23 Results For Hadith (Musnad Ahmad ) Book ()
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 6621

۔ (۶۶۲۱)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((حَدٌّ یُعْمَلُ (وَفِیْ لَفْظٍ: یُقَامُ) فِی الْاَرْضِ خَیْرٌ لِأَھْلِ الْاَرْضِ مِنْ أَنْ یُمْطَرُوْا ثَلَاثِیْنَ۔)) وَفِیْ لَفْظٍ: ((أَوْ أَرْبَعِیْنَ صَبَاحًا۔))۔ (مسند احمد: ۹۲۱۵)
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک حد جس کو زمین میں نافذ کر دیا جائے، وہ اہلِ زمین کے لئے تیس روز کی بارش سے بہتر ہے۔ ایک روایت میں چالیس روز کی بارش کا ذکر ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 6622

۔ (۶۶۲۲)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((مَنْ حَالَتْ شَفَاعَتُہُ دُوْنَ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَقَدْ ضَادَّ اللّٰہَ فِیْ أَمْرِہِ۔)) (مسند احمد: ۵۳۸۵)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس کی سفارش اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے کسی حد کے نفاذ میں رکاوٹ بنی، اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 6623

۔ (۶۶۲۳)۔ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: کَانَتِ امْرَأَۃٌ مَخْزُوْمِیَّۃٌ تَسْتَعِیْرُ الْمَتَاعَ وَتَجْحَدُہُ فَأَمَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِقَطْعِ یَدِھَا، فَأَتٰی أَھْلُہَا أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ فَکَلَّمُوْہُ فَکَلَّمَ أُسَامَۃُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْہَا، فقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَا أُسَامَۃُ! لا أَرَاکَ تُکَلِّمُنِیْ فِیْ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔)) ثُمَّ قَامَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَطِیْبًا فَقَالَ: ((إِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِأَنَّہُ إِذَا سَرَقَ فِیْہِمُ الشَّرِیْفُ تَرَکُوْہُ وَإِذَا سَرَقَ فِیْہِمُ الضَّعِیْفُ قَطَعُوْہُ، وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَوْ کَانَتْ فَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ لَقَطَعْتُ یَدَھَا۔)) فَقَطَعَ یَدَ الْمَخْزُوْمِیَّۃِ۔ (مسند احمد: ۲۵۸۱۱)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ مخزوم قبیلہ کی ایک خاتون سامان ادھار لیتی اور پھر انکار کر دیتی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا، اس کے گھر والے سیدنا اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئے اور اس خاتون کے حق میں سفارش کرنے کی درخواست کی، جب سیدنا اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہسفارش کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں مخاطب ہو کر فرمایا: اے اسامہ! تیرے بارے میں میرایہ خیال تو نہیں تھا کہ تو اللہ تعالی کی حدوں میں سے کسی حد کے بارے میں سفارش کرے گا۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا: تم سے پہلے والے لوگ اس وجہ سے ہلاک ہو گئے کہ جب ان میں کوئی بڑا چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب ان میں کوئی کمزور چوری کرتا تو اس کے ہاتھ کاٹ دیتے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر فاطمہ بنت محمد نے یہ جرم کیا ہوتا تو میں ان کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مخزومی عورت کا ہاتھ کٹوا دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 6624

۔ (۶۶۲۴)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: کَانَتْ مَخْزُوْمِیَّۃٌ تَسْتَعِیْرُ الْمَتَاعَ وَتَجْحَدُہُ فَأَمَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِقَطْعِیَدِھَا۔ (مسند احمد: ۶۳۸۳)
۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ مخزوم قبیلے کی عورت سامان ادھار لیتی تھی اور پھر انکار کر دیتی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 6625

۔ (۶۶۲۵)۔ عَنْ جَابِرٍ اَنَّ امْرَأَۃً مِنْ بَنِیْ مَخْزُوْمٍ سَرَقَتْ فَعَاذَتْ بِاُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ حِبِّ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأُتِیَ بِہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((لَوْ کَانَتْ فَاطِمَۃُ لَقَطَعْتُ یَدَھَا۔)) فَقَطَعَہَا۔ (مسند احمد: ۱۵۲۱۶)
۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی اور سفارش کیلئے سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی پناہ حاصل کی،یہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے محبوب تھے، پھر اس خاتون کو لایا گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر میری بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو میں اس کاہاتھ بھی کاٹ دیتا۔ پھر مخزومی خاتون کا ہاتھ کاٹ دیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 6626

۔ (۶۶۲۶)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُتِیَ بِسَارِقٍ فَأَمَرَ بِہِ فَقُطِعَ، قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا کُنَّا نَرٰی أَنْ یَبْلُغَ مِنْہُ ھٰذَا؟ قَالَ: ((لَوْ کَانَتْ فَاطِمَۃُ لَقَطَعْتُہَا۔)) ثُمَّ قَالَ سُفْیَانُ: لَا أَدْرِیْ کَیْفَ ھُوَ۔ (مسند احمد: ۲۴۶۳۹)
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ایک چور لایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، لوگوں نے کہا: ہمیں معلوم نہ تھا کہ معاملہ یہاں تک پہنچ جائے گا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بھی اس مقام پر ہوتی تو میں ان کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں: مجھے چرائی گئی چیز کی کیفیت معلوم نہیں ہو سکی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 6627

۔ (۶۶۲۷)۔ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ اُمَیَّۃَ قَالَ: بَیْنَمَا اَنَا رَاقِدٌ اِذْ جَائَ السَّارِقُ فَأَخَذَ ثَوْبِیْ مِنْ تَحْتِ رَأْسِیْ فَأَدْرَکْتُہُ فَأَتَیْتُ بِہِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: اِنَّ ھٰذَا سَرَقَ ثَوْبِیْ فَأَمَرَ بِہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یُقْطَعَ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! لَیْسَ ھٰذَا أَرَدْتُ، ھُوَ عَلَیْہِ صَدَقَۃٌ، قَالَ: ((فَہَلَّا قَبْلَ أَنْ تَأْتِیَنِی بِہِ۔)) (مسند احمد: ۲۸۱۸۹)
۔ سیدنا صفوان بن امیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ایک دفعہ میں سویا ہوا تھا، چور آیا اور اس نے میرے سر کے نیچے سے کپڑا چرا لیا، میں نے اسے پکڑ لیا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لے آیا اور کہا: اس نے میرا کپڑا چوری کر لیا ہے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرا ارادہ یہ تو نہیں تھا، میںیہ کپڑا اس پر صدقہ کرتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کو میرے پاس لانے سے پہلے اس طرح کیوں نہیں کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 6628

۔ (۶۶۲۸)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: کُنْتُ نَائِمًا فِی الْمَسْجِدِ عَلٰی خَمِیْصَۃٍ لِیْ فَسُرِقَتْ فَأَخَذْنَا السَّارِقَ فَرَفَعْنَاہُ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَمَرَ بِقَطْعِہِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَ فِی خَمِیْصَۃٍ ثَمَنُہَا ثَلَاثُوْنَ دِرْھَمًا، اَنَا أَھَبُہَا لَہُ أَوْ أَبِیْعُہَا لَہُ قَالَ: ((فَہَلَّا قَبْلَ أَنْ تَأْتِیَنِی بِہِ۔)) (مسند احمد: ۱۵۳۸۴)
۔ (دوسری سند) سیدنا صفوان بن امیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں مسجد میں اپنی چادر پر سویا ہوا تھا،کسی نے اس کو چوری کر لیا اور ہم نے چور پکڑ لیا اور اس کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لے گئے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اس چادر کے عوض اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا، جس کی قیمت صرف تیس درہم ہے؟ میںیہ چادر اس آدمی کو ہبہ کرتا ہوں یا بیچ دیتا ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کو میرے پاس لانے سے پہلے اس طرح کیوں نہیں کیا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 6629

۔ (۶۶۲۹)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَقِیْلُوْا ذَوِی الْھَیْئَاتِ عَثَرَاتِہِمْ اِلَّا الْحُدُوْدَ۔)) (مسند احمد: ۲۵۹۸۸)
۔ حضرت عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: صاحبِ حیثیت لوگوں کی غلطیاں معاف کر دیا کرو، مگریہ کہ وہ حدود ہوں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 6630

۔ (۶۶۳۰)۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَۃَ بْنِ یَزِیْدَ بْنِ رُکَانَۃَ أَنَّ خَالَتَہُ أُخْتَ مَسْعُوْدِ بْنِ الْعَجْمَائِ حَدَّثَتْہُ أَنَّ أَبَاھَا قَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْمَخْزُوْمِیَّۃِ الَّتِیْ سَرَقَتْ قَطِیْفَۃً: نَفْدِیْہَایَعْنِی بِأَرْبَعِیْنَ أُوْقِیَّۃً، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَأَنْ تُطَہَّرَ خَیْرٌ لَھَا۔)) فَأَمَرَ بِہَا فَقُطِعَتْ یَدُھَا وَھِیَ مِنْ بَنِیْ عَبْدِ الْأَسَدِ۔ (مسند احمد: ۲۳۸۷۵)
۔ محمد بن یزید بیان کرتے ہیں کہ ان کی خالہ کے باپ سے مروی ہے، وہ کہتا ہے: چادر چوری کرنے والی مخزوم قبیلے کی عورت کے بارے میں میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: میں اس کے فدیہ کے طور پر چالیس اوقیہ دیتا ہوں، اس کے عوض اسے چھوڑ دیاجائے، لیکن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر اس کو پاک کر دیا جائے تو یہی اس کے لئے بہتر ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم دیا اوراس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا،یہ عورت بنو عبد الاسد سے تھی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 6631

۔ (۶۶۳۱)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ امْرَأَۃً سَرَقَتْ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَائَ بِہَا الَّذِیْنَ سَرَقَتْہُمْ فَقَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّ ھٰذِہِ الْمَرْأَۃَ سَرَقَتْنَا، قَالَ قَوْمُہَا: فَنَحْنُ نَفْدِیْہَا بِخَمْسِ مِائَۃِ دِیْنَارٍ، قَالَ: ((اقْطَعُوْا یَدَھَا۔)) قَالَ: فَقُطِعَتْ یَدُھَا الْیُمْنٰی، فَقَالَتِ الْمَرْأَۃُ: ھَلْ لِیْ مِنْ تَوْبَۃٍ،یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((نَعَمْ، اَنْتِ الْیَوْمِ مِنْ خَطِیْئَتِکِ کَیَوْمِ وَلَدَتْکِ أُمُّکِ۔)) فَاَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فِیْ سُوْرَۃِ الْمَائِدَۃِ: {فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِہِ وَأَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰہَ یَتُوْبُ عَلَیْہِ} اِلَخِ الْاَیَۃِ۔ (مسند احمد: ۶۶۵۷)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میں چوری کی، جن لوگوں کی چوری کی گئی تھی، وہ اس کو لے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آ گئے اور کہا : اے اللہ کے رسول! اس عورت نے ہماری چوری کی ہے۔ اس عورت کے خاندان والے کہنے لگے: ہم اس چوری کے عوض پانچ سو دینار دیتے ہیں، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کا ہاتھ کاٹ دو سو اس کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا، وہ عورت کہنے لگی: اے اللہ کے رسول ! کیا میرے لئے توبہ ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، بلکہ تو تو آج اپنی غلطی سے اس طرح صاف ہو گئی ہے، جس طرح تیری ماں نے آج تجھے جنم دیا ہو۔ پس اللہ تعالی نے سورۂ مائدہ کییہ آیت اتاری: جس نے ظلم کے بعد توبہ کی اور اپنی اصلاح کی، پس بیشک اللہ تعالیٰ اس پر رجوع کرتا ہے، بے شک اللہ تعالیٰ بے حد بخشنے والا بہت مہربان ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 6632

۔ (۶۶۳۲)۔ عَنِ ابْنِ خُزَیْمَۃَ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ أَصَابَ ذَنْبًا أُقِیْمَ عَلَیْہِ حَدُّ ذَالِکَ الذَّنْبِ فَہُوَ کَفَّارَتُہُ۔)) (مسند احمد: ۲۲۲۲۰)
۔ سیدنا خزیمہ بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا اور پھر اس پر اس گناہ کی حدّ نافذ کر دی گئی تو وہ اس کے لیے کفارہ ثابت ہو گی۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 6633

۔ (۶۶۳۳)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ أَذْنَبَ فِی الدُّنْیَا ذَنْبًا فَعُوْقِبَ بِہِ فَاللّٰہُ أَعْدَلُ مِنْ أَنْ یُثْنِیَ عُقُوْبَتَہُ عَلٰی عَبْدِہِ، وَمَنْ أَذْنَبَ ذَنْبًا فِی الدُّنْیَا فَسَتَرَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَفَا عَنْہُ فَاللّٰہُ أَکْرَمُ مِنْ أَنْ یَعُوْدَ فِیْ شَیْئٍ قَدْ عَفَا عَنْہُ۔)) (مسند احمد: ۷۷۵)
۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے دنیا میں کوئی گناہ کیا اور پھر اسے یہیں اس کی سزا دی گئی تو اللہ تعالی اس سے زیادہ انصاف والا ہے کہ وہ ایسے بندے کو دوبارہ سزا دے، اور جس نے دنیا میں کوئی گناہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی کی اور اس کو معاف کر دیا تو وہ اس سے زیادہ فضل و کرم والا ہے کہ وہ اس گناہ پر گرفت کرے، جس کو وہ معاف کر چکا ہو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 6634

۔ (۶۶۳۴)۔ عَنْ اَبِیْ ظَبْیَانَ الْجَنْبِیِّ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَابِ اُتِیَ بِامْرَأَۃٍ قَدْ زَنَتْ فَأَمَرَ بِرَجْمِہَا فَذَھَبُوْا بِہَا لِیَرْجُمُوْھَا فَلَقِیَہُمْ عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقَالَ: مَا ھٰذِہِ؟ قَالُوْا: زَنَتْ فَأَمَرَ عُمَرُ بِرَجْمِہَا فَانْتَزَعَہَا عَلِیٌّ مِنْ أَیْدِیْہِمْ وَ رَدَّھُمْ، فَرَجَعُوْا إِلٰی عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فَقَالَ: مَا رَدَّکُمْ؟ فَقَالُوْا: رَدَّنَا عَلِیٌ، فَقَالَ: مَا فَعَلَ ھٰذَا عَلِیٌّ اِلَّا لِشَیْئٍ قَدْ عَلِمَہُ، فَأَرْسَلَ إِلٰی عَلِیٍّ فَجَائَ وَھُوَ شِبْہُ الْمُغْضَبِ، فَقَالَ: مَا لَکَ رَدَدْتَ ھٰؤُلَائِ؟ قَالَ: اَمَا سَمِعْتَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَۃٍ، عَنِ النَّائِمِ حَتّٰییَسْتَیْقِظَ، وَعَنِ الصَّبِیِّ حَتّٰییَکْبَرَ، وَعَنِ الْمُبْتَلٰی حَتّٰییَعْقِلَ؟)) قَالَ: بَلٰی، قَالَ عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: فَاِنَّ ھٰذِہٖمُبْتَلَاۃُ بَنِیْ فُلَانٍ فَلَعَلَّہُ أَتَاھَا وَھُوَ بِہَا، فَقَالَ: عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: لَا أَدْرِیْ، قَالَ: وَأَنَا لَا أَدْرِیْ، فَلَمْیَرْجُمْہَا۔ (مسند احمد: ۱۳۲۸)
۔ ابو ظبیان جنبی سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس ایک عورت لائی گئی، اس نے زنا کا ارتکاب کیا تھا، پس انہوں نے اس کو رجم کرنے کا حکم دیا، لوگ اسے رجم کرنے کے لیے لے گئے،جب ان کی سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ملاقات ہوئی انھوں نے پوچھا:یہ کیا کرنے جارہے ہو؟ انہوں نے کہا: اس نے زنا کیا ہے اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسے رجم کر نے کا حکم دیا ہے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے وہ عورت ان کے ہاتھوں سے چھڑائی اور لے جانے والوں کو واپس لوٹا دیا، جب وہ لوٹ کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: کیوں واپس آ گئے ہو؟ انہوں نے کہا: سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہمیں واپس بھیج دیا ہے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فرمایا: تو پھر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کسی سبب کے علم کی بنا پر ایسا کیا ہو گا۔ پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلا بھیجا، جب وہ آئے تو ایسے لگ رہا تھا کہ وہ غصے میں ہیں، انھوں نے کہا: اے علی! تمہیں کیا ہواہے کہ ان کو واپس لوٹا دیا ہے؟ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیا تم نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا یہ فرمان نہیں سنا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تین قسم کے لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے، (۱) سوئے ہوئے سے جب تک کہ وہ بیدار نہ ہو جائے، (۲) بچے سے جب تک وہ بالغ نہ ہو جائے اور (۳) پاگل سے جب تک وہ عقلمند نہ ہو جائے۔ ؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیوں نہیں ضرور سن رکھی ہے۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:یہ بنی فلاں قبیلہ کی کم عقل خاتون ہے، ممکن ہے متعلقہ مرد نے اس سے اس وقت زنا کیا ہو جب یہ جنون کی حالت میں ہو، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مجھے تو معلوم نہیں، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:یہ تو مجھے بھی معلوم نہیں اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسے رجم نہ کیا تھا۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 6635

۔ (۶۶۳۵)۔ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ: خَرَجَتِ امْرَأَۃٌ اِلَی الصَّلَاۃِ فَلَقِیَہَا رَجُلٌ فَتَجَلَّلَہَا بِثِیَابِہِ فَقَضٰی حَاجَتَہُ مِنْہَا وَذَھَبَ، وَانْتَہٰی اِلَیْہَا رَجُلٌ فَقَالَتْ لَہُ: اِنَّ الرَّجُلَ فَعَلَ بِیْ کَذَا وَکَذَا، فَذَھَبَ الرَّجُلُ فِیْ طَلْبِہِ، فَجَائُ وْا بِالرَّجُلِ الَّذِیْ ذَھَبَ فِیْ طَلْبِ الرَّجُلِ الَّذِیْ وَقَعَ عَلَیْہَا، فَذَھَبُوْا بِہِ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ: ھُوَ ھٰذَا فَلَمَّا أَمَرَ النَّبِیُّ بِرَجْمِہِ، قَالَ الَّذِیْ وَقَعَ عَلَیْہَا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَنَا ھُوَ، فَقَالَ لِمَرْأَۃٍ: ((اذْھَبِیْ فَقَدْ غَفَرَ اللّٰہُ لَکِ۔)) وَقَالَ لِلرَّجُلِ قَوْلًا حَسَنًا، فَقِیْلَ لَہُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَلَا تَرْجُمُہُ؟ فَقَالَ: ((لَقَدْ تَابَ تَوْبَۃً لَوْ تَابَہَا أَھْلُ الْمَدِیْنَۃِ لَقُبِلَ مِنْہُمْ۔)) (مسند احمد: ۲۷۷۸۲)
۔ سیدنا وائل بن حجر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نماز کی ادائیگی کے لئے گھر سے باہر نکلی، راستے میں اسے ایک آدمی ملا، اس نے اپنے کپڑوں سے اس کو ڈھانپ لیا اور اپنی حاجت پوری کر لی اور فرار ہو گیا،اس عورت کے پاس ایک آدمی پہنچا، اس عورت نے اس سے کہا: فلاں آدمی نے مجھ سے برائی کی ہے، وہ آدمی اس کی تلاش میں گیا اورلوگ اس کو پکڑ کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لے آئے، اس عورت نے بھی (غلطی سے) کہہ دیا کہ وہ یہی ہے، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا تو وہ آدمی، جس نے واقعی اس عور ت سے برائی کی تھی، کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول!اس سے برائی کرنے والا میں ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس خاتون سے فرمایا: تو چلی جا، اللہ تعالیٰ نے تجھے معاف کر دیا ہے۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آدمی کے حق میں اچھے کلمات ارشاد فرمائے، آپ سے کہا گیا: اے اللہ کے رسول! آپ اس کو رجم کیوں نہیں کرتے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس نے ایسی توبہ کی ہے اگر اس کی توبہ کو مدینہ والوں پر تقسیم کیا جائے تو ان سے بھی قبول کرلی جائے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 6636

۔ (۶۶۳۶)۔ عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ: اسْتُکْرِھَتِ امْرَأَۃٌ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَرَأَ عَنْہَا الْحَدَّ وَأَقَامَہُ عَلَی الَّذِیْ أَصَابَہَا وَلَمْ یَذْکُرْ أَنَّہُ جَعَلَ لَھَا مَہْرًا۔ (مسند احمد: ۱۹۰۷۸)
۔ سیدنا وائل بن حجر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عہد مبارک میں ایک عورت سے زنا بالجبر کیا گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے حد روک لی اور جس مرد نے یہ برائی کی تھی، اس پر حد قائم کی، راوی نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ اس خاتون کے لیے مہر مقرر کیا تھا یا نہیں۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 6637

۔ (۶۶۳۷)۔ عَنْ اَبِیْ مَاجِدٍ قَالَ: أَتٰی رَجُلٌ ابْنَ مَسْعُوْدٍ بِاِبْنِ أَخٍ لَہُ فَقَالَ: اِنَّ ھٰذَا ابْنَ أَخِیْ وَقَدْ شَرِبَ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: لَقَدْ عَلِمْتُ أَوَّلَ حَدٍّ کَانَ فِی الْاِسْلَامِ، امْرَأَۃٌ سَرَقَتْ فَقُطِعَتْ یَدُھَا فَتَغَیَّرَ لِذَالِکَ وَجْہُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَغَیُّرًا شَدِیْدًا ثُمَّ قَالَ: {وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا أَلَا تُحِبُّوْنَ أَنْ یَغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ}۔ (النور: ۲۲) (مسند احمد: ۳۷۱۱)
۔ ابو ماجد کہتے ہیں:ایک آدمی اپنے بھتیجے کو لے کر سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آیا اور کہا: یہ میرا بھتیجا ہے، اس نے شراب پی ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں جانتا ہوں کہ اسلام میں سب سے پہلی حد اس عورت پر لگائی گئی تھی جس نے چوری کی تھی اور اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا، اس پر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ سخت متغیر ہوا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایاتھا: لوگوں کو چاہیے کہ وہ درگزر کریں اور معاف کر دیں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں بخش دے اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 6638

۔ (۶۶۳۸) وَعَنْہُ اَیُضًا قَالَ: کُنْتُ قَاعِدًا مَعَ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: اِنِّیْ لَأَذْکُرُ أَوَّلَ رَجُلٍ قَطَعَہُ، أُتِیَ بِسَارِقٍ فَأَمَرَ بِقَطْعِہِ وَکَأَنَّمَا أُسِفَّ وَجْہُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! کَأَنَّکَ کَرِھْتَ قَطْعَہُ؟ قَالَ: ((وَمَا یَمْنَعُنِیْ، لَا تَکُوْنُوْا عَوْنًا لِلشَّیْطَانِ عَلٰی أَخِیْکِمْ، إِنَّہُ یَنْبَغِیْ لِلْإِمَامِ إِذَا انْتَہٰی إِلَیْہِ حَدٌّ أَنْ یُقِیْمَہُ، اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ عَفْوٌ یُحِبُّ الْعَفْوَ {وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا أَلَا تُحِبُّوْنَ أَنْ یَغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ})) (مسند احمد: ۴۱۶۸)
۔ ابو ماجدسے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے کہا: مجھے وہ پہلا آدمییاد ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جس کا ہاتھ کاٹا تھا، ایک چور کو لایا گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، لیکن اس سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرئہ متغیر تھا، لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایسے لگ رہا ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے ہاتھ کے کٹنے کو ناپسند کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بھلا کون سے مجھے اس سے روک سکتی ہے، تم اپنے بھائی کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو، امام کے لئے یہی زیب دیتا ہے کہ جب اس تک حد کا معاملہ پہنچے تو وہ اسے قائم کر دے، بیشک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور معافی کو پسند کرتا ہے، ارشادِ باری تعالی ہے: لوگوں کو چاہیے کہ وہ درگزر کریں اور معاف کر دیں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں بخش دے اور اللہ تعالیٰ بے حد بخشنے والا بہت مہربان ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 6639

۔ (۶۶۳۹)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) فَذَکَرَ مَعْنَاہُ وَقَالَ: کَأَنَّمَا أُسِفَّ وَجْہُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذُرَّ عَلَیْہِ رَمَادٌ۔ (مسند احمد: ۴۱۶۹)
۔ (دوسری سند) اسی طرح کی روایت ہے، البتہ اس میں ہے: ایسے لگ رہا تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ متغیر ہو گیا ہے اور آپ کے چہرے پر راکھ ڈال دی گئی ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 6640

۔ (۶۶۴۰)۔ عَنْ دُخَیْنٍ کَاتِبِ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: قُلْتُ لِعُقْبَۃَ: اِنَّ لَنَا جِیْرَانًایَشْرَبُوْنَ الْخَمْرَ وَأَنَا دَاعٍ لَھُمُ الشُّرَطَ فَیَأْخُذُوْھُ، فَقَالَ: لَاتَفْعَلْ وَلٰکِنْ عِظْہُمْ وَتَہَدَّدْھُمْ قَالَ: فَفَعَلَ فَلَمْ یَنْتَہُوْا، قَالَ: فَجَائَ ہُ دُخَیْنٌ فَقَالَ: إِنِّیْ نَہَیْتُہُمْ فَلَمْ یَنْتَہُوْا وَأَنَا دَاعٍ لَھُمُ الشُّرَطَ، فَقَالَ عُقْبَۃُ: وَیْحَکَ لَا تَفْعَلْ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((مَنْ سَتَرَ عَوْرَۃَ مُؤْمِنٍ فَکَأَنَّمَا اسْتَحْیَا مَوْؤُوْدَۃً مِنْ قَبْرِھَا۔)) وَفِیْ لَفْظٍ: ((کَانَ کَمَنْ أَحْیَا مَوْؤُوْدَۃً مِنْ قَبْرِھَا۔)) (مسند احمد: ۱۷۵۳۰)
۔ سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے منشی دُخَین سے مروی ہے، وہ کہتا ہے: میں نے عقبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا:ہمارے کچھ پڑوسی ہیں،وہ شراب نوشی کرتے ہیں، میں پولیس کو اطلاع کرنے والا ہوں تاکہ وہ انہیں گرفتار کر لے۔ سیدنا عقبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ایسا نہ کرو، انہیں نصیحت کرو اور ڈانٹ ڈپٹ کرو، اس نے ایسے ہی کیا مگر وہ باز نہ آئے، چنانچہ دخین دوبارہ آ گیا اور کہا: میں نے انہیں روکا تو ہے، مگر وہ باز نہیں آتے، اب تو میں پولیس کو ضرور بلائوں گا، سیدنا عقبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: او تیرے لیے ہلاکت ہو، اس طرح نہ کر، میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جو مؤمن کے عیب پر پردہ ڈالتا ہے، وہ گویا کہ قبر میں زندہ درگور بچی کو زندہ کر دیتا ہے۔ ایک روایت میں ہے: وہ اس شخص کی مانند ہے، جوقبر میں زندہ درگور کی گئی بچی کو زندہ کر دیتا ہے۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 6641

۔ (۶۶۴۱)۔ عَنْ اَبِیْ بُرْدَۃَ قَالَ: قَدِمَ عَلٰی اَبِیْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ بِالْیَمَنِ فَاِذَا رَجُلٌ عِنْدَہُ قَالَ: مَا ھٰذَا؟ قَالُوْا: رَجُلٌ کَانَ یَہُوْدِیًّا فَأَسْلَمَ ثُمَّ تَہَوَّدَ وَنَحْنُ نُرِیْدُ عَلی الْإِسْلَامِ مُنْذُ قَالَ أَحْسَبُہُ شَہْرَیْنِ، فَقَالَ: وَاللّٰہِ! لَا أَقْعُدُ حَتّٰی تَضْرِبُوْا عُنُقَہُ، فَضُرِبَتْ عُنُقُہُ، فَقَالَ: قَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : أَنَّ ((مَنْ رَجَعَ عَنْ دِیْنِہِ فَاقْتُلُوْہُ۔)) أَوْ قَالَ: ((مَنْ بَدَّلَ دِیْنَہُ فَاقْتُلُوْہُ۔)) (مسند احمد: ۲۲۳۶۵)
۔ سیدنا ابو بردہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یمن میں تھے اور سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے پاس آئے، ان کے پاس ایک آدمی تھا، سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ آدمییہودی تھا، پھر مسلمان ہوا اور اب پھر یہودی ہو گیا ہے، دو ماہ ہو گئے ہیں کہ ہم اس سے اسلام پر کار بند رہنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہا: اللہ کی قسم! جب تک تم اس کی گردن نہیں اڑائو گے، میں نہیں بیٹھوں گا،پس اس کو قتل کر دیا گیا، پھر انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا تھا کہ جو شخص اپنے دین کو ترک کر دے یا اپنے دین کو بدل ڈالے، اس کو قتل کر دو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 6642

۔ (۶۶۴۲)۔ عَنْ عِکْرَمَۃَ أَنَّ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌أُتِیَ بِقَوْمٍ مِنْ ھٰؤُلَائِ الزَّنَادِقَۃِ وَمَعَہُمْ کُتُبٌ، فَأَمَرَ بِنَارٍ فَأُجِّجَتْ ثُمَّ أَحْرَقَہُمْ وَکُتُبَہُمْ، قَالَ عِکْرِمَۃُ: فَبَلَغَ ذَالِکَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ: لَوْ کُنْتُ اَنَا لَمْ أُحْرِقْہُمْ لِنَہْیِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَقَتَلْتُہُمْ لِقَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ بَدَّلَ دِیْنَہُ فَاقْتُلُوْہُ۔)) وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا تُعَّذِبُوْا بِعَذَابِ اللّٰہِ۔)) (مسند احمد: ۲۵۵۱)
۔ عکرمہ سے روایت ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس زندیق لوگوں کو لایا گیا، ان کے پاس ان کی کتابیں بھی تھیں، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پہلے آگ جلانے کا حکم دیا، پس آگ بھڑ کائی گئی، پھر انھوں نے انہیں اور ان کی کتابوں کو جلا دیا، جب سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اس واقعہ کا علم ہوا تو انھوں نے کہا: اگر میں ہوتا تو انہیں نہ جلاتا، کیونکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جلانے سے منع فرمایا ہے، البتہ میں ان کو قتل کر دیتا، کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اپنا دین تبدیل کرے اسے قتل کر دو۔ نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کے ساتھ عذاب نہ دیا کرو۔
Ravi Bookmark Report

حدیث نمبر 6643

۔ (۶۶۴۳)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) أَنَّ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ حَرَّقَ نَاسًا اِرْتَدُّوْا عَنِ الْاِسْلَامِ فَبَلَغَ ذَالِکَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ: لَمْ أَکُنْ لِأُحَرِّقَہُمْ بِالنَّارِ وَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا تُعَذِّبُوْا بِعَذَابِ اللّٰہِ)) وَکُنْتُ قَاتِلَھُمْ لِقَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ بَدَّلَ دِیْنَہُ فَاقْتُلُوْہُ)) فَبَلَغَ ذَالِکَ عَلِیًّا کَرَّمَ اللّٰہُ وَجْہَہُ فَقَالَ: وَیْحَ ابْنِ عَبَّاسٍ۔ (مسند احمد: ۱۸۷۱)
۔ (دوسری سند) سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسلام سے مرتد ہونے والے چند لوگوں کو آگ میں جلا دیا، جب سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اس واقعہ کا علم ہوا تو انھوں نے کہا: اگر میں ہوتا تو انہیں آگ میں نہ جلاتا، کیونکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کے ساتھ عذاب نہ دیاکرو۔ میں نے ان کو قتل کرنا تھا، کیونکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو بندہ اپنا دین بدل دے، اسے قتل کر دو۔ جب سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے کہا: ابن عباس کے لیے افسوس۔

Icon this is notification panel