112 Results For Hadith (Musnad Ahmad ) Book ()
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10205

۔ (۱۰۲۰۵)۔ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اقْبَلُوْا الْبُشْرٰییَا بَنِیْ تَمِیْمٍ۔)) قَالَ: قَالُوْا: قَدْ بَشَّرْتَنَا فَاَعْطِنَا؟ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَتَغَیَّرَ وَجْہُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) قَالَ: ((اقْبَلُوْا الْبُشْرٰییَا اَھْلَ الْیَمْنِ۔)) (زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ: اِذْ لَمْ یَقْبَلْھَا بَنُوْ تَمِیٍمٍ) قَالَ: قُلْنَا قَدْ قَبِلْنَا فَاَخْبِرْنَا عَنْ اَوَّلِ ھٰذَا الْاَمْرِ کَیْفَ کَانَ ؟ قَالَ: ((کَانَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی قَبْلَ کُلِّ شَیْئٍ، وَکَانَ عَرْشُہُ عَلَیَ الْمَائِ، وَکَتَبَ فِیْ اللَّوْحِ ذِکْرَ کُلِّ شَیْئٍ۔)) قَالَ: وَاَتَانِیْ آتٍ فَقَالَ:یَا عِمْرَانُ! اِنْحَلَّتْ نَاقَتُکَ مِنْ عِقَالِھَا، قَالَ: فَخَرَجْتُ فَاِذَا السَّرَابُ یَنْقَطِعُ بَیْنِیْ وَبَیْنَھَا قَالَ: فَخَرَجْتُ فِیْ اَثَرِھَا فَـلَا اَدْرِیْ مَا کَانَ بَعْدِیْ۔ (مسند احمد: ۲۰۱۱۷)
۔ سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے بنو تمیم! خوشخبری قبول کرو۔ انھوں نے کہا: خوشخبری تو آپ نے ہمیں دے دی ہے، اب ہمیں (کچھ مال و متاع) دیں،یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر بنو تمیم خوشخبری قبول نہیں کرنا چاہتے تو اے اہل یمن! تم قبول کر لو۔ ہم نے کہا: جی ہم نے قبول کی، پس آپ ہمیں اس عالم کی ابتدا کے بارے میں بتائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہر چیز سے پہلے تھا، اس وقت اس کا عرش پانی پر تھا، اس نے لوح محفوظ میں ہر چیز کا ذکر لکھا۔ اتنے میں ایک آنے والے نے کہا: اے عمران! تیری اونٹنی رسی کھلا گئی ہے، پس میں اس کو پکڑنے کے لیے نکل پڑا، (وہ اتنی دور جا چکی تھی کہ) اس کے اور میرے درمیان ایک سراب نظر آ رہا تھا، پس میں اس کے پیچھے چلا گیا اور یہ نہ جان سکا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے بعد کیا ارشاد فرمایا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10206

۔ (۱۰۲۰۶)۔ عَنْ وَکِیْعِ بْنِ حُدُسٍ، عَنْ عَمِّہِ اَبِیْ رَزِیْنٍ الْعُقَیْلِیِّ اَنَّہُ قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَیْنَ کَانَ رَبُّنَا عَزَّوَجَلَّ قَبْلَ اَنْ یَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ؟ قَالَ: ((کَانَ فِیْ عَمَائٍ، مَا فَوْقَہُ ھَوَائٌ، وَمَا تَحْتَہُ ھَوَائٌ، ثُمَّ خَلَقَ عَرْشَہُ عَلَی الْمَائِ۔)) (مسند احمد: ۱۶۳۰۱)
۔ سیدنا ابو رزین عقیلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! زمین و آسمان کی تخلیق سے قبل ہمارا ربّ کہاں تھا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ باریک بادل میں تھا، اس کے نیچے بھی ہوا تھی اور اوپر بھی ہوا تھی، پھر اس نے پانی پر اپنا عرش پیدا کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10207

۔ (۱۰۲۰۷)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قُلْتُ: یارَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنِّیْ اِذَا رَاَیْتُکَ طَابَتْ نَفْسِیْ، وَقَرَّتْ عَیْنِیْ، فَاَنْبِئْنِیْ عَنْ کُلِّ شَیْئٍ؟ فَقَالَ: ((کُلُّ شَیْئٍ خُلِقَ مِن مَائٍ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَنْبِئْنِیْ عَنْ اَمْرٍ اِذَا اَخَذْتُ بِہٖدَخَلْتُالْجَنَّۃَ؟ قَالَ: ((اَفْشِ السَّلَامَ، وَاَطْعِمِ الطَّعَامَ، وَصَلِ الْاَرْحَامَ، وَقُمْ بِاللَّیْل وَالنَّاسُ نِیَامٌ، ثُمَّ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ بِسَلَامٍ۔)) (مسند احمد: ۷۹۱۹)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! جب میں آپ کو دیکھتا ہوں تو میرا نفس خوش ہو جاتا ہے اور میری آنکھ ٹھنڈی ہو جاتی ہے، پس آپ مجھے ہر چیز کے بارے میں بتائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر چیز کو پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ایسے حکم کے بارے میں بتلائیں کہ اگر میں اس پر عمل کروں، تو جنت میں داخل ہو جاؤں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سلام کو عام کر، کھانا کھلا، صلہ رحمی کر اور رات کو جب لوگ سو رہے ہوں تو قیام کر اور پھر جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10208

۔ (۱۰۲۰۸)۔ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ : ((اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی الْقَلْمَ، ثُمَّ قَالَ لَہُ: اُکْتُبْ، فَجَرٰی فِیْ تِلْکَ السَّاعَۃِ بِمَا ھُوَ کَائِنٌ اِلٰییَوْمِ الْقِیَامَۃِ)) (مسند احمد: ۲۳۰۸۱)
۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور پھر اس سے کہا: لکھ، پس وہ اسی گھڑی میں چلی اور قیامت تک ہونے والے امور لکھ دیئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10209

۔ (۱۰۲۰۹)۔ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ: کُنَّا جُلُوْسًا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْبَطْحَائِ فَمَرَّتْ سَحَابَۃٌ فَقَالَ: رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اَتَدْرُوْنَ مَا ھٰذَا؟)) قَالَ: قُلْنَا: الْسَحَابُ، قَالَ: ((وَالْمُزْنُ)) قُلْنَا: وَ الْمُزْنُ، قَالَ: ((وَالْعَنَانُ۔)) قَالَ: فَسَکَتْنَا، فَقَالَ: ((ھَلْ تَدْرُوْنَ کَمْ بَیْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ؟)) قَالَ: قُلْنَا: اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ، قَالَ: ((بَیْنَھُمَا مَسِیْرَۃُ خَمْسِ مِائَۃِ سَنَۃٍ، وَمِنْ کُلِّ سَمَائٍ اِلَی سَمَائٍ مَسِیْرَۃُ خَمْسِ مِائَۃِ سَنَۃٍ، وَکِثْفُ کُلِّ سَمَائٍ مَسِیْرَۃُ خَمْسِ مِائَۃِ سَنَۃٍ، وَفَوْقَ السَّمَائِ السَّابِعَۃِ بَحْرٌ بَیْنَ اَسْفَلِہِ وَاَعْلَاہُ کَمَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ، ثُمَّ فَوْقَ ذٰلِکَ ثَمَانِیْۃُ اَوْعَالٍ بَیْنَ رُکَبِھِنَّ وَاَظْلَافِھِنِّ کَمَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ ثُمَّ فَوْقَ ذٰلِکَ الْعَرْشُ بَیْنَ اَسْفَلِہِ وَاَعْلَاَہُ کَمَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ وَاللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فَوْقَ ذٰلِکَ، لَیْسَیَخْفٰی عَلَیْہِ مِنْ اَعْمَالِ بَنِیْ آدَمَ شَیْئٌ۔)) (مسند احمد: ۱۷۷۰)
۔ سیدنا عباس بن عبد المطلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ وادیٔ بطحاء میں بیٹھے ہوئے تھے، وہاں سے ایک بدلی گزری، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے؟ ہم نے کہا: یہ بادل ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مُزْن بھی کہتے ہیں؟ ہم نے کہا:: جی مُزْن بھی کہتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کو عَنَان بھی کہتے ہیں؟ ہم جواباً خاموش رہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ آسمان اور زمین کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت جتنا فاصلہ ہے، اور ہر آسمان سے دوسرے آسمان تک پانچ سو برسوں کی مسافت ہے، جبکہ ہر آسمان کی موٹائی بھی پانچ سو برس ہے اور ساتویں آسمان پر ایک سمندر ہے، اس کی گہرائی اتنی ہی ہے، جتنا زمین سے آسمان تک کا فاصلہ ہے، اس کے اوپر پہاڑی بکرے کی شکل کے آٹھ فرشتے ہیں، ان کے کھر سے گھٹنے تک کی لمبائی اتنی ہے، جتنی زمین سے آسمان تک کی مسافت ہے، پھر اس کے اوپر عرش ہے، عرش کے اوپر والے اور نیچے والے حصے کے درمیان زمین و آسمان کی مسافت جتنا فاصلہ ہے، اس کے اوپر اللہ تعالیٰ ہے، لیکن اس پر بنو آدم کے اعمال میں سے کوئی عمل مخفی نہیں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10210

۔ (۱۰۲۱۰)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِذَا سَاَلْتُمُ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ فَسَلُوْہُ الْفِرْدَوْسَ، فَاِنَّہُ وَسْطُ الْجَنَّۃِ وَاَعْلَی الْجَنَّۃِ، وَفَوْقُ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ عَزَّوَجَلَّ، وَمِنْہُ تَفَجَّرُ اَوْ تَتَفَجَّرُ اَنْھَارُ الْجَنَّۃِ۔))، (شَکَّ اَبُوْ عَامِرٍ اَحَدُ الرُّوَاۃِ)۔ (مسند احمد: ۸۴۰۰)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کیا کرو، کیونکہ وہ جنت کا اعلی و افضل حصہ اور مقام ہے، اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے، اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10211

۔ (۱۰۲۱۱)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : فَذَکَرَہٗ۔ (مسنداحمد: ۸۴۵۵)
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا، پھر اسی طرح کی حدیث بیان کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10212

۔ (۱۰۲۱۲)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَدَّقَ اُمَیَّۃَ بْنَ اَبِیْ صَلْتٍ فِیْ شَیْئٍ مِنْ شِعْرِہِ فَقَالَ: رَجُلٌ وَثَوْرٌ تَحْتَ رِجْلِ یَمِیْنِہِ، وَالنَّسْرُ لِلْاُخْرٰی وَلَیْثٌ مُرْصَدُ۔ فَقَالَ النَّبیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَدَقَ، وَقَالَ: وَالشَّمْسُ تَطْلُعُ کُلَّ آخِرِ لَیْلَۃٍ حَمْرَائَیُصْبِحُ لَوْنُھَا یَتَوَرَّدُ تَاْبٰی فَمَا تَطْلُعُ لَنَـا فِیْ رِسْلِھَـا اِلَّا مُـعَـذَّبَـۃً وَاِلَّا تُجْـــلَدُ فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : صَدَقَ۔ (مسند احمد: ۲۳۱۴)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے امیہ کے بعض اشعار کی تصدیق کی تھی، اس نے ایک شعر یہ کہا تھا: (حاملین عرش میں کوئی) مرد کی صورت پر ہے، کوئی بیل کی صورت پر ہے، اللہ تعالیٰ کی دائیں ٹانگ کے نیچے، تو کوئی گدھ کی صورت ہے اور کوئی گھات بیٹھے ہوئے شیر کی صورت پر۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: امیہ نے سچ کہا ہے۔ ایک دفعہ اس نے یہ شعر کہا تھا: اور ہر رات کے آخر میں سورج طلوع ہوتا ہے، اس وقت وہ سرخ ہوتا ہے اور اس کا رنگ گلابی نظر آ رہا ہوتا ہے ، وہ انکار کردیتا ہے اور نرمی کے ساتھ طلوع نہیں ہوتا، وگرنہ اس کو عذاب دیا جاتا ہے اور کوڑے لگائے جاتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس نے سچ کہا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10213

۔ (۱۰۲۱۳)۔ عَنْ عَائِشَۃَ اُمِّ الْمُؤْمِنِیْنَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، قَالَتْ: دُعِیَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِلٰی جَنَازَۃِ غُلَامٍ مِنَ الْاَنْصَارِ فَقُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! طُوْبٰی لِھٰذَا، عُصْفُوْرٌ مِنْ عَصَافِیْرِ الْجَنَّۃِ لَمْ یُدْرِکِ الشَّرَّ وَلَمْ یَعْمَلْہُ: قَالَ: ((اَوْ غَیْرُ ذٰلِکِ یَاعَائِشَۃُ؟ اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ خَلَقَ لِلْجَنَّۃِ اَھْلًا، خَلَقَھَا لَھُمْ وَھُمْ فِیْ اَصْلَابِ اٰبَائِھِمْ، وَخَلَقَ لِلنَّارِ اَھْلًا، خَلَقَھَا لَھُمْ وَھُمْ فِیْ اَصْلَابِ اٰبَائِھِمْ۔)) (مسند احمد: ۲۶۲۶۱)
۔ ام المومنین سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک انصاری بچے کی طرف بلایا گیا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس کے لیے خوشخبری ہے، یہ جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے، اس نے نہ شرّ کو پایا اور نہ اس پر عمل کیا۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عائشہ! اس کے علاوہ کوئی اور بات بھی کرنی ہے؟ بیشک اللہ تعالیٰ نے جنت کے لیے لوگوں کو اس وقت پیدا کیا، جب وہ اپنے باپوں کی پشتوں میں تھے، اسی طرح جہنم کے لیے لوگوں کا اس وقت تعین کر دیا، جب وہ اپنے باپوں کی پشتوں میں تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10214

۔ (۱۰۲۱۴)۔ عَنْ جَابِرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ صُفُوْفِنَا فِیْ الصَّلَاۃِ صَلَاۃِ الظُّھْرِ، اَوِ الْعَصْرِ، فَاِذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَتَنَاوَلُ شَیْئًا، ثُمَّ تَاَخَّرَ، فَتَاَخَّرَ النَّاسُ، فَلَمَّا قَضَی الصَّلَاۃَ قَالَ لَہُ اُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ: شَیْئًا صَنَعْتَہُ فِیْ الصَّلَاۃِ لَمْ تَکُنْ تَصْنَعُہ؟ قَالَ: ((عُرِضَتْ عَلَیَّ الْجَنَّۃُ بِمَا فِیْھَا مِنَ الزَّھْرَۃِ النَّضْرَۃِ، فَتَنَاوَلْتُ مِنْھَـا قِطْفًا مِنْ عِنَبٍ، لِآتِیَکُمْ بِہٖفَحِیْلَ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُ، وَلَوْ اَتَیْتُکُمْ بِہٖلَاَکَلَمِنْہُمَنْبَیْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ لَا یَنْقُصُوْنَہُ شَیْئًا، ثُمَّ عُرِضَتْ عَلَیَّ النَارُ، فَلَمَّا وَجَدْتُ سَفْعَہَا تَاَخَّرْتُ عَنْھَا، وَاَکْثَرُ مَنْ رَاَیْتُ فِیْھَا النِّسَائُ اللَّاتِیْ اِنِ ائْتُمِنَّ اَفْشَیْنَ، وَاِنْ یُسْاَلْنَ بَخِلْنَ، وَاِنْ سَاَلْنَ اَلْحَفْنَ (قَالَ حُسَیْنٌ: وَاِنْ اُعْطِیْنَ لَمْ یَشْکُرْنَ) وَرَاَیْتُ فِیْھَا لُحَیَّ بْنَ عَمْروٍ یَجُرُّ قُصْبَہُ فِیْ النَّارِ، وَاَشْبَہُ مَارَاَیْتُ بِہٖمَعَبْدُبْنُاَکْثَمَالْکَعْبِیُّ۔)) قَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَیَخْشَی عَلَیَّ مِنْ شِبْھِہِ وَھُوَ وَالِدٌ؟ فَقَالَ: ((لَا، اَنْتَ مُؤْمِنٌ وَھُوَ کَافِرٌ۔)) وَکَانَ اَوَّلُ مَنْ حَمَلَ الْعَرْبَ عَلَی عِبَادَۃِ الْآوْثَانِ۔ (مسند احمد: ۱۴۸۶۰)
۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اقتدا میں صفوں میں کھڑے تھے، یہ ظہر یا عصر کی نماز تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز کے اندر ہی کوئی چیز پکڑنا چاہی اور پھر اس قدر پیچھے ہٹے کہ لوگ بھی پیچھے ہٹنے لگ گئے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: آج آپ نے نماز میں ایسی کاروائی کی ہے، جو پہلے نہیں کرتے تھے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت کو پوری چمک دمک اور تروتازگی کے ساتھ مجھ پر پیش کیا گیا، میں نے تمہارے پاس لانے کے لیے اس کا انگوروں کا گچھا پکڑنا چاہا، لیکن پھر بیچ میں رکاوٹ ڈال دی گئی اور اگر میں وہ لے آتا تو زمین وآسمان میں موجود تمام مخلوقات اس سے کھاتی، لیکن اس میں کوئی کمی واقع نہ ہوتی، پھر مجھ پر آگ پیش کی گئی، جب میں نے اس کی تپش محسوس کی تو میں پیچھے ہٹ آیا، اس میں اکثریت ان عورتوں کی تھی کہ جب ان کے پاس راز رکھا جائے تو وہ اس کو فاش کر دیتی ہیں، جب ان سے سوال کیا جائے تو وہ بخل کرتی ہیں، جب وہ سوال کرتی ہیں تو چمٹ جاتی ہیں اور جب ان کو دیا جائے تو شکر نہیں کرتیں، اور میں نے لحی بن عمرو کو جہنم میں دیکھا، وہ اپنی انتڑیاں کھینچ رہا تھا، میرے دیکھنے کے مطابق اس کی زیادہ مشابہت معبد بن اکثم کعبی سے تھی۔ سیدنا معبد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اس مشابہت کی وجہ سے میرے بارے میں کوئی خطرہ ہے، جبکہ وہ والد بھی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، تم مؤمن ہو اور وہ کافر تھا۔ یہ وہ پہلا شخص تھا جس نے عربوں کو بتوں کی عبادت پر اکسایا تھا۔ عرب میں سب سے پہلے بتوں کی عبادت کو رائح کرنے والے شخص کا نام اس روایت میں لحی بن عمرو آیا ہے جبکہ صحیح عمرو بن لحی ہے۔ (دیکھیں بلوغ اللعانی) (عبداللہ رفیق)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10215

۔ (۱۰۲۱۵)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ جُلُوْسٌ عِنْدَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِذْ مَرَّتْ سَحَابَۃٌ فَقَالَ: ((اَتَدْرُوْنَ مَاھٰذَا؟)) قَالَ: قُلْنَا: اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ، قَالَ: ((الْعَنَانُ وَرَوَایَا الْاَرْضِ، یَسُوْقُہُ اللّٰہُ اِلٰی مَنْ لَا یَشْکُرُہُ مِنْ عِبَادِہِ، وَلَا یَدْعُوْنَہُ، اَتَدْرُوْنَ مَا ھٰذِہِ فَوْقَکُمْ؟)) قُلْنَا: اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ، قَالَ: ((الرَّقِیْعُ، مَوْجٌ مَکْفُوْفٌ وَسَقْفٌ مَحْفُوْظٌ، اَتَدْرُوْنَ کَمْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَھُمَا؟)) قُلْناَ: اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ، قَالَ: ((مَسِیْرَۃُ خَمْسِ مِائَۃِ عَامٍ، قَالَ: اَتَدْرُوْنَ مَاالَّتِیْ فَوْقَھَا؟)) قُلْنَا: اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَمُ، قَالَ: ((سَمَائٌ اُخْرٰی، اَتَدْرُوْنَ کَمْ بَیْنَھَا وَبَیْنَھَا؟)) قُلْنَا: اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَمُ، قَالَ: ((مَسِیْرَۃُ خَمْسِ مِائَۃِ عَامٍ۔)) حَتّٰی عَدَّ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ، ثُمَّ قَالَ: ((اَتَدْرُوْنَ مَافَوْقَ ذٰلِکَ؟)) قُلْنَا: اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَمُ، قَالَ: ((اَلْعَرْشُ۔)) قَالَ: ((اَتَدْرُوْنَ کَمْ بَیْنَہُ وَبَیْنَ السَّمَائِ السَّابِعَۃِ؟)) قُلْنَا: اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَمُ، قَالَ: ((مَسِیْرَۃُ خَمْسِ مِائَۃِ عَامٍ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((اَتَدْرُوْنَ مَاھٰذَا تَحْتَکُمْ؟)) قُلْنَا: اللّٰہُ وَ رَسُوْلْہُ اَعْلَمُ، قَالَ: ((اَرْضٌ، اَ تَدْرُوْنَ مَا تَحْتَھَا؟)) قُلْنَا: اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَمُ، قَالَ: ((اَرْضٌ اُخْرٰی، اَتَدْرُوْنَ کَمْ بَیْنَھَا وَبَیْنَھَا؟)) قُلْنَا: اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَمُ، قَالَ: ((مَسِیْرَۃُ خَمْسِ مِائَۃِ عَامٍ۔)) حَتّٰی عَدَّ سَبْعَ اَرْضٍ ثُمَّ قَالَ: ((وَاَیْمُ اللّٰہِ! لَوْ دَلَّیْتُمْ اَحَدَکُمْ بِحَبْلٍ اِلَی الْاَرْضِ السُّفْلَی السَّابِعَۃِ لَھَبَطَ، ثُمَّ قَرَاَ {ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ وَھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ}۔)) (مسند احمد: ۸۸۱۴)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، وہاں سے ایک بدلی گزری، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ بدلی ہے اور زمین کو سیراب کرنے والی ہے، اللہ تعالیٰ اس کو اپنے ان بندوں کی طرف چلائے جا رہا ہے، جو نہ اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور نہ اس کو پکارتے ہیں، اچھا کیا تم یہ جانتے ہو کہ اس کے اوپر کیا ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آسمان ہے، یہ ایک موج ہے، جس کو روک دیا گیا ہے اور محفوظ چھت ہے، کیا تم جانتے ہوں کہ اس کے اور تمہارے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پانچ سو برسوں کی مسافت ہے، کیا تم جانتے ہو کہ اُس کے اوپر کیا ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک اور آسمان ہے، کیا تم جانتے ہو کہ اِس آسمان اور اُس آسمان کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سات آسمانوں کو شمار کیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ ساتویں آسمان کے اوپر کیا ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عرش ہے، کیا تم جانتے ہو کہ عرش اور ساتویں آسمان کے مابین کتنا فاصلہ ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پانچ سو سالوں کی مسافت ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اچھا کیا تم یہ جانتے ہو کہ تمہارے نیچے کیا ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زمین ہے، اچھا کیا تمہیں اس چیز کا علم ہے کہ اس کے نیچے کیا ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک اور زمین ہے، کیا تم جانتے ہو کہ اُس کے نیچے کیا ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک اور زمین ہے، کیا تم جانتے ہو کہ اِس زمین سے اُس زمین تک کتنا فاصلہ ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پانچ سو برسوں کی مسافت ہے۔ یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سات زمینیں شمار کیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اور اللہ کی قسم ہے کہ اگر تم ساتویں زمین تک رسی لٹکاؤ تو وہ ساتویں زمین سے جا لگے لگی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت کی: وہی پہلے ہے اور وہی پیچھے، وہی ظاہر ہے اور وہی مخفی، اور ہر چیز کو بخوبی جاننے والا ہے۔ (سورۂ حدید: ۳)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10216

۔ (۱۰۲۱۶)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: اَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِیَدِیْ فَقَالَ: ((خَلَقَ اللّٰہُ التُّرْبَۃَیَوْمَ السَّبْتِ، وَخَلَقَ الْجِبَالَ فِیْھَایَوْمَ الْاَحَدِ، وَخَلَقَ الشَّجَرَ فِیْھَایَوْمَ الْاِثْنَیْنِ، وَخَلَقَ الْمَکْرُوْہَ یَوْمَ الثُّلاَ ثَائِ، وَخَلَقَ النُّوْرَ یَوْمَ الْاَرْبِعَائِ، وَبَثَّ فِیْھَا الدَّوَابَ یَوْمَ الْخَمِیْسِ، وَخَلَقَ آدَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ بَعْدَ الْعَصْرِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ آخِرَ الْخَلْقِ فِیْ آخِرِ سَاعَۃٍ مِنْ سَاعَاتِ الْجُمُعَۃِ فِیْمَا بَیْنَالْعَصْرِ اِلَی الْلَیْلِ۔)) (مسند أحمد: ۸۳۲۳)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا او ر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہفتے والے دن کو مٹی، اتوار کو پہاڑ، سوموار کو درخت، منگل کو مکروہ چیزیں، بدھ کو نور، جمعرات کو چوپائے پیدا کئے اور آدم علیہ السلام ،جو کہ آخری مخلوق تھے، کو جمعہ کے روز بعد از وقت ِ عصر جمعہ کی آخری گھڑی میں پیدا کیا،یہ گھڑی عصر سے رات (غروبِ آفتاب) تک کے وقت کے مابین ہوتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10217

۔ (۱۰۲۱۷)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: کُنَّا قَدْ نُھَیْنَا اَنْ نَسْاَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ شَیْئٍ فَکَانَ یُعْجِبُنَا اَنْ یَجِيْئَ الرَّجُلُ مِنْ اَھْلِ الْبَادِیَۃِ الْعَاقِلُ فَیَسْاَلُہُ وَنَحْنُ نَسْمَعُ، فَجَائَ رَجُلٌ مِنْ اَھْلِ الْبَادِیَۃِ فَقَالَ: یَامُحَمَّدُ! اَتَانَا رَسُوْلُکَ فَزَعَمَ لَنَا اَنَّکَ تَزْعَمُ اَنَّ اللّٰہَ اَرْسَلَکَ، قَالَ: ((صَدَقَ۔)) قَالَ: فَمَنْ خَلَقَ السَّمَائَ؟ قَالَ: ((اَللّٰہُ۔)) قَالَ: فَمَنْ خَلَقَ الْاَرْضَ؟ قَالَ: ((اَللّٰہُ۔)) قَالَ: فَمَنْ نَصَبَ ھٰذِہِ الْجِبَالَ، وَجَعَلَ فِیْھَا مَاجَعَلَ؟ قَالَ: ((اَللّٰہُ۔)) قَالَ: فَبِالَّذِیْ خَلَقَ السَّمَائَ وَخَلَقَ الْاَرْضَ، وَنَصَبَ ھٰذِہِ الْجِبَالَ، آللّٰہُ اَرْسَلَکَ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) (مسند احمد: ۱۲۴۸۴)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہمیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کرنے سے منع کیا جاتا تھا، اس لیےیہ بات ہمیں بڑی پسند تھی کہ کوئی عقلمند دیہاتی آدمی آئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کرے اور ہم سنیں، پس ایک دیہاتی آدمی آیا اور اس نے کہا: اے محمد! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا، اس نے اس خیال کا اظہار کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس نے سچ کہا۔ اس نے کہا: اچھایہ بتائیں کہ کس نے آسمان کو پیدا کیا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ نے۔ اس نے کہا: کس نے زمین کو پیدا کیا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے۔ اس نے کہا: کس نے ان پہاڑوں کو گاڑھا اور ان میں کئی خزانے ودیعت رکھے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے۔ اس نے کہا: پس اس ذات کی قسم، جس نے آسمان پیدا کیا، زمین پیدا کی اور پہاڑ پیدا کیے، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث کیا ہے ؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10218

۔ (۱۰۲۱۸)۔ عَنْ اَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، اَنَّہُ دَخَلَ عَلَی عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، وَھُوَ یُخَاصِمُ فِیْ اَرْضٍ، فَقَالَتْ عَائِشَۃُ : یَا اَبَا سَلَمَۃَ! اجْتَنِبِ الْاَرْضَ، فَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ ظَلَمَ قِیْدَ شِبْرٍ مِنَ الْاَرْضِ، طُوِّقَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ سَبْعِ اَرْضِیْنَ۔)) (مسند احمد: ۲۴۸۵۷)
۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے مروی ہے کہ وہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس آئے، جبکہ وہ زمین کے بارے میں کوئی جھگڑا کر رہے تھے، سیدہ نے کہا: اے ابو سلمہ! زمین سے بچ، کیونکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے کسی کی ایک بالشت کے بقدر زمین ظلم سے اپنے قبضہ میں لے لی، اس کو قیامت کے روز سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10219

۔ (۱۰۲۱۹)۔ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ زَیْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ : ((مَنْ اَخَذَ مِنَ الْاَرْضِ مَا لَیْسَ لَہُ، طُوِّقَہُ اِلَی السَّابِعَۃِ مِنَ الْاَرْضِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَمَنْ قُتِلَ دُوْنَ مَالِہِ فَھُوَ شَھِیْدٌ۔)) (مسند احمد: ۱۶۴۲)
۔ سیدنا سعید بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے زمین کا وہ حصہ ہتھیا لیا، جو اس کا نہیں ہے تو اس کو قیامت کے دن ساتویں زمین تک طوق پہنایا جائے گا ، اور جو آدمی اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے، وہ شہید ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10220

۔ (۱۰۲۲۰)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَیُّ الظُّلْمِ اَعْظَمُ؟ قَالَ: ((ذِرَاعٌ مِنَ الْاَرْضِ یَنْتَقِصُہُ مِنْ حَقِّ اَخِیْہِ، فَلَیْسَتْ حَصَاۃٌ مِنَ الْاَرْضِ اَخَذَھَا اِلَّا طُوِّقَھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃَ اِلٰی قَعْرِ الْاَرْضِ، وَلَا یَعْلَمُ قَعْرَھَا اِلَّا الَّذِیْ خَلَقَھَا۔)) (مسند احمد: ۳۷۶۷)
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کون سا ظلم بڑا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک ہاتھ زمین، جس کو آدمی اپنے بھائی کے حق سے ہتھیا لیتا ہے، قیامت کے دن زمین کی تہہ تک اس حصے کا طوق اس آدمی کو ڈالا جائے گا اور ایک کنکری کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا، اور زمین کی تہہ کو کوئی نہیں جانتا، مگر وہی جس نے اس کو پیدا کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10221

۔ (۱۰۲۲۱)۔ عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ خُزَیْمَۃَ،یُحَدِّثُ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یَاْتِیْ الشَّیْطَانُ الْاِنْسَانَ فیَقُوْلُ : مَنْ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ؟ فَیَقُوْلُ : اللّٰہُ، ثُمَّ یَقُوْلُ : مَنْ خَلَقَ الْاَرْضَ؟ فَیَقُوْلُ : اللّٰہُ، حَتّٰییَقُوْلُ : مَنْ خَلَقَ اللّٰہَ، فَاِذَا وَجَدَ اَحَدُکُمْ ذٰلِکَ فَلْیَقُل : آمَنْتُ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ۔)) (مسند احمد: ۲۲۲۱۱)
۔ سیدنا خزیمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شیطان انسان کے پاس آ کرکہتا ہے: کس نے آسمانوں کو پیدا کیا؟ وہ کہتا ہے: اللہ تعالیٰ نے، وہ اگلا سوال کرتا ہے: کس نے زمین کو پیدا کیا؟ وہ کہتا ہے: اللہ تعالیٰ نے، (سوالات کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے) یہاں تک کہ وہ یہ کہتا : کس نے اللہ کو پیدا کیا، جب کوئی اس چیز کو محسوس کرے تو وہ کہے: آمَنْتُ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ (میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا ہوں)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10222

۔ (۱۰۲۲۲)۔ عَنْ اَنَسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَالَ: لِیْ، اِنَّ اُمَّتَکَ لَا یَزَالُوْنَیَتَسَائَ لُوْنَ فِیْمَا بَیْنَھُمْ حَتّٰییَقُوْلُوْا: ھٰذَا اللّٰہُ خَلَقَ النَّاسَ فَمَنْ خَلَقَ اللّٰہَ؟)) (مسند احمد: ۱۲۰۱۸)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا: تیری امت کے لوگ آپس میں ایک دوسرے سے سوال کرتے رہیں گے، یہاں تک کہ وہ یہ بھی کہہ دیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10223

۔ (۱۰۲۲۳)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا، قَالَ: ((لَمَّا خَلَقَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ الْاَرْضَ جَعَلَتْ تَمِیْدُ، فَخَلَقَ الْجِبَالَ فَاَلْقَاھَا عَلَیْھَا فَاسْتَقَرَّتْ، فَتَعَجَّبَتِ الْمَلَائِکَۃُ مِنْ خَلْقِ الْجِبَالِ فَقَالَت: یَا رَبِّ! ھَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْئٌ اَشَّدُ مِنَ الْجِبَالِ؟ قَالَ: نَعَمْ الْحَدِیْدُ، قَالَتْ: یَا رَبِّ! ھَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْئٌ اَشَدُّ مِنَ الْحَدِیْدِ؟ قَالَ: نَعَمْ، اَلنَّارُ، قَالَتْ: یَا رَبِّ! ھَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْئٌ اَشَدُّ مِنَ النَّارِ؟ قَالَ: نَعَمْ، اَلْمَائُ، قَالَتْ: یَا رَبِّ فَھَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْئٌ اَشَدُّ مِنَ الْمَائِ؟ قَالَ: نَعَمْ، اَلرِّیْحُ، قَالَتْ: یَا رَبِّ! فَھَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْئٌ اَشَدُّ مِنَ الرِّیْحِ؟ قَالَ: نَعَمْ ابْنُ آدَمَ یَتَصَدَّقُ بِیَمِیْنِہِیُخْفِیْھَا مِنْ شِمَالِہِ۔)) (مسند احمد: ۱۲۲۷۸)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا تووہ ڈانواڈول ہونے لگی، پس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو پیدا کر کے اس پر گاڑھا، سو وہ قرار پکڑ گئی، فرشتوں کو پہاڑوں کی تخلیق سے بڑا تعجب ہوا، پس انھوں نے کہا: اے ربّ! کیا تیری مخلوق میں سے کوئی چیز پہاڑوں سے بھی سخت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کہا: ہاں، وہ لوہا ہے، انھوں نے کہا: اے ربّ! کیا تیری مخلوق میں سے کوئی چیز لوہے سے بھی سخت ہے؟ اس نے کہا: ہاں، وہ آگ ہے، انھوں نے کہا: اے ربّ! کیا تیری مخلوق میں سے کوئی چیز آگ سے سخت ہے؟ اس نے کہا: ہاں، وہ پانی ہے، انھوں نے کہا: اے ربّ! کیا تیری مخلوق میں سے کوئی چیز پانی سے بھی سخت ہے؟ اس نے کہا: ہاں، وہ ہوا ہے، انھوں نے کہا: اے ربّ! کیا تیری مخلوق میں سے کوئی چیز ہوا سے بھی سخت ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آدم کا وہ بیٹا ہے، جو دائیں ہاتھ سے صدقہ کرتا ہے اور اس کو بائیں ہاتھ سے چھپاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10224

۔ (۱۰۲۲۴)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلّ:َ یُؤْذِیْنِیْ ابْنُ آدَمَ یَسُبُّ الدَّھْرَ وَاَنَا الدَّھْرُ بِیَدِی الْاَمْرُ، اُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَالنَّھَارَ۔)) (مسند احمد: ۷۲۴۴)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ابن آدم مجھے تکلیف دیتا ہے اور وہ اس طرح کہ زمانے کو گالی دیتا ہے، جبکہ میں زمانہ ہوں، میرے ہاتھ میں اختیار ہے، میں دن رات کو الٹ پلٹ کرتا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10225

۔ (۱۰۲۲۵)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا تَسُبُّوْا الدَّھْرَ فَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ قَالَ: اِنَّ الدَّھْرَ الْاَیَّامُ وَاللِّیَالِی لِیْ، اَجَدِّدُھَا وَاُبْلِیْھا، وَآتِیْ بِمُلُوْکٍ بَعْدَ مُلُوْکٍ۔)) (مسند احمد: ۱۰۴۴۲)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زمانے کو برا بھلا نہ کہا کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بیشک زمانہ یعنی دن اور راتیں میرے لیے ہیں، میں ان میں جدت پیدا کرتا ہوں اور ان کو بوسیدہ کرتا ہوں اور میں بادشاہوں کے بعد بادشاہوں کو لاتا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10226

۔ (۱۰۲۲۶)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فُجِّرَتْ اَرْبَعَۃُ اَنْھَارٍ مِنَ الْجَنَّۃِ، الْفُرَاتُ، وَالنِّیْلُ، وَسَیْحَانُ، وَجَیْحَانُ۔)) (مسند احمد: ۷۵۳۵)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چار دریا جنت سے پھوٹتے ہیں: فرات، نیل، سیحان اور جیحان۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10227

۔ (۱۰۲۲۷)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((سَیْحَانُ وَجَیْحَانُ وَالنِّیْلُ وَالْفُرَاتُ وَکُلٌ مِنْ اَنْھَارِ الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۷۸۷۳)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سیحان، جیحان، فرات اور نیل ساری جنت کی نہروں میں سے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10228

۔ (۱۰۲۲۸)۔ عَنْ صَبَّاحِ بْنِ اَشْرَسَ، قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنِ الْمَدِّ وَالْجَزْرِ فَقَالَ: اِنَّ مَلَکًا مُوَکَّلٌ بِقَامُوْسِ الْبَحْرِ فَاِذَا وَضَعَ رِجْلَہُ فَاضَتْ، وَاِذَا رَفَعَھَا غَاضَتْ۔)) (مسند احمد: ۲۳۶۲۶)
۔ صباح بن اشرس سے مروی ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مد و جزر کے بارے میں سوال کیا گیا، انھوں نے کہا: ایک فرشتے کو سمندر کے درمیانے اور بڑے حصے پر مقرر کیا گیا ہے ، جب وہ اپنی ٹانگ اس میں رکھتا ہے تو پانی زیادہ ہو جاتا ہے اور جب وہ اس کو اٹھا لیتا ہے تو پانی کم ہو جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10229

۔ (۱۰۲۲۹)۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((لَیْسَ مِنْ لَیْلَۃٍ اِلَّا وَالْبَحْرُ یُشْرِفُ فِیْھَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ عَلَی الْاَرْضِ، یَسْتَاْذِنُ اللّٰہَ فِیْ اَنْ یَنْفَضِحَ عَلَیْھِمْ فَیَکُفُّہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔)) (مسند احمد: ۳۰۳)
۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر رات کو سمندر تین بار زمین پر جھانکتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے زمین والوں پر بہہ پڑنے کی اجازت طلب کرتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اس کو روک لیتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10230

۔ (۱۰۲۳۰)۔ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ یَعْلٰی، عَنْ اَبِیْہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَلْبَحْرُھُوَ جَھَنَّمُ۔)) قَالُوْا لِیَعْلٰی: فَقَالَ: اَلا تَرَوْنَ اَنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَقُوْلُ: {نَارًا اَحَاطَ بِھِمْ سُرَادِقُھَا} قَالَ: لَا، وَالَّذِیْ نَفْسُ یَعْلٰی بِیَدِہِ لَا اَدْخُلُھَا اَبَدًا حَتّٰی اُعْرَضَ عَلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، وَلَا یُصِیْبُنِیْ مِنْھَا قَطَرَۃٌ حَتّٰی اَلْقَی اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ۔ (مسند احمد: ۱۸۱۲۴)
۔ سیدنایعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سمندر جہنم ہی ہے۔ لوگوں نے سیدنایعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ظالموں کے لیے ہم نے وہ آگ تیار کر رکھی ہے، جس کی قناتیں انہیں گھیر لیں گی۔ (سورۂ کہف: ۲۹) انھوں نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میںیعلی کی جان ہے! میں اس میں کبھی بھی داخل نہیں ہوں گا، یہاں تک کہ مجھے اللہ تعالیٰ پر پیش کیا جائے اور اس کا ایک قطرہ مجھ تک نہیں پہنچ سکتا، یہاں تک کہ میں اللہ تعالیٰ سے جا ملوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10231

۔ (۱۰۲۳۱)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: سَاَلَ رَجُلٌ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: اِنَّا نَرْکَبُ الْبَحْرَ وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِیْلَ مِنَ الْمَائِ فَاِنْ تَوَضَّأْنَا بِہٖعَطِشْنَا،اَفَنَتَوَضَّاُمِنْمَائِالْبَحْرِ؟فَقَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ھُوَ الطَّھُوْرُ مَاؤُہُ، الْحِلُّ مَیْتَتُہُ۔)) (مسند احمد: ۸۷۲۰)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا اور کہا: بیشک ہم سمندری سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا سا پانی اٹھاتے ہیں، اگر ہم اس سے وضو کریں تو پیاس لگتی ہے، تو کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سمندر کا پانی پاک کرنے والا ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10232

۔ (۱۰۲۳۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، فِیْ صِفَۃِ صَلَاۃِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ کُسُوْفِ الشَّمْسِ قَالَتْ: فَانْصَرَفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَ قَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَاثَنْیٰ عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ: ((اِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ مِنْ آیَاتِ اللّٰہِ، وَ اِنَّھُمْا لَا یَخْسِفَانِ لِمُوْتِ اَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِہِ، فَاِذَا رَاَیْتُمُوْھُمَا فَکَبِّرُوْا وَادْعُوْا اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ، وَصَلُّوْا، وَتَصَدَّقُوْا۔)) الحدیث (مسند احمد: ۲۵۸۲۶)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نماز کسوف کی کیفیت بیان کرتی ہوئی کہتی ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو سورج صاف ہو چکا تھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خطبہ دیا، حمدو ثنا بیان کی اور پھر فرمایا: بیشک سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں، ان کو نہ کسی کی موت کی وجہ سے گرہن لگتا ہے اور نہ کسی کی زندگی کی وجہ سے، پس جب تم ان کو دیکھو تو اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو، اللہ تعالیٰ کو پکارو، نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10233

۔ (۱۰۲۳۳)۔ عَنْ اَسْمَائَ بِنْتِ اَبِیْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بِنَحْوِہِ وَفِیْہِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یَا اَیُّھَا النَّاسُ! اِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللّٰہِ، لَا یَخْسِفَانِ لِمُوْتِ اَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِہِ، فَاِذَا رَاَیْتُمْ ذٰلِکَ فَافْزَعُوْا اِلَی الصَّلَاۃِ، وَاِلَی الصَّدَقَۃِ، وَاِلٰی ذَکْرِ اللّٰہِ۔)) (مسند احمد: ۲۷۵۳۲)
۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے، البتہ اس میں ہے: اے لوگو! بیشک سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوںمیں سے دو نشانیاں ہیں، ان کو کسی کی موت کی وجہ سے گرہن لگتا ہے نہ کسی کی زندگی سے، جب تم اس چیز کو دیکھو تو نماز، صدقہ اور اللہ کے ذکر کی طرف پناہ حاصل کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10234

۔ (۱۰۲۳۴)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: رَاٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الشَّمْسَ حِیْنَ غَرَبَتْ فَقَالَ: ((فِیْ نَارِ اللّٰہِ الْحَامِیَۃِ، لَوْ لَا مَا یَزَعُھَا مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ لَاَھْلَکَتْ مَا عَلَی الْاَرْضِ۔)) (مسند احمد: ۶۹۳۴)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ کی دہکتی ہوئی آگ میں غروب ہوا ہے، اگر اللہ تعالیٰ کے حکم نے اس کو نہ روکا ہوا ہوتا تو اس نے زمین پر موجودتمام چیزوں کو ہلاک کر دینا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10235

۔ (۱۰۲۳۵)۔ عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((تَغِیْبُ الشَّمْسُ تَحْتَ الْعَرْشِ فَیُؤْذَنُ لَھَا فَتَرْجِعُ، فَاِذَا کَانَتْ تِلْکَ اللَّیْلَۃُ الَّتِیْ تَطْلَعُ صَبِیْحَتَھَا مِنَ الْمَغْرِبِ لَمْ یُؤْذَنْ لَھَا، فَاِذَا اَصْبَحَتْ قِیْلَ لَھَا: اطْلُعِیْ مِنْ مَکَانِکِ ثُمَّ قَرَأَ {ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا اَنْ تَاْتِیَھُمُ الْمَلَائِکَۃُ اَوْ یَاْتِیَ رَبُّکَ اَوْ یَاْتِیَ بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ}۔)) (مسند احمد: ۲۱۶۲۵)
۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سورج عرش کے نیچے غروب ہوتا ہے، پھر اس کو اجازت دی جاتی ہے، پس وہ لوٹ آتا ہے، جب وہ رات ہو گی، جس کی صبح کو سورج نے مغرب سے طلوع ہونا ہو گا، اس کو اجازت نہیں دی جائے گی، پس جب وہ صبح کرے گا تو اس سے کہا جائے گا: تو اسی جگہ سے طلوع ہو، جہاں سے غروب ہوا ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی: کیایہ لوگ صرف اس امر کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیںیا ان کے پاس آپ کا ربّ آ ئے یا آپ کے رب کی کوئی (بڑی) نشانی آئے۔ (سورۂ انعام: ۱۵۸)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10236

۔ (۱۰۲۳۶)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَاطَلَعَ الْنَجْمُ صَبَاحًا قَطُّ، وَبِقَوْمٍ عَاھَۃٌ اِلَّا رُفِعَتْ اَوْ خَفَّتْ۔)) (مسند احمد: ۹۰۲۷)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب صبح کے وقت (ثریا) ستارہ طلوع ہوتا ہے اور اس وقت جو قوم جس بیماری میں مبتلا ہوتی ہے تو وہ بیمارییا تو سرے سے ختم ہو جاتی ہے، یا اس میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10237

۔ (۱۰۲۳۷)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیقٍ ثَانٍ ) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِذَا طَلَعَ النَّجْمُ ذَا صَبَاحٍ رُفِعَتِ الْعَاھَۃُ۔))(مسند احمد: ۸۴۷۶)
۔ (دوسری سند)رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب (ثریا) ستارہ صبح کے وقت طلوع ہوتا ہے، تو آفت ختم کر دی جاتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10238

۔ (۱۰۲۳۸)۔ حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ھٰرُوْنَ، ثَنَا ھِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ: کُنَّا مَعَ اَبِیْ قَتَادَۃَ عَلٰی ظَھْرِ بَیْتِنَا فَرَاٰی کَوْکَبًا اِنْقَضَّ فَنَظَرُوْا اِلَیْہِ، فَقَالَ اَبُوْ قَتَادَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: اِنَّا قَدْ نُھِیْنَا اَنْ نُتْبِعَہُ اَبْصَارَنَا۔ (مسند احمد: ۲۲۹۱۶)
۔ محمد کہتے ہیں: ہم سیدنا ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ اپنے گھر کی چھت پر تھے، انھوں نے ایک ستارے کو ٹوٹتے ہوئے دیکھا، پھر لوگوں نے اس کی طرف دیکھا تو انھوں نے کہا: ہمیں اس سے منع کیا گیا کہ ہم اس کو دیکھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10239

۔ (۱۰۲۳۹)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَتْ: اَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِیَدِیْ فَاَرَانِی الْقَمَرَ حَتّٰی طَلَعَ فَقَالَ: ((تَعَوِّذِیْ بِاللّٰہِ مِنْ شَرِّ ھٰذَا الْغَاسِقِ اِذَا وَقَبَ۔)) (مسند احمد: ۲۶۲۳۰)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے چاند کو طلوع ہوتے ہوئے دکھایا اور فرمایا: تو اللہ کی پناہ طلب کر اس غاسق کے شرّ سے، جب اس کی تاریکی پھیل جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10240

۔ (۱۰۲۴۰)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَلَمْ تَرَوْا اِلٰی مَا قَالَ رَبُّکُمْ عَزَّوَجَلَّ؟ قَالَ: مَا اَنْعَمْتُ عَلٰی عِبَادِیْ مِنْ نِعْمَۃٍ اِلَّا اَصْبَحَ فَرِیْقٌ مِنْھُمْ بِھَا کَافِرِیْنَ،یَقُوْلُوْنَ: الْکَوْکَبُ وَبِالْکَوْکَبِ۔)) (مسند احمد: ۸۷۹۷)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بات کی طرف نہیں دیکھتے، جو تمہارے ربّ نے کہی ہے؟ اس نے کہا: جب بھی میں اپنے بندوں پر کوئی نعمت کرتا ہوں تو ان میں ایک فریق تو میرے ساتھ کفر کرنے والا ہو جاتا ہے، وہ کہتا ہے: ستارے نے بارش برسائی، ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10241

۔ (۱۰۲۴۱)۔ حَدَّثَنَا یَزِیْدُ، اَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ سَعْدٍ اَخْبَرَنِیْ اَبِیْ قَالَ: کُنْتُ جَالِسًا اِلٰی جَنْبِ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ فِیْ الْمَسْجِدِ فَمَرَّ شَیْخٌ جَمِیْلٌ مِنْ بَنِیْ غِفَارٍ وَفِیْ اُذُنَیْہِ صَمَمٌ اَوْ قَالَ: وَقْرٌ، اَرْسَلَ اِلَیْہِ حُمَیْدٌ فَلَمَّا اَقْبَلَ قَالَ: یَا ابْنَ اَخِیْ! اَوْسِعْ لَہُ فِیْمَا بَیْنِیْ وَبَیْنَکَ، فَاِنَّہُ قَدْ صَحِبَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ الشَّیْخُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یُنْشِیئُ السَّحَابَ فَیَنْطِقُ اَحْسَنَ النُّطْقِ وَیَضْحَکُ اَحْسَنَ الضِّحْکِ۔)) (مسند احمد: ۲۴۰۸۶)
۔ سعد کہتے ہیں: میں حمید بن عبد الرحمن کے ساتھ مسجد میں بیٹھا ہوا تھا، وہاں سے بنو غفار کے ایک خوبصورت بزرگ کا گزر ہوا، ان کے کانوں میں بہرا پن تھا، جب حمید نے ان کی طرف پیغام بھیجا تو وہ متوجہ ہوئے، اِدھر حمید نے کہا: میرے بھتیجے! میرے اور اپنے درمیان ان کے لیے وسعت پیدا کرو، کیونکہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابی ہیں، اس بزرگ نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: بیشک اللہ تعالیٰ بادل کو پیدا کرتا ہے، پس وہ بہترین انداز میں بولتا ہے اور بہترین انداز میں ہنستا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10242

۔ (۱۰۲۴۲)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِذَا سَمِعَ الرَّعْدَ وَالصَّوَاعِقَ قَالَ: ((اَللّٰھُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ، وَلَا تُھْلِکْنَا بِعَذَابِکَ، وَعَافِنَا قَبْلَ ذٰلِکَ۔)) (مسند احمد: ۵۷۶۳)
۔ سیدنا عبدا للہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب گرج اور کڑک کی آواز سنتے تو فرماتے: اے اللہ! نہ ہمیں اپنے غضب کے ساتھ ہلاک کر اور نہ عذاب کے ساتھ ہمیں تباہ کر، اور ہمیں اس سے پہلے ہی عافیت دے دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10243

۔ (۱۰۲۴۳)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: اَقْبَلَتْ یَھُوْدٌ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فقَالُوْا: یَا اَبَا الْقَاسِمِ! اِنَّا نَسْاَلُکَ عَنْ خَمْسَۃِ اَشْیَائٍ، فَذَکَرَ الْحَدِیْثَ وَفِیْہِ قَالُوْا: اَخْبِرْنَا مَا ھٰذَا الرَّعْدُ؟ قَالَ: ((مَلَکٌ مِنْ مَلَائِکَۃِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ مُوَکَّلٌ بِالسَّحَابِ بِیَدِہِ، اَوْ فِیْیَدِہِ مِخْرَاقٌ مِنْ نَارٍ یَزْجُرُ بِہٖالسَّحَابَیَسُوْقُہُ حَیْثُ اَمَرَ اللّٰہُ۔)) قَالُوْا: فَمَا ھٰذَا الصَّوْتُ الَّذِیْ نَسْمَعُ قَالَ: ((صَوْتُہُ۔)) قَالُوْا: صَدَقْتَ۔(مسند احمد: ۲۴۸۳)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ یہودی لوگ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے کہا: اے ابوالقاسم! ہم آپ سے پانچ اشیاء کے بارے میں سوال کریں گے، ……، پھر انھوں نے پوری حدیث ذکر کی، اس میں یہ بھی تھا: انھوں نے کہا: آپ ہمیں یہ بتائیں کہ کڑک کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کو بادلوں کا نظام سپرد کیا گیا ہے، اس کے ہاتھ میںآگ کی ایک تلوار ہوتی ہے، وہ اس کے ذریعے بادلوں کو ڈانٹتا ہے اور اللہ کے حکم کے مطابق ان کو چلا کر لے جاتا ہے۔ انھوں نے کہا: ہم جو آواز سنتے ہیں،یہ کون سی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اسی کی آواز ہوتی ہے۔ یہودیوں نے کہا: آپ نے سچ کہا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10244

۔ (۱۰۲۴۴)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((قَالَ رَبُّکُمْ عَزَّوَجَلَّ: لَوْ اَنَّ عِبَادِیْ اَطَاعُوْنِیْ لَاَسْقَیْتُھُمُ الْمَطْرَ بِاللَّیْلِ وَ اَطْلَعْتُ عَلَیْھِمُ الشَّمْسَ بِالنَّھَارِ، وَ لَمَا اَسَمَعْتُھُمْ صَوْتَ الرَّعْدِ۔ وَق۔الَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِنّ۔ حُسْنُ الظَّنِّ بِاللّٰہِ مِنْ حُسَنِ عِبَادَۃِ اللّٰہِ۔)) (مسند احمد: ۸۶۹۳)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے ربّ نے کہا: اگرمیرے بندے میری اطاعت کریں تو میں ان پر رات کو بارش نازل کروں گا، دن کو سورج نکال دوں گا اور میں ان کو گرج کی آواز تک نہیں سناؤں گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزید فرمایا: اللہ تعالیٰ کے بارے میں اچھا گمان رکھنا، اس کی اچھی عبادت میں سے ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10245

۔ (۱۰۲۴۵)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا تَسُبُّوْا الرِّیْحَ فَاِنَّھَا تَجِیْئُ بِالرَّحْمَۃِ وَالْعَذَابِ، وَلٰکِنْ سَلُوْا اللّٰہَ خَیْرَھَا، وَتَعَوَّذُوْا بِہٖمِنْشَرِّھَا۔)) (مسنداحمد: ۹۶۲۷)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہوا کو برا بھلا نہ کہو، کیونکہیہ رحمت کو بھی لاتی ہے اور عذاب کو بھی، تم اللہ تعالیٰ سے اس کی خیر کا سوال کیا کرو اور اس کے شرّ سے پناہ طلب کیا کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10246

۔ (۱۰۲۴۶)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا، قَالَ: اَخَذَتِ النَّاسَ رِیْحٌ بِطَرِیْقِ مَکَّۃَ، وَعَمَرُبْنُ الْخَطَّابِ حَاجٌ فَاشْتَدَّتْ عَلَیْھِمْ فَقَالَ عُمَرُ لِمَنْ حَوْلَہُ: مَنْ یُحَدِّثُنَا عَنِ الرِّیْحِ؟ فَلَمْ یُرْجِعُوْا اِلَیْہِ شَیْئًا، فَبَلَغَنِی الَّذِیْ سَاَلَ عَنْہُ عُمَرُ مِنْ ذٰلِکَ، فَاسْتَحْثَثْتُ رَاحِلَتِیْ حَتّٰی اَدْرَکْتُہُ، فَقُلْتُ: یَا اِمَیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! اُخْبِرْتُ اَنَّکَ سَاَلْتَ عَنِ الرِّیْحِ، وَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ : ((اَلرِّیْحُ مِنْ رَوْحِ اللّٰہِ، تَاْتِیْ بِالرَّحْمَۃِ وَتَاْتِیْ بِالْعَذَابِ، فَاِذَا رَاَیْتُمُوْھَا فَـلَا تَسُبُّوْھَا، وَسَلُوْا اللّٰہَ خَیْرَھَا، وَاسْتَعِیْذُوْا بِہٖمِنْشَرِّھَا۔)) (مسنداحمد: ۷۶۱۹)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ لوگ مکہ مکرمہ کے راستے میں تھے، ہوا چلنے لگی، سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ حج کرنے جا رہے تھے، ہوا سخت ہو گئی، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے ارد گرد کے لوگوں سے پوچھا: کون ہمیں ہوا کے بارے میں بیان کرے گا؟ لوگوں نے کوئی جواب نہ دیا، جب مجھے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سوال کا علم ہوا تو میں نے اپنی سواری کو تیزی سے چلایا،یہاں تک کہ ان کو پا لیا اور کہا: اے امیر المؤمنین! مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہوا کے بارے میں سوال کیا ہے، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اس کے بارے میں یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: ہوا کی اصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے، یہ رحمت کے ساتھ بھی آتی ہے اور عذاب کے ساتھ بھی، پس جب تم اس کو دیکھو تو اس کو برا بھلا مت کہا کرو، بلکہ اللہ تعالیٰ سے اس کی خیر کا سوال کیا کرو اور اس کے شرّ سے پناہ طلب کیا کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10247

۔ (۱۰۲۴۷)۔ عَنْ جَابِرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ سَفَرٍ قَالَ: فَھَبَّتْ رِیْحٌ شَدِیْدَۃٌ فَقَالَ: ((ھٰذِہِ لِمَوْتِ مُنَافِقٍ۔)) قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِیْنَۃَ، اِذَا ھُوَ قَدْ مَاتَ مُنَافِقٌ عَظِیْمٌ مِنْ عُظَمَائِ الْمُنَافِقِیْنَ۔ (مسند احمد: ۱۴۴۳۱)
۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک سفر میں تھے، بڑی سخت ہوا چلی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کسی منافق کی موت کی وجہ سے ہے۔ پس جب ہم مدینہ میں آئے تو دیکھا کہ بڑے منافقوں میں سے ایک بڑا منافق مر چکا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10248

۔ (۱۰۲۴۸)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ اِذَا ھَبَّتِ الرِّیْحُ عُرِفَ ذٰلِکَ فِیْ وَجْھِہِ۔ (مسند احمد: ۱۲۶۴۸)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب ہوا چلتی تھی تو اس چیز کا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے سے پتہ چل جاتا تھا (کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پریشان ہو رہے ہیں)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10249

۔ (۱۰۲۴۹)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، قَالَتْ: مَا رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَاٰی غَیْمًا اِلَّا رَاَیْتُ فِیْ وَجْھِہِ الْھَیْجَ فَاِذَا اَمْطَرَتْ سَکَنَ۔ (مسند احمد: ۲۴۹۷۸)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: جب بھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بادل نظر آتا تو میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے میں خوف اور گھبراہٹ کے آثار دیکھتی، جب وہ بارش برساتا تو تب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سکون میں آتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10250

۔ (۱۰۲۵۰)۔ (وَعَنْھَا مِنْ طَرِیقٍ ثَانٍ ) قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِذَا رَاٰی مَخِیْلَۃً تَغَیَّرَ وَجَھُہُ، وَدَخَلَ وَخَرَجَ وَاَقْبَلَ وَاَدْبَرَ، فَاِذَا اَمْطَرَتْ سُرِّیَ عَنْہُ فَذُکِرَ ذٰلِکَ لَہُ فَقَالَ: ((مَا اَمِنْتُ اَنْ یَکُوْنَ کَمَا قَالَ اﷲُ : {فَلَمَّا رَاَوْہُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ اَوْدِیَتِھِمْ} اِلٰی {رِیْحٍٍ فِیْھَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ}۔)) (مسند احمد: ۲۵۸۵۶)
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب بادل دیکھتے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ بدل جاتا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آنا جانا شروع کر دیتے تھے، جب بارش برسنا شروع ہوتی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کییہ کیفیت چھٹ جاتی، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس چیز کی وجہ دریافت کی گئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے اس بارے میں کوئی امن نہیں ہے کہ ممکن ہے کہ یہ وہی چیز ہو، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کہا: {فَلَمَّا رَاَوْہُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِیَتِہِمْ قَالُوْا ھٰذَا عَارِض’‘ مُّمْطِرُنَا بَلْ ھُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِہٖرِیْح’‘ فِیْھَا عَذَاب’‘ اَلِیْم’‘۔} پھر جب انھوں نے عذاب کو بصورت بادل دیکھا اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے تو کہنے لگے، یہ بادل ہم پر برسنے والا ہے، (نہیں) بلکہ دراصل یہ وہ (عذاب) ہے، جس کی تم جلدی کر رہے تھے، ہوا ہے جس میں دردناک عذاب ہے ۔ (سورۂ احقاف: ۲۴)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10251

۔ (۱۰۲۵۱)۔ وَعَنْھَا اَیْضًا، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ اِذَا رَاٰی نَاشِئًا مِنْ اُفُقٍ مِنْ آفَاقِ السَّمَائِ، تَرَکَ عَمَلَہُ، وَاِنْ کَانَ فِیْ صَلَاتِہِ ثُمَّ یَقُوْلُ : ((اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا فِیْہِ۔)) فَاِنْ کَشَفَ اللّٰہُ حَمِدَ اللّٰہَ، وَاِنْ مَطَرَتْ قَالَ: ((اَللّٰھُمَّ صَیِّبًا نَافِعًا۔)) (مسند احمد: ۲۶۰۸۷)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا یہ بھی بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب آسمان کے کسی افق میں کوئی بادل اٹھتے ہوئے دیکھتے تو اپنا کام چھوڑ دیتے، اگرچہ آپ نماز ادا کر رہے ہوتے اور پھر فرماتے: اے اللہ! میں اس شرّ سے تیری پناہ میں آتا ہوں، جو اس میں ہے۔ پس اگر اللہ تعالیٰ اس کو صاف کر دیتا تو اس کی حمد بیان کرتے اور اگر وہ بارش برسانا شروع کر دیتی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے: اے اللہ! نفع بخش بارش نازل کرنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10252

۔ (۱۰۲۵۲)۔ عَنْ مُعَاوِیَۃَ اللَّیْثِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَکُوْنُ النَّاسُ مُجْدِبِیْنَ فَیَنْزِلُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَلَیْھِمْ رِزْقًا مِنْ رِزْقِہِ فَیُصْبِحُوْنَ مُشْرِکِیْنَ۔)) فَقِیْلَ لَہُ: وَکَیْفَ ذَاکَ؟ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِِ! قَالَ: ((یَقُوْلُوْنَ: مُطِرْنَا بِنَوْئِ کَذَا۔)) (مسند احمد: ۱۵۶۲۲)
۔ سیدنا معاویہ لیثی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب لوگ قحط زدہ ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ (بارش کی صورت میں) اپنا رزق نازل کرتا ہے تو وہ مشرک بن جاتے ہیں۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ کیسے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگ کہتے ہیں کہ فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10253

۔ (۱۰۲۵۳)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: مُطِرْنَا عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَخَرَجَ فَحَسَرَ ثَوْبَہُ حَتّٰی اَصَابَہُ الْمَطَرُ، قَالَ: فَقِیْلَ لَہُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! لِمَ صَنَعْتَ ھٰذَا؟ قَالَ: ((لِاَنَّہُ حَدِیْثُ عَھْدٍ بِرَبِّہِ۔)) (مسند احمد: ۱۲۳۹۲)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عہد میں بارش ہوئی، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف لے گئے، (اپنے جسم کے بعض حصے سے) کپڑا ہٹایا،یہاں تک کہ اس حصے پر بارش کا پانی لگا، کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیونکہیہ اپنے ربّ کی طرف سے نئی نئی آئی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10254

۔ (۱۰۲۵۴)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا، قَالَ: مُطِرْنَا بَرَدًا، وَ اَبُوْ طَلْحَۃَ صَائِمٌ فَجَعَلَ یَاْکُلُ مِنْہُ، قِیْلَ لَہُ: اَتَاْکُلُ مِنْہُ وَ اَنْتَ صَائِمٌ؟ فَقَالَ: اِنّمَا ھٰذَا بَرَکَۃٌ۔ (مسند احمد: ۱۴۰۱۶)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بارش میں اولے برسے، سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اولے کھانا شروع کر دیئے، جبکہ وہ روزے دار بھی تھے، کسی نے کہا: کیا تم روزے کی حالت میں یہ اولے کھاتے ہو؟ انھوں نے کہا: یہ تو برکت ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10255

۔ (۱۰۲۵۵)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((الشِّتَائُ رَبِیْعُ الْمُؤْمِنِ۔)) (مسند احمد: ۱۱۷۳۹)
۔ سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: موسم سرما، مؤمن کے لیے بہار ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10256

۔ (۱۰۲۵۶)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ السَّنَۃَ لَیْسَ بِاَنْ لَا یَکُوْنَ فِیْھَا مَطَرٌ، وَلٰکِنَّ السَّنَۃَ اَنْ تُمْطِرَنَا السَّمَائُ وَلَا تُنْبِتَ الْاَرْضُ۔)) (مسند احمد: ۸۴۹۲)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک قحط سالییہ نہیں ہے کہ بارش نہ ہو، بلکہ قحط سالی تو یہ ہے کہ آسمان بارش برسائے، لیکن زمین کچھ نہ اگائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10257

۔ (۱۰۲۵۷)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((خُلِقَتِ الْمَلَائِکَۃُ مِنْ نُوْرٍ، وَخُلِقَتِ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ، وَخُلِقَ آدَمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ مِمَّا وُصِفَ لَکُمْ۔)) (مسند احمد: ۲۵۷۰۹)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فرشتوں کو نور سے اور جنوں کو آگ کے دہکتے ہوئے شعلے سے پیدا کیا اور آدم علیہ السلام کو اس چیز سے پیدا کیا، جس کو تمہارے لیے واضح کیا جا چکا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10258

۔ (۱۰۲۵۸)۔ عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنِّیْ اَرٰی مَا لَا تَرَوْنَ، وَاَسْمَعُ مَا لَا تَسْمَعُوْنَ، اَطَّتِ السَّمَائُ وَحَقَّ لَھَا اَنْ تَئِطَّ، مَا فِیْھَا مَوْضِعُ اَرْبَعِ اَصَابِعَ، اِلَّا عَلَیْہِ مَلَکٌ سَاجِدٌ، لَوْ عَلِمْتُمْ مَا اَعْلَمُ لَضَحِکْتُمْ قَلِیْلًا وَلَبَکَیْتُمْ کَثِیْرًا، وَلَا تَلَذَّذْتُمْ بِالنِّسَائِ عَلَی الْفُرُشَاتِ، وَلَخَرَجْتُمْ عَلَی، اَوْ اِلَی الصُّعُدَاتِ تَجْاَرُوْنَ اِلَی اللّٰہِ۔)) قَالَ اَبُوْ ذَرٍّ: وَاللّٰہِ لَوَدِدْتُ اَنِّیْ شَجَرَۃٌ تُعْضَدُ۔ (مسند احمد: ۲۱۸۴۸)
۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک جو میں دیکھتا ہوں وہ تم نہیں دیکھ سکتے اور جو میں سنتا ہوں وہ تم نہیں سن سکتے۔ (سنو!) آسمان چرچراتا ہے اور اسے چرچرانا ہی زیب دیتا ہے، کیونکہ وہاں چار انگلیوں کے بقدر بھی جگہ خالی نہیں ہے، ہر جگہ فرشتے سجدہ ریز ہیں۔ اللہ کی قسم! اگر تمھیں اس کا علم ہو جائے جو میں جانتا ہوں تو تم ہنسنا کم کر دو، رونا زیادہ کر دو، بچھونوں پر اپنی بیویوں سے لذتیں اٹھانا ترک کر دو اور (اللہ کی طرف) گڑگڑاتے ہوئے گھاٹیوں کی طرف نکل جاؤ۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ میں درخت ہوتا، جسے کاٹ دیا جاتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10259

۔ (۱۰۲۵۹)۔ عَنْ جَابِرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((عُرِضَ عَلَیَّ الْاَنْبِیَائُ، فَاِذَا مُوْسٰی علیہ السلام رَجُلٌ ضَرْبٌ مِنَ الرِّجَالِ، کَاَنَّہُ مِنْ رِجَالِ شَنُوْئَ ۃَ، فَرَاَیْتُ عِیْسٰی بْنَ مَرْیَمَ علیہ السلام فَاِذَا اَقْرَبُ مَنْ رَاَیْتُ بِہٖشَبَھًاعُرْوَۃُ بْنُ مَسْعُوْدٍ، وَرَاَیْتُ اِبْرَاھِیْمَ علیہ السلام فَاِذَا اَقْرَبُ مَنْ رَاَیْتُ بِہٖشُبْھًاصَاحِبُکُمْیَعْنِیْ نَفْسَہُ، وَرَاَیْتُ جِبْرِیْلَ علیہ السلام فَاِذَا اَقْرَبُ مَنْ رَاَیْتُ بِہٖشَبْھًادِحْیَۃُ۔)) (مسند احمد: ۱۴۶۴۳)
۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھ پر انبیاء پیش کیے گئے، موسی علیہ السلام معتدل وجود کے آدمی تھے، وہ شنوء ۃ قبیلے کے لوگوں کی طرح لگتے تھے، میں نے عیسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا، وہ عروہ بن مسعود کے زیادہ مشابہ لگتے تھے، میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا، وہ تمہارے اپنے ساتھی سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے، اس سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی ذات مراد لے رہے تھے، اور میں نے جبریل علیہ السلام کو دیکھا، وہ دحیہ کے زیادہ مشابہ لگتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10260

۔ (۱۰۲۶۰)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: رَاٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جِبْرِیْلَ وَلَہُ سِتُّ مِائَۃِ جَنَاحٍ، کُلٌّ مِنْھَا قَدْ سَدَّ الْاُفُقَ، یَسْقُطُ مِنْ جَنَاحِہِ مِنَ التَّھَاوِیْلِ وَالدُّرِّ وَالْیَاقُوْتِ مَااللّٰہُ اَعْلَمُ بِہٖ۔ (مسنداحمد: ۳۷۴۸)
۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جبریل علیہ السلام کو ان کی اصلی حالت میں دیکھا، ان کے چھ سو پر تھے، ان میں سے ہر پر نے افق کو پُر کر رکھا تھا، ان کے پروں سے مختلف رنگوں کی چیزیں، موتی اوریاقوت گر رہے تھے، جن کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10261

۔ (۱۰۲۶۱)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا، قَالَ: اِنَّ مُحَمَّدًا ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یَرَ جِبْرِیْلَ فِیْ صُوْرَتِہِ اِلَّا مَرَّتَیْنِ، (اَمَّا مَرَّۃً) فَاِنَّہُ سَاَلَہُ اَنْ یُرِیَہُ نَفْسَہُ فِیْ صُوْرَتِہِ فَاَرَاہُ صُوْرَتَہُ فَسَدَّ الْاُفُقَ،(وَ اَمَّا الْاُخْرٰی) فَاِنَّہُ صَعِدَ مَعَہُ حِیْنَ صَعِدَ بِہٖوَقَوْلُہُ: {وَھُوَبِالْاُفُقِالْاَعْلٰی ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی فَاَوْحٰی اِلٰی عَبْدِہِ مَا اَوْحٰی} قَالَ: فَلَمَّا اَحَسَّ جِبْرِیْلُ رَبَّہُ عَادَ فِیْ صُوْرَتِہِ وَسَجَدَ، فَقَوْلُہُ: {وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَھٰی عِنْدَھَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰی اِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشٰی مَازَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی لَقَدْ رَاٰی مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی} قَالَ: خَلْقَ جِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلَامُ۔ (مسند احمد: ۳۸۶۴)
۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جبریل علیہ السلام کو ان کی اصلی شکل میں دو بار دیکھا، ایک بار اس وقت جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ آپ کو اپنی اصلی صورت دکھائے، پس انھوں نے اپنی اصلی شکل دکھائی اور افق کو بھر دیا، دوسری مرتبہ اس وقت جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ساتھ چڑھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اور وہ بلند آسمان کے کناروں پر تھا، پھر نزدیک ہوا اور اتر آیا، پس وہ دو کمانوں کے بقدر فاصلہ رہ گیا، بلکہ اس سے بھی کم، پس اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی پہنچائی۔ پس جب حضرت جبریل علیہ السلام نے اپنے ربّ کو محسوس کیا تو اپنی اصلی شکل میں آ کر سجدہ کیا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا، سدرۃ المنتہی کے پاس، اسی کے پاس جنۃ الماوی ہے، جب کہ سدرہ کو چھپائے لیتی تھی، وہ چیز جو اس پر چھا رہی تھی، نہ تو نگاہ بہکی نہ حد سے بڑھی،یقینا اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دیکھ لیں۔اس نے کہا: یہ جبریل علیہ السلام کی تخلیق ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10262

۔ (۱۰۲۶۲)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: جَائَ تْ یَھُوْدُ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوْا: اِنَّہُ لَیْسَ مِنْ نَبِیٍّ اِلَّا لَہُ مَلَکٌ یَاْتِیْہِ بِالْخَیْرِ، فَاَخْبِرْنَا مَنْ صَاحِبُکَ؟ قَالَ: ((جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ۔)) قَالُوْا: جِبْرِیْلُ ذَاکَ الَّذِیْیَنْزِلُ بِالْحَرْبِ، وَالْقِتَالِ، وَالْعَذَابِ، عَدُوُّنَا، لَوْ قُلْتَ مِیْکَائِیْلُ الَّذِیْیَنْزِلُ بِالرَّحْمَۃِ وَالنَّبَاتِ وَالْقَطْرِ لَکَانَ، فَاَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ {مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیْلَ} اِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۴۸۳)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ یہودی لوگ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے کہا: ہر نبی کا ایک فرشتہ ہوتا ہے، جو اس کے پاس خیر لاتا ہے، آپ ہمیں بتائیں کہ آپ کے پاس آنے والا فرشتہ کون سا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ جبریل علیہ السلام ہے۔ انھوں نے کہا: جبریل،یہ تو لڑائی، قتال اور عذاب کے ساتھ نازل ہونے والا ہمارا دشمن فرشتہ ہے، اگر آپ نے میکائیل کا نام لیا ہوتا تو تب بات بنتی، وہ رحمت، انگوری اور بارش کے ساتھ نازل ہوتا ہے، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر دی: {قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہ نَزَّلَہ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَیَدَیْہِ وَھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ } … آپ کہہ دیجئے کہ جو جبریل کا دشمن ہے تو یقینا اس نے آپ کے دل پر پیغام باری تعالیٰ اتارا ہے، جو پیغام ان کے پاس کی کتاب کی تصدیق کرنے والا اور مومنوں کو ہدایت اور خوشخبری دینے والا ہے۔ (سورۂ بقرہ: ۹۷)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10263

۔ (۱۰۲۶۳)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: ذَکَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَاحِبَ الصُّوْرِ فَقَالَ: ((عَنْ یَمِیْنِہِ جِبْرِیْلُ، وَ عَنْ یَسَارِہِ مِیْکَائِیْلُm ۔)) (مسند احمد: ۱۱۰۸۵)
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صور پھونکنے والے فرشتے کا ذکر کیا اور فرمایا: اس کی دائیں جانب جبریل علیہ السلام ہے اور بائیں جانب میکائیل علیہ السلام ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10264

۔ (۱۰۲۶۴)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ لِجِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلَامُ: ((مَالِیْ لَمْ اَرَ مِیْکَائِیْلُ ضَاحِکًا قَطُّ؟)) قَالَ: مَا ضَحِکَ مِیْکَائِیْلُ مُنْذُ خُلِقَتِ النَّارُ۔ (مسند احمد: ۱۳۳۷۶)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جبریل علیہ السلام سے فرمایا: کیا وجہ ہے کہ میں نے میکائیل کو کبھی بھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا؟ انھوں نے کہا: اس وقت سے میکائیل نہیںہنسے، جب سے جہنم کی آگ کو پیدا کیا گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10265

۔ (۱۰۲۶۵)۔ عَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، قَالَتْ: قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَصْلِحِی لَنَا الْمَجْلِسَ، فَاِنَّہُ یَنْزِلُ مَلَکٌ اِلَی الْاَرْضِ لَمْ یَنْزِلْ اِلَیْھَا قَطُّ۔)) (مسند احمد: ۲۷۰۷۱)
۔ سیدنا ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا: میری بیٹھک کو درست کردے، کیونکہ زمین کی طرف وہ فرشتہ نازل ہونے والا ہے، جو پہلے کبھی نازل نہیں ہوا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10266

۔ (۱۰۲۶۶)۔ عَنْ اَبِیْ الْعَالِیَۃَ، قَالَ: حَدَّثَنِیْ ابْنُ عَمِّ نَبِیِّکُمْ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: مَا یَنْبَغِیْ لِعَبْدٍ اَنْ یَقُوْلَ اَنَا خَیْرٌ مِنْ یُوْنُسَ بْنِ مَتّٰی، وَنَسَبَہُ اِلٰی اَبِیْہِ۔)) قَالَ: وَ ذَکَرَ اَنَّہُ اُسْرِیَ بِہٖ،وَاَنَّہُرَاٰی مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ، آدَمَ طُـوَالًا، کَاَنَّہُ مِنْ رِجَالِ شَنُوْئَ ۃَ، وَ ذَکَرَ اَنَّہُ رَاٰی عِیْسٰی مَرْبُوْعًا اِلَی الْحُمْرَۃِ وَ الْبَیَاضِ، جَعْدًا، وَ ذَکَرَ اَنَّہُ رَاٰی الدَّجَّالَ، وَمَالِکًا خَازِنَ النَّارِ۔ (مسند احمد: ۳۱۷۹)
۔ ابو عالیہ کہتے ہیں: تمہارے نبی کے چچا زاد (سیدنا عبد اللہ بن عباس f) نے مجھے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کسی بندے کے لیےیہ جائز نہیں کہ وہ یہ کہے کہ وہ یونس بن متی سے بہتر ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو ان کے باپ کی طرف منسوب کیا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس چیز کا ذکر کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اسراء کرایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے موسی علیہ السلام کو دیکھا، وہ گندمی رنگ کے دراز قد آدمی تھے، ایسے لگ رہا تھے، جیسے وہ شنوء ہ قبیلے کے فرد تھے، پھر عیسی علیہ السلام کا ذکر کیا کہ وہ معتدل قد کے تھے، ان کا رنگ سرخی سفیدی مائل تھا، ان کا جسم بھرا ہوا تھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بتلایا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دجال اور جہنم کے داروغے مالک کو دیکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10267

۔ (۱۰۲۶۷)۔ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا کَانَ فِیْ اِنْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْیَا وَ اِقْبَالٍ مِنَ الْآخِرَۃِ نَزَلَ اِلَیْہِ مَلَائِکَۃُ مِنَ السَّمَائِ بِیْضُ الْوُجُوْہِ کَاَنَّ وُجُوْھَھُمُ الشَّمْسُ مَعَھُمْ کَفْنٌ مِنْ اَکْفَانِ الْجَنَّۃِ وَحُنُوْطٌ مِنْ حُنُوْطِ الْجَنَّۃِ، حَتّٰییَجْلِسُوْا مِنْہُ مَدَّ الْبَصَرِ، ثُمَّ یَجِیْئُ مَلَکُ الْمَوْتِ عَلَیْہِ السَّلَامُ حَتّٰییَجْلِسَ عِنْدَ رَاْسِہِ فَیَقُوْلُ : اَیَّتُھَا النَّفْسُ الطَّیِّبَۃُ اخْرُجِیْ اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانٍ، قَالَ: فَتَخْرُجُ تَسِیْلُ کَمَا تَسِیْلُ الْقَطْرَۃُ مِنْ فِیْ السِّقَائِ، فَیَاْخُذُ ھَا فَاِذَا اَخَذَھَا لَمْ یَدَعُوْھَا فِیْیَدِہِ طَرْفَۃَ عَیْنٍ حَتّٰییَاْخُذُوْھَا فَیَجْعَلُوْھَا فِیْ ذٰلِکَ الْکَفْنِ وَفِیْ ذٰلِکَ الْحُنُوْطِ وَیَخْرُجُ مِنْھَا کَاَطْیَبِ نَفْخَۃِ مِسْکٍ وُجِدَتْ عَلٰی وَجْہِ الْاَرْضِ، قَالَ: فَیَصْعَدُوْنَ بِھَا فَـلَا یَمُرُّوْنَیَعْنِیْ بِھَا عَلٰی مَلَاٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ اِلَّا قَالُوْا : مَا ھٰذَا الرُّوْحُ الطَّیِّبُ؟ فَیَقُوْلُوْنَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ بِاَحْسَنِ اَسْمَائِہِ الَّتِیْ کَانُوْا یُسَمُّوْنَہُ بِھَا فِیْ الدُّنْیَا حَتّٰییَنْتَھُوْا بِھَا اِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا فَیَسْتَفْتِحُوْنَ لَہُ فَیُفْتَحُ لَھُمْ، فَیُشَیِّعُہُ مِنْ کُلِّ سَمَائٍ مُقَرَّبُوْھَا اِلَی السَّمَائِ الَّتِیْ تَلِیْھَا حَتّٰییُنْتَھٰی بِھَا اِلَی السَّمَائِ السَّابِعَۃِ، فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: اکْتُبُوْا کِتَابَ عَبْدِیْ فِیْ عِلِّیِّیْنَ وَاَعِیْدُوْہُ اِلَی الْاَرْضِ فَاِنِّیْ مِنْھَا خَلَقْتُھُمْ وَفِیْھَا اُعِیْدُ ھُمْ وِ مِنْھَا اُخْرِجُھُمْ تَارَۃً اُخْرٰی، قَالَ: فَتُعَادَ رُوْحُہُ فِیْ جَسَدِہِ فَیَاْتِیْہِ مَلَکَانِ فَیُجْلِسَانِہِ فَیَقُوْلَانِ لَہُ: مَنْ رَبُّکَ؟ فَیَقُوْلُ : رَبِّیَ اللّٰہُ، فَیَقُوْلَانِ: مَا دِیْنُکَ؟ فَیَقُوْلُ: دِیْنِیَ الْاِسْلَامُ۔)) الحدیث (مسند احمد: ۱۸۷۳۳)
۔ سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک بندہ جب دنیا سے آخرت کی طرف جانے کی حالت میں ہوتا ہے تو اس کی طرف آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں، ان کے چہرے سورج کی طرح سفید ہوتے ہیں، ان کے پاس جنت کے کفنوں میں سے ایک کفن اور جنت کی خوشبوؤں میں سے خوشبو ہوتی ہے، وہ تاحد نگاہ اس آدمی کے پاس بیٹھ جاتے ہیں، پھر ملک الموت علیہ السلام آتا ہے اور اس کے سر کے پاس بیٹھ کر کہتا ہے: اے پاکیزہ نفس! نکل اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور خوشنودی کی طرف، پس اس طرح بہہ کر نکلتی ہے، جیسے مشکیزے سے پانی کا قطرہ بہتا ہے، پس وہ اس کو پکڑ لیتا ہے، جب وہ اس کو پکڑتا ہے تو دوسرے فرشتے آنکھ جھپکنے کے بقدر بھی اس کو اس کے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتے، وہ خود اس کو پکڑ لیتے ہیں اور اس کفن اور خوشبو میں رکھ دیتے ہیں، اس سے روئے زمین پر پائی جانے والی سب سے بہترین کستوری کے جھونکے کی طرح خوشبو آتی ہے، پس وہ فرشتے اس روح کو لے کر چڑھتے ہیں اور فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے گزرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: یہ پاکیزہ روح کون سی ہے؟ وہ کہتے ہیں: یہ فلاں بن فلاں ہے، وہ اس کو بہترین نام کے ساتھ یاد کرتے ہیں، جس کے ساتھ وہ دنیا میں اس کو موسوم کرتے تھے، یہاں تک کہ وہ اس کو آسمان دنیا تک لے جاتے ہیں اور دروازہ کھولنے کا مطالبہ کرتے ہیں، پس ان کے لیے دروزہ کھول دیا جاتا ہے، ہر آسمان کے مقرب فرشتے اس کو الوداع کرنے کے لیے اگلے آسمان تک اس کے ساتھ چلتے ہیں،یہاں تک کہ اس روح کو ساتویں آسمان تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میرے بندے کی کتاب کو علیین میں لکھ دو اور اس کو زمین کی طرف لوٹا دو، کیونکہ میں نے ان کو زمین سے پیدا کیا، اسی میں ان کو لوٹاؤں گا اور اسی سے دوبارہ ان کو نکالوں گا، پس اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دیجاتی ہے، اس کے پس دو فرشتے آتے ہیں اور اس کو بٹھا کر کہتے ہیں: تیرا ربّ کون ہے؟ وہ کہتا ہے: میرا ربّ اللہ ہے، وہ کہتے ہیں: تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے: میرا دین اسلام ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10268

۔ (۱۰۲۶۸)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((تَجْتَمِعُ مَلَائِکَۃُ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ فِیْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ وَصَلَاۃِ الْعَصْرِ، قَالَ: فَیَجْتَمِعُوْنَ فِیْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ، قَالَ: فَتَصْعَدُ مَلَائِکَۃُ اللَّیْلِ وَتَثْبُتُ مَلَائِکَۃُ النَّھَارِ، قَالَ: وَیَجْتَمِعُوْنَ فِیْ صَلَاۃِ الْعَصْرِ، قَالَ: فَیَصْعَدُ مَلَائِکَۃُ النَّھَارِ وَتَثْبُتُ مَلَائِکَۃُ اللَّیْلِ قَالَ: فَیَسْاَلُھُمْ رَبُّھُمْ کَیْفَ تَرَکْتُمْ عِبَادِیْ؟ قَالَ: فَیَقُوْلُوْنَ اَتَیْنَاھُمْ وَھُمْ یُصَلُّوْنَ، وَتَرَکْنَاھُمْ وَھُمْ یُصَلُّوْنَ۔)) قَالَ سُلَیْمَانُ (یَعْنِیْ الْاَعْمَشَ اَحَدَ الرُّوَاۃِ): وَلَا اَعْلَمُہُ اِلَّا قَدْ قَالَ فِیْہِ: ((فَاغْفِرْ لَھُمْ یَوْمَ الدِّیْنِ۔)) (مسند احمد: ۹۱۴۰)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رات اور دن کے فرشتے نمازِ فجر اور نمازِ عصر میں جمع ہوتے ہیں، جب وہ نماز ِ فجر میں جمع ہوتے ہیں تو رات کے فرشتے چڑھ جاتے ہیں اور دن کے فرشتے ٹھہر جاتے ہیں، پھر جب عصر کی نماز میںجمع ہوتے ہیں تو دن کے فرشتے چڑھ جاتے ہیں اور رات کے فرشتے ٹھہر جاتے ہیں، پس ان کا ربّ ان سے پوچھتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کیسے چھوڑا؟ وہ کہتے ہیں: جب ہم ان کے پاس گئے تھے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور اب جب ہم ان کو چھوڑ کر آئے تو پھر بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے، پس تو ان کو جزا کے دن بخش دینا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10269

۔ (۱۰۲۶۹)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا مِنْْکُمْ مِنْ اَحَدٍ، اِلَّا وَقَدْ وُکِّلَ بِہٖقَرِیْنُہُ مِنَ الْجِنِّ، وَقَرِیْنُہُ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ۔)) قَالُوْا: وَاِیَّاکَیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((وَاِیَّایَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ اَعَانَنِیْ عَلَیْہِ فَـلَا یَاْمُرْنِیْ اِلَّا بِحَقٍّ۔)) (مسند احمد: ۳۶۴۸)
۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی نہیں ہے، مگر اس کے ساتھ جنوں میں سے ایک ساتھی اور فرشتوں میں سے ایک ساتھی مقرر کیا گیا ہے۔ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اور آپ کے ساتھ بھی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے ساتھ بھی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے میری نصرت کی، پس وہ مجھے صرف حق کا ہی حکم دیتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10270

۔ (۱۰۲۷۰)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّہُ سَمِعَ نَبِیَّ اللّٰہِ یَقُوْلُ : ((اِنَّ آدَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ لَمَّا اَھْبَطَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی اِلَی الْاَرْضِ، قَالَتِ الْمَلَائِکَۃُ: اَیْ رَبِّ! {اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَائَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ اِنِّیْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ} قَالُوْا: رَبَّنَا نَحْنُ اَطْوَعُ لَکَ مِنْ بَنِیْ آدَمَ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی لِلْمَلَائِکَۃِ: ھَلُمُّوْا مَلَکَیْنِ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ، حَتَّییُھْبَطَ بِھِمَا اِلَی الْاَرْضِ، فَنَنْظُرُ کَیْفَیَعْمَلَانِ، قَالُوْا: رَبَّنَا ھَارُوْتُ وَمَارُوْتُ، فَاُھْبِطَا اِلَی الْاَرْضِ، وَمُثِّلَتْ لَھُمَا الزُّھَرَۃُ بِاِمْرَاَۃٍ مِنْ اَحْسَنِ الْبَشَرِ، فَجَائَ تْھُمَا، فَسَاَلَاھَا نَفْسَھَا، فَقَالَتْ: لَا وَاللّٰہِ، حَتّٰی تَکَلَّمَا بِھٰذِہِ الْکَلِمَۃِ مِنَ الْاِشْرَاکِ، فَقَالَا: وَاللّٰہِ! لَا نُشْرِکُ بِاللّٰہِ اَبَدًا، فَذَھَبَتْ عَنْھُمَا، ثُمَّ رَجَعَتْ بِصَبِیٍّ تَحْمِلُہُ، فَسَاَلَاھَا نَفْسَھَا، قَالَتْ: لَا، وَاللّٰہِ، حَتّٰی تَقْتُلَا ھٰذَا الصَّبِیَّ، فَقَالَا: وَاللّٰہِ! لَا نَقْتُلُہُ اَبَدًا، فَذَھَبَتْ، ثُمَّ رَجَعَتْ بِقَدَحِ خَمْرٍ تَحْمِلُہُ، فَسَاَلَاھَا نَفْسَھَا، قَالَتْ: لَا، وَاللّٰہِ! حَتّٰی تَشْرَبَا ھٰذَا الْخَمْرَ، فَشَرِبَا فَسَکِرَا، فَوَقَعَا عَلَیْھَا، وَقَتَلَا الصَّبِیَّ، فَلَمَّا اَفَاقَا قَالَتِ الْمَرْاَۃُ: وَاللّٰہِ! مَاتَرَکْتُمَا شَیْئًا مِمَّا اَبَیْتُمَا عَلَیَّ اِلَّا قَدْ فَعَلْتُمَا حِیْنَ سَکَرْتُمَا، فَخُیِّرَا بَیْنَ عَذَابِ الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃِ، فَاخْتَارَا عَذَابَ الدُّنْیَا۔)) (مسند احمد: ۶۱۷۸)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو زمین کی طرف اتارا تو فرشتوں نے کہا: کیا تو اس زمین میں اس کوآباد کرے گا جو اس میں فساد برپا کرے گا اور خون بہائے گا، جبکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تعریف کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے کہا: بیشک میں وہ کچھ جانتا ہوں، جو تم نہیں جانتے۔ فرشتوں نے کہا: اے ہمارے ربّ! ہم بنو آدمی کی بہ نسبت تیری زیادہ اطاعت کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا: تم دو فرشتے پیش کرو، تاکہ ان کو زمین پر اتار کر دیکھا جا سکے کہ وہ کیسے عمل کرتے ہیں، انھوں نے کہا: اے ہمارے ربّ! یہ ہاروت اور ماروت ہیں، پس ان دو فرشتوں کو زمین کی طرف اتارا گیا اور انسانیت میں سے ایک انتہائی خوبصورت عورت کی شبیہ ان کے سامنے پیش کی گئی، انھوںنے اس سے اس کے نفس کا مطالبہ کیا، لیکن اس نے کہا: نہیں،اللہ کی قسم! یہ کام اس وقت تک نہیں ہو سکتا، جب تک تم شرکیہ بات نہیں کرو گے، انھوں نے کہا: اللہ کی قسم ہے، ہم کبھی بھی شرک تو نہیں کریں گے، پس وہ چلی گئی اور ایک بچہ لے کر پھر آگئی، انھوں نے پھر اس سے بدکاری کا مطالبہ کیا، اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! جب تک تم اس بچے کو قتل نہیں کرو گے، انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم اس کو قتل تو نہیں کریں گے، پس وہ چلی گئی اور شراب کا ایک پیالہ لے کر دوبارہ آ گئی، ان فرشتوں نے پھر اس سے اس کے نفس کا سوال کیا، لیکن اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! جب تک تم یہ شراب نہیں پیو گے، پس انھوں نے وہ شراب پی لی، جب اس سے ان کو نشہ آیا تو انھوں نے اس خاتون سے زنا بھی کر لیا اور بچے کو بھی قتل کر دیا، پھر جب ان کو افاقہ ہوا، تو اس عورت نے کہا: اللہ کی قسم ہے، جس جس چیز کا تم نے انکار کیا تھا، نشے کی حالت میں تم نے ان کا ارتکاب کر لیا، پھر اس جرم کی سزا میں ان کو دنیا اور آخرت کے عذاب میں اختیار دیا گیا، پس انھوں نے دنیا کا عذاب پسند کر لیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10271

۔ (۱۰۲۷۱)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَوْ اَبِیْ سَعیْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ لِلّٰہِ مَلَائِکَۃً سَیَّاحِیْنَ فِیْ الْاَرْضِ فُضُلًا عَنْ کُتَّابِ النَّاسِ، فَاِذَا وَجَدُوْا قَوْمًا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ تَنَادَوْا: ھَلُمُّوْا اِلٰی بُغْیَتِکُمْ، فَیَجِیْئُوْنَ فَیَحُفُّوْنَ بِھِمْ اِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا، فَیَقُوْلُ اللّٰہُ: اَیَّ شَیْئٍ تَرَکْتُمْ عِبَادِیْیَصْنَعُوْنَ؟ فیَقُوْلُوْنَ: تَرَکْنَاھُمْ یَحْمَدُوْنَکَ وَیُمَجِّدُوْنَکَ وَ یَذْکُرُوْنَکَ، فَیَقُوْلُ: ھَلْ رَاَوْنِیْ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: لَا، فَیَقُوْلُ : فَکَیْفَ لَوْ رَاَوْنِیْ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: لَوْ رَاَوْکَ لَکَانُوْا اَشَدَّ تَحْمِیْدًا وَتَمْجِیْدًا وَ ذِکْرًا، فَیَقُوْلُ: فَاَیَّ شَیْئٍیَطْلُبُوْنَ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: یَطْلُبُوْنَ الْجَنَّۃَ، فَیَقُوْلُ: وَ ھَلْ رَاَوْھَا؟ فَیَقُوْلُوْنَ: لَا، فَیَقُوْلُ: فَکَیْفَ لَوْ رَاَوْھَا؟ فَیَقُوْلُوْنَ: لَوْ رَاَوْھَا کَانُوْا اَشَدَّ عَلَیْھَا حِرْصًا وَ اَشَدَّ لَھَا طَلَبًا، قَالَ: فَیَقُوْلُ: وَمِنْ اَیِّ شَیْئٍیَتَعَوَّذُوْنَ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: مِنَ النَّارِ، فَیَقُوْلُ: وَ ھَلْ رَاَوْھَا؟ فَیَقُوْلُوْنَ: لَا، قَالَ: فیَقُوْلُ: فَکَیْفَ لَوْ رَاَوْھَا؟ فَیَقُوْلُوْنَ: لَوْ رَاَوْھَا کَانُوْا اَشَدَّ مِنْھَا ھَرَبًا وَاَشَدَّ مِنْھَا خَوْفًا، قَالَ: فَیَقُوْلُ: اِنِّیْ اُشْھِدُکُمْ اَنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَھُمْ، قَالَ: فَیَقُوْلُوْنَ: فَاِنَّ فِیْھِمْ فُلَانًا الْخَطَّائَ لَمْ یُرِدْھُمْ، اِنّمَا جَائَ لِحَاجَۃٍ، فیَقُوْلُ: ھُمُ الْقَوْمُ لَا یَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ۔)) (مسند احمد: ۷۴۱۸)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک لوگوں کے اعمال لکھنے والے فرشتوں کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے زمین میں چلنے پھرنے والے فرشتے ہوتے ہیں، جب وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہوئے پاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں: آؤ اپنے مقصود کی طرف، پس وہ آ جاتے ہیں اور ان لوگوں کو آسمانِ دنیا تک گھیر لیتے ہیں، پھر جب وہ اللہ تعالیٰ کے پاس جاتے ہیں تو وہ ان سے پوچھتا ہے: تم میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑکر آئے؟ وہ کہتے ہیں: ہم ان کو اس حال میں چھوڑ کر آئے کہ وہ تیری تعریف کر رہے تھے، تیری بزرگی بیان کر رہے تھے اور تیرا ذکر کر رہے تھے، وہ کہتا ہے: کیا انھوں نے مجھے دیکھا ہے؟ وہ کہتے ہیں: جی نہیں، وہ کہتا ہے: اگر وہ مجھے دیکھ لیں تو کیسا ہو گا؟ وہ کہتے ہیں: اگر وہ تجھے دیکھ لیں تو کثرت سے تیری تعریف اور بزرگی بیان کریں گے اور زیادہ ذکر کریں گے، وہ کہتا ہے: اچھا یہ بتاؤ کہ وہ کس چیز کا سوال کرتے تھے؟ وہ کہتے ہیں: جی وہ جنت کا سوال کرتے تھے، وہ کہتا ہے: کیا انھوں نے جنت کو دیکھا ہے؟ وہ کہتے ہیں: جی نہیں دیکھا، وہ کہتا ہے: اگر وہ دیکھ لیں تو؟ وہ کہتے ہیں: اگر وہ دیکھ لیں تو ان کی حرص بڑھ جائے گی اور وہ اس کازیادہ مطالبہ کریں گے، وہ کہتا ہے: وہ کس چیز سے پناہ مانگتے تھے؟ وہ کہتے ہیں: جی آگ سے، وہ کہتا ہے: کیا انھوں نے آگ کو دیکھا ہے؟ وہ کہتے ہیں: جی نہیں، وہ کہتا ہے: اگر وہ اس کودیکھ لیں تو؟ وہ کہتے ہیں: اگر وہ آگ کودیکھ لیں تو وہ اس سے دور بھاگنے میں اور اس سے ڈرنے میںزیادہ ہو جائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ کہتا ہے: بیشک میں تم کوگواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو بخش دیا ہے، وہ کہتے ہیں: ان میں فلاں آدمی تو خطاکار تھا، اس کاارادہ ان کے ساتھ بیٹھنا نہیں تھا، وہ تو اپنے کسی کام کی غرض سے آیا تھا، وہ کہتا ہے: یہ (ایک جگہ پر بیٹھنے والے) وہ لوگ ہیں، ان کے ساتھ بیٹھنے والا بدبخت نہیں ہو سکتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10272

۔ (۱۰۲۷۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((خُلِقَتِ الْمَلَائِکَۃُ مِنْ نُوْرٍ، وَخُلِقَتِ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَّارٍ، وَ خُلِقَ آدَمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ مِمَّا وُصِفَ لَکُمْ۔)) (مسند احمد: ۲۵۷۰۹)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فرشتوں کو نور سے اور جنوں کو آگ کے دہکتے ہوئے شعلے سے پیدا کیا اور آدم علیہ السلام کو اس چیز سے پیدا کیا، جس کو تمہارے لیے واضح کیا جا چکا ہے (یعنی مٹی سے پیدا کیا گیا)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10273

۔ (۱۰۲۷۳)۔ عَنْ جَابِرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ اِبْلِیْسَیَضَعُ عَرْشَہُ عَلَی الْمَائِ، (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فِیْ الْبَحْرِ) ثُمَّ یَبْعَثُ سَرَایَاہُ، فَاَدْنَاھُمْ مِنْہُ مَنْزِلَۃً اَعْظَمُھُمْ فِتْنَۃً،یَجِيْئُ اَحَدُھُمْ فَیَقُوْلُ: فَعَلْتُ کَذَا وَکَذَا، فَیَقُوْلُ: مَا صَنَعْتَ شَیْئًا، قَالَ: وَیَجِيْئُ اَحَدُھُمْ فَیَقُوْلُ: مَا تَرَکْتُہُ حَتّٰی فَرَّقْتُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ اَھْلِہِ۔)) قَالَ: ((فَیُدْنِیْہِ مِنْہُ (اَوْ قَالَ: فَیَلْتَزِمُہُ) وَ یَقُوْلُ: نِعْمَ اَنْتَ۔)) قَالَ اَبُوْ مُعَاوِیَۃَ مَرَّۃً: فَیُدْنِیْہِ مِنْہُ۔ (مسند احمد: ۱۴۴۳۰)
۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک ابلیس اپنا تخت پانییا سمندر پر رکھتا ہے اور پھر اپنے لشکروں کو بھیجتا ہے، ان میں مرتبے کے اعتبار سے اس کا سب سے زیادہ قریبی وہ ہوتا ہے،جو سب سے بڑا فتنہ برپا کرتا ہے، ایک آ کر کہتا ہے: میں نے یہیہ کاروائی کی ہے، لیکن ابلیس کہتا ہے: تو نے تو کچھ نہیں کیا، ایک آکر کہتا ہے: میں نے اس کو اس وقت تک نہیں چھوڑا، جب تک اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہیں ڈال دی، پس ابلیس اس کو اپنے قریب کرتا ہے اور اس کو گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے: کیا خوب ہے تو (تو نے تو کمال کر دیا ہے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10274

۔ (۱۰۲۷۴)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لِابْنِ صَائِدٍ: ((مَا تَرٰی؟)) قَالَ: اَرٰی عَرْشًا عَلَی الْبَحْرِ حَوْلَہُ الْحَیَّاتُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَرٰی عَرْشَ اِبْلِیْسَ۔)) (مسند احمد: ۱۱۹۴۸)
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابن صائد سے فرمایا: تو کیا کچھ دیکھتا ہے؟اس نے کہا: میں سمندر پر ایک تخت دیکھتا ہوں، اس کے ارد گرد سانپ ہوتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تو ابلیس کا تخت دیکھتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10275

۔ (۱۰۲۷۵)۔ عَنْ سَبْرَۃَ بْنِ اَبِیْ فَاکِہٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِنَّ الشَّیْطَانَ قَعَدَ لِاِبْنِ آدَمَ بَاَطْرُقِہِ، فَقَعَدَ لَہُ بِطَرِیْقِ الْاِسْلَامِ، فَقَالَ لَہُ: اَتُسْلِمُ وَ تَذَرُ دِیْنَکَ وَ دِیْنَ اَبَائِکَ وَآبَائِ اَبِیْکَ؟ قَالَ: فَعَصَاہُ فَاَسْلَمَ، ثُمَّ قَعَدَ لَہُ بِطَرِیْقِ الْھِجْرَۃِ، فَقَالَ: اَتُھَاجِرُ وَ تَذَرُ اَرْضَکَ وَسَمَائَکَ؟ وَاِنّمَا مَثَلُ الْمُھَاجِرِ کَمَثَلِ الْفَرَسِ فِیْ الطِّوَلِ، قَالَ: فَعَصَاہُ فَھَاجَرَ، قَالَ: ثُمَّ قَعَدَ لَہُ بِطَرِیْقِ الْجِھَادِ، فَقَالَ لَہُ: ھُوَ جَھْدُ النَّفْسِ وَالْمَالِ، فَتُقَاتِلُ فَتُقْتَلُ، فَتُنْکَحُ الْمَرْاَۃُ وَ یُقَسَّمُ الْمَالُ، قَالَ: فَعَصَاہُ فَجَاھَدَ۔)) فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَمَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ مِنْھُمْ فَمَاتَ کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ اَنْ یُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ، اَوْ قُتِلَ کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ اَنْ یُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ، وَ اِنْ غَرِقَ کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ اَنْ یُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ اَوْ وَقَصَتْہُ دَابَّتُہُ کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ اَنْ یُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ۔)) (مسند احمد: ۱۶۰۵۴)
۔ سیدنا سبرہ بن ابی فاکہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک شیطان ابن آدم کے راستوں پر بیٹھ جاتا ہے، پس وہ اسلام کے راستے پر بیٹھتا ہے اور اس کو کہتا ہے: کیا تو مسلمان ہو جائے گا اور اپنا اور اپنے آباء و اجداد کا دین چھوڑ دے گا؟ لیکن وہ اس کی نافرمانی کرکے اسلام قبول کرلیتا ہے، پھر وہ ہجرت کی راہ پر بیٹھ جاتا ہے اور اس کو کہتا ہے: کیا تو ہجرت کر جائے گا اور اپنے آسمان و زمینیعنی اپنے علاقے کو چھوڑ دے گا؟ اور مہاجر کی مثال تو رسی کے ساتھ بندھے ہوئے گھوڑے کی سی ہے، لیکن وہ اس کی نافرمانی کرکے ہجرت کر جاتا ہے، پھر وہ اس کے لیے جہاد کے راستے میں بیٹھ کر اس سے کہتا ہے: اس راہ میںنفس کی مشقت بھی ہے اور مال بھی خرچ ہو جاتا ہے، کیا تو اب قتال کر نے لگا ہے، تجھے تو قتل کر دیا جائے گا اور تیری بیوی سے نکاح کر لیا جائے گا اور تیرے مال کو تقسیم کر دیا جائے گا؟ لیکن وہ اس کی رائے کو ٹھکرا کر جہاد کرتا ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ اس عمل کے لیے نکل پڑا اور پھر وہ فوت ہو گیا تو اللہ تعالیٰ پر حق ہو گا کہ وہ اس کو جنت میں داخل کرے، یا وہ شہید ہو گیا تو پھر بھی اللہ تعالیٰ پر حق ہو گا کہ وہ اس کو جنت میں داخل کرے، یا وہ پانی میں ڈوب ہو گیا تو پھر اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ اس کو جنت میں داخل کرے، یا جانور نے اس کی گردن توڑ دی تو پھر بھی اللہ تعالیٰ پر حق ہو گا کہ وہ اس کو جنت میں داخل کرے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10276

۔ (۱۰۲۷۶)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ الشَّیْطَانَ قَدْ اَیَسَ اَنْ یُعْبَدَ بِاَرْضِکُمْ ھٰذِہِ، وَ لٰکِنَّہُ قَدْ رَضِیَ مِنْکُمْ بِمَا تَحْقِرُوْنَ۔)) (مسند احمد: ۸۷۹۶)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شیطان اس بات سے ناامید ہو چکا ہے کہ تمھاری (جزیزۂ عرب کی) سرزمین میں اس کی عبادت کی جائے، لیکن وہ تم سے ایسے (گناہ کروا کے) راضی ہو جائے گا، جنھیں تم حقیر سمجھتے ہو ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10277

۔ (۱۰۲۷۷)۔ عَنْ جَابِرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، و قَالَ ابْنُ نُمَیْرٍ فِیْ حَدِیْثِہِ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ الشَّیْطَانَ قَدْ اَیِسَ اَنْ یَعْبُدَہُ الْمُصَلُّوْنَ، وَلٰکِنْ فِیْ التَّحْرِیْشِ بَیْنَھُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۴۴۱۹)
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک شیطان اس بات سے نا امید ہو چکا ہے کہ جزیرۂ عرب میں نمازی(یعنی مسلمان) اس کی عبادت کریں، لیکن وہ انھیں (لڑائی، جھگڑے اور جنگ و جدل کے) فساد پر آمادہ کرتا رہے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10278

۔ (۱۰۲۷۸)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا تُرْسِلُوْا فَوَاشِیَکُمْ وَ صِبْیَانَکُمْ اِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ، حَتّٰی تَذْھَبَ فَحْمَۃُ الْعِشَائِ، فَاِنَّ الشَّیْطَانَیُُبْعَثُ اِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ، حَتّٰی تَذْھَبَ فَحْمَۃُ الْعِشَائِ۔)) (مسند احمد: ۱۴۳۹۴)
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب سورج غروب ہو جائے تو اپنے مویشیوں اور بچوں کو باہر نہ بھیجا کرو، یہاں تک کہ رات کاابتدائی اندھیرا ختم ہو جائے، کیونکہ غروب آفتاب کے بعد شیطانوں کو بھیجا جاتا ہے، یہاں تک کہ رات کا ابتدائی اندھیرا ختم ہو جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10279

۔ (۱۰۲۷۹)۔ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ عَائِشَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَدَّثَتْ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَرَجَ مِنْ عِنْدِھَا لَیْلًا، قَالَتْ: فَغِرْتُ عَلَیْہِ، قَالَتْ: فَجَائَ فَرَاٰی مَا اَصْنَعُ، فَقَالَ: ((مَا لَکِ یَا عَائِشَۃُ! اَغِرْتِ؟)) قَالَتْ: وَ مَالِیْ اَنْ لَا یَغَارَ مِثْلِیْ عَلٰی مِثْلِکَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَفَاَخَذَکِ شَیْطَانُکِ؟)) قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَوَ مَعِیَ شَیْطَانٌ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قُلْتُ: وَ مَعَ کُلِّ اِنْسَانٍ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قُلْتُ: وَمَعَکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((نَعَمْ وَلٰکِنَّ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ اَعَانَنِیْ عَلَیْہِ حَتّٰی اَسْلَمَ۔)) (مسند احمد: ۲۵۳۵۷)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک رات کو اس کے پاس سے نکل گئے، مجھے بڑی غیرت آئی (کہ باری میری ہے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی کسی بیوی کے پاس چلے گئے ہیں)، اتنے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس تشریف لے آئے اور اس کودیکھا، جو کچھ میں نے کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عائشہ!تجھے کیا ہو گیا ہے؟ کیا غیرت آ گئی ہے؟ میں نے کہا: بھلا مجھ جیسی خاتون آپ جیسی شخصیت پر غیرت کیوں نہ کرے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تیرا شیطان تجھ پر مسلط ہو گیا ہے؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میرے ساتھ بھی شیطان ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ میں نے کہا: کیا ہر انسان کے ساتھ شیطان ہوتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول!کیا آپ کے ساتھ بھی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی بالکل، لیکن اللہ تعالیٰ نے میری معاونت کی،یہاں تک کہ وہ مطیع ہو گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10280

۔ (۱۰۲۸۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَیْسَ مِنْکُمْ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا وَقَدْ وُکِّلَ بِہٖقَرِیْنُہُ مِنَ الشَّیْطَانِ۔)) قَالُوْا: وَاَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((نَعَمْ، وَلٰکِنَّ اللّٰہَ اَعَانَنِیْ عَلَیْہِ فَاَسْلَمَ۔)) (مسند احمد: ۲۳۲۳)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر آدمی کے ساتھ شیطان سے اس کاساتھی مقرر کیا گیا ہے۔لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اور آپ کے ساتھ بھی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، لیکن اللہ تعالیٰ نے میری مدد کی ہے اور وہ مطیعہو گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10281

۔ (۱۰۲۸۱)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِثْلُہُ، وَ فِیْہِ : ((وَلٰکِنَّ اللّٰہَ اَعَانَنِیْ عَلَیْہِ فَـلَا یَاْمُرُنِیْ اِلَّا بِحَقٍّ۔)) (مسند احمد: ۳۶۴۸)
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا، پھر اسی طرح کی روایت بیان کی، البتہ اس میں ہے: اور لیکن اللہ تعالیٰ نے میری مدد کی، پس وہ مجھے صرف حق کا حکم دیتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10282

۔ (۱۰۲۸۲)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا تَلِجُوْا عَلَی الْمُغِیْبَاتِ، فَاِنَّ الشَّیْطَانَیَجْرِیْ مِنْ اَحَدِکُمْ مَجْرَی الدَّمِّ۔)) قُلْنَا: وَمِنْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((وَمِنِّیْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ اَعَانَنِیْ عَلَیْہِ فَاَسْلَمَ۔)) (مسند احمد: ۱۴۳۷۵)
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ان عورتوں کے پاس نہ جایا کرو، جن کے خاوند موجود نہ ہوں، کیونکہ شیطان تم میں خون کی طرح گردش کرتا ہے۔ ہم لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ شیطان آپ میں بھی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھ میں بھی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اس کے خلاف میری مدد کی ہے، پس وہ مطیع ہو گیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10283

۔ (۱۰۲۸۳)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَرَّ عَلَیَّ الشَّیْطَانُ، فَاَخَذْتُہُ فَخَنَقْتُہُ، حَتّٰی لَاَجِدُ بَرْدَ لِسَانِہِ فِیْیَدَیَّ، فَقَالَ: اَوْجَعْتَنِیْ، اَوْجَعْتَنِیْ۔)) (مسند احمد: ۳۹۲۶)
۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شیطان میرے پاس سے گزرا، میں نے اس کو پکڑ لیا اور اس کا گلا دبایا،یہاں تک کہ مجھے اپنے ہاتھ پر اس کی زبان کی ٹھنڈک محسوس ہوئی، اس نے مجھے کہا: آپ نے مجھے تکلیف دی ہے، آپ نے مجھے تکلیف دی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10284

۔ (۱۰۲۸۴)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فِیْ حَدِیْثِ الْاِسْرَائِ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((فَلَمَّا نَزَلَتُ اِلٰی السَّمَائِ الدُّنْیَا، نَظَرْتُ اَسْفَلَ مِنِّی فَاِذَا بِرَھْجٍ وَدُخَانٍ وَاَصْوَاتٍ، فَقُلْتُ: مَا ھٰذَا یَا جِبْرِیْلُ؟ قَالَ: ھٰذِہِ الشَّیَاطِیْنُیَحُوْمُـوْنَ عَلَی اَعْیُنِ بَنِیْ آدَمَ اَنْ لَا یَتَفَکَّرُوْا فِیْ مَلَکُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، وَلَوْلَا ذٰلِکَ لَرَاَوُا الْعَجَائِبَ۔)) (مسند احمد: ۸۶۲۵)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اسراء والی حدیث بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب میں آسمان دنیا کی طرف اترا تو دیکھا کہ میری نچلی طرف غبار، دھواں اور آوازیں تھیں، میں نے کہا: اے جبریل! یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: یہ شیطان ہیں، جو بنو آدم کی آنکھوں کے سامنے منڈلا رہے ہیں، تاکہ وہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہیوں میں غور و فکر نہ کر سکیں، اگر یہ نہ ہوتے تو وہ عجیب عجیب چیزیں دیکھتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10285

۔ (۱۰۲۸۵)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ عِفْرِیْتًا مِنَ الْجِنِّ تَفَلَّتَ عَلَیَّ الْبَارِحَۃَ لِیَقْطَعَ عَلَیَّ الصَّلَاۃَ، فَاَمْکَنَنِیَ اللّٰہُ مِنْہُ فَدَعَتُّہُ، وَاَرَدْتُ اَنْ اَرْبِطَہُ اِلٰی جَنْبِ سَارِیَۃٍ مِنْ سَوَارِی الْمَسْجِدِ، حَتّٰی تُصْبِحُوْا فَتَنْظُرُوْا اِلَیْہِ کُلُّکُمْ اَجْمَعُوْنَ، قَالَ: فَذَکَرْتُ دَعْوَۃَ اَخِیْ سُلَیْمَانَ: {رَبِّ ھَبْ لِیْ مُلْکًا لَا یَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ مِنْ بَعْدِیْ}۔)) قَالَ: فَرَدَّہُ خَاسِئًا۔ (مسند احمد: ۷۹۵۶)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک ایک سرکش جن گزشتہ رات میری نماز کو کاٹنے کے لیے اچانک میرے سامنے آیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے قدرت عطا کی اور میں نے اس کودھکا دیا اور میں نے ارادہ کیا کہ اس کو مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دوں، تاکہ جب صبح ہو تو تم سارے افراد اس کو دیکھ سکو، لیکن پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کییہ دعا یاد آگئی: اے میرے رب! مجھے ایسی بادشاہت عطا کر کہ میرے بعد وہ کسی کے لیے لائق نہ ہو۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کولوٹا دیا، اس حال میں کہ وہ ناکام تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10286

۔ (۱۰۲۸۶)۔ حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ، اَنَا دَاوٗدُوَابْنُاَبِیْ زَائِدَۃَ الْمَعْنِیَ قَالَا، ثَنَا دَاوٗدُعَنِالشَّعْبِیِّ، عَنْ عَلْقَمَۃَ قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ مَسْعُوْدٍ : ھَلْ صَحِبَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیْلَۃَ الْجِنِّ مِنْکُمْ اَحَدٌ؟ فَقَالَ: مَاصَحِبَہُ مِنَّا اَحَدٌ، وَلٰکِنْ قَدْ فَقَدْنَاہُ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فَقُلْنَا: اغْتِیْلَ؟ اسْتُطِیْرَ؟ مَافَعَلَ؟ قَالَ: فَبِتْنَا بِشَرِّ لَیْلَۃٍ بَاتَ بِھَا قَوْمٌ، فَلَمَّا کَانَ فِیْ وَجْہِ الْصُبْحِ اَوْ قَالَ: فِیْ السَّحْرِ اِذَا نَحْنُ بِہٖیَجِیْئَ مِنْ قَبْلِ حِرَائَ، فَقُلْنَا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَذَکَرُوْا الَّذِیْ کَانُوْا فِیْہِ، فَقَالَ: اِنَّہُ اَتَانِیْ دَاعِی الْجِنِّ فَاَتَیْتُھُمْ فَقَرَاْتُ عَلَیْھِمْ۔)) قَالَ: فَانْطَلَقَ بِنَا فَاَرَانِیْ آثَارَھُمْ وَآثَارَ نِیْرَانِھِمِ۔ قَالَ: وَقَالَ الشَّعْبِیُّ: سَاَلُوْہُ الزَّادَ (قَالَ ابْنُ اَبِیْ زَائِدَۃَ: قَالَ عَامِرٌ: فَسَاَلُوْہُ لَیْلَتَـئِذٍ الزَّادَ) وَکَانُوْا مِنْ جِنِّ الْجَزِیْرَۃِ) فَقَالَ: ((کُلُّ عَظْمٍ ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِیَقَعُ فِیْ اَیْدِیْکُمْ اَوْفَرَ مَا کَانَ عَلَیْہِ لَحْمًا، وَکُلُّ بَعْرَۃٍ اَوْ رَوْثَۃٍ عَلَفٌ لِدَوَابِّکُمْ، فَـلَا تَسْتَنْجُوْا بِھِمَا فَاِنَّھُمَا زَادُ اِخْوَانِکُمْ مِنََ الْجِنِّ۔)) (مسند احمد: ۴۱۴۹)
۔ علقمہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: کیا جنّوں والی رات کو تم میں سے کوئی آدمی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا؟ انھوں نے کہا: ہم میں سے کوئی بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نہیں تھا، ہوا یوں کہ ہم نے ایک رات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گم پایا، ہم نے کہا: کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مخفی انداز میں قتل کر دیا گیا ہے؟ کیاآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کہیں لے جایا گیا ہے؟ آخر ہوا کیا ہے؟ ہم نے انتہائی بدترین رات گزاری، جب صبح سے پہلے کا یا سحری کا وقت تھا تو ہم نے اچانک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو غارِ حراء کی طرف سے آتے ہوئے دیکھا، ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! پھر ہم نے ساری بات بتلائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنّوں کا داعی میرے پاس آیا، اس لیے میں ان کے پاس چلا گیا اور ان پرقرآن مجید کی تلاوت کی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں لے کر گئے اور ان کے اور ان کی آگ کے نشانات دکھائے۔ وہ جزیرۂ عرب کے جنّوں میں سے تھے اور انھوں نے اس رات کو اپنے زاد کے بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر خوب گوشت دار ہڈی، جس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو، تمہارے ہاتھ لگے (وہ تمہارا زاد ہے) اور ہر مینگنی اور لید تمہارے چوپائیوں کا چارہ ہے، پس تم لوگ ان دو چیزوں سے استنجا نہ کیا کرو، کیونکہیہ چیزیں تمہارے جن بھائیوں کا زاد ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10287

۔ (۱۰۲۸۷)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیْلَۃَ وَفْدِ الْجِنِّ فَلَمَّا انْصَرَفَ تَنَفَّسَ، فَقُلْتُ: مَاشَاْنُکَ؟ فَقَالَ: ((نُعِیَتْ اِلَیَّ نَفْسِیْیَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ!۔)) (مسند احمد: ۴۲۹۴)
۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں: میں جنوں کے وفد والی رات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ چل رہا تھا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس پلٹے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لمبا سانس لیا، میں نے کہا: آپ کوکیا ہو گیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابن مسعود! میرے نفس کو موت کی اطلاع دی جا رہی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10288

۔ (۱۰۲۸۸)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیْلَۃَ الْجِنِّ خَطَّ حَوْلَہُ (اَیْ حَوْلَ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ) فَکَانَ یَجِيْئُ اَحَدُھُمْ مِثْلُ سَوَادِ النَّخْلِ، وَقَالَ لِیْ: ((لَا تَبْرَحْ مَکَانَکَ۔)) فَاَقْرَاَھُمْ کتَابَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔ فَلَمَّا رَاَی الزُّطَّ قَالَ: کَاَنَّھُمْ ھٰؤُلَائِ، وَ قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اَمَعَکَ مَائٌ؟)) قُلْتُ: لَا، قَالَ: ((اَمَعَکَ نَبِیْذٌ؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، فَتَوَضَّاَ بِہٖ۔ (مسنداحمد: ۴۳۵۳)
۔ سیدنا عبدا للہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جنوں والی رات اس کے ارد گرد خط لگایا، جن کھجور کے سائے کی طرح اس کے پاس آتے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے سے فرمایا: تم نے اپنی جگہ پر رہنا ہے۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو اللہ تعالیٰ کی کتاب پڑھائی، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زُط نسل دیکھی تو فرمایا: گویا کہ یہ وہی ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے پوچھا: تمہارے پاس پانی ہے؟ میں نے کہا: جی نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس نبیذ ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نبیذ سے وضو کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10289

۔ (۱۰۲۸۹)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((بِتُّ اللَّیْلَۃَ اَقْرَاُ عَلَی الْجِنِّ رُفَقَائَ بِالْحَجُوْنِ۔)) (مسند احمد: ۳۹۵۴)
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے اس طرح رات گزاری کہ حجون میں جنوں کی جماعت پر قرآن مجید کی تلاوت کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10290

۔ (۱۰۲۹۰)۔ حَدَّثَنَا عَارِمٌ، وَعَفَّانُ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ قَالَ: قَالَ اَبِیْ: حَدَّثَنِیْ اَبُوْتَمِیْمَۃَ عَنْ عَمْروٍ لَعَلَّہُ اَنْ یَکُوْنَ قَدْ قَالَ: اَلْبِکَالِیُّیُحَدِّثُہُ عَمْرٌو عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ عَمْروٌ: اِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ قَالَ: اِسْتَبْعَثَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَانْطَلَقْنَا حَتّٰی اَتَیْتُ مَکَانَ کَذَا وَکَذَا فَخَطَّ لِیْ خِطَّۃً فَقَالَ لِیْ: کُنْ بَیْنْ ظَھْرَیْ ھٰذِہِ لَا تَخْرُجْ مِنْھَا فَاِنَّکَ اِنْ خَرَجْتَ ھَلَکْتَ، قَالَ: فَکُنْتُ فِیْھَا قَالَ: فَمَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَذَفَۃً اَوْ اَبْعَدَ شَیْئًا اَوْ کَمَا قَالَ: ثُمَّ اِنَّہُ ذَکَرَ ھَنِیْنًا کَاَنَّھُمُ الزُّطُّ قَالَ عَفَّانُ (اَوْ کَمَا قَالَ عَفَّانُ): اِنْ شَائَ اللّٰہُ لَیْسَ عَلَیْھِمْ ثِیَابٌ وَلَا اَرٰی سَوْآتِھِمْ طِوَالًا قَلِیْلٌ لَحْمُھُمْ، قَالَ: فَاَتَوْا فَجَعَلُوْا یَرْکَبُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: وَجَعَلَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقْرَاُ عَلَیْھِمْ، قَالَ: وَجَعَلُوْا یَاْتُوْنِیْ فَیُخَیِّلُوْنَ حَوْلِیْ وَ یَعْتَرِضُوْنَ لِیْ، قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: فَاُرْعِبْتُ مِنْھُمْ رُعْبًا شَدِیْدًا، قَالَ: فَجَلَسْتُ (اَوْ کَمَا قَالَ) قَالَ: فَلَمَّا اِنْشَقَّ عُمُوْدُ الصُّبْحِ جَعَلُوْا یَذْھَبُوْنَ (اَوْ کَمَا قال) قَالَ: ثُمَّ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَائَ ثَقِیْلًا وَجِعًا اَوْ یَکَادُ اَنْ یَکُوْنَ وَجِعًا مِمَّا رَکِبُوْہُ، قَالَ: ((اِنِّیْ لَاَجِدُنِیْ ثَقِیْلًا)) اَوْ کَمَا قال، فَوَضَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَاْسَہَ فِیْ حِجْرِیْ (اَوْ کَمَا قال) ثُمَّ اِنَّ ھُنَیْئًا اَتَوْا، عَلَیْھِمْ ثِیَابٌ بِیْضٌ طِوَالٌ (اَوْ کَمَا قَالَ) وَقَدْ اَغْفٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: فَاُرْعِبْتُ اَشَدَّ مِمَّا اُرْعِبْتُ الْمَرَّۃَ الْاُوْلٰی قَالَ عَارِمٌ فِیْ حَدِیْثِہِ: فَقَالَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ: لَقَدْ اُعْطِیَ ھٰذَا الْعَبْدُ خَیْرًا، اَوْ کَمَا قَالُوْا، اِنَّ عَیْنَیْہِ نَائِمَتَانِ اَوْ قَالَ: عَیْنُہُ اَوْ کَمَا قَالُوْا، وَقَلْبُہُ یَقْظَانُ، ثُمَّ قَالَ: قَالَ عَارِمٌ وَعَفَّانٌ: قَالَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ: ھَلُمَّ فَلْنَضْرِبْ بِہٖ مَثَلًا اَوْ کَمَا قَالُوْا، قَالَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ: اِضْرِبُوْا لَہُ مَثَلًا وَنُؤَوِّلُ نَحْنُ اَوْ نَضْرِبُ نَحْنُ وَتُؤَوِّلُوْنَ اَنْتُمْ، فَقَالَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ: مَثَلُہُ کَمَثَلِ سَیِّدٍ ابْتَنٰی بُنْیَانًا حَصِیْنًا ثُمَّ اَرْسَلَ اِلَی النَّاسِ بِطَعَامٍ اَوْ کَمَا قَالَ، فَمَنْ لَمْ یَاْتِ طَعَامَہُ اَوْ قَالَ: لَمْ یَتْبَعْہُ عَذَّبَہُ عَذَابًا شَدِیْدًا اَوْ کَمَا قَالُوْا، قَالَ الْآخَرُوْنَ: اَمَّا السَّیِّدُ فَھُوَ رَبُّ الْعَالَمِیْنْ، وَاَمَّا الْبُنْیَانُ فَھُوَ الْاِسْلَامُ، وَالطَّعَامُ الْجَنَّۃُ، وَھُوَ الدَّاعِیْ فَمَنِ اتَّبَعَہُ کَانَ فِی الْجَنَّۃِ، قَالَ عَارِمٌ فِیْ حَدِیْثِہِ: اَوْ کَمَا قَالُوْا، وَمَنْ لَمْ یَتَّبِعْہُ عُذِّبَ اَوْ کَمَا قَالَ، ثُمَّ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسْتَیْقَظَ فَقَالَ: مَا رَاَیْتَیَا ابْنَ اُمِّ عَبْدٍ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: رَاَیْتُ کَذَا وَکَذَا، فقَالَ النَّبیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : مَا خَفِیَ عَلَیَّ مِمَّا قَالُوْا شَیْئٌ، قَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ھُمْ نَفَرٌ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ)) اَوْ قَالَ: ((ھُمْ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ اَوْ کَمَا شَائَ اللّٰہُ ۔)) (مسند احمد: ۳۷۸۸)
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے بھی ساتھ چلنے کاتقاضا کیا، پس ہم چل پڑے، جب میں فلاں مقام پر پہنچا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے لیے لکیر لگائی اور مجھے فرمایا: تو اس کے درمیان بیٹھ جا، تو نے اس سے باہر نہیں نکلنا، وگرنہ ہلاک ہو جائے گا۔پس میں اسی میں بیٹھا رہا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک کنکری کی پھینک پر یا اس سے کچھ زیادہ آگے چلے گئے، پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان جنوں کا ذکر کیا تو ایسے لگ رہا تھا کہ وہ زُط ہیں، ایک راوی کہتا ہے: اگر اللہ نے چاہا تو (ان کے بارے میں میرایہ بیان درست ہو گا کہ) ان پر کپڑے نہیں تھے، لیکن ان کی شرمگاہیں بھی نظر نہ آئیں، وہ دراز قد اور کم گوشت تھے، پس وہ آپ پر سوار ہونا شروع ہوگئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان پر قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہے، وہ جن میرے پاس بھی آتے، دل میںمختلف خیال ڈالتے اور میرے سامنے پیش آتے، میں ان سے بڑا خوفزدہ ہو گیا، پس میں بیٹھ گیا، جب صبح کی روشنی پھوٹنے لگی تو وہ چلے جانے لگے، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے، آپ بہت تھکے ہوئے اور تکلیف میں تھے، یایوں کہیے کہ قریب تھا کہ آپ کوتکلیف شروع ہو جاتی،یہ سارا کچھ ان کے سوار ہونے کی وجہ سے تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اپنے آپ کو تھکا ہوا پاتا ہوں۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا سر مبارک میری گودی میں رکھا، پھر کچھ افراد آ گئے، انھوں نے سفید کپڑے زیب ِ تن کیے ہوئے تھے اور دراز قد تھے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سو گئے تھے، میں پہلے کی بہ نسبت زیادہ گھبرا گیا تھا، ان میں سے بعض نے بعض سے کہا: اس بندے یعنیآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو خیر عطا کی گئی ہے، اس کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل بیدار رہتا ہے، آؤ اس کی ایک مثال بیان کرتے ہیں اور پھر اس کی تاویل کرتے ہیں،یا ان میں سے بعض نے کہا: ہم مثال بیان کرتے ہیں اور تم اس کی تاویل کرو گے، پھر بعض نے بعض سے کہا: اس کی مثال اس سردار کی مثال کی طرح ہے،جس نے قلعہ تعمیر کیا اور پھر لوگوں کو کھانے کے لیے بلا بھیجا، جو کھانے کے لیے نہ آیا،یا اس کی بات نہ مانی، اس نے اس کو سخت سزا دی، دوسروں نے تاویل کرتے ہوئے کہا: سردار سے مراد ربّ العالمین، قلعہ سے مراد اسلام اور کھانے سے مراد جنت ہے اور داعی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خود ہیں، جس نے آپ کی پیروی کی، وہ جنت میں ہو گا اور جس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اطاعت نہ کی،اس کو عذاب دیا جائے گا۔ اتنے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیدار ہو گئے اور پوچھا: اے ابن ام عبد تو نے کیا کچھ دیکھا ہے؟ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے یہ کچھ دیکھا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو کچھ انھوں نے کہا، اس میں سے کوئی چیز مجھ پر مخفی نہیں ہے، یہ فرشتوں کا ایک گروہ تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10291

۔ (۱۰۲۹۱)۔ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ الْمُعَطَّلِ، قَالَ: خَرَجْنَا حُجَّاجًا فلَمَّا کُنَّا بِالْعَرْجِ اِذَا نَحْنُ بِحَیَّۃٍ تَضْطَرِبُ فَلَمْ تَلْبَثْ اَنْ مَاتَتْ، فَاَخْرَجَ لَھَا رَجُلٌ خَرِقَۃً مِنْ عَیْبَتِہِ فَلَفَّھَا فِیْھَا وَدَفَنَھَا وَخَدَّ لَھَا فِیْ الْاَرْضِ، فَلَمَّا اَتَیْنَا مَکَّۃَ فَاِنَّا لَبِالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِذَا وَقَفَ عَلَیْنَا شَخْصٌ فَقَالَ: اَیُّکُمْ صَاحِبُ عَمْروِ بْنِ جَابِرٍ؟ قُلْنَا: مَانَعْرِفُہُ، قَالَ: اَیُّکُمْ صَاحِبُ الْجَانِّ؟ قَالُوْا: ھٰذَا، قَالَ: اِمَّا اَنَّہُ جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا، اِمَّا اَنَّہُ قَدْ کَانَ مِنْ آخِرِ التِّسْعَۃِ مَوْتًا الّذِیْنَ اَتَوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْآنَ۔ (مسند احمد: ۲۳۰۳۹)
۔ صفوان بن معطل سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم ادائیگی ٔ حج کے لیے روانہ ہوئے، جب ہم عرج مقام پر تھے تو ہم نے دیکھا کہ ایک سانپ کپکپا رہا تھا اور پھر جلد ہی وہ مر گیا، ایک آدمی نے اپنے تھیلے سے ایک چیتھڑا نکالا، سانپ کواس میں لپیٹا اور زمین میں گڑا کھود کر اس کو دفن کر دیا، جب ہم مکہ مکرمہ پہنچے اور مسجد حرام میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی ہمارے پاس کھڑا ہوا اور اس نے کہا: تم میں عمرو بن جابر کا ساتھی کون ہے؟ ہم نے کہا: جی ہم تو اس کو نہیں جانتے، اس نے کہا: تم میں جنّوں والا کون ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ ہے، اس نے کہا: اللہ تعالیٰ تجھے جزائے خیر دے، یہ جن ان نو جنوں میں سب سے آخر میں مرا ہے، جو قرآن مجید سننے کے لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10292

۔ (۱۰۲۹۲)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْروٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ : ((اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ خَلْقَہُ، ثُمَّ جَعَلَھُمْ فِیْ ظُلْمَۃٍ ثُمَّ اَخَذَ مِنْ نُوْرِہِ مَاشَائَ، فَاَلْقَاہُ عَلَیْھِمْ فَاَصَابَ النُّوْرُ مَنْ شَائَ اَنْ یُصِیْبَہُ وَاَخْطَاَ مَنْ شَائَ، فَمَنْ اَصَابَہُ النُّوْرُ یَوْمَئِذٍ فَقَدِ اھْتَدٰی، وَ مَنْ اَخْطَاَ یَوْمَئِذٍ ضَلَّ، فَلِذٰلِکَ قُلْتُ: جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا ھُوَ کَائِنٌ۔)) (مسند احمد: ۶۸۵۴)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو پیدا کیا، پھر ان کو اندھیرے میں رکھا اور اپنی مشیت کے مطابق اپنے نور میں سے کچھ حصہ لیا اور اس کو ان پر ڈال دیا، اللہ تعالیٰ کی چاہت کے مطابق وہ نور بعض افراد تک پہنچ گیا اور بعض تک نہ پہنچا، جس شخص کو اس دن وہ نور پہنچ گیا، وہ ہدایت پا گیا اور جو اس سے رہ گیا، وہ گمراہ ہوگیا۔ اسی لیے میں عبداللہ کہتا ہوں: جو کچھ ہونے والا ہے، اس پر قلم خشک ہوچکا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10293

۔ (۱۰۲۹۳)۔ عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَۃٍ قَبَضَھَا مِنْ جَمِیْعِ الْاَرْضِ، فَجَائَ بَنُوْ آدَمَ عَلٰی قَدْرِ الْاَرْضِ جَائَ مِنْھُمُ الْاَبْیَضُ، وَالْاَحْمَرُ، وَالْاَسْوَدُ، وَبَیْنَ ذٰلِکَ وَالْخَبِیْثُ، وَالطَّیِّبُ، وَالسَّھْلُ، وَ الْحَزْنُ، وَ بَیْنَ ذٰلِکَ۔)) (مسند احمد: ۱۹۸۱۱)
۔ سیدناابوموسی اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے ساری زمین سے ایک مٹھی بھری اور اس سے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا،یہی وجہ ہے کہ اولادِ آدم زمین کی مٹی کی نوعیت کے مطابق پیدا ہوئے ہیں،یعنی کوئی سفید ہے، کوئی سرخ ہے، کوئی سیاہ ہے اور کسی کی رنگتیں ان کے درمیان درمیان ہیں اور کوئی خبیث ہے، کوئی پاکیزہ مزاج ہے، کوئی نرم ہے، کوئی سخت ہے اور کوئی ان کے درمیان درمیان۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10294

۔ (۱۰۲۹۴)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَلْاَرْوَاحُ جُنُوْدٌ مُجَنَّدَۃٌ، فَمَا تَعَارَفَ مِنْھَا ائْتَلَفَ، وَ مَا تَنَاکَرَ مِنْھَا اخْتَلَفَ۔)) (مسند احمد: ۱۰۸۳۶)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: روحیں اکٹھاکیے گئے لشکر ہیں، جن جن کا وہاں تعارف ہوگیا، وہ مانوس ہوگئے اور جن کی آپس میں شناخت نہ ہو سکی، وہ مختلف ہو گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10295

۔ (۱۰۲۹۵)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((خَلَقَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہِ، طُوْلُہُ سِتُّوْنَ ذِرَاعًا، فَلَمَّا خَلَقَہُ، قَالَ لَہُ: اذْھَبْ فَسَلِّمْ عَلٰی اُوْلٰئِکَ النَّفَرِ، وَھُمْ نَفَرٌ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ جُلُوْسٌ، وَاسْتَمِعْ مَا یُجِیْبُوْنَکَ، فَاِنَّھَا تَحِیَّتُکَ وَتَحِیَّۃُ ذُرِّیَّتِکَ، قَالَ: فَذَھَبَ فَقَالَ: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ، فَقَالُوْا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ، فَزَادُوْا رَحْمَۃَ اللّٰہِ، قَالَ: فَکُلُّ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ عَلٰی صُوْرَۃِ آدَمَ وَطُوْلُہُ سِتُّوْنَ ذِرَاعًا، فَلَمْ یَزَلْیَنْقُصُ الْخَلْقُ بَعْدُ حَتَّی الْآنَ۔)) (مسند احمد: ۸۱۵۶)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ان کی صورت پر پیدا کیا، ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی تخلیق کی تو فرمایا: جاؤ اور فرشتوں کی بیٹھی ہوئی اُس جماعت کو سلام کہو اور غور سے سنو کہ وہ آپ کو جوابًا کیا کہتے ہیں، کیونکہیہی (جملے) آپ اور آپ کی اولاد کا سلام ہوں گے۔ ( وہ گئے اور) کہا: السلام علیکم۔ انھوں نے جواب میں کہا: السلام علیک ورحمۃ اللہ۔ یعنی ورحمۃ اللہ کے الفاظ زائد کہے۔ جب کوئی بھی آدمی جنت میں داخل ہو گا وہ آدم علیہ السلام کی صورت (وجسامت) پر داخل ہو گا۔ لیکن (دنیا میں ولادتِ آدم سے) آج تک قد و قامت میں کمی آتی رہی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10296

۔ (۱۰۲۹۶)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((کَانَ طُوْلُ آدَمَ سِتِّیْنَ ذِرَاعًا فِیْ سَبْعَۃِ اَذْرُعٍ عَرْضًا۔)) (مسند احمد: ۱۰۹۲۶)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدم علیہ السلام کا قد ساٹھ ہاتھ اور چوڑائی سات ہاتھ تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10297

۔ (۱۰۲۹۷)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کُلُّ ابْنِ آدَمَ تَاْکُلُہُ الْاَرْضُ اِلَّا عَجْبَ الذَّنَبِ فَاِنَّہُ مِنْہُ خُلِقَ، وَمِنْہُ یُرَکَّبُ۔)) (مسند احمد: ۸۲۶۶)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابن آدم کے وجود کی ہر چیز کو زمین کھا جاتی ہے، ما سوائے عجب الذنب کے، اسی سے انسان کو پیدا کیا گیا اور اسی سے اس کو دوبارہ ترکیب دیا جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10298

۔ (۱۰۲۹۸)۔ عَنْ اَنَسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَمَّا خَلَقَ عَزَّوَجَلَّ آدَمَ تَرَکَہَ مَا شَائَ اللّٰہُ اَنْ یَدَعَہُ، فَجَعَلَ اِبْلِیْسُیُطِیْفُ بِہٖیَنْظُرُ اِلَیْہِ، فَلَمَّا رَآہُ اَجْوَفَ عَرَفَ اَنَّہُ خَلْقٌ لَا یَتَمَالَکُ۔)) (مسند احمد: ۱۲۵۶۷)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو جب تک چاہا(ان کے ڈھانچے کو) پڑا رہنے دیا، ابلیس گھوم کر اس کو دیکھنے لگا، جب اس نے دیکھا کہ یہ توپیٹ والا ہے یایہ اندر سے خالی ہے تو اس نے کہا: یہ ایسی مخلوق ہے،جو اپنے آپ پر کنٹرول نہیں کر سکے گی۔ یعنییہ وجود اپنے آپ کو شہوات سے نہیں روک سکے گا، وسوسوں سے محفوظ نہیں رہ سکے گا، نیز غصے پر بھی قابو نہیں پا سکے گا، الا من عصمہ اللہ۔ ابلیس کو کیسے اندازہ ہوا؟ اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں، معلوم نہیں کہ اُس دور کی صفات اور اس وقت کی مخلوقات کی اہلیتیں اور تجربات کیا کیا تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10299

۔ (۱۰۲۹۹)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ بَعْدَ الْعَصْرِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، آخِرَ الْخَلْقِ فِیْ آخِرِ سَاعَۃٍ مِنْ سَاعَاتِ الْجُمُعَۃِ فِیْمَا بَیْنَ الْعَصْرِ اِلَی اللِّیْلِ۔)) (مسند احمد: ۸۳۲۳)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جمعہ کے روز عصر کے بعد پیدا کیا،یہ آخری مخلوق تھی، جس کو جمعہ کی گھڑیوں میں سے آخری گھڑی میں پیدا کیا گیا اور آخری گھڑی عصر سے رات تک ہوتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10300

۔ (۱۰۳۰۰)۔ عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ : ((اِنَّ الْمَرْاَۃَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلْعٍ، وَ اِنَّکَ اِنْ تُرِدْ اِقَامَۃَ الضِّلْعِ تُکْسِرْھَا، فَدَارِھَا تَعِشْ بِھَا۔)) (مسند احمد: ۲۰۳۵۳)
۔ سیدنا سمرہ بن جندب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے، اور اگر تو پسلی کوسیدھا کرنا چاہے گا تو اس کو توڑ دے گا، پس تو اس کے ساتھ مداہنت اختیار کر، تب وہ تیرے ساتھ زندگی گزارتی رہے گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10301

۔ (۱۰۳۰۱)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّہُ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتَ آیَۃُ الدَّیْنِ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ اَوَّلَ مَنْ جَحَدَ آدَمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ، اَوْ اَوَّلُ مَنْ جَحَدَ آدَمُ، اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَمَّا خَلَقَ آدَمَ مَسَحَ ظَھْرَہُ فَاَخْرَجَ مِنْہُ مَا ھُوَ ذَارِیٌٔ اِلٰییَوْمِ الْقِیَامَۃِ، فَجَعَلَ یَعْرِضُ ذُرِّیَّتَہُ عَلَیْہِ فَرَاٰی فِیْھِمْ رَجُلًا یَزْھَرُ، فَقَالَ: اَیْ رَبِّ! مَنْ ھٰذَا؟ قَالَ: ھٰذَا اِبْنُکَ دَاوُدُ، قَالَ: اَیْ رَبِّ! کَمْ عُمْرُہُ؟ قَالَ: سِتُّوْنَ عَامًا، قَالَ: رَبِّ! زِدْ فِیْ عُمْرِہِ، قَالَ: لَا، اِلَّا اَزِیْدُہُ مِنْ عُمْرِکَ، وَکَانَ عُمَرُ آدَمَ اَلْفَ عَامٍ فَزَادَہُ اَرْبَعِیْنَ عَامًا، فَکَتَبَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَلَیْہِ بِذٰلِکَ کِتَابًا وَ اَشْھَدَ عَلَیْہِ الْمَلَائِکَۃَ، فَلَمَّا احْتَضَرَ آدَمُ وَاَتَتْہُ الْمَلَائِکَۃُ لِتَقْبِضَہُ قَالَ: اِنَّہُ قَدْ بَقِیَ مِنْ عُمْرِیْ اَرْبَعُوْنَ عَامًا، فَقِیْلَ: اِنَّکَ قَدْ وَھَبْتَھَا لِاِبْنِکَ دَاوُدَ، قَالَ: مَا فَعَلْتُ وَ اَبْرَزَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَلَیْہِ الْکِتَابَ وَ شَھِدَتْ عَلَیْہِ الْمَلَائِکَۃُ (زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ) فَاَتَّمَھَا لِدَاوُدَ مِائَۃَ سَنَۃٍ وَاَتَّمَھَا لِآدَمَ عُمْرَہُ اَلْفَ سَنَۃٍ۔)) (مسند احمد: ۲۲۷۰)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب قرضے والی آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک سب سے پہلے انکار کرنے والے آدم علیہ السلام ہیں، اس کی تفصیلیہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان کی پیٹھ کو چھو کر اس سے ان کی قیامت تک پیدا ہونے والی اولاد کو نکالا اور اس اولاد کو ان پر پیش کیا، انھوں نے اس میں ایک خوش نما اور تابناک آدمی دیکھا اور کہا: اے میرے ربّ! یہ کون ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کہا: یہ تیرا بیٹا داود ہے، انھوں نے کہا: اے میرے ربّ ! اس کی عمر کتنی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کہا: ساٹھ سال، انھوں نے کہا: اے میرے ربّ! اس کی عمر میں اضافہ کر دے، اللہ تعالیٰ نے کہا: نہیں، الا یہ کہ تیری عمر سے اضافہ کیا جائے۔ آدم علیہ السلام کی عمر ایک ہزار سال تھی، انھوں نے اپنی عمر میں سے داود کی عمر میں چالیس سال اضافہ کر دیا، اللہ تعالیٰ نے اس چیز کو لکھ لیا اور فرشتوں کوگواہ بنا لیا، جب آدم علیہ السلام کی وفات کا وقت آیا اور ان کی روح قبض کرنے کے لیے فرشتے ان کے پاس آئے تو انھوں نے کہا: ابھی تک میری عمر کے تو چالیس سال باقی ہیں، ان سے کہا گیا کہ آپ نے وہ چالیس سال تو اپنے بیٹے داود کو ہبہ کر دیئے تھے، آدم علیہ السلام نے کہا: میں نے تو ایسے نہیں کیا تھا، اُدھر اللہ تعالیٰ نے کتاب کو ظاہر کر دیا اور فرشتوں نے گواہی دے دی، لیکن پھر داود علیہ السلام کی عمر بھی سو سال پوری کر دی اور آدم علیہ السلام کی ایک ہزار پوری کر دی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10302

۔ (۱۰۳۰۲)۔ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ الْجُھَنِیِّ، اَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، سُئِلَ عَنْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ {وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ آدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ} فَقَالَ عُمَرُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سُئِلَ عَنْھَا فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ ثُمَّ مَسَحَ ظَھْرَہُ بِیَمِیْنِہِ وَاسْتَخْرَجَ مِنْہُ ذُرِّیَّۃً فَقَالَ: خَلَقْتُ ھٰؤُلَائِ لِلْجَنَّۃِ وَ بِعَمَلِ اَھْلِ الْجَنَّۃِیَعْمَلُوْنَ، ثُمَّ مَسَحَ ظَھْرَہُ فَاسْتَخْرَجَ مِنْہُ ذُرِّیَّۃً فَقَالَ: خَلَقْتُ ھٰؤُلَائِ لِلنَّارِ، وَ بِعَمَلِ اَھْـلِ النَّارِ یَعْمَلُوْنَ)) فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَفِیْمَ الْعَمَلُ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّۃِ اسْتَعْمَلَہُ بِعَمَلِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ حَتّٰییَمُوْتَ عَلٰی عَمَلٍ مِنْ اَعْمَالِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ فَیُدْخِلَہُ بِہٖالْجَنَّۃَ، وَ اِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ اسْتَعْمَلَہُ بِعَمَلِ اَھْلِ النَّارِ حَتّٰییَمُوْتَ عَلٰی عَمَلٍ مِنْ اَعْمَالِ اَھْلِ النَّارِ فَیُدْخِلَہُ بِہٖالنَّارَ۔)) (مسنداحمد: ۳۱۱)
۔ مسلم بن یسار جہنی سے مروی ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا: {وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ آدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ}، انھوں نے کہا: میں نے خود سنا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، اس کی کمر کو دائیں ہاتھ سے چھوا اورا س سے اس کی اولاد نکالی اور کہا: میں نے ان کو جنت کے لیے اور اہل جنت کے عمل کے ساتھ پیدا کیا ہے، پھر اس کی کمر کو چھوا اور اس نے مزید اولاد نکال کر کہا: میں نے ان کو آگ کے لیے اور اہل جہنم کے عمل کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر عمل کا کیا تک ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ بندے کو جنت کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس کواہل جنت کے ہی اعمال کے لیے استعمال کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ جنتی لوگوں کے عمل پر مرتا ہے اور اس طرح وہ اس کوجنت میں داخل کر دیتا ہے، اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو آگ کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس کو جہنمی لوگوں کے عمل کے لیے استعمال کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ اہل جہنم کے اعمال پر مرتا ہے اور وہ اس کو جہنم میں داخل کر دیتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10303

۔ (۱۰۳۰۳)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَخَذَ اللّٰہُ الْمِیْثَاقَ مِنْ ظَھْرِ آدَمَ بِنَعْمَانَ یَعْنِیْ عَرَفَۃَ فَاَخْرَجَ مِنْ صُلْبِہٖکُلَّذُرِّیَّۃٍ ذَرَأَھَا فَنَثَرَھُمْ بَیْنَیَدَیْہِ کَالذَّرِّ ثُمَّ کَلَّمَھُمْ قُبُلًا، قَالَ: {اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ؟ قَالُوْا: بَلیٰ شَھِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ھٰذَا غَافِلِیْنَ اَوْ تَقُوْلُوْا اِنّمَا اَشْرَکَ اَبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّۃً مِنْ بَعْدِھِمْ، اَفَتُھْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ}۔)) (مسند احمد: ۲۴۵۵)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے نعمان یعنی عرفہ مقام میں حضرت آدم علیہ السلام کی پیٹھ (یعنی اولاد) سے پختہ عہد لیا، ان کی کمر سے اس ساری اولاد کو نکالا، جو اس نے پیدا کرنی تھی، پھر اس کو چیونٹیوں کی طرح ان کے سامنے پھیلا دیا اور پھر ان سے آمنے سامنے کلام کیا اور کہا: کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟ انھوں نے کہا: کیوں نہیں، ہم نے گواہی دی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم قیامت کے روز یہ کہہ دو کہ ہم اس سے غافل تھے، یایہ کہہ دو کہ ہمارے آباء و اجداد ہم سے پہلے شرک کر چکے تھے اور ان کے بعد ان کی اولاد تھے، پس کیا تو ہم کو اس کرتوت کی وجہ سے ہلاک کرے گا، جو باطل پرست لوگوں نے کیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10304

۔ (۱۰۳۰۴)۔ عَنْ رُفَیْعٍٍ اَبِیْ الْعَالِیَۃَ، عَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فِیْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ: {وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ آدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَاَشْھَدَھُمْ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ} قَالَ: جَمَعَھُمْ فَجَعَلَھُمْ اَرْوَاحًا ثُمَّ صَوَّرَھُمْ فَاسْتَنْطَقَھُمْ فَتَکَلَّمُوْا، ثُمَّ اَخَذَ عَلَیْھِمُ الْعَھْدَ وَالْمِیْثَاقَ وَاَشْھَدَھُمْ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ؟ قَالَ: فَاِنِّیْ اُشْھِدُ عَلَیْکُمُ السَّمٰوٰتِ السَّبْعَ وَالْاَرْضِیْنَ السَّبْعَ، وَاُشْھِدُ عَلَیْکُمْ اَبَاکُمْ آدَمَ عَلَیْہِ السُّلَامُ، اَنْ تَقُوْلُوْایَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَمْ نَعْلَمْ بِھٰذَا، اِعْلَمُوْا اَنَّہُ لَا اِلٰہَ غَیْرِیْ وَلَا رَبَّ غَیْرِیْ، فَـلَا تُشْرِکُوْا بِیْ شَیْئًا، اِنِّیْ سَاُرْسِلُ اِلَیْکُمْ رُسُلِیْیُذَکِّرُوْنَکُمْ عَھْدِیْ وَمِیْثَاقِیْ، وَاُنْزِلُ عَلَیْکُمْ کُتُبِیْ، قَالُوْا: شَھِدْنَا بِاَنَّکَ رَبُّنَا وَ اِلٰھُنَا لَا رَبَّ لَنَا غَیْرُکَ، فَاَقَرُّوْا بِذٰلِکَ، وَ رَفَعَ اِلَیْھِمْ آدَمَ یَنْظُرُ اِلَیْھِمْ فَرَاَی الْغَنِیَّ وَالْفَقِیْرَ وَحُسْنَ الصُّوْرَۃِ وَدُوْنَ ذٰلِکَ، فَقَالَ: رَبِّ! لَوْ لَا سَوَّیْتَ بَیْنَ عِبَادِکَ؟ قَالَ: اِنِّیْ اَحْبَبْتُ اَنْ اُشْکَرَ، وَرَاَی الْاِنْبِیَائَ فِیْھِمْ مِثْلَ السُّرُجِ عَلَیْھِمُ النُّوْرُ، خُصُّوْا بِمِیْثَاقٍ آخَرَ فِیْ الرِّسَالَۃِ وَالنَّبُوَّۃِ، وَھُوَ قَوْلُہُ تَعَالٰی: {وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّیْنَ مِیْثَاقَھُمْ} اِلٰی قَوْلِہِ {عِیْسٰی بْنُ مَرْیَمَ} کَانَ فِیْ تِلْکَ الْاَرْوَاحِ فَاَرْسَلَہُ اِلٰی مَرْیَمَ، فَحَدَّثَ عَنْ اُبَیٍّ اَنَّہُ دَخَلَ مِنْ فِیْھَا۔ (مسند احمد: ۲۱۵۵۲)
۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں کہتے ہیں: اور جب تیرے پروردگار نے بنوآدم کی پشتوں یعنی ان کی اولاد سے پختہ عہد لیا اور ان کو ان کے نفسوں پر گواہ بنایا اس کی تفصیلیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جمع کیا، ان کو روحیں بنایا، پھر ان کی تصویریں بنائیں اور ان کو بولنے کی طاقت دی، پس انھوں نے کلام کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے پختہ عہد لیا اور ان کو ان کے نفسوں پر گواہ بناتے ہوئے کہا: کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟ میں ساتوں آسمانوں، ساتوں زمینوں اور تمہارے باپ کو تم پر گواہ بناتا ہوں، تاکہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ دو کہ ہمیں اس چیز کا کوئی علم نہ تھا، تم اچھی طرح جان لو کہ میرے علاوہ نہ کوئی معبود ہے اور نہ کوئی ربّ، پس میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا، میں عنقریب تمہاری طرف اپنے رسول بھیجوں گا، وہ تم کو میرا عہد یاد کرائیں گے، نیز میں تم پر اپنی کتابیں بھی نازل کروں گا، انھوں نے کہا: ہم یہ شہادت دیتے ہیں کہ تو ہی ہمارا ربّ اور معبود ہے، تیرے علاوہ ہمارا کوئی ربّ نہیں ہے، پس ان سب نے اقرار کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ان پر بلند کیا، انھوں نے ان میں غنی، فقیر، حسین اور کم خوبصورت افراد دیکھے اور کہا: اے میرے ربّ! تو نے ان کے درمیان برابری کیوں نہیں کی؟ اللہ تعالیٰ نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ میرا شکریہ ادا کیا جائے، نیز انھوں نے ان میں انبیاء دیکھے، وہ چراغوں کی طرح نظر آ رہے تھے اور ان پر نور تھا، ان کو رسالت اور نبوت کے عہد و میثاق کے ساتھ خاص کیا گیا، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں اسی چیز کا ذکر ہے: اور جب ہم نے نبیوں سے ان کا پختہ عہد لیا …… عیسی بن مریم۔ عیسی علیہ السلام بھی ان ہی ارواح میں تھے، پھر اللہ تعالیٰ اس روح کو سیدہ مریم علیہا السلام کی طرف بھیجا اور وہ ان کے منہ سے ان میں داخل ہو گئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10305

۔ (۱۰۳۰۵)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: مَرَّ یَھُوْدِیٌّ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ یُحَدِّثُ اَصْحَابَہُ، فَقَالَتْ قُرَیْشٌ : یَایَھُوْدِیُّ! اِنَّ ھٰذَا یَزْعَمُ اَنَّہُ نَبِیٌّ، فَقَالَ: لَاَسْاَلَنَّہُ عَنْ شَیْئٍ لَا یَعْلَمُہُ اِلَّا نَبِیٌّ، قَالَ: فَجَائَ حَتّٰی جَلَسَ ثُمَّ قَالَ: یَامُحَمَّدُ! مِمَّ یُخْلَقُ الْاِنْسَانُ؟ قَالَ: ((یَایَھُوْدِیُّ! مِنْ کُلٍّ یُخْلَقُ، مِنْ نُطْفَۃِ الرَّجُلِ وَمِنْ نُطْفَۃِ الْمَرْاَۃِ، فَاَمَّا نُطْفَۃُ الرَّجُلِ فَنُطْفَۃٌ غَلِیْظَۃٌ مِنْھَا الْعَظَمُ، وَالْعَصَبُ، وَاَمَّا نُطْفَۃُ الْمَرْاَۃِ فَنُطْفَۃٌ رَقِیْقَۃٌ مِنْھَا اللَّحْمُ، وَالدَّمُ۔)) فَقَامَ الْیَھُوْدِیُّ فَقَالَ: ھٰکَذَا کَانَ یَقُوْلُ مَنْ قَبْلَکَ۔ (مسند احمد: ۴۴۳۸)
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایکیہودی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے گزرا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے صحابہ کو احادیث بیان کر رہے تھے، قریشیوں نے یہودی سے کہا: اے یہودی! یہ آدمی اپنے آپ کو نبی خیال کرتا ہے، اس نے کہا: میں اس سے ایسی چیز کے بارے میں سوال کرتا ہوں کہ اس کو جاننے والا صرف نبی ہوتا ہے ، پس وہ آیا اور بیٹھ گیا، پھر اس نے کہا: اے محمد! انسان کو کس چیز سے پیدا کیا جاتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہودی! مرد و زن میں سے ہر ایک سے انسان کو پیدا کیا جاتا ہے، مرد کے نطفے سے بھی اور عورت کے نطفے سے بھی، مرد کا نطفہ گاڑھا ہوتا ہے، اس سے ہڈیاں اور پٹھے بنتے ہیں اور عورت کا نطفہ پتلا ہوتا ہے، اس سے گوشت اور خون بنایا جاتا ہے۔ یہودی نے کہا: آپ سے پہلے والے لوگ بھی اسی طرح کہتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10306

۔ (۱۰۳۰۶)۔ وعَنْہُ اَیْضًا، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ النُّطْفَۃَ تَکُوْنُ فِیْ الرَّحِمِ اَرْبَعِیْنَیَوْمًا عَلٰی حَالِھَا لَا تَغَیَّرُ، فَاِذَا مَضَتِ الْاَرْبَعُوْنَ صَارَتْ عَلَقَۃً، ثُمَّ مُضْغَۃً کَذٰلِکَ، ثُمَّ عِظَامًا کَذٰلِکَ، فاِذَا اَرَادَ اللّٰہُ اَنْ یُسَوِّیَ خَلْقَہُ بَعَثَ اِلَیْھَا مَلَکًا، فَیَقُوْلُ الْمَلَکُ الَّذِیْیَلِیْہِ: اَیْ رَبِّ! اَذَکَرٌ اَمْ اُنْثٰی؟ اَشَقِیٌّ اَمْ سَعِیْدٌ؟ اَقَصِیْرٌ اَمْ طَوِیْلٌ؟ اَ نَاقِصٌ اَمْ زَائِدٌ؟ قُوْتُہُ وَاَجَلُہُ، اَ صَحِیْحٌ اَمْ سَقِیْمٌ؟ قَالَ: فَیُکْتَبُ ذٰلِکَ کُلُّہُ۔)) فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: فَفِیْمَ الْعَمَلُ اِذًا وَقَدْ فَزِعَ مِنْ ھٰذَا کُلِّہِ؟ قَالَ: ((اِعْمَلُوْا فَکُلٌّ سَیُوَجَّہُ لِمَا خُلِقَ لَہُ۔)) (مسند احمد: ۳۵۵۳)
۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بشیک نطفہ چالیس ایام تک اپنی حالت پر رہتا ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، جب چالیس دن گزر جاتے ہیں تو وہ جمے ہوئے خون کا ایک ٹکڑا بن جاتا ہے، پھر چالیس دنوں کے بعد گوشت کا ٹکڑا بن جاتا ہے، پھر چالیس دنوں کے بعد ہڈیاں بنتی ہیں، پس جب اللہ تعالیٰ اس کی تخلیق کو برابر کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے، اس کام کو سنبھالنے والا فرشتہ کہتا ہے: اے میرے ربّ! یہ مذکر ہے یا مؤنث؟ خوش بخت ہے یا بد بخت؟ کوتاہ قد ہے یا دراز قد؟ ناقص الخلقت ہے یا زائد الخلقت؟ نیز اس کی روزی اور موت؟ اور یہ تندرست ہے یا بیمار؟ پس یہ سب چیزیں لکھ لی جاتی ہیں۔ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: اگر اس سارے معاملے سے فارغ ہوا جا چکا ہے تو پھر عمل کا کیا تک ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم عمل کرو، پس جس شخص کو جس چیز کے لیے پیدا کیا گیا ہے، اس کو اس کی طرف متوجہ کر دیا جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10307

۔ (۱۰۳۰۷)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَوْ لَا بَنُوْ اِسْرَائِیْلُ، لَمْ یَخْنَزِ الْلَحْمُ، وَلَمْ یَخْبُثِ الطَّعَامُ، وَ لَوْ لَا حَوَّائُ لَمْ تَخُنْ اُنْثٰی زَوْجَھَا۔)) (مسند احمد: ۸۰۱۹)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر بنو اسرائیل نہ ہوتے تو گوشت بدبودار نہ ہوتا اور کھانے میں فساد نہ آتا اور اگر سیدہ حوائ ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نہ ہوتیں تو کوئی خاتون اپنے خاوند سے خیانت نہ کرتی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10308

۔ (۱۰۳۰۸)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فِیْ حَدِیْثِ الشَّفَاعَۃِ، قَالَ: وَیَطُوْلُیَوْمُ الْقِیَامَۃِ عَلَی النَّاسِ، فَیَقُوْلُ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ اِنْطَلِقُوْا بِنَا اِلَی اَبِیْ الْبَشَرِ فَلْیَشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّنَا عَزَّوَجَلَّ فَلْیَقْضِ بَیْنَنَا، فَیَاْتُوْنَ آدَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ، فَیَقُوْلُ: یَا آدَمُ! اَنْتَ الَّذِیْ خَلَقَکَ اللّٰہُ بِیَدِہِ وَاَسْکَنَکَ جَنَّتَہُ وَاَسْجَدَ لَکَ مَلَائِکَتَہُ اشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّنَا فَلْیَقْضِ بَیْنَنَا، فَیَقُوْلُ : اِنِّیْ لَسْتُ ھُنَاکُمْ، اِنِّیْ قَدْ اُخْرِجْتُ مِنَ الْجَنَّۃِ بِخَطِیْئَتِیْ، وَ اِنَّہُ لَا یُھِمُّنِی الْیَوْمَ اِلَّا نَفْسِی۔)) اَلْحَدِیْثَ (مسند احمد: ۲۵۴۶)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، یہ سفارش والی طویل حدیث ہے، اس میں ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن جب لوگوں پر زمانہ طویل ہو گا تو وہ ایک دوسرے سے کہیں گے: چلو، ابو البشر کی طرف چلتے ہیں، تاکہ وہ ہمارے حق میں اللہ تعالیٰ کے سامنے سفارش کریں اور وہ ہمارا حساب کتاب شروع کرے، پس وہ آدم علیہ السلام کے پاس آکر کہیں گے: اے آدم! آپ وہ ہستی ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، آپ کو جنت میںٹھہرایا اور آپ کو فرشتوں سے سجدہ کروایا، پس آپ ہمارے حق میں اللہ تعالیٰ سے سفارش تو کر دیں، تا کہ وہ ہمارا حساب کتاب شروع کر دے، پس وہ جواب دیں گے: میں اس سفارش کا اہل نہیں ہوں، مجھے میری خطا کی وجہ سے جنت سے نکالا گیا تھا، آج تو میرے نفس نے مجھے بے چین کر رکھا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10309

۔ (۱۰۳۰۹)۔ وَمِمَّا رُوِیَ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فِیْ حَدِیْثِ الشَّفَاعَۃِ اَیْضًا، قَالَ: ((فَیَقُوْلُ آدَمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ: اِنَّ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ قَدْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضْبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَہُ مِثْلَہُ، وَلَنْ یَغْضَبَ بَعْدَہُ مِثْلَہُ، وَاَنَّہُ نَھَانِیْ عَنِ الشَّجَرَۃِ فَعَصَیْتُہُ، نَفْسِیْ نَفْسِیْ نَفْسِیْ۔)) (مسند احمد: ۹۶۲۱)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں،یہ شفاعت سے متعلقہ طویل حدیث ہیں، اس میں ہے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پس آدم علیہ السلام کہیں گے: بیشک میرا ربّ آج اتنے غصے میں ہے کہ نہ اس سے پہلے اتنے غصے میں آیا تھا اور نہ بعد میں اتنے غصے میں آئے گا، اور اس نے مجھے ایک درخت سے منع کیا تھا، لیکن میں نے اس کی نافرمانی کر دی تھی، ہائے میری جان، میری جان، میری جان۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10310

۔ (۱۰۳۱۰)۔ عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ الْبَاھِلِیِّ، اَنَّ اَبَا ذَرٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قُلْتُ: یَانَبِیَّ اللّٰہِ! فَاَیُّ الْاَنْبِیَائِ کَانَ اَوَّلُ؟ قَالَ: ((آدَمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَانَبِیَّ اللّٰہِ! اَوَ نَبِیٌّ کَانَ آدَمَ؟ قَالَ: ((نَعَمْ،نَبِیٌّ مُکَلَّمٌ، خَلَقَہُ اللّٰہُ بِیَدِہِ، ثُمَّ نَفَخَ فِیْہِ رُوْحَہُ ثُمَّ قَالَ لَہُ: یَاآدَمُ قُبُلًا۔)) (مسند احمد: ۲۲۶۴۴)
۔ سیدنا ابو امامہ باہلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! انبیاء میں سب سے پہلا نبی کون تھا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدم علیہ السلام ۔ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! کیا آدم علیہ السلام نبی تھے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، وہ نبی تھے، ان سے کلام کیا گیا، اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، پھر ان میں اپنی روح پھونکی اور ان کو آمنے سامنے کہا: اے آدم۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10311

۔ (۱۰۳۱۱)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((خَیْرُیَوْمٍ طَلَعَتْ فِیْہِ الشَّمْسُ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ، فِیْہِ خُلِقَ آدَمُ وَفِیْہِ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ، وَفِیْہِ اُخْرِجَ مِنْھَا، (زَادَ فِیْ اُخْرٰی) وَاَھْبَطَ اللّٰہُ فِیْہِ آدَمَ اِلَی الْاَرْضِ، وَ فِیْہِ تَوَفَّیَ اللّٰہُ آدَمَ۔)) (مسند احمد: ۱۰۶۵۳)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بہترین دن جس پر سورج طلوع ہوتا ہے، وہ جمعہ کا دن ہے ، اس میں آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا، اسی میں ان کو جنت میں داخل کیا گیا، اسی دن میں ان کو اس سے نکالا گیا، ایک روایت میں ہے: اللہ تعالیٰ نے اسی دن آدم علیہ السلام کو زمین کی طرف اتارا اور اس دن کو ان کو وفات دی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10312

۔ (۱۰۳۱۲)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِحْتَجَّ آدَمُ وَ مُوْسٰی عَلَیْھِمَا السَّلَامُ فَقَالَ: مُوْسٰی: یَا آدَمُ! اَنْتَ اَبُوْنَا خَیَّبْتَنَا وَ اَخْرَجْتَنَا مِنَ الْجَنَّۃِ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: اَنْتَ آدَمُ الَّذِیْاَخْرَجَتْکَ خَطِیْئَتُکَ مِنَ الْجَنَّۃِ) فَقَالَ لَہُ آدَمُ: یَا مُوْسٰی اَنْتَ الَّذِیْ اصْطَفَاکَ اللّٰہُ بِکَلَامِہِ، وَقَالَ مَرَّۃً: بِرِسَالَتِہِ وَخَطَّ لَکَ بِیَدِہِ اَتَلُوْمُنِیْ عَلٰی اَمْرٍ قَدَّرَہُ اللّٰہُ عَلَیَّ قَبْلَ اَنْ یَخْلُقَنِیْبِاَرْبَعِیْنَ سَنَۃً؟ قَالَ: حَجَّ آدَمُ مُوْسٰی حَجَّ آدَمُ مُوْسٰی۔)) (مسند احمد: ۷۳۸۱)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدم علیہ السلام اور موسی علیہ السلام نے ایک دوسرے پر اعتراض کیے، موسی علیہ السلام نے کہا: اے آدم! تم ہمارے باپ ہو، لیکن تم نے ہمیں ناکام کر دیا اور جنت سے نکال دیا، ایک روایت میں ہے: تم وہی آدم ہو، جس کو اس کی غلطی نے جنت سے نکال دیا، آگے سے آدم علیہ السلام نے کہا: اے موسی! تم وہی موسی ہو، جس کو اللہ تعالیٰ اپنے کلام اور اپنی رسالت کے ساتھ منتخب کیا اور تیرے لیے اپنے ہاتھ سے لکھا، کیا تو مجھے اس بات پر ملامت کرتا ہے، جو اللہ تعالیٰ نے میری تخلیق سے چالیس برس پہلے میرے حق میں لکھ دی تھی، پس آدم علیہ السلام ، موسی علیہ السلام پر غالب آگئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10313

۔ (۱۰۳۱۳)۔ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِیْدٍ، اَنَّ سَعْدَ بْنَ اَبِیْ وَقَّاصٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ عِنْدَ فِتْنَۃِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: اَشْھَدُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّھَا سَتَکُوْنُ فَتَنَۃٌ الْقَاعِدُ فِیْھَا خَیْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ خَیْرٌ مِنَ الْمَاشِیْ، وَالْمَاشِیْ خَیْرٌ مِنَ السَّاعِیْ۔))، قَالَ: اَفَرَاَیْتَ اِنْ دَخَلَ عَلَیَّ بَیْتِیْ فَبَسَطَ اِلَیَّیَدَہُ لِیَقْتُلَنِیْ قَالَ: ((کُنْ کَابْنِ آدَمَ۔)) (مسند احمد: ۱۶۰۹)
۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عثمان بن عفان علیہ السلام کے فتنے کے دوران کہا: میں یہ شہادت دیتا ہوں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک عنقریب فتنے ہوں گے، اس میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے ، کھڑے ہونے والا چلنے والے سے اور اس میں چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا۔ ایک آدمی نے کہا: اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ قاتل مجھ پر میرے گھر میں گھس آئے اور مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھا دے تو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدم علیہ السلام کے بیٹے کی طرح ہو جانا۔‘
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10314

۔ (۱۰۳۱۴)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌،قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا اِلَّا کَانَ عَلَی ابْنِ آدَمَ الْاَوَّلِ کِفْلٌ مِنْ دَمِھَا لِاَنَّہُ کَانَ اَوَّل مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ۔)) (مسند احمد: ۳۶۳۰)
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نفس کو بھی ظلماً قتل کیا جاتا ہے، آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے کو اس خون میں سے گناہ ملتا ہے، کیونکہ وہ پہلا آدمی ہے، جس نے قتل شروع کیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10315

۔ (۱۰۳۱۵)۔ عَنْ سَمُرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَمَّا حَمَلَتْ حَوَّائُ طَافَ بِھَا اِبْلِیْسُ وَ کَانَ لَا یَعِیْشُ لَھَا وَلَدٌ، فَقَالَ: سَمِّیْہ عَبْدَ الْحَارِثِ فَاِنَّہُ یَعِیْشُ فَسَمَّوْہُ عَبْدَ الْحَارِثِ فَعَاشَ وَکَانَ ذٰلِکَ مِنْ وَحْیِ الشَّیْطَانِ وَ اَمْرِہِ۔)) (مسند احمد: ۲۰۳۷۸)
۔ سیدنا سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب سیدہ حوائ ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کو حمل ٹھہرا تو ابلیس نے ان کا چکر لگایا، جبکہ ان کا بچہ زندہ نہیں رہتا تھا، اور اس نے کہا: اس کا نام عبد الحارث رکھو، تب یہ زندہ رہے گا، جب انھوں نے اس کا نام عبد الحارث رکھا تو وہ زندہ رہا، یہ دراصل شیطان کے اشارے اور اس کے حکم سے تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 10316

۔ (۱۰۳۱۶)۔ عَنْ عُتَيٍّ، قَالَ: رَاَیْتُ شَیْخًا بِالْمَدِیْنَۃِیَتَکَلَّمُ فَسَاَلْتُ عَنْہُ، فَقَالُوْا: ھٰذَا اُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فَقَالَ: اِنَّ آدَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ لَمَّا حَضَرَہُ الْمَوْتُ قَالَ لِبَنِیْہِ: اَیْ بَنِیَّ! اِنِّیْ اَشْتَھِی مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّۃِ فَذَھَبُوْا یَطْلُبُوْنَ لَہُ فَاسْتَقْبَلَتْھُمُ الْمَلَائِکَۃُ وَ مَعَھُمْ اَکْفَانُہُ وَحُنُوْطُہُ وَ مَعَھُمُ الْفُؤْسُ وَالْمَسَاحِیْ وَالْمَکَاتِلُ فَقَالُوْا لَھُمُ:یَا بَنِیْ آدَمَ! مَا تُرِیْدُوْنَ وَمَا تَطْلُبُوْنَ اَوْ مَا تُرِیْدُوْنَ وَاَیْنَ تَذْھَبُوْنَ؟ قَالُوْا: اَبُوْنَا مَرِیْضٌ قَالُوْا: فَاشْتَھٰی مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّۃِ، قَالُوْا لَھُمْ : ارْجِعُوْا فَقَدْ قُضِیَ قَضَائُ اَبِیْکُمْ فَجَاؤْا فَلَمَّا رَاَتْھُمْ حَوَّائُ عَرَفَتْھُمْ فَلَاذَتْ بِآدَمَ فَقَالَ: اِلَیْکِ عَنِّیْ فَاِنِّیْ اِنّمَا اُوْتِیْتُ مِنْ قِبَلِکِ خَلِّیْبَیْنِیْ وَ بَیْنَ مَلَائِکَۃِ رَبِّیْ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی، فَقَبَضُوْہُ وَغَسَّلُوْہُ وَکَفَّنُوْہُ وَحَنَّطُوْہُ، وَحَفَرُوْا لَہُ وَاَلْحَدُوْا لَہُ وَصَلَّوْا عَلَیْہِ، ثُمَّ دَخَلُوْا قَبْرَہُ فَوَضَعُوْہُ فِیْ قَبْرِہِ وَ وَضَعُوْا عَلَیْہِ اللَّبِنَ ثُمَّ خَرَجُوْا مِنَ الْقَبَرِ ثُمَّ حَثَوْا عَلَیْہِ التُّرَابَ ثُمَّ قَالُوْا : یَابَنِیْ آدَمَ ھٰذِہِ سُنَّتُکُمْ۔ (مسند احمد: ۲۱۵۶۰)
۔ عُتَیّ کہتے ہیں: میں نے مدینہ منورہ میں ایک بزرگ دیکھا اور جب اس کے بارے پوچھا تو لوگوں نے کہا: یہ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں، انھوں نے کہا: بیشک جب آدم علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا توا نھوں نے اپنے بیٹوں سے کہا: اے میرے بیٹو! میں جنت کے پھل چاہتا ہوں، پس وہ یہ پھل تلاش کرنے کے لیے نکل پڑے، آگے سے ان کو فرشتے ملے، ان کے پاس کفن، حنوط خوشبو، کلہاڑے، بیلچے اور ٹوکرے تھے، انھوں نے اِن سے پوچھا: اے بنو آدم! تمہارا کیا ارادہ ہے، تم کون سی چیز تلاش کر رہے ہو اور تم کہاں جا رہے ہو؟ انھوں نے کہا: جی ہمارے ابو جان بیمار ہیں اور جنت کے پھل کھانا چاہتے ہیں، ان فرشتوں نے کہا: چلو واپس چلو، تمہارے باپ کی وفات کا وقت آ چکا ہے، پس جب وہ پہنچے اور سیدہ حوائ ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے ان کو پہنچان لیا تو وہ آدم علیہ السلام کے ساتھ چمٹ گئیں، لیکن آدم علیہ السلام نے کہا: پرے ہٹ جا، پہلے بھی تیری وجہ سے مجھے مصیبت میں مبتلا کیا گیا، ہٹ جا میرے اور میرے ربّ کے فرشتوں کے درمیان سے، پس انھوں نے ان کی روح قبض کی، ان کو غسل دیا، تکفین کی، خوشبو لگائی، پھر گڑھا کھودا اور لحد بنائی اور ان کی نماز جنازہ ادا کی، پھر وہ قبر میں داخل ہوئے اور ان کو قبر میں رکھ کر کچی اینٹیں لگائیں، پھر وہ قبر سے باہر آ گئے اور ان پر مٹی ڈال دی اور کہا: آدم کے بیٹو! یہ تمہارا طریقہ ہے۔

Icon this is notification panel