۔ (۷۱۳۲)۔ عَنْ نُعَیْمِ بْنِ قَعْنَبِ نِ الرِّیَاحِیِّ قَالَ: أَتَیْتُ أَبَاذَرٍّ فَلَمْ أَجِدْہُ وَرَاَیْتُ الْمَرْأَۃَ فَسَأَلْتُہَا فَقَالَتْ: ھُوَ ذَاکَ فِیْ ضَیْعَۃٍ لَہُ فَجَائَ یَقُوْدُ أَوْ یَسُوْقُ بَعِیْرَیْنِ قَاطِرًا أَحَدَھُمَا فِیْ عَجُزِ صَاحِبِہِ، فِیْ عُنُقِ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا قِرْبَۃٌ فَوَضَعَ الْقِرْبَتَیْنِ، قُلْتُ: یَا أَبَاذَرٍّ! مَا
کَانَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَحَبَّ اِلٰی أَنْ اَلْقَاہُ مِنْکَ، وَلَا أَبْغَضَ أَنْ اَلْقَاہُ مِنْکَ، قَالَ: لِلّٰہِ أَبُوْکَ وَمَا یَجْمَعُ ھٰذَا؟ قَالَ: قُلْتُ: اِنِّیْ کُنْتُ وَأَدْتُّ فِی الْجَاھِلِیَّۃِ وَکُنْتُ أَرْجُوْ فِیْ لِقَائِکَ أَنْ تُخْبِرَنِیْ اَنَّ لِیْ تَوْبَۃً وَمَخْرَجًا وَکُنْتُ أَخْشٰی فِیْ لِقَائِکَ اَنْ تُخْبِرَنِیْ اِنَّہُ لَا تَوْبَۃَ لِیْ، فَقَالَ: أَفِیْ الْجَاھِلِیَّۃِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: عَفَا اللّٰہُ عَمَّا سَلَفَ، ثُمَّ عَاجَ بِرَأْسِہِ اِلَی الْمَرْأَۃِ، فَأَمَرَ لِیْ بِطَعَامٍ، فَالْتَوَتْ عَلَیْہِ ثُمَّ أَمَرَھَا فَالْتَوَتْ عَلَیْہِ حَتَّی ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُہُمَا قَالَ: إِیْہَا دَعِیْنَا عَنْکِ فَاِنَّکُنَّ لَنْ تَعْدُوْنَ مَا قَالَ: لَنَا فِیْکُنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، قُلْتُ: وَمَا قَالَ لَکُمْ فِیْہِّنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟ قَالَ: ((الْمَرْأَۃُ ضِلَعٌ فَاِنْ تَذْھَبْ تُقَوِّمُہَا تَکْسِرْھَا، وَاِنْ تَدَعْہَا فَفِیْہَا أَوَدٌ وَبُلْغَۃٌ۔)) فَوَلَّتْ فَجَائَتْ بِثَرِیْدَۃٍ کَاَنَّہَا قَطَاۃٌ، فَقَالَ: کُلْ وَلَا أَھُولَنَّکَ اِنِّیْ صَائِمٌ، ثُمَّ قَامَیُصَلِّیْ، فَجَعَلَ یُہَذِّبُ الرُّکُوْعَ وَیُخَفِّفُہُ وَرَأَیْتُہُیَتْحَرّٰی أَنْ أَشْبَعَ أَوْ أُقَارِبَ، ثُمَّ جَائَ فَوَضَعَ یَدَہُ مَعِیَ فَقُلْتُ: إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، فَقَالَ: مَا لَکَ؟ فَقُلْتُ: مَنْ کُنْتُ أَخْشٰی مِنَ النَّاسِ أَنْ یَکْذِبَنِیْ فَمَا کُنْتُ أَخْشٰی اَنْ تَکْذِبَنِیْ، قَالَ: لِلّٰہِ أَبُوْکَ، إِنْ کَذَبْتُکَ کِذْبَۃً مُنْذُ لَقِیْتَنِیْ، فَقَالَ: اَلَمْ تُخْبِرْنِیْ أَنَّکَ صَائِمٌ ثُمَّ أَرَاکَ تَأْکُلُ؟ قَالَ: بَلٰی اِنِّیْ صُمْتُ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ مِنْ ھٰذَا الشَّہْرِ فَوَجَبَ أَجْرُہُ وَحَلَّ لِیَ الطَّعَامُ مَعَکَ۔ (مسند احمد: ۲۱۶۶۵)
۔ نعیم بن قعنب ریاحی کہتے ہیں: میں سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، لیکن میں نے ان کو نہ پایا اور ان کی بیوی سے پوچھا، اس نے کہا: وہ اُدھر اپنی جائداد میں ہیں، اتنے میں وہ آگئے دو اونٹوں کو ہانک کر لا رہے تھے، ان میں سے ایک کو دوسرے کے پچھلے حصہ میں باندھ رکھا تھا اور ان میں سے ہر ایک کی گردن پر ایک مشک تھی، پس انھوں مشکوں کو نیچے اتار ا اور میں نے کہا: اے ابو ذر! مجھے لوگوں میں سے سب سے زیادہ آپ سے ملاقات کرنے کی چاہت تھی اور سب سے زیادہ ناپسندیدہ بھی آپ کی ملاقات ہی تھی، انہوں نے کہا: اس کی کیا وجہ ہے؟ تیرے باپ کی عمر دراز ہو۔اس نے کہا : جاہلیت میں میں نے بچیاں زندہ درگور کی ہیں، مجھے آپ سے ملاقات کی تمنا اس امید پر تھی کہ آپ مجھے بتائیں کہ کیا میرے لئے کوئی توبہ یا نکلنے کی راہ ہے یا نہیں ہے، اور آپ سے ملاقات میں مجھے ڈر یہ تھا کہ کہیں آپ یہ نہ کہہ دیں کہ میرے لئے توبہ ہی نہیں۔ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ زندہ درگو ر دفن کرنا جاہلیت میں تھا؟ میں نے کہا: جی ہاں، انھوں نے کہا: جو پہلے گزر چکا ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا، پھر انھوں نے اپنی بیوی کی طرف سر سے اشارہ کیا کہ وہ میرے لئے کھانا لائے، لیکن اس نے توجہ نہ کی، پھر انھوں نے اس کو حکم دیا، لیکن اس نے پھر توجہ نہ کی،یہاں تک کہ ان کے جھگڑنے کی آوازیں بلند ہونے لگیں،انھوں نے بیوی سے کہا: خاموش ہو جائو اور یہاں سے چلی جائو، تم اس بات سے قطعاً تجاوز نہیں کر سکتیں، جو تمہارے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمادیا ہے، نعیم کہتے ہیں: میں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان عورتوں کے بارے میں کیا فرمایا تھا، سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عورت ایک پسلی کی مانند ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اس کو توڑ دو گے اور اگر اس کے ٹیڑھا پن کو اس کی حالت پر چھوڑ دو گے تو فائدہ حاصل کرتے رہو گے۔ پھر سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کی بیوی چلی گئی اور کچھ دیر کے بعد ثرید لے آئی، اس کی لذت ایسی تھی جیسا کہ قطاۃ (کبوتر یا بٹیر کے برابر ایک پرندہ) کے گوشت کی ہوتی ہے، سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: کھائو اور اپنے ساتھ میرے نہ کھانے سے پریشان نہ ہونا، کیونکہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے، پھر وہ خود کھڑے ہوئے اور نماز پڑھنے لگے اور رکوع وغیرہ بہت ہلکے کئے، میرے خیال میں جب انہوں نے اندازہ لگالیا کہ میں سیر ہونے کے قریب ہوں تو وہ آئے اور میرے ساتھ بیٹھ کر کھانا شروع کر دیا، میں نے اناللہ وانا الیہ راجعون کہہ کر افسوس کا اظہار کیا، سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا ہوا؟ میں نے کہا اگر کوئی عام آدمی جھوٹ کہتا تو مجھے افسوس نہ ہوتا، مگر آپ سے جھوٹ کا سرزد ہونا تو میرے وہم و گمان میں نہ تھا، انھوں نے کہا: تو نے کیا خوب بات کی ہے، جب سے تیری اور میری ملاقات ہوئی ہے میں نے کوئی جھوٹ بولا ہو؟ میں نے کہا: ابھی کچھ دیر پہلے آپ نے کہا تھا کہ آپ روزہ سے ہوں اور اب میں دیکھتا ہوں آپ نے کھانا شروع کر دیا ہے، اس نے کہا: ضرور ضرور، وجہ یہ ہے کہ میں نے اس ماہ کے تین روزے رکھ لئے ہیں، ایک نیکی دس گنا ہے، لہٰذا ایک ماہ کا اجر ثابت ہوچکا ہے اور تیرے ساتھ کھانا میرے لئے جائز تھا۔