418 Results For Hadith (Musnad Ahmad ) Book ()
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8485

۔ (۸۴۸۵)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ أَ نَّہُ سَمِعَ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((إِنَّ آدَمَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا أَ ہْبَطَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی إِلَی الْأَ رْضِ قَالَتْ الْمَلَائِکَۃُ: أَ یْ رَبِّ! {أَ تَجْعَلُ فِیہَا مَنْ یُفْسِدُ فِیہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَائَ، وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّی أَ عْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ} قَالُوْا: رَبَّنَا نَحْنُ أَ طْوَعُ لَکَ مِنْ بَنِی آدَمَ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی لِلْمَلَائِکَۃِ: ہَلُمُّوا مَلَکَیْنِ مِنْ الْمَلَائِکَۃِ حَتّٰییُہْبَطَ بِہِمَا إِلَی الْأَرْضِ فَنَنْظُرَ کَیْفَیَعْمَلَانِ، قَالُوا رَبَّنَا: ہَارُوتُ وَمَارُوتُ، فَأُہْبِطَا إِلَی الْأَرْضِ وَمُثِّلَتْ لَہُمَا الزُّہَرَۃُ امْرَأَ ۃً مِنْ أَ حْسَنِ الْبَشَرِ، فَجَائَ تْہُمَا فَسَأَ لَاہَا نَفْسَہَا فَقَالَتْ: لَا، وَاللّٰہِ! حَتّٰی تَکَلَّمَا بِہٰذِہِ الْکَلِمَۃِ مِنْ الْإِشْرَاکِ، فَقَالَا: وَاللّٰہِ! لَا نُشْرِکُ بِاللّٰہِ أَ بَدًا، فَذَہَبَتْ عَنْہُمَا ثُمَّ رَجَعَتْ بِصَبِیٍّ تَحْمِلُہُ، فَسَأَ لَاہَا نَفْسَہَا، فَقَالَتْ: لَا، وَاللّٰہِ! حَتّٰی تَقْتُلَا ہٰذَا الصَّبِیَّ، فَقَالَا: وَاللّٰہِ! لَا نَقْتُلُہُ أَ بَدًا، فَذَہَبَتْ ثُمَّ رَجَعَتْ بِقَدَحِ خَمْرٍ تَحْمِلُہُ، فَسَأَ لَاہَا نَفْسَہَا قَالَتْ: لَا، وَاللّٰہِ! حَتّٰی تَشْرَبَا ہٰذَا الْخَمْرَ، فَشَرِبَا فَسَکِرَا فَوَقَعَا عَلَیْہَا، وَقَتَلَا الصَّبِیَّ، فَلَمَّا أَ فَاقَا، قَالَتِ الْمَرْأَ ۃُ: وَاللّٰہِ! مَا تَرَکْتُمَا شَیْئًا مِمَّا أَ بَیْتُمَاہُ عَلَیَّ إِلَّا قَدْ فَعَلْتُمَا حِینَ سَکِرْتُمَا، فَخُیِّرَا بَیْنَ عَذَابِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، فَاخْتَارَا عَذَابَ الدُّنْیَا۔)) (مسند احمد: ۶۱۷۸)
۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو زمین پر اتارا تو فرشتوں نے کہا: اے ہمارے پروردگار! {أَ تَجْعَلُ فِیہَا مَنْ یُفْسِدُ فِیہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَائَ، وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّی أَ عْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ} … کیا تو اس زمین میں اس بشر کو آباد کرنے والا ہے، جو اس میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا، جبکہ ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں اور پاکیزگی بیان کرتے ہیں، اللہ نے کہا:میں و ہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ لیکن فرشتوں نے کہا: ہم آدم کی اولاد کی بہ نسبت تیرے زیادہ مطیع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا: اچھا پھر دو فرشتے لائو تا کہ ہم انہیں زمین پر اتاریں اور دیکھیں کہ وہ کیا عمل کرتے ہیں، انہوں نے کہا: اے ہمارے پروردگار! یہ ہاروت اور ماروت دو فرشتے ہیں، پس انہیں زمین پر اتارا گیا اور ان کے سامنے ایک حسین ترین عورت پیش کی گئی،یہ دونوں اس کے پاس آئے اور اس سے اس کے نفس کا یعنی بدکاری کا مطالبہ کیا، لیکن اس نے کہا: اللہ کی قسم: نہیں، اس وقت تک تم قریب نہیں آ سکتے، جب تک تم اللہ تعالیٰ سے شرک والا کلمہ نہیں کہو گے، انہوں نے کہا: ہم تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کر سکتے۔ سو وہ چلی گئی اور پھر ایک بچہ لے کر دوبارہ آ گئی، انہوں نے پھراس عورت سے بدکاری کا مطالبہ کیا، لیکن اس نے کہا:جب تک تم اس بچے کوقتل نہیں کرتے، میرے قریب نہیں آ سکتے۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم اسے تو قتل نہیں کر سکتے، وہ چلی گئی اور اگلی بار شراب کا پیالہ لے کر آئی، جب انہوں نے پھر اس سے اس کے نفس کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں تمہیں قریب نہیں آنے دوں گی،یہاں تک کہ تم یہ شراب پی لو، جب انہوں نے شراب پی لی تو(نشے میں آ کر)اس عورت سے بدکاری بھی کر لی اور بچے کو قتل بھی کر دیا، جب ان کو ہوش آئی تو اس عورت نے کہا: اللہ کی قسم! ہر جس جس چیز کے انکاری تھی، تم نے نشہ کی حالت میں اس کا ارتکاب کر لیا ہے، (اس جرم کی پاداش میں) انہیں دنیا اور آخرت کے عذاب میں سے ایک کو منتخب کرنے کا کہا گیا، انہوں نے دنیا کا عذاب اختیار کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8486

۔ (۸۴۸۶)۔ عَنْ أَ بِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی قَوْلِہِ عَزَّ وَجَلَّ: {ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا} قَالَ: ((دَخَلُوْا زَحْفًا۔)) {وَقُوْلُوا حِطَّۃٌ} قَالَ: ((بَدَّلُوْا، فَقَالُوْا: حِنْطَۃٌ فِی شَعَرَۃٍ۔)) (مسند احمد: ۸۰۹۵)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی نے فرمایا: {ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا}… (سجدہ کرتے ہوئے دروازے سے داخل ہو جاؤ) لیکن وہ لوگ اس کے برعکس گھسٹ کر داخل ہوئے اور ان سے کہا گیا کہ {وَقُوْلُوا حِطَّۃٌ} … (اور کہو بخش دے) لیکن انھوں نے حکم کو بدل دیا اور کہا: بالی میں گندم کا دانہ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8487

۔ (۸۴۸۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَ قْبَلَتْ یَہُودُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوْا: یَا أَ بَا الْقَاسِمِ! إِنَّا نَسْأَ لُکَ عَنْ خَمْسَۃِ أَ شْیَائَ، فَإِنْ أَ نْبَأْتَنَا بِہِنَّ عَرَفْنَا أَ نَّکَ نَبِیٌّ وَاتَّبَعْنَاکَ، فَأَ خَذَ عَلَیْہِمْ مَا أَ خَذَ إِسْرَائِیلُ عَلَی بَنِیہِ إِذْ قَالُوْا: {اللّٰہُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیلٌ} قَالَ: ((ہَاتُوْا۔)) قَالُوْا: أَ خْبِرْنَا عَنْ عَلَامَۃِ النَّبِیِّ، قَالَ: ((تَنَامُ عَیْنَاہُ وَلَا یَنَامُ قَلْبُہُ۔))، قَالُوْا: أَ خْبِرْنَا کَیْفَ تُؤْنِثُ الْمَرْأَ ۃُ وَکَیْفَ تُذْکِرُ؟ قَالَ: ((یَلْتَقِی الْمَائَ انِِ فَإِذَا عَلَامَائُ الرَّجُلِ مَائَ الْمَرْأَ ۃِ أَ ذْکَرَتْ، وَإِذَا عَلَامَائُ الْمَرْأَۃِ آنَثَتْ۔))، قَالُوْا: أَ خْبِرْنَا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِیلُ عَلٰی نَفْسِہِ، قَالَ: ((کَانَ یَشْتَکِی عِرْقَ النَّسَا فَلَمْ یَجِدْ شَیْئًایُـلَائِمُہُ إِلَّا أَ لْبَانَ کَذَا وَکَذَا۔)) قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَحْمَد: قَالَ أَبِی: قَالَ بَعْضُہُمْ: یَعْنِی الْإِبِلَ فَحَرَّمَ لُحُومَہَا، قَالُوْا: صَدَقْتَ، قَالُوْا: أَ خْبِرْنَا مَا ہٰذَا الرَّعْدُ؟ قَالَ: ((مَلَکٌ مِنْ مَلَائِکَۃِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مُوَکَّلٌ بِالسَّحَابِ بِیَدِہِ، أَ وْ فِییَدِہِ مِخْرَاقٌ مِنْ نَارٍ، یَزْجُرُ بِہِ السَّحَابَ،یَسُوقُہُ حَیْثُ أَ مَرَ اللّٰہُ۔)) قَالُوْا: فَمَا ہٰذَا الصَّوْتُ الَّذِییُسْمَعُ؟ قَالَ: ((صَوْتُہُ۔))، قَالُوْا: صَدَقْتَ، إِنَّمَا بَقِیَتْ وَاحِدَۃٌ وَہِیَ الَّتِی نُبَایِعُکَ إِنْ أَ خْبَرْتَنَا بِہَا، فَإِنَّہُ لَیْسَ مِنْ نَبِیٍّ إِلَّا لَہُ مَلَکٌ یَأْتِیہِ بِالْخَبَرِ، فَأَ خْبِرْنَا مَنْ صَاحِبُکَ؟ قَالَ: ((جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ۔)) قَالُوْا: جِبْرِیلُ؟ ذَاکَ الَّذِییَنْزِلُ بِالْحَرْبِ وَالْقِتَالِ وَالْعَذَابِ عَدُوُّنَا۔ لَوْ قُلْتَ: مِیکَائِیلَ الَّذِییَنْزِلُ بِالرَّحْمَۃِ وَالنَّبَاتِ وَالْقَطْرِ لَکَانَ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیلَ} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃَ۔ (مسند احمد: ۲۴۸۳)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بیان کرتے ہیں کہ یہودی لوگ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے کہا: اے ابو القاسم! ہم آپ سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال کریں گے، اگر آپ ان کے جوابات دیں گے تو ہم پہچان جائیں گے کہ آپ برحق نبی ہیں اور ہم آپ کی اتباع بھی کریں گے، آپ نے ان سے اس طرح عہد لیا، جس طرح یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے عہد لیا تھا، جب انھوں نے کہا تھا ہم جو بات کر رہے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ وکیل ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: و ہ سوال پیش کرو۔ (۱) انہوں نے کہا: ہمیں نبی کی نشانی بتائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نبی کی آنکھیں سوتی ہیں اور اس کا دل نہیں سوتا۔ (۲) انھوں نے کہا: یہ بتائیں کہ نر اورمادہ کیسے پیدا ہوتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مردوزن کا آب جو ہر دونوں ملتے ہیں،جب آدمی کا پانی عورت کے پانی پر غالب آتا ہے، تو نر پیدا ہوتا ہے اور جب عورت کا آب جو ہر غالب آتا ہے تو مادہ پیدا ہوتی ہے۔ (۳) انہوں نے کہا: ہمیں بتائو کہ یعقوب علیہ السلام نے خود پر کیا حرام قرار دیا تھا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انہیں عرق نساء کی بیماری تھی، انہیںصرف اونٹنیوں کا دودھ موافق آیا، تو صحت ہونے پر اونٹوں کا گوشت خود پر حرام قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا: آپ سچ کہتے ہیں، (۴) اچھا یہ بتائیں کہ یہ رسد کیا ہے؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے، جس کے سپرد بادل ہیںیا اس فرشتہ کے ہاتھ میں آگ کا ہنٹرہے، جس کے ساتھ وہ بادلوں کو چلاتا ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا: یہ آواز کیا ہے جو سنی جاتی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اسی ہنٹر کی آواز ہے۔ انہوں نے کہا: آپ نے سچ کہا ہے۔ (۵) انہوں نے کہا: ایک بات رہ گئی ہے، اگر آپ اس کا جواب دیں گے تو ہم آپ کی بیعت کریں گے، وہ یہ ہے کہ ہر نبی کے لئے ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے، جواس کے پاس بھلائییعنی وحی لے کر آتا ہے، آپ بتائیں آپ کا فرشتہ ساتھی کون سا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جبریل علیہ السلام ہیں۔ اب کی بار انھوں نے کہا: جبریل،یہ تو جنگ، لڑائی اور عذاب لے کر آتا ہے، یہ تو ہمارا دشمن ہے، اگر آپ میکائیل کہتے جو کہ رحمت، نباتات اور بارش کے ساتھ نازل ہوتا ہے، تو پھر بات بنتی، اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ آیت نازل کی: قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہ نَزَّلَہُ عَلٰیقَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَیَدَیْہِ وَھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ۔} … کہہ دے جو کوئی جبریل کا دشمن ہو تو بے شک اس نے یہ کتاب تیرے دل پر اللہ کے حکم سے اتاری ہے، اس کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے ہے اور مومنوں کے لیے سرا سر ہدایت اور خوشخبری ہے۔ (سورۂ بقرہ: ۹۷)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8487

۔ (۸۴۸۷م)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا من طریق ثان) حَضَرَتْ عِصَابَۃٌ مِنْ الْیَہُودِ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمًا فَقَالُوا: یَا أَ بَا الْقَاسِمِ! حَدِّثْنَا عَنْ خِلَالٍ نَسْأَ لُکَ عَنْہُنَّ لَا یَعْلَمُہُنَّ إِلَّا نَبِیٌّ، قَالَ: ((سَلُونِی عَمَّا شِئْتُمْ، وَلٰکِنْ اجْعَلُوا لِی ذِمَّۃَ اللّٰہِ، وَمَا أَ خَذَ یَعْقُوبُ عَلَیْہِ السَّلَامُ عَلٰی بَنِیہِ، لَئِنْ حَدَّثْتُکُمْ شَیْئًا فَعَرَفْتُمُوہُ لَتُتَابِعُنِّی عَلَی الْإِسْلَامِ۔)) قَالُوْا: فَذٰلِکَ لَکَ، قَالَ: ((فَسَلُونِی عَمَّا شِئْتُمْ۔)) قَالُوْا: أَ خْبِرْنَا عَنْ أَ رْبَعِ خِلَالٍ نَسْأَ لُکَ عَنْہُنَّ، أَ خْبِرْنَا أَ یُّ الطَّعَامِ حَرَّمَ إِسْرَائِیلُ عَلَی نَفْسِہِ مِنْ قَبْلِ أَ نْ تُنَزَّلَ التَّوْرَاۃُ؟ وَأَخْبِرْنَا کَیْفَ مَائُ الْمَرْأَ ۃِ وَمَائُ الرَّجُلِ، کَیْفَیَکُونُ الذَّکَرُ مِنْہُ؟ وَأَخْبِرْنَا کَیْفَ ہٰذَا النَّبِیُّ الْأُمِّیُّ فِی النَّوْمِ؟ وَمَنْ وَلِیُّہُ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ؟ قَالَ: ((فَعَلَیْکُمْ عَہْدُ اللّٰہِ وَمِیثَاقُہُ، لَئِنْ أَ نَا أَخْبَرْتُکُمْ لَتُتَابِعُنِّی۔)) قَالَ: فَأَ عْطَوْہُ مَا شَائَ مِنْ عَہْدٍ وَمِیثَاقٍ، قَالَ: ((فَأَ نْشُدُکُمْ بِالَّذِی أَ نْزَلَ التَّوْرَاۃَ عَلٰی مُوسٰی علیہ السلام ، ہَلْ تَعْلَمُونَ أَ نَّ إِسْرَائِیلَیَعْقُوبَ علیہ السلام مَرِضَ مَرَضًا شَدِیدًا، وَطَالَ سَقَمُہُ، فَنَذَرَ لِلّٰہِ نَذْرًا، لَئِنْ شَفَاہُ اللّٰہُ تَعَالٰی مِنْ سَقَمِہِ لَیُحَرِّمَنَّ أَحَبَّ الشَّرَابِ إِلَیْہِ وَأَحَبَّ الطَّعَامِ إِلَیْہِ، وَکَانَ أَحَبَّ الطَّعَامِ إِلَیْہِ لُحْمَانُ الْإِبِلِ، وَأَ حَبَّ الشَّرَابِ إِلَیْہِ أَ لْبَانُہَا؟)) قَالُوْا: اَللّٰہُمَّ نَعَمْ، قَالَ: ((اللّٰہُمَّ اشْہَدْ عَلَیْہِمْ، فَأَ نْشُدُکُمْ بِاللّٰہِ الَّذِی لَا اِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الَّذِی أَ نْزَلَ التَّوْرَاۃَ عَلٰی مُوسٰی، ہَلْ تَعْلَمُونَ أَ نَّ مَائَ الرَّجُلِ أَبْیَضُ غَلِیظٌ، وَأَ نَّ مَائَ الْمَرْأَ ۃِ أَ صْفَرُ رَقِیقٌ، فَأَ یُّہُمَا عَلَا کَانَ لَہُ الْوَلَدُ وَالشَّبَہُ بِإِذْنِ اللّٰہِ، إِنْ عَلَا مَائُ الرَّجُلِ عَلٰی مَائِ الْمَرْأَۃِ کَانَ ذَکَرًا بِإِذْنِ اللّٰہِ، وَإِنْ عَلَا مَائُ الْمَرْأَۃِ عَلٰی مَائِ الرَّجُلِ کَانَ أُنْثٰی بِإِذْنِ اللّٰہِ؟)) قَالُوْا: اللّٰہُمَّ نَعَمْ، قَالَ: ((اللّٰہُمَّ اشْہَدْ عَلَیْہِمْ، فَأَ نْشُدُکُمْ بِالَّذِی أَ نْزَلَ التَّوْرَاۃَ عَلٰیمُوسٰی، ہَلْ تَعْلَمُونَ أَ نَّ ہٰذَا النَّبِیَّ الْأُمِّیَّ تَنَامُ عَیْنَاہُ وَلَا یَنَامُ قَلْبُہُ؟)) قَالُوْا: اللّٰہُمَّ نَعَمْ، قَالَ: ((اللّٰہُمَّ اشْہَدْ۔)) قَالُوْا: وَأَ نْتَ الْآنَ فَحَدِّثْنَا مَنْ وَلِیُّکَ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ فَعِنْدَہَا نُجَامِعُکَ أَ وْ نُفَارِقُکَ، قَالَ: ((فَإِنَّ وَلِیِّیْ جِبْرِیلُ علیہ السلام ، وَلَمْ یَبْعَثِ اللّٰہُ نَبِیًّا قَطُّ إِلَّا وَہُوَ وَلِیُّہُ۔)) قَالُوْا: فَعِنْدَہَا نُفَارِقُکَ، لَوْ کَانَ وَلِیُّکَ سِوَاہُ مِنْ الْمَلَائِکَۃِ لَتَابَعْنَاکَ وَصَدَّقْنَاکَ، قَالَ: ((فَمَا یَمْنَعُکُمْ مِنْ أَ نْ تُصَدِّقُوہُ؟)) قَالُوْا: إِنَّہُ عَدُوُّنَا، قَالَ: فَعِنْدَ ذٰلِکَ قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیلَ فَإِنَّہُ نَزَّلَہُ عَلٰی قَلْبِکَ بِإِذْنِ اللّٰہِ} إِلَی قَوْلِہِ عَزَّ وَجَلَّ: {کِتَابَ اللّٰہِ وَرَائَ ظُہُورِہِمْ کَأَ نَّہُمْ لَا یَعْلَمُونَ} فَعِنْدَ ذٰلِکَ {بَائُ وْا بِغَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍ} الآیۃ۔ (مسند احمد: ۲۵۱۴)
۔ (دوسری سند) یہودیوں کی ایک جماعت ایک دن اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئی اورکہا: اے ابو القاسم! ہمیں چند باتیں بتائو، انہیں صرف نبی جانتا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو مرضی ہے پوچھو، لیکن اللہ تعالیٰ کے ذمہ کو مدنظررکھنا اور اسے بھی مدنظر رکھنا جو یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے ذمہ داری لی تھی کہ اگر میں تمہیں تمہارے سوالوں کے درست جوابات دے دوں تو پھر اسلام کے مطابق میری پیروی کرنا۔ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، یہ تمہارا حق ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب جو مرضی سوال کرو۔ انہوں نے کہا: ہمیں چار باتوں کے بارے میںبتاؤ،یعقوب علیہ السلام نے تورات نازل ہونے سے پہلے اپنے اوپر کونسا کھانا حرام کیا تھا، آدمی کا آب جوہر عورت کے آب جوہر پر غالب آ جائے تو مذکرکیسے بنتا ہے اور یہ اُمّی نبی نیند میں کیسے ہوتا ہے اورفرشتوں میں سے اس کا دوست کون ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا عہد و میثاق دیتا ہوںہے کہ اگر میں نے تمہیں جواب دیدیے تو تم میری اتباع کرو گے۔ انہوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ہر پختہ عہد دیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ جس نے موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل کی، کیا تم جانتے ہو کہ یعقوب علیہ السلام سخت بیمار پڑ گئے تھے اوران کی بیماری لمبی ہو گئی تھی، بالآخر انہوں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کو شفا دی تو وہ سب سے زیادہ محبوب مشروب اور سب سے زیاد ہ پسندیدہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ھانا حرام قرار دیں گے، اورانہیں سب سے زیادہ پیارا کھانا اونٹوں کا گوشت اور سب سے زیادہ پسندیدہ مشروب اونٹنیوں کا دودھ تھا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے میرے اللہ! ان پرگواہ رہنا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اس اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، جس کے سوا کوئی معبود نہیںاور جس نے موسیٰ علیہ السلام پرتورات نازل کی ہے، کیا تم جانتے ہو آدمی کا آب جوہر سفید اور گاڑھا ہوتاہے اور عورت کا پانی زرد اور باریک ہوتا ہے، ان میں سے جو بھی غالب آتا ہے، اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس سے مشابہت ہو جاتی ہے، اگر آدمی کا آب جوہر عورت کے پانی پر غالب آ جائے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے مذکر بن جاتا ہے اوراگر عورت کا آب جوہر آدمی کے مادۂ منویہ پرغالب آ جائے تو مؤنث پیدا ہوتی ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ جانتا ہےیہی بات ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے میرے اللہ! ان پرگواہ رہنا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اس اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل کی، کیا تم جانتے ہو اس اُمّی نبی کی آنکھیں سوتی ہیں اور اس کا دل نہیں سوتا؟ انہوں نے کہا: اللہ جانتا ہے کہ یہی بات ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے میرے اللہ! گواہ رہنا۔ انہوں نے کہا: آپ بھی اب اسی طرح ہیں، ہمیں بتائو فرشتوں میں سے آپ کا دوست کون ہے؟ یہ بتانے کے بعد یا تو ہم آپ سے مل جائیں گے یا جدا ہوں گے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرا دوست جبریل علیہ السلام ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو نبی بھی بھیجا ہے، یہی جبریل علیہ السلام اس کے دوست رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: تب تو ہم آپ سے علیحدہ ہوتے ہیں، اگر اس کے علاوہ کوئی اور فرشتہ آپ کا دوست ہوتا تو ہم آپ کی ا تباع کرتے اور تصدیق کرتے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہیں جبریل کی تصدیق میں کونسی چیز رکاوٹ ہے؟ انہوں نے کہا: یہ فرشتہ ہمارا دشمن ہے۔ اس وقت اللہ تعالی نے فرمایا : {قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہٗنَزَّلَہٗعَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَیَدَیْہِ وَھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ۔ … … کِتَابَ اللّٰہِ وَرَائَ ظُہُورِہِمْ کَأَ نَّہُمْ لَا یَعْلَمُونَ} … کہہ دے جو کوئی جبریل کا دشمن ہو تو بے شک اس نے یہ کتاب تیرے دل پر اللہ کے حکم سے اتاری ہے، اس کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے ہے اور مومنوں کے لیے سرا سر ہدایت اور خوشخبری ہے۔ … اللہ تعالی کی کتاب کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا، گویا کہ وہ نہیں جانتے تھے۔ پس اس وقت یہ لوگ دوہرے غضب کے ساتھ لوٹے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8488

۔ (۸۴۸۸)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُصَلِّیْ عَلٰی رَاحِلَتِہٖمُقْبِلًامِنْمَکَّۃَ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ حَیْثُ تَوَجَّہَتْ بِہٖ،وَفِیْہِ نَزَلَتْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃُ: {فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ}۔ (مسند احمد: ۵۴۴۷)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی سواری پر نماز پڑھ رہے تھے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف جا رہے تھے، سواری جدھر چاہتی متوجہ ہو جاتی، اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: {فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ} … جس طرف بھی تم پھرو، وہیں اللہ تعالیٰ کا چہر ہ ہے۔ (سورۂ بقرہ: ۱۱۵)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8489

۔ (۸۴۸۹)۔ عَنْ أَ نَسٍ قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: وَافَقْتُ رَبِّی فِی ثَلَاثٍ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! لَوِاتَّخَذْنَا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی، فَنَزَلَتْ: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی} وَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ نِسَائَ کَ یَدْخُلُ عَلَیْہِنَّ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ فَلَوْ أَمَرْتَہُنَّ أَ نْ یَحْتَجِبْنَ، فَنَزَلَتْ آیَۃُ الْحِجَابِ، وَاجْتَمَعَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نِسَاؤُہُ فِی الْغَیْرَۃِ، فَقُلْتُ لَہُنَّ: عَسٰی رَبُّہُ إِنْ طَلَّقَکُنَّ أَ نْ یُبْدِلَہُ أَ زْوَاجًا خَیْرًا مِنْکُنَّ۔ قَالَ: فَنَزَلَتْ کَذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۲۵۰)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے اپنے رب سے تین کاموں میں موافقت کی ہے، میں نے کہا: اگر ہم مقام ابراہیم کو جائے نماز بنالیں تو یہ آیت نازل ہوئی {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی}… تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کر لو۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کی عورتوں پر نیک اور بد سب داخل ہوتے ہیں، اگر آپ انہیں پردہ کرنے کا حکم دے دیں تو بہتر ہے، پس پردہ والی آیت نازل ہوئی اور جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیویاں غیرت کے معاملے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جمع ہوئیں تو میں نے کہا: ہو سکتا ہے کہ اگر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تم کو طلاق دے دیں تو اللہ تعالیٰ تمہارے بدلے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کوبہتر عورتیں دے دے، تو اسی طرح آیت نازل ہوئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8490

۔ (۸۴۹۰)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ قَوْلِہٖعَزَّوَجَلَّ: {وَکَذٰلِکَجَعَلْنَاکُمْاُمَّۃً وَّسَطًا} قَالَ: ((عَدَلًا۔)) (مسند احمد: ۱۱۲۹۱)
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالی کے فرمان {وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا کُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا} میں وَسَطًا کا معنی عادل بیان کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8491

۔ (۸۴۹۱)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) عَنْ أَ بِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یُدْعٰی نُوحٌ علیہ السلام یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُقَالُ لَہُ: ہَلْ بَلَّغْتَ؟ فَیَقُولُ: نَعَمْ، فَیُدْعٰی قَوْمُہُ فَیُقَالُ لَہُمْ: ہَلْ بَلَّغَکُمْ؟ فَیَقُولُونَ: مَا أَ تَانَا مِنْ نَذِیرٍ أَ وْ مَا أَ تَانَا مِنْ أَ حَدٍ، قَالَ: فَیُقَالُ لِنُوحٍ: مَنْ یَشْہَدُ لَکَ؟ فَیَقُولُ مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُہُ: قَالَ: فَذٰلِکَ قَوْلُہُ: {وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطًا} قَالَ: الْوَسَطُ الْعَدْلُ، قَالَ: ((فَیُدْعَوْنَ فَیَشْہَدُونَ لَہُ بِالْبَلَاغِ۔))، قَالَ: ((ثُمَّ أَشْہَدُ عَلَیْکُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۱۳۰۳)
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: روزِ قیامت نوح علیہ السلام کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم نے پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے: جی ہاں، پھر ان کی قوم کو بلایا جائے گا اور ان سے کہاجائے گا: کیا نوح علیہ السلام نے تم تک پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے: ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ نوح علیہ السلام سے کہا جائے گا: اب کون آپ کے حق میں گواہی دے گا؟ وہ کہیں گے: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اوران کی امت، یہی صورت اللہ تعالی کے اس فرمان کی مصداق ہے: {وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا کُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا}… ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے۔ وَسَط کا معنی عادل ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پس میرے امت کے لوگوں کو بلایا جائے گا اور یہ نوح علیہ السلام کے حق میں گواہی دیں گے اور پھر میں تمہارے حق میں گواہی دوں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8492

۔ (۸۴۹۲)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا حُوِّلَتِ الْقِبْلَۃُ، قَالَ اُنَاسٌ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَصْحَابُنَا الَّذِیْنَ مَاتُوْا وَھُمْ یُصَلُّوْنَ اِلٰی بَیْتِ الْمَقْدِسِ، فَاَنْزَلَ اللّٰہُ: {وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ}۔ (مسند احمد: ۲۷۷۵)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بیان کرتے ہیں جب قبلہ تبدیل ہوا تو بعض لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمارے وہ ساتھی جو بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے اور پھر اسی حالت میں فوت ہو گئے، ان کا کیا بنے گا؟اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ} … اللہ تعالیٰ تمہاری نمازیں ضائع کرنے والا نہیں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8493

۔ (۸۴۹۳)۔ عَنْ أَ نَسٍ أَ نَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یُصَلِّی نَحْوَ بَیْتِ الْمَقْدِسِ، فَنَزَلَتْ: {قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَائِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضَاہَا فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ} فَمَرَّ رَجُلٌ مِنْ بَنِی سَلِمَۃَ، وَہُمْ رُکُوعٌ فِی صَلَاۃِ الْفَجْرِ، وَقَدْ صَلَّوْا رَکْعَۃً، فَنَادٰی أَ لَا إِنَّ الْقِبْلَۃَ قَدْ حُوِّلَتْ، أَ لَا إِنَّ الْقِبْلَۃَ قَدْ حُوِّلَتْ إِلَی الْکَعْبَۃِ، قَالَ: فَمَالُوْا کَمَا ہُمْ نَحْوَ الْقِبْلَۃِ۔ (مسند احمد: ۱۴۰۷۹)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیت المقدس کی جانب منہ کر کے نماز پڑھتے تھے، پھر جب یہ آیت نازل ہوئی: {قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَائِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضَاہَا فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ} … تحقیق ہم آپ کے چہرے کا آسمان کی جانب پلٹتا ہوا دیکھتے ہیں، ضرور ہم تمہیں اس قبلہ کی جانب پھیریں گے جسے تو پسند کرتا ہے، پس اپنے چہرے کو مسجد حرام کی جانب پھیر لو۔ تو ایک آدمی بنو سلمہ کے پاس سے گزرا، جبکہ وہ لوگ فجر کی نماز میں حالت رکوع میں تھے اور ایک رکعت انہوں نے پڑھ لی تھی، اس گزرنے والے نے آواز دی: خبردار! قبلہ تبدیل ہو چکا ہے، خبردار! قبلہ تبدیل ہو چکاہے اور اب کعبہ قبلہ ہے، تو وہ اسی حالت میں قبلہ کی طرف مڑ گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8494

۔ (۸۴۹۴)۔ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: صَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَحْوَ بَیْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّۃَ عَشَرَ شَہْرًا أَ وْ سَبْعَۃَ عَشَرَ شَہْرًا ثُمَّ وُجِّہَ إِلَی الْکَعْبَۃِ، وَکَانَ یُحِبُّ ذٰلِکَ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَائِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضَاہَا فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ} الْآیَۃَ، قَالَ: فَمَرَّ رَجُلٌ صَلّٰی مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْعَصْرَ عَلٰی قَوْمٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، وَہُمْ رُکُوعٌ فِی صَلَاۃِ الْعَصْرِ نَحْوَ بَیْتِ الْمَقْدِسِ، فَقَالَ: ہُوَ یَشْہَدُ أَ نَّہُ صَلّٰی مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَّہُ قَدْ وُجِّہَ إِلَی الْکَعْبَۃِ، قَالَ: فَانْحَرَفُوْا وَہُمْ رُکُوعٌ فِی صَلَاۃِ الْعَصْرِ۔ (مسند احمد: ۱۸۹۱۴)
۔ سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سولہ سترہ ماہ بیت المقدس کی جانب رخ کر کے نماز پڑھی، پھرآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کعبہ کی جانب متوجہ کر دیا گیا اور آپ کی پسند بھییہی قبلہ تھا، پس اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی:{قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَائِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضَاہَا فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ} … تحقیق ہم آپ کے چہرے کا آسمان کی جانب پلٹتا ہوا دیکھتے ہیں، ضرور ہم تمہیں اس قبلہ کی جانب پھیریں گے جسے تو پسند کرتاہے، پس اپنے چہرے کو مسجد حرام کی جانب پھیر لو۔ ایک آدمی،جس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نمازِ عصر ادا کی تھی، انصاری قوم کے پاس سے گزرا، جبکہ وہ رکوع کی حالت میں تھے، اس نے کہا: میں گواہی دیتاہوں کہ میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہے اورآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کعبہ کی جانب منہ کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے، وہ لوگ اسی وقت کعبہ کی طرف پھر گئے، جبکہ وہ رکوع کی حالت تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8495

۔ (۸۴۹۵)۔ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَ: قُلْتُ: أَ رَأَ یْتِ قَوْلَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَ وْ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أَ نْ یَطَّوَّفَ بِہِمَا} قَالَ: فَقُلْتُ: فَوَاللّٰہِ! مَا عَلَی أَ حَدٍ جُنَاحٌ أَ نْ لَا یَطَّوَّفَ بِہِمَا، فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: بِئْسَمَا قُلْتَ یَا ابْنَ أُخْتِی! إِنَّہَا لَوْ کَانَتْ عَلَی مَا أَ وَّلْتَہَا کَانَتْ {فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أَ نْ لَا یَطَّوَّفَ بِہِمَا} وَلَکِنَّہَا إِنَّمَا أُنْزِلَتْ أَ نَّ الْأَ نْصَارَ کَانُوْا قَبْلَ أَ نْ یُسْلِمُوْایُہِلُّونَ لِمَنَاۃَ الطَّاغِیَۃِ، الَّتِی کَانُوا یَعْبُدُونَ عِنْدَ الْمُشَلَّلِ، وَکَانَ مَنْ أَ ہَلَّ لَہَا تَحَرَّجَ أَ نْ یَطَّوَّفَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ، فَسَأَ لُوْا عَنْ ذَلِکَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّا کُنَّا نَتَحَرَّجُ أَ نْ نَطَّوَّفَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ} إِلٰی قَوْلِہِ: {فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أَ نْ یَطَّوَّفَ بِہِمَا} قَالَتْ عَائِشَۃُ: ثُمَّ قَدْ سَنَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الطَّوَافَ بِہِمَا فَلَیْسَیَنْبَغِی لِأَ حَدٍ أَ نْ یَدَعَ الطَّوَافَ بِہِمَا۔ (مسند احمد: ۲۵۶۲۵)
۔ عروہ سے مروی ہے، انھوں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے کہا: اس آیت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَ وْ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أَ نْ یَطَّوَّفَ بِہِمَا} … بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، تو جو کوئی اس گھر کا حج کرے، یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ دونوں کا خوب طواف کرے (سورۂ بقرہ:۱۵۸) میں نے کہا:اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کا طواف نہ بھی کیاجائے تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن سیدہ نے کہا: اے بھانجے! یہ تونے درست نہیں سمجھا، اگر یہ مطلب ہوتا جو تو بیان کر رہا ہے تو پھر قرآن کے الفاظ اس طرح ہوتے: {فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أَ نْ لَا یَطَّوَّفَ بِہِمَا} … پس اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان دونوں کا طواف نہ کرے۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے انصاری لوگ منات بت کے لئے احرام باندھتے تھے اور جس کی وہ عبادت کرتے تھے، وہ مشلل مقام میں تھا اور جو اس بت کے لئے احرام باندھتا تھا، وہ صفا اور مروہ کی سعی کرنے میں حرج سمجھتا تھا، جب انہوں نے اس بارے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا اور کہا: اے اللہ کے رسول! ہم جاہلیت میں صفا و مروہ کی سعی میں حرج محسوس کرتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أَ نْ یَطَّوَّفَ بِہِمَا} … بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، تو جو کوئی اس گھر کا حج کرے، یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ دونوں کا خوب طواف کرے۔ پھر سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی سعی کو مشروع قرار دیا ہے، لہٰذا کسی کے لائق نہیں ہے کہ وہ ان کا طواف چھوڑے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8496

۔ (۸۴۹۶)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) عَنْ عَائِشَۃَ فِی قَوْلِہِ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ} قَالَتْ: کَانَ رِجَالٌ مِنْ الْأَ نْصَارِ مِمَّنْ یُہِلُّ لِمَنَاۃَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، وَمَنَاۃُ صَنَمٌ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِینَۃِ، قَالُوْا: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! إِنَّا کُنَّا نَطُوفُ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ تَعْظِیمًا لِمَنَاۃَ، فَہَلْ عَلَیْنَا مِنْ حَرَجٍ أَ نْ نَطُوفَ بِہِمَا؟ فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَ وْ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أَ نْ یَطَّوَّفَ بِہِمَا}۔ (مسند احمد: ۲۵۸۱۲)
۔ سیدنا عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، انھوں نے اللہ تعالی کے فرمان { إِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَۃَ مِـنْ شَعَائِـرِ اللّٰہِ} کے بارے میں کہا: جو انصاری لوگ دورِ جاہلیت میں منات کے لیے احرام باندھتے تھے، مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک بت کا نام مناۃ تھا، انھوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! ہم صفااور مروہ کے درمیان منات کی تعظیم کے لئے سعی کیا کرتے تھے، کیا اب ان کی سعی کرنے میں ہم پرکوئی حرج تو نہیں ہے،پس اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَ وِ اعْتَمَرَ فَـلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أَ نْ یَطَّوَّفَ بِہِمَا} … بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، تو جو کوئی اس گھر کا حج کرے، یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ دونوں کا خوب طواف کرے
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8497

۔ (۸۴۹۷)۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: اُحِیْلَتِ الصَّلَاۃُ ثَلَاثَۃَ اَحْوَالٍ وَاُحِیْلَ الصِّیَامُ ثَلَاثَۃَ اَحْوَالٍ، فَاَمَّا اَحْوَالُ الصَّلَاۃِ فَإِنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ وَہُوَ یُصَلِّیْ سَبْعَۃَ عَشَرَ شَہْرًا إِلٰی بَیْتِ الْمَقْدِسِ (الْحَدِیْثَ) قَالَ: وَاَمَا اَحْوَالُ الصِّیَامِ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ فَجَعَل یَصُوْمُ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ، وَقَالَ یَزِیْدُ: فَصَامَ سَبْعَۃَ عَشَرَ شَہْرًا مِنْ رَبِیْعِ الْاَوَّلِ إِلٰی رَمَضَانَ، مِنْ کُلِّ شَہْرٍ ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ، وَصَامَ یَوْمَ عَاشُوْرَائَ، ثُمَّ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ فَرَضَ عَلَیْہِ الصِّیَامَ فَاَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ (إِلٰی ھٰذِہِ الآیَۃِ) وَعَلَی الَّذِیْنَیُطِیْقُوْنَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ} قَالَ: فَکَانَ مَنْ شَائَ صَامَ وَمَنْ شَائَ اَطْعَمَ مِسْکِیْنًا فَاَجْزَأَ ذَالِکَ عَنْہُ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اَنْزَلَ اْلآیَۃَ الْاُخْرٰی: {شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنْزِلَ فیِہِ الْقُرْآنُ (إِلٰی قَوْلِہِ) فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ} فَاَثْبَتَ اللّٰہُ صِیَامَہُ عَلَی الْمُقِیْمِ الصَّحِیْحِ، وَرَخَّصَ فِیْہِ لِلْمَرِیْضِ وَالْمُسَافِرِ وَثَبَّتَ الإِطْعَامَ لِلْکَبِیْرِ الَّذِی لَایَسْتَطِیْعُ الصِّیَامَ فَھٰذَانِ حَالَانِ، قَالَ: وَکَانُوْا یَاْکُلُوْنَ وَیَشْرَبُوْنَ، وَیَاْتُوْنَ النِّسَائَ مَالَمْ یَنَامُوْا فَإِذَا نَامُوْا اِمْتَنَعُوْا، قَالَ: ثُمَّ إِنَّ رَجُلاً مِنَ الْاَنْصَارِ یُقَالُ لَہُ صِرْمَۃُ، ظَلَّ یَعْمَلُ صَائِمًا حَتّٰی اَمْسٰی فَجَائَ إِلٰی اَہْلِہِ فَصَلَّی الْعِشَائَ ثُمَّ نَامَ فَلَمْ یَاْکُلْ، وَلَمْ یَشْرَبْ حَتَّی اَصْبَحَ فَاَصْبَحَ صَائِمًا، قَالَ: فَرَآہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَدْ جَہِدَ جَہْدًا شَدِیْدًا، قَالَ: ((مَالِیْ اَرَاکَ قَدْ جَہِدْتَّ جَہْدًا شَدِیْدًا؟۔)) قَالَ: یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ! إِنِّی عَمِلْتُ اَمْسِ فَجِئْتُ حِیْنَ جِئْتُ فَاَلْقَیْتُ نَفْسِی فَنِمْتُ وَاَصْبَحْتُ حِیْنَ اَصْبَحْتُ صَائِمًا، قَالَ: وَکَانَ عُمَرُ قَدْ اَصَابَ مِنَ النِّسَائِ مِنْ جَارِیَۃٍ اَوْ مِنْ حُرْۃٍ بَعْدَ مَانَامَ، وَاَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہٖوَصَحْبِہِوَسَلَّمَفَذَکَرَذَالِکَلَہُفَاَنْزَلَاللّٰہُ عَزَّوَجَّلَ: {اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ إلٰی نِسَائِکُمْ (إِلٰی قَوْلِہٖعَزَّوَجَلَّ) ثُمَّاَتِمُّوْاالصِّیامَ إِلٰی الَّیْلِ۔} (مسند احمد: ۲۲۴۷۵)
۔ سیدنامعاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ تین مراحل میں نماز کی فرضیت اور تین مراحل میں ہی روزے کی فرضیت ہوئی، نماز کے مراحل یہ ہیں: جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سترہ ماہ تک بیت اللہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے، …… (کتاب الصلاۃ میں مکمل حدیث گزر چکی ہے) روزے کے مراحل یہ ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہر ماہ میں تین روزے رکھا کرتے تھے، یزید راوی کہتا ہے: ربیع الاول سے لے کر ماہِ رمضان کے روزوں کی فرضیت تک کل سترہ ماہ کے دوران آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہر ماہ میں تین روزے رکھتے رہے، نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دس محرم کا روزہ بھی رکھا تھا، پھر اللہ تعالی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ماہِ رمضان کے روزے فرض کر دیئے اور یہ آیات نازل فرمائیں: {یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔} (اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں، جس طرح کہ تم سے پہلے والے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم پرہیزگار بن جائو۔ )نیز فرمایا: { وَعَلَی الَّذِیْنَیُطِیْقُوْنَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ} (اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں، وہ (روزہ کی بجائے) ایک مسکین کوبطور فدیہ کھانا کھلا دیا کریں۔) ان آیات پر عمل کرتے ہوئے جو آدمی چاہتا وہ روزہ رکھ لیتا اور جو کوئی روزہ نہ رکھنا چاہتا وہ بطورِ فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا اور یہی چیز اس کی طرف سے کافی ہو جاتی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا: {شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنْزِلَ فیِہِ الْقُرْآنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ} (ماہِ رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں لوگوں کو ہدایت کے لئے اور ہدایت کے واضح دلائل بیان کرنے کے لئے قرآن مجید نازل کیا گیا ہے، جو حق و باطل میں امتیاز کرنے والا ہے، اب تم میں سے جو آدمی اس مہینہ کو پائے وہ روزے رکھے۔) اس طرح اللہ تعالیٰ نے مقیم اورتندرست آدمی پراس مہینے کے روزے فرض کر دیئے، البتہ مریض اور مسافر کو روزہ چھوڑنے کی رخصت دے دی اور روزہ کی طاقت نہ رکھنے والے عمر رسیدہ آدمی کے لیے روزے کا یہ حکم برقرار رکھا کہ وہ بطورِ فدیہ مسکین کو کھانا کھلا دیا کرے، یہ دو حالتیں ہو گئیں، تیسری حالت یہ تھی کہ لوگ رات کو سونے سے پہلے تک کھا پی سکتے تھے اور بیویوں سے ہم بستری کر سکتے تھے، لیکن جب نیند آ جاتی تو اس کے بعد یہ سب کچھ ان کے لئے ممنوع قرار پاتا تھا، ایک دن یوں ہوا کہ ایک صرمہ نامی انصاری صحابی روزے کی حالت میں سارا دن کام کرتا رہا، جب شام ہوئی تو اپنے گھر پہنچا اور عشاء کی نماز پڑھ کر کچھ کھائے پئے بغیر سو گیا،یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور اس طرح اس کا روزہ بھی شروع ہو چکا تھا، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے دیکھا کہ وہ کافی نڈھال ہوچکا تھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے پوچھا کہ: بہت نڈھال دکھائی دے رہے ہو، کیا وجہ ہے؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! کل سارا دن کام کرتا رہا، جب گھر آیا تو ابھی لیٹا ہی تھا کہ سو گیا( اور اس طرح میرے حق میں کھانا پینا حرام ہو گیا اور) جب صبح ہوئی تو میں نے تو روزے کی حالت میں ہی ہونا تھا۔ اُدھر سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بھی ایک معاملہ تھا کہ انھوں نے نیند سے بیدار ہونے کے بعد اپنی بیوییا لونڈی سے ہم بستری کر لی تھی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آ کر ساری بات بتلا دی تھی، اس وقت اللہ تعالی نےیہ حکم نازل فرمایا: {اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ إلٰی نِسَائِکُمْ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَا عَنْکُمْ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰییَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوْا الصِّیَامَ إِلَی الَّیْلِ۔} (روزے کی راتوںمیں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لیے حلال کیاگیا، وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو، تمہاری پوشیدہ خیانتوں کا اللہ تعالی کو علم ہے، اس نے تمہاری توبہ قبول فرما کر تم سے درگزر فرما لیا، اب تمہیں ان سے مباشرت کی اور اللہ تعالی کی لکھی ہوئی چیز کو تلاش کرنے کی اجازت ہے، تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے، پھر رات تک روزے کو پورا کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8498

۔ (۸۴۹۸)۔ عَن الْبَرَائِ قَالَ: کَانَ أَ صْحَابُ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا کَانَ الرَّجُلُ صَائِمًا فَحَضَرَ الْإِفْطَارُ فَنَامَ قَبْلَ أَ نْ یُفْطِرَ، لَمْ یَأْکُلْ لَیْلَتَہُ وَلَا یَوْمَہُ حَتّٰییُمْسِیَ، وَإِنَّ فُلَانًا الْأَنْصَارِیَّ کَانَ صَائِمًا، فَلَمَّا حَضَرَہُ الْإِفْطَارُ، أَ تَی امْرَأَ تَہُ،فَقَالَ: ہَلْ عِنْدَکِ مِنْ طَعَامٍ؟ قَالَتْ: لَا، وَلٰکِنْ أَنْطَلِقُ فَأَ طْلُبُ لَکَ، فَغَلَبَتْہُ عَیْنُہُ وَجَائَ تِ امْرَأَ تُہُ فَلَمَّا رَأَتْہُ قَالَتْ: خَیْبَۃٌ لَکَ فَأَ صْبَحَ، فَلَمَّا انْتَصَفَ النَّہَارُ غُشِیَ عَلَیْہِ، فَذُکِرَ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَنَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {أُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ إِلٰی نِسَائِکُمْ} إِلٰی قَوْلِہِ: {حَتّٰییَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْأَ بْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْأَسْوَدِ} قَالَ أَبُو أَحْمَدَ: وَإِنَّ قَیْسَ بْنَ صِرْمَۃَ الْأَ نْصَارِیَّ جَائَ فَنَامَ فَذَکَرَہُ۔ (مسند احمد: ۱۸۸۱۲)
۔ سیدنا برائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ صحابۂ کرام میں سے جب کوئی آدمی روزے دار ہوتا اور افطارکا وقت ہو جانے کے بعد افطاری کرنے سے پہلے سو جاتا تو وہ نہ اس رات کو کچھ کھا سکتا اور نہ اگلے دن کو، یہاں تک کہ اگلے دن کی شام ہو جاتی، ایک انصارییعنی سیدنا صرمہ بن قیسروزے دار تھے، جب افطاری کاوقت ہوا تو وہ اپنی بیوی کے پاس آئے اور کہا: کیا کچھ کھانے کے لیے ہے؟ اس نے کہا: جی نہیں، لیکن میں جاتی ہوں اور تمہارے لئے کچھ تلاش کر کے لاتی ہوں، اتنی دیر میں اس کی آنکھ لگ گئی، جب بیوی نے واپس آ کر دیکھا تو وہ کہنے لگی:ہائے ناکامی ہو تیرے لیے (اب کیا بنے گا)، پس اس نے اسی حالت میں صبح کی اور جب نصف دن گزر گیا تو وہ بیہوش ہو گیا، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ ساری صورتحال بتلائی گئی تو یہ آیت نازل ہوئی: {اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَائِکُمْ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَا عَنْکُمْ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰییَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ}… تمھارے لیے روزے کی رات اپنی عورتوں سے صحبت کرنا حلال کر دیا گیا ہے، وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔ اللہ نے جان لیا کہ بے شک تم اپنی جانوں کی خیانت کرتے تھے تو اس نے تم پر مہربانی فرمائی اور تمھیں معاف کر دیا، تو اب ان سے مباشرت کرو اور طلب کرو جو اللہ نے تمھارے لیے لکھا ہے اور کھاؤ اور پیو،یہاں تک کہ تمھارے لیے سیاہ دھاگے سے سفید دھاگا فجر کا خوب ظاہر ہو جائے (سورۂ بقرہ: ۱۸۷)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8499

۔ (۸۴۹۹)۔ عَنِ الشَّعْبِیِّ أَ خْبَرَنَا عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰییَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْأَ سْوَدِ} [البقرۃ: ۱۸۷] قَالَ: عَمَدْتُ إِلٰی عِقَالَیْنِ أَ حَدُہُمَا أَ سْوَدُ وَالْآخَرُ أَ بْیَضُ، فَجَعَلْتُہُمَا تَحْتَ وِسَادِی، قَالَ: ثُمَّ جَعَلْتُ أَ نْظُرُ إِلَیْہِمَا فَلَا تَبِینُ لِی الْأَسْوَدُ مِنْ الْأَبْیَضِ، وَلَا الْأَبْیَضُ مِنْ الْأَ سْوَدِ، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَ خْبَرْتُہُ بِالَّذِی صَنَعْتُ، فَقَالَ: ((إِنْ کَانَ وِسَادُکَ إِذًا لَعَرِیضٌ، إِنَّمَا ذٰلِکَ بَیَاضُ النَّہَارِ مِنْ سَوَادِ اللَّیْلِ۔)) (مسند احمد: ۱۹۵۸۷)
۔ سیدنا عدی بن حاتم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: {وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰییَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ}… اور کھاؤ اور پیو،یہاں تک کہ تمھارے لیے سیاہ دھاگے سے سفید دھاگا فجر کا خوب ظاہر ہو جائے (سورۂ بقرہ: ۱۸۷) تو میں عدی نے دو دھاگے لئے، ان میں سے ایک سیاہ تھا اور دوسرا سفید، میں نے انہیں اپنے تکیہ کے نیچے رکھ دیا، پھر میں نے انہیں دیکھنا شروع کردیا، لیکن میرے لئے نہ تو سیا ہ دھاگہ ظاہر ہوتاتھا اور نہ ہی سفید دھاگہ، جب صبح ہوئی تو میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا اور میں نے جو کچھ کیا تھا، وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیرا تکیہ تو بہت لمبا چوڑا ہے، اس سے یہ مراد تو دن کی سفیدی اور رات کی سیاہی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8500

۔ (۸۵۰۰)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) قَالَ: عَلَّمَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الصَّلَاۃَ وَالصِّیَامَ، قَالَ: ((صَلِّ کَذَا وَکَذَا، وَصُمْ فَإِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ فَکُلْ وَاشْرَبْ حَتّٰییَتَبَیَّنَ لَکَ الْخَیْطُ الْأَ بْیَضُ مِنْ الْخَیْطِ الْأَ سْوَدِ، وَصُمْ ثَلَاثِینَیَوْمًا إِلَّا أَ نْ تَرَی الْہِلَالَ قَبْلَ ذٰلِکَ۔))، فَأَ خَذْتُ خَیْطَیْنِ مِنْ شَعْرٍ أَ سْوَدَ وَأَ بْیَضَ، فَکُنْتُ أَ نْظُرُ فِیہِمَا، فَلَا یَتَبَیَّنُ لِی، فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَضَحِکَ، وَقَالَ: ((یَا ابْنَ حَاتِمٍ إِنَّمَا ذَاکَ بَیَاضُ النَّہَارِ مِنْ سَوَادِ اللَّیْلِ۔)) (مسند احمد: ۱۹۵۹۳)
۔ سیدنا عدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے، وہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے نماز اور روزہ کی تعلیم دی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فلاں وقت میں فلاں نماز پڑھو اور روزہ رکھو، جب سورج غروب ہوجائے تو پھرکھائو اور پیو،یہاں تک کہ سیاہ دھاگے سے سفید دھاگہ ظاہرہو جائے اور تیس دن روزے رکھو، الا یہ کہ چاند پہلے نظر آ جائے۔ میں نے سیاہ اور سفید بالوں سے دو دھاگے لیے اور ان کو دیکھنا شروع کردیا، لیکن وہ میرے لیے ظاہر نہیں ہوئے، جب میں نے اس بات کا ذکر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کیا تو آپ مسکرائے اور فرمایا: اے ابن حاتم! اس سے دن کی سفیدی اور رات کی سیاہی مراد ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8501

۔ (۸۵۰۱)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ یُحَدِّثُ عَنْ أَ بِیہِ قَالَ: کَانَ النَّاسُ فِی رَمَضَانَ، إِذَا صَامَ الرَّجُلُ فَأَ مْسٰی فَنَامَ حَرُمَ عَلَیْہِ الطَّعَامُ وَالشَّرَابُ وَالنِّسَائُ حَتّٰییُفْطِرَ مِنْ الْغَدِ، فَرَجَعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مِنْ عِنْدِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ لَیْلَۃٍ وَقَدْ سَہِرَ عِنْدَہُ، فَوَجَدَ امْرَأَ تَہُ قَدْ نَامَتْ، فَأَ رَادَہَا فَقَالَتْ: إِنِّی قَدْ نِمْتُ، قَالَ: مَا نِمْتِ ثُمَّ وَقَعَ بِہَا، وَصَنَعَ کَعْبُ بْنُ مَالِکٍ مِثْلَ ذٰلِکَ، فَغَدَا عُمَرُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَ خْبَرَہُ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {عَلِمَ اللّٰہُ أَ نَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَ نْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَا عَنْکُمْ} [البقرۃ: ۱۸۷]۔ (مسند احمد: ۱۵۸۸۸)
۔ سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ (شروع شروع میں) جب لوگ رمضان میں روزہ رکھتے اورآدمی شام ہو جانے یعنی غروب ِ آفتاب کے بعد سوجاتا تو اس پر کھانااور پینا اور بیویاں حرام ہو جاتیں،یہاں تک کہ وہ دوسرے دن افطار کرتا۔ ایک رات سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ جاگتے رہے اور (دیر سے) اپنے گھر کو لوٹے، جب وہ پہنچے تو بیوی کو دیکھا کہ وہ سوگئی ہے، جب انھوں نے اس سے صحبت کرنا چاہی تو اس نے کہا: میں تو سو گئی تھی (لہٰذا اب صحبت جائز نہیں رہی)، لیکن سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تو نہیں سوئی تھی، پھر انھوں نے حق زوجیت ادا کر لیا، اُدھر سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی ایسے ہی کیا، جب سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنے فعل سے مطلع کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {عَلِمَ اللّٰہُ أَ نَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَ نْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَا عَنْکُمْ}
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8502

۔ (۸۵۰۲)۔ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ أَ بِی لَیْلٰی عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْحُدَیْبِیَۃِ، وَنَحْنُ مُحْرِمُوْنَ وَقَدْ حَصَرَنَا الْمُشْرِکُوْنَ وَکَانَتْ لِی وَفْرَۃٌ فَجَعَلَتِ الْہَوَامُّ تَسَاقَطُ عَلٰی وَجْہِی، فَمَرَّ بِیَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((أَیُؤْذِیْکَ ہَوَامُّ رَأْسِکَ؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، فَأَمَرَہُ أَ نْ یَحْلِقَ، قَالَ: وَنَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا أَ وْ بِہٖٓأَذًی مِّنْ رَأْسِہِ فَفِدْیَۃٌ مِنْ صِیَامٍ أَوْ صَدَقَۃٍ أَوْ نُسُکٍ} [البقرۃ: ۱۹۶]۔ (مسند احمد: ۱۸۲۸۰)
۔ سیدنا کعب بن عجرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ حدیبیہ کے مقام پر احرام کی حالت میں تھے، مشرکین مکہ نے ہمیں آگے جانے سے روک دیا، میرے لمبے لمبے بال تھے اورجوئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا میرے پاس سے گزر ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کیا تمہارے سر کی جوئیں تمہیں تکلیف دے رہی ہیں؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے سر منڈانے کا حکم دیا اور یہ آیت نازل ہوئی: {فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا أَ وْ بِہٖٓأَذًی مِّنْ رَأْسِہِ فَفِدْیَۃٌ مِنْ صِیَامٍ أَ وْ صَدَقَۃٍ أَ وْ نُسُکٍ} (تم میں سے جو آدمی مریض ہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو، تو وہ بال منڈوا لے اور روزوں کا، یا صدقہ کا یا قربانی کا فدیہ دے)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8502

۔ (۸۵۰۲م)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَعْقِلٍ الْمُزَنِّیِّ قَالَ: قَعَدْتُّ إِلٰی کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ وَہُوَ فِیْ الْمَسْجِدِ (وَفِیْ لَفْظٍ: یَعْنِی مَسْجِدَ الْکُوْفَۃِ) فَسَأَ لْتُہُ عَنْ ہٰذِہِ الْآیَۃِ {فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ أَوْ صَدَقَۃٍ أَوْ نُسُکٍ} قَالَ: فَقَالَ کَعْبٌ: نَزَلَتْ فِیَّ، کَانَ بِیْ أَ ذًی مِنْ رَأْسِیْ فَحُمِلْتُ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالْقَمْلُ یَتَنَاثَرُ عَلٰی وَجْہِیِ، فَقَالَ: ((مَا کُنْتُ أَرٰی أَنَّ الْجَہْدَ بَلَغَ مِنْکَ مَا أَرٰی، أَتَجِدُ شَاۃً؟)) فَقُلْتُ: لَا، فَنَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ أَوْ صَدَقَۃٍ أَوْ نُسُکٍِ} قَالَ: صَوْمُ ثَلَاثَۃِ أَ یَّامٍ أَوْ إِطْعَامُ سِتَّۃِ مَسَاکِیْنَ، نِصْفَ صَاعٍ طَعَامٍ لِکُلِّ مِسْکِیْنٍ، قَالَ: فَنَزَلَتْ فِیَّ خَاصَّۃً وَہِیَ لَکُمْ عَامَّۃً۔ (مسند احمد: ۱۸۲۸۹)
۔ (دوسری سند) عبد اللہ بن معقل مزنی کہتے ہیں: میں کوفہ کی مسجد میں سیدنا کعب بن عجرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھا ہواتھا، میں نے ان سے اس آیت {فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ أَ وْ صَدَقَۃٍ أَ وْ نُسُکٍ} (سورۂ بقرہ: ۱۹۶) کی بابت پوچھا، انہوں نے کہا: یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی تھی، میرے سر میں جوئیں تھیں، جب مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لایا گیا تو جوئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرا خیالیہ تو نہیں تھا کہ تجھے اس قدر تکلیف اور مشقت ہو گی، کیا تم بکری ذبح کرنے کی استطاعت رکھتے ہو؟ میں نے کہا: جی نہیں، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: {فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ أَ وْ صَدَقَۃٍ أَ وْ نُسُکٍ} (سورۂ بقرہ: ۱۹۶) (روزوں یا صدقہ یا قربانی کی صورت میں فدیہ دینا ہے)۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تین دنوں کے روزے ہیںیا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے اور ہر مسکین کے لیے نصف صاع کھانا ہے۔ یہ آیت خاص طور پر میرے لیے نازل ہوئی، لیکن اس کا حکم تم سب کے لیے عام ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8503

۔ (۸۵۰۳)۔ عَنْ أَ بِی أُمَامَۃَ التَّیْمِیِّ قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: إِنَّا نُکْرِی، فَہَلْ لَنَا مِنْ حَجٍّ؟ قَالَ: أَ لَیْسَ تَطُوفُونَ بِالْبَیْتِ، وَتَأْتُونَ الْمُعَرَّفَ، وَتَرْمُونَ الْجِمَارَ، وَتَحْلِقُونَ رُئُ وْسَکُمْ؟ قَالَ: قُلْنَا: بَلٰی، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَأَلَہُ عَنْ الَّذِی سَأَلْتَنِی، فَلَمْ یُجِبْہُ حَتّٰی نَزَلَ عَلَیْہِ جِبْرِیلُ علیہ السلام بِہٰذِہِ الْآیَۃِ: {لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَ نْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِنْ رَبِّکُمْ} فَدَعَاہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((أَ نْتُمْ حُجَّاجٌ۔)) (مسند احمد: ۶۴۳۴)
۔ ابو امامہ تیمی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: ہم جانور کرائے پر دیتے ہیں، کیا ہمارا حج ہو جاتاہے؟ انھوں نے کہا: کیا تم بیت اللہ کا طواف نہیں کرتے، کیا تم عرفات میں نہیں جاتے، کیا جمروں کو کنکریاں نہیں مارتے اور کیا اپنے سرنہیں منڈواتے؟ ہم نے کہا:جی کیوں نہیں،یہ سب کچھ کرتے ہیں، سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ایک آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہی سوال کیا، جو تم نے مجھ سے پوچھا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا،یہاں تک کہ جبریل علیہ السلام اس آیت کے ساتھ نازل ہوئے: {لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَ نْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِنْ رَبِّکُمْ} … تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اپنے رب کا کوئی فضل تلاش کرو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آدمی کو بلایا اور فرمایا: تم حج کرنے والے ہی ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8504

۔ (۸۵۰۴)۔ عَنْ أَ بِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: حُرِّمَتْ الْخَمْرُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَدِینَۃَ، وَہُمْ یَشْرَبُونَ الْخَمْرَ، وَیَأْکُلُونَ الْمَیْسِرَ، فَسَأَ لُوْا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْہُمَا، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی نَبِیِّہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم {یَسْأَ لُونَکَ عَنْ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیہِمَا إِثْمٌ کَبِیرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُہُمَا أَ کْبَرُ مِنْ نَفْعِہِمَا} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ، فَقَالَ النَّاسُ: مَا حَرَّمَ عَلَیْنَا إِنَّمَا قَالَ: {فِیہِمَا إِثْمٌ کَبِیرٌ} وَکَانُوا یَشْرَبُونَ الْخَمْرَ حَتّٰی إِذَا کَانَ یَوْمٌ مِنْ الْأَ یَّامِ، صَلَّی رَجُلٌ مِنْ الْمُہَاجِرِینَ أَ مَّ أَ صْحَابَہُ فِی الْمَغْرِبِ، خَلَطَ فِی قِرَاء َتِہِ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ فِیہَا آیَۃً أَ غْلَظَ مِنْہَا: {یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاۃَ وَأَ نْتُمْ سُکَارٰی حَتّٰی تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ} وَکَانَ النَّاسُ یَشْرَبُونَ حَتّٰییَأْتِیَ أَ حَدُہُمْ الصَّلَاۃَ وَہُوَ مُفِیقٌ، ثُمَّ أُنْزِلَتْ آیَۃٌ أَ غْلَظُ مِنْ ذٰلِکَ: {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأَ نْصَابُ وَالْأَ زْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ} فَقَالُوْا: انْتَہَیْنَا رَبَّنَا! فَقَالَ النَّاسُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! نَاسٌ قُتِلُوْا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ أَ وْ مَاتُوا عَلٰی فُرُشِہِمْ کَانُوا یَشْرَبُونَ الْخَمْرَ، وَیَأْکُلُونَ الْمَیْسِرَ، وَقَدْ جَعَلَہُ اللّٰہُ رِجْسًا وَمِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ: {لَیْسَ عَلَی الَّذِینَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِیمَا طَعِمُوْا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا} إِلَی آخِرِ الْآیَۃِ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَوْ حُرِّمَتْ عَلَیْہِمْ لَتَرَکُوہَا کَمَا تَرَکْتُمْ۔)) (مسند احمد: ۸۶۰۵)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ شراب تین مرحلوں میں حرام کی گئی، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ شراب پیتے تھے اور جوا کی کمائی کھاتے تھے، جب انہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھاکہ شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے، تواللہ تعالی نے یہ حکم نازل کیا: {یَسْئَـلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ْ وَاِثْـمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا وَیَسْئَـلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ کَذٰلِکَ یُـبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ۔} … تجھ سے شراب اور جوئے کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دے ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے ہیں اور ان دونوں کا گناہ ان کے فائدے سے بڑا ہے۔ اور وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کیا چیز خرچ کریں، کہہ دے جو بہترین ہو۔ اس طرح اللہ تمھارے لیےکھول کر آیات بیان کرتا ہے، تاکہ تم غور و فکر کرو۔ (سورۂ بقرہ: ۲۱۹) لوگوں نے کہا:ابھی تک یہ ہم پر حرام نہیں کئے گئے، صرف اللہ تعالی نے یہ کہا ہے کہ ان میں بڑا گناہ ہے، اس لئے انہوں نے شراب نوشی جاری رکھی،یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آیا کہ مہاجرین میں سے ایک آدمی نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی،یہ مغرب کی نماز تھی، اس نے قراء ت کو خلط ملط کردیا، تواللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں اس سے ذرا سخت حکم نازل کر دیااور فرمایا: {یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاۃَ وَأَ نْتُمْ سُکَارٰی حَتَّی تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ}… اے ایماندارو! جب تم نشے میں مست ہو تو نماز کے قریب نہ آیا کرو، جب تک تمہیںیہ معلوم نہ ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ پھر بھی لوگوں نے شراب نوشی جاری رکھی، لیکن اس انداز سے پیتے تھے کہ نماز تک ہوش میں آ جاتے تھے، بالآخر اس کے بارے میں سخت ترین ممانعت کا حکم نازل ہوا، سو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأَ نْصَابُ وَالْأَ زْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ}… اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور شرک کے لیے نصب کردہ چیزیں اور فال کے تیر سراسر گندے ہیں، شیطان کے کام سے ہیں، سو اس سے بچو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (سورۂ مائدہ: ۹۰) تب لوگوں نے کہا: اب ہم باز آگئے ہیں، پھر کچھ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوچکے ہیںیا طبعی موت فوت ہوئے ہیں، جبکہ وہ شراب پیتے تھے اورجوے کی کمائی کھاتے تھے اور اب اسے اللہ تعالیٰ نے اس کو پلید اور شیطانی عمل قراردیا ہے، تو اس وقت اللہ تعالییہ حکم نازل فرمایا: {لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْٓا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔}… ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جو وہ کھا چکے، جب کہ وہ متقی بنے اور ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، پھر وہ متقی بنے اور ایمان لائے، پھر وہ متقی بنے اور انھوں نے نیکی کی اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (سورۂ مائدہ: ۹۳) پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر یہ ان کی زندگی میں حرام ہوتے تو وہ بھی انہیں اسی طرح چھوڑ دیتے، جس طرح تم نے چھوڑ دی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8505

۔ (۸۵۰۵)۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَمَّا نَزَلَ تَحْرِیمُ الْخَمْرِ، قَالَ: اللّٰہُمَّ بَیِّنْ لَنَا فِی الْخَمْرِ بَیَانًا شَافِیًا، فَنَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ الَّتِی فِی سُورَۃِ الْبَقَرَۃِ: {یَسْأَ لُونَکَ عَنْ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیہِمَا إِثْمٌ کَبِیرٌ} قَالَ: فَدُعِیَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقُرِئَتْ عَلَیْہِ فَقَالَ: اللّٰہُمَّ بَیِّنْ لَنَا فِی الْخَمْرِ بَیَانًا شَافِیًا، فَنَزَلَتْ الْآیَۃُ الَّتِی فِی سُورَۃِ النِّسَائِ: {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاۃَ وَأَ نْتُمْ سُکَارٰی} فَکَانَ مُنَادِی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا أَ قَامَ الصَّلَاۃَ نَادٰی أَ نْ لَا یَقْرَبَنَّ الصَّلَاۃَ سَکْرَانُ، فَدُعِیَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقُرِئَتْ عَلَیْہِ فَقَالَ: اَللَّہُمَّ بَیِّنْ لَنَا فِی الْخَمْرِ بَیَانًا شَافِیًا، فَنَزَلَتْ الْآیَۃُ الَّتِی فِی الْمَائِدَۃِ، فَدُعِیَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقُرِئَتْ عَلَیْہِ فَلَمَّا بَلَغَ: {فَہَلْ أَنْتُمْ مُنْتَہُونَ} قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: انْتَہَیْنَا انْتَہَیْنَا۔ (مسند احمد: ۳۷۸)
۔ ابو میسرہ کہتے ہیں: جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے میرے اللہ! ہمارے لئے شراب کے بارے میں واضح اور تسلی بخش حکم بیان فرما، پس سورۂ بقرہ کییہ آیت نازل ہوئی: {یَسْأَ لُونَکَ عَنْ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیہِمَا إِثْمٌ کَبِیرٌ} … لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں، ان سے کہہ دو ان میں بڑا گناہ ہے۔ سیدنا عمرکو بلایا گیا اور انپر یہ آیت پڑھی گئی، لیکن انھوں نے کہا: اے میرے اللہ ! ہمارے لئے شراب کے بارے میں واضح اور تسلی بخش حکم نازل فرما۔ پس سورۂ نساء والی آیت نازل ہوئی {یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّـلَاۃَ وَ أَ نْتُمْ سُکَارٰی}… اے ایماندارو! جب نشہ میں مست ہو تو نماز کے قریب نہ آیا کرو۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا مؤذن جب نماز کے لیے اقامت کہنے لگتا تو وہ یہ آواز دیتا کہ کوئی نشے والا آدمی نماز کے قریب نہ آئے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلایا گیا اور یہ آیت ان پر پڑھی گئی۔ لیکن اب کی بار بھی انھوں نے کہا: اے میرے اللہ! شراب کے بارے میں واضح اور تسلی بخش حکم فرما۔ بالآخر جب سورۂ مائدہ والی آیت نازل ہوئی اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلا کر ان پر یہ آیت پڑھی گئی اور جب پڑھنے والا ان الفاظ {فَہَلْ أَ نْتُمْ مُنْتَہُونَ} پر پہنچا تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پکار اٹھے: اے ہمارے ربّ! ہم باز آ گئے ہم باز آ گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8506

۔ (۸۵۰۶)۔ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیمِ إِلَّا بِالَّتِی ہِیَ أَ حْسَنُ} عَزَلُوْا أَمْوَالَ الْیَتَامٰی حَتّٰی جَعَلَ الطَّعَامُ یَفْسُدُ وَاللَّحْمُ یُنْتِنُ، فَذُکِرَ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَزَلَتْ: {وَإِنْ تُخَالِطُوْہُمْ فَإِخْوَانُکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنْ الْمُصْلِحِ} قَالَ: فَخَالَطُوہُمْ۔ (مسند احمد: ۳۰۰۰)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نال ہوئی:{وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیمِ إِلَّا بِالَّتِی ہِیَ أَ حْسَنُ}… یتیم کے مال کے قریب نہ جائو، مگر اس طریقہ سے جو بہتر ہو۔ تولوگوں نے یتیموں کے مال علیحدہ کردئیے، جب علیحدہ کئے توان کا کھانا خراب ہونے لگا اورگوشت بدبودار ہونے لگا، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بات کا ذکر کیا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی: {وَإِنْ تُخَالِطُوْہُمْ فَإِخْوَانُکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ}… اگر تم یتیموں کے ساتھ مل جل کر رہو تو وہ تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالی فساد کرنے والے اور اصلاح کرنے والے کو جانتا ہے۔ اس حکم کے بعد صحابہ نے ان سے کھانا ملا لیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8507

۔ (۸۵۰۷)۔ عَنْ أَ نَسٍ أَ نَّ الْیَہُودَ کَانُوْا إِذَا حَاضَتِ الْمَرْأَ ۃُ مِنْہُمْ لَمْ یُؤَاکِلُوْہُنَّ وَلَمْ یُجَامِعُوہُنَّ فِی الْبُیُوتِ، فَسَأَ لَ أَ صْحَابُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {یَسْأَلُونَکَ عَنِ الْمَحِیضِ قُلْ ہُوَ أَ ذًی فَاعْتَزِلُوا النِّسَائَ فِی الْمَحِیضِ وَلَا تَقْرَبُوہُنَّ حَتّٰییَطْہُرْنَ} حَتّٰی فَرَغَ مِنَ الْآیَۃِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِصْنَعُوْا کُلَّ شَیْئٍ إِلَّا النِّکَاحَ۔)) فَبَلَغَ ذٰلِکَ الْیَہُودَ فَقَالُوْا: مَا یُرِیدُ ہٰذَا الرَّجُلُ أَ نْ یَدَعَ مِنْ أَ مْرِنَا شَیْئًا إِلَّا خَالَفَنَا فِیہِ، فَجَائَ أُسَیْدُ بْنُ حُضَیْرٍ وَعَبَّادُ بْنُ بِشْرٍ فَقَالَا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ الْیَہُودَ قَالَتْ: کَذَا وَکَذَا أَفَلَا نُجَامِعُہُنَّ؟ فَتَغَیَّرَ وَجْہُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی ظَنَنَّا أَ نَّہُ قَدْ وَجَدَ عَلَیْہِمَا فَخَرَجَا، فَاسْتَقْبَلَتْہُمَا ہَدِیَّۃٌ مِنْ لَبَنٍ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَأَ رْسَلَ فِی آثَارِہِمَا فَسَقَاہُمَا فَعَرَفَا أَنَّہُ لَمْ یَجِدْ عَلَیْہِمَا، (حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ قَالَ: سَمِعْت أَبِییَقُولُ: کَانَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ لَا یَمْدَحُ أَوْ یُثْنِی عَلٰی شَیْئٍ مِنْ حَدِیثِہِ إِلَّا ہٰذَا الْحَدِیثَ مِنْ جَوْدَتِہِ)۔ (مسند احمد: ۱۲۳۷۹)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب عورت حیض والی ہوتی تو یہودی نہ ان کے ساتھ کھاتے تھے اور نہ ان کے ساتھ اکٹھے گھروں میں رہتے تھے، جب صحابہ کرام نے اس بارے میں سوال کیا تواللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: {وَیَسْئَـلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ قُلْ ھُوَ اَذًیفَاعْتَزِلُوا النِّسَاء َ فِی الْمَحِیْضِ وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰییَـطْہُرْنَ فَاِذَا تَطَہَّرْنَ فَاْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّـوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ۔}… اور وہ تجھ سے حیض کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دے وہ ایک طرح کی گندگی ہے، سو حیض میں عورتوں سے علیحدہ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ، یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں، پھر جب وہ غسل کرلیں تو ان کے پاس آؤ جہاں سے تمھیں اللہ نے حکم دیا ہے۔ بے شک اللہ ان سے محبت کرتا ہے جو بہت توبہ کرنے والے ہیں اور ان سے محبت کرتا ہے جو بہت پاک رہنے والے ہیں۔ (سورۂ بقرہ: ۲۲۲) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ماسوائے جماع کے ہر چیز کر سکتے ہو۔ جب یہ بات یہودیوں تک پہنچی تو انہوں نے کہا: یہ آدمی تو ہر وقت یہی ارادہ رکھتا ہے کہ ہر معاملہ میں ہماری مخالفت کرے۔ سیدنا اسید بن حضیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عباد بن بشر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! یہودیوں نے آپ کے فرمان کے مقابلے میں یہ کہا ہے۔ کیا ہم اس حالت میں جماع بھی نہ کر لیا کریں (تاکہ یہودیوں کی اور زیادہ مخالفت ہو)؟ یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ تبدیل ہو گیا، ہم نے دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان دو صحابہ پر غصہ میں آ گئے ہیں، وہ دونوں ڈرتے ہوئے چلے گئے، بعد میں جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس دودھ کا تحفہ لایا گیا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو پیغام بھیجا اور ان کو یہ دودھ پلا دیا، اس سے انھوں نے پہنچان لیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان سے ناراض نہیں ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8508

۔ (۸۵۰۸)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ سَابِطٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی حَفْصَۃَ ابْنَۃِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَقُلْتُ: إِنِّی سَائِلُکِ عَنْ أَ مْرٍ وَأَ نَا أَ سْتَحْیِی أَ نْ أَ سْأَ لَکِ عَنْہُ، فَقَالَتْ: لَا تَسْتَحْیِییَا ابْنَ أَ خِی، قَالَ: عَنْ إِتْیَانِ النِّسَائِ فِی أَدْبَارِہِنَّ، قَالَتْ: حَدَّثَتْنِی أُمُّ سَلَمَۃَ أَ نَّ الْأَ نْصَارَ کَانُوْا لَا یُجِبُّونَ النِّسَائَ، وَکَانَتِ الْیَہُودُ تَقُولُ: إِنَّہُ مَنْ جَبَّی امْرَأَ تَہُ کَانَ وَلَدُہُ أَ حْوَلَ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمُہَاجِرُونَ الْمَدِینَۃَ، نَکَحُوْا فِی نِسَائِ الْأَ نْصَارِ فَجَبُّوہُنَّ فَأَ بَتْ امْرَأَۃٌ أَ نْ تُطِیعَ زَوْجَہَا، فَقَالَتْ لِزَوْجِہَا: لَنْ تَفْعَلَ ذٰلِکَ حَتّٰی آتِیَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَدَخَلَتْ عَلٰی أُمِّ سَلَمَۃَ فَذَکَرَتْ ذٰلِکَ لَہَا، فَقَالَتْ: اِجْلِسِی حَتّٰییَأْتِیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَلَمَّا جَائَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِسْتَحْیَتِ الْأَ نْصَارِیَّۃُ أَ نْ تَسْأَ لَہُ فَخَرَجَتْ، فَحَدَّثَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((اُدْعِی الْأَ نْصَارِیَّۃَ۔)) فَدُعِیَتْ فَتَلَا عَلَیْہَا ہٰذِہِ الْآیَۃَ: {نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوْا حَرْثَکُمْ أَنّٰی شِئْتُمْ} صِمَامًا وَاحِدًا۔ (مسند احمد: ۲۷۱۳۶)
۔ عبدالرحمن بن سابط کہتے ہیں: میں سیدنا حفصہ بنت عبدالرحمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس گیا اور کہا: میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں، لیکن حیاء مانع ہے۔ انہوں نے کہا: بھتیجے شرم مت کیجئے، میں نے کہا، عورتوں کے ساتھ ان کی دبر کی طرف سے جماع کرنے کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا:سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے مجھے بیان کیا کہ انصاری لوگ جماع کے دوران عورتوں کو اوندھے منہ نہیں لٹاتے تھے، کیونکہیہودیوں کا کہنا تھا کہ عورت کو اوندھا کر کے جماع کیا جائے تو اس سے بھینگا بچہ پیدا ہوتا ہے، جب مہاجرین مدینہ میں آئے اور انہوں نے انصار کی عورتوں سے شادیاں کیں اوران کو اوندھا کر کے جماع کرنا چاہا تو آگے سے ایک انصاری عورت نے اپنے خاوند کییہ بات ماننے سے انکار کر ددیا اور کہا:تم ایسا ہر گز نہ کر سکو گے، جب تک کہ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بارے میں پوچھ نہ لوں۔ پس وہ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس آئی اور ان سے اس بات کا ذکر کیا، انہوں نے کہا: بیٹھ جائو، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تشریف آوری تک اِدھر ہی ٹھہرو، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے تو انصاری عورت آپ سے پوچھنے سے شرما گئی اور باہر نکل گئی، جب سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اس بارے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت کیا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس انصاری خاتون کو بلائو۔ پس جب اس کو بلایا گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس پر یہ آیت تلاوت کی : {نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ}(سورۂ بقرہ: ۲۲۳) … تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں، اپنی کھتیوں میں جس طرح چاہو آؤ۔ لیکن سوراخ ایک ہی استعمال کرنا چاہیے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8509

۔ (۸۵۰۹)۔ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ: لَمَّا قَدِمَ الْمُہَاجِرُونَ الْمَدِینَۃَ عَلَی الْأَ نْصَارِ تَزَوَّجُوا مِنْ نِسَائِہِمْ، وَکَانَ الْمُہَاجِرُونَ یُجِبُّونَ، وَکَانَتْ الْأَ نْصَارُ لَا تُجَبِّی، فَأَرَادَ رَجُلٌ مِنْ الْمُہَاجِرِینَ امْرَأَتَہُ عَلٰی ذٰلِکَ فَأَبَتْ عَلَیْہِ حَتّٰی تَسْأَ لَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: فَأَ تَتْہُ فَاسْتَحْیَتْ أَ نْ تَسْأَ لَہُ فَسَأَ لَتْہُ أُمُّ سَلَمَۃَ فَنَزَلَتْ: {نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوْا حَرْثَکُمْ أَ نّٰی شِئْتُمْ} وَقَالَ: ((لَا إِلَّا فِی صِمَامٍ وَاحِدٍ۔)) (مسند احمد: ۲۷۲۳۳)
۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب مہاجرین مدینہ میں آئے تو انصاری خواتین سے شادیاں کیں، اب یہ مسئلہ پیدا ہوا مہاجر بیویوں کو اوندھا کر کے جماع کرتے تھے، جبکہ انصار اوندھا نہیں کرتے تھے، جب ایک مہاجر نے اپنی بیوی کو اوندھا کرکے جماع کرنا چاہا تو اس نے انکاور کر دیا اور کہا: جب تک میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھ نہیں لیتی، ایسا نہیں کرنے دوں گی، پس وہ آئی، لیکنیہ مسئلہ پوچھنے سے شرما گئی، سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا تو یہ آیت نازل ہوئی: {نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ}(سورۂ بقرہ: ۲۲۳) … تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں، اپنی کھتیوں میں جس طرح چاہو آؤ۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جماع نہ کرو، مگر ایک ہی سوراخ میں (جو مباشرت کے لیے ہے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8510

۔ (۸۵۱۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: اُنْزِلَتْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃُ: {نِسَائُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ} فِیْ اُنَاسٍ مِنَ الْاَنْصَارِ اَتَوُا النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَاَلُوْہُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِئْتِہَا عَلٰی کُلِّ حَالٍ اِذَا کَانَ فِی الْفَرْجِ۔)) (مسند احمد: ۲۴۱۴)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بیان کرتے ہیں کہ انصاری لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: {نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ}(سورۂ بقرہ: ۲۲۳) … تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں، اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ۔ لیکن سوراخ ایک ہی استعمال کرنا چاہیے۔ جب وہ لوگ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور اس بارے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ہر کیفیت کے ساتھ اپنی بیوی کے ساتھ جماع کر سکتے ہو، بشرطیکہ مباشرت والی شرمگاہ ہی استعمال کی جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8511

۔ (۸۵۱۱)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جَائَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ہَلَکْتُ، قَالَ: ((وَمَا الَّذِی أَ ہْلَکَکَ؟)) قَالَ: حَوَّلْتُ رَحْلِیَ الْبَارِحَۃَ، قَالَ: فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْہِ شَیْئًا، قَالَ: فَأَ وْحَی اللّٰہُ إِلٰی رَسُولِہِ ہٰذِہِ الْآیَۃَ: {نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوْا حَرْثَکُمْ أَ نّٰی شِئْتُمْ} ((أَ قْبِلْ وَأَ دْبِرْ وَاتَّقِ الدُّبُرَ وَالْحِیْضَۃَ۔)) (مسند احمد: ۲۷۰۳)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور کہا اے اللہ کے رسول! میں تو ہلاک ہو گیا ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کس چیز نے تجھے ہلاک کر دیا ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے گزشتہ رات کو اپنی بیوی سے پچھلی طرف سے اگلی شرمگاہ میں جماع کر لیا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں کوئی جواب نہ دیا، پس اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جانب یہ آیت وحی کی: {نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ} … تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں، اپنی کھتیوں میں جس طرح چاہو آؤ۔ لیکن سوراخ ایک ہی استعمال کرنا چاہیے۔ (سورۂ بقرہ: ۲۲۳) پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو اگلی طرف سے آ، یا پچھلی طرف سے، بہرحال دبر اور حیض کی حالت میں جماع کرنے سے بچ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8512

۔ (۸۵۱۲)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُصَلِّی الظُّہْرَ بِالْہَاجِرَۃِ، وَلَمْ یَکُنْیُصَلِّی صَلَاۃً أَ شَدَّ عَلٰی أَصْحَابِ النَّبِیِِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْہَا، قَالَ: فَنَزَلَتْ {حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰاۃِ الْوُسْطٰی} وَقَالَ: إِنَّ قَبْلَہَا صَلَاتَیْنِ وَبَعْدَہَا صَلَاتَیْنِ۔ (مسند احمد: ۲۱۹۳۱)
۔ سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ظہر کی نماز دوپہر کے وقت پڑھاتے تھے اور یہی نماز صحابہ کرام پر سب سے زیادہ سخت تھی، پس یہ آیت نازل ہوئی: {حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰاۃِ الْوُسْطٰی} … نمازوں کی حفاظت کرو اور خاص طور پر افضل نماز کی۔ پھر سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیونکہ دو نمازیں اس سے پہلے ہیں اور دو نمازیں اس کے بعد ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8513

۔ (۸۵۱۳)۔ عَنِ الزِّبْرِقَانِ أَ نَّ رَہْطًا مِنْ قُرَیْشٍ مَرَّ بِہِمْ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَہُمْ مُجْتَمِعُونَ، فَأَ رْسَلُوا إِلَیْہِ غُلَامَیْنِ لَہُمْ یَسْأَ لَانِہِ عَنْ الصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی، فَقَالَ: ہِیَ الْعَصْرُ، فَقَامَ إِلَیْہِ رَجُلَانِ مِنْہُمْ فَسَأَ لَاہُ، فَقَالَ: ہِیَ الظُّہْرُ، ثُمَّ انْصَرَفَا إِلٰی أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ فَسَأَ لَاہُ، فَقَالَ: ہِیَ الظُّہْرُ، إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یُصَلِّی الظُّہْرَ بِالْہَجِیرِ، وَلَا یَکُونُ وَرَائَہُ إِلَّا الصَّفُّ وَالصَّفَّانِ مِنْ النَّاسِ فِی قَائِلَتِہِمْ وَفِی تِجَارَتِہِمْ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی وَقُومُوْا لِلّٰہِ قَانِتِینَ} قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَیَنْتَہِیَنَّ رِجَالٌ أَ وْ لَأُحَرِّقَنَّ بُیُوتَہُمْ۔)) (مسند احمد: ۲۲۱۳۵)
۔ زبرقان سے مروی ہے کہ سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ قریش کے ایک گروہ کے قریب سے گزرے، وہ ایک جگہ پر جمع تھے، انہوں نے سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس دو غلام بھیجے، انھوں نے ان سے وسطی نماز کے بارے دریافت کیا، انہوں نے جواباً کہا: یہ عصر کی نماز ہے، لیکن ان میں سے دو آدمی کھڑے ہوئے اور کہاکہ یہ نمازِ ظہر ہے، پھر وہ دونوں سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئے اور ان سے یہ سوال کیا، انہوں نے بھی کہا یہ نماز ظہر ہے، اس کی تفصیلیہ ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دوپہر کے وقت نماز ظہر ادا کرتے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اقتدا میں نمازیوں کی ایک دو صفیں ہوتی تھیں،کوئی قیلولہ کر رہا ہوتا اور کوئی تجارت میں مصروف ہوتا، پس اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل کیا: {حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطَی وَقُومُوْا لِلَّہِ قَانِتِینَ}… نمازوں کی حفاظت کرو اور خاص طور پر نمازِ وسطیٰ کی اور اللہ تعالی کے لیے مطیع ہو کر کھڑے ہو جاؤ۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگ نماز چھوڑنے سے باز آ جائیں گے یا پھر میں ان کے گھر جلا دوں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8514

۔ (۸۵۱۴)۔ عَن الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: نَزَلَتْ {حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَصَلَاۃِ الْعَصْرِ} فَقَرَأْنَاہَا عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا شَائَ اللّٰہُ أَ نْ نَقْرَأَ ہَا لَمْ یَنْسَخْہَا اللّٰہُ، فَأَ نْزَلَ: {حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی} فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ: کَانَ مَعَ شَقِیقٍیُقَالُ لَہُ: أَ زْہَرُ، وَہِیَ صَلَاۃُ الْعَصْرِ، قَالَ: قَدْ أَ خْبَرْتُکَ کَیْفَ نَزَلَتْ وَکَیْفَ نَسَخَہَا اللّٰہُ تَعَالی، وَاللّٰہُ أَ عْلَمُ۔ (مسند احمد: ۱۸۸۷۶)
۔ سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب یہ آیت اتری {حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَصَلَاۃِ الْعَصْرِ}تو جب تک اللہ تعالی نے چاہا، ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عہد مبارک میں اس کی تلاوت کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے منسوخ نہیں کیا، پھر اللہ تعالی نے اس طرح نازل کر دی: {حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی}۔ شقیق راوی کے ساتھ ایک آدمی تھا، اس کا نام ازہر تھا، اس نے سیدنا براء سے دریافت کیا: نمازِ وسطیٰ سے مراد نمازِعصر ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے تمہیں بتا دیا ہے کہ یہ آیت کس طرح نازل ہوئی اور کس طرح منسوخ ہوئی، باقی اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8515

۔ (۸۵۱۵)۔ عَنْ أَ بِییُونُسَ مَوْلٰی عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَ نَّہُ قَالَ: أَ مَرَتْنِی عَائِشَۃُ أَ نْ أَ کْتُبَ لَہَا مُصْحَفًا، قَالَتْ: إِذَا بَلَغْتَ ہٰذِہِ الْآیَۃَ فَآذِنِّی {حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی} قَالَ: فَلَمَّا بَلَغْتُہَا آذَنْتُہَا فَأَ مْلَتْ عَلَیَّ {حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی وَصَلَاۃِ الْعَصْرِ وَقُومُوا لِلّٰہِ قَانِتِینَ} ثُمَّ قَالَتْ: سَمِعْتُہَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۵۹۶۴)
۔ مولائے عائشہ ابو یونس سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے لئے ایک مصحف لکھوں، اور کہا کہ جب میں اس آیت {حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطَی} پر پہنچوں تو مجھے بتانا،پس جب میں اس آیت پر پہنچا تو میں نے انہیں بتایا، انھوں نے اس آیت کییوں املاء کروائی: {حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطَی وَصَلَاۃِ الْعَصْرِ وَقُومُوا لِلَّہِ قَانِتِینَ} پھر انھوں نے کہا:میں نے یہ آیت اس طرح نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8516

۔ (۸۵۱۶)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ اَرْقَمَ قَالَ: کَانَ الرَّجُلُ یُکَلِّمُ صَاحِبَہٗعَلٰی عَہْدِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْحَاجَۃِ فِی الصَّلَاۃِ حَتّٰی نَزَلَتْ ھٰذِہِ الْآیَۃُ: {وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ} فَاُمِرْنَا بِالسُّکُوْتِ۔ (مسند احمد: ۱۹۴۹۳)
۔ سیدنا زید بن ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عہد ِ مبارک میں نماز کے دوران اپنی ضرورت کی بات کر سکتا تھا، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی: {وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ} … اور اللہ تعالیٰ کے لیے مطیع ہو کر کھڑے ہو جائو۔ پس ہمیںنماز میں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8517

۔ (۸۵۱۷)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((کُلُّ حَرْفٍ مِنَ الْقُرْاٰنِ یُذْکَرُ فِیْہِ الْقُنُوْتُ فَہُوَ الطَّاعَۃُ۔)) (مسند احمد: ۱۱۷۳۴)
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قرآن مجید میں جہاں بھی قنوت کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس سے مراد اطاعت ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8518

۔ (۸۵۱۸)۔ عَنْ أَ سْمَاء َ بِنْتِ یَزِیدَ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((فِی ہَذَیْنِ الْآیَتَیْنِ: {اَللّٰہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ} وَ {الٓمٓ اللّٰہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ} إِنَّ فِیہِمَا اسْمَ اللّٰہِ الْأَ عْظَمَ)) (مسند احمد: ۲۸۱۶۳)
۔ سیدہ اسماء بنت یزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان دو آیتوں میںاللہ تعالی کا اسم اعظم ہے:{اَللَّہُ لَا اِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ} اور {الٓمٓ اللّٰہُ لَا اِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ}۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8519

۔ (۸۵۱۹)۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ غِیَاثٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَ بَا السَّلِیلِ: قَالَ: کَانَ رَجُلٌ مِنْ أَ صْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُحَدِّثُ النَّاسَ حَتّٰییُکْثَرَ عَلَیْہِ، فَیَصْعَدَ عَلٰی ظَہْرِ بَیْتٍ فَیُحَدِّثَ النَّاسَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَ یُّ آیَۃٍ فِی الْقُرْآنِ أَعْظَمُ؟)) قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ: {اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ} قَالَ: فَوَضَعَ یَدَہُ بَیْنَ کَتِفَیَّ، قَالَ: فَوَجَدْتُ بَرْدَہَا بَیْنَ ثَدْیَیَّ، أَ وْ قَالَ: فَوَضَعَ یَدَہُ بَیْنَ ثَدْیَیَّ فَوَجَدْتُ بَرْدَہَا بَیْنَ کَتِفَیَّ، قَالَ: ((یَہْنِکَیَا أَ بَا الْمُنْذِرِ الْعِلْمَ الْعِلْمَ۔)) (مسند احمد: ۲۰۸۶۴)
۔ ابو سلیل سے مروی ہے کہ ایک صحابی لوگوں کو احادیث بیان کرتا، یہاں تک کہ جب لوگوں کی تعداد بڑھ گئی تو وہ گھر کی چھت پر چڑھ کر لوگوں کو احادیث سنانے لگا، ایک حدیثیہ تھی: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: قرآن مجید میں کونسی آیت سب سے عظمت والی ہے؟ ایک آدمی نے جواب دیا اور کہا: {اَللَّہُ لَا اِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ} یعنی آیۃ الکرسی،یہ جواب سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ہاتھ اس کے کندھوں پر رکھا، اس نے کہا:میں نے اپنے سینے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ کی ٹھنڈک محسوس کی،یا اس صحابی نے یوں کہا: پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھا اور میں نے اپنے کندھوں کے مابین اس کی ٹھنڈک محسوس کی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابو منذر! تجھے یہ علم مبارک ہو، یہ واقعی علم ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8520

۔ (۸۵۲۰)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ رَبَاحٍ عَنْ أُبَیٍّ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَأَ لَہُ ((أَ یُّ آیَۃٍ فِی کِتَابِ اللّٰہِ أَعْظَمُ؟)) قَالَ: اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَ عْلَمُ، فَرَدَّدَہَا مِرَارًا، ثُمَّ قَالَ أُبَیٌّ: آیَۃُ الْکُرْسِیِّ، قَالَ: ((لِیَہْنِکَ الْعِلْمُ أَ بَا الْمُنْذِرِ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ إِنَّ لَہَا لِسَانًا وَشَفَتَیْنِ تُقَدِّسُ الْمَلِکَ عِنْدَ سَاقِ الْعَرْشِ۔)) (مسند احمد: ۲۱۶۰۲)
۔ سیدنا ابی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے سوال کیا: اللہ کی کتاب میں کونسی آیت سے سب سے زیادہ عظمت والی ہے؟ میں نے کہا:اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں،لیکن آپ نے یہ سوال کئی بار دہرایا، بالآخر میں نے کہا: وہ آیۃ الکرسیہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابو منذر! تجھے تیرا علم مبارک ہو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس آیت کی ایک زبان اور دو ہونٹ ہیں،یہ عرش کے پائے کے پاس اللہ بادشاہ کی پاکیزگی بیان کرتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8521

۔ (۸۵۲۱)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَ بِی لَیْلٰی، عَنْ أَ بِی أَ یُّوبَ أَ نَّہُ کَانَ فِی سَہْوَۃٍ لَہُ فَکَانَتِ الْغُولُ تَجِیْئُ، فَتَأْخُذُ فَشَکَاہَا إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((إِذَا رَأَ یْتَہَا فَقُلْ بِسْمِ اللّٰہِ أَ جِیبِی رَسُولَ اللّٰہِ۔)) قَالَ: فَجَائَ تْ، فَقَالَ لَہَا: فَأَ خَذَہَا، فَقَالَتْ لَہُ: إِنِّی لَا أَعُودُ فَأَ رْسَلَہَا، فَجَائَ فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا فَعَلَ أَ سِیرُکَ؟)) قَالَ: أَ خَذْتُہَا، فَقَالَتْ لِی: إِنِّی لَا أَ عُودُ فَأَ رْسَلْتُہَا، فَقَالَ: ((إِنَّہَا عَائِدَۃٌ۔)) فَأَ خَذْتُہَا مَرَّتَیْنِ أَ وْ ثَلَاثًا، کُلَّ ذَلِکَ یَقُولُ: لَا أَ عُودُ وَیَجِیئُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَیَقُولُ: ((مَا فَعَلَ أَ سِیرُکَ؟)) فَیَقُولُ: أَ خَذْتُہَا، فَیَقُولُ: لَا أَ عُودُ، فَیَقُولُ: ((إِنَّہَا عَائِدَۃٌ۔)) فَأَ خَذَہَا فَقَالَتْ: أَرْسِلْنِی وَأُعَلِّمُکَ شَیْئًا تَقُولُ فَلَا یَقْرَبُکَ شَیْئٌ آیَۃَ الْکُرْسِیِّ، فَأَ تَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرَہُ فَقَالَ: ((صَدَقَتْ وَہِیَ کَذُوبٌ۔)) (مسند احمد: ۲۳۹۹۰)
۔ سیدنا ابو ایوب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں میں اپنے گھر میں چبوترے پر تھا، ایک جن بھوت آتا اور (مال وغیرہ) لے جاتا۔ میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس کی شکایت کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو جب اسے دیکھے تو کہنا بسم اللہ ! تو اللہ کے رسول کی بات قبول کر۔ جب وہ آیا تو میں نے اس سے یہی بات کہی اور اس کو پکڑ لیا، اس نے کہا: اب نہیں لوٹوں گا۔ پس میں نے اسے چھوڑ دیا،میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: قیدی کا کیا بنا۔ میں نے کہا: جی میں نے اسے پکڑ لیا تھا، جب اس نے دوبارہ نہ آنے کا وعدہ کیا تو میں نے اسے چھوڑ دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ پھر لوٹے گا۔ جب وہ پھر آیا تو میں نے اسے پکڑ لیا اور دو تین مرتبہ پکڑ کر چھوڑ دیا، وہ ہر دفعہ یہی کہتا تھا کہ وہ نہیں لوٹے گا اور میں جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جاتا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے: قیدی نے کیا کیا؟ میں نے کہا:جی میں اسے پکڑتا ہوں تو وہ یہ کہتا ہے کہ وہ نہیںلوٹے گا، سو میں اسے چھوڑ دیتا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: دیکھنا، وہ لوٹے گا۔ وہ تو واقعی آیا اور میں نے اس کو پکڑ لیا، اب کی بار اس نے کہا: مجھے جھوڑ دو، میں تمہیں ایسی چیز کی تعلیم دیتا ہوں کہ اس کی وجہ سے کوئی چیز تیرے قریب نہیں آئے گی، وہ آیۃ الکرسی ہے، جب میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور یہ بات بتلائی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ جھوٹا تو بہت ہے، لیکن تجھ سے اس نے سچ بولا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8522

۔ (۸۵۲۲)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((نَحْنُ اَحَقُّ بِالشَّکِّ مِنْ اِبْرَاھِیْمَ علیہ السلام اِذْ قَالَ: {رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْيِ الْمَوْتٰی قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلٰی وَلٰکِنْ لِیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ} (مسند احمد: ۸۳۱۱)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بہ نسبت شک کرنے کے زیادہ حقدار ہیں، جب انھوں نے کہا: {رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْيِ الْمَوْتٰی قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلٰی وَ لَکِنْ لِیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ} اور جب ابراہیم نے کہا اے میرے رب! مجھے دکھا تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا ؟ فرمایا اور کیا تونے یقین نہیں کیا ؟ کہا کیوں نہیں اور لیکن اس لیے کہ میرا دل پوری تسلی حاصل کر لے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8523

۔ (۸۵۲۳)۔ عَنْ أَ بِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: لَمَّا نَزَلَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : {لِلَّہِ مَا فِی السَّمٰوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ وَإِنْ تُبْدُوْا مَا فِی أَ نْفُسِکُمْ أَ وْ تُخْفُوہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ، فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَشَائُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَشَائُ وَاللّٰہُ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیرٌ} فَاشْتَدَّ ذٰلِکَ عَلٰی صَحَابَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَ تَوْا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ جَثَوْا عَلَی الرُّکَبِ، فَقَالُوْا: یَارَسُولَ اللّٰہِ! کُلِّفْنَا مِنْ الْأَ عْمَالِ مَا نُطِیقُ الصَّلَاۃَ وَالصِّیَامَ وَالْجِہَادَ وَالصَّدَقَۃَ، وَقَدْ أُنْزِلَ عَلَیْکَ ہٰذِہِ الْآیَۃُ وَلَا نُطِیقُہَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَ تُرِیدُونَ أَ نْ تَقُولُوْا کَمَا قَالَ أَ ہْلُ الْکِتَابَیْنِ مِنْ قَبْلِکُمْ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا، بَلْ قُولُوْا سَمِعْنَا وَأَ طَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَإِلَیْکَ الْمَصِیرُ۔)) فَقَالُوْا: سَمِعْنَا وَأَ طَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَإِلَیْکَ الْمَصِیرُ، فَلَمَّا أَ قَرَّ بِہَا الْقَوْمُ وَذَلَّتْ بِہَا أَ لْسِنَتُہُمْ أَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِی إِثْرِہَا: {آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ، کُلٌّ آمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَ حَدٍ مِنْ رُسُلِہِ} قَالَ عَفَّانُ: قَرَأَ ہَا سَلَّامٌ أَ بُو الْمُنْذِرِ یُفَرِّقُ {وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَأَ طَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَإِلَیْکَ الْمَصِیرُ} فَلَمَّا فَعَلُوْا ذَلِکَ نَسَخَہَا اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی بِقَوْلِہِ: {لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ} فَصَارَ لَہُ مَا کَسَبَتْ مِنْ خَیْرٍ وَعَلَیْہِ مَا اکْتَسَبَتْ مِنْ شَرٍّ، فَسَّرَ الْعَلَائُ ہٰذَا { رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِینَا أَ وْ أَ خْطَأْنَا} قَالَ: نَعَمْ، {رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا} قَالَ: نَعَمْ، {رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہِ} قَالَ: نَعَمْ، {وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَ نْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ۔} (مسند احمد: ۹۳۳۳)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی {لِلَّہِ مَا فِی السَّمَوَاتِ وَمَا فِی الْأَ رْضِ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِی أَ نْفُسِکُمْ أَ وْ تُخْفُوہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ، فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَشَائُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَشَائُ وَاللّٰہُ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیرٌ}… اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے اور اگر تم اسے ظاہر کرو جو تمھارے دلوں میں ہے، یا اسے چھپاؤ اللہ تم سے اس کا حساب لے گا، پھر جسے چاہے گابخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ یہ آیت صحابہ کرام پر بہت گراں گزری، وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور دو زانوں ہو کر بیٹھ گئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیں اس آیت میں ان اعمال کا مکلف بنایا گیا ہے، جن کی ہم طاقت رکھتے ہیں، نماز ہے، روزہ ہے، جہاد ہے، صدقہ ہے،(ہم ان اعمال کو سرانجام دے سکتے ہیں)، لیکن اب آپ پر جو آیت نازل ہوئی ہے، اس کی ہم میں طاقت نہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم بھی وہی بات دہرانا چاہتے ہو، جس طرح تم سے پہلے اہل کتاب نے کہا تھا کہ ہم نے سنا اور ہم نے نافرمانی کی، بلکہ یہ کہو کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطااعت کی، اے ہمارے پروردگار! ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری طرف لوٹنا ہے۔ صحابہ کرام نے کہا: ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی، اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری طرف لوٹنا ہے، جب لوگوں نے اس کا اقرار کیا اور ان کی زبانیں اس حکم کے سامنے پست ہوئیں تو اس کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا: {آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ، کُلٌّ آمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَ حَدٍ مِنْ رُسُلِہِ} عفان نے کہا: ابو منذر سلام نے یُفَرِّقُ پڑھا ہے، {وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَأَ طَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَإِلَیْکَ الْمَصِیرُ} جب صحابہ کرام نے ایسے ہی کیا تو اللہ تعالی اس آیت کے حکم کو اس فرمان کے ساتھ منسوخ کر دیا: {لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ} نفس کے حق میں وہ خیر ہے، جو وہ کمائے اور اسی پر وہ شرّ ہے، جس کا وہ ارتکاب کرے۔ { رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِینَا أَ وْ أَ خْطَأْنَا} اللہ تعالی نے کہا: ہاں {رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا} اللہ تعالی نے کہا: ہاں {رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہِ} اللہ تعالی نے کہا: ہاں،{وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَ نْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ۔}
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8524

۔ (۸۵۲۴)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {إِنْ تُبْدُوْا مَا فِی أَ نْفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ} قَالَ: دَخَلَ قُلُوبَہُمْ مِنْہَا شَیْئٌ لَمْ یَدْخُلْ قُلُوبَہُمْ مِنْ شَیْئٍ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((قُوْلُوْا سَمِعْنَا وَأَ طَعْنَا وَسَلَّمْنَا۔))، فَأَ لْقَی اللّٰہُ الْإِیمَانَ فِی قُلُوبِہِمْ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ کُلٌّ آمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَ حَدٍ مِنْ رُسُلِہٖ،وَقَالُوْاسَمِعْنَاوَأَطَعْنَاغُفْرَانَکَرَبَّنَاوَإِلَیْکَ الْمَصِیرُ، لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ، رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِینَا أَ وْ أَ خْطَأْنَا، رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا، رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَ نْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ} (قَالَ اَبُوْعَبْدِ الرَّحْمٰنِ (یَعْنِیْ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الْاِمَامِ اَحْمَدَ): آدَمُ ھٰذَا ھُوَ اَبُوْ یَحْیَی بْنُ آدَمَ۔ (مسند احمد: ۲۰۷۰)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی {لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوَاتِ وَمَا فِی الْأَ رْضِ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِی أَ نْفُسِکُمْ أَ وْ تُخْفُوہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ…}… اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے اور اگر تم اسے ظاہر کرو جو تمھارے دلوں میں ہے، یا اسے چھپاؤ اللہ تم سے اس کا حساب لے گا۔ تو صحابہ کے دلوں میں ایک خیال گھس گیا اور وہ غمگین ہو گئے، لیکن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کہو کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کییا ہم نے تسلیم کیا، پس اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایمان ڈال دیا اور اتنے میں یہ آیات نازل کر دیں: {اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖوَالْمُؤْمِنُوْنَکُلٌّاٰمَنَبِاللّٰہِوَمَلٰیِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖوَرُسُلِہٖلَانُفَرِّقُبَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖوَقَالُوْاسَمِعْنَاوَاَطَعْنَاغُفْرَانَکَرَبَّنَاوَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ۔لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖوَاعْفُعَنَّاوَاغْفِرْلَنَاوَارْحَمْنَااَنْتَمَوْلٰینَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ۔}
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8525

۔ (۸۵۲۵)۔ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ: یَا أَ بَا عَبَّاسٍ کُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ فَقَرَأَ ہٰذِہِ الْآیَۃَ فَبَکٰی، قَالَ: أَ یَّۃُ آیَۃٍ قُلْتُ: {إِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ أَ نْفُسِکُمْ أَ وْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ} قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ ہٰذِہِ الْآیَۃَ حِینَ أُنْزِلَتْ غَمَّتْ أَ صْحَابَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَمًّا شَدِیدًا، وَغَاظَتْہُمْ غَیْظًا شَدِیدًا،یَعْنِی وَقَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ہَلَکْنَا إِنْ کُنَّا نُؤَاخَذُ بِمَا تَکَلَّمْنَا وَبِمَا نَعْمَلُ، فَأَ مَّا قُلُوبُنَا فَلَیْسَتْ بِأَ یْدِینَا، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((قُولُوْا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا۔)) قَالَ: فَنَسَخَتْہَا ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ} إِلٰی {لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ} فَتُجُوِّزَ لَہُمْ عَنْ حَدِیثِ النَّفْسِ وَأُخِذُوا بِالْأَ عْمَالِ۔ (مسند احمد: ۳۰۷۰)
۔ مجاہد کہتے ہیں: میں سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کے پاس داخل ہوا اور کہا: اے ابو عباس! میں سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کے پاس تھا، انھوں نے یہ آیت پڑھی اور رو پڑے، انھوں نے کہا: کون سی آیت؟ میں نے کہا: یہ آیت{لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوَاتِ وَمَا فِی الْأَ رْضِ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِی أَنْفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ…}… اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے اور اگر تم اسے ظاہر کرو جو تمھارے دلوں میں ہے، یا اسے چھپاؤ اللہ تم سے اس کا حساب لے گا۔ سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام سخت غمزہ ہوئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! ہم تو ہلاک ہو گئے ہیں، اگرہماری باتوں اور اعمال کی وجہ سے ہمارا مؤاخذہ کیا جائے (تو یہ تو ٹھیک ہے)، اب ہمارے دل تو ہمارے قابو میں نہیں ہے۔ آگے سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کہو: ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی۔ پھر اس آیت نے اس آیت کے حکم کو منسوخ کر دیا{آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ … … لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ} پس نفس کے خیالات کو معاف کر دیا گیا اور اعمال کا مؤاخذہ کیا گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8526

۔ (۸۵۲۶)۔ عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ عَنْ أُمَیَّۃَ أَ نَّہَا سَأَ لَتْ عَائِشَۃَ عَنْ ہٰذِہِ الْآیَۃِ: {إِنْ تُبْدُوْا مَا فِی أَ نْفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ} وَعَنْ ہٰذِہِ الْآیَۃِ: {مَنْ یَعْمَلْ سُوئً ا یُجْزَ بِہِ} فَقَالَتْ: مَا سَأَ لَنِی عَنْہُمَا أَ حَدٌ مُنْذُ سَأَلْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْہُمَا، فَقَالَ: ((یَا عَائِشَۃُ! ہٰذِہِ مُتَابَعَۃُ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ الْعَبْدَ بِمَا یُصِیبُہُ مِنْ الْحُمّٰی وَالنَّکْبَۃِ وَالشَّوْکَۃِ حَتَّی الْبِضَاعَۃُیَضَعُہَا فِی کُمِّہِ، فَیَفْقِدُہَا فَیَفْزَعُ لَہَا، فَیَجِدُہَا فِی ضِبْنِہِ، حَتّٰی إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَیَخْرُجُ مِنْ ذُنُوبِہِ کَمَا یَخْرُجُ التِّبْرُ الْأَ حْمَرُ مِنْ الْکِیرِ۔)) (مسند احمد: ۲۶۳۵۹)
۔ امیہ سے مروی ہے کہ اس نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے ان آیات کے بارے میں سوال کیا: {إِنْ تُبْدُوْا مَا فِی أَنْفُسِکُمْ أَ وْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ} اور {مَنْ یَعْمَلْ سُوئً ا یُجْزَ بِہِ} (جو کوئی برا عمل کرے گا، اس کو اس کا بدلہ دیا جائے گا) سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: جب سے میں نے ان کے متعلق نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا تھا، اس وقت سے اب تک کسی نے مجھ سے ان کے بارے میں سوال نہیں کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایاتھا: اے عائشہ! یہ اللہ تعالیٰ بندے کا مؤاخذہ کرتے رہتے ہیں، ان عوارض کے ذریعے جو بندے کو لاحق ہوتے رہتے ہیں، مثلاً: بخار ہو گیا، مصیبت آ گئی، کانٹا چبھ گیا،یہاں تک کہ وہ سامان، جو بندہ اپنی آستیں میں رکھتا ہے، پھر اس کو گم پانے کی وجہ سے پریشان ہو جاتا ہے، اتنے میں اسی اپنی پہلو یا بغل میں پا لیتا ہے،(بیماریوں اور پریشانیوں کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے) یہاں تک کہ مومن اپنے گناہوں سے اس طرح صاف ہو جاتا ہے، جس طرح سونے کی سرخ ڈلی صاف ہو کر بھٹھی سے نکلتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8527

۔ (۸۵۲۷)۔ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ أَ نَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ کِتَابًا قَبْلَ أَ نْ یَخْلُقَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَ رْضَ بِأَ لْفَیْ عَامٍ فَأَ نْزَلَ مِنْہُ آیَتَیْنِ، فَخَتَمَ بِہِمَا سُورَۃَ الْبَقَرَۃِ، وَلَا یُقْرَئَانِِ فِی دَارٍ ثَلَاثَ لَیَالٍ، فَیَقْرَبَہَا الشَّیْطَانُ۔))، قَالَ عَفَّانُ: فَلَا تُقْرَبَنَّ۔ (مسند احمد: ۱۸۶۰۴)
۔ سیدنا نعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق سے دو ہزار سال قبل ایک دستاویز تحریر فرمائی، اس سے دو آیتیں اتاریں اور ان کے ذریعے سورۂ بقرہ کو مکمل کیا، جس گھر میں تین راتیںیہ دو آیتیں پڑھی جائیںگی، شیطان اس کے قریب نہیں پھٹک سکے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8528

۔ (۸۵۲۸)۔ عَنْ اَبِیْ مَسْعُوْدٍ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ قَرَاَ الْاٰیَتَیْنِ مِنْ آخِرِ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ فِیْ لَیْلَۃٍ کَفَتَاہُ۔)) (مسند احمد: ۱۷۲۲۴)
۔ سیدنا ابو مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا جو رات کو سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھے گا تو یہ اسے کفایت کریں گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8529

۔ (۸۵۲۹)۔ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ عَلَی الْمِنْبَرِ: ((اقْرَئُوْا ہَاتَیْنِ الْآیَتَیْنِ اللَّتَیْنِ مِنْ آخِرِ سُورَۃِ الْبَقَرَۃِ، فَإِنَّ رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ أَ عْطَاہُنَّ أَوْ أَعْطَانِیہِنَّ مِنْ تَحْتِ الْعَرْشِ۔)) (مسند احمد: ۱۷۵۸۲)
۔ سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے منبر پر براجمان ہو کر فرمایا: سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھا کرو، کیونکہ میرے رب نے مجھے عرش کے نیچے سے یہ عطاء کی ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8529

۔ (۸۵۲۹م)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِقْرَإِ الْاٰیَتَیْنِ مِنْ آخِرِ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ، فَاِنِّی اُعْطِیْتُہُمَا مِنْ تَحْتَ الْعَرْشِ۔)) (مسند احمد: ۱۷۴۵۷)
۔ (دوسری سند) سیدنا عقبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھا کر، یہ مجھے عرش کے نیچے سے عطا کی گئی ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8530

۔ (۸۵۳۰)۔ عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اُعْطِیْتُ خَوَاتِیْمَ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ مِنْ بَیْتِ کَنَزٍ مِنْ تَحْتِ الْعَرْشِ لَمْ یُعْطَہُنَّ نَبِیٌّ قَبْلِیْ۔)) (مسند احمد: ۲۱۶۷۲)
۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے سورۂ بقرہ کی آخری آیتیںعرش کے نیچے خزانے والے گھر سے عطا کی گئی ہیں اور مجھ سے پہلے کسی نبی کو یہ عطا نہیں کی گئیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8531

۔ (۸۵۳۱)۔ عَنْ أَ سْمَاء َ بِنْتِ یَزِیدَ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((فِی ہٰذَیْنِ الْآیَتَیْنِ: {اَللّٰہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ} وَ{الٓمٓ اللّٰہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ} إِنَّ فِیہِمَا اسْمَ اللّٰہِ الْأَ عْظَمَ۔)) (مسند احمد: ۲۸۱۶۳)
۔ سیدہ اسماء بنت یزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان دو آیتوں میںاللہ تعالی کا اسم اعظم ہے:{اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ} اور {الٓمٓ اللّٰہُ لَا اِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ}
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8532

۔ (۸۵۳۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: قَرَأَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (({ہُوَ الَّذِی أَ نْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ، مِنْہُ آیَاتٌ مُحْکَمَاتٌ ہُنَّ أُمُّ الْکِتَابِ، وَأُخَرُ مُتَشَابِہَاتٌ، فَأَ مَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ زَیْغٌ، فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَائَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَاء َ تَأْوِیلِہِ، وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیلَہُ إِلَّا اللّٰہُ وَالرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ، یَقُولُونَ آمَنَّا بِہِ کُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا، وَمَا یَذَّکَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَ لْبَابِ} [آل عمران: ۷] فَإِذَا رَأَ یْتُمُ الَّذِینَیُجَادِلُونَ فِیہِ، فَہُمْ الَّذِینَ عَنَی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فَاحْذَرُوہُمْ۔ (مسند احمد: ۲۴۷۱۴)
۔ سیدنا عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان آیات کی تلاوت کی: وہی ہے جس نے تجھ پر یہ کتاب اتاری، جس میں سے کچھ آیات محکم ہیں، وہی کتاب کی اصل ہیں اور کچھ دوسری کئی معنوں میں ملتی جلتی ہیں، پھر جن لوگوں کے دلوں میں تو کجی ہے وہ اس میں سے ان کی پیروی کرتے ہیں جو کئی معنوں میں ملتی جلتی ہیں، فتنے کی تلاش کے لیے اور ان کی اصل مراد کی تلاش کے لیے، حالانکہ ان کی اصل مراد نہیں جانتا مگر اللہ اور جو علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے، سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نصیحت قبول نہیں کرتے مگر جو عقلوں والے ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم قرآن میں جھگڑنے والوں کو دیکھو تو وہی وہ فتنہ پرور لوگ ہوں گے، جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ ان سے بچو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8533

۔ (۸۵۳۳)۔ عَنْ أَ بِی غَالِبٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَۃَیُحَدِّثُ عَنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی قَوْلِہِ عَزَّوَجَلَّ: {فَأَ مَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ} قَالَ: ((ہُمْ الْخَوَارِجُ۔)) وَفِی قَوْلِہِ: {یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوہٌ} قَالَ: ((ہُمْ الْخَوَارِجُ۔)) (مسند احمد: ۲۲۶۱۴)
۔ سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان {فَأَ مَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ} … پھر جن لوگوں کے دلوں میں تو کجی ہے وہ اس میں سے ان کی پیروی کرتے ہیں جو کئی معنوں میں ملتی جلتی ہیں۔ کے بارے میں فرمایا کہ یہ خوارج ہیں۔ اسی طرح {یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوہٌ}… اس دن کچھ چہرے سفید ہوں گے اور کچھ سیاہ کے بارے میں بھی فرمایا کہ ان سے مراد بھی خارجی ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8534

۔ (۸۵۳۴)۔ عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ بِعَرَفَۃَیَقْرَأُ ہٰذِہِ الْآیَۃَ: {شَہِدَ اللّٰہُ أَ نَّہُ لَا اِلٰہَ إِلَّا ہُوَ وَالْمَلَائِکَۃُ وَأُولُوا الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا اِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ} [آل عمران: ۱۸] وَأَ نَا عَلٰی ذٰلِکَ مِنْ الشَّاہِدِینَیَا رَبِّ۔)) (مسند احمد: ۱۴۲۱)
۔ سیدنا زبیر بن عوام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عرفات میں یہ آیت پڑھ رہے تھے: {شَہِدَ اللّٰہُ أَ نَّہُ لَا اِلٰہَ إِلَّا ہُوَ وَالْمَلَائِکَۃُ وَأُولُوا الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا اِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ} … اللہ نے گواہی دی کہ بے شک حقیقتیہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی، اس حال میں کہ وہ انصاف پر قائم ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے میرے ربّ! میں بھی اس پر گواہی دینے والوں میں سے ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8535

۔ (۸۵۳۵)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ اِلَّا نَخَسَہُ الشَّیْطَانُ فَیَسْتَھِلُّ صَارِخًا مِنْ نَخْسَۃِ الشَّیْطَانِ اِلَّا ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّہُ۔)) قَالَ اَبُوْھُرَیْرَۃَ: اِقْرَئُ وْا اِنْ شِئْتُمْ {اِنِّیْ اُعِیْذُھَا بِکَ وَذُرِّیَّتَھَا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ۔} (مسند احمد: ۷۱۸۲)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں ہے کوئی بچہ جو پیدا ہوتا ہے، مگر شیطان اس کو چوکا لگاتا ہے، وہ شیطان کے اس چوکے کی وجہ سے چیختا ہے، ما سوائے ابن مریم اور اس کی ماں کے۔ سیدنا ابو ہریرہ علیہ السلام نے کہا: اگر تم چاہتے ہو تو قرآن کایہ حصہ پڑھ لو: {اِنِّیْ اُعِیْذُھَا بِکَ وَذُرِّیَّتَہَا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ۔} بیشک میں اس کو اور اس کی اولاد کو تیری پناہ میں دیتی ہوں، شیطان مردود سے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8536

۔ (۸۵۳۶)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ حَلَفَ عَلٰییَمِینٍ ہُوَ فِیہَا فَاجِرٌ لِیَقْتَطِعَ بِہَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، لَقِیَ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَہُوَ عَلَیْہِ غَضْبَانُ۔)) فَقَالَ الْأَ شْعَثُ: فِیَّ کَانَ وَاللّٰہِ ذٰلِکَ، کَانَ بَیْنِی وَبَیْنَ رَجُلٍ مِنْ الْیَہُودِ أَ رْضٌ، فَجَحَدَنِی فَقَدَّمْتُہُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَ لَکَ بَیِّنَۃٌ؟۔)) قُلْتُ: لَا، فَقَالَ لِلْیَہُودِیِّ: ((احْلِفْ!۔)) فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِذَنْ یَحْلِفَ فَذَہَبَ بِمَالِی، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {إِنَّ الَّذِینَیَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اللّٰہِ وَأَ یْمَانِہِمْ ثَمَنًا قَلِیلًا} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ۔ (مسند احمد: ۳۵۹۷)
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے جھوٹی قسم اٹھائی تا کہ مسلمان کا مال ہتھیا لے تو وہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضب ناک ہوگا، اشعت بن قیس کہتے ہیں: اللہ کی قسم! یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی ہے، میرے اور ایکیہودی کے درمیان زمین کا جھگڑا ہوا، اس نے میرے خلاف انکار کردیا اور دعویٰ کیایہ زمین میری ہے۔ میں نے اس مقدمہ کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پیش کیا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے؟ میں نے کہا: جی نہیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہودی سے فرمایا: تو قسم اٹھا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ قسم اٹھا کر میرا مال لے جائے گا۔ پس اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: {اِنَّ الَّذِیْنَیَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اللّٰہِ وَاَیْمَانِہِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰیِکَ لَا خَلَاقَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ وَلَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْہِمْیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَا یُزَکِّیْہِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔} … بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے عوض تھوڑی قیمت لیتے ہیں، وہ لوگ ہیں کہ ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اللہ قیامت کے دن نہ ان سے بات کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (سورۂ آل عمران: ۷۷)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8537

۔ (۸۵۳۷)۔ عَنْ شَقِیقِ بْنِ سَلَمَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ اقْتَطَعَ مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِغَیْرِ حَقٍّ، لَقِیَ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَہُوَ عَلَیْہِ غَضْبَانُ۔))، قَالَ: فَجَائَ الْأَ شْعَثُ بْنُ قَیْسٍ فَقَالَ: مَا یُحَدِّثُکُمْ أَ بُو عَبْدِالرَّحْمَنِ؟ قَالَ: فَحَدَّثْنَاہُ، قَالَ: فِیَّ کَانَ ہٰذَا الْحَدِیثُ، خَاصَمْتُ ابْنَ عَمٍّ لِی إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی بِئْرٍ کَانَتْ لِی فِییَدِہِ فَجَحَدَنِی، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بَیِّنَتُکَ أَ نَّہَا بِئْرُکَ وَإِلَّا فَیَمِینُہُ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا لِی بِیَمِینِہِ وَإِنْ تَجْعَلْہَا بِیَمِینِہِ تَذْہَبْ بِئْرِی، إِنَّ خَصْمِی امْرُؤٌ فَاجِرٌ۔ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ اقْتَطَعَ مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِغَیْرِ حَقٍّ، لَقِیَ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَہُوَ عَلَیْہِ غَضْبَانُ۔)) قَالَ: وَقَرَأَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : {إِنَّ الَّذِینَیَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اللّٰہِ} الْآیَۃَ [آل عمران: ۷۷]۔ (مسند احمد: ۲۲۱۹۱)
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو کسی مسلمان کا حق ناجائز طریقہ سے مارتا ہے، وہ جب اللہ تعالیٰ سے ملے گا تو وہ اس پر غضب ناک ہوگا۔ اتنے میں سیدنا اشعث بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور انھوں نے لوگوں سے پوچھا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو کیا بیان کیا ہے؟ لوگوں نے ان کی بیان کی ہوئی بات بیان کی۔ سیدنا اشعث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ واقعہ میرے ساتھ پیش آیا تھا، مجھے اپنے ایک چچا زادسے کنوئیں کا مقدمہ پیش آیا، کنواں میرا تھا، لیکن اس نے مجھے دینے سے انکار کر دیا، اُدھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اشعث تمہارے پاس دلیل ہے کہ یہ کنواں تمہاراہے، وگرنہ آپ کا مد مقابل قسم اٹھا لے گا؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اس کی قسم کو کیا کروں،اگر آپ نے اس کی قسم کی روشنی میں فیصلہ کیا تو وہ تو کنواں لے جائے گا کیونکہ میرا مد مقابل فاجر آدمی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو کسی مسلمان کا مال ناحق ہتھیا لے گا، وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضب ناک ہو گا۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:{اِنَّ الَّذِیْنَیَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اللّٰہِ وَاَیْمَانِہِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰیِکَ لَا خَلَاقَ لَـہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ وَلَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْہِمْیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَا یُزَکِّیْہِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔} … بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے عوض تھوڑی قیمت لیتے ہیں، وہ لوگ ہیں کہ ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اللہ قیامت کے دن نہ ان سے بات کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (سورہ آل عمران: ۷۷)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8537

۔ (۸۵۳۷م)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: مَنْ حَلَفَ عَلٰییَمِینِ صَبْرٍ یَسْتَحِقُّ بِہَا مَالًا، وَہُوَ فِیہَا فَاجِرٌ، لَقِیَ اللّٰہَ وَہُوَ عَلَیْہِ غَضْبَانُ، وَإِنَّ تَصْدِیقَہَا لَفِی الْقُرْآنِ: {إِنَّ الَّذِینَیَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اللّٰہِ وَأَ یْمَانِہِمْ ثَمَنًا قَلِیلًا} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ، قَالَ: فَخَرَجَ الْأَ شْعَثُ وَہُوَ یَقْرَؤُہَا قَالَ: فِیَّ أُنْزِلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ، إِنَّ رَجُلًا ادَّعٰی رَکِیًّا لِی فَاخْتَصَمْنَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((شَاہِدَاکَ أَ وْ یَمِینُہُ۔)) فَقُلْتُ: أَمَا إِنَّہُ إِنْ حَلَفَ حَلَفَ فَاجِرًا، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ حَلَفَ عَلَییَمِیْنِ صَبْرٍ، یَسْتَحِقُّ بِہَا مَالًا، لَقِیَ اللّٰہَ وَھُوَ عَلَیْہِ غَضْبَانُ۔)) (مسند احمد: ۲۲۱۸۴)
۔ (دوسری سند)سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:جس نے جھوٹی قسم اٹھائی اور اس کے ذریعے مال کا حق دار بن گیا، جبکہ وہ اس میں فاجر ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضب ناک ہو گا، یہ آیت اس واقعہ کی تصدیق کرتی ہے: {اِنَّ الَّذِیْنَیَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اللّٰہِ وَاَیْمَانِہِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰیِکَ لَا خَلَاقَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ وَلَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْہِمْیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَا یُزَکِّیْہِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔} … بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے عوض تھوڑی قیمت لیتے ہیں، وہ لوگ ہیں کہ ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اللہ قیامت کے دن نہ ان سے بات کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (سورہ آل عمران: ۷۷) جب سیدنا اشعث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے تو وہ یہ آیت پڑھ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی، ایک آدمی نے میرے ایک کنوئیں کے بارے میں یہ دعویٰ کر دیا کہ یہ اس کا ہے، پس ہم دونوں جھگڑا لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حاضر ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: دو گواہ ہیں؟ وگرنہ اس کی قسم معتبر ہو گی۔ میں نے کہا: اس کی قسم تو فاجر کی قسم ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو جھوٹی قسم اٹھائے اور مال ہتھیائے تو وہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضب ناک ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8538

۔ (۸۵۳۸)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ رَجُلًا مِنَ الْاَنْصَارِ اِرْتَدَّ عَنِ الْاِسْلَامِ، وَلَحِقَ بِالْمُشْرِکِیْنَ فَاَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {کَیْفَیَہْدِی اللّٰہُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِہِمْ} اِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ [آل عمران: ۸۶]، فَبَعَثَ بِہَا قَوْمُہٗفَرَجَعَتَائِبًا،فَقَبِلَالنَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذٰلِکَ مِنْہُ وَخَلّٰی عَنْہُ۔ (مسند احمد: ۲۲۱۸)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ انصار میں سے ایک آدمی مرتد ہوا اور مشرکوں کے ساتھ مل گیا۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی {کَیْفَیَہْدِی اللّٰہُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِہِمْ وَشَہِدُوْٓا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّجَاء َھُمُ الْبَیِّنٰتُ وَاللّٰہُ لَایَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۔}… اللہ ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جنھوں نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا اور (اس کے بعد کہ) انھوں نے شہادت دی کہ یقینایہ رسول سچا ہے اور ان کے پاس واضح دلیلیں آچکیں اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (سورۂ آل عمران: ۸۶)۔ جب اس کی قوم نے اس تک یہ آیت پہنچائی تو وہ تائب ہو کر واپس آ گیا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے یہ چیز قبول کر لی اور اس کو آزاد چھوڑ دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8539

۔ (۸۵۳۹)۔ عَنْ قَتَادَۃَ حَدَّثَنَا أَ نَسُ بْنُ مَالِکٍ: أَ نَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یُجَائُ بِالْکَافِرِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، فَیُقَالُ لَہُ: أَ رَأَ یْتَ لَوْ کَانَ لَکَ مِلْئُ الْأَ رْضِ ذَہَبًا، أَ کُنْتَ مُفْتَدِیًا بِہِ؟ فَیَقُولُ: نَعَمْ، یَا رَبِّ!)) قَالَ: ((فَیُقَالُ: لَقَدْ سُئِلْتَ أَ یْسَرَ مِنْ ذٰلِکَ۔)) فَذٰلِکَ قَوْلُہُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَہُمْ کُفَّارٌ فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْ أَ حَدِہِمْ مِلْئُ الْأَ رْضِ ذَہَبًا وَلَوِ افْتَدٰی بِہِ} [آل عمران: ۹۱]۔ (مسند احمد: ۱۳۳۲۱)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: روز قیامت کافر کو لایا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا: اچھا یہ بتا کہ اگر تجھے زمین بھر سونا دے دیا جائے تو کیا اس عذاب سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اس کا فدیہ دے دے گا؟ وہ کہے گا: جی ہاں، اے میرے پروردگار! تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: (دنیا میں) تجھ سے اس سے آسان تر مطالبہ کیا گیا تھا (لیکن تو نے اس کو بھی پورا نہ کیا)۔ اللہ تعالی کے اس فرمان کا یہی مطلب ہے: {إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَہُمْ کُفَّارٌ فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْ أَ حَدِہِمْ مِلْئُ الْأَ رْضِ ذَہَبًا وَلَوِ افْتَدٰی بِہِ}… یقینا وہ لوگ جو کفر کی حالت میں مر گئے، اگر یہ زمین بھر سونا بھی فدیہ میں دے دیں تو ان سے قبول نہیں کیا جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8540

۔ (۸۵۴۰)۔ عَنْ أَ نَسٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ {لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ} [آل عمران: ۹۲] وَ {مَنْ ذَا الَّذِییُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا} [البقرۃ: ۲۴۵] قَالَ أَ بُو طَلْحَۃَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَحَائِطِی الَّذِی کَانَ بِمَکَانِ کَذَا وَکَذَا وَاللّٰہِ! لَوِ اسْتَطَعْتُ أَنْ أُسِرَّہَا لَمْ أُعْلِنْہَا، قَالَ: ((اِجْعَلْہُ فِی فُقَرَائِ أَہْلِکَ۔)) (مسند احمد: ۱۲۱۶۸)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں {لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّوْنَ}… تم ہر گز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے، تاآنکہ تم اپنی پسندیدہ چیزیں خرچ کرو اور {مَنْ ذَا الَّذِییُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا} … کون ہے جو اللہ تعالی کو قرضِ حسن دے۔ تو سیدنا ابوطلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرا فلاں فلاں جگہ والا باغ (مجھے سب سے زیادہ پسند ہے)، اگر ہمت ہوتی تو میں اس کو مخفی طور پر ہی صدقہ کرنا، کسی کو پتا نہ چلنے دینا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اسے اپنے رشتہ دار فقراء میں تقسیم کر دو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8541

۔ (۸۵۴۱)۔ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ: حَضَرَتْ عِصَابَۃٌ مِنْ الْیَہُودِ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوْا: یَا أَ بَا الْقَاسِمِ! حَدِّثْنَا عَنْ خِلَالٍ نَسْأَ لُکَ عَنْہُنَّ لَا یَعْلَمُہُنَّ إِلَّا نَبِیٌّ، فَکَانَ فِیمَا سَأَ لُوہُ أَ یُّ الطَّعَامِ حَرَّمَ إِسْرَائِیلُ عَلٰی نَفْسِہِ قَبْلَ أَ نْ تُنَزَّلَ التَّوْرَاۃُ، قَالَ: ((فَأَ نْشُدُکُمْ بِاللّٰہِ الَّذِی أَ نْزَلَ التَّوْرَاۃَ عَلٰی مُوسٰی، ہَلْ تَعْلَمُونَ أَ نَّ إِسْرَائِیلَیَعْقُوبَ علیہ السلام مَرِضَ مَرَضًا شَدِیدًا، فَطَالَ سَقَمُہُ فَنَذَرَ لِلّٰہِ نَذْرًا لَئِنْ شَفَاہُ اللّٰہُ مِنْ سَقَمِہِ لَیُحَرِّمَنَّ أَ حَبَّ الشَّرَابِ إِلَیْہِ وَأَ حَبَّ الطَّعَامِ إِلَیْہِ، فَکَانَ أَ حَبَّ الطَّعَامِ إِلَیْہِ لُحْمَانُ الْإِبِلِ، وَأَ حَبَّ الشَّرَابِ اِلَیْہِ اَلْبَانُہَا۔))، فَقَالُوْا: اللّٰہُمَّ نَعَمْ۔ (مسند احمد: ۲۴۷۱)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حاضر ہوئی اور کہا: اے ابو القاسم! ہم آپ سے چند باتیں پوچھتے ہیں، صرف نبی ان کا جواب دے سکتاہے، پھر انہوں نے جو سوال کئے تھے، ان میں سے ایک سوال یہ تھا: یعقوب علیہ السلام نے تو رات اترنے سے پہلے کونسا کھانا اپنے اوپر حرام کیا تھا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اس اللہ کے نام کا واسطہ دیتا ہوں، جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل کی ہے، کیا تم جانتے ہو کہ حضرت یعقوب علیہ السلام سخت بیمار ہوئے تھے، ان کی بیماری لمبی ہو گئی، بالآخر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لئے نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بیماری سے شفا دی تو وہ سب سے زیادہ محبوب مشروب اور سب سے زیادہ پیارا کھانا خود پر حرام کر دیں گے؟ جبکہ انہیں سب سے زیادہ پیارا کھانا اونٹ کا گوشت تھا اور سب سے زیادہ پسند مشروب اونٹنیوں کا دودھ تھا، انہوں نے اس چیز کو حرام کردیا۔ یہودیوں نے کہا اللہ کی قسم! درست ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8542

۔ (۸۵۴۲)۔ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ: { وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیلًا} [آل عمران: ۹۷] قَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَ فِی کُلِّ عَامٍ؟ فَسَکَتَ، فَقَالُوْا: أَفِی کُلِّ عَامٍ؟ فَسَکَتَ، قَالَ: ثُمَّ قَالُوْا: أَ فِی کُلِّ عَامٍ؟ فَقَالَ: ((لَا، وَلَوْ قُلْتُ: نَعَمْ لَوَجَبَتْ۔)) فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا لَا تَسْأَلُوْا عَنْ أَ شْیَائَ إِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ [المائدۃ: ۱۰۱]۔ (مسند احمد: ۹۰۵)
۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی {وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیلًا} … لوگوں پر اللہ کے لیے حج فرض ہے جو اس کی طرف راستہ کی طاقت رکھتا ہے۔ تو لوگوں نے کہا: ا ے اللہ کے رسول! کیا حج ہر سال فرض ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش رہے۔ انہوں نے پھر کہا: کیا حج ہر سال فرض ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہرسال فرض ہو جاتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: {یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئــَـلُوْا عَنْ اَشْیَاء َ اِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ وَاِنْ تَسْئــَـلُوْا عَنْہَا حِیْنَیُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَکُمْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہَا وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ۔}… اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان چیزوں کے بارے میں سوال مت کرو جو اگر تمھارے لیے ظاہر کر دی جائیں تو تمھیں بری لگیں اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جب قرآن نازل کیا جا رہا ہوگا تو تمھارے لیے ظاہر کر دی جائیں گی۔ اللہ نے ان سے در گزر فرمایا اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت برد بار ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8543

۔ (۸۵۴۳)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِیْ قَوْلِہٖعَزَّوَجَلَّ: {کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ} [آل عمران: ۱۱۰] قَالَ: ھُمُ الَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ مَکَّۃَ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۹۲۶)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ اللہ تعالی کا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرمان: {کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ}… تم بہترین امت ہو، جو لوگوں کے لئے نکالے گئے ہو۔ سے مراد وہ لوگ ہیں، جنہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8543

۔ (۸۵۴۳م)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) بِنَحْوِہٖوَفِیْہٖ: قَالَ اَصْحَابُ مُحَمَّدٍ الَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا مَعَہٗاِلَی الْمَدِیْنَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۹۸۷)
۔ (دوسری سند) ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اسی طرح کی روایت ہے، البتہ اس میں ہے: اس سے مراد نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ ہیں جنھوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8544

۔ (۸۵۴۴)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: أَ خَّرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَلَاۃَ الْعِشَائِ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَی الْمَسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ یَنْتَظِرُونَ الصَّلَاۃَ، قَالَ: ((أَ مَا إِنَّہُ لَیْسَ مِنْ أَ ہْلِ ہٰذِہِ الْأَ دْیَانِ أَ حَدٌ یَذْکُرُ اللّٰہَ ہٰذِہِ السَّاعَۃَ غَیْرُکُمْ۔)) قَالَ: وَأَ نْزَلَ ہٰؤُلَائِ الْآیَاتِ: {لَیْسُوا سَوَائً مِنْ أَ ہْلِ الْکِتَابِ} حَتّٰی بَلَغَ {وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلَنْ تُکْفَرُوْہُ وَاللّٰہُ عَلِیمٌ بِالْمُتَّقِینَ} [آل عمران: ۱۱۳۔ ۱۱۵] (مسند احمد: ۳۷۶۰)
۔ سیدناعبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز عشاء کو مؤخر کیا، پھر مسجد میں تشریف لائے، جبکہ لوگ نماز کا انتظار کر رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! اس وقت ان ادیان والوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے، جو اس وقت اللہ تعالی کا ذکر کر رہا ہو، ما سوائے تمہارے۔ اللہ تعالی نے یہ آیات نازل کی ہیں: {لَیْسُوْا سَوَاء ً مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَائِمَۃٌیَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَاء َ الَّیْلِ وَھُمْ یَسْجُدُوْنَ۔ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَاُولٰیِکَ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ۔ وَمَا یَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلَنْ یُّکْفَرُوْہُ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌبِالْمُتَّقِیْنَ۔}… وہ سب برابر نہیں۔ اہل کتاب میں سے ایک جماعت قیام کرنے والی ہے، جو رات کے اوقات میں اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور وہ سجدے کرتے ہیں۔اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے اور اچھے کاموں میں ایک دوسرے سے جلدی کرتے ہیں اور یہ لوگ صالحین سے ہیں۔ اور وہ جو نیکی بھی کریں اس میں ان کی بے قدری ہرگز نہیں کی جائے گی اور اللہ متقی لوگوں کو خوب جاننے والا ہے۔ (سورۂ آل عمران: ۱۱۳۔ ۱۱۵)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8545

۔ (۸۵۴۵)۔ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَ بِیہِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((اللّٰہُمَّ الْعَنْ فُلَانًا، اللّٰہُمَّ الْعَنُ الْحَارِثَ بْنَ ہِشَامٍ، اللّٰہُمَّ الْعَنْ سُہَیْلَ بْنَ عَمْرٍو، اللّٰہُمَّ الْعَنْ صَفْوَانَ بْنَ أُمَیَّۃَ۔))، قَالَ: فَنَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {لَیْسَ لَکَ مِنْ الْأَ مْرِ شَیْئٌ أَ وْ یَتُوبَ عَلَیْہِمْ أَ وْ یُعَذِّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُونَ} [آل عمران: ۱۲۸] قَالَ: فَتِیبَ عَلَیْہِمْ کُلِّہِمْ۔ (مسند احمد: ۵۶۷۴)
۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں بد دعا کی: اے اللہ! حارث بن ہشام پر لعنت کر، اے اللہ! سہیل بن عمرو پر لعنت کر، اے اللہ! صفوان بن امیہ پر لعنت کر۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: {لَیْسَ لَکَ مِنْ الْأَ مْرِ شَیْئٌ أَ وْ یَتُوبَ عَلَیْہِمْ أَ وْ یُعَذِّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُونَ}… تیرے اختیار میں اس معاملے سے کچھ بھی نہیں،یا وہ ان پر مہربانی فرمائے، یا انھیں عذاب دے، کیوں کہ بلا شبہ وہ ظالم ہیں۔ پس ان سب افراد کی توبہ قبول کر لی گئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8546

۔ (۸۵۴۶)۔ عَنْ أَ نَسِ بْنِ مَالِکٍ أَ نَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کُسِرَتْ رَبَاعِیَّتُہُیَوْمَ أُحُدٍ، وَشُجَّ فِی جَبْہَتِہِ حَتَّی سَالَ الدَّمُ عَلٰی وَجْہِہِ، فَقَالَ: ((کَیْفَیُفْلِحُ قَوْمٌ فَعَلُوا ہٰذَا بِنَبِیِّہِمْ، وَہُوَ یَدْعُوہُمْ إِلٰی رَبِّہِمْ۔)) فَنَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {لَیْسَ لَکَ مِنْ الْأَ مْرِ شَیْئٌ أَ وْ یَتُوبَ عَلَیْہِمْ أَ وْ یُعَذِّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُونَ} [آل عمران: ۱۲۸]۔ (مسند احمد: ۱۱۹۷۸)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ غزوۂ احد والے دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے والے دانت توڑ دیے گئے اور آپ کی پیشانی مبارک زخمی کی گئی،یہاں تک کہ آپ کے چہرئہ انور پر خون بہہ پڑا، اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ قوم کیسے کامیاب ہوگی، جنہوں نے اپنے نبی کے ساتھ یہ سلوک کیا، جبکہ نبی ان کو ان کے رب کی طرف بلا رہا تھا۔ پس یہ آیت نازل ہوئی: {لَیْسَ لَکَ مِنْ الْأَ مْرِ شَیْئٌ أَ وْ یَتُوبَ عَلَیْہِمْ أَ وْ یُعَذِّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُونَ}… تیرے اختیار میں اس معاملے سے کچھ بھی نہیں،یا وہ ان پر مہربانی فرمائے، یا انھیں عذاب دے، کیوں کہ بلا شبہ وہ ظالم ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8547

۔ (۸۵۴۷)۔ عَن الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: جَعَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الرُّمَاۃِ، وَکَانُوا خَمْسِینَ رَجُلًا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ جُبَیْرٍیَوْمَ أُحُدٍ، وَقَالَ: ((إِنْ رَأَ یْتُمُ الْعَدُوَّ وَرَأَ یْتُمُ الطَّیْرَ تَخْطَفُنَا فَلَا تَبْرَحُوْا۔))، فَلَمَّا رَأَ وُا الْغَنَائِمَ قَالُوْا: عَلَیْکُمُ الْغَنَائِمَ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: أَ لَمْ یَقُلْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا تَبْرَحُوْا۔)) قَالَ: غَیْرُہُ فَنَزَلَتْ: {وَعَصَیْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا أَ رَاکُمْ مَا تُحِبُّونَ} [آل عمران: ۱۵۲] یَقُولُ: عَصَیْتُمُ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا اَرَاکُمُ الْغَنَائِمَ وَھَزِیْمَۃَ الْعَدُوِّ۔ (مسند احمد: ۱۸۸۰۱)
۔ سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ احد والے دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پچاس تیر اندازوں پر سیدنا عبداللہ بن جبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو امیر مقرر فرمایا اور ان سے فرمایا: اگر تم دیکھو کہ دشمن نے ہمیں ماردیا ہے اور پرندے ہمارا گوشت نوچ رہے ہیں، پھر بھی تم نے اس مقام کو نہیںچھوڑنا۔ لیکن جب انہوں نے مالِ غنیمت کو دیکھا توکہنے لگے: تم بھی غنیمتیں جمع کرو، سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: کیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ تم لوگوں نے اسی درے پر رہنا ہے۔ ؟ (لیکن وہ نہ مانے) اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: {وَعَصَیْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا أَ رَاکُمْ مَا تُحِبُّونَ}… اور جونہی کہ وہ چیز اللہ نے تمہیں دکھائی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے (یعنی مالِ غنیمت اور دشمن کی شکست)تم اپنے سردار کے حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھے راوی کہتا ہے: تم غنمتوں اور دشمنوں کی شکست دیکھنے کے بعد اپنے رسول کی نافرمانی کردی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8548

۔ (۸۵۴۸)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَمَّا أُصِیبَ إِخْوَانُکُمْ بِأُحُدٍ جَعَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ أَ رْوَاحَہُمْ فِی أَ جْوَافِ طَیْرٍ خُضْرٍ، تَرِدُ أَ نْہَارَ الْجَنَّۃِ، تَأْکُلُ مِنْ ثِمَارِہَا، وَتَأْوِی إِلٰی قَنَادِیلَ مِنْ ذَہَبٍ فِی ظِلِّ الْعَرْشِ، فَلَمَّا وَجَدُوا طِیبَ مَشْرَبِہِمْ وَمَأْکَلِہِمْ وَحُسْنَ مُنْقَلَبِہِمْ، قَالُوْا: یَا لَیْتَ إِخْوَانَنَا یَعْلَمُونَ بِمَا صَنَعَ اللّٰہُ لَنَا، لِئَلَّا یَزْہَدُوا فِی الْجِہَادِ وَلَا یَنْکُلُوا عَنْ الْحَرْبِ، فَقَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: أَ نَا أُبَلِّغُہُمْ عَنْکُمْ۔)) فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ ہٰؤُلَائِ الْآیَاتِ عَلٰی رَسُولِہِ: {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ أَ مْوَاتًا بَلْ أَ حْیَائٌ} [آل عمران: ۱۶۹]۔ (مسند احمد: ۲۳۸۸)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب احد میں تمہارے بھائی شہید ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی روحیں سبز پرندں میں ڈال دیں، وہ جنت کی نہروں پر جاتے ہیں، جنت کے پھل کھاتے ہیں اور عرش الٰہی کے سائے میں سونے کی قندیلوں میں جگہ پکڑ تے ہیں، جب انہوں نے کھانے پینے کییہ عمدگی اور اپنے ٹھکانے کی خوبصورتی دیکھی تو انھوں نے کہا: کاش ہمارے دنیا والے بھائیوں کو معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالی نے ہمارے ساتھ کس قدر اچھا سلوک کیا ہے، تاکہ وہ جہاد سے بے رغبتی نہ کریں اور جنگ سے روگردانی نہ کریں، اللہ تعالی نے فرمایا :میں تمہارا یہ پیغام تمہاری طرف سے تمہارے بھائیوں تک پہنچاتا ہوں، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَاء ٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ۔}… اور تو ان لوگوں کو جو اللہ کے راستے میں قتل کر دیے گئے، ہرگز مردہ گمان نہ کر، بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق دیے جاتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8549

۔ (۸۵۴۹)۔ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ: أَ خْبَرَنِی ابْنُ أَ بِی مُلَیْکَۃَ: أَ نَّ حُمَیْدَ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَ خْبَرَہُ: أَ نَّ مَرْوَانَ قَالَ: اذْہَبْ یَا رَافِعُ لِبَوَّابِہِ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْ: لَئِنْ کَانَ کُلُّ امْرِئٍ مِنَّا فَرِحَ بِمَا أُوتِیَ، وَأَ حَبَّ أَ نْ یُحْمَدَ بِمَا لَمْ یَفْعَلْ، لَنُعَذَّبَنَّ أَ جْمَعُونَ؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَمَا لَکُمْ؟ وَہٰذِہِ إِنَّمَا نَزَلَتْ ہٰذِہِ فِی أَ ہْلِ الْکِتَابِ، ثُمَّ تَلَا ابْنُ عَبَّاسٍ: {وَإِذْ أَ خَذَ اللّٰہُ مِیثَاقَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّہُ لِلنَّاسِ} ہٰذِہِ الْآیَۃَ وَتَلَا ابْنُ عَبَّاسٍ: {لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَیَفْرَحُوْنَ بِمَا أَتَوْا وَیُحِبُّونَ أَ نْ یُحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوا} [آل عمران: ۱۸۷۔۱۸۸] وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: سَأَ لَہُمُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ شَیْئٍ فَکَتَمُوہُ إِیَّاہُ وَأَ خْبَرُوہُ بِغَیْرِہِ فَخَرَجُوا، قَدْ أَ رَوْہُ أَنْ قَدْ أَخْبَرُوہُ بِمَا سَأَلَہُمْ عَنْہُ، وَاسْتَحْمَدُوا بِذٰلِکَ إِلَیْہِ، وَفَرِحُوا بِمَا أَ تَوْا مِنْ کِتْمَانِہِمْ إِیَّاہُ مَا سَأَ لَہُمْ عَنْہُ۔ (مسند احمد: ۲۷۱۲)
۔ حمید بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ مروان نے اپنے دربان رافع سے کہا: اے رافع! تم سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس جاؤ اوران سے کہو: اگر ہم میں سے ہر کوئی اس چیز پر خوش ہو، جو اس کو دی گئی ہے اور یہ پسند کرے کہ ایسے کام پر بھی اس کی تعریف کی جائے، جو اس نے کیا نہ ہو، تو پھرتو ہم سب کو عذاب ہوگا۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا:تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ تمہارا س آیت سے کیا تعلق ہے؟ یہ تو اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی، پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی: {وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہ لِلنَّاسِ وَلَاتَکْتُمُوْنَہ ْ فَنَبَذُوْہُ وَرَاء َ ظُہُوْرِھِمْ وَاشْتَرَوْا بِہٖثَمَـــنًاقَلِیْلًا فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُوْنَ۔} … اور جب اللہ نے ان لوگوں سے پختہ عہد لیا جنھیں کتاب دی گئی کہ تم ہر صورت اسے لوگوں کے لیے صاف صاف بیان کرو گے اور اسے نہیں چھپاؤ گے تو انھوں نے اسے اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا اور اس کے بدلے تھوڑی قیمت لے لی۔ سو برا ہے جو وہ خرید رہے ہیں۔ اور اس کے ساتھ یہ آیت بھی پڑھی: {لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَیَفْرَحُوْنَ بِمَا أَ تَوْا وَیُحِبُّونَ أَ نْ یُحْمَدُوْا بِمَا لَمْیَفْعَلُوا} … ان لوگوں کو ہرگز خیال نہ کر جو ان (کاموں) پر خوش ہوتے ہیں جو انھوں نے کیے اور پسند کرتے ہیں کہ ان کی تعریف ان (کاموں) پر کی جائے جو انھوں نے نہیں کیے۔ پھر سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان اہل کتاب سے ایک سوال کیا، انہوں نے اس کو چھپایا اورغلط بتایا اور تمنا یہ کی کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی اس بناء پر تعریف بھی کریں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے جو کچھ پوچھا ہے، انہوں نے وہ بتا دیا اور یہیہودی اس صحیح بات کو چھپا لینے پر بہت خوش تھے کہ انھوں نے اصل بات بھی چھپا لی ہے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جواب بھی دے دیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8550

۔ (۸۵۵۰)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: جَائَ تِ امْرَأَ ۃُ سَعْدِ بْنِ الرَبِیْعِ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِاِبْنَتَیْہَا مِنْ سَعْدٍ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ھَاتَانِ ابْنَتَا سَعْدِ بْنِ الرَبَیْعِ، قُتِلَ أَ بُوْھُمَا مَعَکَ فِیْ اُحُدٍ شَہِیْدًا، وَاِنَّ عَمَّہُمَا أَ خَذَ مَالَھُمَا فَلَمْ یَدَعْ لَھُمَا مَالًا، وَلَا یُنْکَحَانِ اِلَّا وَلَھُمَا مَالٌ، قَالَ: فَقَالَ: ((یَقْضِی اللّٰہُ فِیْ ذٰلِکَ۔)) فَنَزَلَتْ آیَۃُ الْمِیْرَاثِ، فَأَ رْسَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی عَمِّہِمَا، فَقَالَ: ((أَ عْطِ ابْنَتَیْ سَعْدِنِالثُّلُثَیْنِ وَأُمَّہُمَا الثُّمُنَ وَمَا بَقِیَ فَہُوَ لَکَ۔)) (مسند احمد: ۱۴۸۵۸)
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا سعد بن ربیع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیوی اپنی دو بیٹیاں لے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! یہ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی دو بیٹیاں ہیں، ان کا باپ آپ کے ساتھ جنگ احد میں شہید ہو چکا ہے اوران کے چچے نے ان کا سارا مال سمیٹ لیا ہے، ظاہر ہے اگر ان بیٹیوں کے پاس مال نہ ہوا تو ان کی شادی نہیں ہو گی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس بارے میں فیصلہ فرمائے گا۔ پس میراث والی آیت نازل ہوئی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان بچیوں کے چچے کو بلایا اور اس سے فرمایا: سعد کی بیٹیوں کو دوتہائی اور ان کی ماں کو آٹھواں حصے دو، پھر جو کچھ بچ جائے (وہ بطورِ عصبہ) تیرا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8551

۔ (۸۵۵۱)۔ عَنْ عُبَادَۃُ بْنِ الصَّامِتِ، نَزَلَ عَلَی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم {وَاللَّاتِییَأْتِینَ الْفَاحِشَۃَ} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ [النسائ: ۱۵]، قَالَ: فَفَعَلَ ذٰلِکَ بِہِنَّ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَبَیْنَمَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَالِسٌ وَنَحْنُ حَوْلَہُ، وَکَانَ إِذَا نَزَلَ عَلَیْہِ الْوَحْیُ أَ عْرَضَ عَنَّا وَأَ عْرَضْنَا عَنْہُ وَتَرَبَّدَ وَجْہُہُ وَکَرَبَ لِذَلِکَ، فَلَمَّا رُفِعَ عَنْہُ الْوَحْیُ، قَالَ: ((خُذُوا عَنِّیْ۔)) قُلْنَا: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیلًا، الْبِکْرُ بِالْبِکْرِ جَلْدُ مِائَۃٍ وَنَفْیُ سَنَۃٍ، وَالثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ جَلْدُ مِائَۃٍ ثُمَّ الرَّجْمُ۔))، قَالَ الْحَسَنُ: فَلَا أَ دْرِی أَ مِنَ الْحَدِیثِ ہُوَ أَ مْ لَا، قَالَ: ((فَإِنْ شَہِدُوْا أَنَّہُمَا وُجِدَا فِی لِحَافٍ لَا یَشْہَدُونَ عَلٰی جِمَاعٍ خَالَطَہَا بِہِ جَلْدُ مِائَۃٍ وَجُزَّتْ رُئُ وْسُہُمَا۔)) (مسند احمد: ۲۳۱۶۱)
۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی: {وَالّٰتِیْیَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَایِکُمْ فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَیْہِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ فَاِنْ شَہِدُوْا فَاَمْسِکُوْھُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰییَتَوَفّٰیھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلًا۔} … اور تمھاری عورتوں میں سے جو بد کاری کا ارتکاب کریں، ان پر اپنے میں سے چار مرد گواہ طلب کرو، پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو انھیں گھروں میں بند رکھو، یہاں تک کہ انھیں موت اٹھا لے جائے، یااللہ ان کے لیے کوئی راستہ بنا دے۔ (سورۂ نسائ:۱۵) پس نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خواتین کے ساتھ اسی طرح کیا، پھر ایک دفعہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیٹھے ہوئے تھے اور ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گرد جمع تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی نازل ہوتی تھی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہم سے رخ پھیر لیا کرتے تھے، اب کی بار بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم سے رخ پھیر لیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے رخ مبارک کا رنگ تبدیل ہوگیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تکلیف ہوئی۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے وحی کی کیفیت دور ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھ سے حکم وصول کرو۔ ہم نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے بار ے میں یہ راستہ بتایا ہے کہ جب کنوارا، کنواری کے ساتھ زناکرے تو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور جب شادی شدہ، شادی شدہ سے زنا کا ارتکاب کرتے تو سو کوڑے اور پھر رجم۔ حسن راوی کہتے ہیں: میں یہ نہ جان سکا کہ یہ اگلا حصہ حدیث کا حصہ ہے یا نہیں ہے: اگر لوگ گواہیدیں کہ یہ مرد اور عورت ایک لحاف میں پائے گئے ہیں، لیکن اس کے ساتھ جماع کی گواہی نہ دیں تو انہیں سو کوڑے مارے جائیں گے اور ان کے سر مونڈ دیئے جائیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8552

۔ (۸۵۵۲)۔ عَنْ أَ بِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: أَصَبْنَا نِسَائً مِنْ سَبْیِ أَ وْطَاسٍ وَلَہُنَّ أَزْوَاجٌ، فَکَرِہْنَا أَ نْ نَقَعَ عَلَیْہِنَّ وَلَہُنَّ أَزْوَاجٌ، فَسَأَ لْنَا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَ یْمَانُکُمْ} [النسائ: ۲۴] قَالَ: فَاسْتَحْلَلْنَا بِہَا فُرُوجَہُنَّ۔ (مسند احمد: ۱۱۷۱۴)
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ہم نے بنو اوطاس قبیلہ کی خواتین لونڈیوں کے طور پرحاصل کیں، جبکہ ان کے خاوند موجود تھے (یعنی وہ پہلے شادی شدہ تھیں اور ان کے خاوند زندہ تھے)، اس لیے ہم نے ان سے جماع کو ناپسند کیا، کیونکہ ان کے خاوند موجود ہیں، پھر جب ہم نے اس بارے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا تو یہ آیت نازل ہوئی: {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ}… اور خاوند والی عورتیں (بھی حرام کی گئی ہیں) مگر وہ (لونڈیاں) جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہوں۔ تو ملک یمین کی وجہ سے ہم نے ان سے صحبت کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8553

۔ (۸۵۵۳)۔ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ: قَالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! یَغْزُو الرِّجَالُ وَلَا نَغْزُو وَلَنَا نِصْفُ الْمِیرَاثِ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ: {وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہِ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ} [النسائ: ۳۲]۔ (مسند احمد: ۲۷۲۷۲)
۔ مجاہد کہتے ہیں کہ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! مرد جہاد کرتے ہیں اور ہم عورتیں جہاد میں شرکت نہیں کرتیں اور ہماری وراثت کا حصہ بھی مردوں سے آدھا ہے؟ تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: {وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖبَعْضَکُمْعَلٰی بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَـسَبُوْا وَلِلنِّسَاء ِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَـسَبْنَ وَسْـَـلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖاِنَّاللّٰہَکَانَبِکُلِّشَیْء ٍ عَلِـیْمًا}… اور اس چیز کی تمنا نہ کرو جس میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، مردوں کے لیے اس میں سے ایک حصہ ہے، جو انھوں نے محنت سے کمایا اور عورتوں کے لیے اس میں سے ایک حصہ ہے، جو انھوں نے محنت سے کمایا اور اللہ سے اس کے فضل میں سے حصہ مانگو۔ بے شک اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8554

۔ (۸۵۵۴)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: قَرَاْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ سُوْرَۃِ النِّسَائِ فَلَمَّا بَلَغْتُ ھٰذِہِ الْآیَۃَ: {فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰؤُلَائِ شَہِیْدًا} [النسائ: ۴۱] قَالَ: فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ۔ (مسند احمد: ۳۵۵۱)
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر سورۂ نساء تلاوت کی، جب میں اس آیت پر پہنچا: {فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰؤُلَائِ شَہِیْدًا} … وہ کیفیت کیسی ہو گی، جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور تجھے ان سب پرگواہ لائیں گے۔ اس سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8555

۔ (۸۵۵۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّہُ قَالَ: نَزَلَتْ: {یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُو الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِمِنْکُمْ} فِیْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ حُذَافَۃَ بْنِ قَیْسِ بْنِ عَدِیِّ نِ السَّہَمِیِّ اِذْبَعَثَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی السَّرِیَّۃِ۔ (مسند احمد: ۳۱۲۴)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عبد اللہ بن حذافہ سہمی کو ایک لشکر کا امیر بنا کر بھیجا تھا، اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: {یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُو الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِمِنْکُمْ} … اے ایماندارو! تم اللہ تعالیٰ کی ااطاعت کرو اور رسول اور صاحب ِ امر لوگوں کی اطاعت کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8556

۔ (۸۵۵۶)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ: خَاصَمَ رَجُلٌ مِنَ الْأَ نْصَارِ الزُّبَیْرَ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ شِرَاجِ الْحَرَّۃِ الَّتِیْیَسْقُوْنَ بِہَا النَّخْلَ، فَقَالَ الْأَ نْصَارِیُّ لِلزُّبَیْرِ: سَرِّحِ الْمَائَ، فَاَبٰی فَکَلَّمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اسْقِ یَا زُبَیْرُ! ثُمَّ ارْسِلْ إِلٰی جَارِکَ۔)) فَغَضِبَ الْأَ نْصَارِیُّ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَ نْ کَانَ ابنَ عَمَّتِکَ، فَتَلَوَّنَ وَجْہُہُ، ثُمَّ قَالَ: ((احْبِسِ الْمَائَ حَتّٰییَبْلُغَ إِلَی الْجُدُرِ۔)) قَالَ الزُّبَیْرُ: وَاللّٰہِ اِنِّیْ لَأَ حْسِبُ ھٰذِہٖالْاٰیَۃَ نَزَلَتْ فِیْ ذٰلِکَ: {فَلَاوَرَبِّکَ لَایُؤْمِنُوْنَ حَتّٰییُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ…} إِلٰی قَوْلِہِ: {وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا} (مسند احمد: ۱۶۲۱۵)
۔ سیدنا عبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ایک انصاری کے درمیان حرہ کے ایک نالے کے بارے میں جھگڑا ہو گیا، اس نالے سے کھجوروں کو سیراب کیا کرتے تھے۔ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: میری کھجوروں کے لئے پانی چھوڑدو، لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا، انصاری وہ مقدمہ لے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے زبیر! تم پہلے سیراب کر کے پانی کواپنے ہمسائے کے لیے چھوڑ دیا کرو۔ لیکن اس فیصلے سے انصاری کو غصہ آ گیا اور اس نے کہا: یہ آپ کی پھوپھی کا بیٹا ہے اس لئے یہ فیصلہ کیا ہے، یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ متغیر ہو گیا اور پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے زبیر! اب اتنی دیر پانی روک کر رکھنا کہ دیوار تک پہنچ جائے، پھر آگے چھوڑنا۔ سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! میرا خیال ہے کہ یہ آیت اسی بارے میں ہی نازل ہوئی تھی: {فَلَاوَرَبِّکَ لَایُؤْمِنُوْنَ حَتّٰییُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا} … سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔ (سورۂ نسائ: ۶۵)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8557

۔ (۸۵۵۷)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَ نَّ قَوْمًا مِنْ الْعَرَبِ، أَ تَوْا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَدِینَۃَ، فَأَ سْلَمُوْا وَأَ صَابَہُمْ وَبَائُ الْمَدِینَۃِ حُمَّاہَا فَأُرْکِسُوا فَخَرَجُوا مِنْ الْمَدِینَۃِ، فَاسْتَقْبَلَہُمْ نَفَرٌ مِنْ أَ صْحَابِہِ یَعْنِی أَصْحَابَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوْا لَہُمْ: مَا لَکُمْ رَجَعْتُمْ؟ قَالُوْا: أَ صَابَنَا وَبَائُ الْمَدِینَۃِ فَاجْتَوَیْنَا الْمَدِینَۃَ فَقَالُوْا: أَ مَا لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ؟ فَقَالَ بَعْضُہُمْ: نَافَقُوْا وَقَالَ بَعْضُہُمْ لَمْ یُنَافِقُوا ہُمْ مُسْلِمُونَ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {فَمَا لَکُمْ فِی الْمُنَافِقِینَ فِئَتَیْنِ وَاللّٰہُ أَ رْکَسَہُمْ بِمَا کَسَبُوْا۔} الْآیَۃَ [النسائ: ۸۸]۔ (مسند احمد: ۱۶۶۷)
۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ عرب کے کچھ لوگ مدینہ منورہ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور مسلمان ہو گئے،لیکن جب وہ مدینہ کی وبایعنی بخار میں مبتلا ہوئے تو ان کو پلٹا دیا گیا اور وہ مدینہ سے نکل گئے، ان کو آگے سے صحابۂ کرام کا ایک گروہ ملا اور اس نے ان سے پوچھا: کیا ہوا ہے تم کو،واپس جا رہے ہو؟ انھوں نے کہا: ہمیں مدینہ کی وبا لگ گئی ہے اور اس شہر کی آب و فضا موافق نہ آنے کی وجہ سے پیٹ میں بیماری پیدا ہو گئی ہے۔ مسلمانوں نے کہا:کیا تمہارے لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ذات میں نمونہ نہیں ہے؟ اب بعض مسلمانوں نے کہا: وہ منافق ہو گئے ہیں اور بعض نے کہا: وہ منافق نہیں ہوئے، بلکہ مسلمان ہیں، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر دی: {فَمَا لَکُمْ فِی الْمُنَافِقِینَ فِئَتَیْنِ وَاللّٰہُ أَرْکَسَہُمْ بِمَا کَسَبُوْا۔} … پھر تمھیں کیا ہوا کہ منافقین کے بارے میں دو گروہ ہوگئے، حالانکہ اللہ نے انھیں اس کی وجہ سے الٹا کر دیا جو انھوں نے کمایا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8558

۔ (۸۵۵۸)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَ نَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَرَجَ إِلٰی أُحُدٍ، فَرَجَعَ أُنَاسٌ خَرَجُوْا مَعَہُ، فَکَانَ أَ صْحَابُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِرْقَتَیْنِ، فِرْقَۃٌ تَقُولُ بِقِتْلَتِہِمْ، وَفِرْقَۃٌ تَقُولُ: لَا، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ :{فَمَا لَکُمْ فِی الْمُنَافِقِینَ فِئَتَیْنِ} [النسائ: ۸۸] فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّہَا طَیْبَۃُ وَإِنَّہَا تَنْفِی الْخَبَثَ کَمَا تَنْفِی النَّارُ خَبَثَ الْفِضَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۱۹۳۵)
۔ سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم احد کی طرف نکلے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ (نکلنے والے منافق راستے سے) واپس لوٹ آئے، ان کی وجہ سے صحابہ کرام کے دو فریق بن گئے، ایک فریق کا خیال تھا کہ ہم لوگ ان منافقوں سے لڑیں، جبکہ دوسرے فریق کی رائے یہ تھی کہ ان سے نہیں لڑنا چاہیے، پس یہ آیت نازل ہوئی: {فَمَا لَکُمْ فِی الْمُنَافِقِینَ فِئَتَیْنِ وَاللّٰہُ أَ رْکَسَہُمْ بِمَا کَسَبُوْا۔} … پھر تمھیں کیا ہوا کہ منافقین کے بارے میں دو گروہ ہوگئے، حالانکہ اللہ نے انھیں اس کی وجہ سے الٹا کر دیا جو انھوں نے کمایا۔ پھرآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ طیبہ ہے، یہ گناہوں کی ایسی صفائی کرتا ہے، جیسے آگ چاندی کی میل کچیل کو ختم کر دیتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8559

۔ (۸۵۵۹)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَ نَّ رَجُلًا أَ تَاہُ فَقَالَ: أَ رَأَ یْتَ رَجُلًا قَتَلَ رَجُلًا مُتَعَمِّدًا؟ قَالَ: {جَزَاؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیہَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہُ وَأَ عَدَّ لَہُ عَذَابًا عَظِیمًا} [النسائ: ۹۳] قَالَ: لَقَدْ أُنْزِلَتْ فِی آخِرِ مَا نَزَلَ، مَا نَسَخَہَا شَیْئٌ حَتّٰی قُبِضَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَمَا نَزَلَ وَحْیٌ بَعْدَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: أَ رَأَ یْتَ إِنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہْتَدٰی؟ قَالَ: وَأَ نّٰی لَہُ بِالتَّوْبَۃِ؟ وَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((ثَکِلَتْہُ أُمُّہُ، رَجُلٌ قَتَلَ رَجُلًا مُتَعَمِّدًا یَجِیئُیَوْمَ الْقِیَامَۃِ آخِذًا قَاتِلَہُ بِیَمِینِہِ أَ وْ بِیَسَارِہِ، وَآخِذًا رَأْسَہُ بِیَمِینِہِ أَ وْ شِمَالِہِ، تَشْخَبُ اَوْدَاجُہُ دَمًا قِبَلَ الْعَرْشِ، یَقُوْلُ: یَا رَبِّ سَلْ عَبْدَکَ فِیْمَ قَتَلَنِیْ۔)) (مسند احمد: ۲۱۴۲)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور اس نے کہا: اس بارے میں بتائیں ایک آدمی دوسرے آدمی کو جان بوجھ کو قتل کر دیتا ہے (اس کی کیا سزا ہے)؟ انھوں نے کہا: {جَزَاؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیہَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہُ وَأَ عَدَّ لَہُ عَذَابًا عَظِیمًا} … اس کا بدلہ جہنم ہے، وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوا، اللہ تعالی نے اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کیا ہے۔ یہ آیت سب سے آخر میں اتری ہے، کسی آیت نے اس کو منسوخ نہیں کیا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات تک یہی حکم باقی رہا، اس کے بعد اس بارے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی۔ اس آدمی نے کہا: اگر وہ توبہ کر لے، ایمان مضبوط کر لے اورنیک عمل کرے اور ہدایتیافتہ ہو جائے تو؟ انھوں نے کہا:اس کی توبہ کیسے قبول ہوگی، جبکہ میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: اس کی ماں اسے گم پائے، ایک آدمی دوسرے آدمی کو جان بوجھ کر قتل کرتا ہے، وہ مقتول روزِ قیامت اس حال میں آئے گا کہ اس نے دائیںیا بائیں ہاتھ سے اپنے قاتل کو پکڑا ہوگا اور اسے سر سے بھی پکڑ رکھا ہوگا، اس وقت مقتول کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا، وہ اس کو عرش کے سامنے لے آئے گا اور کہے گا: اے میرے رب! اپنے اس بندے سے پوچھو اس نے مجھے کس وجہ سے قتل کیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8560

۔ (۸۵۶۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَرَّ نَفَرٌ مِنْ أَ صْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی رَجُلٍ مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ مَعَہُ غَنَمٌ لَہُ، فَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ فَقَالُوْا: مَا سَلَّمَ عَلَیْکُمْ إِلَّا تَعَوُّذًا مِنْکُمْ، فَعَمَدُوْا إِلَیْہِ فَقَتَلُوہُ وَأَ خَذُوا غَنَمَہُ فَأَ تَوْا بِہَا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: {وَلَا تَقُولُوْا لِمَنْ أَ لْقٰی إِلَیْکُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃ [النسائ: ۹۴]۔ (مسند احمد: ۲۹۸۷)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ صحابۂ کرام کی ایک جماعت بنو سلیم کے ایک آدمی کے پاس سے گزری، اس کے پاس بکریاں تھیں، اس نے ان صحابہ کرام کو سلام کہا، لیکن صحابہ نے کہا: یہ صرف تم سے پناہ لینے کے لیے سلام کہہ رہا ہے، انہوں نے اسے قتل کر دیا اور اس کی بکریوں پر قبضہ کر لیا، جب وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ان بکریوں کو لائے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {وَلَا تَقُولُوْا لِمَنْ أَ لْقٰی إِلَیْکُمْ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا}… اور جو تمھیں سلام پیش کرے اسے یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں۔ تم دنیا کی زندگی کا سامان چاہتے ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8561

۔ (۸۵۶۱)۔ عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِی حَدْرَدٍ، عَنْ أَ بِیہِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَ بِی حَدْرَدٍ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی إِضَمَ، فَخَرَجْتُ فِی نَفَرٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فِیہِمْ أَ بُو قَتَادَۃَ الْحَارِثُ بْنُ رِبْعِیٍّ وَمُحَلَّمُ بْنُ جَثَّامَۃَ بْنِ قَیْسٍ، فَخَرَجْنَا حَتّٰی إِذَا کُنَّا بِبَطْنِ إِضَمَ مَرَّ بِنَا عَامِرٌ الْأَشْجَعِیُّ عَلَی قَعُودٍ لَہُ مُتَیْعٌ وَوَطْبٌ مِنْ لَبَنٍ، فَلَمَّا مَرَّ بِنَا سَلَّمَ عَلَیْنَا، فَأَ مْسَکْنَا عَنْہُ وَحَمَلَ عَلَیْہِ مُحَلَّمُ بْنُ جَثَّامَۃَ، فَقَتَلَہُ بِشَیْئٍ کَانَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُ، وَأَ خَذَ بَعِیرَہُ وَمُتَیْعَہُ، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَ خْبَرْنَاہُ الْخَبَرَ، نَزَلَ فِینَا الْقُرْآنُ: {یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوا وَلَا تَقُولُوْا لِمَنْ أَ لْقٰی إِلَیْکُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا، تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا، فَعِنْدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیرَۃٌ، کَذٰلِکَ کُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ، فَتَبَیَّنُوا إِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرًا} [النسائ: ۹۴]۔ (مسند احمد: ۲۴۳۷۸)
۔ سیدنا عبداللہ بن ابی حدرد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں اِضَم پہاڑ یا مقام کی جانب بھیجا، پس میں مسلمانوں کے ایک لشکر میں نکلا، سیدنا ابوقتادہ حارث بن ربعی اور سیدنا مُحَلّم بن جثامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بھی اس لشکر میں شامل تھے، پس ہم نکل پڑے اور جب اضم کی ہموار جگہ پر پہنچے تو ہمارے پاس سے عامر اشجعی گزرا،یہ نوجوان اونٹ پر سوار تھا اور اس کے ساتھ کچھ سامان بھی اور دودھ اور گھی کا مشکیزہ بھی تھا، اس نے ہمیں سلام کہا، سو ہم نے اس پر حملہ نہ کیا، لیکن مُحَلّم بن جثامہ نے اس پر حملہ کر دیا اور اس کے پاس جو آلہ تھا، اس نے اس کے ذریعے اس کو قتل کر دیا اور اس کے اونٹ اور سامان پر قبضہ کر لیا، جب ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے تو ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ واقعہ بیان کیا تو ہمارے بارے میں یہ قرآن نازل ہوا: {یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوا وَلَا تَقُولُوْا لِمَنْ أَ لْقٰی إِلَیْکُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیرَۃٌ کَذٰلِکَ کُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ، فَتَبَیَّنُوا إِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرًا}… اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم اللہ کے راستے میں سفر کرو تو خوب تحقیق کر لو اور جو تمھیں سلام پیش کرے اسے یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں۔ تم دنیا کی زندگی کا سامان چاہتے ہو تو اللہ کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں، اس سے پہلے تم بھی ایسے ہی تھے تو اللہ نے تم پر احسان فرمایا۔ پس خوب تحقیق کر لو، بے شک اللہ ہمیشہ سے اس سے جو تم کرتے ہو، پورا با خبر ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8562

۔ (۸۵۶۲)۔ عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: کُنْتُ إِلٰی جَنْبِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَغَشِیَتْہُ السَّکِینَۃُ، فَوَقَعَتْ فَخِذُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی فَخِذِی، فَمَا وَجَدْتُ ثِقْلَ شَیْئٍ أَ ثْقَلَ مِنْ فَخِذِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ سُرِّیَ عَنْہُ، فَقَالَ: ((اکْتُبْ۔)) فَکَتَبْتُ فِی کَتِفٍ {لَا یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ [النسائ: ۹۵]، فَقَامَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ وَکَانَ رَجُلًا أَ عْمٰی لَمَّا سَمِعَ فَضِیلَۃَ الْمُجَاہِدِینَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَکَیْفَ بِمَنْ لَا یَسْتَطِیعُ الْجِہَادَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ؟ فَلَمَّا قَضٰی کَلَامَہُ غَشِیَتْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم السَّکِینَۃُ، فَوَقَعَتْ فَخِذُہُ عَلٰی فَخِذِی وَوَجَدْتُ مِنْ ثِقَلِہَا فِی الْمَرَّۃِ الثَّانِیَۃِ کَمَا وَجَدْتُ فِی الْمَرَّۃِ الْأُولٰی، ثُمَّ سُرِّیَ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((اقْرَأْ یَا زَیْدُ!)) فَقَرَأْتُ: {لَا یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ} فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : {غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ} الْآیَۃَ کُلَّہَا قَالَ زَیْدٌ: فَأَ نْزَلَہَا اللّٰہُ وَحْدَہَا فَأَ لْحَقْتُہَا، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ! لَکَأَ نِّی أَ نْظُرُ إِلٰی مُلْحَقِہَا عِنْدَ صَدْعٍ فِی کَتِفٍ۔ (مسند احمد: ۲۲۰۰۴)
۔ سیدنا زید بن ثابت سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا کہ آپ پر سکینت (نزول وحی کے وقت کی ایک کیفیت) طاری ہوگئی، اُدھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ران میری ران پرتھی، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ران کے وزن سے زیادہ کسی چیز کا وزن محسوس نہیں کیا، جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لکھو۔ پس میں نے شانے کی ایک ہڈی پر لکھا : {لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُجٰہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰہِدِیْنَ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَۃً وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی وَفَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰہِدِیْنَ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا۔} … ایمان والوں میں سے بیٹھ رہنے والے اور اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرنے والے برابر نہیں ہیں، اللہ نے اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر درجے میں فضیلت دی ہے اور ہر ایک سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے اور اللہ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر بہت بڑے اجر کی فضیلت عطا فرمائی ہے۔ مجاہدین کییہ فضیلت سن کر سیدنا ابن ام مکتوم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو نابینا تھے،کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! اس کا کیا حال ہوگا، جو کسی عذر کی وجہ سے جہاد میں شریک نہیں ہو سکتا؟ جب وہ اپنی بات کہہ چکے تو پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر نزول وحی کی مخصوص کیفیت طاری ہوگئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ران میری ران پر تھی اور اس پر دوسری مرتبہ میں بھی میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ران کا اتنا ہی وزن محسوس کیا جتنا کہ پہلی مرتبہ میں نے کیا تھا، کچھ دیر کے بعد جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے زید! آیت پڑھو۔ پس میں نے پڑھی: {لَا یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ}، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: {غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ} بھی لکھو۔ پھر سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اس جملہ کو الگ نازل فرمایا، اس کے بعد میں نے اس کو اس کی اپنی جگہ پر لگا دیا، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں اس وقت بھی ہڈی کے شگاف کے پاس اس مقام کو دیکھ رہا ہوں، جہاں میں نے اس کو لکھا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8563

۔ (۸۵۶۳)۔ عَنْ أَ بِی إِسْحَاقَ أَ نَّہُ سَمِعَ الْبَرَائَ یَقُولُ فِی ہٰذِہِ الْآیَۃِ: {لَا یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ} قَالَ: فَأَ مَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زَیْدًا، فَجَائَ بِکَتِفٍ فَکَتَبَہَا، قَالَ: فَشَکَا إِلَیْہِ ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ ضَرَارَتَہٗفَنَزَلَتْ: {لَایَسْتَوِی الْقَاعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُوْلِی الضَّرَرِ} [النسائ: ۹۵]۔ (مسند احمد: ۱۸۶۷۷)
۔ ابو اسحق سے مروی ہے کہ انھوں نے سیدنا براء کو اس آیت {لَا یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ}کے بارے میں یہ کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا زید کو حکم دیا، پس وہ آئے اور انھوں نے شانے کی ہڈی پر اس آیت کو لکھ لیا، جب سیدنا ابن ام مکتوم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے نابینا پن کا ذکر کیا تو یہ آیتیوں نازل ہوئی: {لَا یَسْتَوِی الْقَاعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُوْلِی الضَّرَرِ}۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8563

۔ (۸۵۶۳م)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَائَ بْنَ عَازِبٍ یَقُولُ: لَمَّا نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {وَفَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجَاہِدِینَ عَلَی الْقَاعِدِینَ أَ جْرًا عَظِیمًا} أَ تَاہُ ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا تَأْمُرُنِی إِنِّی ضَرِیرُ الْبَصَرِ؟ قَالَ: فَنَزَلَتْ {غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ} (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: قَبْلَ اَنْ یَبْرَحَ) قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ائْتُونِی بِالْکَتِفِ وَالدَّوَاۃِ أَ وِ اللَّوْحِ وَالدَّوَاۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۸۷۰۲، ۱۸۷۵۵)
۔ (دوسری سند)سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی {وَفَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجَاہِدِینَ عَلَی الْقَاعِدِینَ أَ جْرًا عَظِیمًا} توسیدنا ابن ام مکتوم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں تو نابینا ہوں، اب میرے لیے کیاحکم ہے؟ اتنے میں یہ الفاظ نازل ہو گئے: {غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ}، ایک روایت میں ہے:ابھی تک آپ اسی جگہ پر تھے کہ یہ آیت نازل ہو گئی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شانے کی ہڈی اور دوات یا تختی اور دوات میرے پاس لاؤ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8564

۔ (۸۵۶۴)۔ عَنْ یَعْلَی بْنِ أُمَیَّۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: سَأَلْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُلْتُ: {لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاۃِ اِنْ خِفْتُمْ أَ نْ یَفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا} وَقَدْ أَمِنَ النَّاسُ؟ فَقَالَ لِی عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْہُ، فَسَأَ لْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((صَدَقَۃٌ تَصَدَّقَ اللّٰہُ بِھَا عَلَیْکُمْ فَاقْبَلُوْا صَدَقَتَہُ۔)) (مسند احمد: ۱۷۴)
۔ یعلی بن امیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے سیّدناعمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے پوچھا کہ اللہ تعالی نے تو یہ کہا کہ اگر کفار کے فتنے سے تم ڈرو تو نماز کو قصر کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے ، جبکہ اب تو لوگ امن میں ہیں؟ سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے جواب دیتے ہوئے کہا: جس چیز سے تجھے تعجب ہوا ہے، مجھے بھی اس پر تعجب ہوا تھا، لیکن جب میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ خیرات (اور رخصت) ہے، جواللہ نے تم پر صدقہ کی ہے، سو تم اس کییہ رخصت قبول کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8565

۔ (۸۵۶۵)۔ عَنْ أَ بِیْ عَیَّاشٍ الزُّرْقِی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِعُسْفَانَ فَاسْتَقْبَلَنَا الْمُشْرِکُوْنَ عَلَیْہٖمْ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیْدِ وَہُمْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقِبْلَۃِ فَصَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الظُّہْرَ فَقَالُوْا: قَدْ کَانُوْا عَلٰی حَالٍ لَوْ أَ صَبْنَا غِرَّتَہُمْ، قَالُوْا: تَأْتِیْ عَلَیْہِمُ الْآنَ صَلَاۃٌ ہِیَ أَ حَبُّ إِلَیْہِمْ مِنْ أَ بْنَائِہِمْ وَأَ نْفُسِہِمْ، ثُمَّ قَالَ: فَنَزَلَ جِبْرَئیِْلُ علیہ السلام بِہٰذِہِ الْآیَاتِ بَیْنَ الظَّہْرِ وَالْعَصْرِ {وَاِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَأَ قَمْتَ لَہُمْ الصَّلَاۃَ…} قَالَ: فَحَضَرَتْ فَأَ مَرَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأخَذُوْا السَّلَاحَ، قَالَ: فَصَفَفْنَا خَلْفَہُ صَفَّیْنِ، قَالَ: ثُمَّ رَکَعَ فَرَکَعْنَا جَمِیْعًا، ثُمَّ رَفَعَ فَرَفَعْنَا جَمِیْعًا، ثُمَّ سَجَدَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالصَّفِّ الَّذِیْیَلِیْہِ وَالآخَرُوْنَ قِیَامٌیحرُسُوْنَھُمْ فَلَمَّا سَجَدُو وَقَامُوْا جَلَسَ اْلآخَرُوْنَ فَسَجَدُوْا فِی مَکَانِھِمْ ثُمَّ تَقَدَّمَ ھٰؤُلَائِ إِلٰی مَصَافِّ ھٰؤُلَائِ وَجَائَ ھٰؤُلَائِ إِلٰی مَصَافِّ ھٰؤُلَائِ، قَالَ: ثُمَّ رَکَعَ فَرَکَعُوا جَمِیْعًا، ثُمَّ رَفَعَ فَرَفَعُوْا جَمِیْعًا، ثُمَّ سَجَدَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالصَّفُّ الَّذِییَلِیْہِ، وَالآخَرُوْنََ قِیَامٌیَحْرُسُوْنَھُمْ، فَلَمَّا جَلَسَ جَلَسَ الآخَرُوْنَ فَسَجَدُوْ فَسَلَّمَ عَلَیْھِمْ ثُمَّ انْصَرَفَ، قَالَ: فَصَلَّاھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَرَّتَیْنِ، مَرَّۃً بِعُسْفَانَ، وَمَرَّۃً بَأَرْضِ بَنِی سُلَیْم۔ (مسند احمد: ۱۶۶۹۶)
۔ سیّدنا ابو عیاش زرقی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ عسفان کے مقام پر تھے، مشرکین ہمارے مدمقابل آ گئے، ان کی قیادت خالد بن ولید کر رہے تھے، وہ لوگ ہمارے اور قبلہ کے درمیان تھے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں ظہر کی نماز پڑھائی، وہ لوگ آپس میں کہنے لگے:یہ مسلمان نماز میں مشغول تھے، کاش کہ ہم ان کی غفلت سے فائدہ اٹھا لیتے۔ پھر انھوں نے کہا: ابھی کچھ دیر بعد ان کی ایک اور نماز کاوقت ہونے والا ہے، وہ ان کو اپنی جانوں اور اولادوں سے بھی زیادہ عزیز ہے۔اسی وقت ظہر اور عصر کے درمیان جبریل علیہ السلام یہ آیات لے کر نازل ہوئے: {وَاِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَأَ قَمْتَ لَہُمُ الـصَّـلٰـوۃَ فَلْتَقُمْ طَائِفَۃٌ مِّـنْـہُمْ مَّعَکَ وَ لْیَأْخُذُوْا اَسْلِحَتَہُمْ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَّرَائِکُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَۃٌ أُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ}… جب تم ان میں ہو اور ان کے لیے نماز کھڑی کرو تو چاہیے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لیے کھڑی ہو، پھر جب یہ سجدہ کر چکیں تو یہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آ جائیں اور وہ دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی وہ آ جائے اور تیرے ساتھ نماز ادا کرے۔ (النسائ: ۱۰۲)جب عصر کاوقت ہوا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم دیا کہ صحابہ کرام اسلحہ لے کر کھڑے ہوں، ہم نے آپ کے پیچھے دو صفیں بنا لیں، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رکوع کیا تو ہم سب نے رکوع کیا اور جب آپ رکوع سے اٹھے تو ہم بھی اٹھ گئے۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سجدہ کیا تو صرف آپ کے پیچھے والی پہلی صف والوں نے سجدہ کیا اور دوسری صف والے کھڑے ہو کر پہرہ دیتے رہے۔ جب وہ لوگ سجدے کرکے کھڑے ہوئے تو دوسری صف والوں نے بیٹھ کر اپنی اپنی جگہ سجدہ کیا، پھر (دوسری رکعت کے شروع میں) اگلی صف والے پیچھے اور پچھلی صف والے آ گئے۔ پھر اسی طرح سب نمازیوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ رکوع کیا اور رکوع سے سر اٹھایا، پھر جب آپ نے سجدہ کیا تو پہلی صف والوں نے آپ کے ساتھ سجدہ کیا اور دوسری صف والے کھڑے ہو کر پہرہ دیتے رہے، جب آپ اور پہلی صف والے لوگ سجدہ کرکے بیٹھ گئے تو دوسری صف والوں نے بیٹھ کر سجدہ کر لیا (اور سب تشہد میں بیٹھ گئے، پھر) سب نے مل کر سلام پھیر ا اور نماز سے فارغ ہوئے۔رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس انداز میں دو دفعہ نماز پڑھائی، ایک دفعہ عسفان میں اور دوسری دفعہ بنو سلیم کے علاقہ میں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8566

۔ (۸۵۶۶)۔ عَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ: {اِنْ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖاِلَّااِنَاثًا} قَالَ: مَعَکُلِّصَنَمٍجَنِیَّۃٌ۔ (مسند احمد: ۲۱۵۵۱)
۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالی کے فرمان {اَنْ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖاِلَّااِنَاثًا} (وہمشرکنہیں پکارتے مگر اناث کو) میں اِنَاثًا سے مراد یہ ہے کہ ہر بُت کے ساتھ ایک جننی ہوتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8567

۔ (۸۵۶۷)۔ عَنْ اَبِیْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّہٗقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! کَیْفَ الصَّلَاحُ بَعْدَ ہٰذِہِ الْآیَۃِ: {لَیْسَ بِأَ مَانِیِّکُمْ وَلَا أَ مَانِیِّ أَ ہْلِ الْکِتَابِ مَنْ یَعْمَلْ سُوء ًا یُجْزَ بِہِ} [النسائ:۱۲۳] فَکُلَّ سُوئٍ عَمِلْنَا جُزِینَا بِہِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ، یَا أَ بَا بَکْرٍ! أَلَسْتَ تَمْرَضُ؟ أَ لَسْتَ تَنْصَبُ؟ أَ لَسْتَ تَحْزَنُ؟ أَ لَسْتَ تُصِیبُکَ اللَّأْوَائُ؟)) قَالَ: بَلٰی، قَالَ: ((فَہُوَ مَا تُجْزَوْنَ بِہِ، وَفِیْ لَفْظٍ: قَالَ: ((فَاِنْ ذَاکَ بِذَاکَ۔)) (مسند احمد: ۶۸)
۔ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اب اس آیت کے نزول کے بعد کیسے ممکن ہے کہ آدمی نیکی اور راست روی سے متصف ہو: {لَیْسَ بِأَ مَانِیِّکُمْ وَلَا أَ مَانِیِّ أَ ہْلِ الْکِتَابِ مَنْ یَعْمَلْ سُوئًا یُجْزَ بِہِ}… دین نہ تمھاری آرزوئیں ہیں اور نہ اہل کتاب کی آرزوئیں،جو بھی کوئی برائی کرے گا اسے اس کی جزا دی جائے گی۔ ہم جو برا عمل بھی کرتے ہیں، اس کا ہمیں بدلہ دیا جائے گا؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابو بکر! اللہ تعالیٰ تم کو معاف کرے، کیا تم بیمار نہیں ہوتے؟ کیا تمہیں تھکاوٹ نہیں ہوتی؟ کیا تم غمگین نہیں ہوتے؟ کیا تم شدت اور تنگی میں مبتلا نہیں ہوتے؟ میں نے کہا: جی کیوں نہیں، ہوتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہی وہ چیز ہے، جو تمہیں بدلہ دیا جا رہا ہے۔ ایک روایت میں ہے: یہ اسی کے عوض میں ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8568

۔ (۸۵۶۸)۔ عَنْ أَ بِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ {مَنْ یَعْمَلْ سُوئً ا یُجْزَ بِہِ} [النسائ:۱۲۳] شَقَّتْ عَلَی الْمُسْلِمِینَ، وَبَلَغَتْ مِنْہُمْ مَا شَاء َ اللّٰہُ أَ نْ تَبْلُغَ، فَشَکَوْا ذٰلِکَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((قَارِبُوْا وَسَدِّدُوْا فَکُلُّ مَا یُصَابُ بِہِ الْمُسْلِمُ کَفَّارَۃٌ حَتَّی النَّکْبَۃِیُنْکَبُہَا، وَالشَّوْکَۃِیُشَاکُھَا۔)) (مسند احمد: ۷۳۸۰)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: {مَنْ یَعْمَلْ سُوئً ا یُجْزَ بِہِ}… جو بھی کوئی برائی کرے گا اسے اس کی جزا دی جائے گی۔ تو یہ مسلمانوں پر بہت گراں گزری اور بہت زیادہ غمگین ہو گئے اور انہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس کی شکایت کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میانہ روی اختیار کرو اور راہِ صواب پر چلتے رہو، مسلمان کو جو تکلیف بھی پہنچتی ہے، وہ اس کے لیے کفارہ بنتی ہے، یہاں تک کہ وہ مصیبت جو اسے لاحق ہوتی ہے اور وہ کانٹا جو اس کو چبھتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8569

۔ (۸۵۶۹)۔ عَنْ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : أَ نَّ رَجُلًا تَـلَا ہٰذِہِ الْآیَۃَ: {مَنْ یَعْمَلْ سُوئًا یُجْزَ بِہِ} [النسائ:۱۲۳] قَالَ: إِنَّا لَنُجْزٰی بِکُلِّ عَمَلِنَا ہَلَکْنَا إِذًا، فَبَلَغَ ذَاکَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((نَعَمْ، یُجْزٰی بِہِ الْمُؤْمِنُونَ فِی الدُّنْیَا فِی مُصِیبَۃٍ فِی جَسَدِہِ فِیمَایُؤْذِیہِ۔)) (مسند احمد: ۲۴۸۷۲)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے یہ آیت تلاوت کی: {مَنْ یَعْمَلْ سُوئً ا یُجْزَ بِہِ}… جو بھی کوئی برائی کرے گا اسے اس کی جزا دی جائے گی۔ اور پھر کہا: اگر ہمیں ہر برے عمل کا بدلہ ملا تو ہم تو مارے جائیں گے، جب یہ بات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں! (بدلہ تو ہر برے عمل کا ملتا ہے) لیکن ایمانداروں کو دنیا میں تکلیف دینے والی جو مصیبت لاحق ہوتی ہے، یہ ان (کے گناہوں کا) بدلہ ہوتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8570

۔ (۸۵۷۰)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ فِیْ قَوْلِہٖ: {وَاتَّخَذَاللّٰہُاِبْرَاھِیْمَ خَلِیْلًا} [النسائ:۱۲۵] قَالَ: اَخْبَرَنِیْ عَبْدُالْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ رِبْعِیٍّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ اَنَّہٗقَالَ: اِنَّاللّٰہَ اتَّخَذَ صَاحِبَکُمْ خَلِیْلًایَعْنِیْ مُحَمَّدًا ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۳۷۴۹)
۔ معمر نے اللہ تعالی کے اس فرمان {وَاتَّخَذَ اللّٰہُ اِبْرَاھِیْمَ خَلِیْلًا}… اور اللہ نے ابراہیم کو خاص دوست بنا لیا۔ کو سامنے رکھ کر روایت کی کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھییعنی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو خلیل بنایا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8571

۔ (۸۵۷۱)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِنَّ صَاحِبَکُمْ خَلِیْلُ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔)) (مسند احمد: ۳۸۹۲)
۔ سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھی کو اپنا خلیل بنایا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8572

۔ (۸۵۷۲)۔ عَنِ ابْنِ الْمُنْکَدِرِ أَ نَّہُ سَمِعَ جَابِرًا یَقُولُ: مَرِضْتُ فَأَ تَانِی النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَعُودُنِی ہُوَ وَأَ بُو بَکْرٍ مَاشِیَیْنِ، وَقَدْ أُغْمِیَ عَلَیَّ فَلَمْ أُکَلِّمْہُ، فَتَوَضَّأَ فَصَبَّہُ عَلَیَّ فَأَفَقْتُ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! کَیْفَ أَ صْنَعُ فِی مَالِی وَلِی أَ خَوَاتٌ؟ قَالَ: فَنَزَلَتْ آیَۃُ الْمِیرَاثِ {یَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیکُمْ فِی الْکَلَالَۃِ} کَانَ لَیْسَ لَہُ وَلَدٌ وَلَہُ أَ خَوَاتٌ، {إِنْ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَیْسَ لَہُ وَلَدٌ وَلَہُ أُخْتٌ} [النسائ:۱۷۶]۔ (مسند احمد: ۱۴۳۴۹)
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں بیمار ہو گیا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پیدل چل کر میری تیمار داری کے لئے تشریف لائے، میں بیہوش تھا، سو آپ سے کوئی بات نہ کر سکا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وضو کیا اور مجھ پر پانی ڈالا، اس سے مجھے ہوش آ گیا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اپنے مال کا کیا کروں، جبکہ میری بہنیں وارث ہیں؟ پس میراث سے متعلقہ یہ آیت نازل ہوئی {یَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیکُمْ فِی الْکَلَالَۃِ} … لوگ آپ سے فتوی پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیں کہ اللہ تعالی تم کو کلالہ کے بارے میں فتوی دیتا ہے۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اولاد نہیں تھی، صرف بہنیں تھیں، {إِنْ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَیْسَ لَہُ وَلَدٌ وَلَہُ أُخْتٌ} … اگر مرد فوت ہو جائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8572

۔ (۸۵۷۲م)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: دَخَلَ عَلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاَنَا وَجِعٌ لَا اَعْقِلُ، قَالَ: فَتَوَضَّاَ ثُمَّ صَبَّ عَلَیَّ، اَوْ قَالَ: صُبُّوْا عَلَیْہِ، فَعَقَلْتُ فَقُلْتُ: اَنَّہُ لَا یَرِثُنِیْ اِلَّا کَلَالَۃٌ فَکَیْفَ الْمِیْرَاثُ؟ قَالَ: فَنَزَلَتْ آیَۃُ الْفَرْضِ۔ (مسند احمد: ۱۴۲۳۵)
۔ (دوسری سند) سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس تشریف لائے، جبکہ مجھے تکلیف تھی اور میں بیہوش تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وضو کیا اور مجھ پر پانی ڈالا، یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ اس پر پانی ڈال دو۔ پس میں ہوش میں آ گیا، میں نے کہا: میرا وارث صرف کلالہ ہیں،ایسی صورت میں میراث کی تقسیم کیسے ہو گی؟ پس وراثت والی آیت نازل ہوئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8573

۔ (۸۵۷۳)۔ عَنْ أَ بِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: اشْتَکَیْتُ وَعِنْدِی سَبْعُ أَ خَوَاتٍ لِی، فَدَخَلَ عَلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَضَحَ فِی وَجْہِی، فَأَ فَقْتُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أُوصِی لِأَ خَوَاتِی بِالثُّلُثَیْنِ، قَالَ: ((أَحْسِنْ۔)) قُلْتُ: بِالشَّطْرِ، قَالَ: ((أَحْسِنْ۔)) قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ وَتَرَکَنِی ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ: ((یَا جَابِرُ إِنِّی لَا أَ رَاکَ مَیِّتًا مِنْ وَجَعِکَ ہٰذَا، فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ قَدْ أَنْزَلَ فَبَیَّنَ الَّذِی لِأَخَوَاتِکَ، فَجَعَلَ لَہُنَّ الثُّلُثَیْنِ۔))، فَکَانَ جَابِرٌ یَقُولُ: نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ فِیَّ: {یَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیکُمْ فِی الْکَلَالَۃِ} [النسائ:۱۷۶]۔ (مسند احمد: ۱۵۰۶۲)
۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں بیمار پڑ گیا، جبکہ میری سات بہنیں تھیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میرے چہرے پر پانی چھڑکا، میں ہوش میں آ گیا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں اپنی بہنوں کے لئے اپنے دو تہائی مال کی وصیت کردوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زیادہ کرو۔ میں نے کہا: نصف مال کی وصیت کردوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اور زیادہ کرو۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس سے تشریف لے گئے اور پھر واپس آئے اورفرمایا: اے جابر! میرا خیال ہے کہ تم اس تکلیف کیوجہ سے فوت ہونے والے نہیں ہو، بہرحال اللہ تعالی نے قرآن نازل کر کے تیری بہنوں کا حصہ واضح کر دیا ہے اور ان کو دو تہائی دیا ہے۔ سیدنا جابر کہا کرتے تھے: یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی ہے: {یَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیکُمْ فِی الْکَلَالَۃِ}۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8574

۔ (۸۵۷۴)۔ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: جَائَ رَجُلٌ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَاَلَہٗعَنِالْکَلَالَۃِ، فَقَالَ: ((تَکْفِیْکَ آیَۃُ الصَّیْفِ۔))(مسند احمد: ۱۸۷۹۰)
۔ سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کلالہ کے بارے میں دریافت کیا،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تجھے گرمیوں میں نازل ہونے والی آیت ہی کافی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8575

۔ (۸۵۷۵)۔ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: اُنْزِلَتْ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سُوْرَۃُ الْمَائِدَۃِ، وَھُوَ رَاکِبٌ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ،فَلَمْ تَسْتَطِعْ اَنْ تَحْمِلَہٗفَنَزَلَعَنْہَا۔ (مسنداحمد: ۶۶۴۳)
۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب سورۂ مائدہ کا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر نزول ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی سواری پر سوار تھے، سواری میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ اس کیفیت میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اٹھا سکے، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس سے اتر آئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8576

۔ (۸۵۷۶)۔ عَنْ اَسْمَائَ بِنْتِ یَزِیْدَ قَالَت: اِنِّیْ لَآخِذَۃٌ بِزَمَامِ الْعَضْبَائِ نَاقَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِذْ اُنْزِلَتْ عَلَیْہِ الْمَائِدَۃُ کُلُّہَا، فَکَادَتْ مِنْ ثَقْلِہَا تَدُقُّ بِعَضُدِ النَّاقَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۸۱۲۷)
۔ سیدہ اسماء بنت یزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عضباء اونٹنی کی لگام تھامے ہوئے تھی کہ آپ پر سورۂ مائدہ نازل ہوئی، اس وحی کے بوجھ سے قریب تھا کہ اونٹنی کا بازو ٹوٹ جاتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8577

۔ (۸۵۷۷)۔ عَنْ أَ بِی الزَّاہِرِیَّۃِ عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلٰی عَائِشَۃَ فَقَالَتْ: ہَلْ تَقْرَأُ سُورَۃَ الْمَائِدَۃِ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَتْ: فَإِنَّہَا آخِرُ سُورَۃٍ نَزَلَتْ، فَمَا وَجَدْتُمْ فِیہَا مِنْ حَلَالٍ فَاسْتَحِلُّوہُ وَمَا وَجَدْتُّمْ فِیہَا مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوہُ، وَسَأَ لْتُہَا عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتِ: الْقُرْآنُ۔ (مسند احمد: ۲۶۰۶۳)
۔ حبیر بن نفیر سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس گیا، انہوں نے مجھ سے پوچھا: کیا تم سورۂ مائدہ پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں، انھوں نے کہا: یہ آخری سورت ہے، جو نازل ہوئی، اس لیے اس میں جو چیز حلال پائو،اس کو حلال سمجھو اور جو چیز اس میں حرام پائو، اسے حرام سمجھو۔ پھر جب میں نے سیدہ سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اخلاق کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اخلاق قرآن تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8578

۔ (۸۵۷۸)۔ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ قَالَ: جَائَ رَجُلٌ مِنْ الْیَہُودِ إِلَی عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقَالَ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ! إِنَّکُمْ تَقْرَئُ وْنَ آیَۃً فِی کِتَابِکُمْ، لَوْ عَلَیْنَا مَعْشَرَ الْیَہُودِ نَزَلَتْ لَاتَّخَذْنَا ذَلِکَ الْیَوْمَ عِیدًا، قَالَ: وَأَ یُّ آیَۃٍ ہِیَ؟ قَالَ: قَوْلُہُ عَزَّ وَجَلَّ: {الْیَوْمَ أَ کْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی} [المائدۃ: ۳] قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: وَاللّٰہِ! إِنَّنِی لَأَ عْلَمُ الْیَوْمَ الَّذِی نَزَلَتْ فِیہِ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَالسَّاعَۃَ الَّتِی نَزَلَتْ فِیہَا عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَشِیَّۃَ عَرَفَۃَ فِییَوْمِ الْجُمُعَۃِ۔ (مسند احمد: ۱۸۸)
۔ طارق بن شہاب سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایکیہودی،سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آیا اور اس نے کہا: اے امیر المومنین ! تم اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہو کہ اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم نے (تعظیم کرتے ہوئے) اس دن کو عید بنا لینا تھا، انہوں نے کہا: وہ کونسی آیت ہے؟ اس نے کہا: اللہ تعالی کا یہ فرمان کہ {الْیَوْمَ أَ کْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی}… آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی ہے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:اللہ کی قسم! میں وہ دن جانتا ہوں، جس میں یہ آیت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر نازل ہوئی تھی، بلکہ اس گھڑی کا بھی علم ہے، جس میں یہ نازل ہوئی تھی، جمعہ کا دن تھا اور عرفہ کی شام تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8579

۔ (۸۵۷۹)۔ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عن أَبِیْہِ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا أَ نَّہَا اسْتَعَارَتْ مِنْ أَسْمَائَ قِلَادَۃً فَہَلَکَتْ، فَبَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رِجَالًا فِیْ طَلْبِہَا فَوَجَدُوْہَا، فَأَ دْرَکَتْہُمُ الصَّلَاۃُ وَلَیْسَ مَعَہُمْ مَائٌ فَصَلَّوْا بِغَیْرِ وُضُوْئٍ فَشَکَوْا ذٰلِکَ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ التَّیَمُّمَ، فَقَالَ أُسَیْدُ بْنُ حُضَیْرٍ لِعَائِشَۃَ: جَزَاکِ اللّٰہُ خَیْرًا، فَوَاللّٰہِ! مَا نَزَلَ بِکِ أَ مْرٌ تَکْرَہِیْنَہُ اِلَّا جَعَلَ اللّٰہُ لَکِ وَلِلْمُسْلِمِیْنَ فِیْہِ خَیْرًا۔ (مسند أحمد: ۲۴۸۰۳)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ انھوں نے سیدہ اسمائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے ایک ہار بطورِ استعارہ لیا تھا، لیکن وہ گم ہو گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کچھ افراد کو اس کو تلاش کرنے کے لیے بھیجا، ان کو وہ مل گیا، لیکن نماز نے ان کو اس حال میں پا لیا کہ ان کے ساتھ پانی نہیںتھا، پس انھوں نے بغیروضو کے نماز پڑھی اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف یہ شکایت کی، پس اللہ تعالی نے تیمم کی رخصت نازل کر دی، سیدنا اسید بن حضیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے کہا: اللہ تعالی تم کو جزائے خیر دے، جب بھی تمہارا کوئی ایسا معاملہ بنتا ہے، جس کو تم ناپسند کرتی ہے، اللہ تعالی اس میں تمہارے لیے اور مسلمانوں کے لیے خیر و بھلائی بنا دیتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8579

۔ (۸۵۷۹م)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَ نَّہَا قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی بَعْضِ أَ سْفَارِنَا حَتّٰی إِذَا کُنَّا بِالْبَیْدَائِ أَوْ بِذَاتِ الْجَیْشِ، انْقَطَعَ عِقْدٌ لِی، فَأَ قَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی الْتِمَاسِہِ وَأَقَامَ النَّاسُ مَعَہُ، وَلَیْسُوا عَلٰی مَائٍ وَلَیْسَ مَعَہُمْ مَائٌ، فَأَ تَی النَّاسُ إِلٰی أَ بِی بَکْرٍ فَقَالُوْا: أَ لَا تَرٰی مَا صَنَعَتْ عَائِشَۃُ؟ أَ قَامَتْ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَبِالنَّاسِ، وَلَیْسُوا عَلٰی مَائٍ وَلَیْسَ مَعَہُمْ مَائٌ، فَجَائَ أَ بُو بَکْرٍ وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاضِعٌ رَأْسَہُ عَلٰی فَخِذِی، فَقَالَ: حَبَسْتِ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالنَّاسَ، وَلَیْسُوا عَلَی مَائٍ وَلَیْسَ مَعَہُمْ مَائٌ، قَالَتْ: فَعَاتَبَنِی أَ بُو بَکْرٍ وَقَالَ مَا شَائَ اللّٰہُ أَ نْ یَقُولَ، وَجَعَلَ یَطْعَنُ بِیَدِہِ فِی خَاصِرَتِی، وَلَا یَمْنَعُنِی مِنْ التَّحَرُّکِ إِلَّا مَکَانُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی فَخِذِی، فَنَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی أَ صْبَحَ النَّاسُ عَلٰی غَیْرِ مَائٍ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ آیَۃَ التَّیَمُّمِ فَتَیَمَّمُوا، فَقَالَ أُسَیْدُ بْنُ الْحَضِیرِ: مَا ہِیَ بِأَوَّلِ بَرَکَتِکُمْ یَا آلَ أَبِی بَکْرٍ! قَالَتْ: فَبَعَثْنَا الْبَعِیرَ الَّذِی کُنْتُ عَلَیْہِ فَوَجَدْنَا الْعِقْدَ تَحْتَہُ۔ (مسند احمد: ۲۵۹۶۹)
۔ (دوسری سند) عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے یہ بھی روایت ہے کہ ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے جب ہم بیداءیا ذات الجیش جگہ پر پہنچے تو میرا ایک ہار گم ہوگیا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی تلاش کے لئے ٹھہر گئے لوگ بھی ٹھہر گئے نہ وہ پانی پر تھے اور نہ ہی ان کے پاس پانی تھا۔ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے جبکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنا سر مبارک میری ران پر رکھے سو رہے تھ۔ ابوبکر کہنے لگے تو نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو روک رکھا ہے اور لوگوں کو بھی نہ وہ پانی کے پاس ہیں اور نہ ہی ان کے پاس پانی ہے۔ کہا مجھے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بہت سرزنش کی اور جو چاہا کہا اور میری کوکھ میں مارنا شروع ہوئے۔ مجھے حرکت میں یہ چیز رکاوٹ تھی کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میری ران پر سر رکھے ہوئے تھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہوئے صبح تک لوگوں کے پاس پانی نہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل کی لوگوں نے تیمم کیا سیدنا اسید بن حضیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فرماتے ہیں اے ابوبکر کی اولاد! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں تم ہمیشہ باعث برکت ثابت ہوئے ہو۔ تو بعد میں ہم نے اونٹ اٹھایا جس پر میں تھی تو ہار اس کے نیچے سے مل گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8580

۔ (۸۵۸۰)۔ عَنْ أَ نَسٍ أَ نَّ نَفَرًا مِنْ عُکْلٍ وَعُرَیْنَۃَ تَکَلَّمُوْا بِالْإِسْلَامِ، فَأَ تَوْا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَ خْبَرُوْہُ أَ نَّہُمْ أَ ہْلُ ضَرْعٍ، وَلَمْ یَکُونُوا أَ ہْلَ رِیفٍ، وَشَکَوْا حُمَّی الْمَدِینَۃِ، فَأَ مَرَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِذَوْدٍ، وَأَ مَرَہُمْ أَ نْ یَخْرُجُوْا مِنَ الْمَدِینَۃِ فَیَشْرَبُوْا مِنْ أَلْبَانِہَا وَأَ بْوَالِہَا، فَانْطَلَقُوْا فَکَانُوْا فِی نَاحِیَۃِ الْحَرَّۃِ، فَکَفَرُوْا بَعْدَ إِسْلَامِہِمْ، وَقَتَلُوْا رَاعِیَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَسَاقُوا الذَّوْدَ، فَبَلَغَ ذٰلِکَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَبَعَثَ الطَّلَبَ فِی آثَارِہِمْ، فَأُتِیَ بِہِمْ فَسَمَلَ أَعْیُنَہُمْ وَقَطَّعَ أَ یْدِیَہُمْ وَأَ رْجُلَہُمْ، وَتُرِکُوْا بِنَاحِیَۃِ الْحَرَّۃِ،یَقْضَمُونَ حِجَارَتَہَا حَتَّی مَاتُوا، قَالَ قَتَادَۃُ: فَبَلَغَنَا أَ نَّ ہٰذِہِ الْآیَۃَ نَزَلَتْ فِیہِمْ {إِنَّمَا جَزَائُ الَّذِینَیُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ} [المائدۃ: ۳۳]۔ (مسند احمد: ۱۲۶۹۷)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ عکل اور عرینہ قبیلہ کے کچھ افراد نے اسلام قبول کیااور وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتایا کہ وہ مویشیوں والے لوگ ہیں، کھیتی باڑی والے نہیں ہیں، نیز انہوں نے مدینہ کے بخار کی بھی شکایت کی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے لیےاونٹوں کا حکم دیا اور ان سے فرمایا کہ وہ مدینہ سے باہر چلے جائیں اور اونٹوں کا پیشاب اور دودھ پئیں، ایسے ہی ہوا اور وہ مدینہ سے باہر حرّہ کی ایک طرف چلے گئے، لیکن انھوں نے اسلام لانے کے بعد کفر کیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چرواہے کو قتل کیا اور اونٹ ہانک کر لے گئے۔ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس بات کا پتہ چلا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے تعاقب میں بندے بھیجے، جو ان کو پکڑ کر لے آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی آنکھیں پھوڑ دیں، ان کے ہاتھ پائوں کاٹ ڈالے اور حرہ کی ایک جانب انہیں پھینک دیا، وہ پتھروں کو منہ میں کاٹے تھے اور اسی حالت میں مر گئے۔ قتادہ کہتے ہیں: ہمیں یہ بات پہنچی کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی: { اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَیُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗوَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْہِمْ وَاَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ذٰلِکَ لَھُمْ خِزْی’‘ فِی الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَاب’‘ عَظِیْم’‘} … جو لوگ اللہ تعالی اوراس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کر دیئے جائیںیا سولی چڑھا دیئے جائیںیا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں،یا انہیں جلا وطن کر دیا جائے، یہ تو ہوئی ان کی دنیوی ذلت اور خواری اور آخرت میں ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ (سورۂ مائدہ: ۳۳)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8581

۔ (۸۵۸۱)۔ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: مُرَّ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِیَہُوْدِیٍّ مُحَمَّمٍ مَجْلُودٍ فَدَعَاہُمْ فَقَالَ: ((أَ ہٰکَذَا تَجِدُوْنَ حَدَّ الزَّانِی فِی کِتَابِکُمْ؟۔)) فَقَالُوْا: نَعَمْ، قَالَ: فَدَعَا رَجُلًا مِنْ عُلَمَائِہِمْ فَقَالَ: ((أَنْشُدُکَ بِاللّٰہِ الَّذِی أَ نْزَلَ التَّوْرَاۃَ عَلٰی مُوسٰی أَ ہٰکَذَا تَجِدُوْنَ حَدَّ الزَّانِی فِی کِتَابِکُمْ۔)) فَقَالَ: لَا، وَاللّٰہِ! وَلَوْلَا أَ نَّکَ أَنْشَدْتَنِی بِہٰذَا لَمْ أُخْبِرْکَ نَجِدُ حَدَّ الزَّانِی فِی کِتَابِنَا الرَّجْمَ، وَلٰکِنَّہُ کَثُرَ فِی أَ شْرَافِنَا فَکُنَّا إِذَا أَ خَذْنَا الشَّرِیفَ تَرَکْنَاہُ وَإِذَا أَ خَذْنَا الضَّعِیفَ أَ قَمْنَا عَلَیْہِ الْحَدَّ، فَقُلْنَا: تَعَالَوْا حَتّٰی نَجْعَلَ شَیْئًا نُقِیمُہُ عَلَی الشَّرِیفِ وَالْوَضِیعِ، فَاجْتَمَعْنَا عَلَی التَّحْمِیمِ وَالْجَلْدِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اللّٰہُمَّ إِنِّی أَ وَّلُ مَنْ أَ حْیَا أَ مْرَکَ إِذْ أَ مَاتُوہُ۔)) قَالَ: فَأَ مَرَ بِہِ فَرُجِمَ فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {یَا أَ یُّہَا الرَّسُولُ لَا یَحْزُنْکَ الَّذِینَیُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ} إِلٰی قَوْلِہِ: {یَقُولُونَ إِنْ أُوتِیتُمْ ہٰذَا فَخُذُوْہُ} یَقُولُونَ: ائْتُوْا مُحَمَّدًا فَإِنْ أَ فْتَاکُمْ بِالتَّحْمِیمِ وَالْجَلْدِ فَخُذُوہُ، وَإِنْ أَ فْتَاکُمْ بِالرَّجْمِ فَاحْذَرُوا إِلَی قَوْلِہِ: {وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَ نْزَلَ اللّٰہُ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْکَافِرُوْنَ} قَالَ فِی الْیَہُودِ إِلٰی قَوْلِہِ: {وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَ} {وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ} [المائدۃ: ۴۴، ۴۵، ۴۷] قَالَ: ہِیَ فِی الْکُفَّارِ۔ (مسند احمد: ۱۸۷۲۴)
۔ سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے ایکیہودی کو گزارا گیا، جس کا چہرہ کالا کیا گیا تھا اور اسے کوڑے لگائے گئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو بلایا اور فرمایا: کیا تم اپنی کتاب میں زانی کییہی حد پاتے ہو؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے علماء میں سے ایک آدمی کو بلایا اور اس سے فرمایا: میں تجھے اس اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، جس نے موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل کی، کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی حد اسی طرح پاتے ہو؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! نہیں، اور اگر آپ نے مجھے یہ واسطہ نہ دیا ہوتا تو میں آپ کو نہ بتلاتا، ہم اپنی کتاب میں زنا کی حد رجم ہی پاتے ہیں، لیکن جب ہمارے اونچے طبقے والے لوگوں میں زنا عام ہو گیا تھا، تو جب ہم کسی اونچے آدمی کو پکڑتے تو اسے چھوڑ دیتے اور جب ہم کسی کمزور کو پکڑتے تو اس پر یہی حد قائم کردیتے، پھر ہم نے اجلاس کیا اور یہ قانون پاس کیا کہ ہم ایسی حد تجویز کر لیں جو ہم بلند مرتبہ اور کم مرتبہ دونوں قسم کے لوگوں پر نافذ کر سکیں، پس ہم نے اس پر اتفاق کیا کہ کوڑے مار دئیے جائیں اور منہ کالا کر دیا جائے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! میں تیرا وہ بندہ ہوں، جس نے سب سے پہلے تیرے حکم کو زندہ کیا ہے، جبکہ یہودیوں نے اس کو چھوڑ رکھا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم دیا اور اسے رجم کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَیُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاَفْوَاہِہِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُہُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ لَمْ یَاْتُوْکَیُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِہٖیَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ ہٰذَا فَخُذُوْہُ وَاِنْ لَّمْ تُؤْتَوْہُ فَاحْذَرُوْا۔}… اے رسول! تجھے وہ لوگ غمگین نہ کریں جو کفر میں دوڑ کر جاتے ہیں، ان لوگوں میں سے جنھوں نے اپنے مونہوں سے کہا ہم ایمان لائے، حالانکہ ان کے دل ایمان نہیں لائے اور ان لوگوں میں سے جو یہودی بنے۔ بہت سننے والے ہیں جھوٹ کو، بہت سننے والے ہیں دوسرے لوگوں کے لیے جو تیرے پاس نہیںآئے، وہ کلام کو اس کی جگہوں کے بعد پھیر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں اگر تمھیںیہ دیا جائے تو لے لو اور اگر تمھیںیہ نہ دیا جائے تو بچ جاؤ۔ یہیہودی آپس میں کہتے ہیں:تم محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے پاس جاؤ،اگر وہ تمہیںیہ فتویٰ دیں کہ زانی کا منہ کالا کرو اور اسے کوڑے لگائو تو پھر ان کی بات مان لینا اور اگر و ہ رجم کا فتویٰ دیں تو پھر بچ کر رہنا، اللہ تعالی کے اس فرمان تک: {وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْکَافِرُوْنَ} یہیہودیوں کے بارے میں ہے اور {وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَ نْزَلَ اللّٰہُ فَأُولَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَ} اور {وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَ نْزَلَ اللّٰہُ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ} یہ دو آیتیں کافروں کے بارے میں ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8582

۔ (۸۵۸۲)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِہِ عَزَّوَجَلَّ: {فَإِنْ جَائُ وْکَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ أَ وْ أَعْرِضْ عَنْہُمْ، وَإِنْ تُعْرِضْ عَنْہُمْ فَلَنْ یَضُرُّوکَ شَیْئًا، وَإِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِالْقِسْطِ، إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ} [المائدۃ: ۴۲] قَالَ: کَانَ بَنُو النَّضِیرِ إِذَا قَتَلُوا قَتِیلًا مِنْ بَنِی قُرَیْظَۃَ أَ دَّوْا إِلَیْہِمْ نِصْفَ الدِّیَۃِ، وَإِذَا قَتَلَ بَنُو قُرَیْظَۃَ مِنْ بَنِی النَّضِیرِ قَتِیلًا أَ دَّوْا إِلَیْہِمْ الدِّیَۃَ کَامِلَۃً، فَسَوّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنہُمْ الدِّیَۃَ۔ (مسند احمد: ۳۴۳۴)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: اللہ تعالی نے فرمایا: {فَإِنْ جَائُ وْکَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ أَ وْ أَ عْرِضْ عَنْہُمْ، وَإِنْ تُعْرِضْ عَنْہُمْ فَلَنْ یَضُرُّوکَ شَیْئًا، وَإِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِالْقِسْطِ، إِنَّ اللّٰہَیُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ}… پھر اگر وہ تیرے پاس آئیں تو ان کے درمیان فیصلہ کر، یا ان سے منہ پھیر لے اور اگر تو ان سے منہ پھیر لے تو ہرگز تجھے کچھ نقصان نہ پہنچائیں گے اور اگر تو فیصلہ کرے تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ تفصیلیہ ہے کہ جب بنو نضیر، بنو قریظہ کا بندہ قتل کر دیتے تو وہ نصف دیت دیتے اور جب بنو قریظہ، بنو نضیر میں سے کسی کو قتل کر دیتے تو یہ پوری دیت دیتے تھے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دیت کے معاملے میں ان کے مابین برابری کر دی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8583

۔ (۸۵۸۳)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قاَلَ: إِنَّ اللَّٰہَ عَزَّوَجَلَّ أَ نْزَلَ: {وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَ نْزَلَ اللّٰہُ فَأُوْلٰئِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ} وَ {أُوْلٰئِکَ ھُمُ الظَّالِمُوْنَ} وَ{أُوْلٰئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ} قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَ نْزَلَھَا اللّٰہُ فِی الطَّائِفَتَیْنِ مِنَ الْیَھُوْدِ، وَکَانَتْ إِحْدَاھُمَا قَدْ قَھَرَتِ اْلأُخْرٰی فِی الْجَاھِلِیَّۃِ حَتّٰی ارْتَضَوْا وَاصْطَلَحُوْا عَلٰی أَ نَّ کُلَّ قَتِیْلٍ قَتَلَہُ (الْعَزِیْزَۃُ) مِنَ الذَّلِیْلَۃِ فَدِیَتُہٗ خَمْسُوْنَ وَسْقاً، وَکُلُّ قَتِیْلٍ قَتَلَہُ (الذَّلِیْلَۃُ) مِنَ (الْعَزِیْزَۃِ) فَدِیَتُہُ مِئَۃُ وَسْقٍ، فَکَانُوْا عَلٰی ذٰلِکَ حَتّٰی قَدِمَ النَّبِیُّ الْمَدِیْنَۃَ، فَذَلَّتِ الطَّائِفَتَانِ کِلْتَاھُمَا لِمَقْدَمِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَیَوْمَئِذٍ لَّمْ یَظْھَرْ وَلَمْ یُوَطِّئْھُمَا عَلَیْہِ وَھُوَ فِی الصُّلْحِ، فَقَتَلَتِ (الذَّلِیْلَۃُ) مِنَ (الْعَزِیْزَۃِ) قَتِیْلاً فَأَ رْسَلَتِ (الْعَزِیْزَۃُ) إِلٰی (الذَّلِیْلَۃِ) أَ نِ ابْعَثُوْا إِلَیْنَا بِمِئَۃِ وَسْقٍ، فَقَالَتِ( الذَّلِیْلَۃُ) وَھَلْ کَانَ ھٰذَا فِی حَیَّیْنِ قَطُّ دِ یْنُھُمَا وَاحِدٌ، وَنَسَبُھُمَا وَاحِدٌ، وَبَلَدُھُمَا وَاحِدٌ، دِیَۃُ بَعْضِھِمْ نِصْفُ دِیَۃِ بَعْضٍ؟ إِنَّا إِنَّمَا أَ عْطَیْنَاکُمْ ھٰذَا ضَیْماً مِنْکُمْ لَنَا، وَفَرَقًا مِنْکُمْ فَأَ مَّا إِذْ قَدِمَ مُحَمَّدٌ فَلَا نُعْطِیْکُمْ ذٰلِکَ، فَکَادَتِ الْحَرْبُ تَھِیْجُ بَیْنَھُمَا، ثُمَّ ارْتَضَوْا عَلٰی أَ ن یَّجْعَلُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَھُمْ، ثُمَّ ذَکَرَتِ (الْعَزِیْزَۃُ) فَقَالَتْ: وَاللّٰہِ مَامُحَمَّدٌ بِمُعْطِیْکُمْ مِنْھُمْ ضِعْفَ مَایُعْطِیْھِمْ مِنْکُمْ، وَلَقَدْ صَدَقُوْا، مَا أَ عْطَوْنَا ھٰذَا إِلاَّ ضَیْمًا مِنَّا، وَقَھْراً لَّھُمْ، فَدُسُّوْا إِلٰی مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَنْ یُخْبِرُ لَکُمْ رَأْیَہُ، إِنْ أَ عْطَاکُمْ مَاتُرِیْدُوْنَ حَکَّمْتُوْہُ، وَاِنْ لَّمْ یُعْطِکُمْ حَذِرْتُمْ فَلَمْ تُحَکِّمُوْہُ، فَدَسُّوْا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَاساً مِنَ الْمُنَافِقِیْنَ لِیُخْبِرُوْا لَھُمْ رَأْیَ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَلَمَّا جَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَخْبَرَ اللّٰہُ رَسُوْلَہٗبِأَمْرِھِمْکُلِّہٖوَمَاأَرَادُوْا،فَأَنْزَلَاللّٰہُعَزَّوَجَلَّ: {یَأَیُّھَا الرَّسُوْلُ لَایَحْزُنْکَ الَّذِیْیُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوَا آمَنَّا} إلی قولہ: {وَمَنْ لَّمْ یَحْکُم بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ۔} ثُمَّ قَالَ: فِیْھِمَا وَاللّٰہِ نَزَلَتْ، وَإِیَّاھُمَا عَنَی اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔ (مسند احمد: ۲۲۱۲)
۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اللہ تعالی نے یہ آیات نازل کیں: اور جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلہ نہ کریں وہ کافر ہیں اور وہ لوگ ظالم ہیں اور وہ لوگ فاسق ہیں انھوں نے کہا: اللہ تعالی نے یہ آیاتیہودیوں کے دو گروہوں کے بارے میں نازل کیں، ان میں سے ایک نے دورِ جاہلیت میں دوسرے کو زیر کر لیا تھا، حتی کہ وہ راضی ہو گئے اور اس بات پر صلح کر لی کہ عزیزہ قبیلے نے ذلیلہ قبیلے کا جو آدمی قتل کیا، اس کی دیت پچاس وسق ہو گی اور ذلیلہ نے عزیزہ کا جو آدمی قتل کیا اس کی دیت سو (۱۰۰) وسق ہو گی، وہ اسی معاہدے پر برقرار تھے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ میں تشریف لائے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے آنے سے وہ دونوں قبیلے بے وقعت ہو گئے، حالانکہ ابھی تک آپ ان پر غالب نہیں آئے تھے اور نہ آپ نے ان کی موافقت کی تھی اور ان کے ساتھ صلح و صفائی کا زمانہ تھا۔ اُدھر ذلیلہ نے عزیزہ کا بندہ قتل کر دیا، عزیزہ نے ذلیلہ کی طرف پیغام بھیجا کہ سو وسق ادا کرو۔ ذلیلہ والوں نے کہا: جن قبائل کا دین ایک ہو، نسب ایک ہو اور شہر ایک ہو، تو کیایہ ہو سکتا ہے کہ ایک کی دیت دوسرے کی بہ نسبت نصف ہو؟ ہم تمھارے ظلم و ستم کی وجہ سے تمھیں (سو وسق) دیتے رہے، اب جبکہ محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) آ چکے ہیں، ہم تمھیں نہیں دیں گے۔ ان کے مابین جنگ کے شعلے بھڑکنے والے ہی تھے کہ وہ آپس میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر بحیثیت ِ فیصل راضی ہو گئے۔ عزیزہ کے ورثاء آپس میں کہنے لگے: اللہ کی قسم! محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) تمھارے حق میں دو گنا کا فیصلہ نہیں کرے گا، ذلیلہ والے ہیں بھی سچے کہ وہ ہمارے ظلم و ستم اور قہر و جبر کی وجہ سے دو گناہ دیتے رہے، اب محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے پاس کسی آدمی کو بطورِ جاسوس بھیجو جو تمھیں اس کے فیصلے سے آگاہ کر سکے، اگر وہ تمھارے ارادے کے مطابق فیصلہ کر دے تو تم اسے حاکم تسلیم کر لینا اور اگر اس نے ایسے نہ کیا تو محتاط رہنا اور اسے فیصل تسلیم نہ کرنا۔ سو انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس کچھ منافق لوگوں کو بطورِ جاسوس بھیجا، جب وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچے تو اللہ تعالی نے اپنے رسول کو ان کی تمام سازشوں اور ارادوں سے آگاہ کر دیا اور یہ آیات نازل فرمائیں: اے رسول! آپ ان لوگوں کے پیچھے نہ کڑھیے جو کفر میں سبقت کر رہے ہیں خواہ وہ ان میں سے ہوں جو زبانی تو ایمان کا دعوی کرتے لیکن حقیقت میں ان کے دل باایمان نہیں … … اور جو اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلہ نہ کریں وہ کافر ہیں۔ (سورۂ مائدہ: ۴۱۔ ۴۴) پھر کہا: اللہ کی قسم! یہ آیتیں انہی دونوں کے بارے میں نازل ہوئیں اور اللہ تعالی کی مراد یہی لوگ تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8584

۔ (۸۵۸۴)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَرَأَھَا: {وَکَتَبْنَا عَلَیْہِمْ فِیْہَا اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنُ بِالْعَیْنِ} نَصَبَ النَّفْسَ وَرَفَعَ الْعَیْنَ۔ (مسند احمد: ۱۳۲۸۲)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {وَکَتَبْنَا عَلَیْہِمْ فِیْہَا اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنُ بِالْعَیْنِ} [المائدۃ: ۴۵] … ہم نے ان پر فرض کیا کہ قصاص میں جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ ہو گی۔ نفس پر زبر پڑھی اور العین پر پیش پڑھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8585

۔ (۸۵۸۵)۔ عَنْ سَعْدِ بْنِ اَبِیْ وَقَّاصٍ قَالَ: وَصَنَعَ رَجُلٌ مِنْ الْأَ نْصَارِ طَعَامًا فَأَ کَلُوا وَشَرِبُوا وَانْتَشَوْا مِنْ الْخَمْرِ، وَذَاکَ قَبْلَ أَنْ تُحَرَّمَ فَاجْتَمَعْنَا عِنْدَہُ، فَتَفَاخَرُوْا وَقَالَتِ الْأَ نْصَارُ: الْأَ نْصَارُ خَیْرٌ، وَقَالَتِ الْمُہَاجِرُونَ: الْمُہَاجِرُونَ خَیْرٌ، فَأَہْوٰی لَہُ رَجُلٌ بِلَحْیَیْ جَزُورٍ فَفَزَرَ أَنْفَہُ فَکَانَ أَنْفُ سَعْدٍ مَفْزُورًا، فَنَزَلَتْ: {یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ} إِلٰی قَوْلِہِ: {فَہَلْ أَ نْتُمْ مُنْتَہُونَ} [المائدۃ: ۹۰۔۹۱]۔ (مسند احمد: ۱۵۶۷)
۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری آدمی نے کھانا تیار کیا اور ساتھیوں کو دعوت دی، انہوں نے کھانا کھایا اور شراب پی اور نشہ میں مست ہو گئے، یہ شراب کے حرام ہونے سے پہلے کی بات ہے، ہم بھی ان کے پاس جمع تھے، انہوں نے آپس میں فخر کا اظہار کرنا شروع کر دیا، انصار نے کہا: انصار بہتر ہیں، مہاجرین نے کہا کہ مہاجر بہتر ہیں، ایک آدمی نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اٹھائی اور سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ناک کو پھاڑ دیا، اس طرح ان کی ناک پھاڑی ہوئی تھی،پھریہ آیات نازل ہوئیں: {یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاء َ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ۔} … اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور شرک کے لیے نصب کردہ چیزیں اور فال کے تیر سراسر گندے ہیں، شیطان کے کام سے ہیں، سو اس سے بچو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمھارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمھیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے، تو کیا تم باز آنے والے ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8586

۔ (۸۵۸۶)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَ تَحْرِیمُ الْخَمْرِ، قَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! کَیْفَ بِإِخْوَانِنَا الَّذِینَ مَاتُوا وَہُمْ یَشْرَبُونَہَا؟ فَنَزَلَتْ: {لَیْسَ عَلَی الَّذِینَ آمَنُووَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِیمَا طَعِمُوا} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَقَالَ بَعْضُہُمْ: قَدْ قُتِلَ سُہَیْلُ بْنُ بَیْضَائَ وَہِیَ فِی بَطْنِہِ قَالَ: فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {لَیْسَ عَلَی الَّذِینَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِیمَا طَعِمُوا} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ [المائدۃ: ۹۳]۔ (مسند احمد: ۲۰۸۸)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمارے ان بھائیوں کا کیا بنے گا، جو اس حال میں فوت ہوئے کہ وہ شراب پیتے تھے، پس یہ آیت نازل ہوئی: {لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْٓا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔}… ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جو وہ کھا چکے، جب کہ وہ متقی بنے اور ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، پھر وہ متقی بنے اور ایمان لائے، پھر وہ متقی بنے اور انھوں نے نیکی کی اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (سورۂ مائدہ: ۹۳) ایک روایت میں ہے: کسی نے کہا: سیدنا سہیل بن بیضائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شہید ہو گئے، جبکہ ان کے پیٹ میں شراب تھی (یعنی وہ اس وقت پیتے تھے) پس اللہ تعالی نے یہ حکم اتار دیا: {لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْٓا}۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8587

۔ (۸۵۸۷)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: { وَلِلَّہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیلًا} [آل عمران: ۹۷] قَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَ فِی کُلِّ عَامٍ؟ فَسَکَتَ، فَقَالُوْا: أَ فِی کُلِّ عَامٍ؟ فَسَکَتَ، قَالَ: ثُمَّ قَالُوْا: أَ فِی کُلِّ عَامٍ؟ فَقَالَ: ((لَا، وَلَوْ قُلْتُ: نَعَمْ لَوَجَبَتْ۔)) فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا لَا تَسْأَ لُوْا عَنْ أَشْیَائَ إِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ} إِلَی آخِرِ الْآیَۃِ [المائدۃ: ۱۰۱]۔ (مسند احمد: ۹۰۵)
۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی {وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیلًا} … لوگوں پر اللہ کے لیے حج فرض ہے جو اس کی طرف راستہ کی طاقت رکھتا ہے۔ تو لوگوں نے کہا: ا ے اللہ کے رسول! کیا حج ہر سال فرض ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش رہے۔ انہوں نے پھر کہا: کیا حج ہر سال فرض ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہرسال فرض ہو جاتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئــَـلُوْا عَنْ اَشْیَاء َ اِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ وَاِنْ تَسْئــَـلُوْا عَنْہَا حِیْنَیُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَکُمْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہَا وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ۔}… اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان چیزوں کے بارے میں سوال مت کرو جو اگر تمھارے لیے ظاہر کر دی جائیں تو تمھیں بری لگیں اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جب قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو تمھارے لیے ظاہر کر دی جائیں گی۔ اللہ نے ان سے در گزر فرمایا اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت برد بار ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8588

۔ (۸۵۸۸)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ مَنْ أَ بِی؟ قَالَ: ((أَ بُوکَ فُلَانٌ۔)) فَنَزَلَتْ: {یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا لَا تَسْأَ لُوْا عَنْ أَ شْیَائَ إِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ} [المائدۃ: ۱۰۱] إِلٰی تَمَامِ الْآیَۃَ۔ (مسند احمد: ۱۳۱۷۹)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرا باپ کون ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیرا باپ فلاں ہے۔ پس یہ آیت نازل ہوئی: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَـلُوْا عَنْ اَشْیَائَ اِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ وَاِنْ تَسْئَـلُوْا عَنْہَا حِیْنَیُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَکُمْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہَا وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ۔}… اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان چیزوں کے بارے میں سوال مت کرو جو اگر تمھارے لیے ظاہر کر دی جائیں تو تمھیں بری لگیں اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جب قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو تمھارے لیے ظاہر کر دی جائیں گی۔ اللہ نے ان سے در گزر فرمایا اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت برد بار ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8589

۔ (۸۵۸۹)۔ عَنْ أَ بِی عَامِرٍ الْأَ شْعَرِیِّ قَالَ: کَانَ رَجُلٌ قُتِلَ مِنْہُمْ بِأَ وْطَاسٍ فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَا أَ بَا عَامِرٍ! أَ لَا غَیَّرْتَ۔)) فَتَلَا ہٰذِہِ الْآیَۃَ: {یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا عَلَیْکُمْ أَ نْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ} [المائدۃ: ۱۰۵] فَغَضِبَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ: ((أَ یْنَ ذَہَبْتُمْ؟ إِنَّمَا ہِیَ: یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ مِنَ الْکُفَّارِ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ۔ (مسند احمد: ۱۷۲۹۷)
۔ سیدنا ابو عامر اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ان میں سے ایک آدمی اوطاس کی جنگ میں شہید ہو گیا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: اے ابو عامر! تو نے اس برائی کو کیوں نہیں بدلا (یعنی اس سے روکا کیوں نہیں)؟ آگے سے اس نے یہ آیت پڑھی: {یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا عَلَیْکُمْ أَ نْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ}… اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر اپنی جانوں کا بچاؤ لازم ہے، تمھیں وہ شخص نقصان نہیں پہنچائے گا جو گمراہ ہے، جب تم ہدایت پا چکے۔ یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو غصہ آ گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کہاں چلے گئے ہو، اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے ایماندارو! جب تم ہدایتیافتہ ہو جاؤ تو گمراہ ہونے والے کافر تمہیں نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8590

۔ (۸۵۹۰)۔ عَنْ قَیْسٍ قَالَ: قَامَ أَ بُوبَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَ ثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: یَا أَ یُّہَا النَّاسُ! إِنَّکُمْ تَقْرَئُ وْنَ ہٰذِہِ الْآیَۃَ: {یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْکُمْ أَ نْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ} [المائدۃ: ۱۰۵] وَإِنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَ وُا الْمُنْکَرَ فَلَمْ یُنْکِرُوہُ، أَوْشَکَ أَ نْ یَعُمَّہُمُ اللّٰہُ بِعِقَابِہِ۔))، قَالَ: وَسَمِعْتُ اَبَا بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یَقُوْلُ: اِیَّاکُمْ وَالْکَذِبَ فَاِنَّ الْکَذِبَ مُجَانِبٌ لِلْاِیْمَانِ۔ (مسند احمد: ۱)
۔ قیس سے روایت ہے کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کرنے کے بعد کہا: اے لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو: {یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا عَلَیْکُمْ أَ نْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ}… اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر اپنی جانوں کا بچاؤ لازم ہے، تمھیں وہ شخص نقصان نہیں پہنچائے گا جو گمراہ ہے، جب تم ہدایت پا چکے۔ جبکہ ہم نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہفرماتے ہوئے سنا کہ جب لوگ جب برائی کو دیکھیں اور اسے تبدیل نہیں کریں گے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو عام عذاب میں مبتلا کر دے۔ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ ایمان سے مختلف چیز ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8591

۔ (۸۵۹۱)۔ حَدَّثَتْنِی جَسْرَۃُ بِنْتُ دَجَاجَۃَ: أَنَّہَا انْطَلَقَتْ مُعْتَمِرَۃً فَانْتَہَتْ إِلَی الرَّبَذَۃِ فَسَمِعَتْ أَ بَا ذَرٍّ یَقُولُ: قَامَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیْلَۃً مِنْ اللَّیَالِی فِی صَلَاۃِ الْعِشَائِ فَصَلّٰی بِالْقَوْمِ ثُمَّ تَخَلَّفَ أَ صْحَابٌ لَہُ یُصَلُّونَ، فَلَمَّا رَأٰی قِیَامَہُمْ وَتَخَلُّفَہُمْ انْصَرَفَ إِلٰی رَحْلِہِ، فَلَمَّا رَأَ ی الْقَوْمَ قَدْ أَ خْلَوُا الْمَکَانَ رَجَعَ إِلٰی مَکَانِہِ فَصَلّٰی، فَجِئْتُ فَقُمْتُ خَلْفَہُ، فَأَ وْمَأَ إِلَیَّ بِیَمِینِہِ فَقُمْتُ عَنْ یَمِینِہِ، ثُمَّ جَائَ ابْنُ مَسْعُودٍ فَقَامَ خَلْفِی وَخَلْفَہُ، فَأَ وْمَأَ إِلَیْہِ بِشِمَالِہِ فَقَامَ عَنْ شِمَالِہِ، فَقُمْنَا ثَلَاثَتُنَا، یُصَلِّی کُلُّ رَجُلٍ مِنَّا بِنَفْسِہِ وَیَتْلُو مِنَ الْقُرْآنِ مَا شَائَ اللّٰہُ أَ نْ یَتْلُوَ، فَقَامَ بِآیَۃٍ مِنْ الْقُرْآنِ یُرَدِّدُہَا حَتّٰی صَلَّی الْغَدَاۃَ، فَبَعْدَ أَ نْ أَ صْبَحْنَا أَ وْمَأْتُ إِلٰی عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ أَ نْ سَلْہُ مَا أَ رَادَ إِلٰی مَا صَنَعَ الْبَارِحَۃَ؟ فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ بِیَدِہِ لَا أَ سْأَ لُہُ عَنْ شَیْئٍ حَتّٰییُحَدِّثَ إِلَیَّ، فَقُلْتُ: بِأَ بِی أَ نْتَ وَأُمِّی قُمْتَ بِآیَۃٍ مِنْ الْقُرْآنِ وَمَعَکَ الْقُرْآنُ لَوْ فَعَلَ ہٰذَا بَعْضُنَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ، قَالَ: ((دَعَوْتُ لِأُمَّتِی۔)) قَالَ: فَمَاذَا أُجِبْتَ أَ وْ مَاذَا رُدَّ عَلَیْکَ؟ قَالَ: ((أُجِبْتُ بِالَّذِی لَوِ اطَّلَعَ عَلَیْہِ کَثِیرٌ مِنْہُمْ طَلْعَۃً تَرَکُوا الصَّلَاۃَ۔)) قَالَ: أَفَلَا أُبَشِّرُ النَّاسَ؟ قَالَ: ((بَلٰی)) فَانْطَلَقْتُ مُعْنِقًا قَرِیبًا مِنْ قَذْفَۃٍ بِحَجَرٍ، فَقَالَ عُمَرُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّکَ إِنْ تَبْعَثْ إِلَی النَّاسِ بِہٰذَا نَکَلُوا عَنِ الْعِبَادَۃِ، فَنَادٰی أَ نْ ارْجِعْ فَرَجَعَ وَتِلْکَ الْآیَۃُ: {إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْلَہُمْ فَإِنَّکَ أَ نْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ} [المائدۃ: ۱۱۸]۔ (مسند احمد: ۲۱۸۲۷)
۔ جسرہ بنت دجاجہ سے مروی ہے کہ وہ عمرہ کے لئے گئی، جب راستے میں ربذہ مقام پر پہنچی، تو سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا: انہوں نے کہا: ایک رات عشاء کی نماز میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قیام کیا اور لوگوں کو یہ نماز پڑھائی، جب فارغ ہوئے تو صحابہ کرام پیچھے ہٹ کر نماز پڑھنے لگے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دیکھا کہ وہ نماز پڑھنے کے لئے پیچھے ہٹ گئے ہیں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے گھر چلے گئے، پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دیکھا کہ جگہ لوگوں سے خالی ہو گئی ہے تو آپ اپنی جگہ پر پھر لوٹ آئے اور نماز پڑھنا شروع کر دی۔ سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے کھڑا ہوگیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دائیں جانب کھڑا ہونے کا اشارہ کیا، پس میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دائیں جانب کھڑا ہو گیا، اتنے میں سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آ گئے اور وہ ہم دونوں کے پیچھے کھڑے ہو گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو بائیں جانب کھڑا ہونے کا اشارہ کیا، سو وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہوگئے، ہم تینوں اس انداز پر نماز پڑھتے رہے کہ ہر کوئی اپنی اپنی نماز پڑھ رہا تھا اور قرآن مجید میں سے حسب منشا تلاوت کرتا رہا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قرآن مجید کی صرف ایک آیت کے ساتھ قیام کیا، صبح کی نماز تک اسے ہی دہراتے رہے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نمازِ فجر سے فارغ ہو گئے تو میں (ابو ذر) نے سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اشارۃً کہا کہ وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گزشتہ رات کے عمل کی بابت پوچھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا کیا مقصد تھا کہ ایک آیت ہی دوہراتے رہے، لیکن انہوں نے کہا: میں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے نہیں پوچھوں گا، الا یہ کہ آپ مجھ سے گفتگو کریں، پھر میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ نے ایک ہی آیت میں ساری رات گزار دی، جبکہ سارا قرآن مجید آپ کو یاد ہے، اگر ہم سے کوئی ایسا کرتا تو ہم اس سے تو ناراض ہو جاتے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے اپنی امت کے لئے دعا کی ہے۔ میں نے کہا: تو پھر آپ کو اس دعا کا کیا جواب دیاگیا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے اس کا ایسا جواب دیا گیا ہے کہ اگر زیادہ تر لوگوں کو اس کا پتہ چل جائے تو وہ اس پر تکیہ کر کے نماز بھی چھوڑ دیں گے۔ میں نے کہا: کیا میں لوگوں کو اس کی بشارت نہ دے دوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں، ضرور دو۔ میں تیز چلا اور ابھی تک ایک پتھر کی پھینک پر تھا کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے ابوذر کو لوگوں کی طرف بھیج دیا ہے کہ وہ ان کو خوشخبری دیں، اس سے یہ لوگ عبادت میں سست روی اختیار کریں گے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے آواز دی کہ ابو ذر واپس آ جائو، سو میں واپس آ گیا۔ وہ آیتیہ تھی: {إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَ نْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ}…
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8592

۔ (۸۵۹۲)۔ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ زِیَادٍ، عَنِ ابْنَیْ بُسْرٍ السُّلَمِیَّیْنِ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَیْہِمَا فَقُلْتُ: یَرْحَمُکُمَا اللّٰہُ، الرَّجُلُ مِنَّا یَرْکَبُ دَابَّتَہُ فَیَضْرِبُہَا بِالسَّوْطِ، وَیَکْفَحُہَا بِاللِّجَامِ، ہَلْ سَمِعْتُمَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی ذٰلِکَ شَیْئًا؟ قَالَا: لَا، مَا سَمِعْنَا مِنْہُ فِی ذٰلِکَ شَیْئًا، فَإِذَا امْرَأَ ۃٌ قَدْ نَادَتْ مِنْ جَوْفِ الْبَیْتِ أَ یُّہَا السَّائِلُ! إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَقُولُ: {وَمَا مِنْ دَابَّۃٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ یَطِیرُ بِجَنَاحَیْہِ إِلَّا أُمَمٌ أَ مْثَالُکُمْ مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیْئٍ} [الأنعام: ۳۸] فَقَالَا: ہٰذِہِ أُخْتُنَا وَھِیَ اَکْبَرُ مِنَّا، وَقَدْ اَدْرَکَتِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۷۸۳۷)
۔ عبید اللہ بن زیاد سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں بسر کے دو بیٹوں کے پاس گیا اور ان سے کہا: اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے، اس بارے میں بتائیں کہ آدمی اپنی سواری پر سوار ہوتا ہے، کوڑے کے ساتھ اسے مارتا ہے، اس کی لگام کھینچتا ہے، کیا تم نے اس کے بارے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کوئی حدیث سنی ہے؟ انہوں نے کہا: جی نہیں، ہم نے اس بارے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کچھ نہیں سنا، اچانک گھر کے اندر سے ایک خاتون نے آواز دی اور کہا: اے سوال کرنے والے! بیشک اللہ تعالی نے فرمایا: {وَمَا مِنْ دَابَّۃٍ فِی الْأَ رْضِ وَلَا طَائِرٍ یَطِیرُ بِجَنَاحَیْہِ إِلَّا أُمَمٌ أَ مْثَالُکُمْ مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیْئٍ} … اور زمین میں نہ کوئی چلنے والا ہے اور نہ کوئی اڑنے والا، جو اپنے دو پروں سے اڑتا ہے مگر تمھاری طرح امتیں ہیں۔ ان دو بھائیوں نے کہا: یہ ہماری بہن ہے، ہم سے بڑی ہے، اس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پایا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8593

۔ (۸۵۹۳)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: مَرَّ الْمَلَاُ مِنْ قُرَیْشٍ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعِنْدَہٗخَبَّابٌوَصُہَیْبٌ وَبِلَالٌ وَعَمَّارٌ، فَقَالُوْا: یَامَحُمَّدُ! اَرَضِیْتَ بِہٰؤُلَائِ فَنَزَلَ فِیْہِمُ الْقُرْآنُ: {وَاَنْذِرْ بِہِ الَّذِیْنَیَخَافُوْنَ اَنْ یُحْشَرُوْا اِلٰی رَبِّہِمْ… اِلٰی قَوْلِہٖ…وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالظَّالِمِیْنَ} [الأنعام: ۵۱۔ ۵۸]۔ (مسند احمد: ۳۹۸۵)
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ قریش کی ایک جماعت نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے گزری، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سیدنا خباب، سیدنا صہیب، سیدنا بلال اور سیدنا عمار موجود تھے، ان قریشیوں نے کہا: اے محمد! کیا آپ ان فقراء پر راضی ہو گئے ہیں (اور ان کو اپنی مجلس میں بٹھایا ہوا ہے)، اس پر ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: {وَاَنْذِرْ بِہِ الَّذِیْنَیَخَافُوْنَ اَنْ یُحْشَرُوْا اِلٰی رَبِّہِمْ… اِلٰی قَوْلِہٖ…وَاللّٰہُاَعْلَمُبِالظَّالِمِیْنَ۔}
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8594

۔ (۸۵۹۴)۔ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَ بِی وَقَّاصٍ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ ہٰذِہِ الْآیَۃِ: {ہُوَ الْقَادِرُ عَلٰی أَ نْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِکُمْ أَ وْ مِنْ تَحْتِ أَ رْجُلِکُمْ} [الأنعام: ۶۵] فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَ مَا إِنَّہَا کَائِنَۃٌ وَلَمْ یَأْتِ تَأْوِیلُہَا بَعْدُ۔)) (مسند احمد: ۱۴۶۶)
۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا: {ہُوَ الْقَادِرُ عَلٰی أَ نْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِکُمْ أَ وْ مِنْ تَحْتِ أَ رْجُلِکُمْ} … کہہ دے وہی اس پر قادر ہے کہ تم پر تمھارے اوپر سے عذاب بھیج دے، یا تمھارے پاؤں کے نیچے سے۔ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار یہ ہونے والا ہے، لیکن ابھی تک اس کی تاویل پوری نہیں ہوئی (یعنی اس کی مصداق صورت سامنے نہیں آئی)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8595

۔ (۸۵۹۵)۔ عَنِ عَمْرٍو سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ لَمَّا نَزَلَتْ: {ہُوَ الْقَادِرُ عَلٰی أَ نْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِکُمْ} قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَ عُوذُ بِوَجْہِکَ۔)) فَلَمَّا نَزَلَتْ: {أَ وْ مِنْ تَحْتِ أَ رْجُلِکُمْ} قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَ عُوذُ بِوَجْہِکَ۔)) فَلَمَّا نَزَلَتْ: {أَ وْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَیُذِیقَ بَعْضَکُمْ بَأْسَ بَعْضٍ} [الأنعام: ۶۵] قَالَ: ((ہٰذِہِ أَ ہْوَنُ وَأَ یْسَرُ۔)) (مسند احمد: ۱۴۳۶۷)
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: {ہُوَ الْقَادِرُ عَلٰی أَ نْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِکُمْ} … کہہ دے وہی اس پر قادر ہے کہ تم پر تمھارے اوپر سے عذاب بھیج دے۔ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! میں تیری چہرے کیپناہ میں آتا ہوں۔ جب یہ حصہ نازل ہوا: {أَ وْ مِنْ تَحْتِ أَ رْجُلِکُمْ} … یا تمھارے پاؤں کے نیچے سے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! میں تیرے چہرے کی پناہ طلب کرتا ہوں۔ اور جب یہ حصہ نازل ہوا: {أَ وْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَیُذِیقَ بَعْضَکُمْ بَأْسَ بَعْضٍ} … یا تمھیں مختلف گروہ بنا کر گتھم گتھا کر دے اور تمھارے بعض کو بعض کی لڑائی (کا مزہ) چکھائے۔ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ زیادہ ہلکا اور زیادہ آسان عذاب ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8596

۔ (۸۵۹۶)۔ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ فِی قَوْلِہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: {ہُوَ الْقَادِرُ عَلٰی أَ نْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِکُمْ} الْآیَۃَ [الأنعام: ۶۵]، قَالَ: ہُنَّ أَ رْبَعٌ وَکُلُّہُنَّ عَذَابٌ وَکُلُّہُنَّ وَاقِعٌ لَا مَحَالَۃَ، فَمَضَتْ اثْنَتَانِ بَعْدَ وَفَاۃِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِخَمْسٍ وَعِشْرِینَ سَنَۃً، فَأُلْبِسُوْا شِیَعًا وَذَاقَ بَعْضُہُمْ بَأْسَ بَعْضٍ، وَثِنْتَانِ وَاقِعَتَانِ لَا مَحَالَۃَ الْخَسْفُ وَالرَّجْمُ۔ (مسند احمد: ۲۱۵۴۷)
۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: {قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓی اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِکُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَّیُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍ اُنْظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّہُمْ یَفْقَہُوْنَ۔} … کہہ دے وہی اس پر قادر ہے کہ تم پر تمھارے اوپر سے عذاب بھیج دے، یا تمھارے پاؤں کے نیچے سے، یا تمھیں مختلف گروہ بنا کر گتھم گتھا کر دے اور تمھارے بعض کو بعض کی لڑائی (کا مزہ) چکھائے، دیکھ ہم کیسے آیات کو پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں، تاکہ وہ سمجھیں۔ پھر سیدنا کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ چار امور ہیں، چاروں عذاب کی صورتیں ہیں، سب نے لامحالہ طور پر واقع ہونا ہے، بلکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کے سے پچیس برس بعد واقع ہو چکی ہیں، ایکیہ کہ لوگ فرقوں میں بٹ گئے اور دوسرا پھر انہوں نے ایکدوسرے کو عذاب بھی چکھایا، باقی دو نے بھی لا محالہ طورپر ہو کر رہنا ہے، اور وہ ہیں: زمین میں دھنسنا اور پتھروں کا برسنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8597

۔ (۸۵۹۷)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {الَّذِینَ آمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا إِیمَانَہُمْ بِظُلْمٍ} [الأنعام: ۸۲] شَقَّ ذٰلِکَ عَلَی النَّاسِ وَقَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَأَ یُّنَا لَا یَظْلِمُ نَفْسَہُ؟ قَالَ: ((إِنَّہُ لَیْسَ الَّذِی تَعْنُونَ، أَ لَمْ تَسْمَعُوْا مَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ؟ {یَا بُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ} [لقمان: ۱۳] إِنَّمَا ہُوَ الشِّرْکُ۔)) (وَفِیْ لَفْظٍ:) ((لَمْ تَسْمَعُوْا مَا قَالَ لُقْمَانُ لِاِبْنِہٖ: {لَاتُشْرِکْ بِاللّٰہِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ}۔)) (مسند احمد: ۴۰۳۱)
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے جب یہ آیت نازل ہوئی: {الَّذِینَ آمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا إِیمَانَہُمْ بِظُلْمٍ}… جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں ظلم کی آمیزش نہیں ہونے دی تو یہ بات لوگوں پر بہت گراں گزری اور انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کون ہے جس نے خود پر ظلم نہ کیا ہو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کا مطلب وہ نہیں، جو تم سمجھ رہے ہو، کیا تم نے نیک بندے کی بات نہیں سنی؟ جب اس نے کہا تھا: {یَا بُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ} … اے میرے پیارے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا، بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ اس آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے۔ ایک روایت میں ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم نے وہ بات نہیں سنی جو لقمان نے اپنے بیٹے سے کہی تھی: {لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ} … اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا، بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8598

۔ (۸۵۹۸)۔ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیمِ إِلَّا بِالَّتِی ہِیَ أَ حْسَنُ} عَزَلُوْا أَ مْوَالَ الْیَتَامٰی حَتّٰی جَعَلَ الطَّعَامُ یَفْسُدُ وَاللَّحْمُ یُنْتِنُ، فَذُکِرَ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَزَلَتْ: {وَإِنْ تُخَالِطُوْہُمْ فَإِخْوَانُکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنْ الْمُصْلِحِ} قَالَ: فَخَالَطُوہُمْ۔ (مسند احمد: ۳۰۰۰)
۔ {وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ} کی تفسیر
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8599

۔ (۸۵۹۹)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: خَطَّ لَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَطًّا ثُمَّ قَالَ: ((ہٰذَا سَبِیلُ اللّٰہِ۔)) ثُمَّ خَطَّ خُطُوطًا عَنْ یَمِینِہِ وَعَنْ شِمَالِہِ۔ ثُمَّ قَالَ: ((ہٰذِہِ سُبُلٌ، قَالَ یَزِیدُ: مُتَفَرِّقَۃٌ عَلٰی کُلِّ سَبِیلٍ مِنْہَا شَیْطَانٌیَدْعُو إِلَیْہِ ثُمَّ قَرَأَ : {واَنَّ ہٰذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیلِہِ} [الأنعام: ۱۵۳]۔ (مسند احمد: ۴۱۴۲)
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمارے لئے ایک خط کھینچا اور ساتھ ہی فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے۔ پھر اس کے دائیں بائیں کئی خطوط کھینچے اور فرمایا۔ یہ جدا جدا راستے ہیں، ان میں سے ہر راستے پر شیطان ہے، جو اپنی طرف بلاتا ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت پڑھی: {واَنَّ ہٰذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیلِہِ}… اور یہ کہ بے شک یہی میرا راستہ ہے سیدھا، پس اس پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تمھیں اس کے راستے سے جدا کر دیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8600

۔ (۸۶۰۰)۔ عَنْ أَ بِی ذَرٍّ أَ نَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((تَغِیبُ الشَّمْسُ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَیُؤْذَنُ لَہَا فَتَرْجِعُ، فَإِذَا کَانَتْ تِلْکَ اللَّیْلَۃُ الَّتِی تَطْلُعُ صَبِیحَتَہَا مِنْ الْمَغْرِبِ لَمْ یُؤْذَنْ لَہَا، فَإِذَا أَ صْبَحَتْ قِیلَ لَہَا: اطْلُعِی مِنْ مَکَانِکِ ثُمَّ قَرَأَ : {ہَلْ یَنْظُرُونَ إِلَّا أَ نْ تَأْتِیَہُمُ الْمَلَائِکَۃُ أَ وْ یَأْتِیَ رَبُّکَ أَ وْ یَأْتِیَ بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ} [الأنعام: ۱۵۸]۔)) (مسند احمد: ۲۱۶۲۵)
۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سورج عرش کے نیچے غروب ہوتا ہے، پھر اسے اجازت دی جاتی ہے، تب یہ واپس لوٹتا ہے، جب وہ رات آئے گی، جس کی صبح کو اس نے مغرب سے طلوع ہونا ہوگا، تو اسے لوٹنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، جب صبح ہو گی تو سورج سے کہا جائے گا:جہاں سے تو آیا ہے، وہیں سے طلوع ہو (یعنی مغرب سے)، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت پڑھی: {ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِیَہُمُ الْمَلٰیِکَۃُ اَوْ یَاْتِیَ رَبُّکَ اَوْ یَاْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ یَوْمَیَاْتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُہَا لَمْ تَکُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ کَسَبَتْ فِیْٓ اِیْمَانِہَا خَیْرًا قُلِ انْتَظِرُوْٓا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ۔} … وہ اس کے سوا کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں،یا تیرا رب آئے، یا تیرے رب کی کوئی نشانیآئے، جس دن تیرے رب کی کوئی نشانی آئے گی کسی شخص کو اس کا ایمان فائدہ نہ دے گا، جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا تھا، یا اپنے ایمان میں کوئی نیکی نہ کمائی تھی۔ کہہ دے انتظار کرو، بے شک ہم (بھی) منتظر ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8601

۔ (۸۶۰۱)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : {یَوْمَیَاْتِیْ بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُہَا} [الأنعام: ۱۵۸] قَالَ: ((طَلُوْعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرَبِہَا۔)) (مسند احمد: ۱۱۲۸۶)
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت کی: {یَوْمَیَاْتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُہَا} … جس دن تیرے رب کی کوئی نشانی آ جائے گی تو کسی شخص کو اس کا ایمان فائدہ نہیں دے گا پھر فرمایا: یہ نشانی سورج کا مغرب کی طرف سے طلوع ہونا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8602

۔ (۸۶۰۲)۔ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ أَ بِی عَرُوبَۃَ فِی ہٰذِہِ الْآیَۃِ: {وَنَزَعْنَا مَا فِی صُدُورِہِمْ مِنْ غِلٍّ} [الأعراف: ۴۳] قَالَ: ثَنَا قَتَادَۃُ: أَ نَّ أَبَا الْمُتَوَکِّلِ النَّاجِیَّ حَدَّثَہُمْ: أَنَّ أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ حَدَّثَہُمْ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَخْلُصُ الْمُؤْمِنُونَ مِنْ النَّارِ فَیُحْبَسُونَ عَلٰی قَنْطَرَۃٍ بَیْنَ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ، فَیُقْتَصُّ لِبَعْضِہِمْ مِنْ بَعْضٍ مَظَالِمُ کَانَتْ بَیْنَہُمْ فِی الدُّنْیَا حَتّٰی إِذَا ہُذِّبُوْا وَنُقُّوْا أُذِنَ لَہُمْ فِی دُخُولِ الْجَنَّۃِ))، قَالَ: ((فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَأَحَدُہُمْ أَہْدٰی لِمَنْزِلِہِ فِی الْجَنَّۃِ مِنْہُ لِمَنْزِلِہِ کَانَ فِی الدُّنْیَا)) قَالَ قَتَادَۃُ: وَقَالَ بَعْضُہُمْ: مَا یُشْبِہُ لَہُمْ إِلَّا أَہْلُ جُمُعَۃٍ حِینَ انْصَرَفُوْا مِنْ جُمُعَتِہِمْ۔ (مسند احمد: ۱۱۷۲۹)
۔ سعید بن ابی عروبہ نے اس آیت {وَنَزَعْنَا مَا فِی صُدُورِہِمْ مِنْ غِلٍّ}کے بارے میں کہا: ہمیں قتادہ نے بیان کیا کہ ان کو ابو متوکل ناجی نے بیانکیا کہ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب ایمانداروں کو دوزخ سے رہائی ملے گی تو انہیں جنت اور دوزخ کے درمیان ایک پل پر روکا جائے گا، آپس میں ظلموں کا قصاص دلایا جائے گا، یہاں تک کہ جب وہ ان سے پاک و صاف کردئیے جائیں گے، تو تب انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت ملے گی، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ جنت میں اپنے مقام کو اس سے زیادہ پہچانتے ہوں گے، جتنا دنیا میں وہ اپنے گھر کے راستے کو پہچانتے ہیں۔ قتادہ نے کہا: بعض راویوں نے کہا: جیسے وہ دنیا میں جمعہ پڑھنے کے بعد سیدھے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8603

۔ (۸۶۰۳)۔ عَنْ أَ نَسِ بْنِ مَالِکٍ، عَنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی قَوْلِہِ تَعَالٰی: {فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہُ لِلْجَبَلِ} [الاعراف: ۱۴۳] قَالَ: قَالَ: ہٰکَذَا یَعْنِی أَ نَّہُ أَ خْرَجَ طَرَفَ الْخِنْصَرِ، قَالَ أَ بِی: أَ رَانَا مُعَاذٌ قَالَ: فَقَالَ لَہُ حُمَیْدٌ الطَّوِیلُ: مَا تُرِیدُ إِلٰی ہٰذَا؟ یَا أَ بَا مُحَمَّدٍ! قَالَ: فَضَرَبَ صَدْرَہُ ضَرْبَۃً شَدِیدَۃً، وَقَالَ: مَنْ أَ نْتَ یَا حُمَیْدُ؟ وَمَا أَ نْتَ یَا حُمَیْدُ؟یُحَدِّثُنِی بِہِ أَ نَسُ بْنُ مَالِکٍ عَنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَتَقُولُ: أَ نْتَ مَا تُرِیدُ إِلَیْہِ؟(مسند احمد: ۱۲۲۸۵)
۔ سیدناانس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالیٰ کے فرمان {فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہُ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗدَکًّا}… تو جب اس کا رب پہاڑ کے سامنے ظاہر ہوا تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا۔ کے بارے میں فرمایا: بس اس طرح ہوا تھا۔ ساتھ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چھنگلیانگلی کا ایک کنارہ نکالا، جب معاذ نے ہمیں یہ کیفیت دکھائی تو حمید طویل نے کہا: اے ابو محمد! اس مثال سے تیری مراد کیا ہے؟ لیکن ابو محمد نے حمید کے سینے پر سخت ضرب لگائی اور کہا: حمید! تو کون ہے؟ تو کیا چیز ہے، حمید! مجھے سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بیان کیا تھا اور تو کہتا ہے کہ اس مثال سے تیری مراد کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8603

۔ (۸۶۰۳م)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ أَ نَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی قَوْلِہِ تَعَالٰی: {فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہُ لِلْجَبَلِ} قَالَ: فَاَوْمَأَ بِخِنْصَرِہٖ،قَالَ: فَسَاخَ۔ (مسنداحمد: ۱۳۲۱۰)
۔ (دوسری سند) سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالی کے اس فرمان{فَلَمَّا تَجَلَّی رَبُّہُ لِلْجَبَلِ} کی وضاحت کرتے ہوئے چھنگلی انگلی سے اشارہ کیا، لیکن (اتنی سی تجلّی سے پہاڑ زمین میں دھنسگیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8604

۔ (۸۶۰۴)۔ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ الْجُھَنِیِّ، اَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، سُئِلَ عَنْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ {وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ آدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ} فَقَالَ عُمَرُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سُئِلَ عَنْھَا فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ ثُمَّ مَسَحَ ظَھْرَہُ بِیَمِیْنِہِ وَاسْتَخْرَجَ مِنْہُ ذُرِّیَّۃً فَقَالَ: خَلَقْتُ ھٰؤُلَائِ لِلْجَنَّۃِ وَ بِعَمَلِ اَھْلِ الْجَنَّۃِیَعْمَلُوْنَ، ثُمَّ مَسَحَ ظَھْرَہُ فَاسْتَخْرَجَ مِنْہُ ذُرِّیَّۃً فَقَالَ: خَلَقْتُ ھٰؤُلَائِ لِلنَّارِ، وَ بِعَمَلِ اَھْـلِ النَّارِ یَعْمَلُوْنَ)) فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَفِیْمَ الْعَمَلُ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّۃِ اسْتَعْمَلَہُ بِعَمَلِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ حَتَّییَمُوْتَ عَلَی عَمَلٍ مِنْ اَعْمَالِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ فَیُدْخِلَہُ بِہٖالْجَنَّۃَ، وَ اِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ اسْتَعْمَلَہُ بِعَمَلِ اَھْلِ النَّارِ حَتَّییَمُوْتَ عَلَی عَمَلٍ مِنْ اَعْمَالِ اَھْلِ النَّارِ فَیُدْخِلَہُ بِہٖالنَّارَ۔)) (مسنداحمد: ۳۱۱)
۔ مسلم بن یسار جہنی سے مروی ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا: {وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ آدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ}، انھوں نے کہا: میں نے خود سنا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، اس کی کمر کو دائیں ہاتھ سے چھوا اور اس سے اس کی اولاد نکالی اور کہا: میں نے ان کو جنت کے لیے پیدا کیا ہے اور اہل جنت کے عمل ہی وہ کریں گے، پھر اس کی کمر کو چھوا اور اس نے مزید اولاد نکال کر کہا: میں نے ان کو آگ کے لیے پیدا کیا ہے اور اہل جہنم کے عمل ہی وہ کریں گے۔ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر عمل کی کیا حیثیت ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالی بندے کو جنت کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس کواہل جنت کے ہی اعمال کرنے کی توفیق دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ جنتیلوگوں کے عمل پر مرتا ہے اور اس طرح وہ اس کوجنت میں داخل کر دیتا ہے، اور جب اللہ تعالی کسی بندے کو آگ کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس کو جہنمی لوگوں کے عمل کرنے کی ہی توفیق دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ اہل جہنم کے اعمال پر مرتا ہے اور وہ اس کو جہنم میں داخل کر دیتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8605

۔ (۸۶۰۵)۔ عَنْ رُفَیْعٍٍ اَبِیْ الْعَالِیَۃِ، عَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فِیْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلّ:َ {وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ آدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَاَشْھَدَھُمْ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ} قَالَ: جَمَعَھُمْ فَجَعَلَھُمْ اَرْوَاحًا ثُمَّ صَوَّرَھُمْ فَاسْتَنْطَقَھُمْ فَتَکَلَّمُوْا، ثُمَّ اَخَذَ عَلَیْھِمُ الْعَھْدَ وَالْمِیْثَاقَ وَاَشْھَدَھُمْ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ؟ قَالَ: فَاِنِّیْ اُشْھِدُ عَلَیْکُمُ السَّمٰوٰتِ السَّبْعَ وَالْاَرْضِیْنَ السَّبْعَ، وَاُشْھِدُ عَلَیْکُمْ اَبَاکُمْ آدَمَ علیہ السلام ، اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَمْ نَعْلَمْ بِھٰذَا، اِعْلَمُوْا اَنَّہُ لَا اِلٰہَ غَیْرِیْ وَلَا رَبَّ غَیْرِیْ، فَلَا تُشْرِکُوْا بِیْ شَیْئًا، اِنِّیْ سَاُرْسِلُ اِلَیْکُمْ رُسُلِیْیُذَکِّرُوْنَکُمْ عَھْدِیْ وَمِیْثَاقِیْ، وَاُنْزِلُ عَلَیْکُمْ کُتُبِیْ، قَالُوْا: شَھِدْنَا بِاَنَّکَ رَبُّنَا وَ اِلٰھُنَا لَا رَبَّ لَنَا غَیْرُکَ، فَاَقَرُّوْا بِذٰلِکَ، وَ رَفَعَ اِلَیْھِمْ آدَمُ یَنْظُرُ اِلَیْھِمْ فَرَاٰی الْغَنِیَّ وَالْفَقِیْرَ وَحَسَنَ الصُّوْرَۃِ وَدُوْنَ ذٰلِکَ، فَقَالَ: رَبِّ! لَوْ لَا سَوَّیْتَ بَیْنَ عِبَادِکَ؟ قَالَ: اِنِّیْ اَحْبَبْتُ اَنْ اُشْکَرَ، وَرَاٰی الْاِنْبِیَائَ فِیْھِمْ مِثْلَ السُّرُجِ عَلَیْھِمُ النُّوْرُ، خُصُّوْا بِمِیْثَاقٍ آخَرَ فِیْ الرِّسَالَۃِ وَالنَّبُوَّۃِ، وَھُوَ قَوْلُہُ تَعَالٰی: {وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّیْنَ مِیْثَاقَھُمْ} اِلٰی قَوْلِہِ {عِیْسٰی بْنُ مَرْیَمَ} کَانَ فِیْ تِلْکَ الْاَرْوَاحِ فَاَرْسَلَہُ اِلٰی مَرْیَمَ، فَحَدَّثَ عَنْ اُبَیٍّ اَنَّہُ دَخَلَ مِنْ فِیْھَا۔ (مسند احمد: ۲۱۵۵۲)
۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اللہ تعالی کے اس فرمان کے بارے میں کہتے ہیں: اور جب تیرے پروردگار نے بنوآدم کی پشتوں یعنی ان کی اولاد سے پختہ عہد لیا اور ان کو ان کے نفسوں پر گواہ بنایا اس کی تفصیلیہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان کو جمع کیا، ان کو روحیں بنایا، پھر ان کی تصویریں بنائیں اور ان کو بولنے کی طاقت دی، پس انھوں نے کلام کیا، پھر اللہ تعالی نے ان سے پختہ عہد لیا اور ان کو ان کے نفسوں پر گواہ بناتے ہوئے کہا: کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟ میں ساتوں آسمانوں، ساتوں زمینوں اور تمہارے باپ کو تم پر گواہ بناتا ہوں، تاکہ تم قیام کے دن یہ نہ کہہ دو کہ ہمیں اس چیز کا کوئی علم نہ تھا، تم اچھی طرح جان لو کہ میرے علاوہ نہ کوئی معبود ہے اور نہ کوئی ربّ، پس میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا، میں عنقریب تمہاری طرف اپنے رسول بھیجوں گا، وہ تم کو میرا عہد یاد کرائیں گے، نیز میںتم پر اپنی کتابیں بھی نازل کروں گا، انھوں نے کہا: ہمیہ شہادت دیتے ہیں کہ تو ہی ہمارا ربّ اور معبود ہے، تیرے علاوہ ہمارا کوئی ربّ نہیں ہے، پس ان سب نے اقرار کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ان پر بلند کیا، انھوں نے ان میں غنی، فقیر، حسین اور کم خوبصورت افراد دیکھے اور کہا: اے میرے ربّ! تو نے ان کے درمیان برابری کیوں نہیں کی؟ اللہ تعالی نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ میرا شکریہ ادا کیا جائے، نیز انھوں نے ان میں انبیاء دیکھے، وہ چراغوں کی طرح نظر آ رہے تھے اور ان پر نور تھا، ان کو رسالت اور نبوت کے عہد و میثاق کے ساتھ خاص کیا گیا، اللہ تعالی کے اس فرمان میں اسیچیز کا ذکر ہے: اور جب ہم نے نبیوں سے ان کا پختہ عہد لیا … عیسیٰ بن مریم۔ عیسیٰ علیہ السلام بھی ان ہی ارواح میں تھے، پھر اللہ تعالی اس روح کو سیدہ مریم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی طرف بھیجا اور وہ ان کے منہ سے ان میں داخل ہو گئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8606

۔ (۸۶۰۶)۔ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَشَہِدْتُ مَعَہُ بَدْرًا، فَالْتَقَی النَّاسُ، فَہَزَمَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی الْعَدُوَّ، فَانْطَلَقَتْ طَائِفَۃٌ فِی آثَارِہِمْ یَہْزِمُونَوَیَقْتُلُونَ، فَأَکَبَّتْ طَائِفَۃٌ عَلَی الْعَسْکَرِ یَحْوُونَہُ وَیَجْمَعُونَہُ، وَأَ حْدَقَتْ طَائِفَۃٌ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا یُصِیبُ الْعَدُوُّ مِنْہُ غِرَّۃً حَتّٰی إِذَا کَانَ اللَّیْلُ وَفَائَ النَّاسُ بَعْضُہُمْ إِلٰی بَعْضٍ، قَالَ الَّذِینَ جَمَعُوا الْغَنَائِمَ: نَحْنُ حَوَیْنَاہَا وَجَمَعْنَاہَا فَلَیْسَ لِأَ حَدٍ فِیہَا نَصِیبٌ، وَقَالَ الَّذِینَ خَرَجُوا فِی طَلَبِ الْعَدُوِّ: لَسْتُمْ بِأَ حَقَّ بِہَا مِنَّا نَحْنُ نَفَیْنَا عَنْہَا الْعَدُوَّ وَہَزَمْنَاہُمْ، وَقَالَ الَّذِینَ أَ حْدَقُوا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : لَسْتُمْ بِأَ حَقَّ بِہَا مِنَّا نَحْنُ أَ حْدَقْنَا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَخِفْنَا أَ نْ یُصِیبَ الْعَدُوُّ مِنْہُ غِرَّۃً وَاشْتَغَلْنَا بِہِ، فَنَزَلَتْ: {یَسْأَ لُونَکَ عَنْ الْأَ نْفَالِ، قُلْ الْأَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُولِ، فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَأَ صْلِحُوا ذَاتَ بَیْنِکُمْ} فَقَسَمَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی فَوَاقٍ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ، قَالَ: وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا أَ غَارَ فِی أَرْضِ الْعَدُوِّ نَفَلَ الرُّبُعَ، وَإِذَا أَ قْبَلَ رَاجِعًا وَکُلَّ النَّاسِ نَفَلَ الثُّلُثَ، وَکَانَ یَکْرَہُ الْأَ نْفَالَ، وَیَقُولُ: ((لِیَرُدَّ قَوِیُّ الْمُؤْمِنِینَ عَلٰی ضَعِیفِہِم۔)) (مسند أحمد: ۲۳۱۴۲)
۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نکلے، میں غزوۂ بدر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، جب لوگوں کا مقابلہ ہوا تو اللہ تعالی نے دشمنوں کو شکست دی، لشکرِ اسلام میں سے کچھ لوگ دشمنوں کو شکست دیتے ہوئے اور ان کو قتل کرتے ہوئے ان کاپیچھا کرنے لگ گے اور ایک حصہ مالِ غنیمت پر ٹوٹ پڑا اور اس کو جمع کرنے لگا اور ایک حصے نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گھیرے میں لے لیا، تاکہ دشمن غفلت سے فائدہ اٹھا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے، یہاں تک کہ رات ہو گئی اور سارے لوگ لوٹ آئے، غنیمتیں جمع کرنے والوں نے کہا: ہم نے یہ مال جمع کیا ہے، کسی اور کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے، دشمن کا پیچھا کرنے والے گروہ نے کہا: تم لوگ ہم سے زیادہ اس مال کے مستحق نہیں ہو، ہم نے اس مال سے دشمن کو ہٹایا اور اس کو شکست دی، اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حفاظت کرنے والوں نے کہا: تم لوگ ہم سے زیادہ اس مال کا حق نہیں رکھتے، ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گھیرے رکھا اور ہم ڈر گئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن غفلت سے فائدہ اٹھا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نقصان پہنچا دے اور اس طرح ہم اُدھر مصروف رہے، پس اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: {یَسْأَ لُونَکَ عَنْ الْأَ نْفَالِ، قُلْ الْأَ نْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُولِ، فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَأَ صْلِحُوا ذَاتَ بَیْنِکُمْ} … وہ تجھ سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے غنیمتیں اللہ اور رسول کے لیے ہیں، سو اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اونٹنی کے فَوَاق کی مقدار کے برابر وقت میں اس مال کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دیا۔ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دشمن کی سرزمین میں حملہ کرتے تھے تو ایک چوتھائی حصہ زائد دیتے تھے اور اگر واپسی پر ایسا ہوتا ہے تو مجاہدین کی تھکاوٹ کی وجہ سے ایک تہائی حصہ زائد دیتے تھے، ویسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس چیز کو ناپسند کرتے تھے کہ لوگ زائد حصے کی حرص رکھیں، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے تھے: قوی مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ کمزوروں کو زائد حصوں میں شریک کریں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8606

۔ (۸۶۰۶م)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ الْبَاھَلِیِّ قَالَ: سَأَ لْتُ عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ عَنْ الْأَ نْفَالِ فَقَالَ: فِینَا مَعْشَرَ أَ صْحَابِ بَدْرٍ نَزَلَتْ حِینَ اخْتَلَفْنَا فِی النَّفْلِ، وَسَائَ تْ فِیہِ أَ خْلَاقُنَا، فَانْتَزَعَہُ اللّٰہُ مِنْ أَ یْدِینَا، وَجَعَلَہُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَسَمَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ عَنْ بَوَائٍ، یَقُولُ: عَلَی السَّوَائِ۔ (مسند أحمد: ۲۳۱۳۳)
۔ (دوسری سند) سیدنا ابو امامہ باہلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبادہ بن صامت سے انفال والی آیت کے بارے میں سوال کیا، انھوں نے کہا: ہم بدر والوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی، جب ہم نے مالِ غنیمت میں اختلاف کیا اور اس بارے میں ہم سے بداخلاقی ہونے لگی تو اللہ تعالی نے ہمارے ہاتھوں سے یہ چیز چھین لی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سپرد کر دی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسلمانوں کے درمیان برابر برابر تقسیم کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8607

۔ (۸۶۰۷)۔ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَ بِی وَقَّاصٍ قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ قُتِلَ أَ خِی عُمَیْرٌ، وَقَتَلْتُ سَعِیدَ بْنَ الْعَاصِ، وَأَ خَذْتُ سَیْفَہُ، وَکَانَ یُسَمَّی ذَا الْکَتِیفَۃِ، فَأَ تَیْتُ بِہِ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اذْہَبْ فَاطْرَحْہُ فِی الْقَبَضِ۔)) قَالَ: فَرَجَعْتُ وَبِی مَا لَا یَعْلَمُہُ إِلَّا اللّٰہُ مِنْ قَتْلِ أَخِی وَأَ خْذِ سَلَبِی، قَالَ: فَمَا جَاوَزْتُ إِلَّا یَسِیرًا حَتّٰی نَزَلَتْ سُورَۃُ الْأَ نْفَالِ، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اذْہَبْ فَخُذْ سَیْفَکَ۔)) (مسند احمد: ۱۵۵۶)
۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بدر کے دن جب میرا بھائی عمیر قتل ہوا اور میں نے سعید بن عاص کو قتل کیا اور اس کی تلوار پکڑ لی، اس تلوار کا نام ذُوْ الْکَتِیفَۃِ تھا۔ میں وہ تلوار لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اس کو مال غنیمت میں رکھ دو۔ پس میں لوٹا، لیکن میرے بھائی کے قتل کی وجہ سے مجھے صدمہ تھا، وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا تھا اور میرا مخالف سے چھینا ہوا مال بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لے لیا، بس میں تھوڑی دیر ہی آگے چلا تھا کہ سورۂ انفال نازل ہو گئی اورنبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: سعد جائو اپنی تلوار لے لو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8607

۔ (۸۶۰۷م)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: قَالَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَدْ شَفَانِی اللّٰہُ مِنْ الْمُشْرِکِینَ فَہَبْ لِی ہٰذَا السَّیْفَ، قَالَ: ((إِنَّ ہٰذَا السَّیْفَ لَیْسَ لَکَ وَلَا لِی ضَعْہُ۔)) قَالَ: فَوَضَعْتُہُ ثُمَّ رَجَعْتُ قُلْتُ: عَسَی أَنْ یُعْطٰی ہٰذَا السَّیْفُ الْیَوْمَ مَنْ لَمْ یُبْلِ بَلَائِی، قَالَ: إِذَا رَجُلٌ یَدْعُونِی مِنْ وَرَائِی، قَالَ: قُلْتُ: قَدْ أُنْزِلَ فِیَّ شَیْئٌ، قَالَ: کُنْتَ سَأَ لْتَنِی السَّیْفَ وَلَیْسَ ہُوَ لِی وَإِنَّہُ قَدْ وُہِبَ لِی فَہُوَ لَکَ۔)) قَالَ: وَأُنْزِلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {یَسْأَلُونَکَ عَنْ الْأَنْفَالِ قُلِ الْأَ نْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُولِ} [الأنفال: ۱] (مسند احمد: ۱۵۳۸)
۔ (دوسری سند) سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اے اللہ کے رسول! مجھے اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کی جانب سے شفا دے دی ہے، پس آپ یہ تلوار مجھے عطا کر دیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تلوار تمہاری ہے نہ میری،یہ مال غنیمت ہے، لہٰذا اس کو رکھ دو۔ میں نے اس رکھ دیا اور پھر واپس آ گیا، لیکنیہ خیال آ رہا تھا کہ ممکن ہے کہ یہ تلوار ایسے شخص کو دے دی جائے، جو میری طرح کے جوہر نہ دکھا سکے، اتنے میں مجھے میرے پیچھے سے کوئی آدمی بلا رہا تھا، میں نے سوچھا کہ میرے بارے میں کوئی چیز نازل ہوئی ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے مجھے تلوار کا سوال کیا تھا، لیکن وہ میری نہیں تھی، اب وہ مجھے بطورِ ہبہ دی جا چکی ہے، لہٰذا اب یہ تیری ہے۔ یہ آیت نازل ہوئی تھی: {یَسْأَلُونَکَ عَنْ الْأَ نْفَالِ قُلْ الْأَ نْفَالُ لِلَّہِ وَالرَّسُولِ}
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8608

۔ (۸۶۰۸)۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ قَالَ: نَظَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی أَصْحَابِہِ وَہُمْ ثَلَاثُ مِائَۃٍ وَنَیِّفٌ، وَنَظَرَ إِلَی الْمُشْرِکِینَ فَإِذَا ہُمْ أَ لْفٌ وَزِیَادَۃٌ، فَاسْتَقْبَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْقِبْلَۃَ ثُمَّ مَدَّ یَدَہُ وَعَلَیْہِ رِدَاؤُہُ وَإِزَارُہُ ثُمَّ قَالَ: ((اللّٰہُمَّ أَ یْنَ مَا وَعَدْتَنِی، اللّٰہُمَّ أَ نْجِزْ مَا وَعَدْتَنِی، اللّٰہُمَّ إِنْ تُہْلِکْ ہٰذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ أَ ہْلِ الْإِسْلَامِ، فَلَا تُعْبَدْ فِی الْأَ رْضِ أَ بَدًا۔)) قَالَ: فَمَا زَالَ یَسْتَغِیثُ رَبَّہُ وَیَدْعُوہُ حَتّٰی سَقَطَ رِدَاؤُہُ فَأَ تَاہُ أَ بُو بَکْرٍ فَأَ خَذَ رِدَائَ ہُ فَرَدَّاہُ، ثُمَّ الْتَزَمَہُ مِنْ وَرَائِہِ ثُمَّ قَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! کَفَاکَ مُنَاشَدَتُکَ رَبَّکَ، فَإِنَّہُ سَیُنْجِزُ لَکَ مَا وَعَدَکَ وَأَ نْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {إِذْ تَسْتَغِیثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَ نِّی مُمِدُّکُمْ بِأَ لْفٍ مِنْ الْمَلَائِکَۃِ مُرْدِفِینَ۔} [الأنفال: ۹] فَلَمَّا کَانَ یَوْمَئِذٍ وَالْتَقَوْا فَہَزَمَ اللّٰہُ الْمُشْرِکِینَ فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا وَأُسِرَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا۔ الحدیث۔ (مسند احمد: ۲۰۸)
۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے بدر کے دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے صحابہ کی جانب دیکھا، وہ تین سو سے کچھ اوپر تھے، پھرمشرکوں کی طرف دیکھا اور وہ ایک ہزار سے کچھ زیادہ تھے،پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبلہ رخ ہوگئے اور ہاتھ اٹھا لئے، آپ نے تہبند باندھا ہوا تھا اور چادر اوڑھی ہوئیتھی، پھر یہ دعا کی: میرے اللہ! جو تو نے مجھ سے مدد کا وعدہ کیا تھا، وہ کہاں ہے، اے میرے اللہ! جو تونے مجھ سے وعدہ کیا ہے، وہ پورا کردے، اے میرے اللہ! اگر اسلام والوں کییہ جماعت تو نے ہلاک کر دی تو زمین میں کبھی بھی تیری عبادت نہیں کی جائے گا۔آپ اپنے رب سے مدد طلب کرتے رہے اور اسے پکارتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی چادر گر پڑی۔ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگے آئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چادر پکڑ کر اوپر اوڑھائی اورکمر کی جانب سے ساتھ چمٹ گئے اور پھر کہا: اے اللہ کے نبی! اپنے رب سے جو آپ نے التجاء کی ہے، یہ کافی ہے، اللہ تعالی نے آپ سے جو وعدہ کیا ہوا ہے، وہ اسے پورا کرے گا، اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری: {إِذْ تَسْتَغِیثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَ نِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنْ الْمَلَائِکَۃِ مُرْدِفِینَ۔} … جب تم اپنے رب سے مدد طلب کر رہے تھے، پس اس نے تمہاری دعا قبول فرمائی اور کہا: میںتمہارے لئے پے در پے ایک ہزار فرشتے نازل کرنے والا ہوں۔ پھر جب اس دن جنگ ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو شکست دی، ان میں سے ستر (۷۰) آدمی مارے گئے اور ستر (۷۰) ہی قیدی بن گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8609

۔ (۸۶۰۹)۔ عَنْ مُطَرِّفٍ قَالَ: قُلْنَا لِلزُّبَیْرِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: یَا أَ بَا عَبْدِاللّٰہِ! مَا جَائَ بِکُمْ ضَیَّعْتُمْ الْخَلِیفَۃَ حَتّٰی قُتِلَ ثُمَّ جِئْتُمْ تَطْلُبُونَ بِدَمِہِ؟ قَالَ الزُّبَیْرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: إِنَّا قَرَأْنَاہَا عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَ بِی بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ {وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَا تُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَاصَّۃً} [الأنفال: ۲۵] لَمْ نَکُنْ نَحْسَبُ أَ نَّا أَ ہْلُہَا حَتّٰی وَقَعَتْ مِنَّا حَیْثُ وَقَعَتْ۔ (مسند احمد: ۱۴۱۴)
۔ مطرف کہتے ہیں: ہم نے سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے ابو عبداللہ! کون سی چیز تم کو یہاں لائی ہے، تم نے خلیفہ راشد کو ضائع کر دیا ہے، حتیٰ کہ انہیں مظلوم شہید کردیا گیا ہے۔ اور پھر تم ان کے خون کا مطالبہ کرنے بیٹھ گئے ہو؟ سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ہم نے عہد ِ نبوی، سیدنا ابو بکر، سیدنا عمر اور سیدنا عثمان کی خلافتوں میں یہ آیت پڑھی تھی: {وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَا تُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَاصَّۃً}… اس فتنہ سے ڈرو جو خاص طور پر صرف انہی لوگوں کو ہی نہیں پہنچے گا جو تم میں سے ظالم ہیں۔ یہ خیال تو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہم اس کی زد میں آ جائیں گے، بہرحال یہ واقع ہوا اور ہم پر واقع ہوا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8609

۔ (۸۶۰۹م)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ: قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ قَالَ: قَالَ الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ: نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ وَنَحْنُ مُتَوَافِرُونَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم {وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَا تُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَاصَّۃً} [الأنفال: ۲۵] فَجَعَلْنَا: نَقُولُ: مَا ہٰذِہِ الْفِتْنَۃُ؟ وَمَا نَشْعُرُ أَ نَّہَا تَقَعُ حَیْثُ وَقَعَتْ۔ (مسند احمد: ۱۴۳۸)
۔ (دوسری سند) حسن بصری کہتے ہیں:سیدنا زبیر بن عوام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی تو ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ خاصی تعدادمیں موجود تھے: {وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَا تُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَاصَّۃً} … اور اس فتنے سے بچ جاؤ جو لازماً ان لوگوں کو خاص طور پر نہیں پہنچے گا جنھوں نے تم میں سے ظلم کیا۔ اس وقت ہم نے کہا: یہ فتنہ کیا ہوتا ہے،پھر ہمیںپتہ بھی نہ چلا، لیکنیہ فتنہ واقع ہو گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8610

۔ (۸۶۱۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِیْ قَوْلِہِ تَعَالٰی: {وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ} قَالَ: تَشَاوَرَتْ قُرَیْشٌ لَیْلَۃً بِمَکَّۃَ فَقَالَ بَعْضُھُمْ: اِذَا أَ صْبَحَ فَأَ ثْبِتُوْہُ بِالْوَثَاقِ یُرِیْدُوْنَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَقَالَ بَعْضُھُمْ: بَلِ اقْتُلُوْہُ، وَقَالَ بَعْضُھُمْ: بَلْ أَ خْرِجُوْہُ، فَأَطْلَعَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ نَبِیَّہُ عَلٰی ذٰلِکَ فَبَاتَ عَلِیٌّ عَلٰی فِرَاشِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تِلْکَ اللَّیْلَۃَ، وَخَرَجَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی لَحِقَ بِالْغَارِ، وَبَاتَ الْمُشْرِکُوْنَ یَحْرُسُوْنَ عَلِیًّایَحْسِبُوْنَہُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّا أَ صْبَحُوْا ثَارُوْا اِلَیْہِ فَلَمَّا رَأَوْا عَلِیًّا رَدَّ اللّٰہُ مَکْرَھُمْ، فَقَالُوْا: أَ یْنَ صَاحِبُکَ ھٰذَا؟ قَالَ: لَا أَ دْرِیْ، فَاقْتَصُّوْا اَثَرَہُ، فَلَمَّا بَلَغُوْا الْجَبَلَ خَلَطَ عَلَیْھِمْ، فَصََعِدُوْا فِی الْجَبَلِ فَمَرُّوْا بِالْغَارِ فَرَأَ وْا عَلٰی بَابِہٖنَسْجَالْعَنْکَبُوْتِ،فَقَالُوْا: لَوْدَخَلَ ھَاھُنَا لَمْ یَکُنْ نَسْجُ الْعَنْکَبُوْتِ عَلٰی بَابِہٖفَمَکَثَفِیْہِ ثَـلَاثَ لَیَالٍ۔ (مسند احمد: ۳۲۵۱)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے اس آیت {وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ}کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: قریشیوں نے مکہ میں ایک رات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بارے میں آپس میں مشورہ کیا، کسی نے کہا: جب صبح ہو تو اس (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کو بیڑیوں سے باندھ دو، کسی نے کہا: نہیں، بلکہ اس کو قتل کردو، کسی نے کہا: بلکہ اس کو نکال دو، اُدھر اللہ تعالی نے اپنے نبی کو ان باتوں پر مطلع کر دیا، پس سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بستر پر وہ رات گزاری اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں سے نکل کر غارِ ثور میں پناہ گزیں ہوگئے، مشرکوں نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر پہرہ دیتے ہوئے رات گزاری، ان کا خیال تھا کہ وہ نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر پہرہ دے رہے ہیں، جب صبح ہوئی تو وہ ٹوٹ پڑے، لیکن انھوں نے دیکھا کہ یہ تو علی ہیں، اس طرح اللہ تعالی نے ان کا مکر ردّ کر دیا، انھوں نے کہا: علی! تیرا ساتھی کہاں ہے؟ انھوں نے کہا: میں تو نہیں جانتا، پس وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قدموں کے نشانات کی تلاش میں چل پڑے، جب اُس پہاڑ تک پہنچے تو معاملہ ان پر مشتبہ ہوگیا، پس یہ پہاڑ پر چڑھے اور غارِ ثور کے پاس سے گزرے، لیکن جب انھوں نے اس کے دروازے پر مکڑی کا جالہ دیکھا تو انھوں نے کہا: اگر وہ (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) اس غار میں داخل ہوا ہوتا تو مکڑی کا یہ جالہ تو نہ ہوتا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسی غار میں تین دن تک ٹھہرے رہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8611

۔ (۸۶۱۱)۔ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: وَھُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ: (({وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ} [الأنفال: ۶۰] اَلَا اِنَّ الْقُوَّۃَ الرّمْیُ، اَلا اِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ۔)) (مسند احمد: ۱۷۵۶۸)
۔ سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا، جبکہ آپ منبر پر تھے: {وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ} … اور دشمن کے لئے جتنی طاقت ہو تیار رکھو۔ خبر دار! طاقت سے مراد تیر اندازی ہے، خبردار! قوت سے مراد تیر اندازی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8612

۔ (۸۶۱۲)۔ عَنْ أَ نَسٍ وَذَکَرَ رَجُلًا عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: اسْتَشَارَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم النَّاسَ فِی الْأُسَارٰییَوْمَ بَدْرٍ، فَقَالَ:((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَ مْکَنَکُمْ مِنْہُمْ۔)) قَالَ: فَقَامَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! اضْرِبْ أَ عْنَاقَہُمْ، قَالَ: فَأَ عْرَضَ عَنْہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: ثُمَّ عَادَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((یَا أَ یُّہَا النَّاسُ! إِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَ مْکَنَکُمْ مِنْہُمْ وَإِنَّمَا ہُمْ إِخْوَانُکُمْ بِالْأَ مْسِ۔)) قَالَ: فَقَامَ عُمَرُ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! اضْرِبْ أَعْنَاقَہُمْ، فَأَ عْرَضَ عَنْہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: ثُمَّ عَادَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ لِلنَّاسِ مِثْلَ ذٰلِکَ، فَقَامَ أَبُو بَکْرٍ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنْ تَرٰی أَ نْ تَعْفُوَ عَنْہُمْ وَتَقْبَلَ مِنْہُمُ الْفِدَائَ، قَالَ: فَذَہَبَ عَنْ وَجْہِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا کَانَ فِیہِ مِنْ الْغَمِّ، قَالَ: فَعَفَا عَنْہُمْ وَقَبِلَ مِنْہُمْ الْفِدَائَ، قَالَ: وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {لَوْلَا کِتَابٌ مِنْ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ [الأنفال: ۶۸]۔ (مسند احمد: ۱۳۵۹۰)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جنگ بدر کے دن قیدیوں کے بارے میں لوگوں سے مشورہ کیا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہیںان پر قدرت دی ہے۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول!ان کی گردنیںاڑا دیتے ہیں، آپ نے ان کی بات سے اعراض کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوبارہ مشورہ طلب کیا اور فرمایا: اے لوگو! بیشک اللہ تعالی نے یہ تمہارے قابو میں دے دئیے ہیں اور یہ کل تمہارے بھائی بننے والے ہیں۔ پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! ان کی گردنیں اڑا دیں۔ لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پہلے کی طرح اعراض کیا اور پھر لوگوں سے وہی بات ارشاد فرما کر مشورہ طلب کیا، اس بار سیدنا ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑے ہوئے اور کہا :اے اللہ کے رسول! میرا خیال ہے کہ آپ انہیں معاف کر دیں اور ان سے فدیہ قبول کر لیں۔ اس سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرہ مبارک سے غم چھٹ گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فدیہ لے کر ان کو معاف کر دیا، لیکن اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کردی: {لَوْلَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔} … اگر اللہ کی طرف سے لکھی ہوئی بات نہ ہوتی، جو پہلے طے ہو چکی تو تمھیں اس کی وجہ سے جو تم نے لیا بہت بڑا عذاب پہنچتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8613

۔ (۸۶۱۳)۔ عن ابْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ، قَالَ: نَظَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی أَ صْحَابِہِ، وَہُمْ ثَلَاثُ مِائَۃٍ وَنَیِّفٌ، وَنَظَرَ إِلَی الْمُشْرِکِینَ فَإِذَا ہُمْ أَ لْفٌ وَزِیَادَۃٌ، فَاسْتَقْبَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْقِبْلَۃَ، ثُمَّ مَدَّ یَدَیْہِ وَعَلَیْہِ رِدَاؤُہُ وَإِزَارُہُ ثُمَّ قَالَ: ((اللّٰہُمَّ أَ یْنَ مَا وَعَدْتَنِی، اللّٰہُمَّ أَ نْجِزْ مَا وَعَدْتَنِی، اللّٰہُمَّ إِنَّکَ إِنْ تُہْلِکْ ہَذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ أَ ہْلِ الْإِسْلَامِ، فَلَا تُعْبَدْ فِی الْأَ رْضِ أَ بَدًا۔)) قَالَ: فَمَا زَالَ یَسْتَغِیثُ رَبَّہُ عَزَّ وَجَلَّ وَیَدْعُوہُ حَتّٰی سَقَطَ رِدَاؤُہُ، فَأَ تَاہُ أَ بُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَأَخَذَ رِدَائَ ہُ فَرَدَّاہُ، ثُمَّ الْتَزَمَہُ مِنْ وَرَائِہِ، ثُمَّ قَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! کَفَاکَ مُنَاشَدَتُکَ رَبَّکَ، فَإِنَّہُ سَیُنْجِزُ لَکَ مَا وَعَدَکَ، وَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَ نِّی مُمِدُّکُمْ بِأَ لْفٍ مِنْ الْمَلَائِکَۃِ مُرْدِفِینَ} فَلَمَّا کَانَ یَوْمُئِذٍ وَالْتَقَوْا، فَہَزَمَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُشْرِکِینَ، فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، وَأُسِرَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، فَاسْتَشَارَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَبَابَکْرٍ وَعَلِیًّا وَعُمَرَ ، فَقَالَ أَبُوبَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: یَانَبِیَّ اللّٰہِ ہٰؤُلَائِ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِیرَۃُ وَالْإِخْوَانُ، فَإِنِّی أَرٰی أَ نْ تَأْخُذَ مِنْہُمْ الْفِدْیَۃَ، فَیَکُونُ مَا أَ خَذْنَا مِنْہُمْ قُوَّۃً لَنَا عَلَی الْکُفَّارِ، وَعَسَی اللّٰہُ أَ نْ یَہْدِیَہُمْ، فَیَکُونُونَ لَنَا عَضُدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا تَرٰییَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟۔)) قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ! مَا أَ رٰی مَا رَأٰ ی أَبُوبَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَلٰکِنِّی أَرٰی أَ نْ تُمَکِّنَنِی مِنْ فُلَانٍ قَرِیبًا لِعُمَرَ، فَأَ ضْرِبَ عُنُقَہُ، وَتُمَکِّنَ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِنْ عَقِیلٍ فَیَضْرِبَ عُنُقَہُ، وَتُمَکِّنَ حَمْزَۃَ مِنْ فُلَانٍ أَ خِیہِ فَیَضْرِبَ عُنُقَہُ حَتّٰییَعْلَمَ اللّٰہُ أَ نَّہُ لَیْسَتْ فِی قُلُوبِنَا ہَوَادَۃٌ لِلْمُشْرِکِینَ، ہَؤُلَائِ صَنَادِیدُہُمْ وَأَ ئِمَّتُہُمْ وَقَادَتُہُمْ، فَہَوِیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا قَالَ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَلَمْ یَہْوَ مَا قُلْتُ فَأَ خَذَ مِنْہُمْ الْفِدَائَ، فَلَمَّا أَ نْ کَانَ مِنْ الْغَدِ قَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: غَدَوْتُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِذَا ہُوَ قَاعِدٌ وَأَ بُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَإِذَا ہُمَا یَبْکِیَانِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَ خْبِرْنِی مَاذَا یُبْکِیکَ أَ نْتَ وَصَاحِبَکَ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُکَائً بَکَیْتُ وَإِنْ لَمْ أَ جِدْ بُکَائً تَبَاکَیْتُ لِبُکَائِکُمَا، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((الَّذِی عَرَضَ عَلَیَّ أَصْحَابُکَ مِنْ الْفِدَائِ، لَقَدْ عُرِضَ عَلَیَّ عَذَابُکُمْ أَ دْنٰی مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ لِشَجَرَۃٍ قَرِیبَۃٍ۔)) وَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَ نْ یَکُونَ لَہُ أَ سْرٰی حَتّٰییُثْخِنَ فِی الْأَ رْضِ… إِلٰی قَوْلِہِ: {لَوْلَا کِتَابٌ مِنْ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَ خَذْتُمْ} مِنْ الْفِدَائِ ثُمَّ أُحِلَّ لَہُمُ الْغَنَائِمُ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ أُحُدٍ مِنْ الْعَامِ الْمُقْبِلِ عُوقِبُوا بِمَا صَنَعُوا یَوْمَ بَدْرٍ مِنْ أَ خْذِہِمْ الْفِدَائ، َ فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ، وَفَرَّ أَ صْحَابُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَکُسِرَتْ رَبَاعِیَّتُہُ وَہُشِمَتِ الْبَیْضَۃُ عَلٰی رَأْسِہِ، وَسَالَ الدَّمُ عَلٰی وَجْہِہِ، وَأَ نْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {أَ وَلَمَّا أَ صَابَتْکُمْ مُصِیبَۃٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَیْہَا} الْآیَۃَ بِأَخْذِکُمُ الْفِدَائَ۔ (مسند أحمد: ۲۰۸)
۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بدر کے دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے صحابہ کی طرف دیکھا،جبکہ وہ تین سوسے کچھ زائد تھے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مشرکوں کی طرف دیکھا اور وہ ایک ہزار سے زائد تھے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے، اپنے دونوں ہاتھوں کو لمبا کیا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک چادر اور ایک ازار زیب ِ تن کیا ہوا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ دعا کی: اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا، وہ کہاں ہے، اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا، اس کو پورا کر دے، اے اللہ! اگر تو نے اہل اسلام کی اس جماعت کو ختم کر دیا تو زمین میں کبھی بھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے ربّ سے مدد طلب کرتے رہے اور دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چادر گر گئی، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے، انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چادر اٹھائی اور اس کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ڈال کر پیچھے سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پکڑ لیا اور پھر کہا: اے اللہ کے نبی! آپ نے اپنے ربّ سے جو مطالبہ کر لیا ہے، یہ آپ کو کافی ہے، اس نے آپ سے جو وعدہ کیا ہے، وہ عنقریب اس کو پورا کر دے گا، اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: {إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَ نِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ مُرْدِفِینَ۔}… اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے، پھر اللہ تعالی نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا، جو لگاتار چلے آئیں گے۔ (سورۂ انفال: ۹) پھر جب اس دن دونوں لشکروں کی ٹکر ہوئی اور اللہ تعالی نے مشرکوں کو اس طرح شکست دی کہ ان کے ستر افراد مارے گئے اور ستر افراد قید کر لیے گئے، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو بکر، سیدنا علی اور سیدنا عمر سے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! یہ لوگ ہمارے چچوں کے ہی بیٹے ہیں، اپنے رشتہ دار اور بھائی ہیں، میرا خیال تو یہ ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے ہیں، اس مال سے کافروں کے مقابلے میں ہماری قوت میں اضافہ ہو گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالی ان کو بعد میں ہدایت دے دے، اس طرح یہ ہمارا سہارا بن جائیں۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب! اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ انھو ں نے کہا: اللہ کی قسم! میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا، میرا خیال تو یہ ہے کہ فلاں آدمی، جو میرا رشتہ دار ہے، اس کو میرے حوالے کریں، میں اس کی گردن اڑاؤں گا، عقیل کو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سپرد کریں، وہ اس کو قتل کریں گے، فلاں شخص کو سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حوالے کریں، وہ اس کی گردن قلم کریں گے، یہاں تک کہ اللہ تعالی کو علم ہو جائے کہ ہمارے دلوں میں مشرکوں کے لیے کوئی رحم دلی نہیں ہے، یہ قیدی مشرکوں کے سردار، حکمران اور قائد ہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے پسند کی اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے کو پسند نہیں کیا، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فدیہ لے لیا۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب اگلے دن میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا تو آپ اور سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دونوں بیٹھے ہوئے رو رہے تھے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے اس چیز کے بارے میں بتائیں جو آپ کو اور آپ کے ساتھی کو رُلا رہی ہے؟ اگر مجھے بھی رونا آ گیا تو میں بھی روؤں گا اور اگر مجھے رونا نہ آیا تو تمہارے رونے کی وجہ سے رونے کی صورت بنا لوں گا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے ساتھیوں نے فدیہ لینے کے بارے میں جو رائے دی تھی، اس کی وجہ سے مجھ پر تمہارا عذاب پیش کیا گیا ہے، جو اس درخت سے قریب ہے۔ اس سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مراد قریب والا ایک درخت تھا، اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیات نازل کیں: {مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰییُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْز’‘ حَکِیْم’‘۔ لَوْ لَا کِتٰب’‘ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَاب’‘ عَظِیْم’‘} نبی کے ہاتھ قیدی نہیں چاہییں جب تک کہ زمین میں اچھی خونریزی کی جنگ نہ ہو جائے، تم تو دنیا کے مال چاہتے ہو اور اللہ کا ارادہ آخرت کا ہے اور اللہ زور آور باحکمت ہے، اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس بارے میں تمہیں کوئی بڑی سزا ہوتی۔ (سورۂ انفال:۶۷) پھر ان کے لیے مالِ غنیمت حلال کر دیا گیا، جب اگلے سال غزوۂ احد ہوا تو بدر والے دن فدیہ لینے کی سزا دی گئی اور ستر صحابہ شہید ہو گئے، نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بھاگ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دانت شہید کر دئے گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر پر خود کو توڑ دیا گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے پر خون بہنے لگا، پس اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی: {اَوَلَمَّآ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃ’‘ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْھَا قُلْتُمْ اَنّٰی ھٰذَا قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر’‘۔} (کیا بات ہے کہ جب احد کے دن)تمہیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دو چند پہنچا چکے، تم یہ کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آگئی؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ خود تمہاری طرف سے ہے، بے شک اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔ (سورۂ آل عمران: ۱۶۵) یعنی فدیہ لینے کی وجہ سے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8614

۔ (۸۶۱۴)۔ عَنْ یَزِیدَ قَالَ: قَالَ لَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: قُلْتُ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ: مَا حَمَلَکُمْ عَلٰی أَنْ عَمَدْتُمْ إِلَی الْأَنْفَالِ، وَہِیَ مِنَ الْمَثَانِی وَإِلٰی بَرَائَ ۃٌ، وَہِیَ مِنْ الْمِئِینَ فَقَرَنْتُمْ بَیْنَہُمَا وَلَمْ تَکْتُبُوْا، قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: بَیْنَہُمَا سَطْرًا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ وَوَضَعْتُمُوہَا فِی السَّبْعِ الطِّوَالِ، مَا حَمَلَکُمْ عَلَیذَلِکَ؟ قَالَ عُثْمَانُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ مِمَّا یَأْتِی عَلَیْہِ الزَّمَانُ، یُنْزَلُ عَلَیْہِ مِنْ السُّوَرِ ذَوَاتِ الْعَدَدِ، وَکَانَ إِذَا أُنْزِلَ عَلَیْہِ الشَّیْئُ،یَدْعُو بَعْضَ مَنْ یَکْتُبُ عِنْدَہُ یَقُولُ: ((ضَعُوْا ہٰذَا فِی السُّورَۃِ الَّتِییُذْکَرُ فِیہَا کَذَا وَکَذَا۔))، وَیُنْزَلُ عَلَیْہِ الْآیَاتُ فَیَقُولُ: ((ضَعُوْا ہٰذِہِ الْآیَاتِ فِی السُّورَۃِ الَّتِییُذْکَرُ فِیہَا کَذَا وَکَذَا۔))، وَیُنْزَلُ عَلَیْہِ الْآیَۃُ فَیَقُولُ: ((ضَعُوْا ہٰذِہِ الْآیَۃَ فِی السُّورَۃِ الَّتِییُذْکَرُ فِیہَا کَذَا وَکَذَا۔)) وَکَانَتْ الْأَ نْفَالُ مِنْ أَ وَائِلِ مَا أُنْزِلَ بِالْمَدِینَۃِ وَبَرَائَ ۃٌ مِنْ آخِرِ الْقُرْآنِ، فَکَانَتْ قِصَّتُہَا شَبِیہًا بِقِصَّتِہَا، فَقُبِضَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَمْ یُبَیِّنْ لَنَا أَ نَّہَا مِنْہَا، وَظَنَنْتُ أَنَّہَا مِنْہَا، فَمِنْ ثَمَّ قَرَنْتُ بَیْنَہُمَا وَلَمْ أَکْتُبْ بَیْنَہُمَا سَطْرًا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: وَوَضَعْتُہَا فِی السَّبْعِ الطِّوَالِ۔ (مسند احمد: ۳۹۹)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: تم اس پرکیوں آمادہ ہوئے کہ سورۂ انفال جو کہ مَثَانِی سورتوں میں سے ہے اور سورۂ توبہ، جو کہ مِئِیْن سورتوں میں سے ہے، تم نے ان دونوں کو آپس میں ملا دیا اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم کی سطر بھی نہیں لکھی اور تم نے اس کو سات لمبی سورتوں میں شامل کر دیا، کیا وجہ ہے؟سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: بسا اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ کافی عرصے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی نازل ہی نہ ہوتی اور کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ کئی سورتوں نازل ہو جاتیں، بہرحال جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی کا نزول ہوتا تو کاتب کو بلاتے اور اس سے فرماتے: یہ آیات اس سورت میں لکھو،جس میں ایسے ایسے امور کا ذکر موجود ہے، اگر پھر کوئی آیت اترتی تو پھر فرماتے: یہ آیت اس سورت میں لکھ دو، جس میں ایسا ایسا ذکر کیا گیا ہے۔ اب سورۂ انفال وہ سورت ہے، جو مدینہ میں شروع شروع میں نازل ہوئی اور سورۂ توبہ قرآن مجید کی آخر میں نازل ہونے والی سورت ہے،جبکہ ان کا واقعہ آپس میں ملتا جلتا ہے، اور اُدھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفات پا گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمارے سامنے (ان دو سورتوں کے) بارے میں وضاحت نہیں فرمائی تھی، اس لیے میں نے خیال کیا کہ سورۂ انفال، سورۂ توبہ کا حصہ ہے، اس لئے میں نے دونوں کو آپس میں ملا دیا اور درمیان میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی سطر نہیں لکھی اور اس کو سات لمبی سورتوں میں رکھ دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8615

۔ (۸۶۱۵)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ یُثَیْعٍ عَنْ أَ بِی بَکْرٍ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعَثَہُ بِبَرَائَ ۃٍ لِأَ ہْلِ مَکَّۃَ لَا یَحُجُّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِکٌ وَلَا یَطُوفُ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ وَلَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَۃٌ، مَنْ کَانَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُدَّۃٌ فَأَ جَلُہُ إِلَی مُدَّتِہِ، وَاللّٰہُ بَرِیئٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ وَرَسُولُہُ، قَالَ: فَسَارَ بِہَا ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ لِعَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ: ((اِلْحَقْہُ، فَرُدَّ عَلَیَّ أَ بَا بَکْرٍ وَبَلِّغْہَا أَ نْتَ۔)) قَالَ: فَفَعَلَ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمَ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَ بُو بَکْرٍ بَکٰی قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ حَدَثَ فِیَّ شَیْئٌ؟ قَالَ: ((مَا حَدَثَ فِیْکَ اِلَّا خَیْرٌ، اُمِرْتُ اَنْ لَا یُبَلِّغَہٗ اِلَّا اَنَا اَوْ رَجُلٌ مِنِّیْ۔)) (مسند احمد: ۴)
۔ سیدنا ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں امیر حج بنا کر بھیجا اوراہل مکہ سے اس براء ت کا اعلان کرنے کی ذمہ داری بھی سونپی تھی کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرسکے گا، کوئی آدمی برہنہ ہو کر طواف نہیں کرے گا، جنت میں صرف وہی شخص داخل ہو گا، جو مسلمان ہو گا، جس شخص کا پیغمبراسلام ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کسی خاص مدت تک کوئی معاہدہ پہلے سے ہوا ہو، وہ اپنی مدت کے اختتام تک برقرار رہے گا اور یہ کہ اللہ اور اس کا پیغمبر مشرکین سے بری ہیں۔ جب سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس پیغام کو لے کر روانہ ہوگئے اور تین دن کی مسافت طے کرچکے تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدناعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: ابوبکر کو پیچھے سے جا ملو، انہیں میری طرف واپس کر دو اور یہ اعلان تم نے کرنا ہے۔ سو انھوں نے ایسے ہی کیا، لیکن جب سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ واپس آئے تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور وہ کہنے لگے: اے اللہ کے رسول!کیا میرے بارے میں کوئی نیا حکم آ گیا ہے کہ (مجھے واپس بلا لیا)؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے بارے صرف خیر ہی پیش آسکتی ہے، اصل بات یہ ہے کہ یہ پیغام خود مجھے پہنچانا چاہیےیا میرے خاندان کے کسی آدمی کو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8616

۔ (۸۶۱۶)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ عَشْرُ آیَاتٍ مِنْ بَرَائَ ۃٍ عَلٰی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، دَعَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَ بَا بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَبَعَثَہُ بِہَا لِیَقْرَأَ ہَا عَلَی أَ ہْلِ مَکَّۃَ، ثُمَّ دَعَانِی النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ لِی: ((أَ دْرِکْ أَ بَا بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فَحَیْثُمَا لَحِقْتَہُ فَخُذِ الْکِتَابَ مِنْہُ، فَاذْہَبْ بِہِ إِلٰی أَ ہْلِ مَکَّۃَ فَاقْرَأْہُ عَلَیْہِمْ۔)) فَلَحِقْتُہُ بِالْجُحْفَۃِ فَأَخَذْتُ الْکِتَابَ مِنْہُ، وَرَجَعَ أَ بُوبَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! نَزَلَ فِیَّشَیْئٌ؟ قَالَ: ((لَا وَلٰکِنَّ جِبْرِیلَ جَائَ نِیْ فَقَالَ: لَنْ یُؤَدِّیَ عَنْکَ إِلَّا أَ نْتَ أَ وْ رَجُلٌ مِنْکَ۔)) (مسند احمد: ۱۲۹۷)
۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب سورۂ براء ت کی دس آیات نازل ہوئیں تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلایا اور ان کو یہ آیات دے کر بھیجا کہ وہ مکہ والوں کے سامنے ان کی تلاوت کریں، پھر مجھے (علی کو) کو بلایا اور فرمایا: ابو بکر کو جا ملو، جہاں بھی تم ان کو ملو، ان سے یہ پیغام لے لینا اور پھر اہل مکہ کے سامنے جا کر پڑھ دینا۔ پس میں نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حجفہ میں جا ملا اور ان سے خط لے لیا۔ پھر جب سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لوٹے تو پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا میرے بارے میں کوئی حکم نازل ہوا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، کوئی حکم نہیں ہے، بس جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور کہا کہ پیغامیا تو آپ خود پہنچائیںیا آپ کے خاندان کا کوئی آدمی پہنچائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8617

۔ (۸۶۱۷)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) اَنَّ النَّبِیّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِیْنَ بَعَثَہٗبِبَرَائَۃٍ قَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! اِنِّیْ لَسْتُ بِاللَّسِنِ وَلَا بِالْخَطِیبِ، قَالَ: ((مَا بُدٌّ أَ نْ أَ ذْہَبَ بِہَا أَ نَا أَ وْ تَذْہَبَ بِہَا أَ نْتَ۔)) قَالَ: فَإِنْ کَانَ وَلَا بُدَّ فَسَأَ ذْہَبُ أَ نَا، قَالَ: ((فَانْطَلِقْ فَإِنَّ اللّٰہَ یُثَبِّتُ لِسَانَکَ وَیَہْدِی قَلْبَکَ۔))، قَالَ: ثُمَّ وَضَعَ یَدَہُ عَلَی فَمِہِ۔ (مسند احمد: ۱۲۸۷)
۔ (دوسری سند) سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو سورۂ براء ت کا اعلان دے کر بھیجا تو انھوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں نہ زیادہ زبان دان ہوں اور نہ ہی خطیب ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے بغیر کوئی چارئہ کار نہیں ہے کہ میں خود جاؤں، یا پھر تم جاؤ۔ انھوں نے کہا: اگر کوئی چارۂ کار نہیں ہے تو پھر میں ہی چلا جاتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم چلے جائو،اللہ تعالیٰ تمہاری زبان کو ثابت قدم رکھے گا اور تمہارے دل کی رہنمائی کرے گا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے منہ پر رکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8618

۔ (۸۶۱۸)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ أُثَیْعٍ رَجُلٍ مِنْ ہَمْدَانَ، سَأَ لْنَا عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِأَ یِّ شَیْئٍ بُعِثْتَ یَعْنِییَوْمَ بَعَثَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَعَ أَ بِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی الْحَجَّۃِ؟ قَالَ: بُعِثْتُ بِأَ رْبَعٍ: لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلَّا نَفْسٌ مُؤْمِنَۃٌ، وَلَا یَطُوفُ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ، وَمَنْ کَانَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَہْدٌ فَعَہْدُہُ إِلٰی مُدَّتِہِ، وَلَا یَحُجُّ الْمُشْرِکُونَ وَالْمُسْلِمُونَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا۔(مسند احمد: ۵۹۴)
۔ ہمدان کا باشندہ زید بن اثیع سے مروی ہے، وہ کہتا ہے: ہم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سوال کیا کہ ان کو کس چیز کے ساتھ بھیجا گیا تھا، جس دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ حج کے لیے بھیجا تھا؟ انھوں نے کہا: مجھے چار چیزوں کے ساتھ بھیجا گیا تھا:(۱) جنت میں صرف مومن آدمی داخل ہوگا، (۲) کوئی برہنہ آدمی بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا، (۳) جس کا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کوئی معاہدہ ہے،تو وہ عہد اپنی مدت تک قائم رہے گا اور (۴) اس سال کے بعد مشرک اور مسلمان ایک ساتھ حج نہیں کریں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8619

۔ (۸۶۱۹)۔ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ قَالَ: کُنْتُ إِلٰی جَانِبِ مِنْبَرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَجُلٌ: مَا أُبَالِیْ أَ نْ لَا أَ عْمَلَ بَعْدَ الْإِسْلَامِ إِلَّا أَ نْ أَ سْقِیَ الْحَاجَّ، وَقَالَ آخَرُ: مَا أُبَالِیْ أَ نْ لَا أَعْمَلَ عَمَلًا بَعْدَ الْإِسْلَامِ إِلَّا أَ نْ أَعْمُرَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، وَقَالَ آخَرُ: الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ أَ فْضَلُ مِمَّا قُلْتُمْ، فَزَجَرَہُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فَقَالَ: لَا تَرْفَعُوْا أَ صْوَاتَکُمْ عِنْدَ مِنْبَرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ، وَلٰکِنْ إِذَا صَلَّیْتُ الْجُمُعَۃَ دَخَلْتُ فَاسْتَفْتَیْتُہُ فِیمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیہِ فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ: {أَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَاجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِکُلِّہَا [التوبۃ: ۱۹]۔ (مسند احمد: ۱۸۵۵۷)
۔ سیدنا نعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منبر کی ایک جانب بیٹھا ہوا تھا، ایک آدمی نے کہا، اسلام کے بعد مجھے کوئی عمل کرنے کی پرواہ نہیں ہے، الا یہ کہ حاجیوں کو پانی پلائوں گا۔ دوسرے نے کہا: مجھے اسلام کے بعد مسجد حرام آباد کرنے کے علاوہ کوئی عمل کرنے کی پرواہ نہیں ہے، ایک اور بولا اور اس نے کہا: جو تم کہہ رہے ہو، اس سے افضل اور بہتر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا ہے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے انہیں ڈانٹا اور کہا: منبر رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آوازیں بلند نہ کرو، یہ جمعہ کا دن تھا، جب میں نے جمعہ ادا کر لیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا اور ان لوگوں کے اختلاف کے بارے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا، تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {اَجَعَلْتُمْ سِقَا یَـۃَ الْحَاجِّ وَ عِـمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰہَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ ِ لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ لَایَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۔} (سورۂ توبہ: ۱۹) کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کو آباد کرنا اس جیسا بنا دیا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا۔ یہ اللہ کے ہاں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8620

۔ (۸۶۲۰)۔ عَنْ أَ بِی سَعِیدٍ قَالَ بَیْنَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقْسِمُ جَائَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ ذِی الْخُوَیْصِرَۃِ التَّمِیمِیُّ فَقَالَ: ((اعْدِلْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَقَالَ: ((وَیْلَکَ وَمَنْ یَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ؟)) قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: دَعْنِی أَ ضْرِبْ عُنُقَہُ، قَالَ: ((دَعْہُ فَإِنَّ لَہُ أَ صْحَابًا یَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَہُ مَعَ صَلَاتِہِ وَصِیَامَہُ مَعَ صِیَامِہِ،یَمْرُقُونَ مِنْ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنْ الرَّمِیَّۃِ،یُنْظَرُ فِی قُذَذِہِ فَلَا یُوجَدُ فِیہِ شَیْئٌ، ثُمَّ یُنْظَرُ فِی نَصْلِہِ، فَلَا یُوجَدُ فِیہِ شَیْئٌ ثُمَّ یُنْظَرُ فِی رِصَافِہِ، فَلَا یُوجَدُ فِیہِ شَیْئٌ ثُمَّ یُنْظَرُ فِی نَضِیِّہِ فَلَا یُوجَدُفِیہِ شَیْئٌ قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ، آیَتُہُمْ رَجُلٌ إِحْدٰییَدَیْہِ أَ وْ قَالَ ثَدْیَیْہِ مِثْلُ ثَدْیِ الْمَرْأَ ۃِ أَ وْ قَالَ مِثْلُ الْبَضْعَۃِ تَدَرْدَرُ یَخْرُجُونَ عَلٰی حِینِ فُرْقَۃٍ مِنْ النَّاسِ۔)) قَالَ أَ بُو سَعِیدٍ أَ شْہَدُ سَمِعْتُ مِنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَ شْہَدُ أَ نَّ عَلِیًّا قَتَلَہُمْ وَأَ نَا مَعَہُ جِیئَ بِالرَّجُلِ عَلَی النَّعْتِ الَّذِی نَعَتَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ فَنَزَلَتْ فِیہِ: {وَمِنْہُمْ مَنْ یَلْمِزُکَ فِی الصَّدَقَاتِ۔} (مسند احمد: ۱۱۵۵۸)
۔ سیدنا ابوسعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ایک بار نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مال غنیمت تقسیم کر رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی خویصرہ تمیمی آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! ذرا انصاف کرنا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو ہلاک ہو جائے،اگر میں بھی عدل نہ کروں تو اور کون عدل کرے گا؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: آپ مجھے اجازت دیں، میں اس کی گردن اڑادیتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کو چھوڑ دو، اس کے ایسے ساتھی ہوں گے کہ تم میں سے ایک شخص ان کی نماز کے مقابلہ میں اپنی نماز کو حقیر سمجھے گا اور اپنے روزے کو ان کے روزے کے مقابلے میں حقیر سمجھے گا، یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے، جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے، اس کے پروں میں دیکھا جائے تو معلوم کچھ نہیں ہوتا، پھر اس کے پھل میں دیکھا جائے تو معلوم کچھ نہیں ہوتا، پھر اس کی تانت اور اس کے بعد پیکان اور پر کے درمیان کے حصے کو دیکھتا ہے، تو کچھ معلوم نہیں ہوتا، حالانکہ وہ خون اور گوبر سے ہو کر گزرا ہوتا ہے، ان کی نشانییہ ہوگی کہ ان میں ایک ایسا آدمی ہوگا جس کا ایک ہاتھ یا ایک چھاتی عورت کی ایک چھاتی کی طرح ہوگی،یا فرمایا کہ گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہوگی اور ہلتی ہوگی، لوگوں کے تفرقہ کے وقت نکلیں گے۔ ابوسعید نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ سیدنا علی نے ان لوگوں کو قتل کیا، میں ان کے ساتھ تھا، اس وقت ان میں سے ایک شخص کو لایا گیا، وہ اسیصورت کے مطابق نکلا جو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیان کی تھی، ان ہی لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: {وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْہَا رَضُوْا وَاِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْہَآ اِذَا ہُمْ یَسْخَطُوْنَ۔} (توبہ: ۵۸) اور ان میں سے کچھ وہ ہیں جو تجھ پر صدقات کے بارے میں طعن کرتے ہیں، پھر اگر انھیں ان میں سے دے دیا جائے تو خوش ہو جاتے ہیں اور اگر انھیں ان میں سے نہ دیا جائے تو اسی وقت وہ ناراض ہو جاتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8621

۔ (۸۶۲۱)۔ عَنْ أَ بِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: کَانَ الْمُؤَلَّفَۃُ قُلُوبُہُمْ عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَ رْبَعَۃً، عَلْقَمَۃَ بْنَ عُلَاثَۃَ الْجَعْفَرِیَّ وَالْأَ قْرَعَ بْنَ حَابِسٍ الْحَنْظَلِیَّ وَزَیْدَ الْخَیْلِ الطَّائِیَّ وَعُیَیْنَۃَ بْنَ بَدْرٍ الْفَزَارِیَّ، قَالَ: فَقَدِمَ عَلِیٌّ بِذَہَبَۃٍ مِنْ الْیَمَنِ بِتُرْبَتِہَا فَقَسَمَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَہُمْ۔ (احمد: ۱۱۲۸۷)
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عہد میں جن لوگوں کو ان کی تالیف ِ قلبی کی خاطر مال دیا گیا تھا، وہ چار افراد تھے: علقمہ بن علاثہ جعفری، اقرع بن حالبس حنظلی، زید خیل طائی اور عیینہ بن بدر فزاری، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یمن سے کچھ سونا لے کر آئے تھے جو ابھی مٹی میں تھا،(یعنی صاف نہیں کیا گیا تھا) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ ان میں تقسیم کیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8622

۔ (۸۶۲۲)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُولُ: لَمَّا تُوُفِّیَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أُبَیٍّ دُعِیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِلصَّلَاۃِ عَلَیْہِ فَقَامَ إِلَیْہِ، فَلَمَّا وَقَفَ عَلَیْہِیُرِیدُالصَّلَاۃَ تَحَوَّلْتُ حَتّٰی قُمْتُ فِی صَدْرِہِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَعَلٰی عَدُوِّ اللّٰہِ؟ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُبَیٍّ الْقَائِلِ یَوْمَ کَذَا کَذَا وَکَذَا؟ یُعَدِّدُ أَ یَّامَہُ، قَالَ: وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَتَبَسَّمُ حَتّٰی إِذَا أَ کْثَرْتُ عَلَیْہِ، قَالَ: ((أَ خِّرْ عَنِّییَا عُمَرُ! إِنِّی خُیِّرْتُ فَاخْتَرْتُ وَقَدْ قِیلَ: {اسْتَغْفِرْ لَہُمْ أَ وْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِینَ مَرَّۃً فَلَنْ یَغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْ} [التوبۃ: ۸۰] لَوْ أَ عْلَمُ أَ نِّی إِنْ زِدْتُ عَلَی السَّبْعِینَ غُفِرَ لَہُ لَزِدْتُ۔)) قَالَ: ثُمَّ صَلّٰی عَلَیْہِ وَمَشَی مَعَہُ فَقَامَ عَلٰی قَبْرِہِ حَتّٰی فُرِغَ مِنْہُ، قَالَ: فَعَجَبٌ لِی وَجَرَائَ تِی عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَاللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَ عْلَمُ، قَالَ: فَوَاللّٰہِ! مَا کَانَ إِلَّا یَسِیرًا حَتّٰی نَزَلَتْ ہَاتَانِ الْآیَتَانِ: {وَلَا تُصَلِّ عَلَی أَحَدٍ مِنْہُمْ مَاتَ أَ بَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَی قَبْرِہِ إِنَّہُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُولِہِ وَمَاتُوْا وَہُمْ فَاسِقُونَ} فَمَا صَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْدَہُ عَلٰی مُنَافِقٍ وَلَا قَامَ عَلٰی قَبْرِہِ حَتّٰی قَبَضَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ۔ (مسند احمد: ۹۵)
۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب عبداللہ بن ابی منافق مرا تو اس کی نماز جنازہ کے لئے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بلایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے آئے اور جب اس کی نماز کا ارادہ کیا تو میں پلٹ کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے آ گیا اور میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اللہ کے دشمن پر؟ کیا آپ عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھیں گے؟ اس نے فلاں فلاں دن یہیہ کہا تھا، ساتھ ہی میں اس کے ہر دن کو شمار کرنے لگا، جس میں اس نے اسلام کے خلاف سازش کی تھی، جبکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرا رہے تھے، جب میں نے زیادہ اصرار کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا: اے عمر! پیچھے ہٹ جائو، مجھے نماز جنازہ پڑھنے اور نہ پڑھنے کا اختیار دیا گیا ہے اور میں نے پڑھنے کو اختیار کیا ہے، مجھ سے تو یہ کہا گیا ہے کہ {اسْتَغْفِرْ لَہُمْ أَ وْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِینَ مَرَّۃً فَلَنْ یَغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْ}… (آپ ان کے لئے بخشش طلب کریںیا نہ کریں، اگر آپ ان کے لئے ستر (۷۰) بار بخشش طلب کریں تو تب بھی اللہ تعالیٰ ہر گز ان کو معاف نہ کرے گا۔) اور اگر مجھے علم ہو جائے کہ اگر میں ستر بار سے زیادہ استغفار کروں تو اسے بخش دیا جائے گا تو میں اتنی مرتبہ بھی اس کے لئے استغفار کر دوں گا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی اور اس کی قبر تک بھی چل کر تشریف لے گئے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فارغ ہوئے تو مجھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر کی گئی جرأت پر بڑا تعجب ہوا، بہرحال اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ لیکن اللہ کی قسم! تھوڑ ا ہی وقت گزرا تھا کہ یہ دو آیتیں نازل ہو گئیں: {وَلَا تُصَلِّ عَلَی أَ حَدٍ مِنْہُمْ مَاتَ أَ بَدًا وَلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہِ إِنَّہُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُولِہِ وَمَاتُوْا وَہُمْ فَاسِقُونَ} … اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس کا کبھی جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا، بے شک انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اس حال میں مرے کہ وہ نافرمان تھے۔ اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کسی منافق کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفات پا گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8623

۔ (۸۶۲۳)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: لَمَّا مَاتَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أُبَیٍّ جَائَ ابْنُہُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَ عْطِنِی قَمِیصَکَ حَتّٰی أُکَفِّنَہُ فِیہِ وَصَلِّ عَلَیْہِ وَاسْتَغْفِرْ لَہُ، فَأَ عْطَاہُ قَمِیصَہُ وَقَالَ: ((آذِنِّی بِہِ۔)) فَلَمَّا ذَہَبَ لِیُصَلِّیَ عَلَیْہِ، قَالَ یَعْنِی عُمَرَ: قَدْ نَہَاکَ اللّٰہُ أَ نْ تُصَلِّیَ عَلَی الْمُنَافِقِینَ، فَقَالَ: ((أَ نَا بَیْنَ خِیَرَتَیْنِ {اسْتَغْفِرْ لَہُمْ أَ وْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ} [التوبۃ: ۸۰])) فَصَلّٰی عَلَیْہِ فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {وَلَا تُصَلِّ عَلٰی أَحَدٍ مِنْہُمْ مَاتَ أَ بَدًا} [التوبۃ: ۸۴] قَالَ: فَتُرِکَتْ الصَّلَاۃُ عَلَیْہِمْ۔ (مسند احمد: ۴۶۸۰)
۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب عبد اللہ بن ابی منافق مرا تو اس کا بیٹا سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ،جو مسلمان تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اپنی قمیص عنایت فرمائیں تا کہ میں اپنے باپ کو اس میں کفن دوں اور آپ اس کی نماز جنازہ بھیپڑھائیں اوراس کے لئے استغفار کریں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے قمیص عطا کر دی اور فرمایا: مجھے وقت پر اطلاع دینا۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز کے لئے آگے ہوئے تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: آپ کو اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع کیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے دواختیار ملے ہیں، اللہ تعالی نے فرمایا: آپ ان کے لیے استغفار کریںیا نہ کریں۔ سو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی، اور پھر اللہ تعالی نے یہ حکم نازل کر دیا: {وَلَا تُصَلِّ عَلَی أَ حَدٍ مِنْہُمْ مَاتَ أَ بَدًا} … اور آپ ان میں سے کسی کیکبھی بھی نماز جنازہ نہ پڑھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8624

۔ (۸۶۲۴)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُغَفَّلٍ، وَکَانَ أَحَدَ الرَّہْطِ الَّذِینَ نَزَلَتْ فِیہِمْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {وَلَا عَلَی الَّذِینَ إِذَا مَا أَ تَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ} [التوبۃ: ۹۲] إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ قَالَ: إِنِّی لَآخِذٌ بِغُصْنٍ مِنْ أَ غْصَانِ الشَّجَرَۃِ، أُظِلُّ بِہِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُمْ یُبَایِعُونَہُ، فَقَالُوْا: نُبَایِعُکَ عَلَی الْمَوْتِ، قَالَ: ((لَا وَلٰکِنْ لَا تَفِرُّوْا۔)) (مسند احمد: ۲۰۸۲۰)
۔ سیدنا عبداللہ بن مغفل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، یہ صحابی اس گروہ میں شامل تھا، جن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے{ وَّلَا عَلَی الَّذِیْنَ اِذَا مَآ اَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لَآ اَجِدُ مَآ اَحْمِلُکُمْ عَلَیْہِ تَوَلَّوْا وَّاَعْیُنُہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَ۔} … اور نہ ان لوگوں پر کہ جب بھی وہ تیرے پاس آئے ہیں، تاکہ تو انھیں سواری دے تو تو نے کہا میں وہ چیز نہیں پاتا جس پر تمھیں سوار کروں، تو وہ اس حال میں واپس ہوئے کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بہ رہی تھیں، اس غم سے کہ وہ نہیں پاتے جو خرچ کریں۔ تو سیدنا عبداللہ بن مغفل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے درخت کی ٹہنیاں پکڑ کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر سایہ کیا ہوا تھا، جبکہ لوگ بیعت کر رہے تھے اور انھوں نے کہا: ہم موت پر آپ کی بیعت کرتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم اس چیز پر بیعت کرو کہ فرار اختیار نہ کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8625

۔ (۸۶۲۵)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا یَسْتَغْفِرُ لِأَ بَوَیْہِ وَہُمَا مُشْرِکَانِ، فَقُلْتُ: تَسْتَغْفِرُ لِأَ بَوَیْکَ وَہُمَا مُشْرِکَانِ؟ فَقَالَ: أَ لَیْسَ قَدْ اسْتَغْفَرَ إِبْرَاہِیمُ لِأَ بِیہِ وَہُوَ مُشْرِکٌ، قَالَ: فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَزَلَتْ: {مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَ نْ یَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِینَ} إِلَی آخِرِ الْآیَتَیْنِ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ {وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاہِیمَ لِأَ بِیہِ إِلَّا عَنْ مَوْعِدَۃٍوَعَدَہَا إِیَّاہُ} [التوبۃ: ۱۱۴]۔ (مسند احمد: ۱۰۸۵)
۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیںـ: میں نے ایک آدمی کو سنا،وہ اپنے مشر ک ماں باپ کے لئے بخشش طلب کر رہا تھا، میں نے کہا: تم اپنے مشرک والدین کے لئے استغفار کر رہے ہو؟ اس نے کہا: کیا سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے مشرک باپ کے لئے استغفار نہیں کیا تھا؟ جب میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بات کا ذکر کیا تو یہ آیات نازل ہوئیں: {مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَلَوْ کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ۔ وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاہُ فَلَمَّا تَـبَیَّنَ لَہٓ اَنَّہ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ۔ } … اس نبی اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، کبھی جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں، خواہ وہ قرابت دار ہوں، اس کے بعد کہ ان کے لیے صاف ظاہر ہوگیا کہ یقینا وہ جہنمی ہیں۔ اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش مانگنا نہیں تھا مگر اس وعدہ کی وجہ سے جو اس نے اس سے کیا تھا، پھر جب اس کے لیے واضح ہوگیا کہ بے شک وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بے تعلق ہو گیا۔ بے شک ابراہیمیقینا بہت نرم دل، بڑا بردبار تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8626

۔ (۸۶۲۶)۔ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ عَنْ أَ بِیہِ قَالَ: لَمَّا حَضَرَتْ أَ بَا طَالِبٍ الْوَفَاۃُ، دَخَلَ عَلَیْہِ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعِنْدَہُ أَ بُو جَہْلٍ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِی أُمَیَّۃَ، فَقَالَ: ((أَ یْ عَمِّ! قُلْ لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کَلِمَۃً أُحَاجُّ بِہَا لَکَ عِنْدَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ۔)) فَقَالَ أَ بُو جَہْلٍ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِی أُمَیَّۃَ: یَا أَ بَا طَالِبٍ! أَ تَرْغَبُ عَنْ مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ؟ قَالَ: فَلَمْ یَزَالَایُکَلِّمَانِہِ حَتّٰی قَالَ آخِرَ شَیْئٍ کَلَّمَہُمْ بِہِ: عَلٰی مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَأَ سْتَغْفِرَنَّ لَکَ مَا لَمْ أُنْہَ عَنْکَ۔)) فَنَزَلَتْ: {مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَ نْ یَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِینَ، وَلَوْ کَانُوْا أُولِی قُرْبٰی، مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ أَ نَّہُمْ أَ صْحَابُ الْجَحِیمِ} [التوبۃ: ۱۱۳] قَالَ: فَنَزَلَتْ فِیہِ {إِنَّکَ لَا تَہْدِی مَنْ أَ حْبَبْتَ} [القصص: ۵۶]۔ (مسند احمد: ۲۴۰۷۴)
۔ مسیب سے روایت ہے کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت ہوا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پاس داخل ہوئے، جبکہ اس کے پاس ابو جہل اور عبداللہ بن امیہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے میرے چچا: لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہہ دو، یہ ایسا کلمہ ہے کہ میں اس کے ذریعہ آپ کے حق میں اللہ تعالیٰ کے ہاں بحث مباحثہ کروں گا۔ ابو جہل اور عبداللہ بن امیہ نے کہا: اے ابو طالب! کیا عبدالمطلب کے دین سے روگردانی کر جاؤ گے، وہ یہی بات دوہراتے رہے اور ورغلاتے رہے حتیٰ کہ ابو طالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر (مر رہا) ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تیرے لیے استغفار کرتا رہوں گا تا وقتیکہ مجھے منع کر دیا جائے، پس یہ آیت نازل ہوئی: {مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَلَوْ کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ۔} … اس نبی اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، کبھی جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں، خواہ وہ قرابت دار ہوں، اس کے بعد کہ ان کے لیے صاف ظاہر ہوگیا کہ یقینا وہ جہنمی ہیں۔ اور یہ آیت بھی نازل ہوئی: {اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَائُ وَہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ۔} … بے شک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو پسند کرے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8627

۔ (۸۶۲۷)۔ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ: أَ نَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ، وَکَانَ قَائِدَ کَعْبٍ مِنْ بَنِیہِ حِینَ عَمِیَ، قَالَ: سَمِعْتُ کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ یُحَدِّثُ حَدِیثَہُ حِینَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ، فَقَالَ کَعْبُ بْنُ مَالِکٍ: لَمْ أَ تَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَزْوَۃٍ غَیْرِہَا قَطُّ إِلَّا فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ، غَیْرَ أَ نِّی کُنْتُ تَخَلَّفْتُ فِی غَزْوَۃِبَدْرٍ وَلَمْ یُعَاتِبْ أَ حَدًا تَخَلَّفَ عَنْہَا، إِنَّمَا خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُرِیدُ عِیرَ قُرَیْشٍ حَتّٰی جَمَعَ اللّٰہُ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ عَدُوِّہِمْ عَلٰی غَیْرِ مِیعَادٍ، وَلَقَدْ شَہِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیْلَۃَ الْعَقَبَۃِ حِینَ تَوَافَقْنَا عَلَی الْإِسْلَامِ، مَا أُحِبُّ أَ نَّ لِی بِہَا مَشْہَدَ بَدْرٍ، وَإِنْ کَانَتْ بَدْرٌ أَ ذْکَرَ فِی النَّاسِ مِنْہَا وَأَ شْہَرَ، وَکَانَ مِنْ خَبَرِی حِینَ تَخَلَّفْتُ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ أَ نِّی لَمْ أَ کُنْ قَطُّ أَقْوٰی وَلَا أَ یْسَرَ مِنِّی حِینَ تَخَلَّفْتُ عَنْہُ فِی تِلْکَ الْغَزَاۃِ، وَاللّٰہِ مَا جَمَعْتُ قَبْلَہَا رَاحِلَتَیْنِ قَطُّ حَتّٰی جَمَعْتُہَا فِی تِلْکَ الْغَزَاۃِ، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَلَّمَا یُرِیدُ غَزَاۃًیَغْزُوہَا إِلَّا وَرّٰی بِغَیْرِہَا حَتّٰی کَانَتْ تِلْکَ الْغَزَاۃُ فَغَزَاہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی حَرٍّ شَدِیدٍ، وَاسْتَقْبَلَ سَفَرًا بَعِیدًا وَمَفَازًا، وَاسْتَقْبَلَ عَدُوًّا کَثِیرًا، فَجَلَا لِلْمُسْلِمِینَ أَمْرَہُ لِیَتَأَ ہَّبُوا أُہْبَۃَ عَدُوِّہِمْ، فَأَ خْبَرَہُمْ بِوَجْہِہِ الَّذِییُرِیدُ، وَالْمُسْلِمُونَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَثِیرٌ، لَا یَجْمَعُہُمْ کِتَابُ حَافِظٍ یُرِیدُ الدِّیوَانَ، فَقَالَ کَعْبٌ: فَقَلَّ رَجُلٌ یُرِیدُیَتَغَیَّبُ إِلَّا ظَنَّ أَ نَّ ذٰلِکَ سَیُخْفٰی لَہُ مَا لَمْ یَنْزِلْ فِیہِ وَحْیٌ مِنْ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَغَزَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تِلْکَ الْغَزْوَۃَ حِینَ طَابَتْ الثِّمَارُ وَالظِّلُّ، وَأَ نَا إِلَیْہَا أَ صْعَرُ، فَتَجَہَّزَ إِلَیْہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالْمُؤْمِنُونَ مَعَہُ، وَطَفِقْتُ أَ غْدُو لِکَیْ أَتَجَہَّزَ مَعَہُ فَأَ رْجِعَ وَلَمْ أَ قْضِ شَیْئًا، فَأَقُولُ فِی نَفْسِی أَ نَا قَادِرٌ عَلٰی ذٰلِکَ، إِذَا أَرَدْتُ فَلَمْ یَزَلْ کَذٰلِکَ یَتَمَادٰی بِی حَتّٰی شَمَّرَ بِالنَّاسِ الْجِدُّ، فَأَ صْبَحَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَادِیًا وَالْمُسْلِمُونَ مَعَہُ، وَلَمْ أَقْضِ مِنْ جَہَازِی شَیْئًا، فَقُلْتُ: الْجَہَازُ بَعْدَ یَوْمٍ أَ وْ یَوْمَیْنِ، ثُمَّ أَ لْحَقُہُمْ، فَغَدَوْتُ بَعْدَ مَا فَصَلُوْا لِأَ تَجَہَّزَ فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَقْضِ شَیْئًا مِنْ جَہَازِی، ثُمَّ غَدَوْتُ فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَ قْضِ شَیْئًا، فَلَمْ یَزَلْ ذٰلِکَ یَتَمَادٰی بِی حَتّٰی أَ سْرَعُوْا وَتَفَارَطَ الْغَزْوُ، فَہَمَمْتُ أَ نْ أَ رْتَحِلَ فَأُدْرِکَہُمْ وَلَیْتَ أَ نِّی فَعَلْتُ، ثُمَّ لَمْ یُقَدَّرْ ذَلِکَ لِی، فَطَفِقْتُ إِذَا خَرَجْتُ فِی النَّاسِ بَعْدَ خُرُوجِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَطُفْتُ فِیہِمْیَحْزُنُنِی أَ نْ لَا أَ رٰی إِلَّا رَجُلًا مَغْمُوصًا عَلَیْہِ فِی النِّفَاقِ أَ وْ رَجُلًا مِمَّنْ عَذَرَہُ اللّٰہُ وَلَمْ یَذْکُرْنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی بَلَغَ تَبُوکَ، فَقَالَ وَہُوَ جَالِسٌ فِی الْقَوْمِ بِتَبُوکَ: ((مَا فَعَلَ کَعْبُ بْنُ مَالِکٍ؟۔)) قَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی سَلِمَۃَ: حَبَسَہُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! بُرْدَاہُ وَالنَّظَرُ فِی عِطْفَیْہِ، فَقَالَ لَہُ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: بِئْسَمَا قُلْتَ، وَاللّٰہِ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا عَلِمْنَا عَلَیْہِ إِلَّا خَیْرًا، فَسَکَتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ کَعْبُ بْنُ مَالِکٍٔٔ: فَلَمَّا بَلَغَنِی أَ نَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ تَوَجَّہَ قَافِلًا مِنْ تَبُوکَ حَضَرَنِی بَثِّی فَطَفِقْتُ أَ تَفَکَّرُ الْکَذِبَ، وَأَقُولُ بِمَاذَا أَخْرُجُ مِنْ سَخَطِہِ غَدًا أَسْتَعِینُ عَلٰی ذٰلِکَ کُلَّ ذِی رَأْیٍ مِنْ أَہْلِی، فَلَمَّا قِیلَ إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ أَظَلَّ قَادِمًا زَاحَ عَنِّی الْبَاطِلُ وَعَرَفْتُ أَ نِّی لَنْ أَ نْجُوَ مِنْہُ بِشَیْئٍ أَبَدًا فَأَ جْمَعْتُ صِدْقَہُ، وَصَبَّحَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَکَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ فَرَکَعَ فِیہِ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ، فَلَمَّا فَعَلَ ذٰلِکَ جَائَ ہُ الْمُتَخَلِّفُونَ فَطَفِقُوْا یَعْتَذِرُوْنَ إِلَیْہِ وَیَحْلِفُونَ لَہُ وَکَانُوا بِضْعَۃً وَثَمَانِینَ رَجُلًا، فَقَبِلَ مِنْہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَانِیَتَہُمْ، وَیَسْتَغْفِرُ لَہُمْ، وَیَکِلُ سَرَائِرَہُمْ إِلَی اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی حَتّٰی جِئْتُ، فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَیْہِ تَبَسَّمَ تَبَسُّمَ الْمُغْضَبِ، ثُمَّ قَالَ لِی: ((تَعَالَ۔)) فَجِئْتُ أَ مْشِی حَتّٰی جَلَسْتُ بَیْنَیَدَیْہِ، فَقَالَ لِی: ((مَا خَلَّفَکَ؟ أَ لَمْ تَکُنْ قَدْ اسْتَمَرَّ ظَہْرُکَ؟۔)) قَالَ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی لَوْ جَلَسْتُ عِنْدَ غَیْرِکَ مِنْ أَ ہْلِ الدُّنْیَا لَرَأَیْتُ أَ نِّی أَ خْرُجُ مِنْ سَخْطَتِہِ بِعُذْرٍ، لَقَدْ أُعْطِیتُ جَدَلًا وَلٰکِنَّہُ وَاللّٰہِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَئِنْ حَدَّثْتُکَ الْیَوْمَ حَدِیثَ کَذِبٍ تَرْضٰی عَنِّی بِہِ لَیُوشِکَنَّ اللّٰہُ تَعَالٰییُسْخِطُکَ عَلَیَّ، وَلَئِنْ حَدَّثْتُکَ الْیَوْمَ بِصِدْقٍ تَجِدُ عَلَیَّ فِیہِ إِنِّی لَأَ رْجُو قُرَّۃَ عَیْنِی عَفْوًا مِنَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی، وَاللّٰہِ مَا کَانَ لِی عُذْرٌ، وَاللّٰہِ مَا کُنْتُ قَطُّ أَ فْرَغَ وَلَا أَ یْسَرَ مِنِّی حِینَ تَخَلَّفْتُ عَنْکَ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَ مَّا ہٰذَا فَقَدْ صَدَقَ فَقُمْ حَتَّییَقْضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی فِیکَ۔)) فَقُمْتُ وَبَادَرَتْ رِجَالٌ مِنْ بَنِی سَلِمَۃَ فَاتَّبَعُونِی فَقَالُوْا لِی: وَاللّٰہِ! مَا عَلِمْنَاکَ کُنْتَ أَ ذْنَبْتَ ذَنْبًا قَبْلَ ہٰذَا، وَلَقَدْ عَجَزْتَ أَ نْ لَا تَکُونَ اعْتَذَرْتَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِمَا اعْتَذَرَ بِہِ الْمُتَخَلِّفُونَ، لَقَدْ کَانَ کَافِیَکَ مِنْ ذَنْبِکَ اسْتِغْفَارُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَکَ، قَالَ: فَوَاللّٰہِ! مَا زَالُوْا یُؤَنِّبُونِی حَتّٰی أَ رَدْتُ أَ نْ أَ رْجِعَ فَأُکَذِّبَ نَفْسِی، قَالَ: ثُمَّ قُلْتُ لَہُمْ: ہَلْ لَقِیَ ہٰذَا مَعِیَ أَحَدٌ؟ قَالُوْا: نَعَمْ، لَقِیَہُ مَعَکَ رَجُلَانِ قَالَا مَا قُلْتَ، فَقِیلَ لَہُمَا مِثْلُ مَا قِیلَ لَکَ، قَالَ: فَقُلْتُ لَہُمْ: مَنْ ہُمَا؟ قَالُوْا: مُرَارَۃُ بْنُ الرَّبِیعِ الْعَامِرِیُّ وَہِلَالُ بْنُ أُمَیَّۃَ الْوَاقِفِیُّ، قَالَ: فَذَکَرُوْا لِیرَجُلَیْنِ صَالِحَیْنِ قَدْ شَہِدَا بَدْرًا لِی فِیہِمَا أُسْوَۃٌ، قَالَ: فَمَضَیْتُ حِینَ ذَکَرُوْہُمَا لِی، قَالَ: وَنَہٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمُسْلِمِینَ عَنْ کَلَامِنَا أَ یُّہَا الثَّلَاثَۃُ مِنْ بَیْنِ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْہُ فَاجْتَنَبَنَا النَّاسُ، قَالَ: وَتَغَیَّرُوا لَنَا حَتّٰی تَنَکَّرَتْ لِی مِنْ نَفْسِی الْأَرْضُ فَمَا ہِیَ بِالْأَرْضِ الَّتِی کُنْتُ أَعْرِفُ، فَلَبِثْنَا عَلٰی ذٰلِکَ خَمْسِینَ لَیْلَۃً، فَأَمَّا صَاحِبَایَ فَاسْتَکَانَا وَقَعَدَا فِی بُیُوتِہِمَایَبْکِیَانِ، وَأَ مَّا أَ نَا فَکُنْتُ أَ شَبَّ الْقَوْمِ وَأَجْلَدَہُمْ فَکُنْتُ أَ شْہَدُ الصَّلَاۃَ مَعَ الْمُسْلِمِینَ وَأَ طُوفُ بِالْأَ سْوَاقِ وَلَا یُکَلِّمُنِی أَ حَدٌ، وَآتِی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ فِی مَجْلِسِہِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ، فَأُسَلِّمُ عَلَیْہِ فَأَقُولُ فِی نَفْسِی حَرَّکَ شَفَتَیْہِ بِرَدِّ السَّلَامِ أَمْ لَا؟ ثُمَّ أُصَلِّی قَرِیبًا مِنْہُ وَأُسَارِقُہُ النَّظَرَ، فَإِذَا أَ قْبَلْتُ عَلٰی صَلَاتِی نَظَرَ إِلَیَّ، فَإِذَا الْتَفَتُّ نَحْوَہُ أَ عْرَضَ حَتّٰی إِذَا طَالَ عَلَیَّ ذٰلِکَ مِنْ ہَجْرِ الْمُسْلِمِینَ، مَشَیْتُ حَتّٰی تَسَوَّرْتُ حَائِطَ أَ بِی قَتَادَۃَ، وَہُوَ ابْنُ عَمِّی، وَأَ حَبُّ النَّاسِ إِلَیَّ، فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ فَوَاللّٰہِ مَا رَدَّ عَلَیَّ السَّلَامَ، فَقُلْتُ لَہُ: یَا أَ بَا قَتَادَۃَ! أَ نْشُدُکَ اللّٰہَ ہَلْ تَعْلَمُ أَ نِّی أُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ؟ قَالَ: فَسَکَتَ، قَالَ: فَعُدْتُ فَنَشَدْتُہُ فَسَکَتَ فَعُدْتُ فَنَشَدْتُہُ، فَقَالَ: اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَ عْلَمُ، فَفَاضَتْ عَیْنَایَ وَتَوَلَّیْتُ حَتّٰی تَسَوَّرْتُ الْجِدَارَ، فَبَیْنَمَا أَنَا أَمْشِی بِسُوقِ الْمَدِینَۃِ إِذَا نَبَطِیٌّ مِنْ أَ نْبَاطِ أَہْلِ الشَّامِ مِمَّنْ قَدِمَ بِطَعَامٍ یَبِیعُہُ بِالْمَدِینَۃِیَقُولُ: مَنْ یَدُلُّنِی عَلٰی کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ؟ قَالَ: فَطَفِقَ النَّاسُ یُشِیرُونَ لَہُ إِلَیَّ حَتّٰی جَائَ، فَدَفَعَ إِلَیَّ کِتَابًا مِنْ مَلِکِ غَسَّانَ، وَکُنْتُ کَاتِبًا فَإِذَا فِیہِ: أَ مَّا بَعْدُ! فَقَدْ بَلَغَنَا أَ نَّ صَاحِبَکَ قَدْ جَفَاکَ، وَلَمْ یَجْعَلْکَ اللّٰہُ بِدَارِ ہَوَانٍ وَلَا مَضْیَعَۃٍ، فَالْحَقْ بِنَا نُوَاسِکَ، قَالَ: فَقُلْتُ: حِینَ قَرَأْتُہَا وَہٰذَا أَیْضًا مِنْ الْبَلَائِ، قَالَ: فَتَیَمَّمْتُ بِہَا التَّنُّورَ فَسَجَرْتُہُ بِہَا حَتّٰی إِذَا مَضَتْ أَ رْبَعُونَ لَیْلَۃً مِنَ الْخَمْسِینَ إِذَا بِرَسُولِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَأْتِینِی فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَأْمُرُکَ أَ نْ تَعْتَزِلَ امْرَأَ تَکَ، قَالَ: فَقُلْتُ: أُطَلِّقُہَا أَ مْ مَاذَا أَ فْعَلُ؟ قَالَ: بَلْ اعْتَزِلْہَا فَلَا تَقْرَبْہَا، قَالَ: وَأَ رْسَلَ إِلٰی صَاحِبَیَّ بِمِثْلِ ذَلِکَ، قَالَ: فَقُلْتُ لِامْرَأَ تِی: الْحَقِی بِأَ ہْلِکِ فَکُونِی عِنْدَہُمْ حَتّٰییَقْضِیَ اللّٰہُ فِی ہٰذَا الْأَ مْرِ، قَالَ: فَجَاء َتِ امْرَأَ ۃُ ہِلَالِ بْنِ أُمَیَّۃَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ لَہُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ إِنَّ ہِلَالًا شَیْخٌ ضَائِعٌ لَیْسَ لَہُ خَادِمٌ فَہَلْ تَکْرَہُ أَ نْ أَ خْدُمَہُ، قَالَ: ((لَا، وَلٰکِنْ لَا یَقْرَبَنَّکِ۔)) قَالَتْ: فَإِنَّہُ وَاللّٰہِ مَا بِہِ حَرَکَۃٌ إِلٰی شَیْئٍ، وَاللّٰہِ، مَا یَزَالُیَبْکِی مِنْ لَدُنْ أَنْ کَانَ مِنْ أَ مْرِکَ مَا کَانَ إِلٰییَوْمِہِ ہٰذَا، قَالَ: فَقَالَ لِی بَعْضُ أَ ہْلِی: لَوِ اسْتَأْذَنْتَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی امْرَأَ تِکَ، فَقَدْ أَ ذِنَ لِامْرَأَ ۃِ ہِلَالِ بْنِ أُمَیَّۃَ أَ نْ تَخْدُمَہُ، قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ لَا اَسْتَأْذِنُ فِیْھَا …… صَبَاحَ خَمْسِیْن لَیْلَۃً عَلَی ظَہْرِ بَیْتٍ مِنْ بُیُوتِنَا فَبَیْنَمَا أَ نَا جَالِسٌ عَلَی الْحَالِ الَّتِی ذَکَرَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی مِنَّا، قَدْ ضَاقَتْ عَلَیَّ نَفْسِی، وَضَاقَتْ عَلَیَّ الْأَ رْضُ بِمَا رَحُبَتْ، سَمِعْتُ صَارِخًا أَوْفٰی عَلٰی جَبَلِ سَلْعٍ یَقُولُ بِأَ عْلٰی صَوْتِہِ: یَا کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ! أَ بْشِرْ، قَالَ: فَخَرَرْتُ سَاجِدًا، وَعَرَفْتُ أَ نْ قَدْ جَائَ فَرَجٌ، وَآذَنَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِتَوْبَۃِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَلَیْنَا، حِینَ صَلّٰی صَلَاۃَ الْفَجْرِ فَذَہَبَ النَّاسُ یُبَشِّرُونَنَا، وَذَہَبَ قِبَلَ صَاحِبَیَّیُبَشِّرُونَ وَرَکَضَ إِلَیَّ رَجُلٌ فَرَسًا وَسَعٰی سَاعٍ مِنْ أَسْلَمَ، وَأَ وْفَی الْجَبَلَ، فَکَانَ الصَّوْتُ أَسْرَعَ مِنْ الْفَرَسِ، فَلَمَّا جَائَ نِی الَّذِی سَمِعْتُ صَوْتَہُ یُبَشِّرُنِی، نَزَعْتُ لَہُ ثَوْبَیَّ فَکَسَوْتُہُمَا إِیَّاہُ بِبَشَارَتِہِ، وَاللّٰہِ! مَا أَ مْلِکُ غَیْرَہُمَایَوْمَئِذٍ فَاسْتَعَرْتُ ثَوْبَیْنِ فَلَبِسْتُہُمَا، فَانْطَلَقْتُ أَ تَأَ مَّمُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَلْقَانِی النَّاسُ فَوْجًا فَوْجًا یُہَنِّئُونِی بِالتَّوْبَۃِیَقُوْلُوْنَ: لِیَہْنِکَ تَوْبَۃُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ، حَتّٰی دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَاِذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَالِسٌ فِی الْمَسْجِدِ حَوْلَہُ النَّاسُ، فَقَامَ اِلَیَّ طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ یُہَرْوِلُ حَتّٰی صَافَحَنِیْ وَہَنَّأَ نِی وَاللّٰہِ مَا قَامَ إِلَیَّ رَجُلٌ مِنْ الْمُہَاجِرِینَ غَیْرُہُ، قَالَ: فَکَانَ کَعْبٌ لَا یَنْسَاہَا لِطَلْحَۃَ، قَالَ کَعْبٌ: فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ وَہُوَ یَبْرُقُ وَجْہُہُ مِنْ السُّرُورِ: ((أَ بْشِرْ بِخَیْرِیَوْمٍ مَرَّ عَلَیْکَ مُنْذُ وَلَدَتْکَ أُمُّکَ۔)) قَالَ: قُلْتُ: أَ مِنْ عِنْدِکَ! یَا رَسُولَ اللّٰہِ أَ مْ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((لَا، بَلْ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ۔)) قَالَ: وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْہُہُ کَأَ نَّہُ قِطْعَۃُ قَمَرٍ حَتّٰییُعْرَفَ ذٰلِکَ مِنْہُ، قَالَ: فَلَمَّا جَلَسْتُ بَیْنَیَدَیْہِ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ مِنْ تَوْبَتِی أَ نْ أَ نْخَلِعَ مِنْ مَالِی صَدَقَۃً إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی وَإِلٰی رَسُولِہِ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَ مْسِکْ بَعْضَ مَالِکَ فَہُوَ خَیْرٌ لَکَ۔)) قَالَ: فَقُلْتُ: إِنِّی أُمْسِکُ سَہْمِی الَّذِی بِخَیْبَرَ، قَالَ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّمَا اللّٰہُ تَعَالٰی نَجَّانِی بِالصِّدْقِ،ٔ وَإِنَّ مِنْ تَوْبَتِی أَ نْ لَا أُحَدِّثَ إِلَّا صِدْقًا مَا بَقِیتُ، قَالَ: فَوَاللّٰہِ! مَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِنْ الْمُسْلِمِینَ أَ بْلَاہُ اللّٰہُ مِنْ الصِّدْقِ فِیالْحَدِیثِ مُذْ ذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَ حْسَنَ مِمَّا أَ بْلَانِی اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی، وَاللّٰہِ! مَا تَعَمَّدْتُ کَذِبَۃً مُذْ قُلْتُ ذٰلِکَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰییَوْمِی ہٰذَا، وَإِنِّی لَأَ رْجُو أَ نْ یَحْفَظَنِی فِیمَا بَقِیَ، قَالَ: وَأَ نْزَلَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: {لَقَدْ تَابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہَاجِرِینَ وَالْأَ نْصَارِ الَّذِینَ اتَّبَعُوہُ فِی سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنْ بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیغُ قُلُوبُ فَرِیقٍ مِنْہُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ إِنَّہُ بِہِمْ رَئُ وْفٌ رَحِیمٌ وَعَلَی الثَّلَاثَۃِ الَّذِینَ خُلِّفُوا حَتّٰی إِذَا ضَاقَتْ عَلَیْہِمُ الْأَ رْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْہِمْ أَ نْفُسُہُمْ وَظَنُّوا أَ نْ لَا مَلْجَأَ مِنْ اللّٰہِ إِلَّا إِلَیْہِ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ لِیَتُوبُوْا إِنَّ اللّٰہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ،یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِینَ} [التوبۃ: ۱۱۷۔۱۱۹] قَالَ کَعْبٌ: فَوَاللّٰہِ! مَا أَ نْعَمَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی عَلَیَّ مِنْ نِعْمَۃٍ قَطُّ بَعْدَ أَ نْ ہَدَانِی أَ عْظَمَ فِی نَفْسِی مِنْ صِدْقِی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَئِذٍ، أَ نْ لَا أَ کُونَ کَذَبْتُہُ فَأَ ہْلِکَ کَمَا ہَلَکَ الَّذِینَ کَذَبُوْہُ حِینَ کَذَبُوہُ، فَإِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی قَالَ لِلَّذِینَ کَذَبُوہُ حِینَ کَذَبُوہُ شَرَّ مَا یُقَالُ لِأَ حَدٍ فَقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {سَیَحْلِفُونَ بِاللّٰہِ لَکُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ إِلَیْہِمْ لِتُعْرِضُوْا عَنْہُمْ فَأَ عْرِضُوا عَنْہُمْ إِنَّہُمْ رِجْسٌ وَمَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ جَزَائً بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُونَیَحْلِفُونَ لَکُمْ لِتَرْضَوْا عَنْہُمْ فَإِنْ تَرْضَوْا عَنْہُمْ، فَإِنَّ اللّٰہَ لَا یَرْضٰی عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ} [التوبۃ: ۹۵۔ ۹۶] قَالَ: وَکُنَّا خُلِّفْنَا أَ یُّہَا الثَّلَاثَۃُ عَنْ أَ مْرِ أُولَئِکَ الَّذِینَ قَبِلَ مِنْہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ حَلَفُوْا، فَبَایَعَہُمْ وَاسْتَغْفَرَلَہُمْ فَأَ رْجَأَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَ مْرَنَا حَتّٰی قَضَی اللّٰہُ تَعَالٰی، فَبِذٰلِکَ قَالَ اللّٰہُ تَعَالَی: {وَعَلَی الثَّلَاثَۃِ الَّذِینَ خُلِّفُوْا} وَلَیْسَ تَخْلِیفُہُ إِیَّانَا وَإِرْجَاؤُہُ أَ مْرَنَا الَّذِی ذَکَرَ مِمَّا خُلِّفْنَا بِتَخَلُّفِنَا عَنْ الْغَزْوِ، وَإِنَّمَا ہُوَ عَمَّنْ حَلَفَ لَہُ وَاعْتَذَرَ إِلَیْہِ فَقَبِلَ مِنْہُ۔ (مسند احمد: ۱۵۸۸۲)
۔ عبد الرحمن بن عبد اللہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: عبداللہ بن کعب، جو اپنے باپ سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے نابینا ہو جانے کی وجہ سے ان کے قائد تھے، وہ کہتے ہیں: سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنا واقعہ بیان کیا جب وہ غزوئہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ انھوں نے کہا: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تمام لڑائیوں میں شریک ہوا تھا، ما سوائے تبوک اور بدرکے، میں ان میں پیچھے رہ گیا تھا، مگر بدر میں پیچھے رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ کا عتاب نہیں ہوا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اس جنگ میں غرض یہ تھی کہ قافلہ قریش کا تعاقب کیا جائے، دشمنوں کو اللہ تعالیٰ نے اچانک حائل کردیا اور جنگ ہوگئی، میں عقبہ والی رات کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سب سے اسلام پر قائم رہنے کا عہد لیا تھااور مجھے تو عقبہ والی وہ رات غزوۂ بدر کے مقابلہ میں عزیز ہے، اگرچہ جنگ بدر کو لوگوں میں زیادہ شہرت اور فضیلت حاصل ہے اور جنگ تبوک کا واقعہ یہ ہے کہ اس جنگ سے پہلے کبھی بھی میرے پاس دو سواریاں جمع نہیں ہوئی تھیں، اس غزوہ کے وقت میں دو سواریوں کا مالک تھا، اس کے علاوہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا یہ دستور تھا کہ جب کہیں جنگ کا خیال کرتے تو صاف صاف پتہ نشان اور جگہ نہیں بتاتے تھے، بلکہ کچھ گول مول الفاظ میں بات ظاہر کرتے تھے تاکہ لوگ دوسرا مقام سمجھتے رہیں، غرض جب لڑائی کا وقت آیا تو گرمیبہت شدید تھی، راستہ طویل تھا اور بے آب و گیاہ تھا، دشمن کی تعداد زیادہ تھی، لہٰذا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسلمانوں کو پورے طور پر آگاہ کردیا کہ ہم تبوک جا رہے ہیں تاکہ تیار کرلیں، اس وقت نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ کثیر تعداد میں مسلمان موجود تھے، مگر کوئی ایسی کتاب وغیرہ نہیں تھی کہ اس میں سب کے نام لکھے ہوئے ہوں، کوئی مسلمان ایسا نہیں تھا کہ جو اس لڑائی میں شریک ہونا نہ چاہتا ہو، مگر وہ یہ خیالکرتا تھا کہ کسی کی غیر حاضری نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس وقت تک معلوم نہیں ہو سکتی جب تک کہ وحی نہ آئے، غرض نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لڑائی کی تیاریاں شروع کردیں اور یہ وہ وقت تھا کہ میوہ پک رہا تھا اور سایہ میں بیٹھنا اچھا معلوم ہوتا تھا، سب تیاریاں کر رہے تھے، مگر میں ہر صبح کو یہی سوچتا تھا کہ میں تیاری کرلوں گا، کیا جلدی ہے، میں تو ہر وقت تیاری کر سکتا ہوں، اسی طرح دن گزرتے رہے، ایک روز صبح کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم روانہ ہو گئے، میں نے سوچا ان کو جانے دو، میں ایک دو دن میں تیاری کرکے راستہ میں ان میں شامل ہو جاؤں گا، دوسری صبح کو میں نے تیاری کرنا چاہی، مگر نہ ہو سکی اور میںیوں ہی رہ گیا تیسرے روز بھییہی ہوا اور پھر برابر میرایہی حال ہوتا رہا، اب سب لوگ بہت دور نکل چکے تھے، میں نے کئی مرتبہ قصد کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جا ملوں، مگر تقدیر میں نہ تھا، کاش! میں ایسا کرلیتا چنانچہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چلے جانے کے بعد میں جب مدینہ میں چلتا پھرتا تو مجھ کو یا تو منافق نظر آتے یا وہ جو کمزور ضعیف اور بیمار تھے، مجھے بہت افسوس ہوتا تھا، (جب میں نے بعد میں معلومات لی تھیں تو ان سے پتہ چلا تھا کہ) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے راستے میں مجھے کہیں بھییاد نہیں کیا تھا، البتہ تبوک پہنچ کر جب سب لوگوں میں تشریف فرما ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کعب بن مالک کہاں ہے؟ بنو سلمہ کے ایک آدمی سیدنا عبداللہ بن انیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ تو اپنے حسن و جمال پر ناز کرنے کی وجہ سے رہ گئے ہیں، لیکن سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم نے اچھی بات نہیں کی، اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول! ہم تو انہیں اچھا آدمی ہی سمجھتے ہیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ سن کر خاموش ہوگئے، جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس آ رہے ہیں تو میں سوچنے لگا کہ کوئی ایسا حیلہ بہانہ ہاتھ آ جائے جو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے غصہ سے مجھے بچا سکے، پھر میں اپنے گھر کے سمجھدار لوگوں سے مشورہ کرنے لگا کہ اس سلسلہ میں کچھ تم بھی سوچو، مگر جب یہ بات معلوم ہوئی کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ کے بالکل قریب آ گئے ہیں تو میرے دل سے اس حیلہ کا خیال دور ہوگیا اور میں نے یقین کرلیا کہ جھوٹ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے غصہ سے نہیں بچا سکے گا، صبح کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ میں پہنچ گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا طریقہیہ تھا کہ جب سفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد میں جاتے اور دو رکعت نفل ادا فرماتے، اس بار بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایسے ہی کیا اور مسجد میں بیٹھ گئے، اب جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے آنا شروع کیا اور اپنے اپنے عذر بیان کرنے لگے اور قسمیں کھانے لگے یہ کل اسی (۸۰) افراد یا اس سے کچھ زیادہ تھے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے ان کے عذر قبول کر لئے اور ان سے دوبارہ بیعت لی اور ان کے لئے دعائے مغفرت فرمائی اور ان کے دلوں کے خیالات کو اللہ تعالی کے سپرد کردیا۔ جب میں آیا تو السلام علیکم کہا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غصے والی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا اور فرمایا: آؤ۔ پس میں سامنے جا کر بیٹھ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے پوچھا: کعب تم کیوں پیچھے رہ گئے تھے؟ حالانکہ تم نے تو سواری کا بھی انتظام کرلیا تھا؟ میں نے عرض کیا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا فرمان درست ہے، میں اگر کسی اور کے سامنے ہوتا تو ممکن تھا کہ بہانے وغیرہ کر کے اس سے نجات پا جاتا، کیونکہ میں خوب بول سکتا ہوں، مگر اللہ گواہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ اگر آج میں نے جھوٹ بول کر آپ کو راضی کرلیا تو کل اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے ناراض کردے گا، اس لئے میں سچ ہی بولوں گا، چاہے آپ مجھ پر غصہ ہی کیوں نہ فرمائیں، آئندہ کو تو اللہ کی مغفرت اور بخشش کی امید رہے گی، اللہ کی قسم! میں قصور وار ہوں، حالانکہ مال و دولت میں کوئی بھی میرے برابر نہیں ہے، مگر میں یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی شریک نہ ہو سکا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ سن کر فرمایا۔ کعب نے درست بات بیان کردی، اچھا چلے جاؤ اور اپنے حق میں اللہ تعالی کے حکم کا انتظار کرو۔ میں اٹھ کر چلا گیا، بنی سلمہ کے آدمی بھی میرے ساتھ ہو لئے اور کہنے لگے: ہم نے تو اب تک تمہارا کوئی گناہ نہیں دیکھا، تم نے بھی دوسرے لوگوں کی طرح نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے کوئی بہانہ پیش کردیا ہوتا، حضور کی دعائے مغفرت تیرے کے لئے کافی ہو جاتی، وہ مجھے برابر یہی سمجھاتے رہے، یہاں تک کہ میرے دل میں یہ خیال آنے لگا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس واپس چلا جاؤں اور پہلے والی بات کو غلط ثابت کرکے کوئی بہانہ پیش کردوں، پھر میں نے ان سے پوچھا کہ کیا کوئی اور شخص بھی ہے، جس نے میری طرح اپنے گناہ کا اعتراف کیا ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں دو آدمی اور بھی ہیں، جنہوں نے اقرار کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے بھی وہی کچھ فرمایا ہے جو تم سے ارشاد فرمایا ہے، میں نے ان کے نام پوچھے تو انھوں نے کہاؒایک مرارہ بن ربیع عامری اور دوسرے ہلال بن امیہ واقفی ہیں،یہ دونوں نیک آدمی تھے اور جنگ بدر میں شریک ہو چکے تھے، مجھے ان سے ملنا اچھا معلوم ہوتا تھا، ان دو آدمیوں کا نام سن کر مجھے بھی اطمینان سا ہوگیا اور میں چلا گیا۔نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تمام مسلمانوں کو منع فرمادیا تھا کہ کوئی شخص ان تین آدمیوں سے کلام نہ کرے، دوسرے پیچھے رہ جانے والے اور جھوٹے بہانے کرنے والوں کے لئے یہ حکم نہیں دیا تھا، اب ہوا کیا کہ لوگوں نے ہم سے الگ رہنا شروع کردیا اور ہم ایسے ہو گئے، جیسے ہمیں کوئی جانتا ہی نہیں ہے، بس گویا ہمارے لیے زمین تبدیل ہو گئی ہے، پچاس راتیں اسی حال میں گزر گئیں، میرے دونوں ساتھی تو گھر میں بیٹھ گئے، میں ہمت والا تھا، نکلتا، باجماعت نماز میں شریک ہوتا، بازار وغیرہ جاتا، مگر کوئی میرےساتھ بات نہیں کرتا تھا، میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بھی آتا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جائے نماز پر جلوہ افروز ہوتے، میں سلام کہتا اور مجھے ایسا شبہ ہوتا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہونٹ ہل رہے ہیں، شاید سلام کا جواب دے رہے ہیں، پھر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب ہی نماز پڑھنے لگتا، اور آنکھ چرا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بھی دیکھتا رہتا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس دوران کیا کرتے ہیں، چنانچہ میں جب نماز میں ہوتا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے دیکھتے رہتے اور جب میری نظر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف ہوتی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھ سے اعراض کر لیتے، اس حال میں یہ مدت گزر گئی اور میں لوگوں کی خاموشی سے عاجز آ گیا، ایک دن اپنے چچا زاد بھائی سیدنا ابوقتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس باغ میں آیا اور سلام کہا اور اس سے مجھے بہت محبت تھی، مگر اللہ کی قسم! اس نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا، میں نے کہا: اے ابوقتادہ! تو مجھے اللہ اور اس کے رسول کا طرفدار جانتا ہے یا نہیں؟ اس نے اس سوال کا جواب بھی نہیں دیا، پھر میں نے قسم کھا کر یہی بات کہی مگر جواب ندارد، میں نے تیسری مرتبہ یہی کہا تو ابوقتادہ نے صرف اتنا جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، پھر مجھ سے ضبط نہ ہو سکا، میں نے رونا شروع کر دیا اور واپس چل دیا، میں ایک دن بازار میں جا رہا تھا کہ ایک نصرانی کسان، جو ملک شام کا رہنے والا تھا اور اناج فروخت کرنے آیا تھا، وہ لوگوں سے میرا پتہ معلوم کر رہا تھا، لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا کہ یہ کعب بن مالک ہے، وہ میرے پاس آیا اور غسان کے نصرانی بادشاہ کا ایک خط مجھے دیا، اس میں لکھا تھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے رسول تم پر بہت زیادتی کر رہے ہیں، حالانکہ اللہ نے تم کو ذلیل اور بے عزت نہیں بنایا ہے، تم بہت کام کے آدمی ہو، تم میرے پاس آجاؤ، ہم تم کو بہت آرام سے رکھیں گے۔ میں نے سوچا کہ یہ تو دوہری آزمائش ہے اور پھر اس خط کو آگ کے تنور میں ڈال دیا، ابھی تک چالیس دن گزرے تھے،دس باقی تھے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قاصد سیدنا خزیمہ بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے آکر کہا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے ہیں کہ تم اپنی بیوی سے الگ ہو جاؤ، میں نے کہا: کیا مطلب ہے؟ طلاق دے دوں یا کچھ اور؟ انھوں نے کہا: بس الگ رہو اور مباشرت وغیرہ مت کرو، میرے دونوں ساتھیوں کو بھییہی حکم دیا گیا، پس میں نے بیوی سے کہا کہ تم اس وقت تک اپنے رشتہ داروں میں جا کر رہو، جب تک اللہ تعالیٰمیرا فیصلہ نہ فرما دے۔ اُدھر سیدنا ہلال بن امیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیوی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول !ہلال بن امیہ میرا خاوند بہت بوڑھا ہے، اگر میں اس کا کام کردیا کروں تو کوئی برائی تو نہیں ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کوئی حرج نہیں، بس وہ صحبت نہ کرنے پائے، اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس میں تو ایسی خواہش ہی نہیں ہے اور جب سے یہ بات ہوئی ہے، وہ مسلسل رو رہا ہے، جب اس کے بارے میں یہ بات سامنے آئی تو میرے عزیزوں نے مجھ سے کہا: تم بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جا کر اپنی بیوی کے بارے میں ایسی ہی اجازت حاصل کرلو، تاکہ وہ تمہاری خدمت کرتی رہے، جس طرح سیدنا ہلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیوی کو اجازت مل گئی ہے، میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں کبھی بھی ایسا نہیں کر سکتا، معلوم نہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کیا فرمائیں گے، میں نوجوان آدمی ہوں، ہلال کی مانند ضعیف نہیں ہوں، اس کے بعد وہ دس راتیں بھیگزر گئیں اور میں پچاسویں رات کو صبح کی نماز کے بعد اپنے گھر کی چھت پر بیٹھا تھا اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ زندگی اجیرن ہو چکی ہے اور زمین میرے لئے باوجود اپنی وسعت کے تنگ ہو چکی ہے، اتنے میں کوہ سلع پر سے کسی پکارنے والے نے پکار کر کہا: اے کعب بن مالک! تم کو بشارت دی جاتی ہے۔ یہ آواز کے سنتے ہی میں خوشی سے سجدہ میں گر پڑا اور یقین کرلیا کہ اب یہ مشکل آسان ہوگئی، کیونکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز فجر کے بعد لوگوں سے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کا قصور معاف کردیا ہے۔ اب تو لوگ میرے پاس اور میرے ان ساتھیوںکے پاس خوشخبری اور مبارکباد کے لئے جانے لگے اور ایک آدمی زبیر بن عوام اپنے گھوڑے کو بھگاتے میرے پاس آیا اور ایک دوسرا بنو سلمہ کے آدمی نے سلع پہاڑ پر چڑھ کر آواز دی، اس کی آواز جلدی میرے کانوں تک پہنچ گئی، اس وقت میں اس قدر خوش ہوا کہ اپنے دونوں کپڑے اتار کر اس کو دے دیئے، جبکہ میرے پاس ان کے سوائی کوئی دوسرے کپڑے نہیں تھے، میں نے ابوقتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دو کپڑے لے کر زیب ِ تن کیے، پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جانے لگا، راستہ میں لوگوں کا ایک ہجوم تھا، وہ مجھے مبارکباد دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ انعام تمہیں مبارک ہو۔ پھر جب میں مسجد میں گیا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف فرما تھے اور دوسرے لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے، طلحہ بن عبیداللہ مجھے دیکھ کر دوڑے، میرے ساتھ مصافحہ کیا اورمبارک باد دی، مہاجرین میں سے یہ کام صرف طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کیا، اللہ گواہ ہے کہ میں ان کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گا، پھر جب میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سلام کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے کعب!یہ دن تمہیں مبارک ہو، جو سب ان دنوں سے اچھا ہے، جو تمہاری پیدائش سے لے کر آج تک ہیں۔ میں نے عرض کیا: حضور! یہ معافی اللہ تعالیٰ کیطرف سے ہوئی ہے یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی طرف سے معاف کیا گیا ہے۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب خوش ہوتے تھے تو چہرہ مبارک چاند کی طرح چمکنے لگتا تھا اور ہم آپ کی خوشی کو پہچان جاتے تھے، پھر میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے بیٹھ کر کہا: اے اللہ کے رسول!میںاپنی اس نجات اور معافی کے شکریہ میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول کے لئے خیرات نہ کردوں؟ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تھوڑا کرو اور کچھ اپنے لئے رکھ لو، کیونکہیہ تمہارے لئے فائدہ مند ہو گا۔ میں نے عرض کیا: جی ٹھیک ہے، میں اپنا خیبر کا حصہ روک لیتا ہوں، پھر میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے سچ بولنے کی وجہ سے نجات پائی ہے، اب میں تمام زندگی سچ ہی بولوں گا، اللہ کی قسم! میں نہیں کہہ سکتا کہ سچ بولنے کی وجہ سے اللہ نے کسی پر ایسی مہربانی فرمائی ہو، جو مجھ پر کی ہے، اس وقت سے آج تلک میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور میں امید کرتا ہوں کہ زندگی بھر اللہ مجھے جھوٹ سے بچائے گا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر یہ آیت نازل فرمائی: {لَقَدْ تَابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہَاجِرِینَ وَالْأَ نْصَارِ الَّذِینَ اتَّبَعُوہُ فِی سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنْ بَعْدِ مَا کَادَیَزِیغُ قُلُوبُ فَرِیقٍ مِنْہُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ إِنَّہُ بِہِمْ رَئُ وْفٌ رَحِیمٌ۔ وَعَلَی الثَّلَاثَۃِ الَّذِینَ خُلِّفُوا حَتّٰی إِذَا ضَاقَتْ عَلَیْہِمْ الْأَ رْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْہِمْ أَنْفُسُہُمْ وَظَنُّوا أَ نْ لَا مَلْجَأَ مِنَ اللّٰہِ إِلَّا إِلَیْہِ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ لِیَتُوبُوْا إِنَّ اللّٰہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ۔ یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِینَ} … بلاشبہ یقینا اللہ نے نبی پر مہربانی کے ساتھ توجہ فرمائی اور مہاجرین و انصار پر بھی، جو تنگ دستی کی گھڑی میں اس کے ساتھ رہے، اس کے بعد کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل ٹیڑھے ہو جائیں، پھر وہ ان پر دوبارہ مہربان ہوگیا۔ یقینا وہ ان پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ اور ان تینوں پر بھی جو موقوف رکھے گئے، یہاں تک کہ جب زمین ان پر تنگ ہوگئی، باوجود اس کے کہ فراخ تھی اور ان پر ان کی جانیں تنگ ہوگئیں اور انھوں نے یقین کر لیا کہ بے شک اللہ سے پناہ کی کوئی جگہ اس کی جناب کے سوا نہیں، پھر اس نے ان پر مہربانی کے ساتھ توجہ فرمائی، تاکہ وہ توبہ کریں۔ یقینا اللہ ہی ہے جو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ (سورۂ توبہ: ۱۱۷۔ ۱۱۹) سیدنا کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اس سے بڑھ کر میں نے کوئی انعام اور احسان نہیں دیکھا کہ اللہ تعالی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے مجھے سچ بولنے کی توفیق دے کر ہلاک ہونے سے بچا لیا، ورنہ ان لوگوں کی طرح میں بھی تباہ اور ہلاک ہوجاتا، جنہوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جھوٹ بولا، جھوٹے حلف اٹھائے، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: {سَیَحْلِفُونَ بِاللّٰہِ لَکُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ إِلَیْہِمْ لِتُعْرِضُوْا عَنْہُمْ فَأَ عْرِضُوا عَنْہُمْ إِنَّہُمْ رِجْسٌ وَمَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ جَزَائً بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُونَ۔ یَحْلِفُونَ لَکُمْ لِتَرْضَوْا عَنْہُمْ فَإِنْ تَرْضَوْا عَنْہُمْ، فَإِنَّ اللّٰہَ لَا یَرْضٰی عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ۔} … عنقریب وہ تمھارے لیے اللہ کی قسمیں کھائیں گے جب تم ان کی طرف واپس آؤ گے، تاکہ تم ان سے توجہ ہٹا لو۔ سو ان سے بے توجہی کرو، بے شک وہ گندے ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے، اس کے بدلے جو وہ کماتے رہے ہیں۔تمھارے لیے قسمیں کھائیں گے، تاکہ تم ان سے راضی ہو جاؤ، پس اگر تم ان سے راضی ہو جاؤ تو بے شک اللہ نافرمان لوگوں سے راضی نہیں ہوتا۔ (سورۂ توبہ: ۹۵،۹۶) سیدنا کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم تینوں ان منافقوں سے علیحدہ ہیں، جنہوں نے نہ جانے کتنے بہانے بنائے اور جھوٹے حلف اٹھائے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی بات کو قبول کرلیا اور ان سے بیعت لے لی اور ان کے لیے دعائے مغفرت فرما دی، مگر ہمارا معاملہ چھوڑ ے رکھا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {وَّعَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا حَتّٰی اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْہِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْہِمْ اَنْفُسُھُمْ وَظَنُّوْٓا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّآ اِلَیْہِ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ لِیَتُوْبُوْا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔ }… اور ان تینوں پر بھی جو موقوف رکھے گئے، یہاں تک کہ جب زمین ان پر تنگ ہوگئی، باوجود اس کے کہ فراخ تھی اور ان پر ان کی جانیں تنگ ہوگئیں اور انھوں نے یقین کر لیا کہ بے شک اللہ سے پناہ کی کوئی جگہ اس کی جناب کے سوا نہیں، پھر اس نے ان پر مہربانی کے ساتھ توجہ فرمائی، تاکہ وہ توبہ کریں۔ یقینا اللہ ہی ہے جو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ (سورۂ توبہ: ۱۱۸) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہم کو پیچھے کرنا اور ہمارے معاملے کو مؤخر کرنا، جس کا ذکر کیا گیا ہے، یہ ہمارا غزوے سے پیچھے رہ جانا نہیں تھا، بلکہ یہ تو ان لوگوں سے پیچھے اور الگ کرنا تھا، جنھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے حلف اٹھائے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے عذر پیش کیے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے عذر قبول کر لیے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8628

۔ (۸۶۲۸)۔ عن عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ: أَ تَی الْحَارِثُ بْنُ خَزَمَۃَ بِہَاتَیْنِ الْآیَتَیْنِ مِنْ آخِرِ بَرَائَ ۃَ: {لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ} إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ: مَنْ مَعَکَ عَلٰی ہٰذَا؟ قَالَ: لَا أَ دْرِی وَاللّٰہِ، إِلَّا أَنِّی أَ شْہَدُ لَسَمِعْتُہَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَوَعَیْتُہَا وَحَفِظْتُہَا، فَقَالَ عُمَرُ: وَأَ نَا أَشْہَدُ لَسَمِعْتُہَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ قَالَ: لَوْ کَانَتْ ثَلَاثَ آیَاتٍ لَجَعَلْتُہَا سُورَۃً عَلٰی حِدَۃٍ، فَانْظُرُوا سُورَۃً مِنْ الْقُرْآنِ فَضَعُوہَا فِیہَا فَوَضَعْتُہَا فِی آخِرِ بَرَائَـۃَ۔ (مسند احمد: ۱۷۱۵)
۔ عباد بن عبداللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حارث بن خزمہ، سورۂ توبہ کییہ آخری دو آیتیں سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس لائے، انہوں نے کہا: ان پر تمہارے ساتھ گواہ کون گواہ ہے؟ انہوں نے کہا: جی اللہ کی قسم! مجھے پتہ نہیںہے، ہاں میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ آیات سنی تھیں اور میں نے ان کو یاد کیا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی تھیں، اگر یہ تین آیاتہوتیں تو میں ان کو علیحدہ سورت بنا دیتا، اب تم دیکھو کہ کون سی سورت ان آیات کے لیے زیادہ مناسب ہے، پس اس میں ان کو لکھ دو، پس میں نے ان کو سورۂ توبہ کے آخر میں لکھ دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8629

۔ (۸۶۲۹)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ اُبَیٍّ قَالَ: آخِرُ آیَۃٍ نَزَلَتْ: {لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ} الآیۃ [التوبۃ: ۱۲۸]۔ (مسند احمد: ۲۱۴۳۰)
۔ سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا ابی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: سب سے آخر میں نازل ہونی والی آیتیہ تھی: {لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُولٌ مِنْ أَ نْفُسِکُمْ}۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8630

۔ (۸۶۳۰)۔ عَنْ صُہَیْبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِذَا دَخَلَ أَ ہْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ نُودُوْا یَا أَ ہْلَ الْجَنَّۃِ! إِنَّ لَکُمْ مَوْعِدًا عِنْدَ اللّٰہِ لَمْ تَرَوْہُ، فَقَالُوْا: وَمَا ہُوَ أَ لَمْ تُبَیِّضْ وُجُوہَنَا وَتُزَحْزِحْنَا عَنِ النَّارِ وَتُدْخِلْنَا الْجَنَّۃَ؟ قَالَ: فَیُکْشَفُ الْحِجَابُ فَیَنْظُرُونَ إِلَیْہِ فَوَاللّٰہِ! مَا أَ عْطَاہُمْ اللّٰہُ شَیْئًا أَ حَبَّ إِلَیْہِمْ مِنْہُ۔)) ثُمَّ تَلَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم {لِلَّذِینَ أَ حْسَنُوْا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ} [یونس: ۲۶]۔ (مسند احمد: ۱۹۱۴۳)
۔ سیدنا صہیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب جنت والے جنت میں داخل ہوجائیں گے تو انہیں آواز دی جائے گی: اے جنت والو! اللہ تعالیٰ نے تم سے ایک وعدہ فرمایا تھا، جو ابھی تک پورا نہیں ہوا، وہ حیران ہو کر کہیں گے:وہ کیا وعدہ ہے، اے اللہ! کیا تو ہمارے چہرے سفید نہیں کئے، کیا ہمیں دوزخ سے نہیں بچایا ہے اور کیا ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا (ابھی تک کون سی چیز باقی ہے)؟ اتنے میں پردہ ہٹ جائے گا اور جنتی اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھنا شروع کر دیں گے۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالی نے ان کو کوئی ایسی چیز عطا نہیں کی ہو گی، جو اس دیدار سے پیاری اور محبوب ہو۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت کی: {لِلَّذِینَ أَ حْسَنُوْا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ} … جن لوگوں نے نیکی کی، انہیں اس کا صلہ ملے گا اورمزید بھی دیا جائے گا ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8631

۔ (۸۶۳۱)۔ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ: أَ نَّہُ سَأَلَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَرَأَیْتَ قَوْلَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: {لَہُمْ الْبُشْرٰی فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ} [یونس: ۶۴] فَقَالَ: ((لَقَدْ سَأَ لْتَنِی عَنْ شَیْئٍ مَا سَأَ لَنِی عَنْہُ أَ حَدٌ مِنْ أُمَّتِی، أَ وْ أَ حَدٌ قَبْلَکَ۔)) قَالَ: ((تِلْکَ الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُیَرَاہَا الرَّجُلُ الصَّالِحُ أَ وْ تُرَی لَہُ۔)) (مسند احمد: ۲۳۰۶۴)
۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالی کے اس فرمان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے : {لَہُمْ الْبُشْرَی فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ} … ایسے لوگوں کے لیے دنیوی زندگی اور آخرت میں خوشخبری ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے مجھ سے ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا ہے کہ میری امت سے کسی نے یہ سوال نہیں کیا، اس سے مراد نیک خواب ہے، جو نیک بندہ دیکھتا ہے یا اس کے لیے کسی کو دکھایا جاتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8632

۔ (۸۶۳۲)۔ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَ ہْلِ مِصْرَ، عَنْ أَ بِی الدَّرْدَائِ، قَالَ: أَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ: مَا تَقُولُ فِی قَوْلِ اللّٰہِ: {لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ} قَالَ: لَقَدْ سَأَ لْتَ عَنْ شَیْئٍ مَا سَمِعْتُ أَ حَدًا سَأَ لَ عَنْہُ بَعْدَ رَجُلٍ سَأَ لَ عَنْہُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: ((بُشْرَاہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ،یَرَاہَا الْمُسْلِمُ أَ وْ تُرٰی لَہُ، وَبُشْرَاہُمْ فِی الْآخِرَۃِ الْجَنَّۃُ۔ (مسند احمد: ۲۸۰۷۶)
۔ سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور اس نے کہا: تم اللہ تعالی کے اس فرمان کے بارے میں کیا کہتے ہو: {لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ} … ایسے لوگوں کے لیے دنیوی زندگی اور آخرت میں خوشخبری ہے۔ انھوں نے کہا: تو نے ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا ہے کہ میں نے اس آدمی کے بعد کسی کو یہ سوال کرتے ہوئے نہیں سنا، جس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: دنیوی زندگی میں ایسے لوگوں کی خوشخبری نیک خواب ہے، جو مسلمان دیکھتا ہے، یا اس کے لیے کسی کو دکھایا جاتا ہے، اور آخرت میں ان کی خوشخبری جنت ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8633

۔ (۸۶۳۳)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَمَّا قَالَ فِرْعَوْنُ: {آمَنْتُ أَ نَّہُ لَا اِلٰہَ إِلَّا الَّذِی آمَنَتْ بِہِ بَنُو إِسْرَائِیلَ} قَالَ: قَالَ لِی جِبْرِیلُ: یَا مُحَمَّدُ! لَوْ رَأَ یْتَنِی وَقَدْ أَ خَذْتُ حَالًا مِنْ حَالِ الْبَحْرِ، فَدَسَّیْتُہُ فِی فِیہِ مَخَافَۃَ أَ نْ تَنَالَہُ الرَّحْمَۃُ۔)) (مسند احمد: ۲۸۲۰)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب فرعون نے کہا: {آمَنْتُ أَ نَّہُ لَا اِلٰہَ إِلَّا الَّذِی آمَنَتْ بِہِ بَنُو إِسْرَائِیلَ} … میں ایمان لایا ہوں کہ وہی معبود برحق ہے، جس پر بنو اسرائیل ایمان لائے ہیں۔ تو جبریل علیہ السلام نے مجھے کہا: اے محمد! کاش آپ مجھے اس وقت دیکھتے جب میں سمندر کی کالی مٹی لے کر فرعون کے منہ میں ٹھونس رہا تھا، اس ڈر سے کہ کہیں (اللہ کی) رحمت اس کو پا نہ لے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8633

۔ (۸۶۳۳م)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ جِبْرِیْلَ کَانَ یَدُسُّ فِیْ فَمِ فِرْعَوْنَ الطِّیْنَ مَخَافَۃَ اَنْ یَقُوْلَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔)) (مسند احمد: ۲۱۴۴)
۔ (دوسری سند)نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جبریل علیہ السلام اس ڈر سے فرعون کے منہ میں مٹی ٹھونس رہے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہہ دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8634

۔ (۸۶۳۴)۔ عَنِ ابْنَ عُمَرَ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ سَرَّہُ أَ نْ یَنْظُرَ إِلٰییَوْمِ الْقِیَامَۃِ، کَأَ نَّہُ رَأْیُ عَیْنٍ فَلْیَقْرَأْ: {إِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ وَإِذَا السَّمَاء ُ انْفَطَرَتْ وَإِذَا السَّمَاء ُ انْشَقَّتْ} وَأَ حْسَبُہُ أَ نَّہُ قَالَ: سُورَۃَ ہُودٍ۔ (مسند احمد: ۴۸۰۶)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو قیامت کے دن کو بالکل آنکھوں کے سامنے دیکھنا چاہتا ہے، وہ ان سورتوں کی تلاوت کرے: سورۂ تکویر، سورۂ انفطار اور سورۂ انشقاق۔ راوی کہتے ہیں: میں گمان ہے کہ سورۂ ہود کا بھی ذکر کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8635

۔ (۸۶۳۵)۔ عَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَرَاَھَا: {اِنَّہُ عَمِلَ غَیْرَ صَالِحٍ} [ھود: ۴۶]۔ (مسند احمد: ۲۷۰۵۳)
۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت اس طرح پڑھی: {اِنَّہُ عَمِلَ غَیْرَ صَالِحٍ}۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8636

۔ (۸۶۳۶)۔ عَنْ أَ بِی ہُرَیْرَۃَ، عَنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی قَوْلِ لُوطٍ:{لَوْ أَ نَّ لِی بِکُمْ قُوَّۃً أَ وْ آوِی إِلٰی رُکْنٍ شَدِیدٍ} [یونس: ۸۰] قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کَانَ یَأْوِی إِلٰی رُکْنٍ شَدِیدٍ إِلٰی رَبِّہِ عَزَّ وَجَلَّ۔)) قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَمَا بُعِثَ بَعْدَہُ نَبِیٌّ إِلَّا فِی ثَرْوَۃٍ مِنْ قَوْمِہِ۔)) (مسند احمد: ۸۹۷۵)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوط علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: {لَوْ أَ نَّ لِی بِکُمْ قُوَّۃً أَوْ آوِی إِلٰی رُکْنٍ شَدِیدٍ}… کاش کہ مجھ میں تمہارا مقابلہ کرنے کی قوت ہوتییا میں کسی زبردست کا آسرا پکڑ پاتا۔ (سورۂ ہود: ۸۰) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ (لوط علیہ السلام ) ایک مضبوط سہارے اپنے رب کی طرف آسرا پکڑتے تھے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کے بعد اللہ تعالی نے جو نبی بھی بھیجا، اس کو اس کی قوم کے انبوہ کثیر میں بھیجا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8636

۔ (۸۶۳۶)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ بِنَحْوِہٖ) وَفِیْہٖ قَالَ: ((قَدْ کَانَ یَأْوِی إِلٰی رُکْنٍ شَدِیدٍ وَلٰکِنَّہُ عَنٰی عَشِیرَتَہُ فَمَا بَعَثَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ بَعْدَہُ نَبِیًّا إِلَّا بَعَثَہُ فِی ذُرْوَۃِ قَوْمِہِ۔)) قَالَ أَبُو عُمَرَ: ((فَمَا بَعَثَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ نَبِیًّا بَعْدُ اِلَّا فِیْ مَنْعَۃٍ مِنْ قَوْمِہٖ۔)) (مسنداحمد: ۱۰۹۰۳)
۔ (دوسری سند) اسی طرح کی حدیث ہے، البتہ اس میں ہے : لوط علیہ السلام مضبوط قلعہ کی جانب جگہ پکڑتے تھے، ان کی مراد رشتہ دار تھے، پس اللہ نے اس کے بعد کسی نبی کو نہیں بھیجا، مگر اس کی قوم کے اعلی نسب سے۔ ابو عمر راوی کے الفاظ یہ ہیں: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پس اللہ تعالی نے ان کے بعد کوئی نبی نہیں بھیجا، مگر اس کو اپنی قوم میں محفوظ کر کے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8637

۔ (۸۶۳۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَ نَّ امْرَأَ ۃً مُغِیبًا أَتَتْ رَجُلًا تَشْتَرِی مِنْہُ شَیْئًا فَقَالَ: ادْخُلِی الدَّوْلَجَ حَتّٰی أُعْطِیَکِ، فَدَخَلَتْ فَقَبَّلَہَا وَغَمَزَہَا فَقَالَتْ: وَیْحَکَ إِنِّی مُغِیبٌ فَتَرَکَہَا وَنَدِمَ عَلٰی مَا کَانَ مِنْہُ، فَأَ تَی عُمَرَ فَأَ خْبَرَہُ بِالَّذِی صَنَعَ، فَقَالَ: وَیْحَکَ فَلَعَلَّہَا مُغِیبٌ، قَالَ: فَإِنَّہَا مُغِیبٌ، قَالَ: فَأْتِ أَبَابَکْرٍ فَاسْأَ لْہُ، فَأَتٰی أَ بَابَکْرٍ فَأَ خْبَرَہُ، فَقَالَ أَ بُو بَکْرٍ: وَیْحَکَ لَعَلَّہَا مُغِیبٌ، قَالَ: فَإِنَّہَا مُغِیبٌ، قَالَ: فَأْتِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَ خْبِرْہُ، فَأَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَ خْبَرَہُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَعَلَّہَا مُغِیبٌ۔)) قَالَ: فَإِنَّہَا مُغِیبٌ، فَسَکَتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَنَزَلَ الْقُرْآنُ: {وَأَقِمْ الصَّلَاۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ} إِلٰی قَوْلِہِ: {لِلذَّاکِرِینَ} قَالَ: فَقَالَ الرَّجُلُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَ ہِیَ فِیَّ خَاصَّۃً أَ وْ فِی النَّاسِ عَامَّۃً؟ قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: لَا، وَلَا نَعْمَۃَ عَیْنٍ لَکَ بَلْ ہِیَ لِلنَّاسِ عَامَّۃً، قَالَ: فَضَحِکَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ: ((صَدَقَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ۔)) (مسند احمد: ۲۴۳۰)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، ایک عورت جس کا خاوند گھر سے باہر تھا، وہ ایک آدمی کے پاس کچھ خریدنے آئی۔ اس نے کہا: اس حجرہ میں اندر چلی جاؤ، تاکہ میں تمہیں تمہاری چیز دے سکوں، جب وہ داخل ہوئی تو اس آدمی نے اس سے بوس و کنار کیا، اس عورت نے کہا: بڑا افسوس ہے، میرا خاوند گھر سے باہر تھا تونے یہ کیا کیا، اس آدمی نے اسے چھوڑ دیا اور نادم ہوا، پھر وہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آیا اور جو کیا تھا انہیں بتا دیا، انہوں نے کہا: لگتا ہے اس عورت کا خاوند گھر پر نہ ہو گا، تب وہ سودا خریدنے آئی ہو گی؟ اس نے کہا: جی ہاں وہ گھر سے باہر تھا۔ انہوں نے کہا؛ تو سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس چلا جا اور ان سے پوچھ لے، پس وہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آیا انہیں ساری بات بتائی، انھوں نے کہا: تو ہلاک ہو جائے، شاید اس کا خاوند گھر پر نہ ہو، اس نے کہا: جی ہاں، اس پر خاوند گھر پر نہیں تھا، پھرسیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جا اور آپ کو ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ تفصیل بتا، پس وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا تو آپ کو واقعہ بتایا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لگتا ہے کہ اس عورت کا خاوند گھر سے باہر تھا؟ اس آدمی نے کہا: جی ہاں، واقعی وہ گھر پر نہ تھا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش ہو گئے اوریہ قرآن مجید نازل ہوا: {وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّـیِّاٰتِ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیْنَ۔} … اور دن کے دونوں کناروں میں نماز قائم کر اور رات کی کچھ گھڑیوں میں بھی، بے شک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔ یہیاد کرنے والوں کے لیےیاد دہانی ہے۔ اس آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول! کیایہ حکم میرے لئے خاص ہے یا لوگوں کے عام ہے؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: نہیں، اس سے صرف تیری ہی آنکھیں ٹھنڈی نہیںہوں گی، بلکہ یہ تمام لوگوں کے لئے خوشبخری ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرا کرفرمایا: عمر نے سچ کہا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8638

۔ (۸۶۳۸)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! إِنِّی أَ خَذْتُ امْرَأَ ۃً فِی الْبُسْتَانِ فَفَعَلْتُ بِہَا کُلَّ شَیْئٍ غَیْرَ أَ نِّی لَمْ أُجَامِعْہَا، قَبَّلْتُہَا وَلَزِمْتُہَا، وَلَمْ أَ فْعَلْ غَیْرَ ذٰلِکَ، فَافْعَلْ بِی مَا شِئْتَ، فَلَمْ یَقُلْ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَیْئًا، فَذَہَبَ الرَّجُلُ فَقَالَ عُمَرُ: لَقَدْ سَتَرَ اللّٰہُ عَلَیْہِ لَوْ سَتَرَ عَلٰی نَفْسِہِ، قَالَ: فَأَ تْبَعَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَصَرَہُ فَقَالَ: ((رُدُّوہُ عَلَیَّ۔)) فَرَدُّوہُ عَلَیْہِ فَقَرَأَ عَلَیْہِ: {وَأَ قِمِ الصَّلَاۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئَاتِ} إِلَی {الذَّاکِرِینَ} فَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: أَ لَہُ وَحْدَہُ أَ مْ لِلنَّاسِ کَافَّۃًیَا نَبِیَّ اللّٰہِ! فَقَالَ: ((بَلْ لِلنَّاسِ کَافَّۃً۔)) (مسند احمد: ۴۲۹۰)
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں نے باغ میں ایک عورت کو پکڑ لیا اور میں نے اس کے ساتھ ہر کام کیا ہے، بس صرف زنا نہیں کیا، میں نے اسے بوسہ دیا اور اس کے ساتھ چمٹا، اس کے علاوہ کچھ نہیں کیا، اب میں حاضر ہوں، آپ جو چاہیں، مجھے سزا دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے کچھ نہ کہا اور وہ چلا بھی گیا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کے بارے میںکہا: اللہ تعالیٰ نے تو اس پر پردہ ڈالا تھا، اگر وہ خود بھی پردہ ڈال لیتا،اُدھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس جانے والے کو پیچھے سے تک رہے تھے اور بالآخر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے واپس بلاؤ۔ پس جب اس کو لوٹایا گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس پر یہ آیت تلاوت کی: {وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّـیِّاٰتِ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیْنَ۔} … اور دن کے دونوں کناروں میں نماز قائم کر اور رات کی کچھ گھڑیوں میں بھی، بے شک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔ یہیاد کرنے والوں کے لیےیاد دہانی ہے۔ سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیایہ اس اکیلے کے لئے ہے یا سب لوگوں کے لئے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سب لوگوں کے لئے ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8638

۔ (۸۶۳۸م)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ نَحْوُہٗ ) وَفِیْہٍ: فَسَکَتَ عَنْہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئَاتِ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذَّاکِرِینَ} قَالَ: فَدَعَاہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَرَأَ ہَا عَلَیْہِ، فَقَالَ عُمَرُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَ لَہُ خَاصَّۃً أَ مْ لِلنَّاسِ کَافَّۃً؟ فَقَالَ: ((بَلْ لِلنَّاسِ کَافَّۃً۔)) (مسند احمد: ۴۲۵۰)
۔ (دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش ہو گئے، پس یہ آیت نازل ہوئی: {وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّـیِّاٰتِ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیْنَ۔} … اور دن کے دونوں کناروں میں نماز قائم کر اور رات کیکچھ گھڑیوں میں بھی، بے شک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔ یہیاد کرنے والوں کے لیےیاد دہانی ہے۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو بلایا اور اس پر اس آیت کیتلاوت کی، سیدنا عمر نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیایہ اس کے لئے خاص ہے یا سب لوگوں کے لئے ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سب لوگوں کے لئے عام ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8639

۔ (۸۶۳۹)۔ عَنْ أَ بِی ہُرَیْرَۃَ، عَنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی قَوْلِہِ لِرَسُولِہِ: {فَاسْأَ لْہُ مَا بَالُ النِّسْوَۃِ اللّٰاتِی قَطَّعْنَ أَ یْدِیَہُنَّ} قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَوْ کُنْتُ أَ نَا لَأَ سْرَعْتُ الْإِجَابَۃَ وَمَا ابْتَغَیْتُ الْعُذْرَ۔)) (مسند احمد: ۹۰۴۸)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالی کے اس فرمان: { فَاسْأَ لْہُ مَا بَالُ النِّسْوَۃِ اللّٰاتِی قَطَّعْنَ أَ یْدِیَہُنَّ} کے بارے میں فرمایا: اگر یوسف علیہ السلام کی جگہ میں ہوتا تو میں پیغام دینے والے کی بات کو بہت جلدی قبول کر لیتا اور میں نے کوئی عذر تلاش نہ کرنا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8640

۔ (۸۶۴۰)۔ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ اَبِیْ قُرَّۃَ قَالَ: سَمِعْتُ مَالِکَ بْنَ اَنَسٍ یَقُوْلُ: {نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّنْ نَّشَائُ} [الأنعام: ۸۳] قَالَ: بِالْعِلْمِ، قُلْتُ: مَنْ حَدَّثَکَ؟ قَالَ: زَعَمَ ذَاکَ زَیْدُ بْنُ اَسْلَمَ۔ (مسند احمد: ۴۴۹)
۔ امام مالک بن انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: {نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّنْ نَّشَائُ} یعنی علم کے ذریعے، میں نے ایک راوی سے کہا: تجھے کس نے یہ حدیث بیان کی ہے؟ اس نے کہا: زید بن اسلم یہ گمان کرتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8641

۔ (۸۶۴۱)۔ عَنْ عَلِیٍّ فِی قَوْلِہِ: {إِنَّمَا أَ نْتَ مُنْذِرٌ وَلِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ} [الرعد: ۷] قَالَ: رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمُنْذِرُ وَالْہَادِ رَجُلٌ مِنْ بَنِی ہَاشِمٍ۔ (مسند احمد: ۱۰۴۱)
۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان تو ڈرانے والا ہے اور ہر ایک قوم کے لئے رہنما ہوتا ہے اس کی تفسیر میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ڈرانے والا اور رہنمائی کرنے والا بنو ہاشم میں سے ایک آدمی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8642

۔ (۸۶۴۲)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَ قْبَلَتْ یَہُودُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوْا: یَا أَ بَا الْقَاسِمِ! إِنَّا نَسْأَ لُکَ عَنْ خَمْسَۃِ أَ شْیَائَ، فَإِنْ أَ نْبَأْتَنَا بِہِنَّ عَرَفْنَا أَ نَّکَ نَبِیٌّ وَاتَّبَعْنَاکَ، فَأَ خَذَ عَلَیْہِمْ مَا أَ خَذَ إِسْرَائِیلُ عَلٰی بَنِیہِ إِذْ قَالُوْا: {اللّٰہُ عَلٰی مَا نَقُولُ وَکِیلٌ} قَالَ: ((ہَاتُوْا۔)) قَالُوْا: أَ خْبِرْنَا عَنْ عَلَامَۃِ النَّبِیِّ، قَالَ: ((تَنَامُ عَیْنَاہُ وَلَا یَنَامُ قَلْبُہُ۔))، قَالُوْا: أَ خْبِرْنَا کَیْفَ تُؤَنِّثُ الْمَرْأَ ۃُ وَکَیْفَ تُذْکِرُ؟ قَالَ: ((یَلْتَقِی الْمَائَ انِِ فَإِذَا عَلَا مَائُ الرَّجُلِ مَائَ الْمَرْأَ ۃِ أَ ذْکَرَتْ، وَإِذَا عَلَا مَائُ الْمَرْأَ ۃِ آنَثَتْ۔))، قَالُوْا: أَ خْبِرْنَا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِیلُ عَلٰی نَفْسِہِ، قَالَ: ((کَانَ یَشْتَکِی عِرْقَ النَّسَا فَلَمْ یَجِدْ شَیْئًا یُلَائِمُہُ إِلَّا أَ لْبَانَ کَذَا وَکَذَا۔)) قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْن أَ حْمَد: قَالَ أَبِی: قَالَ بَعْضُہُمْ: یَعْنِی الْإِبِلَ فَحَرَّمَ لُحُومَہَا، قَالُوْا: صَدَقْتَ، قَالُوْا: أَ خْبِرْنَا مَا ہٰذَا الرَّعْدُ؟ قَالَ: ((مَلَکٌ مِنْ مَلَائِکَۃِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مُوَکَّلٌ بِالسَّحَابِ بِیَدِہِ، أَ وْ فِییَدِہِ مِخْرَاقٌ مِنْ نَارٍ، یَزْجُرُ بِہِ السَّحَابَ، یَسُوقُہُ حَیْثُ أَ مَرَ اللّٰہُ۔)) قَالُوْا: فَمَا ہٰذَا الصَّوْتُ الَّذِییُسْمَعُ؟ قَالَ: ((صَوْتُہُ۔))، قَالُوْا: صَدَقْتَ، إِنَّمَا بَقِیَتْ وَاحِدَۃٌ وَہِیَ الَّتِی نُبَایِعُکَ إِنْ أَ خْبَرْتَنَا بِہَا، فَإِنَّہُ لَیْسَ مِنْ نَبِیٍّ إِلَّا لَہُ مَلَکٌ یَأْتِیہِ بِالْخَبَرِ، فَأَ خْبِرْنَا مَنْ صَاحِبُکَ؟ قَالَ: ((جِبْرِیلُ علیہ السلام ۔)) قَالُوْا: جِبْرِیلُ؟ ذَاکَ الَّذِییَنْزِلُ بِالْحَرْبِ وَالْقِتَالِ وَالْعَذَابِ عَدُوُّنَا۔ لَوْ قُلْتَ: مِیکَائِیلَ الَّذِییَنْزِلُ بِالرَّحْمَۃِ وَالنَّبَاتِ وَالْقَطْرِ لَکَانَ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیلَ} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۴۸۳)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بیان کرتے ہیں کہ یہودی لوگ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے کہا: اے ابوالقاسم! ہم آپ سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال کریں گے، اگر آپ ان کے جوابات دیں گے تو ہم پہچان جائیں گے کہ آپ برحق نبی ہیں اور ہم آپ کی اتباع بھی کریں گے، آپ نے ان سے اس طرح عہد لیا، جس طرح یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے عہد لیا تھا، جب انھوں نے کہا تھا ہم جو بات کر رے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ وکیل ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: و ہ سوال پیش کرو۔ (۱) انہوں نے کہا: ہمیں نبی کی نشانی بتائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نبی کی آنکھیں سوتی ہیں اور اس کا دل نہیں سوتا۔ (۲) انھوں نے کہا: یہ بتائیں کہ نر اورمادہ کیسے پیدا ہوتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مردوزن کا آب جو ہر دونوں ملتے ہیں، جب آدمی کا پانی عورت کے پانی پر غالب آتا ہے، تو نر پیدا ہوتا ہے اور جب عورت کا آب جو ہر غالب آتا ہے تو مادہ پیدا ہوتی ہے۔ (۳) انہوں نے کہا: ہمیں بتائو کہ یعقوب علیہ السلام نے خود پر کیا حرام قرار دیا تھا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انہیں عرق نساء کی بیماری تھی، انہیں صرف اونٹنیوں کا دودھ موافق آیا، تو صحت ہونے پر اونٹوں کا گوشت خود پر حرام قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا: آپ سچ کہتے ہیں، (۴) اچھا یہ بتائیں کہ یہ رعد کیا ہے؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے، جس کے سپرد بادل ہیںیا اس فرشتہ کے ہاتھ میں آگ کا ہنٹرہے، جس کے ساتھ وہ بادلوں کو چلاتا ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا: یہ آواز کیا ہے جو سنی جاتی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اسی ہنٹر کی آواز ہے۔ انہوں نے کہا: آپ نے سچ کہا ہے۔ (۵) انہوں نے کہا: ایک بات رہ گئی ہے، اگر آپ اس کا جواب دیں گے تو ہم آپ کی بیعت کریں گے، وہ یہ ہے کہ ہر نبی کے لئے ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے، جواس کے پاس بھلائییعنی وحی لے کر آتا ہے، آپ بتائیں آپ کا فرشتہ ساتھی کون سا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جبریل علیہ السلام ہیں۔ اب کی بار انھوں نے کہا: جبریل،یہ تو جنگ، لڑائی اور عذاب لے کر آتا ہے، یہ تو ہمارا دشمن ہے، اگر آپ میکائیل کہتے جو کہ رحمت، نباتات اور بارش کے ساتھ نازل ہوتا ہے، تو پھر بات بنتی، اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ آیت نازل کی: {قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہٗنَزَّلَہٗعَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَیَدَیْہِ وَھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ۔} (سورۂ بقرہ: ۹۷) کہہ دے جو کوئی جبریل کا دشمن ہو تو بے شک اس نے یہ کتاب تیرے دل پر اللہ کے حکم سے اتاری ہے، اس کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے ہے اور مومنوں کے لیے سرا سر ہدایت اور خوشخبری ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8643

۔ (۸۶۴۳)۔ عَنْ أَ بِی أُمَامَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی قَوْلِہِ: {وَیُسْقٰی مِنْ مَائٍ صَدِیدٍیَتَجَرَّعُہُ} [ابراہیم: ۱۶۔ ۱۷] قَالَ: ((یُقَرَّبُ إِلَیْہِ فَیَتَکَرَّہُہُ فَإِذَا دَنَا مِنْہُ شُوِیَ وَجْہُہُ، وَوَقَعَتْ فَرْوَۃُ رَأْسِہِ، وَإِذَا شَرِبَہُ قَطَّعَ أَ مْعَائَ ہُ حَتّٰی خَرَجَ مِنْ دُبُرِہِ۔))، یَقُولُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَسُقُوا مَائً حَمِیمًا فَقَطَّعَ أَ مْعَائَ ہُمْ} وَیَقُولُ اللّٰہُ: {وَإِنْ یَسْتَغِیثُوْایُغَاثُوْا بِمَائٍ کَالْمُہْلِ یَشْوِی الْوُجُوہَ بِئْسَ الشَّرَابُ} [الکھف: ۲۹]۔ (مسند احمد: ۲۲۶۴۱)
۔ سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالی کے اس فرمان {وَیُسْقٰی مِنْ مَائٍ صَدِیدٍیَتَجَرَّعُہُ}… اور اسے اس پانی سے پلایا جائے گا جو پیپ ہے۔ وہ اسے بمشکل گھونٹ گھونٹ پئے گا۔ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: جب یہ پانی دوزخی کے قریب کیا جائے گا تو وہ اس کو ناپسند کرے گا،پھر جب وہ منہ قریب کرے گا تو اس کا چہرہ جھلس جائے گا اورا س کے سر کی کھال اس میں گرجائے گی اور جب اس کو پئے گا تو اس کی انتڑیاں کٹ جائیں گی جو کہ اس کے پائخانے کے راستے سے نکل جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {وَسُقُوا مَائً حَمِیمًا فَقَطَّعَ أَ مْعَائَ ہُمْ}… ان کو گرم پانی پلایا جائے گا، جو ان کی انتڑیوں کو کاٹ کے رکھ دے گا۔ مزید فرمایا: {وَإِنْ یَسْتَغِیثُوْایُغَاثُوْا بِمَائٍ کَالْمُہْلِیَشْوِی الْوُجُوہَ بِئْسَ الشَّرَابُ}… اور اگر وہ پانی مانگیں گے تو انھیں پگھلے ہوئے تانبے جیسا پانی دیا جائے گا، جو چہروں کو بھون ڈالے گا، برا مشروب ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8644

۔ (۸۶۴۴)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی قَوْلِہِ: {کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ} [ابراہیم: ۲۴] قَالَ: ((ہِیَ الَّتِی لَا تَنْفُضُ وَرَقُہَا وَظَنَنْتُ أَنَّہَا النَّخْلَۃُ۔)) (مسند احمد: ۵۶۴۷)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آیت {کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ}کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: یہ وہ درخت ہے، جس کے پتے نہیں جھڑتے، اور میرا خیال تھا کہ یہ کھجور کا درخت ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8645

۔ (۸۶۴۵)۔ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ، عَنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ذَکَرَ عَذَابَ الْقَبْرِ قَالَ: ((یُقَالُ لَہُ: مَنْ رَبُّکََ؟ فَیَقُولُ: اللّٰہُ رَبِّی وَنَبِیِّی مُحَمَّدٌ، فَذٰلِکَ قَوْلُہُ: {یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِینَ آمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا}۔)) [ابراہیم: ۲۷] یَعْنِی بِذٰلِکَ الْمُسْلِمَ، زَادَ فِیْ رِوَیَۃٍ: وَفِی الْآخِرَۃِ۔ (مسند احمد: ۱۸۷۷۶)
۔ سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عذاب قبر کا ذکر کیا اور فرمایا: قبر میں بندے سے کہا جاتا ہے کہ تیرا ربّ کون ہے؟ وہ کہتا ہے: اللہ تعالیٰ میرا ربّ ہے اور میرے نبی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں،یہ درست جواب اللہ تعالی کے اس فرمان کا مصداق ہے: {یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِینَ آمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِیْ الْآخِرَۃِ} … اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے، پختہ بات کے ساتھ خوب قائم رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی۔ یعنی اس سے مراد مسلمان ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8646

۔ (۸۶۴۶)۔ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: قَالَتْ عَائِشَۃُ: أَ نَا أَ وَّلُ النَّاسِ سَأَ لَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ ہٰذِہِ الْآیَۃِ: {یَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَ رْضُ غَیْرَ الْأَ رْضِ وَالسَّمٰوَاتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ} قَالَتْ: فَقُلْتُ: أَ یْنَ النَّاسُ یَوْمَئِذٍیَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((عَلَی الصِّرَاطِ۔)) (مسند احمد: ۲۴۵۷۰)
۔ مسروق سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: میں نے لوگوں میں سب سے پہلے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس آیت کے بارے میںدریافت کیا: {یَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَ رْضُ غَیْرَ الْأَ رْضِ وَالسَّمٰوَاتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ}… جس دن زمین تبدیل کر دی جائے گی اور آسمان بھی اور لوگ اللہ کے سامنے ظاہر ہو جائیں گے، جو یکتا و یگانہ اور زبردست ہے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس وقت لوگ کہاں ہوں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پل صراط پر۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8647

۔ (۸۶۴۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: کَانَتِ امْرَأَۃٌ حَسْنَائُ تُصَلِّی خَلْفَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: فَکَانَ بَعْضُ الْقَوْمِ یَسْتَقْدِمُ فِی الصَّفِّ الْأَ وَّلِ لِئَلَّا یَرَاہَا، وَیَسْتَأْخِرُ بَعْضُہُمْ حَتّٰییَکُونَ فِی الصَّفِّ الْمُؤَخَّرِ، فَإِذَا رَکَعَ نَظَرَ مِنْ تَحْتِ إِبْطَیْہِ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِی شَأْنِہَا: {وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِینَ مِنْکُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِینَ} [الحجر: ۲۴]۔ (مسند احمد: ۲۷۸۳)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ ایک حسین عورت، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھا کرتی تھی، کچھ لوگ اس نظریے سے اگلی صف میں کھڑے ہوتے تھے تاکہ وہ اس کو دیکھ نہ سکیں اور کچھ لوگ آخری صف میں اس نیت سے کھڑے ہوتے تھے کہ جب وہ رکوع کریں گے تو بغلوں کے نیچے سے اسے دیکھیں گے، پس اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل کیا: {وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِینَ مِنْکُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِینَ} … ہم تم میں سے آگے والوں کو بھی جانتے ہیں اور پیچھے والوں کو بھی جانتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8648

۔ (۸۶۴۸)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ فِیْ اُمِّ الْقُرْآنِ: ((ھِیَ اُمُّ الْقُرْآنِ، وَھِیَ السَّبْعُ الْمَثَانِیْ، وَھِیَ الْقُرْآنُ الْعَظِیْمُ۔)) (مسند احمد: ۹۷۸۷)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ام القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) کے بارے میں فرمایا: یہی وہ سات آیات ہیں جو بار بار دہرائی جاتی ہیں اور اسی سورت کو قرآن عظیم کہتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8649

۔ (۸۶۴۹)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فِی التَّوْرَاۃِ وَلَا فِی الْاِنْجِیِْلِ مِثْلَ اُمِّ الْقُرْآنِ، وَھِی السَّبْعُ الْمَثَانِیْ، وَھِیَ مَقْسُوْمَۃٌ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ، وَلِعَبْدِیْ مَا سَاَلَ۔)) (مسند احمد: ۲۱۴۱۰)
۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی نے سورۂ فاتحہ جیسی سورت نہ تورات میںنازل کی اور نہ انجیل میں،یہی بار بار پڑھی جانے والی سات آیات ہیں اور یہ سورت میں (اللہ) اور میرے بندے کے درمیان تقسیم کی گئی ہے اور میرے بندے کے لیے وہی کچھ ہے، جو اس نے سوال کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8650

۔ (۸۶۵۰)۔ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ قَالَ: بَیْنَمَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِفِنَائِ بَیْتِہِ بِمَکَّۃَ جَالِسٌ، إِذْ مَرَّ بِہِ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ فَکَشَرَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَ لَا تَجْلِسُ؟)) قَالَ: بَلٰی، قَالَ: فَجَلَسَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُسْتَقْبِلَہُ فَبَیْنَمَا ہُوَ یُحَدِّثُہُ، إِذْ شَخَصَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِبَصَرِہِ إِلَی السَّمَائِ، فَنَظَرَ سَاعَۃً إِلَی السَّمَائِ، فَأَ خَذَ یَضَعُ بَصَرَہُ حَتّٰی وَضَعَہُ عَلٰییَمِینِہِ فِی الْأَ رْضِ، فَتَحَرَّفَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ جَلِیسِہِ عُثْمَانَ إِلَی حَیْثُ وَضَعَ بَصَرَہُ، وَأَ خَذَ یُنْغِضُ رَأْسَہُ کَأَ نَّہُ یَسْتَفْقِہُ مَا یُقَالُ لَہُ وَابْنُ مَظْعُونٍ یَنْظُرُ، فَلَمَّا قَضٰی حَاجَتَہُ وَاسْتَفْقَہَ مَا یُقَالُ لَہُ، شَخَصَ بَصَرُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی السَّمَائِ کَمَا شَخَصَ أَ وَّلَ مَرَّۃٍ، فَأَ تْبَعَہُ بَصَرَہُ حَتّٰی تَوَارٰی فِی السَّمَائِ، فَأَ قْبَلَ إِلٰی عُثْمَانَ بِجِلْسَتِہِ الْأُولٰی، قَالَ: یَا مُحَمَّدُ! فِیمَ کُنْتُ أُجَالِسُکَ وَآتِیکَ مَا رَأَ یْتُکَ تَفْعَلُ کَفِعْلِکَ الْغَدَاۃَ؟ قَالَ: ((وَمَا رَأَ یْتَنِی فَعَلْتُ؟)) قَالَ: رَأَ یْتُکَ تَشْخَصُ بِبَصَرِکَ إِلَی السَّمَائِ، ثُمَّ وَضَعْتَہُ حَیْثُ وَضَعْتَہُ عَلَییَمِینِکَ، فَتَحَرَّفْتَ إِلَیْہِ وَتَرَکْتَنِی فَأَخَذْتَ تُنْغِضُ رَأْسَکَ کَأَ نَّکَ تَسْتَفْقِہُ شَیْئًایُقَالُ لَکَ۔ قَالَ: ((وَفَطِنْتَ لِذَاکَ؟)) قَالَ عُثْمَانُ: نَعَمْ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَ تَانِی رَسُولُ اللّٰہِ آنِفًا، وَأَ نْتَ جَالِسٌ۔)) قَالَ: رَسُولُ اللّٰہِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا قَالَ لَکَ؟ قَالَ: {إِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیتَائِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِیَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ} [النحل: ۹۰] قَالَ عُثْمَانُ: فَذٰلِکَ حِینَ اسْتَقَرَّ الْإِیمَانُ فِی قَلْبِی وَأَ حْبَبْتُ مُحَمَّدًا۔ (مسند احمد: ۲۹۱۹)
۔ سیدنا عبدا للہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ میں اپنے گھر کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے عثمان بن مظعون کا گزر ہوا اور وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھ کر مذاق سے ہنسے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عثمان! کیا تم ہمارے پاس بیٹھ نہیں جاتے؟ اس نے کہا : جی کیوں نہیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے سامنے بیٹھ گئے اور اس سے باتیں کر نے لگے، اچانک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھائی اور کچھ دیر آسمان کی طرف دیکھا، پھر نظر نیچے کی اور دائیں جانب زمین پر دیکھا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے ساتھی عثمان کی طرف سے منحرف ہوگئے اور سرجھکائے انداز پر بیٹھ گئے، گویا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی سے کوئی بات سمجھ رہے ہوں۔ ابن مظعون یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا کام پورا کر لیا اور جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا گیا تھا وہ سمجھ لیا، تو پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی نگاہ آسمان کی جانب اٹھائی، جس طرح پہلی مرتبہ اٹھائی تھی، اپنی نظر کو اس چیز کے پیچھے لگایا حتیٰ کہ وہ چھپ گئی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عثمان کی جانب پہلے کی مانند متوجہ ہوئے، انہوں نے کہا: اے محمد! جب بھی میں آپ کے ساتھ بیٹھتا ہوں یا آتا جاتا ہوں، تو جس طرح آپ نے صبح کیا تھا، اس طرح آپ نے کبھی نہیں کیا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے مجھے کیا کرتے دیکھا ہے؟ اس نے کہا: میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی ہے، پھرآپ نے دائیں جانب جھکائی ہے، پھر آپ نے مجھ سے اعراض کر لیا اورمجھے چھوڑ دیا اور اس طرح سر جھکا لیا تھا، جس طرح آپ کوئی چیز سمجھ رہے ہیں،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم نے یہ حالت دیکھی ہے؟ عثمان نے کہا:جی میں نے دیکھی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابھی تمہارے بیٹھے بیٹھے اللہ تعالی کا قاصد آیا تھا۔ عثمان نے کہا: اللہ کا قاصد؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں۔ انھوں نے کہا: تو پھر اس نے کیا کہا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس نے کہا: {إِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیتَائِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِیَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ} … بے شک اللہ تعالیٰ عدل و احسان اور قرابتداروں کو دینے کا حکم دیتے ہے، اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے، وہ تم کو نصیحت کرتا ہے تاکہ تم عبرت پکڑو۔ سیدنا عثمان بن مطعون کہتے ہیں؛ اس وقت سے ایمان نے میرے دل میں جگہ پکڑ لی تھی اور میں محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے محبت کرنے لگا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8651

۔ (۸۶۵۱)۔ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَ بِی الْعَاصِ قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَالِسًا إِذْ شَخَصَ بِبَصَرِہِ ثُمَّ صَوَّبَہُ حَتّٰی کَادَ أَ نْ یُلْزِقَہُ بِالْأَ رْضِ، قَالَ: ثُمَّ شَخَصَ بِبَصَرِہِ، فَقَالَ: ((أَ تَانِی جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ، فَأَ مَرَنِی أَ نْ أَ ضَعَ ہٰذِہِ الْآیَۃَ بِہٰذَا الْمَوْضِعِ مِنْ ہٰذِہِ السُّورَۃِ {إِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیتَائِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِیَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ} [النحل: ۹۰]۔ (مسند احمد: ۱۸۰۸۱)
۔ سیدنا عثمان بن ابی عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، اچانک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نگاہ اٹھائی اور پھر نیچے جھکائی، اور قریب تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زمین کے ساتھ لگا دیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نگاہ اٹھائی اور فرمایا: جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے ہیں اور انھوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یہ آیت فلاں سورت کے فلاں مقام پر رکھوں: {إِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیتَائِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِیَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ} … بے شک اللہ تعالیٰ عدل و احسان اور قرابتداروں کو دینے کا حکم دیتا ہے، اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے، وہ تم کو نصیحت کرتا ہے تاکہ تم عبرت پکڑو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8652

۔ (۸۶۵۲)۔ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ أُحُدٍ قُتِلَ مِنْ الْأَ نْصَارِ أَ رْبَعَۃٌ وَسِتُّونَ رَجُلًا، وَمِنْ الْمُہَاجِرِینَ سِتَّۃٌ، فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : لَئِنْ کَانَ لَنَا یَوْمٌ مِثْلُ ہٰذَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ لَنُرْبِیَنَّ عَلَیْہِمْ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ الْفَتْحِ، قَالَ رَجُلٌ لَا یُعْرَفُ: لَا قُرَیْشَ بَعْدَ الْیَوْمِ، فَنَادٰی مُنَادِی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : أَ مِنَ الْأَ سْوَدُ وَالْأَ بْیَضُ إِلَّا فُلَانًا وَفُلَانًا، نَاسًا سَمَّاہُمْ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: {وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَیْرٌ لِلصَّابِرِینَ} [النحل: ۱۲۶] فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((نَصْبِرُوَلَا نُعَاقِبُ۔)) (مسند احمد: ۲۱۵۴۹)
۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے احد کے دن انصار میں سے چونسٹھ اور مہاجرین میں سے چھ آدمی شہید ہو گئے، صحابہ کرام میں سے بعض افراد نے کہا: اب اگر ہمیں کسی دن موقع ملا تو ہم کئی گنا بڑھ کر زیادتی کریں گے، پھر جب مکہ فتح ہوا تو اس دن ایک آدمی نے کہا: آج کے بعد قریش کا نام نہ رہے گا۔ لیکن اُدھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منادی نے یہ آواز دی: سیاہ فام ہو، سفید فام ہو،ہر ایک کو امن مل گیا ہے، ما سوائے فلاں فلاں کے، چند لوگوں کے نام لیے۔ پھر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کر دی: {وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَیْرٌ لِلصَّابِرِینَ} … اگر تم بدلہ لو تو جس طرح تمہیں سزا دی گئی ہے، اتنی ہی سزا دواور اگر تم صبر کرو گے تو یہ صبرکرنے والوں کے لئے بہتر ہو گا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم صبرکریں گے اور سزا نہیں دیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8653

۔ (۸۶۵۳)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: سَأَ لَ أَ ہْلُ مَکَّۃَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَ نْ یَجْعَلَ لَہُمْ الصَّفَا ذَہَبًا، وَأَ نْ یُنَحِّیَ الْجِبَالَ عَنْہُمْ فَیَزْدَرِعُوْا، فَقِیلَ لَہُ: إِنْ شِئْتَ أَ نْ تَسْتَأْنِیَ بِہِمْ، وَإِنْ شِئْتَ أَنْ تُؤْتِیَہُمْ الَّذِی سَأَ لُوْا، فَإِنْ کَفَرُوْا أُہْلِکُوْا کَمَا أَ ہْلَکْتُ مَنْ قَبْلَہُمْ، قَالَ: ((لَا بَلْ أَسْتَأْنِی بِہِمْ۔))، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ہٰذِہِ الْآیَۃَ: {وَمَا مَنَعَنَا أَ نْ نُرْسِلَ بِالْآیَاتِ إِلَّا أَ نْ کَذَّبَ بِہَا الْأَ وَّلُونَ وَآتَیْنَا ثَمُودَ النَّاقَۃَ مُبْصِرَۃً} [الاسرائ: ۵۹]۔ (مسند احمد: ۲۳۳۳)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ اہل مکہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مطالبہ کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے لیے صفا پہاڑی کو سونے کی بنا دیں اور پہاڑوں کو ان سے دور کر دیں، تا کہ (جگہ ہموار ہو جائے اور) وہ کھیتی باڑ ی کر سکیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا گیا: اگر آپ چاہتے ہیں تو ان کو مہلت دے دیں اورچاہتے ہیں تو ان کے لیے ان کا مطالبہ پورا کر دیں، لیکن اگر مطالبہ پورا ہو جانے کے بعد بھی انہوں نے کفر کیا تو میں انہیں اس طرح ہلاک کر دوں گا، جس طرح ان سے پہلے والے لوگوں کو ہلاک کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، میں انہیں مہلت دیتا ہوں۔ پس اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: {وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلَّآ اَنْ کَذَّبَ بِہَا الْاَوَّلُوْنَ وَاٰتَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَۃَ مُبْصِرَۃً فَظَلَمُوْا بِہَا وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا۔} … اور ہمیں کسی چیز نے نہیں روکا کہ ہم نشانیاں دے کر بھیجیں مگر اس بات نے کہ پہلے لوگوں نے انھیں جھٹلادیا اور ہم نے ثمود کو اونٹنی واضح نشانی کے طور پر دی تو انھوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم نشانیاں دے کر نہیں بھیجتے مگر ڈرانے کے لیے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8654

۔ (۸۶۵۴)۔ عَنْ عِکْرَمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِیْ قَوْلِہٖعَزَّوَجَلَّ: {وَمَاجَعَلَنَاالرُّؤْیَا الَّتِیْ اَرَیْنَاکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِلنَّاسِ} [الاسرائ: ۶۰] قَالَ: ھِیَ رُؤْیَا عَیْنٍ رَاٰھَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیْلَۃَ اُسْرِیَ بِہٖ۔ (مسنداحمد: ۱۹۱۶)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ اس آیت {وَمَا جَعَلَنَا الرُّؤْیَا الَّتِیْ اَرَیْنَاکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِلنَّاسِ} … اور ہم نے وہ منظر جو تجھے دکھایا، نہیں بنایا مگر لوگوں کے لیے آزمائش۔ کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس منظر سے مراد آنکھ کا دیکھنا ہے، جو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے معراج کی رات کو دیکھا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8654

۔ (۸۶۵۴م)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَقُوْلُ: {وَمَا جَعَلَنَا الرُّؤْیَا الَّتِیْ اَرَیْنَاکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِلنَّاسِ} شَیْئٌ اُرِیَہُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْیَقْظَۃِ رَآہٗبِعَیْنِہٖ حِیْنَ ذَھَبَ بِہٖاِلٰی بَیْتِ الْمَقْدَسِ۔ (مسند احمد: ۳۵۰۰)
۔ (دوسری سند) سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے، وہ اس آیت {وَمَا جَعَلَنَا الرُّؤْیَا الَّتِیْ اَرَیْنَاکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِلنَّاسِ} … اور ہم نے وہ منظر جو تجھے دکھایا، نہیں بنایا مگر لوگوں کے لیے آزمائش۔ کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں: کہ اس سے مراد وہ چیز ہے، جو حالت بیداری میں تھی جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی آنکھ کے ساتھ دیکھی جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بیت المقدس کی جانب لے جایا گیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8655

۔ (۸۶۵۵)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ قَوْلِہٖعَزَّوَجَلَّ: {وَقُرْآنَالْفَجْرِاِنَّقُرْآنَالْفَجْرِکَانَمَشْہُوْدًا} [الاسرائ: ۷۸] قَالَ: ((تَشْہَدُہُ مَلَائِکَۃُ اللَّیْلِ وَمَلَائِکَۃُ النَّہَارِ۔)) (مسند احمد: ۱۰۱۳۷)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَقُرْآنَ الْفَجْرِ اِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُوْدًا} … اور فجر کا قرآن (پڑھ)، بے شک فجر کا قرآن ہمیشہ سے حاضر ہونے کا وقت رہا ہے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رات اور دن کے فرشتے اس نماز میں حاضر ہوتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8656

۔ (۸۶۵۶)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ قَوْلِہٖعَزَّوَجَلَّ: {عَسٰی اَنْ یَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَحْمُوْدًا} [الاسرائ: ۷۹] قَالَ: ((ھُوَ الْمَقَامُ الَّذِیْ اَشْفَعُ لِاُمَّتِیْ فِیْہٖ۔)) (مسند احمد: ۹۶۸۲)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالی کے اس فرمان {عَسٰی اَنْ یَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَحْمُوْدًا} … (قریب ہے کہ تیر ارب تجھے مقام محمود پر کھڑا کرے۔) کے بارے میں فرمایا: یہ وہ مقام ہے، جہاں میں اپنی امت کے لیے سفارش کروں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8657

۔ (۸۶۵۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِمَکَّۃَ ثُمَّ اُمِرَ بِالْہِجْرَۃِ وَاَنْزَلَ عَلَیْہِ: {وَقُلْ رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّیْ مِن لَّدُنْکَ سُلْطَانًا نَصِیْرًا} [الاسرائ: ۸۰]۔ (مسند احمد: ۱۹۴۸)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ میں تھے، پھر آپ کو ہجرت کا حکم ہوا اور اللہ تعالی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر یہ حکم نازل فرمایا: {وَقُلْ رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّیْ مِن لَّدُنْکَ سُلْطَانًا نَصِیْرًا}… اور کہہ اے میرے رب! داخل کر مجھے سچا داخل کرنا اور نکال مجھے سچا نکالنا اور میرے لیے اپنی طرف سے ایسا غلبہ بنا جو مددگار ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8658

۔ (۸۶۵۸)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَتْ قُرَیْشٌ لِلْیَہُودِ: أَ عْطُونَا شَیْئًا نَسْأَ لُ عَنْہُ ہٰذَا الرَّجُلَ، فَقَالُوْا: سَلُوہُ عَنِ الرُّوحِ، فَسَأَ لُوہُ فَنَزَلَتْ: {وَیَسْأَ لُونَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَ مْرِ رَبِّی وَمَا أُوتِیتُمْ مِنْ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا} [الاسرائ: ۸۵] قَالُوْا: أُوتِینَا عِلْمًا کَثِیرًا، أُوتِینَا التَّوْرَاۃَ، وَمَنْ أُوتِیَ التَّوْرَاۃَ، فَقَدْ أُوتِیَ خَیْرًا کَثِیرًا، قَالَ: فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {قُلْ لَوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِکَلِمَاتِ رَبِّی لَنَفِدَ الْبَحْرُ} [الکھف: ۱۰۹]۔ (مسند احمد: ۲۳۰۹)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ قریش نے یہودیوں سے کہا: ہمیں کوئی ایسی بات بتائو، جس کے بارے میں ہم اس آدمی (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم )سے سوال کریں (اور اس کو لا جواب کر دیں)، انہوں نے کہا: اس سے روح کے بارے میں سوال کرو، پس جب انہوں نے سوال کیا تو یہ آیت نازل ہوئی: {وَیَسْأَ لُونَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَ مْرِ رَبِّی وَمَا أُوتِیتُمْ مِنْ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا} … یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، کہہ دو کہ روح میرے رب کا حکم ہے، تمہیں صرف تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: ہمیں تو بہت زیادہ علم دیا گیا ہے، ہمیں تورات دی گئی اور جس کو تورات دے دی جائے، اس کو بہت زیادہ بھلائی دے دی جاتی ہے، ان کی اس بات کے جواب میں اللہ تعالی نے یہ آیت اتار دی: {قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖمَدَدًا} … کہہدےاگرسمندرمیرے رب کی باتوں کے لیے سیاہی بن جائے تو یقینا سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں، اگرچہ ہم اس کے برابر اور سیاہی لے آئیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8659

۔ (۸۶۵۹)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: کُنْتُ أَ مْشِی مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی حَرْثٍ بِالْمَدِینَۃِ، وَہُوَ مُتَّکِئٌ عَلَی عَسِیبٍ، قَالَ: فَمَرَّ بِقَوْمٍ مِنْ الْیَہُودِ فَقَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ: سَلُوہُ عَنْ الرُّوحِ، قَالَ بَعْضُہُمْ: لَا تَسْأَ لُوہُ،فَسَأَ لُوْہُ عَنْ الرُّوحِ، فَقَالُوْا: یَا مُحَمَّدُ! مَا الرُّوحُ؟ فَقَامَ فَتَوَکَّأَ عَلَی الْعَسِیبِ، قَالَ: فَظَنَنْتُ أَنَّہُ یُوحٰی إِلَیْہِ فَقَالَ: (({وَیَسْأَ لُونَکَ عَنْ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَ مْرِ رَبِّی وَمَا أُوتِیتُمْ مِنْ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا} [الاسرائ: ۸۵]۔)) قَالَ: فَقَالَ بَعْضُہُمْ: قَدْ قُلْنَا لَکُمْ: لَا تَسْأَ لُوہُ۔ (مسند احمد: ۳۶۸۸)
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مدینہ کے ایک کھیت میں چل رہا تھا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک ٹہنی پر ٹیک لگارہے تھے،اتنے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا گزر یہودیوں کی ایک جماعت کے پاس سے ہوا، انھوں نے ایک دوسرے سے کہا: اس سے روح کے بارے میں سوال کرو، بعض نے کہا کہ اس سے کوئی بات مت پوچھو، لیکن پھر انہوں نے پوچھ لیا اورکہا: اے محمد! روح کیا چیز ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ٹہنی پر ٹیک لگا کرکھڑے ہو گئے، میں نے خیالکیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی نازل ہو رہی ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت پڑھی: {وَیَسْأَ لُونَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَ مْرِ رَبِّی وَمَا أُوتِیتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا} … یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، کہہ دو کہ روح میرے رب کا حکم ہے، تمہیں صرف تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔ پھر ان میں سے بعض افراد دوسروں سے کہنے لگے: ہم نے تم کو کہا تو تھا کہ ان سے سوال نہ کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8660

۔ (۸۶۶۰)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ سَلَمَۃَیُحَدِّثُ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، قَالَ یَزِیدُ الْمُرَادِیِّ: قَالَ: قَالَ یَہُودِیٌّ لِصَاحِبِہِ: اذْہَبْ بِنَا إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَقَالَ یَزِیدُ: إِلٰی ہٰذَا النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی نَسْأَ لَہُ عَنْ ہٰذِہِ الْآیَۃِ: {وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسٰی تِسْعَ آیَاتٍ} [الاسرائ: ۱۰۱]فَقَالَ: لَا تَقُلْ لَہُ نَبِیٌّ فَإِنَّہُ إِنْ سَمِعَکَ لَصَارَتْ لَہُ أَ رْبَعَۃُ أَعْیُنٍ فَسَأَ لَاہُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ شَیْئًا، وَلَا تَسْرِقُوْا، وَلَا تَزْنُوْا، وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَلَا تَسْحَرُوْا، وَلَا تَأْکُلُوا الرِّبَا، وَلَا تَمْشُوْا بِبَرِیئٍ إِلٰی ذِی سُلْطَانٍ لِیَقْتُلَہُ، وَلَا تَقْذِفُوْا مُحْصَنَۃً، أَ وْ قَالَ: تَفِرُّوْا مِنْ الزَّحْفِ۔))، شُعْبَۃُ الشَّاکُّ، ((وَأَ نْتُمْ یَایَہُودُ! عَلَیْکُمْ خَاصَّۃً أَ نْ لَا تَعْتَدُوْا، قَالَ یَزِیدُ: تَعْدُوْا فِی السَّبْتِ۔)) فَقَبَّلَا یَدَہُ وَرِجْلَہُ، قَالَ یَزِیدُ: یَدَیْہِ وَرِجْلَیْہِ، وَقَالَا: نَشْہَدُ أَ نَّکَ نَبِیٌّ، قَالَ: ((فَمَا یَمْنَعُکُمَا أَ نْ تَتَّبِعَانِی؟)) قَالَا: إِنَّ دَاوُدَ عَلَیْہِ السَّلَامُ دَعَا أَ نْ لَا یَزَالَ مِنْ ذُرِّیَّتِہِ نَبِیٌّ وَإِنَّا نَخْشٰی، قَالَ یَزِیدُ: إِنْ أَ سْلَمْنَا أَ نْ تَقْتُلَنَا یَہُودُ۔ (مسند احمد: ۱۸۲۶۲)
۔ سیدنا صفوان بن عسال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایکیہودی نے اپنے ساتھی سے کہا: آئو ہم اس نبی کے پاس چلیں اور اس سے اس آیت کے بارے میں پوچھیں {وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسٰی تِسْعَ آیَاتٍ} … (اور البتہ تحقیق ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو نو (۹) نشانیاں دیں تھیں)۔ دوسرے یہودی نے کہا: اسے نبی مت کہہ، اگر اس نے یہ سن لیا تو اس کو چار آنکھیں لگ جائیں گی، (یعنی وہ بہت خوش ہوگا کہ یہودی بھی اس کو نبی کہتے ہیں)۔ پس وہ آئے اور سوال کیا اورنبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جواب دیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرو، چوری نہ کرو، زنا نہ کرو، جس جان کو قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، اسے قتل نہ کرو، مگر حق کے ساتھ، جادو نہ کرو، سود نہ کھائو، بری اور بے گناہ آدمی کو بادشاہ کے پاس اس لئے نہ لے جائو کہ اسے قتل کر وا دو، پاکدامن عورت پر تہمت نہ لگائو، یا فرمایا جنگ کے دن میدان سے نہ بھاگو، اوراے یہودیو! تم خصوصاً خیال رکھنا کہ ہفتہ کے دن حد سے نہ بڑھو۔ ان یہودیوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ پائوں چوما اور کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ واقعی آپ نبی ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر میری پیروی کرنے میں کون سی چیز مانع اور رکاوٹ ہے؟ انہوں نے کہا: دائود علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ ان کی نسل سے ہمیشہ نبی آتا رہے، اس لیے اگر ہم نے اسلام قبول کر لیا تو ہمیں ڈر ہے کہ یہودی ہمیں قتل کر دیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8661

۔ (۸۶۶۱)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُتَوَارٍ بِمَکَّۃَ {وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا} قَالَ: وَکَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا صَلّٰی بِأَصْحَابِہِ رَفَعَ صَوْتَہُ بِالْقُرْآنِ، فَلَمَّا سَمِعَ ذٰلِکَ الْمُشْرِکُونَ سَبُّوْا الْقُرْآنَ، وَسَبُّوا مَنْ أَنْزَلَہُ، وَمَنْ جَائَ بِہِ، قَالَ: فَقَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِنَبِیِّہِ: {وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ} أَ یْ بِقِرَائَ تِکَ فَیَسْمَعَ الْمُشْرِکُونَ فَیَسُبُّوا الْقُرْآنَ {وَلَا تُخَافِتْ بِہَا} عَنْ أَصْحَابِکَ، فَلَا تُسْمِعُہُمْ الْقُرْآنَ حَتّٰییَأْخُذُوہُ عَنْکَ {وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیلًا} [الاسرائ: ۱۱۰]۔ (مسند احمد: ۱۸۵۳)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت اتری: {وَلَا تَجْـہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا}… اور اپنی نماز نہ بلند آواز سے پڑھ اور نہ اسے پست کر اور اس کے درمیان کوئی راستہ اختیار کر۔ تو اس وقت نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ میں چھپ کر رہتے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے صحابہ کو نماز پڑھاتے تو بآواز بلند قرآن مجید کی تلاوت کرتے۔ جب مشرک قرآن سنتے تو وہ قرآن مجید کو، اس کو نازل کرنے والے اور اس کو لانے والے فرشتے کو برا بھلا کہتے، پس اللہ تعالی نے اپنے نبی سے فرمایا: {وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ} یعنی اپنی قراء ت کو اتنا بلند نہ کرو کہ مشرک سن لیں اور پھر وہ قرآن کو گالی دیں، {وَلَا تُخَافِتْ بِہَا} اور اس کو اپنے صحابہ سے پست نہ کرو کہ وہ بھی نہ سنیں، تاکہ وہ سن کر اس کو سیکھ سکیں، {وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیلًا}اور اس کے درمیان کوئی راستہ اختیار کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8662

۔ (۸۶۶۲)۔ عَنْ سَہْلٍ عَنْ اَبِیْہِ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہٗقَالَ: آیَۃُ الْعِزِّ: {اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗشَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ…} اَلْاٰیَۃَ کُلَّھَا [الاسرائ: ۱۱۱]۔ (مسند احمد: ۱۵۷۱۹)
۔ سیدنا معاذ بن انس جہنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عزت والی آیتیہ ہے: {وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّہ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْرًا۔}(سورۂ اسرائ: ۱۱۱) اور کہہ دے سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے نہ کوئی اولاد بنائی ہے اور نہ بادشاہی میں اس کا کوئی شریک ہے اور نہ عاجز ہوجانے کی وجہ سے کوئی اس کا مدد گار ہے اور اس کی بڑائی بیان کر، خوب بڑائی بیان کرنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8663

۔ (۸۶۶۳)۔ عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ اَبِیْہٖ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہٗقَالَ: ((مَنْقَرَاَاَوَّلَسُوْرَۃِ الْکَہْفِ وَآخِرَھَا کَانَتْ لَہٗنُوْرًامِنْ قَدَمِہٖ اِلٰی رَاْسِہٖ،وَمَنْقَرَاَھَاکُلَّہَاکَانَتْلَہٗنُوْرًامَابَیْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ۔)) (مسند احمد: ۱۵۷۱۱)
۔ سیدنا معاذ بن انس جہنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے سورۂ کہف کی ابتدائییا آخری آیات کی تلاوت کی تو اس کے قدم سے سر تک نور ہوگا، اور جس نے اس ساری سورت کی تلاوت کی، اس کے لیے زمین سے آسمان تک نور ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8664

۔ (۸۶۶۴)۔ عَنْ اَبِی الدَّرْدَائِ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ حَفِظَ عَشْرَآیَاتٍ مِنْ اَوَّلِ سُوْرَۃِ الْکَہْفِ عُصِمَ مِنَ الدَّجَّالِ۔))(مسند احمد: ۲۸۰۹۰)
۔ سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے سورۂ کہف کی ابتدائی دس آیاتیاد کر لیں، وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8665

۔ (۸۶۶۵)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہٗقَالَ: ((مَنْقَرَاَالْعَشْرَالْاَوَاخِرَمِنْسُوْرَۃِ الْکَہْفِ عُصِمَ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ۔)) (مسند احمد: ۲۸۰۶۶)
۔ سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے سورۂ کہف کی آخری آیات پڑھیں، وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8666

۔ (۸۶۶۶)۔ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَلَا وَاِنَّ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ ھُنَّ الْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ۔)) (مسند احمد: ۱۸۵۴۳)
۔ سیدنا نعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! یہ چار کلمات باقی رہنے والی نیکیاں ہیں: سُبْحَانَ اللّٰہِ،اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اور اللّٰہُ اَکْبَرُ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8667

۔ (۸۶۶۷)۔ حَدَّثَنِیْ اَبُوْ عُثْمَانَ، عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بُکَیْرٍ النَّاقِدُ ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنْ عَمْروٍ یَعْنِیْ ابْنَ دِیْنَارٍ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ: قُلْتُ لِاِبْنِ عَبَّاسٍ: اِنَّ نَوْفًا الشَّامِیَّیَزْعَمُ اَوْیَقُوْلُ: لَیْسَ مُوْسٰی صَاحِبُ خَضِرٍ مُوْسٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ، قَالَ: کَذَبَ نَوْفٌ عَدُوُّ اللّٰہِ، حَدَّثَنِیْ اُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِنَّ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ قَامَ فِیْ بَنِیْ اِسْرَئِیْلَ خَطِیْبًا فَقَالُوْا لَہُ: مَنْ اَعْلَمُ النَّاسِ؟ قَالَ: اَنَا، فَاَوْحَی اللّٰہُ تَبَارَکَ وَ تَعَاَلٰی اِلَیْہِ اِنَّ لِیْ عَبْدًا اَعْلَمَ مِنْکَ، قَالَ: رَبِّ فَاَرِنِیْہِ؟ قَالَ: قِیْلَ تَاْخُذُ حُوْتًا فَتَجْعَلُہُ فِیْ مِکْتَلٍ فَحَیْثُمَا فَقَدْتَّہُ فَھُوَ ثَمَّ، قَالَ: فَاَخَذَ حُوْتًا فَجَعَلَہُ فِیْ مِکْتَلٍ وَ جَعَلَ ھُوَ وَ صَاحِبُہُ یَمْشِیَانِ عَلَی السَّاحِلِ حَتّٰی اَتَیَا الصَّخْرَۃَ رَقَدَ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ وَ اضْطَرَبَ الْحُوْتُ فِیْ الْمِکْتَلِ فَوَقَعَ فِیْ الْبَحْرِ، فَحَبَسَ اللّٰہُ جِرْیَۃَ الْمَائِ فَاضْطَرَبَ الْمَائُ فَاسْتَیْقَظَ مُوْسٰی فَقَالَ: {لِفَتَاہُ آتِنَا غَدَائَ نَا لَقَدْ لَقِیْنَا مِنْ سَفَرِنَا ھٰذَا نَصَبًا} وَ لَمْ یُصِبِ النَّصَبَ حَتّٰی جَاوَزَ الَّذِیْ اَمَرَہُ اللّٰہُ تَباَرَکَ وَ تَعَالٰی فَقَالَ: {اَرَاَیْتَ اِذْ اَوَیْنَا اِلَی الصَّخْرِۃِ فَاِنِّیْ نَسِیْتُ الْحُوْتَ وَ مَا اَنْسَانِیْہُ اِلَّا الشَّیْطَانُ} { فَارْتَدَّا عَلٰی آثَارِھِمَا قَصَصًا} فَجَعَلَا یَقُصَّانِ آثَارَھُمَا {وَاتَّخَذَ سَبِیْلََہُ فِیْ الْبَحْرِ سَرَبًا} قَالَ: اَمْسَکَ عَنْہُ جِرْیَۃَ الْمَائِ فَصَارَ عَلَیْہِ مِثْلُ الطَّاقِ فَکَانَ لِلْحُوْتِ سَرَبًا وَ کَانَ لِمُوْسٰی عَلَیْہِ عَجَبًا حَتَّی انْتَھَیَا اِلَی الصَّخْرَۃِ فَاِذَا رَجُلٌ مُسَجًّی عَلَیْہِ ثَوْبٌ، فَسَلَّمَ مُوْسٰی عَلَیْہِ، فَقَالَ: وَ اَنّٰی بِاَرْضِکَ السَّلَامُ، قَالَ: اَنَا مُوْسٰی، قَالَ: مُوْسٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ؟ قَالَ: نَعَمْ، {اَتَّبِعُکَ عَلٰی اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا} قَالَ: یَا مُوْسٰی! اِنِّیْ عَلٰی عِلْمٍ مِنَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی لَا تَعْلَمُہُ، وَ اَنْتَ عَلٰی عِلْمٍ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَّمَکَہُ اللّٰہُ، فَانْطَلَقَا یَمْشِیَانِ عَلَی السَّاحِلِ فَمَرَّتْ سَفِیْنَۃٌ فَعَرَفُوْا الْخَضِرَ فَحُمِلَ بِغَیْرِ نَوْلٍ فَلَمْ یُعْجِبْہُ، وَ نَظَرَ فِیْ السَّفِیْنَۃِ فَاَخَذَ الْقَدُّوْمَ یُرِیْدُ اَنْ یَکْسِرَ مِنْھَا لَوْحًا، فَقَالَ: حُمِلْنَا بِغَیْرِ نَوْلٍ وَ تُرِیْدُ اَنْ تَخْرِقَھَا لِتُغْرِقَ اَھْلَھَا {قَالَ اَ لَمْ اَقُلْ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا} قَالَ: اِنِّیْ نَسِیْتُ، وَ جَائَ عُصْفُوْرٌ فَنَقَرَ فِیْ الْبَحْرِ قَالَ الْحَضِرُ: مَا یُنْقِصُ عِلْمِیْ وَ لَا عِلْمُکَ مِنْ عِلْمِ اللّٰہِ تَعَالٰی اِلَّا کَمَا یُنْقِصُھٰذَا الْعُصْفُوْرُ مِنْ ھٰذَا الْبَحْرِ {فَانْطَلَقَا حَتّٰی اِذَا اَتَیَا اَھْلَ قِرْیَۃٍ اسْْتَطْعَمَا اَھْلَھَا فَاَبَوْا اَنْ یُضَیِّفُوْھُمَا} فَرَاٰی غُلَامًا فَاَخَذَ رَاْسَہُ فَانْتَزَعَہُ فَقَالَ: {اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَکِیَّۃً بِغَیْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا نُکْرًا، قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَکَ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا} قَالَ: سُفْیَانُ: قَالَ عَمْرٌو: وَ ھٰذِہِ اَشَدُّ مِنَ الْاُوْلٰی، قَالَ: فَانْطَلَقَا فَاِذَا جِدَارٌ یُرِیْدُ اَنْ یَنْقَضَّ فَاَقَامَہُ، اَرَانَا سُفْیَانُ بِیَدِہِ فَرَفَعَ یَدَہُ ھٰکَذَا رَفْعًا فَوَضَعَ رَاحَتَیْہِ فَرَفَعَھُمَا لِبَطْنِ کَفَّیْہِ رَفْعًا فَقَالَ: {لَوْ شِئْتَ لَا تَّخَذْتَ عَلَیْہِ اَجْرًا قَالَ ھٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَ بَیْنِکَ} قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: کَانَتِ الْاَوْلیٰ نِسْیَانًا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَرْحَمُ اللّٰہُ مُوْسٰی لَوْ کَانَ صَبَرَ حَتّٰییَقُصَّ عَلَیْنَا مِنْ اَمْرِہِ۔)) (مسند احمد: ۲۱۴۳۱)
۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے کہا: نوف شامی کا خیال ہے کہ جس موسی کی خضر سے ملاقات ہوئی تھی، وہ بنو اسرائیل والے موسی نہیں ہیں، انھوں نے کہا: اللہ کے دشمن نوف نے جھوٹ بولا ہے، سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک موسی علیہ السلام بنو اسرائیل میں خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے، لوگوں نے ان سے پوچھا: لوگوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا کون ہے؟ انھوں نے کہا: میں ہوں، اُدھر سے اللہ تعالی نے ان کی طرف وحی کر دی کہ میرا ایک بندا تجھ سے زیادہ علم والا ہے، انھوں نے کہا: اے میرے ربّ! تو پھر وہ مجھے دکھاؤ، ان سے کہا گیا کہ تم ایک مچھلی پکڑو اور اس کو ایک ٹوکرے میں ڈالو، جہاں تم اس کو گم پاؤ گے، وہ وہاں ہو گا، پس انھوں نے مچھلی پکڑی اور اس کو ایک ٹوکرے میں رکھا اور انھوں نے اور ان کے ایک ساتھی نے ساحل کی طرف چلنا شروع کر دیا،یہاں تک کہ وہ ایک چٹان کے پاس پہنچ گئے، موسی علیہ السلام وہاں سو گئے، مچھلی نے ٹوکرے میں حرکت کی اور سمندر میں کود گئی، اللہ تعالی نے مچھلی کے داخل ہونے والی جگہ کا پانی روک لیا (اور یوں ایک غار سی نظر آنے لگی)، جب پانی مضطرب ہوا تو موسی علیہ السلام بیدار ہو گئے (اور کہیں آگے جا کراپنے نوجوان سے) کہا: لا ہمارا کھانا دے، ہمیں تو اپنے اس سفر سے سخت تکلیف اٹھانی پڑی۔ موسی علیہ السلام نے اس مقام سے آگے گزر کر تھکاوٹ محسوس کی، جس کا اللہ تعالی نے حکم دیا تھا، آگے سے اس نوجوان نے جواب دیا کہ کیا آپ نے دیکھا بھی؟ جب کہ ہم چٹان پر ٹیک لگا کر آرام کر رہے تھے، وہیں میں مچھلی بھول گیا تھا، دراصل شیطان نے مجھے بھلا دیا۔ چنانچہ وہیں سے اپنے قدموں کے نشان ڈھونڈتے ہوئے واپس لوٹے۔ پس انھوں نے اپنے قدموں کے نشانات کو ڈھونڈنا شروع کر دیا، اور اس مچھلی نے انوکھے طور پر دریا میں اپنا راستہ بنا لیا۔ اور وہ اس طرح کہ اللہ تعالی نے پانی کا چلاؤ روک لیا اور وہ جگہ طاق کی طرح نظر آنے لگا، یہ مچھلی کے لیے انوکھا اور موسی علیہ السلام کے لیے عجیب کام تھا، بہرحال وہ دونوں بالآخر اس چٹان تک پہنچ گئے، مطلوبہ مقام پر پہنچ کر انھوں نے دیکھا کہ ایک آدمی ہے، اس نے کپڑا ڈھانپا ہوا ہے، موسی علیہ السلام نے اس کو سلام کہا، اس نے آگے سے کہا: تیرے علاقے میں سلام کیسے آ گیا؟ انھوں نے کہا: میں موسی ہوں، خضر علیہ السلام نے کہا: بنو اسرائیل کا موسی؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، میں آپ کی تابعداری کروں کہ آپ مجھے اس نیک علم کو سکھا دیں۔ خضر علیہ السلام نے کہا: اے موسی! بیشک مجھے اللہ کی طرف سے ایسا علم دیا گیا ہے کہ تم اس کو نہیں جانتے اور تم کو اسی کی طرف سے ایسا علم دیا گیا ہے کہ میں اس کی معرفت نہیں رکھتا، پھر وہ دونوں ساحل پر چل پڑے (اور خضر علیہ السلام نے موسی علیہ السلام پر پابندی لگا کہ انھوں نے اس سے اس کے کیے کے بارے میںسوال نہیں کرنا)، وہاں سے ایک کشتی گزری، انھوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا، اس لیے ان کو بغیر کسی اجرت کے سوار کر لیا گیا، لیکنیہ چیز اسے اچھی نہ لگی پھر خضر علیہ السلام نے کشتی کو دیکھا اور کلہاڑا لے کر اس کی ایک تختی کو توڑنا چاہا، موسی علیہ السلام نے کہا: ان لوگوں نے ہمیں اجرت کے بغیر سوار کر لیا اور اب تم اس کشتی کو توڑ کر سب سواروں کو غرق کرنا چاہتے ہو؟ انھوں نے کہا: میں نے تو پہلے ہی تجھ سے کہہ دیا تھا کہ تو میرے ساتھ ہر گز صبر نہ کر سکے گا۔ موسی علیہ السلام نے کہا: بیشک میں بھول گیا تھا، پھر ایک پرندہ آیا اور اس نے سمندر سے اپنی چونچ بھری، خضر علیہ السلام نے اس کو دیکھ کر کہا: اے موسی! میرے اور تیرے علم نے اللہ تعالی کے علم میں صرف اتنی کمی کی ہے، جتنی کہ اس پرندے نے اس سمندر میں کی ہے، پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ وہ دونوں ایک گاؤں والوں کے پاس آئے ان سے کھانا طلب کیا، لیکن انھوں نے ان کیمہمان داری سے صاف انکار کر دیا۔ نیز خضر علیہ السلام نے وہاں ایک لڑکا دیکھا اور اس کو پکڑ کر اس کا سر اکھاڑ دیا، موسی علیہ السلام نے کہا: کیا تو نے ایک پاک جان کو بغیر کسی جان کے عوض مار ڈالا، بیشک تو نے تو بڑی ناپسندیدہ حرکت کی، انھوں نے کہا: کیا میں نے تم نہیں کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر ہر گز صبر نہیں کر سکتے۔ عمرو نے اپنی روایت میں کہا: یہ پہلے کام سے زیادہ سخت کام تھا، پھر وہ دونوں چل پڑے، جب خضر علیہ السلام نے دیوار کو گرتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے اس کو سیدھا کر دیا، سفیان راوی نے اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے اپنے ہاتھ کو اس طرح بلند کیا، پھر اپنی ہتھیلیوں کو رکھا اور پھر ان کو ہتھیلیوں کی اندرونی سمت کی طرف سے بلند کیا، موسی علیہ السلام نے کہا: اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے لیتے، اس نے کہا: بس یہ جدائی ہے میرے اور تیرے درمیان۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: پہلی بار تو موسی علیہ السلام بھول گئے تھے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ موسی علیہ السلام پر رحم کرے، کاش وہ صبر کرتے تاکہ وہ ہم پر اپنے مزید معاملات بیان کرتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8668

۔ (۸۶۶۸)۔ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: کُنَّا عِنْدَہُ فَقَالَ الْقَوْمُ: إِنَّ نَوْفًا الشَّامِیَّیَزْعُمُ أَنَّ الَّذِی ذَہَبَ یَطْلُبُ الْعِلْمَ لَیْسَ مُوسٰی بَنِی إِسْرَائِیلَ، وَکَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ مُتَّکِئًا فَاسْتَوٰی جَالِسًا فَقَالَ: کَذَلِکَ یَا سَعِیدُ! قُلْتُ: نَعَمْ، أَ نَا سَمِعْتُہُ یَقُولُ ذَاکَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: کَذَبَ نَوْفٌ، حَدَّثَنِی أُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ: أَ نَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْنَا وَعَلَی صَالِحٍ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْنَا وَعَلَی أَ خِی عَادٍ۔))، ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ مُوسٰی علیہ السلام بَیْنَا ہُوَ یَخْطُبُ قَوْمَہُ ذَاتَ یَوْمٍ، إِذْ قَالَ لَہُمْ: مَا فِی الْأَ رْضِ أَ حَدٌ أَ عْلَمُ مِنِّی، وَأَ وْحَی اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی إِلَیْہِ أَ نَّ فِی الْأَ رْضِ مَنْ ہُوَ أَ عْلَمُ مِنْکَ، وَآیَۃُ ذٰلِکَ أَ نْ تُزَوِّدَ حُوتًا مَالِحًا، فَإِذَا فَقَدْتَہُ فَہُوَ حَیْثُ تَفْقِدُہُ، فَتَزَوَّدَ حُوتًا مَالِحًا فَانْطَلَقَ ہُوَ وَفَتَاہُ حَتَّی إِذَا بَلَغَ الْمَکَانَ الَّذِی أُمِرُوْا بِہِ، فَلَمَّا انْتَہَوْا إِلَی الصَّخْرَۃِ انْطَلَقَ مُوسٰییَطْلُبُ، وَوَضَعَ فَتَاہُ الْحُوتَ عَلَی الصَّخْرَۃِ، وَاضْطَرَبَ فَاتَّخَذَ سَبِیلَہُ فِی الْبَحْرِ سَرَبًا، قَالَ فَتَاہُ: إِذَا جَائَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَدَّثْتُہُ، فَأَ نْسَاہُ الشَّیْطَانُ، فَانْطَلَقَا فَأَ صَابَہُمْ مَا یُصِیبُ الْمُسَافِرَ مِنْ النَّصَبِ وَالْکَلَالِ، وَلَمْ یَکُنْیُصِیبُہُ مَا یُصِیبُالْمُسَافِرَ مِنْ النَّصَبِ وَالْکَلَالِ حَتّٰی جَاوَزَ مَا أُمِرَ بِہِ، فَقَالَ مُوسٰی لِفَتَاہُ: {آتِنَا غَدَائَ نَا لَقَدْ لَقِینَا مِنْ سَفَرِنَا ہٰذَا نَصَبًا} قَالَ لَہُ فَتَاہُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! {أَ رَأَ یْتَ إِذْ أَ وَیْنَا إِلَی الصَّخْرَۃِ فَإِنِّی نَسِیتُ} أَ نْ أُحَدِّثَکَ {وَمَا أَ نْسَانِیہُ إِلَّا الشَّیْطَانُ} قَالَ: أُخْبِرْتُ أَ نَّ عِنْدَکَ عِلْمًا فَأَ رَدْتُ أَ نْ أَ صْحَبَکَ {قَالَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیعَ مَعِیَ صَبْرًا} {قَالَ سَتَجِدُنِی إِنْ شَائَ اللّٰہُ صَابِرًا وَلَا أَ عْصِی لَکَ أَ مْرًا} قَالَ: {فَکَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰی مَا لَمْ تُحِطْ بِہِ خُبْرًا} قَالَ: قَدْ أُمِرْتُ أَ نْ أَ فْعَلَہُ، {قَالَ سَتَجِدُنِی إِنْ شَائَ اللّٰہُ صَابِرًا} {قَالَ فَإِنْ اتَّبَعْتَنِی فَلَا تَسْأَ لْنِی عَنْ شَیْئٍ حَتّٰی أُحْدِثَ لَکَ مِنْہُ ذِکْرًا، فَانْطَلَقَا حَتّٰی إِذَا رَکِبَا فِی السَّفِینَۃِ} خَرَجَ مَنْ کَانَ فِیہَا وَتَخَلَّفَ لِیَخْرِقَہَا قَالَ: فَقَالَ لَہُ مُوسَی: تَخْرِقُہَا لِتُغْرِقَ أَ ہْلَہَا {لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا إِمْرًا} {قَالَ أَ لَمْ أَ قُلْ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیعَ مَعِیَ صَبْرًا، قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِی بِمَا نَسِیتُ وَلَا تُرْہِقْنِی مِنْ أَ مْرِی عُسْرًا} فَانْطَلَقَا حَتّٰی إِذَا أَ تَوْا عَلٰی غِلْمَانٍ یَلْعَبُونَ عَلٰی سَاحِل الْبَحْرِ، وَفِیہِمْ غُلَامٌ لَیْسَ فِی الْغِلْمَانِ غُلَامٌ أَ نْظَفَ یَعْنِی مِنْہُ، فَأَ خَذَہُ فَقَتَلَہُ، فَنَفَرَ مُوسٰی عَلَیْہِ السَّلَام عِنْدَ ذٰلِکَ وَقَالَ: {أَ قَتَلْتَ نَفْسًا زَکِیَّۃً بِغَیْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا نُکْرًا، قَالَ أَ لَمْ أَ قُلْ لَکَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیعَ مَعِیَ صَبْرًا} قَالَ: فَأَ خَذَتْہُ ذَمَامَۃٌ مِنْ صَاحِبِہِ وَاسْتَحٰی، فَقَالَ: {اِنْ سَاَلْتُکَ عَنْ شَیْئٍ بَعْدَھَا فَلَا تُصَاحِبْنِیْ قَدْ بَلَغْتَ مِن لَّدُنِّیْ عُذْرًا، فَانْطَلَقَا حَتّٰی اِذَا اَتَیَا اَھْلَ قَرْیَۃٍ} لِئَامًا {اسْتَطْعَمَا أَ ہْلَہَا} وَقَدْ أَ صَابَ مُوسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ جَہْدٌ فَلَمْ یُضَیِّفُوہُمَا، {فَوَجَدَا فِیہَا جِدَارًا یُرِیدُ أَ نْ یَنْقَضَّ فَأَقَامَہُ} قَالَ لَہُ مُوسٰی مِمَّا نَزَلَ بِہِمْ مِنْ الْجَہْدِ: {لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَیْہِ أَ جْرًا، قَالَ ہٰذَا فِرَاقُ بَیْنِی وَبَیْنِکَ} فَأَ خَذَ مُوسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ بِطَرَفِ ثَوْبِہِ فَقَالَ: حَدِّثْنِی فَقَالَ: {أَ مَّا السَّفِینَۃُ فَکَانَتْ لِمَسَاکِینَیَعْمَلُونَ فِی الْبَحْرِ} {وَکَانَ وَرَائَ ہُمْ مَلِکٌ یَأْخُذُ کُلَّ سَفِینَۃٍ غَصْبًا} فَإِذَا مَرَّ عَلَیْہَا فَرَآہَا مُنْخَرِقَۃً تَرَکَہَا وَرَقَّعَہَا أَ ہْلُہَا بِقِطْعَۃِ خَشَبَۃٍ فَانْتَفَعُوا بِہَا، وَأَ مَّا الْغُلَامُ فَإِنَّہُ کَانَ طُبِعَ یَوْمَ طُبِعَ کَافِرًا، وَکَانَ قَدْ أُلْقِیَ عَلَیْہِ مَحَبَّۃٌ مِنْ أَ بَوَیْہِ وَلَوْ أَ طَاعَاہُ لَأَ رْہَقَہُمَا: {طُغْیَانًا وَکُفْرًا} {فَأَ رَدْنَا أَ نْ یُبْدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیْرًا مِنْہُ زَکَاۃً وَأَ قْرَبَ رُحْمًا} وَوَقَعَ أَ بُوہُ عَلَی أُمِّہِ فَعَلِقَتْ فَوَلَدَتْ مِنْہُ خَیْرًا مِنْہُ زَکَاۃً وَأَ قْرَبَ رُحْمًا، {وَأَ مَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلَامَیْنِیَتِیمَیْنِ فِی الْمَدِینَۃِ، وَکَانَ تَحْتَہُ کَنْزٌ لَہُمَا، وَکَانَ أَ بُوہُمَا صَالِحًا، فَأَ رَادَ رَبُّکَ أَ نْ یَبْلُغَا أَ شُدَّہُمَا، وَیَسْتَخْرِجَا کَنْزَہُمَا، رَحْمَۃً مِنْ رَبِّکَ، وَمَا فَعَلْتُہُ عَنْ أَمْرِی، ذٰلِکَ تَأْوِیلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَیْہِ صَبْرًا}۔ (مسند احمد: ۲۱۱۱۸)
۔ سعید بن جبیر ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کہتے ہیں: ہم سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کے پاس بیٹھے تھے،کچھ لوگوں نے بتایا کہ نوف شامی بکالی کہتا ہے کہ جو موسی حصولِ علم کے لئے سیدنا خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے، وہ بنی اسرائیل والے موسیٰ علیہ السلام نہ تھے، یہ سن کر سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور کہا: اے سعید! کیا وہ ایسا ہی کہتاہے؟ میںنے کہا: جی میں نے خود اس سے یہی سنا ہے، سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: وہ غلط کہتا ہے، سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہم پر اور صالح علیہ السلام پر رحمت کرے اور اللہ تعالیٰ ہم پر اور عاد قوم والے میرے پیغمبر بھائی ہود علیہ السلام پر رحمت کرے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام نے ایکدفعہ اپنی قوم سے خطاب کیا اور ان سے کہا: روئے زمین میں مجھ سے بڑھ کر عالم کوئی نہیں ہے، اللہ تعالی نے ان کی جانب وحی کی کہ فلاں زمین میں تم سے زیادہ علم والا آدمی موجود ہے اوراس سے ملاقات کی علامت یہ ہے کہ ایک نمکین مچھلی لو، جہاں وہ ہاتھ سے نکل جائے، وہ وہاں ہوگا، پس موسیٰ علیہ السلام نے نمکین مچھلی لی اور اپنے نوجوان شاگرد یوشع بن نون کے ساتھ چل دئیے، جس جگہ کا حکم ملا تھا، جب وہاں پہنچے توایک چٹان تھی، جب اس تک گئے تو موسیٰ علیہ السلام کوئی چیز تلاش کرنے گئے اور ان کے شاگرد نے مچھلی چٹان پر رکھی، وہ حرکت میں آئی اور سمندر میں رستہ بنا لیا، شاگرد کہنے لگا کہ سیدنا موسیٰ آئیں گے تو انہیں بتادوں گا، لیکن شیطان نے اسے بھلا دیا اوروہ آگے کو چلتے رہے حتیٰ کہ جب انہیں مسافروں کی مانند تھکاوٹ محسوس ہوئی، اور تھکاوٹ مطلوبہ جگہ سے آگے گزر جانے کے بعد محسوس ہوئی، تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے شاگرد سے کہا: ہمیں کھانا دو، اس سفر نے تو ہمیں تھکا دیا ہے، شاگرد نے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ کو معلوم ہے کہ جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تھے، تو مچھلی نے وہاں حرکت کی، لیکن میں بتانا بھول گیا تھا، یہ شیطان ہی نے بھلایاہے تواس مچھلی نے سمندر میں جگہ بنا لی تھی، موسی علیہ السلام نے کہا کہ وہی مقام ہماری مطلوبہ جگہ ہے، اب پچھلے پائوں انہی نشانات قدم پر واپس آئے، جب اسی چٹان تک پہنچے تووہاں گھومے، اچانک دیکھتے ہیں کہ خضر علیہ السلام کپڑا لئے موجود ہیں، موسیٰ علیہ السلام نے ان پر سلام کہا، انہوں نے سراٹھایا اور کہا: تم کون ہو؟ انھوں نے کہا: میں موسیٰ علیہ السلام ہوں، انھوں نے پوچھا: کون سا موسیٰ؟ انھوں نے کہا: بنو اسرائیل والے موسیٰ، پھر موسیٰ علیہ السلام نے کہا: تمہارے پاس علم ہے، میں چاہتاہوں کہ تمہاری رفاقت میں رہ کر وہ علم حاصل کروں، انہوں نے کہا: تم اس کے حصول کی طاقت نہیں رکھتے، انھوں نے کہا:آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے، میں تمہاری نافرمانی نہیں کروں گا، خضر علیہ السلام نے کہا:جس کی آپ کو خبر نہیں اس پر تم صبر نہیں کر سکو گے، موسیٰ علیہ السلام نے کہا: مجھے چونکہ حکم ملاہے، اس لئے میں صبر کروں گا، خضر علیہ السلام نے کہا: اگر تم میرے سنگ چلے ہو تو پھر جو بھی میں کرتا جاؤں، تم نے نہیں بولنا،میں خود ہی وضاحت کر دوں گا۔ اب دونوں چلے، کشتی میں سوار ہوئے، جب وہ رکی تو اس کی سواریاں باہر چلی گئیں تو یہ پیچھے رہ گئے اور انھوں نے اس میں سوراخ کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ تم نے اس میں سوراخ کر دیا ہے، کشتی میں بیٹھنے والوں کو غرق کرنا چاہتے ہو، یہ تو اچھا کام نہیں کیا، خضر علیہ السلام نے کہا: میں نے تم سے کہاتھا کہ تم اس سفر میں میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا:میں بھول گیا ہوں، اس پرمؤاخذہ نہ کریںاور تنگ نہ ہوں، پھر چل پڑے اور سمندر کے کنارے پرپہنچ گئے، وہاں بچے کھیل رہے تھے، ان میں ایک بچہ سب سے زیادہ صاف ستھراتھا، خضر علیہ السلام نے اسے پکڑا اور قتل کر دیا، اب کی بات پھر موسیٰ علیہ السلام بول پڑے اورکہا: ایک ایسی جان کو قتل کر دیا ہے، جس کا کوئی قصور نہیں،یہ تو بہت بری چیز ہوئی ہے، خضر علیہ السلام کے تکرار سے کچھ شرم سی محسوس ہونے لگی، موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: اگر میں اس کے بعد سوال کروں تو آپ مجھے ساتھ نہ لے جانا،آپ کا عذر معقول ہوگا۔ اب وہ دونوں چلے اور ایک بستی والوں کے پاس آئے اور ان سے کھانا طلب کیا، جبکہ موسیٰ علیہ السلام سخت تھک چکے تھے اور بھوک سے نڈھال تھے، انہوںنے میزبانی کرنے سے انکار کردیا، پھر خضر علیہ السلام نے دیکھا کہ ایک دیوار گرنا چاہتی ہے، پس انھوں نے اسے درست کر دیا، اس بار موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اتنی مشقت میں ہم مبتلاہیں، اگر تم چاہتے تو اس پر اجرت لے لیتے، خضر علیہ السلام نے کہا: یہ میرے اور تمہارے درمیان جدائی کا وقت آ گیا ہے، سید ناموسیٰ علیہ السلام نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: جو کچھ آپ نے کیا ہے، اس کاپس منظر تو بیان کردو، خضر علیہ السلام نے کہا: {اَمَّا السَّفِیْنَۃُ فَکَانَتْ لِمَسٰکِیْنَیَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَہَا وَکَانَ وَرَاء َہُمْ مَّلِکٌ یَّاْخُذُ کُلَّ سَفِیْنَۃٍ غَصْبًا۔} (اس کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں، کیونکہ آگے ایک ایسے بادشاہ کا علاقہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا۔) اب جب وہ بادشاہ کے پاس سے گزرے گی اور وہ اس کو سوراخ زدہ دیکھے گا تو اس کو چھوڑ دے گا، اور (یہ نقص اتنا بڑا بھی نہیں ہے) اس کا مالک لکڑی کا ٹکڑا لگا کا اس کی مرمت کر لے گا اور پھر یہ لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں گے، رہا مسئلہ بچے کو قتل کرنے کا تو اس پر کافر کی مہر لگ چکی تھی، جبکہ اس کے والدین اس سے محبت کرتے تھے، اگر اس معاملے وہ اس کی اتباع کرتے تو وہ ان کو کفر اور سرکشی میں پھنسا دیتا، پس{فَأَ رَدْنَا أَ نْ یُبْدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیْرًا مِنْہُ زَکَاۃً وَأَ قْرَبَ رُحْمًا} (اس لیے ہم نے چاہا کہ ان کا رب اس کے بدلے ان کو ایسی اولاد دے جو اخلاق میں بھی اس سے بہتر ہو اور جس سے صلہ رحمی بھی زیادہ متوقع ہو۔)، اُدھر اس خاوند نے جب اپنی بیوی سے جماع کیا تو اسے حمل ہو گیا اور اس نے بہترین پاکیزگی والا اور بہت صلہ رحمی کرنے والا بچہ جنم دیا۔ {وَأَ مَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلَامَیْنِیَتِیمَیْنِ فِی الْمَدِینَۃِ، وَکَانَ تَحْتَہُ کَنْزٌ لَہُمَا، وَکَانَ أَ بُوہُمَا صَالِحًا، فَأَ رَادَ رَبُّکَ أَ نْ یَبْلُغَا أَ شُدَّہُمَا، وَیَسْتَخْرِجَا کَنْزَہُمَا، رَحْمَۃً مِنْ رَبِّکَ، وَمَا فَعَلْتُہُ عَنْ أَ مْرِی، ذٰلِکَ تَأْوِیلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَیْہِ صَبْرًا}۔ اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں۔ اس دیوار کے نیچے ان بچوں کے لیے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا۔ اس لیے تمہارے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچے بالغ ہوں اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ یہ تمہارے رب کی رحمت کی بنا پر کیا گیا ہے، میں نے کچھ اپنے اختیار سے نہیں کر دیا ہے۔ یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8669

۔ (۸۶۶۹)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ اُبَیِّ ابْنِ کَعْبٍ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہٗقَرَاَ: {قَدْبَلَّغْتَمِنلَّدُنِّیْ عُذْرًا} [الکھف: ۷۶] یُثَقِّلُہَا۔ (مسند احمد: ۲۱۴۴۲)
۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت اس طرح پڑھی: {قَدْ بَلَّغْتَ مِن لَّدُنِّیْ عُذْرًا}،یعنی لَدُنِّیْ کو شد کے ساتھ پڑھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8670

۔ (۸۶۷۰)۔ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا دَعَا لِأَ حَدٍ بَدَأَ بِنَفْسِہِ، فَذَکَرَ ذَاتَ یَوْمٍ مُوسٰی فَقَالَ: ((رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْنَا وَعَلٰی مُوسَی، لَوْ کَانَ صَبَرَ لَقَصَّ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْنَا مِنْ خَبَرِہِ، وَلٰکِنْ قَالَ: {إِنْ سَأَ لْتُکَ عَنْ شَیْئٍ بَعْدَہَا فَلَا تُصَاحِبْنِی، قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّی عُذْرًا}۔ (مسند احمد: ۲۱۴۴۴)
۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب کسی کے لئے دعاء کرتے تو اپنی ذات سے دعا کی ابتدا کرتے، ایک دن آپ نے موسیٰ علیہ السلام کی ذات کا ذکر کیا تو فرمایا: اللہ تعالیٰ ہم پر اور موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے، اگر وہ صبر کرتے تو اللہ تعالیٰ ہمیں مزید معلومات عطا کرتے، لیکن انھوں نے یہ شرط باندھ لی: {إِنْ سَأَ لْتُکَ عَنْ شَیْئٍ بَعْدَہَا فَلَا تُصَاحِبْنِی، قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّی عُذْرًا} … موسیٰ( علیہ السلام ) نے کہا اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ پوچھوں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھیں۔ لیجیے، اب تو میری طرف سے آپ کو عذر مل گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8671

۔ (۸۶۷۱)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَتْ قُرَیْشٌ لِلْیَہُودِ: أَ عْطُونَا شَیْئًا نَسْأَ لُ عَنْہُ ہٰذَا الرَّجُلَ، فَقَالُوْا: سَلُوہُ عَنِ الرُّوحِ، فَسَأَ لُوہُ فَنَزَلَتْ: {وَیَسْأَ لُونَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَ مْرِ رَبِّی وَمَا أُوتِیتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا} [الاسرائ: ۸۵] قَالُوْا: أُوتِینَا عِلْمًا کَثِیرًا، أُوتِینَا التَّوْرَاۃَ، وَمَنْ أُوتِیَ التَّوْرَاۃَ، فَقَدْ أُوتِیَ خَیْرًا کَثِیرًا، قَالَ: فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {قُلْ لَوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِکَلِمَاتِ رَبِّی لَنَفِدَ الْبَحْرُ} [الکھف: ۱۰۹]۔ (مسند احمد: ۲۳۰۹)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ قریش نے یہودیوں سے کہا: ہمیں کوئی ایسی بات بتائو، جس کے بارے میں ہم اس آدمی (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم )سے سوال کریں (اور اس کو لا جواب کر دیں)، انہوں نے کہا: اس سے روح کے بارے میں سوال کرو، پس جب انہوں نے سوال کیا تو یہ آیت نازل ہوئی: {وَیَسْأَ لُونَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَ مْرِ رَبِّی وَمَا أُوتِیتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا} … یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، کہہ دو کہ روح میرے رب کا حکم ہے، تمہیں صرف تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: ہمیں تو بہت زیادہ علم دیا گیا ہے، ہمیں تورات دی گئی اور جس کو تورات دے دی جائے، اس کو بہت زیادہ بھلائی دے دی جاتی ہے، ان کی اس بات کے جواب میں اللہ تعالی نے یہ آیت اتار دی: {قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْتَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖمَدَدًا} … کہہدےاگرسمندرمیرے رب کی باتوں کے لیے سیاہی بن جائے تو یقینا سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں، اگرچہ ہم اس کے برابر اور سیاہی لے آئیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8672

۔ (۸۶۷۲)۔ عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ قَالَ: بَعَثَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی نَجْرَانَ قَالَ: فَقَالُوْا أَ رَأَ یْتَ مَا تَقْرَئُ وْنَ {یَا اُخْتَ ھَارُوْنَ} وَمُوسٰی قَبْلَ عِیسٰی بِکَذَا وَکَذَا، قَالَ: فَرَجَعْتُ فَذَکَرْتُ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((أَ لَا أَ خْبَرْتَہُمْ أَ نَّہُمْ کَانُوْا یُسَمُّوْنَ بِالْأَ نْبِیَائِ وَالصَّالِحِینَ قَبْلَہُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۸۳۸۷)
۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے نجران کی جانب بھیجا تو ان لوگوں نے مجھ سے پوچھا: تم لوگ اس طرح پڑھتے ہو: {یَا اُخْتَ ھَارُوْنَ} … اے ہارون کی بہن! جبکہ موسی علیہ السلام تو عیسیٰ علیہ السلام سے طویل عرصہ پہلے گزرے تھے، (تو عیسی کی ماں سیدہمریم ان کی بہن کیسے ہو گئی) جب میں واپس لوٹا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بات کا ذکر کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے انہیں بتانا تھا کہ وہ لوگ اپنے سے پہلے نیک لوگوں اور انبیائے کرام کے ناموں پرنام رکھتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8673

۔ (۸۶۷۳)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِجِبْرِیلَ: ((مَا یَمْنَعُکَ أَ نْ تَزُورَنَا أَ کْثَرَ مِمَّا تَزُورُنَا۔)) قَالَ: فَنَزَلَتْ {وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَ مْرِ رَبِّکَ لَہُ مَا بَیْنَ أَ یْدِینَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَیْنَ ذٰلِکَ وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا} [مریم: ۶۴] قَالَ: وَکَانَ ذٰلِکَ الْجَوَابَ لِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (مسند احمد: ۳۳۶۵)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا جبریل علیہ السلام سے فرمایا: تمہیں اس میں کوئی رکاوٹ ہے کہ اب جتنی ملاقات کرتے ہو، اس سے زیادہ کر لیا کرو؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: {وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَ مْرِ رَبِّکَ لَہُ مَا بَیْنَ أَ یْدِینَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَیْنَ ذٰلِکَ وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا}… ہم تیرے رب کے حکم کے سوا نہیں اترتے،اسی کے لیے ہے، جو ہمارے آگے ہے اور جو ہمارے پیچھے ہے اورجو اس کے درمیان ہے اور تیرا رب بھولنے والا نہیں ہے۔ یہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے جواب تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8674

۔ (۸۶۷۴)۔ عَنْ اُّمِّ مُبَشِّرٍ أَ نَّہا سَمِعَتْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عِنْدَ حَفْصَۃَیَقُولُ: ((لَا یَدْخُلُ النَّارَ إِنْ شَائَ اللّٰہُ مِنْ أَ صْحَابِ الشَّجَرَۃِ أَ حَدٌ الَّذِینَ بَایَعُوْا تَحْتَہَا۔)) فَقَالَتْ: بَلٰییَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَانْتَہَرَہَا، فَقَالَتْ حَفْصَۃُ: {وَإِنْ مِنْکُمْ إِلَّا وَارِدُہَا} فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((قَدْ قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِینَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِینَ فِیہَا جِثِیًّا} [مریم: ۷۲]۔)) (مسند احمد: ۲۷۹۰۶)
۔ سیدہ ام مبشر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جن لوگوں نے حدیبیہ کے مقام پردرخت کے نیچے میری بیعت کی تھی، ان شاء اللہ ان میں سے کوئی بھی دوزخ میں داخل نہ ہو گا۔ سیدنا حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں، پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو ڈانٹا تو انھوں نے کہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {وَإِنْ مِنْکُمْ إِلَّا وَارِدُہَا}… اوربے شک تم میں سے ہر ایک دوزخ میں وارد ہونے والا ہے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جواباً فرمایا: اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایاہے: {ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِینَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِینَ فِیہَا جِثِیًّا}… پھر ہم ان لوگوں کو جو پرہیز گار ہوئے، دوزخ سے نجات دیں گے اور ظالموں کو ہم اس میں گھٹنوں کے بل چھوڑ دیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8675

۔ (۸۶۷۵)۔ عَنْ کَثِیرِ بْنِ زِیَادٍ البُرْسَانِیِّ، عَنْ أَ بِی سُمَیَّۃَ، قَالَ: اخْتَلَفْنَا ہَاہُنَا فِی الْوُرُودِ، فَقَالَ بَعْضُنَا: لَا یَدْخُلُہَا مُؤْمِنٌ، وَقَالَ بَعْضُنَا: یَدْخُلُونَہَا جَمِیعًا، ثُمَّ یُنَجِّی اللّٰہُ الَّذِینَ اتَّقَوْا، فَلَقِیتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ فَقُلْتُ لَہُ: إِنَّا اخْتَلَفْنَا فِی ذٰلِکَ الْوُرُودِ، فَقَالَ بَعْضُنَا: لَا یَدْخُلُہَا مُؤْمِنٌ، وَقَالَ بَعْضُنَا: یَدْخُلُونَہَا جَمِیعًا، فَأَ ہْوٰی بِإِصْبَعَیْہِ إِلٰی أُذُنَیْہِ وَقَالَ: صُمَّتَا إِنْ لَمْ أَ کُنْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((الْوُرُودُ الدُّخُولُ لَا یَبْقَی بَرٌّ وَلَا فَاجِرٌ إِلَّا دَخَلَہَا، فَتَکُونُ عَلَی الْمُؤْمِنِ بَرْدًا وَسَلَامًا کَمَا کَانَتْ عَلٰی إِبْرَاہِیمَ حَتّٰی إِنَّ لِلنَّارِ أَ وْ قَالَ لِجَہَنَّمَ ضَجِیجًا مِنْ بَرْدِہِمْ، ثُمَّ یُنَجِّی اللّٰہُ الَّذِینَ اتَّقَوْا وَیَذَرُ الظَّالِمِینَ فِیہَا جِثِیًّا۔)) (مسند احمد: ۱۴۵۷۴)
۔ ابو سمیہ کہتے ہیں:ہم نے دوزخ میں وارد ونے کے بارے میں اختلاف کیا، بعض نے کہا: اس میں مومن داخل نہ ہو گا، لیکن بعض نے کہا: سب داخل ہوں گے، پھر اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کو نجات دیں گے۔ میں سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ملا اور میں نے کہا: ہم نے دوزخ میں وارد ہونے کے بارے میں اختلاف کیا ہے، بعض کہتے ہیں کہ مومن اس میں داخل نہیں ہوں گے، لیکن بعض نے کہا کہ سب داخل ہوں گے، انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں کو لگائیں اور کہا: یہ بہرے ہو جائیں، اگر میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہو: وارد ہونے سے مراد داخل ہونا ہے، ہر نیکو کار اور اور بدکار اس جہنم میں داخل ہو گا، لیکن وہ آگ ایمان والوں کے لیے اسی طرح ٹھنڈک اور سلامتی والی ہوگی، جیسے ابراہیم علیہ السلام پر تھی،یہاں تک کہ ٹھنڈک کی وجہ سے ان کی دوزخ میں آواز آئے گی، پھر یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل چھوڑیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8676

۔ (۸۶۷۶)۔ عَنِ السُّدِّیِّ عَنْ مُرَّۃَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ:{ وَإِنْ مِنْکُمْ إِلَّا وَارِدُہَا} [مریم: ۷۱] قَالَ: یَدْخُلُونَہَا أَ وْ یَلِجُونَہَا، ثُمَّ یَصْدُرُونَ مِنْہَا بِأَ عْمَالِہِمْ، قُلْتُ لَہُ: إِسْرَائِیلُ حَدَّثَہُ عَنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: نَعَمْ، ہُوَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَ وْ کَلَامًا ہٰذَا مَعْنَاہُ۔ (مسند احمد: ۴۱۲۸)
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ اللہ تعالی کے اس فرمان { وَإِنْ مِنْکُمْ إِلَّا وَارِدُہَا} کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں: تمام لوگ اس میں داخل ہوں گے، پھر اپنے اعمال کے بل بوتے پر باہر آئیں گے، عبد الرحمن بن مہدی نے امام شعبہ سے کہا: اسرائیل تو اس کو مرفوع بیان کرتے ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، یہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ہے، یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کلام کے ہم معنی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8677

۔ (۸۶۷۷)۔ عَنْ مَسْرُوْقٍ قَالَ: قَالَ خَبَّابُ بْنُ الْأَ رَتِّ: کُنْتُ قَیْنًا بِمَکَّۃَ فَکُنْتُ أَ عْمَلُ لِلْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ، فَاجْتَمَعَتْ لِیْ عَلَیْہِ دَرَاھِمُ، فَجِئْتُ اَتَقَاضَاہُ، فَقَالَ: لَا أَقْضِیَنَّکَ حَتّٰی تَکْفُرَ بِمُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ! لَا أَ کْفُرُ بِمُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی تَمُوْتَ ثُمَّ تُبْعَثَ، قَالَ: فَاِذَا بُعِثْتُ کَانَ لِیْ مَالٌ وَوَلَدٌ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَاِنِّی اِذَا مِتُّ ثُمَّّ بُعِثْتُ وَ لِیَ ثَمَّ مَالٌ وَ وَلَدٌ فَأُعْطِیْکَ) قَالَ: فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی {أَ فَرَأَ یْتَ الَّذِیْ کَفَرَ بِآیَاتِنَا وَقَالَ لَأُوْتَیَنَّ مَالًا وَ وَلَدًا} حَتّٰی بَلَغَ {فَرْدًا} [مریم: ۷۷۔ ۸۰] (مسند احمد: ۲۱۳۸۲)
۔ مسروق سے مروی ہے کہ سیدنا خباب بن ارت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں مکہ میں لوہار تھا، میں نے عا ص بن وائل کا کام کیا اور میرے کچھ درہم اس پر جمع ہوگئے، ایک دن میں ان کا تقاضا کرنے کے لیے اس کے پاس آیا، لیکن اس نے کہا: میں تجھے اس وقت تک یہ درہم نہیں دوں گا، جب تک تو محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے ساتھ کفر نہیں کرے گا، میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں اس وقت تک محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ کفر نہیںکروں گا، یہاں تک کہ ایسا نہیں ہو جاتاکہ تو مر جائے اور پھر تجھے اٹھا دیا جائے، اس نے آگے سے کہا:جب مجھے دوبارہ اٹھایا جائے گا تو میرے لیے مال اور اولاد ہو گی، ایک روایت میں ہے: اس نے کہا: پس بیشک جب میں مر جاؤں گا اور پھر مجھے اٹھایا جائے گا تو وہاں میرا مال ہو گا اور میری اولاد ہوگی، اُس وقت میں تجھے یہ قرض چکا دوں گا، سیدنا خباب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جب میں نے اس کییہ بات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کی تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی: {اَفَرَئَ یْتَ الَّذِیْ کَفَرَ بِاٰیٰتِنَا وَقَالَ لَاُوْتَیَنَّ مَالًا وَّوَلَدًا۔ اَطَّلَعَ الْغَیْبَ اَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَہْدًا۔ کَلَّا سَنَکْـتُبُ مَا یَقُوْلُ وَنَمُدُّ لَہ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا۔ وَّنَرِثُہ مَا یَقُوْلُ وَیَاْتِیْنَا فَرْدًا۔} (سورۂ مریم: ۷۷ تا ۸۰) کیا تو نے اسے بھی دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا اور کہا کہ مجھے تو مال و اولاد ضرور ہی دی جائے گی، کیا وہ غیب پر مطلع ہے یا اللہ کا کوئی وعدہ لے چکا ہے؟ ہر گز نہیں،یہ جو بھی کہہ رہا ہے ہم اسے ضرور لکھ لیں گے اور اس کے لیے عذاب بڑھاتے چلے جائیں گے، یہ جن چیزوں کو کہہ رہا ہے، اسے ہم اس کے بعد لے لیں گے اور یہ تو بالکل اکیلا ہی ہمارے سامنے حاضر ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8678

۔ (۸۶۷۸)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا النُّعْمَانُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ: کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَرَأَ ہٰذِہِ الْآیَۃَ: {یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِینَ إِلَی الرَّحْمٰنِ وَفْدًا} [مریم: ۸۵] قَالَ: لَا، وَاللّٰہِ! مَا عَلٰی أَرْجُلِہِمْیُحْشَرُونَ وَلَا یُحْشَرُ الْوَفْدُ عَلٰی أَرْجُلِہِمْ وَلٰکِنْ عَلَی نُوقٍ لَمْ تَرَ الْخَلَائِقُ مِثْلَہَا، عَلَیْہَا رَحَائِلُ مِنْ ذَہَبٍ فَیَرْکَبُونَ عَلَیْہَا حَتَّییَضْرِبُوا أَ بْوَابَ الْجَنَّۃِ۔ (مسند احمد: ۱۳۳۳)
۔ نعمان بن سعد سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے یہ آیت پڑھی : {یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِینَ إِلَی الرَّحْمٰنِ وَفْدًا} … ہم پرہیز گاروں کو رحمن کی طرف جماعتوں کی صورت میں اکٹھا کریں گے۔ پھرانہوں نے کہا: اللہ کیقسم! یہ لوگ اپنے پائوں پریعنی پیدل جمع نہیں کئے جائیں گے،وہ ایسی اونٹنیوں پر سوار ہوں گے کہ لوگوں نے آج تک ان جیسی اونٹنیاں نہیں دیکھی ہوں گی، ان پر سونے کے کجاوے ہوں گے، وہ ان پر سوار ہو کر چل پڑیں گے، یہاں تک کہ جنت کے دروازوں پر دستک دیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8679

۔ (۸۶۷۹)۔ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ أَ نَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ وَہُوَ فِی بَعْضِ أَسْفَارِہِ، وَقَدْ تَفَاوَتَ بَیْنَ أَ صْحَابِہِ السَّیْرُ رَفَعَ بِہَاتَیْنِ الْآیَتَیْنِ صَوْتَہُ: (({یَا أَ یُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیمٌیَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ} [الحج: ۱۔۲] حَتّٰی بَلَغَ آخِرَ الْآیَتَیْنِ، قَالَ: فَلَمَّا سَمِعَ أَصْحَابُہُ بِذٰلِکَ حَثُّوا الْمَطِیَّ وَعَرَفُوا أَ نَّہُ عِنْدَ قَوْلٍ یَقُولُہُ، فَلَمَّا تَأَ شَّبُوا حَوْلَہُ قَالَ: ((أَ تَدْرُونَ أَ یَّیَوْمٍ ذَاکَ؟)) قَالَ: ((ذَاکَ یَوْمَیُنَادٰی آدَمُ فَیُنَادِیہِ رَبُّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: یَا آدَمُ! ابْعَثْ بَعْثًا إِلَی النَّارِ؟ فَیَقُولُ: یَا رَبِّ! وَمَا بَعْثُ النَّارِ؟ قَالَ: مِنْ کُلِّ أَ لْفٍ تِسْعَ مِائَۃٍ وَتِسْعَۃً وَتِسْعِینَ فِی النَّارِ وَوَاحِدٌ فِی الْجَنَّۃِ۔))، قَالَ: فَأَ بْلَسَ أَ صْحَابُہُ حَتّٰی مَا أَ وْضَحُوْا بِضَاحِکَۃٍ، فَلَمَّا رَأٰی ذٰلِکَ قَالَ: ((اعْمَلُوْا وَأَ بْشِرُوْا فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ إِنَّکُمْ لَمَعَ خَلِیقَتَیْنِ مَا کَانَتَا مَعَ شَیْئٍ قَطُّ إِلَّا کَثَرَتَاہُیَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ، وَمَنْ ہَلَکَ مِنْ بَنِی آدَمَ وَبَنِی إِبْلِیسَ۔))، قَالَ: فَأُسْرِیَ عَنْہُمْ ثُمَّ قَالَ: ((اعْمَلُوْا وَأَ بْشِرُوْا فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ مَا أَ نْتُمْ فِی النَّاسِ إِلَّا کَالشَّامَۃِ فِی جَنْبِ الْبَعِیرِ، أَ وْ الرَّقْمَۃِ فِی ذِرَاعِ الدَّابَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۰۱۴۳)
۔ سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے ایک سفر میں تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھی چلنے میں دورجا چکے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بآواز بلند یہ دو آیتیں تلاوت کیں: {یَا أَ یُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیمٌ۔ یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَتَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَتَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَمَا ہُمْ بِسُکٰرٰی وَلٰکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیْدٌ۔} … لوگو! اپنے رب کے غضب سے بچو، حقیقتیہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی ہولناک چیز ہے۔ جس روز تم اسے دیکھو گے، حال یہ ہوگا کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہو جائے گی، ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا، اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گے، حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب ہی بہت سخت ہوگا۔ جب صحابہ کرام نے یہ آیات سنیں تو اپنی سواریوں کو ایڑیاں لگائیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کوئی ضروری بات کہنا چاہتے ہیں، جب لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گرد جمع ہوگئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا: کیا تم جانتے ہو یہ کونسا دن ہے؟ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود ہی فرمایا: یہ وہ دن ہو گا کہ آدم علیہ السلام کو بلایا جائے گا، اللہ تعالی ان کو آواز دیں گے: اے آدم! جہنم میں بھیجے جانے والوں کو جہنم میں بھیج دو، وہ کہیں گے: اے میرے رب! کتنی تعداد؟ اللہ تعالی کہے گا: ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے دوزخ میں اور ایک جنت میں بھیج دو۔ یہ سن کر آپ کے صحابہ کرام حیران و ششدر رہ گئے اوران کی ہنسی بند ہو گی، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ صورتحال دیکھی تو فرمایا: عمل کرو اور خوش ہو جائو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! تم دو قسم کی ایسی مخلوقات کے ساتھ ہو گے کہ وہ جس کے ساتھ ہوں، ان کی تعداد کو زیادہ کر دیتی ہیں،یعنییاجوج ماجوج، بنو آدم میں سے ہلاک ہونے والے اور ابلیس کی اولاد۔ یہ سن کر صحابہ سے وہ کیفیت چھٹ گئی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عمل کرو اور خوش ہوجائو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدکی جان ہے: تم ان لوگوں میں اونٹ کے پہلو میں چھوٹے سے نشان کی مانند ہو گے یا جانور کے گھٹنے میں نشان کی مثل ہوگے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8680

۔ (۸۶۸۰)۔ عَنْ السُّدِّیِّ، عَنْ مُرَّۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ أَ بِی: شُعْبَۃُ رَفَعَہُ وَأَ نَا لَا أَرْفَعُہُ لَکَ فِی قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَمَنْ یُرِدْ فِیہِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ أَلِیمٍ} [الحج: ۲۵] قَالَ: لَوْ أَ نَّ رَجُلًا ہَمَّ فِیہِ بِإِلْحَادٍ وَہُوَ بِعَدَنِ أَ بْیَنَ لَأَ ذَاقَہُ اللّٰہُ عَذَابًا أَ لِیمًا۔ (مسند احمد: ۴۰۷۱)
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اللہ تعالی کے اس فرمان {وَمَنْ یُرِدْ فِیہِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ أَلِیمٍ} کے بارے میںکہتے ہیں: اگر کوئی آدمی حرم میں الحاد (ظلم) کا ارادہ کرتا ہے، جبکہ وہ عدن ابین میں ہو، تو اللہ تعالی اسے بھی درد ناک عذاب چکھائیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8681

۔ (۸۶۸۱)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا خَرَجَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ مَکَّۃَ قَالَ اَبُوْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: أَخْرَجُوْا نَبِیَّہُمْ إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ لَیَہْلِکُنَّ فَنَزَلَتْ: {أُذِنَ لِلَّذِینَیُقَاتَلُوْنَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوْا وَإِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیرٌ} [الحج: ۳۹] قَالَ: فَعُرِفَ أَ نَّہُ سَیَکُونُ قِتَالٌ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ہِیَ أَ وَّلُ آیَۃٍ نَزَلَتْ فِی الْقِتَالِ۔ (مسند احمد: ۱۸۶۵)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب ہجرت کے لیے مکہ سے نکلے تو سیدنا ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ان لوگوں نے اپنے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نکالا ہے، یہ ضرور ضرور ہلاک ہوں گے، پس یہ آیت نازل ہوئی: {أُذِنَ لِلَّذِینَیُقَاتَلُوْنَ بِأَ نَّہُمْ ظُلِمُوْا وَإِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیرٌ} … اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں، اور اللہ یقینا ان کی مدد پر ہر طرح قادر ہے۔ انہوں نے اس وقت جان لیا تھا کہ عنقریب لڑائی ہوگی۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: یہ لڑائی کی اجازت کے بارے میں پہلی آیت ہے، جو نازل ہوئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8682

۔ (۸۶۸۲)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَارِیِّ: سَمِعْتُ عُمْرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَقُوْلُ: کَانَ اِذَا نَزَلَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْوَحْیُیُسْمَعُ عِنْدَ وَجْہِہِ دَوِیٌّ کَدَوِیِّ النَّحْلِ، فَمَکَثْنَا سَاعَۃً، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃَ، وَرَفَعَ یَدَیْہِ فَقَالَ: ((اللّٰہُمَّ زِدْنَا وَلَا تَنْقُصْنَا وَأَ کْرِمْنَا وَلَا تُہِنَّا وَأَ عْطِنَا وَلَا تَحْرِمْنَا وَآثِرْنَا وَلَا تُؤْثِرْ عَلَیْنَا، وَارْضَ عَنَّا وَأَ رْضِنَا۔)) ثُمَّ قَالَ: ((لَقَدْ أُنْزِلَتْ عَلَیَّ عَشْرُ آیَاتٍ مَنْ أَ قَامَہُنَّ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔))، ثُمَّ قَرَأَ عَلَیْنَا: {قَدْ أَ فْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ} حَتّٰی خَتَمَ الْعَشْرَ۔ (مسند احمد: ۲۲۳)
۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر جب وحی کا نزول ہوتا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب سے اس طرح بھنبھناہٹ سنی جاتی، جس طرح شہد کی مکھیوں کی آواز ہوتی ہے، پھر ہم کچھ دیر ٹھہر گئے اوردیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبلہ رخ ہوئے اور دونوں ہاتھ اٹھا لئے اور یہ دعا مانگی: اے ہمارے اللہ ! ہمیں زیادہ دینا، کم نہ کرنا، ہمیں عزت دینا، ذلیل نہ کرنا، ہمیں عطا کرنا اور ہمیں ترجیح دینا اور ہم پر غیر کو ترجیح نہ دینا اور ہم سے راضی ہونا اور ہمیں راضی کرنا۔ اورپھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے اوپر دس آیات نازل ہوئی ہیں، جوان پر قائم رہے گا، وہ جنت میں داخل ہوگا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم پر {قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ} کی تلاوت کی،یہاں تک کہ دس آیات ختم کیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8683

۔ (۸۶۸۳)۔ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ الْمَکِّیُّ قَالَ: حَدَّثَنِی أَ بُو خَلَفٍ مَوْلٰی بَنِی جُمَحٍ: أَ نَّہُ دَخَلَ مَعَ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ عَلٰی عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ فِی سَقِیفَۃِ زَمْزَمَ لَیْسَ فِی الْمَسْجِدِ ظِلٌّ غَیْرُہَا، فَقَالَتْ: مَرْحَبًا وَأَہْلًا بِأَ بِی عَاصِمٍ یَعْنِی عُبَیْدَ بْنَ عُمَیْرٍ، مَا یَمْنَعُکَ أَ نْ تَزُورَنَا أَ وْ تُلِمَّ بِنَا؟ فَقَالَ: أَخْشَی أَ نْ أُمِلَّکِ، فَقَالَتْ: مَا کُنْتَ تَفْعَلُ؟ قَالَ: جِئْتُ أَ نْ أَ سْأَ لَکِ عَنْ آیَۃٍ فِی کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ کَیْفَ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقْرَؤُہَا؟ فَقَالَتْ: أَ یَّۃُ آیَۃٍ، فَقَالَ: {الَّذِینَیُؤْتُونَ مَا آتَوْا} أَ وْ {الَّذِینَیَأْتُونَ مَا أَ تَوْا} [المؤمنون: ۶۰] فَقَالَتْ: أَ یَّتُہُمَا أَ حَبُّ إِلَیْکَ؟ قَالَ: قُلْتُ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَإِحْدَاہُمَا أَ حَبُّ إِلَیَّ مِنْ الدُّنْیَا جَمِیعًا، أَوْ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا، قَالَتْ: أَ یَّتُہُمَا؟ قُلْتُ: {الَّذِینَیَأْتُونَ مَا أَ تَوْا} قَالَتْ: أَ شْہَدُ أَ نَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَذٰلِکَ کَانَ یَقْرَؤُہَا وَکَذٰلِکَ أُنْزِلَتْ، أَ وْ قَالَتْ: أَ شْہَدُ لَکَذٰلِکَ أُنْزِلَتْ وَکَذٰلِکَ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقْرَؤُہَا وَلٰکِنَّ الْہِجَائَ حَرْفٌ۔ (مسند احمد: ۲۵۱۴۸)
۔ ابو خلف عبید بن عمیرکے ساتھ ام المومنین سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس زمزم کے چبوترہ میں آئے، اس کے سوا اس وقت مسجد میں سایہ نہ تھا، سیدہ نے مرحبا اور خوش آمدید کہا اور کہا: ہماری ملاقات میں تمہیںکیا رکاوٹ ہے؟ عبید نے کہا: مجھے یہ اندیشہ رہتا ہے کہ میں آپ کو اکتاہٹ میں ڈال دوں گا،سیدہ نے کہا: کیسے آئے ہو؟ عبید نے کہا میں اس لئے آیا ہوں کہ آپ سے ایک آیت کے بارے میں سوال کرنا ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کیسے پڑھا کرتے تھے۔سیدہ نے کہا: وہ کونسی آیت ہے، اس نے کہا: {الَّذِینَیُؤْتُونَ مَا آتَوْا} یا {الَّذِینَیَأْتُونَ مَا أَ تَوْا}سیدہ نے کہا: تمہیں ان میں سے کونسی تلاوت زیادہ پسند ہے؟ عبید نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!ان میں سے ایک قرأت مجھے دنیا وما فیہا سے زیادہ پسند ہے، سیدہ نے کہا: وہ کونسی قرأت ہے؟ عبید نے کہا : {الَّذِینَیَأْتُونَ مَا أَ تَوْا} سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: میں گواہی دیتی ہوں کہ یہ آیت اسی طرح نازل ہوئی اور اسی طرح رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پڑھا کرتے تھے، لیکن حروف تہجی والی بھی ایک قرأت ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8684

۔ (۸۶۸۴)۔ عَنْ عَائِشَۃَ: أَ نَّہَا قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فِی ہٰذِہِ الْآیَۃِ {الَّذِینَیُؤْتُوْنَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُہُمْ وَجِلَۃٌ أَ نَّہُمْ إِلٰی رَبِّہِمْ رَاجِعُونَ} یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ہُوَ الَّذِییَسْرِقُ وَیَزْنِی وَیَشْرَبُ الْخَمْرَ وَہُوَیَخَافُ اللّٰہَ، قَالَ: ((لَا یَا بِنْتَ أَ بِی بَکْرٍ یَا بِنْتَ الصِّدِّیقِ! وَلٰکِنَّہُ الَّذِییُصَلِّی وَیَصُومُ وَیَتَصَدَّقُ وَہُوَ یُخَافُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ۔)) (مسند احمد: ۲۵۷۷۷)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ آیت: {الَّذِینَیُؤْتُوْنَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُہُمْ وَجِلَۃٌ أَ نَّہُمْ إِلٰی رَبِّہِمْ رَاجِعُونَ}… اور جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل کپکپاتے ہیں (سورۂ مومنون: ۶۰) میں نے کہا: (اے اللہ کے رسول!) کیا اس آیت کا مصداق وہ آدمی ہے، جو چوری کرنے والا، زنا کرنے والا اور شراب پینے والا ہو، جبکہ وہ ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے بھی ڈر رہا ہو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، اے بنت ِ صدیق! اس آیت سے مراد وہ آدمی ہے، جو نماز بھی پڑھتا ہے، روزے بھی رکھتا ہے اور صدقہ بھی کرتا ہے، لیکنیہ ڈر بھی ہوتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ اعمال قبول ہی نہ ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8685

۔ (۸۶۸۵)۔ عَنْ أَ بِی سَعِیدِ نِ الْخُدْرِیِّ، عَنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: {وَہُمْ فِیہَا کَالِحُوْنَ} [المؤمنون: ۱۰۴] قَالَ: ((تَشْوِیہِ النَّارُ فَتَقَلَّصُ شَفَتُہُ الْعُلْیَا حَتّٰی تَبْلُغَ وَسَطَ رَأْسِہِ، وَتَسْتَرْخِی شَفَتُہُ السُّفْلٰی حَتّٰی تَضْرِبَ سُرَّتَہُ۔)) (مسند احمد: ۱۱۸۵۸)
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: {تَلْفَحُ وُجُوْہَہُمُ النَّارُ وَہُمْ فِیْہَا کٰلِحُوْنَ۔}… ان کے چہروں کو آگ جھلسائے گی اور وہ اس میں تیوری چڑھانے والے ہوں گے۔ کی تفسیریہ ہے کہ آگ انہیں بھون ڈالے گی، اوپر والا ہونٹ سکڑ کر سرکے درمیان تک پہنچ جائے گا اور نیچے والا ہونٹ لٹک جائے گا، یہاں تک کہ ناف سے جا ٹکرائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8686

۔ (۸۶۸۶)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو: أَ نَّ رَجُلًا مِنْ الْمُسْلِمِینَ اسْتَأْذَنَ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی امْرَأَ ۃٍیُقَالُ لَہَا: أُمُّ مَہْزُولٍ، کَانَتْ تُسَافِحُ وَتَشْتَرِطُ لَہُ أَ نْ تُنْفِقَ عَلَیْہِ، وَأَ نَّہُ اسْتَأْذَنَ فِیہَا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَ وْ ذَکَرَ لَہُ أَ مْرَہَا، فَقَرَأَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : {الزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُہَا إِلَّا زَانٍ أَ وْ مُشْرِکٌ} قَالَ: أُنْزِلَتْ {الزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُہَا إِلَّا زَانٍ أَ وْ مُشْرِکٌ} [النور: ۳] قَالَ أَ بِی: قَالَ عَارِمٌ: سَأَ لْتُ مُعْتَمِرًا عَنْ الْحَضْرَمِیِّ، فَقَالَ: کَانَ قَاصًّا وَقَدْ رَأَ یْتُہُ۔ (مسند احمد: ۷۰۹۹)
۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک مسلمان آدمی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اجازت طلب کی کہ کیا وہ ام مہزول نامی ایک عورت سے نکاح کر سکتا ہے، یہ خاتون زناکار تھی اور اس نے اس سے شرط لگائی تھی کہ وہ اس پر خرچ کرے گا، جب اس آدمی نے اس عورت سے نکاح کرنے کی اجازت طلب کییا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے اس کا ذکر کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت پڑھی: {الزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُہَا إِلَّا زَانٍ أَ وْ مُشْرِکٌ} … زناکار عورت سے صرف زنا کار یامشرک مرد ہی نکاح کر سکتا ہے۔ عارم کہتے ہیں: میں معتمر سے حضرمی کے بارے میں پوچھا، انھوں نے کہا: وہ ایک قصہ گو آدمی تھا اور میں نے اس کو دیکھا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8687

۔ (۸۶۸۷)۔ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ سَہْلٍ أَ نَّہُ قَالَ: إِنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَ نْصَارِ جَائَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَ رَأَ یْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَ تِہِ رَجُلًا أَ یَقْتُلُہُ؟ قَالَ: فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِی شَأْنِہِ مَا ذُکِرَ فِی الْقُرْآنِ مِنْ التَّلَاعُنِ، فَقَالَ: ((قَدْ قُضِیَ فِیکَ وَفِی امْرَأَ تِکَ۔)) قَالَ: فَتَلَاعَنَا وَأَ نَا شَاہِدٌ، ثُمَّ فَارَقَہَا عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (مسند احمد: ۲۳۲۴۱)
۔ سیدنا سہل بن سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ انصار میں سے ایک آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اس بارے میں بتائیں کہ ایک آدمی اپنی بیوی کے پاس کسی غیر آدمی کو پا لیتا ہے، کیا وہ اسے قتل کردے؟ اُدھر اللہ تعالی نے اس بارے میں قرآن مجید میںلعان سے متعلقہ آیات ناز ل فرما دیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیرا اور تیری بیوی کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ پس ان دونوں میاں بیوی نے لعان کیا، جبکہ میں (سہل) وہاں موجود تھا، پھراس آدمی نے اس عورت کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی موجودگی میں جدا کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8688

۔ (۸۶۸۸)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فِیْ حَدِیْثِ الْاِفْکِ قَالَتْ: وَاللّٰہِ! مَا کُنْتُ أَ ظُنُّ أَ نْ یَنْزِلَ فِی شَأْنِی وَحْیٌیُتْلٰی وَلَشَأْنِی، کَانَ أَ حْقَرَ فِی نَفْسِی مِنْ أَ نْ یَتَکَلَّمَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیَّ بِأَ مْرٍ یُتْلٰی، وَلٰکِنْ کُنْتُ أَ رْجُو أَ نْ یَرٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی النَّوْمِ رُؤْیَایُبَرِّئُنِی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہَا، قَالَتْ: فَوَاللّٰہِ! مَا رَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ مَجْلِسِہِ، وَلَا خَرَجَ مِنْ أَ ہْلِ الْبَیْتِ أَ حَدٌ، حَتّٰی أَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی نَبِیِّہِ، وَأَ خَذَہُ مَا کَانَ یَأْخُذُہُ مِنْ الْبُرَحَائِ عِنْدَ الْوَحْیِ، حَتّٰی إِنَّہُ لَیَتَحَدَّرُ مِنْہُ مِثْلُ الْجُمَانِ مِنْ الْعَرَقِ فِی الْیَوْمِ الشَّاتِی مِنْ ثِقَلِ الْقَوْلِ الَّذِی أُنْزِلَ عَلَیْہِ، قَالَتْ: فَلَمَّا سُرِّیَ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یَضْحَکُ، فَکَانَ أَ وَّلُ کَلِمَۃٍ تَکَلَّمَ بِہَا أَ نْ قَالَ: ((أَ بْشِرِییَا عَائِشَۃُ! أَ مَّا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فَقَدْ بَرَّأَ کِ۔)) فَقَالَتْ لِی أُمِّی: قُومِی إِلَیْہِ، فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ! لَا أَ قُومُ إِلَیْہِ وَلَا أَ حْمَدُ إِلَّا اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ ہُوَ الَّذِی أَ نْزَلَ بَرَائَ تِی، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ {إِنَّ الَّذِینَ جَائُ وْا بِالْإِفْکِ عُصْبَۃٌ مِنْکُمْ} [النور: ۱۱] عَشْرَ آیَاتٍ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ہٰذِہِ الْآیَاتِ بَرَائَ تِی قَالَتْ: فَقَالَ أَ بُو بَکْرٍ: وَکَانَ یُنْفِقُ عَلٰی مِسْطَحٍ لِقَرَابَتِہِ مِنْہُ وَفَقْرِہِ: وَاللّٰہِ! لَا أُنْفِقُ عَلَیْہِ شَیْئًا أَ بَدًا بَعْدَ الَّذِی قَالَ لِعَائِشَۃَ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلَا یَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ} إِلٰی قَوْلِہِ: {أَلَا تُحِبُّوْنَ أَنْ یَغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ} [النور: ۲۲] فَقَالَ أَ بُو بَکْرٍ: وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأُحِبُّ أَ نْ یَغْفِرَ اللّٰہُ لِی، فَرَجَعَ إِلَی مِسْطَحٍ النَّفَقَۃَ الَّتِی کَانَ یُنْفِقُ عَلَیْہِ، وَقَالَ: لَا أَنْزِعُہَا مِنْہُ أَبَدًا، قَالَتْ عَائِشَۃُ: وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَأَ لَ زَیْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ زَوْجَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ أَ مْرِی: ((وَمَا عَلِمْتِ أَ وْ مَا رَأَ یْتِ أَ وْ مَا بَلَغَکِ؟۔)) قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَ حْمِی سَمْعِی وَبَصَرِی وَأَ نَا مَا عَلِمْتُ إِلَّا خَیْرًا، قَالَتْ عَائِشَۃُ: وَہِیَ الَّتِی کَانَتْ تُسَامِینِی مِنْ أَ زْوَاجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَعَصَمَہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِالْوَرَعِ، وَطَفِقَتْ أُخْتُہَا حَمْنَۃُ بِنْتُ جَحْشٍ تُحَارِبُ لَہَا فَہَلَکَتْ فِیمَنْ ہَلَکَ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شِہَابٍ: فَہَذَا مَا انْتَہَی إِلَیْنَا مِنْ أَ مْرِ ہٰؤُلَائِ الرَّہْطِ۔ (مسند احمد: ۲۶۱۴۱)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ حدیث الافک (یعنی بہتان والی بات) بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں: اللہ کی قسم! یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ میرے بارے میں وحی نازل ہو گی، میں اپنے اس معاملہ کو اس سے کم تر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالی خود اس کے بارے میں کلام کریں گے اور پھر اس کلام کی تلاوت کی جائے گی، ہاں یہ مجھے امید تھی کہ میرے بارے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خواب دیکھیں گے، جس کے ذریعے اللہ تعالی مجھے بری کر دیں گے، اللہ کی قسم! نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی نشست گاہ سے حرکت نہ کی تھی اور نہ ہی گھروالوں میں سے ابھی کوئی باہر گیا تھا کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی نازل کر دی اور وحی کے وقت سخت بوجھ کی وجہ سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پسینہ آنا شروع ہو گیا، سردی کے سخت دن میں بھی وحی کے نازل ہوتے وقت آپ کی پیشانی سے پسینہ موتیوں کی طرح گرتا تھا، اس وحی کے بوجھ کی وجہ سے، جو آپ پر نازل ہو رہی ہوتی تھی، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے وحی کے نازل ہونے کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرا رہے تھے، سب سے پہلے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وحی کے بعد جو بات کی، وہ یہ تھی: اے عائشہ! خوش ہوجائو، اللہ تعالیٰ نے تمہیں بری قرار دیا ہے۔ یہ سن کرمیری ماں نے کہا : عائشہ! کھڑی ہوجا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا شکریہ ادا کر۔ لیکن میں نے کہا:میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کھڑی نہیں ہوں گی، میں اپنے اس اللہ کی تعریف کروں گی، جس نے میری براء ت نازل کی ہے۔ پس اللہ تعالی نے یہ بات نازل کر دیں: {إِنَّ الَّذِینَ جَائُ وْا بِالْإِفْکِ عُصْبَۃٌ مِنْکُمْ} [النور: ۱۱] یہ کل دس آیات تھیں۔ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مسطح پر خرچ کیا کرتے تھے کیونکہ وہ فقیر تھااور ان کا رشتہ دار بھی تھا، اس نے بھی سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے بارے میں تہمت والی بات کر دی تھی، اس لیے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں اس پر آئندہ خرچ نہیں کروں گا، یہ اس حد تک چلا گیا ہے، لیکن اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کر دی: {وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔} … اور تم میں سے فضیلت اور وسعت والے اس بات سے قسم نہ کھالیں کہ قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دیں اور لازم ہے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمھیں بخشے اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ یہ آیت سن کر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں پسند کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے، پس انہوں نے جو مسطح کا خرچہ لگا رکھا تھا وہ دوبارہ جاری کر دیااورکہا اب میں اسے کبھی نہیں روکوں گا۔سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ زینب بنت حجش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے میرے معاملہ کے بارے میں سوال کیا کہ تم اس بارے میں کیا جانتی ہو؟ یا کیا سمجھتی ہو؟ یا تم کو کون سی بات پہنچی ہے؟‘ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اس بات سے اپنے کان اورآنکھ کو محفوظ رکھنا چاہتی ہوں! اللہ کی قسم، میری معلومات کے مطابق عائشہ میں خیر ہی خیر ہے۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: یہ سیدہ زینب ہی امہات المومنین میں سے میرا مقابلہ کرتی تھیں،لیکناللہ تعالی نے انہیں تقویٰ کی بدولت اس معاملے میں پڑنے سے بچا لیا اور ان کی بہن سیدہ حمنہ بنت حجش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اپنی بہن کے ساتھ عصبیت اختیار کی اور ہلاک ہونے والوں میں شامل ہوگئی۔ ابن شہاب کہتے ہیں: اس گرو ہ کے بارے میں ہمیں یہی کچھ معلوم ہو سکا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8689

۔ (۸۶۸۹)۔ عَنْ عُرْوَۃَ مِنْ حَدِیْثِ عَائِشَۃَ اَیْضًا قَالَ: لَمْ یُسَمَّ مِنْ أَ ہْلِ الْإِفْکِ إِلَّا حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ وَمِسْطَحُ بْنُ أُثَاثَۃَ وَحَمْنَۃُ بِنْتُ جَحْشٍ فِی نَاسٍ آخَرِینَ، لَا عِلْمَ لِی بِہِمْ إِلَّا أَ نَّہُمْ عُصْبَۃٌ، کَمَا قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ، وَإِنَّ کِبْرَ ذٰلِکَ کَانَ یُقَالُ عِنْدَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُبَیِّ ابْنِ سَلُولَ، قَالَ عُرْوَۃُ: وَکَانَتْ عَائِشَۃُ تَکْرَہُ أَنْ یُسَبَّ عِنْدَہَا حَسَّانُ، وَتَقُولُ إِنَّہُ الَّذِی قَالَ: فَإِنَّ أَ بِی وَوَالِدَہُ وَعِرْضِی لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَائُ۔ (مسند احمد: ۲۶۱۴۲)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ تہمت کی باتیں کرنے والوں میں حسان بن ثابت، مسطح بن اثاہ اور حمنہ بنت حجش کے نام لیے گئے، ان کے علاوہ اور لوگ بھی شامل تھے، لیکن مجھے ان کا علم نہیں ہے، بہرحال یہ ایک جماعت تھی، جیسا کہ اللہ تعالی نے ان آیات میں عُصْبَۃٌ لفظ استعمال کیا ہے۔ سب سے زیادہ حصہ عبد اللہ بن ابی بن سلول کا تھا، عروہ کہتے ہیں کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا یہ ناپسند کیا کرتی تھیں کہ ان کے ہاں سیدنا حسان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو برا بھلا کہا جائے، نیز وہ کہا کرتی تھیں کہ حسان تو وہ ہے، جس نے کہا تھا: پس بیشک میرا باپ اور اس (باپ) کا باپ اور میری عزت، محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عزت کو تم سے بچانے والی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8690

۔ (۸۶۹۰)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: رُمِیتُ بِمَا رُمِیتُ بِہِ وَأَ نَا غَافِلَۃٌ، فَبَلَغَنِی بَعْدَ ذٰلِکَ رَضْخٌ مِنْ ذٰلِکَ، فَبَیْنَمَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عِنْدِی إِذْ أُوحِیَ إِلَیْہِ، وَکَانَ إِذَا أُوحِیَ إِلَیْہِیَأْخُذُہُ شِبْہُ السُّبَاتِ، فَبَیْنَمَا ہُوَ جَالِسٌ عِنْدِی إِذْ أُنْزِلَ عَلَیْہِ الْوَحْیُ، فَرَفَعَ رَأْسَہُ وَہُوَ یَمْسَحُ عَنْ جَبِینِہِ، فَقَالَ: ((أَ بْشِرِییَا عَائِشَۃُ!۔)) فَقُلْتُ: بِحَمْدِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ لَا بِحَمْدِکَ، فَقَرَأَ {الَّذِینَیَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ} حَتّٰی بَلَغ {حَتّٰی بَلَغَ مُبَرَّئُ وْنَ مِمَّا یَقُولُوْنَ} [النور: ۴۔ ۲۶]۔ (مسند احمد: ۲۵۲۲۷)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: مجھ پر تہمت لگائی گئی، جبکہ مجھے خبر تک نہ تھی، اس کے بعد مجھے بات پہنچی تو تھی، لیکن اس پر یقین نہیں آتا تھا، ایک دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس تھے،اسی اثنا میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پروحی نازل ہونے لگی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ہلکی نیند غالب آنے لگی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا سر مبارک اٹھایا، اپنی پیشانی سے پسینہ صاف کیا اور فرمایا: اے عائشہ! خوش ہوجائو۔ میں نے کہا:اللہ تعالیٰ کی تعریف کے ساتھ، نہ کہ آپ کی تعریف کے ساتھ، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان آیات کی تلاوت کی: {الَّذِینَیَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ …… حَتَّی بَلَغَ مُبَرَّئُ وْنَ مِمَّا یَقُولُوْنَ}۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8691

۔ (۸۶۹۱)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: أَ یُّ الذَّنْبِ أَ کْبَرُ؟ قَالَ: ((أَ نْ تَجْعَلَ لِلّٰہِ نِدًّا وَہُوَ خَلَقَکَ۔)) قَالَ: ثُمَّ أَ یٌّ؟ قَالَ: ((ثُمَّ أَ نْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ مِنْ أَجْلِ أَ نْ یَطْعَمَ مَعَکَ۔)) قَالَ: ثُمَّ أَ یٌّ؟ قَالَ: ((ثُمَّ أَ نْ تُزَانِیَ بِحَلِیلَۃِ جَارِکَ۔)) قَالَ: فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ تَصْدِیقَ ذٰلِکَ فِی کِتَابِہِ: {وَالَّذِینَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ إِلَہًا آخَرَ} إِلٰی قَوْلِہِ: {وَمَنْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ أَثَامًا} [الفرقان: ۶۸]۔ (مسند احمد: ۳۶۱۲)
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا کہ کونسا گناہ سب سے بڑاہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کہ تو اللہ تعالیٰ کاشریک ٹھہرائے، حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ اس نے کہا: اس کے بعد کون ساگناہ بڑاہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائے گی۔ اس آدمی نے پھر کہا: اس کے بعدکونساگناہ بڑا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کہ تو اپنے ہمسائے کی بیوی کے ساتھ زنا کرے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ان باتوں کی تصدیق نازل کر دی اور فرمایا: {وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا۔} (سورۂ فرقان: ۶۸) اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ اس جان کو قتل کرتے ہیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ کرے گا وہ سخت گناہ کو ملے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8692

۔ (۸۶۹۲)۔ عَنْ مَعْدِی کَرِبَ قَالَ: أَ تَیْنَا عَبْدَ اللّٰہِ فَسَأَ لْنَاہُ أَ نْ یَقْرَأَ عَلَیْنَا {طسم} الْمِائَتَیْنِ فَقَالَ: مَا ہِیَ مَعِی وَلٰکِنْ عَلَیْکُمْ مَنْ أَ خَذَہَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَبَّابَ بْنَ الْأَ رَتِّ، قَالَ: فَأَ تَیْنَا خَبَّابَ بْنَ الْأَ رَتِّ فَقَرَأَ ہَا عَلَیْنَا۔ (مسند احمد: ۳۹۸۰)
۔ معدیکرب کہتے ہیں: ہم سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ ہمیں سورۂ {طسم} سنائیں، جودو سو آیتوں والی ہے۔ انہوں نے کہا: مجھے تو یہ سورت یاد نہیں ہے، البتہ تم سیدنا خباب بن ارت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس جاؤ، انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ سورت سیکھی ہے، پس ہم سیدنا خباب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گئے اور انھوں نے ہمیں یہ سورت سنائی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8693

۔ (۸۶۹۳)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا أَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزّ َوَجَلَّ {وَأَ نْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَ قْرَبِیْنَ} قَالَ: أَ تَی النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الصَّفَا، فَصَعِدَ عَلَیْہِ ثُمَّّ نَادٰییَا صَبَاحَاہْ! فَاجْتَمَعَ النَّاسُ اِلَیْہِ بَیْنَ رَجُلٍ یَجِیْئُ وَبَیْنَ رَجُلٍ یَبْعَثُ رَسُوْلَہُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَابَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ! یَابِنِیْ فِھْرٍ! یَابَنِیْ لُؤَیٍّ! أَ رَأَ یْتُمْ لَوْ اَخْبَرْتُکُمْ اَنَّ خَیْلًا بِسَفْحِ ھٰذَا الْجَبَلِ تُرِیْدُ اَنْ تُغِیْرَ عَلَیْکُمْ صَدَّقْتُمُوْنِیْ؟)) قَالُوْا: نَعَمْ، قَالَ: ((فَاِنِّی نَذِیْرٌ لَکُمْ بَیْنَیَدَیْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ۔)) فَقَالَ اَبُوْ لَھَبٍ: تَبًّا لَکَ سَائِرَ الْیَوْم!ِ اَمَا دَعَوْتَنَا اِلَّا لِھٰذَا؟ فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ {تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھَبٍ وَتَبَّ}۔ (مسند احمد: ۲۸۰۱)
۔ سیدنا عبدا للہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی: {وَأَ نْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَ قْرَبِیْنَ}… اور اپنے قریبی زیادہ رشتہ داروں کو ڈراؤ۔ تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صفا پہاڑی پر تشریف لائے اور اس پر چڑھ کر یہ آواز دی: یَا صَبَاحَاہْ! پس لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جمع ہو گئے، کوئی خود آ گیا اور کسی نے اپنا قاصد بھیج دیا، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے بنو عبد المطلب! اے بنو فہر! اے بنو لؤی! اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر میں تم کو یہ خبر دوں کہ اس پہاڑ کے دامن میں ایک لشکر ہے، وہ تم پر شبخون مارنا چاہتا ہے، تو کیا تم میری تصدیق کرو گے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر میں تم کو سخت عذاب سے پہلے ڈرانے والا ہوں۔ یہ سن کر ابو لہب نے کہا: سارا دن تجھ پر ہلاکت پڑتی رہے، کیا تو نے ہمیںصرف اس مقصد کے لیے بلایا تھا؟ اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی: {تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھَبٍ وَتَبَّ} … ابو لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہو گئے اور وہ خود بھی ہلاک ہو گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8694

۔ (۸۶۹۴)۔ عَنْ قَبِیصَۃَ بْنِ مُخَارِقٍ وَزُہَیْرِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {وَأَ نْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَ قْرَبِینَ} صَعِدَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَقْمَۃً مِنْ جَبَلٍ عَلٰی أَ عْلَاہَا حَجَرٌ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: اِنْطَلَقَ اِلٰی رَضْمَۃٍ مِنْ جَبَلٍ فَعَلَا اَعْلَاھَا) فَجَعَلَ یُنَادِی: ((یَا بَنِی عَبْدِ مَنَافٍ! إِنَّمَا أَ نَا نَذِیرٌ، إِنَّمَا مَثَلِی وَمَثَلُکُمْ کَرَجُلٍ رَأَی الْعَدُوَّ، فَذَہَبَ یَرْبَأُ أَ ہْلَہُ، فَخَشِیَ أَ نْ یَسْبِقُوہُ، فَجَعَلَ یُنَادِی، وَیَہْتِفُیَا صَبَاحَاہْ!۔)) (مسند احمد: ۱۶۰۰۹)
۔ سیدنا قبیصہ بن مخازق اور سیدنا زہیر بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی : {وَأَ نْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَ قْرَبِیْنَ}… اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ۔ تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پہاڑ کی سب سے بلند چٹان پر کھڑے ہوئے اور پکارنا شروع کر دیا: اے بنو عبد مناف! بے شک میں ڈرانے والا ہوں، یقینا میری اور تمہاریمثال اس آدمی کی مانند ہے، جو دشمن کو دیکھتا ہے اور اپنے گھر والوں کی حفاظت کی خاطر وہ ڈرتا ہے، لیکن جب وہ دیکھتا ہے کہ دشمن اس سے پہلے اس کے گھر والوں تک پہنچ جائے گا تو وہ وہیں سے پکارنا شروع کر دیتا ہے اور آواز دیتا ہے: یَا صَبَاحَاہْ!
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8695

۔ (۸۶۹۵)۔ عَنْ أَ بِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {وَأَ نْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَ قْرَبِینَ} [الشعرائ: ۲۱۴] دَعَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُرَیْشًا فَعَمَّ وَخَصَّ، (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: جَعَلَ یَدْعُوْ بُطُوْنَ قُرَیْشٍ بَطْنًا بَطْنًا) فَقَالَ: ((یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! أَ نْقِذُوْا أَ نْفُسَکُمْ مِنْ النَّارِ، یَا مَعْشَرَ بَنِی کَعْبِ بْنِ لُؤَیٍّ! أَ نْقِذُوا أَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ، یَا مَعْشَرَ بَنِی عَبْدِ مَنَافٍ! أَ نْقِذُوا أَ نْفُسَکُمْ مِنْ النَّارِ، یَا مَعْشَرَ بَنِی ہَاشِمٍ! أَ نْقِذُوْا أَ نْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ، یَابَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ! أَ نْقِذُوْا أَ نْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ، یَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ! أَ نْقِذِی نَفْسَکِ مِنَ النَّارِ، فَإِنِّی وَاللّٰہِ مَا أَ مْلِکُ لَکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا إِلَّا أَ نَّ لَکُمْ رَحِمًا سَأَ بُلُّہَا بِبِلَالِہَا۔)) (مسند احمد: ۸۳۸۳)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: {وَأَ نْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَ قْرَبِیْنَ}… اور اپنے زیادہ قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ۔ تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قریش کو عام ندا دی اور پھر خاص آواز دی، ایک روایت میں ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قریش کے ایک ایک قبیلے کو بلانا شروع کیا اور فرمایا: اے قریش کے گروہ ! اپنی جانوں کو دوزخ سے بچالو، اے بنو ہاشم! خود کو دوزخ سے بچالو، اے بنو عبدالمطلب! اپنی جانوں کو دوزخ سے بچا لو، اے فاطمہ بنت محمد! اپنی جان دوزخ سے بچا لے، اللہ کی قسم! میں تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی اختیار نہیں رکھتا، ہاں ہاں تمہارے ساتھ رشتہ داری ہے،میں اس کو تر رکھوں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8696

۔ (۸۶۹۶)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتْ {وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ} [الشعرائ: ۲۱۴] قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ: ((یَافَاطِمَۃُ! یَا بِنْتَ مُحَمَّدٍ،یَا صَفِیَّۃُ بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلَبِ،یَا بَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلَبِ، لَااَمْلِکُ لَکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا، سَلُوْنِیْ مِنْ مَالِیْ مَاشِئْتُمْ۔)) (مسند احمد: ۲۵۵۵۸)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: {وَأَ نْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَ قْرَبِیْنَ}… اور اپنے زیادہ قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے فاطمہ! اے بنت ِ محمد! اے صفیہ بنت عبد المطلب! اے بنو عبد المطلب! میں اللہ تعالی کے ہاں تمہارے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں، ہاں میرے مال سے جو چاہتے ہو سوال کر لو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8697

۔ (۸۶۹۷)۔ عَنْ أَ بِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعَمِّہِ: ((قُلْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ أَ شْھَدُکَ بِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) قَالَ: لَوْلَا أَ نْ تُعَیِّرَنِیْ قُرَیْشٌیَقُوْلُوْنَ: اِنَّمَا حَمَلَہُ عَلٰی ذٰلِکَ الْجَزْعُ، لَأَ قْرَرْتُ بِھَا عَیْنَکَ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ {اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ} [القصص: ۵۶] الْآیَۃ۔ (مسند احمد: ۹۶۰۸)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے چچے سے فرمایا: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُکہہ دو، میں قیامت کے روز اس کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دوں گا۔ لیکن انھوں نے کہا: اگر قریشی مجھے عار دلاتے ہوئے یہ نہ کہتے کہ بے صبری نے ابو طالب کو یہکلمہ پڑھنے پر آمادہ کر دیا ہے تو میں یہ کلمہ ادا کر کے آپ کی آنکھ کو ٹھنڈا کر دیتا، پھر اللہ تعالی نے یہ وحی اتاری: {اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَائُ وَہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ۔} … بے شک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو دوست رکھے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8698

۔ (۸۶۹۸)۔ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ أَ بِی صَالِحٍ مَوْلَی أُمِّ ہَانیِئٍ، عَنْ أُمِّ ہَانِیئٍ، قَالَتْ: سَأَ لْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ قَوْلِہِ تَعَالَی: {وَتَأْتُونَ فِی نَادِیکُمْ الْمُنْکَرَ} قَالَ:(( کَانُوْا یَخْذِفُوْنَ أَ ہْلَ الطَّرِیقِ، وَیَسْخَرُونَ مِنْہُمْ، فَذٰلِکَ الْمُنْکَرُ الَّذِی کَانُوْا یَأْتُونَ۔)) قَالَ: روح: فَذٰلِکَ قَوْلُہُ تَعَالٰی: {وَتَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْکُمُ الْمُنْکَرَ} [العنکبوت: ۲۹]۔ (مسند احمد: ۲۷۴۲۹)
۔ سیدہ ام ہانی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس آیت کے بارے میں پوچھا: {وَتَأْتُونَ فِی نَادِیکُمُ الْمُنْکَرَ}… (اے قوم لوط!) تم اپنی مجلسوں میں برائی کو آتے ہو۔ اس کی تفسیر کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ راہ گزرنے والوں کو پتھر مارتے تھے، ان سے ٹھٹھا مذاق کرتے تھے، یہ وہ برائی ہے، جس کا وہ اپنی مجلسوں میں ارتکاب کرتے تھے۔ روح راوی نے کہا: یہ صورت اللہ تعالی کے اس فرمان کا مصداق ہے: {وَتَأْتُونَ فِی نَادِیکُمُ الْمُنْکَرَ}
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8699

۔ (۸۶۹۹)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِہِ: {الم غُلِبَتْ الرُّومُ} قَالَ: غُلِبَتْ وَغَلَبَتْ، قَالَ: کَانَ الْمُشْرِکُونَ یُحِبُّونَ أَ نْ تَظْہَرَ فَارِسُ عَلَی الرُّومِ لِأَ نَّہُمْ أَ ہْلُ أَ وْثَانٍ، وَکَانَ الْمُسْلِمُونَ یُحِبُّونَ أَ نْ تَظْہَرَ الرُّومُ عَلٰی فَارِسَ لِأَ نَّہُمْ أَ ہْلُ کِتَابٍ، فَذَکَرُوہُ لِأَ بِی بَکْرٍ فَذَکَرَہُ أَ بُو بَکْرٍ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَ مَا إِنَّہُمْ سَیَغْلِبُونَ۔)) قَالَ: فَذَکَرَہُ أَ بُو بَکْرٍ لَہُمْ، فَقَالُوْا: اجْعَلْ بَیْنَنَا وَبَیْنَکَ أَ جَلًا فَإِنْ ظَہَرْنَا کَانَ لَنَا کَذَا وَکَذَا، وَإِنْ ظَہَرْتُمْ کَانَ لَکُمْ کَذَا وَکَذَا، فَجَعَلَ أَ جَلًا خَمْسَ سِنِینَ فَلَمْ یَظْہَرُوْا، فَذَکَرَ ذَلِکَ أَ بُو بَکْرٍ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((أَ لَا جَعَلْتَہَا إِلٰی دُونَ؟)) قَالَ: أُرَاہُ قَالَ الْعَشْرِ، قَالَ: قَالَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ: الْبِضْعُ مَا دُونَ الْعَشْرِ، ثُمَّ ظَہَرَتِ الرُّومُ بَعْدُ، قَالَ: فَذٰلِکَ قَوْلُہُ {الم غُلِبَتِ الرُّومُ} إِلٰی قَوْلِہِ: {وَیَوْمَئِذٍیَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ} قَالَ: یَفْرَحُونَ {بِنَصْرِ اللّٰہِ}۔ (مسند احمد: ۲۴۹۵)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما اللہ تعالی کے اس فرمان {الٓمٓ غُلِبَتْ الرُّومُ} کے بارے میں کہتے ہیں: پہلے رومی مغلوب ہو گئے، پھر وہ غالب آ گئے، مشرکوں کو یہ بات پسند تھی کہ فارس والے رومیوںپر غالب آ جائیں، کیونکہ وہ بھی بت پرست تھے اور یہ بھی بت پرست تھے، لیکن مسلمان یہ چاہتے تھے کہ روم والے فارسیوںپرغالب آجائیں کیونکہ رومی اہل کتاب تھے، جب سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اس کا ذکر ہواتو انہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کیا،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ عنقریب غالب آ جائیں گے۔ جب سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ بات مشرکوں کو بتائی کہ رومی عنقریب غالب آئیں گے توانہوں نے کہا: تم ہم سے مدت مقرر کرو اور اگر ہم (شرک والے) غالب آ گئے تو ہمارے لیے اتنا اتنا مال ہو گا اور تم (کتاب والے) غالب آ گئے تو تمہیں اتنا اتنا مال دیا جائے گا، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پانچ سال کی مدت مقرر کر دی، لیکن اس عرصے میں رومی غالب نہ آ سکے، پھر جب سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس شرط کا ذکر کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے اس سے زیادہ مدت کیوں نہیں رکھی۔ راوی کہتا ہے: میرا خیال ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دس سال کی بات کی تھی، سعید بن جبیر کہتے ہیں: بِضْع اطلاق دس سے کم پر ہوتا ہے، پھر اس کے بعد رومی غالب آ گئے، اسی کے بارے میں اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: {الٓمّٓ۔ غُلِبَتِ الرُّوْمُ۔ فِیْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَہُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُوْنَ۔ فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ لِلّٰہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ وَیَوْمَیِذٍیَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ } … رومی مغلوب ہوگئے۔ سب سے قریب زمین میں اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آئیں گے۔ چند سالوں میں، سب کام اللہ ہی کے اختیار میں ہے، پہلے بھی اور بعد میں بھی اور اس دن مومن خوش ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8700

۔ (۸۷۰۰)۔ عَنْ سَعْدِ بْنِ اَبِیْ وَقَّاصٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ وَقَالَتْ أُمِّی: أَ لَیْسَ اللّٰہُ یَأْمُرُکَ بِصِلَۃِ الرَّحِمِ وَبِرِّ الْوَالِدَیْنِ؟ وَاللّٰہِ! لَا آکُلُ طَعَامًا وَلَا أَ شْرَبُ شَرَابًا حَتّٰی تَکْفُرَ بِمُحَمَّدٍ، فَکَانَتْ لَا تَأْکُلُ حَتّٰییَشْجُرُوْا فَمَہَا بِعَصًا فَیَصُبُّوا فِیہِ الشَّرَابَ، قَالَ شُعْبَۃُ: وَأُرَاہُ قَالَ: وَالطَّعَامَ، فَأُنْزِلَتْ: {وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ أُمُّہُ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ} وَقَرَأَ حَتّٰی بَلَغَ: {بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ} [لقمان: ۱۴۔۱۵]۔ (مسند احمد: ۱۵۶۷)
۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میری والدہ نے مجھ سے کہا: کیا تجھے اللہ تعالیٰ نے صلہ رحمی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم نہیں دیا، اللہ کی قسم! نہ میں کھائوں گی اور نہ پانی کا گھونٹ پیوں گی، جب تک تو محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انکار نہیں کرے گا، پھر واقعتاً میری والدہ نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا، یہاں تک کہ لکڑی کے ذریعے اس کا منہ کھولا جاتا اورزبردستی اس کے منہ میں پانی ڈالتے، پس یہ آیت نازل ہوئی: {وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ وَّفِصٰلُہ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ۔ وَاِنْ جَاہَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖعِلْمٌفَلَاتُطِعْہُمَاوَصَاحِبْہُمَافِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔} (سورۂ لقمان: ۱۴،۱۵) اور حقیقتیہ ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے اسے ضعف پر ضعف اٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کے دودھ چھوٹنے میں لگے۔ (اسی لیےہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔لیکن وہ اگر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان۔ دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا رہ مگر پیروی اس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے۔ پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے،اس وقت میں تمہیں بتا دوں گا کہ کیسے عمل کرتے رہے ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8701

۔ (۸۷۰۱)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِیْ حَدِیْثِ جِبْرِیْلَ علیہ السلام اَنَّہٗقَالَلِلنَّبِیِّٓ: فَحَدِّثْنِی مَتَی السَّاعَۃُ؟ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((سُبْحَانَ اللّٰہِ فِی خَمْسٍ مِنْ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہُنَّ إِلَّا ہُوَ {إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْأَ رْحَامِ وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ بِأَ یِّ أَ رْضٍ تَمُوتُ، إِنَّ اللّٰہَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ} [لقمان: ۳۴]۔ (مسند احمد: ۲۹۲۶)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کی جبریل علیہ السلام والی حدیث میں آتا ہے کہ جبریل علیہ السلام نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: مجھے بتائو کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! (بڑا تعجب ہے)، غیب کی پانچ چیزیں صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت پڑھی: {إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْأَ رْحَامِ وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ بِأَ یِّ أَ رْضٍ تَمُوتُ، إِنَّ اللّٰہَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ}… قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پا رہا ہے، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کی موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8702

۔ (۸۷۰۲)۔ عَنْ بُرَیْدَۃَ الْاَسْلَمِیِّ قَالَ: سَعِمْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((خَمْسٌ لَا یَعْلَمَہُنَّ اِلَّا اللّٰہُ تَعَالٰی: {إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْأَ رْحَامِ وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ بِأَ یِّ أَ رْضٍ تَمُوتُ، إِنَّ اللّٰہَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ}… [لقمان: ۳۴]۔ (مسند احمد: ۲۳۳۷۴)
۔ سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پانچ چیزوں کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے: {إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْأَ رْحَامِ وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِینَفْسٌ بِأَ یِّ أَ رْضٍ تَمُوتُ، إِنَّ اللّٰہَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ}… بے شک اللہ، اسی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہ بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا، پوری خبر رکھنے والا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8703

۔ (۸۷۰۳)۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : {تَتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ} [السجدۃ: ۱۶] قَالَ: ((قَیَامُ الْعَبْدِ مِنَ اللَّیْلِ۔)) (مسند احمد: ۲۲۳۷۲)
۔ سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی: {تَـتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا ْ وَّمِـمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ۔} … ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور طمع کرتے ہوئے پکارتے ہیں اور ہم نے انھیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس سے مراد بندے کا رات کو قیام کرنا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8704

۔ (۸۷۰۴)۔ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ فِی ہٰذِہِ الْآیَۃِ: {وَلَنُذِیقَنَّہُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَ دْنٰی دُونَ الْعَذَابِ الْأَ کْبَرِ} [السجدۃ: ۲۱] قَالَ: الْمُصِیبَاتُ وَالدُّخَانُ قَدْ مَضَیَا وَالْبَطْشَۃُ وَاللِّزَامُ۔ (مسند احمد: ۲۱۴۹۲)
۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ اس آیت {وَلَنُذِیْـقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ۔} … اور یقینا ہم انھیں قریب ترین عذاب کا کچھ حصہ سب سے بڑے عذاب سے پہلے ضرور چکھائیں گے، تاکہ وہ پلٹ آئیں۔ سے مراد مختلف مصائب ہیں، دھواں، بطشہ، لزام، یہ سب گزر چکے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8705

۔ (۸۷۰۵)۔ عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَ بِی ظَبْیَانَ: أَ نَّ أَ بَاہُ حَدَّثَہُ قَالَ: قُلْنَا لِابْنِ عَبَّاسٍ: أَ رَأَ یْتَ قَوْلَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ: {مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَیْنِ فِی جَوْفِہِ} [الأحزاب: ۴] مَا عَنٰی بِذٰلِکَ؟ قَالَ: قَامَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمًایُصَلِّی قَالَ: فَخَطَرَ خَطْرَۃً، فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ الَّذِینَیُصَلُّونَ مَعَہُ: أَ لَا تَرَوْنَ لَہُ قَلْبَیْنِ، قَالَ: قَلْبٌ مَعَکُمْ،وَقَلَبٌ مَعَہُمْ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَیْنِ فِی جَوْفِہِ}۔ (مسند احمد: ۲۴۱۰)
۔ ابو ظبیان کہتے ہیں: ہم نے سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے کہا: آپ بتائیں کہ اللہ تعالی کے اس فرمان کا کیا مطلب ہے: {مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَیْنِ فِی جَوْفِہِ}… اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی کے پیٹ میں دو دل نہیں بنائے۔ اس سے کیا مراد ہے؟ انھوں نے کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک دن نماز پڑھ رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو وسوسہ ہوا، جو منافق آپ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے، انھوں نے کہا: آپ کے دو دل ہیں، ایک تمہارے یعنی منافقوں کے ساتھ اور ایک اپنے صحابہ کے ساتھ، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی کہ {مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَیْنِ فِی جَوْفِہِ}۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8706

۔ (۸۷۰۶)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ حَارِثَۃَ الْکَلْبِیِّ مَوْلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ کَانَ یَقُوْلُ: مَا کُنَّا نَدْعُوْہٗاِلَّازَیْدَ بْنَ مُحَمَّدٍ حَتّٰی نَزَلَ الْقُرْاٰنُ: {اُدْعُوْھُمْ لِآبَائِہِمْ ھُوَاَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ} [الأحزاب: ۵]۔ (مسند احمد: ۵۴۷۹)
۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ہم زید بن حارثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو زید بن محمد پکارا کرتے تھے، یہاں تک کہ قرآن مجید کا یہ حصہ نازل ہوا: {اُدْعُوْھُمْ لِآبَائِہِمْ ھُوَاَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ} … تم ان کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ تعالی کے ہاں زیادہانصاف کی بات ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8707

۔ (۸۷۰۷)۔ عَنْ ثَابِتٍ قَالَ: قَالَ أَ نَسٌ: عَمِّی أَ نَسُ بْنُ النَّضْرِ، سُمِّیتُ بِہِ، لَمْ یَشْہَدْ مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ بَدْرٍ، قَالَ: فَشَقَّ عَلَیْہِ، وَقَالَ: فِی أَ وَّلِ مَشْہَدٍ شَہِدَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غِبْتُ عَنْہُ، لَئِنْ أَ رَانِی اللّٰہُ مَشْہَدًا فِیمَا بَعْدُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیَرَیَنَّ اللّٰہُ مَا أَصْنَعُ، قَالَ: فَہَابَ أَ نْ یَقُولَ غَیْرَہَا، قَالَ: فَشَہِدَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ أُحُدٍ، قَالَ: فَاسْتَقْبَلَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ أَنَسٌ: یَا أَ بَا عَمْرٍو! أَ یْنَ؟ قَالَ: وَاہًا لِرِیحِ الْجَنَّۃِ أَ جِدُہُ دُونَ أُحُدٍ، قَالَ: فَقَاتَلَہُمْ حَتَّی قُتِلَ فَوُجِدَ فِی جَسَدِہِ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ مِنْ ضَرْبَۃٍ وَطَعْنَۃٍ وَرَمْیَۃٍ، قَالَ: فَقَالَتْ أُخْتُہُ عَمَّتِی الرُّبَیِّعُ بِنْتُ النَّضْرِ: فَمَا عَرَفْتُ أَ خِی إِلَّا بِبَنَانِہِ، وَنَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْہُمْ مَنْ قَضٰی نَحْبَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیلًا} [الأحزاب: ۲۳] قَالَ: فَکَانُوْا یَرَوْنَ أَ نَّہَا نَزَلَتْ فِیہِ وَفِی أَصْحَابِہِ۔ (مسند احمد: ۱۳۰۴۶)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میرے چچا سیدنا انس بن نضر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بدر کے دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ حاضر نہ ہوئے تھے، اسی چچا کے نام پر میرا نام بھی انس رکھا گیا، اس کا انہیں بہت قلق تھا، وہ کہا کرتے تھے: بدر پہلا معرکہ تھا، جس میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حاضر ہوئے اور میں حاضر نہ ہو سکا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی اور معرکے کا موقع دیا تو وہ دیکھے گا کہ میں کرتا کیا ہوں، پھر وہ مزید کوئی دعوی کرنے سے ڈر گئے، پھر سیدنا انس بن نضر احد کے دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ شریک ہوئے، سیدنا سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سامنے آرہے تھے،سیدنا انس بن نضر نے ان سے کہا : ابو عمرو! کہاں جا رہے ہو؟ انھوں نے کہا: آہ، میں احد کی جانب سے جنت کی خوشبو پا رہا ہوں۔پھر سیدنا انس لڑتے رہے، یہاں تک کہ شہید ہوگئے، ان کے جسم میں تلوار، نیزے اور تیر کے اسی (۸۰) سے زائد زخم آئے تھے۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ان کی بہن یعنی میری پھوپھی ربیع بنت نضر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اپنے بھائی کو پوروں سے پہچانا تھا کہ یہ ان کے بھائی ہیں، پس یہ آیت نازل ہوئی: {رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْہُمْ مَنْ قَضٰی نَحْبَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیلًا} … کچھ مرد ایسے ہیں کہ انہوں نے اپنے اللہ سے جو عہد کیا تھا، وہ سچا کر دکھایا، پس ان میں سے بعض وہ ہیں، جنہوں نے اپنی نذر کو پورا کر دیا اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو انتظار کررہے ہیں اور انہوں نے اپنے وعدوں میں ذرہ برابر تبدیلی نہیںکی۔ صحابہ کا یہی خیال تھا کہ یہ آیت سیدنا انس بن نضر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے ساتھیوں (جیسے سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) کے بارے میں نازل ہوئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8708

۔ (۸۷۰۸)۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: أَ قْبَلَ أَ بُو بَکْرٍ یَسْتَأْذِنُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَالنَّاسُ بِبَابِہِ جُلُوسٌ فَلَمْ یُؤْذَنْ لَہُ، ثُمَّ أَ قْبَلَ عُمَرُ فَاسْتَأْذَنَ فَلَمْ یُؤْذَنْ لَہُ، ثُمَّ أُذِنَ لِأَ بِی بَکْرٍ وَعُمَرَ فَدَخَلَا، وَالنَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَالِسٌ وَحَوْلَہُ نِسَاؤُہُ وَہُوَ سَاکِتٌ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: لَأُکَلِّمَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَعَلَّہُ یَضْحَکُ، فَقَالَ عُمَرُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! لَوْ رَأَ یْتَ بِنْتَ زَیْدٍ امْرَأَ ۃَ عُمَرَ فَسَأَ لَتْنِی النَّفَقَۃَ آنِفًا فَوَجَأْتُ عُنُقَہَا، فَضَحِکَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی بَدَا نَوَاجِذُہُ، قَالَ: ((ہُنَّ حَوْلِی کَمَا تَرٰییَسْأَلْنَنِی النَّفَقَۃَ۔)) فَقَامَ أَ بُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلٰی عَائِشَۃَ لِیَضْرِبَہَا، وَقَامَ عُمَرُ إِلٰی حَفْصَۃَ، کِلَاہُمَایَقُولَانِ: تَسْأَ لَانِ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا لَیْسَ عِنْدَہُ، فَنَہَاہُمَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَ نِسَاؤُہُ: وَاللّٰہِ! لَا نَسْأَ لُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْدَ ہٰذَا الْمَجْلِسِ مَا لَیْسَ عِنْدَہُ، قَالَ: وَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ:الْخِیَارَ، فَبَدَأَ بِعَائِشَۃَ فَقَالَ: ((إِنِّی أُرِیدُ أَ نْ أَ ذْکُرَ لَکِ أَ مْرًا، مَا أُحِبُّ أَنْ تَعْجَلِی فِیہِ حَتّٰی تَسْتَأْمِرِی أَبَوَیْکِ۔))، قَالَتْ: مَا ہُوَ؟ قَالَ فَتَلَا عَلَیْہَا: {یَا أَ یُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِأَ زْوَاجِکَ} الْآیَۃَ [الأحزاب: ۲۸] قَالَتْ عَائِشَۃُ: أَ فِیکَ أَ سْتَأْمِرُ أَ بَوَیَّ بَلْ أَخْتَارُ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ، وَأَ سْأَ لُکَ أَ نْ لَا تَذْکُرَ لِامْرَأَ ۃٍ مِنْ نِسَائِکَ مَا اخْتَرْتُ، فَقَالَ: ((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ یَبْعَثْنِی مُعَنِّفًا وَلٰکِنْ بَعَثَنِی مُعَلِّمًا مُیَسِّرًا، لَا تَسْأَ لُنِی امْرَأَ ۃٌ مِنْہُنَّ عَمَّا اخْتَرْتِ إِلَّا أَ خْبَرْتُہَا۔)) حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا زَکَرِیَّا حَدَّثَنَا أَ بُو الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ فَذَکَرَ نَحْوَہُ إِلَّا أَ نَّہُ قَالَ: حَوْلَہُ نِسَاؤُہُ وَاجِمٌ، وَقَالَ: لَمْ یَبْعَثْنِی مُعَنِّتًا أَ وْ مُفَتِّنًا۔ (مسند احمد: ۱۴۵۶۹)
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اورآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، لوگ آپ کے درازے پر بیٹھے ہوئے تھے، سیدنا ابو بکر کو اجازت نہ ملی، پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور انہوں نے اجازت طلب کی، لیکن ان کو بھی اجازت نہیں ملی، پھر سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دونوں کو اجازت مل گئی،یہ دونوں آپ کے پاس اندر داخل ہوئے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیٹھے ہوئے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ارد گرد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیویاں تھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش تھے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا :میں ضرور بر ضرور ایسی بات کروں گا، جس سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرائیں گے، پھر انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کاش آپ دیکھتے، جب میری بیوی بنت زید نے مجھ سے خرچ کا مطالبہ کرے تو میں نے اس کی گردن پر گھونسا دے مارا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی داڑھیں ظاہر ہونے لگیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ میری بیویاں بھی، جیساکہ تم دیکھ رہے ہو، خرچ کا سوال کرنے کے لیے میرے ارد گرد جمع ہوئی ہیں۔ یہ سن کر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو مارنے کے لئے اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ،سیدنا حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے مارنے کے لئے کھڑے ہوئے اور دونوں نے ان سے کہا: تم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس چیز کا مطالبہ کر رہی ہو، جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس نہیں ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیویوں نے کہا: اللہ کی قسم! آج کے بعد ہم آپ سے وہ مطالبہ نہیں کریں گے، جو آپ کے بس میں نہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے وہ آیات اتاریں جن میں اختیار کی اجازت تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سب سے پہلے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے کہا: میں تم سے ایک بات کرنے لگا ہوں، اپنے والدین سے مشورہ کئے بغیر جواب دینے میں جلد بازی نہ کرنا۔ انہوں نے کہا: وہ کیا ہے؟ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اختیار والی آیت تلاوت: {یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ … …۔))یہ سن کر سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اچھا کیا میں آپ کے بارے میں اپنے ماں باپ سے مشورہ کروں، میں تواللہ تعالیٰ اوراس کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اختیارکرتی ہوں اور میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ میرے اس اختیار کا آپ اپنی کسی دوسری بیوی سے ذکر نہ کریں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے مشقت میں ڈالنے کے لئے نہیں بھیجا، مجھے آسانی کرنے والا اور سکھانے والا بنا کر بھیجا ہے، میری کوئی بھی بیوی اگر اختیار کے متعلق پوچھے گی، تو میں اس کو یہ تفصیل ضرور بتائوں گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8709

۔ (۸۷۰۹)۔ عَنْ أَ بِی سَلَمَۃَ: أَ نَّ عَائِشَۃَ قَالَتْ: لَمَّا أُمِرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِتَخْیِیرِ أَزْوَاجِہِ بَدَأَ بِی فَقَالَ: ((یَا عَائِشَۃُ! إِنِّی أَذْکُرُ لَکِ أَ مْرًا وَلَا عَلَیْکِ أَ نْ لَا تَسْتَعْجِلِی حَتّٰی تُذَاکِرِی أَ بَوَیْکِ۔)) قَالَتْ: وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ أَ بَوَیَّ لَمْ یَکُونَا لِیَأْمُرَانِی بِفِرَاقِہِ، ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ: {یَا أَ یُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِأَ زْوَاجِکَ إِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا وَزِینَتَہَا} حَتّٰیبَلَغَ: {أَ عَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْکُنَّ أَ جْرًا عَظِیمًا} [الأحزاب: ۲۸۔ ۲۹] فَقُلْتُ: فِی أَ یِّ ہٰذَا أَسْتَأْمِرُ أَ بَوَیَّ؟ فَإِنِّی قَدِ اخْتَرْتُ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ وَالدَّارَ الْآخِرَۃَ، قَالَتْ: ثُمَّ فَعَلَ أَزْوَاجُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا فَعَلْتُ، وَفِیْ لَفْظٍ: فَقُلْتُ: قَدِ اخْتَرْتُ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ،قَالَتْ: فَرِحَلِذٰلِکَرَسُوْلُاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۶۶۳۷)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیویوں کو اختیار دیں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سب نے سے پہلے مجھ سے کہا: اے عائشہ! میں آپ سے ایک معاملہ بیان کرنے لگا ہوں، اپنے ماں باپ سے ذکر کئے بغیر جلد بازی سے اس کا جواب نہ دینا۔ جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو علم تھا کہ میرے والدین مجھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جدا ہونے کا حکم نہیں دیں گے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی نے فرمایا ہے: {یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَہَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَاُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا۔ وَاِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْکُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۔} … اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دے اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کا ارادہ رکھتی ہو تو آؤ میں تمھیں کچھ سامان دے دوں اور تمھیں رخصت کردوں، اچھے طریقے سے رخصت کرنا۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخری گھر کا ارادہ رکھتی ہو تو بے شک اللہ نے تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔ میں نے کہا: کیا میں اس بارے میں والدین سے مشورہ کروں؟ میں نے اللہ تعالیٰ،اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو پسند کیا ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس سے خوش ہو گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8710

۔ (۸۷۱۰)۔ عَنْ عَطَائِ بْنِ أَ بِی رَبَاحٍ قَالَ: حَدَّثَنِی مَنْ سَمِعَ أُمَّ سَلَمَۃَ، تَذْکُرُ أَ نَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ فِی بَیْتِہَا فَأَ تَتْہُ فَاطِمَۃُ بِبُرْمَۃٍ فِیہَا خَزِیرَۃٌ فَدَخَلَتْ بِہَا عَلَیْہِ فَقَالَ لَہَا: ((اُدْعِیْ زَوْجَکِ وَابْنَیْکِ۔)) قَالَتْ: فَجَائَ عَلِیٌّ وَالْحُسَیْنُ وَالْحَسَنُ فَدَخَلُوْا عَلَیْہِ فَجَلَسُوْا یَأْکُلُونَ مِنْ تِلْکَ الْخَزِیرَۃِ، وَہُوَ عَلٰی مَنَامَۃٍ لَہُ عَلٰی دُکَّانٍ تَحْتَہُ کِسَائٌ لَہُ خَیْبَرِیٌّ، قَالَتْ: وَأَ نَا أُصَلِّی فِی الْحُجْرَۃِ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ہٰذِہِ الْآیَۃَ: {إِنَّمَا یُرِیدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَ ہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا} [الأحزاب: ۳۳] قَالَتْ فَأَ خَذَ فَضْلَ الْکِسَائِ فَغَشَّاہُمْ بِہِ ثُمَّ أَ خْرَجَ یَدَہُ فَأَ لْوٰی بِہَا إِلَی السَّمَائِ ثُمَّ قَالَ: ((اَللّٰہُمَّ ہٰؤُلَائِ أَ ہْلُ بَیْتِی وَخَاصَّتِی فَأَذْہِبْ عَنْہُمُ الرِّجْسَ وَطَہِّرْہُمْ تَطْہِیرًا، اَللّٰہُمَّ ہٰؤُلَائِ أَ ہْلُ بَیْتِی وَخَاصَّتِی فَأَ ذْہِبْ عَنْہُمُ الرِّجْسَ وَطَہِّرْہُمْ تَطْہِیرًا۔)) قَالَتْ: فَأَ دْخَلْتُ رَأْسِی الْبَیْتَ فَقُلْتُ: وَأَ نَا مَعَکُمْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ إِنَّکِ إِلٰی خَیْرٍ إِنَّکِ إِلٰی خَیْرٍ۔))، قَالَ عَبْدُ الْمَلِکِ: وَحَدَّثَنِی أَ بُو لَیْلٰی عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ مِثْلَ حَدِیثِ عَطَائٍ سَوَائً، قَالَ عَبْدُ الْمَلِکِ: وَحَدَّثَنِی دَاوُدُ بْنُ أَ بِی عَوْفٍ أَ بُو الْحَجَّافِ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ بِمِثْلِہِ سَوَائً۔ (مسند احمد: ۲۷۰۴۱)
۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے گھر میں تشریف فرما تھے، سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ایک ہنڈیا لے کرآئیں، جس میں گوشت سے تیار شدہ خریزہ (ایک کھانا جوقیمہ اور آٹے سے تیار کیا جاتا ہے) تھا، جب وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس داخل ہوئیں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنے خاوند اور اپنے دونوں بیٹوں کو بلا کر لاؤ۔ اتنے میںسیدنا علی، سیدنا حسن اور سیدنا حسین آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئے اور وہ سارے خریزہ کھانے لگے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک دکان نما جگہ پر تھے، جو آپ کی خواب گاہ تھی، نیچے خیبر کی بنی ہوئی چادر بچھا رکھی تھی۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں حجرے میں نماز پڑھ رہی تھی، اللہ تعالی نے اس وقت یہ آیت اتاری: {إِنَّمَا یُرِیدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَ ہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا} اللہ تعالیٰ تو صرف یہ ارادہ کرتا ہے کہ اے اہل بیت ! تم سے پلیدی دور کر دیں اور تمہیں مکمل طور پر پاک کر دیں۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زائد چادر کے حصہ کو لیا اور انہیں ڈھانپ لیا، پھر اپنا ہاتھ آسمان کی جانب بلند کیا اور فرمایا: اے میرے اللہ! یہ میرے گھر والے اور میرے خاص ہیں، ان سے پلیدی دور کر دے اور انہیں پاک کردے۔اے میرے اللہ! یہ میرےگھر والے اور میرے خاص ہیں، ان سے پلیدی دور کر دے اور انہیں پاک کردے۔ ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے اس چادر کے اندر اپنا سر داخل کیا اور کہا:اے اللہ کے رسول! میں بھی تمہارے ساتھ شامل ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک تم خیر پر ہو، بلاشبہ تم خیر پر ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8711

۔ (۸۷۱۱)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شَیْبَۃَ قَالَ: سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَقُولُ: قُلْتُ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : مَا لَنَا لَا نُذْکَرُ فِی الْقُرْآنِ کَمَا یُذْکَرُ الرِّجَالُ؟ قَالَتْ: فَلَمْ یَرُعْنِی مِنْہُ یَوْمَئِذٍ إِلَّا وَنِدَاؤُہُ عَلَی الْمِنْبَرِ، قَالَتْ: وَأَ نَا أُسَرِّحُ شَعْرِی فَلَفَفْتُ شَعْرِی، ثُمَّ خَرَجْتُ إِلَی حُجْرَۃٍ مِنْ حُجَرِ بَیْتِی، فَجَعَلْتُ سَمْعِی عِنْدَ الْجَرِیدِ، فَإِذَا ہُوَ یَقُولُ:عِنْدَ الْمِنْبَرِ: ((یَا أَ یُّہَا النَّاسُ إِنَّ اللّٰہَ یَقُولُ فِی کِتَابِہِ: {إِنَّ الْمُسْلِمِینَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ: {أَ عَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ مَغْفِرَۃً وَأَ جْرًا عَظِیمًا}۔)) [الأحزاب: ۳۵]۔ (مسند احمد: ۲۷۱۳۸)
۔ {اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤُمِنَاتِ…} کی تفسیر
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8712

۔ (۸۷۱۲)۔ عَنْ أَ نَسٍ قَالَ: أَ تَی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَنْزِلَ زَیْدِ بْنِ حَارِثَۃَ، فَرَأَ ی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم امْرَأَ تَہُ زَیْنَبَ وَکَأَ نَّہُ دَخَلَہُ لَا أَ دْرِی مِنْ قَوْلِ حَمَّادٍ أَ وْ فِی الْحَدِیثِ، فَجَائَ زَیْدٌیَشْکُوْہَا إِلَیْہِ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَ مْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اللّٰہَ۔)) قَالَ: فَنَزَلَتْ {وَاتَّقِ اللّٰہَ وَتُخْفِی فِی نَفْسِکَ مَا اللّٰہُ مُبْدِیہِ} إِلٰی قَوْلِہِ: {زَوَّجْنَاکَہَا} [الأحزاب: ۳۷] یَعْنِی زَیْنَبَ۔ (مسند احمد: ۱۲۵۳۹)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا زید بن حارثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھر داخل ہوئے ان کی بیوی سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو دیکھا تو دل میں کچھ خیال آیا،یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ حماد کا قول ہے یا حدیث کا حصہ ہے، اُدھر سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور اپنی بیوی کی شکایت کی،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: تم اپنی بیوی کو اپنے پاس روکے رکھو اور اللہ تعالی سے ڈرو۔ پس یہ حکم نازل ہوا: {وَاتَّقِ اللّٰہَ وَتُخْفِی فِی نَفْسِکَ مَا اللّٰہُ مُبْدِیہِ … … زَوَّجْنَاکَہَا}… تک، اس سے مراد زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8713

۔ (۸۷۱۳)۔ عَنْ عَامِرٍ قَالَ: قَالَتْ عَائِشَۃُ: لَوْ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَاتِمًا شَیْئًا مِمَّا أَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْہِ لَکَتَمَ ہٰذِہِ الْآیَاتِ عَلٰی نَفْسِہِ: {وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِی أَ نْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَأَ نْعَمْتَ عَلَیْہِ أَ مْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اللّٰہَ وَتُخْفِی فِی نَفْسِکَ مَا اللّٰہُ مُبْدِیہِ وَتَخْشَی النَّاسَ وَاللّٰہُ أَ حَقُّ أَ نْ تَخْشَاہُ} إِلٰی قَوْلِہِ: {وَکَانَ أَ مْرُ اللّٰہِ مَفْعُولًا} [الأحزاب: ۳۷]۔ (مسند احمد: ۲۶۵۶۹)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں:اگر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کا کوئی حصہ چھپانا ہوتا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان آیات کو چھپا لیتے: {وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِی أَ نْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ … … وَکَانَ أَ مْرُ اللّٰہِ مَفْعُولًا}۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8714

۔ (۸۷۱۴)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: نُہِیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ أَ صْنَافِ النِّسَائِ إِلَّا مَا کَانَ مِنْ الْمُؤْمِنَاتِ الْمُہَاجِرَاتِ قَالَ:{ لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَائُ مِنْ بَعْدُ وَلَا أَ نْ تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ أَ زْوَاجٍ وَلَوْ أَ عْجَبَکَ حُسْنُہُنَّ إِلَّا مَا مَلَکَتْ یَمِینُکَ} [الاحزاب: ۵۲] وَأَ حَلَّ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فَتَیَاتِکُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَامْرَأَ ۃً مُؤْمِنَۃً إِنْ وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ وَحَرَّمَ کُلَّ ذَاتِ دِینٍ غَیْرَ دِینِ الْإِسْلَامِ، قَالَ: {وَمَنْ یَکْفُرْ بِالْإِیمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ وَہُوَ فِی الْآخِرَۃِ مِنْ الْخَاسِرِینَ} وَقَالَ: { یَا أَ یُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللَّاتِی آتَیْتَ أُجُوْرَہُنَّ وَمَا مَلَکَتْ یَمِینُکَ} إِلٰی قَوْلِہِ: {خَالِصَۃً لَکَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ} وَحَرَّمَ سِوٰی ذٰلِکَ مِنْ اَصْنَافِ النِّسَائِ۔ (مسند احمد: ۲۹۲۲)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو چند قسم کی عورتوں سے نکاح کرنے سے روک دیا گیا تھا،صرف ہجرت کرنے والی ایماندار عورتوں سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نکاح کر سکتے تھے، پھر حکم ہوا: { لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَائُ مِنْ بَعْدُ وَلَا أَ نْ تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ أَ زْوَاجٍ وَلَوْ أَ عْجَبَکَ حُسْنُہُنَّ إِلَّا مَا مَلَکَتْ یَمِینُکَ} … تیرے لیے اس کے بعد عورتیں حلال نہیں اور نہ یہ کہ تو ان کے بدلے کوئی اور بیویاں کر لے، اگرچہ ان کا حسن تجھے اچھا لگے مگر جس کا مالک تیرا دایاں ہاتھ بنے۔ پس اللہ تعالی نے ایماندار لونڈیوں کو حلال قرار دیا اور اس مومن خاتون کو بھی حلال کر دیا، جو اپنا نفس نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے ہبہ کر دے، اور اللہ تعالی نے اسلام کے علاوہ ہر دین والی کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے حرام قرار دیا اور فرمایا: {یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَکَ اَزْوَاجَکَ الّٰتِیْٓ اٰتَیْتَ اُجُوْرَہُنَّ وَمَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ مِمَّآ اَفَائَ اللّٰہُ عَلَیْکَ وَبَنٰتِ عَمِّکَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِکَ وَبَنٰتِ خَالِکَ وَبَنٰتِ خٰلٰتِکَ الّٰتِیْ ہَاجَرْنَ مَعَکَ ْ وَامْرَاَۃً مُّؤْمِنَۃً اِنْ وَّہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْکِحَہَا ٓ خَالِصَۃً لَّکَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ}… اے نبی! بے شک ہم نے تیرے لیے تیری بیویاں حلال کر دیں جن کا تو نے مہر دیا ہے اور وہ عورتیں جن کا مالک تیرا دایاں ہاتھ بنا ہے، اس (غنیمت) میں سے جو اللہ تجھ پر لوٹا کر لایا ہے اور تیرے چچا کی بیٹیاں اور تیری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموں کی بیٹیاں اور تیری خالاؤں کی بیٹیاں، جنھوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے اور کوئی بھی مومن عورت اگر وہ اپنا آپ نبی کو ہبہ کر دے، اگر نبی چاہے کہ اسے نکاح میں لے لے۔ یہ خاص تیرے لیے ہے، مومنوں کے لیے نہیں۔ بے شک ہم نے جان لیا جو ہم نے ان پر ان کی بیویوں اور ان عورتوں کے بارے میں فرض کیا جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ بنے ہیں، تاکہ تجھ پر کوئی تنگی نہ ہو اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8715

۔ (۸۷۱۵)۔ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَ بِیہِ عَنْ عَائِشَۃَ: أَ نَّہَا کَانَتْ تُعَیِّرُ النِّسَائَ اللَّاتِی وَہَبْنَ أَ نْفُسَہُنَّ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: أَ لَا تَسْتَحِی الْمَرْأَ ۃُ أَ نْ تَعْرِضَ نَفْسَہَا بِغَیْرِ صَدَاقٍ، فَنَزَلَ أَ وْ قَالَ: فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {تُرْجِی مَنْ تَشَاء ُ مِنْہُنَّ وَتُؤْوِی إِلَیْکَ مَنْ تَشَائُ وَمَنْ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکَ} [الأحزاب: ۵۱] قَالَتْ: إِنِّی أَرٰی رَبَّکَ عَزَّ وَجَلَّ یُسَارِعُ لَکَ فِی ہَوَاکَ۔ (مسند احمد: ۲۵۷۶۵)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ وہ ان عورتوں پر عیب لگاتی تھیں جو اپنا نفس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے ہبہ کر دیتی تھیں اور سیدہ کہتی تھیں: کیا عورت کو اس سے شرم محسوس نہیں ہوتی کہ بغیر مہر کے اپنے آپ کو ہبہ کر دیتی ہے، اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: {تُرْجِیْ مَنْ تَشَاء ُ مِنْہُنَّ وَ تُؤْوِیْٓ اِلَیْکَ مَنْ تَشَائُ وَمَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکَ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ تَقَرَّ اَعْیُنُہُنَّ وَلَا یَحْزَنَّ وَیَرْضَیْنَ بِمَآ اٰتَیْتَہُنَّ کُلُّہُنَّ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَلِیْمًا۔} … ان میں سے جسے تو چاہے مؤخر کر دے اور جسے چاہے اپنے پاس جگہ دے دے اور تو جسے بھی طلب کر لے، ان عورتوں میں سے جنھیں تو نے الگ کر دیا ہو تو تجھ پر کوئی گناہ نہیں۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غم نہ کریں اور وہ سب کی سب اس پر راضی ہوں جو تو انھیں دے اور اللہ جانتا ہے جو تمھارے دلوں میں ہے اور اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، بڑے حلم والا ہے۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے نبی!آپ کا رب بلاتا خیر آپ کی مرضی پوری کر دیتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8716

۔ (۸۷۱۶)۔ عَنْ مُعَاذَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ أَ نَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَسْتَأْذِنُ إِذَا کَانَ یَوْمُ الْمَرْأَ ۃِ مِنَّا بَعْدَ أَ نْ نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {تُرْجِی مَنْ تَشَائُ مِنْہُنَّ وَتُؤْوِی إِلَیْکَ مَنْ تَشَائُ وَمَنْ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکَ} [الأأحزاب: ۵۱] قَالَتْ: فَقُلْتُ لَہَا: مَا کُنْتِ تَقُولِینَ لَہُ؟ قَالَتْ: کُنْتُ أَ قُولُ لَہُ: إِنْ کَانَ ذٰلِکَ إِلَیَّ فَإِنِّی لَا أُرِیدُیَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَنْ أُوثِرَ عَلَیْکَ أَ حَدًا۔ (مسند احمد: ۲۴۹۸۱)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی جب کسی بیوی کی باری ہوتی تو اس سے اجازت طلب کرتے تھے: {تُرْجِیْ مَنْ تَشَاء ُ مِنْہُنَّ وَ تُؤْوِیْٓ اِلَیْکَ مَنْ تَشَائُ وَمَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکَ} … ان میں سے جسے تو چاہے مؤخر کر دے اور جسے چاہے اپنے پاس جگہ دے دے اور تو جسے بھی طلب کر لے، ان عورتوں میں سے جنھیں تو نے الگ کر دیا ہو تو تجھ پر کوئی گناہ نہیں۔ میں(معاذہ) نے کہا: عائشہ! جب آپ تم سے پوچھتے تو تم کیا کہتی تھیں؟ انھوں نے کہا: میں یہ کہتی تھی: اے اللہ کے رسول! اگر یہ میرا اختیار ہے تو میں آپ پر کسی کو ترجیح نہیں دوں گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8717

۔ (۸۷۱۷)۔ عَنْ زِیَادٍ الْأَ نْصَارِیِّ قَالَ: قُلْتُ لِأُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ: لَوْ مِتْنَ نِسَائُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کُلُّہُنَّ کَانَ یَحِلُّ لَہُ أَ نْ یَتَزَوَّجَ؟ قَالَ: وَمَا یُحَرِّمُ ذَاکَ عَلَیْہِ، قَالَ: قُلْتُ لِقَوْلِہِ: { لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَائُ مِنْ بَعْدُ} [الأحزاب: ۵۲] قَالَ: إِنَّمَا أُحِلَّ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ضَرْبٌ مِنَ النِّسَائٍ۔ (مسند احمد: ۲۱۵۲۷)
۔ زیاد انصاری سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اگر بالفرض نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تمام بیویاں فوت ہوجاتیں تو کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لئے پھر بھی نکاح کرنا حلال نہ تھا؟ انھوں نے کہا: آپ پر نکاح کرنا حرام کب ہوا ہے؟ میں نے کہا : اللہ تعالی کے اس فرمان سے { لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَائُ مِنْ بَعْدُ}۔ انھوں نے کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لئے ایک قسم کی عورتیں حلال تھیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8718

۔ (۸۷۱۸)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: مَا مَاتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی اُحِلَّ لَہُ النِّسَائُ۔ (مسند احمد: ۲۴۶۳۸)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات سے پہلے آپ کے لئے مزید عورتوں سے نکاح کرنا حلال کردیا گیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8719

۔ (۸۷۱۹)۔ عَنْ أَ نَسٍ قَالَ: لَمَّا تَزَوَّجَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زَیْنَبَ، أَ ہْدَتْ إِلَیْہِ أُمُّ سُلَیْمٍ حَیْسًا فِی تَوْرٍ مِنْ حِجَارَۃٍ، قَالَ أَ نَسٌ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَاذْہَبْ فَادْعُ مَنْ لَقِیتَ۔)) فَجَعَلُوْا یَدْخُلُونَیَأْکُلُونَ وَیَخْرُجُونَ وَوَضَعَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدَہُ عَلَی الطَّعَامِ وَدَعَا فِیہِ وَقَالَ مَا شَائَ اللّٰہُ أَ نْ یَقُولَ، وَلَمْ أَ دَعْ أَ حَدًا لَقِیتُہُ إِلَّا دَعَوْتُہُ، فَأَ کَلُوْا حَتَّی شَبِعُوْا وَخَرَجُوْا، فَبَقِیَتْ طَائِفَۃٌ مِنْہُمْ، فَأَ طَالُوْا عَلَیْہِ الْحَدِیثَ، فَجَعَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَسْتَحْیِی مِنْہُمْ أَ نْ یَقُولَ لَہُمْ شَیْئًا، فَخَرَجَ وَتَرَکَہُمْ فِی الْبَیْتِ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلَّا أَ نْ یُؤْذَنَلَکُمْ إِلٰی طَعَامٍ غَیْرَ نَاظِرِینَ إِنَاہُ وَلٰکِنْ إِذَا دُعِیتُمْ فَادْخُلُوْا} حَتّٰی بَلَغَ {لِقُلُوبِکُمْ وَقُلُوبِہِنَّ} [الأحزاب: ۵۳]۔ (مسند احمد: ۱۲۶۹۸)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے شادی کی تو سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے پتھر کے ایک تھال میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لئے حیس بطور تحفہ بھیجا، سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ فرمایا: جائو اور جو بھی ملے اس کو بلا لائو۔ پس لوگوں نے داخل ہونا اور کھانا شروع کر دیا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھانے پر اپنا ہاتھ مبارک رکھا،اس پر برکت کی دعا کی اور جو اللہ کو منظور تھا، اس پرپڑھا، اُدھر میں نے بھی کسی کونہیں چھوڑا، مگر اس کو دعوت دی، لوگوں نے کھانا کھایا اور سیر ہوئے اور باہر نکل گئے، لیکن ان میں سے کچھ لوگ اندر ہی بیٹھ کر گپیں لگاتے رہے، اب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو کچھ کہنے سے شرماتے تھے، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھر سے باہر تشریف لے گئے اور ان کو گھر میں چھوڑ دیا، پس اللہ تعالی نے یہ حکم نازل کیا: {یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوتَ النَّبِیِّ … …لِقُلُوبِکُمْ وَقُلُوبِہِنَّ}
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8720

۔ (۸۷۲۰)۔ عَنْ أَ نَسٍ قَالَ: دَعَوْتُ الْمُسْلِمِینَ إِلٰی وَلِیمَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَبِیحَۃَ بَنٰی بِزَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، فَأَ شْبَعَ الْمُسْلِمِینَ خُبْزًا وَلَحْمًا، قَالَ: ثُمَّ رَجَعَ کَمَا کَانَ یَصْنَعُ، فَأَ تٰی حُجَرَ نِسَائِہِ فَسَلَّمَ عَلَیْہِنَّ فَدَعَوْنَ لَہُ، قَالَ: ثُمَّ رَجَعَ إِلٰی بَیْتِہِ وَأَ نَا مَعَہُ، فَلَمَّا انْتَہٰی إِلَی الْبَیْتِ فَإِذَا رَجُلَانِ قَدْ جَرٰی بَیْنَہُمَا الْحَدِیثُ فِی نَاحِیَۃِ الْبَیْتِ، فَلَمَّا بَصَرَ بِہِمَا وَلّٰی رَاجِعًا، فَلَمَّا رَأَی الرَّجُلَانِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ وَلّٰی عَنْ بَیْتِہِ قَامَا مُسْرِعَیْنِ، فَلَا أَ دْرِی أَ نَا أَ خْبَرْتُہُ أَ وْ أُخْبِرَ بِہِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلٰی مَنْزِلِہِ وَأَرْخَی السِّتْرَ بَیْنِی وَبَیْنَہُ، وَأُنْزِلَتْ آیَۃُ الْحِجَابِ۔ (مسند احمد: ۱۲۰۴۶)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے جس صبح نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ساتھ رخصتی کے بعد ولیمہ کیا تھا، میں نے لوگوں کواس میں شمولیت کی دعوت دی تھی، آپ نے لوگوں کو روٹی اور گوشت سے سیر کیا، پھر آپ لوٹے جس طرح اپنی بیویوں کے حجروں میں لوٹتے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان پر سلام کیا اور انہوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لئے دعا کی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے گھر کی طرف لوٹے، میں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھر تک پہنچے تو ابھی تک ایک کونے میں دو آدمی آپس میں باتیں کر رہے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں دیکھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس چلے گئے، جب ان دو آدمیوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گھر سے بہت تیزی کے ساتھ باہر نکل گئے، اب میں نہیں جانتا کہ میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ان کے چلے جانے کی خبر دییا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اطلاع دی گئی تھی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے گھر کی طرف لوٹے اور میرے اور اپنے درمیان پردہ لٹکا لیا اور پردہ والی آیت نازل ہوئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8721

۔ (۸۷۲۱)۔ عَنْ سَلَمِ نِ الْعَلَوِیِّ قَالَ: سَمِعْتُ اَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یَقُوْلُ: لَمَّا نَزَلَتْ آیَۃُ الْحِجَابِ جِئْتُ اَدْ خُلُ کَمَا کُنْتُ اَدْخُلُ فَقَالَ النَّبِیّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَرَائَکَ یَا بُنَیَّ۔)) (مسند احمد: ۱۲۳۹۳)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: جب پردہ والی آیت نازل ہوئی تو میں آپ کے گھر میں داخل ہونے کے لیے آیا، جیسے پہلے داخل ہوتا تھا، لیکن اس بار نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پیارے بیٹے! پیچھے ہٹ جاؤ (اب پردے کا حکم آ گیا ہے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8722

۔ (۸۷۲۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ: أَ نَّ أَ زْوَاجَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کُنَّ یَخْرُجْنَ بِاللَّیْلِ إِذَا تَبَرَّزْنَ إِلَی الْمَنَاصِعِ وَہُوَ صَعِیدٌ أَ فْیَحُ، وَکَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ یَقُولُ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : احْجُبْ نِسَائَکَ، فَلَمْ یَکُنْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَفْعَلُ، فَخَرَجَتْ سَوْدَۃُ بِنْتُ زَمْعَۃَ زَوْجُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیْلَۃً مِنْ اللَّیَالِی عِشَائً، وَکَانَتْ امْرَأَ ۃً طَوِیلَۃً، فَنَادَاہَا عُمَرُ: أَ لَا قَدْ عَرَفْنَاکِ یَا سَوْدَۃُ! حِرْصًا عَلَی أَ نْ یُنْزَلَ الْحِجَابُ، قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَأُنْزِلَ الْحِجَابُ۔ (مسند احمد: ۲۶۳۹۱)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیویاں قضائے حاجت کے لئے باہر مناصع کی جانب نکلتی تھیں،یہ ایک وسیع میدان تھا، سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہتے رہتے تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی بیویوں کو پردے کا حکم دیں، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایسا نہیں کیا، ایک رات سیدہ سودہ بنت زمعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا عشاء کے وقت باہر نکلیں، وہ ایک لمبے قد والی خاتون تھیں، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: خبردار! اے سودہ! ہم نے تمہیں پہچان لیا ہے۔ ان کا مقصد یہی تھا کہ پردے کا حکم نازل ہو، پس پردہ کا حکم نازل ہو گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8723

۔ (۸۷۲۳)۔ عَنْ کَعْبٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ {إِنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ} [الأحزاب: ۵۶] قَالُوْا: کَیْفَ نُصَلِّی عَلَیْکَ؟یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! قَالَ: ((قُوْلُوا اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ، وَبَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔))، قَالَ: وَنَحْنُ نَقُولُ: وَعَلَیْنَا مَعَہُمْ، قَالَ یَزِیدُ: فَلَا أَ دْرِی أَ شَیْئٌ زَادَہُ ابْنُ أَ بِی لَیْلٰی مِنْ قِبَلِ نَفْسِہِ أَ وْ شَیْئٌ رَوَاہُ کَعْبٌ؟ (مسند احمد: ۱۸۳۱۳)
۔ سیدنا کعب بن عجرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے جب یہ آیت نازل ہوئی: {اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّیٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔} … بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اس پر صلوٰۃ بھیجو اور سلام بھیجو، خوب سلام بھیجنا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ نے دریافت کیا: اے اللہ کے نبی! ہم آپ پر کس طرح درود بھیجیں (اللہ تعالی نے ہمیں حکم جو دیا ہے)؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس طرح مجھ پر درود بھیجو: اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ، وَبَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔ سیدنا کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم یہ درود پڑھ کر ساتھ یہ بھی کہہ دیتے: وَعَلَیْنَا مَعَہُمْ۔ … (اور ان کے ساتھ ہم پر بھی رحمت ہو)۔ یزید راوی کہتے ہیں: مجھے معلوم نہیںیہ چیز ابن ابی لیلیٰ نے اپنی طرف سے بیان کی ہے یا سیدنا کعب نے اس کو بیان کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8724

۔ (۸۷۲۴)۔ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ فِیْ ہٰذِہِ الاٰیۃِ {یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰی فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا} [الاحزاب: ۶۹] قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِنَّ مُوْسٰیکَانَ رَجُلًا حَیِیًّا سِتِیْرًا لَا یَکَادُیُرٰی مِنْ جِلْدِہِ شَیْئٌ اِسْتِحْیَائً مِنْہُ قَالَ فَاٰذَاہُ مَنْ اٰذَاہُ مِنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ قَالُوْا یَتَسَتَّرُ ہٰذَا السَّسَتَّرُ اِلاَّ مِنْ عَیْبٍ بِجِلْدِہِ اِمَّا بَرَصٍ وَاِمَّا اُدْرَۃٍ وَقَالَ رَوْحٌ مَرَّۃً اُدْرَۃٍ وَاِمَّا آفَۃٍ وَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اَرَادَ اَنْ یُبَرِّئَہُ مِمَّا قَالُوْا وَاِنَّ مُوْسٰی خَلَا یَوْمًا فَوَضَعَ ثَوْبَہُ عَلٰی حَجَرٍ ثُمَّ اغْتَسَلَ فَلَمَّا فَرَغَ اَقْبَلَ اِلٰی ثَوْبِہِ لِیَأْخُذَہُ وَاِنَّ الْحَجَرَ عَدَا بِثَوْبِہِ فَاَخَذَ مُوْسٰی عَصَاہُ وَطَلَبَ الْحَجَرَ وَجَعَلَ یَقُوْلُ ثَوْبِیْ حَجَرُ، ثَوْبِیْ حَجَرُ حَتّٰی انْتَھٰی اِلٰی مَلَائٍ مِنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ فَرَأَوْہُ عُرْیَانًا کَاَحْسَنِ الرِّجَالِ خَلْقًا وَاَبْرَأَہُ مِمَّا کَانُوْا یَقُوْلُوْنَ لَہُ وَقَامَ الْحَجَرُ فَاَخذَ ثَوْبَہُ وَطَفِقْ بِالْحَجَرِ ضَرْبًا بِعَصَاہُ قَالَ فَوَاللّٰہِ اِنَّ فِی الْحَجَرِ لَنَدَبًا مِنْ اٰثَرِ ضَرْبِہِ ثَلَاثًا اَوْ اَرْبَعًا اَوْ خَمْسًا۔ (مسند احمد: ۱۰۶۷۸)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اس آیت {یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰی فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا} اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائو جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو تکلیف پہنچائی تو اللہ تعالیٰ نے اسے اس پاک ثابت کر دیا، جو انہوں نے کہا تھا۔ کے متعلق نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام بہت زیادہ حیا دار اور اپنے آپ کو بہت زیادہ چھپانے والے تھے اسی حیا کی وجہ سے قریب نہ تھا کہ ان کے جسم کا کوئی حصہ دیکھا جاسکے۔ بنی اسرائیل میں سے بعض لوگوں نے آپ کو تکلیف پہنچائی اور کہا کہ موسیٰ علیہ السلام اس انداز میں اس لیے چھپتے ہیں کہ ان کو جلد کی کوئی بیماری ہے یا خصیتیں پھولے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو بنی اسرائیل کی اس بات سے پاک کرنا چاہا۔ ہوا یوں کہ ایک دن موسیٰ علیہ السلام خلوت میں گئے اور اپنا کپڑا پتھر پر رکھ کر غسل کیا۔ جب غسل سے فارغ ہو کر کپڑا پکڑنے کے لیے اس کی طرف گئے تو پتھر آپ کا کپڑا لے کر بھاگ کھڑا ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی پکڑی اور پتھر کو پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے چلے اور کہتے تھے اوپتھر! میرا کپڑا (دے دے) او پتھر میرا کپڑا (دے دے) کہ موسیٰ تو بہت خوبصورت انسان ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو ان کی باتوں سے بری کر دیا۔ پتھر ٹھہر گیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنا کپڑا پکڑا اور پتھر کو لاٹھی سے مارنا شروع کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! موسیٰ علیہ السلام کے پتھر پر لاٹھی مارنے سے تینیا چار یا پانچ نشان پڑ گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8725

۔ (۸۷۲۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ أَ نَّ رَجُلًا سَأَ لَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ سَبَأٍ مَا ھُوَ أَ رَجُلٌ أَمْ اِمْرَأَ ۃٌ أَمْ أَرْضٌ؟ فَقَالَ: ((بَلْ ھُوَ رَجُلٌ وَلَدَ عَشَرَۃً فَسَکَنَ الْیَمَنَ مِنْھُمْ سِتَّۃٌ، وَبِالشَّامِ مِنْھُمْ أَ رْبَعَۃٌ،فَأَ مَّا الْیَمَانِیُّوْنَ فَمَذْحِجٌ وَکِنْدَۃٌ وَالْأَ زْدُ، وَالْأَ شْعَرِیُّوْنَ وَأَ نْمَارٌ، وَحِمْیَرُ عَرَبًا کُلَّھَا، وَأَ مَّا الشَّامِیَّۃُ فَلَخْمٌ وَجُذَامُ وَعَامِلَۃُ وَغَسَّانُ۔)) (مسند احمد: ۲۸۹۸)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سبا کے بارے میں سوال کیا کہ وہ مرد تھا یا عورت یا زمین کانام ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ مرد تھا، اس کے دس بچے تھے، ان میں چھ یمن میں اور چار شام میں آباد ہوئے، پس یمنییہ ہیں: مذحج، کندہ، ازد، اشعری، انمار اور حمیر،یہ سارے کے سارے عرب تھے اور شامییہ ہیں: لخم، جذام، عاملہ اور غسان۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8726

۔ (۸۷۲۶)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((قَالَ رَبُّنَا تَبَارَکَ اسْمُہُ إِذَا قَضٰی أَ مْرًا سَبَّحَ حَمَلَۃُ الْعَرْشِ، ثُمَّ سَبَّحَ أَ ہْلُ السَّمَائِ الَّذِینَیَلُونَہُمْ حَتّٰییَبْلُغَ التَّسْبِیحُ ہٰذِہِ السَّمَائَ الدُّنْیَا، ثُمَّ یَسْتَخْبِرُ أَ ہْلُ السَّمَائِ الَّذِینَیَلُونَ حَمَلَۃَ الْعَرْشِ، فَیَقُولُ الَّذِینَیَلُونَ حَمَلَۃَ الْعَرْشِ لِحَمَلَۃِ الْعَرْشِ: مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ؟ فَیُخْبِرُونَہُمْ، وَیُخْبِرُ أَ ہْلُ کُلِّ سَمَائٍ سَمَائً حَتّٰییَنْتَہِیَ الْخَبَرُ إِلٰی ہٰذِہِ السَّمَائِ، وَیَخْطِفُ الْجِنُّ السَّمْعَ، فَیُرْمَوْنَ فَمَا جَائُ وْا بِہِ عَلٰی وَجْہِہِ فَہُوَ حَقٌّ، وَلٰکِنَّہُمْ یُقْذَفُونَ وَیَزِیدُونَ۔)) قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: وَیَخْطِفُ الْجِنُّ وَیُرْمَوْنَ۔ (مسند احمد: ۱۸۸۲)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب ہمارا ربّ، جس کانام بہت زیادہ بابرکت ہے، کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو عرش کو اٹھانے والے فرشتے اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں،پھر ان کے قریب والے فرشتے جو اس آسمان میں ہیں، وہ تسبیح بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں،یہاں تک کہ تسبیح کا یہ سلسلہ آسمان دنیا تک پہنچ جاتا ہے، پھر حاملین کے قریب والے آسمان کے فرشتے ان سے پوچھتے ہیں: تمہارے ربّ نے کیا کہا ہے؟ پس وہ ان کو خبر دیتے ہیں، پھر ایک آسمان والے اگلے نچلے آسمان والے کو بتلاتے ہیں،یہاں تک کہ بات آسمانِ دنیا تک پہنچ جاتی ہے، اس سے جن بات کو اچکتے ہیں اور سن لیتے ہیں، پھر انہیں شعلے مارے جاتے ہیں اور (اگر وہ بچ جائیں تو سنی ہوئی بات میں کوئی جھوٹ ملاتے ہیں۔ عبدالرزاق راوی نے کہا: جن بات اچکتے ہیںاوران پر شعلے پھینکے جاتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8727

۔ (۸۷۲۷)۔ عَنْ أَ بِی الدَّرْدَائِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {ثُمَّ أَ وْرَثْنَا الْکِتَابَ الَّذِینَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِہِ وَمِنْہُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرَاتِ بِإِذْنِ اللّٰہِ} [فاطر: ۳۲] فَأَ مَّا الَّذِینَ سَبَقُوْا بِالْخَیْرَاتِ فَأُولَئِکَ الَّذِینَیَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ وَأَ مَّا الَّذِینَ اقْتَصَدُوْا فَأُولَئِکَ یُحَاسَبُونَ حِسَابًا یَسِیرًا، وَأَ مَّا الَّذِینَ ظَلَمُوا أَ نْفُسَہُمْ فَأُولَئِکَ الَّذِینَیُحْبَسُوْنَ فِی طُولِ الْمَحْشَرِ، ثُمَّ ہُمْ الَّذِینَ تَلَافَاہُمْ اللّٰہُ بِرَحْمَتِہِ فَہُمُ الَّذِینَیَقُولُونَ: {الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی أَ ذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَکُورٌ} إِلٰی قَوْلِہِ: {لُغُوبٌ} [فاطر: ۳۴۔۳۵])) (مسند احمد: ۲۲۰۷۰)
۔ ’ ’سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی فرماتے ہیں: {ثُمَّ أَ وْرَثْنَا الْکِتَابَ الَّذِینَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِہِ وَمِنْہُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرَاتِ بِإِذْنِ اللّٰہِ}… پھر ہم نے اس کتاب کے وارث اپنے وہ بندے بنائے جنھیں ہم نے چن لیا، پھر ان میں سے کوئی اپنے آپ پر ظلم کرنے والا ہے اور ان میں سے کوئی میانہ رو ہے اور ان میں سے کوئی نیکیوں میں آگے نکل جانے والا ہے، اللہ کے حکم سے۔ یہی بہت بڑا فضل ہے۔تفسیریہ ہے کہ جو لوگ بھلائیوں میں آگے بڑھنے الے ہیں،یہ لوگ جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے،جو لوگ میانہ روی والے ہیں، ان سے آسان حساب لیا جائے گا اور جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، ان کو میدان محشر میں روکا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان کی تلافی کریں گے، یہی لوگ کہیں گے: {اَلْحـَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَکُوْرٌ۔ الَّذِیْٓ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَۃِ مِنْ فَضْلِہٖلَایَمَسُّنَا فِیْہَا نَصَبٌ وَّلَا یَمَسُّنَافِیْہَا لُغُوْبٌ۔} … اور وہ کہیں گے سب تعریف اس اللہ کی ہے جس نے ہم سے غم دور کر دیا، بے شک ہمارا رب یقینا بے حد بخشنے والا، نہایت قدر دان ہے۔ جس نے ہمیں اپنے فضل سے ہمیشہ رہنے کے گھر میں اتارا، نہ ہمیں اس میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور نہ ہمیں اس میں کوئی تھکاوٹ پہنچتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8728

۔ (۸۷۲۸)۔ عَنْ أَ بِی ثَابِتٍ أَ نَّ رَجُلًا دَخَلَ مَسْجِدَ دِمَشْقَ فَقَالَ: اللّٰہُمَّ آنِسْ وَحْشَتِی، وَارْحَمْ غُرْبَتِی، وَارْزُقْنِی جَلِیسًا حَبِیبًا صَالِحًا، فَسَمِعَہُ أَ بُو الدَّرْدَائِ فَقَالَ: لَئِنْ کُنْتَ صَادِقًا لَأَ نَا أَ سْعَدُ بِمَا قُلْتَ مِنْکَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: (({فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِہِ} قَالَ: الظَّالِمُ یُؤْخَذُ مِنْہُ فِی مَقَامِہِ فَذٰلِکَ الْہَمُّ وَالْحَزَنُ، {وَمِنْہُمْ مُقْتَصِدٌ} یُحَاسَبُ حِسَابًا یَسِیرًا، {وَمِنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرَاتِ} [فاطر: ۳۲] فَذٰلِکَ الَّذِینَیَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ۔)) (مسند احمد: ۲۸۰۵۴)
۔ ابو ثابت سے روایت ہے کہ ایک آدمی مسجد ِ دمشق میں داخل ہوا اور اس نے یہ دعا کی: اے میرے اللہ ! میری وحشت کو انس سے تبدیل کر دے، میری غربت کو باعث رحمت بنا دے اور مجھے پیارا اور نیک ہم نشین عطافرما، سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کے یہ الفاظ سن لیے اور کہا: اگر تو سچا ہے تو میں تیری دعا کے لئے زیادہ خوش نصیب ہوں، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: {فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِہِ}سے مراد وہ ظالم، جس کو حشر کے میدان میںپکڑا جائے گا اور اس کو غم اور پریشانی پہنچائی جائے گی، {وَمِنْہُمْ مُقْتَصِدٌ} سے مراد وہ شخص ہے، جس کا حساب آسان ہوگا اور {وَمِنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرَاتِ}وہ ہیں جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8729

۔ (۸۷۲۹)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ فِیْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ: {ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتَابَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْہُمْ ظاَلِمٌ لِنَفْسِہٖوَمِنْہُمْمُقْتَصِدٌوَمِنْہُمْسَابِقٌبِالْخَیْرَاتِ} قَالَ: ((ھٰؤُ لَائِ کُلُّہُمْ بِمَنْزِلَۃٍ وَاحِدَۃٍ وَکُلُّہُمْ فِی الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۱۷۶۷)
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آیت کے بارے میں فرمایا:{ثُمَّ أَ وْرَثْنَا الْکِتَابَ الَّذِینَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِہِ وَمِنْہُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرَاتِ بِإِذْنِ اللّٰہِ}… پھر ہم نے اس کتاب کے وارث اپنے وہ بندے بنائے جنھیں ہم نے چن لیا، پھر ان میں سے کوئی اپنے آپ پر ظلم کرنے والا ہے اور ان میں سے کوئی متوسط درجے کا ہے اور ان میں سے کوئی اللہ کے حکم سے نیکیوں میں آگے نکل جانے والا ہے، یہی بہت بڑا فضل ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ (اس آیت میں مذکورہ) سب لوگوں کا مرتبہ ایک ہی ہے اور سارے جنت میںجائیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8730

۔ (۸۷۳۰)۔ عَنْ مَعْقَلِ بْنِ یَسَارٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یس قَلْبُ الْقُرْآنِ لَا یَقْرَئُھَا رَجُلٌ یُرِیْدُ اللّٰہَ تَعَالٰی وَالَّدَارَ الْآخِرَۃَ اِلَّا غَفَرَلَہُ، وَاقْرَئُ وْ ھَا عَلٰی مَوْتَا کُمْ۔)) (مسند احمد: ۲۰۵۶۶)
۔ سیدنا معقل بن یسار سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سورۂ یس قرآن مجید کا دل ہے، جو آدمی بھی اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کے گھر کی خاطر اس کی تلاوت کرے گا، اس کو بخش دیا جائے گا اور اس سورت کو اپنے مردوں کے پاس پڑھا کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8731

۔ (۸۷۳۱)۔ حَدَّثَنَا أَ بُو الْمُغِیرَۃِ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ، حَدَّثَنِی الْمَشْیَخَۃُ أَ نَّہُمْ حَضَرُوْا غُضَیْفَ بْنَ الْحَارِثِ الثُّمَالِیَّ حِینَ اشْتَدَّ سَوْقُہُ فَقَالَ: ہَلْ مِنْکُمْ أَ حَدٌ یَقْرَأُ {یس} قَالَ: فَقَرَأَ ہَا صَالِحُ بْنُ شُرَیْحٍ السَّکُوتِیُّ فَلَمَّا بَلَغَ أَ رْبَعِینَ مِنْہَا قُبِضَ، قَالَ: فَکَانَ الْمَشْیَخَۃُیَقُولُونَ إِذَا قُرِئَتْ عِنْدَ الْمَیِّتِ خُفِّفَ عَنْہُ بِہَا، قَالَ صَفْوَانُ: وَقَرَاَھَا عِیْسَی بْنُ الْمُعْتَمِرِ عِنْدَ ابْنِ مَعْبَدٍ۔ (مسند احمد: ۱۷۰۹۴)
۔ صفوان کہتے ہیں: بعض بزرگوں نے مجھے بیان کیا کہ وہ غضیف بن حارث ثمالی کے پاس موجود تھے، ان پر عالم نزع کی بڑی سختی تھی، پس انھوں نے کہا: کیا تم میں سے کوئی آدمی سورۂ یس پڑھ سکتا ہے؟ صالح بن شریح سکوتی نے سورۂ یس کی تلاوت کی، ابھی تک انھوں نے چالیس آیتیں پڑھی تھیں کہ وہ فوت ہوگئے۔ بزرگ کہتے تھے کہ جب میت پر اس سورت کی تلاوت کی جائے تو اس کی وجہ سے اس پر تخفیف کی جاتی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8732

۔ (۸۷۳۲)۔ عَنْ أَ بِی ذَرٍّ قَالَ کُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْمَسْجِدِ حِینَ وَجَبَتِ الشَّمْسُ فَقَالَ: ((یَا أَ بَا ذَرٍّ تَدْرِی أَ یْنَ تَذْہَبُ الشَّمْسُ؟)) قُلْتُ: اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَ عْلَمُ، قَالَ: ((فَإِنَّہَا تَذْہَبُ حَتّٰی تَسْجُدَ بَیْنَیَدَیْ رَبِّہَا عَزَّ وَجَلَّ فَتَسْتَأْذِنَ فِی الرُّجُوعِ فَیُؤْذَنَ لَہَا، وَکَأَ نَّہَا قَدْ قِیلَ لَہَا ارْجِعِی مِنْ حَیْثُ جِئْتِ فَتَرْجِعُ إِلٰی مَطْلَعِہَا فَذٰلِکَ مُسْتَقَرُّہَا۔)) ثُمَّ قَرَأَ {وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَہَا} [یس: ۳۸] (مسند احمد: ۲۱۶۷۹)
۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں غروب ِ آفتاب کے وقت مسجد میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابوذر! کیا تجھے معلوم ہے یہ کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا: جی اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ چلتا رہے گا،یہاں تک کہ اپنے ربّ کے سامنے سجدہ کر کے واپس آنے کی اجازت طلب کرے گا، پس اس کو اجازت دی جائے گی اور کہاجائے گا: تو جہاں سے آیا ہے، وہیں چلا جا، پس یہ اپنے مطلع کی طرف لوٹ جائے گا، وہی اس کے قرار پکڑنے کی جگہ ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت کی: {وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَہَا} … اور سورج اپنے ٹھہرنے کی جگہ کی طرف چلتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8733

۔ (۸۷۳۳)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا)قَالَ: سَأَ لْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ: {وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَہَا} … اور سورج اپنے ٹھہرنے کی جگہ کی طرف چلتا ہے۔ [یس: ۳۸] قَالَ: ((مُسْتَقَرُّہَا تَحْتَ الْعَرْشٍٍٍٍِ۔)) (مسند احمد: ۲۱۷۳۴)
۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اللہ تعالی کے اس فرمان کے بارے میں پوچھا: {وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَہَا} آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے ٹھہرنے کی جگہ عرش کے نیچے ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8734

۔ (۸۷۳۴)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَ نَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِنَّ جِبْرِیلَ ذَہَبَ بِإِبْرَاہِیمَ إِلٰی جَمْرَۃِ الْعَقَبَۃِ فَعَرَضَ لَہُ الشَّیْطَانُ فَرَمَاہُ بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ فَسَاخَ، ثُمَّ أَ تَی الْجَمْرَۃَ الْوُسْطٰی فَعَرَضَ لَہُ الشَّیْطَانُفَرَمَاہُ بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ فَسَاخَ، ثُمَّ أَ تَی الْجَمْرَۃَ الْقُصْوٰی فَعَرَضَ لَہُ الشَّیْطَانُ فَرَمَاہُ بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ فَسَاخَ، فَلَمَّا أَ رَادَ إِبْرَاہِیمُ أَ نْ یَذْبَحَ ابْنَہُ إِسْحَاقَ قَالَ لِأَ بِیہِ: یَا أَ بَتِ! أَوْثِقْنِی لَا أَ ضْطَرِبُ فَیَنْتَضِحَ عَلَیْکَ مِنْ دَمِی، إِذَا ذَبَحْتَنِی فَشَدَّہُ، فَلَمَّا أَ خَذَ الشَّفْرَۃَ فَأَ رَادَ أَ نْ یَذْبَحَہُ نُودِیَ مِنْ خَلْفِہِ: {أَ نْ یَّا إِبْرَاہِیمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا} [صافات: ۱۰۵]۔ (مسند احمد: ۲۷۹۵)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب جبریل علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام کو جمرہ عقبہ کے پاس لے کر گئے تو شیطان سامنے آ گیا، انھوں نے اس کو سات کنکریاں ماریں، وہ زمین میں دھنس گیا، پھر جب وہ جمرہ وسطی پر آئے تو شیطان پھر سامنے آ گیا، انھوں نے اسے سات کنکریاں ماریں، پس وہ زمین میں دھنس گیا، پھرجب وہ دور والے جمرہ کے پاس پہنچے تو شیطان پھر سامنے آگیا، انھوں نے اس بار بھی اس کو سات کنکریں ماریں اور وہ زمین میں دھنس گیا۔ پھر جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسحاق علیہ السلام کو ذبح کرنے کا ارادہ کیا تو انھوں نے اپنے باپ سے کہا: اے ابا جان! مجھے اچھی طرح باندھ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بے چین ہو جائوں اور میرا خون آپ پر جا گرے، ابراہیم علیہ السلام نے ان کو باندھ دیا اور جب چھری پکڑکر ذبح کرنا چاہا تو آواز آئی: {أَنْ یَّا إِبْرَاہِیمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا} … اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8735

۔ (۸۷۳۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَرِضَ أَ بُو طَالِبٍ فَأَ تَتْہُ قُرَیْشٌ وَأَ تَاہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَعُودُہُ، وَعِنْدَ رَأْسِہِ مَقْعَدُ رَجُلٍ فَقَامَ أَ بُو جَہْلٍ فَقَعَدَ فِیہِ، فَقَالُوْا: إِنَّ ابْنَ أَ خِیکَیَقَعُ فِی آلِہَتِنَا، قَالَ: مَا شَأْنُ قَوْمِکَ یَشْکُونَکَ؟ قَالَ: ((یَا عَمِّ! أُرِیدُہُمْ عَلٰی کَلِمَۃٍ وَاحِدَۃٍ، تَدِینُ لَہُمْ بِہَا الْعَرَبُ، وَتُؤَدِّی الْعَجَمُ إِلَیْہِمُ الْجِزْیَۃَ۔))، قَالَ: مَا ہِیَ؟ قَالَ: ((لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ۔))، فَقَامُوْا فَقَالُوْا: أَ جَعَلَ الْآلِہَۃَ إِلَہًا وَاحِدًا، قَالَ: وَنَزَلَ {صٓ وَالْقُرْآنِ ذِی الذِّکْرِ} فَقَرَأَ حَتّٰی بَلَغَ {إِنَّ ہَذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ} [ص:۱۔ ۵]، قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ (یَعْنِی ابْنَ الْاِمَامَ اَحْمَدَ): قَالَ اَبِیْ: وَحَدَّثَنَا اَبُوْا اُسَامَۃَ حَدَّثَنَا الْاَعْمَشُ، حَدَّثَنَا عَبَادٌ، فَذَکَرَ نَحْوَہٗ،وَقَالَاَبِیْ: قَالَ الْاَشْجَعِیُّ: یَحْیَی بْنُ عَبَادٍ۔ (مسند احمد: ۲۰۰۸)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ ابو طالب بیمار پڑ گئے، قریشی ان کے پاس آئے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی ان کی تیمار داری کے لئے تشریف لے آئے،ان کے سر کے پاس ایک آدمی کے بیٹھنے کی جگہ تو تھی، لیکن ابو جہل کھڑا ہوا اور اس جگہ میں بیٹھ گیا، پھر قریشیوں نے کہا: ابو طالب! تمہارا یہ بھتیجا ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہتا ہے۔ ابو طالب نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مخاطب ہو کر کہا: کیا بات ہے، یہ آپ کی قوم آپ کی شکایت کررہی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے میرے چچا! میں انہیں ایک ایسے کلمہ پر متحد کرنا چاہتا ہوں کہ جس کو قبول کرنے سے عرب ان کے تابع ہوں گے اور عجم انہیں جزیہ دیں گے۔ ابو طالب نے کہا: وہ کونسا کلمہ ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لا الہ الا اللہ وہ سب اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: کیا اس نے سب معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا دیا ہے، اس وقت سورۂ ص کییہ آیات نازل ہوئیں: {صٓ وَالْقُرْآنِ ذِی الذِّکْر … … إِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ}
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8736

۔ (۸۷۳۶)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) قَالَ: قَالَ لَمَّا مَرِضَ أَ بُو طَالِبٍ دَخَلَ عَلَیْہِ رَہْطٌ مِنْ قُرَیْشٍ مِنْہُمْ أَ بُو جَہْلٍ، فَقَالُوْا: یَا أَ بَا طَالِبٍ! ابْنُ أَ خِیکَیَشْتِمُ آلِہَتَنَا یَقُولُ وَیَقُولُ وَیَفْعَلُ وَیَفْعَلُ، فَأَ رْسِلْ إِلَیْہِ فَانْہَہُ، قَالَ: فَأَ رْسَلَ إِلَیْہِ أَ بُو طَالِبٍ، وَکَانَ قُرْبَ أَ بِی طَالِبٍ مَوْضِعُ رَجُلٍ فَخَشِیَ إِنْ دَخَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی عَمِّہِ أَ نْ یَکُونَ أَ رَقَّ لَہُ عَلَیْہِ فَوَثَبَ فَجَلَسَ فِی ذٰلِکَ الْمَجْلِسِ، فَلَمَّا دَخَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یَجِدْ مَجْلِسًا إِلَّا عِنْدَ الْبَابِ فَجَلَسَ، فَقَالَ أَ بُو طَالِبٍ: یَا ابْنَ أَ خِی! إِنَّ قَوْمَکَ یَشْکُونَکَ،یَزْعُمُونَ أَ نَّکَ تَشْتُمُ آلِہَتَہُمْ، وَتَقُولُ وَتَقُولُ وَتَفْعَلُ وَتَفْعَلُ، فَقَالَ: ((یَا عَمِّ! إِنِّی إِنَّمَا أُرِیدُہُمْ عَلٰی کَلِمَۃٍ وَاحِدَۃٍ، تَدِینُ لَہُمْ بِہَا الْعَرَبُ، وَتُؤَدِّی إِلَیْہِمْ بِہَا الْعَجَمُ الْجِزْیَۃَ۔))، قَالُوْا: وَمَا ہِیَ نَعَمْ وَأَ بِیکَ عَشْرًا، قَالَ: ((لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ۔)) قَالَ: فَقَامُوْا وَہُم یَنْفُضُوْنَ ثِیَابَہُمْ وَھُمْ یَقُوْلُوْنَ: {اَجَعَلَ الْآلِھَۃَ اِلٰہًا وَاحِدًا اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ} قَالَ: ثُمَّ قَرَاَ حَتّٰی بَلَغَ {لَمَّا یَذُوْقُوْا عَذَابِ} [ص: ۵۔ ۸]۔ (مسند احمد: ۳۴۱۹)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ جب ابو طالب بیمار ہوئے تو قریشیوں کا ایک گروہ ان کی تیمار داری کے لئے آیا، ان میں ابو جہل بھی تھا، انہوں نے کہا: ابو طالب ! تمہارا بھتیجا ہمارے معبودوں کو گالیاں دیتا ہے، یہ کہتا ہے، یہ کہتا ہے اور ایسے ایسے کرتا ہے۔ ابو طالب نے آپ کو اپنے پاس آنے کا پیغام بھیجا، ابو طالب کے قریب ایک آدمی کی جگہ خالی تھی، ابو جہل کو خدشہ تھاکہ اگر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم داخل ہوئے تو قریب ہو کر بیٹھ جائیں گے، اور پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ ابو طالب کو اپنے بھتیجے پر ترس آ جائے، اس لیےیہ کود کر اس خالی جگہ پر بیٹھ گیا، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم داخل ہوئے اوربیٹھنے کی جگہ نہ پائی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دروازے کے قریب ہی بیٹھ گئے۔ ابو طالب نے کہا: اے بھتیجے! تمہاری قوم تمہاری شکایت کر رہی ہے کہ تم ان کے معبودوں کو برا بھلا کہتے ہو اور یہیہ کہتے ہو اور ایسے ایسے کرتے ہو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے میرے چچا! میں ان سے ایسا کلمہ چاہتا ہوں کہ جس کی وجہ سے عرب ان کے تابع ہو جائیں گے اور عجمی ان کو جزیہ دیں گے۔ انہوں نے کہا: وہ کونسا کلمہ ہے؟ تیرے باپ کی قسم! ہم یہ اور اس طرح کی دس باتیں قبول کریں گے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لا الہ الا اللہ ہے۔ یہ سن کر وہ کپڑے جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے (جیسا کہ اللہ تعالی نے کہا:) {اَجَعَلَ الْآلِھَۃَ اِلٰہًا وَاحِدًا اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ} … کیا اس نے تمام معبودوں کو ایک ہی معبود بنا ڈالا ؟ بلاشبہ یہیقینا بہت عجیب بات ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آگے تلاوت کی،یہاں تک کہ {لَمَّا یَذُوْقُوْا عَذَابِ} تک پہنچ گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8737

۔ (۸۷۳۷)۔ عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ہٰذِہِ السُّورَۃُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم {إِنَّکَ مَیِّتٌ وَإِنَّہُمْ مَیِّتُونَ ثُمَّ إِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عِنْدَ رَبِّکُمْ تَخْتَصِمُونَ} [الزمر: ۳۱] قَالَ الزُّبَیْرُ: أَ یْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! أَیُکَرَّرُ عَلَیْنَا مَا کَانَ بَیْنَنَا فِی الدُّنْیَا مَعَ خَوَاصِّ الذُّنُوبِ؟ قَالَ: ((نَعَمْ، لَیُکَرَّرَنَّ عَلَیْکُمْ حَتّٰییُؤَدّٰی إِلٰی کُلِّ ذِی حَقٍّ حَقُّہُ۔)) فَقَالَ الزُّبَیْرُ: وَاللّٰہِ! إِنَّ الْأَ مْرَ لَشَدِیدٌ۔ (مسند احمد: ۱۴۳۴)
۔ سیدنا زبیر بن عوام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے جب سورۂ زمر کییہ اٰیات نازل ہوئیں: {إِنَّکَ مَیِّتٌ وَإِنَّہُمْ مَیِّتُونَ ثُمَّ إِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عِنْدَ رَبِّکُمْ تَخْتَصِمُونَ} … (اے نبی) یقینا تم بھی وفات پانے والے ہو اور وہ لوگ بھی مرنے والے ہیں، پھر تم روزقیامت اپنے رب کے پاس جھگڑا کرو گے۔ سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! گناہوں کے ساتھ ساتھ دنیا میں ہمارے ما بین جو کچھ ہوتا ہے، کیا پھر اس کاتکرار ہو گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، تم پر ضرور تکرار ہوگا، یہاں تک کہ ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا جائے گا۔ یہ سن کر سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم!پھر تو معاملہ بڑا سخت ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8738

۔ (۸۷۳۸)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ {ثُمَّ إِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عِنْدَ رَبِّکُمْ تَخْتَصِمُونَ} [الزمر: ۳۱] قَالَ الزُّبَیْرُ: أَ یْ رَسُولَ اللّٰہِ! مَعَ خُصُومَتِنَا فِی الدُّنْیَا؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔))، وَلَمَّا نَزَلَتْ {ثُمَّ لَتُسْأَ لُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیمِ} [الکاثر: ۸] قَالَ الزُّبَیْرُ: أَ یْ رَسُولَ اللّٰہِ! أَ یُّ نَعِیمٍ نُسْأَ لُ عَنْہُ؟ وَإِنَّمَا یَعْنِی ہُمَا الْأَ سْوَدَانِ التَّمْرُ وَالْمَائُ، قَالَ: ((أَ مَا إِنَّ ذٰلِکَ سَیَکُونُ۔)) (مسند احمد: ۱۴۰۵)
۔ سیدنا زبیر بن عوام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: {ثُمَّ إِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عِنْدَ رَبِّکُمْ تَخْتَصِمُونَ} … (پھر تم روزقیامت اپنے رب کے پاس جھگڑا کرو گے۔ تو میں (زبیر) نے کہا:اے اللہ کے رسول! دنیا میںہونے والے ہمارے مابین کے جھگڑوں کے ساتھ (آخرت میں بھییہ جھگڑے) ہوں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ اور جب یہ آیت نازل ہوئی: {ثُمَّ لَتُسْأَ لُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنْ النَّعِیمِ} … پھر اس دن تم سے ضرور ضرور نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ میں (زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) نے کہا: اے اللہ کے رسول!کون سی نعمت کے بارے میں ہم سے سوال کیا جائے گا؟ بس ہمارے پاس تو یہ دو کالے رنگ کی چیزیں ہیں، ایک کھجور ہے اور ایک پانی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! عنقریبیہ سوال ہو گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8739

۔ (۸۷۳۹)۔ عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَا أُحِبُّ أَ نَّ لِی الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا بِہٰذِہِ الْآیَۃِ: {یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَ سْرَفُوْا عَلَی أَ نْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ} [الزمر: ۵۳] فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَمَنْ أَ شْرَکَ؟ فَسَکَتَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ قَالَ: ((إِلَّا مَنْ أَ شْرَکَ۔)) ثَلَاثَ مَرَّاتِ۔ (مسند احمد: ۲۲۷۲۰)
۔ مولائے رسول سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں یہ پسند نہیں کرتا کہ مجھے اس آیت کے بدلے میں دنیا و ما فیہا دے دیا جائے: {یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَ سْرَفُوْا عَلٰی أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ}… اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجائو، بے شک اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے، یقینا وہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! اور جس نے شرک کیا؟ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش ہو گئے اور پھر فرمایا: مگر جس نے شرک کیا (اس کی بخشش نہیں ہو گی)۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین بار یہ جملہ دوہرایا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8740

۔ (۸۷۴۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَرَّ یَہُوْدِیٌّ بِالنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ جَالِسٌ قَالَ: کَیْفَ تَقُولُ یَا أَبَا الْقَاسِمِ یَوْمَیَجْعَلُ اللّٰہُ السَّمَائَ عَلٰی ذِہْ، وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَۃِ، وَالْأَ رْضَ عَلٰی ذِہْ، وَالْمَائَ عَلٰی ذِہْ، وَالْجِبَالَ عَلٰی ذِہْ، وَسَائِرَ الْخَلْقِ عَلٰی ذِہْ، کُلُّ ذٰلِکَ یُشِیرُ بِأَصَابِعِہِ، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ {وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہِ} [الزمر: ۶۷] (مسند احمد: ۲۹۸۸)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ ایکیہودی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے گزرا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیٹھے ہوئے تھے، اس نے کہا: اے ابو القاسم! اس بارے میں آپ کیا کہیں گے کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان کو اس انگشت ِشہادت پر اٹھا لے گا اور زمین کو اس انگلی پر، پانی کو اس انگلی پر، پہاڑوں کو اس انگلی پر اور باقی تمام مخلوقات کو اس انگلی پر اٹھا لے گا؟ ساتھ ہی اس یہودیوں نے انگلیوں کی طرف اشارہ کیا تھا، پس اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کر دی: {وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہِ} … اورانہوں نے اللہ تعالیٰ کی اتنی قدر نہیں کی، جتنی کہ اس کی قدر کی جانی چاہیے تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8741

۔ (۸۷۴۱)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ أَ ہْلِ الْکِتَابِ فَقَالَ: یَا أَ بَا الْقَاسِمِ! أَ بَلَغَکَ أَ نَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَحْمِلُ الْخَلَائِقَ عَلٰی أُصْبُعٍ، وَالسَّمٰوَاتِ عَلٰی أُصْبُعٍ، وَالْأَ رَضِینَ عَلٰی أُصْبُعٍ، وَالشَّجَرَ عَلٰی أُصْبُعٍ، وَالثَّرَی عَلٰی أُصْبُعٍ؟ فَضَحِکَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہُ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ {وَمَا قَدَرُوْا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہِ} [الزمر: ۶۷] الْآیَۃَ۔ (مسند احمد: ۳۵۹۰)
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ اہل کتاب میں سے ایک آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: اے ابو القاسم! کیایہ بات آپ تک پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوقات کو ایک انگلی پر،آسمانوں کو ایک انگلی پر،زمینوںکو ایک انگلی پر،درختوں کوایک انگلی پر اور تر مٹی کو ایک انگلی پر اٹھا لے گا؟ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی بات پر اتنا زیادہ ہنسے کہ آپ کی داڑھیں مبارک نمایاں ہو گئیں، پس اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کر دی: {وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہِ} … اورانہوں نے اللہ تعالیٰ کی اتنی قدر نہیں کی، جتنی کہ اس کی قدر کی جانی چاہیے تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8742

۔ (۸۷۴۲)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَ نَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَرَأَ ہَذِہِ الْآیَۃَ ذَاتَ یَوْمٍ عَلَی الْمِنْبَرِ: {وَمَا قَدَرُوْا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہِ وَالْأَ رْضُ جَمِیعًا قَبْضَتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّمٰوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِینِہِ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُونَ} [الزمر: ۶۷] وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ ہٰکَذَا بِیَدِہِ وَیُحَرِّکُہَایُقْبِلُ بِہَا وَیُدْبِرُ: ((یُمَجِّدُ الرَّبُّ نَفْسَہُ أَ نَا الْجَبَّارُ، أَ نَا الْمُتَکَبِّرُ، أَ نَا الْمَلِکُ، أَ نَا الْعَزِیزُ، أَ نَا الْکَرِیمُ۔)) فَرَجَفَ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمِنْبَرُ حَتَّی قُلْنَا لَیَخِرَّنَّ بِہِ۔ (مسند احمد: ۵۴۱۴)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک دن منبر پر یہ اس آیت کی تلاوت کی: {وَمَا قَدَرُوْا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہِ وَالْأَ رْضُ جَمِیعًا قَبْضَتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّمٰوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِینِہِ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُونَ} … اور انھوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جو اس کی قدر کا حق ہے، حالانکہ زمین ساری قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپیٹے ہو ئے ہوں گے۔ وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بنا رہے ہیں۔ ساتھ ہی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ہاتھ کو آگے پیچھے حرکت دینا شروع کی اور فرمایا: رب اپنی ذات کی بزرگی بیان کر رہا ہے کہ میں جبار ہوں، میں بڑائی والا ہوں، میں بادشاہ ہوں، میں غالب ہوں،میں کریم ہوں۔ جب آپ یہ کہہ رہے تھے تو منبر اس قدر لرز رہا تھا کہ ہمیں خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں آپ منبر سے نیچے نہ گر جائیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8743

۔ (۸۷۴۳)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: کُنْتُ مُسْتَتِرًا بِسِتَارِ الْکَعْبَۃِ، فَجَائَ ثَلَاثَۃُ نَفَرٍ قُرَشِیٌّ وَخَتَنَاہُ ثَقَفِیَّانِ أَ وْ ثَقَفِیٌّ وَخَتَنَاہُ قُرَشِیَّانِ، کَثِیرٌ شَحْمُ بُطُونِہِمْ، قَلِیلٌ فِقْہُ قُلُوبِہِمْ، فَتَکَلَّمُوا بِکَلَامٍ لَمْ أَ سْمَعْہُ، فَقَالَ أَحَدُہُمْ: أَ تَرَوْنَ اللّٰہَ یَسْمَعُ کَلَامَنَا ہٰذَا؟ فَقَالَ الْآخَرُ: أُرَانَا إِذَا رَفَعْنَا أَ صْوَاتَنَا سَمِعَہُ وَإِذَا لَمْ نَرْفَعْہَا لَمْ یَسْمَعْ، فَقَالَ الْآخَرُ: إِنْ سَمِعَ مِنْہُ شَیْئًا سَمِعَہُ کُلَّہُ، قَالَ: فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَمَا کُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَ نْ یَشْہَدَ عَلَیْکُمْ سَمْعُکُمْ وَلَا أَبْصَارُکُمْ وَلَا جُلُودُکُمْ} إِلٰی قَوْلِہِ {ذٰلِکُمْ ظَنُّکُمْ الَّذِی ظَنَنْتُمْ بِرَبِّکُمْ أَ رْدَاکُمْ فَأَ صْبَحْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِینَ} [فصلت: ۲۲۔۲۳] ۔ (مسند احمد: ۳۶۱۴)
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ میں کعبہ کے پردے کی اوٹ میں چھپا ہواتھا کہ تین آدمی آئے، ایک قریشی تھا اور دو اس کے سالے تھے، جو بنو ثقیف سے تھے، یاایک ثقفی تھا اور دو اس کے قریشی سالے تھے، ان کے پیٹوں پر چربی تو بہت زیادہ چڑھی ہوئی تھی لیکن دلوں میں سمجھ کی کمی تھی، انہوں نے مختلف باتیں کیں، میں وہ ساری تو نہ سن سکا، بہرحال ان میں سے ایک نے کہا: تمہارا کیا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارییہ بات سن رہا ہے؟ دوسرے نے کہا: میرا خیال ہے کہ جب ہم آواز بلند کریں گے تو وہ ہماری آواز سنے گا اور جب ہم آوازیں بلند نہیں کریں گے تو وہ نہیں سنے گا، تیسرا بولا اور اس نے کہا: اگر وہ ہماری بات کا کچھ حصہ سنتا ہے تو پھر اس کامطلب یہ ہوا کہ وہ ساری باتیں سنتا ہے۔ جب میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ان باتوں کا ذکر کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کیں: {وَمَا کُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ یَشْہَدَ عَلَیْکُمْ … … فَأَصْبَحْتُمْ مِنْ الْخَاسِرِینَ}
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8744

۔ (۸۷۴۴)۔ عَنْ طَاوُسٍ قَالَ: أَ تَی ابْنَ عَبَّاسٍ رَجُلٌ فَسَأَ لَہُ، وَسُلَیْمَانُ بْنُ دَاوُدَ قَالَ: أَ خْبَرَنَا شُعْبَۃُ أَ نْبَأَ نِی عَبْدُ الْمَلِکِ قَالَ: سَمِعْتُ طَاوُوْسًا یَقُولُ: سَأَ لَ رَجُلٌ ابْنَ عَبَّاسٍ الْمَعْنَی عَنْ قَوْلِہِ عَزَّ وَجَلَّ: {قُلْ لَا أَسْأَ لُکُمْ عَلَیْہِ أَ جْرًا إِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی} [الشوری: ۲۳] فَقَالَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ: قَرَابَۃُ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: عَجِلْتَ إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یَکُنْ بَطْنٌ مِنْ قُرَیْشٍ إِلَّا لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیہِمْ قَرَابَۃٌ، فَنَزَلَتْ: {قُلْ لَا أَ سْأَ لُکُمْ عَلَیْہِ أَ جْرًا إِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبَی} إِلَّا أَ نْ تَصِلُوا قَرَابَۃَ مَا بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ۔ (مسند احمد: ۲۰۲۴)
۔ طاؤس کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے اس آیت کے معنی کے بارے میں سوال کیا: {قُلْ لَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ أَ جْرًا إِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی} … کہہ دیجئے میں تم سے کسی اجر کا سوال نہیں کرتا، مگر قرابت داری کی دوستی کا سوال کرتا ہوں۔ سعید بن حبیر نے کہا: یہاں محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قرابت داری مراد ہے،لیکن سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: اے سعید! تم نے جلد بازی سے کام لیا ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قریش کے ہرچھوٹے اور بڑے قبیلے کے ساتھ قرابتداری تھی، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ {قُلْ لَا أَ سْأَ لُکُمْ عَلَیْہِ أَ جْرًا إِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی} … میں تم سے تبلیغ پر اجرت نہیں مانگتا، بلکہ میرے اور تمہارے درمیان جو قرابتداری ہے میں تو اس کو ملانے کا مطالبہ کرتا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8745

۔ (۸۷۴۵)۔ عَنْ أَ بِی سُخَیْلَۃَ قَالَ: قَالَ عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: أَ لَا أُخْبِرُکُمْ بِأَ فْضَلِ آیَۃٍ فِی کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی، حَدَّثَنَا بِہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (({مَا أَ صَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَ یْدِیکُمْ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیرٍ} [الشوری: ۳۰] وَسَأُفَسِّرُہَا لَکَ یَا عَلِیُّ! {مَا أَ صَابَکُمْ} مِنْ مَرَضٍ أَ وْ عُقُوبَۃٍ أَ وْ بَلَائٍ فِی الدُّنْیَا، {فَبِمَا کَسَبَتْ أَ یْدِیکُمْ} وَاللّٰہُ تَعَالٰی أَ کْرَمُ مِنْ أَ نْ یُثَنِّیَ عَلَیْہِمْ الْعُقُوبَۃَ فِی الْآخِرَۃِ، وَمَا عَفَا اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فِی الدُّنْیَا، فَاللّٰہُ تَعَالٰی أَ حْلَمُ مِنْ أَ نْ یَعُودَ بَعْدَ عَفْوِہِ۔)) (مسند احمد: ۶۴۹)
۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، انھوں نے کہا: کیا میں تمہیں قرآن مجید کی افضل آیت نہ بتائوں، جو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں بیان فرمائی تھی، وہ آیتیہ ہے: {مَا أَ صَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَ یْدِیکُمْ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیرٍ} … تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے، اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے علی! میں تمہارے لئے اس کی تفسیر بیان کرتاہوں : {مَا أَ صَابَکُمْ} جو کچھ تم کو پہنچتا ہے،یعنی بیمارییا سزا یا کوئی دنیوی آزمائش، {فَبِمَا کَسَبَتْ أَ یْدِیکُمْ} (تووہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے) اور اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ کرم والا ہے کہ وہ آخرت میں تم کو دوبارہ عذاب دے، اور اللہ تعالیٰ دنیا میں جو کچھ معاف کردیتا ہے، تو وہ اس سے بہت زیادہ بردبار ہے کہ معاف کرنے کے بعد دوبارہ گرفت کرے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8746

۔ (۸۷۴۶)۔ عَنْ أَ بِییَحْیٰی مَوْلَی ابْنِ عُقَیْلٍ الْأَ نْصَارِیِّ قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَقَدْ عُلِّمْتُ آیَۃً مِنْ الْقُرْآنِ مَا سَأَ لَنِی عَنْہَا رَجُلٌ قَطُّ فَمَا أَ دْرِی أَ عَلِمَہَا النَّاسُ فَلَمْ یَسْأَ لُوا عَنْہَا، أَ مْ لَمْ یَفْطِنُوْا لَہَا فَیَسْأَ لُوْا عَنْہَا، ثُمَّ طَفِقَ یُحَدِّثُنَا فَلَمَّا قَامَ تَلَاوَمْنَا أَ نْ لَا نَکُونَ سَأَ لْنَاہُ عَنْہَا، فَقُلْتُ: أَ نَا لَہَا إِذَا رَاحَ غَدًا فَلَمَّا رَاحَ الْغَدَ، قُلْتُ: یَا ابْنَ عَبَّاسٍ! ذَکَرْتَ أَ مْسِ أَ نَّ آیَۃً مِنْ الْقُرْآنِ لَمْ یَسْأَ لْکَ عَنْہَا رَجُلٌ قَطُّ فَلَا تَدْرِی أَ عَلِمَہَا النَّاسُ فَلَمْ یَسْأَ لُوا عَنْہَا أَ مْ لَمْ یَفْطِنُوا لَہَا، فَقُلْتُ: أَ خْبِرْنِی عَنْہَا، وَعَنِ اللَّاتِی قَرَأْتَ قَبْلَہَا، قَالَ: نَعَمْ، إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لِقُرَیْشٍ: ((یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! إِنَّہُ لَیْسَ أَ حَدٌ یُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللّٰہِ فِیہِ خَیْرٌ۔))، وَقَدْ عَلِمَتْ قُرَیْشٌ أَ نَّ النَّصَارٰی تَعْبُدُ عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ، وَمَا تَقُولُ فِی مُحَمَّدٍ؟ فَقَالُوْا: یَا مُحَمَّدُ! أَ لَسْتَ تَزْعُمُ أَ نَّ عِیسَی کَانَ نَبِیًّا، وَعَبْدًا مِنْ عِبَادِ اللّٰہِ صَالِحًا، فَلَئِنْ کُنْتَ صَادِقًا فَإِنَّ آلِہَتَہُمْ لَکَمَا تَقُولُونَ، قَالَ: فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ {وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُکَ مِنْہُ یَصِدُّونَ} [الزخرف: ۵۷] قَالَ: قُلْتُ: مَا یَصِدُّونَ، قَالَ یَضِجُّونَ: {وَإِنَّہُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَۃِ} [الزخرف: ۶۱] قَالَ: ہُوَ خُرُوجُ عِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلَام قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۹۱۸)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:قرآن مجید کی ایک آیت ہے، میں تو اس کو جانتا ہوں، لیکن کبھی کسی آدمی نے اس کے بارے میں مجھ سے سوال نہیں کیا، اب مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ لوگوں کو اس کا علم ہے، اس لیے سوال نہیں کرتے، یا وہ اس کو سمجھ ہینہیں سکے کہ اس کے بارے میں سوال کریں، پھروہ ہم سے اور باتیں کرتے رہے اور جب کھڑے ہو کر چلے گئے تو ہم ایک دوسرے سے ملامت کرنے لگے کہ ہم نے ان سے اس آیت کے بارے میں دریافت ہی نہیں کیا، میں (ابو یحیی) نے کہا:کل جب وہ آئیں گے تو میںپوچھوں گا، چنانچہ جب دوسرے دن آئے تو میں نے کہا: اے ابن عباس ! کل آپ نے ایک آیت کا ذکر کیا تھا کہ اس کے متعلق آپ سے کسی آدمی نے پوچھا نہیں ہے، اب معلوم نہیں لوگوں کوا س کا پتہ چل گیا ہے، اس لیے نہیں پوچھا یا وہ اس کو سمجھ ہی نہ سکے؟ انہوں نے کہا: جی، بتاتا ہوں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قریشیوں سے فرمایا: اے قریشیوں کی جماعت! اللہ تعالیٰ کے سوا جس کی بھی پرستش کی جائے گی، اس میں خیر نہیں ہو گی۔ اب قریشیوں کو پتہ تھا کہ عیسائی عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی عبادت کرتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ عیسائی، محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بارے میں کیا کہتے ہیںیعنی وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نبوت کے منکر ہیں۔ تو قریش کے لوگوں نے کہا:اے محمد! کیا تم ہی لوگ یہ دعوی نہیں کرتے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نبی اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندے تھے، تو پھر اگر آپ اس بات میں سچے ہیں تو ان کے معبود بھی ویسے ہی ہوئے، جیسے تم کہتے ہو (پس عیسی علیہ السلام میں کوئی خیر نہ رہی)؟ پس اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی: {وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُکَ مِنْہُ یَصِدُّونَ}… جب ان کے لئے مریم کے بیٹے کی مثال بیان کی گئی تو تیری قوم اس سے منہ پھیرتی ہے۔ راوی نے کہا: یَصِدُّونَ کا کیا مطلب ہے، اس نے کہا: شور کرنا، جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَإِنَّہُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَۃِ} حالانکہ عیسیٰ علیہ السلام کا نکلنا قیامت سے پہلے والی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8747

۔ (۸۷۴۷)۔ عَنْ یَعْلَی بْنِ اُمَیَّۃَ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الْمِنْبَرِ یَقُوْلُ: ((وَنَادَوْا یَا مٰلِکُ)) [الزخرف: ۷۷]۔ (مسند احمد: ۱۸۱۲۵)
۔ سیدنایعلی بن امیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے منبر پر یہ الفاظ ادا کیے : ((وَنَادَوْا یَا مٰلِکُ۔)) … وہ پکار پکار کر کہیں گے کہ اے مالک!
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8748

۔ (۸۷۴۸)۔ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: بَیْنَا رَجُلٌ یُحَدِّثُ فِی الْمَسْجِدِ الْأَ عْظَمِ، قَالَ: إِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ نَزَلَ دُخَانٌ مِنْ السَّمَائِ، فَأَخَذَ بِأَ سْمَاعِ الْمُنَافِقِینَ وَأَ بْصَارِہِمْ، وَأَخَذَ الْمُؤْمِنِینَ مِنْہُ کَہَیْئَۃِ الزُّکَامِ، قَالَ مَسْرُوقٌ: فَدَخَلْتُ عَلٰی عَبْدِ اللّٰہِ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لَہُ، وَکَانَ مُتَّکِئًا فَاسْتَوٰی جَالِسًا، فَأَنْشَأَ یُحَدِّثُ فَقَالَ: یَا أَ یُّہَا النَّاسُ مَنْ سُئِلَ مِنْکُمْ عَنْ عِلْمٍ ہُوَ عِنْدَہُ فَلْیَقُلْ بِہِ، فَإِنْ لَمْیَکُنْ عِنْدَہُ فَلْیَقُلْ: اللّٰہُ أَ عْلَمُ، فَإِنَّ مِنْ الْعِلْمِ أَ نْ تَقُولَ لِمَا لَا تَعْلَمُ: اللّٰہُ أَعْلَمُ، إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ لِنَبِیِّہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : {قُلْ مَا أَسْأَ لُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَ نَا مِنْ الْمُتَکَلِّفِینَ} إِنَّ قُرَیْشًا لَمَّا غَلَبُوا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاسْتَعْصَوْا عَلَیْہِقَالَ: ((اللّٰہُمَّ أَ عِنِّی بِسَبْعٍ کَسَبْعِ یُوسُفَ۔)) قَالَ: فَأَ خَذَتْہُمْ سَنَۃٌ أَکَلُوْا فِیہَا الْعِظَامَ وَالْمَیْتَۃَ مِنْ الْجَہْدِ حَتّٰی جَعَلَ أَحَدُہُمْ یَرٰی بَیْنَہُ وَبَیْنَ السَّمَائِ کَہَیْئَۃِ الدُّخَانِ مِنْ الْجُوعِ فَقَالُوْا: {رَبَّنَا اکْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ} قَالَ: فَقِیلَ لَہُ: إِنَّا إِنْ کَشَفْنَا عَنْہُمْ عَادُوْا، فَدَعَا رَبَّہُ فَکَشَفَ عَنْہُمْ فَعَادُوْا فَانْتَقَمَ اللّٰہُ مِنْہُمْ یَوْمَ بَدْرٍ فَذٰلِکَ قَوْلُہُ تَعَالَی: {فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَأْتِی السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُبِینٍ} إِلٰی قَوْلِہِ: {یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْرٰی إِنَّا مُنْتَقِمُونَ} [الدخان: ۱۰۔۱۶] قَالَ ابْنُ نُمَیْرٍ فِی حَدِیثِہِ: فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: فَلَوْ کَانَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَا کَشَفَ عَنْہُمْ۔ (مسند احمد: ۴۱۰۴)
۔ مسروق سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:ایک دفعہ ایک آدمی کوفہ کی مسجد اعظم میں بیان کر رہاتھا کہ قیامت کے دن آسمان سے دھواں نازل ہوگا، جو منافقوں کے کانوں اور آنکھوں کو پکڑے گا، اور ایمانداروں پر اس کایہ اثر ہو گا کہ ان کو زکام محسوس ہو گا۔ یہ سن کر میں سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آیا اور ان سے اس بات کا ذکر کیا، وہ ٹیک لگا کر بیٹھے تھے، لیکنیہ بات سنتے ہی سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور کہا: اے لوگو! جب تم سے علمی سوال کیا جائے تو اگر اس کا علم ہو تو اس کا جواب دو اور اگر علم نہ ہو تو کہہ دیا کرو کہ اللہ اعلم (اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہے)، بے شک یہ بھی علم ہی ہے کہ جس چیز کا علم نہ ہو اس کے بارے میں اللہ اعلم کہا جائے۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا: {قُلْ مَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَ جْرٍ وَمَا أَ نَا مِنْ الْمُتَکَلِّفِینَ}… کہہ دوکہ میں تم سے اس پر اجرت طلب نہیں کرتا اور میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ جب قریشی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر غالب آ گئے اور آپ پر سر کش ہوگئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان پر ان الفاظ کے ساتھ بد دعا کی: اے میرے اللہ! یوسف علیہ السلام والا سات سالہ قحط ان پر مسلط کر کے ان کے خلاف میری مدد فرما۔ پس وہ قحط سالی میں اس قدر مبتلا ہو گئے کہ انہوں نے ہڈیاں اور مردار کھانا شروع کر دیئے،وہ اس قدر تکلیف اور مشقت میں پڑ گئے کہ بھوک کی وجہ سے ان کو اپنے اور آسمان کے ما بین دھویں کی طرح کی چیز نظر آتی تھی۔ بالآخر انہوں نے کہا: اے ہمارے رب! یہ عذاب ہم سے کھول دے، ہم ایمان لانے والے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا گیا: اگر ان سے عذاب کھل گیا تو یہ پھر پہلی حالت میں لوٹ آئیں گے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے رب سے دعا کی اور اس نے ان سے عذاب دور کر دیا، لیکن جب وہ پھر اسی نافرمانی کی حالت میں لوٹ آئے تو اللہ تعالیٰ نے بدر کے دن ان کی گرفت کی،یہی صورتیں اللہ تعالی کے اس فرمان کی مصداق ہیں: {فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَأْتِی السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُبِینٍ… … یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْرٰی إِنَّا مُنْتَقِمُونَ}۔ ابن نمیر کی حدیث میں سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر اس سے قیامت کے دن کا دھواں ہوتا تو پھر ان سے دور نہ کیا جاتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8749

۔ (۸۷۴۹)۔ عَنْ سُفْیَانَ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ سُلَیْمٍ، عَنْ أَ بِی سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ سُفْیَانُ: لَا أَ عْلَمُہُ إِلَّا عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم {أَوْ أَ ثَارَۃٍ مِنْ عِلْمٍ} [الأحقاف: ۴] قَالَ: ((الْخَطُّ)) (مسند احمد: ۱۹۹۲)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے، امام سفیان کہتے ہیں: میرایہی خیال ہے کہ یہ روایت نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے منقول ہے، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے {أَ وْ أَ ثَارَۃٍ مِنْ عِلْمٍ} کے بارے میں فرمایا: اس سے مراد خط ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8750

۔ (۸۷۵۰)۔ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: انْطَلَقَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمًا وَأَ نَا مَعَہُ حَتّٰی دَخَلْنَا کَنِیسَۃَ الْیَہُودِ بِالْمَدِینَۃِیَوْمَ عِیدٍ لَہُمْ، فَکَرِہُوْا دُخُولَنَا عَلَیْہِمْ، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَا مَعْشَرَ الْیَہُودِ! أَ رُونِی اثْنَیْ عَشَرَ رَجُلًا یَشْہَدُونَ أَ نَّہُ لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَ نَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰہِ، یُحْبِطِ اللّٰہُ عَنْ کُلِّ یَہُودِیٍّ تَحْتَ أَ دِیمِ السَّمَائِ الْغَضَبَ الَّذِی غَضِبَ عَلَیْہِ۔)) قَالَ: فَأَ سْکَتُوْا مَا أَ جَابَہُ مِنْہُمْ أَحَدٌ، ثُمَّ رَدَّ عَلَیْہِمْ فَلَمْ یُجِبْہُ أَ حَدٌ، ثُمَّ ثَلَّثَ فَلَمْ یُجِبْہُ أَ حَدٌ، فَقَالَ: ((أَ بَیْتُمْ فَوَاللّٰہِ! إِنِّی لَأَ نَا الْحَاشِرُ، وَأَ نَا الْعَاقِبُ، وَأَ نَا النَّبِیُّ الْمُصْطَفٰی، آمَنْتُمْ أَ وْ کَذَّبْتُمْ۔)) ثُمَّ انْصَرَفَ وَأَ نَا مَعَہُ حَتّٰی إِذَا کِدْنَا أَ نْ نَخْرُجَ نَادٰی رَجُلٌ مِنْ خَلْفِنَا: کَمَا أَ نْتَ یَا مُحَمَّدُ!، قَالَ: فَأَ قْبَلَ، فَقَالَ ذٰلِکَ الرَّجُلُ: أَ یَّ رَجُلٍ تَعْلَمُونَ فِیکُمْیَا مَعْشَرَ الْیَہُودِ! قَالُوْا: وَاللّٰہِ! مَا نَعْلَمُ أَ نَّہُ کَانَ فِینَا رَجُلٌ أَعْلَمُ بِکِتَابِ اللّٰہِ مِنْکَ، وَلَا أَ فْقَہُ مِنْکَ، وَلَا مِنْ أَ بِیکَ قَبْلَکَ، وَلَا مِنْ جَدِّکَ قَبْلَ أَبِیکَ، قَالَ: فَإِنِّی أَ شْہَدُ لَہُ بِاللّٰہِ أَ نَّہُ نَبِیُّ اللّٰہِ الَّذِی تَجِدُوْنَہُ فِی التَّوْرَاۃِ، قَالُوْا: کَذَبْتَ ثُمَّ رَدُّوا عَلَیْہِ قَوْلَہُ وَقَالُوْا فِیہِ شَرًّا، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کَذَبْتُمْ لَنْ یُقْبَلَ قَوْلُکُمْ، أَ مَّاآنِفًا فَتُثْنُونَ عَلَیْہِ مِنْ الْخَیْرِ مَا أَثْنَیْتُمْ، وَلَمَّا آمَنَ کَذَّبْتُمُوہُ، وَقُلْتُمْ فِیہِ مَا قُلْتُمْ، فَلَنْ یُقْبَلَ قَوْلُکُمْ۔)) قَالَ: فَخَرَجْنَا وَنَحْنُ ثَلَاثَۃٌ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَ نَا وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلَامٍ، وَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیہِ: {قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَکَفَرْتُمْ بِہِ وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَلَی مِثْلِہِ فَآمَنَ وَاسْتَکْبَرْتُمْ إِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ} [الأحقاف: ۱۰]۔ (مسند احمد: ۲۴۴۸۴)
۔ سیدنا عوف بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، یہودیوں کی عید کا دن تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہودیوں کے ایک عبادت خانہ کی طرف گئے، میں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، ہمارا آنا ان کو ناگوار گزرا، بہرحال نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: اے یہودیوں کی جماعت! (اپنی جماعت میں سے) مجھے بارہ (۱۲) ایسے آدمی بتائو جو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دیں، اللہ تعالیٰ نے آسمان کی نیلی چھت کے نیچے جو تم پر غضب در غضب کیا ہے وہ مٹا دے گا۔ یہودی خاموش رہے، ان میں سے کسی نے جواب نہ دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر سوال لوٹایا، لیکن کسی نے جواب نہ دیا، تیسری بار سوال دوہرایا، لیکن اس بار بھی جواب نہ آیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود فرمایا: تم انکار کر رہے ہو، اللہ کی قسم! میں حاشرہوں(جس کی ملت پر لوگ اکٹھے کئے جائیں گے)، میں عاقب ہوں(جس کے بعد کوئی نبی نہیں) اور میں نبی مصطفی ہوں، تم ایمان لائو یا تکذیب کرو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پھر آپ واپس چل پڑے، میں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، جب ہم باہر نکلنے ہی والے تھے کہ ہمارے پیچھے سے ایک آدمی نے ہمیں آواز دی، وہ عبداللہ بن سلام تھے، اس نے کہا: اے محمد! ٹھہر جائیں، وہ آیا اور اس نے یہودیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: اے گروہ یہود! میں تمہارے علم کے مطابق کیسا آدمی ہوں؟ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہماری معلومات کے مطابق تم سے زیادہ کتاب اللہ کا عالم اور فقیہ کوئی نہیں ہے اور نہ ہی تجھ سے پہلے تیرے باپ سے زیادہ کوئی فقیہ اور عالم تھا، بلکہ تیرے باپ سے پہلے تیرے دادے سے بڑھ کر بھی کوئی عالم نہ تھا۔ عبداللہ نے کہا: تو پھر میں تو گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے وہ نبی ہیں، جن کا ذکر تم تورات میں پاتے ہو، یہودی وہیں بدل گئے اور کہنے لگے: تو جھوٹ بولتا ہے، پھر ساری بات کی تردید کر دی اور سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو برا کہا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب تمہاری بات ہر گز قابل قبول نہیں ہو گی، ابھی تم ان کی تعریف کر رہے تھے، جب وہ ایمان لے آیا ہے، تو تم اسے جھوٹا کہنے لگ گئے ہو اور اس کے بارے میں برے الفاظ استعمال کرتے ہو تمہاری بات ہر گز قبول نہیں ہو گی۔ اب ہم باہر نکلے تو تین افراد تھے، میں تھا،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تھے اور سیدنا عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، اللہ تعالی نے اس بارے میں آیت نازل کی : {قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَکَفَرْتُمْ بِہِ وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَلٰی مِثْلِہِ فَآمَنَ وَاسْتَکْبَرْتُمْ إِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ}… کہہ دے کیا تم نے دیکھا اگر یہ اللہ کی طرف سے ہوا اور تم نے اس کا انکار کر دیا اور بنی اسرائیل میں سے ایک شہادت دینے والے نے اس جیسے (قرآن) کی شہادت دی، پھر وہ ایمان لے آیا اور تم نے تکبر کیا ( تو تمھارا انجام کیا ہوگا ) بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8751

۔ (۸۷۵۱)۔ عَنْ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَ نَّہَا قَالَتْ: مَا رَأَ یْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَطُّ مُسْتَجْمِعًا ضَاحِکًا، قَالَ مُعَاوِیَۃُ: ضَحِکًا حَتّٰی أَرٰی مِنْہُ لَہَوَاتِہِ إِنَّمَا کَانَ یَتَبَسَّمُ، وَقَالَتْ: کَانَ إِذَا رَأٰی غَیْمًا أَ وْ رِیحًا عُرِفَ ذٰلِکَ فِی وَجْہِہِ، قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! النَّاسُ إِذَا رَأَوُا الْغَیْمَ فَرِحُوْا رَجَائَ أَ نْ یَکُونَ فِیہِ الْمَطَرُ، وَأَ رَاکَ إِذَا رَأَ یْتَہُ عَرَفْتُ فِی وَجْہِکَ الْکَرَاہِیَۃَ، قَالَتْ: فَقَالَ: ((یَا عَائِشَۃُ! مَایُؤْمِنِّی أَ نْ یَکُونَ فِیہِ عَذَابٌ، قَدْ عُذِّبَ قَوْمٌ بِالرِّیحِ، وَقَدْ رَأٰی قَوْمٌ الْعَذَابَ، فَقَالُوْا: ہٰذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا۔)) (مسند احمد: ۲۴۸۷۳)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کبھی کھل کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گلے کا کوا دیکھ سکوں، آپ صرف زیر لب مسکراتے تھے اور جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بادلوں یا ہوا کو دیکھتے تو اس کے اثرات آپ کے چہرہ پر نمایاں ہو جاتے (یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پریشان ہو جاتے)، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! لوگ تو بادل یا ہوا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کیونکہ انہیں بارش کے آنے کی امید ہوتی ہے،لیکن اس کے برعکس میں آپ کو دیکھتی ہوں کہ آپ کے چہرے پر تشویس کے آثار نظر آنے لگتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! مجھے اس سے بے خوفی نہیں ہے کہ اس میں عذاب ہو، جبکہ ایک قوم (یعنی قوم ِ عاد) کو ہوا ہی کے ذریعہ ہلاک کیا گیا اوراس قوم کی نظر تو عذاب پر پڑ رہی تھی، لیکن وہ(ظاہری بادل کو دیکھ کر) کہہ رہے تھے: یہ بادل ہے جو ہم پر مینہ برسانے والا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8752

۔ (۸۷۵۲)۔ عَنِ الزُّبَیْرِ {نَفَرًا مِنْ الْجِنِّ یَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ} [الأحقاف: ۲۹] قَالَ: بِنَخْلَۃَ وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُصَلِّی الْعِشَائَ الْآخِرَۃَ {کَادُوْا یَکُونُونَ عَلَیْہِ لِبَدًا} [الجن: ۲۹] قَالَ سُفْیَانُ: کَانَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ کَاللِّبَدِ بَعْضُہُ عَلَی بَعْضٍ۔ (مسند احمد: ۱۴۳۵)
۔ سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، اللہ تعالی نے فرمایا: {وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ }، یہ واقعہ وادیٔ نخلہ میں پیش آیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے {وَّاَنَّہ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰہِ یَدْعُوْہُ کَادُوْایَکُوْنُوْنَ عَلَیْہِ لِبَدًا۔}… اور یہ کہ بلاشبہ بات یہ ہے کہ جب اللہ کا بندہ کھڑا ہوا، اسے پکارتا تھا تو وہ قریب تھے کہ اس پر تہ بہ تہ جمع ہو جائیں۔ امام سفیان کہتے ہیں: وہ جن اون یا بالوں کی طرح تہ بہ تہ جمع ہو گئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8753

۔ (۸۷۵۳)۔ عَنْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَمَّا خَلَقَ الْخَلْقَ قَامَتِ الرَّحِمُ فَأَ خَذَتْ بِحَقْوِ الرَّحْمٰنِ قَالَتْ: ہٰذَا مَقَامُ الْعَائِذِ مِنَ الْقَطِیعَۃِ، قَالَ: أَ مَا تَرْضٰی أَ نْ أَ صِلَ مَنْ وَصَلَکِ، وَأَ قْطَعَ مَنْ قَطَعَکِ۔))، اقْرَئُ وْا إِنْ شِئْتُمْ: {فَہَلْ عَسَیْتُمْ إِنْ تَوَلَّیْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْأَ رْضِ وَتُقَطِّعُوْا أَ رْحَامَکُمْ، أُولَئِکَ الَّذِینَ لَعَنَہُمْ اللّٰہُ فَأَ صَمَّہُمْ وَأَعْمَی أَ بْصَارَہُمْ، أَ فَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلٰی قُلُوبٍ أَ قْفَالُہَا} [محمد: ۲۲۔۲۴]۔ (مسند احمد: ۸۳۴۹)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی تو صلہ رحمی، رحمن کی کمر سے چمٹ گئی اور اس نے اللہ تعالیٰ سے کہا: یہ قطع رحمی سے پناہ لینے والے کا مقام ہے،اللہ تعالیٰ نے کہا: کیا تو یہ پسند کرتی ہے کہ جو تجھے ملائے گا، میں بھی اسے ملائوں گا اور جو تجھے کاٹے گا، میں بھی اس کو کاٹ دوں گا۔ اگر چاہتے ہو تو یہ آیات پڑھ لو: {فَہَلْ عَسَیْتُمْ إِنْ تَوَلَّیْتُمْ أَ نْ تُفْسِدُوْا فِی الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوْا أَ رْحَامَکُمْ، أُولَئِکَ الَّذِینَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فَأَ صَمَّہُمْ وَأَ عْمٰی أَ بْصَارَہُمْ، أَ فَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَ مْ عَلٰی قُلُوبٍ أَ قْفَالُہَا}… پھر یقینا تم قریب ہو اگر تم حاکم بن جاؤ کہ زمین میں فساد کرو اور اپنے رشتوں کو بالکل ہی قطع کر دو۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی۔ پس انھیں بہرا کر دیا اور ان کی آنکھیں اندھی کر دیں۔ تو کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے، یا کچھ دلوں پر ان کے تالے پڑے ہوئے ہیں ؟
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8754

۔ (۸۷۵۴)۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی سَفَرٍ قَالَ: فَسَأَ لْتُہُ عَنْ شَیْئٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ، قَالَ: فَقُلْتُ لِنَفْسِی: ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ! نَزَرْتَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْکَ، قَالَ: فَرَکِبْتُ رَاحِلَتِی فَتَقَدَّمْتُ مَخَافَۃَ أَ نْ یَکُونَ نَزَلَ فِیَّ شَیْئٌ، قَالَ: فَإِذَا أَ نَا بِمُنَادٍ یُنَادِییَا عُمَرُ! أَیْنَ عُمَرُ؟ قَالَ: فَرَجَعْتُ وَأَ نَا أَظُنُّ أَ نَّہُ نَزَلَ فِیَّ شَیْئٌ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((نَزَلَتْ عَلَیَّالْبَارِحَۃَ سُورَۃٌ ہِیَ أَ حَبُّ إِلَیَّ مِنْ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا: {إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا لِیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ} [الفتح: ۱۔۲]۔)) (مسند احمد: ۲۰۹)
۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: حدیبیہ کے سفر میں ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایک چیز کے متعلق تین بار سوال، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے کچھ جواب نہ دیا،میں نے اپنے دل میں اپنے آپ سے کہا: اے خطاب کے بیٹے! تیری ماں تجھے گم پائے تین بار تو نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کرنے میں اصرار کیا ہے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ یہ سوچ کر میں اپنی سواری پر بیٹھا اور آگے نکل گیا، ڈر یہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے بارے میں کوئی وحی نازل ہو جائے، تو چانک ایک پکارنے والے نے پکارا: اے عمر! عمر کہاں ہو؟ میں واپس مڑا اور خیالیہی تھا کہ میرے بارے میں کچھ نازل ہوا ہے، جب میں حاضر ہوا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آج رات مجھ پر ایسی سورت نازل ہوئی ہے کہ وہ مجھے دنیا وما فیہا سے زیادہ پیاری ہے، یعنی: {إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا لِیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَ خَّرَ}… بے شک ہم نے آپ کو واضح فتح عطا کی، تا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8755

۔ (۸۷۵۵)۔ عَنْ أَ نَسٍ قَالَ: لَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ الْحُدَیْبِیَۃِ نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: { إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا۔ لِیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَ خَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُسْتَقِیمًا} [الفتح: ۱۔۲] قَالَ الْمُسْلِمُونَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ہَنِیئًا لَکَ! مَا أَ عْطَاکَ اللّٰہُ، فَمَا لَنَا؟ فَنَزَلَتْ: {لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْأَ نْہَارُ خَالِدِینَفِیہَا وَیُکَفِّرَ عَنْہُمْ سَیِّئَاتِہِمْ وَکَانَ ذٰلِکَ عِنْدَ اللّٰہِ فَوْزًا عَظِیمًا} [الفتح: ۵]۔ (مسند احمد: ۱۲۲۵۱)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حدیبیہ سے واپس ہوئے تو یہ آیات اتریں: { إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا۔ لِیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَ خَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُسْتَقِیمًا}… بے شک ہم نے آپ کو واضح فتح عطا کی، تا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دے، اور آپ پر اپنی نعمت پوری کر دے اور آپ کو صراط ِ مستقیم کی طرف ہدایت دے۔ مسلمانوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کو مبارک ہو، اس چیز پر جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی ہے، اب ہمارے لیے کیا ہے؟ پس ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی: {لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْأَ نْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا وَیُکَفِّرَ عَنْہُمْ سَیِّئَاتِہِمْ وَکَانَ ذٰلِکَ عِنْدَ اللّٰہِ فَوْزًا عَظِیمًا}… تاکہ اللہ تعالیٰ ایماندار مردوں اور ایماندار عورتوں کو بہشتوں میں داخل کرے، جن کے نیچے نہری بہتی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور ان سے ان کے گناہ دور کر دے، یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑی کامیابی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8756

۔ (۸۷۵۶)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) عَنْ أَ نَسٍ قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ الْحُدَیْبِیَۃِ ہَبَطَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَأَ صْحَابِہِ ثَمَانُونَ رَجُلًا مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ فِی السِّلَاحِ مِنْ قِبَلِ جَبَلِ التَّنْعِیمِ، فَدَعَا عَلَیْہِمْ فَأُخِذُوْا وَنَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {وَہُوَ الَّذِی کَفَّ أَ یْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَأَ یْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْ بَعْدِ أَ نْ أَظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ} [الفتح: ۲۴] قَالَ: یَعْنِی جَبَلَ التَّنْعِیمِ مِنْ مَکَّۃَ۔ (مسند احمد: ۱۲۲۵۲)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ صلح حدیبیہ والے دن مکہ والوں میں سے اسی (۸۰) ہتھیاروں سے لیس آدمی تنعیم پہاڑ کی جانب سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ کے صحابہ کرام پر چڑھ آئے، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان پر بددعا کی، پس ان کو گرفتا کر لیا گیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی: { وَہُوَ الَّذِی کَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَأَ یْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَ ظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ} … وہی ہے جس نے خاص مکہ میںکافروں کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روک لیا، اس کے بعد کہ اس نے تمہیں ان پر غلبہ دے دیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8757

۔ (۸۷۵۷)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُغَفَّلٍ الْمُزَنِیِّ قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْحُدَیْبِیَۃِ فِی أَصْلِ الشَّجَرَۃِ الَّتِی قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی فِی الْقُرْآنِ، وَکَانَ یَقَعُ مِنْ أَ غْصَانِ تِلْکَ الشَّجَرَۃِ عَلٰی ظَہْرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَعَلِیُّ بْنُ أَ بِی طَالِبٍ وَسُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو بَیْنَیَدَیْہِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: ((اکْتُبْ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ۔)) فَأَخَذَ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو بِیَدِہِ، فَقَالَ: مَا نَعْرِفُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ اکْتُبْ فِی قَضِیَّتِنَا مَا نَعْرِفُ، قَالَ: ((اکْتُبْ بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ۔)) فَکَتَبَ: ((ہٰذَا مَا صَالَحَ عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَ ہْلَ مَکَّۃَ۔)) فَأَ مْسَکَ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو بِیَدِہِ وَقَالَ: لَقَدْ ظَلَمْنَاکَ إِنْ کُنْتَرَسُولَہُ، اکْتُبْ فِی قَضِیَّتِنَا مَا نَعْرِفُ فَقَالَ: ((اکْتُبْ ہٰذَا مَا صَالَحَ عَلَیْہِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَأَ نَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔)) فَکَتَبَ فَبَیْنَا نَحْنُ کَذٰلِکَ إِذْ خَرَجَ عَلَیْنَا ثَلَاثُونَ شَابًّا عَلَیْہِمُ السِّلَاحُ، فَثَارُوْا فِی وُجُوہِنَا، فَدَعَا عَلَیْہِمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَأَ خَذَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ بِأَبْصَارِہِم، فَقَدِمْنَا إِلَیْہِمْ فَأَخَذْنَاہُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ہَلْ جِئْتُمْ فِی عَہْدِ أَحَدٍ أَوْ ہَلْ جَعَلَ لَکُمْ أَ حَدٌ أَ مَانًا؟)) فَقَالُوْا: لَا، فَخَلّٰی سَبِیلَہُمْ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَہُوَ الَّذِی کَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَأَ یْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَ ظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ، وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرًا} [الفتح: ۲۴]۔ (مسند احمد: ۱۶۹۲۳)
۔ سیدنا عبداللہ بن مغفل مزنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ اس درخت کی جڑ کے نزدیک بیٹھے ہوئے تھے، جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر کیا ہے، اس درخت کی شاخیں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کمر مبارک پر پڑ رہی تھیں، سیدنا علی ابن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور قریش کے نمائندے سہیل بن عمرو آپ کے سامنے تھے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: (معاہدہ لکھو)، لکھو بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ۔ لیکن سہیل بن عمرو نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ہم بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ کونہیں جانتے، ہمارے صلح کے فیصلہ میں وہ لکھو جو ہم جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (چلو) بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لکھوایا کہ یہ وہ دستاویز ہے جس پر محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مکہ والوں سے صلح کی ہے۔ لیکن سہیل نے اس بار پھر ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا: اگر آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم نے آپ کو روک کر آپ پر ظلم کیا ہے، ہم آپ کی رسالت کو نہیں مانتے، ہمارے اس صلح نامہ میں لکھو جو ہم پہنچانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (ٹھیک ہے) لکھو، یہ وہ معاہدہ ہے، جس پر محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب نے صلح کی ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لکھ دو، لکھ دو، جبکہ میں واقعی اللہ کا رسول ہوں اور میں محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ ہم صلح کییہ شرائط لکھ رہے تھے کہ تیس (۳۰) نوجوان مسلح ہو کر ہمارے سامنے سے آ گئے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان پر بددعا کی، اللہ تعالیٰ نے ان کی بینائی ختم کر دی اور ہم نے آگے بڑھ کر ان کو گرفتار کر لیا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے پوچھا: کیا تم کسی کے عہد میں ہو، کیا کسی نے تم کو امان دی ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں چھوڑ دیا اوراللہ تعالی نے یہ آیت اتاری:{ وَہُوَ الَّذِی کَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَأَ یْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَ ظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرًا۔} … وہی ہے جس نے خاص مکہ میںکافروں کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روک لیا، اس کے بعد کہ اس نے تمہیں ان پر غلبہ دے دیا تھا اور تم جو کچھ کر رہے ہو، اللہ تعالی اسے دیکھ خوب رہا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8758

۔ (۸۷۵۸)۔ عَنِ ابْنِ أَ بِی مُلَیْکَۃَ قَالَ: کَادَ الْخَیِّرَانِ أَ نْ یَہْلِکَا أَ بُو بَکْرٍ وَعُمَرُ، لَمَّا قَدِمَ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَفْدُ بَنِی تَمِیمٍ أَ شَارَ أَحَدُہُمَا بِالْأَ قْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِیِّ أَخِی بَنِی مُجَاشِعٍ، وَأَ شَارَ الْآخَرُ بِغَیْرِہِ، قَالَ أَ بُو بَکْرٍ لِعُمَرَ: إِنَّمَا أَ رَدْتَ خِلَافِی، فَقَالَ عُمَرُ: مَا أَ رَدْتُ خِلَافَکَ، فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُہُمَا عِنْدَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَزَلَتْ: {یَا أَ یُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا أَ صْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ} إِلٰی قَوْلِہِ: {عَظِیمٌ } [الحجرات: ۲] قَالَ ابْنُ أَ بِی مُلَیْکَۃَ: قَالَ ابْنُ الزُّبَیْرِ: فَکَانَ عُمَرُ بَعْدَ ذٰلِکَ، وَلَمْ یَذْکُرْ ذٰلِکَ عَنْ أَ بِیہِیَعْنِی أَ بَا بَکْرٍ، إِذَا حَدَّثَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَدَّثَہُ کَأَ خِی السِّرَارِ لَمْ یَسْمَعْہُ حَتّٰییَسْتَفْہِمَہُ۔ (مسند احمد: ۱۶۲۳۲)
۔ ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: قریب تھا کہ اس امت کے دو بہترین آدمی سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہلاک ہو جاتے،ہوا یوں کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بنو تمیم کا وفد آیا تو سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما میں سے ایک نے رائے دی کہ اقرع بن حابس حنظلی کو ان کا امیر مقرر کیا جائے، جبکہ دوسرے نے اور آدمی (قعقعاع بن معبد) کا نام پیش کیا، اس پر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: تمہارا مقصد میری مخالفت کرنا تھا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:، نہیں، میرا ارادہ تمہاری خلاف ورزی کرنا نہیں تھا، پس نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی موجودگی میں ان کی آوازیں بلند ہونے لگیں، سو یہ آیات نازل ہوئیں: {یَا أَ یُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا أَ صْوَاتَکُمْ … … عَظِیمٌ} ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ ابن زبیر نے کہا اس کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بات کرتے تو ایک راز دان کی طرح کرتے، حتیٰ کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بات کو دوہرانے کا مطالبہ کرتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8759

۔ (۸۷۵۹)۔ عَنْ أَ نَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: { یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوْا أَ صْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ} إِلٰی قَوْلِہِ: {وَأَ نْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ} [الحجرات: ۲] وَکَانَ ثَابِتُ بْنُ قَیْسِبْنِ الشَّمَّاسِ رَفِیعَ الصَّوْتِ فَقَالَ: أَ نَا الَّذِی کُنْتُ أَ رْفَعُ صَوْتِی عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَبِطَ عَمَلِی، أَ نَا مِنْ أَ ہْلِ النَّارِ، وَجَلَسَ فِی أَ ہْلِہِ حَزِینًا، فَتَفَقَّدَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَانْطَلَقَ بَعْضُ الْقَوْمِ إِلَیْہِ، فَقَالُوْا لَہُ: تَفَقَّدَکَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا لَکَ؟ فَقَالَ: أَنَا الَّذِی أَرْفَعُ صَوْتِی فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ، وَأَجْہَرُ بِالْقَوْلِ حَبِطَ عَمَلِی وَأَ نَا مِنْ أَ ہْلِ النَّارِ، فَأَ تَوُا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَ خْبَرُوہُ بِمَا قَالَ، فَقَالَ: ((لَا، بَلْ ہُوَ مِنْ أَ ہْلِ الْجَنَّۃِ۔)) قَالَ أَ نَسٌ: وَکُنَّا نَرَاہُ یَمْشِی بَیْنَ أَ ظْہُرِنَا، وَنَحْنُ نَعْلَمُ أَ نَّہُ مِنْ أَ ہْلِ الْجَنَّۃِ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ الْیَمَامَۃِ کَانَ فِینَا بَعْضُ الِانْکِشَافِ فَجَائَ ثَابِتُ بْنُ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، وَقَدْ تَحَنَّطَ وَلَبِسَ کَفَنَہُ، فَقَالَ: بِئْسَمَا تُعَوِّدُونَ أَقْرَانَکُمْ فَقَاتَلَہُمْ حَتّٰی قُتِلَ۔ (مسند احمد: ۱۲۴۲۶)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: {یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْـہَرُوْا لَہ بِالْقَوْلِ کَجَــہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ۔} … اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنی آوازیں نبی کی آواز کے اوپر بلند نہ کرو اور نہ بات کرنے میں اس کے لیے آواز اونچی کرو، تمھارے بعض کے بعض کے لیے آواز اونچی کرنے کی طرح، ایسا نہ ہوکہ تمھارے اعمال برباد ہو جائیں اور تم شعور نہ رکھتے ہو۔ تو سیدنا ثابت بن قیس بن شماس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ بلند آواز والے تھے، یہ کہنے لگے: میری آواز نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آواز سے بلند ہے، میرے اعمال تو ضائع ہو گئے، میں تو دوزخی ہوا، یہ سوچ کر اور غمگین ہو کر گھر میں بیٹھ گئے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو گم پا کر ان کے بارے میں پوچھا، ایک آدمی (سیدنا عاصم بن عدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) ان کے پاس گیا اور کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تمہیں گم پا کر تمہاری تلاش کر رہے ہیں، کیا وجہ ہے: کہنے لگے: میں وہ ہوں کہ میری آواز نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آواز سے بلند ہے، میں اس بلند آوازی کی وجہ سے دوزخی ہوا، میرے تو تمام اعمال ضائع ہوگئے، وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور سیدنا ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، وہ تو جنتی ہے۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: سیدنا ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے متعلق ہمارا یہی خیال تھا کہ وہ ہمارے درمیان چلتے تو تھے لیکن ہم یہی سمجھتے تھے کہ وہ جنتی ہیں۔ جب جنگ یمامہ ہوئی تو ہمارے درمیان شکست کے آثار نمودار ہوئے، سیدنا ثابت بن قیس بن شماس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور انہوں نے حنوط خوشبو لگا رکھی تھی اور کفن پہن رکھا تھا اور کہا: تم نے اپنے مد مقابل لوگوں کو بری عادت ڈالی ہے، پھر انھوں نے ان سے لڑائی کی،یہاں تک کہ وہ شہید ہوگئے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8760

۔ (۸۷۶۰)۔ عَنِ الْأَ قْرَعِ بْنِ حَابِسٍ أَ نَّہُ نَادٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ وَرَائِ الْحُجُرَاتِ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَلَمْ یُجِبْہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَ لَا إِنَّ حَمْدِی زَیْنٌ وَإِنَّ ذَمِّی شَیْنٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَمَا حَدَّثَ أَ بُو سَلَمَۃَ: ((ذَاکَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ۔)) (مسند احمد: ۱۶۰۸۷)
۔ ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ اقرع بن حابس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو حجروں کے پیچھے کھڑے ہو کر یوں آوا ز دی: اے اللہ کے رسول! لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا، اس نے پھر پکارا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میری تعریف کرنا زینت ہے اور میری مذمت کرنا عیب ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ شان تو اللہ تعالی کی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8761

۔ (۸۷۶۱)۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ، ثَنَا عِیْسَی بْنُ دِیْنَارٍ، ثَنَا اَبِیْ اَنَّہُ سَمِعَ الْحَارِثَ بْنَ أَ بِی ضِرَارٍ الْخُزَاعِیِّ قَالَ: قَدِمْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَعَانِی إِلَی الْإِسْلَامِ، فَدَخَلْتُ فِیہِ وَأَ قْرَرْتُ بِہِ، فَدَعَانِی إِلٰی الزَّکَاۃِ فَأَقْرَرْتُ بِہَا، وَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَ رْجِعُ إِلٰی قَوْمِی فَأَ دْعُوہُمْ إِلَی الْإِسْلَامِ، وَأَ دَائِ الزَّکَاۃِ، فَمَنِ اسْتَجَابَ لِی جَمَعْتُ زَکَاتَہُ، فَیُرْسِلُ إِلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَسُولًا لِإِبَّانِ کَذَا وَکَذَا لِیَأْتِیَکَ مَا جَمَعْتُ مِنْ الزَّکَاۃِ، فَلَمَّا جَمَعَ الْحَارِثُ الزَّکَاۃَ مِمَّنْ اسْتَجَابَ لَہُ، وَبَلَغَ الْإِبَّانَ الَّذِی أَ رَادَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَ نْ یُبْعَثَ إِلَیْہِ احْتَبَسَ عَلَیْہِ الرَّسُولُ فَلَمْ یَأْتِہِ، فَظَنَّ الْحَارِثُ أَ نَّہُ قَدْ حَدَثَ فِیہِ سَخْطَۃٌ مِنْ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولِہِ، فَدَعَا بِسَرَوَاتِ قَوْمِہِ فَقَالَ لَہُمْ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ وَقَّتَ لِی وَقْتًا یُرْسِلُ إِلَیَّ رَسُولَہُ لِیَقْبِضَ مَا کَانَ عِنْدِی مِنْ الزَّکَاۃِ، وَلَیْسَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْخُلْفُ، وَلَا أَ رٰی حَبْسَ رَسُولِہِ إِلَّا مِنْ سَخْطَۃٍ کَانَتْ، فَانْطَلِقُوْا فَنَأْتِیَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَبَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْوَلِیدَ بْنَ عُقْبَۃَ إِلَی الْحَارِثِ لِیَقْبِضَ مَا کَانَ عِنْدَہُ مِمَّا جَمَعَ مِنْ الزَّکَاۃِ، فَلَمَّا أَ نْ سَارَ الْوَلِیدُ حَتّٰی بَلَغَ بَعْضَ الطَّرِیقِ فَرِقَ فَرَجَعَ فَأَ تٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ الْحَارِثَ مَنَعَنِی الزَّکَاۃَ، وَأَ رَادَ قَتْلِی، فَضَرَبَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْبَعْثَ إِلَی الْحَارِثِ، فَأَ قْبَلَ الْحَارِثُ بِأَ صْحَابِہِ، إِذِ اسْتَقْبَلَ الْبَعْثَ، وَفَصَلَ مِنْ الْمَدِینَۃِ لَقِیَہُمْ الْحَارِثُ فَقَالُوْا: ہٰذَا الْحَارِثُ، فَلَمَّا غَشِیَہُمْ قَالَ لَہُمْ: إِلٰی مَنْ بُعِثْتُمْ؟ قَالُوْا: إِلَیْکَ، قَالَ: وَلِمَ؟ قَالُوْا: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ بَعَثَ إِلَیْکَ الْوَلِیدَ بْنَ عُقْبَۃَ، فَزَعَمَ أَنَّکَ مَنَعْتَہُ الزَّکَاۃَ وَأَرَدْتَ قَتْلَہُ، قَالَ: لَا، وَالَّذِی بَعَثَ مُحَمَّدًا بِالْحَقِّ! مَا رَأَ یْتُہُ بَتَّۃً وَلَا أَتَانِی، فَلَمَّا دَخَلَ الْحَارِثُ عَلَی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنَعْتَ الزَّکَاۃَ وَأَرَدْتَ قَتْلَ رَسُولِی؟)) قَالَ: لَا، وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ! مَا رَأَ یْتُہُ وَلَا أَ تَانِی، وَمَا أَقْبَلْتُ إِلَّا حِینَ احْتَبَسَ عَلَیَّ رَسُولُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، خَشِیتُ أَ نْ تَکُونَ کَانَتْ سَخْطَۃً مِنْ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولِہِ، قَالَ: فَنَزَلَتِ الْحُجُرَاتُ: {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا إِنْ جَائَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوْا أَنْ تُصِیبُوْا قَوْمًا بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ} اِلٰی قَوْلِہٖتعالٰی: {فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَنِعْمَۃً وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ} [الحجرات: ۶۔۸]۔ (مسند احمد: ۱۸۶۵۰)
۔ سیدنا حارث بن ضرار خزاعی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے اسلام کی دعوت دی،سو میں دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے زکوٰۃ کی دعوت دی، میں نے اس کا بھی اقرار کیا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اپنی قوم کی طرف لوٹتا ہوں اور انہیں دعوتِ اسلام دیتا ہوں اور انہیں زکوٰۃ ادا کرنے کا بھی حکم دیتا ہوں، جو میری بات مان لے گا، میں اس کی زکوٰۃ جمع کر رکھوں گا، پھر میرے پاس اتنی دیر تک اپنا نمائندہ بھیجنا تا کہ جو میں نے زکوٰۃ جمع کر رکھی ہو، و ہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لے آئے، جب سیدنا حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اور ان کی بات ماننے والوں نے زکوٰۃ جمع کرلی اور وہ مدت پوری ہوگئی، جس میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نمائندہ بھیجنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا، وہ نمائندہ کسی وجہ سے رک گیا، نہ جا سکا، لیکن اُدھر سیدنا حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے خیال کیا کہ میرے بارے میں اللہ تعالی اوراس کے رسول کے ہاں کوئی ناراضگی پیدا ہو گئی ہے، پس انہوں نے اپنی قوم کے سربر آور وہ افراد کو جمع کیا اوران سے کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے پاس اتنی مدت میں نمائندہ بھیجنے کا فرمایا تھا، تا کہ وہ میرے پاس سے زکوٰۃ وصول کرے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کبھی وعدہ خلافی بھی نہیں کرتے، نمائندہ روکنے کی وجہ میرے خیال کے مطابق یہ کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ناراض ہیں،چلو ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس چلتے ہیں، (تاکہ سبب دریافت کر سکیں)، اُدھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے (وعدہ کے مطابق) ولید بن عقبہ کو نمائندہ بنا کر حارث کے پاس بھیجا تھا تا کہ جو اس کے پاس زکوٰۃ کا مال جمع ہے، وہ لے آئے، جب ولید چلا، تو وہ ابھی راستے میں ہی تھاکہ ڈرا اور واپس چلا گیا اور آ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! حارث نے مجھے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا ہے اور اس نے مجھے قتل کرنا چاہا ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک جہادی دستہ حارث بن ضرار کی جانب بھیجا، آگے سے حارث اپنے ساتھیوں سمیت آرہا تھا، جب اس کا سامنا اس دستے سے ہوا اور دستہ مدینہ سے باہر نکل چکا تھا، تو وہ کہنے لگے: حارث تو یہ ہے، جب قریب ہوئے تو حارث نے اس دستہ والوں سے پوچھا: تمہیں کہا بھیجا گیا ہے؟ انہوں نے کہا: تیری طرف، اس نے کہا: وہ کیوں؟ انھوں نے کہا: وجہ یہ ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تیری طرف ولید بن عقبہ کو بھیجا، لیکن اس کے بقول تو نے اس کو زکوٰۃ بھی نہیں دی او ر پھر اسے قتل بھی کرنا چاہا ہے۔ حارث نے کہا:نہیں، اس ذات کی قسم جس نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو حق دے کر مبعوث کیا ہے، میں نے تو اسے دیکھا تک نہیں اور نہ ہی وہ میرے پاس آیا ہے۔ پھر جب حارث، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: تونے زکوٰۃ بھی روک لی اور میرے نمائندے کو قتل بھی کرنا چاہا۔ حارث نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کربھیجا ہے، میں نے تو اسے دیکھا تک نہیں اور نہ ہی وہ میرے پاس آیا ہے۔ میں تو صرف اس وقت آیا ہوں، جب میں نے دیکھا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا نمائندہ نہیں آیا، رک گیا ہے، سو میں خوفزدہ ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰیا اللہ کے رسول مجھ سے ناراض ہو گئے ہوں، سو یہ آیات نازل ہوئیں: {یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا إِنْ جَائَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوْا … … وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔}
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8762

۔ (۸۷۶۲)۔ حَدَّثَنَا عَارِمٌ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ قَالَ: سَمِعْتُ أَ بِییُحَدِّثُ: أَ نَّ أَ نَسًا قَالَ: قِیلَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : لَوْ أَ تَیْتَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أُبَیٍّ، فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرَکِبَ حِمَارًا، وَانْطَلَقَ الْمُسْلِمُونَ یَمْشُونَ، وَہِیَ أَ رْضٌ سَبِخَۃٌ، فَلَمَّا انْطَلَقَ إِلَیْہِ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: إِلَیْکَ عَنِّی، فَوَاللّٰہِ! لَقَدْ آذَانِی رِیحُ حِمَارِکَِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَ نْصَارِ: وَاللّٰہِ! لَحِمَارُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَطْیَبُ رِیحًا مِنْکَ، قَالَ: فَغَضِبَ لِعَبْدِ اللّٰہِ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِہِ، قَالَ: فَغَضِبَ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا أَ صْحَابُہُ، قَالَ: وَکَانَ بَیْنَہُمْ ضَرْبٌ بِالْجَرِیدِ وَبِالْأَ یْدِی وَالنِّعَالِ، فَبَلَغَنَا أَ نَّہَا نَزَلَتْ فِیہِمْ: {وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ اقْتَتَلُوْا فَأَ صْلِحُوْا بَیْنَہُمَا} [الحجرات: ۹]۔ (مسند احمد: ۱۲۶۳۴)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ کسی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا کہ آپ خود عبداللہ بن ابی کے پاس چلے جائیں، (تو شاید اس میں بہتری ہو)، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک گدھے پر سوار ہو کر اس کے پاس پہنچ گئے، مسلمان بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ چل رہے تھے، زمین شور والی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چلنے سے گرد اٹھی، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس شخص تک پہنچے تو اس نے کہا: ذرا دور رہو، اللہ کی قسم! مجھے آپ کے گدھے کی بو سے تکلیف ہوئی ہے۔ ایک انصاری آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا گدھا تجھ سے زیادہ خوشبو والا ہے، اُدھر عبداللہ کے حمایتی لوگوں میں سے ایک آدمی جوش میںآ گیا، اِدھر سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حمایت میں پر جوش ہو گئے، دونوں کے حمایتی آپس میں گتھم گتھا ہو گئے، درخت کی ٹہنیوں، مکوں اور جوتوں کا استعمال ہوا،ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ یہ آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی تھی: {وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ اقْتَتَلُوْا فَأَ صْلِحُوْا بَیْنَہُمَا}… اگر ایمانداروں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دیا کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8763

۔ (۸۷۶۳)۔ عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ حَدَّثَنِی أَ بُو جَبِیرَۃَ بْنُ الضَّحَّاکِ قَالَ: فِینَا نَزَلَتْ فِی بَنِی سَلِمَۃَ {وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْأَ لْقَابِ} [الحجرات:۱۱] قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَدِینَۃَ وَلَیْسَ مِنَّا رَجُلٌ إِلَّا وَلَہُ اسْمَانِ أَ وْ ثَلَاثَۃٌ، فَکَانَ إِذَا دُعِیَ أَ حَدٌ مِنْہُمْ بِاسْمٍ مِنْ تِلْکَ الْأَ سْمَائِ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّہُ یَغْضَبُ مِنْ ہٰذَا، قَالَ: فَنَزَلَتْ {وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَ لْقَابِ}۔ (مسند احمد: ۱۸۴۷۷)
۔ سیدنا ابوجبیرہ بن ضحاک کہتے ہیں:یہ آیت ہم بنو سلمہ کے بارے میں نازل ہوئی: {وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْأَ لْقَابِ} … برے القاب کے ساتھ ایک دوسرے کو مت پکارو۔ تفصیلیہ ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو ہم میں سے ہر آدمی کے دو تین نام تھے، جب اس کو کسی ایک نام سے پکارا جاتا تو لوگ کہتے: اے اللہ کے رسول! اس کواس نام سے غصہ آتا ہے، پس یہ آیت نازل ہوئی: {وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْأَ لْقَابِ} … برے القاب کے ساتھ ایک دوسرے کو مت پکارو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8763

۔ (۸۷۶۳م)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ عُمُومَۃٍ لَہُ: قَدِمَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَیْسَ أَ حَدٌ مِنَّا إِلَّا لَہُ لَقَبٌ أَ وْ لَقَبَانِ، قَالَ: فَکَانَ إِذَا دَعَا بِلَقَبِہِ قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ ہٰذَا یَکْرَہُ ہٰذَا، قَالَ: فَنَزَلَتْ {وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ}۔ (مسند احمد: ۱۳۳۲۵)
۔ (دوسری سند)ابوجبیرہ اپنے چچائوں سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو ہم میں سے ہر ایک کے ایک دو دو لقب تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی آدمی کو اس کے لقب کے ساتھ آواز دیتے تو آگے سے لوگ بتلاتے کے اے اللہ کے رسول! اسے یہ لقب پسند نہیں ہے، پس یہ آیت نازل ہوئی: {وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْأَ لْقَابِ} … برے القاب کے ساتھ ایک دوسرے کو مت پکارو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8764

۔ (۸۷۶۴)۔ عَنْ قَتَادَۃَ فَذَکَرَ شَیْئًا مِنْ التَّفْسِیرِ قَالَ: قَوْلُہُ: {یَوْمَ نَقُولُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ امْتَلَأْتِ} [ق: ۳۰] قَالَ: حَدَّثَنَا أَ نَسُ بْنُ مَالِکٍ: أَ نَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا تَزَالُ جَہَنَّمُ تَقُولُ: ہَلْ مِنْ مَزِیدٍ، حَتّٰییَضَعَ فِیہَا رَبُّ الْعِزَّۃِ قَدَمَہُ فَتَقُولُ: قَطْ قَطْ، وَعِزَّتِکَ! وَیُزْوٰی بَعْضُہَا إِلٰی بَعْضٍ۔)) (مسند احمد: ۱۳۴۳۵)
۔ قتادہ ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ اس آیت {یَوْمَ نَقُولُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ امْتَلَأْتِ}… جس دن ہم جہنم سے کہیں گے کہ کیا تم بھر گئی ہے۔ کی تفسیر کے متعلق روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں: سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہمیں بیان کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دوزخ یہی مطالبہ کرتی رہے گیکہ کیا مزید لوگ ہیں،یہاں تک کہ عزت والا ربّ اپنا قدم مبارک اس میں رکھے گا، اب وہ کہے گی: بس بس، تیری عزت کی قسم ! پھردوزخ کا ایک حصہ دوسرے کی طرف سکڑ جائے گا (اور وہ بھر جائے گی)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8765

۔ (۸۷۶۵)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَ نَّہُ قَالَ: إِنَّ مُحَمَّداً لَمْ یَرَ جِبْرِیلَ فِی صُورَتِہِ إِلَّا مَرَّتَیْنِ، أَ مَّا مَرَّۃٌ فَإِنَّہُ سَأَ لَہُ أَ نْ یُرِیَہُ نَفْسَہُ فِی صُورَتِہِ، فَأَ رَاہُ صُورَتَہُ، فَسَدَّ الْأُفُقَ، وَأَ مَّا الْأُخْرٰی فَإِنَّہُ صَعِدَ مَعَہُ حِینَ صَعِدَ بِہِ، وَقَوْلُہُ: {وَہُوَ بِالْأُفُقِ الْأَ عْلٰی ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَ وْ أَ دْنٰی فَأَوْحٰی إِلٰی عَبْدِہِ مَا أَ وْحٰی} [النجم: ۷۔۱۰] قَالَ: فَلَمَّا أَ حَسَّ جِبْرِیلُ رَبَّہُ عَادَ فِی صُورَتِہِ وَسَجَدَ، فَقَوْلُہُ: {وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً أُخْرٰی عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی عِنْدَہَا جَنَّۃُ الْمَأْوٰی إِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشٰی مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی لَقَدْ رَأٰی مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی} [النجم: ۱۳۔۱۸] قَالَ: خَلْقَ جِبْرِیلَ عَلَیْہِ السَّلَام۔ (مسند احمد: ۳۸۶۴)
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جبریل علیہ السلام کو ان کی اصلی صورت میں دو مرتبہ دیکھا ہے، ایک مرتبہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود جبریل سے مطالبہ کیا تو انھوں نے اپنی اصلی صورت دکھائی، جس سے افق بھر گیا اور دوسری بار جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (اسراء و معراج کے موقع پر)ان کے ساتھ چڑھے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: {وَہُوَ بِالْأُفُقِ الْأَ عْلٰی ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَ وْ أَدْنٰی فَأَ وْحٰی إِلٰی عَبْدِہِ مَا أَ وْحٰی} … جبکہ وہ بالائی افق پر تھا۔ پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہوگیا۔ یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا۔ تب اس نے اللہ کے بندے کی طرف وحی پہنچائی جو وحی بھی اسے پہنچانی تھی۔ جب جبریل علیہ السلام نے اپنے ربّ کو محسوس کیا تو انھوں نے اپنی اصلی صورت اختیار کر لی اور سجدے میں گر پڑے، اسی کے بارے میں ارشادِ باری تعالی ہے:{وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً أُخْرٰی عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی عِنْدَہَا جَنَّۃُ الْمَأْوٰی إِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشَی مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی لَقَدْ رَأٰ ی مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی}… جسے وہ آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ اور ایک مرتبہ پھر اس نے سدرۃا المنتہیٰ کے پاس اس کو اترتے دیکھا۔ جہاں پاس ہی جنت الماویٰ ہے۔ اس وقت سدرہ (بیری کے درخت) پر چھا رہا تھا جو کچھ کہ چھا رہا تھا۔نگاہ نہ چوندھیائی نہ حد سے متجاوز ہوئی۔ اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ انھوں نے کہا: اس سے مراد جبریل کا وجود ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8766

۔ (۸۷۶۶)۔ عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَہْدَلَۃَ قَالَ: سَمِعْتُ شَقِیقَ بْنَ سَلَمَۃَیَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((رَأَ یْتُ جِبْرِیلَ عَلٰی سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی وَلَہُ سِتُّ مِائَۃِ جَنَاحٍ۔)) قَالَ: سَأَ لْتُ عَاصِمًا عَنْ الْأَ جْنِحَۃِ فَأَ بٰی أَ نْ یُخْبِرَنِی قَالَ: فَأَ خْبَرَنِی بَعْضُ أَ صْحَابِہِ أَ نَّ الْجَنَاحَ مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ۔ (مسند احمد: ۳۸۶۲)
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے جبریل علیہ السلام کو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا، ان کے چھ سو پر تھے۔ راوی کہتے ہیں: میں نے عاصم سے پروں کے بارے میں پوچھا، لیکن انھوں نے بتانے سے انکار کر دیا، پھر ان کے بعض شاگردوں نے مجھے بتایا کہ ایک پر مشرق سے مغرب تک تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8767

۔ (۸۷۶۷)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ فِیْ قَوْلِہٖ: {مَاکَذَبَالْفُؤَادُمَارَاٰی} قَالَ: رَاٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جِبْرِیْلَ فِیْ حُلَّۃٍ مِنْ رَفْرَفٍ قَدْ مَلَاَ مَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ۔ (مسند احمد: ۳۹۷۱)
۔ سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالی کے اس قول {مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَارَاٰی} … نظر نے جو کچھ دیکھا، دل نے اس میں جھوٹ نہ ملا یا۔ کے بارے میںکہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جبریل کو خوش نما پوشاک میں دیکھا، انھوں نے آسمان اور زمین کے درمیانی خلا کو بھر رکھا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8768

۔ (۸۷۶۸)۔ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ عَائِشَۃَ،قَالَ: قُلْتُ: أَ لَیْسَ اللّٰہُ یَقُولُ: {وَلَقَدْ رَآہُ بِالْأُفُقِ الْمُبِینِ} [التکویر: ۲۳] {وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً أُخْرٰی} [النجم: ۱۳] قَالَتْ: أَ نَا أَ وَّلُ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ سَأَ لَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْہُمَا فَقَالَ: ((إِنَّمَا ذَاکِ جِبْرِیلُ۔)) لَمْ یَرَہُ فِی صُورَتِہِ الَّتِی خُلِقَ عَلَیْہَا إِلَّا مَرَّتَیْنِ رَآہُ مُنْہَبِطًا مِنْ السَّمَائِ إِلَی الْأَ رْضِ سَادًّا عِظَمُ خَلْقِہِ مَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالْأَ رْضِ۔ (مسند احمد: ۲۶۵۶۸)
۔ مسروق کہتے ہیں: میں سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس تھا، میں نے کہا :اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے: {وَلَقَدْ رَآہُ بِالْأُفُقِ الْمُبِینِ} … تحقیق آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو واضح افق پر دیکھا۔ نیز فرمایا: {وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً أُخْرٰی عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَھٰی۔} … جسے وہ آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ اور ایک مرتبہ پھر اس نے سدرۃا المنتہیٰ کے پاس اس کو اترتے دیکھا۔ سیدہ نے جواباً کہا: اس امت میں سب سے پہلے میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ان دو آیات کے بارے میں سوال کیا تھا اورآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: وہ تو جبریل علیہ السلام ہیں۔ جس صورت پر جبریل علیہ السلام کی تخلیق ہوئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو اس صورت پر صرف دو بار دیکھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو آسمان سے زمین کی طرف اترتے ہوئے دیکھا، ان کے بڑے وجود نے آسمان اور زمین کے درمیانی خلا کو بھر رکھا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8769

۔ (۸۷۶۹)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِیْ قَوْلِہٖتَعَالٰی: {مَا کَذَبَ الْفُؤُادُ مَارَاٰی} [النجم: ۱۱] قَالَ: رَاٰی مُحَمَّدٌ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَبَّہٗعَزَّوَجَلَّبِقَلْبِہٖمَرَّتَیْنِ۔ (مسند احمد: ۱۹۵۶)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے، انھوں نے اس آیت {مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَارَاٰی} … نظر نے جو کچھ دیکھا، دل نے اس میں جھوٹ نہ ملا یا۔ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ربّ کو اپنے دل سے دو بار دیکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8770

۔ (۸۷۷۰)۔ عَنْ أَ بِی مَعْمَرٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ أَ نَّہُ قَالَ فِی ہٰذِہِ الْآیَۃِ: {اقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ} [القمر: ۱] قَالَ: قَدِ انْشَقَّ عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِرْقَتَیْنِ أَ وْ فِلْقَتَیْنِ، شُعْبَۃُ الَّذِییَشُکُّ، فَکَانَ فِلْقَۃٌ مِنْ وَرَائِ الْجَبَلِ، وَفِلْقَۃٌ عَلَی الْجَبَلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اللّٰہُمَّ اشْہَدْ۔)) (مسند احمد: ۴۲۷۰)
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، انھوں نے اللہ تعالی کے اس فرمان {اقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ}… قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا۔ کی تفسیر کرتے ہوئے کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عہد مبارک میں چاند دو ٹکڑے ہوا تھا، ایک ٹکڑا (حرائ) پہاڑ کے پیچھے نظر آ رہا تھا اور ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر، یہ معجزہ دیکھ کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! گواہ رہنا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8771

۔ (۸۷۷۱)۔ عَنْ أَ نَسٍ سَأَ لَ أَ ہْلُ مَکَّۃَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آیَۃً، فَانْشَقَّ الْقَمَرُ بِمَکَّۃَ مَرَّتَیْنِ فَقَالَ: {اقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَإِنْ یَرَوْْا آیَۃًیُعْرِضُوْا وَیَقُولُوْا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ} [القمر: ۱۔۲]۔ (مسند احمد: ۱۲۷۱۸)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ مکہ والوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے معجزہ طلب کیا تو مکہ میں چاند دو ٹکڑے ہوا، پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {اقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَإِنْیَرَوْْا آیَۃًیُعْرِضُوْا وَیَقُولُوْا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ} … قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا، مگر ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں منہ موڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیںیہ تو چلتا ہوا جادو ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8772

۔ (۸۷۷۲)۔ عَنْ اَبِیْ اِسْحَاقَ قَالَ: رَأَ یْتُ رَجُلًا سَأَ لَ الْأَ سْوَدَ بْنَ یَزِیدَ وَہُوَ یُعَلِّمُ الْقُرْآنَ فِی الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: کَیْفَ نَقْرَأُ ہٰذَا الْحَرْفَ {فَہَلْ مِنْ مُدَّکِرٍ} [القمر: ۱۵] أَ ذَالٌ أَ مْ دَالٌ؟ فَقَالَ: لَا بَلْ دَالٌ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُودٍ یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقْرَؤُہَا: {مُدَّکِرٍ} دَالًا۔ (مسند احمد: ۴۴۰۱)
۔ ابو اسحاق کہتے ہیں: میں نے ایک آدمی کو دیکھا، اس نے اسود بن یزید،جو مسجد میں قرآن کی تعلیم دیتاتھا، سے سوال کیااور کہا: ہم اس آیت کو کیسے پڑھیں:{فَہَلْ مِنْ مُدَّکِرٍ} یہ ذ ہے یا د ؟ انھوں نے کہا: نہیں،یہ د ہے، میں نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سنا، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو {مُدَّکِرٍ}پڑھتے ہوئے سنا، یعنی د کے ساتھ۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8773

۔ (۸۷۷۳)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: جَائَ مُشْرِکُوْا قُرَیْشٍ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُخَاصِمُوْنَہٗ فِی الْقَدْرِ فَنَزَلَتْ: {یَوْمَیُسْحَبُوْنَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْھِمِ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ۔ اِنَّا کُلَّ شَیْئٍ خَلَقْنَاہٗبِقَدَرٍ} [القمر: ۴۸۔۴۹]۔ (مسند احمد: ۹۷۳۴)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ قریشی مشرک، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے تقدیر کے بارے میں جھگڑنے لگے، پس یہ آیات نازل ہوئیں: {یَوْمَیُسْحَبُوْنَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْھِمِ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ۔ اِنَّا کُلَّ شَیْئٍ خَلَقْنَاہٗبِقَدَرٍ}… جس دن یہ چہرں کے بل دوزخ میں گھسیٹے جائیں گے، ان سے کہا جائے گا دوزخ کا عذاب چکھو۔ بے شک ہم نے ہر چیز کوتقدیر کے ساتھ پیدا کیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8774

۔ (۸۷۷۴)۔ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ أَ سْمَائَ بِنْتِ أَ بِی بَکْرٍ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یَقْرَأُ، وَہُوَ یُصَلِّی نَحْوَ الرُّکْنِ قَبْلَ أَ نْ یَصْدَعَ بِمَا یُؤْمَرُ، وَالْمُشْرِکُونَ یَسْتَمِعُونَ: {فَبِأَ یِّ آلَائِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ}۔ (مسند احمد: ۲۷۴۹۵)
۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حجر اسود کی جانب رخ کر کے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس نماز میں اس آیت کی تلاوت کر رہے تھے: {فَبِأَ یِّ آلَائِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ} اور مشرک غور سے سن رہے تھے، جبکہ ابھی تک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو واضح طور پر تبلیغ کا حکم نہیں ہوا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8775

۔ (۸۷۷۵)۔ عَنْ عَائِشَۃَ أَ نَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا یُحَاسَبُیَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَ حَدٌ فَیُغْفَرَ لَہُ، یَرَی الْمُسْلِمُ عَمَلَہُ فِی قَبْرِہِ وَیَقُولُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {فَیَوْمَئِذٍ لَا یُسْأَ لُ عَنْ ذَنْبِہِ إِنْسٌ وَلَا جَانٌّ } { یُعْرَفُ الْمُجْرِمُونَ بِسِیمَاہُمْ} [الرحمن: ۳۹، ۴۱]۔)) (مسند احمد: ۲۵۲۲۳)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ نہیں ہوسکتا کہ بندے کا قیامت کے دن محاسبہ بھی ہو اور پھر اس کو بخش بھی دیا جائے، مسلمان قبر میں بھی اپنے عمل کو دیکھتا ہے، اور اللہ تعالی فرماتے ہیں: {فَیَوْمَئِذٍ لَا یُسْأَلُ عَنْ ذَنْبِہِ إِنْسٌ وَلَا جَانٌّ }… اس دن کسی انسان اور کسی جن سے اس کے گناہوں کے متعلق پوچھا نہیں جائے گی۔ نیز فرمایا: {یُعْرَفُ الْمُجْرِمُونَ بِسِیمَاہُمْ}… گنہگار صرف حلیہ سے ہی پہنچان لیے جائیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8776

۔ (۸۷۷۶)۔ عَنْ أَ بِی الدَّرْدَائِ أَ نَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یَقُصُّ عَلَی الْمِنْبَرِ: (({وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ} [الرحمن: ۴۶]۔)) فَقُلْتُ: وَإِنْ زَنٰی وَإِنْ سَرَقَ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الثَّانِیَۃَ: فَقُلْتُ الثَّانِیَۃَ: وَإِنْ زَنٰی وَإِنْ سَرَقَ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الثَّالِثَۃَ: (({وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ}۔)) فَقُلْتُ الثَّالِثَۃَ: وَإِنْ زَنٰی وَإِنْ سَرَقَ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، فَقَالَ: ((نَعَمْ وَإِنْ رَغِمَ أَ نْفُ أَ بِی الدَّرْدَائِ۔))۔ (مسند احمد: ۸۶۶۸)
۔ سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو منبر پر یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا: {وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ} … جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا، اس کے لیے دو بہشتیں ہیں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگرچہ وہ زنا بھی کرے اورچوری بھی؟ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوبارہ یہی آیت پڑھی، میں نے پھر کہا: اے اللہ کے رسول! اگرچہ وہ زنا بھی کرے اورچوری بھی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تیسری بار یہی آیت پڑھی کہ {وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ}،لیکن میں نے بھی تیسری بار بھی کہہ دے: اے اللہ کے رسول! اگرچہ وہ زنا بھی کرے اور چوری بھی، اب کی بار آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں! اگرچہ ابو درداء کی ناک خاک آلود ہو جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8777

۔ (۸۷۷۷)۔ عَنْ أَ بِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {ثُلَّۃٌ مِنْ الْأَ وَّلِینَ وَقَلِیلٌ مِنْ الْآخِرِینَ} [الواقعۃ: ۱۳۔ ۱۴] شَقَّ ذٰلِکَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ، فَنَزَلَتْ: {ثُلَّۃٌ مِنْ الْأَ وَّلِینَ وَثُلَّۃٌ مِنْ الْآخِرِینَ} [الواقعۃ: ۳۹۔۴۰] فَقَالَ: ((اَنْتُمْ ثُلُثُ اَھْلِ الْجَنَّۃِ، بَلْ اَنْتُمْ نِصْفُ اَھْلِ الْجَنَّۃِ، وَتُقَاسِمُوْنَہُمُ النِّصْفَ الْبَاقِیْ۔)) (مسند احمد: ۹۰۶۹)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: {ثُلَّۃٌ مِنْ الْأَ وَّلِینَ وَقَلِیلٌ مِنْ الْآخِرِینَ}… (سبقت لے جانے والوں) کا بہت بڑا گروہ تو اگلے لوگوں میں سے گا اور تھوڑے سے پچھلے لوگوں میں سے۔ تو یہ بات مسلمانوں پر بہت گراں گزری، پس یہآیات نازل ہوئیں: {ثُلَّۃٌ مِنْ الْأَ وَّلِینَ وَثُلَّۃٌ مِنْ الْآخِرِینَ} … (دائیں ہاتھ والوں کا) جم غفیر اگلوں میں سے ہے اور بہت بڑی جماعت پچھلوں میں سے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جنت والوں میں سے تیسرا حصہ ہو گے، بلکہ اہل جنت کا نصف حصہ تم ہو گے اور باقی نصب میں بھی تم ان کے حصہ دار ہو گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8778

۔ (۸۷۷۸)۔ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَۃَ فِی قَوْلِہِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَظِلٍّ مَمْدُودٍ} [الواقعۃ: ۳۰]، عَنْ أَ نَسِ بْنِ مَالِکٍ: أَ نَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ شَجَرَۃًیَسِیرُ الرَّاکِبُ فِی ظِلِّہَا مِائَۃَ عَامٍ لَا یَقْطَعُہَا۔))، قَالَ مَعْمَرٌ: وَأَ خْبَرَنِی مُحَمَّدُ بْنُ زِیَادٍ، أَ نَّہُ سَمِعَ أَ بَا ہُرَیْرَۃَیَقُولُہُ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَیَقُولُ أَ بُو ہُرَیْرَۃَ: وَاقْرَئُ وْا إِنْ شِئْتُمْ {وَظِلٍّ مَمْدُودٍ}۔ (مسند احمد: ۱۲۷۰۶)
۔ قتادہ اللہ تعالی کے اس فرمان {وَظِلٍّ مَمْدُودٍ}… اور لمبے لمبے سایوں میں کی تفسیر بیان کرتے ہوئے سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یقینا جنت میں ایک درخت ہے، سوار اس کے سائے میں ایک سو سال چلے گا، پھر بھی اسے طے نہ کر سکے گا۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے تھے: اگر چاہتے ہو تو اللہ تعالی کا یہ فرمان پڑھ لو: {وَظِلٍّ مَمْدُودٍ}… اور لمبے لمبے سایوں میں
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8779

۔ (۸۷۷۹)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ، عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَ نَّہُ قَالَ: (({وَفُرُشٍ مَرْفُوعَۃٍ} [الواقعۃ: ۳۴] وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ إِنَّ ارْتِفَاعَہَا کَمَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالْأَ رْضِ، وَإِنَّ مَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالْأَ رْضِ لَمَسِیرَۃُ خَمْسِ مِائَۃِ سَنَۃٍ۔)) (مسند احمد:)
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: {وَفُرُشٍ مَرْفُوعَۃٍ} … اور اونچے اونچے بستروں میں ہوں گے۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے: ان کی بلندی اتنی ہو گی، جیسے آسمان اور زمین کے درمیان بلندی ہے، جبکہ آسمان اور زمین کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8780

۔ (۸۷۸۰)۔ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرِ نِ الْجُہَنِیِّ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ} [الواقعۃ: ۷۴] قَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اجْعَلُوْھَا فِیْ رُکُوْعِکُمْ)، لَمَّا نَزَلَتْ: {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی} [الأعلی: ۱] قَالَ: ((اجْعَلُوْھَا فِیْ سُجُوْدِ کُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۷۵۴۹)
۔ سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: {فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ}… اپنے ربّ عظیم کے نام کی تسبیح بیان کرو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ اس اس کے مضمون کو اپنے رکوع میں پڑھنے کے لئے مقرر کر لو۔ اور جب یہ آیت اتری {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی}… اپنے بلند و بالا رب کے نام کے ساتھ تسبیح بیان کرو۔ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے مضمون کو اپنے سجدوں کے لیے مقرر کر لو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8781

۔ (۸۷۸۱)۔ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: (({وَتَجْعَلُونَ رِزْقَکُمْ} قَالَ: شُکْرَکُمْ {أَ نَّکُمْ تُکَذِّبُونَ} یَقُوْلُوْنَ: مُطِرْنَا بِنَوْئٍ کَذَا وَ کَذَا بِنَجْمٍ کَذَا وَ کَذَا۔)) (مسند احمد: ۸۴۹)
۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: {وَتَجْعَلُونَ رِزْقَکُمْ أَ نَّکُمْ تُکَذِّبُونَ} … اور تم اپنے شکر کی بجائے یہی کرتے ہو کہ جھٹلاتے ہو۔ اور کہتے ہو: ہمیں تو فلاں ستارے کی وجہ سے بارش دی گئی، ہم پر فلاں ستارے کی وجہ سے بارش برسی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8782

۔ (۸۷۸۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَرَاَ: {فَرُوْحٌ وَّ رَیْحَانٌ} [الواقعۃ: ۸۹]۔ (مسند احمد: ۲۶۳۰۴)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پڑھا: {فَرُوْحٌ وَّ رَیْحَانٌ} (یعنی رائ پر ضمہ پڑھا)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8783

۔ (۸۷۸۳)۔ عَنْ خَوْلَۃَ بِنْتِ ثَعْلَبَۃَ قَالَتْ: وَاللّٰہِ فِیَّ وَفِی أَ وْسِ بْنِ صَامِتٍ أَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ صَدْرَ سُورَۃِ الْمُجَادَلَۃِ، قَالَتْ: کُنْتُ عِنْدَہُ وَکَانَ شَیْخًا کَبِیرًا، قَدْ سَائَ خُلُقُہُ وَضَجِرَ، قَالَتْ: فَدَخَلَ عَلَیَّیَوْمًا فَرَاجَعْتُہُ بِشَیْئٍ فَغَضِبَ فَقَالَ: أَ نْتِ عَلَیَّ کَظَہْرِ أُمِّی، قَالَتْ: ثُمَّ خَرَجَ فَجَلَسَ فِی نَادِی قَوْمِہِ سَاعَۃً ثُمَّ دَخَلَ عَلَیَّ فَإِذَا ہُوَ یُرِیدُنِی عَلٰی نَفْسِی، قَالَتْ: فَقُلْتُ: کَلَّا، وَالَّذِی نَفْسُ خُوَیْلَۃَ بِیَدِہِ! لَا تَخْلُصُ إِلَیَّ وَقَدْ قُلْتَ مَا قُلْتَ حَتّٰییَحْکُمَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ فِینَا بِحُکْمِہِ، قَالَتْ: فَوَاثَبَنِی وَامْتَنَعْتُ مِنْہُ فَغَلَبْتُہُ بِمَا تَغْلِبُ بِہِ الْمَرْأَ ۃُ الشَّیْخَ الضَّعِیفَ فَأَ لْقَیْتُہُ عَنِّی، قَالَتْ: ثُمَّ خَرَجْتُ إِلٰی بَعْضِ جَارَاتِی فَاسْتَعَرْتُ مِنْہَا ثِیَابَہَا ثُمَّ خَرَجْتُ حَتّٰی جِئْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَجَلَسْتُ بَیْنَیَدَیْہِ، فَذَکَرْتُ لَہُ مَا لَقِیتُ مِنْہُ، فَجَعَلْتُ أَ شْکُو إِلَیْہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا أَ لْقٰی مِنْ سُوئِ خُلُقِہِ، قَالَتْ: فَجَعَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((یَا خُوَیْلَۃُ! ابْنُ عَمِّکِ شَیْخٌ کَبِیرٌ، فَاتَّقِی اللّٰہَ فِیہِ۔)) قَالَتْ: فَوَاللّٰہِ! مَا بَرِحْتُ، حَتّٰی نَزَلَ فِیَّ الْقُرْآنُ فَتَغَشّٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا کَانَ یَتَغَشَّاہُ ثُمَّ سُرِّیَ عَنْہُ فَقَالَ لِی: ((یَا خُوَیْلَۃُ! قَدْ أَ نْزَلَ اللّٰہُ فِیکِ وَفِی صَاحِبِکِ۔))، ثُمَّ قَرَأَ عَلَیَّ {قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِی تُجَادِلُکَ فِی زَوْجِہَا وَتَشْتَکِیْ إِلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَ کُمَا إِنَّ اللّٰہَ سَمِیعٌ بَصِیرٌ} إِلٰی قَوْلِہِ: {وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ أَ لِیمٌ} [المجادلۃ: ۱۔۴] فَقَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مُرِیہِ فَلْیُعْتِقْ رَقَبَۃً۔))، قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ! یَا رَسُولَ اللّٰہِ، مَا عِنْدَہُ مَا یُعْتِقُ، قَالَ: ((فَلْیَصُمْ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ۔)) قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّہُ شَیْخٌ کَبِیرٌ مَا بِہِ مِنْ صِیَامٍ، قَالَ: ((فَلْیُطْعِمْ سِتِّینَ مِسْکِینًا وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ۔)) قَالَتْ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا ذَاکَ عِنْدَہُ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَإِنَّا سَنُعِینُہُ بِعَرَقٍ مِنْ تَمْرٍ۔)) قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَأَ نَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ! سَأُعِینُہُ بِعَرَقٍ آخَرَ، قَالَ: قَدْ أَ صَبْتِ وَأَ حْسَنْتِ فَاذْہَبِی فَتَصَدَّقِی عَنْہُ، ثُمَّ اسْتَوْصِی بِابْنِ عَمِّکِ خَیْرًا، قَالَتْ: فَفَعَلْتُ، قَالَ سَعْدٌ: الْعَرَقُ الصِّنُّ۔ (مسند احمد: ۲۷۸۶۲)
۔ سیدنا خولہ بنت ثعلبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: اللہ کی قسم! اللہ تعالی نے سورۂ مجادلہ کا ابتدائی حصہ میرے اور میرے خاوند سیدنا اوس بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں نازل کیا، تفصیلیہ ہے: میں ان کی بیوی تھی، اوس بوڑھے اور ضعیف ہو گئے، جس کی وجہ سے بداخلاق ہو گئے تھے اور تنگ پڑ جاتے تھے، ایک دن میرے پاس آئے، میں نے ان سے تکرار کیا، وہ غصے میں آئے اور کہا:تو میرے اوپر میری ماں کیپشت کی مانند ہے، پھر باہر چلے گئے، کچھ دیر اپنی قوم کی مجلس میں بیٹھےرہے، پھر میرے پاس آئے اور مجھ سے صحبت کرنا چاہی، لیکن میں نے کہا: ہر گز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں خولہ کی جان ہے! تو مجھ تک رسائی حاصل نہیں کر سکے گا، تو نے تو ابھییہ کچھ کہا ہے،یہاں تک کہ اللہ تعالٰ اور اس کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فیصلہ نہ کردیں، وہ میری طرف کود پڑے، لیکن میں خود کو ان سے محفوظ کرنے میں کامیاب ہو گئی، جیسے ایک عورت اپنے بوڑھے خاوندپر غالب آ جاتی ہے، میں نے انہیں دور پھینکا اور میں باہر نکل گئی، اپنی ہمسائی سے کپڑے لیے اورنبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے بیٹھ کر سارا واقعہ بیان کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے اپنے خاوند کی بد خلقی کی شکایت کرنے لگی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے خولہ! وہ تیرا چچے کا بیٹا ہے اور بوڑھا ہو گیا ہے، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ لیکن میں اسیطرح تکرار کرتی رہی حتیٰ کہ میرے بارے میں قرآن مجید نازل ہونے لگا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وہ کیفیت طاری ہو گئی، جو وحی میں ہوتی تھی، پھر وہ کیفیت ختم ہوئی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے خولہ! تیرے اور تیرے خاوند کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہوگیا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیات تلاوت کیں: {قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِی تُجَادِلُکَ فِی زَوْجِہَا وَتَشْتَکِیْ إِلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَ کُمَا إِنَّ اللّٰہَ سَمِیعٌ بَصِیرٌ … … وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ أَ لِیمٌ}۔سیدنا خولہ کہتی ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: خاوند سے کہو کہ ایک گردن آزاد کرے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس کے پاس اتنی گنجائش تو نہیں ہے کہ وہ غلام آزاد کرسکے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو اس سے کہو مسلسل دو ماہ کے روزے رکھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ تو بہت بوڑھا ہے اور وہ روزے کی طاقت بھی نہیں رکھتا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر اسے کہو کہ ساٹھ مسکینوں کو ایک وسق کھانا کھلا دے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ بھی اس کے پاس نہیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک ٹوکرا کھجوروں کا میں تعاون کر دیتا ہوں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایک ٹوکرا میں بھی مدد کر دیتی ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو نے بہت درست اور اچھا فیصلہ کیا ہے، اب جا اور اس کی طرف سے صدقہ کر، پھر اپنے چچے کے بیٹے سے ہمدردی کا برتائو کرنا۔ پس میں نے ایسا ہی کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8784

۔ (۸۷۸۴)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی وَسِعَ سَمْعُہُ الْأَ صْوَاتَ، لَقَدْ جَاء َتِ الْمُجَادِلَۃُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تُکَلِّمُہُ، وَأَ نَا فِی نَاحِیَۃِ الْبَیْتِ، مَا أَ سْمَعُ مَا تَقُولُ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِی تُجَادِلُکَ فِی زَوْجِہَا} [المجادلۃ: ۱] إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۴۶۹۹)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: تمام تعریفات اس اللہ کے لئے ہیں، جس کا سننا تمام آوازوں کو شامل ہے، بحث و تکرار کرنے والی (سیدہ خولہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئی اور گفتگو کرنے لگی، جبکہ میں گھر کے ایک کونے میں تھی، میں اس کی بات نہ سن سکی، لیکن اللہ تعالی نے یہ آیات نازل کر دیں: {قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِی تُجَادِلُکَ فِی زَوْجِہَا وَتَشْتَکِیْ إِلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَ کُمَا إِنَّ اللّٰہَ سَمِیعٌ بَصِیرٌ۔}… یقینا اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے خاوند کے بارے میںجھگڑ رہی تھی اور اللہ کی طرف شکایت کر رہی تھی اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔بے شک اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8785

۔ (۸۷۸۵)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: أَ تَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَاسٌ مِنْ الْیَہُودِ فَقَالُوْا: السَّامُ عَلَیْکَ،یَا أَ بَا الْقَاسِمِ!، فَقَالَ: ((وَعَلَیْکُمْ۔)) قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَقُلْتُ: وَعَلَیْکُمُ السَّامُ وَالذَّامُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَا عَائِشَۃُ! لَا تَکُونِی فَاحِشَۃً۔)) قَالَتْ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ أَ مَا سَمِعْتَ مَا قَالُوْا: السَّامُ عَلَیْکَ؟ قَالَ: ((أَ لَیْسَ قَدْ رَدَدْتُ عَلَیْہِمْ الَّذِی قَالُوْا قُلْتُ وَعَلَیْکُمْ۔)) قَالَ ابْنُ نُمَیْرٍیَعْنِی فِی حَدِیثِ عَائِشَۃَ: إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَا یُحِبُّ الْفُحْشَ وَلَا التَّفَحُّشَ، وَقَالَ ابْنُ نُمَیْرٍ فِی حَدِیثِہِ: فَنَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ {وَإِذَا جَائُ وْکَ حَیَّوْکَ بِمَا لَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ} [المجادلۃ: ۸] حَتّٰی فَرَغَ۔ (مسند احمد: ۲۶۴۴۹)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس کچھ یہودی آئے اور کہا : اے ابو القاسم ! اَلسَّامُ عَلَیْکَ (تجھ پر موت ہو )، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں جواب دیا: وَعَلَیْکُم (اور تم پر بھی ہو)۔لیکن سیدہ عائشہ نے کہا: تم پر موت بھی ہو اور مذمت بھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! اتنی بد گوئی نہ کرو۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے سنا نہیں کہ انھوں نے کیا کہا، ان لوگوں نے اَلسَّامُ عَلَیْکَکہا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو کیا میں نے ان کا جواب دے نہیں دیا، میں نے کہہ تو دیا ہے: وَعَلَیْکُمْ۔ ابن نمیر راوی کے الفاظ یہ ہیں: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فحش اور بہ تکلف بدگوئی کو پسند نہیں کرتا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی: {وَاِذَا جَاء ُوْکَ حَیَّوْکَ بِمَا لَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ وَیَقُوْلُوْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ لَوْلَا یُعَذِّبُنَا اللّٰہُ بِمَا نَقُوْلُ حَسْبُہُمْ جَہَنَّمُیَصْلَوْنَہَا فَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۔} … اور جب تیرے پاس آتے ہیں تو (ان لفظوں کے ساتھ) تجھے سلام کہتے ہیں جن کے ساتھ اللہ نے تجھے سلام نہیں کہا اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ اللہ ہمیں اس پر سزا کیوں نہیں دیتا جو ہم کہتے ہیں ؟ انھیں جہنم ہی کافی ہے، وہ اس میں داخل ہوں گے، پس وہ برا ٹھکانا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8786

۔ (۸۷۸۶)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو أَ نَّ الْیَہُودَ کَانُوْا یَقُولُونَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : سَامٌ عَلَیْکَ، ثُمَّ یَقُولُونَ فِی أَ نْفُسِہِمْ {لَوْلَا یُعَذِّبُنَا اللّٰہُ بِمَا نَقُولُ} فَنَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃَ: {وَإِذَا جَائُ وْکَ حَیَّوْکَ بِمَا لَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ} [المجادلۃ: ۸] إِلٰی آخِرِ الْآیَۃَ۔ (مسند احمد: ۶۵۸۹)
۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ یہودی،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سَامٌ عَلَیْکَ (تجھ پر موت ہو)کہا کرتے تھے، پھر اپنے دل میں ہی کہتے: اللہ تعالی ہمیں اس کی وجہ سے عذاب کیوں نہیں دیتا جو ہم کہتے ہیں، پس یہ آیت نازل ہوئی: {وَاِذَا جَاء ُوْکَ حَیَّوْکَ بِمَا لَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ وَیَقُوْلُوْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ لَوْلَا یُعَذِّبُنَا اللّٰہُ بِمَا نَقُوْلُ حَسْبُہُمْ جَہَنَّمُ یَصْلَوْنَہَا فَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۔} … اور جب تیرے پاس آتے ہیں تو (ان لفظوں کے ساتھ) تجھے سلام کہتے ہیں جن کے ساتھ اللہ نے تجھے سلام نہیں کہا اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ اللہ ہمیں اس پر سزا کیوں نہیں دیتا جو ہم کہتے ہیں ؟ انھیں جہنم ہی کافی ہے، وہ اس میں داخل ہوں گے، پس وہ برا ٹھکانا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8787

۔ (۸۷۸۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی ظِلِّ حُجْرَۃٍ مِنْ حُجَرِہِ، وَعِنْدَہُ نَفَرٌ مِنْ الْمُسْلِمِینَ، قَدْ کَادَ یَقْلِصُ عَنْہُمُ الظِّلُّ، قَالَ: فَقَالَ: ((إِنَّہُ سَیَأْتِیکُمْ إِنْسَانٌ یَنْظُرُ إِلَیْکُمْ بِعَیْنَیْ شَیْطَانٍ،فَإِذَا أَ تَاکُمْ فَلَا تُکَلِّمُوہُ۔)) قَالَ: فَجَائَ رَجُلٌ أَ زْرَقُ، فَدَعَاہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَکَلَّمَہُ، قَالَ: ((عَلَامَ تَشْتُمُنِی أَ نْتَ وَفُلَانٌ وَفُلَانٌ نَفَرٌ۔)) دَعَاہُمْ بِأَ سْمَائِہِمْ، قَالَ: فَذَہَبَ الرَّجُلُ فَدَعَاہُمْ فَحَلَفُوْا بِاللّٰہِ وَاعْتَذَرُوا إِلَیْہِ، قَالَ: فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {یَحْلِفُونَ لَہُ کَمَا یَحْلِفُونَ لَکُمْ وَیَحْسَبُونَ} [المجادلۃ: ۱۸] الْآیَۃَ (مسند احمد: ۲۴۰۷)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک حجرہ کے سائے میں تشریف فرما تھے، کچھ مسلمان بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اب سایہ سکڑرہا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عنقریب تمہارے پاس ایک آدمی آئے گا، جو تمہیں شیطان کی نظروں سے دیکھے گا، جب وہ تمہار پاس آئے تو اس سے بات نہ کرنا۔ اتنے میں ایک نیلی آنکھوں والا آدمی آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے بلایا اوراس سے بات کی اور فرمایا: تو اور فلاں فلاں آدمی مجھ کو برا بھلا کیوں کہتے ہو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چند افراد کے نام بھی لیے، وہ آدمی گیا اور ان سب کو بلا لایا، پھر انہوں نے اللہ کی قسم اٹھائی اورآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے معذرت کی، اُدھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار دی: {یَوْمَیَبْعَثُہُمُ اللّٰہُ جَمِیْعًا فَیَحْلِفُوْنَ لَہ کَمَا یَحْلِفُوْنَ لَکُمْ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ عَلٰی شَیْء ٍ اَلَآ اِنَّہُمْ ہُمُ الْکٰذِبُوْنَ۔} … جس دن اللہ ان سب کو اٹھائے گا تو وہ اس کے سامنے قسمیں کھائیں گے جس طرح تمھارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں اور گمان کریں گے کہ بے شک وہ کسی چیز پر (قائم) ہیں، سن لو! یقینا وہی اصل جھوٹے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8787

۔ (۸۷۸۷م)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ بِنَحْوِہٖ) وَفِیْہٖ قَالَ: فَنَزَلَتْ ھٰذِہِ الْآیَۃُ فِی الْمُجَادَلَۃِ:{وَیَحْلِفُوْنَ عَلَی الْکَذِبِ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ} [المجادلۃ: ۱۴] وَالْآیَۃُ الْاُخْرٰی۔ (مسند احمد: ۲۱۴۷)
۔ (دوسری سند)اس میں ہے: پس سورۂ مجادلہ کییہ آیت نازل ہوئی: {اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مَا ہُمْ مِّنْکُمْ وَلَا مِنْہُمْ وَیَحْلِفُوْنَ عَلَی الْکَذِبِ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ۔} … کیا تو نے ان لوگوں کو نہیںدیکھا جنھوں نے ان لوگوں کو دوست بنا لیا جن پر اللہ غصے ہو گیا، وہ نہ تم سے ہیں اور نہ ان سے اور وہ جھوٹ پر قسمیں کھاتے ہیں، حالانکہ وہ جانتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8788

۔ (۸۷۸۸)۔ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ أَ نَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَرَّقَ نَخْلَ بَنِی النَّضِیرِ وَقَطَّعَ وَہِیَ الْبُوَیْرَۃُ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: {مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَۃٍ أَ وْ تَرَکْتُمُوْہَا قَائِمَۃً عَلٰی أُصُولِہَا فَبِإِذْنِ اللّٰہِ وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِینَ} [الحشر: ۵]۔ (مسند احمد: ۶۰۵۴)
۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بویرہ جگہ پر بنو نضیر کی کھجوروں کو جلایا اور ان کو کاٹ ڈالا، اسی کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: {مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَۃٍ أَ وْ تَرَکْتُمُوْہَا قَائِمَۃً عَلَی أُصُولِہَا فَبِإِذْنِ اللّٰہِ وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِینَ} … جو بھی کھجور کا درخت تم نے کاٹا،یا اسے اس کی جڑوں پر کھڑا چھوڑا تو وہ اللہ کی اجازت سے تھا اور تاکہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8789

۔ (۸۷۸۹)۔ عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ، عَنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ قَالَ حِینَیُصْبِحُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ أَ عُوذُ بِاللّٰہِ السَّمِیعِ الْعَلِیمِ مِنْ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ۔ وَقَرَأَ الثَّلَاثَ آیَاتٍ مِنْ آخِرِ سُورَۃِ الْحَشْرِ، وَکَّلَ اللّٰہُ بِہِ سَبْعِینَ أَ لْفَ مَلَکٍ یُصَلُّونَ عَلَیْہِ حَتّٰییُمْسِیَ، إِنْ مَاتَ فِی ذٰلِکَ الْیَوْمِ مَاتَ شَہِیدًا، وَمَنْ قَالَہَا حِینَیُمْسِی کَانَ بِتِلْکَ الْمَنْزِلَۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۰۵۷۲)
۔ سیدنا معقل بن یسار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو صبح کو تین بار کہتا ہے: أَ عُوذُ بِاللّٰہِ السَّمِیعِ الْعَلِیمِ مِنْ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ، اور پھر سورۂ حشر کی آخری تین آیات کی تلاوت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ستر ہزار (۰۰۰،۷۰) فرشتے مقرر کرتا ہے، جوشام تک اس کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں، اگر وہ اس دن فوت ہو جائے تو وہ شہید فوت ہوگا اور جو شام کو پڑھے گا، وہ صبح تک اسی مرتبہ پر ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8790

۔ (۸۷۹۰)۔ عن عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ أَبِیہِ قَالَ: قَدِمَتْ قُتَیْلَۃُ ابْنَۃُ عَبْدِ الْعُزَّی بْنِ عَبْدِ أَ سْعَدَ مِنْ بَنِی مَالِکِ بْنِ حَسَلٍ عَلَی ابْنَتِہَا أَ سْمَائَ ابْنَۃِ أَ بِی بَکْرٍ بِہَدَایَا ضِبَابٍ وَأَ قِطٍ وَسَمْنٍ وَہِیَ مُشْرِکَۃٌ، فَأَ بَتْ أَ سْمَائُ أَ نْ تَقْبَلَ ہَدِیَّتَہَا وَتُدْخِلَہَا بَیْتَہَا، فَسَأَ لَتْ عَائِشَۃُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {لَا یَنْہَاکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِینَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِی الدِّینِ} [الممتحنۃ: ۸] إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ فَأَمَرَہَا أَنْ تَقْبَلَ ہَدِیَّتَہَا وَأَنْ تُدْخِلَہَا بَیْتَہَا۔ (مسند احمد: ۱۶۲۱۰)
۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ فتیلہ بنت عبدالعزیٰ گوہ، پنیر اور گھر جیسے تحائف لے کر اپنی بیٹی سیدہ اسماء بنت ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس آئی، جبکہ وہ فتیلہ مشرک خاتون تھی، اس لیے سیدہ اسماء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اس کے تحائف قبول کرنے سے انکار کر دیا اوراسے گھر میں بھی داخل ہونے سے روک دیا، پھر جب سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: {لَا یَنْہٰیکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ۔} … اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا بر تاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ اسماء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو حکم دیا کہ اس کا ہدیہ قبول کرلیں اور اپنے گھر میں داخل ہونے دیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8791

۔ (۸۷۹۱)۔ عَنْ أُمِّ عَطِیْۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: لَمَا نَزَلَتْ ہٰذِہِ الآیَۃُ {یُبَایِعْنَکَ عَلٰی أَ نْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا …اِلٰی قَوْلِہٖ…وَلَایَعْصِیْنَکَ فِی مَعْرُوْفٍ} [الممتحنۃ: ۱۲] قَالَتْ: کَانَ مِنْہُ النِّیَاحَۃُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِلَّا آلَ فُلَانِ وَإِنَّہُمْ قَدْ کَانُوْا أسْعَدُوْنِیْ فِیْ الْجَاھِلِیَّۃِ فَـلَا بُدَّ لِیْ مِنْ أَ نْ اُسْعِدَہُمْ۔ قَالَتْ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہِ وَصَحْبِہِ وَسَلَّمَ: ((إِلَّا آلَ فُلَانٍ۔)) (مسند احمد: ۲۱۰۷۷)
۔ سیدہ ام عطیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی: {یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآئَ کَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰٓی اَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَھُنَّ وَلَا یَاْتِیْنَ بِبُھْتَانٍیَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ اَیْدِیْھِنَّ وَاَرْجُلِھِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ} (سورۂ ممتحنہ: ۱۲) یعنی: اے نبی! جب اہل ایمان خواتین آپ کے پاس آئیں تو وہ ان باتوں کی بیعت کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی، چوری نہیں کریںگی، زنا نہیں کریں گی، اپنی اولادوں کو قتل نہیں کریں گی اور کسی پر بہتان طرازی نہیں کریں گی اور کسی معروف کام میں آپ کی حکم عدولی نہیں کریں گی۔ جن کاموں سے آپ نے روکا ان سے ایک نوحہ کرنا بھی تھا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! فلاں خاندان والوں نے دورِ جاہلیت میں نوحہ کرنے میں میرا ساتھ دیا تھا۔ اب میرے لیے ضروری ہے کہ میں بھی ان کا ساتھ دوں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (ٹھیک ہے) مگر فلاں خاندان والے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8792

۔ (۸۷۹۲)۔ عَنْ اُمِّ سَلِمَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : {وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ} [الممتحنۃ: ۱۲] قَالَ: النَّوْحُ۔ (مسند احمد: ۲۷۲۵۶)
۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: {وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ}… اور وہ خواتین نیکی میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی۔ (روکی گئی چیزوں میں سے) نوحہ ہے
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8793

۔ (۸۷۹۳)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: مَا کَانَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَمْتَحِنُ الْمُؤْمِنَاتِ اِلَّا بِالْآیَۃِ الَّتِیْ قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {اِذَا جَائَ کَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰی اَنْ لَّا یُشْرِکْنَ } [الممتحنۃ: ۱۲] وَلَا… وَلَا…۔ (مسند احمد: ۲۵۸۱۴)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مؤمن خواتین کے ایمان کا اس آیت کے ذریعے امتحان لیتے تھے: {یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا جَآئَ کَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰٓی اَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَھُنَّ وَلَا یَاْتِیْنَ بِبُھْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ اَیْدِیْھِنَّ وَاَرْجُلِھِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ} (سورۂ ممتحنہ: ۱۲) یعنی: اے نبی! جب اہل ایمان خواتین آپ کے پاس آئیں تو وہ ان باتوں کی بیعت کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی، چوری نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، اپنی اولادوں کو قتل نہیں کریں گی اور کسی پر بہتان طرازی نہیں کریں گی اور کسی معروف کام میں آپ کی حکم عدولی نہیں کریں گی۔ اور یہ بھی نہیں کریں گی اور یہ بھی نہیں کریں گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8794

۔ (۸۷۹۴)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ: تَذَاکَرْنَا بَیْنَنَا فَقُلْنَا: أَ یُّکُمْیَأْتِی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَیَسْأَ لَہُ أَ یُّ الْأَ عْمَالِ أَ حَبُّ إِلَی اللّٰہِ؟ وَہِبْنَا أَ نْ یَقُومَ مِنَّا أَ حَدٌ، فَأَ رْسَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَیْنَا رَجُلًا رَجُلًا حَتّٰی جَمَعَنَا، فَجَعَلَ بَعْضُنَا یُشِیرُ إِلٰی بَعْضٍ، فَقَرَأَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم {سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوَاتِ وَمَا فِی الْأَ رْضِ…إِلٰی قَوْلِہِ… کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ} قَالَ: فَتَلَاہَا مِنْ أَ وَّلِہَا إِلٰی آخِرِہَا، قَالَ: فَتَلَاہَا عَلَیْنَا ابْنُ سَلَامٍ مِنْ أَ وَّلِہَا إِلٰی آخِرِہَا، قَالَ: فَتَلَاہَا عَلَیْنَا عَطَائُ بْنُ یَسَارٍ مِنْ أَ وَّلِہَا إِلَی آخِرِہَا، قَالَ یَحْیٰی: فَتَلَاہَا عَلَیْنَا ہِلَالٌ مِنْ أَ وَّلِہَا إِلٰی آخِرِہَا، قَالَ الْأَوْزَاعِیُّ: فَتَلَاہَا عَلَیْنَایَحْیٰی مِنْ أَ وَّلِہَا إِلٰی آخِرِہَا، قَالَ الْاَوْزَاعِیُّ: فَتَلَاھَا عَلَیْنَایَحْیٰی مِنْ اَوَّلِھَا اِلٰی آخِرِھَا۔ (مسند احمد: ۲۴۱۹۸)
۔ سیدنا عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے ایک دن آپس میں مذاکرہ کیا اور کہا: ہم میں سے کون ہے جو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جائے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت کرے کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پیارا عمل کونسا ہے، لیکن ہم میں سے کوئی بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ہیبت کی وجہ سے جانے کو تیار نہ تھا، اتنی دیر میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمارے پاس ایک آدمی بھیجا، اس نے ہم میں سے ایک ایک آدمی کو جمع کیا، اب ہم میں سے ہر کوئی اس تعجب کے ساتھ دوسرے کی طرف اشارہ کرنے لگا (کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ہماری بات کا کیسے پتہ چل گیا)، بہرحال پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم پر یہ آیات تلاوت کیں: {سَبَّحَ لِلَّہِ مَا فِی السَّمٰوَاتِ وَمَا فِی الْأَ رْضِ… کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ} ان آیتوں کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اول سے آخر تک پڑھا، پھر سیدنا عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اول سے آخر تک پڑھیں، پھر عطابن یسار نے اسی طرح پڑھیں،یحییٰ کہتے ہیں: پھر ہلال نے یہ آیات اول تا آخر پڑھیں، اوزاعی کہتے ہیں: ہم پر یحییٰ نے ان آیات کی اول تا آخر تلاوت کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8795

۔ (۸۷۹۵)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ اَبِیْ سَلِمَۃَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَلَامٍ بِنَحْوِہٖ،وَفِیْہِ: فَاَرْسَلَ اِلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَجُلًا فَجَمَعَنَا فَقَرَاَ عَلَیْنَا ھٰذِہِ السُّوْرَۃَیَعْنِی سُوْرَۃَ الصَّفِّ کُلَّہَا۔ (مسند احمد: ۲۴۱۹۷)
۔ (دوسری سند) سیدنا عبد اللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسی قسم کی حدیث بیان کی، البتہ اس میں ہے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہماری طرف ایک آدمی بھیجا، اس نے ہم کو جمع کر کے مکمل سورۂ صف کی تلاوت کی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8796

۔ (۸۷۹۶)۔ عَنْ أَ بِی ہُرَیْرَۃَ أَ نَّہُ قَالَ: کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذْ نَزَلَتْ عَلَیْہِ سُورَۃُ الْجُمُعَۃِ فَلَمَّا قَرَأَ : {وَآخَرِینَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِہِمْ} [الجمعۃ: ۳] قَالَ: مَنْ ہٰؤُلَائِ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ فَلَمْ یُرَاجِعْہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی سَأَ لَہُ مَرَّۃً أَ وْ مَرَّتَیْنِ أَ وْ ثَلَاثًا، وَفِینَا سَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ قَالَ: فَوَضَعَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدَہُ عَلٰی سَلْمَانَ وَقَالَ: ((لَوْ کَانَ الْإِیمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَنَالَہُ رِجَالٌ مِنْ ہٰؤُلَائِ۔)) (مسند احمد: ۹۳۹۶)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر سورۂ جمعہ نازل ہوئی۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت پڑھی: {وَآخَرِینَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِہِمْ} … اور ان میں سے کچھ اور لوگوں میں بھی (آپ کو بھیجا) جو ابھی تک ان سے نہیںملے۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ان سے کون سے لوگ مراد ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کوئی جواب نہ دیا، لیکن جب اس نے ایکیا دو یا تین مرتبہ یہی سوال دوہرایا، جبکہ ہم میں سیدنا سلمان فارسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی موجود تھے، تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ہاتھ ان کے کندھے پر رکھا اور فرامایا: اگر ایمان ثریا ستاروں کے پاس بھی ہوتا تو ان کی قوم کے آدمی اسے وہاں سے بھی حاصل کرلیتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8797

۔ (۸۷۹۷)۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَدِمَتْ عِیرٌ مَرَّۃً الْمَدِینَۃَ وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَخْطُبُ فَخَرَجَ النَّاسُ وَبَقِیَ اثْنَا عَشَرَ فَنَزَلَتْ: {وَإِذَا رَأَ وْا تِجَارَۃً أَ وْ لَہْوًا انْفَضُّوا إِلَیْہَا} [الجمعۃ: ۱۱]۔ (مسند احمد: ۱۴۴۰۸)
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ایک مرتبہ ایک اناج والا قافلہ مدینہ میں آیا، جبکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، ہوا یوں کہ لوگ سب قافلہ کی طرف چلے گئے اور صرف بارہ(۱۲) آدمی باقی رہ گئے، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: {وَإِذَا رَأَ وْا تِجَارَۃً أَ وْ لَہْوًا انْفَضُّوا إِلَیْہَا} … اور جب وہ کوئی تجارت یا تماشا دیکھتے ہیں تو اٹھ کر اس طرف چلے جاتے ہیں اور تجھے کھڑا چھوڑ جاتے ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8798

۔ (۸۷۹۸)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَ رْقَمَ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عَمِّی فِی غَزَاۃٍ فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أُبَیٍّ ابْنِ سَلُولَ یَقُولُ لِأَ صْحَابِہِ: لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ، وَلَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِینَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْأَ عَزُّ مِنْہَا الْأَ ذَلَّ، فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِعَمِّی فَذَکَرَہُ عَمِّی لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَ رْسَلَ إِلَیَّ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَحَدَّثْتُہُ، فَأَ رْسَلَ إِلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُبَیٍّ ابْنِ سَلُولَ وَأَ صْحَابِہِ فَحَلَفُوْا مَا قَالُوْا، فَکَذَّبَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَصَدَّقَہُ، فَأَ صَابَنِی ہَمٌّ لَمْ یُصِبْنِیْ مِثْلُہُ قَطُّ، وَجَلَسْتُ فِی الْبَیْتِ فَقَالَ عَمِّی: مَا أَ رَدْتٰ إِلٰی أَ نْ کَذَّبَکَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَقَتَکَ، قَالَ: حَتّٰی أَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِذَا جَائَ کَ الْمُنَافِقُونَ} [المنافقون: ۱] قَالَ: فَبَعَثَ إِلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَرَأَ ہَا ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ صَدَّقَکَ۔)) (مسند احمد: ۱۹۵۴۸)
۔ سیدنا زید بن ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:میں ایک غزوہ میں اپنے چچا کے ساتھ نکلا، میں نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو سنا،وہ اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا: اس رسول کے ساتھیوں پر خرچ نہ کرو اور اگر ہم مدینہ میں لوٹے تو ہم عزت والے اِن ذلیل لوگوں کو باہر نکال دیں گے۔ میں نے یہ بات اپنے چچا کو بتائی اور میرے چچا نے اس کا ذکر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کر دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری طرف پیغام بھیجا، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آ کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس کی بات بتا دی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عبداللہ بن ابی ابن سلول اور اس کے ساتھیوں کی طرف پیغام بھیجا، سو وہ آگئے، لیکن انہوں نے قسم اٹھائی کہ انہوں نے یہ بات کہی ہی نہیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے جھوٹا اور عبداللہ بن ابی کو سچا قرار دیا، اس سے مجھے بہت پریشانی ہوئی، کبھی بھی اتنی پریشانی مجھے نہیں ہوئی تھی، پس میں گھر میں بیٹھ گیا، میرے چچا نے کہا: تجھے کس چیز نے آمادہ کیا تھا کہ تو نے ایسی بات کہی، اب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تجھے جھوٹا قرار دے دیا ہے اور تجھ پر ناراض بھی ہوئے ہیں،یہاں تک کہ اللہ تعالی نے یہ آیات اتار دیں: {إِذَا جَائَ کَ الْمُنَافِقُونَ …} … جب وہ منافق آپ کے پاس آتے ہیں، …۔ اب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری طرف پیغام بھیجا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ پر یہ آیات پڑھیں اور فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے تجھے سچا قرار دیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8799

۔ (۸۷۹۹)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) یَقُولُ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی سَفَرٍ فَأَصَابَ النَّاسَ شِدَّۃٌ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أُبَیٍّ لِأَ صْحَابِہِ: لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ حَتّٰییَنْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِہِ، وَقَالَ: لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِینَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْہَا الْأَ ذَلَّ، فَأَ تَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَ خْبَرْتُہُ بِذٰلِکَ، فَأَ رْسَلَ إِلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُبَیٍّ فَسَأَ لَہُ فَاجْتَہَدَ یَمِینَہُ مَا فَعَلَ، فَقَالُوْا: کَذَّبَ زَیْدًا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَوَقَعَ فِی نَفْسِی مِمَّا قَالُوْا حَتّٰی أَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ تَصْدِیقِی فِی {إِذَا جَائَ کَ الْمُنَافِقُونَ} [المنافقون: ۱] قَالَ: وَدَعَاہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِیَسْتَغْفِرَ لَہُمْ فَلَوَّوْا رُئُ وْسَہُمْ وَقَوْلُہُ تَعَالٰی: {کَأَ نَّہُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَۃٌ} [المنافقون: ۴] قَالَ: کَانُوْا رِجَالًا أَ جْمَلَ شَیْئٍ۔ (مسند احمد: ۱۹۵۴۹)
۔ (دوسری سند) سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، لوگ سختی اور شدت میں مبتلا ہو گئے، عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا: رسول اللہ کے گرد جمع لوگوں پر خرچ نہ کرو یہاں تک کہ وہ بکھر جائیں، اب اگر ہم مدینہ میں لوٹے تو ہم عزت والے اِن ذلیل لوگوں کو باہر نکال دیں گے۔ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بات بتلائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عبد اللہ بن ابی کو بلایا اور اس سے پوچھا، اس نے تو بڑی پختہ قسم اٹھا دی کہ اس نے ایسی بات نہیں کہی، لوگ کہنے لگ گئے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زید کو جھوٹا قرار دیا ہے، اس بات سے میرے دل میں بڑی پریشانی آئی،یہاں تک کہ اللہ تعالی نے میری تصدیق میں یہ آیات نازل کر دیں: {إِذَا جَائَ کَ الْمُنَافِقُونَ…} … جب منافق آپ کے پاس آئیں گے، … پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو بلایا، تاکہ ان کے لیے استغفار کریں، پس انھوں نے اپنے سروں کو موڑ لیا۔ اللہ تعالی کے فرمان: {کَأَ نَّہُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَۃٌ}… گویا وہ ٹیک لگائی ہوئی لکڑیاں ہیں کا مفہوم یہ ہے کہ وہ بڑے خوبصورت مرد تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8800

۔ (۸۸۰۰)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) قَالَ: کُنْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ غَزْوَۃٍ فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اُبَیٍّ: لَئِنْ رَجَعْنَا اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّ، قَالَ: فَاَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاَخْبَرْتُہٗقَالَ: فَحَلَفَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ اُبَیٍّ أَ نَّہُ لَمْ یَکُنْ شَیْئٌ مِنْ ذٰلِکَ قَالَ: فَلَامَنِی قَوْمِی وَقَالُوْا: مَا أَ رَدْتَ إِلٰی ہٰذَا، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ فَنِمْتُ کَئِیبًا أَ وْ حَزِینًا، قَالَ: فَأَ رْسَلَ إِلَیَّ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَ وْ أَ تَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَ نْزَلَ عُذْرَکَ، وَصَدَّقَکَ۔))، قَالَ: فَنَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {ہُمْ الَّذِینَیَقُولُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ حَتّٰییَنْفَضُّوْا} حَتّٰی بَلَغَ: {لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِینَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْأَ عَزُّ مِنْہَا الْأَ ذَلَّ} [المنافقون: ۷۔۸]۔ (مسند احمد: ۱۹۵۰۰)
۔ سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ہی روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں ایک غزوہ میں تھا، عبداللہ بن ابی ابن سلول نے کہا: اگر ہم مدینہ واپس لوٹے تو ہم عزت والے ضرور ضرور ان ذلیل لوگوں کو مدینہ سے باہر نکال دیں گے، میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور یہ بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلا دی۔لیکن عبداللہ بن ابی نے قسم اٹھائی کہ اس نے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ میری قوم نے مجھے ملامت کیا اور کہا کہ تجھے کیا فائدہ ہوا،پس میں غم و اندوہ میں ڈوبا ہواسو گیا، پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری طرف پیغام بھیجا اور فرمایا: اللہ تعالی نے تیرا عذر اتار ا ہے اور تجھے سچا قرار دیا ہے، پس یہ آیت نازل ہوئی: {ہُمْ الَّذِینَیَقُولُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ حَتّٰییَنْفَضُّوْا… … لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِینَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْأَ عَزُّ مِنْہَا الْأَ ذَلَّ}۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8801

۔ (۸۸۰۱)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ یَقُولُ: قَرَأَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم {یَا أَ یُّہَا النَّبِیُّ إِذَا طَلَّقْتُمْ النِّسَاء َ فَطَلِّقُوہُنَّ فِی قُبُلِ عِدَّتِہِنَّ۔} (مسند احمد: ۵۲۶۹)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت اس طرح پڑھی: {یَا أَ یُّہَا النَّبِیُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء َ فَطَلِّقُوہُنَّ فِی قُبُلِ عِدَّتِہِنَّ۔} … اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8802

۔ (۸۸۰۲)۔ عَنْ أَ بِی ذَرٍّ قَالَ: جَعَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَتْلُوْ عَلَیَّ ہٰذِہِ الْآیَۃَ: {وَمَنْ یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَہُ مَخْرَجًا} [الطلاق: ۲] حَتّٰی فَرَغَ مِنَ الْآیَۃِ ثُمَّ قَالَ: ((یَا أَ بَا ذَرٍّ! لَوْ أَ نَّ النَّاسَ کُلَّہُمْ أَ خَذُوا بِہَا لَکَفَتْہُمْ۔)) قَالَ: فَجَعَلَ یَتْلُو بِہَا وَیُرَدِّدُہَا عَلَیَّ حَتّٰی نَعَسْتُ۔ (مسند احمد: ۲۱۸۸۴)
۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ پر اس آیت کی تلاوت کی:{وَمَنْ یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَہُ مَخْرَجًا} … جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے نکلنے کی جگہ بنا دیتا ہے۔ حتیٰ کہ آیت سے فارغ ہوئے، اور پھر فرمایا: اے ابوذر! اگر تمام لوگ اس آیت کو پکڑ لیں تو یہ ان سب کو کفایت کرے گی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس آیت کو بار بار دہراتے تھے، یہاں تک کہ مجھے نیند آگئی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8803

۔ (۸۸۰۳)۔ عن عُبَیْدِ بْنَ عُمَیْرٍیُخْبِرُ قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تُخْبِرُ: أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَمْکُثُ عِنْدَ زَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ وَیَشْرَبُ عِنْدَہَا عَسَلًا، فَتَوَاصَیْتُ أَ نَا وَحَفْصَۃُ أَ نَّ أَ یَّتَنَا مَا دَخَلَ عَلَیْہَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلْتَقُلْ: إِنِّی أَ جِدُ مِنْکَ رِیحَ مَغَافِیرَ أَ کَلْتَ مَغَافِیرَ، فَدَخَلَ عَلٰی إِحْدَاہُمَا فَقَالَتْ ذٰلِکَ لَہُ، فَقَالَ: ((بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا عِنْدَ زَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ وَلَنْ أَ عُودَ لَہُ۔)) فَنَزَلَتْ: {لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَ حَلَّ اللّٰہُ لَکَ} {إِنْ تَتُوبَا} لِعَائِشَۃَ وَحَفْصَۃَ {وَإِذْ أَ سَرَّ النَّبِیُّ إِلٰی بَعْضِ أَ زْوَاجِہِ} [التحریم: ۱۔۴] لِقَوْلِہِ: ((بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا۔)) (مسند احمد: ۲۶۳۷۷)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدہ زینب بنت حجش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس ٹھہرتے تھے اور ان کے پاس شہد پیتے تھے، میں(عائشہ) اور حفصہ دونوں نے آپس میں یہ سکیم تیار کی کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائیں، وہ یہ کہے: میںتو آپ سے مغافیر کی بوپاتی ہوں، کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے، پس جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہم میںسے ایک کے پاس داخل ہوئے تو اس نے وہی بات کہی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے زینب کے پاس سے شہد پیا ہے، آئندہ میں ہر گز نہ پیوں گا۔ پس یہ آیات نازل ہوئیں: {لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَ حَلَّ اللّٰہُ لَکَ}… اے نبی تو وہ کیوں حرام کرتاہے جو اللہ نے تیرے لیے حلال کیا ہے؟ {إِنْ تَتُوبَا}… اگر تم دونوںاللہ کی طرف توبہ کرو۔ یہ سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کے بارے میں ہے۔ اور {وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِیُّ إِلٰی بَعْضِ أَ زْوَاجِہِ}… اور جب نبی نے اپنی کسی بیوی سے پوشیدہ طور پر کوئی بات کہی۔ اس سے مراد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کییہ بات تھی: بلکہ میں نے تو شہد پیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8804

۔ (۸۸۰۴)۔ حَدَّثَنَا أَ بُو الْیَمَانِ أَ خْبَرَنَا شُعَیْبٌ عَنْ الزُّہْرِیِّ قَالَ أَ خْبَرَنِی عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِی ثَوْرٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ لَمْ أَ زَلْ حَرِیصًا عَلٰی أَنْ أَسْأَ لَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنْ الْمَرْأَ تَیْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللَّتَیْنِ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {إِنْ تَتُوبَا إِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا} حَتّٰی حَجَّ وَحَجَجْتُ مَعَہُ وَعَدَلَ وَعَدَلْتُ مَعَہُ بِإِدَاوَۃٍ فَتَبَرَّزَ ثُمَّ جَائَ فَسَکَبْتُ عَلٰییَدَیْہِ مِنْہَا فَتَوَضَّأَ فَقُلْتُ لَہُ: یَا أَ مِیرَ الْمُؤْمِنِینَ! مَنِ الْمَرْأَ تَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللَّتَانِ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {إِنْ تَتُوبَا إِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا} قَالَ: وَاعَجَبًا لَکَ یَا ابْنَ عَبَّاسٍ! ہُمَا عَائِشَۃُ وَحَفْصَۃُ، ثُمَّ اسْتَقْبَلَ عُمَرُ الْحَدِیثَیَسُوقُہُ قَالَ کُنْتُ أَ نَا وَجَارٌ لِی مِنْ الْأَ نْصَارِ فِی بَنِی أُمَیَّۃَ بْنِ زَیْدٍ وَہُمْ مِنْ عَوَالِی الْمَدِینَۃِ وَکُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَیَنْزِلُیَوْمًا وَأَ نْزِلُ یَوْمًا فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُہُ بِمَا حَدَثَ مِنْ خَبَرِ ذٰلِکَ الْیَوْمِ مِنْ الْوَحْیِ أَ وْ غَیْرِہِوَإِذَا نَزَلَ فَعَلَ مِثْلَ ذٰلِکَ وَکُنَّا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ نَغْلِبُ النِّسَائَ فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَی الْأَ نْصَارِ إِذَا قَوْمٌ تَغْلِبُہُمْ نِسَاؤُہُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا یَأْخُذْنَ مِنْ أَ دَبِ نِسَائِ الْأَ نْصَارِ فَصَخِبْتُ عَلَی امْرَأَ تِی فَرَاجَعَتْنِی فَأَ نْکَرْتُ أَ نْ تُرَاجِعَنِی قَالَتْ وَلِمَ تُنْکِرُ أَ نْ أُرَاجِعَکَ فَوَاللّٰہِ إِنَّ أَ زْوَاجَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیُرَاجِعْنَہُ وَإِنَّ إِحْدَاہُنَّ لَتَہْجُرُہُ الْیَوْمَ حَتَّی اللَّیْلِ فَأَ فْزَعَنِی ذٰلِکَ وَقُلْتُ لَہَا قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذٰلِکِ مِنْہُنَّ ثُمَّ جَمَعْتُ عَلَیَّ ثِیَابِی فَنَزَلْتُ فَدَخَلْتُ عَلٰی حَفْصَۃَ فَقُلْتُ لَہَا: أَیْ حَفْصَۃُ! أَ تُغَاضِبُ إِحْدَاکُنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْیَوْمَ حَتَّی اللَّیْلِ قَالَتْ نَعَمْ فَقُلْتُ قَدْ خِبْتِ وَخَسِرْتِ أَ فَتَأْمَنِینَ أَنْ یَغْضَبَ اللّٰہُ لِغَضَبِ رَسُولِہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَتَہْلِکِی لَا تَسْتَکْثِرِی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَا تُرَاجِعِیہِ فِی شَیْئٍ وَلَا تَہْجُرِیہِ وَسَلِینِی مَا بَدَا لَکِ وَلَا یَغُرَّنَّکِ أَ نْ کَانَتْ جَارَتُکِ أَ وْضَأَ مِنْکِ وَأَ حَبَّ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یُرِیدُ عَائِشَۃَ قَالَ عُمَرُ: وَکُنَّا قَدْ تَحَدَّثْنَا أَ نَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الْخَیْلَ لِغَزْوِنَا فَنَزَلَ صَاحِبِی الْأَ نْصَارِیُّیَوْمَ نَوْبَتِہِ فَرَجَعَ إِلَیْنَا عِشَائً فَضَرَبَ بَابِی ضَرْبًا شَدِیدًا وَقَالَ أَ ثَمَّ ہُوَ فَفَزِعْتُ فَخَرَجْتُ إِلَیْہِ فَقَالَ: قَدْ حَدَثَ الْیَوْمَ أَ مْرٌ عَظِیمٌ، قُلْتُ: مَا ہُوَ؟ أَ جَائَ غَسَّانُ؟ قَالَ: لَا بَلْ أَ عْظَمُ مِنْ ذٰلِکَ وَأَہْوَلُ، طَلَّقَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نِسَائَہُ وَقَالَ عُبَیْدُ بْنُ حُنَیْنٍ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ عُمَرَ فَقَالَ اعْتَزَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَزْوَاجَہُ فَقُلْتُ خَابَتْ حَفْصَۃُ وَخَسِرَتْ قَدْ کُنْتُ أَ ظُنُّ ہٰذَا یُوشِکُ أَ نْ یَکُونَ فَجَمَعْتُ عَلَیَّ ثِیَابِی فَصَلَّیْتُ صَلَاۃَ الْفَجْرِ مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَخَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَشْرُبَۃً لَہُ فَاعْتَزَلَ فِیہَا وَدَخَلْتُ عَلٰی حَفْصَۃَ فَإِذَا ہِیَ تَبْکِی فَقُلْتُ: مَا یُبْکِیکِ أَ لَمْ أَ کُنْ حَذَّرْتُکِ ہٰذَا؟ أَ طَلَّقَکُنَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: لَا أَدْرِی، ہَا ہُوَ ذَا مُعْتَزِلٌ فِی الْمَشْرُبَۃِ فَخَرَجْتُ فَجِئْتُ إِلَی الْمِنْبَرِ فَإِذَا حَوْلَہُ رَہْطٌ یَبْکِی بَعْضُہُمْ فَجَلَسْتُ مَعَہُمْ قَلِیلًا ثُمَّ غَلَبَنِی مَا أَ جِدُ فَجِئْتُ الْمَشْرُبَۃَ الَّتِی فِیہَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ لِغُلَامٍ لَہُ أَ سْوَدَ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ الْغُلَامُ فَکَلَّمَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ کَلَّمْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَذَکَرْتُکَ لَہُ فَصَمَتَ فَانْصَرَفْتُ حَتّٰی جَلَسْتُ مَعَ الرَّہْطِ الَّذِینَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ ثُمَّ غَلَبَنِی مَا أَ جِدُ فَجِئْتُ فَقُلْتُ لِلْغُلَامِ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ قَدْ ذَکَرْتُکَ لَہُ فَصَمَتَ فَرَجَعْتُ فَجَلَسْتُ مَعَ الرَّہْطِ الَّذِینَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ ثُمَّ غَلَبَنِی مَا أَ جِدُ فَجِئْتُ الْغُلَامَ فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَیَّ فَقَالَ قَدْ ذَکَرْتُکَ لَہُ فَصَمَتَ فَلَمَّا وَلَّیْتُ مُنْصَرِفًا قَالَ إِذَا الْغُلَامُ یَدْعُونِی فَقَالَ قَدْ أَ ذِنَ لَکَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَخَلْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِذَا ہُوَ مُضْطَجِعٌ عَلٰی رِمَالِ حَصِیرٍ لَیْسَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُ فِرَاشٌ قَدْ أَ ثَّرَ الرِّمَالُ بِجَنْبِہِ مُتَّکِئًا عَلَی وِسَادَۃٍ مِنْ أَ دَمٍ حَشْوُہَا لِیفٌ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ ثُمَّ قُلْتُ وَأَ نَا قَائِمٌ یَا رَسُولَ اللّٰہِ أَ طَلَّقْتَ نِسَائَکَ فَرَفَعَ إِلَیَّ بَصَرَہُ فَقَالَ لَا فَقُلْتُ اللّٰہُ أَ کْبَرُ ثُمَّ قُلْتُ وَأَ نَا قَائِمٌ أَ سْتَأْنِسُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ لَوْ رَأَ یْتَنِی وَکُنَّا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ نَغْلِبُ النِّسَائَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ إِذَا قَوْمٌ تَغْلِبُہُمْ نِسَاؤُہُمْ فَتَبَسَّمَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ قُلْتُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ لَوْ رَأَ یْتَنِی وَدَخَلْتُ عَلٰی حَفْصَۃَ فَقُلْتُ لَہَا لَا یَغُرَّنَّکِ أَ نْ کَانَتْ جَارَتُکِ أَ وْضَأَ مِنْکِ وَأَ حَبَّ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُرِیدُ عَائِشَۃَ فَتَبَسَّمَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَبَسُّمَۃً أُخْرٰی فَجَلَسْتُ حِینَ رَأَ یْتُہُ تَبَسَّمَ فَرَفَعْتُ بَصَرِی فِی بَیْتِہِ فَوَاللّٰہِ مَا رَأَ یْتُ فِی بَیْتِہِ شَیْئًایَرُدُّ الْبَصَرَ غَیْرَ اُہْبَۃٍ ثَلَاثَۃٍ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ادْعُ اللّٰہَ فَلْیُوَسِّعْ عَلٰی أُمَّتِکَ فَإِنَّ فَارِسَ وَالرُّومَ قَدْ وُسِّعَ عَلَیْہِمْ وَأُعْطُوا الدُّنْیَا وَہُمْ لَا یَعْبُدُونَ اللّٰہَ فَجَلَسَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکَانَ مُتَّکِئًا فَقَالَ: ((أَوَفِی ہٰذَا أَ نْتَ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ! إِنَّ أُولَئِکَ قَوْمٌ عُجِّلُوا طَیِّبَاتِہِمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا۔)) فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! اسْتَغْفِرْ لِی فَاعْتَزَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نِسَائَہُ مِنْ أَ جْلِ ذٰلِکَ الْحَدِیثِ حِینَ أَ فْشَتْہُ حَفْصَۃُ إِلٰی عَائِشَۃَ تِسْعًا وَعِشْرِینَ لَیْلَۃً وَکَانَ قَالَ مَا أَ نَا بِدَاخِلٍ عَلَیْہِنَّ شَہْرًا مِنْ شِدَّۃِ مَوْجِدَتِہِ عَلَیْہِنَّ حِینَ عَاتَبَہُ اللّٰہُ فَلَمَّا مَضَتْ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَیْلَۃً دَخَلَ عَلٰی عَائِشَۃَ فَبَدَأَ بِہَا فَقَالَتْ لَہُ عَائِشَۃُیَا رَسُولَ اللّٰہِ إِنَّکَ کُنْتَ قَدْ أَقْسَمْتَ أَنْ لَا تَدْخُلَ عَلَیْنَا شَہْرًا وَإِنَّمَا أَ صْبَحْتَ مِنْ تِسْعٍ وَعِشْرِینَ لَیْلَۃً أَ عُدُّہَا عَدًّا فَقَالَ الشَّہْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَیْلَۃً فَکَانَ ذٰلِکَ الشَّہْرُ تِسْعًا وَعِشْرِینَ لَیْلَۃً قَالَتْ عَائِشَۃُ: ثُمَّ أَ نْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی آیَۃَ التَّخَیُّرِ فَبَدَأَ بِی أَوَّلَ امْرَأَ ۃٍ مِنْ نِسَائِہِ فَاخْتَرْتُہُ ثُمَّ خَیَّرَ نِسَائَہُ کُلَّہُنَّ فَقُلْنَ مِثْلَ مَا قَالَتْ عَائِشَۃُ۔ (مسند احمد: ۲۲۲)
۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کہتے ہیں: مجھے ہمیشہیہ خواہش رہی کہ میں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے پوچھوں کہ وہ کون سی دو عورتیں ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {إِنْ تَتُوبَا إِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا}… اگر تم دونوں اللہ کی طرف توبہ کرو (تو بہتر ہے) کیونکہیقینا تمھارے دل (حق سے) ہٹ گئے ہیں۔ ایک مرتبہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے حج کیا اور میں نے بھی ان کے ساتھ حج کیا، (قضاء حاجت کے لئے) وہ راہ سے ہٹے، میں بھی ان کے ساتھ لوٹا لے کر مڑگیا، جب وہ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر واپس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر لوٹے سے پانی ڈالا، انہوں نے وضو کیا، اب میں نے کہا: اے امیرالمومنین! نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وہ دو بیویاں کون کون سی ہیں، جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {إِنْ تَتُوبَا إِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا}… اگر تم دونوں اللہ کی طرف توبہ کرو (تو بہتر ہے) کیونکہیقینا تمھارے دل (حق سے) ہٹ گئے ہیں۔ انھوں نے کہا: اے ابن عباس! مجھے تم پر بڑا تعجب آرہا ہے، سنو، وہ دونوں عائشہ اور حفصہ ہیں، پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بقیہ حدیث بیان کی کہ میں اور ایک میرا انصاری پڑوسی (محلہ) بنی امیہ میں رہتے تھے، جو مدینہ کے اونچے علاقہ میں واقع تھا، ہم دونوں باری باری سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے، جس دن میں جاتا، اپنے ساتھی کو اس دن کی وحی وغیرہ کی تمام خبریں آکر بتا دیتا اورجب وہ جاتا تو وہ بھی ایسا ہی کرتا، بات یہ ہے کہ ہم قریشی لوگ عورتوں پر غالب تھے، لیکن جب مدینہ آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ انصاری عورتیں مردوں پر غالب ہیں، ہماری عورتیں بھی انصاری خواتین کی باتیں سیکھنے لگیں، ایک دن میںاپنی بیوی پر چیخا، اس نے آگے سے جواب دے دیا، اس کا پلٹ کر جواب دینا مجھے ناگوار گزرا، لیکن اس نے کہا: میرا جواب کیوں برا لگتا ہے؟ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیویاں بھی آپ کو جواب دیتی ہیں اور کوئی کسی دن رات تک آپ کو چھوڑ بھی دیتی ہے، میں اس بات سے گھبرایا اور میں نے کہا: جس نے یہ کیا اس کا ستیاناس ہو، پھر میں تیار ہو کر چلا اور حفصہ کے پاس جا کر پوچھا؛ اے حفصہ! کیا تم میں سے کوئی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو رات تک خفا رکھتی ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، میں نے کہا: وہ تو نامراد اور خسارہ میں ہے، کیا تمہیں اس بات کا خوف نہیں ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے غصہ سے اللہ کو غصہ آجائے اور اس طرح وہ عورت ہلاک ہوجائے، اب تم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے زیادہ مانگا کرو نہ آپ کو کچھ جواب دیا کرو اور نہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے باتیں کرنی چھوڑا کرو، اگر تمہیں ضرورت ہو تو مجھ سے مانگ لیا کرو اور تجھے یہ چیز دھوکے میں نہ ڈالے کہ تیری پڑوسن تم سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پسندیدہ ہے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی مراد سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا تھیں، پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ہم یہ بات سنتے رہتے تھے کہ غسان (شام کا بادشاہ) ہم سے لڑنے کے لئے گھوڑوں کے نعل لگوا رہا ہے، ایک مرتبہ میرا انصاری دوست اپنی باری کے دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر رہا اور شام کو واپس آیا تو میرا دروازہ زور سے کھٹکھٹایااور پوچھا: عمر ہیں؟ میں گھبرا کر ان کے پاس پہنچا تو وہ کہنے لگا: آج ایک بڑا حادثہ رونما ہوا ہے، میں نے کہا: وہ کیا؟ کیا غسانی لشکر تو نہیں آگیا؟ اس نے کہا: یہ بات نہیں، اس سے بھی بڑی بات واقع ہوئی ہے، ایک ہولناک واقعہ ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے، میں نے کہا: بس حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا تو نامراد اور خسارے میں ہوگئی، میرا خیال تھا کہ عنقریب ایسے ہوگا، میں نے کپڑے پہنے اور صبح کی نماز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ادا کی، (نماز سے فارغ ہو کر) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے ایک بالائی کمرے میں چلے گئے اور اس کے گوشے میں جا کر بیٹھ گئے اور میں حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس چلا گیا،کیا دیکھتا ہوں کہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا تو رو رہی ہیں، میں نے پوچھا: کس بات سے رو رہی ہو؟ کیا میں نے تمہیں ڈرایا نہیں تھا؟ کیا تم کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے طلاق دے دی ہے؟ اس نے جواب دیا: مجھے معلوم نہیں ہے، آپ اس بالاخانے میں تشریف فرما ہیں پھر میں نکل کر منبر کے پاس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے چاروں طرف لوگ بیٹھے ہیں اور بعض رو رہے ہیں، میں تھوڑی دیر ان کے پاس بیٹھارہا، پھر میرا دل نہ رہ سکا اور میں اسی بالائی کوٹھڑی کے پاس، جس میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم موجودتھے، آیا اور آپ کے حبشی غلام سے کہا: میرے لئے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اجازت لو، غلام نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جا کر عرض کیا اور واپس آکر کہا کہ میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا اور تمہارا ذکر کیا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چپ ہو رہے، میں واپس آکر پھر ان لوگوں ساتھ بیٹھ گیا، جو منبر کے پاس تھے پھر دل نے بے قرار کیا اور میں نے غلام سے جا کر کہا: میرے لئے اجازت مانگو، وہ جا کر پھر لوٹا اور کہا: میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے تمہارا ذکر کیا ہے، مگر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش رہے، پھر میں ان لوگوں کے پاس جا کر بیٹھ گیا، پھر میرا دل بے قرار ہوا اور میں نے جا کر غلام سے کہا: میرے لئے ایک مرتبہ پھر جا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اجازت مانگو، غلام اندر گیا اور واپس آکر مجھے کہا: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے تمہارا ذکر کیا ہے، مگر آپ خاموش ہو رہے ہیں، پھر پلٹنے ہی لگا تھا کہ اچانک غلام نے کہا:آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تم کو اجازت دے دی، جب میں اندر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سرکار دوعالم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چھال بھرا تکیہ رکھے کھردری چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں، جس سے آپ کے جسد اطہر پر نشان پڑ گئے ہیں، میں نے جا کر کھڑے ہی کھڑے کہا: السلام علیکم، اے اللہ کے رسول! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری طرف آنکھ اٹھا کر فرمایا: نہیں، میں نے متعجب ہو کر کہا: اللہ اکبر، پھر میں نے کھڑے ہی کھڑے دل بہلانے کے واسطے عرض کیا: کاش آپ میری طرف متوجہ ہوں، ہم قریشی لوگ عورتوں پر غالب تھے، لیکن جب مدینہ آئے تو یہاں ایسی قوم کو دیکھا کہ ان کی عورتیں مردوں پر غالب ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرائے، پھر میں نیعرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ میرا حال سنیں تو میںکچھ کہنا چاہتا ہوں، میں نے حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس جا کر اس سے کہا: تجھے یہ بات دھوکے میں نہ ڈالے کہ تیری پڑوسن یعنی عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا تجھ سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ کی محبوب بیوی ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دوبارہ مسکرانے لگے، میں سرکار دوعالم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ہنستے دیکھ کر بیٹھ گیا، آپ کے مکان کے اندر ہر طرف نگاہ اٹھا کر میں نے دیکھا، بس اللہ کی قسم! وہاں تین کھالوں کے علاوہ مجھے اور کوئی چیز نظر نہ آئی، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول: آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ آپ کی امت پر کشادگی کرے، فارس اورروم پر تو ہر چیز کی فراوانی کی گئی ہے اور ان کے پاس بے حد دنیاوی سامان ہے، جبکہ وہ اللہ کی عبادت بھی نہیں کرتے۔ پہلے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ٹیک لگائے بیٹھے تھے، یہ سن کر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا: اے ابن خطاب! کیا تم ابھی تک اس خیال کے بندے ہو؟ ان لوگوں کی اچھائیوں کا بدلہ ان کو اسی دنیا میں ملتا ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ میرے لئے بخشش کی دعا فرمائیے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی بات کی وجہ سے جو کہ سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا پر ظاہر کردی تھی، اپنی بیویوں سے انتیس دن تک الگ ہوگئے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غصے سے فرمایا: میں ایک ماہ تک تمہارے پاس نہیں آؤں گا۔ جب انتیس دن گذرگئے، تو آپ پہلے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس گئے، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک ماہ تک ہمارے پاس نہ آنے کی قسم کھائی تھی، ابھی تک تو انتیس دن ہوئے ہیں، میں مسلسل گن رہی ہوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ مہینہ انتیس کا ہی ہوا، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: پھر اللہ نے آیت ِ تخییر نازل فرمائی، سب بیویوں سے پہلے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے پوچھا، میں نے آپ کو اختیار کیا اور پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سب بیویوں کو اختیار دیا، ان سب نے میری طرح کا جواب دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8805

۔ (۸۸۰۵)۔ عَنْ أَ نَسٍ قَالَ: قَالَ عُمَرُ: وَافَقْتُ رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ فِی ثَلَاثٍ، أَ وْ وَافَقَنِی رَبِّی فِی ثَلَاثٍ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! لَوِ اتَّخَذْتَ الْمَقَامَ مُصَلًّی، قَالَ: فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی} [البقرہ: ۱۲۵] وَقُلْتُ: لَوْ حَجَبْتَ عَنْ أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِینَ فَإِنَّہُ یَدْخُلُ عَلَیْکَ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، فَأُنْزِلَتْ آیَۃُ الْحِجَابِ، قَالَ: وَبَلَغَنِی عَنْ أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِینَ شَیْئٌ فَاسْتَقْرَیْتُہُنَّ أَ قُولُ لَہُنَّ لَتَکُفُّنَّ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَ وْ لَیُبْدِلَنَّہُ اللّٰہُ بِکُنَّ أَ زْوَاجًا خَیْرًا مِنْکُنَّ مُسْلِمَاتٍ، حَتّٰی أَ تَیْتُ عَلٰی إِحْدٰی أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِینَ فَقَالَتْ: یَا عُمَرُ! أَ مَا فِی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا یَعِظُ نِسَائَہُ حَتّٰی تَعِظَہُنَّ، فَکَفَفْتُ فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {عَسٰی رَبُّہُ إِنْ طَلَّقَکُنَّ أَ نْ یُبْدِلَہُ أَ زْوَاجًا خَیْرًا مِنْکُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ} [التحریم: ۵] الْآیَۃَ۔ (مسند احمد: ۱۶۰)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے اپنے رب سے تین کاموں میں موافقت کی ہے یا میرے ربّ نے مجھے سے موافقت کی، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ مقام ابراہیم کو جائے نماز بنالیں تو یہ آیت نازل ہوئی {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی}… تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کر لو۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کی عورتوں پر نیک اور بد سب داخل ہوتے ہیں، اگر آپ انہیں پردہ کرنے کا حکم دے دیں تو بہتر ہے، پس پردہ والی آیت نازل ہوئی اور جب مجھے امہات المومنین کے متعلق ایک بات پہنچی میں نے ان کا معاملہ گہری دلچسپی سے دیکھا اورمیں نے ان سے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایسا رویہ اپنانے سے باز رہو، وگرنہ اللہ تعالیٰ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے تم سے بہتر بیویاں تبدیل کردے گا، جو مسلمان ہوں گی، جب میں ان میں سے ایک ام المومنین کے پاس آیا تو انہوں نے کہا: اے عمر! کیا تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیویوں کو نصیحت کرتے ہو؟ کیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خود نہیں کر سکتے؟ پس میں رک گیا، لیکن اُدھر اللہ تعالییہ حکم نازل کر دیا: {عَسٰی رَبُّہٓ اِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَہٓ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰئِحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّاَبْکَارًا} … اس کارب قریب ہے، اگر وہ تمھیں طلاق دے دے کہ تمھارے بدلے اسے تم سے بہتر بیویاں دے دے، جو اسلام والیاں، ایمان والیاں، اطاعت کرنے والیاں، توبہ کرنے والیاں، عبادت کرنے والیاں، روزہ رکھنے والیاں ہوں، شوہر دیدہ اور کنواریاں ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8806

۔ (۸۸۰۶)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہٗقَالَ: ((اِنَّسُوْرَۃً مِنَ الْقُرْآنِ ثَلَاثُوْنَ آیَۃً شَفَعَتْ لِرَجُلٍ حَتّٰی غُفِرَلَہٗوَھِیَ {تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ}۔ (مسند احمد: ۸۲۵۹)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قرآن مجید میں ایک سورت ہے، اس کی تیس (۳۰) آیات ہیں، اس نے ایک آدمی کے لیے سفارش کی،یہاں تک کہ اسے بخش دیا گیا،یہ سورت {تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ}یعنی سورۂ ملک ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8807

۔ (۸۸۰۷)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ غَنْمٍ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ الْعُتُلِّ الزَّنِیمِ، فَقَالَ: ((ہُوَ الشَّدِیدُ الْخَلْقِ الْمُصَحَّحُ الْأَ کُولُ الشَّرُوبُ الْوَاجِدُ لِلطَّعَامِ وَالشَّرَابِ، الظَّلُومُ لِلنَّاسِ رَحْبُ الْجَوْفِ۔)) (مسند احمد: ۱۸۱۵۴)
۔ سیدنا عبد الرحمن بن غنم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اَلْعُتُلِّ الزَّنِیمِ کے بارے میں پوچھا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس سے مراد جسمانی لحاظ سے سخت مضبوط، صحت مند، خوب کھانے پینے والا کھانے اور پینے کی وافر چیزوں والا اور لوگوں پر ظلم کرنے والا اور پیٹو ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8808

۔ (۸۸۰۸)۔ عَنْ أَ بِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: قِیلَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمًا کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِینَ أَ لْفَ سَنَۃٍ مَا أَ طْوَلَ ہٰذَا الْیَوْمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ إِنَّہُ لَیُخَفَّفُ عَلَی الْمُؤْمِنِ حَتّٰییَکُونَ أَخَفَّ عَلَیْہِ مِنْ صَلَاۃٍ مَکْتُوبَۃٍیُصَلِّیہَا فِی الدُّنْیَا۔)) (مسند احمد: ۱۱۷۴۰)
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت کیا گیا کہ ایک دن پچاس ہزار سال کا ہوگا، یہ کس قدر طویل دن ہو گا؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ مومن پر بہت ہلکا ہو گا، بس دنیا میں جتنی دیر وہ فرض نماز کی ادائیگی میں لگاتا ہے، اس کو اتنا وقت محسوس ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8809

۔ (۸۸۰۹)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: آخِرُ شِدَّۃٍ یَلْقَاہَا الْمُؤْمِنُ الْمَوْتُ وَفِی قَوْلِہِ: {یَوْمَ تَکُونُ السَّمَائُ کَالْمُہْلِ} [المعارج: ۸] قَالَ: کَدُرْدِیِّ الزَّیْتِ، وَفِی قَوْلِہِ:{ آنَائَ اللَّیْلِ} [آل عمران: ۱۱۳] قَالَ: جَوْفُ اللَّیْلِ، وَقَالَ: ہَلْ تَدْرُونَ مَا ذَہَابُ الْعِلْمِ؟ قَالَ: ہُوَ ذَہَابُ الْعُلَمَائِ مِنَ الْأَ رْضِ۔ (مسند احمد: ۱۹۴۶)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ دنیا کی سختیوں میں سے آخری سختی جو مومن پاتا ہے وہ موت کی سختی ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے: {یَوْمَ تَکُونُ السَّمَائُ کَالْمُہْلِ} … جس دن آسمان مثل تیل کی تلچھٹ کے ہو جائے گا۔ یعنی تیل کے نیچے بیٹھنے والے تلچھٹ کی مانند ہو جائے گا اور {آنَائَ اللَّیْلِ} سے مراد رات کا اندرونی وقت ہے، نیز سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ علم کیسے اٹھ جائے گا؟ اس کی صورت یہ ہو گی کہ زمین سے علماء اٹھ جائیں گے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8810

۔ (۸۸۱۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَا قَرَأَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الْجِنِّ وَلَا رَآہُمْ، انْطَلَقَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی طَائِفَۃٍ مِنْ أَصْحَابِہِ عَامِدِینَ إِلَی سُوقِ عُکَاظٍ، وَقَدْ حِیلَ بَیْنَ الشَّیَاطِینِ وَبَیْنَ خَبَرِ السَّمَائِ، وَأُرْسِلَتْ عَلَیْہِمُ الشُّہُبُ قَالَ: فَرَجَعَتِ الشَّیَاطِینُ إِلٰی قَوْمِہِمْ فَقَالُوْا: مَا لَکُمْ؟ قَالُوْا: حِیلَبَیْنَنَا وَبَیْنَ خَبَرِ السَّمَائِ وَأُرْسِلَتْ عَلَیْنَا الشُّہُبُ، قَالَ: فَقَالُوْا: مَا حَالَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ خَبَرِ السَّمَائِ إِلَّا شَیْئٌ حَدَثَ، فَاضْرِبُوْا مَشَارِقَ الْأَ رْضِ وَمَغَارِبَہَا فَانْظُرُوْا مَا ہٰذَا الَّذِی حَالَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ خَبَرِ السَّمَائِ؟ قَالَ: فَانْطَلَقُوْا یَضْرِبُونَ مَشَارِقَ الْأَ رْضِ وَمَغَارِبَہَا یَبْتَغُونَ مَا ہٰذَا الَّذِی حَالَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ خَبَرِ السَّمَائِ، قَالَ: فَانْصَرَفَ النَّفَرُ الَّذِینَ تَوَجَّہُوْا نَحْوَ تِہَامَۃَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ بِنَخْلَۃَ عَامِدًا إِلٰی سُوقِ عُکَاظٍ، وَہُوَ یُصَلِّی بِأَ صْحَابِہِ صَلَاۃَ الْفَجْرِ، قَالَ: فَلَمَّا سَمِعُوا الْقُرْآنَ اسْتَمَعُوا لَہُ وَقَالُوْا: ہَذَا وَاللّٰہِ الَّذِی حَالَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ خَبَرِ السَّمَائِ، قَالَ: فَہُنَالِکَ حِینَ رَجَعُوْا إِلَی قَوْمِہِمْ فَقَالُوْا: یَا قَوْمَنَا: {إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا یَہْدِی إِلَی الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِہِ} [الجن: ۱] الْآیَۃَ فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی نَبِیِّہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم {قُلْ أُوحِیَ إِلَیَّ أَ نَّہُ} وَإِنَّمَا أُوحِیَ إِلَیْہِ قَوْلُ الْجِنِّ۔ (مسند احمد: ۲۲۷۱)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نہ تو جنوں پر تلاوت کی ہے اور نہ ہی انہیں دیکھا ہے، واقعہ یوں ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک دفعہ اپنے صحابہ کرام کے ایک گروہ کے ساتھ مل کر عکاظ کے بازار میں جانے کے لیے چلے۔ اُدھر (آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آمد کی وجہ سے) آسمان کی خبر اور جنوں کے درمیان رکاوٹیں پیدا ہو چکی تھیں اور ان پر انگارے برسائے جانے لگے تھے، جب شیطان اپنی قوم کی طرف لوٹے، تو انھوں نے کہا:تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ انھوں نے کہا: ہمارے اور آسمان کی خبر کے درمیان اب رکاوٹ کھڑی کر دی گئی ہے، ہمارے اوپر انگارے برسائے جاتے ہیں،یہ ہمارے اور آسمان کی خبر کے درمیان رکاوٹ کسی حادثہ کی وجہ سے ہے، چلو زمین کے مشرق و مغرب تک گھومو اور دیکھو کہ یہ کیا چیز ہے جو ہمارے اور آسمانی خبروں کے درمیان حائل ہو گئی ہے، وہ جن اس رکاوٹ کو تلاش کرنے کے لیے مشرق و مغرب میں گھومے، ان میں سے ایک گروہ تہامہ کی جانب آیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نخلہ وادی میں تھے، عکاظ کے بازار کی جانب جانے والے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے ساتھیوں کو نماز فجر پڑھا رہے تھے، جب انہوں نے قرآن مجیدسنا تو کان لگائے اور پکار اٹھے: یہی وہ چیز ہے جو تمہارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان حائل ہوئی ہے، وہاں سے جب وہ واپس اپنی قوم کے پاس آئے تو کہا: {إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا یَہْدِی إِلَی الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِہِ} … اے ہماری قوم ! ہم نے عجیب و غریب تاثیر والا قرآن سنا ہے، جو رشدو ہدایت کی رہنمائی کرتا ہے، پس ہم تو اس کے ساتھ ایمان لے آئے ہیں۔ اُدھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی جانب یہ وحی کی: {قُلْ أُوحِیَ إِلَیَّ أَ نَّہُ} … کہہ دو کہ میری طرف وحی کی گئی ہے۔ جنوں کی بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف وحی کی گئی تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8811

۔ (۸۸۱۱)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) قَالَ فِی قَوْلِ الْجِنِّ: {وَأَ نَّہُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰہِ یَدْعُوْہُ کَادُوْا یَکُونُونَ عَلَیْہِ لِبَدًا} قَالَ: لَمَّا رَأَ وْہُ یُصَلِّی بِأَ صْحَابِہِ وَیُصَلُّونَ بِصَلَاتِہِ وَیَرْکَعُونَ بِرُکُوعِہِ وَیَسْجُدُوْنَ بِسُجُودِہِ تَعَجَّبُوا مِنْ طَوَاعِیَۃِ أَ صْحَابِہِ لَہُ، فَلَمَّا رَجَعُوْا إِلٰی قَوْمِہِمْ قَالُوْا: إِنَّہُ لَمَّا قَامَ عَبْدُاللّٰہِیَعْنِی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدْعُوہُ کَادُوا یَکُونُونَ عَلَیْہِ لِبَدًا۔ (مسند احمد: ۲۴۳۱)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ ارشادِ باری تعالی ہے:{وَّاَنَّہ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰہِ یَدْعُوْہُ کَادُوْا یَکُوْنُوْنَ عَلَیْہِ لِبَدًا۔}… اور یہ کہ بلاشبہ بات یہ ہے کہ جب اللہ کا بندہ کھڑا ہوا، اسے پکارتا تھا تو وہ قریب تھے کہ اس پر تہ بہ تہ جمع ہو جائیں۔ جب جنوں نے دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے صحابہ کرام کو نماز پڑھاتے ہیں، وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نماز کے ساتھ مل کر نماز پڑھتے ہیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے رکوع کے ساتھ رکوع کرتے ہیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سجدہ کے ساتھ سجدہ کرتے ہیں،جب انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے صحابہ کی اطاعت شعاریاں دیکھیں تو وہ حیران رہ گئے اور اپنی قوم کے پاس جا کر کہا: جب وہ اللہ کے بندے (یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) اللہ تعالی کی عبادت کے لیے کھڑے ہوئے تو قریب تھا کہ وہ بھیڑ کی بھیڑ بن کر اس پر پل پڑیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8812

۔ (۸۸۱۲)۔ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَۃَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ یَقُولُ: أَ خْبَرَنِی جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ أَ نَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((ثُمَّ فَتَرَ الْوَحْیُ عَنِّی فَتْرَۃً فَبَیْنَا أَ نَا أَمْشِی سَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ السَّمَائِ، فَرَفَعْتُ بَصَرِی قِبَلَ السَّمَائِ، فَإِذَا الْمَلَکُ الَّذِی جَائَ نِی بِحِرَائٍ، الْآنَ قَاعِدٌ عَلَی کُرْسِیٍّ بَیْنَ السَّمَائِ وَالْأَ رْضِ، فَجُئِثْتُ مِنْہُ فَرَقًا حَتَّی ہَوَیْتُ إِلَی الْأَ رْضِ، فَجِئْتُ أَ ہْلِی فَقُلْتُ: زَمِّلُونِی زَمِّلُونِی زَمِّلُونِی فَزَمَّلُونِی، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {یَا أَ یُّہَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَ نْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ}۔)) [المدثر: ۱۔۵] قَالَ أَ بُو سَلَمَۃَ: الرُّجْزُ الْأَ وْثَانُ ثُمَّ حَمِیَ الْوَحْیُ بَعْدُ وَتَتَابَعَ۔ (مسند احمد: ۱۴۵۳۷)
۔ (دوسری سند)سیدنا جابر بن عبدا للہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر وحی رک گئی، پس ایک دن میں چل رہا تھا کہ میں نے آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی،جب میں نے نگاہ اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس غار حراء میں آیا تھا، اب وہی آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے، میں اس کے خوف سے کپکپانے لگا، یہاں تک کہ میں زمین کی طرف جھکا، پھر میں اپنے گھر والوں کے پاس آیا اور کہا: مجھے کمبل اوڑھاؤ، مجھے کمبل اوڑھاؤ، مجھے کمبل اوڑھا دو۔ پس انہوں نے مجھے چادر اوڑھا دی، پس اللہ تعالی نے آیات نازل کیں: {یَا أَ یُّھَا الْمُدَّثِّرْ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ وَثَیَابَکَ فَطَھِّرْ وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ} … اے کمبل اوڑھنے والے، کھڑا ہو جا، پس ڈرا اور اپنے ربّ کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑوں کو پاک کر اور پلیدی کو چھوڑ دے۔ ابو سلمہ نے کہا: پلیدی سے مراد بت ہیں، اس کے بعد وحی پے در پے اور کثرت سے نازل ہونے لگی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8813

۔ (۸۸۱۳)۔ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ اَبِیْ بَزَّۃَ فِیْ قَوْلِہٖتَبَارَکَوَتَعَالٰی: {وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرْ} [المدثر: ۶] قَالَ: لَا تُعْطِ شَیْئًا تَطْلُبُ اَکْثَرَمِنْہٗ۔ (مسنداحمد: ۲۰۵۴۸)
۔ قاسم بن ابی بزہ کہتے ہیں: ارشادِ باری تعالی ہے: {وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرْ} … اور ( اس نیت سے) احسان نہ کر کہ زیادہ حاصل کرے۔ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اس طرح نہ ہو کہ تو کوئی چیز دے، اور پھر اس سے زیادہ طلب کر رہا ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8814

۔ (۸۸۱۴)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِہِ: {فَإِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُورِ} [المدثر: ۸] قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کَیْفَ أَ نْعَمُ وَصَاحِبُ الْقَرْنِ قَدِ الْتَقَمَ الْقَرْنَ، وَحَنٰی جَبْہَتَہُ یَسَّمَّعُ مَتٰییُؤْمَرُ فَیَنْفُخُ۔)) فَقَالَ أَ صْحَابُ مُحَمَّدٍ: کَیْفَ نَقُولُ؟ قَالَ: ((قُوْلُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا۔)) (مسند احمد: ۳۰۰۸)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ {فَإِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُورِ} … پس جب کہ صور میں پھونک ماری جائے گی۔ اس کے بارے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں کیسے نازو نعمت سے رہوں جبکہ صور والا فرشتہ صور کو منہ میں لے کر اپنی پیشانی کو جھکا کر کھڑا ہو چکا ہے، یہ سننے کے لیے کہ کب اس کو صور میں پھونکنے کا حکم ملتا ہے، پس وہ صور پھونک دے۔ صحابۂ کرام نے کہا: اب ہم کون سا ذکر کریں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کہو: حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا … (ہمیں اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ اچھا کار ساز ہے، ہم نے اللہ پر توکل کیا۔)
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8815

۔ (۸۸۱۵)۔ عَنْ أَ نَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: قَرَأَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہٰذِہِ الْآیَۃَ: {أَ ہْلُ التَّقْوٰی وَأَ ہْلُ الْمَغْفِرَۃِ} [المدثر: ۵۶] قَالَ: ((قَالَ رَبُّکُمْ: أَ نَا أَ ہْلُ أَ نْ أُتَّقٰی، فَلَا یُجْعَلْ مَعِی إِلَہٌ، فَمَنِ اتَّقٰی أَ نْیَجْعَلَ مَعِی إِلَہًا کَانَ أَ ہْلًا أَ نْ أَ غْفِرَ لَہُ۔)) (مسند احمد: ۱۲۴۶۹)
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی:{أَ ہْلُ التَّقْوٰی وَأَ ہْلُ الْمَغْفِرَۃِ} … وہ اس لائق ہے کہ اس سے ڈرا جائے اور اس لائق بھی کہ وہ بخش دے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی فرماتے ہیں: میں اس لائق ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے، پس میرے ساتھ کوئی معبود نہ بنایا جائے اور جو میرے ساتھ معبود بنانے سے ڈر گیا تو میں اس لائق ہوں کہ اس کو بخش دوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8816

۔ (۸۸۱۶)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِہِ: { لَا تُحَرِّکْ بِہِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہِ} [القیامۃ: ۱۶] قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُعَالِجُ مِنْ التَّنْزِیلِ شِدَّۃً فَکَانَ یُحَرِّکُ شَفَتَیْہِ، قَالَ: فَقَالَ لِی ابْنُ عَبَّاسٍ: أَ نَا أُحَرِّکُ شَفَتَیَّ کَمَا کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُحَرِّکُ، وَقَالَ لِی سَعِیدٌ: أَنَا أُحَرِّکُ کَمَا رَأَ یْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ یُحَرِّکُ شَفَتَیْہِ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {لَا تُحَرِّکْ بِہِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہِ إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَقُرْآنَہُ} قَالَ: جَمْعَہُ فِی صَدْرِکَ ثُمَّ نَقْرَؤُہُ {فَإِذَا قَرَأْنَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہُ} فَاسْتَمِعْ لَہُ وَأَ نْصِتْ {ثُمَّ إِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہُ} فَکَانَ بَعْدَ ذٰلِکَ إِذَا انْطَلَقَ جِبْرِیلُ قَرَأَ ہُ کَمَا أَ قْرَأَ ہُ۔ (مسند احمد: ۳۱۹۱)
۔ سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے: ارشادِ باری تعالی ہے: { لَا تُحَرِّکْ بِہِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہِ}… (اے نبی) آپ قرآن کو جلدییاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔ قرآن اترتے وقت نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سخت محنت اٹھاتے تھے، منجملہ ان کے ایکیہ تھا کہ آپ اپنے دونوں ہونٹ ہلاتے تھے، سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: میں ہونٹوں کو اس طرح ہلاتا ہوں، جس طرح آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہلاتے تھے، سعید نے کہا: میں بھی اپنے ہونٹوں کو ایسے ہلاتا ہوں، جس طرح سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ہلاتے تھے، پھر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کر دی: {لَا تُحَرِّکْ بِہِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہِ إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَقُرْآنَہُ}… (اے نبی) آپ قرآن کو جلدییاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں، اس کا جمع کرنا اور آپ کی زبان سے پڑھنا ہمارے ذمہ ہے۔ یعنی قرآن کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سینۂ مبارک میں جمع کرنا اور آپ کا اس کو پڑھنا، {فَإِذَا قَرَأْنَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہُ} … ہم جب اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں۔ پس تو سنا کر اور خاموش رہا کر، { ثُمَّ إِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہُ} … پھر اس کا واضح کردینا ہمارے ذمہ ہے۔ پھر جب جبرائیل علیہ السلام چلے جاتے، تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس وحی کو اسی طرح پڑھ لیتے، جیسے جبرائیل نے پڑھی ہوتی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8816

۔ (۸۸۱۶م)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: کَانَ اِذَا نَزَلَ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُرْآنٌ یُرِیْدُ أَ نْ یَحْفَظَہٗ، قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: { لَا تُحَرِّکْ بِہِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہِ إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَقُرْآنَہُ فَاِذَا قَرَاْنَاہٗ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہٗ} [القیامۃ: ۱۶]۔ (مسند احمد: ۱۹۹۱۰)
۔ (دوسری سند) سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر قرآن نازل ہوتاآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کو یاد کرتے (اور اس نیت سے (اپنی زبان کو جلدی جلدی ساتھ حرکت دیتے)، پس اللہ تعالی نے فرمایا: {لَا تُحَرِّکْ بِہِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہِ إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَقُرْآنَہُ۔ فَإِذَا قَرَأْنَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہُ۔}… (اے نبی) آپ قرآن کو جلدییاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں، اس کا جمع کرنا اور آپ کی زبان سے پڑھنا ہمارے ذمہ ہے۔ ہم جب اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8817

۔ (۸۸۱۷)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَارٍ فَنَزَلَتْ عَلَیْہِ: {وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا} فَأَ خَذْتُہَا مِنْ فِیہِ وَإِنَّ فَاہُ لَرَطْبٌ بِہَا فَلَا أَ دْرِی بِأَ یِّہَا خَتَمَ: {فَبِأَ یِّ حَدِیثٍ بَعْدَہُ یُؤْمِنُونَ} أَ وْ {وَاِذَا قِیلَ لَہُمْ ارْکَعُوْا لَا یَرْکَعُونَ} سَبَقَتْنَا حَیَّۃٌ فَدَخَلَتْ فِی جُحْرٍ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((قَدْ وُقِیتُمْ شَرَّہَا وَوُقِیَتْ شَرَّکُمْ۔)) (مسند احمد: ۳۵۷۴)
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ غار حراء میں تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر سورۂ مرسلات نازل ہوئی، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منہ مبارک سے یہ سورت حاصل کیا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا دہن مبارک اس کے ذریعے تر تھا،مجھے یہ معلوم نہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آیت {فَبِأَ یِّ حَدِیثٍ بَعْدَہُ یُؤْمِنُونَ} کے ساتھ اس سورت کو ختم کیایا اس {وَاِذَا قِیلَ لَہُمْ ارْکَعُوْا لَا یَرْکَعُونَ} کے ساتھ۔ اتنے میں ایک سانپ ظاہر ہوا اور کسی بل میں داخل ہو گیا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہیں اس کے شر سے محفوظ رکھا گیا اور اس کو تمہارے شر سے بچا لیا گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8818

۔ (۸۸۱۸)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ نَزَلَتْ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم {وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا} لَیْلَۃَ الْحَیَّۃِ، قَالَ: فَقُلْنَا لَہُ: وَمَا لَیْلَۃُ الْحَیَّۃِ؟یَا أَ بَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ!، قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِحِرَائٍ لَیْلًا خَرَجَتْ عَلَیْنَا حَیَّۃٌ مِنَ الْجَبَلِ، فَأَ مَرَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِقَتْلِہَا فَطَلَبْنَاہَا فَأَعْجَزَتْنَا، فَقَالَ: ((دَعُوہَا عَنْکُمْ، فَقَدْ وَقَاہَا اللّٰہُ شَرَّکُمْ، کَمَا وَقَاکُمْ شَرَّہَا۔)) (مسند احمد: ۴۳۷۷)
۔ (دوسری سند) سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر سورۂ مرسلات سانپ والی رات کو نازل ہوئی تھی، ہم نے کہا:اے ابوعبد الرحمن! سانپ والی رات سے کیا مراد ہے؟ انھوں نے کہا: ہم ایک دفعہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ غار حراء میں تھے،پہاڑ سے ایک سانپ نکل پڑا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں اس کو قتل کرنے کا حکم دیا، ہم اس کے پیچھے لگے، لیکن اس نے ہمیںعاجز کر دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا: اب اسے چھوڑ دو، اللہ نے اس کو تمہارے شرسے بچا لیا اور تمہیں اس کے شر سے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8819

۔ (۸۸۱۹)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ اَنَّہُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((مَنْ سَرَّہُ أَ نْ یَنْظُرَ إِلٰییَوْمِ الْقِیَامَۃِ کَأَ نَّہُ رَأْیُ عَیْنٍ فَلْیَقْرَأْ: {إِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ} وَ {إِذَا السَّمَائُ انْفَطَرَتْ} وَ {إِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ} وَأَحْسَبُہُ أَ نَّہُ قَالَ: سُورَۃَ ہُودٍ۔ (مسند احمد: ۴۸۰۶)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جسے یہ بات خوش کرے کہ وہ روز قیامت کو اس طرح دیکھے، جیسا کہ آنکھوں سے دیکھ رہاہے، تو وہ سورۂ تکویر، سورۂ انفطار اور سورۂ انشقاق کی تلاوت کرے۔ راوی کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سورۂ ہود کا ذکر بھی کیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8820

۔ (۸۸۲۰)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَرَاَ ھٰذِہِ الْآیَۃَ: {یَوْمَیَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ} [المطففین: ۶] قَالَ: ((یَقُوْمُوْنَ حَتّٰییَبْلُغَ الرَّشْحُ آذَانَہُمْ۔)) (مسند احمد: ۵۳۸۸)
۔ سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت پڑھی: {یَوْمَیَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ} … جس دن لوگ جہانوں کے رب کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ پھر فرمایا: لوگ اس حال میں کھڑے ہوں گے پسینہ ان کے کانوں تک پہنچا ہوا ہوگا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8821

۔ (۸۸۲۱)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (({یَوْمَیَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ} [المطففین: ۶] {فِیْیَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ} [المعارج: ۴] فِی الرَّشْحِِ اِلٰی اَنْصَافِ آذَانِہِمْ۔)) (مسند احمد: ۵۹۱۲)
۔ (دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: {یَوْمَیَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالِمِیْنَ} … جس دن لوگ جہانوں کے رب کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ اور {تَعْرُجُ الْمَلٰئِکَۃُ وَالرُّوْحُ اِلَیْہِ فِیْیَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَـنَۃٍ۔} … فرشتے اور روح اس کی طرف چڑھتے ہیں، ( وہ عذاب ) ایک ایسے دن میں (ہوگا) جس کا اندازہ پچاس ہزار سال ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگ اس حال میں کھڑے ہوں گے کہ ان کا پسینہ نصف کان تک پہنچ جائے گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8822

۔ (۸۸۲۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ حُوسِبَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عُذِّبَ))، قَالَتْ: فَقُلْتُ: أَ لَیْسَ، قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَسِیرًا} [الانشقاق: ۸] قَالَ: ((لَیْسَ ذٰلِکَ بِالْحِسَابِ وَلٰکِنَّ ذلِکَ الْعَرْضُ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عُذِّبَ۔)) (مسند احمد: ۲۴۷۰۴)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: روز قیامت جس کا بھی حساب لیا گیا، اس کو عذاب دیا جائے گا۔ میں (عائشہ) نے کہا: کیا اللہ تعالی نے نہیں فرمایا کہ {فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَسِیرًا} … عنقریب اس کا حساب آسان لیا جائے گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس سے مراد حساب نہیں ہے، یہ تو صرف اعمال کی پیشی ہے، روزقیامت جس کا حساب لیا گیا، اس کو عذاب ہو کر رہے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8823

۔ (۸۸۲۳)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ فِیْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ: {وَشَاھِدٍ وَّ مَشْہُوْدٍ} [البروج: ۳] قَالَ: یَعْنِیْ لِلشَّاھِدِ یَوْمَ عَرَفَۃَ وَالْمَوْعُوْدِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند احمد: ۷۹۵۹)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آیت {وَشَاھِدٍ وَّ مَشْہُوْدٍ} کے میں فرمایا: شاہد سے مراد عرفہ کادن ہے اور موعود سے مراد قیامت کا دن ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8824

۔ (۸۸۲۴)۔ (وَبِالسَّنَدِ الْمُتَقَدِّمِ)۔ عَنْ یُوْنُسَ قَالَ: سَمِعْتُ عَمَّارًا مَوْلٰی بَنِیْ ھَاشِمٍ یُحَدِّثُ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّہٗقَالَفِیْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ: {وَشَاھِدٍ وَّ مَشْہُوْدٍ} قَالَ: الشَّاھِدُ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ، وَالْمَشْہُوْدُ یَوْمُ عَرَفَۃَ، وَالْمَوْعُوْدُ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ۔ (مسند احمد: ۷۹۶۰)
۔ (دوسری سند) سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: {وَالْیَوْمِ الْمَوْعُوْ دِ۔ وَشَاھِدٍ وَّ مَشْہُوْدٍ۔} میں شاہد سے مراد جمعہ کا دن، مشہود سے مراد عرفہ کا دن اور موعود نے مراد قیامت کا دن ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8825

۔ (۸۸۲۵)۔ عَنْ عَلِیٍٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُحِبُّ ھٰذِہِ السُّوْرَۃَ {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی}۔ (مسند احمد: ۷۴۲)
۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سورۂ اعلیٰ سے محبت فرماتے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8826

۔ (۸۸۲۶)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ اِذَا قَرَاَ {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی} [الأعلی:۱] قَالَ: ((سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی۔)) (مسند احمد: ۲۰۶۶)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی} پڑھتے تو کہتے: سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8827

۔ (۸۸۲۷)۔ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرِ نِ الْجُہَنِیِّ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ} [الواقعۃ: ۷۴] قَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اجْعَلُوْھَا فِیْ رُکُوْعِکُمْ)، لَمَّا نَزَلَتْ: {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی} [الأعلی: ۱] قَالَ: ((اجْعَلُوْھَا فِیْ سُجُوْدِکُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۷۵۴۹)
۔ سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: {فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ}… اپنے ربّ عظیم کے نام کی تسبیح بیان کرو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ اس کے مضمون کو اپنے رکوع میں پڑھنے کے لئے مقرر کر لو۔ اور جب یہ آیت اتری {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی}… اپنے بلند و بالا رب کے نام کی تسبیح بیان کرو۔ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے مضمون کو اپنے سجدوں کے لیے مقرر کر لو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8828

۔ (۸۸۲۸)۔ عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ الْعَشْرَ عَشْرُ الْاْضَحٰی، وَالْوِتْرَ یَوْمُ عَرَفَۃَ، وَالشَّفْعَ یَوْمُ النَّحْرِ۔)) (مسند احمد: ۱۴۵۶۵)
۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دس راتوں سے مراد عید الاضحی کے مہینے کی پہلی دس راتیں ہیں، وتر سے مراد عرفات کے میدان کا دن ہے اور شفع سے ذبح کا دن مراد ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8829

۔ (۸۸۲۹)۔ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سُئِلَ عَنِ الشَّفْعِ وَالْوَتْرِ، فَقَالَ: ((ھِیَ الصَّلَاۃُ بَعْضُہَا شَفْعٌ وَبَعْضُہَا وَتْرٌ۔)) (مسند احمد: ۲۰۱۶۱)
۔ سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے شفع اور وتر کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس سے مراد نماز ہے، بعض نمازیں جفت اور بعض نمازطاق ہوتی ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8830

۔ (۸۸۳۰)۔ عَنْ أَ بِی قِلَابَۃَ عَمَّنْ سَمِعَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقْرَأُ: {فَیَوْمَئِذٍ لَا یُعَذِّبُ عَذَابَہُ أَحَدٌ وَلَا یُوثِقُ وَثَاقَہُ أَ حَدٌ} [الفجر: ۲۵۔۲۶] یَعْنِییُفْعَلُ بِہِ، قَالَ خَالِدٌ: وَسَأَلْتُ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ أَ بِی بَکْرَۃَ قَالَ: {فَیَوْمَئِذٍ لَا یُعَذِّبُ} أَ یْیُفْعَلُ بِہِ۔ (مسند احمد: ۲۰۹۶۷)
۔ ایک صحابی ٔ رسول سے مروی ہے، جس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ پڑھتے ہوئے سنا: {فَیَوْمَئِذٍ لَا یُعَذِّبُ عَذَابَہُ أَحَدٌ۔ وَلَایُوثِقُ وَثَاقَہُ أَحَدٌ۔}… پس اس دن اس کے عذاب جیسا عذاب کوئی نہیں کرے گا، اور نہ اس کے باندھنے جیسا کوئی باندھے گا۔ یعنی اس بندے کے ساتھ ایسے کیا جائے گا، خالد کہتے ہیں: میں نے عبد الرحمن بن ابی بکر سے کہا: {فَیَوْمَئِذٍ لَا یُعَذِّبُ} کا کیامعنی؟ انھوں نے کہا: یعنی اس کے ساتھ کیا جائے گا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8831

۔ (۸۸۳۱)۔ عَنِ الْأَ سْوَدِ بْنِ قَیْسٍ قَالَ: سَمِعْتُ جُنْدُبَ بْنَ سُفْیَانَیَقُولُ: اشْتَکٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمْ یَقُمْ لَیْلَتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا فَجَائَتْہُ امْرَأَ ۃٌ فَقَالَتْ: یَا مُحَمَّدُ! لَمْ أَ رَہُ قَرَبَکَ مُنْذُ لَیْلَتَیْنِ أَ وْ ثَلَاثٍ، (وَفِیْ لَفْظٍ: فَقَالَتْ: یَا مُحَمَّدُ! مَا اَرٰی شَیْطَانَکَ اِلَّا قَدْ تَرَکَکَ، وَفِیْ لَفْظٍ: مَا اَرٰی صَاحِبَکَ اِلَّا قَدْ اَبْطَاَ عَلَیْکَ) فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَالضُّحٰی وَاللَّیْلِ إِذَا سَجٰی مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلَی} [الضحی: ۱۔۳] ۔ (مسند احمد: ۱۹۰۰۸)
۔ سیدنا جندب بن سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیمار پڑ گئے اور دو یا تین راتیں قیام نہ کر سکے، ایک عورت آئی اور اس نے کہا: اے محمد! میں دیکھتی ہوں کہ تم نے دو تین دن سے قیام نہیں کیا، میرا خیال ہے کہ تمہارا شیطان تجھے چھوڑ گیا ہے، پس اللہ تعالی نے یہ آیات نازل کیں: {وَالضُّحٰی وَاللَّیْلِ إِذَا سَجٰی مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰی} … قسم ہے چاشت کے وقت کی۔ اور قسم ہے رات کی، جب چھا جائے، نہ تو تیرے ربّ نے تجھے چھوڑا ہے اور نہ وہ بیزار ہوا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8832

۔ (۸۸۳۲)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جَائَ أَبُوجَہْلٍ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یُصَلِّی، فَنَہَاہُ فَتَہَدَّدَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: أَ تُہَدِّدُنِی أَ مَا وَاللّٰہِ إِنِّی لَأَ کْثَرُ أَ ہْلِ الْوَادِی نَادِیًا، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ: {أَ رَأَ یْتَالَّذِییَنْہٰی عَبْدًا إِذَا صَلّٰی أَ رَأَ یْتَ إِنْ کَانَ عَلَی الْہُدٰی أَ وْ أَ مَرَ بِالتَّقْوٰی أَرَأَ یْتَ إِنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی} [العلق: ۹۔۱۳] قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ دَعَا نَادِیَہُ لَأَ خَذَتْہُ الزَّبَانِیَۃُ۔ (مسند احمد: ۳۰۴۴)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ ابو جہل، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز پڑھ رہے تھے۔ اس نے اس سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو روکا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے دھمکایا، وہ کہنے لگا: مجھے دھمکاتے ہو، اللہ کی قسم! اس وادی میں مجھ سے بڑھ کر کوئی بھی مجلس والا نہیں ہے، پس اللہ تعالی نے یہ آیات نازل کیں: {أَ رَأَ یْتَ الَّذِییَنْہٰی عَبْدًا إِذَا صَلّٰی أَ رَأَ یْتَ إِنْ کَانَ عَلَی الْہُدٰی أَ وْ أَ مَرَ بِالتَّقْوٰی أَرَأَ یْتَ إِنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی}… کیا تو نے دیکھا ہے وہ شخص، جو بندے کو اس وقت منع کرتا ہے، جب وہ نماز پڑھتا ہے، کیا تو نے دیکھا ہے کہ اگروہ ہدایت پر ہو اور تقوٰی کا حکم دے، کیا تو نے دیکھا ہے اگر اس نے تکذیب کی اور منہ پھیر لیا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کہتے ہیں: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر وہ اپنی مجلس کو بلاتا تو جہنم کے طاقت ور فرشتے اس کو پکڑ لیتے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8833

۔ (۸۸۳۳)۔ عَنْ أَ بِیْ حَازِمٍ عَنْ أَ بِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ أَ بُوْجَھْلٍ: ھَلْ یُعَفِّرُ مُحَمَّدٌ وَجْھَہُ بَیْنَ أَ ظْھُرِکُمْ؟ قَالَ: فَقِیْلَ: نَعَمْ، قَالَ: وَاللَّاتِ وَالْعُزّٰییَمِیْنًایَحْلِفُ بِھَا لَئِنْ رَأَیْتُہُیَفْعَلُ ذٰلِکَ لَأَ طَأَ نَّ عَلَی رَقَبَتِہِ أَ وْ لَاُعَفِّرَنَّ وَجْھَہُ فِی التُّرَابِ، قَالَ: فَاَتٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ یُصَلِّیْ زَعَمَ لَیَطَأُ عَلٰی رَقَبَتِہِ، قَالَ: فَمَا فَجَأَ ھُمْ مِنْہُ اِلَّا وَھُوَ یَنْکُصُ عَلَی عَقِبَیْہِ وَیَتَّقِیْ بِیَدَیْہِ، قَالَ: قَالُوْا لَہُ: مَا لَکَ؟ قَالَ: اِنَّ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُ لَخَنْدَقًا مِنْ نَارٍ وَھَوْلًا وَأَ جْنِحَۃً، قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَوْ دَنَا مِنِّیْ لَخَطَفَتْہُ الْمَلَائِکَۃُ عُضْوًا عُضْوًا۔)) قَالَ فَأُنْزِلَ لَا أَ دْرِی فِی حَدِیثِ أَ بِی ہُرَیْرَۃَ أَوْ شَیْئٌ بَلَغَہُ {إِنَّ الْإِنْسَانَ لَیَطْغٰی أَ نَّ رَآہُ اسْتَغْنٰی} {أَرَأَ یْتَ الَّذِییَنْہٰی عَبْدًا إِذَا صَلّٰی أَ رَأَ یْتَ إِنْ کَانَ عَلَی الْہُدٰی أَ وْ أَ مَرَ بِالتَّقْوٰی أَرَأَ یْتَ إِنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی} یَعْنِی أَ بَا جَہْلٍ {أَ لَمْ یَعْلَمْ بِأَ نَّ اللّٰہَ یَرٰی کَلَّا لَئِنْ لَمْ یَنْتَہِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِیَۃِ نَاصِیَۃٍ کَاذِبَۃٍ خَاطِئَۃٍ فَلْیَدْعُ نَادِیَہُ} قَالَ یَدْعُو قَوْمَہُ {سَنَدْعُ الزَّبَانِیَۃَ} قَالَ یَعْنِی الْمَلَائِکَۃَ {کَلَّا لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ}(مسند احمد: ۸۸۱۷)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ابوجہل نے کہا: کیا تمہارے مابین محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) سجدہ کرتا ہے؟ کسی نے کہا: ہاں، اس نے کہا: لات اور عزی کی قسم! اب اگر میں نے اس کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا تو اس کی گردن روند دوں گا یا اس کے چہرے کو مٹی میں لت پت کر دوں گا، پس اُدھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز پڑھنے کے لیے تشریف لے آئے، اِدھر سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی گردن کو روندنے کے لیے ابوجہل بھی چل پڑا، لیکن اچانک اس نے ایڑھیوںکے بل ہٹنا شروع کر دیا اور اپنے ہاتھوں کے ذریعے اپنا بچاؤ کر رہا تھا، لوگوں نے اس سے پوچھا: تجھے کیا ہو گیا ہے؟ اس نے کہا: میرے اور آپ ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے درمیان آگ کی ایک خندق اور ہولناکی اور پَر تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کے ایک ایک عضو کو اچک لیتے۔ پس اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیات نازل کیں: سچ مچ انسان تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ بھلا تو نے اسے بھی دیکھا جو بندے کو روکتا ہے، جبکہ وہ نماز ادا کرتا ہے، بھلا بتلا تو اگر وہ ہدایت پر ہو، یا پرہیز گاری کا حکم دیتا ہو، بھلا دیکھو تو اگر یہ جھٹلاتا ہو اور منہ پھیرتا ہو تو۔ اس سے ابو جہل مراد ہے، ارشادِ باری تعالی ہے: کیا اس نے نہیں جانا کہ اللہ تعالی اسے خوب دیکھ رہا ہے، یقینا اگر یہ باز نہ رہا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے، ایسی پیشانی جو جھوٹی خطاکار ہے، یہ اپنی مجلس والوں کو بلالے۔ یعنی وہ اپنی قوم کو بلائے، ہم بھی دوزخ کے طاقتور فرشتوں کو بلا لیں گے۔ خبردار! اس کا کہنا نہ مان اور سجدہ کر اور قریب ہو جا۔ راوی کہتا ہے: مجھے یہ علم نہ ہو سکا کہ ان آیات کا ذکر سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث میں تھا، یا کسی اور سند سے اس کاان کو علم ہوا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8834

۔ (۸۸۳۴)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِاُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ: ((اِنَّ اللّٰہَ اَمَرَنِیْ اَنْ اَقْرَاَ عَلَیْکَ {لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا} [البینۃ: ۱]۔)) قَالَ: وَسَمَّانِی لَکَ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) فَبَکٰی۔ (مسند احمد: ۱۳۹۲۱)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تجھ پر سورۂ بینہ کی تلاوت کروں۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اللہ تعالی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے میرا نام لیاہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں۔ یہ سن کر سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ (خوشی سے) رونے لگے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8835

۔ (۸۸۳۵)۔ عَنْ أَ بِی حَبَّۃَ الْبَدْرِیِّ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ لَمْ یَکُنْ، قَالَ جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَام: یَا مُحَمَّدُ! إِنَّ رَبَّکَ یَأْمُرُکَ أَ نْ تُقْرِئَ ہٰذِہِ السُّورَۃَ أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَا أُبَیَّا! إِنَّ رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ أَ مَرَنِی أَ نْ أُقْرِئَکَ ہٰذِہِ السُّورَۃَ۔))، فَبَکٰی وَقَالَ: ذُکِرْتُ ثَمَّۃَ؟ قَالَ: ((نَعَمُُُُْ۔)) (مسند احمد: ۱۶۰۹۶)
۔ سیدنا ابو حبہ بدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: جب سورۂ بینہ نازل ہوئی تو جبریل علیہ السلام نے کہا: اے محمد! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے رب نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو حکم دیا ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ سورت پڑھائیں۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابی! میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے، میں فلاں سورت کی تجھ کو تعلیم دوں۔ پس سیدنا ابی رو پڑے اور کہا: کیا وہاں میرا تذکرہ ہوا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8836

۔ (۸۸۳۶)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (({قُلْ یَا اَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ} رُبْعُ الْقُرْاٰنِ، {وَاِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ} رُبْعُ الْقُرْآنِ، وَ{اِذَا جَائَ نَصْرُ اللّٰہِ} رُبْعُ الْقُرْآنِ۔)) (مسند احمد: ۱۲۵۱۶)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سورہ کافرون قرآن مجید کا چوتھائی حصہ ہے، سورۂ زلزال بھی قرآن مجید کا ایک چوتھائی ہے اور سورہ ٔ نصر بھی ایک چوتھائی قرآن کے برابر ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8837

۔ (۸۸۳۷)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: أَتَی رَجُلٌ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: أَ قْرِئْنِییَا رَسُولَ اللّٰہِ!، قَالَ لَہُ: اقْرَأْ ثَلَاثًا مِنْ ذَاتِ {الر}، فَقَالَ الرَّجُلُ: کَبِرَتْ سِنِّی وَاشْتَدَّ قَلْبِی وَغَلُظَ لِسَانِی، قَالَ: فَاقْرَأْ مِنْ ذَاتِ {حم}، فَقَالَ: مِثْلَ مَقَالَتِہِ الْأُولٰی، فَقَالَ: اقْرَأْ ثَلَاثًا مِنْ الْمُسَبِّحَاتِ، فَقَالَ: مِثْلَ مَقَالَتِہِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: وَلٰکِنْ أَ قْرِئْنِییَا رَسُولَ اللّٰہِ سُورَۃً جَامِعَۃً، فَأَ قْرَأَ ہُ {إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَ رْضُ} حَتّٰی إِذَا فَرَغَ مِنْہَا، قَالَ الرَّجُلُ: وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَا أَ زِیدُ عَلَیْہَا أَ بَدًا، ثُمَّ أَ دْبَرَ الرَّجُلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَ فْلَحَ الرُّوَیْجِلُ أَ فْلَحَ الرُّوَیْجِلُ۔))، ثُمَّ قَالَ: ((عَلَیَّ بِہِ۔)) فَجَائَہُ فَقَالَ لَہُ: أُمِرْتُ بِیَوْمِ الْأَ ضْحٰی جَعَلَہُ اللّٰہُ عِیدًا لِہٰذِہِ الْأُمَّۃِ۔)) فَقَالَ الرَّجُلُ: أَ رَأَ یْتَ إِنْ لَمْ أَ جِدْ إِلَّا مَنِیحَۃَ ابْنِی أَ فَأُضَحِّی بِہَا؟ قَالَ: ((لَا، وَلٰکِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِکَ وَتُقَلِّمُ أَ ظْفَارَکَ وَتَقُصُّ شَارِبَکَ وَتَحْلِقُ عَانَتَکَ فَذٰلِکَ تَمَامُ أُضْحِیَتِکَ عِنْدَ اللّٰہِ۔)) (مسند احمد: ۶۵۷۵)
۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے قرآن مجید کی تعلیم دیجئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: الٓر والی سورتوں میں سے تین سورتیں پڑھ لو۔ اس آدمی نے کہا: میری عمر بڑی ہو چکی ہے دل سخت ہو چکا ہے، زبان موٹی ہے،( اس لیے مقدار تھوڑی کریں)،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چلو پھر حمٓ والی سورتیں پڑھ لو۔ لیکن اس نے پہلے والا جواب دیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مسبحات سورتیں پڑھ لو۔ اس نے کہ: اے اللہ کے رسول! کوئی ایک جامع سورت پڑھائیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے {إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَ رْضُ} والی سورت پڑھی،یہاں تک کہ اس سے فارغ ہو گئے، اب کی بار اس آدمی نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو حق دے کربھیجا ہے، میں اس میں اضافہ نہ کروں گا، پھر وہ آدمی منہ پھیر کر چلا گیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ آدمی کامیاب ہوا، یہ آدمی کامیاب ہوا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے میرے پاس لے آئو، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے یومِ اضحی کا حکم دیا گیا ہے، اللہ تعالی نے اس دن کو اس امت کے لیے عید بنایا ہے۔ اس آدمی نے کہا: اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر میرے پاس صرف اپنے بیٹے کی ایک بکری ہو تو اس کی قربانی کر دوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم (قربانی والے دن) اپنے بالوں کو کاٹو، ناخنوں کو تراشو، مونچھوں کو کاٹو اور زیر ناف بال مونڈو، یہ عمل اللہ تعالی کے ہاں تمہاری پوری قربانی ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8838

۔ (۸۸۳۸)۔ عَنْ أَ بِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَرَأَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہٰذِہِ الْآیَۃَ: {یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَہَا} [الزلزال: ۴] قَالَ: ((أَ تَدْرُونَ مَا أَخْبَارُہَا؟۔)) قَالُوْا: اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَ عْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّ أَ خْبَارَہَا أَ نْ تَشْہَدَ عَلٰی کُلِّ عَبْدٍ وَأَ مَۃٍ بِمَا عَمِلَ عَلٰی ظَہْرِہَا أَ نْ تَقُولَ عَمِلْتَ عَلَیَّ کَذَا وَکَذَا یَوْمَ کَذَا وَکَذَا، قَالَ: فَہُوَ أَ خْبَارُہَا۔)) (مسند احمد: ۸۸۵۴)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت پڑھی: {یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَ خْبَارَہَا} … اس دن زمین اپنی خبریں بیان کرے گی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ اس کی خبریں کیا ہیں؟ لوگوں نے کہا: جی اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کی خبریںیہ ہیں کہ ہر مرد و زن نے اس پر جو عمل بھی کیا ہو گا، یہ بول کر اس پر گواہی دے گی اور کہے گی: تو نے میرے پشت پر فلاں فلاں دن یہیہ عمل کیا تھا، یہی اس کی خبریں ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8839

۔ (۸۸۳۹)۔ عَنْ صَعْصَعَۃَ بْنِ مُعَاوِیَۃَ عَمِّ الْفَرَزْدَقِ أَ نَّہُ أَ تَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَرَأَ عَلَیْہِ: {فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًایَرَہُ وَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہُ} [الزلزلۃ: ۷۔۸] قَالَ: حَسْبِی لَا أُبَالِیأَ نْ لَا أَ سْمَعَ غَیْرَہَا۔ (مسند احمد: ۲۰۸۶۹)
۔ سیدنا صعصعہ بن معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو فرزذق شاعرکے چچا ہیں، سے مروی ہے کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس پر یہ تلاوت کی: {فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًایَرَہُ وَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہُ} … جو ذرہ برابر بھلائی کا عمل کرے گا، وہ اسے دیکھ لے گا ارو جو ذرہ برابر برائی کرے گا، وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔ میں نے کہا: مجھے یہی آیت کافی ہے، اس کے علاوہ نہ سننے کی مجھے کوئی پرواہ نہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8840

۔ (۸۸۴۰)۔ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِیدٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ {أَ لْہَاکُمُ التَّکَاثُرُ فَقَرَأَ ہَا حَتّٰی بَلَغَ لَتُسْأَ لُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیمِ} [التکاثر] قَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! عَنْ أَ یِّ نَعِیمٍ نُسْأَ لُ، وَإِنَّمَا ہُمَا الْأَ سْوَدَانِ الْمَائُ وَالتَّمْرُ، وَسُیُوفُنَا عَلٰی رِقَابِنَا، وَالْعَدُوُّ حَاضِرٌ فَعَنْ أَ یِّ نَعِیمٍ نُسْأَ لُ؟ قَالَ: ((إِنَّ ذٰلِکَ سَیَکُونُ۔)) (مسند احمد: ۲۴۰۴۰)
۔ سیدنا محمود بن لبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں: {أَ لْہَاکُمُ التَّکَاثُرُ… …لَتُسْأَ لُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیمِ}لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم سے کون سی نعمتوں کے متعلق سوال ہوگا، بس پانی اور کھجور، یہ دو چیزیں تو ہماری خوراک ہے اور ہماری تلواریں ہماری گردنوں پر سجی ہوئی ہیں اور دشمن کا سامنا رہتا ہے،پس کس نعمت کے بارے میں سوال ہو گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عنقریبیہ نعمتیں ہو ںگی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8841

۔ (۸۸۴۱)۔ عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ قَالَ: وَلَمَّا نَزَلَتْ { ثُمَّ لَتُسْأَ لُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیمِ} [التکاثر: ۸] قَالَ الزُّبَیْرُ: أَ یْ رَسُولَ اللّٰہِ! أَیُّ نَعِیمٍ نُسْأَ لُ عَنْہُ وَإِنَّمَا ہُمَا الْأَ سْوَدَانِ الْمَائُ وَالتَّمْرُ؟ قَالَ: ((أَ مَا أِنَّ ذٰلِکَ سَیَکُونُ۔))(مسند احمد: ۱۴۰۵)
۔ سیدنا زبیر بن عوام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: { ثُمَّ لَتُسْأَ لُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیمِ}… پھر تم اس دن نعمتوں کے متعلق ضرور ضرور سوال کئے جائو گے۔ توسیدنا زبیر نے کہا :اے اللہ کے رسول! کونسی نعمتیں ہیں، جن کے متعلق ہم سے سوال ہوگا،اب تو ہمارے پاس صرف یہ دو کالے رنگ کی نعمتیں پانی اور کھجور ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! عنقریب وہ نعمتیں ہوں گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8842

۔ (۸۸۴۲)۔ عَنْ اَسْمَائَ بِنْتِ یَزِیْدَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: (({لِاِیْلَافِ قُُرَیْشٍ۔ اِیْلَافِہِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَائِ وَ الصَّیْفِ} وَیَحْکُمْیَا قُرَیْشُ! اعْبُدُوْا رَبَّ ھٰذَا الْبَیْتِ الَّذِیْ اَطْعَمَکُمْ مِنْ جُوْعٍ وَّآمَنَکُمْ مِنْ خَوْفٍ۔)) (مسند احمد: ۲۸۱۵۹)
۔ سیدہ اسماء بنت یزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیات پڑھیں: {لِاِیْلَافِ قُُرَیْشٍ۔ اِیْلَافِہِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَائِ وَ الصَّیْفِ} … قریش کو مانوس کرنے کی وجہ سے، یعنی انہیں جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کی وجہ سے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے قریش! بہت افسوس ہے تم پر، اپنے اس گھر کے رب کی عبادت کرو،جس نے تمہیں بھوک سے کھانا کھلایا اور خوف سے امن دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8843

۔ (۸۸۴۳)۔ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ قَالَ: قَالَ لِی مُحَارِبُ بْنُ دِثَارٍ: مَا سَمِعْتَ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍیَذْکُرُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی الْکَوْثَرِ، فَقُلْتُ: سَمِعْتُہُ یَقُولُ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ہٰذَا الْخَیْرُ الْکَثِیرُ، فَقَالَ مُحَارِبٌ: سُبْحَانَ اللّٰہِ مَا أَ قَلَّ مَا یَسْقُطُ لِابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلٌ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُولُ: لَمَّا أُنْزِلَتْ {إِنَّا أَ عْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ} قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ہُوَ نَہَرٌ فِی الْجَنَّۃِ حَافَتَاہُ مِنْ ذَہَبٍ، یَجْرِی عَلٰی جَنَادِلِ الدُّرِّ وَالْیَاقُوتِ، شَرَابُہُ أَ حْلٰی مِنَ الْعَسَلِ، وَأَ شَدُّ بَیَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، وَأَ بْرَدُ مِنْ الثَّلْجِ، وَأَ طْیَبُ مِنْ رِیحِ الْمِسْکِ۔)) قَالَ: صَدَقَ ابْنُ عَبَّاسٍ ھٰذَا وَاللّٰہِ الْخَیْرُ الْکَثِیْرُ۔ (مسند احمد: ۵۹۱۳)
۔ عطاء بن سائب کہتے ہیں: محارب بن دثار نے مجھ سے کہا: تم نے سعید بن جبیر سے کوثر کے بارے میں سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کی کوئی بات سنی ہے؟ انھوں نے کہا:جی انھوں نے کہا ہے کہ کوثر سے مراد خیر کثیر ہے، محارب نے کہا: سبحان اللہ ابن عباس کی بات معتبر ہی ہوتی ہے، میں نے سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو کہتے ہوئے سنا، انھوں نے کہا: جب {إِنَّا أَ عْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ}نازل ہوئی، تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ جنت میں ایک نہر ہے، اس کے کنارے سونے کے ہیں،یہ موتیوں اور یا قوت کی نالیوں میں بہتی ہے، اس کا پانی شہد سے زیادہ میٹھا اور دودھ سے زیادہ سفید اور برف سے زیادہ ٹھنڈا اور کستوری کی خوشبو سے زیادہ مہک والا ہے۔ سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے بالکل سچ کہا، اللہ کی قسم! یہ بہت زیادہ خیر اور بھلائی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8844

۔ (۸۸۴۴)۔ عَنْ أَ بِی عُبَیْدَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَۃَ: مَا الْکَوْثَرُ؟ قَالَتْ: نَہَرٌ أُعْطِیَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی بُطْنَانِ الْجَنَّۃِ، قَالَ: قُلْتُ: وَمَا بُطْنَانُ الْجَنَّۃِ، قَالَتْ: وَسَطُہَا حَافَّتَاہُ دُرَّۃٌ مُجَوَّفٌ۔ (مسند احمد: ۲۶۹۳۵)
۔ ابو عبیدہ بن عبداللہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: کوثر کیا چیز ہے؟ انھوں نے کہا: یہ ایک نہر ہے، جو جنت کے درمیانی حصے میں واقع ہے، یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دی گئی ہے، اس کے کناروں پر خول دار موتی ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8845

۔ (۸۸۴۵)۔ عَنْ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَ نَسَ بْنَ مَالِکٍ یَقُولُ: أَ غْفَی النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِغْفَائَۃً فَرَفَعَ رَأْسَہُ مُتَبَسِّمًا، إِمَّا قَالَ لَہُمْ وَإِمَّا قَالُوا لَہُ: لِمَ ضَحِکْتَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : إِنَّہُ أُنْزِلَتْ عَلَیَّ آنِفًا سُورَۃٌ، فَقَرَأَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ إِنَّا أَ عْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ} حَتّٰی خَتَمَہَا، قَالَ: ((ہَلْ تَدْرُونَ مَا الْکَوْثَرُ؟ قَالُوْا: اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَ عْلَمُ، قَالَ: ((ہُوَ نَہْرٌ أَ عْطَانِیہِ رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ فِی الْجَنَّۃِ، عَلَیْہِ خَیْرٌ کَثِیرٌ،یَرِدُ عَلَیْہِ أُمَّتِییَوْمَ الْقِیَامَۃِ، آنِیَتُہُ عَدَدُ الْکَوَاکِبِ، یُخْتَلَجُ الْعَبْدُ مِنْہُمْ، فَأَ قُولُ: یَا رَبِّ! إِنَّہُ مِنْ أُمَّتِی، فَیُقَالُ لِی: إِنَّکَ لَا تَدْرِی مَا أَ حْدَثُوْا بَعْدَکَ۔)) (مسند احمد: ۱۲۰۱۹)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اونگھ سی آئی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسکراتے ہوئے اپنا سر اٹھایا، لوگوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کیوں مسکرائے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابھی مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ إِنَّا أَ عْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ}کی تلاوت کی،یہاں تک کہ مکمل سورت پڑھی اور پھر فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ کوثرکیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ ایک نہر ہے، جو میرے رب نے مجھے جنت میں عطا کی ہے، اس میں بہت زیادہ بھلائی ہے، میری امت قیامت والے دن اس پر میرے پاس آئے گی، اس نہر کے برتن ستاروں کی تعداد کے برابر ہوں گے، لیکن کچھ بندے مجھ سے روک لئے جائیں گے، میں کہوں گا: اے میرے رب! یہ میری امت میں سے ہیں، مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ کو نہیں معلوم کہ انہوں نے تمہارے بعد (دین میں) کیا کیا اضافے کر دیئے تھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8846

۔ (۸۸۴۶)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا)فِی قَوْلِہِ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنَّا أَ عْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ} [الکوثر: ۱] أَ نَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((ہُوَ نَہَرٌ فِی الْجَنَّۃِ۔))، قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((رَأَ یْتُ نَہْرًا فِی الْجَنَّۃِ حَافَتَاہُ قِبَابُ اللُّؤْلُؤِ، فَقُلْتُ: مَا ہٰذَا یَا جِبْرِیلُ؟ قَالَ: ہٰذَا الْکَوْثَرُ الَّذِی أَ عْطَاکَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ۔)) (مسند احمد: ۱۲۷۰۴)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے، وہ اللہ تعالی کے اس فرمان {إِنَّا أَ عْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ}کے بارے میں کہتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ جنت میں ایک نہر ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزید فرمایا: میں نے جنت میں ایک نہردیکھی، اس کے کنارے موتیوں کے خیمے تھے، میں نے کہا: اے جبریل! یہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: یہی وہ کوثر ہے، جواللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8847

۔ (۸۸۴۷)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: (({قُلْ یَا اَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ} رُبْعُ الْقُرْآن۔)) (مسند احمد: ۱۲۵۱۶)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سورۂ کافرون قرآن مجید کا چوتھائی حصہ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8848

۔ (۸۸۴۸)۔ عَنْ مُہَاجِرٍ أَ بِی الْحَسَنِ، عَنْ شَیْخٍ أَ دْرَکَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی سَفَرٍ فَمَرَّ بِرَجُلٍ یَقْرَأُ: {قُلْ یَا اَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ} قَالَ: ((أَ مَّا ہٰذَا فَقَدْ بَرِئَ مِنَ الشِّرْکِ۔)) قَالَ: وَإِذَا آخَرُیَقْرَأُ: {قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَ حَدٌ} فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بِہَا وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ۔)) (مسند احمد: ۲۳۵۸۱)
۔ ’مہاجرابو حسن، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کوپانے والے ایک بزرگ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک آدمی کے پاس سے گزرے، وہ سورۂ کافرون پڑھ رہا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ شرک سے بری ہو گیا ہے۔ ایک دوسرا سورۂ اخلاص پڑھ رہاتھا، اس کے بارے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس سورت کے ذریعے اس آدمی کے لئے جنت واجب ہو گئی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8849

۔ (۸۸۴۹)۔ عَنْ فَرْوَۃَ بْنِ نَوْفَلٍ الْأَ شْجَعِیِّ عَنْ أَ بِیہِ قَالَ: دَفَعَ إِلَیَّ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابْنَۃَ أُمِّ سَلَمَۃَ، وَقَالَ: ((إِنَّمَا أَ نْتَ ظِئْرِی۔))، قَالَ: فَمَکَثَ مَا شَائَ اللّٰہُ ثُمَّ أَ تَیْتُہُ، فَقَالَ: ((مَا فَعَلَتِ الْجَارِیَۃُ أَ وْ الْجُوَیْرِیَۃُ۔))، قَالَ: قُلْتُ: عِنْدَ أُمِّہَا قَالَ: ((فَمَجِیئِیْ مَا جِئْتَ؟)) قَالَ: قُلْتُ: تُعَلِّمُنِیْ مَا أَ قُولُ عِنْدَ مَنَامِی، فَقَالَ: ((اقْرَأْ عِنْدَ مَنَامِکَ {قُلْ یَا اَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ} قَالَ: ثُمَّ نَمْ عَلَی خَاتِمَتِہَا، فَإِنَّہَا بَرَائَۃٌ مِنَ الشِّرْکِ۔)) (مسند احمد: ۲۴۲۱۷)
۔ سیدنا نوفل اشجعی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی بیٹی مجھے دی اور فرمایا: تو میری بیٹی کو دودھ پلانے والی عورت کا خاوند ہے۔ جتنا عرصہ اللہ تعالی کومنظور تھا، وہ رہے، پھر جب میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: بچی کا کیا بنا؟ میں نے کہا: جی وہ اپنی امی کے پاس ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب کیوں آئے ہو؟ میں نے کہا: آپ مجھے یہ تعلیم دیں کہ میں سوتے وقت کیا کہوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سوتے وقت سورۂ کافرون پڑھا کرو، جب یہ ختم ہو تو سو جایا کرو، یہ شرک سے بیزاری اور براء ت کا اعلان ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8850

۔ (۸۸۵۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَ {اِذَا جَائَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ} قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((نُعِیَتْ اِلَیَّ نَفْسِیْ بِاَنَّہٗمَقْبُوْضٌفِیْ تِلْکَ السَّنَۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۸۷۳)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے جب {اِذَا جَائَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ} نازل ہوئی تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس میں میری موت کی اطلاع ہے، میں اس سال فوت ہونے والا ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8851

۔ (۸۸۵۱)۔ (وَعَنْہُ اَیًضًا) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: کَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ یَأْذَنُ لِأَ ہْلِ بَدْرٍ وَیَأْذَنُ لِی مَعَہُمْ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ: یَأْذَنُ لِہٰذَا الْفَتٰی مَعَنَا وَمِنْ أَ بْنَائِنَا مَنْ ہُوَ مِثْلُہُ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّہُ مَنْ قَدْ عَلِمْتُمْ، قَالَ: فَأَ ذِنَ لَہُمْ ذَاتَ یَوْمٍ، وَأَ ذِنَ لِی مَعَہُمْ، فَسَأَ لَہُمْ عَنْ ہٰذِہِ السُّورَۃِ {إِذَا جَائَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ} فَقَالُوْا: أَ مَرَ نَبِیَّہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا فُتِحَ عَلَیْہِ أَ نْ یَسْتَغْفِرَہُ وَیَتُوبَ إِلَیْہِ، فَقَالَ لِی: مَا تَقُولُ یَا ابْنَ عَبَّاسٍ! قَالَ: قُلْتُ: لَیْسَتْ کَذٰلِکَ وَلٰکِنَّہُ أَ خْبَرَ نَبِیَّہُ عَلَیْہِ الصَّلَاۃ وَالسَّلَامُ بِحُضُورِ أَ جَلِہِ، فَقَالَ: {إِذَا جَائَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ} فَتْحُ مَکَّۃَ {وَرَأَ یْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِی دِینِ اللّٰہِ أَ فْوَاجًا} فَذٰلِکَ عَلَامَۃُ مَوْتِکَ {فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ إِنَّہُ کَانَ تَوَّابًا} فَقَالَ لَہُمْ: کَیْفَ تَلُومُونِی عَلٰی مَا تَرَوْنَ۔ (مسند احمد: ۳۱۲۷)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بدر والوں کو اپنی مجلس میں بیٹھنے کی اجازت دے رکھی تھی اور مجھے بھی ان کے ساتھ اجازت دی تھی، بعض لوگوں نے اعتراض کیا اورکہا: سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس نوجوان کو ہمارے ساتھ بیٹھنے کی اجازت دے دیتے ہیں،حالانکہ اس جیسے ہمارے بیٹے بھی ہیں، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم جانتے ہو کہ یہ کون ہے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک دن ان لوگوں کو بھی بلایا اور مجھے بھی اور ان سے سورۂ نصر کی تفسیر کے بارے میں سوال کیا، انھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا ہے کہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر مکہ فتح ہو جائے، تو توبہ و استغفار کریں۔ مجھ سے کہا: اے ابن عباس! تمہاری کیا رائے ہے؟ میں نے کہا:میں اس طرح کا نظریہ نہیں رکھتا، بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے ذریعے اپنے نبی کو خبر دی ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کا وقت آ چکا ہے، {إِذَا جَائَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ} یعنی فتح مکہ، {وَرَأَ یْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِی دِینِ اللّٰہِ أَ فْوَاجًا} یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی موت کی علامت ہے، {فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ إِنَّہُ کَانَ تَوَّابًا}، پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: ہاں جی، تم یہ (ابن عباس علمی لیاقت) دیکھ کر مجھے کیسے ملامت کرتے ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8852

۔ (۸۸۵۲)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: {إِذَا جَائَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ} رُبُعُ الْقُرْآنِ۔)) (مسند احمد: ۱۲۵۱۶)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: {إِذَا جَائَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ}یعنی سورۂ نصر قرآن مجید کاچوتھائی حصہ ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8853

۔ (۸۸۵۳)۔ عَنْ اَبِیْ عُبَیْدَۃَ، عَنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: لَمَّا اُنْزِلَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم {إِذَا جَائَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ} کَانَ یُکْثِرُ اِذَا قَرَاَھَا وَرَکَعَ اَنْ یَقُوْلَ: ((سُبْحَانَکَ اللّّٰہُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔)) ثَلَاثًا۔ (مسند احمد: ۳۶۸۳)
۔ سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر سورۂ نصر نازل ہوئی تو زیادہ تر یہ ہوتا کہ جب بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس سورت کی تلاوت کرتے تو رکوع میں تین بار یہ دعا پڑھتے: سُبْحَانَکَ اللّّٰہُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔ (اے اللہ! تو پاک ہے، اے ہمارے ربّ! اور تیری تعریف کے ساتھ، اے اللہ! مجھے بخش دے، بیشک تو توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8854

۔ (۸۸۵۴)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: لَمَّا اُنْزِلَتْ: {إِذَا جَائَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ}اِلٰی آخِرِھَا مَا رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَلّٰی صَلَاۃً اِلَّا قَالَ: ((سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ۔)) (مسند احمد: ۲۶۴۵۴)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں جب سورۂ نصر نازل ہوئی تو میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جو نمازبھی پڑھی، اس میں یہ ذکر کیا: سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ۔ (اے اللہ! تو پاک ہے، اور تیری تعریف کے ساتھ، اے اللہ! مجھے بخش دے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8855

۔ (۸۸۵۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا أَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزّ َوَجَلَّ {وَأَ نْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَ قْرَبِیْنَ} قَالَ: أَ تَی النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الصَّفَا، فَصَعِدَ عَلَیْہِ ثُمَّّ نَادٰییَا صَبَاحَاہْ! فَاجْتَمَعَ النَّاسُ اِلَیْہِ بَیْنَ رَجُلٍ یَجِیْئُ وَبَیْنَ رَجُلٍ یَبْعَثُ رَسُوْلَہُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَابَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ! یَابَنِیْ فِھْرٍ! یَابَنِیْ لُؤَیٍّ! أَ رَأَ یْتُمْ لَوْ اَخْبَرْتُکُمْ اَنَّ خَیْلًا بِسَفْحِ ھٰذَا الْجَبَلِ تُرِیْدُ اَنْ تُغِیْرَ عَلَیْکُمْ صَدَّقْتُمُوْنِیْ؟)) قَالُوْا: نَعَمْ، قَالَ: ((فَاِنِّی نَذِیْرٌ لَکُمْ بَیْنَیَدَیْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ۔)) فَقَالَ اَبُوْ لَھَبٍ: تَبًّا لَکَ سَائِرَ الْیَوْم!ِ اَمَا دَعَوْتَنَا اِلَّا لِھٰذَا؟ فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ {تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھَبٍ وَتَبَّ}۔ (مسند احمد: ۲۸۰۱)
۔ سیدنا عبدا للہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی: {وَأَ نْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ}… اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ۔ تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صفا پہاڑی پر تشریف لائے اور اس پر چڑھ کر یہ آواز دی: یَا صَبَاحَاہْ! پس لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جمع ہو گئے، کوئی خود آ گیا اور کسی نے اپنا قاصد بھیج دیا، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے بنو عبد المطلب! اے بنو فہر! اے بنو لؤی! اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر میں تم کو یہ خبر دوں کہ اس پہاڑ کے دامن میں ایک لشکر ہے، وہ تم پر شبخون مارنا چاہتا ہے، تو کیا تم میری تصدیق کرو گے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر میں تم کو سخت عذاب سے پہلے ڈرانے والا ہوں۔ یہ سن کر ابو لہب نے کہا: سارا دن تجھ پر ہلاکت پڑتی رہے، کیا تو نے ہمیں صرف اس مقصد کے لیے بلایا ہے؟ اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی: {تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھَبٍ وَتَبَّ} … ابو لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہو گئے اور وہ خود بھی ہلاک ہو گیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8856

۔ (۸۸۵۶)۔ عَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ اَنَّ الْمُشْرِکِیْنَ قَالُوْا لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : اِنْسِبْ لَنَا رَبَّکَ، فَاَنْزَلَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی: {قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ۔ لَمْ یَلِدْ وَ َلمْ یُوْلَدْ۔ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗکُفُوًااَحَدٌ۔} (مسنداحمد: ۲۱۵۳۸)
۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب مشرکوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: آپ ہمارے لئے اپنے رب کا نسب بیان کریں تو اللہ تعالی نے یہ سورت نازل کی: {قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ۔ لَمْ یَلِدْ وَ َلمْ یُوْلَدْ۔ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗکُفُوًااَحَدٌ۔}… کہہدواللہایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، اس نے کسی کو جنا نہیں اور نہ ہی وہ جنا گیاہے اور نہ ہی کوئی اس کی ہمسری کرنے والاہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8857

۔ (۸۸۵۷)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ لَیْلٰی، عَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ، اَوْ عَنْ رَجُلٍ مِنَ الْاَنْصَارِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ قَرَاَ بِـ {قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ } فَکَاَنَّمَا قَرَاَ بِثُلُثِ الْقُرْآنِ۔)) (مسند احمد: ۲۱۵۹۷)
۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا کسی انصاری صحابی سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے سورۂ {قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ }پڑھی، گویا اس نے ایک تہائی قرآن مجید پڑھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8858

۔ (۸۸۵۸)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو اَنَ اَبَا اَیُّوْبَ کَانَ فِیْ مَجْلِسٍ وَھُوَ یَقُوْلُ: اَلَا یَسْتَطِیْعُ اَحَدُ کُمْ اَنْ یَقُوْمَ بِثُلُثِ الْقُرْآنِ کُلَّ لَیْلَۃٍ؟ قَالُوْا: وَھَلْ یَسْتَطِیْعُ ذَالِکَ؟ قَالَ: فَاِنَّ {قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ} ثُلُثُ الْقُرْآنِ، فَجَائَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ یَسْمَعُ اَبَا اَیُّوْبَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((صَدَقَ اَبُوْ اَیُّوْبَ۔)) (مسند احمد: ۶۶۱۳)
۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک مجلس میںتھے،انہوںنے کہا: کیا تم میں سے کوئی آدمی ہر رات کو ایک تہائی قرآن مجید کے ساتھ قیام کرنے کی طاقت نہیں پاتا؟ انہوں نے کہا: کیا کسی کو اتنی طاقت بھی ہو سکتی ہے؟ انھوں نے کہا: سورۂ اخلاص ایک تہائی قرآن ہے، اتنے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابو ایوب کو سن کر فرمایا: ابو ایوب سچ کہہ رہا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8859

۔ (۸۸۵۹)۔ عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ قَالَ: مَرَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِرَجُلٍ وَھُوَ یَقْرَاُ {قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ} فَقَالَ: ((اَوْجَبَ ھٰذَا اَوْ وَجَبَتْ لِھٰذَا الْجَنَّۃُ۔)) (مسند احمد: ۲۲۶۴۵)
۔ سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک آدمی کے پاس سے گزرے، وہ سورۂ اخلاص کی تلاوت کر رہا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے لئے جنت واجب ہو گئی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8860

۔ (۸۸۶۰)۔ عَنْ اَبِی الدَّرْدَائِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَمَا یَسْتَطِعُ اَحَدُکُمْ اَنْ یَقْرَاَ ثُلُثَ الْقُرْاٰنِ فِیْ لَیْلَۃٍ؟)) قَالُوْا: نَحْنُ اَضْعَفُ مِنْ ذٰلِکَ وَاَعْجَزُ، قَالَ: ((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ جَزَّئَ الْقُرْآنَ ثَلَاثَۃَ اَجْزَائٍ فَجَعَلَ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ جُزْئً مِنْ اَجْزَائِ الْقُرْاٰنِ۔)) (مسند احمد: ۲۸۰۴۶)
۔ سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے کسی سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ ایک رات میں قران پاک کا تیسرا حصہ پڑھے؟ لوگوں نے کہا: ہم تو اس سے بہت کمزور اور بے بس ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی نے قرآن مجید کے تین اجزاء بنائے ہیں، ان میں سے ایک جزو سورۂ اخلاص کو قرار دیا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8861

۔ (۸۸۶۱)۔ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ اُمِّہِ اَنَّہَا قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (({قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ} تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ۔)) (مسند احمد: ۲۷۸۱۷)
۔ حمید بن عبدالرحمن بن عوف اپنی امی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سورۂ اخلاص ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8862

۔ (۸۸۶۲)۔ عَنْ اَبِیْ اَیُّوْبَ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَیَعْجَبُ اَحَدُکُمْ اَنْ یَقْرَاَ ثُلُثَ الْقُرْآنِ فِیْ لَیْلَۃٍ؟ فَاِنَّہٗمَنْقَرَاَ {قُلْھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ اَللّٰہُ الصَّمَدُ} فِیْ لَیْلَۃٍ فَقَدْ قَرَاَ لَیْلَتَئِذٍ ثُلُثَ الْقُرْآنِ۔)) (مسند احمد: ۲۳۹۵۰)
۔ سیدنا ابو ایوب سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ ایک رات میں قرآن مجید کا تیسرا حصہ تلاوت کرے، پس جس نے رات کو سورۂ اخلاص کی تلاوت کی، اس نے اس رات کو قرآن کا تیسرا حصہ تلاوت کرلیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8863

۔ (۸۸۶۳)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: جَائَ رَجُلٌ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: اِنِّیْ اُحِبُّ ھٰذِہِ السُّوْرَۃَ {قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ} فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((حُبُّکَ اِیَّاھَا اَدْخَلَکَ الْجَنَّۃَ۔)) (مسند احمد: ۱۲۴۵۹)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور کہا: میں اس سورۂ اخلاص سے محبت کرتا ہوں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس محبت نے تجھے جنت میں داخل کر دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8864

۔ (۸۸۶۴)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ قَالَ: بَاتَ قَتَادَۃُ بْنُ النُّعْمَانِ یَقْرَاُ اللَّیْلَ کُلَّہٗ {قُلْھُوَاللّٰہُاَحَدٌ} فَذَکَرَذٰلِکَالنَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَتَعْدِلُ نِصْفَ الْقُرْآنِ اَوْ ثُلُثَہٗ۔)) (مسند احمد: ۱۱۱۳۱)
۔ سیدنا ابو سعیدخدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا قتادہ بن نعمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ساری رات سورۂ {قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ}کی تلاوت کی، پھر جب اس کا ذکر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میںمیری جان ہے! یہ سورت قرآن مجید کے نصف یا ایک تہائی حصے کے برابر ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8865

۔ (۸۸۶۵)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہٗقَالَ: ((اَیَعْجِزُ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّقْرَاَ ثُلُثَ الْقُرْآنِ فِیْ لَیْلَۃٍ؟)) قَالَ: فَشَقَّ ذٰلِکَ عَلٰی اَصْحَابِہٖفَقَالُوْا: مَنْیُطِیْقُ ذٰلِکَ؟ قَالَ: ((یَقْرَاُ {قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ} فَہِیَ ثُلُثُ الْقُرْآنِ۔)) (مسند احمد: ۱۱۰۶۸)
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم اس سے بے بس ہو کہ ایک رات میں قرآن مجید کا تیسرا حصہ پڑھ لو؟ صحابہ کرام پر یہ بات گراں گزری اور انہوں نے کہا: اس عمل کی کون طاقت رکھتاہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: {قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ}پڑھ لیا کرو، پس یہ ایک تہائی قرآن ہی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8866

۔ (۸۸۶۶)۔ عَنْ اَبِیْ مَسْعُوْدٍ (یَعْنِی الْبَدْرِیَّ الْاَ نْصَارِیَّ) عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَحْوَہٗ۔ (مسنداحمد: ۱۷۲۳۵)
۔ سیدنا ابو مسعود بدری انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اسی طرح کی حدیث بیان کرتی ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8867

۔ (۸۸۶۷)۔ عَنْ أَ بِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((احْشُدُوا فَإِنِّی سَأَ قْرَأُ عَلَیْکُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ۔))، قَالَ: فَحَشَدَ مَنْ حَشَدَ ثُمَّ خَرَجَ فَقَرَأَ : {قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ} ثُمَّ دَخَلَ فَقَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ: ہٰذَا خَبَرٌ جَائَ ہُ مِنَ السَّمَائِ فَذٰلِکَ الَّذِی أَ دْخَلَہُ ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ: ((إِنِّی قَدْ قُلْتُ لَکُمْ إِنِّی سَأَ قْرَأُ عَلَیْکُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ وَإِنَّہَا تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ۔)) (مسند احمد: ۹۵۳۱)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جمع ہو جائو، میں تم پر قرآن مجید کا ایک تہائی حصہ تلاوت کرنے والا ہوں۔ جب جمع ہونے والے جمع ہو گئے، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف لائے اور {قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ}کی تلاوت کی، پھر آپ اندر تشریف لے گئے، ہم ایک دوسرے سے کہنے لگے: کوئی آسمان سے خبر آئی ہے، اس کی وجہ سے گھر چلے گئے ہیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا: میں نے تم سے کہا تھا کہ میں تم پر قرآن مجید کا تیسرا حصہ تلاوت کروں گا،اور یہ سورت ایک تہائی قرآن کے برابر ہے (جو میں نے تم پر پڑھ دی ہے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8868

۔ (۸۸۶۸)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) أَ نَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَمِعَ رَجُلًا یَقْرَأُ {قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ} حَتّٰی خَتَمَہَا، فَقَالَ: ((وَجَبَتْ۔)) قِیلَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا وَجَبَتْ؟ قَالَ: ((الْجَنَّۃُ۔)) قَالَ أَ بُو ہُرَیْرَۃَ: فَأَ رَدْتُ أَ نْ آتِیَہُ فَأُبَشِّرَہُ فَآثَرْتُ الْغَدَائَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَفَرِقْتُ أَ نْ یَفُوتَنِی الْغَدَائُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَی الرَّجُلِ فَوَجَدْتُہُ قَدْ ذَہَبَ۔ (مسند احمد: ۱۰۹۳۲)
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک آدمی کو سنا وہ {قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ} پڑھ رہا تھا، یہاں تک کہ اس نے اس سورت کو مکمل کر لیا،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: واجب ہو گئی ہے۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا واجب ہو گئی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایاـ جنت واجب ہوگئی۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے ارادہ کیا کہ میں اس قاری کو خوشخبری دوں، لیکن میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مل کر کھانا کھانے کو ترجیح دی، کیونکہ مجھے خدشہ تھا کہ کہیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ کھانا کھانے سے محروم نہ ہو جائوں، لیکن کھانا کھانے کے بعد جب میں اس آدمی کی طرف آیا تو وہ وہاں سے جا چکا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8869

۔ (۸۸۶۹)۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ أَ نَسٍ الْجُہَنِیِّ صَاحِبِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، عَنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ قَرَأَ {قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ} حَتّٰییَخْتِمَہَا عَشْرَ مَرَّاتٍ بَنَی اللّٰہُ لَہُ قَصْرًا فِی الْجَنَّۃِ۔))، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِذَنْ أَ سْتَکْثِرَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اللّٰہُ أَ کْثَرُ وَأَ طْیَبُ۔)) (مسند احمد: ۱۵۶۹۵)
۔ سیدنا معاذ بن انس جہنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص {قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ} یعنی سورۂ اخلاص آخر تک دس مرتبہ پڑھے گا، اللہ تعالی اس کے لیے جنت میں ایک محل تعمیر کرے گا۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! پھر تو میںبہت سے محلات حاصل کر سکتا ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی بھی بہت کثرت والا اور بہت عمدہ عطا کرنے والا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8870

۔ (۸۸۷۰)۔ عَنْ اَبِیْ مَسْعُوْدٍ الْاَنْصَارِیِّ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (({قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ} تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ۔)) (مسند احمد: ۱۷۲۳۵)
۔ سیدنا ابو مسعود انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سورۂ اخلاص ایک تہائی قرآن مجید کے برابر ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8871

۔ (۸۸۷۱)۔ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ لَقِیَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَابْتَدَأَ نِی فَأَ خَذَ بِیَدِی فَقَالَ: ((یَا عُقْبَۃُ بْنَ عَامِرٍ! أَ لَا أُعَلِّمُکَ خَیْرَ ثَلَاثِ سُوَرٍ أُنْزِلَتْ فِی التَّوْرَاۃِ وَالْإِنْجِیلِ وَالزَّبُورِ وَالْفُرْقَانِ الْعَظِیمِ۔)) قَالَ: قُلْتُ: بَلٰی جَعَلَنِیَ اللّٰہُ فِدَاکَ، قَالَ: فَأَ قْرَأَ نِی {قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَ حَدٌ} وَ {قُلْ أَ عُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} وَ {قُلْ أَ عُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ} ثُمَّ قَالَ: ((یَا عُقْبَۃُ لَا تَنْسَاہُنَّ وَلَا تَبِیتَ لَیْلَۃً حَتّٰی تَقْرَأَہُنَّ۔)) قَالَ: فَمَا نَسِیتُہُنَّ مِنْ مُنْذُ قَالَ لَا تَنْسَاہُنَّ، وَمَا بِتُّ لَیْلَۃً قَطُّ حَتّٰی أَ قْرَأَہُنَّ۔ (مسند احمد: ۱۷۴۶۷)
۔ سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے ملے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سلام کہنے میں پہل کی اور فرمایا: اے عقبہ بن عامر! کیا میں تجھے بہترین تین سورتوں کی تعلیم نہ دوں، جو تورات، انجیل، زبور اور قرآن مجید میں نازل کی گئیں ہیں؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ مجھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر قربان کردے، ضرور بتائیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے سورۂ اخلاص، سورۂ فلق اور سورۂ ناس کی تعلیم دی اور فرمایا: اے عقبہ! انہیں نہیں بھولنا اور کوئی رات نہیں گزارنی، مگر ان میں اس کی تلاوت کرنی ہے۔ جب سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ان کو نہ بھولنے کی تلقین کی، اس وقت سے نہ میں ان کو بھولا ہوں اور میں نے کوئی رات نہیں گزاری، مگر اس میں ان کی تلاوت کی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8872

۔ (۸۸۷۲)۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ خُبَیْبٍ عَنْ أَ بِیہِ قَالَ: أَ صَابَنَا عَطَشٌ وَظُلْمَۃٌ فَانْتَظَرْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِیُصَلِّیَ لَنَا، فَخَرَجَ فَأَ خَذَ بِیَدِی فَقَالَ: ((قُلْ۔)) فَسَکَتُّ قَالَ: ((قُلْ۔)) قُلْتُ: مَا أَ قُولُ؟ قَالَ: (({قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ} وَالْمُعَوِّذَتَیْنِ حِینَ تُمْسِی وَحِینَ تُصْبِحُ ثَلَاثًا تَکْفِیکَ کُلَّ یَوْمٍ مَرَّتَیْنِ۔)) (مسند احمد: ۲۳۰۴۰م)
۔ سیدنا عبداللہ بن خبیب سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہمیں سخت پیاس لگی ہوئی تھی، جبکہ اندھیرا بھی تھا اور ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتظار کرے رہے تھے، تاکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آ کر ہمیں نماز پڑھائیں،پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اور میرا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا: کہو۔ میں خاموش رہا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: کہو۔ میںنے کہا: جی میں کیا کہوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب شام اور صبح کرو تو تین تین بار سورۂ اخلاص، سورۂ فلق اور سورۂ ناس پڑھا کرو، تمہیں ہر روز دو بار کفایت کریں گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8873

۔ (۸۸۷۳)۔ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: بَیْنَا أَ نَا أَقُودُ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی نَقَبٍ مِنْ تِلْکَ النِّقَابِ إِذْ قَالَ لِی: ((یَا عُقْبَۃُ أَ لَا تَرْکَبُ؟۔)) قَالَ: فَأَ جْلَلْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ أَ رْکَبَ مَرْکَبَہُ ثُمَّ قَالَ: ((یَا عُقَیْبُ! اَلَا تَرْکَبُ؟)) قَالَ: فَأَ شْفَقْتُ أَ نْ تَکُونَ مَعْصِیَۃً، قَالَ: فَنَزَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرَکِبْتُ ہُنَیَّۃً ثُمَّ رَکِبَ ثُمَّ قَالَ: ((یَا عُقَیْبُ! أَ لَا أُعَلِّمُکَ سُورَتَیْنِ مِنْ خَیْرِ سُورَتَیْنِ، قَرَأَ بِہِمَا النَّاسُ؟)) قَالَ: قُلْتُ: بَلٰییَا رَسُولَ اللّٰہِِ، قَالَ: فَأَ قْرَأَ نِی {قُلْ أَ عُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} وَ{قُلْ أَ عُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ} ثُمَّ أُقِیمَتِ الصَّلَاۃُ فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَرَأَ بِہِمَا، ثُمَّ مَرَّ بِی قَالَ: ((کَیْفَ رَأَیْتَیَا عُقَیْبُ! اقْرَأْ بِہِمَا کُلَّمَا نِمْتَ وَکُلَّمَا قُمْتَ۔)) قَالَ أَ بُو عَبْد الرَّحْمَنِ: ہُوَ عُقْبَۃُ بْنُ عَامِرِ بْنِ عَابِسٍ، وَقَالَ ابْنُ عَبْسٍ الْجُہَنِیُّ۔ (مسند احمد: ۱۷۴۲۹)
۔ سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ایک دفعہ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سواری ایک پہاڑی سے گزرنے والے راستہ سے چلا رہا تھا، اچانک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے عقبہ! تم سوار کیوں نہیں ہوتے؟ میں نے کچھ نہ کہا، دراصل میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جلالت ِ شان کے پیش نظر سوار نہیں ہونا چاہتاتھا۔ لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پھر فرمایا: اے عقیب! تم سوار کیوںنہیں ہوتے۔ اب میں ڈر گیا کہ یہ نافرمانی ہی نہ ہو جائے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نیچے اترے اور میں کچھ دیر کے لئے سوار ہو گیا،پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سوار ہو گئے اور فرمایا: اے عقیب! کیا میں تمہیں سب سے بہترین دو سورتیں نہ سکھائوں، جو لوگ پڑھتے ہیں؟ میں نے کہا: جی بالکل، اے اللہ کے رسول!، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے سورۂ فلق اور سورۂ ناس کی تعلیم دی، اتنے میں نماز کے لیے اقامت کہہ دی گئی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آگے بڑھے اور اس نماز میں ان ہی دو سورتوں کی تلاوت کی، پھر میرے پاس سے گزرے اور فرمایا: اے عقیب! کیسا پایا (ان دو سورتوں کی فضیلت کو کہ میں نے ان کی تلاوت کر کے نماز پڑھا دی ہے)، جب بھی تو سوئے اور جاگے تو ان سورتوں کی تلاوت کر۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8874

۔ (۸۸۷۴)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اُنْزِلَتْ عَلَیَّ سُوْرَتَانِ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: اُنْزِلَ عَلَیَّ آیَاتٌ لَمْ یُرَ مِثْلٰہُنَّ) فَتَعَوَّذُوْا بِہِنَّ فَاِنَّہٗلَمْیَتَعَوَّذْ بِمِثْلِہِنَّ۔)) یَعْنِی الْمُعَوِّذَتَیْنِ۔ (مسند احمد: ۱۷۴۳۲)
۔ سیدنا عقبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے اوپر دو سورتیں نازل ہوئی ہیں، ایک روایت میں ہے: مجھ پر ایسی آیات نازل ہوئی ہیں کہ ان کی مثل آیات نہیں پائی گئیں، ان کے ذریعے پناہ طلب کیا کرو، ان جیسی اور کوئی سورت نہیں، جس کے ذریعے پناہ مانگی جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8875

۔ (۸۸۷۵)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) قَالَ: اَمَرَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنْ اَقْرَأَ بِالْمُعَوِّذَاتِ دُبُرَ کُلِّ صَلَاۃٍ۔ (مسند احمد: ۱۷۹۴۵)
۔ سیدنا عقبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں ہر نماز کے بعد معوذات یعنی سورۂ فلق اور سورۂ ناس پڑھا کروں۔ یہ جمع کا لفظ ہے اور اس سے مراد تین سورتیں (اخلاص، فلق اور ناس) مراد ہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8876

۔ (۸۸۷۶)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) قَالَ: قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اقْرَأْ بِالْمُعَوِّذَتَیْنِ فَاِنَّکَ لَنْ تَقْرَأَ بِمِثْلِھِمَا۔)) (مسند احمد: ۱۷۴۵۵)
۔ سیدنا عقبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ہی روایت ہے، وہ کہتے ہیں:نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تو سورۂ فلق اور سورۂ ناس پڑھا کرو، ان سورتوں کی مثل کوئی چیز نہیں، جو تو پڑھے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8877

۔ (۸۸۷۷)۔ عَنْ أَ بِی الْعَلَائِ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی سَفَرٍ، وَالنَّاسُ یَعْتَقِبُونَ وَفِی الظَّہْرِ قِلَّۃٌ، فَحَانَتْ نَزْلَۃُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَنَزْلَتِی فَلَحِقَنِی مِنْ بَعْدِی فَضَرَبَ مَنْکِبَیَّ، فَقَالَ: (({قُلْ أَ عُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ}۔)) فَقُلْتُ: أَ عُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ فَقَرَأَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَرَأْتُہَا مَعَہُ ثُمَّ قَالَ: (({قُلْ أَ عُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ}،۔)) فَقَرَأَ ہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَرَأْتُہَا مَعَہُ قَالَ: ((إِذَا أَنْتَ صَلَّیْتَ فَاقْرَأْ بِہِمَا۔)) (مسند احمد: ۲۰۵۵۰)
۔ ابو العلا کہتے ہیں: ایک آدمییعنی سیدنا عقبہ نے کہا: ہم سفر میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے اور سواریاں کم ہو نے کی وجہ سے لوگ باری باری سوار ہو رہے تھے، اُدھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اور میرے اترنے کی باری بھی آ گئی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے میرے پیچھے سے ملے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرےکندھے پر مارا اور فرمایا: پڑھ{قُلْ أَ عُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ}۔ میں نے پڑھا: {قُلْ أَ عُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ}، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ سورت پڑھی اور میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ پڑھی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پڑھ{قُلْ أَ عُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ}۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ مکمل سورت پڑھی اور میں نے بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ پڑھی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تو نماز پڑھے تو ان کی تلاوت کیا کر۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8878

۔ (۸۸۷۸)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیدَ قَالَ: کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ یَحُکُّ الْمُعَوِّذَتَیْنِ مِنْ مَصَاحِفِہِ وَیَقُولُ: إِنَّہُمَا لَیْسَتَا مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی، قَالَ الْأَ عْمَشُ: وَحَدَّثَنَا عَاصِمٌ عَنْ زِرٍّ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ قَالَ: سَأَ لْنَا عَنْہُمَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((فَقِیلَ لِی فَقُلْتُ۔)) (مسند احمد: ۲۱۵۰۷)
۔ عبد الرحمن بن یزید سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے مصحف سے معوذ تین کو مٹا دیتے اور کہتے کہ یہ کتاب اللہ میں سے نہیںہیں۔ اعمش کہتے ہیں: عاصم نے ہم کو زرّ سے بیان کیا کہ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ہم نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ان کے بارے میں سوال کیا توآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھ سے کہا گیا، پس میں نے کہہ دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8879

۔ (۸۸۷۹)۔ عَنْ زِرٍّ قَالَ: قُلْتُ لِأُبَیٍّ: إِنَّ أَخَاکَ یَحُکُّہُمَا مِنْ الْمُصْحَفِ فَلَمْ یُنْکِرْ قِیلَ لِسُفْیَانَ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: نَعَمْ، وَلَیْسَا فِی مُصْحَفِ ابْنِ مَسْعُودٍ، کَانَ یَرٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُعَوِّذُ بِہِمَا الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ، وَلَمْ یَسْمَعْہُیَقْرَؤُہُمَا فِی شَیْئٍ مِنْ صَلَاتِہِ، فَظَنَّ أَ نَّہُمَا عُوذَتَانِ، وَأَ صَرَّ عَلٰی ظَنِّہِ، وَتَحَقَّقَ الْبَاقُونَ کَوْنَہُمَا مِنْ الْقُرْآنِ، فَأَ وْدَعُوہُمَا إِیَّاہ۔ (مسند احمد: ۲۱۵۰۸)
۔ زر بن حبیش سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: آپ کے بھائی تو ان دونوں سورتوں کو مصحف سے کھرچ دیتے تھے، انہوں نے اس چیز کا انکار نہیں کیا۔ جب سفیان سے کہا کہ بھائی سے مراد سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں، انھوں نے کہا: جی ہاں اور یہ دو سورتیں ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے مصحف میںنہیں تھیں، ان کا خیالیہ تھا کہ یہ دو دم ہیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ذریعے سیدنا حسن اور سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کو دم کیا کرتے تھے، دراصل ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نماز میں ان سورتوںکی تلاوت کرتے ہوئے نہیں سنا تھا، پھر وہ اسی رائے پر مصرّ رہے، لیکن باقی افراد کی تحقیقیہ ہے کہ یہ قرآن مجید کا حصہ ہیں، اس لیے انھوں نے ان کو قرآن مجید میں رکھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8880

۔ (۸۸۸۰)۔ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ قَالَ: قُلْتُ لِأُبَیِّ بْنِ ََََ کَعْبٍ: إِنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ کَانَ لَا یَکْتُبُ الْمُعَوِّذَتَیْنِ فِی مُصْحَفِہِ، فَقَالَ: أَشْہَدُ أَ نَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَ خْبَرَنِی أَ نَّ جِبْرِیلَ عَلَیْہِ السَّلَام قَالَ لَہُ: {قُلْ أَ عُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} فَقُلْتُہَا، فَقَالَ: {قُلْ أَ عُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ} فَقُلْتُہَا فَنَحْنُ نَقُولُ: مَا قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۱۵۰۵)
۔ زر بن حبیش کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابی بن کعب سے کہا کہ سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تو معوذ تین کو اپنے مصحف میں نہیں لکھتے،انھوں نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یہ خبر دی کہ سیدنا جبریل علیہ السلام نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: {قُلْ أَ عُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ}،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پس میں نے کہہ دیا، جبریل نے کہا: {قُلْ أَ عُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ}، پس میں نے کہہ دیا، سو ہم بھی اسی طرح کہتے ہیں، جیسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8881

۔ (۸۸۸۱)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَتْ: اَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِیَدِیْ فَاَرَانِی الْقَمَرَ حَتّٰی طَلَعَ فَقَالَ: ((تَعَوِّذِیْ بِاللّٰہِ مِنْ شَرِّ ھٰذَا الْغَاسِقِ اِذَا وَقَبَ۔)) (مسند احمد: ۲۶۲۳۰)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے چاند کو طلوع ہوتے ہوئے دکھایا اور فرمایا: تو اللہ کی پناہ طلب کر اس غاسق کے شرّ سے، جب اس کی تاریکی پھیل جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8882

۔ (۸۸۸۲)۔ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ أَ نَّہُ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُہْدِیَتْ لَہُ بَغْلَۃٌ شَہْبَائُ فَرَکِبَہَا فَأَخَذَ عُقْبَۃُیَقُودُہَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعُقْبَۃَ: ((اقْرَأْ۔)) فَقَالَ: وَمَا أَ قْرَأُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اقْرَأْ {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ}۔)) فَأَ عَادَہَا عَلَیْہِ حَتّٰی قَرَأَہَا فَعَرَفَ أَ نِّی لَمْ أَ فْرَحْ بِہَا جِدًّا فَقَالَ: ((لَعَلَّکَ تَہَاوَنْتَ بِہَا فَمَا قُمْتَ تُصَلِّی بِشَیْء ٍ مِثْلِہَاِِِِ۔)) (مسند احمد: ۱۷۴۷۵)
۔ سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تحفے میں ایک سفید خچر دیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس پر سوار ہوئے، سیدنا عقبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس کو چلا رہے تھے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے فرمایا: پڑھو۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میںکیا پڑھوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: {قُلْ أَ عُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} پڑھو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوبارہ اس سورت کو پڑھا، یہاں تک کہ اس (سیدنا عقبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) نے اس سورت کو پڑھ لیا، لیکن جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دیکھا کہ میں اس سورت سے زیادہ خوش نہیں ہو تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لگتا ہے، تم اس کو معمولی سمجھ رہے ہو، تو نے نماز میں اس جیسی سورت نہیں پڑھی ہو گی (یعنییہ بے مثال سورت ہے، جس کو نماز میں پڑھا جائے)۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 8883

۔ (۸۸۸۳)۔ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ حَبِیْبٍ قَالَ: حَدَّثَنِی أَ بُو عِمْرَانَ: أَ نَّہُ سَمِعَ عُقْبَۃَ بْنَ عَامِرٍ یَقُولُ: تَعَلَّقْتُ بِقَدَمِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! اََ قْرِئْنِی سُورَۃَ ہُودٍ وَسُورَۃَیُوسُفَ، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَا عُقْبَۃُ بْنَ عَامِرٍ إِنَّکَ لَمْ تَقْرَأْ سُورَۃً أَ حَبَّ إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَلَا أَ بْلَغَ عِنْدَہُ مِنْ {قُلْ أَ عُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ}۔)) قَالَ یَزِیدُ: لَمْ یَکُنْ أَ بُو عِمْرَانَ یَدَعُہَا وَکَانَ لَا یَزَالُیَقْرَؤُہَا فِیْ صَلَاۃِ الْمَغْرِبِ۔ (مسند احمد: ۱۷۵۵۴)
۔ سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قدم مبارک کے ساتھ چمٹ گیا اور کہا:اے اللہ کے رسول! مجھے سورۂ ہوداور سورۂ یوسف پڑھائیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے عقبہ! تو کوئی ایسی کوئی سورت نہیں پڑھی، جو {قُلْ أَ عُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} سے زیادہ اللہ تعالی کو پیاری، بلیغ اور نتیجہ خیز ہو۔ یزید راوی کہتے ہیں: ابوعمران اس سورت کی تلاوت کبھی نہ چھوڑتے تھے اور ہمیشہ اس کو نمازِ مغرب میں پڑھا کرتے تھے۔

Icon this is notification panel