنَا۔ (مسند احمد: ۱۶۶۳۳)
سیدناسلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ حدیبیہ کے مقام پر پہنچے، ہماری تعداد چودہ سو تھی، وہاں اس قدر معمولی پانی تھا کہ پچاس بکریوں کو بھی سیراب نہ کر سکتا تھا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کنوئیں کے کنارے پر بیٹھ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دعا فرمائییا اس میں اپنا لعاب ڈالا تو اس کنویں کا پانی جوش مارنے لگا، پس ہم نے پانی پیا اور پلایا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11318

۔ (۱۱۳۱۸)۔ عَنِ الْبَرَائِ، قَالَ: إِنْتَہَیْنَا إِلَی الْحُدَیْبِیَۃِ، وَھِیَ بِئْرٌ قَدْ نُزِحَتْ، وَنَحْنُ أَرْبَعَ عَشْرَۃَ مِائَۃً، قَالَ: فَنُزِعَ مِنْہَا دَلْوٌ فَتَمَضْمَضَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْہُ ثُمَّ مَجَّہُ فِیْہِ وَ دَعَا، قَالَ: فَرُوِیْنَا وَأَرْوَیْنَا۔ (مسند احمد: ۱۸۷۶۲)
سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ روایت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہم حدیبیہ کے مقام پر پہنچے اور وہاں ایک کنواں تھا، جس کا پانی ختم ہونے کے قریب تھا۔ ہماری تعداد چودہ سو تھی۔ کنوئیں سے پانی کا ایک ڈول نکالا گیا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے کچھ پانی لے کر کلی کرکے وہ اس میں ڈال دیا اور دعا بھی فرمائی۔ پس پھر ہم پانی سے خوب سیراب ہوئے اور دوسروں کو بھی سیراب کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11319

۔ (۱۱۳۱۹)۔ عَنِ الْبَرَائِ، قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی مَسِیْرٍ فَأَتَیْنَا عَلٰی رَکِیِّ ذَمَّۃٍ،یَعْنِی قَلِیْلَۃَ الْمَائِ، قَالَ: فَنَزَلَ فِیْہَا سِتَّۃٌ أَنَا سَادِسُہُمْ مَاحَۃً، فَأُدْلِیَتْ إِلَیْنَا دَلْوٌ قَالَ: وَرَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی شَفَۃِ الرَّکِیِّ، فَجَعَلْنَا فِیْہَا نِصْفَہَا أَوْ قِرَابَ ثُلُثَیْہَا فَرُفِعَتْ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ الْبَرَائُ: فَکِدْتُّ بِإِنَائِیْ ھَلْ أَجِدُ شَیْئًا أَجْعَلُہُ فِی حَلْقِی فَمَا وَجَدْتُّ، فَرُفِعَتِ الدَّلْوُ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَغَمَسَ یَدَہُ فِیْہَا فَقَالَ مَاشَائَ اللّٰہُ أَنْ یَقُوْلَ، فَعِیْدَتْ إِلَیْنَا الدَّلْوُ بِمَا فِیْہَا، قَالَ: فَلَقَدْ رَأَیْتُ أَحَدَنَا أُخْرِجَ بِثَوْبٍ خَشْیَۃَ الْغَرَقِ، قَالَ: ثُمَّ سَاحَتْ یَعْنِی جَرَتْ نَہْرًا۔ (مسند احمد: ۱۸۷۸۵)
سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم ایک سفر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ تھے، ہم ایک ایسے کنوئیں تک پہنچے جس میں بہت تھوڑا پانی تھا، کنوئیں سے پانی نکالنے کے لیے پانچ آدمی اس میں اترے، میں چھٹا تھا، کنویں میں ہماری طرف ڈول ڈالا گیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کنویں کے کنارے پر موجود تھے۔ ہم نے اس ڈول میں اس کے نصف تک یا دو تہائی تک پانی بھرا تو اسے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف اوپر کو کھینچ لیا گیا۔ سیدنا برائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے کوشش کی کہ اپنے برتن میں کچھ پانی ڈال کر اپنے حلق کو تر کر لوں، مگر مجھے اس قدر تھوڑا سا پانی بھی نہ مل سکا۔ ڈول اوپر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف کھینچا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس میں ہاتھ ڈبو کر اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی اور ڈول کو پانی سمیت کنویں کے اندر ہماری طرف واپس اتارا گیا۔ اس کی برکت سے کنویں میں اتنا پانی ہو گیا کہ ہمارے ڈوب جانے کے اندیشہ سے ہم میں سے ہر ایک کو کپڑے کے ساتھ باندھ کر باہر نکالا گیا، اس کے بعد وہ نہر کی طرح بہنے لگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11320

۔ (۱۱۳۲۰)۔ عَنْ أَبِیْ قَتَادَۃَ أَنَّہُ کَانَ فِیْ سَفَرٍ مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابِہِ وَکَانَ مَعَہُ مِیْضَأٌ وَفِیْہَا جَرْعَۃُ مَائٍ، قَالَ اَبُوْ قَتَادَۃَ: فَلَمَّا اشْتَدَّتِ الظَّہِیرَۃُ رَفَعَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ہَلَکْنَا عَطَشًا تَقَطَّعَتِ الْأَعْنَاقُ، فَقَالَ: ((لَا ہُلْکَ عَلَیْکُمْ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((یَا أَبَا قَتَادَۃَ ائْتِ بِالْمِیضَأَۃِ۔)) فَأَتَیْتُہُ بِہَا فَقَالَ: ((احْلِلْ لِی غُمَرِی۔)) یَعْنِی قَدَحَہُ فَحَلَلْتُہُ فَأَتَیْتُہُ بِہِ فَجَعَلَیَصُبُّ فِیہِ وَیَسْقِی النَّاسَ فَازْدَحَمَ النَّاسُ عَلَیْہِ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ أَحْسِنُوا الْمَلَأَ فَکُلُّکُمْ سَیَصْدُرُ عَنْ رِیٍّ۔)) فَشَرِبَ الْقَوْمُ حَتّٰی لَمْ یَبْقَ غَیْرِی وَغَیْرُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَصَبَّ لِیََََ فَقَالَ: ((اِشْرَبْ یَا أَبَا قَتَادَۃَ!)) قَالَ قُلْتُ: اِشْرَبْ أَنْتَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ إِنَّ سَاقِیَ الْقَوْمِ آخِرُہُمْ فَشَرِبْتُ وَشَرِب بَعْدِی وَبَقِیَ فِی الْمِیضَأَۃِ نَحْوٌ مِمَّا کَانَ فِیہَا وَہُمْ یَوْمَئِذٍ ثَلَاثُ مِائَۃٍ۔… الحدیث۔ (مسند احمد: ۲۲۵۴۶)
سیدنا ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں ایک سفر میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابۂ کرام کے ساتھ تھا، ان کے پاس وضو کا ایک برتن تھا، جس میں محض ایک چلو کی مقدارپانی تھا، جب دھوپ خوب تیز ہوئییعنی گرمی بڑھی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں کے سامنے آئے۔ لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! پیاس کی شدت کی وجہ سے ہم مر رہے ہیں، ہماری تو گردنیں ٹوٹ رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا: آج تم پر ہلاکت نہیں پڑے گی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابو قتادہ! تم وضو والا برتن لے کر آؤ۔ میں نے وہ برتن آپ کی خدمت میں پیش کیا، آپ نے فرمایا: تم میرا چھوٹا پیالہ کھول لائو۔ میں اسے کھول کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لایا، آپ اس میں پانی ڈال کر لوگوں کو پلانے لگے، لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ارد گرد جمع ہوگئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو! پانی بھرنے کے لیے اچھا رویہ اپنائو، تم میں سے ہر ایک سیراب ہو کر لوٹے گا۔ سب لوگوں نے خوب پانی پیا، صرف اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور میں بچ گئے، آپ نے پیالے میں میرے لیے پانی ڈالا اور فرمایا: ابو قتادہ! لو پیو۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پہلے آپ پئیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پلانے والا آخر میں پیتا ہے۔ تب میں نے پیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے بعد نوش فرمایا اور وضو کے برتن میں پانی جتنا تھا، وہ تقریباً اتنا ہی رہا۔ اس دن صحابہ کی تعداد تین سو تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11321

۔ (۱۱۳۲۱)۔ عَنْ عَائِذِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: کَانَ فِی الْمَائِ قِلََّۃٌ، فَتَوَضَّأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی قَدَحٍ أَوْ فِی جَفْنَۃٍ، فَنَضَحْنَا بِہِ، قَالَ: وَالسَّعِیْدُ فِی أَنْفُسِنَا مَنَ أَصَابَہُ وَلَا نُرَاہُ إِلَّا قَدْ أَصَابَ الْقَوْمَ کُلَّہُمْ، قَالَ: ثُمَّ صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الضُّحٰی۔ (مسند احمد: ۲۰۹۱۵)
سیدناعائذ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ پانی تھوڑا تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک پیالےیا کھلے برتن میں وضو کیا، ہم نے اس سے پانی لے لے کر مختصر وضو کیا، ہم میں وہ آدمی خوش قسمت تھا، جسے اس پانی میں سے کچھ مل گیا۔ ہمارا خیال ہے کہ پانی ہر آدمی کو مل گیا تھا۔ اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں چاشت کے وقت نماز پڑھائی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۱۱۳۲۲)۔ حَدَّثَنَا یَحْیٰ، عَنْ عَوْفٍ، حَدَّثَنَا أَبُوْ رَجَائٍ، حَدَّثَنِی عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: کُنَّا فِی سَفَرٍ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَإِنَّا أَسْرَیْنَا، حَتّٰی إِذَا کُنَّا فِی آخِرِ اللَّیْلِ وَقَعْنَا تِلْکَ الْوَقْعَۃَ، فَلَا وَقْعَۃَ أَحْلٰی عِنْدَ الْمُسَافِرِ مِنْہَا، قَالَ: فَمَا أَیْقَظَنَا إِلَّا حَرُّ الشَّمْسِ، وَکَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَیْقَظَ فُلَانٌ ثُمَّ فُلَانٌ،کَانَ یُسَمِّیْہِمْ أَبُوْ رَجَائٍ وَنَسِیَہُمْ عَوْفٌ، ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ الرَّابِعُ، وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا نَامَ لَمْ نُوْقِظْہُ حَتّٰییَکُوْنَ ھُوَ یَسْتَیْقِظُ، ِلأَناَّ لاَ نَدْرِیْ ماَ یُحْدِثُ أَوْ یَحْدُثُ لَہُ فِی نَوْمِہِ، فَلَمَّا اسْتَیْقَظَ عُمَرُ وَرَأٰی مَا أَصَابَ النَّاسَ ،وَکَانَ رَجُلاً أَجْوَفَ جَلِیْدًا، قَالَ: فَکَبَّرَ وَرَفَعَ صَوْتَہُ بِالتَّکْبِیْرِ حَتَّیاسْتَیْقَظَ لِصَوْتِہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَلَمَّا اسْتَیْقَظَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَکَوْا الَّذِی أَصَابَہُمْ، فَقَالَ: ((لَا ضَیْرَ أَوْلایَضِیْرُ، اِرْتَحِلُوْا۔)) فَارْتَحَلَ، فَسَارَ غَیْرَ بَعِیْدٍ ثُمَّ نَزَلَ، فَدَعَا بِالْوَضُوْئِ فَتَوَضَّأَ، وَ نُوْدِیَ بِالصَّلَاۃِ، فَصَلّٰی بِالنَّاسِ، فَلَمَّا انْفَتَلَ مِنْ صَلَاتِہِ إِذَا ھُوَ بِرَجُلٍ مُعْتَزِلٍ لَمْ یُصَلِّ مَعَ الْقَوْمِ، فَقَالَ: ((مَا مَنَعَکَ یَا فُلَانُ أَنْ تُصَلِّیَ مَعَ الْقَوْمِ؟)) فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَصَابَتْنِی جَنَابَۃٌ وَلَا مَائَ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((عَلَیْکَ بِالصَّعِیْدِ فَإِنَّہُ یَکْفِیْکَ۔)) ثُمَّ سَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاشْتَکٰی إِلَیْہِ النَّاسُ الْعَطَشَ، فَنَزَلَ فَدَعَا فُلَانًا کَانَ یُسَمِّیْہِ أَبُوْ رَجَائٍ وَنَسِیَہُ عَوْفٌ وَدَعَا عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فَقَالَ: ((اذْ ھَبَا فَابْغِیَا لَنَا الْمَائَ۔))قَالَ: فَانْطَلَقَا،فَیَلْقَیَانِ امْرَأَۃً بَیْنَ مَزَادَ تَیْنِ أَوْ سَطِیْحَتَیْنِ مِنْ مَائٍ عَلٰی بَعِیْرٍ لَھَا، فَقَالَا لَھَا: أَیْنَ الْمَائُ؟ فَقَالَتْ: عَہْدِی بِالْمَائِ أَمْسِ ھٰذِہِ السَّاعَۃَ، وَنَفَرُنَا خُلُوْفٌ، قَالَ: فَقَالَا لَھَا: انْطَلِقِی إِذًا، قَالَتْ: إِلٰی أَیْنَ؟ قَالَا: إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَتْ: ھٰذَا الَّذِییُقَالُ لَہُ الصَّابِیُٔ؟ قَالَا: ھُوَ الَّذِیْ تَعْنِیْنَ, فَانْطَلِقِی إِذًا، فَجَائَ ابِہَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَحَدَّثَاہُ الْحَدِیْثَ، فَاسْتَنْزَلُوْھَا عَنْ بَعِیْرِھَا، وَدَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِإِنَائٍ، فَأَفْرَغَ فِیْہِ مِنْ أَفْوَاہِ الْمَزَادَتَیْنِ أَوِ السَّطِیْحَتَیْنِ وَأَوْکَأَ أَفْوَاھَہُمَا، فَأَطْلَقَ الْعَزَالِیَ وَنُوْدِیَ فِی النَّاسِ أَنِ اسْقُوْا وَاسْتَقُوْا، فَسَقٰی مَنْ شَائَ وَاسْتَقٰی مَنْ شَائَ، وَکَانَ آخِرُ ذٰلِکَ أَنْ أَعْطَی الَّذِی أَصَابَتْہُ الْجَنَابَۃُ إِنَائً مِنْ مَائٍ، فَقَالَ: ((اذْھَبْ فَأَفْرِغْہُ عَلَیْکَ۔)) قَالَ: وَھِیَ قَائِمَۃٌ تَنْظُرُ مَا یُفْعَلُ بِمَائِہَا، قَالَ: وَأَیْمُ اللّٰہِ! لَقَدْ أَقْلَعَ عَنْہَا، وَإِنَّہُ لَیُخَیَّلُ إِلَیْنَا أَنَّہَا أَشَدُّ مِلْأَۃً مِنْہَا حِیْنَ ابْتَدَأَ فِیْہَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اجْمَعُوْا لَھَا۔)) فَجَمَعَ لَھَا مِنْ بَیْنِ عَجْوَۃٍ وَ دَقِیْقَۃٍ وَ سُوَیْقَۃٍ حَتّٰی جَمَعُوْا لَھَا طَعَامًا کَثِیْرًا، وَجَعَلُوْہُ فِی ثَوْبٍ، وَحَمَلُوْھَا عَلٰی بَعِیْرِھَا وَوَضَعُوْا الثَّوْبَ بَیْنَیَدَیْہَا، فَقَالَ لَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((تَعْلَمِیْنَ وَاللّٰہِ مَا رَزَأْنَاکَ مِنْ مَائِکَ شَیْئًا، وَلٰکِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ ھُوَ سَقَانَا۔)) قَالَ: فَأَتَتْ أَھْلَہَا، وَقَدِ احْتَبَسَتْ عَنْہُمْ، فَقَالُوا: مَا حَبَسَکِ یَا فُلَانَۃُ؟ فَقَالَتِ: الْعَجَبُ! لَقِیَنِی رَجُلَانِ، فَذَھَبَا بِی إِلٰی ھٰذَا الَّذِییُقَالُ لَہُ الصَّابِیُٔ، فَفَعَلَ بِمَائِی کَذَا وَکَذَا، لِلَّذِی قَدْ کَانَ، فَوَاللّٰہِ! إِنَّہُ لَأَسْحَرُ مِنْ بَیْنِ ھٰذِہِ وَ ھٰذِہِ، قَالَتْ بِأُصْبُعَیْہَا الْوُسْطٰی وَالسَّبَّابَۃِ فَرَفَعَتْہُمَا إِلَی السَّمَائِ یَعْنِی السَّمَائَ وَالْأَرْضَ، أَوْ إِنَّہُ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ حَقًّا، قَالَ: وَکَانَ الْمُسْلِمُوْنَ بَعْدُ یُغِیْرُوْنَ عَلٰی مَاحَوْلَھَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَلَا یُصِیْبُوْنَ الصِّرْمَ الَّذِی ھِیَ فِیْہِ، فَقَالَتْ یَوْمًا لِقَوْمِہَا: مَا أَرٰی أَنَّ ھٰؤُلَائِ الْقَوْمَ یَدَعُوْنَکُمْ عَمَدًا، فَہَلْ لَکُمْ فِی الْإِسْلَامِ؟ فَأَطَاعُوْھَا ،فَدَخَلُوْا فِی الْإِسْلَامِ۔ (مسند احمد: ۲۰۱۴۰)
سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں: ہم ایک سفر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہم راہ تھے، ہم ساری رات چلتے رہے، یہاں تک کہ رات کے آخری حصے میں ہم ایسی کیفیت میں چلے گئے، جس سے زیادہ پسندیدہ کیفیت مسافر کی نظر میں اور کوئی نہیں ہوتییعنی ہم سو گئے۔ ہمیں سورج کی گرمی نے بیدار کیا، سب سے پہلے فلاں اور اس کے بعد فلاں آدمی بیدار ہوا۔ ابو رجاء (راوی) ان کے نام ذکر کیا کرتے تھے لیکن ان کے شاگرد عوف کویہ نام بھول گئے۔ ان کے بعد چوتھے نمبر پر سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیدار ہوئے، معمول یہ تھا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب سوئے ہوتے تو ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بیدا ر نہ کرتے یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خود بیدار نہ ہو جائیں۔ کیونکہ ہمیں یہ معلوم نہ ہو تا تھا کہ نیند کی حالت میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کیا کیفیت در پیش ہے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیدار ہوئے اور انہوں نے لوگوں کو پیش آمدہ صورت حال ملاحظہ کی، وہ بلند آواز اور بہادر آدمی تھے۔ انہوں نے اللہ اکبر کہتے ہوئے اپنی آواز بلندی کی۔ یہاں تک کہ ان کی آواز سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیدار ہوگئے۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیدار ہوئے تو صحابہ نے اپنے ساتھ پیش آمدہ صورت حال کا شکوہ کیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کوئی بات نہیں، اب چلو۔ وہاں سے روانہ ہو کرآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تھوڑی دور جا کر رک گئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وضو کا پانی طلب فرما کر وضو کیا، نماز کے لیے اذان کہی گئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کو نمازپڑھائی، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز سے فارغ ہو کر مڑے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا جو الگ تھلگ بیٹھا تھا، اس نے لوگوں کے ساتھ مل کر نماز ادا نہ کی تھی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: اے فلاں! تجھے لوگوں کے ساتھ نماز ادا کرنے سے کس چیز نے منع کیا؟ اس نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! مجھے جنابت کا عارضہ پیش آگیا ہے اور غسل کے لیے پانی موجود نہیں ۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم مٹی استعمال کر لو (یعنی مٹی سے تیمم کر لو)۔ تمہارے لیےیہی کافی ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آگے روانہ ہوئے ۔ لوگوں نے پیاس کی شکایت کی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سواری سے اتر کر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ایک آدمی کو بلایا۔ راوی حدیث ابو رجاء اس کا نام بیان کیا کرتے تھے، لیکن ان کے شاگرد عوف بھول گئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان دونوں سے فرمایا: تم دونوں جا کر ہمارے لیے پانی تلاش کر کے لائو۔ سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: وہ دونوں چلے گئے۔ ان کی ایک عورت سے ملاقات ہوئی, وہ اپنے اونٹ پر پانی کے دو مشکیزے لادے جا رہی تھی۔ انہو ںنے اس سے دریافت کیا: پانی کہاں سے ملے گا؟ وہ بولی: پانییہاں سے بہت دور ہے, میں کل اس وقت سے یہ پانی لے کر چلی ہوں اور ابھی تک سفر میں ہوں, ہمارے مرد موجود نہیں ہیں۔ انہوں نے اس سے کہا: اچھا تو پھر ہمارے ساتھ چلو۔ وہ بولی: کہاں؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف۔ وہ کہنے لگی: آیا اس شخص کی طرف جسے صابی(لا مذہب اور لادین) کہا جاتا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں وہ وہی ہے جسے تو اس طرح سمجھ رہی ہے، پس اب تو چل۔ وہ اسے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لے آئے اور سارا واقعہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گوش گزار کیا۔ صحابہ نے اس خاتون کو سواری سے اترنے کو کہا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک برتن منگوا کر مشکیزوں کے منہ کھول کر برتن میں پانی انڈیلا اور لوگوں میں اعلان کر دیا گیا کہ پانی پیو اور جانوروں کو پلاؤ۔جس نے پینا تھا اس نے پی لیااور جس نے جانوروں کو پلانا تھا پلالیا۔ آخر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آدمی کو بھی پانی کا ایک برتن دیا جسے جنابت کا عارضہ لاحق ہوا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جا کر یہ پانی اپنے اوپر بہا لو، یعنی غسل کر لو۔ وہ خاتون کھڑییہ سارے مناظر دیکھتی رہی کہ اس کے پانی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اللہ کی قسم! اس خاتون کو جب جانے کی اجازت دی گئی تو ہمیںیوں لگ رہا تھا کہ اس کے مشکیزے پہلے سے زیادہ بھرے ہوئے ہیں ۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اسے دینے کے لیے کچھ سامان جمع کرو۔ صحابہ نے اس کے لیے عجوہ کھجور، آٹا اور ستو وغیرہ کافی کچھ جمع کر دیا،یہ سارا سامان ایک کپڑے میں ڈالااور عورت کو اس کے اونٹ پر سوار کر کے یہ کپڑا اس کے آگے رکھ دیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: اللہ کی قسم!تم جانتی ہو کہ ہم نے تیرے پانی میں ذرہ بھر بھی کمی نہیں کی۔ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے پینے کے لیے پانی مہیا کیاہے۔ وہ عورت اپنے خاندان میںواپس گئی، وہ کافی لیٹ ہو چکی تھی، اس کے گھر والوںنے تاخیر کی وجہ دریافت کی تو اس نے بتایا کہ ایک عجیب واقعہ پیش آگیا۔ مجھے دو آدمی ملے۔ وہ مجھے اس آدمی کے پاس گئے جس صابی (لا دین و لا مذہب) کہا جاتا ہے ۔ اس نے تو میرے پانی کے ساتھ یہیہ کیا۔ اس نے وہ سارا واقعہ بیان کیا جو پیش آ چکا تھا۔ اس نے اپنی درمیانی اور شہادت والی انگلی کو آسمان کی طرف اٹھا کر کہا: اللہ کی قسم! وہ یا تو زمین و آسمان کے درمیان موجود لوگوں میں سب سے بڑا جادو گر ہے یا پھرواقعی اللہ کا رسول ہے۔ عمران ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اس کے بعد مسلمان اس علاقہ کے مشرکین پر حملہ آور ہوئے۔ لیکن جس قبیلہ کی وہ خاتون تھی اس پر حملہ نہ کرتے تھے۔ وہ ایک دن اپنی قوم سے کہنے لگی: میرا خیال ہے کہ یہ مسلمان جان بوجھ کر تم سے صرف نظر کرتے ہیں۔ کیا تم اسلام قبول نہیں کرلیتے؟ چنانچہ قبیلے کے لوگوں نے اس کی بات مان لی اور وہ دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۱/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: کُنْتُ أَرْعَی غَنَمًا لِعُقْبَۃَ بْنِ أَبِی مُعَیْطٍ، فَمَرَّ بِی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ، فَقَالَ: ((یَا غُلَامُ! ہَلْ مِنْ لَبَنٍ؟)) قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، وَلَکِنِّی مُؤْتَمَنٌ، قَالَ: ((فَہَلْ مِنْ شَاۃٍ لَمْ یَنْزُ عَلَیْہَا الْفَحْلُ؟)) فَأَتَیْتُہُ بِشَاۃٍ، فَمَسَحَ ضَرْعَہَا، فَنَزَلَ لَبَنٌ، فَحَلَبَہُ فِی إِنَائٍ، فَشَرِبَ، وَسَقَی أَبَا بَکْرٍ، ثُمَّ قَالَ لِلضَّرْعِ: ((اِقْلِصْ۔)) فَقَلَصَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَیْتُہُ بَعْدَ ہَذَا، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، عَلِّمْنِی مِنْ ہَذَا الْقَوْلِ، قَالَ: فَمَسَحَ رَأْسِی، وَقَال: ((یَرْحَمُکَ اللَّہُ، فَإِنَّکَ غُلَیِّمٌ مُعَلَّمٌ۔)) وَفِیْ رِوَایۃ: ثُمَّ أَتَاہُ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِصَخْرَۃٍ مُنْقَعِرَۃٍ، فَاحْتَلَبَ فِیہَا، فَشَرِبَ، وَشَرِبَ أَبُو بَکْرٍ، ثُمَّ شَرِبْتُ، ثُمَّ قَالَ لِلضَّرْعِ: ((اقْلِصْ۔)) فَقَلَصَ، فَأَتَیْتُہُ بَعْدَ ذَلِکَ، فَقُلْت: عَلِّمْنِی مِنْ ہَذَا الْقَوْلِ؟ قَال: ((إِنَّکَ غُلَامٌ مُعَلَّمٌ۔)) قَال: فَأَخَذْتُ مِنْ فِیہِ سَبْعِینَ سُورَۃً، لَا یُنَازِعُنِی فِیہَا أَحَدٌ۔ (مسند احمد: ۳۵۹۸)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں عقبہ بن ابو معیط کی بکریاں چرایا کرتا تھا، ایک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میرے پاس سے گزرے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لڑکے! کیا دودھ موجود ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، لیکن مجھے اس مال پر امین بنایا گیا ہے (لہذا میں اپنے مالک کی اجازت کے بغیر نہیں دے سکتا)، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا کوئی ایسی بکری ہے، جس کی بکرے سے جفتی نہ کرائی گئی ہو؟ پس میں اس قسم کی ایک بکری لے آیا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے تھن کو چھوا تو اس میں دودھ اتر آیا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کو ایک برتن میں دوہا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود بھی پیا اور سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بھی پلایا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تھن سے فرمایا: سکڑ جا۔ پس وہ سکڑ گیا۔ پھر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اس دین میں کچھ تعلیم دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے سر پہ ہاتھ پھیرا اور فرمایا: اللہ تعالی تجھ پر رحم کرے، تو تو پیارا سا تعلیمیافتہ لڑکا ہے۔ ایک روایت میں ہے: پھر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پیالہ نما پتھر لے کر آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس میں دودھ دوہا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اور میں نے دودھ پیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تھن سے فرمایا: سکڑ جا۔ پس وہ سکڑ گیا۔ اس کے بعد میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا اور کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے اس دین میں کچھ سکھا دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو تو سکھایا ہوا لڑکا ہے۔ پھر میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دہن مبارک سے ستر سورتیں سیکھی تھیں، اس میں کسی کا مجھ سے کوئی جھگڑا نہیں تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۲/۱۱۳۲۲)۔ حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، قَال: سَمِعْتُ شَیْخًا مِنْ قَیْسٍ،یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیہِ، أَنَّہُ قَال: جَائَنَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَعِنْدَنَا بَکْرَۃٌ صَعْبَۃٌ، لَا نَقْدِرُ عَلَیْہَا، قَال: فَدَنَا مِنْہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَمَسَحَ ضَرْعَہَا، فَحَفَلَ فَاحْتَلَبَ قَال: وَلَمَّا مَاتَ أَبِی جَائَ وَقَدْ شَدَدْتُہُ فِی کَفَنِہِ، وَأَخَذْتُ سُلَّائَ ۃً فَشَدَدْتُ بِہَا الْکَفَنَ، فَقَال: ((لَا تُعَذِّبْ أَبَاکَ بِالسُّلَّی۔)) قَالَہَا حَمَّادٌ: ثَلَاثًا، قَال: ثُمَّ کَشَفَ عَنْ صَدْرِہِ، وَأَلْقَی السُّلَّی، ثُمَّ بَزَقَ عَلَی صَدْرِہِ حَتَّی رَأَیْتُ رُضَاضَ بُزَاقِہِ عَلَی صَدْرِہِ۔ (مسند احمد: ۲۰۹۷۴)
حمادبن سلمہ کہتے ہیں: میں نے قیس قبیلہ کے ایک بزرگ سے سنا، وہ اپنے باپ سے بیان کر رہے تھے کہ انھوں نے کہا: نبی ٔ کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، جبکہ ہماری ایک سرکش اونٹنی تھی، ہم اس کو قابو نہیں کر سکتے تھے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے قریب ہوئے، اس کے تھنوں کو چھوا، پس وہ تو دودھ سے بھر گئے، پھرآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دودھ دوہا۔ جب میرے باپ فوت ہوئے تو میں نے ان کو ان کے کفن میں لپیٹا اور کھجور کے درخت کا کانٹا لے کر اس کے ذریعے ان کے کفن کو باندھ دیا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنے باپ کو اس کانٹے کے ذریعے تکلیف نہ دے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے سینے سے کپڑا ہٹایا، جھلی کو پھینک دیا اور ان کے سینے پر تھوکا،یہاں تک کہ میں نے باقاعدہ ان کے سینے پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے تھوک کے قطرے دیکھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۳/۱۱۳۲۲)۔ حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَیْدٍ الْفَائِشِیِّ، عَنِ ابْنَۃٍ لِخَبَّابٍ قَالَتْ: خَرَجَ خَبَّابٌ فِی سَرِیَّۃٍ، فَکَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَتَعَاہَدُنَا، حَتَّی کَانَ یَحْلُبُ عَنْزًا لَنَا، قَالَتْ: فَکَانَ یَحْلُبُہَا حَتَّییَطْفَحَ، أَوْ یَفِیضَ ، فَلَمَّا رَجَعَ خَبَّابٌ حَلَبَہَا فَرَجَعَ حِلَابُہَا إِلَی مَا کَانَ، فَقُلْنَا لَہ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَحْلُبُہَا حَتَّییَفِیضَ ـ وَقَالَ مَرَّۃً: حَتَّی تَمْتَلِیئَ، فَلَمَّا حَلَبْتَہَا رَجَعَ حِلَابُہَا۔ (مسند احمد: ۲۷۶۳۷)
سیدنا خباب بن ارت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیٹی سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میرے باپ ایک لشکر میں چلے گئے، نبی ٔ کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارا بہت خیال رکھتے تھے، یہاں تک کہ ہمارے لیے ہماری بکری بھی دوہ دیتے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کو دوہتے تھے تو دودھ برتن سے بہہ پڑتا تھا، لیکن جب سیدنا خباب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لوٹے اور اسی بکری سے دودھ دوہا تو پہلے کی طرح دودھ کم ہو گیا، ہم نے کہا: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس بکری کا دودھ دوہتے تھے تو دودھ بہہ پڑتا تھا، لیکن برتن بھر جاتا تھا، لیکن جب آپ نے دودھ دوہا ہے تو یہ دودھ واپس چلا گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۴/۱۱۳۲۲)۔ حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ، قَال: سَمِعْتُ ہِشَامَ بْنَ زَیْدٍ، قَال: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یُحَدِّثُ، أَنَّ یَہُودِیَّۃً جَعَلَتْ سُمًّا فِی لَحْمٍ، ثُمَّ أَتَتْ بِہِ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَکَلَ مِنْہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَال: ((إِنَّہَا جَعَلَتْ فِیہِ سُمًّا۔)) قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، أَلَا نَقْتُلُہَا؟ قَال: ((لَا۔)) قَال: فَجَعَلْتُ أَعْرِفُ ذَلِکَ فِی لَہَوَاتِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۳۳۱۸)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایکیہودی خاتون نے گوشت میں زہر ملایا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے پیش کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ گوشت کھایا اور فرمایا: اس نے اس کھانے میں زہر ملایا ہے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم اس کو قتل نہ کر دیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کوے میں اس زہر کے اثر کو پہچانتا رہتا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۵/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْد الْخُدْرِیِّ قَالَ: ہَاجَتِ السَّمَائُ، مِنْ تِلْکَ اللَّیْلَۃِ، فَلَمَّا خَرَجَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِصَلَاۃِ الْعِشَاء ِ الْآخِرَۃِ، بَرَقَتْ بَرْقَۃٌ، فَرَأَی قَتَادَۃَ بْنَ النُّعْمَانِ فَقَال: مَا السُّرَییَا قَتَادَۃُ؟ قَال: عَلِمْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ! أَنَّ شَاہِدَ الصَّلَاۃِ قَلِیلٌ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَشْہَدَہَا۔ قَال: ((فَإِذَا صَلَّیْتَ فَاثْبُتْ حَتَّی أَمُرَّ بِکَ ۔)) فَلَمَّا انْصَرَفَ أَعْطَاہُ الْعُرْجُونَ وَقَال: ((خُذْ ہَذَا فَسَیُضِیئُ أَمَامَکَ عَشْرًا، وَخَلْفَکَ عَشْرًا، فَإِذَا دَخَلْتَ الْبَیْتَ، وَتَرَائَیْتَ سَوَادًا، فِی زَاوِیَۃِ الْبَیْتِ، فَاضْرِبْہُ قَبْلَ أَنْ یَتَکَلَّمَ، فَإِنَّہُ شَیْطَانٌ۔)) قَال: فَفَعَلَ فَنَحْنُ نُحِبُّ ہَذِہِ الْعَرَاجِینَ لِذَلِکَ۔ (مسند احمد: ۱۱۶۴۷)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رات کو آسمان بادو باراں والا ہو گیا، جب نبی ٔ کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز عشا کے لیے گئے اور بجلی چمکی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا قتادہ بن نعمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھ لیا اور پوچھا: قتادہ! کون سی چیز تم کو اس وقت میں لے آئی ہے؟ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرا خیال تھا کہ نمازی کم ہوں گے، اس لیے میں نے چاہا کہ چلو میں تو پہنچ جاؤں۔یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم نماز پڑھ لو تو میرے آنے تک اپنی جگہ پر ہی بیٹھے رہنا۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو ان کو ایک کھجور کی شاخ دی اور فرمایا: یہ شاخ لے لو، یہ تمہارے آگے اور پیچھے دس دس (ہاتھ) تک روشنی پیدا کرے گی، جب تم گھر میں داخل ہو جاؤ اور گھر کے ایک کونے میں کوئی وجود دیکھ لو تو کلام کرنے سے پہلے اس کو مارنا، کیونکہ وہ شیطان ہو گا۔ پس انھوں نے ایسے ہی کیا، ہم اسی وجہ سے ان شاخوں اور چھڑیوں کو پسند کرتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۶/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ، قَال: حَدَّثَنِی أَہْلِی، عَنْ أَبِی قَال: أُتِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِدَلْوٍ مِنْ مَائٍ فَشَرِبَ مِنْہُ، ثُمَّ مَجَّ فِی الدَّلْوِ، ثُمَّ صَبَّ فِی الْبِئْرِ أَوْ شَرِبَ مِنَ الدَّلْوِ، ثُمَّ مَجَّ فِی الْبِئْرِ، فَفَاحَ مِنْہَا مِثْلُ رِیحِ الْمِسْکِ۔ (مسند احمد: ۱۹۰۴۴)
عبد الجبار بن وائل سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میرے اہل نے مجھے بیان، وہ کہتے ہیں: مجھے میرے باپ نے بیان کیا کہ پانی کا ایک ڈول نبی ٔ کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے پیا اور پھر ڈول میں کلی کی اور وہ پانی کنویں میں پھینک دیا،یا اس طرح ہوا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ڈول سے پانی پیا اور کنویں میں کلی کی، پس اس کنویں سے کستوری کی طرح کی خوشبو پھیلنے لگی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۷/۱۱۳۲۲)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقً ثَانٍ) أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُتِیَ بِدَلْوٍ مِنْ مَاء ِ زَمْزَمَ، فَتَمَضْمَضَ، فَمَجَّ فِیہِ أَطْیَبَ مِنَ الْمِسْکِ، أَوْ قَال: مِسْکٌ، وَاسْتَنْثَرَ خَارِجًا مِنَ الدَّلْوِ۔ (مسند احمد: ۱۹۰۸۰)
۔(دوسری سند) نبی ٔ کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ایک ڈول میں زمزم کا پانی لایا گیا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے کلی کی اور وہ پانی اسی ڈول میں پھینکا، پس وہ تو کستوری سے زیادہ خوشبودار تھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس ڈول سے باہر ناک جھاڑا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۸/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ الْمُرَادِیِّ قَال: بَیْنَمَا نَحْنُ مَعَہُ فِی مَسِیرَۃٍ إِذْ نَادَاہُ أَعْرَابِیٌّ بِصَوْتٍ جَہْوَرِیٍّ، فَقَال: یَا مُحَمَّدُ، فَقُلْنَا: وَیْحَکَ، اغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ، فَإِنَّکَ قَدْ نُہِیتَ عَنْ ذَلِکَ، فَقَال: وَاللّٰہِ لَا أَغْضُضُ مِنْ صَوْتِی، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم: ((ہَائَ۔)) وَأَجَابَہُ عَلَی نَحْوٍ مِنْ مَسْأَلَتِہِ، وَقَالَ سُفْیَانُ مَرَّۃً: وَأَجَابَہُ نَحْوًا مِمَّا تَکَلَّمَ بِہِ، فَقَال: أَرَأَیْتَ رَجُلًا أَحَبَّ قَوْمًا، وَلَمَّا یَلْحَقْ بِہِمْ؟ قَال: ((ہُوَ مَعَ مَنْ أَحَبَّ۔)) (مسند احمد: ۱۸۲۶۸)
سیدنا صفوان بن عسال مرادی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم ایک سفر میں تھے، اچانک ایک بدّو نے نبی ٔ کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بلند آواز سے پکارا اور کہا: اے محمد! ہم نے اس سے کہا: او تو ہلاک ہو جائے، اپنی آواز کو پست رکھ، تجھے اس طرح آواز بلند کرنے سے منع کیا گیا ہے، لیکن اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو اپنی آواز کو پست نہیں کروں گا، اتنے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: میں حاضر ہوں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے سوال کے انداز کے مطابق ہی جواب دیا، سفیان راوی نے کہا: جیسے اس نے بات کی تھی، اسی طرح کا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جواب دیا، پھر اس نے کہا: اس آدمی کے بارے میں آپ کا خیال ہے، جو کچھ لوگوں سے محبت تو کرتا ہے، لیکن وہ ان کو ملا نہیں ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ اسی آدمی کے ساتھ ہو گا، جس سے اس کو محبت ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۹/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ أَنَسٍ قَال: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْخُلُ بَیْتَ أُمِّ سُلَیْمٍ فَیَنَامُ عَلَی فِرَاشِہَا وَلَیْسَتْ فِیہِ، قَال: فَجَائَ ذَاتَ یَوْمٍ فَنَامَ عَلَی فِرَاشِہَا، فَأُتِیَتْ، فَقِیلَ لَہَا: ہَذَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَائِمٌ فِی بَیْتِکِ عَلَی فِرَاشِکِ قَال: فَجَائَتْ وَقَدْ عَرِقَ، وَاسْتَنْقَعَ عَرَقُہُ عَلَی قِطْعَۃِ أَدِیمٍ عَلَی الْفِرَاشِ، قَال: فَفَتَحَتْ عَتِیدَتَہَا قَال: فَجَعَلَتْ تُنَشِّفُ ذَلِکَ الْعَرَقَ فَتَعْصِرُہُ فِی قَوَارِیرِہَا، فَفَزِعَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَال: ((مَا تَصْنَعِینَیَا أُمَّ سُلَیْمٍ؟)) قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، نَرْجُو بَرَکَتَہُ لِصِبْیَانِنَا، قَال: ((أَصَبْتِ۔)) (مسند احمد: ۱۳۳۴۳)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی ٔ کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے گھر تشریف لے جاتے اور ان کے بستر پر سو جاتے تھے، جبکہ وہ اس میں نہیں ہوتی تھیں، ایک دن ایسے ہی ہوا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گئے اور ان کے بستر پر سو گئے، کسی نے آ کر سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو خبر دی کہ یہ نبی ٔ کریم تمہارے گھر میں تمہارے بستر پر سوئے ہوئے ہیں، پس وہ آئیں اور دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پسینہ آیا ہوا ہے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پسینہ بستر پر چمڑے کے ایک ٹکڑے پر نچڑ رہا ہے، انھوں نے اپنا بیوٹی باکس کھولا اور اس پسینے کو چوس کر اس کو اپنی شیشیوں میں نچوڑنے لگیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھبرا گئے اور پوچھا: او ام سلیم! کیا کر رہی ہو؟ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم اپنے بچوں کے لیے اس کی برکت کی امید رکھتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے درست کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۱۰/۱۱۳۲۲)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَال: دَخَلَ عَلَیْنَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ عِنْدَنَا، فَعَرِقَ، وَجَائَتْ أُمِّی بِقَارُورَۃٍ، فَجَعَلَتْ تَسْلُتُ الْعَرَقَ فِیہَا، فَاسْتَیْقَظَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَال: یَا أُمَّ سُلَیْمٍ مَا ہَذَا الَّذِی تَصْنَعِینَ؟ فَقَالَتْ: ہَذَا عَرَقُکَ نَجْعَلُہُ فِی طِیبِنَا وَہُوَ مِنْ أَطْیَبِ الطِّیبِ۔ (مسند احمد: ۱۲۴۲۳)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہمارے ہاں قیلولہ کیا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پسینہ آیا تو میری ماں ایک شیشی لے کر آئیں اور اس میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پسینہ جمع کرنے لگیں، اتنے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیدار ہو گئے اور فرمایا: ام سلیم! یہ کیا کر رہی ہو؟ انھوں نے کہا: یہ آپ کو پسینہ ہے، ہم اس کو اپنی خوشبو میں مِکس کریں گے، جبکہ یہ پسینہ تو سب سے پاکیزہ اور اچھی خوشبو ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۱۱/۱۱۳۲۲)۔ حَدَّثَنَا حَسَنٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَال: لَمَّا أَرَادَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یَحْلِقَ الْحَجَّامُ رَأْسَہُ، أَخَذَ أَبُو طَلْحَۃَ شَعَرَ أَحَدِ شِقَّیْ رَأْسِہِ بِیَدِہِ، فَأَخَذَ شَعَرَہُ، فجَائَ بِہِ إِلَی أُمِّ سُلَیْمٍ، قَال: فَکَانَتْ أُمُّ سُلَیْمٍ تَدُوفُہُ فِی طِیبِہَا۔ (مسند احمد: ۱۳۵۴۲)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ہی مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ارادہ کیا کہ حجام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا بال مونڈے تو سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سر مبارک کے ایک جانب کے بال پکڑے اور سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس لے آئے، وہ ان کو اپنی خوشبو میں ملایا کرتی تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۱۲/۱۱۳۲۲)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ مُحَمَّدٍ یَعْنِی ابْنَ سِیرِینَ، عَنْ أَنَسٍ، قَال: لَمَّا حَلَقَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَأْسَہُ بِمِنًی، أَخَذَ شِقَّ رَأْسِہِ الْأَیْمَنَ بِیَدِہِ، فَلَمَّا فَرَغَ نَاوَلَنِی، فَقَال: ((یَا أَنَسُ! انْطَلِقْ بِہَذَا إِلَی أُمِّ سُلَیْمٍ۔)) فَلَمَّا رَأَی النَّاسُ مَا خَصَّہَا بِہِ مِنْ ذَلِکَ تَنَافَسُوا فِی الشِّقِّ الْآخَرِ، ہَذَا یَأْخُذُ الشَّیْئَ، وَہَذَا یَأْخُذُ الشَّیْء قَالَ مُحَمَّدٌ: فَحَدَّثْتُہُ عَبِیدَۃَ السَّلْمَانِیَّ، فَقَال: لَأَنْ یَکُونَ عِنْدِی مِنْہُ شَعَرَۃٌ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ کُلِّ صَفْرَائَ وَبَیْضَائَ أَصْبَحَتْ عَلَی وَجْہِ الْأَرْضِ وَفِی بَطْنِہَا۔ (مسند احمد: ۱۳۷۲۰)
۔(دوسری سند) سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منی میں اپنا سر مبارک منڈوائے تو سر کی دائیں جانب کے بال لیے اور مجھے پکڑا کر فرمایا: انس! یہ بال ام سلیم کے پاس لے جاؤ۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خاص کر کے ام سلیم کو یہ بال بھیجے ہیں تو وہ سر کی دوسری جانب کے بالوں کی رغبت کرنے لگے، کچھ بال کسی نے لیے اور کچھ کسی نے۔ محمد بن سیرین کہتے ہیں: جب میں نے یہ حدیث عبیدہ سلمانی کو بیان کی تو انھوں نے کہا: اگر میرے پاس ان میں سے ایک بال بھی ہوتا تو وہ مجھے اس سارے سونے اور چاندی سے محبوب ہوتا، جو زمینکے اوپر والی سطح اور اس کے اندر پایا جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۱۳/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ أَنَسٍ قَال: رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالْحَلَّاقُ یَحْلِقُہُ، وَقَدْ أَطَافَ بِہِ أَصْحَابُہُ، مَا یُرِیدُونَ أَنْ تَقَعَ شَعَرَۃٌ إِلَّا فِییَدِ رَجُلٍ۔ (مسند احمد: ۱۲۳۹۰)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا، جبکہ حجام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بال مونڈ رہا تھا، صحابہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گھیرے میں لے رکھا تھا، وہ چاہتے تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا جو بال بھی گرے، اس کو کوئی نہ کوئی آدمی پکڑ لے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۱۴/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَیْدٍ، أَنَّ أَبَاہُ حَدَّثَہُ، أَنَّہُ شَہِدَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عِنْدَ الْمَنْحَرِ وَرَجُلًا مِنْ قُرَیْشٍ وَہُوَ یَقْسِمُ أَضَاحِیَّ فَلَمْ یُصِبْہُ مِنْہَا شَیْئٌ وَلَا صَاحِبَہُ، فَحَلَقَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَأْسَہُ فِی ثَوْبِہِ فَأَعْطَاہُ، فَقَسَمَ مِنْہُ عَلَی رِجَالٍ، وَقَلَّمَ أَظْفَارَہُ، فَأَعْطَاہُ صَاحِبَہُ ، قَال: فَإِنَّہُ لَعِنْدَنَا مَخْضُوبٌ بِالْحِنَّاء ِ وَالْکَتَمِ، یَعْنِی: شَعْرَہُ۔ (مسند احمد: ۱۶۵۸۸)
سیدنا عبد اللہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ قربان گاہ میں نبی ٔ کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ایک قریشی آدمی کے پاس موجود تھے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قربانیاں کر رہے تھے، لیکن نہ قربانی ان کو ملی اور نہ ان کے انصاری ساتھی کو، پھر جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک کپڑے میں اپنا سر منڈوایا تو وہ بال ان کو دیئے اور انھوں نے وہ بال مردوں میں تقسیم کر دیئے، پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ناخن تراشے تو وہ ان کے ساتھی کو دیئے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ بال ہمارے پاس موجود ہیں، وہ مہندی اور وسمہ سے رنگے ہوئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۱۵/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، دَخَلَ عَلَی أُمِّ سُلَیْمٍ وَفِی الْبَیْتِ قِرْبَۃٌ مُعَلَّقَۃٌ، فَشَرِبَ مِنْ فِیہَا وَہُوَ قَائِمٌ قَال: فَقَطَعَتْ أُمُّ سُلَیْمٍ فَمَ الْقِرْبَۃِ فَہُوَ عِنْدَنَا۔ (مسند احمد: ۱۲۲۱۲)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی ٔ کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس گئے اور جبکہ گھر میں لٹکا ہوا ایک مشکیزہ تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھڑے ہو کر اس سے پانی پیا، سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے مشکیزے کا منہ کاٹ لیا، اب وہ ہمارے پاس موجود ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۱۶/۱۱۳۲۲)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ أَنَسٍ عَنْ أُمِّہِ، قَالَتْ: دَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَفِی الْبَیْتِ قِرْبَۃٌ مُعَلَّقَۃٌ، فَشَرِبَ مِنْہَا قَائِمًا فَقَطَعْتُ فَاہَا وَإِنَّہُ لَعِنْدِی۔ (مسند احمد: ۲۷۹۷۶)
۔(دوسری سند) سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے ماں سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اور گھر میں ایک مشکیزہ لٹک رہا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھڑے ہو کر اس سے پانی پیا اور اس نے مشکیزہ کا منہ کاٹ لیا، اب وہ میرے پاس موجود ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۱۷/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِی جُحَیْفَۃَ، عَنْ أَبِیہِ قَال: رَأَیْتُ قُبَّۃً حَمْرَائَ مِنْ أَدَمٍ لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَرَأَیْتُ بِلَالًا خَرَجَ بِوَضُوئٍ لِیَصُبَّہُ فَابْتَدَرَہُ النَّاسُ، فَمَنْ أَخَذَ مِنْہُ شَیْئًا تَمَسَّحَ بِہِ، وَمَنْ لَمْ یَجِدْ مِنْہُ شَیْئًا أَخَذَ مِنْ بَلَلِ یَدِ صَاحِبِہِ۔ (مسند احمد: ۱۸۹۶۷)
سیدنا سیدنا ابو جحیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے چمڑے کا سرخ رنگ کا چھوٹا سا خیمہ دیکھا، وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے نصب کیا گیا تھا، پھر میں نے سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا، وہ وضو کا پانی لائے تاکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ڈالیں (اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وضو کریں)، پس لوگ (وضو والا پانی سے تبرک حاصل کرنے کے لیے) لپکے، جس کو کچھ پانی مل گیا، اس نے اس کو اپنے جسم پر مل دیا اور جو آدمی پانی حاصل نہ کر سکا، اس نے اپنے ساتھی کے ہاتھ کی تری سے پانی لینا شروع کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۱۸/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ أَنَسٍ قَال: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّی الْغَدَاۃَ جَائَ خَدَمُ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ بِآنِیَتِہِمْ فِیہَا الْمَائُ، فَمَا یُؤْتَی بِإِنَائٍ إِلَّا غَمَسَ یَدَہُ فِیہَا، فَرُبَّمَا جَائُوہُ فِی الْغَدَاۃِ الْبَارِدَۃِ فَغَمَسَ یَدَہُ فِیہَا۔ (مسند احمد: ۱۲۴۲۸)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی ٔ کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فجر کی نماز ادا کر لیتے تو اہل مدینہ کے نوکر چاکر برتن لے کر آ جاتے، ان میں پانی ہوتا تھا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جو برتن بھی لایا جاتا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس میں ہاتھ ڈبو دیتے تھے، بسا اوقات تو ایسے ہوتا کہ لوگ سردی والی صبح کو پانی لے آتے تھے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پھر بھی اپنا ہاتھ ڈبو دیتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۱۹/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ ثَابِتٍ اَنَّہٗقَالَلِأَنَسٍ: یَا أَنَسُ! مَسِسْتَ یَدَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِکَ؟ قَال: نَعَمْ قَال: أَرِنِی أُقَبِّلُہَا۔ (مسند احمد: ۱۲۱۱۸)
جناب ثابت l سے مروی ہے، انھوں نے سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے انس! کیا تم نے اپنے ہاتھ سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ مس کیا ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، تو انھوں نے کہا: لیجئے، مجھے وہ دکھاؤ، میں اس کا بوسہ لیتا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۲۰/۱۱۳۲۲)۔ حَدَّثَنَا یُونُسُ، قَال: حَدَّثَنَا الْعَطَّافُ، قَال: حَدَّثَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَقَالَ غَیْرُیُونُسَ ابْنُ رَزِینٍ أَنَّہُ نَزَلَ الرَّبَذَۃَ ہُوَ وَأَصْحَابٌ لَہُ یُرِیدُونَ الْحَجَّ، قِیلَ لَہُمْ: ہَاہُنَا سَلَمَۃُ بْنُ الْأَکْوَعِ صَاحِبُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَأَتَیْنَاہُ فَسَلَّمْنَا عَلَیْہِ، ثُمَّ سَأَلْنَاہُِ فَقَال: بَایَعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِیَدِی ہَذِہِ ، وَأَخْرَجَ لَنَا کَفَّہُ کَفًّا ضَخْمَۃً، قَال: فَقُمْنَا إِلَیْہِ فَقَبَّلْنَا کَفَّیْہِ جَمِیعًا۔(مسند احمد: ۱۶۶۶۶)
جناب عطاف کہتے ہیں: عبد الرحمن بن رزین اپنے ساتھیوں سمیت ربذہ مقام پر اترے، وہ حج کرنے کے لیے جا رہے تھے، ان سے کسی نے کہا کہ اللہ کے رسول کے صحابی سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یہاں موجود ہیں، وہ کہتے ہیں: پس ہم ان کے پاس آئے، ان کو سلام کہا اور پھر ہم نے ان سے سوالات کیے، انھوں نے کہا: میں نے اس ہاتھ سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی تھی، پھر انھوں نے اپنا ہاتھ نکالا، ان کی ہتھیلی بڑی تھی، پس ہم نے اٹھ کر ان کی طرف گئے اور ان کی دونوں ہتھیلیوں کا بوسہ لیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۲۱/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ اَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ الْحَسَنِ بْنِ أَیُّوبَ الْحَضْرَمِیِّ، قَال: أَرَانِی عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بُسْرٍ شَامَۃً فِی قَرْنِہِ، فَوَضَعْتُ إِصْبُعِی عَلَیْہَا، فَقَال: وَضَعَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِصْبُعَہُ عَلَیْہَا، ثُمَّ قَال: ((لَتَبْلُغَنَّ قَرْنًا۔)) قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ: وَکَانَ ذَا جُمَّۃٍ۔ (مسند احمد: ۱۷۸۴۱)
حسن بن ایوب حضرمی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا عبد اللہ بن بسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے سر کے کنارے پر ایک تل دکھایا، میں نے اپنی انگلی اس پر رکھی، دراصل انھوں نے کہا تھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس تل پر اپنی انگشت ِ مبارک رکھی تھی اور فرمایا تھا کہ تو ضرور ضرور ایک صدی عمر پائے گا۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لمبے لمبے بالوں والے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۲۲/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا أُتِیَ بِطَعَامٍ فَأَکَلَ مِنْہُ بَعَثَ بِفَضْلِہِ إِلَی أَبِی أَیُّوبَ، فَکَانَ أَبُو أَیُّوبَیَتَتَبَّعُ أَثَرَ أَصَابِعِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَیَضَعُ أَصَابِعَہُ حَیْثُیَرَی أَثَرَ أَصَابِعِہِ، فَأُتِیَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ بِصَحْفَۃٍ، فَوَجَدَ مِنْہَا رِیحَ ثُومٍ فَلَمْ یَذُقْہَا، وَبَعَثَ بِہَا إِلَی أَبِی أَیُّوبَ فَلَمْ یَرَ أَثَرَ أَصَابِعِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَجَائَ، فَقَال: یَا رَسُولَ اللَّہِ، لَمْ أَرَ فِیہَا أَثَرَ أَصَابِعِکَ، قَال: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم: ((إِنِّی وَجَدْتُ مِنْہَا رِیحَ ثُومٍ۔)) قَال: لِمَ تَبْعَثُ إِلَیَّ مَا لَا تَأْکُلُ؟ فَقَال: ((إِنَّہُ یَأْتِینِی الْمَلَکُ۔)) (مسند احمد: ۲۰۶۲۲)
سیدنا جابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس کھانالایا جاتے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس سے کھاتے اور بچ جانے والا کھانا سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف بھیج دیتے، وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی انگلیوں کے نشانات کو تلاش کرتے اور اپنی انگلیاں وہاں رکھتے، جہاں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی انگلیوں کا اثر نظر آتا تھا، ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ایک پلیٹ میں کھانا لایا گیا، لیکن جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے لہسن کی بو محسوس کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہ نہیں کھایا اور سارا سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف بھیج دیا، جب انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی انگلیوں کے نشان نہیں دیکھے تو وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آ گئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! اس کھانے میں آپ کی انگلیوں کے آثار نظر نہیں آ رہے، کیا وجہ ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اس کھانے میں لہسن کی بو محسوس کی ہے ۔ انھوں نے کہا: تو پھر جو چیز آپ خود نہیں کھاتے، وہ میری طرف کیوں بھیجتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک شان یہ ہے کہ میرا پاس فرشتہ آتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۲۳/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ، مَوْلَی أَسْمَائَ، عَنْ أَسْمَائَ قَالَ أَخْرَجَتْ إِلَیَّ جُبَّۃً طَیَالِسَۃً عَلَیْہَا لَبِنَۃُ شَبْرٍ مِنْ دِیبَاجٍ کِسْرَوَانِیٍّ وَفَرْجَاہَا مَکْفُوفَانِ بِہِ، قَالَتْ: ہٰذِہِ جُبَّۃُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَلْبَسُہَا کَانَتْ عِنْدَ عَائِشَۃَ فَلَمَّا قُبِضَتْ عَائِشَۃُ قَبَضْتُہَا إِلَیَّ فَنَحْنُ نَغْسِلُہَا لِلْمَرِیضِ مِنَّا یَسْتَشْفِی بِہَا۔ (مسند احمد: ۲۷۴۸۱)
مولائے اسماء جناب عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدہ اسماء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے طیالسی جبہ نکالا، اس کے دامن میں فارسی ریشم کا ٹکڑا لگا ہوا تھا اور اس کے چاک بھی ریشم کے تھے۔ کہا یہ نبی ٔ کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا جبہ تھا،جسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پہنا کرتے تھے، یہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس تھا، جب وہ فوت ہوئیں تو میں نے لے لیا تھا، ہم اسے مریض کے لئے پانی میں ڈال کر اس کی برکت سے شفاء طلب کرتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۲۴/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَت: مَا شَبِعَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ تِبَاعًا مِنْ خُبْزِ بُرٍّ، حَتَّی مَضَی لِسَبِیلِہِ۔ (مسند احمد: ۲۴۶۵۲)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تین دن لگاتار گندم کی روٹی سے سیر نہیں ہوئے، یہاں تک کہ وفات پا گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۲۵/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ یَأْتِی عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الشَّہْرُ، مَا یُوقِدُونَ فِیہِ نَارًا، لَیْسَ إِلَّا التَّمْرُ وَالْمَائُ، إِلَّا أَنْ نُؤْتٰی بِاللَّحْمِ۔ (مسند احمد: ۲۴۷۳۶)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں کہ ایسے بھی ہوتا کہ حضرت محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آل کا ایک ایک مہینہ گزر جاتا، لیکن وہ آگ تک نہیں جلاتے تھے، بس کھجور اور پانی کے علاوہ کھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تھا، البتہ بعض اوقات گوشت آ جاتا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۲۶/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: کَانَ یَمُرُّ بِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہِلَالٌ وَہِلَالٌ وَہِلَالٌ مَا یُوقَدُ فِی بَیْتٍ مِنْ بُیُوتِہِ نَارٌ ، قُلْت: یَا خَالَۃُ، عَلَی أَیِّ شَیْئٍ کُنْتُمْ تَعِیشُونَ؟ قَالَتْ: عَلَی الْأَسْوَدَیْنِ: التَّمْرِ، وَالْمَائِ۔ (مسند احمد: ۲۵۰۶۸)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ایک چاند، دوسرا چاند اور تیسرا چاندگزر جاتا (یعنی دو تین تین ماہ گزر جاتے تھے) کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گھروں میں سے کسی گھر میں آگ نہیں جلائی جاتی تھی۔ عروہ بن زبیر نے کہا: اے خالہ جان! تو پھر تم لوگ کس چیز پر گزارا کرتے تھے؟ انھوں نے کہا: دو سیاہ رنگ کی چیزیںیعنی کھجور اور پانی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۲۷/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ، أَنَّہَا قَالَتْ: وَالَّذِی بَعَثَ مُحَمَّدًا بِالْحَقِّ، مَا رَأَی مُنْخُلًا، وَلَا أَکَلَ خُبْزًا مَنْخُولًا، مُنْذُ بَعَثَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَی أَنْ قُبِضَ ، قُلْت: کَیْفَ تَأْکُلُونَ الشَّعِیرَ؟قَالَتْ: کُنَّا نَقُولُ أُفٍّ۔ (مسند احمد: ۲۴۹۲۵)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: اس ذات کی قسم جس نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نہ چھاننی دیکھی اور نہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چھانے ہوئے آٹے کی روٹی کھائی، بعثت سے لے کر وفات تک یہی کیفیت رہی۔ عروہ کہتے ہیں: میں نے کہا: تو پھر آپ لوگ جو کیسے کھاتے تھے (یعنی چھاننے کے بغیر جو کی روٹی کیسے کھاتے تھے)؟ انھوں نے کہا: بس آٹے پر پھونک مار کر چھلکا اڑا دیتی تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۲۸/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ حُمَیْدٍ، قَال: قَالَتْ عَائِشَۃ: أَرْسَلَ إِلَیْنَا آلُ أَبِی بَکْرٍ بِقَائِمَۃِ شَاۃٍ لَیْلًا، فَأَمْسَکْتُ وَقَطَعَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَوْ قَالَتْ: أَمْسَکَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَطَعْتُ، قَالَتْ: تَقُولُ لِلَّذِی تُحَدِّثُہُ ہَذَا عَلَی غَیْرِ مِصْبَاحٍ: قَال: قَالَتْ عَائِشَۃ: إِنَّہُ لَیَأْتِی عَلَی آلِ مُحَمَّدٍ الشَّہْرُ، مَا یَخْتَبِزُونَ خُبْزًا، وَلَا یَطْبُخُونَ قِدْرًا ، قَالَ حُمَیْدٌ: فَذَکَرْتُ لِصَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ، فَقَال: لَا، بَلْ کُلُّ شَہْرَیْنِ۔ (مسند احمد: ۲۵۱۳۸)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: ایک رات کو آلِ ابو بکر نے بکری کی ٹانگ ہماری طرف بھیجی، میں نے اس کو پکڑا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو کاٹا، یا معاملے ایسے تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پکڑا اور میں نے کاٹا، ہمارے پاس وہ تیل نہیں ہوتا تھا، جس سے چراغ جلایا جاتا تھا، (اگر وہ ہوتا تو ہم سالن تیار کرتے)، آل محمد پر ایسا مہینہ بھی گزرتا تھا کہ وہ نہ اس میں کوئی روٹی پکاتے تھے اور نہ ہنڈیا تیار کرتے تھے۔ حمید راوی کہتے ہیں: جب میں نے یہ حدیث صفوان بن محرز کو بیان کی تو انھوں نے کہا: نہیں، ایک ایک ماہ نہیں، بلکہ دو دو ماہ تک ایسا معاملہ ہو جاتاتھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۲۹/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ، أَنَّہَا قَالَتْ: تُوُفِّیَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ شَبِـعَ النَّاسُ مِنَ الْأَسْوَدَیْنِ، الْمَاء ِ وَالتَّمْرِ۔ (مسند احمد: ۲۴۹۵۶)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب لوگوں نے دو سیاہ چیزوں پانی اور کھجور سے سیر ہونا شروع کیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انتقال فرما گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۳۰/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ عَائِشَۃَ، أَنَّہَا قَالَتْ: یَا ابْنَ أُخْتِی، کَانَ شَعْرُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَوْقَ الْوَفْرَۃِ، وَدُونَ الْجُمَّۃِ، وَایْمُ اللّٰہِ یَا ابْنَ أُخْتِی، إِنْ کَانَ لَیَمُرُّ عَلَی آلِ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الشَّہْرُ، مَا یُوقَدُ فِی بَیْتِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ نَارٍ، إِلَّا أَنْیَکُونَ اللُّحَیْمُ، وَمَا ہُوَ إِلَّا الْأَسْوَدَانِ: الْمَائُ وَالتَّمْرُ، إِلَّا أَنَّ حَوْلَنَا أَہْلَ دُورٍ مِنَ الْأَنْصَارِ جَزَّاَہُمُ اللّٰہُ خَیْرًا فِی الْحَدِیثِ وَالْقَدِیمِ، فَکُلُّ یَوْمٍیَبْعَثُونَ إِلَی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِغَزِیرَۃِ شَاتِہِمْ، یَعْنِی: فَیَنَالُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِکَ اللَّبَنِ، وَلَقَدْ تُوُفِّیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَا فِی رَفِّی مِنْ طَعَامٍ یَأْکُلُہُ ذُو کَبِدٍ إِلَّا قَرِیبٌ مِنْ شَطْرِ شَعِیرٍ، فَأَکَلْتُ مِنْہُ حَتَّی طَالَ عَلَیَّ لَا یَفْنَی، فَکِلْتُہُ فَفَنِیَ ، فَلَیْتَنِی لَمْ أَکُنْ کِلْتُہُ، وَایْمُ اللّٰہِ لَأَنْ کَانَ ضِجَاعُہُ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُہُ لِیفٌ۔ (مسند احمد: ۲۵۲۷۷)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، انھوں نے کہا: اے میرے بھانجے! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بال وفرہ سے زیادہ اور جُمّہ سے کم تھے، اے میرے بھانجے! اللہ کی قسم ہے، آل محمد کا پورا مہینہ اس طرح گزر جاتا ہے کہ گھر میں آگ جلانے تک کی نوبت نہیں آتی تھا، بس کبھی کبھار تھوڑا بہت گوشت (بطورِ ہدیہ) آ جاتا تھا، نہیں تو پانی اور کھجور سے ہی گزارا کرنا پڑتا تھا، البتہ ہمارے ارد گرد انصاری لوگوں کے گھر تھے، اللہ تعالی ان کو دنیا و آخرت میں جزائے خیر دے، وہ روزانہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف زیادہ دودھ والی بکری بھیج دیتے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کا دودھ پی لیتے تھے۔ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فوت ہوئے تو میری الماری میں نصف (وسق) جو کے تھے، میں ان سے کھاتی رہا، جب کافی عرصہ ہو گیا اور وہ ختم نہیں ہو رہے تھے تو میں نے ان کو ماپ لیا، پس وہ ختم ہو گئے، کاش میں ان کو نہ ماپتی، اللہ کی قسم ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا بچھونا چمڑے کا ہوتا تھا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوتی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۳۱/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعْجِبُہُ مِنَ الدُّنْیَا ثَلَاثَۃٌ: الطَّعَامُ، وَالنِّسَائُ، وَالطِّیبُ، فَأَصَابَ ثِنْتَیْنِ وَلَمْ یُصِبْ وَاحِدَۃً، أَصَابَ النِّسَائَ وَالطِّیبَ، وَلَمْ یُصِبِ الطَّعَامَ۔ (مسند احمد: ۲۴۹۴۴)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ دنیا کی تین چیزیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پسند تھیں: کھانا، عورتیں اور خوشبو، دو چیزیں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مل گئیں،یعنی عورتیں اور خوشبو، البتہ تیسری چیز کھانا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نہ مل سکی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۳۲/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، أَنَّ فَاطِمَۃَ نَاوَلَتْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کِسْرَۃً مِنْ خُبْزِ شَعِیرٍ، فَقَال: ((ہَذَا أَوَّلُ طَعَامٍ أَکَلَہُ أَبُوکِ مِنْ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ۔)) (مسند احمد: ۱۳۲۵۵)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جو کی روٹی کا ایک ٹکڑا پکڑایا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تین دن ہو گئے ہیں، اب یہ پہلی چیز ہے، جو تیرے باپ کو کھانے کے ملی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۳۳/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَال: قَالَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَال: ((لَقَدْ أُخِفْتُ فِی اللّٰہِ وَمَا یَخَافُ أَحَدٌ، وَلَقَدْ أُوذِیتُ فِی اللّٰہِ وَمَا یُؤْذَی أَحَدٌ، وَلَقَدْ أَتَتْ عَلَیَّ ثَلَاثُونَ مِنْ بَیْنِیَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ، وَمَا لِی وَلَا لِبِلَالٍ طَعَامٌ یَأْکُلُہُ ذُو کَبِدٍ إِلَّا شَیْئٌیُوَارِیہِ إِبِطُ بِلَالٍ۔)) (مسند احمد: ۱۴۱۰۱)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے اللہ تعالی کی راہ میں بہت ڈرایا گیا، اتنا کسی کو نہیں ڈرایا گیا اور مجھے اللہ تعالی کے راستے میں اتنی تکلیف دی گئی کہ اتنی تکلیف کسی کو نہیں دی گئی، ایسے ایسے تیس تیس شب و روز بھی گزرے ہیں کہ میرے لیے اور بلال کے لیے کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی تھی، جس کو کوئی جاندار کھا سکے، ما سوائے اس چیز کے، جس کو بلال کی بغل چھپا لیتی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۳۴/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَال: لَقَدْ دُعِیَ نَبِیُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ عَلَی خُبْزِ شَعِیرٍ، وَإِہَالَۃٍ سَنِخَۃٍ، قَال: وَلَقَدْ سَمِعْتُہُ ذَاتَ یَوْمِ الْمِرَارِ وَہُوَ یَقُول: ((وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ، مَا أَصْبَحَ عِنْدَ آلِ مُحَمَّدٍ صَاعُ حَبٍّ، وَلَا صَاعُ تَمْرٍ۔)) وَإِنَّ لَہُ یَوْمَئِذٍ لَتِسْعَ نِسْوَۃٍ، وَلَقَدْ رَہَنَ دِرْعًا لَہُ عِنْدَ یَہُودِیٍّ بِالْمَدِینَۃِ، أَخَذَ مِنْہُ طَعَامًا فَمَا وَجَدَ لَہَا مَا یَفْتَکُّہَا بِہِ۔ (مسند احمد: ۱۳۵۳۱)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی ٔ کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک دن جو کی روٹی اور ایسے سالن کے لیے دعوت دی گئی، جس سے زیادہ دیر تک پڑا رہنے کی وجہ سے بد بو آ رہی تھی اور میں نے خود آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک دن میں کئی بار فرماتے ہوئے سنا کہ اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی جان ہے، آل محمد کے پاس اناج اور کھجور کا ایک صاع بھی نہیں ہے۔ جبکہ اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نو بیویاں تھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مدینہ میں ایکیہودی کے پاس اپنی زرہ گروی رکھی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے اناج ادھار لیا تھا، اب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس (قرض واپس کرنے کے لیے) اتنا مال نہیں تھا کہ وہ زرہ چھڑا سکیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۳۵/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ قَتَادَۃَ قَال: کُنَّا نَأْتِی أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ وَخَبَّازُہُ قَائِمٌ قَال: فَقَالَ یَوْمًا: کُلُوا فَمَا أَعْلَمُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَی رَغِیفًا مُرَقَّقًا، وَلَا شَاۃً سَمِیطًا قَطُّ، قَالَ عَفَّان فِی حَدِیثِہِ: حَتَّی لَحِقَ بِرَبِّہِ۔ (مسند احمد: ۱۲۳۲۱)
جناب ِ قتادہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آتے، جبکہ ان کا روٹی بنانے والا باورچی ان کے پاس کھڑا ہوتا، ایک دن انھوں نے کہا: کھاؤ، میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پتلی بڑی چپاتی اور بال اتار کر بھونی ہوئی بکری دیکھی ہو، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے پروردگار سے جا ملے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۳۶/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یَجْتَمِعْ لَہُ غَدَائٌ، وَلَا عَشَائٌ مِنْ خُبْزٍ وَلَحْمٍ، إِلَّا عَلَی ضَفَفٍ۔ (مسند احمد: ۱۳۸۹۵)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ تنگی اور قلت کی وجہ سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس روٹی اور گوشت والا دوپہر کا کھانا اور شام کا کھانا جمع نہیں ہوا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۳۷/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ عُمَرَ، قَال: لَقَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَلْتَوِی مَا یَجِدُ مَا یَمْلَأُ بِہِ بَطْنَہُ مِنَ الدَّقَلِ۔ (مسند احمد: ۱۵۹)
سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بل دار اور ٹیڑھا ہوتے ہوئے دیکھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ردّی اور خشک قسم کی کھجوریں بھی اتنی مقدار میں نہیں ہوتی تھیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پیٹ بھر کر کھا سکیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۳۸/۱۱۳۲۲)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَبِیتُ اللَّیَالِی الْمُتَتَابِعَۃَ طَاوِیًا، وَأَہْلُہُ لَا یَجِدُونَ عَشَائً، قَال: وَکَانَ عَامَّۃُ خُبْزِہِمْ خُبْزَ الشَّعِیرِ۔ (مسند احمد: ۲۳۰۳)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آل لگاتار کئی راتیں بھوک کی حالت میں گزارتے تھے، ان کے پاس شام کا کھانا نہیں ہوتا تھا اور ان کی عام روٹی جو کی ہوتی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۳۹/۱۱۳۲۲)۔ حَدَّثَنَا یَزِیدُ، أَخْبَرَنَا رَجُلٌ، وَالرَّجُلُ کَانَ یُسَمَّی فِی کِتَابِ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ: عَمْرَو بْنَ عُبَیْدٍ، قَال: حَدَّثَنَا أَبُو رَجَائٍ الْعُطَارِدِیُّ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَال: مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ خُبْزِ بُرٍّ مَأْدُومٍ حَتَّی مَضَی لِوَجْہِہِ۔ قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: وَکَانَ أَبِی رَحِمَہُ اللّٰہُ قَدْ ضَرَبَ عَلَی ہَذَا الْحَدِیثِ فِی کِتَابِہِ، فَسَأَلْتُہُ فَحَدَّثَنِی بِہِ، وَکَتَبَ عَلَیْہِ صَحَّ صَحَّ إِنَّمَا ضَرَبَ أَبِی عَلَی ہَذَا الْحَدِیثِ؛ لِأَنَّہُ لَمْ یَرْضَ الرَّجُلَ الَّذِی حَدَّثَ عَنْہُ یَزِیدُ۔ (مسند احمد: ۲۰۲۱۱)
سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آل سالن اور گندم کی روٹی سے سیر نہیں ہوئے، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (دنیائے فانی سے) روانہ ہو گئے۔ ابو عبد الرحمن نے کہا: میرے باپ امام احمد ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے اپنی کتاب میں اس حدیث پر کراس لگا دیا تھا، جب میں نے ان سے اس کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے مجھے یہ حدیث بیان کی اور اس پر صَحّ صَحّ کی علامت لگائی اور انھوں نے کہا: میرے باپ نے اس حدیث پر اس لیے کراس لگا دیا تھا کہ وہ اس راوی کو پسند نہیں کرتے تھے، جس سے یزید بیان کرتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۴۰/۱۱۳۲۲)۔ حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِیرَۃِ، حَدَّثَنَا حَرِیزٌ، حَدَّثَنَا سُلَیْمُ بْنُ عَامِرٍ الْخَبَائِرِیُّ قَال: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیّ: یَقُول: مَا کَانَ یَفْضُلُ عَنْ أَہْلِ بَیْتِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خُبْزُ الشَّعِیرِ۔ (مسند احمد: ۲۲۶۵۲)
سیدنا ابو امامہ باہلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گھر والوں سے جو کی روٹی باقی نہیں بچتی تھی، (یعنی کھانے کی مقدار اتنی ہوتی تھی کہ بمشکل ہی گھر والوں کو کفایت کرتی تھی)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۴۱/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ اَبِیْ حَازِمٍ، عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّہُ قِیلَ لَہُ: ہَلْ رَأَی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّقِیَّ قَبْلَ مَوْتِہِ بِعَیْنِہِ،یَعْنِی الْحُوَّارَی؟ قَال: مَا رَأَی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم النَّقِیَّ بِعَیْنِہِ حَتَّی لَقِیَ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ فَقِیلَ لَہ: ہَلْ کَانَ لَکُمْ مَنَاخِلُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَال: مَا کَانَتْ لَنَا مَنَاخِلُِ قِیلَ لَہ: فَکَیْفَ کُنْتُمْ تَصْنَعُونَ بِالشَّعِیرِ؟ قَال: نَنْفُخُہُ فَیَطِیرُ مِنْہُ مَا طَارَ۔ (مسند احمد: ۲۳۲۰۲)
سیدنا سہل بن سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ کیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے وفات سے پہلے سفید آٹا دیکھا تھا؟ انھوں نے کہا:جی نہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی آنکھوں سے سفید آٹا نہیں دیکھا تھا، یہاں تک کہ وفات پا گئے، پھر سیدنا سہل سے یہ پوچھا گیا کہ کیا عہد ِ نبوی میں تمہارے پاس چھاننیاں ہوتی تھیں؟ انھوں نے کہا: ہمارے پاس چھاننیاں نہیں ہوتی تھیں، ان سے کہا گیا: پھر تم لوگ جو کے آٹے کا کیا کرتے تھے (اس میں چھلکا ہوتا ہے)؟ انھوں نے کہا: بس پھونک مار لیتے تھے، سو جو چھلکا اڑ گیا، وہ اڑ گیا، (باقی آٹا گوندھ دیتےتھے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۴۲/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ اَنَسٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَتْ تُعْجِبُہُ الْفَاغِیَۃُ وَکَانَ اَعْجَبُ الطَّعَامِ اِلَیِْہِ الدُّبَّائِ۔ (مسند احمد: ۱۲۵۷۴)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ٔ کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فاغیہ بہت پسند تھا اور کھانوں میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ کھانا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کدو کا سالن تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۴۳/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: قُدِّمَتْ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَصْعَۃٌ فِیہَا قَرْعٌ، قَالَ: وَکَانَ یُعْجِبُہُ الْقَرْعُ، قَالَ: فَجَعَلَ یَلْتَمِسُ الْقَرْعَ بِأُصْبُعِہِ أَوْ قَالَ بِأَصَابِعِہِ۔ (مسند احمد: ۱۲۶۵۷)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک پیالہ نبی ٔ کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب کیا گیا، اس میں کدو بھی تھے، جبکہ یہ چیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پسند بھی بڑی تھی، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی انگلی یا انگلیوں کی مدد سے کدو تلاش کرنے لگے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۴۴/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَال: دَعَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَجُلٌ، فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ مَعَہُ، قَال: فَجِیئَ بِمَرَقَۃٍ فِیہَا دُبَّائٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْکُلُ ذَلِکَ الدُّبَّائَ وَیُعْجِبُہُ، فَلَمَّا رَأَیْتُ ذَلِکَ جَعَلْتُ أُلْقِیہِ إِلَیْہِ وَلَا أَطْعَمُ مِنْہُ شَیْئًا، فَقَالَ أَنَسٌ: فَمَا زِلْتُ أُحِبُّہُ قَالَ سُلَیْمَان: فَحَدَّثْتُ بِہَذَا الْحَدِیثِ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیَّ فَقَال: مَا أَتَیْنَا أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ قَطُّ فِی زَمَانِ الدُّبَّائِ إِلَّا وَجَدْنَاہُ فِی طَعَامِہِ۔ (مسند احمد: ۱۳۳۹۲)
سیدنا انس بن مالک سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دعوت دی، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے گئے اور میں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ گیا، پس کھانے میں شوربا لایا گیا، اس میں کدو تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس سے کدو کھانے لگے، دراصل کدو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پسند تھے، جب میں نے اس چیز کا مشاہدہ کیا تو میں کدو ڈال کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دینے لگا اور میں خود نہیں کھا رہا تھا (تاکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیر ہو کر کھا لیں)۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: پس میں اس وجہ سے ہمیشہ کدو پسند کرتا رہا، سلیمان تیمی کہتے ہیں: کدو کے موسم میں ہم جب بھی سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آتے تھے تو ان کے کھانے میں کدو پاتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۴۵/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ قَتَادَۃَ، سَمِعَ أَنَسًا: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُعْجِبُہُ الدُّبَّائُ، قَالَ أَنَسٌ: فَجَعَلْتُ أَضَعُہُ بَیْنَیَدَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۴۰۱۱)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کدو پسند تھے، پس میں وہ کدو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے رکھتا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۴۶/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ أَنَسٍ قَال: بَعَثَتْ مَعِی أُمُّ سُلَیْمٍ بِمِکْتَلٍ فِیہِ رُطَبٌ إِلَی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ أَجِدْہُ، وَخَرَجَ قَرِیبًا إِلَی مَوْلًی لَہُ، دَعَاہُ صَنَعَ لَہُ طَعَامًا۔ قَال: فَأَتَیْتُہُ، فَإِذَا ہُوَ یَأْکُلُ، فَدَعَانِی لِآکُلَ مَعَہُ قَالَ: وَصَنَعَ لَہُ ثَرِیدًا بِلَحْمٍ وَقَرْعٍ قَال: وَإِذَا ہُوَ یُعْجِبُہُ الْقَرْعُ قَال: فَجَعَلْتُ أَجْمَعُہُ وَأُدْنِیہِ مِنْہُ۔ قَال: فَلَمَّا طَعِمَ رَجَعَ إِلَی مَنْزِلِہِ ، قَال: وَوَضَعْتُ لَہُ الْمِکْتَلَ بَیْنَیَدَیْہِ، قَال: فَجَعَلَ یَأْکُلُ، وَیَقْسِمُ حَتَّی فَرَغَ مِنْ آخِرِہِ۔ (مسند احمد: ۱۲۰۷۵)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدہ ام سلیم نے مجھے ایک ٹوکرا دے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طر ف بھیجا، اس میں تازہ کھجوریں تھیں، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گھر پر نہیں پایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قریب ہی اپنے ایک غلام کی طرف گئے ہوئے تھے، دراصل اس نے کھانا تیار کر کے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دعوت دی تھی، میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس حال میں پایا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھانا تناول فرما رہے تھے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بھے کھانے کے لیے بلایا، اس آدمی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے گوشت اور کدو کا ثرید بنایا تھا، میں کیا دیکھتا ہوں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تو کدو بہت پسند تھے، پس میں کدو جمع کر کے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب کرنے لگا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھانے سے فارغ ہو کر گھر تشریف لے آئے تو میں نے وہ ٹوکرا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے رکھ دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ کھجوریں کھانا اور ان کو تقسیم کرنا شروع کر دیا،یہاں تک کہ وہ ختم ہو گئیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۴۷/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ حَکِیمِ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ أَبِیہِ قَال: دَخَلْتُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی بَیْتِہِ، فَرَأَیْتُ عِنْدَہُ قَرْعًا فَقُلْت: یَا رَسُولَ اللّٰہِ مَا ہَذَا؟ قَال: ہَذَا قَرْعٌ نُکَثِّرُ بِہِ طَعَامَنَا۔ (مسند احمد: ۱۹۳۱۱)
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی ٔ کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گھر گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں کدو دیکھے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ کیا ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کدو ہیں، ہم زیادہ تر اس کو اپنے کھانے میں استعمال کرتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۴۸/۱۱۳۲۲)۔ حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الْمَدَائِنِیُّ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ حُمَیْدٍ الطَّوِیلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَال: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُعْجِبُہُ الثُّفْلُ قَالَ عَبَّادٌ یَعْنِی: ثُفْلَ الْمَرَقِ۔ (مسند احمد: ۱۳۳۳۳)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی ٔ کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو شوربے والا ثرید بہت پسند تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۴۹/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ أَبِی رَافِعٍ، قَال: صُنِعَ لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَاۃٌ مَصْلِیَّۃٌ فَأُتِیَ بِہَا فَقَالَ لِی: ((یَا أَبَا رَافِعٍ نَاوِلْنِی الذِّرَاعَ۔)) فَنَاوَلْتُہُ فَقَال: ((یَا أَبَا رَافِعٍ نَاوِلْنِی الذِّرَاعَ۔)) فَنَاوَلْتُہُ ثُمَّ قَال: ((یَا أَبَا رَافِعٍ نَاوِلْنِی الذِّرَاعَ۔)) فَقُلْت: یَا رَسُولَ اللّٰہِ وَہَلْ لِلشَّاۃِ إِلَّا ذِرَاعَانِ؟ فَقَال: ((لَوْ سَکَتَّ لَنَاوَلْتَنِی مِنْہَا مَا دَعَوْتُ بِہِ۔)) قَال: وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُعْجِبُہُ الذِّرَاعُ۔ (مسند احمد: ۲۴۳۶۰)
سیدنا ابو رافع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے بکری بھونی گئی اور پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پیش کی گئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے ابو رافع! مجھے دستی پکڑاؤ۔ پس میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دستی پکڑا دی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: ابو رافع! مجھے دستی پکڑاؤ۔ سو میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تھما دی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: ابو رافع! مجھے دستی پکڑاؤ۔ ‘ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بکری کی دو ہی دستیاں ہوتی ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تو خاموش رہتا تو جب تک میں مطالبہ کرتا رہتا، تو مجھے دستیاں پکڑاتا جاتا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ دستی بڑی پسند تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۵۰/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَال: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یُحِبُّ الذِّرَاعَ۔ (۸۳۵۹)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دستی پسند تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۵۱/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ ضُبَاعَۃَ بِنْتِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَنَّہَا ذَبَحَتْ فِی بَیْتِہَا شَاۃً، فَأَرْسَلَ إِلَیْہَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ أَطْعِمِینَا مِنْ شَاتِکُمْ۔ فَقَالَتْ لِلرَّسُولِ: وَاللّٰہِ مَا بَقِیَ عِنْدَنَا إِلَّا الرَّقَبَۃُ، وَإِنِّی أَسْتَحْیِی أَنْ أُرْسِلَ إِلَی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالرَّقَبَۃِ، فَرَجَعَ الرَّسُولُ، فَأَخْبَرَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَال: ((ارْجِعْ إِلَیْہَا، فَقُلْ: أَرْسِلِی بِہَا، فَإِنَّہَا ہَادِیَۃٌ الشَّاۃِ، وَأَقْرَبُ الشَّاۃِ إِلَی الْخَیْرِ، وَأَبْعَدُہَا مِنَ الْأَذَی۔)) (مسند احمد: ۲۷۵۷۱)
سیدہ ضباعہ بنت زبیر بن عبد المطلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ انھوں نے اپنے گھر میں ایک بکری ذبح کی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی طرف پیغام بھیجا کہ ہمیں بھی اپنی بکری میں سے کچھ کھلا دو، انھوں نے قاصد کو جواباً کہا: اللہ کی قسم! صرف گردن بچی پڑی ہے اور مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے شرم آتی ہے کہ میں وہ گردن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف بھیجوں، پس قاصد لوٹ آیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو صورتحال سے آگاہ کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو لوٹ جا اور ان سے کہو کہ وہ یہی گردن ہی بھیج دیں، کیونکہیہ بکری کا ابتدائی حصہ ہے، لذت اور پکنے میں سب سے بہتر ہے اور پیشاب اور مینگنیوں وغیرہ سے بھی دور ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۵۲/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ صَنَعْنَا لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَخَّارَۃً فَأَتَیْتُہُ بِہَا فَوَضَعْتُہَا بَیْنَیَدَیْہِ فَاطَّلَعَ فِیہَا فَقَالَ: ((حَسِبْتُہُ لَحْمًا۔)) فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِأَہْلِی فَذَبَحُوا لَہُ شَاۃً۔ (مسند احمد: ۱۴۶۳۵)
سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے نبی ٔ کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے سنگریزوں کا ایک برتن بنایا ہوا تھا، میں وہ برتن آپ کے پاس لایا اور اسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے رکھ دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس میں جھانکا اور فرمایا: میرا خیال ہے کہ اس میں گوشت ہے۔ میں نے اس چیز کا ذکر گھر والوں سے کیا (اور ہم سمجھ گئے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گوشت کھانے کی خواہش ہے) پس انہوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے بکری ذبح کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۵۳/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ شُعَیْبِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِیہِ، قَال: مَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْکُلُ مُتَّکِئًا قَطُّ، وَلَا یَطَأُ عَقِبَہُ رَجُلَانِ قَالَ عَفَّان: عَقِبَیْہِ۔ (مسند احمد: ۶۵۴۹)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کبھی ٹیک لگا کر کھانا کھایا ہو اور دو افراد نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ایڑھیوں کا نہیں روندا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۵۴/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَال: مَا عَابَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَعَامًا قَطُّ، کَانَ إِذَا اشْتَہَاہُ أَکَلَہُ، وَإِذَا لَمْ یَشْتَہِہِ تَرَکَہُ۔ (مسند احمد: ۱۰۱۴۶)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کبھی بھی کھانے کا عیب نہیں نکالا، اگر چاہا تو کھا لیااور اگر نہ چاہا تو نہیں کھایا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۵۵/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَال: مَا أَکَلَ نَبِیُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی خِوَانٍ، وَلَا فِی سُکُرُّجَۃٍ، وَلَا خُبِزَ لَہُ مُرَقَّقٌ قَال: قُلْتُ لِقَتَادَۃ: فَعَلَامَ کَانُوا یَأْکُلُونَ؟ قَال: عَلَی السُّفَرِ۔ (مسند احمد: ۱۲۳۵۰)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نہ نبی ٔ کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دسترخوان پر کھاتے تھے، نہ چھوٹے چھوٹے برتنوں میں اور نہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے پتلی بڑی روٹی بنائی جاتی تھی۔ میں نے جناب قتادہ سے کہا: تو پھر وہ کس چیز پر کھانا کھایا کرتے تھے؟ انھوں نے کہا: بس عام سے دسترخوان پر (جو زیادہ تر چمڑے کا گولائی کی شکل میں ہوتا تھا)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11322

۔ (۵۶/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: کَانَتْ یَمِینُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِطَعَامِہِ وَصَلَاتِہِ، وَکَانَتْ شِمَالُہُ لِمَا سِوَی ذَلِکَ۔ (مسند احمد: ۲۵۸۳۵)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا دائیں ہاتھ کھانے اور نماز وغیرہ کے لیے ہوتا تھا اور بائیاں ہاتھ دوسرے (مکروہ) امور کے لیے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11323

۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11324

۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11325

۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11326

۔ (۱۱۳۲۶)۔ عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((تَنَامُ عَیْنِی وَلَا یَنَامُ قَلْبِی۔)) (مسند احمد: ۷۴۱۱)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری آنکھ سوجاتی ہے اور میرا دل نہیں سوتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11327

۔ (۱۱۳۲۷)۔ عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: مَا نَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَبْلَ الْعِشَائِ وَلَا سَمَرَ بَعْدَھَا۔ (مسند احمد: ۲۶۸۱۰)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز عشاء سے قبل سوتے نہیں تھے اورعشاء کے بعد بات چیت نہیں کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11328

۔ (۱۱۳۲۸)۔ عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: مَا کُنْتُ أَلْقَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ السَّحَرِ، وَفِی رِوَایَۃٍ: مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ إِلَّا وَھُوَ عِنْدِی نَائِمًا۔ (مسند احمد: ۲۵۵۷۵)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سحری کے وقت یا رات کے آخری حصہ میں اپنے ہاں سویا ہوا پاتی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11329

۔ (۱۱۳۲۹)۔ عَنْ حَفْصَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَہُ وَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنٰی تَحْتَ خَدِّہِ الْأَیْمَنِ، وَکَانَتْ یَمِیْنُہُ لِطَعَامِہِ وَطُہُوْرِہِ وَصَلَاتِہِ وَثِیَابِہِ، وَکَانَتْ شِمَالُہُ لِمَا سِوٰی ذٰلِکَ، وَکَانَ یَصُوْمُ الْإِثْنَیْنِ وَالْخَمِیْسَ۔ (مسند احمد: ۲۶۹۹۳)
زوجۂ رسول سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب بستر پر دراز ہوتے تو اپنا دایاں ہاتھ دائیں رخسار کے نیچے رکھ لیتے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا دایاں ہاتھ(اور دائیں جانب) کھانا کھانے، وضوء کرنے، نماز پڑھنے اور کپڑے پہننے کے لیے مخصوص تھا اور بایاں ہاتھ (اور بائیں جانب) باقی کاموں کے لیے مخصوص تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سوموار اور جمعرات کے دن روزہ رکھا کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11330

۔ (۱۱۳۳۰)۔ عَنْ حَفْصَۃَ ابْنَۃِ عُمَرَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا آوٰی إِلٰی فِرَاشِہِ وَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنٰی تَحْتَ خَدِّہِ، وَقَالَ: ((رَبِّ قِنِی عَذَابَکَ یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَکَ)) ثَلَاثًا۔ (مسند احمد: ۲۶۹۹۴)
سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب بستر پر تشریف لاتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنے دائیں رخسار کے نیچے رکھ لیتے اور تین بار یہ دعا پڑھتے: رَبِّ قِنِی عَذَابَکَ یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَکَ (اے میرے رب! تو جس دن اپنے بندوں کو اٹھائے گا، اس دن مجھے اپنے عذاب سے محفوظ رکھنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11331

۔ (۱۱۳۳۱)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، قَالَتْ: کَانَ ضِجَاعُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الَّذِییَنَامُ عَلَیْہِ بِاللَّیْلِ مِنْ أَدَمٍ مَحْشُوًّا لِیْفًا۔ (مسند احمد: ۲۴۷۱۳)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جس پر رات کو سویا کرتے تھے، چمڑے کا تھا، اس میں کھجور کے درخت کی چھال بھری ہوئی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11332

۔ (۱۱۳۳۲)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَخَلَ عَلَیْہِ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ وَھُوَ عَلٰی حَصِیْرٍ قَدْ أَثَّرَ فِی جَنْبِہِ، فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! لَوِ اتَّخَذْتَ فِرَاشًا أَوْثَرَ مِنْ ھٰذَا، فَقَالَ: ((مَالِی وَلِلدُّنْیَا؟ مَا مَثَلِی وَمَثَلُ الدُّنْیَا إِلَّا کَرَاکِبٍ سَارَ فِییَوْمٍ صَائِفٍ، فَاسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ سَاعَۃً مِنْ نَہَارٍ، ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَہَا۔)) (مسند احمد: ۲۷۴۴)
سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے اور اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جسم پر اثر کیا ہوا تھا، اسی حالت میں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے، یہ منظر دیکھ کر انھوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! اگرآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس سے ذرا نرم بستر بنوالیں تو بہتر ہو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے دنیا سے کیا تعلق؟ میری اور دنیا کی مثال اس سوار کی سی ہے، جو سخت گرمی میں سفر کرے اور دن کے کسی وقت کسی درخت کے سائے میں آرام کرے ۔پھر اسے وہیں چھوڑ کر آگے روانہ ہو جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11333

۔ (۱۱۳۳۳)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ مُضْطَجِعٌ عَلٰی سَرِیْرٍ مُرْمَلٌ بِشَرِیْطٍ، وَتَحْتَ رَأْسِہِ وِسَادَۃٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُھَا لِیْفٌ، فَدَخَلَ عَلَیْہِ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِہِ وَدَخَلَ عُمَرُ، فَانْحَرَفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انْحِرَافَۃً، فَلَمْ یَرَعُمَرُ بَیْنَ جَنْبِہِ وَبَیْنَ الشَّرِیْطِ ثَوْبًا، وَقَدْ أَثَّرَ الشَّرِیْطُ بِجَنْبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَبَکٰی عُمَرُ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا یُبْکِیْکَیَا عُمَرُ؟)) قَالَ: وَاللّٰہِ! إِلَّا أَنْ أَکُوْنَ أَعْلَمَ، أَنَّکَ أَکْرَمُ عَلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ مِنْ کِسْرٰی وَقَیْصَرَ وَھُمَا یَعْبَثَانِ فِی الدُّنْیَا فِیْمَایَعْبَثَانِ فِیْہِ، وَأَنْتَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْمَکَانِ الَّذِی أَرٰی، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ لَھُمُ الدُّنْیَا وَلَنَا الْآخِرَۃُ؟)) قَالَ: بَلٰی، قَالَ: ((فَإِنَّہُ کَذَالِکَ۔)) (مسند احمد: ۱۲۴۴۴)
سیدناسیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں گئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھجور کے تنوں سے بنی ہوئی چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ تھا جس میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے۔ چند صحابہ اسی عالم میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں آئے اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تشریفلائے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پہلو بدلا تو عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پہلو اور چار پائی کے بان کے درمیان کوئی کپڑا نظر نہ آیا۔ اور بان کے نشانات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پہلو پر ثبت تھے۔ یہ منظر دیکھ کر عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رونے لگے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے پوچھا: عمر! تجھے کس چیز نے رلایا ہے؟ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں اس لیے رو رہا ہوں کہ میں جانتا ہوں کہ آپ اللہ کے ہاں کسریٰ اور قیصر کے مقابلے میں بہت زیادہ معزز ہیں۔ وہ دنیا میں خوب عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں اور اللہ کے رسول! آپ کی وہ حالت ہے جو میں دیکھ رہا ہوں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ ان کے لیے دنیا ہو اور ہمارے لیے آخرت؟ انھوں نے کہا: کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا: تو پھر بات ایسے ہی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11334

۔ (۱۱۳۳۴)۔ عَنْ قَتَادَۃَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِکٍ: أَیُّ اللِّبَاسِ کَانَ أَعَجَبَ، (قَالَ عَفَّانُ: أَوْ أَحَبَّ) إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَ: الْحِبَرَۃُ۔ (مسند احمد: ۱۲۴۰۴)
قتادہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کونسا لباس سب سے زیادہ پسند تھا؟ انہوں نے جواب دیا: یمن کی سوتی اور دھاری دار چادر۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11335

۔ (۱۱۳۳۵)۔ عَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: لَمْ یَکُنْ ثَوْبٌ اَحَبَّ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ قَمِیْصٍ۔ (مسند احمد: ۲۷۲۳۰)
سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ لباس میں سب سے زیادہ پسندیدہ لباس نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں قمیص کا پہننا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11336

۔ (۱۱۳۳۶)۔ عَنْ یَعْلَی بْنِ أُمَیَّۃَ، قَالَ: رَأَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُضْطَبِعًا بِرِدَائٍ حَضْرَمِیٍّ۔ (مسند احمد: ۱۸۱۱۶)
سیدنایعلی بن امیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حضر موت کی تیار شدہ چادر سے اضطباع کیا ہوا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11337

۔ (۱۱۳۳۷)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: رَأَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُضْطَبِعًا بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ بِبُرْدٍ لَہُ نَجْرَانِیٍّ۔ (مسند احمد: ۱۸۱۱۹)
۔(دوسری سند)سیدنایعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو صفا اور مروہ کے درمیان دیکھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نجران کی تیار شدہ چادر سے اضطباع کر رکھا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11338

۔ (۱۱۳۳۸)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَالِثٍ) أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا قَدِمَ طَافَ بِالْبَیْتِ وَھُوَ مُضْطَبِعٌ بِبُرْدٍ لَہُ حَضْرَمِیٍّ۔ (مسند احمد: ۱۸۱۲۰)
۔(تیسری سند) جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیت اللہ کا طواف کیا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس وقت حضر موت کی تیار شدہ چادر سے اضطباع کیا ہوا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11339

۔ (۱۱۳۳۹)۔ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا جَعَلَتْ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بُرْدَۃً سَوْدَائَ مِنْ صُوفٍ، فَذَکَرَ سَوَادَہَا وَبَیَاضَہُ فَلَبِسَہَا، فَلَمَّا عَرِقَ وَجَدَ رِیحَ الصُّوفِ قَذَفَہَا، وَکَانَ یُحِبُّ الرِّیحَ الطَّیِّبَۃَ۔ (مسند احمد: ۲۵۵۱۷)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لئے اون کی سیاہ رنگ کی چادر بنائی، پھر انھوں نے اس چادر کی سیاہی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سفیدی کا ذکر کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ چادر پہن لی، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پسینہ آیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اون کیبو محسوس کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو اتار کر پھینک دیا، دراصل آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پاکیزہ اور اچھی خوشبو پسند کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11340

۔ (۱۱۳۴۰)۔ عَنْ أَبِی رِمْثَۃَ التَّمِیْمِیِّ، قَالَ: کُنْتُ مَعَ أَبِی، فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَوَجَدْنَاہُ جَالِسًا فِی ظِلِّ الْکَعْبَۃِ وَعَلَیْہِ بُرْدَانِ أَخْضَرَانِ۔ (مسند احمد: ۱۷۶۳۳)
سیدناابو رمثہ تمیمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اپنے والد کے ہمراہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا، ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کعبہ کے سائے میں بیٹھے دیکھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سبز رنگ کی دو دھاری دار چادریں زیب ِ تن کر رکھی تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11341

۔ (۱۱۳۴۱)۔ عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَیْسٍ، عَنْ أَبِیْہِ، قَالَ: قَالَ أَبِی: لَوْ شَہِدْتَّنَا وَنَحْنُ مَعَ نَبِیِّنَا ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا أَصَابَتْنَا السَّمَائُ، حَسِبْتَ أَنَّ رِیْحَنَا رِیْحُ الضَّأْنِ، إِنَّمَا لِبَاسُنَا الصُّوْفُ۔ (مسند احمد: ۱۹۹۹۶)
سیدنا عبداللہ بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: کاش کہ تم وہ منظر دیکھتے کہ جب ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ہوتے اور بارش ہونے لگتی، تو تم گمان کرتے کہ ہماری بو بھیڑوں والی بو ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا لباس اون کاہوتا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11342

۔ (۱۱۳۴۲)۔ عَنْ أَبِی عُمَرَ مَوْلٰی أَسْمَائَ، قَالَ: اَخْرَجَتْ اِلَیْنَا اَسْمَائُ جُبَّۃً مَزْرُوْرَۃً بِالدِّیْبَاجِ، فَقَالَتْ: فِیْ ھٰذِہِ کَانَ یَلْقٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْعَدُوَّ۔ (مسند احمد: ۲۷۴۸۳)
مولائے اسماء ابو عمر سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدہ اسمائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ہمارے سامنے ایک جبہ رکھا، جس میں ریشم کے بٹن تھے، انھوں نے کہا: یہ وہ جبہ ہے، جس میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دشمن سے بھی ملاقات کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11343

۔ (۱۱۳۴۳)۔ عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ، أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یُرٰی عَضَلَۃُ سَاقِہِ مِنْ تَحْتِ إِزَارِہِ إِذَا اتَّزَرَ۔ (مسند احمد: ۸۶۹۱)
سیدناابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چادر باندھتے تو چادر کے نیچے سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پنڈلی کا موٹا گوشت دکھائی دیا کرتا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11344

۔ (۱۱۳۴۴)۔ عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ قَالَ: دَخَلْتُ عَلٰی عَائِشَۃَ، فَأَخْرَجَتْ إِلَیْنَا إِزَارًا غَلِیظًا مِمَّا صُنِعَ بِالْیَمَنِ، وَکِسَائً مِنَ الَّتِییَدْعُونَ الْمُلَبَّدَۃَ، قَالَ بَہْزٌ: تَدْعُونَ، فَقَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُبِضَ فِی ہٰذَیْنِ الثَّوْبَیْنِ۔ (مسند احمد: ۲۵۵۱۱)
سیدنا ابو بردہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی خدمت میں گیا، انہوں نے ہمیںیمن میں تیار ہونے والی ایک موٹی سی چادر اور ایک ایسی چادر نکال کر دکھائی جسے تم لوگ مُلَبَّدَۃ کہتے ہو اور کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ دو چادریں زیب تن کئے ہوئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11345

۔ (۱۱۳۴۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَطَبَ النَّاسَ وَعَلَیْہِ عِصَابَۃٌ دَسِمَۃٌ1۔ (مسند احمد: ۲۰۷۴)
سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں سے خطاب کیا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیاہ رنگ کی پگڑی باندھی ہوئی تھی۔ ! رَسِمَۃٌ کا معروف معنی چکناہٹ والی ہے۔ ممکن ہے کہ تیل کے استعمال کی وجہ سے پگڑی کو تیل لگ گیا ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11346

۔ (۱۱۳۴۶)۔ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حُرَیْثٍ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَطَبَ النَّاسَ وَعَلَیْہِ عِمَامَۃٌ سَوْدَائُ۔ (مسند احمد: ۱۸۹۴۱)
سیدنا عمرو بن حریث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں سے خطاب کیا ، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کالے رنگ کی پگڑی باندھی ہوئی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11347

۔ (۱۱۳۴۷)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَخَلَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ وَعَلَیْہِ عِمَامَۃٌ سَوْدَائُ۔ (مسند احمد: ۱۴۹۶۶)
سیدناجابربن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فتح مکہ کے دن جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر پر سیاہ پگڑی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11348

۔ (۱۱۳۴۸)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: کَانَتْ نِعَالُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَھَا قِبَالَانِ۔ (مسند احمد: ۱۳۶۰۳)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جوتوں کے سامنے کی جانب دو دھاگے تھے، جن کے ساتھ وہ تسمہ باندھتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11349

۔ (۱۱۳۴۹)۔ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ الشِّخِّیْرِ، قَالَ: أَخْبَرَنِی أَعْرَابِیٌّ لَنَا قَالَ: رَأَیْتُ نَعْلَ نَبِیِّکُمْ مَخْصُوْفَۃً۔ (مسند احمد: ۲۰۳۱۷)
مطرف بن شخیرسے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:ایک بدّو نے ہمیں بتایا اور کہا: میں نے تمہارے نبی کا جوتا دیکھا ہے، جس کو مرمت کیا گیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11350

۔ (۱۱۳۵۰)۔ عَنْ قَتَادَۃَ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا أَرْکَبُ الْأُرْجُوَانَ وَلَا أَلْبَسُ الْمُعَصْفَرَ وَلَا أَلْبَسُ الْقَمِیصَ الْمُکَفَّفَ بِالْحَرِیرِ قَالَ وَأَوْمَأَ الْحَسَنُ إِلٰی جَیْبِقَمِیصِہِ وَقَالَ أَلَا وَطِیبُ الرِّجَالِ رِیحٌ لَا لَوْنَ لَہُ أَلَا وَطِیبُ النِّسَاء ِ لَوْنٌ لَا رِیحَ لَہُ۔)) (مسند احمد: ۲۰۲۱۷)
سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نہ سرخ رنگ کی ریشم کی چادر پر سوار ہوں گا، نہ عصفر بوٹی سے رنگا کپڑا پہنوں گا اور نہ ایسی قمیص پہنوں گا، جس کے گریبان اور آستینوں پر ریشم لگا ہوا ہو۔ ساتھ ہی حسن نے اپنی قمیص کے گریبان کیطرف اشارہ کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزید فرمایا: خبردار!مردوں کی خوشبو وہ ہے، جس کی مہک ہو لیکن اس میں رنگ نہ ہو اورعورتوں کی خوشبو وہ ہے، جس میں رنگ ہو اور خوشبو کی مہک نہ ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11351

۔ (۱۱۳۵۱)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: کُنْتُ اِذَا فَرَقْتُ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَاْسَہٗصَدَعْتُفَرْقَہُعَنْیَافُوْخِہِ، وَاَرْسَلْتُ نَاصِیَتَہُ بَیْنَ عَیْنَیْہِ۔ (مسند احمد: ۲۶۸۸۷)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بالوں کی مانگ نکالا کرتی تھی تو آپ کے سر کی چوٹی سے بالوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتی تھی اور پیشانی کے بال آپ کی آنکھوں کے درمیانیعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیشانی پر چھوڑ دیتی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11352

۔ (۱۱۳۵۲)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: ذُکِرَالْمِسْکُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((ھُوَ اَطْیَبُ الطِّیْبِ۔)) (مسند احمد: ۱۱۲۸۹)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس کستوری کا ذکر کیا گا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ سب سے عمدہ خوشبو ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11353

۔ (۱۱۳۵۳)۔ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُرْوَۃَ اَنَّہٗسَمِعَاَبَاہٗیَقُوْلُ: سَاَلْتُ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بِاَیِّ شَیْئٍ طَیَّبْتِ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَتْ: بِاَطْیَبِ الطِّیْبِ۔ (مسند احمد: ۲۴۶۰۶)
سیدنا عروہ کہتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے دریافت کیا کہ آپ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کونسی خوشبو لگاتی تھیں؟ انھوں نے کہا: سب سے عمدہ خوشبو لگاتی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11354

۔ (۱۱۳۵۴)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((حُبِّبَ اِلَیَّ مِنَ الدُّنْیَا النِّسَائُ وَالطِّیْبُ، وَجُعِلَ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلَاۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۲۳۱۸)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دنیا میں سے میرے نزدیک پسندیدہ چیزیں بیویاں اور خوشبو ہے اور نماز میں میری آنکھوں کی ٹھنڈک رکھ دی گئی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11355

۔ (۱۱۳۵۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَکْتَحِلُ بِالْاِثْمَدِ کُلَّ لَیْلَۃٍ قَبْلَ اَنْ یَنَامَ، وَکَانَ یَکْتَحِلُ فِیْ کُلِّ عَیْنٍ ثَلَاثَۃَ اَمْیَالٍ۔ (مسند احمد: ۳۳۲۰)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہر رات کو سونے سے پہلے اثمد سرمہ ڈالا کرتے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہر آنکھ میں تین سرمچو ڈالتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11356

۔ (۱۱۳۵۶)۔ عَنْ اَبِیْ رِمْثَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَخْضِبُ بِالْحِنَّائِ وَالْکَتَمِ، وَکَانَ شَعْرُہٗیَبْلُغُ کَتِفَیْہِ اَوْ مَنْکِبَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۷۶۳۶)
سیدنا ابو رمثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مہندی اور کتم بوئی کے ساتھ بال رنگتے تھے، آپ کے بال کندھوں تک پہنچتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11357

۔ (۱۱۳۵۷)۔ عَنْ اَنَسٍ قَالَ: سَدَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَاصِیَتَہٗ مَا شَائَ اللّٰہُ اَنْ یَسْدُلُھَا ثُمَّ فَرَقَ بَعْدُ۔ (مسند احمد: ۱۳۲۸۷)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب تک چاہا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے بالوں کو سیدھا چھوڑے رکھا، پھر مانگ نکالنا شروع کر دی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11358

۔ (۱۱۳۵۸)۔ عَنْ عَلْقَمَۃَ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا : أَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یَخُصُّ شَیْئًا مِنَ الْأَیَّامِیَعْنِی بِالْعِبَادَۃِ؟ قَالَتْ: کَانَ عَمُلُہُ دِیْمَۃً، وَأَیُّکُمْ کَانَ یُطِیْقُ مَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُطِیْقُ۔ (مسند احمد: ۲۶۰۷۷)
علقمہ سے مروی ہے کہ انہوں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے دریافت کیا کہ آیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عبادت کے لیے ایام مخصوص فرمایا کرتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عبادات کے لیے ایام مخصوص یا متعین نہیں کیا کرتے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اعمال دائمی ہوتے تھے۔ عمل کرنے کے لیے جس قدر استطاعت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رکھتے تھے تم میں سے کون اتنی استطاعت رکھتا ہے؟
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11359

۔ (۱۱۳۵۹)۔ عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفٰی، عَنْ سَعْدِ بْنِ ہِشَامٍ، أَنَّہُ أَتَی ابْنَ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَسَأَلَہُ عَنِ الْوِتْرِ، فَقَالَ: أَلَا أُنَبِّئُکَ بَأَعْلَمِ أَھْلِ الْأَرْضِ بِوِتْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ائْتِ عَائِشَۃَ، فَسْأَلْھَا ثُمَّ ارْجِعْ إِلَیَّ، فَأَخْبِرْنِی بِرَدِّھَا عَلَیْکَ، قَالَ: فَأَتَیْتُ عَلٰی حَکِیْمِ بْنِ أَفْلَحَ فَاسْتَلْحَقْتُہُ إِلَیْہَا، فَقَالَ: مَا أَنَا بِقَارِبِہَا، إِنِّی نَہَیْتُہَا أَنْ تَقُوْلَ فِی ھَاتَیْنِ الشِّیْعَتَیْنِ شَیْئًا فَأَبَتْ فِیْہِمَا إِلَّا مُضِیًّا، فَأَقْسَمْتُ عَلَیْہِ فَجَائَ مَعِی، فَدَخَلْنَا عَلَیْہَا، فَقَالَتْ: حَکِیْمٌ، وَعَرَفَتْہُ، قَالَ: نَعَمْ أَوْ بَلٰی، قَالَتْ: مَنْ ھٰذَا مَعَکَ؟ قَالَ: سَعْدُ بْنُ ہِشَّامٍ، قَالَتْ: مَنْ ہِشَامٌ؟ قَالَ: ابْنُ عَامِرٍ، قَالَ: فَتَرَحْمَتْ عَلَیْہِ وَقَالَتْ: نِعْمَ الْمَرْئُ کَانَ عَامِرٌ، قُلْتُ: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ! أَنْبِئِیْنِی عَنْ خُلُقِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ قُلْتُ: بَلٰی، قَالَتْ: فَإِنَّ خُلُقَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ الْقُرْآنَ، فَہَمَمْتُ أَنْ أَقُوْمَ فَبَدَا لِی قِیَامُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قُلْتُ: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ! أَنْبِئِیْنِی عَنْ قِیَامِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ ھٰذِہِ السُّورَۃَ {یَا أَیُّہَاالْمُزَّمِّلُ؟} قُلْتُ: بَلٰی، قَالَتْ: فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ افْتَرَضَ قِیَامَ اللَّیْلِ فِی أَوَّلِ ھٰذِہِ السُّورَۃِ، فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابُہُ حَوْلًا، حَتَّی انْتَفَخَتْ أَقْدَامُہُمْ، وَأَمْسَکَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ خَاتِمَتَہَا فِی السَّمَائِ اثْنَیْ عَشَرَ شَہْرًا، ثُمَّ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ التَّخْفِیْفَ فِی آخِرِ ھٰذِہِ السُّوْرَۃِ، فَصَارَ قِیْامُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَطَوُّعًا مِنْ بَعْدِ فَرِیْضَۃٍ، فَہَمَمْتُ أَنْ أَقُوْمَ ثُمَّ بَدَا لِی وِتْرُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُلْتُ: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ! أَنْبِئِیْنِی عَنْ وِتْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَتْ: کُنَّا نُعِدُّ لَہُ سِوَاکَہُ وَطُہُوْرَہُ، فَیَبْعَثُہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لِمَا شَائَ أَنْ یَبْعَثَہُ مِنَ اللَّیْلِ فَیَتَسَوَّکُ، ثُمَّ یَتَوَضَّأُ، ثُمَّ یُصَلِّی ثَمَانِیَ رَکْعَاتٍ لَا یَجْلِسُ فِیْہِنَّ إِلَّا عِنْدَ الثَّامِنَۃِ، فَیَجْلِسُ وَیَذْکُرُ رَبَّہُ عَزَّوَجَلَّ وَیَدْعُو وَیَسْتَغْفِرُ، ثُمَّیَنْہَضُ وَلَا یُسَلِّمُ، ثُمَّ یُصَلِّی التَّاسِعَۃَ فَیَقْعُدُ فَیَحْمَدُ رَبَّہُ وَیَذْکُرُہُ وَیَدْعُو، ثُمَّ یُسَلَِّمُ تَسْلِیْمًایُسْمِعُنَا، ثُمَّ یُصَلِّی رَکْعَتَیْنِ وَھُوَ جَالِسٌ بَعْدَ مَا یُسَلِّمُ، فَتِلْکَ إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃًیَابُنَیَّ، فَلَمَّا أَسَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَخَذَ اللَّحْمَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ، ثُمَّ صَلَّی رَکْعَتَیْنِ وَھُوَ جَالِسٌ بَعْدَ مَا یُسَلِّمُ، فَتِلْکَ تِسْعٌ یَا بُنَیَّ، وَکَانَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا صَلَّی صَلَاۃً أَحَبَّ أَنْ یُدَاوِمَ عَلَیْہَا، وَکَانَ إِذَا شَغَلَ عَنْ قِیَامِ اللَّیْلِ بِنَوْمٍ أَوْ وَجْعٍ أَوْ مَرَضٍ صَلَّی مِنَ النَّہَارِ اثْنَتَیْ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً، وَلَا أَعْلَمُ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَرَأَ الْقُرْآنَ کُلَّہُ فِی لَیْلَۃٍ، وَلَا قَامَ لَیْلَۃً حَتّٰی أَصْبَحَ، وَلَا صَامَ شَہْرًا کَامِلًا غَیْرَ رَمَضَانَ۔ فَأَتَیْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَحَدَّثْتُہُ بِحَدِیْثِہَا فَقَالَ: صَدَقَتْ، أَمَا لَوْ کُنْتُ أَدْخُلُ عَلَیْہَا لَأَتَیْتُہَا حَتّٰی تُشَافِہَنِی مُشَافَہَۃً۔ (مسند احمد: ۲۴۷۷۳)
زرارہ بن اوفی سعد بن ہشام سے روایت کرتے ہیں کہ وہ سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں گئے اور ان سے وتر کے متعلق سوالات کیے۔ انہوں نے جواب دیا:کیا میں تجھے یہ نہ بتلائوں کہ روئے زمین پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے وتروںکے متعلق سب سے زیادہ علم کسے ہے؟سعد نے کہا: جی بتایئے۔ عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس جا کر ان سے دریافت کرو۔ پھر واپس آکر مجھے بھی ان کے جواب سے مطلع کرنا۔ ابن ہشام کہتے ہیں: ان کی بات سن کر میں حکیم بن افلح کے ہاں گیا اور ان کو بھی اپنے ساتھ ام المؤمنین کے ہاں لے جانا چاہا تو انہوں نے کہا کہ میں ان کے ہاں نہیں جائوں گا۔ میں نے انہیں ان (سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے مابین ہونے والی جنگ جمل کے) دوگروہوں کے متعلق کسی قسم کی بات کرنے سے منع کیا تھا لیکن انہوںنے میری بات نہیں مانی، بلکہ وہ خود سیاست میں نکل آئیں۔ ابن ہشام کہتے ہیں: لیکن جب میں نے ان کو قسم دی تو وہ میرے ساتھ چلے آئے، ہم ان کے ہاں گئے۔ انہوں نے حکیم کو پہچان کر پوچھا: حکیم ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ انہوںنے پوچھا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ حکیم نے جواب دیا: یہ سعد بن ہشام ہے۔ انہوں نے پوچھا: ہشام کون؟ حکیم نے بتایا کہ عامر کا بیٹاتو انہوںنے عامر کے حق میں رحمت کی دعا کی اور کہا: عامر بہت اچھا آدمی تھا۔ میں نے (حکیم نے) عرض کی:ام المؤمنین! آپ مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اخلاق سے آگاہ فرمائیں۔ انہوںنے کہا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے عرض کی: جی ہاں۔ کہنے لگیں: قرآن ہی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا اخلاق ہے۔ یہ سن کر میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قیام اللیل کی بات یاد آگئی۔ میں نے عرض کی: اے ام المؤمنین! آپ مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قیام اللیل کے متعلق آگاہ فرمائیں۔ انہوں نے کہا: کیا تم سورۂ مزمل نہیں پڑھتے؟ میں نے عرض کی: جی ہاں پڑھتا ہوں۔ کہنے لگیں:اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے شروع والے حصے میں قیام اللیل فرض کیا تھا،۔ اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اصحاب ایک سال تک اس قدر طویل قیام کرتے رہے کہ ان کے پائوں سوج جاتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخری حصہ کو بارہ ماہ تک آسمانوں پر رو کے رکھا۔پھر اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخر میں اس حکم کی تخفیف نازل فرمائی۔ قیام اللیل جو پہلے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر فرض تھا، اس کے بعد وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے نفل قرار پایا۔ اس کے بعد میں نے پھر اٹھنے کا ارادہ کیا تو مجھے یاد آیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے وتر کے بارے میں تو پوچھ لوں۔ میں نے عرض کی: ام المؤمنین! مجھے رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کینماز وتر کے متعلق بھی آگاہ فرما دیں۔ انہوں نے کہا: ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے مسواک اور وضو کا پانی تیار کر کے رکھ دیتے، اللہ تعالیٰ کو جب منظور ہوتا وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو رات کے کسی حصہ میں بیدار کر دیتا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسواک کرتے، پھر وضو کرتے، پھر مسلسل آٹھ رکعات یوں پڑھتے کہ آٹھویں میں (تشہد کے لیے) بیٹھ جاتے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے دعائیں اور استغفار کرتے،پھر سلام نہ پھیرتے اور کھڑے ہو کر نویں رکعت ادا کرتے۔ پھر بیٹھ کر (آخری تشہد میں) اللہ کی حمد اور اس کا ذکر کرتے اور دعائیں کرتے۔ پھر اس قدر مناسب آواز سے سلام پھیرتے کہ ہمیں سلام کی آواز سنائی دے جاتی۔ پھر اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں ادا کرتے۔ بیٹے! اس طرح کل گیارہ رکعات ہوتیں۔ لیکن جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا وزن بڑھ گیا (اور عمر زیادہ ہونے لگی) تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سات وتر ادا کرتے اور سلام کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعات ادا فرماتے۔ بیٹے! یہ اس طرح نو رکعات ہو گئیں۔ اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا معمول تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب کبھی کسی وقت میں نماز ادا فرماتے تو اس وقت میں نماز ادا کرنے پر دوام فرماتے۔ اور کبھی نیندیا خرابی طبع یا بیماری کی وجہ سے قیام اللیل نہ کر سکتے تو دن کے وقت بارہ رکعات ادا فرماتے۔ میرے علم میں ایسا کوئی واقعہ نہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک رات میں سارا قرآن پڑھا ہو یا صبح تک قیام کیا ہو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ماہ رمضان کے علاوہ کبھی بھی پورا مہینہ مسلسل روزے نہیں رکھے۔ میں نے عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں جا کر ام المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی حدیث ان کو سنائی توکہنے لگے: انہوںنے بالکل درست بیان کیاہے۔ اگر میں ان کے ہاں جاتا ہوتا تو میں خودان کی خدمت میں حاضر ہوتا تاکہ وہ براہ راست مجھے بیان فرمائیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11360

۔ (۱۱۳۶۰)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا : أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ إِذَا صَلَّی الْعِشَائَ دَخَلَ الْمَنْزِلَ، ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ صَلّٰی بَعْدَھُمَا رَکْعَتَیْنِ أَطْوَلَ مِنْہُمَا، ثُمَّ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ لَا یَفْصِلُ فِیْہِنَّ، ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ وَھُوَ جَالِسٌ، یَرْکَعُ وَھُوَ جَالِسٌ، وَیَسْجُدُ وَھُوَ قَاعِدٌ جَالِسٌ۔ (مسند احمد: ۲۵۷۳۸)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز عشاء ادا کرنے کے بعد گھر تشریف لاتے تو دو رکعتیں ادا فرماتے، پھر ان سے زیادہ طویل دو رکعتیں ادا فرماتے، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تین وتر ادا کرتے اور ان میں کوئی فاصلہ نہیں کرتے تھے، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیٹھ کر دو رکعتیں ادا فرماتے اور ان کے رکوع و سجود بھی بیٹھ کر ہی ادا کر لیتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11361

۔ (۱۱۳۶۱)۔ عَنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا عَنْ صَلَاۃِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِاللَّیْلِ، فَقَالَتْ: یَنَامُ أَوَّلَہُ وَیَقُوْمُ آخِرَہُ، وَفِی رِوَایَۃٍ: کَانَ یَنَامُ أَوَّلَ اللَّیْلِ وَیُحْیِیْ آخِرَہُ۔ (مسند احمد: ۲۴۸۴۶)
اسود کہتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رات کی نماز کی بابت دریافت کیا، انہوں نے بتایا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رات کے ابتدائی حصہ میں سو جاتے اور آخری حصہ میں قیام فرمایا کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11362

۔ (۱۱۳۶۲)۔ عَنْ یَعْلَی بْنِ مَمْلَکٍ: أَنَّہُ سَأَلَ أُمَّ سَلَمَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ صَلَاۃِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِاللَّیْلِ، قَالَتْ: کَانَ یُصَلِّی الْعِشَائَ الْآخِرَۃَ ثُمَّ یُسَبِّحُ، ثُمَّ یُصَلِّی بَعْدَھَا مَا شَائَ اللّٰہُ مِنَ اللَّیْلِ، ثُمَّ یَنْصَرِفُ فَیَرْقُدُ مِثْلَ مَا صَلّٰی، ثُمَّ یَسْتَیْقِظُ مِنْ نَوْمَتِہِ تِلْکَ فَیُصَلِّی مِثْلَ مَا نَامَ، وَصَلَاتُہُ الْآخِرَۃُ تَکُوْنُ إِلَی الصُّبْحِ۔ (مسند احمد: ۲۷۰۸۲)
یعلی بن مملک سے مروی ہے کہ انہوں زوجۂ رسول سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رات کی نماز کے بارے میں دریافت کیا: انہوں نے جواب دیا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد نوافل ادا فرماتے، اس کے بعد رات کو جس قدر اللہ توفیق دیتا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز ادا فرماتے۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جائے نماز سے ہٹ کرتقریباً اتنی دیر سو جاتے جتنی دیر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قیام کیا ہوتا۔ پھر نیند سے بیدار ہو کر اتنی ہی دیر پھر قیام کرتے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نماز کا یہ سلسلہ صبح تک جاری رہتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11363

۔ (۱۱۳۶۳)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا : أَکَانَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُصَلِّی صَلَاۃَ الضُّحٰی؟ قَالَتْ: لَا، إِلَّا أَنْ یَجِیْئَ مِنْ مَغِیْبَۃٍ، قَالَ: قُلْتُ: أَکَانَ یُصَلِّی جَالِسًا؟ قَالَتْ: بَعْدَ مَا حَطَمَہُ النَّاسُ، قَالَ: قُلْتُ: أَکَانَ یَقْرَأُ السُّوْرَۃَ؟ فَقَالَتْ: الْمُفَصَّلَ، قَالَ: قُلْتُ: أَکَانَ یَصُوْمُ شَہْرًا کُلَّہُ؟ قَالَتْ: مَا عَلِمْتُہُ صَامَ شَھْرًا کُلَّہُ إِلَّا رَمَضَانَ، وَلَا أَعْلَمُہُ أَفْطَرَ شَہْرًا کُلَّہُ حَتّٰییُصِیْبَ مِنْہُ حَتّٰی مَضٰی لِوَجْھِہِ، قَالَ یَزِیْدُ: یَقْرِنُ، وَکَذٰلِکَ قَالَ أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ۔ (مسند احمد: ۲۵۸۹۹)
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے سوال کیا: کیا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چاشت کی نماز ادا کیا کرتے تھے؟ انہوںنے کہا: نہیں،ہاں جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سفر سے واپس تشریف لاتے تو پڑھ لیتے۔ میں نے پوچھا: کیانبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیٹھ کر نماز ادا کیا کرتے تھے؟ انھوں نے کہا: جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زیادہ عمر والے ہوگئے تو بیٹھ کر نماز ادا کیا کرتے تھے۔ میں نے پوچھا: کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سورتوں کوملا کر پڑھا کرتے تھے؟ انہوںنے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مفصل سورتیں پڑھاکرتے تھے۔ میں نے سوال کیا: آیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پورا مہینہ بھی روزے رکھاکرتے تھے؟ انہوںنے کہا: میرے علم کے مطابق آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ماہ رمضان کے علاوہ کبھی بھی پورا مہینہ روزے نہیں رکھے اور میرے علم کے مطابق آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کبھی بھی پورا مہینہ روزوں کا ناغہ بھی نہیں کیا۔وفات تک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا یہ معمول رہا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہر ماہ کچھ نہ کچھ روزے ضروررکھا کرتے تھے۔ یزید کی روایت میں یقرأ کی بجائے یقرن کا لفظ ہے۔ (یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مفصل سورتیں ملا کر پڑھا کرتے تھے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11364

۔ (۱۱۳۶۴)۔ عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَصُوْمُ الْأَیَّامَیَسْرُدُ حَتّٰییُقَالَ: لَا یُفْطِرُ، وَیُفْطِرُ الْأَیَّامَ حَتّٰی لَا یَکَادُ أَنْ یَّصُوْمَ، إِلاَّ یَوْمَیْنِ مِنَ الْجُمُعَۃِ، إِنْ کَانَا فِیْ صِیَامِہِ وَإِلَّا صَامَہُمَا، وَلَمْ یَکُنْیَصُوْمُ مِنْ شَہْرٍ مِنَ الشُّہُوْرِ مَا یَصُوْمُ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّکَ تَصُوْمُ لَا تَکَادُ أَنْ تُفْطِرَ، وَ تُفْطِرُ حَتّٰی لاَ تَکَادُ أَنْ تَصُوْمَ، إِلَّا یَوْمَیْنِ إِنْ دَخَلَا فِی صِیَامِکَ وَإِلَّا صُمْتَہُمَا، قَالَ: ((أَیُّیَوْمَیْنِ؟)) قَالَ: قُلْتُ: یَوْمُ الْاِثْنَیْنِ وَ یَوْمُ الْخَمِیْسِ، قَالَ: ((ذَانِکَ یَوْمَانِ تُعْرَضُ فِیْہِمَا الْأَعْمَالُ عَلٰی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، وَأَحَبُّ أَنْ یُعْرَضَ عَمَلِی وَأَنَا صَائِمٌ۔)) قَالَ: قُلْتُ: وَلَمْ أَرَکَ تَصُوْمُ مِنْ شَہْرٍ مِنَ الشُّہُوْرِ مَا تَصُوْمُ مِنْ شَعْبَانَ، قَالَ: ((ذَاکَ شَہْرٌ یَغْفُلُ النَّاسُ عَنْہُ بَیْنَ رَجَبٍ وَ رَمَضَانَ، وَھُوَ شَہْرٌ یُرْفَعُ فِیْہِ الْأَعْمَالُ إِلٰی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، فَأُحِبُّ أَنْ یُرْفَعَ عَمَلِی وَأَنَا صَائِمٌ۔)) (مسند احمد: ۲۲۰۹۶)
سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کئی کئی دن تک مسلسل روزے رکھتے یہاں تک کہ کہاجاتا کہ لگتا ہے کہ اب آپ ناغہ نہیں کریں گے، لیکن کبھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم طویل عرصہ تک ہفتہ کے دو دنوں کے سوا کوئی روزہ نہ رکھتے اور آپ جس قدر نفلی روزے ماہ شعبان میں رکھتے اتنے روزے دوسرے کسی مہینہ میں نہیں رکھتے تھے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ روزے رکھنے لگتے ہیں تو چھوڑتے ہی نہیں اور اگر ترک کرنے لگتے ہیں تو ہفتہ میں دو دنوں کے سوا روزے رکھتے ہی نہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کون سے دو دن ؟ میں نے عرض کیا: سوموار اور جمعرات کا دن۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان دو دنوں میںانسانوں کے اعمال اللہ رب العالمین کے حضور پیش کیے جاتے ہیں اور مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرے اعمال اللہ کے سامنے جب پیش کیے جائیں تو میں روزے کی حالت میں ہوں۔ میں نے دریافت کیا کہ آپ جتنے نفلی روزے ماہ شعبان میں رکھتے ہیںاتنے روزے دوسرے کسی اور مہینے میں نہیں رکھتے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رجب اور رمضان کے درمیان والا یعنی شعبان ایسا مہینہ ہے کہ لوگ اس سے غفلت برتتے ہیں، جبکہ اس مہینے میں اعمال اللہ رب العالمین کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں اور میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال اللہ کے حضور اس حال میں پیش کیے جائیں تو میں روزے سے ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11365

۔ (۱۱۳۶۵)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا عَنْ صَوْمِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَتْ: مَا عَلِمْتُہُ صَامَ شَہْرًا حَتّٰییُفْطِرَمِنْہُ، وَلَا أَفْطَرَہُ حَتّٰییَصُوْمَ مِنْہُ حَتّٰی مَضٰی لِسَبِیْلِہِ۔ (مسند احمد: ۲۴۸۳۸)
عبداللہ بن شقیق سے مروی ہے کہ انہوں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے روزوں کی بابت دریافت کیا،انہوں نے کہا: میرے علم کے مطابق رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جس مہینے بھی (نفلی) روزے رکھے اس میں سے کچھ دن ناغہ بھی کیا اور جس مہینے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے روزوں کا ناغہ کیا، اس میں کچھ نہ کچھ روزے بھی ضرور رکھے ہیں، وفات تک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا یہی معمول رہا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11366

۔ (۱۱۳۶۶)۔ عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہِ وَصَحْبِہِ وَسَلَّم یَصُوْمُ حَتّٰی نَقُوْلَ مَا یُرِیْدُ اَنْ یُفْطِرَ، وَیُفْطِرُحَتّٰی نَقُوْلَ مَا یُرِیْدُ اَنْ یَصُوْمَ، وَکَانَ یَقْرَئُ کُلَّ لَیْلَۃٍ بَنِی إِسْرَائِیْلَ وَالزُّمَرَ۔ (مسند احمد: ۲۵۴۲۰)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بعض اوقات تو اس قدرکثرت سے روزے رکھتے کہ ہم کہنے لگتے کہ اب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم روزے نہیں چھوڑیں گے، لیکن پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اتنے لمبے عرصے کے لیے روزے چھوڑ دیتے کہ ہمیں یہ خیال آنے لگتا کہ اب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم روزے نہیں رکھیں گے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہر رات کو سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ زمر کی تلاوت کیا کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11367

۔ (۱۱۳۶۷)۔ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: تَمَتَّعَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ وَأَہْدٰی فَسَاقَ مَعَہُ الْہَدْیَ مِنْ ذِی الْحُلَیْفَۃَ، وَبَدَأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَہَلَّ بِالْعُمْرَۃِ، ثُمَّ أَہَلَّ بِالْحَجِّ وَتَمَتَّعَ النَّاسُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ، فَإِنَّ مِنَ النَّاسِ مَنْ أَہْدٰی فَسَاقَ الْہَدْیَ وَمِنْہُمْ مَنْ لَمْ یُہْدِ، فَلَمَّا قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لِلنَّاسِ: ((مَنْ کَانَ مِنْکُمْ أَہْدٰی فَإِنَّہُ لَا یَحِلُّ مِنْ شَیْئٍ حَرُمَ مِنْہُ حَتّٰییَقْضِیَ حَجَّہ، وَمَنْ لَمْ یَکُنْ مِنْکُمْ أَہْدٰی فَلْیَطُفْ بِالْبَیْتِ وَبالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ وَلْیُقَصِّرْ وَلْیَحْلِلْ، ثُمَّ لِیُہِلَّ بِالْحَجِّ وَلْیُہْدِ، فَمَنْ لَمْ یَجِدْ ہَدْیًا فَلْیَصُمْ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ فِیْ الْحَجِّ وَسَبْعَۃً إِذَا رَجَعَ إِلٰی أَہْلِہِ۔)) وَطَافَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِیْنَ قَدِمَ مَکَّۃَ اسْتَلَمَ الرُّکْنَ أَوَّلَ شَیْئٍ ثُمَّ خَبَّ ثَلَاثَۃَ أَطْوَافٍ مِنَ السَّبْعِ وَمَشٰی أَرْبَعَۃَ أَطْوَافٍ، ثُمَّ رَکَعَ حِیْنَ قَضٰی طَوَافَہُ بِالْبَیْتِ عِنْدَ الْمَقَامِ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ سَلَّمَ فَانْصَرَفَ، فَأَتَی الصَّفَا فَطَافَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ ثُمَّ لَمْ یَحْلِلْ مِنْ شَیْئٍ حَرُمَ مِنْہُ حَتّٰی قَضٰی حَجَّہُ وَنَحَرَ ہَدْیَہُیَوْمَ النَّحْرِ وَأَفَاضَ فَطَافَ بِالْبَیْتِ ثُمَّ حَلَّ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ حَرُمَ مِنْہُ، وَفَعَلَ مِثْلَ مَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَنْ أَہْدٰی وَسَاقَ الْہَدْیَ مِنَ النَّاسِ۔ (مسند احمد: ۶۲۴۷)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر حج کے ساتھ عمرہ کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذوالحلیفہ سے قربانی کا جانور ہمراہ لے گئے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے احرام کے دوران پہلے عمرہ اور پھر حج کا تلبیہ پڑھا اور لوگوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں حج کے ساتھ عمرہ بھی کیا، کچھ لوگ تو قربانی کا جانور ہمراہ لے گئے تھے، لیکن کچھ لوگوں کے پاس قربانی کے جانور نہیں تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مکہ مکرمہ پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں سے فرمایا: جن کے ساتھ قربانی کا جانور ہے، ان پر احرام کی وجہ سے جو حلال چیز حرام ہو چکی ہے، وہ حج پورا ہونے تک حلال نہیں ہو گی، لیکن جن کے ہمراہ قربانی کا جانور نہیں ہے، وہ بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کے بعد بال کٹوا کر احرام کھول دیں، پھر وہ حج کے لیے علیحدہ احرام باندھیں گے اور قربانی کریں گے، جو آدمی قربانی کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ تین روزے حج کے ایام میںاور سات روزے گھر جا کر رکھے گا۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مکہ مکرمہ آئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیت اللہ کا طواف کیا، سب سے پہلے حجر اسود کا بوسہ لیا، اس کے بعد بیت اللہ کے گرد سات چکروں میں سے پہلے تین میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رمل کیا اور باقی چار میں عام رفتار سے چلے، طواف مکمل کرنے کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مقام ابراہیم کے قریب دو رکعتیں ادا کی اور جب سلام پھیر کر فارغ ہوئے تو صفا پر تشریف لے گئے، اور صفا مروہ کی سعی کی اور حج سے فارغ ہونے تک احرام کی وجہ سے حرام ہونے والی کوئی چیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر حلال نہ ہوئی، دس ذوالحجہ کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قربانی کی اور بیت اللہ کا طواف کیا، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر احرام کی وجہ سے حرام ہونے والی ہر چیز حلال ہو گئی،جو لوگ قربانی کے جانور اپنے ساتھ لائے تھے، انھوں نے بھی اسی طرح کے اعمال سرانجام دیئے، جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ادا کیے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11368

۔ (۱۱۳۶۸)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم طَافَ بِالْبَیْتِ وَھُوَ عَلٰی بَعِیْرِہِ، وَاسْتَلَمَ الْحَجَرَ بِمِحْجَنٍ کَانَ مَعَہُ، قَالَ: وَأَتَی السِّقَایَۃَ فَقَالَ: ((اسْقُوْنِیْ۔)) فَقَالُوْا: إِنَّ ھٰذَا یَخُوْضُہُ النَّاسُ وَلٰکِنَّا نَأْتِیْکَ بِہِ مِنَ الْبَیْتِ، فَقَالَ: ((لَا حَاجَۃَ لِیْ فِیْہِ، اِسْقُوْنِیْ مِمَّا یَشْرَبُ مِنْہُ النَّاسُ۔)) (مسند احمد: ۱۸۴۱)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے اونٹ پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا اور اپنی چھڑی کے ساتھ حجر اسود کا استلام کیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں تشریف لائے، جہاں زمزم کا پانی پلایا جا رہا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے بھی پلائو۔ انہوں نے کہا: اس پانی کو تو لوگ متأثر کرتے رہتے ہیں، ہم آپ کے لیے گھر سے (صاف) پانی لے آتے ہیں، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کی ضرورت نہیںہے، جہاں سے لوگ پی رہے ہیں، وہیں سے مجھے بھی پلا دیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11369

۔ (۱۱۳۶۹)۔ عَنْ مَسْرُوْقٍ، عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، قَالَتْ: أَقْبَلَتْ فَاطِمَۃُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، تَمْشِی کَأَنَّ مَشْیَتَہَا مَشْیَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ: ((مَرْحَباً بِاِبْنَتِی۔)) ثُمَّ أَجْلَسَہَا عَنْ یَمِیْنِہِ أَوْ عَنْ شِمَالِہِ، ثُمَّ إِنَّہُ أَسَرَّ اِلَیْہَا حَدِیْثًا فَبَکَتْ، فَقُلْتُ لَھَا: اسْتَخَصَّکِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِحَدِیْثِہِ ثُمَّ تَبْکِیْنَ؟ ثُمَّ إِنَّہُ أَسَرَّ اِلَیْہَا حَدِیْثاً فَضَحِکَتْ، فَقُلْتُ: مَارَأَیْتُ کَالْیَوْمِ فَرَحاً أَقْرَبَ مِنْ حُزْنٍ، فَسَأَلْتُہَا عَمَّا قَالَ، فَقَالَتْ: مَا کُنْتُ لَأُفْشِیَ سِرَّ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، حَتّٰی إِذَا قُبِضَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَأَلْتُہَا، فَقَالَتْ: إِنَّہُ أَسَرَّ اِلَیَّ فَقَالَ: ((إِنَّ جِبْرِیْلَ علیہ السلام کَانَ یُعَارِضُنِی بِالْقُرْآنِ فِی کُلِّ عَامٍ مَرَّۃً، وَإِنَّہُ عَارَضَنِی بِہِ الْعَامَ مَرَّتَیْنِ، وَلَا أُرَاہُ إِلَّا قَدْ حَضَرَ أَجَلِی، وَإِنَّکِ أَوَّلُ أَھْلِ بَیْتِیْ لُحُوْقًا بِی، وَنِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَکِ۔)) فَبَکَیْتُ لِذٰلِکِ، ثُمَّ قَالَ: ((أََلاَ تَرْضَیْنَ أَنْ تَکُوْنِی سَیِّدَۃَ نِسَائِ ھَذِہِ الأُمَّۃِ أَوْنِسَائِ الْمُؤُمِنِیْنَ؟)) قَالَتْ: فَضَحِکْتُ لِذٰلِکِ۔ (مسند احمد: ۲۶۹۴۵)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اس طرح چلتی ہوئی تشریف لائیں، گویا ان کی چال رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چال جیسی تھی،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پیاری بیٹی کو خوش آمدید۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو اپنی داہنییا بائیں جانب بٹھا لیااور ان سے راز دار انہ طور پر کوئی بات کی تو وہ رونے لگیں۔ (سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ) میں نے ان سے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو آپ کے ساتھ بطور خاص بات کی اور تم رونے لگ گئیں؟ اس کے بعد پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے راز دارانہ طور پر کوئی بات کی تو وہ مسکرا دیں۔ میں نے کہا کہ میں نے آج تک غم اور خوشی کو اس قدر اکٹھا کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آپ سے کیا بات کہی ہے؟ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا:میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے راز کو فاش نہیں کروں گی،یہاں تک کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہو گیا تو میں نے دوبارہ اس کی بابت ان سے دریافت کیا تو اب کی بار انھوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے چپکے سے کہا: جبریل علیہ السلام ہر سال میرے ساتھ قرآن مجید کا دور ایک بار کیا کرتے تھے، لیکن اس سال قرآن مجید کا دور دو بار کیا ہے، میرا خیال ہے کہ میری وفات کا وقت قریب آچکا ہے اور میرے اہل بیت میں سے تم ہی سب سے پہلے مجھ سے آملو گی، میں تمہارے لیے بہترین پیش رو ہوں۔ یہ سن کر میں رونے لگی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تم (آخرت میں ) اس امت یا اہل ایمان کی خواتین کی سردار بنو؟ یہ بات سن کر میں مسکرادی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11370

۔ (۱۱۳۷۰)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: لَمْ یَکُنْ أَحَدٌ اَشْبَہَ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ وَفَاطِمَۃَ صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ۔ (مسند احمد: ۱۲۷۰۳)
سیدناانس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں میں سے سیدنا حسن بن علی اور سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے بڑھ کر کوئی بھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مشابہ نہیں تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11371

۔ (۱۱۳۷۱)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ، أَنَّ عَلِیًّا ذَکَرَ ابْنَۃَ أَبِی جَہْلٍ، فَبَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ: ((إِنَّمَا فَاطِمَۃُ بَضْعَۃٌ مِنِّی،یُؤْذِیْنِی مَا آذَاھَا وَیُنْصِبُنِی مَا أَنْصَبَہَا۔)) (مسند احمد: ۱۶۲۲۲)
سیدنا عبداللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کی باتیں کیں، جب یہ خبر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس بات سے اسے دکھ پہنچتا ہے، مجھے بھی اس سے دکھ پہنچتا ہے اور جو بات اسے غمگین کرتی ہے، مجھے بھی اس بات سے رنج ہوتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11372

۔ (۱۱۳۷۲)۔ عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ: أَنَّ الْمِسْوَرَبْنَ مَخْرَمَۃَ أَخْبَرَہُ، أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ خَطَبَ ابْنَۃَ أَبِی جَہْلٍ وَعِنْدَہُ فَاطِمَۃُ ابْنَۃُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَلَمَّا سَمِعَتْ بِذٰلِکَ فَاطِمَۃُ أَتَتِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ لَہُ: اِنَّ قَوْمَکَ یَتَحَدَّثُوْنَ أَنَّکَ لَا تَغْضَبُ لِبَنَاتِکَ، وَھٰذَا عَلِیٌّ نَاکِحٌ ابْنَۃَ أَبِی جَہْلٍ، قَالَ الْمِسْوَرُ: فَقَامَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَمِعْتُہُ حِیْنَ تَشَہَّدَ، ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ! فَاِنِّی أَنْکَحْتُ أَبَا الْعَاصِ بْنَ الرَّبِیْعِ فَحَدَّثَنِی فَصَدَقَنِی، وَإِنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ بَضْعَۃٌ مِنِّی وَأَنَا أَکْرَہُ أَنْ یَفْتِنُوْھَا، وَاِنَّہَا وَاللّٰہِ لَا تَجْتَمِعُ ابْنَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَابْنَۃُ عَدُوِّ اللّٰہِ عِنْدَ رَجُلٍ وَاحِدٍ أَبَدًا۔)) قَالَ: فَتَرَکَ عَلِیٌّ الْخِطْبَۃَ۔ (مسند احمد: ۱۹۱۱۹)
علی بن حسین بن علی بن ابی طالب سے مروی ہے کہ سیدنا مسور بن مخرمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو بتلایا کہ سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ابو جہل کی بیٹی کو نکاح کا پیغام بھجوایا، جبکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دختر سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ان کی زوجیت میں تھیں، جب سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے یہ بات سنی تو انہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں آکر عرض کی کہ آپ کی قوم باتیں بنائے گی کہ آپ اپنی بیٹیوں کے حق میں کسی کے ساتھ غصہ نہیں کرتے ،اب دیکھیں ناںکہ یہ علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرنے کی تیاریوں میں ہیں۔یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خطبۂ شہادت پڑھا اور پھر فرمایا: میں نے اپنی ایک بیٹی کا نکاح ابو العاص بن ربیع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کیا، پس اس نے میرے ساتھ کی ہوئی بات پوری کی، بے شک فاطمہ بنت محمد میرے جگر کا گوشہ ہے، میں یہ پسند نہیں کرتا کہ لوگ اسے رنجیدہ اورغمگین کریں، اللہ کی قسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دختر اور اللہ کے دشمن کی بیٹی کبھی بھیایک آدمی کی زوجیت میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ یہ سن کر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنا پروگرام ختم کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11373

۔ (۱۱۳۷۳)۔ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ: أَنَّ عَلِیَّ بْنَ الْحُسَیْنِ حَدَّثَہُ، أَنَّہُمْ حِیْنَ قَدِمُوا الْمَدِیْنَۃَ مِنْ عِنْدِ یَزِیْدَ بْنِ مُعَاوِیَۃَ مَقْتَلَ حُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ لَقِیَہُ الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَۃَ فَقَالَ: ھَلْ لَکَ إِلَّی مِنْ حَاجَۃٍ تَأْمُرُنِی بِہَا؟ قَالَ: فَقُلْتُ لَہُ: لَا، قَالَ: ھَلْ أَنْتَ مُعْطِیَّ سَیْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ فَأِنِّیْ أَخَافُ أَنْ یَغْلِبَکَ الْقَوْمُ عَلَیْہِ، وَأَیْمُ اللّٰہِ لَئِنْ أَعْطَیْتَنِیْہِ لَا یُخْلَصُ اِلَیْہِ أَبَدًا حَتّٰی تَبْلُغَ نَفْسِی، إِنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ خَطَبَ ابْنَۃَ أَبِی جَہْلٍ عَلٰی فَاطِمَۃَ، فَسَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ یَخْطُبُ النَّاسَ فِی ذٰلِکَ عَلٰی مِنْبَرِہِ ھٰذَا وَأَنَا یَوْمَئِذٍ مُحْتَلِمٌ فَقَالَ: ((اِنَّ فَاطِمَۃَ بَضْعَۃٌ مِنِّی وَأَنَا أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِی دِیْنِہَا۔)) قَالَ: ثُمَّ ذَکَرَ صِہْرًا لَہُ مِنْ بَنِی عَبْدِ شَمْسٍ، فَأَثْنٰی عَلَیْہِ فِی مُصَاھَرَتِہِ اِیََّاہُ فَأَحْسَنَ، قَالَ: ((حَدَّثَنِی فَصَدَقَنِی وَوَعَدَنِی فَوَفٰی لِی، وَاِنِّی لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلَالاً وَلَا أُحِلُّ حَرَامًا، وَلٰکِنْ وَاللّٰہِ لَا تَجْتَمِعُ ابْنَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَابْنَۃُ عَدُوِّ اللّٰہِ مَکَانًا وَاحِدًا أَبَدًا۔)) (مسند احمد: ۱۹۱۲۰)
علی بن حسین نے بیان کیا کہ جب یہ لوگ شہادت حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بعد یزید بن معاویہ کے ہاں سے مدینہ منورہ آئے تو سیدنا مسور بن مخرمہ نے آکر ان سے ملاقات کی اور کہا: میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیں۔ میں نے ان سے کہا:جی کوئی نہیں ہے۔ مسور نے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم والی تلوار عنایت کر سکتے ہیں؟مجھے اندیشہ ہے کہ اس تلوار کے بارے میں لوگ آپ پر حاوی ہوجائیں گے۔ اللہ کی قسم! اگر آپ وہ تلوار مجھے عنایت فرمائیں گے تو جب تک میں زندہ رہوں گا، اس وقت تک کسی کو نہیں پہنچنے دوں گا، جبکہ تک وہ مجھے ختم نہیں کر دے گا، بے شک سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی زندگی میں ابو جہل کی بیٹی کو نکاح کا پیغام بھیجا تھا۔ اس موقع پر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنے منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے سناجبکہ میں ان دنوں بالغ ہو چکا تھا،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ اسے دین کے بارے میں مشکلات میں ڈال دیا جائے گا۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو عبد شمس سے تعلق رکھنے والے اپنے داماد (ابو العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ )کا ذکر کیا اورآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی خوب تعریف کی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس نے میرے ساتھ جو عہد وپیماں کیا اسے پورا کیا، ہاں ہاں میں کسیحلال کو حرام یا حرام کو حلال نہیں کرتا، لیکن اللہ کی قسم! رسول اللہ کی دختر اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ (یعنی ایک آدمی کی زوجیت میں) کبھی اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11374

۔ (۱۱۳۷۴)۔ عَنِ الْمِسْوَرِبْنِ مَخْرَمَۃَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ یَقُوْلُ: ((إِنَّ بَنِی ہِشَامِ بْنِ الْمُغِیْرَۃَ اسْتَأْذَنُوْنِی فِی أَنْ یَنْکِحُوا ابْنَتَہُمْ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ فَلَا آذَنُ لَھُمْ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((لَا آذَنُ، فَاِنَّمَا ابْنَتِی بَضْعَۃٌ مِنِّی،یُرِیْبُنِی مَاأَرَابَہَا وَ یُؤْذِیْنِی مَا آذَاھَا۔)) (مسند احمد: ۱۹۱۳۴)
سیدنا مسور بن مخرمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ انہوںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بنو ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے اجازت طلب کی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کر دیں، میں انہیں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: میں انہیں اس کی اجازت نہیں دیتا، میری بیٹی میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جو بات اسے رنجیدہ کرتی ہے، اس سے مجھے بھی رنج ہوتا ہے اور جس بات سے اسے دکھ ہوتا ہے، مجھے بھی اس سے دکھ پہنچتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11375

۔ (۱۱۳۷۵)۔ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِی رَافِعٍ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ، أَنَّہُ بَعَثَ إِلَیْہِ حَسَنُ بْنُ حَسَنٍ یَخْطُبُ ابْنَتَہُ، فَقَالَ لَہُ: قُلْ لَہُ فَلْیَأْتِنِی فِی الْعَتَمَۃِ، قَالَ: فَلَقِیَہُ فَحَمِدَ الْمِسْوَرُ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ وَقَالَ: أَمَّا بَعْدُ! وَاللّٰہِ مَا مِنْ نَسَبٍ وَلَا سَبَبٍ وَلَا صِہْرٍ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ سَبَبِکُمْ وَصِہْرِکُمْ، وَلٰکِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((فَاطِمَۃُ مُضْغَۃٌ مِنِّی،یَقْبِضُنِی مَا قَبَضَہَا وَیَبْسُطُنِی مَا بَسَطَہَا، وَإِنَّ الْأَنْسَابَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ تَنْقَطِعُ غَیْرَنَسَبِی وَسَبَبِی وَصِہْرِی۔)) وَعِنْدَکَ ابْنَتُہَا وَلَوْ زَوَّجْتُکَ لَقَبَضَہَا ذٰلِکَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ عَاذِرًا لَہُ۔ (مسند احمد: ۱۹۱۱۴)
سیدنامسور بن مخرمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ حسن بن حسن نے ان سے ان کی دختر کا رشتہ طلب کیا، اس نے جواباً یہ پیغام بھیجا کہ حسن بن حسن آج رات خود مجھ سے ملو۔ جب ان کی ان سے ملاقات ہوئی تو سیدنا مسور ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پہلے تو اللہ کی حمد و ثناء کی اورپھر کہا: اللہ کی قسم! مجھے تمہاری رشتہ داری اور دامادی سے بڑھ کر دوسری کوئی چیز محبوب نہیں ہے، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس بات سے وہ رنجیدہ ہو میں بھی اس سے رنجیدہ خاطر ہوتا ہوںاور جس بات سے وہ خوش ہو مجھے بھی اس سے خوشی ہوتی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے تعلق، رشتہ داری اور دامادی کے علاوہ باقی تمام رشتہ داریاں قیامت کے دن منقطع ہو جائیں گی۔ تمہارے نکاح میں ان (یعنی سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ) کی ایک دختر موجود ہیں۔ اگر میں تمہارے ساتھ اپنی دختر کا نکاح کروں تو اس سے ان کا دل دکھے گا، چنانچہ وہ انہیں اس بارے میں معذور سمجھ کر چلے گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11376

۔ (۱۱۳۷۶)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَلْحَسَنُ وَ الْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ وَ فَاطِمَۃُ سَیِّدَۃُ نِسَائِھِمْ اِلَّا مَا کَانَ لِمَرْیَمَ بِنْتِ عِمْرَانَ۔)) (مسند احمد: ۱۱۶۴۱)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حسن اور حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما جنتی نوجوانوں کے سردار اور فاطمہ جنتی خواتین کی سردار ہوں گی، ما سوائے مریم بنت عمران کے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11377

۔ (۱۱۳۷۷)۔ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحٰقَ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی رَافِعٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ أُمِّ سَلْمٰی، قَالَتِ: اشْتَکَتْ فَاطِمَۃُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا شَکْوَاھَا الَّتِی قُبِضَتْ فِیْہِ، فَکُنْتُ أُمَرِّضُہَا فَأَصْبَحَتْ یَوْمًا کَأَمْثَلِ مَارَأَیْتُہَا فِی شَکْوَاھَا تِلْکَ، قَالَتْ: وَخَرَجَ عَلِیٌّ لِبَعْضِ حَاجَتِہِ فَقَالَتْ: یَا أُمَّہْ! اسْکُبِی لِی غُسْلًا، فَسَکَبْتُ لَھَا غُسْلًا، فَاغْتَسَلَتْ کَأَحْسَنِ مَارَأَیْتُہَا تَغْتَسِلُ، ثُمَّ قَالَتْ: یَا أُمَّہْ! أَعْطِیْنِی ثِیَابِی الْجُدُدَ، فَأَعْطَیْتُہَا فَلَبِسَتْہَا، ثُمَّ قَالَتْ: یَا أُمَّہْ! قَدِّمِی لِی فِرَاشِی وَسَطَ الْبَیْتِ، فَفَعَلْتُ، وَاضْطَجَعَتْ فَاسْتَقْبَلَتِ الْقِبْلَۃَ، وَجَعَلَتْ یَدَھَا تَحْتَ خَدِّھَا، ثُمَّ قَالَتْ: یَا أُمَّہْ! اِنِّی لَمَقْبُوْضَۃٌ الْآنَ، وَقَدْ تَطَہَّرْتُ فَلَا یَکْشِفُنِی أَحَدٌ، فَقُبِضَتْ مَکَانَہَا، قَالَتْ: فَجَائَ عَلِیٌّ فَأَخْبَرْتُہُ۔ (مسند احمد: ۲۸۱۶۷)
سیدہ ام سلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا جب مرض الموت میں مبتلا ہوئیں تو میں ان دنوں ان کی تیمار داری کیاکرتی تھی،ایام مرض کے دوران وہ ایک دن کافی ہشاش بشاش تھیں، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کسی کام سے باہر گئے تو سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے فرمایا: اماں جان! میرے نہانے کے لیے پانی رکھ دیں، میں نے ان کے لیے غسل کا پانی رکھ دیا، انہوں نے بہت اچھا غسل کیا اور پھر کہا: اماں جان! مجھے میرے نئے کپڑے لا دیں، میں نے ان کو نئے کپڑے لا دیئے جو انہوں نے زیب تن کیے۔ پھر کہا: اماں جان! میرا بستر کمرے کے درمیان لگا دیں، میں نے اسی طرح کر دیا۔ انہوں نے قبلہ رو لیٹ کر اپنا ہاتھ رخسار کے نیچے رکھ لیا۔ پھر کہا: اماں جان! میں اب فوت ہونے والی ہوں، میں نے غسل کر لیا ہے، کوئی بھی مجھے غسل دینے کے لیے میرا لباس نہ اتارے، چنانچہ وہیں ان کا انتقال ہو گیا۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے تو میں نے ان کو سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی وفات کی خبر دی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11378

۔ (۱۱۳۷۸)۔ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ، أَنَّ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا زَوْجَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَخْبَرَتْہُ، أَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَأَلَتْ أَبَابَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یَقْسِمَ لَھَا مِیْرَاثَہَا مِمَّا تَرَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِمَّا أَفَائَ اللّٰہُ عَلَیْہِ، فَقَالَ لَھَا أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا نُوْرَثُ، مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ۔)) فَغَضِبَتْ فَاطِمَۃُ عَلَیْہَا السَّلَامُ، فَہَجَرَتْ أَبَا بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فَلَمْ تَزَلْ مُہَاجِرَتَہُ حَتّٰی تُوُفِّیَتْ، قَالَ: وَعَاشَتْ بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سِتَّۃَ أَشْہُرٍ۔ (مسند احمد: ۲۵)
سیدناعروہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا دختر رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کے بعد امیر المؤمنین ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مطالبہ کیا کہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مال فے کے حصہ سے ان کا حصہ ان کو دے دیں۔ ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہمارا ترکہ ورثاء میں تقسیم نہیں کیا جاتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ یہ سن کر سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ناراض ہوگئیںاور ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بات چیت منقطع کر لی۔یہ سلسلہ انکی وفات تک رہا۔ عروہ کہتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کے بعد چھ ماہ زندہ رہی تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11379

۔ (۱۱۳۷۹)۔ عَنْ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: لَمَّا بَعَثَ أَہْلُ مَکَّۃَ فِی فِدَائِ أَسْرَاہُمْ، بَعَثَتْ زَیْنَبُ بِنْتُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی فِدَائِ أَبِی الْعَاصِ بْنِ الرَّبِیعِ بِمَالٍ، وَبَعَثَتْ فِیہِ بِقِلَادَۃٍ لَہَا کَانَتْ لِخَدِیجَۃَ أَدْخَلَتْہَا بِہَا عَلٰی أَبِی الْعَاصِ حِینَ بَنٰی عَلَیْہَا، قَالَتْ: فَلَمَّا رَآہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَقَّ لَہَا رِقَّۃً شَدِیدَۃً وَقَالَ: ((إِنْ رَأَیْتُمْ أَنْ تُطْلِقُوْا لَہَا أَسِیرَہَا، وَتَرُدُّوا عَلَیْہَا الَّذِی لَہَا فَافْعَلُوْا؟)) فَقَالُوْا: نَعَمْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ فَأَطْلَقُوہُ وَرَدُّوا عَلَیْہَا الَّذِی لَہَا۔ (مسند أحمد: ۲۶۸۹۴)
زوجۂ رسول سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لیے مال وغیرہ بھیجا تو سیدہ زینب بنت ِ رسول ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اپنے خاوند ابو العاص بن ربیع کے فدیے میں مال بھیجا، اس میں اس نے اپنا ایک ہار بھی بھیجا،یہ ہار دراصل سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا تھا، جب سیدہزینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی ابو العاص کے ساتھ رخصتی ہوئی تھی تو سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان کو دیا تھا، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ ہار دیکھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر رقت طاری ہو گئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم لوگ مناسب سمجھو تو میری بیٹی کے قیدی کو ایسے ہی آزاد کر دو اور اس کا ہار اس کو واپس کر دو۔ صحابۂ کرام نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! پس انھوں نے ابو العاص کو رہا کر دیا اور سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو ان کا ہار واپس کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11380

۔ (۱۱۳۸۰)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رُقَیَّۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا لَمَّا مَاتَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا یَدْخُلِ الْقَبْرَ رَجُلٌ قَارَفَ أَہْلَہُ۔)) فَلَمْ یَدْخُلْ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ الْقَبْرَ۔ (مسند احمد: ۱۳۴۳۱)
سیّدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیٹی سیدہ رقیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا انتقال ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے آج رات اپنی بیوی سے ہم بستری کی ہو وہ قبر میں داخل نہ ہو۔ پس سیّدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ قبر میں داخل نہ ہوئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11381

۔ (۱۱۳۸۱)۔ عَنْ أَبِی أُماَمَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: لَمَّا وُضِعَتْ أُمُّ کُلْثُوْمٍ بْنَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فِی الْقَبْرِ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : {مِنْہَا خَلَقْنَاکُمْ وَفِیْہَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً أُخْرٰی} قَالَ: ثُمَّ لَا أَدْرِی أَقَالَ بِاسْمِ اللّٰہِ، وَفِی سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ أَمْ لَا، فَلَمَّا بُنِیَ عَلَیْہَا لَحْدُہَا طَفِقَ یَطْرَحُ اِلَیْہِمُ الْجَبُوْبَ، وَیَقُوْلُ: ((سُدُّوْا خِلَالَ اللَّبِنِ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((أَمَا إِنَّ ہٰذَا لَیْسَ بِشَیْئٍ وَلٰکِنَّہُ یَطِیْبُ بِنَفْسِ الْحَیِّ۔)) (مسند احمد: ۲۲۵۴۰)
سیّدناابوامامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیٹی سیدہ ام کلثوم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو قبر میں رکھا گیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت پڑھی {مِنْہَا خَلَقْنَاکُمْ وَفِیْہَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً أُخْرٰی} … ہم نے تمہیں اسی مٹی سے پیدا کیا اور اسی میں تم کو لوٹائیں گے اور پھر اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے۔ (سورۂ طہ، ۵۵) سیّدنا ابوامامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں یہ نہیں جانتا کہ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ دعا پڑھی تھییا نہیں: بِاسْمِ اللّٰہِ، وَفِی سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ۔ (اللہ کے نام کے ساتھ،اللہ کی راہ میں اور اللہ کے رسول کے طریقے کے مطابق دفن کرتے ہیں)۔ جب لحد کی چنائی کر دی گئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کی طرف گارا پھینکا اور فرمایا: اس سے اینٹوں کے شگافوں کو پر کر دو۔ پھر فرمایا: یہ کوئی ضروری چیز نہیں ہے، بس زندہ لوگوں کا نفس ذرا مطمئن ہو جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11382

۔ (۱۱۳۸۲)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((وُلِدَ لِی اللَّیْلَۃَ غُلَامٌ فَسَمَّیْتُہُ بِاسْمِ أَبِی إِبْرَاہِیمَ)) قَالَ ثُمَّ دَفَعَہُ إِلَی أُمِّ سَیْفٍ امْرَأَۃِ قَیْنٍ،یُقَالُ لَہُ: أَبُو سَیْفٍ بِالْمَدِینَۃِ، قَالَ: فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَأْتِیہِ وَانْطَلَقْتُ مَعَہُ فَانْتَہَیْتُ إِلٰی أَبِی سَیْفٍ، وَہُوَ یَنْفُخُ بِکِیرِہِ وَقَدِ امْتَلَأَ الْبَیْتُ دُخَانًا، قَالَ: فَأَسْرَعْتُ الْمَشْیَ بَیْنَیَدَیْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَقُلْتُ: یَا أَبَا سَیْفٍ! جَائَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَأَمْسَکَ، قَالَ: فَجَائَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَعَا بِالصَّبِیِّ فَضَمَّہُ إِلَیْہِ، قَالَ أَنَسٌ: فَلَقَدْ رَأَیْتُہُ بَیْنَیَدَیْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یَکِیدُ بِنَفْسِہِ، قَالَ: فَدَمَعَتْ عَیْنَا رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((تَدْمَعُ الْعَیْنُ وَیَحْزَنُ الْقَلْبُ، وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا یُرْضِی رَبَّنَا عَزَّ وَجَلَّ، وَاللّٰہِ! إِنَّا بِکَ یَا إِبْرَاہِیمُ لَمَحْزُونُونَ۔)) (مسند احمد: ۱۳۰۴۵)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے آج رات مجھے بیٹا عطا فرمایا ہے، میں نے اپنے باپ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے نام پر اس کا نام رکھا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو رضاعت کے لیے مدینہ کے ایک لوہار سیدنا ابو سیف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اہلیہسیدہ ام سیف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے حوالے کیا، ایک بار رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو دیکھنے کے لیے چل کر گئے، میں بھی آپ کے ساتھ گیا، جب میں وہاں پہنچا تو ابو سیف اپنی بھٹی میں پھونک مار رہا تھا اور کمرہ دھوئیں سے بھر چکا تھا۔ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آگے آگے جلدی چل کر گیا اور میں نے ان سے کہا: ابو سیف! اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے ہیں۔ تو وہ اپنے کام سے رک گیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے۔ آپ نے بچے کو بلوا کر اسے سینے سے لگایا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اسے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے اس حال میں دیکھا کہ وہ اپنی جان اللہ کے سپرد کر رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آنکھوں میںآنسو آگئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آنکھ آنسو بہار رہی ہے، اور دل غمگین ہے، لیکن ہم زبان سے وہی بات کہیں گے، جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور اے ابراہیم ہم تیری جدائی پر بہت زیادہ غمگین ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11383

۔ (۱۱۳۸۳)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِیدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: مَا رَأَیْتُ أَحَدًا کَانَ أَرْحَمَ بِالْعِیَالِ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ إِبْرَاہِیمُ مُسْتَرْضَعًا فِی عَوَالِی الْمَدِینَۃِ وَکَانَ یَنْطَلِقُ، وَنَحْنُ مَعَہُ، فَیَدْخُلُ الْبَیْتَ وَإِنَّہُ لَیُدَّخَنُ وَکَانَ ظِئْرُہُ قَیْنًا، فَیَأْخُذُہُ فَیُقَبِّلُہُ ثُمَّ یَرْجِعُ، قَالَ عَمْرٌو: فَلَمَّا تُوُفِّیَ إِبْرَاہِیمُ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ إِبْرَاہِیمَ ابْنِی وَإِنَّہُ مَاتَ فِی الثَّدْیِ، فَإِنَّ لَہُ ظِئْرَیْنِیُکْمِلَانِ رَضَاعَہُ فِی الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۲۱۲۶)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بڑھ کر اپنے اہل و عیال کے حق میں مہربان کسی کو نہیں پایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بیٹے سیدنا ابراہیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مدینہ منورہ کی بالائی بستیوں میں رضاعت کے لیے بھیجے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو دیکھنے کے لیے تشریف لے جاتے، ہم بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ہوتے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے گھر میں داخل ہو جاتے، حالانکہ اس گھر میں دھواں اٹھ رہا ہوتا تھا، کیونکہ ان کا رضاعی والد لوہار تھا، پھر رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا ابراہیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اٹھاتے، اسے بوسے دیتے اور پھر واپس تشریف لے آتے۔ عمرو راوی کہتے ہیں: جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا انتقال ہوا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک ابراہیم میرا بیٹا ہے، چونکہ یہ دودھ پینے کی مدت کے اندر اندر فوت ہوا ہے، اس لیے اس کی جنت میں دو رضاعی مائیںہوں گی، جو اس کی رضاعت کو پورا کریں گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11384

۔ (۱۱۳۸۴)۔ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: مَاتَ اِبْرَاہِیْمُ بْنُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ ابْنُ سَتَّۃَ عَشَرَ شَہْرًا، فَاَمَرَبِہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یُدْفَنَ فِی الْبَقِیْعِ، وَقَالَ: ((اِنَّہٗلَہٗمُرْضِعًایُرْضِعُہُ فِیْ الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۸۷۴۹)
سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ پسر رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا ابراہیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا سولہ ماہ کی عمر میں انتقال ہوگیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے جنت البقیع میں دفن کرنے کا حکم دیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے جنت میں ایک دایہ دودھ پلائے گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11385

۔ (۱۱۳۸۵)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: لَقَدْ تُوُفِّیَ اِبْرَاہِیْمُ بْنُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ ابْنُ ثَمَانِیَۃَ عَشَرَ شَہْرًا فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْہِ۔)) (مسند احمد: ۲۶۸۳۶)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بیٹے ابراہیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا اٹھارہ ماہ کی عمر میں انتقال ہوا تھا، آپ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11386

۔ (۱۱۳۸۶)۔ عَنِ السُّدِیِّ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یَقُوْلُ: لَوْ عَاشَ اِبْرَاہِیْمُ بْنُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَکَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا۔ (مسند احمد: ۱۲۳۸۳)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: اگر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بیٹے سیدنا ابراہیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ زندہ رہتے تو وہ سچے نبی ہوتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11387

۔ (۱۱۳۸۷)۔ ثَنَا ابْنُ أَبِیْ خَالِدٍ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِیْ أَوْفٰییَقُوْلُ: لَوْ کَانَ بَعْدَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَبِیٌّ مَا مَاتَ اِبْنُہُ اِبْرَاہِیْمُ۔ (مسند احمد: ۱۹۳۱۹)
اسماعیل بن ابی خالد سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا ابن ابی اوفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد بھی کوئی نبی آنا ہوتا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بیٹے سیدنا ابراہیم علیہ السلام فوت نہ ہوتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11388

۔ (۱۱۳۸۸)۔ عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِی رَبَاحٍ قَالَ: حَدَّثَنِی مَنْ سَمِعَ أُمَّ سَلَمَۃَ، تَذْکُرُ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ فِی بَیْتِہَا فَأَتَتْہُ فَاطِمَۃُ بِبُرْمَۃٍ فِیہَا خَزِیرَۃٌ فَدَخَلَتْ بِہَا عَلَیْہِ فَقَالَ لَہَا: ((اُدْعِیْ زَوْجَکِ وَابْنَیْکِ۔)) قَالَتْ: فَجَائَ عَلِیٌّ وَالْحُسَیْنُ وَالْحَسَنُ فَدَخَلُوْا عَلَیْہِ فَجَلَسُوْا یَأْکُلُونَ مِنْ تِلْکَ الْخَزِیرَۃِ، وَہُوَ عَلٰی مَنَامَۃٍ لَہُ عَلٰی دُکَّانٍ تَحْتَہُ کِسَائٌ لَہُ خَیْبَرِیٌّ، قَالَتْ: وَأَنَا أُصَلِّی فِی الْحُجْرَۃِ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ہٰذِہِ الْآیَۃَ: {إِنَّمَا یُرِیدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا} [الأحزاب: ۳۳] قَالَتْ فَأَخَذَ فَضْلَ الْکِسَائِ فَغَشَّاہُمْ بِہِ ثُمَّ أَخْرَجَیَدَہُ فَأَلْوٰی بِہَا إِلَی السَّمَائِ ثُمَّ قَالَ: ((اَللّٰہُمَّ ہٰؤُلَائِ أَہْلُ بَیْتِی وَخَاصَّتِی فَأَذْہِبْ عَنْہُمْ الرِّجْسَ وَطَہِّرْہُمْ تَطْہِیرًا، اَللّٰہُمَّ ہٰؤُلَائِ أَہْلُ بَیْتِی وَخَاصَّتِی فَأَذْہِبْ عَنْہُمُ الرِّجْسَ وَطَہِّرْہُمْ تَطْہِیرًا۔)) قَالَتْ: فَأَدْخَلْتُ رَأْسِی الْبَیْتَ فَقُلْتُ: وَأَنَا مَعَکُمْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ إِنَّکِ إِلٰی خَیْرٍ إِنَّکِ إِلٰی خَیْرٍ۔)) قَالَ عَبْدُ الْمَلِکِ: وَحَدَّثَنِی أَبُو لَیْلٰی عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ مِثْلَ حَدِیثِ عَطَائٍ سَوَائً، قَالَ عَبْدُ الْمَلِکِ: وَحَدَّثَنِی دَاوُدُ بْنُ أَبِی عَوْفٍ أَبُو الْحَجَّافِ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ بِمِثْلِہِ سَوَائً۔ (مسند احمد: ۲۷۰۴۱)
سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے گھر میں تشریف فرما تھے، سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ایک ہنڈیا لے کرآئیں، جس میں گوشت سے تیار شدہ خزیرہ تھا، جب وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس داخل ہوئیں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنے خاوند اور اپنے دونوں بیٹوں کو بلا کر لاؤ۔ اتنے میںسیدنا علی، سیدنا حسن اور سیدنا حسین آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئے اور وہ سارے خزیرہ کھانے لگے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک دکان نما جگہ پر تھے، جو آپ کی خواب گاہ تھی، نیچے خیبر کی بنی ہوئی چادر بچھا رکھی تھی۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں حجرے میں نماز پڑھ رہی تھی، اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ آیت اتاری: {إِنَّمَا یُرِیدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا}… اللہ تعالیٰ تو صرف یہ ارادہ کرتا ہے کہ اے اہل بیت ! تم سے پلیدی دور کر دیں اور تمہیں مکمل طور پر پاک کر دیں۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زائد چادر کے حصہ کو لیا اور انہیں ڈھانپ لیا، پھر اپنا ہاتھ آسمان کی جانب بلند کیا اور فرمایا: اے میرے اللہ! یہ میرے گھر والے اور میرے خاص ہیں، ان سے پلیدی دور کر دے اور انہیں پاک کردے۔اے میرے اللہ! یہ میرے گھر والے اور میرے خاص ہیں، ان سے پلیدی دور کر دے اور انہیں پاک کردے۔ اتنے میں ام سلمہ نے جو کمرہ سے باہر تھی نے اس چادر کے اندر سر داخل کیا اور کہا:اے اللہ کے رسول! میں بھی تمہارے ساتھ شامل ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک تم خیر پر ہو، بلاشبہ تم خیر پر ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11389

۔ (۱۱۳۸۹)۔ عَنْ أَبِی الْمُعَذَّلِ عَطِیَّۃَ الطُّفَاوِیِّ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ أُمَّ سَلَمَۃَ حَدَّثَتْہُ، قَالَتْ: بَیْنَمَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی بَیْتِییَوْمًا، إِذْ قَالَتِ الْخَادِمُ إِنَّ عَلِیًّا وَفَاطِمَۃَ بِالسُّدَّۃِ، قَالَتْ: فَقَالَ لِی: ((قُومِی فَتَنَحَّیْ لِی عَنْ أَہْلِ بَیْتِی۔)) قَالَتْ: فَقُمْتُ فَتَنَحَّیْتُ فِی الْبَیْتِ قَرِیبًا، فَدَخَلَ عَلِیٌّ وَفَاطِمَۃُ وَمَعَہُمَا الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ، وَہُمَا صَبِیَّانِ صَغِیرَانِ، فَأَخَذَ الصَّبِیَّیْنِ فَوَضَعَہُمَا فِی حِجْرِہِ فَقَبَّلَہُمَا، قَالَ: وَاعْتَنَقَ عَلِیًّا بِإِحْدَییَدَیْہِ وَفَاطِمَۃَ بِالْیَدِ الْأُخْرٰی، فَقَبَّلَ فَاطِمَۃَ وَقَبَّلَ عَلِیًّا، فَأَغْدَفَ عَلَیْہِمْ خَمِیصَۃً سَوْدَائَ فَقَالَ: ((اللَّہُمَّ إِلَیْکَ لَا إِلَی النَّارِ أَنَا وَأَہْلُ بَیْتِی۔)) قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَأَنَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، فَقَالَ: ((وَأَنْتِ۔)) (مسند احمد: ۲۷۰۷۵)
ابو معذل عطیہ طفاوی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان کو بیان کرتے ہوئے کہا: ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے گھر میں تشریف فرما تھے کہ خادم نے کہا: سیدنا علی اور سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا دروازے پر آئے ہوئے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ام سلمہ! تم اٹھ کر میرے اہل بیت سے ذرا الگ ہو جائو، سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتی ہیں:میں اٹھ کر ان کے قریب ہی کمرے میں ایک طرف ہوگئی۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے، ان کے ہمراہ سیدنا حسن اور سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بھی تھے، وہ ابھی چھوٹے بچے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دونوں بچوں کو پکڑ کر اپنی گود میں بٹھا لیا، ان کو بوسے دیئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک ہاتھ سے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اور دوسرے ہاتھ سے سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو اپنے ساتھ ملا لیا اور آپ نے سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بوسے دیئے اور ایک سیاہ چادر ان سب کے اوپر ڈال دی اور فرمایا: یا اللہ! میں اور میرے اہل بیت تیری طرف آتے ہیں، جہنم کی طرف نہیں۔ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اور میں بھی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اور تم بھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11390

۔ (۱۱۳۹۰)۔ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لِفَاطِمَۃَ: ((ائْتِینِی بِزَوْجِکِ وَابْنَیْکِ۔)) فَجَاء َتْ بِہِمْ فَأَلْقٰی عَلَیْہِمْ کِسَائً فَدَکِیًّا، قَالَ: ثُمَّ وَضَعَ یَدَہُ عَلَیْہِمْ ثُمَّ قَالَ: ((اللَّہُمَّ إِنَّ ہٰؤُلَائِ آلُ مُحَمَّدٍ، فَاجْعَلْ صَلَوَاتِکَ وَبَرَکَاتِکَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔)) قَالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ: فَرَفَعْتُ الْکِسَائَ لِأَدْخُلَ مَعَہُمْ، فَجَذَبَہُ مِنْ یَدِی، وَقَالَ: ((إِنَّکِ عَلٰی خَیْرٍ۔)) (مسند احمد: ۲۷۲۸۲)
سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے فرمایا: تم اپنے شوہر اور دونوں بیٹوں کو میرے پاس لے آئو۔ وہ ان کوبلا کر لے آئیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فدک (خیبر کے علاقے) کی تیار شدہ ایک چادر ان کو اوڑھا دی اور اپنا ہاتھ سب کے اوپر رکھ کر فرمایا: یا اللہ! یہ لوگ آل محمد ہیں، تو اپنی رحمتیں اور برکتیںمحمد اور آل محمد پر نازل فرما، بے شک تو ہی قابل تعریف اور بزرگی کے لائق ہے۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتی ہیں: میں نے چادر اٹھا کر ان کے ساتھ اندر داخل ہونے کی کوشش کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے ہاتھ سے چادر کو کھینچ لیا اور فرمایا: تم تو پہلے ہی خیر اور بھلائی پر ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11391

۔ (۱۱۳۹۱)۔ عَنْ شَدَّادٍ أَبِی عَمَّارٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی وَاثِلَۃَ بْنِ الْأَسْقَعِ وَعِنْدَہُ قَوْمٌ فَذَکَرُوا عَلِیًّا، فَلَمَّا قَامُوْا قَالَ لِی: أَلَا أُخْبِرُکَ بِمَا رَأَیْتُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُلْتُ: بَلٰی، قَالَ: أَتَیْتُ فَاطِمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا أَسْأَلُہَا عَنْ عَلِیٍّ، قَالَتْ: تَوَجَّہَ إِلَی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَلَسْتُ أَنْتَظِرُہُ حَتّٰی جَائَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَعَہُ عَلِیٌّ وَحَسَنٌ وَحُسَیْنٌ ، آخِذٌ کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا بِیَدِہِ حَتّٰی دَخَلَ، فَأَدْنٰی عَلِیًّا وَفَاطِمَۃَ فَأَجْلَسَہُمَا بَیْنَیَدَیْہِ، وَأَجْلَسَ حَسَنًا وَحُسَیْنًا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا عَلٰی فَخِذِہِ، ثُمَّ لَفَّ عَلَیْہِمْ ثَوْبَہُ أَوْ قَالَ کِسَائً ثُمَّ تَلَا ہٰذِہِ الْآیَۃَ: {إِنَّمَا یُرِیدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا} وَقَالَ: ((اَللّٰہُمَّ ہٰؤُلَائِ أَہْلُ بَیْتِی وَأَہْلُ بَیْتِی أَحَقُّ۔)) (مسند احمد: ۱۷۱۱۳)
ابو عمار شداد کہتے ہیں: میں سیدنا واثلہ بن اسقع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گیا، ان کے ہاں بہت سے لوگ بیٹھے تھے، انہوں نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ذکر چھیڑا دیا۔ (یعنی ان کے بارے میں ناگوار اور نا پسندیدہ باتیں کرنے لگے)، جب وہ اٹھ کر چلے گئے تو سیدنا واثلہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے فرمایا: کیا میںتمہیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ایک حشم دید واقعہ بیان نہ کر دوں؟ میں نے عرض کیا: جی ضرور بیان فرمائیں۔ انہوں نے کہا: میں سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں گیا اور ان سے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں دریافت کیا کہ وہ کہاں ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گئے ہوئے ہیں، میںان کی انتظار میں بیٹھ گیا، اتنے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے۔آپ نے سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دونوں کو ایک ایک ہاتھ میں اٹھایا ہوا تھا، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اندر چلے آئے اور آپ نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو اپنے سامنے بٹھا لیا اور سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دونوں کو اپنی ران پر بٹھا لیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک چادر یا اپنا کپڑا ان سب کے اوپر ڈال دیا۔پھر یہ آیت تلاوت کی:{إِنَّمَا یُرِیدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا} …کہ اللہ تم سے یعنی نبی کے اہل بیت سے ہر قسم کی ناپاکی کو دور کرکے مکمل طور پر پاک صاف کرنا چاہتا ہے۔ (سورۂ احزاب:۳۳) ساتھ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یا اللہ! یہ بھی میرے اہل بیت ہیں اور میرے اہل بیت اس سعادت کے زیادہ حق دار ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11392

۔ (۱۱۳۹۲)۔ عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ: أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَمُرُّ بِبَیْتِ فَاطِمَۃَ سِتَّۃَ أَشْہُرٍ إِذَا خَرَجَ إِلَی الْفَجْرِ فَیَقُولُ: ((الصَّلَاۃَیَا أَہْلَ الْبَیْتِ {إِنَّمَا یُرِیدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا} [الاحزاب: ۳۳]۔ (مسند احمد: ۱۳۷۶۴)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چھ ماہ تک یہ معمول رہا کہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نمازفجر کے وقت سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے گھر کے پاس سے گزرتے تو فرماتے: اے اہل بیت! نماز ادا کرو۔ سوائے اس کے نہیں کہ اللہ تعالیٰ تم (اہل بیت) سے ہر قسم کی ناپاکی کو دور کرکے مکمل طور پر پاک صاف کرنا چاہتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11393

۔ (۱۱۳۹۳)۔ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ حَیَّانَ التَّیْمِیِّ قَالَ: اِنْطَلَقْتُ أَنَا وَحُصَیْنُ بْنُ سَبُرَۃَ وَعُمَرُ بْنُ مُسْلِمٍ اِلٰی زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ ( ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) فَلَمَّا جَلَسْنَا اِلَیْہِ قَالَ لَہُ حُصَیْنٌ: لَقَدْ لَقِیْتَیَا زَیْدُ خَیْرًا کَثِیْرًا، رَأَیْتَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وسَمِعْتَ حَدِیْثَہَ وَغَزَوْتَ مَعَہُ وَصَلَّیْتَ مَعَہُ، لقَدْ رَأَیْتَیَا زَیْدُ خَیْرًا کَثِیْرًا، حَدِّثْنَا یَا زَیْدُ مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! فَقَالَ: یَا ابْنَ أَخِیْ! وَاللّٰہِ! لقَدْ کَبُرَتْ سِنِّیْ وَقَدُمَ عَہْدِیْ وَنَسِیْتُ بَعْضَ الَّذِیْ کُنْتُ أَعِیْ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَمَا حَدَّثْتُکُمْ فَاقْبَلُوْا وَمَا لَا فَلَا تُکَلِّفُوْنِیْہِ، ثُمَّ قَالَ: قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمًا خَطِیْبًا فِیْنَا بِمَائٍ یُدْعٰی خُمًّا، یَعْنِیْ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِیْنَۃِ، فَحَمِدَ اللّٰہَ تَعَالٰی وَأَثْنٰی عَلَیْہِ وَوَعَظَ وَذَکَّرَ،ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ! أَلَا أَیُّہَا النَّاسُ! اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، یُوْشِکُ أَنْ یَأْتِیَنِیْ رَسُوْلُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ فَأُجِیْبُ، وَاِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمْ ثَقَلَیْنِ، أَوَّلُہُمَا کِتَابُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ، فِیْہِ الْہُدٰی وَالنُّوْرُ، فَخُذُوْا بِکِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَاسْتَمْسِکُوْا بِہِ۔)) فَحَثَّ عَلٰی کِتَابِ اللّٰہِ وَرَغَّبَ فِیْہِ، قَالَ: ((وَأَھْلُ بَیْتِیْ، أُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِیْ أَھْلِ بَیْتِیْ، أُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِیْ أَھْلِ بَیْتِیْ، أُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِیْ أَھْلِ بَیْتِیْ۔)) فَقَالَ لَہُ حُصَیْنٌ: وَمَنْ أَھْلُ بَیْتِہِیَا زَیْدُ؟ أَلَیْسَ نِسَائُ ہُ مِنْ أَھْلِ بَیْتِہِ؟ قَالَ: اِنَّ نِسَائَ ہُ مِنْ أَھْلِ بَیْتِہِ وَلٰکِنَّ أَھْلَ بَیْتِہِ مَنْ حُرِمَ الصَّدَقَۃَ بَعْدَہُ، قَالَ: وَمَنْ ہُمْ؟ قَالَ: آلُ عَلِیٍّ وَ آلُ جَعَفَرٍ وَآلُ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَکُلُّ ہٰؤُلَائِ حُرِمَ الصَّدَقَۃَ؟ قَالَ: نَعَمْ۔ (مسند أحمد: ۱۹۴۷۹)
یزید بن حیان تیمی کہتے ہیں: میں، حصین بن سبرہ اور عمر بن مسلم، سیدنا زید بن ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گئے، جب ہم ان کے پاس بیٹھ گئے تو حصین نے کہا: اے زید! تم نے بہت زیادہ خیر پائی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی احادیث سنی ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ جہاد کیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نمازیں پڑھی ہیں، زید! بس تم نے بہت زیادہ خیر پائی ہے، زید! تم نے جو احادیث رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہیں، وہ ہمیں بھی بیان کرو، انھوں نے کہا: اے بھتیجے! میری عمر بڑی ہو گئی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صحبت کو بھی کافی عرصہ گزر چکا ہے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جو احادیثیاد کی تھیں، ان میں سے بعضوں کو بھول بھی گیا ہوں، اس لیے میں تم کو جو کچھ بیان کر دوں، اس کو قبول کر لو اور جو نہ کر سکوں، اس کی مجھے تکلیف نہ دو۔ پھر انھوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غدیر خم، جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے، کے مقام پر خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور وعظ و نصیحت کیا اور پھر یہ بھی فرمایا: أَمَّا بَعْدُ! خبردار! اے لوگو! میں ایک بشر ہی ہوں، قریب ہے کہ میرے ربّ کا قاصد میرے پاس آ جائے اور میں اس کی بات قبول کر لوں، بات یہ ہے کہ میں تم میں دو بیش قیمت اور نفیس چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، ان میں سے ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، اس میں ہدایت اور نور ہے، پس اللہ تعالیٰ کی کتاب کو پکڑ لو اور اس کے ساتھ چمٹ جاؤ۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب پر آمادہ کیا اور اس کے بارے میں ترغیب دلائی، اور پھر فرمایا: دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں، میں تم کو اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں، میں تم کو اپنے اہل بیت کے معاملے میں اللہ تعالیٰیاد کرواتا ہوں، میں تم کو اپنے اہل بیت کے حق میں اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں۔ حصین نے کہا: اے زید! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیویاں بھی اہل بیت میں سے ہیں؟ انھوں نے کہا: بیشک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیویاں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اہل بیت میں سے ہیں، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اہل بیت وہ ہیں، جن پر صدقہ حرام ہے۔ حصین نے کہا: وہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے کہا: وہ آلِ علی، آلِ جعفر اور آلِ عباس ہیں۔ اس نے کہا: کیا اِن سب پر صدقہ حرام ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11394

۔ (۱۱۳۹۴)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَخَذَ بِیَدِ حَسَنٍ وَحُسَیْنٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقَالَ: ((مَنْ أَحَبَّنِیْ وَأَحَبَّ ھٰذَیْنِ وَأَبَاھُمَا کَانَ مَعِیَ فِیْ دَرَجَتِیْ فِی الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۵۷۶)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا حسن اور سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: جس نے مجھ سے اور ان دونوں سے اور ان کے باپ سے محبت کی وہ جنت میں میرے درجہ میں میرے ساتھ ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11395

۔ (۱۱۳۹۵)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنِّی تَارِکٌ فِیکُمْ خَلِیفَتَیْنِ کِتَابُ اللّٰہِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مَا بَیْنَ السَّمَاء ِ وَالْأَرْضِ أَوْ مَا بَیْنَ السَّمَاء ِ إِلَی الْأَرْضِ، وَعِتْرَتِی أَہْلُ بَیْتِی وَإِنَّہُمَا لَنْ یَتَفَرَّقَا حَتّٰییَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ۔)) (مسند احمد: ۲۱۹۱۱)
سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہارے درمیان دو باقی رہنے والی چیزیں چھوڑ رہا ہوں، ایک تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، یہ ایک رسی ہے جو آسمان اور زمین کے درمیان لٹکی ہوئی ہے اور میرا خاندان جو کہ میرے اہل بیت ہیں، لوگوں کے حوض کو ثر پر آنے تک یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11396

۔ (۱۱۳۹۶)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِنِّی أُوشِکُ أَنْ أُدْعٰی فَأُجِیبَ، وَإِنِّی تَارِکٌ فِیکُمُ الثَّقَلَیْنِ کِتَابَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَعِتْرَتِی، کِتَابُ اللّٰہِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَائِ إِلَی الْأَرْضِ، وَعِتْرَتِی أَہْلُ بَیْتِی، وَإِنَّ اللَّطِیفَ الْخَبِیرَ أَخْبَرَنِی أَنَّہُمَا لَنْ یَفْتَرِقَا حَتّٰییَرِدَ عَلَیَّ الْحَوْضَ، فَانْظُرُوْنِیْ ہُمْ تَخْلُفُوْنِیْ فِیْہِمَا۔)) (مسند احمد: ۱۱۱۴۸)
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ارشاد ہے: بیشک قریب ہے کہ مجھے بلایا جائے ا ور میں اس دعوت کو قبول کر لوں، میں تمہارے درمیان دو اہم اور مضبوط چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور دوسری چیز میراخاندان، اللہ کی کتاب وہ رسی ہے، جو آسمان سے زمین کی طرف لٹک رہی ہے اور میرا خاندان میرے اہل بیت ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہت باریک بیں اور ہر چیز سے باخبر ہے، اس نے مجھے اطلاع دی ہے کہ یہ دونوں حوض پر آنے تک یعنی قیامت تک ایک دوسری سے جدا نہ ہوں گی، تم میرا خیال رکھنا کہ تم میرے بعد ان کے ساتھ کیسا برتائو کرتے ہو؟
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11397

۔ (۱۱۳۹۷)۔ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: دَخَلَ عَلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا نَائِمٌ عَلَی الْمَنَامَۃِ فَاسْتَسْقَی الْحَسَنُ أَوِ الْحُسَیْنُ، قَالَ: فَقَامَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی شَاۃٍ لَنَا بَکِیْئٍ فَحَلَبَہَا فَدَرَّتْ فَجَائَہُ الْحَسَنُ فَنَحَّاہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ فَاطِمَۃُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! کَأَنَّہُ أَحَبُّہُمَا إِلَیْکَ، قَالَ: ((لَا، وَلٰکِنَّہُ اسْتَسْقَی قَبْلَہُ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((إِنِّی وَإِیَّاکِ وَہٰذَیْنِ وَہٰذَا الرَّاقِدَ فِی مَکَانٍ وَاحِدٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند احمد: ۷۹۲)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں بستر پر سویا ہوا تھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ہاں تشریف لائے، سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پینے کے لیے کوئی چیز طلب کی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہماری ایک بکری کی طرف کھڑے ہوئے، جس کا دودھ بہت ہی قلیلتھا یا بالکل ختم ہو گیا تھا۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسے دوہنے لگے تو اس نے دودھ اتار دیا، سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف گئے توآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو ایک طرف کر دیا۔ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عرض کیا:معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں میں سے آپ کو حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے زیادہ محبت ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔لیکن اس (حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) نے پہلے طلب کیا تھا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں، تم، یہ دونوں بچے اور یہ سویا ہوا آدمییعنی سیدنا علی قیامت کے دن ہم سب ایک ہی جگہ ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11398

۔ (۱۱۳۹۸)۔ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: نَظَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِلَی الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ وَفَاطِمَۃَ ، فَقَالَ: ((أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَکُمْ وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَکُمْ۔)) (مسند احمد: ۹۶۹۶)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدناحسن ، سیدنا حسین اور سیدہ فاطمہ کی طرف دیکھ کر فرمایا: جو کوئی تمہارا مخالف ہو میں اس کا مخالف ہوں اور جو تم لوگوں سے صلح رکھے گا میری بھی اس سے صلح ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11399

۔ (۱۱۳۹۹)۔ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ: قُلْتُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ قُرَیْشًا إِذَا لَقِیَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا لَقُوہُمْ بِبِشْرٍ حَسَنٍ وَإِذَا لَقُونَا لَقُونَا بِوُجُوہٍ لَا نَعْرِفُہَا، قَالَ: فَغَضِبَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَضَبًا شَدِیدًا وَقَالَ: ((وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَا یَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الْإِیمَانُ حَتّٰییُحِبَّکُمْ لِلّٰہِ وَلِرَسُولِہِ۔)) (مسند احمد: ۱۷۷۲)
سیدنا عباس بن عبدالمطلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! قریش جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو خندہ روئی سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو بے رخی اور ترش روئی سے ملتے ہیں۔ یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے شدید غضب ناک ہو کر فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کسی بھی آدمی کے دل میں ایمان اس وقت تک جاگزیں نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی رضا مندی کے لیے تمہارے ساتھ دلی محبت نہیں رکھے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11400

۔ (۱۱۴۰۰)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) بِلَفْظٍ: اِنَّا لَنَخْرُجُ فَنَرٰی قُرَیْشًا تُحَدِّثُ فَاِذَا رَأَوْنَا سَکَتُوْا، فَغَضِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَدَرَّ عِرْقٌ بَیْنَ عَیْنَیْہِ ثُمَّ قَالَ: ((وَاللّٰہِ! لَا یَدْخُلُ قَلْبَ اِمْرِیئٍ اِیْمَانٌ حَتّٰییُحِبَّکُمْ لِلّٰہِ وَلِقَرَابَتِیْ۔)) (مسند احمد: ۱۷۷۷)
۔(دوسری سند) سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:ہم باہر نکلیں تو ہم قریش کو آپس میں باتیں کرتے دیکھتے ہیں، لیکن جب وہ ہمیں دیکھتے ہیں تو خاموش ہو جاتے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس قدر غضب ناک ہوگئے کہ آ پ کی آنکھوں کے درمیان سے پسینہ بہنے لگا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم!کسی آدمی کے دل میں ایمان اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتا، جب تک وہ اللہ کے لیے اور میرے ساتھ قرابت کا لحاظ کرتے ہوئے تم لوگوں سے محبت نہیں کرے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11401

۔ (۱۱۴۰۱)۔ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ، حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ سَالِمٍ أَبُو جَہْضَمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَبْدًا مَأْمُورًا، بَلَّغَ وَاللّٰہِ مَا أُرْسِلَ بِہِ، وَمَا اخْتَصَّنَا دُونَ النَّاسِ بِشَیْئٍ لَیْسَ ثَلَاثًا، أَمَرَنَا أَنْ نُسْبِغَ الْوُضُوئَ وَأَنْ لَا نَأْکُلَ الصَّدَقَۃَ وَأَنْ لَا نُنْزِیَ حِمَارًا عَلٰی فَرَسٍ، قَالَ مُوسٰی: فَلَقِیتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ حَسَنٍ فَقُلْتُ: إِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُبَیْدِ اللّٰہِ حَدَّثَنِی کَذَا وَکَذَا؟ فَقَالَ: إِنَّ الْخَیْلَ کَانَتْ فِی بَنِی ہَاشِمٍ قَلِیلَۃً فَأَحَبَّ أَنْ تَکْثُرَ فِیہِمْ۔ (مسند احمد: ۱۹۷۷)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے پابند بندے تھے۔ اللہ کی قسم! آپ کو اللہ کی طرف سے جو پیغام دیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو اسی طرح آگے پہنچا دیا اور عام امت سے ہٹ کر تین باتوں کے سوا ہمیں علیحدہ کوئی خاص حکم نہیں دیا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم مکمل وضو کیا کریں، صدقہ نہ کھائیں اور گدھوں سے گھوڑ یوں سے جفتی نہ کرائیں۔ موسیٰ بن سالم کہتے ہیں کہ جب میری عبدالرحمن بن حسن سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے کہا: عبداللہ بن عبید اللہ بن عباس نے مجھے یوں بیان کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ بنو ہاشم میں گھوڑے کم تھے اورآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چاہا کہ ان کے ہاں گھوڑوں کی تعدادمیں اضافہ ہو جائے، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو اس عمل سے منع فرمایا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11402

۔ (۱۱۴۰۲)۔ عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ: لَمَّا قَسَمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَہْمَ الْقُرْبٰی مِنْ خَیْبَرَ بَیْنَ بَنِی ہَاشِمٍ وَبَنِی الْمُطَّلِبِ، جِئْتُ أَنَا وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ہَؤُلَائِ بَنُو ہَاشِمٍ لَا یُنْکَرُ فَضْلُہُمْ لِمَکَانِکَ الَّذِی وَصَفَکَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہِ مِنْہُمْ، أَرَأَیْتَ إِخْوَانَنَا مِنْ بَنِی الْمُطَّلِبِ أَعْطَیْتَہُمْ وَتَرَکْتَنَا، وَإِنَّمَا نَحْنُ وَہُمْ مِنْکَ بِمَنْزِلَۃٍ وَاحِدَۃٍ، قَالَ: ((إِنَّہُمْ لَمْ یُفَارِقُونِی فِی جَاہِلِیَّۃٍ وَلَا إِسْلَامٍ، وَإِنَّمَا ہُمْ بَنُو ہَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ شَیْئٌ وَاحِدٌ۔)) قَالَ ثُمَّ شَبَّکَ بَیْنَ اَصَابِعِہِ۔ (مسند أحمد: ۱۶۸۶۲)
سیدنا جبیر بن مطعم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں :جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیبر کا حصہ بنو ہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم کیا تو میں (جبیر) اور سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! یہ بنو ہاشم ہیں، ان کی فضیلت کا انکار نہیں کیا جا سکتا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ان سے اس مقام کی وجہ سے، جو اللہ تعالیٰ نے بیان کیا، لیکن آپ غور کریں کہ یہ جو ہمارے بھائی بنو مطلب ہیں، آپ نے ان کو دے دیا اور ہمیں چھوڑ دیا، جبکہ ہم اور بنو مطلب آپ سے ایک مقام پر ہیں، (یعنی آپ سے ہمارا اور ان کا رشتہ داری کا درجہ ایک ہے)، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ لوگ نہ مجھ سے جاہلیت میں جدا ہوئے ہیں اور نہ اسلام میں، بس بنو ہاشم اور بنو مطلب ایک ہی چیز ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی انگلیوں میں تشبیک ڈالی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11403

۔ (۱۱۴۰۳)۔ عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((خَیْرُ عَطَائٍ ھٰذَا یَا بَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ، وَیَا بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ! إِنْ کَانَ لَکُمْ مِنَ الْأَمْرِ شَیْئٌ فَلَأَعْرِفَنَّ مَا مَنَعْتُمْ أَحَدًا یَطُوفُ بِہٰذَا الْبَیْتِ أَیَّ سَاعَۃٍ مِنْ لَیْلٍ أَوْ نَہَارٍ۔)) (مسند احمد: ۱۶۸۶۴)
سیدنا جبیر بن مطعم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے (بنو عبد مناف کو کوئی چیز دی اور) فرمایا: اے بنی عبدمناف! یہ بہترین عطیہ ہے اور اے بنو عبدالمطلب! اگر تمہیں حکومت اور اقتدار مل جائے تو تم کسی کو بھی دن رات کی کسی گھڑی میں بیت اللہ کا طواف کرنے سے نہ روکنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11404

۔ (۱۱۴۰۴)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: خَرَجَتْ سَوْدَۃُ لِحَاجَتِہَا لَیْلًا بَعْدَ مَا ضُرِبَ عَلَیْہِنَّ الْحِجَابُ، قَالَتْ: وَکَانَتْ امْرَأَۃً تَفْرَعُ النِّسَائَ جَسِیمَۃً، فَوَافَقَہَا عُمَرُ فَأَبْصَرَہَا فَنَادَاہَا: یَاسَوْدَۃُ! إِنَّکِ وَاللّٰہِ مَا تَخْفَیْنَ عَلَیْنَا إِذَا خَرَجْتِ فَانْظُرِی کَیْفَ تَخْرُجِینَ أَوْ کَیْفَ تَصْنَعِینَ؟ فَانْکَفَأَتْ فَرَجَعَتْ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَإِنَّہُ لَیَتَعَشّٰی فَأَخْبَرَتْہُ بِمَا قَالَ لَہَا عُمَرُ، وَإِنَّ فِییَدِہِ لَعَرْقًا فَأُوحِیَ إِلَیْہِ ثُمَّ رُفِعَ عَنْہُ وَإِنَّ الْعَرْقَ لَفِییَدِہِ، فَقَالَ: ((لَقَدْ أُذِنَ لَکُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِکُنَّ۔)) (مسند احمد: ۲۴۷۹۴)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ پردے کا حکم نازل ہو چکا تھا، اس کے بعد سیدہ سودہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا رات کے وقت قضائے حاجت کے لیے باہر گئیں۔ وہ کافی جسیم تھیں اور ان کا قد کافی طویل تھا، راستے میں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مل گئے، انہوں نے ان کو دیکھا تو زور سے کہا: سودہ! اللہ کی قسم! تم جب باہر آتی ہو تو ہم سے مخفی نہیں رہ سکتیں، اب دیکھ لو کہ تم کو کیسے نکلنا چاہیےیا کیا کرنا چاہیے؟وہ وہیں سے لوٹ آئیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رات کا کھانا تناول فرما رہے تھے، انہوں نے آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بات بتلائی اور شکایت کی۔ گوشت والی ہڈی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ میںہی تھی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی کانزول شروع ہوگیا، اس کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہوا تو ابھی تک وہ ہڈی آپ کے ہاتھ ہی میں تھی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب تمہیں اپنی ضرورت کے لیے گھر سے باہر جانے کی اجازت مل گئی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11405

۔ (۱۱۴۰۵)۔ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِذَا أَرَادَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَیْنَ نِسَائِہِ فَأَیَّتُہُنَّ خَرَجَ سَہْمُہَا خَرَجَ بِہَا مَعَہُ، وَکَانَ یَقْسِمُ لِکِلِّ امْرَأَۃٍ مِنْہُنَّ یَوْمَہَا وَلَیْلَتَہَا غَیْرَ أَنَّ سَوْدَۃَ بِنْتَ زَمْعَۃَ کَانَتْ وَھَبَتْ یَوْمَہَا وَلَیْلَتَہَا لِعَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَبْتَغِیْ بِذَالِکَ رِضَا النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۵۳۷۱)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے ر وایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے، جس کے حق میں قرعہ نکلتا، اسے ساتھ لے کر جاتے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی ہر بیوی کے لئے اس کی رات اور اس کا دن تقسیم کیا کرتے تھے، ما سوائے سیدہ سودہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے، کیونکہ انہوں نے اپنا دن اور رات ام المومنین سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے لیے ہبہ کر دیا تھا، سیدہ سودہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا مقصد نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رضا تلاش کرنا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11406

۔ (۱۱۴۰۶)۔ عَنْ ہِشَامٍ عَنْ أَبِیہِ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: لَمَّا کَبِرَتْ سَوْدَۃُ وَہَبَتْ یَوْمَہَا لِی فَکَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقْسِمُ لِی بِیَوْمِہَا مَعَ نِسَائِہِ، قَالَتْ: وَکَانَتْ أَوَّلَ امْرَأَۃٍ تَزَوَّجَہَا بَعْدَہَا۔ (مسند احمد: ۲۴۸۹۹)
ہشام اپنے والد (عروہ) سے بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بیان کیا کہ ام المؤمنین سیدہ سودہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا جب عمر رسیدہ ہوگئیں تو انہوںنے اپنی باری مجھے ہبہ کر دی اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی باری والا دن بھی مجھے دیا کرتے تھے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے نکاح کے بعد یہ پہلی بیوی تھیں جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زوجیت میں آئیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11407

۔ (۱۱۴۰۷)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: تَزَوَّجَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ شَوَّالٍ، وَ اُدْخِلْتُ عَلَیْہِ فِیْ شَوَالٍ، فَأَیُّ نِسَائِہِ کَانَ أَحْظیٰ عِنْدَہٗمِنِّیْ؟ فَکَانَتْ تَسْتَحِبُّ أَنْ تَدْخُلَ نِسَائُ ھَا فِیْ شَوَالٍ۔ (مسند احمد: ۲۴۷۷۶)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے شوال کے مہینے میں نکاح کیا اور مجھے شوال ہی کے مہینہ میں آپ کے ہاںروانہ کیا گیا۔ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کونسی بیوی آپ کی نظروں میں مجھ سے زیادہ وقعت والی تھی؟ چنانچہ سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اپنے خاندان کی عورتوں کیشادیاں ماہ شوال میں کرنا زیادہ پسند کیا کرتی تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11408

۔ (۱۱۴۰۸)۔ قَالَتْ تَزَوَّجَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھِیَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِیْنَ، وَمَاتَ عَنْہَا وَھِیَ بِنْتُ ثَمَانِ عَشَرَۃَ۔ (مسند احمد: ۲۴۶۵۳)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب ان سے شادی کی تو اس وقت ان کی عمر نو سال تھی اور جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا تو اس وقت سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی عمر اٹھارہ برس تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11409

۔ (۱۱۴۰۹)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: تَزَوَّجَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُتَوَفَّی خَدِیجَۃَ قَبْلَ مَخْرَجِہِ إِلَی الْمَدِینَۃِ بِسَنَتَیْنِ أَوْ ثَلَاثٍ، وَأَنَا بِنْتُ سَبْعِ سِنِینَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ جَائَتْنِی نِسْوَۃٌ وَأَنَا أَلْعَبُ فِی أُرْجُوحَۃٍ وَأَنَا مُجَمَّمَۃٌ فَذَہَبْنَ بِی فَہَیَّأْنَنِی وَصَنَعْنَنِی، ثُمَّ أَتَیْنَ بِی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَبَنٰی بِی وَأَنَا بِنْتُ تِسْعِ سِنِینَ۔ (مسند احمد: ۲۶۹۲۹)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ام المؤمنین سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی وفات کے بعد مدینہ منورہ کی طرف روانگی سے دویاتین سال قبل نکاح کیا، جبکہ میری عمر سات سال تھی۔ جب ہم مدینہ منورہ آئے تو چند خواتین میرے پاس آئیں، جبکہ میں جھولا جھول رہی تھی اور میرے بال کندھوں تک تھے، وہ عورتیں مجھے لے گئیں اور انہوں نے مجھے تیار کیا اور بنا سنوار دیا اور پھر مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لے گئیں اور میری رخصتی کر دی۔ اس وقت میری عمر نو برس تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11410

۔ (۱۱۴۱۰)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: کُنْتُ اَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ وَیَجِیْئُ صَوَاحِبِیْ فَیَلْعَبْنَ مَعِیَ فاِذَا رَأَیْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِنْقَمَعْنَ وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُدْخِلُہُنَّ عَلَیَّ فَیَلْعَبْنَ مَعِیَ۔ (مسند احمد: ۲۴۸۰۲)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں:میں اپنی گڑیوں کے ساتھ کھیلتی تھی اور میری سہیلیاں بھی آکر میرے ساتھ مل کر کھیلتی تھیں، جب وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھتیں تو چلی جاتیں، لیکن پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خود ان کو میرے پاس بھیجتے، پس وہ میرے پاس آ کر کھیلتی تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11411

۔ (۱۱۴۱۱)۔ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیہِ، عَنْ عَائِشَۃَ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَقُولُ لَہَا: ((إِنِّی أَعْرِفُ غَضَبَکِ إِذَا غَضِبْتِ، وَرِضَاکِ إِذَا رَضِیتِ)) قَالَتْ: وَکَیْفَ تَعْرِفُ ذٰلِکَ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، قَالَ: ((إِذَا غَضِبْتِ قُلْتِ: یَا مُحَمَّدُ، وَإِذَا رَضِیتِ قُلْتِ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ۔)) (مسند احمد: ۲۴۵۱۳)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان سے فرمایا کرتے تھے: تم جب ناراض یا خوش ہوتی ہو تو میں تمہاری ناراضییا خوشی کو جان جاتا ہوں۔ انہوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ کیسے جان جاتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم ناراض ہوتی ہو تو یوں کہتی ہو: اے محمد اور جب تم راضی ہوتی ہو تو کہتی ہو: اے اللہ کے رسول۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11412

۔ (۱۱۴۱۲)۔ (وَعَنْہَا مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَتْ: قَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنِّی لَأَعْلَمُ إِذَا کُنْتِ عَنِّی رَاضِیَۃً، وَإِذَا کُنْتِ عَلَیَّ غَضْبٰی)) قَالَتْ: فَقُلْتُ: مِنْ أَیْنَ تَعْلَمُ ذَاکَ؟ قَالَ: ((إِذَا کُنْتِ عَنِّی رَاضِیَۃً فَإِنَّکِ تَقُولِینَ: لَا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ، وَإِذَا کُنْتِ عَلَیَّ غَضْبٰی تَقُولِینَ: لَا وَرَبِّ إِبْرَاہِیمَ عَلَیْہِ السَّلَام)) قُلْتُ: أَجَلْ وَاللّٰہِ، مَا أَہْجُرُ إِلَّا اسْمَکَ۔ (مسند احمد: ۲۴۸۲۲)
۔(دوسری سند) سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے یہ فرمایا: تم جب مجھ سے خوش یا ناراض ہوتی ہو تو مجھے پتہ چل جاتا ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ آپ کو کیسے پتہ چلتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم راضی ہوتی ہو تویوں کہتی ہو: محمد کے رب کی قسم۔ اور جب تم ناراض ہو تی ہو تو یوں کہتی ہو: ابراہیم کے رب کی قسم۔ میں نے عرض کیا: بالکل ٹھیک ہے، لیکن اللہ کی قسم میں صرف آپ کا نام ترک کرتی ہوں (دل میں آپ کی محبت اور مقام وہی رہتا ہے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11413

۔ (۱۱۴۱۳)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: قَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أُرِیتُکِ فِی الْمَنَامِ مَرَّتَیْنِ وَرَجُلٌ یَحْمِلُکِ فِی سَرَقَۃٍ مِنْ حَرِیرٍ فَیَقُولُ: ہٰذِہِ امْرَأَتُکَ، فَأَقُولُ إِنْ یَکُ ہٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ یُمْضِہِ۔)) (مسند احمد: ۲۴۶۴۳)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم دو مرتبہ مجھے خواب میں دکھائی گئیں، کوئی آدمی تمہیں ایک سفید ریشمی ٹکڑے میں اٹھائے ہوئے تھا، وہ کہتا تھا کہ یہ آپ کی بیوی ہے۔ میں کہتا تھا کہ اگر یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ اسے پورا کرے گا ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11414

۔ (۱۱۴۱۴)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: لَقَدْ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی بَابِ حُجْرَتِیْ وَالْحَبَشَۃُیَلْعَبُوْنَ بِحِرَابِہِمْ یَسْتُرُنِیْ بِرِدَائِہِ لِکَیْ أَنْظُرَ اِلٰی لَعِبِہِمْ ثَمَّ یَقُوْمُ حَتّٰی أَکُوْنَ اَنَا الَّتِیْ أَنْصَرِفُ۔ (مسند احمد: ۲۶۶۳۰)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں:میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنے حجرے کے دروازے پر دیکھا، جبکہ حبشی جنگی ہتھیاروں کے ساتھ کھیل رہے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے لئے اپنی چادر سے پر دہ کر رہے تھے، تاکہ میں ان کے کھیل کو دیکھ سکوں، پھر آپ کھڑے رہتے تھے، یہاں تک کہ میں خود واپس پھرتی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11415

۔ (۱۱۴۱۵)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: وَضَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَقْنِی عَلٰی مَنْکِبَیْہِ لِأَنْظُرَ إِلٰی زَفْنِ الْحَبَشَۃِ حَتَّی کُنْتُ الَّتِی مَلِلْتُ فَانْصَرَفْتُ عَنْہُمْ۔ (مسند احمد: ۲۵۳۶۶)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری ٹھوڑی اپنے کندھوں پر رکھوائی تاکہ میں حبشیوں کے جنگی کرتب دیکھ لوں، یہاں تک کہ انہیں دیکھ دیکھ کر میں ہی تھک کر پیچھے ہٹ گئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11416

۔ (۱۱۴۱۶)۔ عَنْ عَائِشَۃَ: اَنَّ الْحَبَشَۃَ لَعِبُوْا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَعَانِیْ، فَنَظَرْتُ مِنْ فَوْقِ مَنْکِبِہِ حَتّٰی شَبِعْتُ۔ (مسند احمد: ۲۶۴۸۷)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ حبشیوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دکھانے کے لیے جنگی کھیلوں کا مظاہر پیش کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بلا لیا، میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کندھے کے اوپر سے دیکھتی رہی،یہاں تک کہ میں نے جی بھر کر یہ منظر دیکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11417

۔ (۱۱۴۱۷)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَسْجِدَ وَالْحَبَشَۃُیَلْعَبُونَ فَزَجَرَہُمْ عُمَرُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((دَعْہُمْ یَا عُمَرُ، فَإِنَّہُمْ بَنُو أَرْفِدَۃَ۔)) (مسند احمد: ۱۰۹۸۰)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیا ن ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد میں تشریف لے گئے، وہاں حبشی لوگ نیزوں سے کھیل رہے تھے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو ڈانٹ دیا۔لیکن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عمر! ان کو رہنے دو، یہ بنو ارفدہ ہیں، (یعنی ایسا کرنا ان کے معمولات میں سے ہے۔)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11418

۔ (۱۱۴۱۸)۔ أَنَا ابْنُ أَبِی الزَّنَّادِ: عَنْ اَبِی الزَّنَّادِ قَالَ: قَالَ لِی عُرْوَۃُ: إِنَّ عَائِشَۃَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَئِذٍ لَتَعْلَمُ یَہُودُ أَنَّ فِی دِینِنَا فُسْحَۃً: ((إِنِّی أُرْسِلْتُ بِحَنِیفِیَّۃٍ سَمْحَۃٍ۔)) (مسند احمد: ۲۶۴۸۹)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ اس روز رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (عمر! ان کو کھیلنے دو) تاکہ یہودیوں کو پتہ چل جائے کہ ہمارے دین میں کافی وسعت ہے، بے شک مجھے آسان دین و شریعت دے کر مبعوث کیا گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11419

۔ (۱۱۴۱۹)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیْقٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا : أَیُّ النَّاسِ کَانَ أَحَبَّ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَتْ: عَائِشَۃُ، قُلْتُ: فَمِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَتْ: أَبُوْھَا۔ (مسند احمد: ۲۶۵۷۴)
عبداللہ بن شقیق سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سب سے زیادہ محبت کس سے تھی؟ انھوں نے کہا: عائشہ سے، میں نے کہا: مردوں میں سے ؟ انھوں نے کہا: اس کے باپ سے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11420

۔ (۱۱۴۲۰)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: اِنَّہُ لَیُہَوِّنُ عَلَیَّ أَنِیْ رَأَیْتُ بِیَاضَ کَفِّ عَائِشَۃَ فِی الْجَنَّۃِ۔ (مسند احمد: ۲۵۵۹۰)
ام المؤمنین سید عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا میرے لیےیہ بات اطمینان بخش ہے کہ میں نے عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی ہتھیلی کی چمک جنت میں دیکھی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11421

۔ (۱۱۴۲۱)۔ عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ عَنْ أُمِّ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَۃَ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُہْدِیَتْ لَہُ ہَدِیَّۃٌ فِیہَا قِلَادَۃٌ مِنْ جَزْعٍ، فَقَالَ: ((لَأَدْفَعَنَّہَا إِلٰی أَحَبِّ أَہْلِی إِلَیَّ۔)) فَقَالَتْ النِّسَائُ ذَہَبَتْ بِہَا ابْنَۃُ أَبِی قُحَافَۃَ فَدَعَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُمَامَۃَ بِنْتَ زَیْنَبَ فَعَلَّقَہَا فِی عُنُقِہَا۔ (مسند احمد: ۲۵۲۱۱)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں ایک ہدیہ پیش کیا گیا، اس میںیمنی موتیوں کا ایک ہار بھی تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں یہ ہار اپنے اہل میں سے اس کو دوں گا، جو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ عورتوں نے سمجھا کہ اس ہار کو ابو قحافہ کی بیٹییعنی سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا لے جائیں گی، مگر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی نواسی سیدہ امامہ بنت زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو بلوا کر وہ ہار ان کی گردن میں ڈال دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11422

۔ (۱۱۴۲۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقْسِمُ بَیْنَ نِسَائِۃِ فَیَعْدِلُ وَیَقُوْلُ: ((ھٰذِہِ قِسْمَتِیْ، (ثُمَّ یَقُوْلُ) اَللّٰھُمَّ ھٰذَا فِعلِیْ فِیْمَا أَمْلِکُ فَلَا تَلُمْنِیْ فِیْمَا تَمْلِکُ وَلَا أَمْلِکُ۔)) (مسند احمد: ۲۵۶۲۴)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی بیویوں کے درمیان عادلانہ تقسیم کرتے اور پھر فرماتے: یہ میری تقسیم ہے، اے اللہ! یہ میری تقسیم ہے اور یہ میرے بس میں ہے، لہذا مجھے اس تقسیم میں ملامت نہ کرنا، جس کا تو مالک ہے اور میں مالک نہیں ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11423

۔ (۱۱۴۲۳)۔ عَنْ سُمَیَّۃَ عَنْ عَائِشَۃَ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَجَدَ عَلٰی صَفِیَّۃَ بِنْتِ حُیَیٍّ فِی شَیْئٍ، فَقَالَتْ صَفِیَّۃُ: یَا عَائِشَۃُ! أَرْضِی عَنِّی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَکِ یَوْمِی، فَقَالَتْ: نَعَمْ، فَأَخَذَتْ خِمَارًا لَہَا مَصْبُوغًا بِزَعْفَرَانٍ فَرَشَّتْہُ بِالْمَائِ لِیَفُوحَ رِیحُہُ، فَقَعَدَتْ إِلٰی جَنْبِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِلَیْکِیَا عَائِشَۃُ، إِنَّہُ لَیْسَیَوْمَکِ۔)) قَالَتْ: {ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیہِ مَنْ یَشَائُ} وَأَخْبَرَتْہُ بِالْأَمْرِ فَرَضِیَ عَنْہَا۔ (مسند احمد: ۲۵۱۴۷)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ صفیہ بنت حیی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے نا راض ہوگئے، انہوں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس آ کر ان سے کہا کہ آپ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مجھ سے راضی کرا دیں تو میں اپنی ایک باری آپ کو دوں گی۔ انہوںنے کہا: ٹھیک ہے، پس انہوں نے زعفران سے رنگا ہوا اپنا دوپٹہ لیا اور اس پر پانی چھڑکا، تاکہ اس کی خوشبو مہک اٹھے، اور پھر جا کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پہلو میں بیٹھ گئیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عائشہ! پرے ہٹ جائو، آج تمہاری باری نہیں ہے۔ لیکن سیدہ نے جواباً یہ آیت پڑھی: {ذَلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیہِ مَنْیَشَائُ} … یہ تو اللہ کا فضل ہے، وہ جسے چاہے عطا کر دیتا ہے۔ پھر انہوں نے ساری بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلائی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ صفیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے راضی ہوگئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11424

۔ (۱۱۴۲۴)۔ عَنْ ہِشَامٍ عَنْ أَبِیہِ، أَنَّ عَائِشَۃَ قَالَتْ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَا رَسُولَ اللّٰہِ، کُلُّ نِسَائِکَ لَہَا کُنْیَۃٌ غَیْرِی، فَقَالَ لَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اکْتَنِی أَنْتِ أُمَّ عَبْدِ اللّٰہِ۔)) فَکَانَ یُقَالُ لَہَا: أُمُّ عَبْدِ اللّٰہِ حَتّٰی مَاتَتْ وَلَمْ تَلِدْ قَطُّ۔ (مسند احمد: ۲۵۶۹۶)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے سوا آپ کی تمام ازواج نے کنیت رکھی ہوئی ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: تم ام عبداللہ کنیت رکھ لو۔ پس ان کو ام عبد اللہ کہا جاتا رہا، یہاں تک کہ کوئی بچہ جنم دیئے بغیر سیدہ وفات پا گئیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11425

۔ (۱۱۴۲۵)۔ سُلَیْمُ بْنُ أَخْضَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ قَالَ: حَدَّثَنِی عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ عَنْ أُمِّ مُحَمَّدٍ امْرَأَۃِ أَبِیہِ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَتْ عِنْدَنَا أُمُّ سَلَمَۃَ، فَجَائَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عِنْدَ جُنْحِ اللَّیْلِ، قَالَتْ: فَذَکَرْتُ شَیْئًا صَنَعَہُ بِیَدِہِ، قَالَتْ: وَجَعَلَ لَا یَفْطِنُ لِأُمِّ سَلَمَۃَ، قَالَتْ: وَجَعَلْتُ أُومِیئُ إِلَیْہِ حَتّٰی فَطَنَ، قَالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ: أَہٰکَذَا الْآنَ أَمَا کَانَتْ وَاحِدَۃٌ مِنَّا عِنْدَکَ إِلَّا فِی خِلَابَۃٍ کَمَا أَرٰی وَسَبَّتْ عَائِشَۃَ، وَجَعَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَنْہَاہَا فَتَأْبَی، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((سُبِّیہَا)) فَسَبَّتْہَا حَتّٰی غَلَبَتْہَا فَانْطَلَقَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ إِلٰی عَلِیٍّ وَفَاطِمَۃَ، فَقَالَتْ: إِنَّ عَائِشَۃَ سَبَّتْہَا، وَقَالَتْ لَکُمْ وَقَالَتْ لَکُمْ، فَقَالَ عَلِیٌّ لِفَاطِمَۃَ: اذْہَبِی إِلَیْہِ فَقُولِی إِنَّ عَائِشَۃَ قَالَتْ لَنَا وَقَالَتْ لَنَا، فَأَتَتْہُ فَذَکَرَتْ ذٰلِکَ لَہُ فَقَالَ لَہَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّہَا حِبَّۃُ أَبِیکِ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔)) فَرَجَعَتْ إِلٰی عَلِیٍّ فَذَکَرَتْ لَہُ الَّذِی قَالَ لَہَا، فَقَالَ: أَمَا کَفَاکَ إِلَّا أَنْ قَالَتْ لَنَا عَائِشَۃُ وَقَالَتْ لَنَا حَتَّی أَتَتْکَ فَاطِمَۃُ، فَقُلْتَ لَہَا: ((إِنَّہَا حِبَّۃُ أَبِیکِ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۵۵۰۰)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ہمارے ہاں تشریف فرما تھیں، رات کے کسی حصے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ایک کام کا ذکر کیا، جو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ہاتھ سے کیا (جیسے میاں بیوی آپس میں کرتے ہیں) ۔آپ کو سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی موجود گی کا علم نہ تھا، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں:میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اشارے سے سمجھانے لگییہاں تک کہ آپ کو بات سمجھ آگئی۔ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: کیا اب یہ کچھ ہونے لگا ہے؟ کیا ہم میں سے کوئی زوجہ آپ کی نظروں میں دھوکے میں ہے، جیسا کہ میں دیکھ رہی ہوں اور انہوں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو بھی برا بھلا کہا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو روکتے رہے، مگر وہ نہ رکیں۔ بالآخر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے فرمایا: اب تم بولو۔ جب وہ بولیں تو ان پر غالب آگئیں، پھر ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں گئیں اور ان سے کہا کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے مجھے برا بھلا کہا ہے اور انہوں نے آپ لوگوں کے متعلق بھی اس قسم کی باتیں کی ہیں۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سید فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے کہا تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جا کر کہو کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ہمارے متعلق اس قسم کی باتیں کی ہیں۔ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جا کر سای بات بتلائی تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: رب کعبہ کی قسم! وہ تمہارے باپ کی محبوبہ ہے۔ یہ سن کر سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس واپس گئیں اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات کا ان سے ذکر کیا۔ پھر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے شکوہ کے طور پر کہا کیا آپ کی طرف سے اتنا ہی کافی نہیں کہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ہمارے متعلق اس قسم کی باتیں کیں اور سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے آپ سے ان کا ذکر بھی کیا (اور آپ نے پھر ان باتوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا)، صرف اتنا کہا کہ رب کعبہ کی قسم! وہ تو تمہارے باپ کی محبوبہ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11426

۔ (۱۱۴۲۶)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) أَزْھَرُ قَالَ: أَنَا ابْنُ عَوْنٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ عَنْ أُمِّ مُحَمَّدٍ اِمْرَأَۃِ أَبِیْہِ قَالَتْ: وَکَانَتْ تَغْشٰی عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَتْ عِنْدَنَا زَیْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ فَذَکَرَتْ نَحْوَحَدِیْثِ سُلَیْمِ بْنِ أَخْضَرِ إِلَّا اِنَّ سُلَیْمًا قَالَ: أُمُّ سَلَمَۃَ۔ (مسند احمد: ۲۵۵۰۱)
۔(دوسری سند)ام محمد سے مروی ہے، جبکہ وہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس آیا جایا کرتی تھیں، انھوں نے کہا کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بتلایا کہ سیدہ زینب بنت جحش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ہمارے ہاں تشریف فرما تھیں۔ اس سے آگے انہوں نے اسی طرح حدیث بیان کی جیسے سلیم بن اخضر نے بیان کی ہے۔ صرف اتنا فرق ہے کہ سلیم کی روایت میں سیدہ زینب بنت جحش کی بجائے سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا ذکر ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11427

۔ (۱۱۴۲۷)۔ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: اجْتَمَعْنَ أَزْوَاجُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَرْسَلْنَ فَاطِمَۃَ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْنَ لَہَا: قُولِی لَہُ: إِنَّ نِسَاء َکَ یَنْشُدْنَکَ الْعَدْلَ فِی ابْنَۃِ أَبِی قُحَافَۃَ، قَالَتْ: فَدَخَلَتْ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ مَعَ عَائِشَۃَ فِی مِرْطِہَا، فَقَالَتْ لَہُ: إِنَّ نِسَاء َکَ أَرْسَلْنَنِی إِلَیْکَ وَہُنَّ یَنْشُدْنَکَ الْعَدْلَ فِی ابْنَۃِ أَبِی قُحَافَۃَ، فَقَالَ لَہَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَتُحِبِّینِی۔)) قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: ((فَأَحِبِّیہَا۔)) فَرَجَعَتْ إِلَیْہِنَّ فَأَخْبَرَتْہُنَّ مَا قَالَ لَہَا، فَقُلْنَ إِنَّکِ لَمْ تَصْنَعِی شَیْئًا فَارْجِعِی إِلَیْہِ، فَقَالَتْ: وَاللّٰہِ لَا أَرْجِعُ إِلَیْہِ فِیہَا أَبَدًا، قَالَ الزُّہْرِیُّ: وَکَانَتْ ابْنَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَقًّا، فَأَرْسَلْنَ زَیْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ قَالَتْ عَائِشَۃُ: ہِیَ الَّتِی کَانَتْ تُسَامِینِی مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: إِنَّ أَزْوَاجَکَ أَرْسَلْنَنِی إِلَیْکَ وَہُنَّ یَنْشُدْنَکَ الْعَدْلَ فِی ابْنَۃِ أَبِی قُحَافَۃَ، قَالَتْ: ثُمَّ أَقْبَلَتْ عَلَیَّ تَشْتُمُنِی، فَجَعَلْتُ أُرَاقِبُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنْظُرُ إِلٰی طَرْفِہِ ہَلْ یَأْذَنُ لِی فِی أَنْ أَنْتَصِرَ مِنْہَا، فَلَمْ یَتَکَلَّمْ، قَالَتْ: فَشَتَمَتْنِی حَتّٰی ظَنَنْتُ أَنَّہُ لَا یَکْرَہُ أَنْ أَنْتَصِرَ مِنْہَا، فَاسْتَقْبَلْتُہَا فَلَمْ أَلْبَثْ أَنْ أَفْحَمْتُہَا، قَالَتْ: فَقَالَ لَہَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّہَا ابْنَۃُ أَبِی بَکْرٍ۔)) قَالَتْ عَائِشَۃُ: وَلَمْ أَرَ امْرَأَۃً خَیْرًا مِنْہَا، وَأَکْثَرَ صَدَقَۃً، وَأَوْصَلَ لِلرَّحِمِ، وَأَبْذَلَ لِنَفْسِہَا فِیکُلِّ شَیْئٍیُتَقَرَّبُ بِہِ إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ زَیْنَبَ، مَا عَدَا سَوْرَۃً مِنْ غَرْبٍ حَدٍّ کَانَ فِیہَا تُوشِکُ مِنْہَا الْفِیئَۃُ۔ (مسند احمد: ۲۵۶۸۹)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ازواج نے اکٹھے ہو کر مشورہ کیا اور سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بھیجا اور ان سے کہا کہ آپ جا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہیں کہ آپ کی ازواج ابو قحافہ کی بیٹی کے بارے میں آپ سے عدل کا مطالبہ کرتی ہیں۔ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں گئی تو آپ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی چادر میں ان کے ساتھ تھے۔ انہوںنے جا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا کہ آپ کی ازواج نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے، وہ ابو قحافہ کی بیٹی کے بارے میں آپ سے عدل کا مطالبہ کرتی ہیں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: کیاتمہیں مجھ سے محبت ہے؟ زہری نے کہا: سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر تم بھی اس عائشہ سے محبت رکھو۔ دوسری روایت میں ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیٹی! جو کچھ مجھے پسند ہے کیا تمہیں پسند نہیں ہے؟ سیدہفاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عرض کیا: کیوں نہیں،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تم بھی ان سے یعنی عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے محبت رکھو۔ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا آپ کی بات سن کر واپس آگئیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جواب سے انہیں مطلع کیا، ان سب نے کہا: تم نے تو کچھ بھی نہیں کیا؟ تم دوبارہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف جائو، لیکن سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اللہ کی قسم! اس بارے میں میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بالکل نہیں جائوں گی۔ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا واقعی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیٹی تھیں۔ اس کے بعد ازواج نے ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو (تیار کرکے) بھیجا۔ ازواج مطہرات میں صرف وہی سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے مد مقابل تھیں۔ انہوں نے جا کر کہا: آپ کی بیویوں نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے، وہ آپ سے ابو قحافہ کی دختر کے بارے میں عدل و مساوات کا مطالبہ کرتی ہیں۔ سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: وہ یہ کہتے ہی میری طرف متوجہ ہوئیں اور مجھے براہ راست برا بھلا کہنے لگیں۔ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتظار کرنے اور ان کی آنکھ کی طرف دیکھنے لگی کہ کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے ان سے بدلہ لینے کی اجازت دیتے ہیں؟ لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کچھ بھی نہ فرمایا، انہوں نے مجھے اس قدر کوسا کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اب اگر میں ان سے بدلہ لوں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گراں نہ گزرے گا۔ چنانچہ میں نے ان کا رخ کیا اور جلد ہی ان پر غالب آگئی،یہ صورت حال دیکھ کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: آخر یہ ابو بکر کی بیٹی ہے۔ دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیں: میری باتیں سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تبسم کیا اور فرمایا: یہ تو ابو بکر کی بیٹی ہے۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ ازواج مطہرات میں سے میں نے کسی کو ام المؤمنین سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے بڑھ کر بہتر زیادہ صدقہ کرنے والی، زیادہ صلہ رحمی کرنے والی اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے سعی کرنے والی ان سے بڑھ کر کسی کو نہیں پایا، ان میں صرف ایک خامی تھی کہ انہیں جوش اور غصہ بہت جلد آجاتا تھا، لیکن پھر جلد ہی اس کو ختم کر دیتی تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11428

۔ (۱۱۴۲۸)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: قَالَتْ عَائِشَۃُ: مَا عَلِمْتُ حَتّٰی دَخَلَتْ عَلَیَّ زَیْنَبُ بِغَیْرِ إِذْنٍ وَہِیَ غَضْبٰی، ثُمَّ قَالَتْ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَحْسِبُکَ إِذَا قَلَبَتْ لَکَ بُنَیَّۃُ أَبِی بَکْرٍ ذُرَیِّعَیْہَا، ثُمَّ أَقْبَلَتْ إِلَیَّ فَأَعْرَضْتُ عَنْہَا حَتَّی قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((دُونَکِ فَانْتَصِرِی۔)) فَأَقْبَلْتُ عَلَیْہَا حَتَّی رَأَیْتُہَا قَدْ یَبِسَ رِیقُہَا فِی فَمِہَا مَا تَرُدُّ عَلَیَّ شَیْئًا، فَرَأَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَتَہَلَّلُ وَجْہُہُ۔ (مسند احمد: ۲۵۱۲۷)
۔(دوسری سند) ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: مجھے پتہ ہی نہ چل سکا حتیٰ کہ ام المؤمنین سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا غصے میں بھری ہوئی بلا اجازت آدھمکیں اور انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: میں سمجھتی ہوں کہ جب ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیٹی آپ کے سامنے اپنے ہاتھوں اور کلائیوں کے اشارے کرتی ہے تو آپ اسی کی بات مانتے ہیں۔ اس کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوئیں اور میں ان کی باتیں خاموشی سے سنتی رہی، میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ یہاں تک کہ خود نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم بھی کچھ کہو اور بدلہ لو۔ چنانچہ میں نے ان کی طرف رخ کیا۔ (یعنی ایسی جوابی کاروائی کی) میں نے دیکھا کہ ان کا منہ خشک ہو گیا اور وہ مجھے کچھ نہ کہہ سکیں۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11429

۔ (۱۱۴۲۹)۔ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: کَلَّمَنِی صَوَاحِبِی أَنْ أُکَلِّمَ رَسُولَ اللّٰہِ أَنْ یَأْمُرَ النَّاسَ، فَیُہْدُونَ لَہُ حَیْثُ کَانَ، فَإِنَّہُمْ یَتَحَرَّوْنَ بِہَدِیَّتِہِیَوْمَ عَائِشَۃَ، وَإِنَّا نُحِبُّ الْخَیْرَ کَمَا تُحِبُّہُ عَائِشَۃُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِنَّ صَوَاحِبِی کَلَّمْنَنِی أَنْ أُکَلِّمَکَ لِتَأْمُرَ النَّاسَ أَنْ یُہْدُوْا لَکَ حَیْثُ کُنْتَ، فَإِنَّ النَّاسَ یَتَحَرَّوْنَ بِہَدَایَاہُمْیَوْمَ عَائِشَۃَ، وَإِنَّمَا نُحِبُّ الْخَیْرَ کَمَا تُحِبُّ عَائِشَۃُ، قَالَتْ: فَسَکَتَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَمْ یُرَاجِعْنِی، فَجَائَنِی صَوَاحِبِی فَأَخْبَرْتُہُنَّ أَنَّہُ لَمْ یُکَلِّمْنِی فَقُلْنَ: لَا تَدَعِیہِ وَمَا ہٰذَا حِینَ تَدَعِینَہُ، قَالَتْ: ثُمَّ دَارَ فَکَلَّمْتُہُ، فَقُلْتُ: إِنَّ صَوَاحِبِی قَدْ أَمَرْنَنِی أَنْ أُکَلِّمَکَ تَأْمُرُ النَّاسَ فَلْیُہْدُوْا لَکَ حَیْثُ کُنْتَ، فَقَالَتْ لَہُ مِثْلَ تِلْکَ الْمَقَالَۃِ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا کُلُّ ذَلِکَ یَسْکُتُ عَنْہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ قَالَ: ((یَا أُمَّ سَلَمَۃَ لَا تُؤْذِینِی فِی عَائِشَۃَ، فَإِنَّہُ وَاللّٰہِ! مَا نَزَلَ عَلَیَّ الْوَحْیُ وَأَنَا فِی بَیْتِ امْرَأَۃٍ مِنْ نِسَائِی غَیْرَ عَائِشَۃَ)) فَقَالَتْ: أَعُوذُ بِاللّٰہِ أَنْ أَسُوئَ کَ فِی عَائِشَۃَ۔ (مسند احمد: ۲۷۰۴۷)
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ازواج نے مجھ سے کہا کہ میں ان کی نمائندگی کرتے ہوئے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہوں کہ آپ لوگوں کو حکم دیں کہ آپ جہاں کہیں بھی ہوں یعنی جس بیوی کے ہاں ہوں، لوگ اپنے تحائف اُدھر ہی بھیج دیا کریں۔ لوگ اپنے ہدایا اور تحائف بھیجنے کے لیے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی باری کی انتظار کیا کرتے تھے۔ ،جس طرح سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اس قسم کی چیزوں کو کو پسند کرتی ہیں، ہم بھی پسند کرتی ہیں۔ سو میں نے جا کر کہا: اللہ کے رسول! میری صاحبات یعنی آپ کی ازواج نے مجھ سے کہا ہے کہ میں آپ سے اس بارے میں بات کروں کہ آپ لوگوں کو یہ حکم دیں کہ آپ جہاں کہیں بھی ہوا کریں، وہ اپنے تحائف آپ کی خدمت میں بھیج دیا کریں۔ لوگ اپنے تحائف بھیجنے کے لیے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی باری کی انتظار کرتے رہتے ہیں۔ ہم بھی بھلائی کو اسی طرح پسند کرتی ہیں، جیسے سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا پسند کرتی ہیں۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں:میری بات سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش رہے اور مجھے کچھ جواب نہ دیا، جب میری صاحبات میر ے پاس آئیں تو میں نے انہیں بتلایا کہ نبیکریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو مجھے جواب میں کچھ نہیں فرمایا۔ انھوں نے کہا: تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس طرح نہ چھوڑو اور آپ سے اس بارے میں دوبارہ بات کرو۔ تمہارے خاموش رہنے کا کیا فائدہ ؟ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: اس کے بعد میں دو بارہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملاقات کے لیے گئی اور میں نے پھر یہی بات کی اور عرض کیا کہ میری سوکنوں نے مجھ سے کہا ہے کہ میں آپ سے یہ بات کروں کہ آپ لوگوں کو حکم فرمائیں کہ آپ جہاں کہیں بھییعنی کسی زوجہ کے ہاں ہوں، لوگ اپنے تحائف ادھر ہی بھیج دیا کریں۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ بات دو یا تینبار کی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہر بار خاموش رہتے۔ بالآخر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ام سلمہ! تم عائشہ کے بارے میں ایسی باتیں کرکے مجھے ایذا مت پہنچائو۔ اللہ کی قسم! عائشہ کا تویہ مقام اور مرتبہ ہے کہ اس کے بستر کے سوا میری کسی بھی دوسری زوجہ کے بستر میں مجھ پر کبھی وحی نازل نہیں ہوئی۔ یہ سن کر سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: میں اللہ تعالیٰ سے اس بات سے پناہ چاہتی ہوں کہ میں سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے بارے میں کوئی بات کرکے آپ کا دل دکھائوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11430

۔ (۱۱۴۳۰)۔ ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ أَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ حَدَّثَنِی عَبْدُ اللّٰہِ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ، أَنَّہُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَیْسِ بْنِ مَخَرَمَۃَ بْنِ الْمُطَلَّبَ أَنَّہُ قَالَ یَوْمًا: أَلَا أَحَدِّثُکُمْ عَنِّیْ وَعَنْ أَمُیِّ ؟ فَظَنَنَّا أَنَّہٗیُرِیْدُ أُمَّہُ الَّتِیْ وَلَدَتْہُ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَۃُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا : أَلَا اُحَدِّثُکُمْ عَنِّی وَعَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہِ وَصَحْبِہِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: بَلٰی۔ قَالَ: قَالَتْ: لَمَّا کَانَتْ لَیْلَتِیَ الَّتِیْ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہِ وَصَحْبِہِ وَسَلَّمَ فِیْہَا عِنْدِی، اِنْقَلَبَ، فَوَضَعَ رِدَائَہُ وَخَلَعَ نَعْلَیْہِ فَوَضَعَہُمَا عِنْدَ رِجْلَیْہِ وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِہِ عَلٰی فِرَاشِہِ فَاضْطَجَعَ، فَلَمْ یَلْبَثْ إِلَّا رَیْثَمَا ظَنَّ أَنِّیْ قَدْ رَقَدْتُّ فَأَخَذَ رِدَائَہُ رُوَیْدًا، وَانْتَعَل رُوَیْدًا وَفَتَحَ الْبَابَ فَخَرَجَ ثُمَّ أَجَافَہُ رُوَیْدًا، فَجَعَلْتُ دِرْعِیْ فِیْ رَأْسِی وَاخْتَمَرَتْ وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِی ثُمَّ انْطَلَقْتُ عَلٰی اَثَرِہِ حَتّٰی جَائَ الْبَقِیْعَ فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِیَامَ ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ ثَلَاثََ مَرَّاتٍ، ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ فَأَسْرَعُ فَاَسْرَعْتُ فَہَرْوَلَ فَہَرْوَلْتُ، فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ، فَسَبَقْتُہُ، فَدَخَلْتُ فَلَیْسَ إِلَّا أَنِِ اضْطَجَعْتُ فَدَخَل فَقَالَ: ((مَالَکِ یَا عَائِشَۃُ! حَشْیًا رَابِیَۃً؟)) قَالَتْ: قُلْتُ: لَا شَیْئَیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((لَتُخْبِرَنِّیْ أَوْ لَیُخْبِرَنِّیَ اللَّطِیْفُ الْخَبْیِرُ۔)) قَالَتْ:یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! بِاَبِی أَنْتَ وَ أُمِّی، فَأَخْبَرْتُہُ، قَالَ: ((فَأَنْتِ السَوَادُ الَّذِیْ رَأَیْتُ أَمَامِی؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، فَلَہَزَنِی فِیْ ظَہْرِیْ لَہْزَۃً أَوْجَعَتْنِیْ وَقَالَ: ((أَظَنَنْتِ أَنْ یَحِیْفَ عَلَیْکِ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ؟)) قَالَتْ: مَہْمَا یَکْتُمِ النَّاسُ یَعْلَمْہُ اللّٰہُ، قَالَ: ((نَعَمْ فَإِنَِّ جِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ أَتَانِیْ حِیْنَ رَأَیْتِ فَنَادَانِیْ فَأَخْفَاہُ مِنْکِ فَأَجَبْتُہُ فَأخْفَیْتُہُ مِنْکِ، وَلَمْ یَکُنْ لِیَدْخُلَ عَلَیْکِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِیَابَکَ وَظَنَنْتُ أَنَّکِ قَدْ رَقَدْتِّ فَکَرِہْتُ أَنْ اُوْقِظَکِ وَخَشِیْتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِیْ، فَقَالَ: إِنَّ رَبَّکَ جَلَّ وَعَزَّ یَاْْ مُرُکَ أَنْ تَأْتِیَ أَہْلَ الْبَقِیْعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَہُمْ۔)) قَالَتْ: فَکَیْفَ أَقُوْلُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!؟ فَقَالَ: ((قُوْلِیْ: اَلسَّلَامُ عَلٰی أَہْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَیَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِیْنَ، وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللّٰہُ لَلَاحِقُوْنَ۔)) (مسند احمد: ۲۶۳۸۰)
ایک دن محمد بن قیس نے کہا: کیا میں تمہیں اپنی اور اپنی والدہ سے ایک حدیث بیان نہ کر دوں؟ ہم نے سمجھا کہ اس کی مراد اس کی حقیقی والدہ ہے، پھر انہوں نے کہا: سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: کیا میں تمہیں اپنا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ایک واقعہ بیان کروں؟ میں نے عرض کیا:جی کیوں نہیں، پھر انھوں نے کہا: جب میری رات تھی اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (عشاء کے بعد) واپس تشریف لائے، چادر رکھی، جوتے اتار کر پائنتی کی طرف رکھ دیئے اور چادر کا ایک حصہ بستر پر بچھا کر لیٹ گئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کچھ دیر لیٹے رہے، (میرے خیال کے مطابق) جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سمجھا کہ میں سو گئی ہوں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آہستہ سے اپنی چادر اٹھائی، آرام سے جوتے پہنے اور دروازہ کھول کر باہر تشریف لے گئے اور آہستگی سے اسے بند کر دیا۔ اُدھر میں نے بھی اپنا دوپٹہ سنبھالا، سر پر رکھا، چادر اوڑھی، شلوار پہنی اور آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑی۔میں نے دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بقیع قبرستان میں جا پہنچے، وہاں کافی دیر کھڑے رہے اور تین مرتبہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے، بعد ازاں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس لوٹے اور میں بھی لوٹنے لگی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تیز تیز چلے تو میں نے بھی رفتار تیز کر دی،جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کچھ دوڑے تو میں بھی دوڑنے لگی۔ پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مزید تیز ہو گئے تو میں بھی مزید تیز ہو گئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آگے نکل گئی اور گھر پہنچ کر ابھی لیٹی ہی تھی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی تشریف لے آئے اور فرمایا: عائشہ! کیا بات ہے، سانس پھولا ہوا ہے، پیٹ اٹھا ہوا ہے؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کوئی بات نہیں ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم خود ہی مجھے بتا دو، ورنہ باریک بیں اور باخبر ربّ مجھے بتلا دے گا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے والدین آپ پر قربان ہوں، پھرمیں نے سارا واقعہ آپ کو بیان کر دیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو مجھے اپنے سامنے کالا سا وجود نظر آ رہا تھا، یہ تم تھی؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری کمر میں مکا مارا، جس سے مجھے تکلیف ہوئی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر زیادتی کریں گے؟ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا:لوگ جیسے مرضی چھپا لیں،لیکن اللہ تعالیٰ تو اسے جانتا ہی ہوتا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں،بات یہ تھی کہ جب تم نے مجھے دیکھا تھا اس وقت جبریل علیہ السلام نے آکر مجھے آواز دی اور آواز کو تم سے پوشیدہ رکھا، میں نے بھی اپنی آواز کو تم سے مخفی رکھتے ہوئے اس کی بات کا جواب دیا، وہ اس وقت تمہارے پاس تو آ نہیں سکتا تھا، کیونکہ تم نے کپڑے وغیرہ ایک طرف رکھے ہوئے تھے، جبکہ میں نے سمجھا تھا تم سو چکی ہو اورتمہیں جگانا بھی مناسب نہ سمجھا، تاکہ تم اکیلی پریشان نہ ہو جائو، جبریل علیہ السلام نے مجھے کہا: آپ کا ربّ آپ کو حکم دے رہا ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بقیع والوں کے پاس جا کر اس کے لیے بخشش کی دعا کریں، (اس لیے میں چلا گیا تھا)۔ پھر سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: میں نے عرض کیاکہ اے اللہ کے رسول! میں کیسے دعا پڑھا کروں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم یوں کہا کرو: اَلسَّلَامُ عَلٰی أَہْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُسْلِمِیْنَ وَیَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِیْنَ، وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللّٰہُ لَلَاحِقُوْنَ۔ (سلامتی ہو ان گھروں والے مومنوں اور مسلمانوں پر اور اللہ تعالیٰ ہم سے پہلے والوں اور بعد والوں پر رحم کرے اور ہم بھی ان شاء اللہ ملنے والے ہیں۔ )
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11431

۔ (۱۱۴۳۱)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: صَلَّیْتُ صَلَاۃً کُنْتُ أُصَلِّیْہَا عَلٰی عَہْدِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَوْ أَنَّ اَبِیْ نَشَرَ فَنَہَانِیْ عَنْہَا مَا تَرَکْتُہَا۔ (مسند احمد: ۲۵۵۹۰)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عہد میں ایک (نفل) نماز پڑھا کرتی تھی۔ اب اگر میرے والد بھی قبر سے اٹھ کر آکر مجھے اس سے منع کریں تو میں اس نماز کو ترک نہ کروں گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11432

۔ (۱۱۴۳۲)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ: أَخْبَرَنِی سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ، وَعُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ، وَعَلْقَمَۃُ بْنُ وَقَّاصٍ، وَعُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ حَدِیثِ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ قَالَ لَہَا أَہْلُ الْإِفْکِ مَا قَالُوْا فَبَرَّأَہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، وَکُلُّہُمْ حَدَّثَنِی بِطَائِفَۃٍ مِنْ حَدِیثِہَا، وَبَعْضُہُمْ کَانَ أَوْعٰی لِحَدِیثِہَا مِنْ بَعْضٍ، وَأَثْبَتَ اقْتِصَاصًا، وَقَدْ وَعَیْتُ عَنْ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمُ الْحَدِیثَ الَّذِی حَدَّثَنِی، وَبَعْضُ حَدِیثِہِمْیُصَدِّقُ بَعْضًا، ذَکَرُوْا أَنَّ عَائِشَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا أَرَادَ أَنْ یَخْرُجَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَیْنَ نِسَائِہِ فَأَیَّتُہُنَّ خَرَجَ سَہْمُہَا خَرَجَ بِہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَعَہُ، قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَأَقْرَعَ بَیْنَنَا فِی غَزْوَۃٍ غَزَاہَا فَخَرَجَ فِیہَا سَہْمِی فَخَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَذٰلِکَ بَعْدَمَا أُنْزِلَ الْحِجَابُ فَأَنَا أُحْمَلُ فِی ہَوْدَجِی، وَأَنْزِلُ فِیہِ مَسِیرَنَا حَتّٰی إِذَا فَرَغَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ غَزْوِہِ وَقَفَلَ وَدَنَوْنَا مِنَ الْمَدِینَۃِ آذَنَ لَیْلَۃً بِالرَّحِیلِ، فَقُمْتُ حِینَ آذَنُوا بِالرَّحِیلِ، فَمَشَیْتُ حَتّٰی جَاوَزْتُ الْجَیْشَ، فَلَمَّا قَضَیْتُ شَأْنِی أَقْبَلْتُ إِلَی الرَّحْلِ فَلَمَسْتُ صَدْرِی فَإِذَا عِقْدٌ مِنْ جَزْعِ ظَفَارٍ قَدْ اِنْقَطَعَ، فَرَجَعْتُ فَالْتَمَسْتُ عِقْدِیْ فَاحْتَبَسَنِیْ ابْتِغَاؤُہُ وَأَقْبَلَ الرَّہْطُ الَّذِی کَانُوا یَرْحَلُونَ بِی، فَحَمَلُوا ہَوْدَجِی فَرَحَلُوہُ عَلٰی بَعِیرِی الَّذِی کُنْتُ أَرْکَبُ، وَہُمْ یَحْسَبُونَ أَنِّی فِیہِ، قَالَتْ: کَانَتِ النِّسَائُ إِذْ ذَاکَ خِفَافًا لَمْ یُہَبِّلْہُنَّ وَلَمْ یَغْشَہُنَّ اللَّحْمُ، إِنَّمَا یَأْکُلْنَ الْعُلْقَۃَ مِنْ الطَّعَامِ، فَلَمْ یَسْتَنْکِرْ الْقَوْمُ ثِقَلَ الْہَوْدَجِ حِینَ رَحَلُوہُ وَرَفَعُوہُ، وَکُنْتُ جَارِیَۃً حَدِیثَۃَ السِّنِّ، فَبَعَثُوا الْجَمَلَ وَسَارُوا، فَوَجَدْتُ عِقْدِی بَعْدَمَا اسْتَمَرَّ الْجَیْشُ، فَجِئْتُ مَنَازِلَہُمْ وَلَیْسَ بِہَا دَاعٍ وَلَا مُجِیبٌ، فَیَمَّمْتُ مَنْزِلِی الَّذِی کُنْتُ فِیہِ وَظَنَنْتُ أَنَّ الْقَوْمَ سَیَفْقِدُونِی فَیَرْجِعُوا إِلَیَّ، فَبَیْنَمَا أَنَا جَالِسَۃٌ فِی مَنْزِلِی غَلَبَتْنِی عَیْنِی فَنِمْتُ، وَکَانَ صَفْوَانُ بْنُ الْمُعَطَّلِ السُّلَمِیُّ، ثُمَّ الذَّکْوَانِیُّ قَدْ عَرَّسَ وَرَائَ الْجَیْشِ، فَأَدْلَجَ فَأَصْبَحَ عِنْدَ مَنْزِلِی فَرَأٰی سَوَادَ إِنْسَانٍ نَائِمٍ فَأَتَانِی فَعَرَفَنِی حِینَ رَآنِی وَقَدْ کَانَ یَرَانِی قَبْلَ أَنْ یُضْرَبَ عَلَیَّ الْحِجَابُ، فَاسْتَیْقَظْتُ بِاسْتِرْجَاعِہِ حِینَ عَرَفَنِی فَخَمَّرْتُ وَجْہِی بِجِلْبَابِی، فَوَاللّٰہِ! مَا کَلَّمَنِی کَلِمَۃً وَلَا سَمِعْتُ مِنْہُ کَلِمَۃً غَیْرَ اسْتِرْجَاعِہِ، حَتّٰی أَنَاخَ رَاحِلَتَہُ فَوَطِئَ عَلٰییَدِہَا فَرَکِبْتُہَا فَانْطَلَقَ یَقُودُ بِی الرَّاحِلَۃَ حَتّٰی أَتَیْنَا الْجَیْشَ بَعْدَمَا نَزَلُوا مُوغِرِینَ فِی نَحْرِ الظَّہِیرَۃِ فَہَلَکَ مَنْ ہَلَکَ فِی شَأْنِی، وَکَانَ الَّذِی تَوَلّٰی کِبْرَہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أُبَیِّ ابْنِ سَلُولَ، فَقَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ فَاشْتَکَیْتُ حِینَ قَدِمْنَا شَہْرًا وَالنَّاسُ یُفِیضُونَ فِی قَوْلِ أَہْلِ الْإِفْکِ، وَلَمْ أَشْعُرْ بِشَیْئٍ مِنْ ذٰلِکَ، وَہُوَ یُرِیبُنِی فِی وَجَعِی أَنِّی لَا أَعْرِفُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللُّطْفَ الَّذِی کُنْتُ أَرٰی مِنْہُ حِینَ أَشْتَکِی، إِنَّمَا یَدْخُلُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَیُسَلِّمُ ثُمَّ یَقُولُ: ((کَیْفَ تِیکُمْ)) فَذَاکَ یَرِیبُنِی وَلَا أَشْعُرُ بِالشَّرِّ حَتّٰی خَرَجْتُ بَعْدَمَا نَقِہْتُ، وَخَرَجَتْ مَعِی أُمُّ مِسْطَحٍ قِبَلَ الْمَنَاصِعِ وَہُوَ مُتَبَرَّزُنَا وَلَا نَخْرُجُ إِلَّا لَیْلًا إِلٰی لَیْلٍ، وَذٰلِکَ قَبْلَ أَنْ تُتَّخَذَ الْکُنُفُ قَرِیبًا مِنْ بُیُوتِنَا وَأَمْرُنَا أَمْرُ الْعَرَبِ الْأُوَلِ فِی التَّنَزُّہِ، وَکُنَّا نَتَأَذَّی بِالْکُنُفِ أَنْ نَتَّخِذَہَا عِنْدَ بُیُوتِنَا، وَانْطَلَقْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ وَہِیَ بِنْتُ أَبِی رُہْمِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ، وَأُمُّہَا بِنْتُ صَخْرِ بْنِ عَامِرٍ خَالَۃُ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ، وَابْنُہَا مِسْطَحُ بْنُ أُثَاثَۃَ بْنِ عَبَّادِ بْنِ الْمُطَّلِبِ، وَأَقْبَلْتُ أَنَا وَبِنْتُ أَبِی رُہْمٍ قِبَلَ بَیْتِی حِینَ فَرَغْنَا مِنْ شَأْنِنَا فَعَثَرَتْ أُمُّ مِسْطَحٍ فِی مِرْطِہَا، فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ، فَقُلْتُ لَہَا: بِئْسَمَا قُلْتِ تَسُبِّینَ رَجُلًا قَدْ شَہِدَ بَدْرًا، قَالَتْ: أَیْ ہَنْتَاہُ أَوَلَمْ تَسْمَعِی مَا قَالَ؟ قُلْتُ: وَمَاذَا قَالَ؟ فَأَخْبَرَتْنِی بِقَوْلِ أَہْلِ الْإِفْکِ فَازْدَدْتُ مَرَضًا إِلٰی مَرَضِی، فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلٰی بَیْتِی فَدَخَلَ عَلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: ((کَیْفَ تِیکُمْ؟)) قُلْتُ: أَتَأْذَنُ لِی أَنْ آتِیَ أَبَوَیَّ، قَالَتْ: وَأَنَا حِینَئِذٍ أُرِیدُ أَنْ أَتَیَقَّنَ الْخَبَرَ مِنْ قِبَلِہِمَا، فَأَذِنَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللَّہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجِئْتُ أَبَوَیَّ، فَقُلْتُ لِأُمِّی: یَا أُمَّتَاہْ! مَا یَتَحَدَّثُ النَّاسُ؟ فَقَالَتْ: أَیْ بُنَیَّۃُ! ہَوِّنِی عَلَیْکِ، فَوَاللّٰہِ لَقَلَّمَا کَانَتْ امْرَأَۃٌ قَطُّ وَضِیئَۃً عِنْدَ رَجُلٍ یُحِبُّہَا وَلَہَا ضَرَائِرُ إِلَّا کَثَّرْنَ عَلَیْہَا، قَالَتْ: قُلْتُ: سُبْحَانَ اللّٰہِ! أَوَقَدْ تَحَدَّثَ النَّاسُ بِہٰذَا، قَالَتْ: فَبَکَیْتُ تِلْکَ اللَّیْلَۃَ حَتّٰی أَصْبَحْتُ لَا یَرْقَأُ لِی دَمْعٌ وَلَا أَکْتَحِلُ بِنَوْمٍ، ثُمَّ أَصْبَحْتُ أَبْکِی، وَدَعَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ وَأُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ حِینَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْیُ لِیَسْتَشِیرَہُمَا فِی فِرَاقِ أَہْلِہِ، قَالَتْ: فَأَمَّا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ فَأَشَارَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالَّذِییَعْلَمُ مِنْ بَرَائَۃِ أَہْلِہِ وَبِالَّذِییَعْلَمُ فِی نَفْسِہِ لَہُمْ مِنَ الْوُدِّ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ہُمْ أَہْلُکَ وَلَا نَعْلَمُ إِلَّا خَیْرًا، وَأَمَّا عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ فَقَالَ: لَمْ یُضَیِّقِ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْکَ، وَالنِّسَائُ سِوَاہَا کَثِیرٌ، وَإِنْ تَسْأَلِ الْجَارِیَۃَ تَصْدُقْکَ، قَالَتْ: فَدَعَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَرِیرَۃَ قَالَ: ((أَیْ بَرِیرَۃُ! ہَلْ رَأَیْتِ مِنْ شَیْئٍیَرِیبُکِ مِنْ عَائِشَۃَ؟)) قَالَتْ لَہُ بَرِیرَۃُ: وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ إِنْ رَأَیْتُ عَلَیْہَا أَمْرًا قَطُّ أَغْمِصُہُ عَلَیْہَا أَکْثَرَ مِنْ أَنَّہَا جَارِیَۃٌ حَدِیثَۃُ السِّنِّ تَنَامُ عَنْ عَجِینِ أَہْلِہَا فَتَأْتِی الدَّاجِنُ فَتَأْکُلُہُ، فَقَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاسْتَعْذَرَ مِنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُبَیٍّ ابْنِ سَلُولَ، فَقَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ: ((یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ مَنْ یَعْذِرُنِی مِنْ رَجُلٍ قَدْ بَلَغَنِی أَذَاہُ فِی أَہْلِ بَیْتِی، فَوَاللّٰہِ! مَا عَلِمْتُ عَلٰی أَہْلِی إِلَّا خَیْرًا، وَلَقَدْ ذَکَرُوا رَجُلًا مَا عَلِمْتُ عَلَیْہِ إِلَّا خَیْرًا، وَمَا کَانَ یَدْخُلُ عَلٰی أَہْلِی إِلَّا مَعِی)) فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ الْأَنْصَارِیُّ فَقَالَ: لَقَدْ أَعْذِرُکَ مِنْہُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنْ کَانَ مِنْ الْأَوْسِ ضَرَبْنَا عُنُقَہُ وَإِنْ کَانَ مِنْ إِخْوَانِنَا مِنَ الْخَزْرَجِ أَمَرْتَنَا فَفَعَلْنَا أَمْرَکَ، قَالَتْ: فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ وَہُوَ سَیِّدُ الْخَزْرَجِ وَکَانَ رَجُلًا صَالِحًا وَلٰکِنْ اجْتَہَلَتْہُ الْحَمِیَّۃُ، فَقَالَ لِسَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ: لَعَمْرُ اللّٰہِ لَا تَقْتُلُہُ وَلَا تَقْدِرُ عَلٰی قَتْلِہِ، فَقَامَ أُسَیْدُ بْنُ حُضَیْرٍ وَہُوَ ابْنُ عَمِّ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَقَالَ لِسَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ: کَذَبْتَ لَعَمْرُ اللّٰہِ لَنَقْتُلَنَّہُ فَإِنَّکَ مُنَافِقٌ تُجَادِلُ عَنِ الْمُنَافِقِینَ، فَثَارَ الْحَیَّانِ الْأَوْسُ وَالْخَزْرَجُ حَتّٰی ہَمُّوا أَنْ یَقْتَتِلُوا وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَائِمٌ عَلَی الْمِنْبَرِ، فَلَمْ یَزَلْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُخَفِّضُہُمْ حَتّٰی سَکَتُوا وَسَکَتَ، قَالَتْ: وَبَکَیْتُیَوْمِی ذَاکَ لَا یَرْقَأُ لِی دَمْعٌ وَلَا أَکْتَحِلُ بِنَوْمٍ، ثُمَّ بَکَیْتُ لَیْلَتِی الْمُقْبِلَۃَ لَا یَرْقَأُ لِی دَمْعٌ وَلَا أَکْتَحِلُ بِنَوْمٍ، وَأَبَوَایَیَظُنَّانِ أَنَّ الْبُکَائَ فَالِقٌ کَبِدِی، قَالَتْ: فَبَیْنَمَا ہُمَا جَالِسَانِ عِنْدِی وَأَنَا أَبْکِی اِسْتَاْذَنَتْ عَلَیَّ امْرَأَۃٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَأُذِنَتْ لَھَا فَجَلَسَتْ تَبْکِیْ مَعِی، فَبَیْنَمَا نَحْنُ عَلٰی ذٰلِکَ دَخَلَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ، قَالَتْ: وَلَمْ یَجْلِسْ عِنْدِی مُنْذُ قِیلَ لِی مَا قِیلَ، وَقَدْ لَبِثَ شَہْرًا لَا یُوحٰی إِلَیْہِ فِی شَأْنِی شَیْئٌ، قَالَتْ: فَتَشَہَّدَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ جَلَسَ ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ یَا عَائِشَۃُ! فَإِنَّہُ قَدْ بَلَغَنِی عَنْکِ کَذَا وَکَذَا، فَإِنْ کُنْتِ بَرِیئَۃً فَسَیُبَرِّئُکِ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِنْ کُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ فَاسْتَغْفِرِی اللّٰہَ ثُمَّ تُوبِی إِلَیْہِ، فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ بِذَنْبٍ ثُمَّ تَابَ تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ، قَالَتْ: فَلَمَّا قَضٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَقَالَتَہُ قَلَصَ دَمْعِی حَتّٰی مَا أُحِسُّ مِنْہُ قَطْرَۃً، فَقُلْتُ لِأَبِی: أَجِبْ عَنِّی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیمَا قَالَ، فَقَالَ: مَا أَدْرِی وَاللّٰہِ مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ لِأُمِّی: أَجِیبِی عَنِّی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ: وَاللّٰہِ مَا أَدْرِی مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: فَقُلْتُ وَأَنَا جَارِیَۃٌ حَدِیثَۃُ السِّنِّ لَا أَقْرَأُ کَثِیرًا مِنَ الْقُرْآنِ: إِنِّی وَاللّٰہِ قَدْ عَرَفْتُ أَنَّکُمْ قَدْ سَمِعْتُمْ بِہٰذَا حَتَّی اسْتَقَرَّ فِی أَنْفُسِکُمْ وَصَدَّقْتُمْ بِہِ، وَلَئِنْ قُلْتُ لَکُمْ: إِنِّی بَرِیئَۃٌ وَاللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ یَعْلَمُ أَنِّی بَرِیئَۃٌ لَا تُصَدِّقُونِی بِذٰلِکَ، وَلَئِنْ اعْتَرَفْتُ لَکُمْ بِأَمْرٍ وَاللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ یَعْلَمُ أَنِّی بَرِیئَۃٌ تُصَدِّقُونِی، وَإِنِّی وَاللّٰہِ مَا أَجِدُ لِی وَلَکُمْ مَثَلًا إِلَّا کَمَا قَالَ أَبُو یُوسُفَ: {فَصَبْرٌ جَمِیلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُونَ} قَالَتْ: ثُمَّ تَحَوَّلْتُ فَاضْطَجَعْتُ عَلٰی فِرَاشِی، قَالَتْ: وَأَنَا وَاللّٰہِ حِینَئِذٍ أَعْلَمُ أَنِّی بَرِیئَۃٌ وَأَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ مُبَرِّئِی بِبَرَاء َتِی، وَلٰکِنْ وَاللّٰہِ مَا کُنْتُ أَظُنُّ أَنْ یَنْزِلَفِی شَأْنِی وَحْیٌیُتْلٰی وَلَشَأْنِی کَانَ أَحْقَرَ فِی نَفْسِی مِنْ أَنْ یَتَکَلَّمَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیَّ بِأَمْرٍ یُتْلٰی، وَلٰکِنْ کُنْتُ أَرْجُو أَنْ یَرٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی النَّوْمِ رُؤْیَایُبَرِّئُنِی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہَا، قَالَتْ: فَوَاللّٰہِ مَا رَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ مَجْلِسِہِ، وَلَا خَرَجَ مِنْ أَہْلِ الْبَیْتِ أَحَدٌ حَتّٰی أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَلٰی نَبِیِّہِ، وَأَخَذَہُ مَا کَانَ یَأْخُذُہُ مِنَ الْبُرَحَائِ عِنْدَ الْوَحْیِ حَتّٰی إِنَّہُ لَیَتَحَدَّرُ مِنْہُ مِثْلُ الْجُمَانِ مِنِ الْعَرَقِ فِی الْیَوْمِ الشَّاتِی مِنْ ثِقَلِ الْقَوْلِ الَّذِی أُنْزِلَ عَلَیْہِ، قَالَتْ: فَلَمَّا سُرِّیَ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یَضْحَکُ فَکَانَ أَوَّلُ کَلِمَۃٍ تَکَلَّمَ بِہَا أَنْ قَالَ: ((أَبْشِرِییَا عَائِشَۃُ! أَمَّا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فَقَدْ بَرَّأَکِ)) فَقَالَتْ لِی أُمِّی: قُومِی إِلَیْہِ، فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ! لَا أَقُومُ إِلَیْہِ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: وَلَا أَحْمَدُہُ وَلَا أَحْمَدُکُمَا لَقَدْ سَمِعْتُمُوہُ فَمَا أَنْکَرْتُمُوہُ وَلَا غَیَّرْتُمُوہُ) وَلَا أَحْمَدُ إِلَّا اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ ہُوَ الَّذِی أَنْزَلَ بَرَاء َتِی، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنَّ الَّذِینَ جَائُ وْا بِالْإِفْکِ عُصْبَۃٌ مِنْکُمْ} عَشْرَ آیَاتٍ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ہٰذِہِ الْآیَاتِ بَرَائَ تِی قَالَتْ: فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ وَکَانَ یُنْفِقُ عَلٰی مِسْطَحٍ لِقَرَابَتِہِ مِنْہُ وَفَقْرِہِ: وَاللّٰہِ لَا أُنْفِقُ عَلَیْہِ شَیْئًا أَبَدًا بَعْدَ الَّذِی قَالَ لِعَائِشَۃَ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلَا یَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ إِلٰی قَوْلِہِ أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ یَغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ} فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: وَاللّٰہِ إِنِّی لَأُحِبُّ أَنْ یَغْفِرَ اللّٰہُ لِی فَرَجَعَ إِلٰی مِسْطَحٍ النَّفَقَۃَ الَّتِی کَانَ یُنْفِقُ عَلَیْہِ، وَقَالَ: لَا أَنْزِعُہَا مِنْہُ أَبَدًا، قَالَتْ عَائِشَۃُ: وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَأَلَ زَیْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ زَوْجَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ أَمْرِی: ((وَمَا عَلِمْتِ أَوْ مَا رَأَیْتِ أَوْ مَا بَلَغَکِ)) قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ أَحْمِی سَمْعِی وَبَصَرِی، وَأَنَا مَا عَلِمْتُ إِلَّا خَیْرًا، قَالَتْ عَائِشَۃُ: وَہِیَ الَّتِی کَانَتْ تُسَامِینِی مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَعَصَمَہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِالْوَرَعِ، وَطَفِقَتْ أُخْتُہَا حَمْنَۃُ بِنْتُ جَحْشٍ تُحَارِبُ لَہَا فَہَلَکَتْ فِیمَنْ ہَلَکَ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شِہَابٍ: فَہٰذَا مَا انْتَہٰی إِلَیْنَا مِنْ أَمْرِ ہٰؤُلَاء ِ الرَّہْطِ۔ (مسند احمد: ۲۶۱۴۱)
امام زہری نے کہا:مجھے سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر، علقمہ بن وقاص، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے زوجۂ نبی سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا واقعہ بیان کیا ،جب ان کے متعلق اہل افک نے ان پر الزام تراشی کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی براء ت نازل فرمائی، زہری نے کہا کہ میرے ان تمام مشائخ نے اس حدیث کا تھوڑا تھوڑا حصہ بیان کیا، ان میں سے بعض دوسروں کی بہ نسبت اس واقعہ کو زیادہیاد رکھنے والے اور بہتر طور پر بیان کرنے والے تھے۔ ان مشائخ میں سے ہر ایک سے میں نے وہ یاد کی ہے، ان میں سے بعض کا بیان دوسرے بعض کے بیان کی تصدیق کرتا ہے، ان حضرات نے بیان کیا کہ زوجۂ نبی ام المؤمنین سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب سفر پر روانہ ہوتے تو اپنی ازواج کے درمیان قرعہ ڈالتے، جس کے نام کا قرعہ نکل آتا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سفر میں اسے اپنے ساتھ لے جاتے۔ آپ ایک غزوہ کے لیے جانے لگے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمارے درمیان قرعہ اندازی کی۔ اس میں میرا نام نکل آیا۔ تو رسول اللہ کے ہمراہ سفر پر میں روانہ ہوئی۔ یہ واقعہ نزول حجاب سے بعد کا ہے۔ میں ہودج میں ہوتی۔ دوران سفر اسی طرح مجھے اونٹ سے اتارا اور اٹھا کر سوار کیا جاتا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب غزوہ سے فارغ ہو کر واپس روانہ ہوئے اور ہم مدینہ کے قریب آ پہنچے تو آپ نے ایک رات قیام و نزول کے بعد رات کے وقت ہی روانگی کا حکم فرمایا۔ جب ان لوگوں نے روانگی کا اعلان کیا تو میں اٹھ کر لشکر سے ذرا دورقضائے حاجت کے لیے گئی۔ میں فارغ ہو کر اپنی سواری کے قریب پہنچی تو میں نے اپنے سینے پر ہاتھ لگایا ۔ تو مجھے پتہ چلا کہ ارض یمن میں مقام ظفار کی کوڑیوں سے بنا ہوا میرا ہار ٹوٹ کر کہیں گر چکا تھا۔ میں وہاں سے ادھر کو ہار کی تلاش میں واپس گئی۔ ہار کی تلاش میں مجھے دیر لگ گئی۔ جو لوگ میرا ہودج اٹھانے پر مامور تھے۔ انہوںنے آکر میرا ہودج اٹھا کر اس اونٹ پر رکھ دیا۔ جس پر میں سفر کرتی اور سوار ہوتی تھی۔ انہوںنے سمجھا کہ میں ہودج کے اندر موجود ہوں۔ ان دنوں عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں۔ ان پر گوشت کی تہیں چڑھی ہوئی نہ ہوتی تھی۔ وہ بہت کم کھانا کھایا کرتی تھیں۔ ان لوگوں نے جب ہودج کو اٹھا کر اونٹ پر رکھا تو انہیں ہودج کے وزن کا کچھ احساس نہ ہو سکا۔ میں بھی ان دنوں نو عمر تھی۔ وہ اونٹ کو اٹھا کر چل پڑے۔ لشکر روانہ ہو جانے کے بعد مجھے ہار ملا۔ میں لشکر والی جگہ آئی تو وہاں کوئی بلانے والا یا جواب دینے والا فرد بشر نہ تھا۔ تو میں اسی جگہ گئی جہاں میں ٹھہرئی ہوئی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ یہ لو گ عنقریب مجھے ہودج میں نہ پائیں گے تو میری تلاش میں ادھر ہی آئیں گے۔میں اپنی اسی جگہ بیٹھی تھی کہ مجھے نیند نے آلیا۔ اور میں سو گئی۔ صفوان بن معطل السلمی الزکوانی وہ لشکر کے پیچھے کہیں رات کے آخری حصہ میں آرام کرکے آئے۔ تو صبح کے وقت وہ اس جگہ آ پہنچے جہاں میں موجود تھی۔ انہوںنے سوئے ہوئے ایک آدمی کا ہیولا دیکھا۔ وہ میرے قریب آئے تو انہوں نے مجھے دیکھتے ہی پہنچان لیا۔ کیونکہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے قبل انہوں نے مجھے دیکھا ہوا تھا۔ انہوںنے مجھے پہنچانتے ہی بطور اظہار پریشانی بلند آواز سے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ ان کی آواز سے میں بیدار ہوگئی۔ میں نے جلدی سے اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ اللہ کی قسم انہوں نے مجھے ایک بھی لفظ نہ کہا اور نہ میں نے ان کی زبان سے انا للّٰہِ کے سوا دوسرا کوئی لفظ سنا۔ انہوںنے اپنا اونٹ بٹھلا کر اس کے ہاتھ پر یعنی اگلی ٹانگ پر اپنا پائوں رکھ دیا تاکہ وہ کھڑا نہ ہو۔ میں اس پر سوار ہوگئی۔ وہ مجھے سواری پر سوار کرکے آگے چلتے گئے۔ یہاں تک کہ دوپہر کے وقت جبکہ لشکر ایک مقام پر سستانے کے لیے رکا ہوا تھا۔ ہم بھی لشکر میں جا پہنچے۔ بات صرف اتنی ہی تھی لیکن میرے بارے میں باتیں کرکے جن لوگوں نے ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہوئے۔ ان کا سرغنہ عبداللہ بن ابی بن سلول تھا۔ مدینہ منورہ پہنچ کر میں تو ایک مہینہ تک بیمار پڑی رہی۔ اور لوگ اہل افک کی باتوں میں آکر چہ میگوئیاں کرتے رہے۔ مجھے ان میں سے کسی بھی بات کا علم نہ ہوا۔ صرف اتنا تھا کہ اس سے قبل میں جب بیمار ہوتی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جس قدر توجہ میری طرف ہوتی تھی۔ اس دفعہ میں ویسی توجہ محسوس نہ کر رہی تھی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لاتے اور سلام کہہ کر صرف اتنا دریافت کرتے کہ کیسے ہو؟ اس سے مجھے کچھ شک سا گزرتا تھا۔ لیکن مجھے اس فتنہ کا اندازہ نہ تھا جو بپاہوچکا تھا۔ مجھے کافی نقاہت ہو چکی تھی کہ میں ایک دن باہر گئی۔ میرے ساتھ ام مسطح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بھی مناصع کی طرف ساتھ آئیں۔ یہ ہماری قضائے حاجت کی جگہ تھی۔ اور ہم صرف رات کو و ہی قضائے حاجت کے لیے باہر جایا کرتی تھیں۔ یہ گھروں کے قریب بیوت الخلاء بنائے جانے سے پہلے کی بات ہے۔ اور قضائے حاجت کے بارے میں ہمارا معمول پہلے عربوں کا تھا۔ ہم گھروں کے قریب بیوت الخلاء بنانے میں تکلیف اور ناگواری محسوس کیا کرتے تھے۔ام مسطح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، یہ ابو رہم بن مطلب بن عبد مناف کی دختر تھیں اور ان کی ماں ضحر بن عامر کی بیٹی اور ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خالہ تھیں۔ ان کا بیٹا مسطح بن اثاثہ بن عباد بن مطلب تھا۔ میں اور ام مسطح بنت ابی رھم قضائے حاجت کے بعد میرے گھر کی طرف آرہی تھیں کہ ام مسطح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اپنی چادر میں الجھ کر گر گئیں۔ اور بولیں مسطح ہلاک ہو۔ میں نے ان سے کہا آپ نے بہت غلط بات کہہ دی۔ آپ ایک ایسے آدمی کو برا بھلا کہہ رہی ہیں جو کہ بدری ہے۔ انہوں نے کہا، اری! کیا تم نے اس کی بات نہیں سنی کہ اس نے کیا کہا ہے؟ میں نے پوچھا … اس نے کیا کہا ہے؟ تب انہوںنے مجھے اہل افک کی ساری بات بتلائی۔ یہ سن کر میری تو بیماری میں اضافہ ہو گیا۔ میں گھر آئی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ اور سلام کہا۔ اور پوچھا کیسی ہو؟ میں نے عرض کیا کیا آپ مجھے اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ میں اپنے والدین کے ہاں چلی جائوں؟ میں اس وقت ان باتوں کے متعلق اپنے والدین سے تصدیق کرانا چاہتی تھی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے میرے والدین کے ہاں جانے کی اجازت دے دی۔ میں اپنے والدین کے ہاں آگئی۔ میں نے کہا اماں جان! لوگ یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا بیٹی! صبر کرو۔ برداشت کرو۔ اللہ کی قسم! جو عورت خوبصورت ہو اور اس کا شوہر بھی اس سے محبت کرتا ہو اور اس کی سو تنیس بھی ہوں تو وہ اس کے بارے میں بہت سی باتیں بنایا کرتی ہیں ۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں نے کہا سبحان اللہ! تو کیا عام لوگ بھی ایسی باتیں کرنے لگے ہیں؟ سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں کہ میں ساری رات صبح تک روتی رہی۔ میرے آنسو رکتے نہ تھے۔ اور نہ آنکھوں میں نیند ہی آتی تھی۔ آخر روتے روتے صبح ہوگئی۔ ایک طویل عرصہ تک وحی بھی نازل نہ ہوئی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو بلوایاآپ ان سے اپنی زوجہ کو طلاق دینے کے بارے میں مشورہ کرنا چاہتے تھے۔ تو اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اپنے علم کے مطابق زوجۂ نبی کی براء ت کا اظہار کیا البتہ علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں کی۔عورتیں اس کے علاوہ بھی بہت ہیں۔ اور اگر آپ لونڈی سے پوچھ لیں وہ آپ سے صحیح صحیح بیان کرے گی۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو بلوا کر فرمایا اے بریرہ! کیا تم نے عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا میں کبھی کوئی ایسی بات دیکھی ہے جو تجھے اچھی نہ لگی ہو؟ تو بریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں نے تو ان میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جو ذکر کر سکوں۔ زیادہ سے زیادہ صرف اتنا ہے کہ وہ نو عمر لڑکی ہے۔ آٹے کی طرف سے غافل ہو کر سو جاتی ہے اور بکری آکر آٹا کھا جاتی ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھڑے ہو کر عبداللہ بن ابی ابن سلول کے متعلق لوگوں کے سامنے اپنی معذوری پیش کی۔ آپ نے منبر پر فرمایا اے مسلمانو! کونسا آدمی مجھے اس آدمی کے بارے میں معذور سمجھتا ہے۔ جس کی ایذاء اب تجاوز کرکے میرے اہل بیت تک جا پہنچی ہے۔ اللہ کی قسم! میں اپنے اہل کے متعلق خیر اور بہتر ہی جانتا ہوں۔ ان تہمت لگانے والوں نے ایک ایسے آدمی کا نام لیایعنی اس پر تہمت لگائی ہے اس کے متعلق بھی میں خیر اور بہترہی جانتا ہوں۔وہ میرے گھر میں میری غیر موجودگی میں کبھی نہیں آیا۔ وہ جب بھی میرے گھر آیا میرے ہم راہ ہی آیا۔ یہ سن کر سعد بن معاذ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑے ہوئے اور بولے اللہ کے رسول! میں آپ کو اس بارے میں معذور سمجھتا ہوں۔ اگر وہ قبیلۂ اوس میں سے ہو تو ہم اس کی گردن اڑانے کو تیار ہیں۔ اور اگر وہ ہمارے بھائی بند قبیلے خزرج میں سے ہو تو حکم فرمائیں ہم آپ کے حکم کی تعمیل کریں گے۔ تو اس کی بات سن کر سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اٹھے جو کہ ایک صالح آدمی تھے۔ لیکن ان پر قومی غیرت وحمیت غالب آگئی انہوںنے سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ اللہ کی قسم! تم اسے نہ تو قتل کرو گے اور نہ قتل کر سکو گے۔ یہ سن کر سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا چچا زاد اسید بن حضیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑا ہوا اور اس نے سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ تم غلط کہہ رہے ہو۔ اللہ کی قسم! ہم ایسے آدمی کو ضرور قتل کر دیں گے۔ تم تو منافق ہو اور منافقین کا دفاع کر رہے ہو۔ قبیلہ اوس اور خزرج دونوں آپ میں الجھ گئے۔ یہاں تک کہ وہ لڑائی کے لیے تیار ہوگئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر ہی تھے۔ آپ انہیں خاموش کراتے رہے یہاں تک کہ سب لوگ خاموش ہوگئے۔ اور آپ بھی خاموش ہوگئے۔ میں اس دن بھی روتی ہی رہی۔ میرے آنسو تھمتے نہ تھے اور نہ نیند آئی تھی۔ میں اسی طرح اگلی رات بھی روتی رہی نہ آنسو رکے اور نہ نیند ہی آئی۔ میرے والدین کو یقین ہوگیا کہ میرایہ رونا میرے جگر کو پھاڑ ڈالے گا میں رو رہی تھی اور میرے والدین میرے پاس ہی بیٹھے تھے۔ اسی حال میں ایک انصاری خاتون نے میرے پاس آنے کی اجازت طلب کی۔ میں نے اسے آنے کی اجازت دے دی۔ وہ بیٹھ کر میرے ساتھ رونے لگی۔ ہم اسی کیفیت میں بیٹھے تھے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے آئے اور سلام کہہ کر بیٹھ گئے۔ جب سے میرے متعلق اس قسم کی باتیں اور شو شے پھیلے تھے آپ میرے پاس نہ بیٹھے تھے۔ ایک مہینہ گز ر چکا تھا میرے متعلق آپ پر کچھ بھی وحی نہ آرہی تھی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیٹھ کر خطبہ ارشاد فرمایا پھر کہا اما بعد، عائشہ!تمہارے متعلق مجھ تک اس قسم کی باتیں پہنچی ہیں۔ اگر تم ان الزامات سے بری ہو تو اللہ تعالیٰ تمہاری براء ت کا اعلان کر دے گا۔ اور اگر تم سے کوئی غلطی سرزد ہوگئی ہے تو اللہ سے معافی مانگ لو اور توبہ کرو۔ کیونکہ انسان جب گناہ کا اعتراف کرکے توبہ کرتا ہے تو اللہ بھی اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بات پوری کرلی تو میرے آنسو رک گئے۔ مجھے آنکھوں میں ایک بھی قطرہ کا احساس نہ ہوا۔ میں نے اپنے والد سے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جو کچھ کہا ہے آپ میری طرف سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جواب دیں۔ تو انھوں نے کہا اللہ کی قسم مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کیا جواب دوں؟ اس کے بعد میں نے اپنی والدہ سے کہا امی جان آپ میری طرف سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جواب دیں تو انہوںنے بھی کہا اللہ کی قسم مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کیا جواب دوں؟ سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں کہ میں ان دنوں نو عمر لڑکی تھی۔ زیادہ قرآن پڑھی ہوئی نہ تھی۔میں نے کہا کہ اللہ کی قسم میں جانتی ہوں کہ یہ باتیں سن سن کر تمہارے دلوں میں جاگزیں ہو چکی ہیں۔ اور تم ان کو صحیح سمجھنے لگے ہو۔ اگر میںیوں کہو کہ میں اس الزام سے بری ہوں اور اللہ تعالیٰ بھی جانتا ہے کہ میں بری ہوں تو تم میری بات کی تصدیق نہ کرو گے اور اگر میں غلطی کا اعتراف کر لوں جبکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اس الزام سے بری ہوں تو تم میری تصدیق کر دو گے۔ اللہ کی قسم! میں اس موقعہ پر اپنے اور تمہارے لیے وہی مثال صادق پاتی ہوں جیسا کہ یوسفg کے والد یعقوبg نے کہا تھا: {فَصَبْرٌ جَمِیلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُونَ} … صبر ہی بہتر ہے اور تم جو کچھ کہہ رہے ہو اس بارے میں اللہ ہی کی مدد کا خواستگار ہوں۔ (سورۂ یوسف :۱۸) سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں: میں اتنی بات کہہ کر منہ دوسری طرف کرکے اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ اللہ کی قسم میں اس وقت بھی جانتی تھی کہ میں اس الزام سے بری ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ میری برأت کا اعلان فرما دے گا۔ لیکن اللہ کی قسم میںیہ نہ سمجھتی تھی کہ میرے بارے میںکوئی ایسی وحی نازل ہوگی جس کی تلاوت کی جائے گی۔ میں اپنے آپ کو اس سے کہیں کم اور حقیر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے متعلق کوئی ایسی بات ارشاد فرمائے گا جس کی تلاوت کی جائے گی مجھے تو صرف اس قدر امید تھی کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نیند میں کوئی خواب دکھا کر اللہ تعالیٰ اس انداز سے میری برأت کر دے گا۔ سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابھی اپنی جگہ سے نہ اٹھے اور نہ گھر سے باہر تشریف لے گئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی نازل فرما دی۔ اور آپ کو پسینہ آنے لگا جیسا کہ نزول وحی کے وقت آپ کو آیا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ وحی کی شدت کیوجہ سے سردی کے دنوں میں بھی آپ کا پسینہ موتیوں کی طرح گرنے لگتا تھا۔ سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کییہ کیفیت زائل ہوئی تو آپ ہنس رہے تھے۔ آپ نے سب سے پہلے یہ بات کہی کہ عائشہ! خوش ہو جائو۔ اللہ تعالیٰ نے تمہاری برأت کا فیصلہ نازل کیا ہے۔ تو میری والدہ نے مجھ سے کہا کہ تم اٹھ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف جائو۔ تو میں نے کہا کہ اللہ قسم! میں اٹھ کر آپ کی طرف نہ جائوں گی۔ دوسری روایت میںیوں ہے کہ نہ ہی میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حمد کروں گی اور نہ آپ دونوں یعنی والدین کی حمد کروں گی کیونکہ آپ لوگوں نے یہ باتیں سن کر نہ تو ان کا انکار کیا اور نہ انہیں بدلنے کی کوشش کی۔ میں صرف اللہ تعالیٰ کی حمد کروں گی جس نے میری برأت کا فیصلہ نازل کیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے: {إِنَّ الَّذِینَ جَائُ وْا بِالْإِفْکِ عُصْبَۃٌ مِنْکُمْ} دس آیت نازل فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات میری برأت کے اعلان کے طور پر نازل کیں۔ سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ ابو بکرصدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مسطح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ رشتہ داری اور ان کے فقر کے سبب ان کو نفقہ دیا کرتے تھے۔ وہ کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! اب جبکہ وہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے متعلق الزام تراشی کر چکا ہے اس کے بعد میں اسے نفقہ بالکل نہ دوں گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {وَلَا یَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ إِلٰی قَوْلِہِ اَ لَا تُحِبُّونَ أَنْ یَغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ } … اور تم میں سے جو لوگ بزرگی والے اور مال دار ہیں وہ اس بات کی قسم نہ اٹھائیں کہ وہ رشتے داروں کو، مساکین کو اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرکے آنے والوں کو صدقات نہ دیں گے۔ بلکہ انہیں چاہیے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریںکیا تمہیںیہ بات پسند نہیں کہ اللہ تمہیں بخش دے ۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (سورۂ نور:۲۲) اس کے بعد سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو چاہتا ہوں کہ اللہ مجھے بخش دے۔ چنانچہ وہ مسطح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو جو نفقہ اس سے قبل دیا کرتے تھے وہ بحال کر دیا۔ اور فرمایا کہ اب میں اسے اس سے کبھی بھی منقطع نہیں کروں گا۔سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی زوجہ ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے بھی میرے متعلق دریافت کیا تھا کہ تم اس کے بارے میں کیا کچھ جانتی ہو؟ تم نے ان کو کیسا دیکھایا ان کے متعلق تم تک کیا بات پہنچی ہے؟ تو انہوں نے کہا اللہ کے رسول! میں اپنے کانوں اور آنکھوں کی حفاظت کرتی ہوں۔ اللہ کی قسم! میں تو ان کے متعلق اچھا ہی جانی ہوں۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیںکہ ازواج النبی میں سے صرف یہی ایک ایسی تھیں جو میرا مقابلہ کر سکتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے کوئی ایسی ویسی بات کہنے سے محفوظ رکھا۔ البتہ ان کی خواہر حمنہ بنت جحش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اپنی بہن کی طرف سے لڑائی میں کود پڑیں۔اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہوئیں۔ ابن شھاب زہری نے کہا کہ ان لوگوں کے متعلق ہمیںیہی کچھ معلوم ہوا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11433

۔ (۱۱۴۳۳)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بِنَحْوِہِ إِلَّا أَنَّہُ (یَعْنِی ابْنَ شِہَابٍ) قَالَ: آذَنَ لَیْلَۃً بِالرَّحِیلِ فَقُمْتُ حِینَ آذَنُوا بِالرَّحِیلِ، وَقَالَ مِنْ جَزْعِ ظَفَارٍ وَقَالَ: یُہَبَّلْنَ، وَقَالَ: فَیَمَّمْتُ مَنْزِلِی، وَقَالَ: قَالَ عُرْوَۃُ: أُخْبِرْتُ أَنَّہُ کَانَ یُشَاعُ وَیُحَدَّثُ بِہِ عِنْدَہُ فَیُقِرُّہُ وَیَسْتَمِعُہُ وَیَسْتَوْشِیہِ، وَقَالَ عُرْوَۃُ أَیْضًا: لَمْ یُسَمَّ مِنْ أَہْلِ الْإِفْکِ إِلَّا حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ وَمِسْطَحُ بْنُ أُثَاثَۃَ وَحَمْنَۃُ بِنْتُ جَحْشٍ فِی نَاسٍ آخَرِینَ لَا عِلْمَ لِی بِہِمْ إِلَّا أَنَّہُمْ عُصْبَۃٌ کَمَا قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِنَّ کِبْرَ ذٰلِکَ کَانَ یُقَالُ عِنْدَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُبَیِّ ابْنِ سَلُولَ، قَالَ عُرْوَۃُ: وَکَانَتْ عَائِشَۃُ تَکْرَہُ أَنْ یُسَبَّ عِنْدَہَا حَسَّانُ، وَتَقُولُ: إِنَّہُ الَّذِی قَالَ: فَإِنَّ أَبِی وَوَالِدَہُ وَعِرْضِی لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَائُ، وَقَالَتْ: وَأَمْرُنَا أَمْرُ الْعَرَبِ الْأُوَلِ فِی التَّنَزُّہِ، وَقَالَ لَہَا ضَرَائِرُ: وَقَالَ بِالَّذِییَعْلَمُ مِنْ بَرَائَۃِ أَہْلِہِ، وَقَالَ: فَتَأْتِی الدَّاجِنُ فَتَأْکُلُہُ، وَقَالَ: وَإِنْ کَانَ مِنْ إِخْوَانِنَا الْخَزْرَجِ، وَقَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْخَزْرَجِ وَکَانَتْ أُمُّ حَسَّانَ بِنْتَ عَمِّہِ مِنْ فَخِذِہِ وَہُوَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ وَہُوَ سَیِّدُ الْخَزْرَجِ، قَالَتْ: وَکَانَ قَبْلَ ذَلِکَ رَجُلًا صَالِحًا وَلٰکِنِ احْتَمَلَتْہُ الْحَمِیَّۃُ، وَقَالَ: قَلَصَ دَمْعِی، وَقَالَ: وَطَفِقَتْ أُخْتُہَا حَمْنَۃُ تُحَارِبُ لَہَا، وَقَالَ عُرْوَۃُ: قَالَتْ عَائِشَۃُ: وَاللّٰہِ إِنَّ الرَّجُلَ الَّذِی قِیلَ لَہُ مَا قِیلَ لَیَقُولُ: سُبْحَانَ اللّٰہِ! فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ مَا کَشَفْتُ عَنْ کَنَفِ أُنْثٰی قَطُّ، قَالَتْ: ثُمَّ قُتِلَ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ شَہِیدًا۔ (مسند احمد: ۲۶۱۴۲)
۔(دوسری زید) ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے گزشتہ حدیث کی مانند ہی مروی ہے۔ البتہ ابن شہاب زہری نے یوں بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک رات روانگی کا حکم دیا تو اس اعلان کو سن کر میں اٹھی۔ اسی طرح زہری نے ہار کے متعلق بیان کیا کہ وہ مقام ظفار کے موتیوں سے بنا ہوا تھا۔ نیز اس نے لفظ یُہَبَّلْنَ کہا ہے، یعنی عورتیں زیادہ بھاری جسامت والی نہیں ہوتی تھیں۔ اسی طرح اس نے فَیَمَّمْتُ مَنْزِلِی (میں نے اپنے مقام کا قصد کیا)کہا ہے، نیز امام زہری نے بیان کیا کہ عروہ نے کہا مجھے بتایا گیا کہ یہ باتیں پھیلائی جارہی تھیں اور اس کے پاس یعنی عبداللہ بن ابی کے سامنے یہ باتیں کی جاتیں وہ ان کی تصدیق کرتا، غور سے سنتا اور چغلی کھاتا یعنی دوسروں سے جاجاکر بھی کہتا۔ عروہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا پر تہمت لگانے والوں میں حسان بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش اور کچھ دوسرے لوگوں کے نام ہیں جن کے ناموں سے میں واقف نہیں۔ صرف اتنا جانتا ہوں کہ وہ ایک جماعت تھی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو عصبہ یعنی ایک جماعت کہاہے۔ اس بات میں سب سے زیادہ دلچسپی عبداللہ بن ابی سلول نے لی اور اس بات کو خوب ہوا دی۔ عروہ نے یہ بھی بیان کیا کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اس بات کو پسند نہ کرتی تھی کہ ان کے پاس حسان بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے متعلق کوئی بات کی جائے۔ وہ فرمایا کرتی تھیں کہ حسان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا ہے: فَإِنَّ أَبِی وَوَالِدَہُ وَعِرْضِی لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَائُ (تمہارے تیروں اور نشتر سے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جان اور عزت کو بچانے کے لیے میرا باپ اور اس کا باپ اور میری عزت سب کچھ ان پر فدا ہے۔) نیز سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا ہے کہ ان دنوں قضائے حاجت کے بارے میں ہماری معاشرت اور یعنی عرب کی سی تھی۔ اسی طرح زہری نے اس سند میں لھا ضرائر کہا(جبکہ پچھلی روایت میں ولھا ضرائر تھا)۔ اسی طرح اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے الفاظ یوں بیان کیے ہیں: اس ذات کی قسم جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اہل کی براء ت کو جانتی ہے ،بریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے الفاط یوں ہیں کہ بکری آکر آٹا کھا جاتی ہے، گزشتہ طریق میں بھییہ الفاظ اسی طرح ہیں ۔ اس طریق میں سعد بن معاذ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے الفاظ یوں ہیں۔ اس طریق میں سعد بن معاذ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے الفاظ یوں ہیں: اگرچہ وہ ہمارے بھائیوں خزرج میں سے ہے۔ جبکہ گزشتہ طریق میں من الخزرج ہے۔مفہوم ایک ہی ہے۔ اس طریق میں فقام رجل من الخزرج ہے۔ جبکہ گزشتہ طریق میں فقام سعد بن عبادۃ ہے۔دونوں سے مراد ایک ہی ہے۔اس طریق میں حسان کی والدہ کے متعلق یہ بیان ہے کہ وکانت ام حسان بنت عمہ من فخذہ کہ حسان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی والدہ اس کی چچازاد اور اسی کے خاندان میں سے تھی۔ یہ جملہ گزشتہ طریق میں نہیں ہے، اس طریق میں ہے: {وھو سعد بن عبادۃ وھو سید الخزرج قالت وکان قبل ذلک رجلا صالحًا ولکن احتملۃ الحمیۃ} جبکہ گزشتہ طریق کے الفاظ یوں ہیں: {فقام سعد بن عبادۃ وکان رجلاً صالحًا ولکن اجتھلتہ الحمیتہ} نیز اس طریق میں زہری نے: {قلص دمعی} کہا ہے جبکہ گزشتہ طریق میں بھی اسی طرح ہے۔زہری نے اس طریق میں کہا ہے : {وطفقت اختھا حمنۃ تجارب لھا} گزشتہ طریق میں ہے: {وطفقت اختھا حمنۃ بنت جحش تجارب لھا}ہے عروہ نے بیان کیا کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا کہ اللہ کی قسم! وہ آدمی جس کے متعلق کہا گیا جو کچھ بھی کہا گیا، اس نے کہا اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں نے کبھی بھی کسی عورت کے پہلو سے کپڑا نہیں اٹھایا۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بیان کیا کہ وہ یعنی صفوان بن معطل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس واقعہ کے بعد اللہ کی راہ میں شہادت سے سرفزار ہوئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11434

۔ (۱۱۴۳۴)۔ عَنْ عَائَشَۃ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَ عُذْرِیْ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ عَلَی الْمِنْبَرِ، فَذَکَر ذٰلِکَ وَتَلا الْقُرْآنَ، فَلَمَّا نَزَلَ أَمَرَ بِرَجُلَیْنِ وَامْرَأَۃً فَضَرَبُوْا حَدَّھُمْ۔ (مسند احمد: ۲۴۵۶۷)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے میری براء ت کا اعلان نازل ہوا، تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر کھڑے ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کا تذکرہ کیا اور قرآن کی نازل شدہ آیت کی تلاوت فرمائی اور منبر سے نیچے اتر کر آپ نے دو مردوں اور ایک عورت پر تہمت کی حد جاری کرنے کا حکم صادر فرمایا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11435

۔ (۱۱۴۳۵)۔ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عن أَبِیْہِ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا أَنَّہَا اسْتَعَارَتْ مِنْ أَسْمَائَ قِلَادَۃً فَہَلَکَتْ، فَبَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رِجَالًا فِیْ طَلْبِہَا فَوَجَدُوْہَا، فَأَدْرَکَتْہُمُ الصَّلَاۃُ وَلَیْسَ مَعَہُمْ مَائٌ فَصَلَّوْا بِغَیْرِ وُضُوْئٍ فَشَکَوْا ذٰلِکَ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ التَّیَمُّمَ، فَقَالَ أُسَیْدُ بْنُ حُضَیْرٍ لِعَائِشَۃَ: جَزَاکِ اللّٰہُ خَیْرًا، فَوَاللّٰہِ! مَا نَزَلَ بِکِ أَمْرٌ تَکْرَہِیْنَہُ اِلَّا جَعَلَ اللّٰہُ لَکِ وَلِلْمُسْلِمِیْنَ فِیْہِ خَیْرًا۔ (مسند أحمد: ۲۴۸۰۳)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ انھوں نے سیدہ اسمائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے ایک ہار بطورِ استعارہ لیا تھا، لیکن وہ گم ہو گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کچھ افراد کو اس کو تلاش کرنے کے لیے بھیجا، ان کو وہ مل گیا، لیکن نماز نے ان کو اس حال میں پا لیا کہ ان کے پاس پانی نہیں تھا، پس انھوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھی اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف یہ شکایت کی، پس اللہ تعالیٰ نے تیمم کی رخصت نازل کر دی، سیدنا اسید بن حضیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے کہا: اللہ تعالیٰ تم کو جزائے خیر دے، جب بھی تمہارا کوئی ایسا معاملہ بنتا ہے، جس کو تم ناپسند کرتی ہے، اللہ تعالیٰ اس میں تمہارے لیے اور مسلمانوں کے لیے خیر و بھلائی بنا دیتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11436

۔ (۱۱۴۳۶)۔ عَنْ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی بَعْضِ أَسْفَارِہِ حَتّٰی إِذَا کُنَّا بِتُرْبَانَ بَلَدٍ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْمَدِینَۃِ بَرِیدٌ وَأَمْیَالٌ، وَہُوَ بَلَدٌ لَا مَائَ بِہِ وَذٰلِکَ مِنَ السَّحَرِ انْسَلَّتْ قِلَادَۃٌ لِی مِنْ عُنُقِی فَوَقَعَتْ، فَحُبِسَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِالْتِمَاسِہَا حَتّٰی طَلَعَ الْفَجْرُ وَلَیْسَ مَعَ الْقَوْمِ مَائٌ، قَالَتْ: فَلَقِیتُ مِنْ أَبِی مَا اللّٰہُ بِہِ عَلِیمٌ مِنْ التَّعْنِیفِ وَالتَّأْفِیفِ، وَقَالَ فِی کُلِّ سَفَرٍ: لِلْمُسْلِمِینَ مِنْکِ عَنَائٌ وَبَلَائٌ، قَالَتْ: فَأَنْزَلَ اللّٰہُ الرُّخْصَۃَ بِالتَّیَمُّمِ، قَالَتْ: فَتَیَمَّمَ الْقَوْمُ وَصَلَّوْا، قَالَتْ: یَقُولُ أَبِی حِینَ جَائَ مِنَ اللّٰہِ مَا جَائَ مِنَ الرُّخْصَۃِ لِلْمُسْلِمِینَ: وَاللّٰہِ! مَا عَلِمْتُ یَا بُنَیَّۃُ إِنَّکِ لَمُبَارَکَۃٌ مَاذَا جَعَلَ اللّٰہُ لِلْمُسْلِمِینَ فِی حَبْسِکِ إِیَّاہُمْ مِنَ الْبَرَکَۃِ وَالْیُسْرِ۔ (مسند احمد: ۲۶۸۷۲)
زوجۂ نبی ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ واپس آرہے تھے۔ جب ہم مدینہ منورہ سے چند میل کے فاصلے پر سحری کے وقت ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں پانی کا نام و نشان تک نہ تھا، میری گردن سے ہار اتر کر گر گیا۔ اس کی تلاش میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو رکنا پڑا یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی، کسی کے پاس پانی نہ تھا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس موقعہ پر مجھے اپنے والد کی طرف سے کس قدر ڈانٹ پڑی۔ انہوںنے یہ بھی کہا کہ ہر سفر میں تمہاری وجہ سے مسلمانوں کو مشکل اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ام المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ اس موقع پر اللہ نے تیمم کی رخصت کا حکم نازل فرما دیا۔ اور لوگوں نے تیمم کرکے نماز ادا کی، جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کے لیے رخصت کا یہ حکم آیا تو میرے ابا جان نے کہا: بیٹی! اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا تھا کہ تم اس قدر با برکت ہو۔ تمہارے ہار کی تلاش میں مسلمانوں کو یہاں روکے جانے کے نتیجہ میں ان کے لیے اللہ نے کیا برکت اور آسانی رکھ دی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11437

۔ (۱۱۴۳۷)۔ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ، قَالَ: کَانَ عُرْوَۃُیَقُولُ لِعَائِشَۃَ: یَا أُمَّتَاہُ! لَا أَعْجَبُ مِنْ فَہْمِکِ، أَقُولُ: زَوْجَۃُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَبِنْتُ أَبِی بَکْرٍ، وَلَا أَعْجَبُ مِنْ عِلْمِکِ بِالشِّعْرِ وَأَیَّامِ النَّاسِ، أَقُولُ: ابْنَۃُ أَبِی بَکْرٍ وَکَانَ أَعْلَمَ النَّاسِ أَوْ وَمِنْ أَعْلَمِ النَّاسِ، وَلٰکِنْ أَعْجَبُ مِنْ عِلْمِکِ بِالطِّبِّ، کَیْفَ ہُوَ؟ وَمِنْ أَیْنَ ہُوَ؟ قَالَ: فَضَرَبَتْ عَلٰی مَنْکِبِہِ، وَقَالَتْ: أَیْ عُرَیَّۃُ! إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَسْقَمُ عِنْدَ آخِرِ عُمْرِہِ أَوْ فِی آخِرِ عُمْرِہِ، فَکَانَتْ تَقْدَمُ عَلَیْہِ وُفُودُ الْعَرَبِ مِنْ کُلِّ وَجْہٍ، فَتَنْعَتُ لَہُ الْأَنْعَاتَ وَکُنْتُ أُعَالِجُہَا لَہُ فَمِنْ ثَمَّ۔ (مسند احمد: ۲۴۸۸۴)
عروہ سے مروی ہے کہ وہ سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے کہا کرتے تھے: اماں جان! میں آپ کی ذہانت اور سمجھ داری پر تعجب نہیں کرتا، کیونکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ آپ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زوجہ اور ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی دختر ہیں۔ (اس لیے سمجھ دار ہونا تعجب انگیز نہیں)، مجھے آپ کے علم اشعار اور تاریخی معلومات پر بھی تعجب نہیں، میں کہہ سکتا ہوں کہ آپ ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی دختر ہیں، جو کہ اشعار اور تاریخ کے متعلق سب سے زیادہ علم رکھتے تھے۔ مجھے تو آپ کی طبی معلومات پر تعجب ہے کہ یہ آپ کو کیسے حاصل ہوا؟تو انہوں نے میری بات سن کر میرے کاندھے پر اپنا ہاتھ مار کر کہا: اے عُرَیَّۃُ! آخری عمر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیمار رہتے تھے تو آپ کی خدمت میں اطراف و اکناف سے عرب و فود آیا کرتے تھے اوروہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے مختلف دوائیں اور نسخے بیان کرتے اور میں آپ کا علاج معالجہ کیا کرتی تھی۔ مجھے یہ معلومات اس طرح حاصل ہوئیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11438

۔ (۱۱۴۳۸)۔ عَنْ یَزِیدَ بْنِ مُرَّۃَ عَنْ لَمِیسَ أَنَّہَا قَالَتْ سَأَلْتُ عَائِشَۃَ قَالَتْ قُلْتُ لَہَا: الْمَرْأَۃُ تَصْنَعُ الدُّہْنَ تَحَبَّبُ إِلٰی زَوْجِہَا، فَقَالَتْ: أَمِیطِی عَنْکِ تِلْکَ الَّتِی لَا یَنْظُرُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَیْہَا،قَالَتْ وَقَالَتْ امْرَأَۃٌ لِعَائِشَۃَ: یَا أُمَّہْ! فَقَالَتْ عَائِشَۃُ إِنِّی لَسْتُ بِأُمِّکُنَّ وَلٰکِنِّی أُخْتُکُنَّ، قَالَتْ عَائِشَۃُ وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَخْلِطُ الْعِشْرِینَ بِصَلَاۃٍ وَنَوْمٍ فَإِذَا کَانَ الْعَشْرُ شَمَّرَ وَشَدَّ الْمِئْزَرَ وَشَمَّرَ۔ (مسند احمد: ۲۵۶۴۹)
لمیس سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں:میں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سوال کیا کہ ایک عورت خاوند کے ہاں محبت حاصل کرنے کے لئے تیل لگاتی ہے کہ چہرہ زیادہ صاف ہوجائے تو کیایہ لگا سکتی ہے۔ انہوںنے کہا: اسے خود سے دور رکھو، اللہ تعالیٰ اس خاتون کی طرف نہیں دیکھتے، جو یہ لگاتی ہے۔ ایک اور عورت نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے کہا: اے اماں! سیدہ نے کہا: میں تمہاری ماں نہیں ہوں، تمہاری بہن ہوں، پھر سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (رمضان کے پہلے) بیس دنوں میں نماز بھی ادا کرتے اور سوتے بھی تھے، لیکن جب آخری عشرہ شروع ہوتا تو تہبند مضبوط کرلیتے اور عبادت کے لیے کمر بستہ ہوجاتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11439

۔ (۱۱۴۳۹)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاضِعًا یَدَیْہِ عَلٰی مَعْرَفَۃِ فَرَسٍ وَہُوَ یُکَلِّمُ رَجُلًا، قُلْتُ: رَأَیْتُکَ وَاضِعًا یَدَیْکَ عَلٰی مَعْرَفَۃِ فَرَسِ دِحْیَۃَ الْکَلْبِیِّ وَأَنْتَ تُکَلِّمُہُ، قَالَ: ((وَرَأَیْتِ؟)) قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: ((ذَاکَ جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَام، وَہُوَ یُقْرِئُکِ السَّلَامَ۔)) قَالَتْ: وَعَلَیْہِ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، جَزَاہُ اللّٰہُ خَیْرًا مِنْ صَاحِبٍ وَدَخِیلٍ، فَنِعْمَ الصَّاحِبُ وَنِعْمَ الدَّخِیلُ، قَالَ سُفْیَانُ: الدَّخِیلُ الضَّیْفُ۔ (مسند احمد: ۲۴۹۶۶)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک گھوڑے کی گردن پر ہاتھ رکھے ہوئے ایک آدمی سے باتیں کرتے دیکھا،میں نے عرض کیا کہ میں نے آپ کو دحیہ کلبی کے گھوڑے کی گردن پر ہاتھ رکھے ہوئے ان سے باتیں کرتے دیکھا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم نے دیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو وہ جبریل علیہ السلام تھے اور وہ تمہیں سلام کہہ رہے تھے۔ میں نے جواباً کہا:وَعَلَیْہِ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ،اللہ تعالیٰ اس ساتھی اور مہمان کو جزائے خیر دے، وہ بہترین ساتھی او ربہترین مہمان ہے۔ امام احمد کے شیخ امام سفیان بن عینیہ نے الدخیل کا معنی مہمان بیان کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11440

۔ (۱۱۴۴۰)۔ (وَعَنْہَا مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَا عَائِشَۃُ! ھٰذَا جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَھُوَ یَقْرَأُ عَلَیْکِ السَّلَامَ۔)) فَقُلْتُ: عَلَیْکَ وَعَلَیْہِ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، تَرَی مَا لَا نَرٰییَا رَسُوْلَ اللّٰہِ۔ (مسند احمد: ۲۵۳۶۹)
۔(دوسری سند) ام المؤمنین سیدۂ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! یہ جبریل علیہ السلام ہیں اور وہ تمہیں سلام کہہ رہے ہیں۔ میں نے کہا:عَلَیْکَ وَعَلَیْہِ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ،اے اللہ کے رسول! آپ وہ دیکھتے ہیں جو ہم نہیں دیکھ سکتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11441

۔ (۱۱۴۴۱)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ: ((اِنَّ فَضْلَ عَائِشَۃَ عَلَی النِّسَائِ کَفَضْلِ الثَّرِیْدِ عَلٰی سَائِرِ الطَّعَامِ۔)) (مسند احمد: ۱۳۸۲۱)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عائشہ کی باقی تمام عورتوں پر فضیلت ایسے ہے، جیسے سارے کھانوں پر ثریدکی فضیلت ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11442

۔ (۱۱۴۴۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ: ((فَضْلُ عَائِشَۃَ عَلَی النِّسَائِ کَفَضْلِ الثَّرِیْدِ عَلٰی سَائِرِ الطَّعَامِ۔)) (مسند احمد: ۲۵۷۷۴)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عائشہ کو باقی تمام عورتوں پر اسی طرح فضیلت حاصل ہے، جیسے ثرید کو باقی سارے کھانوں پر۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11443

۔ (۱۱۴۴۳)۔ عَن أَبِی مُوسَی الْأَشْعَرِیِّ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((کَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ کَثِیرٌ،وَلَمْیَکْمُلْ مِنَ النِّسَائِ غَیْرُ مَرْیَمَ بِنْتِ عِمْرَانَ وَآسِیَۃَ امْرَأَۃِ فِرْعَوْنَ، وَإِنَّ فَضْلَ عَائِشَۃَ عَلَی النِّسَائِ کَفَضْلِ الثَّرِیدِ عَلٰی سَائِرِ الطَّعَامِ۔)) (مسند احمد: ۱۹۹۰۴)
سیدنا ابو موسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مردوں میں سے بہت سے لوگوں کو درجۂ کمال حاصل ہوا ہے، البتہ عورتوں میں سے صرف مریم بنت عمران اور آسیہ زوجۂ فرعون ہی درجۂ کمال تک پہنچی ہیں اور عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو باقی تمام عورتوںپر اسی طرح فضیلت ہے جیسے ثریدکو باقی سارے کھانوں پر۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11444

۔ (۱۱۴۴۴)۔ عَنْ ذَکْوَانَ مَوْلٰی عَائِشَۃَ أَنَّہُ اسْتَأْذَنَ لِابْنِ عَبَّاسٍ عَلٰی عَائِشَۃَ وَہِیَ تَمُوتُ وَعِنْدَہَا ابْنُ أَخِیہَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، فَقَالَ: ہٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ یَسْتَأْذِنُ عَلَیْکِ وَہُوَ مِنْ خَیْرِ بَنِیکِ، فَقَالَتْ: دَعْنِی مِنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَمِنْ تَزْکِیَتِہِ، (وَفِیْ لَفْظٍ اِنِّیْ اَخَافُ اَنْ یُزَکِّیَنِیْ) فَقَالَ لَہَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ: إِنَّہُ قَارِئٌ لِکِتَابِ اللّٰہِ، فَقِیہٌ فِی دِینِ اللّٰہِ فَأْذَنِی لَہُ فَلْیُسَلِّمْ عَلَیْکِ وَلْیُوَدِّعْکِ، قَالَتْ: فَأْذَنْ لَہُ إِنْ شِئْتَ، قَالَ: فَأَذِنَ لَہُ فَدَخَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ ثُمَّ سَلَّمَ وَجَلَسَ وَقَالَ: أَبْشِرِییَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ! فَوَاللّٰہِ مَا بَیْنَکِ وَبَیْنَ أَنْ یَذْہَبَ عَنْکِ کُلُّ أَذًی وَنَصَبٍ (أَوْ قَالَ: وَصَبٍ) وَتَلْقَیْ الْأَحِبَّۃَ مُحَمَّدًا وَحِزْبَہُ (أَوْ قَالَ أَصْحَابَہُ) إِلَّا أَنْ تُفَارِقَ رُوحُکِ جَسَدَکِ، فَقَالَتْ: وَأَیْضًا؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: کُنْتِ أَحَبَّ أَزْوَاجِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَیْہِ وَلَمْ یَکُنْیُحِبُّ إِلَّا طَیِّبًا، وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بَرَائَ تَکِ مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمٰوَاتٍ فَلَیْسَ فِی الْأَرْضِ مَسْجِدٌ إِلَّا وَہُوَ یُتْلٰی فِیہِ آنَائَ اللَّیْلِ وَآنَائَ النَّہَارِ، وَسَقَطَتْ قِلَادَتُکِ بِالْأَبْوَائِ فَاحْتَبَسَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْمَنْزِلِ وَالنَّاسُ مَعَہُ فِی ابْتِغَائِہَا (أَوْ قَالَ: فِی طَلَبِہَا) حَتّٰی أَصْبَحَ الْقَوْمُ عَلٰی غَیْرِ مَائٍ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {فَتَیَمَّمُوا صَعِیدًا طَیِّبًا} الْآیَۃَ، فَکَانَ فِی ذٰلِکِ رُخْصَۃٌ لِلنَّاسِ عَامَّۃً فِی سَبَبِکِ، فَوَاللّٰہِ إِنَّکِ لَمُبَارَکَۃٌ، فَقَالَتْ: دَعْنِییَا ابْنَ عَبَّاسٍ مِنْ ہٰذَا، فَوَاللّٰہِ لَوَدِدْتُ أَنِّی کُنْتُ نَسْیًا مَنْسِیًّا۔ (مسند احمد: ۳۲۶۲)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے غلام ذکوا ن سے روایت ہے کہ ا م المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فوت ہونے کے قریب تھیں، ان کے پاس ان کا برادر زادہ عبداللہ بن عبدالرحمن بیٹھا ہوا تھا کہ ذکوان نے سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے اندر آنے کی اجازت طلب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے بہترین بیٹے ابن عباس آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ ام المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مجھے ابن عباس اور ان کی تعریف و توصیف سے محفوظ ہیرکھو۔دوسری روایت کے لفظ یوں ہیں: مجھے اندیشہ ہے کہ وہ آکر میری مدح و توصیف کرنے لگیں گے۔ لیکن عبداللہ بن عبدالرحمن نے ان سے کہا: وہ اللہ کی کتاب کے قاری ہیں، اللہ کے دین کے بہت بڑے فقیہیعنی عالم ہیں، آپ انہیں اندر آنے کی اجازت دے دیں تاکہ وہ آپ کو سلام کہہ لیں اور آپ کو دنیا سے جاتے ہوئے الوداع کر لیں۔ سو ام المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اگر تم چاہتے ہو تو اجازت دے دو۔عبداللہ نے ان کو آنے کی اجازت دے دی۔ ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آکر سلام کہا اور بیٹھ گئے اور پھر کہا: ام المؤمنین ! آپ کو مبارک ہو، اللہ کی قسم! اب آپ کے اور ہر قسم کی تکلیف و مصیبت کے درمیان اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ان کی جماعت کے ساتھ ملاقات کے درمیان صرف آپ کی روح آپ کے جسد سے نکلنے کی دیر ہے۔ سیدہ نے کہا: جی ہاں ٹھیک ہے ا ور کیا؟ ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنی تمام ازواج میں سے سب سے زیادہ محبت آپ سے تھی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اچھی چیز کو ہی پسند کیا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سے آپ کی برأت کا حکم نازل کیا۔ دوسری روایت میں یہ اضافہ ہے کہ اس حکم کو جبریل علیہ السلام لے کر آئے تھے۔ روئے زمین کی ہر مسجد میں دن رات ان آیات برأت کی تلاوت کی جاتی ہے اور ابواء کے مقام پر آپ کا ہار گر گیا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابۂ کرام اس کی تلاش میں وہاں رکے رہے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی اور لوگوں کے پاس وضوء کے لیے پانی موجود نہ تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے: {فَتَیَمَّمُوا صَعِیدًا طَیِّبًا…} (سورۂ مائدہ: ۶) کا حکم نازل کر دیا کہ اگر تمہیں پانی دستیاب نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو، یہ آپ کے اس واقعہ کی وجہ سے سب لوگوں کو رخصت مل گئی۔ اللہ کی قسم، آپ انتہائی بابرکت ہیں۔ یہ باتیں سن کر سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: ابن عباس! چھوڑو ان باتوں کو، میں تو یہ پسند کرتی ہوں کہ میں بالکل بھولی بسری ہو جائوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11445

۔ (۱۱۴۴۵)۔ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ لَیْثٍ، عَنْ رَجُلٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ قَالَ لَھَا: اِنَّمَا سُمِّیْتِ أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ لِتَسْعَدِیْ وَاِنَّہٗلَاِسْمُکِقَبْلَأَنْتُوْلَدِیْ۔ (مسند احمد: ۱۹۰۶)
سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے کہا: محض آپ کی فضیلت کے اظہار کے لیے آپ کو ام المؤمنین کہا گیا ہے، ورنہ آپ کی ولادت سے قبل ہی (اللہ تعالیٰ کے ہاں) آپ کے لیےیہ اعزاز مقدر تھا۔ عروہ بن زبیر کا بیان ہے کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا انتقال رات کو ہوا تھا اور سیدنا عبداللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رات کو ہی ان کی تدفین کر دی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11446

۔ (۱۱۴۴۶)۔ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ: مَاتَتْ عَائَشَۃُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فَدَفَنَہَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ لَیْلًا۔ (مسند احمد: ۲۵۵۱۹)
عروہ بن زبیر کا بیان ہے کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا انتقال رات کو ہوا تھا اور سیدنا عبداللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رات کو ہی ان کی تدفین کر دی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11447

۔ (۱۱۴۴۷)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: تَأَیَّمَتْ حَفْصَۃُ بِنْتُ عُمَرَ مِنْ خُنَیْسِ بْنِ حُذَافَۃَ أَوْ حُذَیْفَۃَ شَکَّ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَکَانَ مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِمَّنْ شَہِدَ بَدْرًا فَتُوُفِیَ بِالْمَدِیْنَۃِ، قَالَ: فَلَقِیْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَعَرَضْتُ عَلَیْہِ حَفْصَۃَ فَقُلْتُ: اِنْ شِئْتَ اَنْکَحْتُکَ حَفْصَۃَ، قَالَ: سَأَنْظُرُ فِیْ ذَالِکَ، فَلَبِثْتُ لَیَالِی فَلَقِیَنِی فَقَالَ: مَا اُرِیْدُ اَنْ أَتَزَوَّجَ یَوْمِی ھٰذَا، قَالَ عُمَرُ: فَلَقِیْتُ أَبَا بَکْرٍ فَقُلْتُ: اِنْ شِئْتَ أَنْکَحْتُکَ حَفْصَۃَ ابْنَۃَ عُمَرَ، فَلَمْ یَرْجِعْ اِلَیَّ شَیْئًا، فَکُنْتُ أَوْجَدُ عَلَیْہِ مِنِّی عَلٰی عُثْمَانَ، فَلَبِثْتُ لَیَالِی فَخَطَبَہَا اِلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاَنْکَحْتُہَا اِیَّاہ، فَلَقِیَنِی أَبُوْبَکْرٍ فَقَالَ: لَعَلَّکَ وَجَدْتَ عَلَیَّ حِیْنَ عَرَضْتَ عَلَیَّ حَفْصَۃَ فَلَمْ أَرْجِعْ اِلَیْکَ شَیْئًا؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَاِنَّہُ لَمْ یَمْنَعْنِی أَنْ أَرْجِعَ اِلَیْکَ شَیْئًا حِیْنَ عَرَضْتَہَا عَلَیَّ اِلَّا أَنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَذْکُرُھَا وَلَمْ أَکُنْ لِاُفْشِیَ سِرَّ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَوْ تَرَکَہَا لَنَکَحْتُہَا۔ (مسند احمد: ۷۴)
سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میری بیٹی سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سیدنا خنیس بن حذافہ یا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی وفات کے بعد بیوہ ہوگئی،یہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ میں سے تھے اور غزوئہ بدر میں حاضر ہوئے تھے اور انھوں نے مدینہ میں وفات پائی تھی، میں سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ملا اور ان پر حفصہ کو پیش کیا اور میں نے کہا: اگر تم چاہتے ہو تو میں حفصہ سے تمہارا نکاح کر دیتا ہوں؟ انہوں نے کہا: میں اس بارے میں غور کروں گا، میں نے کچھ دنوں تک انتظار کیا، پھر وہ مجھے ملے اور کہا: میں ان دنوں شادی کا ارادہ نہیں رکھتا۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ملا اور میں نے کہا: اگر تم چاہتے ہو تو میں اپنی بیٹی حفصہ کا تم سے نکاح کر دیتا ہوں، انہوں نے کوئی جواب نہ دیا، اس وجہ سے ان پر مجھے عثمان سے بھی زیادہ افسوس ہوا، بہرحال میں چند دن ٹھہرا رہا ، اتنے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جانب سے میری بیٹی کے نکاح کا پیغامآگیا اور میں نے اس کا نکاح آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کر دیا، بعد میں جب سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مجھے ملے تو انہوں نے کہا: جب تم نے مجھ پر حفصہ کو پیش کیا تھا اور میں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا تو تم مجھ سے ناراض ہوئے ہو گے؟ میں نے کہا: جی بالکل، انھوں نے کہا: مجھے آپ کی پیشکش کا جواب دینے میں صرف ایک چیز رکاوٹ تھی کہ میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا ذکر کرتے ہوئے سنا تھا، یہ ایک راز تھا اور میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا راز افشا نہیں کرنا چاہتا تھا، اگر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ رشتہ نہ کرتے تو میں حفصہ سے نکاح کر لیتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11448

۔ (۱۱۴۴۸)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: لَمَّا تَأَیَّمَتْ حَفْصَۃُ وَکَانَتْ تَحْتَ خُنَیْسِ بْنِ حُذَافَۃَ لَقِیَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالَی عَنْہُ عُثْمَانَ فَعَرَضَہَا عَلَیْہِ، فَقَالَ عُثْمَانُ: مَا لِی فِی النِّسَائِ حَاجَۃٌ وَسَأَنْظُرُ، فَلَقِیَ أَبَا بَکْرٍ فَعَرَضَہَا عَلَیْہِ فَسَکَتَ، فَوَجَدَ عُمَرُ فِی نَفْسِہِ عَلٰی أَبِی بَکْرٍ، فَإِذَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ خَطَبَہَا فَلَقِیَ عُمَرُ أَبَا بَکْرٍ فَقَالَ: إِنِّی کُنْتُ عَرَضْتُہَا عَلٰی عُثْمَانَ فَرَدَّنِی وَإِنِّی عَرَضْتُہَا عَلَیْکَفَسَکَتَّ عَنِّی فَلَأَنَا عَلَیْکَ کُنْتُ أَشَدَّ غَضَبًا مِنِّی عَلٰی عُثْمَانَ وَقَدْ رَدَّنِی، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: إِنَّہُ قَدْ کَانَ ذَکَرَ مِنْ أَمْرِہَا وَکَانَ سِرًّا فَکَرِہْتُ أَنْ أُفْشِیَ السِّرَّ۔ (مسند احمد: ۴۸۰۷)
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، سیدنا خنیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی زوجیت میں تھیں، جب وہ بیوہ ہوگئیں تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ملاقات کی اور سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے نکاح کی پیش کش کی۔ لیکن سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ مجھے بیویوں کی حاجت نہیں ہے، تاہم میں اس بارے میں سوچوں گا۔ اس کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ملے اور انہیں بھی حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے نکاح کی پیش کش کی۔ لیکن وہ خاموش رہے (اور کوئی جواب ہی نہیں دیا)۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے دل میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے متعلق ناراضگی آگئی، اس کے بعد جلد ہی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے نکاح کا پیغام بھیج دیا، اس کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے جا کر ملے اور کہا: میں نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے نکاح کی پیش کش کی تھی تو انہوںنے انکار کر دیا تھا، اس کے بعد میں نے آپ کو حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ نکاح کی پیش کش کی تو آپ خاموش رہے اور مجھے واپسی جواب تک نہ دیا۔ تو مجھے عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے زیادہ آپ پر غصہ آیا، کیونکہ انہوںنے واضح طور پر انکار تو کر دیا تھا۔ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:دراصل رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے نکاح کرنے کا تذکرہ کیا تھا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کییہ بات ابھی تک راز تھی، اس لیے میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے راز کو افشاء کرنا جائز نہ سمجھا۔ (اور خاموش رہا)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11449

۔ (۱۱۴۴۹)۔ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ: اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم طَلَّقَ حَفْصَۃَ بِنْتَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ثُمَّ ارْتَجَعَہَا۔ (مسند احمد: ۱۶۰۲۰)
عاصم بن عمرسے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ام المؤمنین سیدہ حفصہ بنت عمر کو طلاق دی تھی اور پھر رجوع کر لیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11450

۔ (۱۱۴۵۰)۔ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ أُمِّ حَبِیبَۃَ، أَنَّہَا کَانَتْ تَحْتَ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ جَحْشٍ، وَکَانَ أَتَی النَّجَاشِیَّ، وَقَالَ عَلِیُّ بْنُ إِسْحَاقَ: وَکَانَ رَحَلَ إِلَی النَّجَاشِیِّ فَمَاتَ، وَأَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَزَوَّجَ أُمَّ حَبِیبَۃَ، وَإِنَّہَا بِأَرْضِ الْحَبَشَۃِ زَوَّجَہَا إِیَّاہُ النَّجَاشِیُّ، وَمَہَرَہَا أَرْبَعَۃَ آلَافٍ، ثُمَّ جَہَّزَہَا مِنْ عِنْدِہِ وَبَعَثَ بِہَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَعَ شُرَحْبِیلَ بْنِ حَسَنَۃَ، وَجِہَازُہَا کُلُّہُ مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِیِّ، وَلَمْیُرْسِلْ إِلَیْہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِشَیْئٍ، وَکَانَ مُہُورُ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَرْبَعَ مِائَۃِ دِرْہَمٍ۔ (مسند احمد: ۲۷۹۵۳)
عروہ سے روایت ہے، وہ سیدہ ام حبیبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ وہ عبید اللہ بن جحش کی زوجیت میں تھی، وہ نجاشی کے ہاں گیا تھا اور وہیں (مرتد ہو کر) مر گیا۔ سیدہ ام حبیبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا حبشہ ہی میں تھیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے نکاح کر لیا، ان کا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے نکاح نجاشی نے کیا تھا اور اسی نے آپ کی طرف سے ان کو چار ہزار دیناربطور مہر ادا کئے تھے۔ پھر اس نے ان کے سفر کی تیاری کرکے ان کو شرجیل بن حسنہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں روانہ کیا تھا۔ ان کی مکمل تیاری اور سازو سامان نجاشی کی طرف سے تھا، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کوئی چیز نہیںبھیجی تھی۔ باقی ازواج کے مہر چار سو درہم تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11451

۔ (۱۱۴۵۱)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: اجْتَمَعَ أَزْوَاجُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عِنْدَہُ ذَاتَ یَوْمٍ فَقُلْنَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ أَیَّتُنَا أَسْرَعُ بِکَ لُحُوقًا، فَقَالَ: ((أَطْوَلُکُنَّ یَدًا۔)) فَأَخَذْنَا قَصَبًا فَذَرَعْنَاہَا فَکَانَتْ سَوْدَۃُ بِنْتُ زَمْعَۃَ أَطْوَلَنَا ذِرَاعًا، فَقَالَتْ: تُوُفِّیَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَکَانَتْ سَوْدَۃُ أَسْرَعَنَا بِہِ لُحُوقًا، فَعَرَفْنَا بَعْدُ إِنَّمَا کَانَ طُولُ یَدِہَا مِنَ الصَّدَقَۃِ، وَکَانَتِ امْرَأَۃً تُحِبُّ الصَّدَقَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ۔ (مسند احمد: ۲۵۴۱۱)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ازواج ایک دن آپ کے پاس جمع تھیں، انہوںنے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت کیا: اے اللہ کے نبی! ہم میں سے سب سے پہلے کون سی بیوی آپ کو جاملے گی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہیں، وہ سب سے پہلے مجھے آکر ملے گی۔ ہم نے ایک سرکنڈا لے کر ہاتھوں کی پیمائش کی، تو ہم میں سے سیدہ سودہ بنت زمعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا ہاتھ سب سے طویل تھا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات ہوئی تو ہم میں سے سب سے پہلے سیدہ سودہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جا ملیں،یعنی ازواج مطہرات میں سب سے پہلے ان کا انتقال ہوا، توہمیں بعد میں اس حقیقت کا پتہ چلا کہ ان کا ہاتھ صدقہ کرنے میں لمبا تھا، وہ صدقہ کرنے کو بہت زیادہ پسند کرتی تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11452

۔ (۱۱۴۵۲)۔ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ صُہَیْبٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یَقُولُ: مَا أَوْلَمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی امْرَأَۃٍ مِنْ نِسَائِہِ أَکْثَرَ أَوْ أَفْضَلَ مِمَّا أَوْلَمَ عَلٰی زَیْنَبَ، فَقَالَ ثَابِتٌ الْبُنَانِیُّ: فَمَا أَوْلَمَ؟ قَالَ: أَطْعَمَہُمْ خُبْزًا وَلَحْمًا حَتّٰی تَرَکُوہُ۔ (مسند احمد: ۱۲۷۸۹)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جیسا ولیمہ ام المؤمنین سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ساتھ نکاح کے موقع پر کیا تھا، ویسا ولیمہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوسری کسی اہلیہ کے ساتھ نکاح کے موقع پر نہیں کیا۔ ثابت بنانی نے دریافت کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کیا ولیمہ کیا تھا؟ انھوں نے کہا: آپ نے لوگوں کو اس قدر گوشت روٹی کھلائی کہ لوگوں سے کھانا بچ رہا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11453

۔ (۱۱۴۵۳)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: کَانَتْ زَیْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ تَفْخُرُ عَلٰی نِسَائِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَقُوْلُ: إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ أَنْکَحَنِیْ مِنَ السَّمَائِ۔ (الحدیث)(مسند احمد: ۱۳۳۹۴)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی باقی بیویوں پر فخر کرتے ہوئے کہا کرتی تھیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے آسمان پر سے کیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11454

۔ (۱۱۴۵۴)۔ عَنْ مَیْمُوْنَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: تَزَوَّجَنِی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَنَحْنُ حَلَالٌ، بَعْدَمَا رَجَعْنَا مِنْ مَکَّۃَ۔ (مسند احمد: ۲۷۳۵۲)
سیدہ میمونہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: جب ہم مکہ سے واپس ہوئے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے نکاح کیا اور ہم دونوں احرام کی حالت میںنہیں تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11455

۔ (۱۱۴۵۵)۔ عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ مَوْلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَزَوَّجَ مَیْمُوْنَۃَ حَلَالًا، وَبَنٰی بِہَا حَلَالًا، وَکُنْتُ الرَّسُوْل بَیْنَہُمَا۔ (مسند احمد: ۲۷۷۳۹)
مولائے رسول سیدنا ابو رافع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب ام المؤمنین سیدہ میمونہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے نکاح کیا اور جب ان کی رخصتی ہوئی تو آپ ان دونوں مواقع پر احرام کی حالت میں نہیں تھے، میں ان دونوں ہستیوں کے درمیان قاصد تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11456

۔ (۱۱۴۵۶)۔ عَنْ اَبِیْ رَافِعٍ مَوْلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: کُنْتُ فِیْ بَعْثٍ مَرَّۃً فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اذْھَبْ فَاْتِنِیْ بِمَیْمُوْنَۃَ۔)) فَقُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! إِنِّیْ فِیْ الْبَعْثِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((الَسْتَ تُحِبُّ مَا اُحِبُّ؟)) قَالَ: بَلٰی،یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((اذْھَبْ فَاْتِنِیْ بِہَا۔)) فَذَھَبْتُ فَجِئْتُ بِہَا۔ (مسند احمد: ۲۷۷۲۷)
مولائے رسول سیدنا ابو رافع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ایک دفعہ ایک دستے میں میرے نام کا بھی اندراج کیا گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم جا کر میمونہ کو لے آؤ۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میرا نام تو فلاں دستے میں لکھا جا چکا ہے۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں وہ کام پسند نہیں، جو مجھے پسند ہے؟ میں نے عرض کیا: جی بالکل، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تم جا کر میمونہ کو میرے پاس لے کر آؤ۔ چنانچہ میں گیا اور ان کو لے آیا۔ یہ حدیث دلیل ہے کہ قابل اعتماد مسلمان غلام کو دوران سفر عورت کے ساتھ روانہ کیا جاسکتا ہے۔ (عبداللہ رفیق)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11457

۔ (۱۱۴۵۷)۔ عَنْ مَیْمُونَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَزَوَّجَہَا حَلَالًا، وَبَنٰی بِہَا حَلَالًا، وَمَاتَتْ بِسَرِفَ فَدَفَنَہَا فِی الظُّلَّۃِ الَّتِی بَنٰی بِہَا فِیہَا، فَنَزَلْنَا فِی قَبْرِہَا أَنَا وَابْنُ عَبَّاسٍ۔ (مسند احمد: ۲۷۳۶۵)
ابو فزارہ سے روایت ہے، وہ یزید بن اصم سے اور وہ زوجۂ نبی سیدہ میمونہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب ان سے نکاح کیا اور جب ان کی رخصتی ہوئی تو آپ ان دونوں مواقع پر احرام کی حالت میں نہیں تھے اور ام المؤمنین سیدہ میمونہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی وفات سرف کے مقام پر ہوئی تھی، (عجیب حسن اتفاق ہے کہ) جس مقام پر ان کی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ خلوت ہوئی تھی، ان کو وہیں دفن کیا گیا اور ان کی قبر میں میں اور ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اترے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11458

۔ (۱۱۴۵۸)۔ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ قَالَتْ: لَمَّا قَسَمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَبَایَا بَنِی الْمُصْطَلِقِ، وَقَعَتْ جُوَیْرِیَۃُ بِنْتُ الْحَارِثِ فِی السَّہْمِ لِثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ أَوْ لِابْنِ عَمٍّ لَہُ وَکَاتَبَتْہُ عَلٰی نَفْسِہَا، وَکَانَتْ امْرَأَۃً حُلْوَۃً مَلاَّحَۃً لَایَرَاہَا أَحَدٌ إِلَّا أَخَذَتْ بِنَفْسِہِ، فَأَتَتْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَسْتَعِینُہُ فِی کِتَابَتِہَا، قَالَتْ: فَوَاللّٰہِ مَا ہُوَ إِلَّا أَنْ رَأَیْتُہَا عَلٰی بَابِ حُجْرَتِی فَکَرِہْتُہَا، وَعَرَفْتُ أَنَّہُ سَیَرٰی مِنْہَا مَا رَأَیْتُ، فَدَخَلَتْ عَلَیْہِ فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَنَا جُوَیْرِیَۃُ بِنْتُ الْحَارِثِ بْنِ أَبِی ضِرَارٍ سَیِّدِ قَوْمِہِ، وَقَدْ أَصَابَنِی مِنَ الْبَلَائِ مَا لَمْ یَخْفَ عَلَیْکَ، فَوَقَعْتُ فِی السَّہْمِ لِثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ الشَّمَّاسِ أَوْ لِابْنِ عَمٍّ لَہُ فَکَاتَبْتُہُ عَلٰی نَفْسِی، فَجِئْتُکَ أَسْتَعِینُکَ عَلٰی کِتَابَتِی، قَالَ: ((فَہَلْ لَکِ فِی خَیْرٍ مِنْ ذٰلِکِ؟)) قَالَتْ: وَمَا ہُوَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((أَقْضِی کِتَابَتَکِ وَأَتَزَوَّجُکِ۔)) قَالَتْ: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: ((قَدْ فَعَلْتُ۔)) قَالَتْ: وَخَرَجَ الْخَبَرُ إِلَی النَّاسِ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَزَوَّجَ جُوَیْرِیَۃَ بِنْتَ الْحَارِثِ، فَقَالَ النَّاسُ: أَصْہَارُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَرْسَلُوا مَا بِأَیْدِیہِمْ، قَالَتْ: فَلَقَدْ أَعْتَقَ بِتَزْوِیجِہِ إِیَّاہَا مِائَۃَ أَہْلِ بَیْتٍ مِنْ بَنِی الْمُصْطَلِقِ، فَمَا اَعْلَمُ امْرَأَۃً کَانَتْ اَعْظَمَ بَرَکَۃً عَلٰی قَوْمِہَا مِنْہَا۔ (مسند احمد: ۲۶۸۹۷)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو مصطلق کے قیدیوں کو صحابہ میں تقسیم کیا تو جویریہ بنت حارث، سیدنا ثابت بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا ان کے چچا زاد کے حصہ میں آئیں۔ سیدہ جویریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے فوراً ان سے مکاتبت کر لی (کہ وہ اتنے عرصے میں اتنی رقم دے کر آزاد ہو جائے گی)، یہ کافی دل کش خاتون تھیں، جو کوئی انہیں دیکھتا، بس وہ دیکھتا ہی رہ جاتا۔ یہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئیں تا کہ اپنی مکاتبت کے سلسلہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے تعاون حاصل کر سکیں۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: جب میں نے ان کو اپنے کمرہ کے دروازے پر دیکھا تو غیرت کے مارے وہ مجھے اچھی نہ لگیں، میں جانتی تھی کہ ان کے متعلق میں جو کچھ دیکھ رہی ہوں، آپ بھی ضرور وہی محسوس کریں گے (کہ یہ کافی خوبصورت ہے اور اس سے شادی کر لینی چاہیے)۔ چنانچہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گئیں اور کہا: میں اپنی قوم کے سردار حارث بن ابی ضرارکی دختر ہوں، مجھ پر جو آزمائش آئی ہے، وہ آپ سے پوشیدہ نہیں۔ اب میںثابت بن قیس بن شماس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا ان کے چچا زاد کے حصے میں آ گئی ہوں، میں نے اپنی آزادی کا ان سے ایک معاہدہ کیا ہے، میں اس سلسلہ میں آپ سے تعاون حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئی ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں اس سے بہتر چیز کی رغبت ہے؟ انہوںنے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! وہ کیا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ یہ کہ تمہارے معاہدہ کی ساری رقم میں ادا کردوں اور تمہارے ساتھ نکاح کر لوں۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ ٹھیک ہے، میں راضی ہوں۔ سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ جب لوگوں میں یہ خبر پھیلی کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جویریہ بنت حارث سے نکاح کر لیا ہے۔ تو لوگوں نے کہا کہ یہ قیدی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سسرال ہوئے۔ تو انہوںنے اپنے اپنے حصے کے قیدیوں کو آزاد کر دیا۔ ان کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جویریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ نکاح کے نتیجہ میں بنو مصطلق کے سو گھروں کے لوگ آزاد ہوگئے، میں کسی ایسی عورت کو نہیں جانتی جو ان سے بڑھ کر اپنی قوم کے لیے با برکت ثابت ہوئی ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11459

۔ (۱۱۴۵۹)۔ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: کُنْتُ رَدِیفَ أَبِی طَلْحَۃَیَوْمَ خَیْبَرَ، وَقَدَمِی تَمَسُّ قَدَمَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَأَتَیْنَاہُمْ حِینَ بَزَغَتِ الشَّمْسُ وَقَدْ أَخْرَجُوا مَوَاشِیَہُمْ وَخَرَجُوا بِفُؤُوسِہِمْ وَمَکَاتِلِہِمْ وَمُرُونِہِمْ، فَقَالُوْا: مُحَمَّدٌ وَالْخَمِیسُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اللّٰہُ أَکْبَرُ خَرِبَتْ خَیْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَۃِ قَوْمٍ فَسَائَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِینَ۔)) قَالَ: فَہَزَمَہُمُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ، قَالَ: وَوَقَعَتْ فِی سَہْمِ دِحْیَۃَ جَارِیَۃٌ جَمِیلَۃٌ فَاشْتَرَاہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِسَبْعَۃِ أَرْؤُسٍ، ثُمَّ دَفَعَہَا إِلَی أُمِّ سُلَیْمٍ تُصْلِحُہَا وَتُہَیِّئُہَا وَہِیَ صَفِیَّۃُ ابْنَۃُ حُیَیٍّ، قَالَ: فَجَعَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلِیمَتَہَا التَّمْرَ وَالْأَقِطَ وَالسَّمْنَ، قَالَ: فُحِصَتِ الْأَرْضُ أَفَاحِیصَ، قَالَ: وَجِیئَ بِالْأَنْطَاعِ فَوُضِعَتْ فِیہَا، ثُمَّ جِیئََ بِالْأَقِطِ وَالتَّمْرِ وَالسَّمْنِ فَشَبِعَ النَّاسُ، قَالَ: وَقَالَ النَّاسُ: مَا نَدْرِی أَتَزَوَّجَہَا أَمْ اتَّخَذَہَا أُمَّ وَلَدٍ، فَقَالُوْا: إِنْ یَحْجُبْہَا فَہِیَ امْرَأَتُہُ وَإِنْ لَمْ یَحْجُبْہَا فَہِیَ أُمُّ وَلَدٍ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ یَرْکَبَ حَجَبَہَا حَتّٰی قَعَدَتْ عَلٰی عَجُزِ الْبَعِیرِ فَعَرَفُوا أَنَّہُ قَدْ تَزَوَّجَہَا، فَلَمَّا دَنَوْا مِنَ الْمَدِینَۃِ دَفَعَ وَدَفَعْنَا، قَالَ: فَعَثَرَتِ النَّاقَۃُ الْعَضْبَائُ، قَالَ: فَنَدَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَنَدَرَتْ، قَالَ: فَقَامَ فَسَتَرَہَا، قَالَ: وَقَدْ أَشْرَفَتِ النِّسَائُ فَقُلْنَ: أَبْعَدَ اللّٰہُ الْیَہُودِیَّۃَ، فَقُلْتُ: یَا أَبَا حَمْزَۃَ! أَوَقَعَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟، قَالَ: إِی وَاللّٰہِ لَقَدْ وَقَعَ، وَشَہِدْتُ وَلِیمَۃَ زَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَأَشْبَعَ النَّاسَ خُبْزًا وَلَحْمًا، وَکَانَ یَبْعَثُنِی فَأَدْعُو النَّاسَ، فَلَمَّا فَرَغَ قَامَ وَتَبِعْتُہُ وَتَخَلَّفَ رَجُلَانِ اسْتَأْنَسَ بِہِمَا الْحَدِیثُ لَمْ یَخْرُجَا، فَجَعَلَ یَمُرُّ بِنِسَائِہِ وَیُسَلِّمُ عَلٰی کُلِّ وَاحِدَۃٍ: ((سَلَامٌ عَلَیْکُمْیَا أَہْلَ الْبَیْتِ کَیْفَ أَصْبَحْتُمْ؟)) فَیَقُولُونَ: بِخَیْرٍیَا رَسُولَ اللّٰہِ کَیْفَ وَجَدْتَ أَہْلَکَ فَیَقُولُ: ((بِخَیْرٍ)) فَلَمَّا رَجَعَ وَرَجَعْتُ مَعَہُ، فَلَمَّا بَلَغَ الْبَابَ إِذَا ہُوَ بِالرَّجُلَیْنِ قَدِ اسْتَأْنَسَ بِہِمَا الْحَدِیثُ، فَلَمَّا رَأَیَاہُ قَدْ رَجَعَ قَامَا فَخَرَجَا، قَالَ: فَوَاللّٰہِ مَا أَدْرِی أَنَا أَخْبَرْتُہُ أَوْ نَزَلَ عَلَیْہِ الْوَحْیُ بِأَنَّہُمَا قَدْ خَرَجَا فَرَجَعَ وَرَجَعْتُ مَعَہُ، فَلَمَّا وَضَعَ رِجْلَہُ فِی أُسْکُفَّۃِ الْبَابِ أَرْخَی الْحِجَابَ بَیْنِی وَبَیْنَہُ، وَأَنْزَلَ اللّٰہُ الْحِجَابَ ہٰذِہِ الْآیَاتِ: {لَا تَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلَّا أَنْ یُؤْذَنَ لَکُمْ إِلٰی طَعَامٍ غَیْرَ نَاظِرِینَ إِنَاہُ} حَتّٰی فَرَغَ مِنْہَا۔ (مسند احمد: ۱۳۶۱۰)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ خیبر کے دن میں سواری پر ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پیچھے بیٹھا تھا اور میر اقدم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قدم کو لگ رہا تھا، ہم وہاں پہنچے تو آفتاب طلوع ہو چکا تھا، وہ لوگ اپنے جانوروں کو ہانک کر باہر نکلے اور اپنی کلہاڑیاں، ٹوکریاں اور رسیاںلے کر روانہ ہوئے یعنی وہ لوگ بالکل بے خبر تھے اور عام معمول کے مطابق اپنے اپنے کام کو روانہ ہوئے۔ اچانک ہی وہ حیران ہو کر کہنے لگے یہ تو محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ان کا لشکر ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ اکبر، اب خیبر کی خیر نہیں، ہم جب کسی قوم کے علاقے میں جا اتریں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:اللہ تعالیٰ نے ان یہود کو شکست سے دو چار کیا اور ایک خوبصورت لونڈی دحیہ کلبی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حصہ میں آئی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سات غلام دے کر ان سے اسے خرید لیا اور اسے ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے سپرد کیا تاکہ وہ اس کو تیار کرے۔ یہ حیی کی دختر صفیہ تھی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے ولیمہ میں کھجور، پنیر اور گھی پیش کیا۔ زمین میں چھوٹے چھوٹے گڑھے بنا کر ان پر دستر خوان بچھا دیئے گئے پھر پنیر کھجور اور گھی ان پر ڈال دیا گیا۔ لوگوں نے سیر ہو کر کھایا۔ لوگوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ آپ نے اس سے نکاح کیا ہے یا ام ولد (لونڈی) کی حیثیت دی ہے؟ پھر لوگوں نے کہا : اگر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو پردہ کرایا تو وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیوی ہیں اور اگر پردہ نہ کرایا تو وہ لونڈی ہیں، جب آپ نے سوار ہونے کا یعنی روانگی کا ارادہ کیا تو ان کو پردہ کرایایہاں تک کہ وہ اونٹ کی پشت پر سوار ہوگئیں۔ لوگ جان گئے کہ آپ نے ان سے نکاح کرکے ان کو بیوی کی حیثیت دی ہے۔ جب لوگ مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تیز چلے اور ہم بھی تیز تیز چلنے لگے۔ تیز چلنے کی وجہ سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عضباء اونٹنی کا پائوں الجھ گیا اور وہ گر گئی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ام المؤمنین سیدہ صفیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بھی گر گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اٹھ کر ان پر پردہ کر دیا، سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:عورتوں نے آکر کہا: اللہ اس یہودی عورت کو ہلاک کرے۔ (کہ اس کی وجہ سے آپ گر گئے ہیں) میں نے یعنی ثابت نے سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے پوچھا: اے ابو حمزہ! کیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گر گئے تھے؟ انہوں نے کہاں: ہاں ہاں، اللہ کی قسم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گر گئے تھے اور میں ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ولیمہ میں شریک ہوا تھا، آپ نے لوگوںکو گوشت روٹی کھلا کر خوب سیر کیاتھا، آپ مجھے بھیجتے تھے اور میں لوگوں کو بلا کر لاتا تھا،آپ جب کھانا کھلانے سے فارغ ہوئے تو اٹھ کر چل دیئے، میں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ دو آدمی باتیں کرتے کرتے بیٹھے رہے اور وہ پیچھے رہ گئے اور وہ اٹھ کر نہ گئے۔ آپ اپنی ازواج کے ہاں چکر لگانے لگے اور ہر ایک کو ان الفاظ کے ساتھ سلام کہتے: سَلَامٌ عَلَیْکُمْیَا أَہْلَ الْبَیْتِ اے اہل بیت! تم پر سلامتی ہو۔ تمہار کیا حال ہے؟ وہ کہتیں: اے اللہ کے رسول! ہم ٹھیک ہیں اور آپ نے اپنے اہل کو کیسا پایا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی فرماتے تھے: خیر کے ساتھ پایا۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس آئے تو میں بھی آپ کے ساتھ واپس آگیا۔ آپ ابھی تک دروازے پر پہنچے تو آپ نے ان دونوں آدمیوں کو دیکھا، وہ ابھی تک سلسلہ کلام جاری رکھے ہوئے تھے، انہوںنے جب دیکھا کہ آپ جا کر واپس آگئے ہیں تو وہ اٹھ کر چلے گئے۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! مجھے یاد نہیں کہ آپ کو میں نے بتلایایا آپ پر وحی نازل ہوئی کہ وہ دونوں جا چکے ہیں۔ آپ واپس آئے۔اور میں بھی آپ کے ساتھ واپس آگیا۔ آپ نے جب اپنا پائوں د روازے کی چوکھت پر رکھا تو اپنے اور میرے درمیان آپ نے پردہ لٹکا دیا۔ اور اللہ نے حجاب کے متعلق یہ آیات نازل کر دیں: {لَا تَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلَّا أَنْ یُؤْذَنَ لَکُمْ إِلٰی طَعَامٍ غَیْرَ نَاظِرِینَ إِنَاہُ} … تم نبی کے گھروں میں بلا اجازت مت جائو، الایہ کہ تمہیں کھانے کے لیے بلایا جائے تو ایسے وقت جائو کہ تمہیں کھانے کے پکنے کا انتظار نہ کرنا پڑے۔ (سورۂ احزاب: ۵۳)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11460

۔ (۱۱۴۶۰)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ عَنْ أَنَسٍ اَیْضًا بِنَحْوِہِ) وَفِیْہِ: فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْمَدِینَۃِ أَوْضَعَ النَّاسُ، وَأَوْضَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکَذَلِکَ کَانُوا یَصْنَعُونَ، فَعَثَرَتِ النَّاقَۃُ فَخَرَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَخَرَّتْ مَعَہُ، وَأَزْوَاجُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَنْظُرْنَ فَقُلْنَ: أَبْعَدَ اللّٰہُ الْیَہُودِیَّۃَ وَفَعَلَ بِہَا وَفَعَلَ، فَقَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَتَرَہَا وَأَرْدَفَہَا خَلْفَہُ۔ (مسند احمد: ۱۲۲۶۵)
۔(دوسری سند) سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی روایت سے اسی طرح ہے، البتہ اس میں یہ اضافہ ہے: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو لوگوں نے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بھی اپنی اپنی سوار یوں کو دوڑانا شروع کر دیا، وہ اسی طرح کرتے جا رہے تھے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اونٹنی گر گئی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ان کے ساتھ ہی ام المؤمنین سیدہ صفیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بھی گر گئیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی باقی ازواج یہ منظر دیکھ رہی تھیں، وہ بولیں: اللہ اس یہودن کو ہلاک کرے، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اٹھ کر ان پر پردہ کر دیا اور ان کو دوبارہ اپنے پیچھے سوار کر لیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11461

۔ (۱۱۴۶۱)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَالِتٍ) حَدَّثَنَا بَہْزٌ، حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: صَارَتْ صَفِیَّۃُ لِدِحْیَۃَ فِی قَسْمِہِ، فَذَکَرَ نَحْوَہُ إِلَّا أَنَّہُ قَالَ: حَتّٰی إِذَا جَعَلَہَا فِی ظَہْرِہِ نَزَلَ، ثُمَّ ضَرَبَ عَلَیْہَا الْقُبَّۃَ۔ (مسند احمد: ۱۲۲۶۶)
۔(تیسری سند) سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ مال غینمت کی تقسیم میں سیدہ صفیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، سیدنا دحیہ کلبی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حصہ میں آئیں۔ اس سے آگے گزشتہ حدیث کی مانند ہی ہے۔ البتہ اس طریق میںیوں ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ صفیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو اونٹنی پر اپنے پیچھے بٹھایا ، پھر نیچے اتر کر ان کے اوپر قبہ بنایا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11462

۔ (۱۱۴۶۲)۔ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلٰی، حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: أَقْبَلْنَا مِنْ خَیْبَرَ أَنَا وَأَبُو طَلْحَۃَ وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَصَفِیَّۃُ رَدِیفَتُہُ، قَالَ: فَعَثَرَتْ نَاقَۃُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَصُرِعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَصُرِعَتْ صَفِیَّۃُ، قَالَ: فَاقْتَحَمَ أَبُو طَلْحَۃَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! جَعَلَنِی اللّٰہُ فِدَاکَ، (قَالَ: أَشُکُّ قَالَ ذَاکَ أَمْ لَا) أَضُرِرْتَ؟ قَالَ ((لَا، عَلَیْکَ الْمَرْأَۃَ)) قَالَ: فَأَلْقٰی أَبُو طَلْحَۃَ عَلٰی وَجْہِہِ الثَّوْبَ فَانْطَلَقَ إِلَیْہَا فَمَدَّ ثَوْبَہُ عَلَیْہَا، ثُمَّ أَصْلَحَ لَہَا رَحْلَہَا فَرَکِبْنَا، ثُمَّ اکْتَنَفْنَاہُ أَحَدُنَا عَنْ یَمِینِہِ وَالْآخَرُ عَنْ شِمَالِہِ، فَلَمَّا أَشْرَفْنَا عَلَی الْمَدِینَۃِ أَوْ کُنَّا بِظَہْرِ الْحَرَّۃِ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((آیِبُونَ عَابِدُونَ تَائِبُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ۔)) فَلَمْ یَزَلْیَقُولُہُنَّ حَتّٰی دَخَلْنَا الْمَدِینَۃَ۔ (مسند احمد: ۱۲۹۷۷)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں، ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خیبر سے واپس ہوئے تو سیدہ صفیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سواری پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے بیٹھی تھیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اونٹنی پھسلی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدہ صفیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا گر گئے۔ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا تیزی سے لپک کر آگے بڑھے اور کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے، اس جملہ کے بارے میں سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ مجھے اس جملے کے متعلق شک ہے کہ ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ کہا تھا یا نہیں کہا تھا، پھر انھوں نے کہا: آپ کو چوٹ تو نہیں آئی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، تم اس عورت یعنی سیدہ صفیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی خبر لو۔ پس سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے چہرے کو کپڑے سے ڈھانپ لیا اور ان کی طرف جا کر اپنا کپڑا ان کے اوپر پھیلا دیا، پھر ان کے پالان کو درست کیا، پھر ہم سوار ہو کر چل دیئے۔ اس کے بعد ہم دونوں آپ کے دائیں بائیںہوگئے۔ جب ہم مدینہ منورہ کے قریبیا حرہ کے قریب پہنچے، تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ دعا پڑھنا شروع کر دی: آیِبُونَ عَابِدُونَ تَائِبُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ۔ (ہم واپس آنے والے، اللہ کی عبادت کرنے والے، توبہ کرنے والے اور اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں۔) آپ ان الفاط کو دہراتے رہے، یہاں تک کہ ہم مدینہ منورہ میں داخل ہوگئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11463

۔ (۱۱۴۶۳)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَعْتَقَ صَفِیَّۃَ بِنْتَ حُیَیٍّ وَجَعَلَ عِتْقَہَا صَدَاقَہَا۔ (مسند احمد: ۱۳۵۴۰)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ صفیہ بنت حیی کو آزاد کیا او ر ان کی آزادی کوہی ان کا حق مہر مقرر کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11464

۔ (۱۱۴۶۴)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: بَلَغَ صَفِیَّۃَ أَنَّ حَفْصَۃَ قَالَتْ: إِنِّی ابْنَۃُیَہُودِیٍّ فَبَکَتْ، فَدَخَلَ عَلَیْہَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہِیَ تَبْکِی، فَقَالَ: ((مَا شَأْنُکِ؟)) فَقَالَتْ: قَالَتْ لِی حَفْصَۃُ: إِنِّی ابْنَۃُیَہُودِیٍّ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّکِ ابْنَۃُ نَبِیٍّ، وَإِنَّ عَمَّکِ لَنَبِیٌّ، وَإِنَّکِ لَتَحْتَ نَبِیٍّ، فَفِیمَ تَفْخَرُ عَلَیْکِ؟)) فَقَالَ: ((اتَّقِ اللّٰہَ یَا حَفْصَۃُ۔)) (مسند احمد: ۱۲۴۱۹)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ سیدہ صفیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو یہ خبر ملی کہ سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا ہے کہ یہ صفیہ تو ایکیہودی کی بیٹی ہے، اس سے وہ رونے لگ گئیں، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس آئے اور وہ رہ رہی تھیں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ انھوں نے کہا: حفصہ نے میرے بارے میں کہا ہے کہ میں یہودی کی بیٹی ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم تو ایک نبی کی بیٹی ہو، تمہارا چچا بھی نبی ہے اور تم ایک نبی کی بیوی بھی ہو، سو وہ حفصہ کس بنا پر تجھ پر فخر کرتی ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حفصہ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11465

۔ (۱۱۴۶۵)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: لَمَّا دَخَلَتْ صَفِیَّۃُ بِنْتُ حُیَیٍّ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فُسْطَاطَہُ حَضَرَ نَاسٌ وَحَضَرْتُ مَعَہُمْ لِیَکُونَ فِیہَا قَسْمٌ، فَخَرَجَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((قُومُوْا عَنْ أُمِّکُمْ۔)) فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْعَشِیِّ حَضَرْنَا فَخَرَجَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَیْنَا فِی طَرَفِ رِدَائِہِ نَحْوٌ مِنْ مُدٍّ وَنِصْفٍ مِنْ تَمْرٍ عَجْوَۃٍ، فَقَالَ: ((کُلُوْا مِنْ وَلِیمَۃِ أُمِّکُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۴۶۳۰)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ جب ام المؤمنین سیدہ صفیہ بنت حیی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خیمہ میں داخل ہوئیں تو لوگ آگئے، میں بھی لوگوں کے ساتھ آگیا، تاکہ ان کے ساتھ ولیمہ میں میں بھی شریک ہو جائوں۔ لیکن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خیمہ سے باہر چلے گئے اور فرمایا: تم بھی اپنی ماں کے پاس سے اٹھ آئو۔ پھر جب پچھلا پہر ہوا تو ہم پھر جمع ہوگئے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہماری طرف تشریف لائے، آپ کی چادر کے ایک پلو میں ڈیڑھ مد کے قریب عجوہ کھجوریں تھیں، آپ نے فرمایا: یہ کھاؤ، یہ تمہاری ماںکا ولیمہ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11466

۔ (۱۱۴۶۶)۔ عَنْ صَفِیَّۃَ بِنْتِ حُیَیٍّ: أَنَّ النَّبِیَّ حَجَّ بِنِسَائِہٖ،فَلَمَّاکَانَفِی بَعْضِ الطَّرِیْقِ، نَزَلَ رَجُلٌ فَسَاقَ بِھِنَّ فَأَسْرَعَ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کَذَاکَ سَوْقُکَ بِالْقَوَارِیْرِ۔)) فَبَیْنَمَا ھُمْ یَسِیْرُوْنَ بَرَکَ بَصَفِیَۃَ بِنْتِ حُیَیٍّ جَمَلُھَا، وَکَانَتْ مِنْ أَحْسَنِھِنَّ ظَھْراً فَبَکَتْ۔ وَجَائَ رَسُوْلُ اللّٰہَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِیْنَ أُخْبِرَ بِذٰلِکَ فَجَعَلَ یَمْسَحُ دُمُوْ عَھَا بِیَدِہٖ، وَجَعَلَتْ تَزْدَادُ بُکَائً وَھُوَ یَنْھَاھَا، فَلَمَّا أَکْثَرَتْ زَبَرَھَا وَانْتَھَرَھَا، وَأَمَرَالنَّاسَ بِالنُّزُوْلِ فَنَزَلُوْا، وَلَمْ یَکُنْیُرِیْدُ أَن یَّنْزِلَ، قَالَتْ: فَنَزَلُوْا، وَکَانَ یَوْمِی، فَلَمَّا نَزَلُوْا ضُرِبَ خِبَائُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَدَخَلَ فِیْہِ، قَالَتْ: فَلَمْ أَدْرِ عَلَامَ أَھْجُمُ مِن رَّسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَخَشِیْتُ أَن یَّکُوْنَ فِی نَفْسِہٖشَیْئٌ مِنِّی۔ قَالَتْ: فَانْطَلَقْتُ إِلٰی عَائِشَۃَ فَقُلْتُ لَھَا: تَعْلَمِیْنَ أَنِّی لَمْ أَکُنْ أَبِیْعُیَوْمِی مِن رَّسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِشَیْئٍ أَبَداً وَإِنِّی قَدْ وَھَبْتُ یَوْمِی لَکِ عَلٰی أَنْ تُرْضِیَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنِّی! قَالَتْ: نَعَمْ قَالَتْ: فَأَخَذَتْ عَائِشَۃُ خِمَاراً لَّھَا قَدْ ثَرَّدَتْہُ بِزَعْفَرَانَ، فَرَشَّتْہُ بِالْمَائِ لِیُذَکّٰی رِیْحُہُ، ثُمَّ لَبِسَتْ ثِیَابَھَا، ثُمَّ انْطَلَقَتْ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَرَفَعَتْ طَرْفَ الْخِبَائِ، فَقَالَ لَھَا: ((مَالَکِ یَاعَائِشَۃُ؟! إِنَّ ھٰذَا لَیْسَ بِیَوْمِکِ۔)) قَالَتْ: ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُوْتِیْہِ مَن یَّشَائُ فَقَالَ مَعَ أَْھِلِہٖفَلَمَّاکَانَعِنْدَالرَّوَاحِ،قَالَلِزَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ: ((یَازَیْنَبُ! أَفْقِرِیْ أُخْتَکِ صَفِیَّۃَ جَمَلاً۔)) وَکَانَتْ مِنْ اَکْثَرِ ھِنَّ ظَھْراً، فَقَالَتْ: أَنَاأُفْقِرُیَھُوْدِیَّتَکَ! فَغَضَبِ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِیْنَ سَمِعَ ذٰلِکَ مِنْھَا، فَھَجَرَھَا فَلَمْ یُکَلِّمْھَا حَتّٰی قَدِمَ مَکَّۃَ وَأَیَّامَ مِنٰی فِی سَفَرِہٖ،حَتّٰی رَجَعَ إِلٰی الْمَدِیْنَۃِ، وَالْمُحَرَّمُ وَصَفَرٌ، فَلَمْ یَأْتِھَا وَلَمْ یَقْسِمْ لَھَا، وَیَئِسَتْ مِنْہُ فَلَمَّاکَانَ شَھْرُ رَبِیْعِ الأَوَّلِ، دَخَلَ عَلَیْھَا، فَرَأَتْ ظِلَّّہُ، فَقَالَتْ: إِنَّ ھٰذَا لَظِلُّ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَایَدْخُلُ عَلَیَّ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَمَنْ ھٰذَا؟ فَدَخَلَ النَّبِیَُ فَلَمَّا رَأَتْہُ قَالَتْ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَأاَدْرِی مَاأَصْنَعُ حِیْنَ دَخَلْتَ عَلَیَّ؟ قَالَتْ: وَکَانَتْ لَھَا جَارِیَۃٌ وَکَانَتْ تُخْبِئُھَا مِنَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ: فُلَانَۃٌ لَکَ، فَمَشٰی النَبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی سَرِیْرِ زَیْنَبَ وَکَانَ قَدْ رُفِعَ فَوَضَعَہُ بِیَدِہٖ، ثُمَّ اَصَابَ أَھْلَہُ، وَرَضِیَ عَنْہُمْ۔ (مسند احمد: )
سیدہ صفیہ بنت ِ حیی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بیویوں کے ساتھ حج کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کہیں راستہ میں تھے کہ ایک آدمی اترا، اور عورتوں کی سواریوں کو تیز تیز چلانے لگا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس طرح شیشوں (عورتوں) کو لے کر چلتے ہیں؟ سو وہ چل رہے تھے کہ صفیہ بنت حیی کا اونٹ بیٹھ گیا،حالانکہ ان کی سواری سب سے اچھی تھی،وہ رونے لگ گئیں۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پتہ چلا تو آپ تشریف لائے اور اپنے ہاتھ سے ان کے آنسوپونچھنے لگ گئے، وہ اور زیادہ رونے لگیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو منع کرتے رہے۔جب وہ بہت زیادہ رونے لگ گئیں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور لوگوں کو اترنے کا حکم دے دیا، سو وہ اتر گئے،اگرچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا اترنے کا ارادہ نہیں تھا۔وہ کہتی ہیں:صحابہ کرام اتر پڑے اور اس دن میری باری تھی۔ جب صحابہ اترے تو نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خیمہ نصب کیا گیا، آپ اس میں داخل ہوگئے۔ وہ کہتی ہیں:یہ بات میری سمجھ میں نہ آ سکی کہ میں کیسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گھس جاؤں اور مجھے یہ ڈر بھی تھا کہ (ممکن ہے کہ) آپ کے دل میں میری بارے میں کوئی ناراضی ہو۔ وہ کہتی ہیں: میں عائشہ کے پاس گئی اور ان سے کہا: تم جانتی ہو کہ میں کسی چیز کے عوض اپنے دن کا سودا نہیں کروں گی، لیکن میں تجھے اپنی باری کا دن اس شرط پر ہبہ کرتی ہوں کہ تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مجھ سے راضی کروا دو۔ انھوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ اب وہ کہتی ہیں: عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے زعفران میں رنگی ہوئی چادر لی اور اس پر پانی چھڑکا تاکہ اس کی خوشبو تروتازہ ہوجائے، پھر اپنے کپڑے زیبِ تن کئے، پھر رسول اللہ کی طرف چلی گئیں اور (جا کر) خیمہ کا ایک کنارہ اٹھایا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: اے عائشہ! تجھے کیا ہوا؟ یہ دن تیرا تو نہیں ہے۔ انھوں نے کہا: یہ اللہ کا فضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے، عطا کرتا ہے۔ آپ نے اپنی اہلیہ کے پاس دوپہر کو آرام کیا۔ جب شام ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زینب بنت جحش سے فرمایا: اے زینب! اپنی بہن صفیہ کو ایک اونٹ مستعار دے دو۔ کیونکہ ان کے پاس سواریاں زیادہ تھیں۔ زینب نے کہا: کیا میں آپ کییہودیہ کو مستعار دے دوں؟یہ بات سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس سے ناراض ہو گئے اور اس سے بولنا ترک کر دیا اور اس سے کوئی بات نہ کی، حتی کہ مکہ پہنچ گئے، پھر منی والے دن (بیت گئے) یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ واپس آ گئے اور محرم اور صفر کے (دو ماہ) بھی گزر گئے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نہ زینب کے پاس گئے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی باری مقرر کی۔ وہ بھی آپ سے نااُمید ہوگئی۔ جب ربیع الاوّل کا مہینہ تھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پاس گئے۔ زینب نے آپ کا سایہ دیکھا اور کہا: یہ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سایہ ہے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو میرے پاس آتے ہی نہیں، سو یہ (سائے والا) کون ہو سکتا ہے؟ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس داخل ہوئے، جب زینب نے آپ کو دیکھا تو کہا: اے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! آپ کے آنے سے (مجھے اتنی خوشی ہوئی ہے) کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں کیا کروں ۔ وہ کہتی ہیں: ان کی ایک لونڈی تھی، جس کو وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے چھپا کر رکھتی تھیں۔پھر اُس نے کہا: فلاں لونڈی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے ہے۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زینب کی چارپائی کی طرف گئے، اُسے اٹھا لیا گیا تھا، آپ نے اُس کو اپنے ہاتھ سے بچھایا، پھر اپنی اہلیہ سے مباشرت کی اور اُن سے راضی ہوئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11467

۔ (۱۱۴۶۷)۔ عَنْ شُمَیْسَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ فِی سَفَرٍ لَہُ فَاعْتَلَّ بَعِیرٌ لِصَفِیَّۃَ، وَفِی إِبِلِ زَیْنَبَ فَضْلٌ، فَقَالَ لَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ بَعِیرًا لِصَفِیَّۃَ اعْتَلَّ فَلَوْ أَعْطَیْتِہَا بَعِیرًا مِنْ إِبِلِکِ؟)) فَقَالَتْ: أَنَا أُعْطِی تِلْکَ الْیَہُودِیَّۃَ، قَالَ: فَتَرَکَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَا الْحِجَّۃِ وَالْمُحَرَّمَ شَہْرَیْنِ أَوْ ثَلَاثَۃً لَا یَأْتِیہَا، قَالَتْ: حَتّٰییَئِسْتُ مِنْہُ وَحَوَّلْتُ سَرِیرِی، قَالَتْ: فَبَیْنَمَا أَنَا یَوْمًا بِنِصْفِ النَّہَارِ إِذَا أَنَا بِظِلِّ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُقْبِلٌ، قَالَ عَفَّانُ: حَدَّثَنِیہِ حَمَّادٌ عَنْ شُمَیْسَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ سَمِعْتُہُ بَعْدُ یُحَدِّثُہُ عَنْ شُمَیْسَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم و قَالَ: بَعْدُ فِی حَجٍّ أَوْ عُمْرَۃٍ، قَالَ: وَلَا أَظُنُّہُ إِلَّا قَالَ: فِی حَجَّۃِ الْوَدَاعِ۔ (مسند احمد: ۲۵۵۱۶)
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک سفر میں تھے کہ سیدہ صفیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا اونٹ بیمار پڑ گیا۔ سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس زائد اونٹ تھا، اس لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا : صفیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا اونٹ بیمار ہو گیا ہے، کیا خیال ہے کہ اگر تم اپنے اونٹوں میں سے ایک اونٹ ان کو دے دو۔ انھوں نے کہا: میں اس یہودن کو اونٹ دوں؟ اس بات پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان سے ناراض ہوگئے اور ذوالحجہ و محرم کے دو تین مہینے تک ان سے لا تعلق رہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ہاں اتنے عرصہ تک نہ گئے، نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ میں آپ کے راضی ہونے سے مایوسہوگئی اور میں نے اپنی چارپائی اٹھا کر ایک طرف کھڑی کر دی تھی کہ اچانک ایک دن دوپہر کے وقت میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے آنے کا سایہ دیکھا۔ عفان نے کہا:حماد نے یہ حدیث شمیسہ سے اور انہوںنے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کی۔ عفان کہتے ہیں کہ اس کے بعد ایک دفعہ حماد نے مجھے یہی حدیث شمیسہ سے بیان کی کہ انہوںنے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے اور انہوںنے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کی۔ اور بعد میں انہوںنے یوں کہا کہ یہ واقعہ حج کا تھا یا عمرے کا۔ عفان کہتے ہیں مجھے یقین ہے کہ انہوںنے کہا تھا کہ یہ واقعہ حجہ الوداع میں پیش آیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11468

۔ (۱۱۴۶۸)۔ عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ أَبِی أُسَیْدٍ، عَنْ أَبِیہِ وَعَبَّاسِ بْنِ سَہْلٍ، عَنْ أَبِیہِ قَالَا: مَرَّ بِنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابٌ لَہُ، فَخَرَجْنَا مَعَہُ حَتَّی انْطَلَقْنَا إِلٰی حَائِطٍ یُقَالُ لَہُ: الشَّوْطُ حَتَّی انْتَہَیْنَا إِلٰی حَائِطَیْنِ مِنْہُمَا فَجَلَسْنَا بَیْنَہُمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اجْلِسُوْا۔)) وَدَخَلَ ہُوَ وَقَدْ أُوتِیَ بِالْجَوْنِیَّۃِ فِی بَیْتِ أُمَیْمَۃَ بِنْتِ النُّعْمَانِ بْنِ شَرَاحِیلَ وَمَعَہَا دَایَۃٌ لَہَا، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَیْہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((ہَبِی لِی نَفْسَکِ۔)) قَالَتْ: وَہَلْ تَہَبُ الْمَلِکَۃُ نَفْسَہَا لِلسُّوقَۃِ، قَالَتْ: إِنِّی أَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنْکَ، قَالَ: ((لَقَدْ عُذْتِ بِمُعَاذٍ۔)) ثُمَّ خَرَجَ عَلَیْنَا فَقَالَ: ((یَا أَبَا أُسَیْدٍ اکْسُہَا رَازِقِیَّتَیْنِوَأَلْحِقْہَا بِأَہْلِہَا۔)) قَالَ: وَقَالَ غَیْرُ أَبِی أَحْمَدَ: امْرَأَۃٌ مِنْ بَنِی الْجَوْنِ یُقَالُ لَہَا أَمِینَۃُ۔ (مسند احمد: ۱۶۱۵۸)
سیدنا ابو اسید اور سیدنا سہل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ کے اصحاب کا ہمارے پاس سے گزر ہوا، ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہم ایک باغ تک گئے جس کا نام الشوط تھا، ہم وہاں دو اور باغوں کے پاس جا پہنچے اور ہم ان دونوں کے درمیان بیٹھ گئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیٹھ جائو۔ اور آپ آگے چلے گئے، جونیہ خاتون کو امیمہ بنت نعمان بن شراحیل کے گھر میں لایا گیا تھا، اس کے ہمراہ اس کی ایک دایہ بھی تھی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پاس گئے اورفرمایا: تم اپنے آپ کو میرے لیے ہبہ کر دو۔ اس نے کہا: کیا کوئی ملکہ اپنے آپ کو اپنی رعایا کے لیے ہبہ کرسکتی ہے؟ ساتھ ہی وہ کہنے لگی: میں آپ سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو نے اس ذات کا نام لے کر پناہ مانگی ہے کہ صرف وہی ذات ایسی ہے جس کی پناہ طلب کی جاتی ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہماری طرف آگئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابوا سید! تم اسے روئی کے دو سفید کپڑے دے کر اس کو اس کے اہل خانہ کے ہاں پہنچا دو۔ ابو احمد کے علاوہ باقی او ر راویوں نے جونیہ کی بجائے یوں کہا ہے کہ امیمہ بنت نعمان کے گھر میں بنو جون قبیلہ کی امینہ نامی ایک عورت کو لایا گیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11469

۔ (۱۱۴۶۹)۔ جَمِیلُ بْنُ زَیْدٍ قَالَ: صَحِبْتُ شَیْخًا مِنَ الْأَنْصَارِ، ذَکَرَ أَنَّہُ کَانَتْ لَہُ صُحْبَۃٌیُقَالُ لَہُ: کَعْبُ بْنُ زَیْدٍ أَوْ زَیْدُ بْنُ کَعْبٍ، فَحَدَّثَنِی أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَزَوَّجَ امْرَأَۃً مِنْ بَنِی غِفَارٍ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَیْہَا وَضَعَ ثَوْبَہُ وَقَعَدَ عَلَی الْفِرَاشِ أَبْصَرَ بِکَشْحِہَا بَیَاضًا فَانْحَازَ عَنِ الْفِرَاشِ، ثُمَّ قَالَ: ((خُذِی عَلَیْکِ ثِیَابَکِ۔)) وَلَمْ یَأْخُذْ مِمَّا أَتَاہَا شَیْئًا۔ (مسند احمد: ۱۶۱۲۸)
جمیل بن زید کہتے ہیں: مجھے ایک انصاری بزرگ کی صحبت میں بیٹھنے کا موقعہ ملا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ اسے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہے۔ اس کا نام کعب بن زیدیا زید بن کعب تھا، اس نے مجھے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قبیلہ بنو غفار کی ایک خاتون سے نکاح کیا، جب آپ اس کے ہاں داخل ہوئے تو اپنا کپڑا ایک طرف رکھا اور بستر پر بیٹھ گئے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس کی کو کھ پر برص کا سفید نشان نظر آیا توآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بستر سے دور ہوگئے اور فرمایا: اپنے کپڑے پہن لو۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے جو کچھ عنایت کیا تھا، اس میں سے کوئی بھی چیز آپ نے واپس نہیں لی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11470

۔ (۱۱۴۷۰)۔ عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ أُمِّ شَرِیْکٍ: اِنَّہَا کَانَتْ مِمَّنْ وَھَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۸۱۷۳)
سیدہ ام شریک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ وہ ان خواتین میں سے ہے، جنھوں نے اپنے آ پ کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے ہبہ کیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11471

۔ (۱۱۴۷۱)۔ عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَأَی أُمَّ حَبِیبَۃَ بِنْتَ عَبَّاسٍ وَہِیَ فَوْقَ الْفَطِیمِ، قَالَتْ: فَقَالَ: لَئِنْ بَلَغَتْ بُنَیَّۃُ الْعَبَّاسِ ہٰذِہِ وَأَنَا حَیٌّ لَأَتَزَوَّجَنَّہَا۔ (مسند احمد: ۲۷۴۰۷)
سیدہ ام فضل بنت سے حارث سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ام حبیبہ بنت عباس کو اس عمر میں دیکھا کہ ابھی ان کا دودھ کچھ عرصہ قبل ہی چھڑایا گیا تھا۔ تو آپ نے فرمایا: اگر میری زندگی میں عباس کییہ بیٹی بالغ ہوگئی تو میں اس سے ضرور نکاح کروں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11472

۔ (۱۱۴۷۲)۔ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ أُمَّ سُلَیْمٍ بَعَثَتْہُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِقِنَاعٍ عَلَیْہِ رُطَبٌ، فَجَعَلَ یَقْبِضُ قَبْضَتَہُ فَیَبْعَثُ بِہَا إِلٰی بَعْضِ أَزْوَاجِہِ، وَیَقْبِضُ الْقَبْضَۃَ فَیَبْعَثُ بِہَا إِلٰی بَعْضِ أَزْوَاجِہِ، ثُمَّ جَلَسَ فَأَکَلَ بَقِیَّتَہُ أَکْلَ رَجُلٍ یُعْلَمُ أَنَّہُ یَشْتَہِیہِ۔ (مسند احمد: ۱۲۲۹۲)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ان کی والدہ سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان کو کھجوروں کی ایک پلیٹیا کھلا برتن دے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف بھیجا، آپ مٹھیاں بھر بھر کر کھجوریں اپنی ازواج کے ہاں بھجوانے لگے، اس کے بعد باقی کھجوریں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس طرح کھائیںکہ واضح طور پر پتہ چل رہا تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کھانے کی حاجت تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11473

۔ (۱۱۴۷۳)۔ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِذَا أَرَادَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَیْنَ نِسَائِہِ فَأَیَّتُہُنَّ خَرَجَ سَہْمُہَا خَرَجَ بِہَا مَعَہُ، وَکَانَ یَقْسِمُ لِکِلِّ امْرَأَۃٍ مِنْہُنَّ یَوْمَہَا وَلَیْلَتَہَا غَیْرَ أَنَّ سَوْدَۃَ بِنْتَ زَمْعَۃَ کَانَتْ وَھَبَتْ یَوْمَہَا وَلَیْلَتَہَا لِعَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَبْتَغِیْ بِذَالِکَ رِضَا النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۵۳۷۱)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے ر وایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے، جس کا قرعہ نکلتا، اسے ساتھ لے کر جاتے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی ہر بیوی کے لئے اس کی رات اور اس کا دن تقسیم کیا کرتے تھے، لیکن سیدنا سودہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اس سے مستثنیٰ تھیں، کیونکہ انہوں نے اپنا دن اور رات ام المومنین سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو ہبہ کر دیا تھا، سیدہ سودہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا مقصد نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رضا تلاش کرنا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11474

۔ (۱۱۴۷۴)۔ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدُوْرُ عَلٰی نِسَائِہِ فِی السَّاعَۃِ الْوَاحِدَۃِ مِنَ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَھُنَّ إِحْدٰی عَشَرَۃَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: وَھَلْ کَانَ یُطِیْقُ ذٰلِکَ؟ قَالَ: کُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّہ أُعْطِیَ قُوَّۃَ ثَلَاثِیْنَ۔ (مسند احمد: ۱۴۱۵۵)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رات اور دن کی ایک گھڑی میں اپنی تمام بیویوں کے پاس جا کر (حق زوجیت ادا) کر لیتے تھے، اس وقت ان کی تعداد گیارہ تھی، میں نے سیدنا انس سے کہا: کیا آپ کو اتنی طاقت تھی، انہوں نے کہا: ہم آپس میں بیان کرتے تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تیس آدمیوں کی قوت عطا کی گئی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11475

۔ (۱۱۴۷۵)۔ (وَعَنْہٗمِنْطَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: کَانَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَطُوْفُ عَلَی تِسْعِ نِسْوَۃٍ فِیْ ضَحْوَۃٍ۔ (مسند احمد: ۱۳۵۳۹)
۔(دوسری سند) سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چاشت کے وقت اپنی نو ازواج کے ہاں چکر لگایا کرتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11476

۔ (۱۱۴۷۶)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: کَانَ رَسَوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا مِنْ یَوْمٍ اِلَّا وَ ھُوَ یَطُوْفُ عَلَیْنَا جَمِیْعًا امْرَأَۃً امْرَأَۃً فَیَدْنُوْا وَیَلْمِسُ مِنْ غَیْرِ مَسِیْسٍ حَتّٰییُفْضِیَ اِلَی الَّتِیْ ھُوَ یَوْمُہَا فَیَبِیْتُ عِنْدَھَا۔ (مسند احمد: ۲۵۲۷۴)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں:نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہر روز ایک ایک کر کے اپنی تمام بیویوں کے پاس تشریف لے جاتے تھے، پھر ہر ایک کے قریب ہوتے اور اس کو مسّ کرتے، البتہ جماع نہیں کرتے تھے، یہاں تک کہ اس بیوی کے پاس پہنچ جاتے تھے، جس کی باری ہوتی تھی، پھر اس کے پاس رات گزارتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11477

۔ (۱۱۴۷۷)۔ أَخْبَرَنَا حُمَیْدٌ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ عِنْدَ بَعْضِ نِسَائِہِ، قَالَ: أَظُنُّہَا عَائِشَۃَ، فَأَرْسَلَتْ إِحْدٰی أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِینَ مَعَ خَادِمٍ لَہَا بِقَصْعَۃٍ فِیہَا طَعَامٌ، قَالَ: فَضَرَبَتِ الْأُخْرٰی بِیَدِ الْخَادِمِ فَکُسِرَتِ الْقَصْعَۃُ بِنِصْفَیْنِ، قَالَ: فَجَعَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((غَارَتْ أُمُّکُمْ۔)) قَالَ: وَأَخَذَ الْکَسْرَتَیْنِ فَضَمَّ إِحْدَاہُمَا إِلَی الْأُخْرٰی فَجَعَلَ فِیہَا الطَّعَامَ، ثُمَّ قَالَ: ((کُلُوْا۔)) فَأَکَلُوا وَحَبَسَ الرَّسُولَ وَالْقَصْعَۃَ حَتّٰی فَرَغُوْا فَدَفَعَ إِلَی الرَّسُولِ قَصْعَۃً أُخْرٰی وَتَرَکَ الْمَکْسُورَۃَ مَکَانَہَاََََ۔ (مسند احمد: ۱۲۰۵۰)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا یا کسی دوسری اہلیہ کے ہاں موجود تھے، کسی دوسری ام المؤمنین نے اپنے خادم کے ہاتھ کھانے کا ایک پیالہ بھیج دیا، تو آپ جس کے گھر تھے، اس نے اس خادم کے ہاتھ پر جھپٹا مار کر پیالے کو توڑ ڈالا۔ یہ عالم دیکھ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمانے لگے: تمہاری ماں کو غیرت آگئی ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پیالے کے ٹوٹے ہوئے دونوں ٹکڑوں کو اٹھا کر ایک دوسرے کے ساتھ ملایا اور کھانا اٹھا کر اس ٹوٹے ہوئے پیالے ہی میں ڈالنے لگے اور فرمایا: لو کھا لو۔ دوسرے موجود لوگوں نے کھانا کھا لیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھانا لانے والے خادم اور پیالے کو روک لیا، جب وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو آپ نے اس خادم کو دوسرا پیالہ دے دیا اور ٹوٹا ہوا پیالہ رکھ لیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11478

۔ (۱۱۴۷۸)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ بِنَحْوِہِ) وَفِیْہ: وَحَبَسَ الرَّسُولَ حَتّٰی جَائَ تِ الْأُخْرٰی بِقَصْعَتِہَا، فَدَفَعَ الْقَصْعَۃَ الصَّحِیحَۃَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی الَّتِی کُسِرَتْ قَصْعَتُہَا، وَتَرَکَ الْمَکْسُورَۃَ لِلَّتِی کَسَرَتْ۔ (مسند احمد: ۱۳۸۰۸)
۔(دوسری سند) سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، یہ حدیث گزشتہ حدیث کی طرح ہے۔ البتہ اس میں یہ الفاظ بھی ہیں: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خادم کو روک لیا،یہاں تک کہ دوسری ام المؤمنین نے اپنا پیالہ لا کر دیا تو جس ام المؤمنین کا پیالہ ٹوٹا تھا، اس کی طرف دوسرا صحیح پیالہ اس خادم کے ہاتھ بھیج دیا اور ٹوٹا ہوا ان کے پاس رہنے دیا جنہوںنے توڑا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11479

۔ (۱۱۴۷۹)۔ عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا قَالَتْ: مَا رَأَیْتُ صَانِعَۃَ طَعَامٍ مِثْلَ صَفِیَّۃَ، أَہْدَتْ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِنَائً فِیہِ طَعَامٌ وَفِیْ لَفْظٍ وَہُوَ عِنْدِیْ، فَمَا مَلَکْتُ نَفْسِیْ أَنْ کَسَرْتُہُ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا کَفَّارَتُہُ؟ فَقَالَ: ((إِنَائٌ کَإِنَائٍ وَطَعَامٌ کَطَعَامٍ۔)) (مسند احمد: ۲۵۶۷۰)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے ام المؤمنین سیدہ صفیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا جیسا کھانا تیار کرتے کسی کو نہیں دیکھا، انہوںنے کھانے کا ایک پیالہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بھجوایا۔ دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ اس روز نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ہاں تھے، میں غیرت کی وجہ سے اپنے آپ کو کنٹرول نہ کر سکی اور میں نے وہ پیالہ توڑ ڈالا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اب اس کا کفارہ کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: برتن جیسا برتن اور کھانے جیسا کھانا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11480

۔ (۱۱۴۸۰)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: کَانَ رَجُلٌ یَسُوقُ بِأُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِینَیُقَالُ لَہُ: أَنْجَشَۃُ، فَاشْتَدَّ فِی السِّیَاقَۃِ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا أَنْجَشَۃُ رُوَیْدَکَ سَوْقًا بِالْقَوَارِیرِ۔)) (مسند احمد: ۱۲۰۶۴)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ ایک صحابی امہات المؤمنین کے اونٹوں کو ہانکا کرتا تھا، اس کو انجشہ کہا جاتا تھا، ایک بار اس نے اونٹوں کو تیز تیز چلانا شروع کر دیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: انجشہ! ان آبگینوں کو آرام آرام سے لے کر چلو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11481

۔ (۱۱۴۸۱)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: بَیْنَمَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَسِیْرُ وَحَادٍ یَحْدُو بِنِسَائِہِ فَضَحِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاِذَا ھُوَ قَدْ تَنَحّٰی بِہِنَّ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ: ((یَا أَنْجَشَۃُ! وَیْحَکَ اُرْفُقْ بِالْقَوَارِیْرِ۔)) (مسند احمد: ۱۲۷۹۱)
سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چل رہے تھے اور ایک حدی خوان حدی کرتے ہوئے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیویوں والے اونٹوں کو چلا رہا تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرا پڑے، اس سے اس نے (مزید حدی کے ذریعے) ان کو تیزی کے ساتھ چلانا شروع کر دیا، جس پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو فرمایا: انجشہ! تجھ پر افسوس ہے، شیشوں کے ساتھ نرمی کر۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11482

۔ (۱۱۴۸۲)۔ حَدَّثَنَا أَیُّوبُ عَنْ أَبِی قِلَابَۃَ عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَتٰی عَلٰی أَزْوَاجِہِ وَسَوَّاقٌ یَسُوقُ بِہِنَّ، یُقَالُ لَہُ: أَنْجَشَۃُ، فَقَالَ: ((وَیْحَکَیَا أَنْجَشَۃُ رُوَیْدَکَ سَوْقَکَ بِالْقَوَارِیرِ)) قَالَ أَبُو قِلَابَۃَ: تَکَلَّمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِکَلِمَۃٍ لَوْ تَکَلَّمَ بِہَا بَعْضُکُمْ لَعِبْتُمُوہَا عَلَیْہِیَعْنِی قَوْلَہُ: سَوْقَکَ بِالْقَوَارِیرِ۔ (مسند احمد: ۱۲۹۶۶)
ابو قلابہ سے روایت ہے کہ وہ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی ازواج کے پاس آئے۔ تو ایک شتر بان (حدی خوان) ان کے اونٹوں کو ہانکے جا رہا تھا۔ اس کا نام انجشہ تھا۔ آپ نے فرمایا، انجشہ! تمہارا بھلا ہو۔ تم ان آبگینوں کو ذرا آرام سے لے چلو۔ ابوقلابہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک ایسا لفظ بولا کہ اگر تم میں سے کوئی اور آدمییہ لفظ بولتا تو تم اسے معیوب گردانتے۔ یعنی آپ نے اس سے کہا کہ ان آبگینوں کو آرام سے لے چلو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11483

۔ (۱۱۴۸۳)۔ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ جَارًا لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَارِسِیًّا، کَانَ طَیِّبَ الْمَرَقِ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ کَانَتْ مَرَقَتُہُ اَطْیَبَ شَیْئٍ رِیْحًا) فَصَنَعَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ جَائَ ہُ یَدْعُوہُ، فَقَالَ: ((وَہٰذِہِ لِعَائِشَۃَ۔)) فَقَالَ: لَا، فَقَالَ: رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَا۔)) ثُمَّ عَادَ یَدْعُوہُ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((وَہٰذِہِ)) قَالَ: لَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((وَہٰذِہِ)) قَالَ: نَعَمْ، فِی الثَّالِثَۃِ، فَقَامَا یَتَدَافَعَانِ حَتّٰی أَتَیَا مَنْزِلَہُ۔ (مسند احمد: ۱۲۲۶۸)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ایک ہمسایہ فارس کا رہنے والا تھا، وہ بہترین قسم کا شور با بناتا تھا۔ (دوسری روایت کے لفظ ہیں کہ اس کا تیار کردہ شورباانتہائی مزیدار ہوتا تھا۔) اس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے شوربا تیار کیا، پھر آپ کو وہ بلانے آیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیایہ (یعنی عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ) بھی؟ (یعنی ان کو بھی ساتھ لاؤں) ؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوبارہ فرمایا: کیایہ عائشہ بھی؟ اس نے کہا: جی نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: اور یہ عائشہ؟ اب کی بار اس نے کہا: جی ہاں، اس کے بعد آپ دونوں خوشی خوشی اس کے گھر گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11484

۔ (۱۱۴۸۴)۔ عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَقُولُ لَہُنَّ: ((إِنَّ أَمْرَکُنَّ لَمِمَّا یُہِمُّنِی بَعْدِی، وَلَنْ یَصْبِرَ عَلَیْکُنَّ إِلَّا الصَّابِرُونَ۔)) (مسند احمد: ۲۴۹۹۰)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان سے فرمایا کرتے تھے کہ تم ازواج کے معاملے نے مجھے اپنے بعد تمہارے بارے میں فکر مند کر رکھا ہے اور تمہاری باتوں کو وہی لوگ برداشت کر سکیں گے جو صبر کرنے والے ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11485

۔ (۱۱۴۸۵)۔ (وَعَنْہَا مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِی سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَۃُ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَحْنٰی عَلَیَّ، فَقَالَ: ((إِنَّکُنَّ لَأَہَمُّ مَا أَتْرُکُ إِلٰی وَرَائِ ظَہْرِی، وَاللّٰہِ لَا یَعْطِفُ عَلَیْکُنَّ إِلَّا الصَّابِرُونَ أَوِ الصَّادِقُونَ۔)) (مسند احمد: ۲۵۴۰۵)
۔(دوسری سند) ابو سلمہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے اوپر جھک کر انتہائی شفقت سے فرمایا: میں اپنے بعد جو امور چھوڑ کر جائوں گا، تم میری بیویوں کا معاملہ میرے نزدیک ان سب سے زیادہ اہم ہے۔ اللہ کی قسم! تمہارے اوپر جو لوگ شفقت کریں گے، وہ صبر اور صدق کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11486

۔ (۱۱۴۸۶)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُحِبُّ الْحَلْوٰی وَیُحِبُّ الْعَسَلَ، وَکَانَ إِذَا صَلَّی الْعَصْرَ دَارَ عَلٰی نِسَائِہِ، فَیَدْنُو مِنْہُنَّ فَدَخَلَ عَلٰی حَفْصَۃَ فَاحْتَبَسَ عِنْدَہَا أَکْثَرَ مِمَّا کَانَ یَحْتَبِسُ، فَسَأَلْتُ: عَنْ ذٰلِکَ فَقِیلَ لِی أَہْدَتْ لَہَا امْرَأَۃٌ مِنْ قَوْمِہَا عُکَّۃَ عَسَلٍ فَسَقَتْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْہُ، فَقُلْتُ: أَمَا وَاللّٰہِ لَنَحْتَالَنَّ لَہُ، فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِسَوْدَۃَ، وَقُلْتُ: إِذَا دَخَلَ عَلَیْکِ فَإِنَّہُ سَیَدْنُوْ مِنْکِ فَقُولِیْ لَہُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَکَلْتَ مَغَافِرَ فَإِنَّہُ سَیَقُولُ لَکِ: لَا، فَقُولِی لَہُ مَا ہٰذِہِ الرِّیحُ؟ وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَشْتَدُّ عَلَیْہِ أَنْ یُوجَدَ مِنْہُ رِیحٌ، فَإِنَّہُ سَیَقُولُ لَکِ: سَقَتْنِی حَفْصَۃُ شَرْبَۃَ عَسَلٍ، فَقُولِی لَہُ: جَرَسَتْ نَحْلُہُ الْعُرْفُطَ، وَسَأَقُولُ لَہُ ذٰلِکَ، فَقُولِی لَہُ أَنْتِ یَا صَفِیَّۃُ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلٰی سَوْدَۃَ قَالَتْ سَوْدَۃُ: وَالَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ لَقَدْ کِدْتُ أَنْ أُبَادِئَہُ بِالَّذِی قُلْتِ لِی، وَإِنَّہُ لَعَلَی الْبَابِ فَرَقًا مِنْکِ، فَلَمَّا دَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَکَلْتَ مَغَافِرَ؟ قَالَ: ((لَا۔)) قُلْتُ: فَمَا ہٰذِہِ الرِّیحُ؟ قَالَ: ((سَقَتْنِی حَفْصَۃُ شَرْبَۃَ عَسَلٍ۔)) قُلْتُ: جَرَسَتْ نَحْلُہُ الْعُرْفُطَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَیَّ قُلْتُ لَہُ مِثْلَ ذٰلِکَ، ثُمَّ دَخَلَ عَلٰی صَفِیَّۃَ فَقَالَتْ لَہُ مِثْلَ ذٰلِکَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلٰی حَفْصَۃَ قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ أَلَا أَسْقِیکَ مِنْہُ، قَالَ: ((لَا حَاجَۃَ لِی بِہِ۔)) قَالَ: تَقُولُ سَوْدَۃُ: سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَاللّٰہِ! لَقَدْ حَرَمْنَاہُ، قُلْتُ لَھَا: اُسْکُتِیْ۔ (مسند احمد: ۲۴۸۲۰)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو میٹھی چیز اور شہد خوب مرغوب تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عصر کی نماز ادا فرمانے کے بعد اپنی ازواج کے ہاں چکر لگایا کرتے اور ان کے پاس جایا کرتے تھے، ایک بار آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں تشریف لے گئے اور سابقہ معمول سے ذرا زیادہ دیر تک وہاں ٹھہرے، میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو مجھے بتلایا گیا کہ سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو ان کی قوم کی ایک عورت نے شہد کا ایک بڑا ڈبہ ہدیہ بھیجا ہے۔ انہوںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس شہد میں سے پلایا ہے۔ میں نے سوچا کہ اللہ کی قسم! ہم اس سلسلہ میں ضرور کوئی پروگرام بنائیں۔ تو میں نے اس بات کا سیدہ سودہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ذکر کیا، میں نے ان سے کہا کہ اللہ کے رسول جب آپ کے پاس آکر آپ کے قریب آئیں تو کہہ دینا کہ اے اللہ کے رسول! کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کہیں گے کہ نہیں، تو تم نے کہنا ہے کہ تو پھر آپ سے یہ کیسی مہک (بو) آرہی ہے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بات بالکل گوارا نہ تھی کہ آپ سے کسی قسم کی بو آئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمائیں گے کہ مجھے حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے شہد پلایا ہے۔ تو تم کہہ دینا کہ شہد کی مکھی اس درخت پر جا بیٹھی ہو گی، جب آپ میرے پاس تشریف لائیں گے تو میں بھییہی بات آپ سے کہوں گی۔ اور صفیہ! جب اللہ کے رسول آپ کے ہاں آئیں تو تم بھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اسی طرح کہنا۔ چنانچہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ سودہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں گئے تو انہوں وہ بیان کرتی ہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ابھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دروازے پر ہی تھے کہ میں تمہارے ڈر کی وجہ سے جلدی میں آپ سے وہ بات کہنے والی تھی، جو تم نے مجھ سے کہی تھی۔ بہر حال جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آئے تو میں نے کہہ دیا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے عرض کیا: تو پھر یہ بو کیسی ہے؟ آپ نے فرمایا: مجھے تو حفصہ نے شہد پلایا ہے۔ میں نے کہا: پھر شہد کی مکھی مغافیر پر جا بیٹھی ہوگی، اسی طرح جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ہاں تشریف لائے تو میں نے بھی اسی طرح کہا۔ اس کے بعد جب آپ سیدہ صفیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں گئے تو انہوں نے بھی آپ سے ایسی ہی بات کی۔ بعد میں جب آپ سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں تشریف لے گئے تو انہوںنے عرض کیا: اللہ کے رسول ! کیا میں آپ کووہ شہد نہ پلائوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، مجھے اس کی حاجت نہیں۔ سیدہ سودہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: سبحان اللہ! ہم نے آپ کو اس شہد سے محروم کر دیا ہے۔ تو میں نے ان سے کہا: چپ رہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11487

۔ (۱۱۴۸۷)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: أُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ وَقَدْ کَانَ بَیْنَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَبَیْنَ نِسَائِہِ شَیْئٌ، فَجَعَلَ یَرُدُّ بَعْضَہُنَّ عَنْ بَعْضٍ فَجَائَ أَبُوْ بَکْرٍ فَقَالَ: احْثُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فِیْ أَفْوَاہِہِنَّ التُّرَابَ وَاخْرُجْ إِلَی الصَّلَاۃِ۔ (مسند احمد: ۱۲۰۳۷)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نماز کے لیے اقامت ہو چکی تھییا نماز کی اقامت کا وقت ہو چکا تھا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ کی ازواج کے مابین کوئی بحث ہو رہی تھی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو ایک دوسری سے چھڑانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اتنے میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لے آئے اور انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ان کے مونہوں میں مٹی ڈالیں اور آپ نماز کے لیے تشریف لے چلیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11488

۔ (۱۱۴۸۸)۔ عَنِ الْأَسْوَدِ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَۃَ: مَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَصْنَعُ فِیْ أَھْلِہِ؟ قَالَتْ: کَانَ فِیْ مِہْنَۃِ أَھْلِہِ، فَاِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاۃُ خَرَجَ إِلَی الصَّلَاۃِ۔ (مسند احمد: ۲۴۷۳۰)
اسود سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھر آکر کیا کچھ کرتے تھے؟ انھوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اہل خانہ کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے، نماز کا وقت ہوتا تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11489

۔ (۱۱۴۸۹)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: خَدَمْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَشْرَ سِنِینَ، فَمَا أَمَرَنِی بِأَمْرٍ فَتَوَانَیْتُ عَنْہُ أَوْ ضَیَّعْتُہُ فَلَامَنِی، فَإِنْ لَامَنِی أَحَدٌ مِنْ أَہْلِ بَیْتِہِ إِلَّا قَالَ: ((دَعُوہُ فَلَوْ قُدِّرَ۔)) أَوْ قَالَ: ((لَوْ قُضِیَ أَنْ یَکُونَ کَانَ۔)) (مسند احمد: ۱۳۴۵۱)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی رسول کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دس برس تک خدمت کی۔ (ایک روایت میں نو سال کا ذکر ہے)آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے جو حکم بھی دیا اور پھر مجھ سے اس بارے میں کوتاہی ہو گئییا نقصان ہو گیا اورآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گھر میں سے کسی نے بھی مجھے برابھلا کہا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے: اسے چھوڑ دو،اگر ایسا ہونا مقدر میں ہوتا تو وہ ہو جاتا ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11490

۔ (۱۱۴۹۰)۔ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّہُ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُہْدِیَتْ لَہُ بَغْلَۃٌ شَہْبَائُ فَرَکِبَہَا فَأَخَذَ عُقْبَۃُیَقُودُہَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعُقْبَۃَ: ((اقْرَأْ۔)) فَقَالَ: وَمَا أَقْرَأُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اقْرَأْ {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ}۔)) فَأَعَادَہَا عَلَیْہِ حَتّٰی قَرَأَہَا فَعَرَفَ أَنِّی لَمْ أَفْرَحْ بِہَا جِدًّا فَقَالَ: ((لَعَلَّکَ تَہَاوَنْتَ بِہَا فَمَا قُمْتَ تُصَلِّی بِشَیْء ٍ مِثْلِہَا۔)) (مسند احمد: ۱۷۴۷۵)
سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تحفے میں ایک سفید خچر دیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس پر سوار ہوئے، سیدنا عقبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس کو چلا رہے تھے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے فرمایا: پڑھو۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میںکیا پڑھوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ}پڑھو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سورت کو دہرایا،یہاں تک کہ سیدنا عقبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس سورت کو پڑھ لیا، لیکن جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دیکھا کہ میں اس سورت سے زیادہ خوش نہیں ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لگتا ہے، تم اس کو معمولی سمجھ رہے ہو، تو نے نماز میں اس جیسی سورت نہیں پڑھی ہو گی (یعنییہ بے مثال سورت ہے، جس کو نماز میں پڑھا جائے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11491

۔ (۱۱۴۹۱)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِذْنُکَ عَلَیَّ أَنْ تَرْفَعَ الْحِجَابَ وَأَنْ تَسْتَمِعَ سِوَادِی حَتّٰی أَنْہَاکَ۔)) قَالَ أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ: قَالَ أَبِیْ: بِسَوَادِیْ، سِرِّیْ، قَالَ: اَذِنَ لَہُ أَنْ یَسْمَعَ سِرَّہٗ۔ (مسنداحمد: ۳۶۸۴)
سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پردہ کو اٹھا دیا جانا تمہارے لیے آگے آجانے کی اجازت کے مترادف ہے اور تم میری راز کی باتوں کو سننے کے بھی مجازہو، یہاں تک کہ میں تمہیں اس سے روک دوں۔ ابو عبدالرحمن نے کہا: سِوَاد کے معانی راز کے ہیں،یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں راز کی باتیں سننے کی اجازت دے رکھی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11492

۔ (۱۱۴۹۲)۔ عَنْ سَفِیْنَۃَ اَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ: اَعْتَقَتْنِیْ اُمُّ سَلَمَۃَ وَاشْتَرَطَتْ عَلَیَّ اَنْ اَخْدُمَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا عَاشَ۔ (مسند احمد: ۲۲۲۷۲)
ابو عبد الرحمن سیدنا سفینہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے آزاد کیا اور مجھ پر یہ شرط عائد کی کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب تک زندہ رہیں، میں ان کی خدمت کرتا رہوں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11493

۔ (۱۱۴۹۳)۔ عَنْ بُرَیْدَۃَ الْأَسْلَمِیِّ مِنْ حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ: اِنَّ سَلْمَانَ الْفَارِسِیَّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ نَظَرَ اِلَی الْخَاتَمِ الَّذِیْ عَلٰی ظَہْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَآمَنَ بِہِ وَکَانَ لِلْیَہُوْدٍ فَاشْتَرَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِکَذَا وَکَذَا، الْحَدِیْثَ۔ (مسند احمد: ۲۴۱۳۸)
سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، یہ ایک طویل حدیث ہے، اس میں ہے کہ سیدنا سلمان فارسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پشت مبارک پر مہر نبوت کو دیکھا اور ایمان لے آئے، یہیہودیوں کی ملکیت میں تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو خرید لیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11494

۔ (۱۱۴۹۴)۔ عَنِ ابْنِ أَبِی رَافِعٍ عَنْ أَبِی رَافِعٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعَثَ رَجُلًا مِنْ بَنِی مَخْزُومٍ عَلَی الصَّدَقَۃِ، فَقَالَ لِأَبِی رَافِعٍ: ((اصْحَبْنِی کَیْمَا تُصِیبَ مِنْہَا۔)) قَالَ: لَا حَتَّی آتِیَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَسْأَلَہُ فَانْطَلَقَ إِلَی النَّبِیِّ فَسَأَلَہُ فَقَالَ: ((الصَّدَقَۃُ لَا تَحِلُّ لَنَا، وَإِنَّ مَوْلَی الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِہِمْ۔)) (مسند احمد: ۲۷۷۲۴)
سیدنا ابو رافع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو مخزوم کے ایک فرد کو صدقات کی وصولی کے لیے بھیجا تو اس نے سیدنا ابو رافع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: تم بھی میرے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو جاؤ تاکہ آپ کو بھی کچھ حصہ مل جائے؟ انہوں نے کہا:نہیں، جب تک میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت نہ کر لوں، نہیں جاؤں گا، پس وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہمارے لیے صدقہ لینا حلال نہیں ہے اور کسی قوم کا غلام بھی اسی قوم کا فرد ہوتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11495

۔ (۱۱۴۹۵)۔ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ قاَلَ: اتَیْتُ اُمَّ کُلْثُوْمٍ اِبْنَۃِ عَلِیٍّ بِشَیْئٍ مِنَ الصَّدَقَۃِ فَرَدَّتْہَا وَقَالَتْ: حَدَّثَنِی مَوْلًی لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُقَالُ لَہُ مِہْرَانُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِنَّا آلُ مُحَمَّدٍ لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَۃُ وَمَوْلَی الْقَوْمِ مِنْہُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۵۷۹۹)
عطاء بن سائب کہتے ہیں: میں سیدہ ام کلثوم بنت علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی خدمت میں صدقہ کی ایک چیز لے کر حاضر ہوا، لیکن انہوں نے وہ چیز واپس کر دی اور کہا: مولائے نبی سیدنامہران نے مجھے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ہے: ہم آلِ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں ہے، نیز قوم کا غلام ان ہی میں شمار ہوتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11496

۔ (۱۱۴۹۶)۔ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ قَالَ: کَانَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غُلَامٌ یُسَمّٰی رَبَاحًا۔ (مسند احمد: ۱۶۶۰۹)
سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ایک غلام کا نام رباح تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11497

۔ (۱۱۴۹۷)۔ عَنْ أَبِی مُوَیْہِبَۃَ مَوْلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: أُمِرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یُصَلِّیَ عَلٰی أَہْلِ الْبَقِیعِ، فَصَلّٰی عَلَیْہِمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیْلَۃً ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا کَانَتْ اللَّیْلَۃُ الثَّانِیَۃَ قَالَ: ((یَا أَبَا مُوَیْہِبَۃَ أَسْرِجْ لِی دَابَّتِی۔)) قَالَ: فَرَکِبَ فَمَشَیْتُ حَتَّی انْتَہٰی إِلَیْہِمْ فَنَزَلَ عَنْ دَابَّتِہِ وَأَمْسَکَتِ الدَّابَّۃُ وَوَقَفَ عَلَیْہِمْ، أَوْ قَالَ قَامَ عَلَیْہِمْ، فَقَالَ: ((لِیَہْنِکُمْ مَا أَنْتُمْ فِیہِ۔)) الْحَدِیْثَ۔ (مسند احمد: ۱۶۰۹۲)
رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے غلام سیدنا ابومویہبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہواکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اہل بقیع کے حق میں دعائے مغفرت کریں تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین مرتبہ ان کے حق میں دعائیں کیں، جب دوسری رات تھی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابو مویہبہ! میری سواری پر پلان کسو۔ اس پر آپ سوار ہوگئے اور میں بھی ساتھ ساتھ پیدل چلتا گیا، آگے جا کر آپ اپنی سواریسے نیچے اترے اور میں سواری کو پکڑے کھڑا رہا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اہل بقیع کے پاس جا کھڑے ہوئے اور فرمایا: تم جس حال میں ہو تمہیںیہ حالت مبارک ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11498

۔ (۱۱۴۹۸)۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اَلْعَبْدُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ۔)) وَکَتَب رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَبْلَ أَنْ یَمُوْتَ إِلٰی کِسْرٰی وَقَیْصَرَ وَإِلٰی کُلِّ جَبَّارٍ۔ (مسند احمد: ۱۴۶۵۹)
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آخرت میں انسان اپنے محبوب کے ساتھ ہو گا۔ نیز رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وفات سے قبل کسری، قیصر اور تمام سر کشوں کے نام خطوط لکھے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11499

۔ (۱۱۴۹۹)۔ ثَنَا شَیْبَانُ عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ: وَجَدْتُ مَرْثَدَ بْنَ ظَبْیَانَ قَالَ جَائَنَا کِتَابٌ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَمَا وَجَدْنَا لَہُ کَاتِبًا یَقْرَؤُہُ عَلَیْنَا حَتّٰی قَرَأَہُ رَجُلٌ مِنْ بَنِی ضُبَیْعَۃَ: ((مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی بَکْرِ بْنِ وَائِلٍ، أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا۔)) (مسند احمد: ۲۰۹۴۳)
قتادہ کا بیان ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے مرثد بن ظبیان کو پایا، انھوں نے کہا: ہمارے پاس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا مکتوب آیا اورہمیں کوئی ایسا آدمی نہ مل سکا جو ہمیں وہ پڑھ کر سناتا، بالآخر بنو ضبیعہ کے ایک آدمی نے وہ مکتوب پڑھا، اس میں یہ تحریر تھی: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے ابو بکر بن وائل کے نام، تم مسلمان ہو جائو، سلامت رہو گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11500

۔ (۱۱۵۰۰)۔ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ حَدَّثَنَا الْجُرَیْرِیُّ عَنْ أَبِی الْعَلَائِ بْنِ الشِّخِّیرِ، قَالَ: کُنْتُ مَعَ مُطَرِّفٍ فِی سُوقِ الْإِبِلِ فَجَائَ أَعْرَابِیٌّ مَعَہُ قِطْعَۃُ أَدِیمٍ أَوْ جِرَابٍ، فَقَالَ: مَنْ یَقْرَأُ؟ أَوَفِیکُمْ مَنْ یَقْرَأُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَأَخَذْتُہُ فَإِذَا فِیہِ: ((بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِبَنِی زُہَیْرِ بْنِ أُقَیْشٍ حَیٍّ مِنْ عُکْلٍ، إِنَّہُمْ إِنْ شَہِدُوا أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰہِ وَفَارَقُوا الْمُشْرِکِینَ وَأَقَرُّوْا بِالْخُمُسِ فِی غَنَائِمِہِمْ وَسَہْمِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَصَفِیِّہُ فَإِنَّہُمْ آمِنُونَ بِأَمَانِ اللّٰہِ وَرَسُولِہِ۔)) فَقَالَ لَہُ بَعْضُ الْقَوْمِ: ہَلْ سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَیْئًا تُحَدِّثُنَاہُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالُوْا: فَحَدِّثْنَا رَحِمَکَ اللَّہُ، قَالَ: سَمِعْتُہُ یَقُولُ: ((مَنْ سَرَّہُ أَنْ یَذْہَبَ کَثِیرٌ مِنْ وَحَرِ صَدْرِہِ فَلْیَصُمْ شَہْرَ الصَّبْرِ أَوْ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ۔)) فَقَالَ لَہُ الْقَوْمُ أَوْ بَعْضُہُمْ: أَأَنْتَ سَمِعْتَ ہٰذَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ، أَلَا أُرَاکُمْ تَتَّہِمُونِی أَنْ أَکْذِبَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ إِسْمَاعِیلُ مَرَّۃً: تَخَافُونَ وَاللّٰہِ! لَا حَدَّثْتُکُمْ حَدِیثًا سَائِرَ الْیَوْمِ ثُمَّ انْطَلَقَ۔ (مسند احمد: ۲۱۰۱۷)
ابو علاء بن شخیر سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں مطرف کے ہمراہ اونٹوں کی منڈی میں تھا کہ ایک بدّو مطرف کے پاس آیا، اس کے پاس چمڑے کا ایک ٹکڑا تھا، اس نے کہا: کیا تم میں سے کوئییہ پڑھ سکتا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، اس نے مجھے پکڑایا تو دیکھا کہ اس میںلکھا ہوا تھا: بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، اللہ کے رسول محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے عکل خاندان کی ایک شاخ بنو زہیر کے نام ہے، یہ لوگ اگر اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ کے رسول ہیں اور وہ مشرکین سے الگ تھلگ ہو جائیںاور اموال غنیمتمیں سے خمس کے متعلق اقرار کریں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا ہے اور اللہ کے رسول مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے بھی مال غنیمت میں سے جو لینا چاہیں لے سکتے ہیں، تو انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے امان دی جائے گی۔ یہ سن کر کچھ لوگوں نے اس سے کہا: تم نے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جو کچھ سنا ہے، کیا تم اس میں سے کچھ ہمیں بیان کر سکتے ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں۔لوگوں نے کہا: آپ پر اللہ کی رحمت ہو، آپ ہمیں وہ سنائیں۔ انھوں نے کہا:میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا کہ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کے سینے میں سے غصہ اور کینہ نکل جائے اسے چاہیے کہ وہ صبر والے مہینےیعنی ماہ رمضان کے اور ہر ماہ تین روزے رکھے۔ اس کییہ بات سن کر کچھ لوگوں نے کہا: کیا آپ نے خود رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ سنا ہے؟ اس نے کہا: خبر دار! میرا خیال ہے، میں سمجھتا ہوں کہ تم لوگ اس بارے میں میرے متعلق یہ بد گمانی کر رہے ہو کہ شاید میں نے یہ بات کہہ کر اللہ کے رسول پر بہتان باندھ دیا ہے، تم تو یہ سن کر ڈر گئے ہو، اللہ کی قسم! میں تمہیں مزید کوئی حدیث بیان نہ کروں گا، اس کے بعد وہ آگے چل دیئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11501

۔ (۱۱۵۰۱)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ حَدَّثَنَا قُرَّۃُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ: سَمِعْتُ یَزِیدَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الشِّخِّیرِ قَالَ: کُنَّا بِالْمِرْبَدِ جُلُوسًا فَأَتٰی عَلَیْنَا رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْبَادِیَۃ، فَذَکَرَ نَحْوَہٗیَعْنِی نَحْوَ حَدِیْثِ الْجُرَیْرِیِّ الْمُتَقَدِّمِ۔ (مسند احمد: ۲۱۰۲۰)
۔(دوسری سند) سیدنایزید بن عبداللہ بن شخیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم جانوروں کے باڑے میں بیٹھے تھے کہ ایک دیہاتی ہمارے پاس آیا، اس سے آگے گزشتہ حدیث کی مانند ذکر کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11502

۔ (۱۱۵۰۲)۔ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ حُذَافَۃَ بِکِتَابِہِ إِلٰی کِسْرٰی، قَالَ: فَدَفَعَہُ إِلٰی عَظِیمِ الْبَحْرَیْنِ،یَدْفَعُہُ عَظِیمُ الْبَحْرَیْنِ إِلٰی کِسْرٰی، قَالَ یَعْقُوبُ: فَدَفَعَہُ عَظِیمُ الْبَحْرَیْنِ إِلٰی کِسْرٰی، فَلَمَّا قَرَأَہُ مَزَّقَہُ، قَالَ ابْنُ شِہَابٍ: فَحَسِبْتُ ابْنَ الْمُسَیَّبِ، قَالَ: فَدَعَا عَلَیْہِمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِأَنْ یُمَزَّقُوا کُلَّ مُمَزَّقٍ۔ (مسند احمد: ۲۱۸۴)
سیدنا عبدا للہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عبداللہ بن حذافہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اپنا مکتوب دے کر کسریٰ کی طرف روانہ فرمایا، انہوںنے وہ مکتوب بحرین کے حاکم کے سپرد کیا تاکہ وہ اسے کسریٰ تک پہنچا دے،پس حاکم بحرین نے وہ مکتوب کسریٰ تک پہنچا دیا، اس نے جب وہ مکتوب پڑھا تو اسے پھاڑ ڈالا۔ سعید بن مسیب ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بھی بیان کیا کہ اس کے اس عمل کی وجہ سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان پر یہ بد دعا کی کہ (ان کو یوں ہلاک کیا جائے کہ) وہ ریزہ ریزہ ہو جائیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11503

۔ (۱۱۵۰۳)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِذَا ہَلَکَ کِسْرٰی فَلَا کِسْرٰی بَعْدَہُ، وَإِذَا ہَلَکَ قَیْصَرُ فَلَا قَیْصَرَ بَعْدَہُ، وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَتُنْفِقُنَّ کُنُوزَہُمَا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ۔)) (مسند احمد: ۷۱۸۴)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کسریٰ ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ اس کا جانشین نہیں ہوگا اور جب قیصر (رومی بادشاہ) ہلاک ہو گاتو اس کے بعد بھی کوئی قیصر نہیں ہوگا یعنی ان کی بادشاہت ختم ہو جائے گی، اللہ کی قسم! تم ضرور ضرور ان کے خزانوں کو اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11504

۔ (۱۱۵۰۴)۔ عَنْ کَثِیْر بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِیِّ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَقْطَعَ بِلَالَ بْنَ الْحَارِثِ مَعَادِنَ الْقَبَلِیَّۃِ جَلْسِیَّہَا وَغَوْرِیَّہَا وَحَیْثُیَصْلُحُ لِلزَّرْعِ مِنْ قُدْسٍ وَلَمْ یُعْطِہِ حَقَّ مُسْلِمٍ وَکَتَبَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، ھٰذَا مَا أَعْطٰی مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِلَالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنیِّ أَعْطَاہُ مَعَادِنَ الْقَبَلِیَّۃِ جَلْسِیَّہَا وَغَوْرِیَّہَا وَحَیْثُیَصْلُحُ لِلزَّرْعِ مِنْ قُدْسٍ وَلَمْ یُعْطِہِ حَقَّ مُسْلِمٍ۔)) (مسند احمد: ۲۷۸۵)
عمرو بن عوف اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا بلال بن حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قبلیہ علاقے کی کانیں برائے جاگیر عنایت فرمادیں، اس مقام کی بلند اور پست زمین اور قدس پہاڑ میں جو کاشت کے قابل تھی، وہ سب انہیں دے دی تھی، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو کسی مسلمان کا حق نہیں دیا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے حق میں یہ تحریر لکھی تھی: بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ،یہ وہ زمین ہے، جو محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بلال بن حارث مزنی کو دی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو قبلیہ علاقے کی کانیں دی ہیں، اس مقام کی بلند اور پست زمین اور قدس پہاڑ میں جو کاشت کے قابل ہے، وہ ان کو دے دی ہے، جبکہیہ کسی مسلمان کا حق نہیں تھا، جو ان کو دے دیا ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11505

۔ (۱۱۵۰۵)۔ عَنِ الْحٰرِثِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ الْحٰرِثِ التَّمِیْمِیِّ، عَنْ أَبِیہِ: أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَتَبَ لَہُ کِتَابًا بِالْوَصَاۃِ لَہُ إِلٰی مَنْ بَعْدَہُ مِنْ وُلَاۃِ الْأَمْرِ، وَخَتَمَ عَلَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۸۲۱۹)
حارث بن مسلم بن حارث تمیمی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو ایک تحریر لکھ کر دی، جس میں اپنے بعد آنے والے خلفاء کے نام ان کے حق میں وصیت کرکے اس پر مہرثبت فرمائی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11506

۔ (۱۱۵۰۶)۔ عَنْ أَبِی ثَعْلَبَۃَ الْخُشَنِیِّ قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! اکْتُبْ لِی بِأَرْضِ کَذَا وَکَذَا بِأَرْضِ الشَّامِ، لَمْ یَظْہَرْ عَلَیْہَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَئِذٍ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَلَا تَسْمَعُونَ إِلٰی مَایَقُولُ ہٰذَا؟)) فَقَالَ أَبُو ثَعْلَبَۃَ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَتَظْہَرُنَّ عَلَیْہَا، قَالَ: فَکَتَبَ لَہُ بِہَا، قَالَ: قُلْتُ لَہُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ أَرْضَنَا أَرْضُ صَیْدٍ، فَأُرْسِلُ کَلْبِیَ الْمُکَلَّبَ وَکَلْبِیَ الَّذِی لَیْسَ بِمُکَلَّبٍ، قَالَ: ((إِذَا أَرْسَلْتَ کَلْبَکَ الْمُکَلَّبَ وَسَمَّیْتَ فَکُلْ مَا أَمْسَکَ عَلَیْکَ کَلْبُکَ الْمُکَلَّبُ وَإِنْ قَتَلَ، وَإِنْ أَرْسَلْتَ کَلْبَکَ الَّذِی لَیْسَ بِمُکَلَّبٍ فَأَدْرَکْتَ ذَکَاتَہُ فَکُلْ، وَکُلْ مَا رَدَّ عَلَیْکَ سَہْمُکَ وَإِنْ قَتَلَ وَسَمِّ اللّٰہَ)) قَالَ: قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! إِنَّ أَرْضَنَا أَرْضُ أَہْلِ کِتَابٍ وَإِنَّہُمْ یَأْکُلُونَ لَحْمَ الْخِنْزِیرِ، وَیَشْرَبُونَ الْخَمْرَ فَکَیْفَ أَصْنَعُ بِآنِیَتِہِمْ وَقُدُورِہِمْ؟ قَالَ: ((إِنْ لَمْ تَجِدُوْا غَیْرَہَا فَارْحَضُوہَا وَاطْبُخُوا فِیہَا وَاشْرَبُوْا)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا یَحِلُّ لَنَا مِمَّا یُحَرَّمُ عَلَیْنَا، قَالَ: ((لَا تَأْکُلُوا لُحُومَ الْحُمُرِ الْإِنْسِیَّۃِ، وَلَا کُلَّ ذِی نَابٍ مِنَ السِّبَاعِِِِِ۔)) (مسند احمد: ۱۷۸۸۹)
حارث بن مسلم بن حارث تمیمی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو ایک تحریر لکھ کر دی، جس میں اپنے بعد آنے والے خلفاء کے نام ان کے حق میں وصیت کرکے اس پر مہرثبت فرمائی تھی۔ سیدنا ابو ثعلبہ خشنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ سرزمین شام کی فلاں فلاں زمین کے متعلق میرے حق میں تحریر لکھ دیں، حالانکہ ابھی تک وہ سر زمین نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قبضے میں نہیں آئی تھی۔ تو اس کی بات پر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ سے فرمایا: کیا تم سن رہے ہو یہ کیا کہہ رہا ہے؟ سیدناابو ثعلبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، آپ ضرور بالضرور اس سر زمین کے مالک بنیں گے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے اس زمین کے بارے میں تحریر لکھ دی، سیدناابو ثعلبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہمارا علاقہ شکار کا علاقہ ہے، میں اپنے سدھا ئے ہوئے اور غیر سدھائے کتے کو شکار کی طرف بھیجتا ہوں، اس بارے میں ہدایت فرمائیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم اپنے سدھائے ہوئے کتے کو شکارکی طرف بھیجو اور بھیجنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا نام لے لو تو تمہارا سدھایا ہوا کتا تمہارے لیے جو جانور پکڑ کر لائے گا،تم اسے کھا سکتے ہو، خواہ وہ مر چکا ہو اور اگر تم اپنا غیر سدھایا کتا شکار کی طرف بھیجو اور وہ جس جانور کو پکڑ کر لائے اسے تم خود ذبح کر لو تو کھا سکتے ہو اور جس شکار کو تمہارا تیر جا لگا خواہ وہ چیز مر جائے تو اللہ کا نام لے کر کھا لو۔ سیدنا ابو ثعلبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! ہمارا علاقہ اہل کتاب کا ہے، وہ لوگ خنزیر کا گوشت کھاتے اور شراب پیتے ہیں۔ ہم ان کے برتنوں کو کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تمہیں ان کے سوا کوئی دوسرا برتن نہ ملے تو اسے اچھی طرح مانجھ کر ان میں پکا سکتے ہو اور پی بھی سکتے ہو۔ سیدنا ابو ثعلبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمارے لیے کونسے جانور حلال ہیں اور کونسے حرام؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم گھریلو گدھے اور کجلی والے درندے نہیں کھا سکتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11507

۔ (۱۱۵۰۷)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہِ: أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَتَبَ کِتَابًا بَیْنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ أَنْ یَعْقِلُوْا مَعَاقِلَہُمْ، وَأَنْ یَفْدُوْا عَانِیَہِمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَالْإِصْلَاحِ بَیْنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔ (مسند احمد: ۲۴۴۳)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مہاجرین و انصار کے ما بین ایک تحریر لکھی کہ وہ ایک دوسرے کی دیتیعنی خون بہا ادا کریں گے اور ان کے قیدی کو چھڑانے کے لیے معروف فدیہ ادا کریں گے اور مسلمانوں کے ما بین اصلاح کے لیے کوشاں رہیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11508

۔ (۱۱۵۰۸)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا حَضَرَتْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْوَفَاۃُ قَالَ: ((ہَلُمَّ أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَہُ۔)) وَفِی الْبَیْتِ رِجَالٌ فِیہِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ غَلَبَہُ الْوَجَعُ وَعِنْدَکُمُ الْقُرْآنُ، حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ، قَالَ: فَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْبَیْتِ فَاخْتَصَمُوا، فَمِنْہُمْ مَنْ یَقُولُ: یَکْتُبُ لَکُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَوْ قَالَ: قَرِّبُوْا یَکْتُبْ لَکُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمِنْہُمْ مَنْ یَقُولُ: مَا قَالَ عُمَرُ، فَلَمَّا أَکْثَرُوا اللَّغَطَ وَالِاخْتِلَافَ وَغُمَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((قُومُوْا عَنِّی۔)) فَکَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَقُولُ: إِنَّ الرَّزِیَّۃَ کُلَّ الرَّزِیَّۃِ مَا حَالَ بَیْنَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَبَیْنَ أَنْ یَکْتُبَ لَہُمْ ذٰلِکَ الْکِتَابَ مِنْ اخْتِلَافِہِمْ وَلَغَطِہِمْ۔ (مسند احمد: ۳۱۱۱)
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آئو میں تمہیں ایک تحریر لکھ دوں، اس کے بعد تم کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے۔ اس وقت گھر میں سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور دوسرے لوگ موجود تھے، آپ کی بات سن کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے، تمہارے پاس قرآن ہے، ہمیں اللہ کی کتاب ہی کافی ہے، گھر میں موجود افراد کا اس بارے میں اختلاف ہو گیا اور وہ جھگڑنے لگے۔ بعض کہنے لگے کہ اللہ کے رسول تمہارے لیے جو لکھنا چاہتے ہیں،وہ لکھ دیں اور بعض نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ والی بات کی، جب ان کا اختلاف اور شور بہت زیادہ ہوا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غمگین ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم سب میرے ہاں سے اٹھ کر چلے جائو۔ سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہا کرتے تھے کہ سب سے بڑی مصیبت وہ اختلاف اور شور تھا جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہوا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11509

۔ (۱۱۵۰۹)۔ عَنِ ابْنِ الْعَلَائِ بْنِ الْحَضْرَمِیِّ أَنَّ أَبَاہٗکَتَبَإِلَی النَّبِیِّ فَبَدَأَ بِنَفْسِہِ۔ (مسند احمد: ۱۹۱۹۵)
ابن علاء حضرمی سے روایت ہے کہ ان کے والد نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں ایک تحریر بھیجی، اس کی ابتدا اپنے آپ سے کی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11510

۔ (۱۱۵۱۰)۔ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْیَشْکُرِیُّ قَالَ: سَمِعْتُ أُمِّی تُحَدِّثُ: أَنَّ أُمَّہَا انْطَلَقَتْ إِلَی الْبَیْتِ حَاجَّۃً، وَالْبَیْتُیَوْمَئِذٍ لَہُ بَابَانِ، قَالَتْ: فَلَمَّا قَضَیْتُ طَوَافِی دَخَلْتُ عَلٰی عَائِشَۃَ، قَالَتْ: قُلْتُ: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ، إِنَّ بَعْضَ بَنِیکِ بَعَثَ یُقْرِئُکِ السَّلَامَ، وَإِنَّ النَّاسَ قَدْ أَکْثَرُوا فِی عُثْمَانَ، فَمَا تَقُولِینَ فِیہِ؟ قَالَتْ: لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ لَعَنَہُ لَا أَحْسِبُہَا إِلَّا قَالَتْ ثَلَاثَ مِرَارٍ، لَقَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ مُسْنِدٌ فَخِذَہُ إِلَی عُثْمَانَ، وَإِنِّی لَأَمْسَحُ الْعَرَقَ عَنْ جَبِینِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَإِنَّ الْوَحْیَیَنْزِلُ عَلَیْہِ، وَلَقَدْ زَوَّجَہُ ابْنَتَیْہِ إِحْدَاہُمَا عَلٰی إِثْرِ الْأُخْرٰی، وَإِنَّہُ لَیَقُولُ: اکْتُبْ عُثْمَانُ، قَالَتْ: مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُنْزِلَ عَبْدًا مِنْ نَبِیِّہِ بِتِلْکَ الْمَنْزِلَۃِ إِلَّا عَبْدًا عَلَیْہِ کَرِیمًا۔ (مسند احمد: ۲۶۷۷۷)
عمر بن ابراہیم یشکری سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے اپنی والدہ کو بیان کرتے سنا کہ وہ حج کے ارادے سے بیت اللہ کی طرف گئیں، ان دنوں بیت اللہ کے دو دروازے تھے، وہ کہتی ہیں: میں طواف سے فارغ ہو کر سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی خدمت میں گئی، میں نے عرض کیا: اے ام المؤمنین آپ کا ایک بیٹا آپ کو سلام کہتا ہے، ان دنوں لوگ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں بہت غلط اور نار وا قسم کی باتیں کرتے تھے،آپ اس بارے میں کیا کہتی ہیں؟ انہوں نے کہا: جو سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر لعنت کرے، اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ میرا خیال ہے کہ انہوںنے یہ بات تین بار دہرائی تھی، میں نے خود رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس حال میں دیکھا ہے کہ آپ نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی ران پر سر رکھا ہوا تھا اور میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیشانی سے پسینہ صاف کر رہی تھی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی کا نزول ہو رہا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو بیٹیوں کا نکاح سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان سے فرمایا کرتے تھے: عثمان! لکھو۔ سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اللہ تعالیٰ اپنے کسی بر گزیدہ بندے کو ہی اپنے نبی کے ہاں ایسا مقام دیتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11511

۔ (۱۱۵۱۱)۔ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ قُرَیْشًا صَالَحُوا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیہِمْ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعَلِیٍّ: ((اکْتُبْ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ)) فَقَالَ سُہَیْلٌ: أَمَّا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، فَلَا نَدْرِی مَا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ؟ وَلٰکِنْ اکْتُبْ مَا نَعْرِفُ بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ فَقَالَ: ((اُکْتُبْ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللّٰہِ)) قَالَ: لَوْ عَلِمْنَا أَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ لَاتَّبَعْنَاکَ وَلکِنْ اکْتُبْ اسْمَکَ وَاسْمَ أَبِیکَ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اکْتُبْ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ)) وَاشْتَرَطُوا عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّ مَنْ جَائَ مِنْکُمْ لَمْ نَرُدَّہُ عَلَیْکُمْ، وَمَنْ جَاء َ مِنَّا رَدَدْتُمُوہُ عَلَیْنَا، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَتَکْتُبُ ہٰذَا؟ قَالَ: ((نَعَمْ، إِنَّہُ مَنْ ذَہَبَ مِنَّا إِلَیْہِمْ فَأَبْعَدَہُ اللّٰہُ))۔ (مسند احمد: ۱۳۸۶۳)
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ قریش نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، ان کے وفد میں سہیل بن عمرو بھی تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِلکھو ۔ سہیل نے کہا: ہم تو نہیں جانتے کہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِکیا ہے؟ آپ وہی کلمہ لکھیں جسے ہم جانتے ہاپنا اور اپنے والد کا نام لکھیں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لکھو یہ معاہدہ محمد بن عبداللہ کی طرف سے ہے۔ انہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ شرط طے کی کہ آپ لوگوں میں سے کوئی آیا تو ہم اسے واپس نہیں کریں گے، لیکن ہمارا جو آدمی آپ کے پاس آیا، آپ اسے ہماری طرف واپس کر دیں گے۔ یہ سن کر سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم یہ شرط بھی لکھیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں ! جو آدمی ہمیں چھوڑ کر ان کی طرف جائے، اللہ تعالیٰ اسے ہم سے دور ہی رکھے۔ یں، بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّلکھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لکھو یہ معاہدہ محمد رسول اللہ کی طرف سے ہے۔ اس پر پھر سہیل بولا کہ اگر ہم یہ مانتے ہوتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کی اقتدا کر لیتے، آپ اس طرح کریں کہ
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11512

۔ (۱۱۵۱۲)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ: أَنَّ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَرْسَلَ إِلَیْہِ مَقْتَلَ أَہْلِ الْیَمَامَۃِ فَإِذَا عُمَرُ عِنْدَہُ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: إِنَّ عُمَرَ أَتَانِی فَقَالَ: إِنَّ الْقَتْلَ قَدِ اسْتَحَرَّ بِأَہْلِ الْیَمَامَۃِ مِنْ قُرَّائِ الْقُرْآنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، وَأَنَا أَخْشٰی أَنْ یَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّائِ فِی الْمَوَاطِنِ، فَیَذْہَبَ قُرْآنٌ کَثِیرٌ لَا یُوعٰی، وَإِنِّی أَرٰی أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ، فَقُلْتُ لِعُمَرَ: وَکَیْفَ أَفْعَلُ شَیْئًا لَمْ یَفْعَلْہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ہُوَ وَاللّٰہِ خَیْرٌ، فَلَمْ یَزَلْیُرَاجِعُنِی فِی ذٰلِکَ حَتّٰی شَرَحَ اللّٰہُ بِذٰلِکَ صَدْرِی، وَرَأَیْتُ فِیہِ الَّذِی رَأٰی عُمَرُ، قَالَ زَیْدٌ: وَعُمَرُ عِنْدَہُ جَالِسٌ لَا یَتَکَلَّمُ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: إِنَّکَ شَابٌّ عَاقِلٌ لَا نَتَّہِمُکَ، وَقَدْ کُنْتَ تَکْتُبُ الْوَحْیَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاجْمَعْہُ، قَالَ زَیْدٌ: فَوَاللّٰہِ، لَوْ کَلَّفُونِی نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا کَانَ بِأَثْقَلَ عَلَیَّ مِمَّا أَمَرَنِی بِہِ مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ، فَقُلْتُ: کَیْفَ تَفْعَلُونَ شَیْئًا لَمْ یَفْعَلْہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (مسند احمد: ۷۶)
سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ یمامہ کی لڑائی میں حفاظ کی شہادت کے سانحہ کے بعد سیدنا ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بلایا، جب میں حاضر ہوا تو سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی ان کے پاس بیٹھے تھے، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میرے پاس آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ یمامہ میں حفاظِ قرآن کی شہادتیں کثرت سے ہوئی ہیں، مجھے اندیشہ ہے کہ اگر حفاظ قرآن کی شہادتوں کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو قرآن مجید کا بیشتر حصہ ضائع ہو جائے گا اور اس کو یاد نہیں رکھا جائے گا، اس لئے میری رائے یہ ہے کہ قرآن مجید کو جمع کرنے کا حکم دے دیں، لیکن میں نے ان کو یہ جواب دیا کہ میں وہ کام کیسے کروں، جو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نہیں کیا، لیکن انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! یہ کام بہتر ہے، پھر یہ اس بارے میں مجھ سے تکرار کرتے رہے ہیں،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ کھول دیا ہے اور میں نے بھی اس رائے کو پسند کر لیا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خاموش بیٹھے رہے۔ پھر سیدنا ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے کہا: اے زید! تم ایک عقلمند نوجوان اور قابل اعتماد آدمی ہو اور تم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وحی بھی لکھا کرتے تھے، لہٰذا یہ خدمت تم نے ہی سرانجام دینی ہے، سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! اگریہ مجھے کسی پہاڑ کو دوسری جگہ منتقل کرنے کی تکلیف دیتے تو اس کا میرے اوپر اتنا بوجھ نہ ہوتا جو انہوں نے قرآن مجید جمع کرنے کی مجھ پر ذمہ داری ڈالی ہے، پس میں نے کہا: آپ لوگ وہ کام کس طرح کرو گے، جو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نہیں کیا، تاہم ان کی تکرار کے بعد میں نے یہ ذمہ داری قبول کر لی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11513

۔ (۱۱۵۱۳)۔ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّہُ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُہْدِیَتْ لَہُ بَغْلَۃٌ شَہْبَائُ فَرَکِبَہَا فَأَخَذَ عُقْبَۃُیَقُودُہَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعُقْبَۃَ: ((اقْرَأْ۔)) فَقَالَ: وَمَا أَقْرَأُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اقْرَأْ {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ}۔)) فَأَعَادَہَا عَلَیْہِ حَتَّی قَرَأَہَا فَعَرَفَ أَنِّی لَمْ أَفْرَحْ بِہَا جِدًّا فَقَالَ: ((لَعَلَّکَ تَہَاوَنْتَ بِہَا فَمَا قُمْتَ تُصَلِّی بِشَیْء ٍ مِثْلِہَاِِِِ۔)) (مسند احمد: ۱۷۴۷۵)
سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تحفے میں ایک سفید خچر دیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس پر سوار ہوئے، سیدنا عقبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس کو چلا رہے تھے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے فرمایا: پڑھو۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میںکیا پڑھوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} پڑھو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سورت کو دہرایا،یہاں تک کہ سیدنا عقبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس سورت کو پڑھ لیا، لیکن جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دیکھا کہ وہ اس سورت سے زیادہ خوش نہیں ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لگتا ہے، تم اس کو معمولی سمجھ رہے ہو، تو نے نماز میں اس جیسی سورت نہیں پڑھی ہو گی (یعنییہ بے مثال سورت ہے، جس کو نماز میں پڑھا جائے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11514

۔ (۱۱۵۱۴)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَرْکَبُ حِمَارًا اِسْمُہٗعُفَیْرٌ۔ (مسند احمد: ۸۸۶)
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک گدھے پر سواری کیا کرتے تھے۔ اس کا نام عفیر تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11515

۔ (۱۱۵۱۵)۔ عَنْ اَسْمَائَ بِنْتِ یَزِیْدَ قَالَت: اِنِّیْ لَآخِذَۃٌ بِزَمَامِ الْعَضْبَائِ نَاقَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِذْ اُنْزِلَتْ عَلَیْہِ الْمَائِدَۃُ کُلُّہَا، فَکَادَتْ مِنْ ثَقْلِہَا تَدُقُّ بِعَضُدِ النَّاقَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۸۱۲۷)
سیدہ اسماء بنت یزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عضباء اونٹنی کی لگام تھامے ہوئے تھی کہ آپ پر سورۂ مائدہ نازل ہوئی، اس وحی کے بوجھ سے قریب تھا کہ اونٹنی کا بازو ٹوٹ جاتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11516

۔ (۱۱۵۱۶)۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعْدٍ الْکَاتِبُ قَالَ: قَالَ لِی ابْنُ سِیرِینَ: صَنَعْتُ سَیْفِی عَلٰی سَیْفِ سَمُرَۃَ، وَقَالَ سَمُرَۃُ: صَنَعْتُ سَیْفِی عَلٰی سَیْفِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکَانَ حَنَفِیًّا۔ (مسند احمد: ۲۰۴۹۲)
عثمان بن سعد کاتب سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے ابن سیرین نے کہا:میں نے اپنی تلوار سیدنا سمرہ بن جندب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی تلوار جیسی بنوائی ہے اور سیدنا سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا تھا کہ میں نے اپنی تلوار نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تلوار جیسی بنوائی ہے، وہ تلوار (مسیلمہ کذاب کی قوم) بنو حنیفہ کیتلواروں کے ڈیزائن پر تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11517

۔ (۱۱۵۱۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ تَنَفَّلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَیْفَہُ ذَا الْفَقَارِ یَوْمَ بَدْرٍ وَہُوَ الَّذِی رَأٰی فِیہِ الرُّؤْیَایَوْمَ أُحُدٍ فَقَالَ رَأَیْتُ فِی سَیْفِی ذِی الْفَقَارِ فَلًّا فَأَوَّلْتُہُ فَلًّا یَکُونُ فِیکُمْ وَرَأَیْتُأَنِّی مُرْدِفٌ کَبْشًا فَأَوَّلْتُہُ کَبْشَ الْکَتِیبَۃِ وَرَأَیْتُ أَنِّی فِی دِرْعٍ حَصِینَۃٍ فَأَوَّلْتُہَا الْمَدِینَۃَ وَرَأَیْتُ بَقَرًا تُذْبَحُ فَبَقَرٌ وَاللّٰہِ خَیْرٌ فَبَقَرٌ وَاللّٰہِ خَیْرٌ فَکَانَ الَّذِی قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّیاللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (مسند احمد: ۲۴۴۵)
سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی ذوالفقار تلوار جنگ بدر کے دن بطور نفل (یا مال غنیمت سے) کییہ وہی تلوار ہے جس کے بارے میں آپ نے احد کے دن خواب دیکھا تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے اپنی اس تلوار ذوالفقار میں ایک دندانہ دیکھا ہے اس کی تعبیریہ ہے کہ تمہیں شکست ہوگی میں نے دیکھا ہے کہ میں نے مینڈھے کو پیچھے سوار کیا ہوا ہے میں نے تاویل کی ہے کہ لشکر کا بہادر شہید ہوگا میں نے دیکھا ہے کہ میں نے محفوظ زرہ پہنی ہوئی ہے میں نے اس کی تاویلیہ کی ہے کہ مدینہ محفوظ رہے گا میں نے دیکھا ہے کہ گائے ذبح کی جارہی ہے اللہ کی قسم یہ بہتر ہے۔ وہی ہوا جو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کہا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11518

۔ (۱۱۵۱۸)۔ عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ظَاہَرَ بَیْنَ دِرْعَیْنِیَوْمَ اُحُدٍ۔ (مسند احمد: ۱۵۸۱۳)
سائب بن یزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے احد کے دن دو زرہیں اوپر تلے زیب تن کی تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11519

۔ (۱۱۵۱۹)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَخَلَ مَکَّۃَ عَامَ الْفَتْحِ، وَعَلٰی رَاْسِہِ الْمِغْفَرُ،فَلَمَّا نَزَعَہٗجَائَرَجُلٌ،وَقَالَ: اِبْنُخَطَلٍمُتَعَلَّقٌبِاسْتَارِالْکَعْبَۃِ، فَقَالَ: ((اُقْتُلُوْہٗ۔)) قَالَمَالِکٌ: وَلَمْیَکُنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَئِذٍ مُحْرِمًا، وَاللّٰہُ اَعْلَمُ۔ (مسند احمد: ۱۲۹۶۲)
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے، اس وقت آپ کے سر پر خود تھا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے اتارا تو ایک آدمی نے آکر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا کہ ابن خطل کافر کعبہ کے پردوں کے ساتھ لٹکا ہوا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے قتل کر دو۔ امام مالک کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس روز احرام کی حالت میں نہیں تھے۔ واللہ اعلم۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11520

۔ (۱۱۵۲۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: کَانَتْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُکْحُلَۃٌیَکْتَحِلُ بِہَا عِنْدَ النَّوْمِ ثَلَاثًا فِیْ کُلِّ عَیْنٍ۔ (مسند احمد: ۳۳۱۸)
۔(دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ایک سرمہ دانی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سوتے وقت اس سے ہر آنکھ میں تین مرتبہ سرمہ ڈالتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 11521

۔ (۱۱۵۲۱)۔ عَنْ عَاصِمٍ قَالَ: رَأَیْتُ عِنْدَ أَنَسٍ قَدَحَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْہِ ضَبَّۃٌ مِنْ فِضَّۃٍ۔ (مسند احمد: ۱۲۴۳۷)
عاصم احول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا بیان ہے کہ میں نے سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ایک پیالہ دیکھا جس پر چاندی کا جوڑ لگا ہوا تھا۔

Icon this is notification panel